موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن0%

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف: شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27158
ڈاؤنلوڈ: 3771

تبصرے:

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 62 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27158 / ڈاؤنلوڈ: 3771
سائز سائز سائز
موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف:
اردو

باب دوئم

کامیاب جماعت

اللہ کے سپاہی امام علیہ السلام کی خدمت میں

( وللّٰه جنودالسموٰت والارض ) “ (سورئہ فتح۶)

”اللہ کے لیے ہیں زمین وآسمان کے لشکر“ جونہی حضرت کو اذن ظہور ملے گا اور حضرت کے شکوہ مند ظہور کا وقت آئے گا تو اللہ کے لشکر جو تین گروہ ہیں ۔ لشکر فرشتگان، لشکر جنات، لشکر انسانی، حضرت کے مدد گار بن کر حاضر ہوںگے۔

لشکرملائک

سب سے پہلے جو فرشتہ حضرت امام زمان علیہ السلام کی بیعت کرے گا وہ جبرئیل علیہ السلام ہو گا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ۳۱۳ فرشتے امام زمان علیہ السلام کی مدد کےلئے آئیں گے راوی نے پوچھا کہ کیا فرشتے پہلے انبیاء علیہ السلام کی مدد کےلئے بھی آتے رہے تھے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں فرشتوں کا ایک گروہ حضرت نوح علیہ السلام کےساتھ کشتی میں ایک گروہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کےساتھ اس وقت جب انہیں آگ میں پھینکا جا رہا تھا موجود تھا اور فرشتوں کا ایک گروہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کےساتھ جب وہ دریا کو چیر رہے تھے تھا اسی طرح فرشتوں کا ایک گروہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کےساتھ جب انہیں اوپر لے جایا گیا اسی طرح چار ہزار فرشتے جنہیں مردفین کہاجاتا ہے ہمارے نبی کریم کے ساتھ جنگ بدر میں تھے نیز ۳۱۳ فرشتوں نے پیغمبر اکرم کی مدد کی اسی طرح چار ہزار فرشتے کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے تاکہ مدد کریںمگر حضرت امام حسین علیہ السلام نے انہیں اسکی اجازت نہ دی جس کی وجہ سے وہ واپس آسمان کی طرف چلے گئے اور پھر اجازت طلب کی انہیں حرم حضرت امام حسین علیہ السلام میں جانے دیا جائے تاکہ وہ وہاں قیامت تک گریہ کریں ان فرشتوں کا سردار فرشتہ جسکا نام منصور ہے یہ سب حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین کا استقبال کرتے ہیں جب زائرین وداع کرتے ہیں تو یہ انہیں خداحافظی کہتے ہیں جب کوئی زوار بیمار ہوجائے تو اسکی عیادت کرتے ہیں اگر کوئی زوار مرجائے تو اسکی نماز جنازہ ادا کرتے ہیں اور اسکی بخشش کی دعا کرتے ہیں یہ فرشتے امام حسین علیہ السلام کے حرم میں امام زمان علیہ السلام کے ظہور کے منتظر ہیں روایات کی رو سے وہ تمام فرشتے جو تمام انبیاء علیہ السلام و اوصیا علیہ السلام کے پاس آئے وہ سبکے سب امام زمان علیہ السلام کی خدمت میں آئیں گے۔

لشکر جنات

انسانوں اور جنوں کے نقیب حضرت امام زمان علیہ السلام کی خدمت میں آئیں گے اور اپنی خدمات انجام دیں گے روایات میں ہے کہ جنوں اور انسانوں کے گروہ حضرت امام زمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اس کے بعد مومن جنات حضرت کی مدد اور نصرت کریں گے اور ایسے جنات کو جوبدکار ہوں گے انہیں جہنم واصل کریں گے۔

اصحاب امام زمان علیہ السلام (علیہ السلام)

