موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن0%

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف: شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27160
ڈاؤنلوڈ: 3771

تبصرے:

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 62 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27160 / ڈاؤنلوڈ: 3771
سائز سائز سائز
موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف:
اردو

آٹھویں فصل

قیام سے نظام تک

اطاعت عہدوپیمان

برقراری عدالت

معرکے

اللہ کی مدد

اصلاحات

باب اول

آپ علیہ السلام کی اطاعت کا عہد و پیمان

بوقت قیام آپ علیہ السلام کا خطبہ

جونہی اللہ رب العزت کی طرف سے آپ علیہ السلام کو اذن ظہور ہوگا تو آپ علیہ السلام سب سے پہلے اپنی ذات کی پہچان کے حوالہ سے گفتگو فرمائیں گے۔ روایات میں ہے کہ آپ بوقت ظہور دیوار کعبہ سے پشت لگائیں گے بعد از حمدوثناءپروردگار اور درودوسلام بر پیغمبر اسلام اپنا تعارف کرائیں گے۔ ”بقیة اللہ خیر لکم ان کنتم مومنین “ (سورئہ ہود ۶۸)آپ اس آیت کو اپنے بارے بیان فرمائیں گے اور کہیں گے ”انا بقیة اللّٰہ وخلیفتہ وحجتہ علیکم“ ۔”میں ہی بقیة اللہ ہوں اور خلیفہ و حجت خدا ہوں تمہارے اوپر یعنی میں تمام اوصیاءو انبیاء علیہ السلام کی نشانی ہوں“۔

جی ہاں! آپ ہی خلیفہ خدا ہیں آپ ہی امام اور سلطان اعظم ہیں اور پوری دنیا پر آپ حجت خدا ہیں حضرت امام محمدباقر نے آپ کے سب سے پہلے خطبہ کے متن بارے فرمایا ہے کہ وہ کچھ اسطرح ہو گا۔اے لوگو! ہم خدا اور اپنے ماننے والوں سے نصرت کے طلب گار ہیں ، ہم تمہارے پیغمبر اسلام کی اہل بیت ہیں ہم اللہ اور اس کے رسول کے سب سے زیادہ قریب ہیں ۔ اگر کوئی میرے ساتھ آدم علیہ السلام بارے بات کرے تو میں سب سے زیادہ آدم علیہ السلامکے قریب ہوں، میں نوح علیہ السلام و ابراہیم علیہ السلام ودیگر انبیاء علیہ السلام بارے زیادہ حق دار ہوں، پھر آپ علیہ السلام فرمائیں گے کہ کیا تم لوگوں نے قرآن میں نہین پڑھا کہ اللہ فرماتا ہے میں نے آدم علیہ السلام نوح علیہ السلام اور خاندان ابراہیم علیہ السلام کو پوری دنیا میں چن لیا ہے اور میں اس ذریت سے ہوں کہ جسے خدا نے چن لیا ہے، میں برگزیدہ خدا ہوں۔(الامام المہدی علیہ السلاممن المہد الاالظہور ص۲۱۴)

دوسرا خطبہ

ایک اور روایت میں ہے کہ امام علیہ السلام ایک اور خطبہ بھی دیں گے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں ”امام مہدی علیہ السلام بوقت عشاءمکہ میں ظاہر ہوں گے ان کے پاس رسول خدا کا پرچم ہوگا حضورکی قمیض آپ علیہ السلام کی تلوار اور دیگر کئی نورانی اور بیانی علامات ہوں گی جب نماز عشاءپڑھیں گے تو آپ بلند آواز میں لوگوں سے کہیں گے اے لوگو! میں تمہیں یاد خدا کی دعوت دیتا ہوں اور اس وقت کی یاد دلاتا ہوں جب تم بارگاہ رب العزت میں پیش ہوگے وہ خدا جس نے اپنی تمام حجتیں تم پر تمام کیں، انبیاء علیہ السلام بھیجے کتابیں نازل فرمائیں اور اس نے تمہیں حکم دیا کہ شرک نہ کرو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر کار بند رہو ہر وہ چیز جسے قرآن نے زندہ کیا ہے اسے زندہ کرو جسے قرآن نے ختم کردیا ہے اسے ختم کردو۔(الامام المہدی من االمہد الاالظہور ص۲۲۴، سیوطی کتاب الحاوی)(منتخب الاثر)