اصحاب حضرت امام زمان علیہ السلام کی تعداد ۳۱۳ہے جو پیغمبراسلام کے اصحاب کی تعداد کے برابر ہے جو جنگ بدر میں تھے قرآن مجید کی کافی آیات میں ان اصحاب امام زمان علیہ السلام کا تذکرہ ہے ہم ان آیات سے صرف پانچ آیات کا تذکرہ کریں گے جن سے ان بندگان صالح کا ذکر ہے۔

۱۔( ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکران الارض یرثها عبادی الصالحون ) “۔ (سورئہ انبیاء۵۰۱)

ترجمہ:۔ ”ہم نے تورات کے بعد زبور میں لکھا ہے کہ ہم نیک اور صالح بندوں کو زمین کا وارث بنائیں گے“۔ روایات میں ہے کہ ان صالح بندگان سے مراد اصحاب حضرت امام زمان علیہ السلام ہیں مزامیرداود میں بھی آیا ہے کہ ہم نیک بندوںکو زمین کا وارث بنائیں گے۔

۲۔”( ان الله یحب الذین یقاتلون فی سبیله صفاً کانهم بنیان مرصوص ) “۔

(سورئہ صف آیت نمبر۱۴۱)

ترجمہ:۔ ”اللہ ایسے لوگوں کو دوست رکھتا ہے کہ وہ راہ خدا میں ایسے جم کر لڑتے ہیں جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار اس آیت مبارکہ میں اصحاب امام زمان علیہ السلام کا تذکرہ تین صفات کے حوالہ سے کیا گیا ہے۔

۱۔جہاد کرنے والے ہیں ۔۲۔خلوص نیت رکھتے ہیں ۔۳۔آپس میں بہت زیادہ متحد رہیں ۔

۳۔”( یاایها الذین آمنوامن یرتدمنکم عن دینه فسوف یاتی اللّٰه بقوم یحبهم ویحبونه اذلة علی المومنین اعزة علی الکافرین یجاهدون فی سبیل اللّٰه ولا یخافون لومةَ لاءم ذلک فضل اللّٰه یوتیه من یشاءواللّٰه واسع علیم ) (سورئہ مائدہ ۳۵)

”اے ایمان والو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے منحرف ہوگیا تو خدا اس کی جگہ ایک ایسا گروہ لے آئے گا جو اللہ کو دوست رکھتے ہوں گے اور اللہ انہیں دوست رکھتا ہوگا وہ مومنوں کے سامنے عاجزی کریں گے اور کافروں کے مقابل سرفراز ہوں گے وہ راہ خدا میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے یہ خالصتاً فضل خدا ہے جسے چاہے دے اور خداوند صاحب وسعت اور جاننے والا ہے“۔ اس آیہ مبارکہ میں اصحاب امام زمان علیہ السلام کو جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ کچھ اس طرح ہے۔

(الف) وہ جو محبوب خدا ہیں ۔ (ب) خدا سے محبت کرتے ہیں ۔ (ج) مومنوں کے لیے متواضع ہیں ۔ (د) کافروں کے مقابل سرفراز ہیں ۔ (ھ) کوشش و جدوجہد کرنے والے ہوں گے۔ (ل) ملامت سے نہیں ڈرتے ۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس آیت میں بیان شدہ صفات اصحاب رسول اکرم یا اصحاب امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ خاص ہیں تو ان کے جواب میں کہیں گے اس آیت کی ابتداءمیں ہے کہ ”من یرتد منکم عن دینہ(سورہ بقرہ آیت۸۴۱) اس آیت سے یہ بات سمجھ سے آتی ہے ایسے اصحاب کی آمد سے پہلے مرتدین کا گروہ پیدا ہوگازمان علیہ السلامہ رسول اورزمان علیہ السلامہ مولا علی علیہ السلام میں ایسا گروہ پیدا نہیں ہواتھا، دوسرا اس آیت میں ہے کہ قوم آئے گی یعنی یہ اصحابزمان علیہ السلام پیغمبراسلام میں نہیں تھے انہیں ابھی آنا ہے۔