تیسرا خطبہ

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ایک تیسرا خطبہ بیان فرمائیں گے ہم اس تیسرے خطبہ کا کچھ حصہ یہاں نقل کرتے ہیں امام مہدی علیہ السلام اپنی پشت دیوار کعبہ کے ساتھ لگا کر لوگوں کو مخاطب ہو کر کہیں گے ”اے لوگو!اگر کوئی چاہتا ہے کہ وہ آدم علیہ السلام کو دیکھے تو میں آدم علیہ السلام اور شیث علیہ السلام ہوں، جو کوئی نوح علیہ السلام اور اس کے بیٹے کو دیکھنا چاہے تو میں نوح علیہ السلام اور اس کا بیٹا سام ہوں، اگر کوئی ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کو دیکھنا چاہتا ہے تو آو میں ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام ہوں، اگر کوئی عیسیٰ علیہ السلام اور شمعون کو دیکھنا چاہے تو میں عیسیٰ علیہ السلام و شمعون ہوں۔اگر کوئی محمد اور علی علیہ السلام کو دیکھنا چاہے تو میں محمد اور علی علیہ السلام ہوں، اگر کوئی حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کو دیکھنا چاہتا ہے تو میں حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہوں اگر کوئی باقی آئمہ معصومین علیہ السلام کو دیکھنا چاہے تو میں مثل باقی آئمہ علیہ السلام ہوں۔

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں آپ علیہ السلام کے خطبہ کے بعد آپ کے گرد ۳۱۳، افراد جمع ہوجائیں گے اور آپ علیہ السلام کی بیعت کریں گے ان میں سب سے پہلے جبرئیل علیہ السلام آپ علیہ السلام کی بیعت کریں گے اور ۰۴ ہزار فرشتے جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ نازل ہوں گے ۔(بحارالانوار ج۳۵ص۹)

خاص اصحاب کا جمع ہو جانا

۳۱۳ ، افراد جو کہ اصحاب امام زمان علیہ السلام ہوں گے وہ ظہور کے قریب اکھٹے ہوں گے عبداللہ بن عجلان نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ انصار امام زمان علیہ السلام کی جمع آوری اور آمادہ باش حالت اس لئے ہوگی کہ ”یصبح احدکم وتحت راسہ صحیفة ، علیہا مکتوب، طاعةً معروفة“ ان انصار کو جمع ہونے اور آمادہ باشں ہونے کے لئے یہ نشانی بتائی گئی ہے کہ تم جب صبح اپنے بستر سے اٹھوگے تو تمہارے سروں کے نیچے ایک دعوت نامہ پڑا ہوگاجس میں یہ جملہ درج ہوگا۔ ”طاعتہ معروفة“) خالص اور پسندیدہ اطاعت)یہ جملہ گویا ان انصار کے لئے آمادہ باش ہوگا جب وہ ایک دوسرے کو ملیں گے تو گویا انہیں الہام ہوگا کہ اکھٹے ہو جاو وہ وقت اطاعت آگیا ہے۔ ایک اور روایت ہے”المفقودون عن فروشہم“ اپنے بستروں سے گم ہوجانے والے انہیں انصاران مہدی علیہ السلام بارے ہے کہ ۰۷ آدمی ان ۳۱۳ گمشدگان میں سے دن کو دیکھے جا سکیں گے جو کہ مسلسل سوار ہیں اور مکہ کی طرف حرکت کرتے ہیں ان ۰۷ افراد کا مقام باقی انصار سے زیادہ بلند ہے اور آیت قرآن ” این ماتکونوایات بکم اللّٰہ جمیعاً“ (بقرہ ۸۴۱) تم جہاں بھی ہوگے خدا تمہیں لے آئے گا ، یہ انہیں ۳۱۳، افراد بارے ہے۔

امام علیہ السلام کی بیعت

بیعت ، بیع سے ہے یعنی بیچنا،زمانہ قدیم میں جب لوگ کوئی سودا کرتے تھے تو آپس میں ہاتھ ملاتے تھے اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ سودا پکا ہو گیا یہ طریقہ پرانےزمان علیہ السلامہ کے سیاسی یا الٰہی لوگوں میں رائج تھا اس کی بابت قرآن میں ارشاد خداوندی ہے ”ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللّٰہ یداللّٰہ فوق ایدیہم“۔ (سورئہ فتح ۰۱)”وہ لوگ جنہوں نے تمہاری بیعت کی سوائے اس کے نہیں کہ انہوں نے اللہ کی بیعت کی اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے“۔

الف) بیعت رسول اکرم

صدر اسلام میںبیعت کا رواج تھا تاریخ میں حضور نبی کریم کے لئے تین بیعتوں کا ذکر ملتا ہے۔

۱۔ بیعت عقبیٰ اولی

جو کہ منی میں کی گئی یہ بیعت کرنےوالے بارہ آدمی تھے انکی بیعت کا معنی یہ تھا کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں

۲۔ بیعت عقبیٰ دوئم

یہ بیعت بھی منیٰ میں کی گئی یہ بیعت کرنے والے ۰۷ آدمی تھے اس بیعت کا مقصد امور رسالت میں آپ کی مدد کرنے کا وعدہ تھا۔

۳۔ بیعت رضوان

یہ بیعت ایک درخت کے نیچے حدیبیہ کے نزدیک کی گئی اس میں شامل مسلمانوں کی تعداد ۰۰۸ سے زائد تھی حضور نے ان سے موت کی بیعت لی تھی، بیعت کی وجہ کچھ مسلمانوں کی مخالفت تھی جب کہ مسلمان عمرہ کے لئے آئے ہوئے تھے۔ البتہ اس کے علاوہ بھی دیگر کئی بیعتوں کا ذکر تاریخ میں ہے لیکن ہم یہاں اپنے موضوع کی مناسبت سے سرکار امام زمان علیہ السلام کی بیعت کا ذکر کریں گے۔

ب) بیعت حضرت امام مہدی علیہ السلام

سب سے پہلے جبرئیل علیہ السلام سرکار امام زمان علیہ السلام کی بیعت کریں گے وہ عاشورہ کے دن رکن و مقام کے درمیان آپ کی بیعت کریں گے اور جبرائیل علیہ السلامکہیں گے ”البیعة اللّٰه “ جبرئیل علیہ السلام کے بعد ۳۱۳،افراد جو کہ سرکار مہدی علیہ السلام کے اصحاب و انصار ہیں بیعت کریں گے حضرت کی بیعت کے ۰۳ یا۰۴ فرمان ہوں گے سرکار کی بیعت خاص مطلب آپ کی اطاعت پر کاربند رہنا اور آپ کی ذات سے انحراف نہ کرنا ہے آپ کے پرچم پر”البعیة للِّٰه “ تحریر ہوگا۔آپ کی بیعت ایک ایسی بیعت عام ہے کہ تمام اہل زمین اور آسمان اس کی تائید کریں گے ۳۱۳ افراد مکہ میں آپ کی بیعت کے لئے پہلے سے منتظر ہوں گے یہاں تک کہ مکہ ہی میں ۰۱ ہزار افراد آپ کی نصرت کے لئے ان ۳۱۳ افراد کے ساتھ شامل ہوجائیں گے جسے حلقہ کہیں گے جب تک یہ دس ہزار افراد ان ۳۱۳ افراد کے ساتھ نہیں ہوں گے اس وقت تک آپ کا قیام نہیں ہوگا اور آپ مکہ نہیں چھوڑیں گے۔(بحارالانوار ج۲۵، ص۰۹۲)(بحارالانوار ج۲۵، ص۷۰۳،۸۳۳)

باب دوئم

برقرار یِ عدالت حضرت مہدی (علیہ السلام)

امام زمان علیہ السلام مکہ میں

امام زمان علیہ السلام بیعت تمام ہونے کے بعد مکہ میں اپنا مرکز قائم کرلیں گے طاقت کے تمام مراکز کو اپنی تحویل میں لے لیں گے اس وقت کی حکومت بھی آپ کے خلاف کوئی رد عمل نہیں دکھائے گی آپ مکہ میں تین اہم کام انجام دیں گے۔