۴۔ ”( واستبقواالخیرات این ماتکونوایات بکم اللّٰه جمیعاً ) “۔(سورئہ بقرہ۸۴۱)

اس آیہ مبارکہ میں اصحاب امام زمان علیہ السلام کی خصوصیات میں سے ایک یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ نیکی میں سبقت لیتے ہیں ۔

۵۔ ”( ولئن اخرنا عنهم العذاب الی امةً معدودة لیقولن مایحسبه الایوم یاتیهم لیس مصروفاً عنهم وحاق بهم ماکانوابه یستهزو ن ) “۔ (سورئہ ہود۸)

”اگرایک گنے چنے گروہ کے آنے تک ہم اپنا عذاب ان لوگوں سے موخر رکھیں تو یہ کہتے ہیں کہ کس چیز نے عذاب کو روکا ہوا ہے خبردار جس دن اس گروہ کے ذریعہ تم پرعذاب آیا تو پھر وہ عذاب ہٹنے والا نہیں ہے اور وہ لوگ جو مذاق کرتے ہیں انہیں یہ عذاب اپنی گرفت میں لے گا“۔

بعض مفسرین نے امت معدودہ سے مراد مختصرزمان علیہ السلامہ لیا ہے اور بعض نے اس سے مراد چھوٹا سا گروہ لیا ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں اس امت معدودہ سے مراد مختصر گروہ ہے اور واللہ یہ اصحاب قائم علیہ السلام ہی ہیں ۔جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے اصحاب امام زمان علیہ السلام ۳۱۳ نفر ہیں جو کہ سب کے سب اولیاء علیہ السلام اللہ ہیں میری نظر میںامام کے اصحاب چند گروہوں میں تقسیم ہیں ۔

۱۔ نقباء

ان ۳۱۳ میں سے ۲۱آدمی بہت اعلیٰ رتبے پر فائز ہیں کہ انہیں نقیب کہاجاتا ہے نقباءکو صدیقین بھی کہتے ہیں جو کہ امام زمان علیہ السلام کے پاس ہمہ وقت حاضر ہیں ایک روایت میں ہے کہ شعیب بن صالح سمرقندی ان میں شامل ہیں اورتیرہویں فردہیں اور حضرت امام زمان علیہ السلام کے وزیر ہیں ۔

۲۔ گواہان

حضرت کے اصحاب کے دوسرے گروہ جن کی تعداد ۰۷ ہے انہیں گواہان (شہدائ) کہتے ہیں روایات میں ہے کہ یہ روزانہ بادل پر سوار ہو کر ہوا کے ذریعہ امام زمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوتے ہیں ان میں جو بھی کسی شہر کے اوپر سے گذرتا ہے تو ایک منادی ندا دیتا ہے کہ یہ فلاں بن فلاں ہے اس شخص کا نام لیتاہے ۔

۳۔ صالحین

امام زمان علیہ السلام کے اصحاب کا تیسرا گروہ جن کی تعداد۰۳۲ ہے وہ صلحاکے نام سے بلائے جاتے ہیں وہ طی الارض کے ذریعہ ظاہراً اور رات کو امام زمان علیہ السلام کی خدمت میں جاتے ہیں ۔