۱۔ مقام ابراہیم علیہ السلام کی منتقلی

روایات میں ہے کہ امام زمان علیہ السلام مقام ابراہیم علیہ السلام کو اس کی اصل جگہ پر منتقل کردیں گے یعنی اسے کعبہ کے ساتھ ملا دیں گے جیسا کہزمان علیہ السلامہ رسول اکرم میں تھا لیکن جناب عمر بن خطاب نے اسے وہاں سے منتقل کیا تھا جب کہ امام زمان علیہ السلام اسے اس کے اصل مقام پر منتقل کریں گے تو اس کے بعد طواف کرنا آسان ہو گا۔

۲۔ طواف مستحب سے رکاوٹ

دوسرا کام جو آپ مکہ میں کریں گے آپ لوگوں کو کعبہ کے مستحب طواف سے روک دیں گے جو لوگ طواف مستحب کا ارادہ رکھتے ہوں گے وہ اپنا طواف اس کودے دیں گے جن کے اوپر طواف واجب ہے۔

۳۔ منتظمین کعبہ کے ہاتھ قطع کرنا

امام زمان علیہ السلام مکہ میں انجام دیئے جانے والے تین کاموں میں سے ایک کام اس وقت کے کلید بردارانِ کعبہ کے ہاتھ کاٹ دیں گے جو کہ بنی شیبہ سے ہوں گے چونکہ وہ کعبہ کے چور ہوں گے لہٰذا ان کے ہاتھ قطع کر دیے جائیں گے۔ (بحوالہ بحارالانوار جلد۲۵، ۲۳۳)

مکہ کے لئے حاکم کا تقرر

آپ ان امور کی انجام دہی کے بعد مکہ میں ایک حاکم مقرر کر کے فوراً عازم مدینہ ہوں گے مگر آپ کے مقرر کردہ حاکم و نمائندہ کو قتل کر دیاجائے گا اس طرح آپ تین مرتبہ حاکم مکہ مقرر فرمائیں گے مگر تینوں دفعہ انہیں قتل کردیا جائے گا اس دوران آپ چھ بار قریش مکہ پر حملہ آور ہوں گے اور ہر دفعہ ۰۰۵ قریش مکہ کو قتل کریں گے یوں کل ۰۰۰۳ افراد کو قریش مکہ سے قتل کرنے کے بعد مکہ میں امن ہو جائے گا۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام مدینہ میں

حضرت امام زمان علیہ السلام مدینہ آکر سب سے پہلے اپنی ماں جناب سیدہ زہراء علیہ السلام کی قبر کی نشان دھی کریں گے جناب سیدہ علیہ السلام پر ظلم و ستم کرنے والے افراد کی قبریں کھود کر انکی لاشیں باہر نکالیں ان کو زندہ کر کے انکے خلاف مقدمہ چلائیں گے اور انہیں پھانسی چڑھا دیں گے پس از اعدام ان کی لاشوں کو جلا دیں گے حضرت محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں آگاہ رہو کہ جب ہمارا قائم علیہ السلام قیام کرے گاتو ہر اس شخص کو جو مولا علی علیہ السلام کے مقابل جنگ کے لئے نکلا ہوگا تازیانے لگائیں گے اور پھر جناب زہراء علیہ السلام کا انتقام لیں گے۔

سرکار امام زمان علیہ السلام مدینہ میں تین دن تک جبت و طاغوت کے طرف داروں کو وعظ و نصیحت کریں گے ان لوگوں سے کچھ توان دونوں سے پیچھے ہٹ جائےں گے تیسرے دن جو لوگ ان سے منسلک رہیں گے وہ بادصرصر ،تیز اور ٹھنڈی ہوا کے چلنے سے تباہ و برباد ہوجائیں گے۔(الامام المہدی علیہ السلاممن المہد الاالظہور ص۱۴۵)(دلائل امامت طبری امامی ص۲۴۲) (بحارالانوار ج۲۵ ص۴۱۳)

مدینہ سے کوفہ روانگی

سرکار امام زمان علیہ السلام جب مدینہ سے کوفہ کی طرف حرکت کریں گے تو اپنے اصحاب و ہمرکاب لوگوں سے کہیں گے کوئی اپنے ساتھ زاد راہ خوراک و پانی نہ لے جائے یہ سب کچھ تمہیں سنگ موسیٰ کے ذریعہ مل جائے گا آپ کوفہ آکر وہاں پرایک گھر میں رکیں گے اپنے اہل بیت کو وہاں ٹھہرائیں گے یہ وہی گھر ہوگا جہاں حضرت نوح علیہ السلام کا گھر تھاامام زمان علیہ السلام کوفہ کو اپنی حکومت کا مرکز قرار دیں گے اپنے خاص اصحاب میں سے تین سوافراد کے لگ بھگ ساتھیوں کو دنیا کے مختلف علاقوں میں بھیجیں گے ہر ایک کے سینہ اور کندھوں پر آپ علیہ السلام ہاتھ ماریں گے تاکہ کسی بھی حکم وفیصلہ کرنے میں وہ عاجزوناتوان نہ ہوں آپ مسجد سہلہ کو بیت المال عدالت برائے فیصلہ جات اور مال غنیمت کی جمع آوری کی جگہ قرار دیں گے، شہر کوفہ کو اتنی وسعت دیں گے کہ کوفہ کربلا کے ساتھ متصل ہوجائے گاآپ کوفہ سے تین پرچم بردار لشکر دنیا کے تین علاقوں میں روانہ کرینگے وہ مقامات درج ذیل ہیں

۱۔قسطنطنیہ یہ آج کا ترکی ہے جو کہ یورپ کی کنجی اور گیٹ وے ( Geatway ) ہے جو لشکر یہاں جائے گا وہ اس راستہ سے یورپ میں داخل ہوجائے گا۔

۲۔ چین یہ مشرقی بلاک کے ممالک اور کمیونسٹوں پر مشتمل خطہ ہے ایک لشکروہاں جائے گا۔

۳۔تیسرا لشکرکوہائے دیلم کی طرف جائے گا جو ایران قفقار اور روس کے ممالک پر مشتمل ہے۔

دیگر معرکے

۱۔ مذکورہ بالا جنگوں کے علاوہ اور بھی کئی معرکے ہوں گے جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں ۔

۱۔عرب کے نامور اور سیاسی ومذہبی رہنماوں اور سرداروں سے معرکہ آرائی ہوگی اس لیے کہا گیا ہے کہ” علی العرب شدید“ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ معرکہ عرب کے نامور سرداروں وبادشاہوں سے لڑاجائے گا، پھر کہا گیا ہے کہ امام زمان علیہ السلام کو بھی عربوں سے وہی صورتحال پیش آئے گی جو جناب رسالتماب کو عرب جاہلوں سے پیش آئی تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت صورتحال کا سامنا ہوگا وہ قرآن کے سہارا سے آپ سے بحث و مناظرہ کریں گے گویا یہ مذہبی راہنما ہوں گے جن سے معرکہ آرائی ہوگی۔(بحارالانوار ج۳۵ ص۳۱)(کتاب چشم اندازی بحکومت مہدی علیہ السلام)

۲۔ بنو امیہ کے ساتھ معرکہ

دعائے ندبہ میں ہے کہ ”این الطالب بدم المقتول بکربلا “ کہاں ہے مقتول کربلا کے خون کا انتقام لینے والا“۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ قاتلان سید الشہداء علیہ السلام تو اس وقت نہیں ہوں گے پس امام زمان علیہ السلام ان سے کس طرح انتقام لیں گے تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”رضوا بفعل ابائہم “ یعنی اولاد بنی امیہ اپنے بڑوں کے اس فعل پر راضی ہیں یہی وہ اولاد بنو امیہ جو اپنے بڑوں کے راستہ پر ہیں اور قتل حسین علیہ السلام پر راضی ہوں گے ان سے انتقام ہوگا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر وہ شخص جو قتل حسین علیہ السلام پر خوش تھا یا آج خوش ہے اوراہل بیت علیہ السلام کاد شمن ہے وہ خون حسین علیہ السلام بہانے میں شامل شمار ہوگا اور اس سے انتقام خون لیا جائے گا۔