معتبر روایات کی رو سے حضرت کے یہ اصحاب جیش غضب (غصے والالشکر) کہلاتے ہیں کیونکہ ان میں سے ہر شخص چالیس مردوں کے برابر طاقت رکھتا ہے یہ لوگ رکن ومقام کے درمیان بیعت کریں گے حضرت کے ۰۰۳ اصحاب جو کہ ان بارہ افراد کے علاوہ ہیں جو مرکز میں ہیں اور ایک وزیر کے علاوہ ہیں لشکر کی کمان امامت اور حکومت کے امور چلاتے ہیں کرہ ارض کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان چاروں حصوں کو انہی اصحاب کے ذریعہ سرکار امام زمان علیہ السلام چلاتے ہیں امام محمد باقر علیہ السلام ایک مفصل روایت میں فرماتے ہیں کہ ۳۱۳ مرد اور ۰۵ عورتیں بھی ان کے ساتھ ہیں جو ان ۳۱۳ افراد کے علاوہ ہیں جن کا ذکر ہوچکا ہے۔ وہ بادل کے ٹکڑوں کی مانند موسم حج کے علاوہ مکہ معظمہ میں جمع ہوتے ہیں جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے ۔ ”( این ماتکونواا یات بکم اللّٰه جمیعاً ان اللّٰه علی کل شی قدیر ) “۔ ترجمہ۔”تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں لے آئے گا اللہ ہر چیز پر قادر ہے“۔ یہ پچاس عورتیں جن کا تذکرہ کیا گیا ہے یہ اما مزمان علیہ السلام کی اصحابیات سے ہیں اور بلندوبالا مرتبہ کی مالک ہیں اور صاحب کرامت خواتین ہیں ۔(مہدی علیہ السلام موعود ص۳۳۱۱)

۰۵ خواتین کا ذکر کیا ہے ان کے علاوہ تیرہ خاص خواتین کا ذکر آئے گا۔ کتاب الفتن تالیف ابن حماد میں ۰۰۷۷یا۰۰۸۷خواتین امام زمان علیہ السلام کی خدمت میں ہیں رسول اللہ سے حدیث میں آیاہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے حضرت مہدی علیہ السلام کے پاس ۰۰۸ مرد اور ۰۰۴عورتیں ہوں گی

ناصران حضرت امام مہدی (علیہ السلام)

اصحاب اور انصار کے درمیان فرق ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے حضرت کے اصحاب ۳۱۳ ہیں اور انصار وہ ہیں جو باکردار مومنین مکہ میں آپ علیہ السلام کے ساتھ آپ علیہ السلام کی مدد کے لئے شامل ہوں گے ان انصار میں سب سے اہم ترین انصار جو کہ تعداد میں دس ہزار ہیں اور انہیں حلقہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے جب تک یہ دس ہزار نفر مکہ میں جمع نہیں ہوں گے حضرت قیام نہیں فرمائیں گے ایک اور روایت میں ہے کہ ۶۳ ہزار نفر مدینہ سے بصورت انصار امام اور ۲۱ ہزار نفر انصار حسنی عراق سے بصورت انصارسرکار امام زمان علیہ السلام سے آملیں گے اور یہ تعداد بتدریج دیگر انصار مہدی علیہ السلام کے الحاق سے بڑھتی چلی جائے گی۔

انصارِ رجعت

شیخ مفید نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے ۷۲ افراد اور سات افراد جو کہ اصحاب کہف ہیں انہیں اور حضرت یوشع بن نون جو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وصی ہیں ان کو اور حضرت سلمان فارسی ، ابوذر، ابودجانہ انصاری، مقداد، مالک اشتر کو بھی انصار امام زمان علیہ السلام سے قرار دیا ہے جو اس وقت مختلف شہروں کے حاکم ہوں گے ایک روایت میں ہے کہ جو شخص مسلسل چالیس جمعہ دعائے عہد (اللهم رب النور العظیم ) کو پڑھے تو وہ انصاران امام زمان علیہ السلام میں سے ہوگا اگر وہ ظہور امام سے پہلے فوت ہوگیا تو بوقت ظہور اسے قبر سے نکالا جائے گاتاکہ وہ امام کے انصاران میں شامل ہوسکے۔

۱۔ صیانہ ماشطہ

دختر فرعون کا بناو سنگار کرنے والی خاتون،حزقیل مومن آل فرعون کی بیوی جس کی داستان طویل ہے جس کا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ذکر فرمایا مختصر یہ ہے کہ جب اس نے فرعون کی خدائی سے انکار کیا تو پہلے اس کے چار بیٹوں کو اور پھر خود اسے جلتے تنور میں جھونک دیا گیا انہیں زندہ کر کے انصار مہدی علیہ السلام میں شامل کیا جائے گا۔