مثلاً مراکش،زنجبار( ایتھوپیا)، شام اور موصل میں اب بھی ایسے لوگ آ باد ہیں جن کو اباضیہ کہا جاتا ہے اور یہ دشمنئیِ اہل بیت علیہ السلام میں مشہور و معروف ہیں البتہ توبہ کرلینے والوں کو معاف کردیاجائے گا۔

۳۔ اہل کتاب کے ساتھ معرکہ

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان سے اتر آنے کے بعد اور ان کا حضرت امام زمان علیہ السلام کے ساتھ شامل ہو جانے کے بعد اہل کتاب پر حجت تمام ہوجائے گی اب اگر وہ اہل کتاب اپنے آپ کو امام زمان علیہ السلام کے تسلیم نہیں کریں گے تو پھر حضرت ان کے ساتھ کفار جیسا برتاو کریں گے

۴۔ بتریتہ کے ساتھ معرکہ

یہ زیدیہ کا ایک گروہ ہے جو کہ کوفہ میں ہوں گے اور آپ علیہ السلام سے کہیں گے کہ تم لوٹ جاو ہمیں اولاد فاطمہ علیہ السلام کی ضرورت نہیں ہے ان کی تعداد ۰۱ ہزار ہوگی یہ تمام کے تمام قتل ہو جائیں گے اور حضرت امام زمان علیہ السلام کاایک سپاہی بھی زخمی نہیں ہوگا۔

۵۔ باغیوں کے ساتھ معرکہ

جب امام زمان علیہ السلام مسجد کوفہ میں خطاب کرر ہے ہوں گے تو ایک بہت بڑا گروہ آپ علیہ السلام پر اعتراض کرتا ہوا مسجد سے نکل جائے گا جنکی تعداد کئی ہزار تک ہوگی حضرت انکا پیچھا کرینگے اور ان کو سزا دیں گے۔

۶۔ معرکہ شہر رمیلہ

آخری بغاوت جو حضرت امام زمان علیہ السلام کے خلاف ہوگی وہ رملہ میں”جو کہ فلسطین کا شہر ہے“ میں ہوگی جسے کچل دیاجائے گا۔

دنیا کی سب سے بڑی مسجد

پیغمبر اسلام کے بعد لوگوں نے بہت کم مدت مولا علی علیہ السلام اور امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے پیچھے نماز جماعت ادا کی اور باقی آئمہ علیہ السلام کو باجماعت نماز کرانے کا موقعہ میسر نہ آیا حضرت امام زمان علیہ السلام جمعہ کے دن نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے کوفہ کی جامع مسجد میں تشریف لائیں گے اور نماز ادا کریں گے آپ کے ساتھ باجماعت آپ کی امامت میں اداکی گئی نماز کا ثواب پیامبر اسلام کی اقتدا میں ادا کی گئی نماز کے برابر ہوگا۔دوسرے جمعہ لوگ آپ سے درخواست کریں گے کہ مسجد میں گنجائش کم ہے نمازی بہت زیادہ ہیں حضرت باہر صحرا میں چلے جائیں آپ نشان دہی کریں گے اور ایک بہت بڑی مسجد کی تعمیر کا حکم دیں گے ایک ایسی مسجد بنانے کا حکم دیں گے جس کے ایک ہزار دروازہ ہوگا اگر یہ مسجد مربع شکل کی ہوتو چاروں اطراف ۰۵۲ دروازہ ہر سمت ہوگا اس مسجد کی مساحت ۱۰,۶۲۷,۶۰۰ مربع میٹر ہوگی اور اس میں تقریباً پندرہ(۵۱) ملین افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہو گی ۔(کتاب الغیبت شیخ طوسیؒ ص۱۸۲) (مہدی علیہ السلام موعود ۷۱۱۱)