۲۔ ام ایمن

جناب رسالتماب کے والد گرامی حضرت عبداللہ علیہ السلام کی کنیز جو بعد میں حضور کی کنیز اور جناب سیدہ زہراء علیہ السلام کی کنیز رہی جسکا تاریخ میں تفصیلی ذکر ہے وہ زندہ کی جائیں گی تاکہ انصار امام زمان علیہ السلام میں شامل ہوں ۔

۳۔سمیہ جناب عمار کی والدہ

سمیہ جنہیں انتہائی اذیتیں دے کر ابوجہل نے سینے میں نیزہ مار کر شہید کردیا یہ بھی بوقت ظہور امام علیہ السلام دوبارہ زندہ کی جائیں گی تاکہ نصرت امام کریں۔

۴۔حبّابہ

حبابہ جو حضرت علی علیہ السلام کےزمان علیہ السلامہ میں تھیں اس نے امیر علیہ السلام سے امامت کی نشانی طلب کی تھی حضرت نے اس سے پتھر کا ایک ٹکڑالیا اس پر مہر لگائی اور اسے واپس دے دیا اور فرمایا کہ جو کوئی یہ کام کرے گا امام ہوگا اسی طرح امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام نے بھی ایسا کیا اسی طرح امام رضا علیہ السلام نے بھی ایسا ہی کیا وہ حبابہ بھی بذریعہ رجعت نصرت امام علیہ السلام میں ہوں گی۔

۵۔ قنوائ

قنواءجو کہ رشید حجری کی بیٹی تھی دوبارہ زندہ کی جائیں گی تاکہ امام زمان علیہ السلام کو اپنے باپ کی شہادت کا واقعہ سنائیں۔

۶۔ ام خالد احمسیّہ

ام خالداحمسیّہ بھی بذریعہ رجعت نصرت امام میں ہوں گی۔

۷۔ ام خالد جہنیہ

(بحوالہ منتہی الامال ص۷۶۷الفتن ابن حماد)

زمین اور اس کے وارث

( ولقد کتبنا فی الذبور من بعدالذکران الارض یرثها عبادی الصالحون ) “۔ (النساء۵)

ترجمہ:۔ ”ہم نے تورات کے بعد زبور میں لکھا کہ ہم صالح بندوں کو زمین کا وارث بنائیں گے“۔

وراثت اور اس کی اقسام

۱۔ ارث صفاتی

وہ وراثت جو اولاد کو ماں باپ یا اباءاجداد سے بصورت صفات جسمانی یا صفات روحانی حاصل ہوں جس کے بارے کافی آیات اور روایات درج ہیں ۔

۲۔ ارث مادی

وہ ورثہ جو مال یا جائیداد دنیا کی صورت میں فوت ہوجانے والے سے وارث کو حاصل ہو۔

۳۔ تیسری وراثت

ایسی وراثت جو والدین کے اعمال کی وجہ سے حاصل ہو جیسا کہ آیت قرآن ہے۔

( واما الجدار فکان لغلامین یمین فی المدینه وکان تحته، کنزلهماوکان ابوهما صالحاً ) “۔(سورئہ کہف آیت۲۸)

”اور بہرحال دیوار،ان دویتیم لڑکوں کی تھی اس شہر میں اس دیوار کے نیچے خزانہ تھا جو ان کے لئے اپنے باپ کی طرف سے تھا ان کا باپ صالح مرد تھا“۔ مفہوم آیت یہ ہے کہ ان کے باپ کی نیکوکاری کی وجہ سے ارادہ خداوند یہ قرار پایا کہ یہ خزانہ جو دیوار کے نیچے ہے ان لڑکوں کو ملے اس وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام نے دیوار کو گرا کر دوبارہ بنایا تاکہ خزانہ ان بچوں کے جوان ہونے تک محفوظ رہے چونکہ ان لڑکوں کا والد صالح تھا ارادہ خدا ان لڑکوں کے لیے یہ قرار پایا کہ باپ کی نیکی کے اثرات لڑکوں کو ملےں اگر اسی طرح والد بدکار ہوتا تو اس کے اثرات بھی اولاد تک پہنچے ۔یہ وراثت انہیں باپ کی نیکوکاری کی وجہ سے ملی۔

( ولیخش الذین لوترکوامن خلفهم ذریتً ضعافاً خافواعلیهم ) “۔ (سورئہ نسائ۹)

ترجمہ:۔ ”جولوگ اپنے پیچھے ناتواں اور ضعیف اولاد چھوڑیں وہ خوف رکھیں کہ ان کی اولاد ان کے بارے کیا کرے گی“۔جی ہاں! جو لوگ اپنی اولاد کے آئندہ کے لئے فکر مند ہیں ان کو چاہیے کہ وہ ان کے لیے سوچیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ یتیم ہو کر اپنے بزرگوں کے برے کردار کی وجہ سے وہی راہ اپنا لیں یہ آیت ان لوگوں کے لیے تنبیہ ہے جو یتیم بچوں پر ستم کرتے ہیں کہ آئندہ ان کے اس ستم کی وجہ سے ان کی یتیم اولاد پر بھی ستم ہوگا۔

۴۔ چوتھی وراثت

وہ وراثت جو خداوند کریم اپنے نیک وصالح بندوں کو عطا فرماتا ہے جسکی طرف ابتداءمیں آیت مبارکہ کے ذریعہ اشارہ کیا گیا ہے خداوند کا ارادہ ہے کہ وہ بادشاہی و تمام وسائل اپنے نیک بندوں کو عطا کرے گا۔

درود حضرت امام مہدی علیہ السلام

برآن چہرہ ماہِ مہدی درود

برآن قلب آگاہ مہدی درود

درودی برآن لعل خندان او

نہ از من، زاللّٰہ مہدی درود

برآن قلب امکان، امام زمان علیہ السلام

برآن عزّت وجاہ مہدی درود

برآن عشق سوزان وچشم پراشک

برآن سینہ و آہ مہدی درود

بر آن کوہ (رَضوی) کہ دارد مقام

بر آن بزم و خرگاہ مہدی درود

بر آن وادی اقدس (زی طُوی)

بہ دربان درگاہ مہدی درود

بر آنان کہ بر گرد او دایمند

بر آن جمع ہمراہ مہدی درود

بر آن صفَّ سرباز جانباز او

بر آن ہالہ ماہ مہدی درود

برآن سیصد و سیزدہ یاورش

صفِ عشق دلخواہ مہدی درود

بر آنان کہ آن شاہ را دیدہاند

برآن چشم بر راہ مہدی درود

برآنان کہ از عشق او سوختند

برآن عشق جانکاہ مہدی درود

(حقیقت) درود تو را پاسخی است

تورامی دہد شاہ مہدی، درود

(دیوان ”انوار ولایت“ اثر نگارندہ)

می رسد از رہ بشیر و پیر ہن

می کند ما را بہ کویش منتقل

( وَلَمَّا فَصَلَتِ اَلعِیرُ قَالَ ا بُوهُم اِنَّى لَا جِدُ رِیحَ یُوسُفَ لَو لاَ ا ن تُفَنَّدُونِ ) “۔

”جب یہ قافلہ جدا ہوا تو ان کے والد نے کہا کہ مجھے تو یوسف علیہ السلام کی خوشبو آرہی ہے اگر تم مجھے سٹھیایا ہوا قرار نہ دو“۔(سورہ یوسف آیت ۴۹)

ساتویں فصل

آستان ظہور

اعمال انتظار

زمانہ ظہور

علامات ظہور

آسمانی آوازیں

باب اول

اعلیٰ وارفع اعمال

فَرَج ، کشادگی اور اس کی اقسام

( واشرقت الارض بنورربها ) “۔ (الزمر ۷۶)

ترجمہ:۔ ”زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہوگی“۔

حضرت امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ جب سرکار امام زمان علیہ السلام (علیہ السلام) کا ظہور ہوگا تو زمین اس نور خدا (یعنی امام زمان علیہ السلام کے نور) سے روشن ومنور ہوجائے گی اور زمین اس کے پاوں کے نیچے چلے گی (طیٰ الارض) اور وہ ہے کہ جس کا سایہ نہیں ہوگا۔ (بحوالہ کمال الدین ص۲۷۳)

فَرَجَ

فَرَج کا لغوی معنی کشادگی ہے یعنی تنگی سے باہر آنا فقر وتنگ دستی اور بیماری اور درد مصیبت سے باہر آن

فَرَج کی اقسام

فَرَج کی تین اقسام ہیں ۔۱۔فَرَج انفرادی ۲۔فَرَج اجتماعی ۳۔ فَرَج آل محمد۔

۱۔ فَرَج انفرادی

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعونیوں سے فرار کیا اور مصر سے مدائن پہنچے تو کہارب انی لما انزلت الی من خیر فقیر (سورئہ قصص۴۲) اے میرا اللہ تو جو کچھ بھیج دے میں نیاز مند اور ضرورت مند ہوں (یعنی بہت بھوکا ہوں تو فوری طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلامکےلئے فَرَج ہوئی اور حضرت شعیب علیہ السلام نے اسے اپنے گھرد عوت دی اس طرح حضرت ایوب علیہ السلام نے تنگدستی ، بیماری اور عالم کسمپرسی میں بیابان میں زندگی گذاری تو اپنے پروردگار سے التجاءکی( انی مسنی الضر وانت ارحم الراحمین ) (سورئہ انبیاء علیہ السلام۳۸)

”خداوند سختی نے مجھے گھیر لیا ہے اور تو سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے“۔

اس التجاءسے ان کے لئے کشادگی و آسانی ظاہرہوئی ایک چشمہ ظاہر ہوا جس میںنہا کر ایوب علیہ السلام اور ان کی بیوی پھر سے جوان اور صحت مند ہوگئے ۔

حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی /مگر مچھ کے پیٹ میں چلے گئے تو تنگی کی وجہ سے التجا فَرَج کی ”لااله الاانت سبحانک انی کنت من الظالمین “۔ (سجدہ انبیاء علیہ السلام۷۸)

”تیرے سوا کوئی معبود نہیں اور توپاک ومنزہ ہے اور میں ستمکاروں سے ہوں “۔

توفوراً اللہ تعالیٰ نے اسے اس تنگی سے فَرَج و کشادگی عطا کی اگر یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں یہ ذکر نہ کرتے تو قیامت تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہتے (بحوالہ سورئہ الصفات ۴۴۱)

یہ مذکورہ بالا تمام مثالین فَرَج فردی وشخصی کی تھیں کہ ہمیں بھی جب کوئی تنگی اور ناگواری ہو تو ہمیں خداوند کریم سے التجا فَرَج وکشادگی کرنی چاہیے۔

۲۔ فَرَج اجتماعی

فَرَج اجتماعی کی دو قسمیں ہیں ۔ (الف)فَرَج کشادگی شیعیان (ب)فَرَج وکشادگی عمومی

(الف) فَرَج وکشادگی شیعیان

اس بارے بہت زیادہ دعا ہائے فَرَج ذکر ہیں مثلاً دعائے الٰہی غطم البلا.... الخ، ان دعاوںکے ذریعہ ہم خداوندمتعال سے تمام شیعوں سے تنگی اور فقروبیماری دورہونے کی دعا کرتے ہیں اور بالخصوص پروردگار امام زمان علیہ السلام کے ظہور کے ذریعہ شیعوں کی مشکلات آسان فرمائے۔

(ب) فَرَج اجتماعی وعمومی

حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں تمام جہان کے لئے فَرَج وکشادگی کی التجاءکی ہے قرآن کریم میں ہے کہ ”( رب لاتذرعلی الارض من الکافرین دیارًا o انک ان تذرهم یضلوا عبادک ولا یلدوا الافاجِرًا کفارًا ) “۔ (سورئہ نوح آیت ۷۲،۶۲)

”اے میرے پروردگار زمین پر کوئی کافر باقی نہ رکھ اگر تونے کفار کو ان کے حال پر باقی رکھا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی آئندہ نسل بھی فاسد وفاجر ہوگی“۔

۳۔ فَرَج آل علیہ السلام محمد

بہت زیادہ دعاوں میں فَرَج آل علیہ السلاممحمد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ فَرَج آل علیہ السلام محمد کے لئے دعا کریں جس دن سے پیامبراکرم نے رحلت فرمائی اسی دن سے آل علیہ السلام محمد اور ان کے شیعوں پر ظلم وستم کا آغاز ہوگیا مادی اور معنوی دونوں طریقوں سے آل علیہ السلام محمد اور سادات وشیعوں پر ظلم وستم روا رکھے گئے اور بہت زیادہ تعداد اسی بنا پر قتل کی گئی امام زمان علیہ السلام کے ظہور پر نور کے ذریعہ آل محمد پر اب تک روا کیے گئے ظلم سے اور تنگی سے فَرَج وکشادگی حاصل ہوگی اسی لیے کہاجاتا ہے کہ ”اللهم صل علی محمد وآل علیه السلام محمد وعجل فَرَج آل علیه السلام محمد “۔ خداوند محمد وآل علیہ السلاممحمد پر درود بھیج اور ان کے لئے کشادگی عطا فرما۔یارب الحسین علیه السلام بحق الحسین علیه السلام اشف صدرالحسین علیه السلام بظهور الحجة “۔ اے پروردگارِ حسین علیہ السلام بحق حسین علیہ السلام امام زمان علیہ السلام کے ظہور کے ذریعہ امام حسین علیہ السلام کے دل کو شفا وسکون عطا فرما، جو یقینا ظہور سرکار امام زمان علیہ السلام سے حاصل ہوگا۔

انتظار فَرَج

انتظار کامقصد ہے ہر قسمی فداکاری اور جانثاری کے لئے اور امام زمان علیہ السلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ علیہ السلام کومکمل آمادہ اور تیار رکھنا اپنے آپ علیہ السلام کو تیار کر کے پھر انتظار کرنا کہ سرکار علیہ السلام کب ظہور فرمائیں اور میں ان کے لشکر میں شامل ہو کر اپنی جان نثار کرو۔انتظار ہی درحقیقت ہمارے لیے امید ہے اور ہمارے دلوں کو گرم رکھنے کا ذریعہ ہے انتظار کا الٹ مایوسی ہے اور ناامیدی اور قرآن مجید میں ناامید اورمایوسی سے منع کیا گیا ہے اور ہمیں انتظار کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ انتظار کی وجہ سے مایوسی اور ناامیدی دامن گیر نہ ہو ارشادد ہے ”( فانتظروا انی معکم من المنتظرین ) “۔ (اعراف ۱۹)حضرت امیرالمومنین علیہ السلام جناب رسالتماب سے نقل فرماتے ہیں کہ ”حضور نے فرمایااحب الاعمال امتی انتظار الفرج ، میری امت کے محبوب ترین اعمال میں ہے فَرَج وکشادگی کا انتظار کرنا“۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام بھی حضور کے فرمان کو نقل فرماتے ہیں ”افضل اعمال امتی انتظار فَرَج الله عزوجل “۔ (عیون اخبارالرضا)کیونکہ انتظار بذات خود امیدوزندگی دل کا باعث ہے اور مایوسی موت ہے اسی بنا پر امام زین العابدین علیہ السلام کا فرمان ہے کہ”انتظار الفَرَج من اعظم الفرج “ ، کشادگی کا انتظار کرنا بذات خود کشادگی ہے ۔