باب سوئم

اللہ کی مدد

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی آسمان سے آمد

روایات میں ہے کہ حضرت امام زمان علیہ السلام بیت المقدس سے شمال کی طرف رملہ میں سفیانی اور اس کے لشکر کو شکست دیں گے اور آپ کی حکومت میں یہ علاقہ بھی شامل ہوجائے گا تو باب لُد میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوجائیں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ایک بہت خوشگوار اثر ڈالے گی جس کی وجہ سے مسلمان آپس میں متحد ہوجائیں گے بلکہ بہت سے مسیحی بھی متفق ہوجائیں گے۔

(الامام المہدی علیہ السلامص۲۵۵) (صحیح مسلم جلد۲ ص۵۱) ( عصر ظہور علی کورانی ص۲۴۴)

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام ) کی اہمیت

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا آپ کی فتح و نصرت میں اہم اثر و کردار ہے کیونکہ :

۱۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک اولیٰ العزم نبی ہیں اور صاحب کتاب آسمانی ہیں ۔

۲۔ وہ ایسے فرد ہیں جو بغیر باپ کے اس دنیا میں آئے اور بوقت ولادت گفتگو فرمائی اور ولادت کے وقت سے ہی اعلان نبوت فرمایا ۔

۳۔ ان کی امت کی تعداد پورے جہان میں دس ارب سے زیادہ ہوگی ۔

۴۔ پوری دنیا میں تقریباً ۰۹ ممالک مسیحی ہیں جو کہ اکثریت رکھتے ہیں ۔

۵۔ مسیحوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہت زیادہ اور غیرمعمول محبت ہے اور اسی شدت محبت کی وجہ سے انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصاویر کو کلیساوں میں لگا رکھا ہے۔حضرت مسیح علیہ السلام جب آسمان سے زمین پر نازل ہوں گے تو دو فرشتے دائیں اور دو ان کی بائیں طرف ساتھ ساتھ ہوں گے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم پر بوقت نزول دوہی کپڑے ہوں ان کے بالوں سے مثل موتیوں کے پانی کے قطرے گریں گے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد صبح کی نماز حضرت امام زمان علیہ السلام کے پیچھے نماز ادا کریں گے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب سے سرکار امام زمان علیہ السلام کی پیروی کی وجہ سے پوری دنیائے مسیحیت سرکار امام زمان علیہ السلام کے تابع ہوجائے گی۔

حضرت امام زمان علیہ السلام تورات وانجیل کی تختیاں غار انطاکیہ سے باہر نکالیں گے اس وقت کے تمام یہودی تورات کو دیکھتے ہی خود کو آپ کے تسلیم کردیں گے روایت ہے کہ اس تورات کو دیکھتے ہی ۰۳ ہزار یہودی شیعہ ہوجائیں گے آپ دیگر ادیان کے پیروکاروں میں مبلغ بھیجیں گے تاکہ انہیں صحیح دین اسلام سکھایا جاسکے۔

زمانہ ظہور میں شیطان کا انجام

سرکار امام زمان علیہ السلام کے ظہور پر نور سے کہ جس کی وجہ سے پوری دنیا بقعہ نوربن جائے گی اس وقت سب سے دلچسپ اور قابل دید حالت شیطان اور اس کے ہمکاروں کی ہوگی چونکہ شیطان بوجہ تکبر بارگاہ رب العزت سے نکالا گیا تھا اور اس نے خداوند کریم سے مہلت مانگی تھی قرآن کریم اس مہلت کا تذکرہ اس طرح کرتا ہے۔ ”( قال رب فانظرنی الی یوم یبعثون o قال فانک من االمنظرین،الی یوم الوقت المعلوم ) “۔ (سورئہ حجر ۶۳تا۸۳)شیطان نے کہا! اے خدایا مجھے اٹھانے کے وقت تک مہلت دے ارشاد خداوندی ہوا کہ تجھے وقت معلوم تک مہلت ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شیطان صوراسرافیل پھونکے جانے تک زندہ رہے گا کیونکہ جس وقت تک انسان مکلف ہے شیطان زندہ رہے گا تاکہ گمراہی کی کوشش کرتا ہے اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیطان نے تو تقاضا کیا مگر اس کے تقاضا کے مطابق اللہ نے مہلت نہیں دی بلکہ اللہ نے وقت معین تک اسے مہلت دی۔

بعض آراءکے مطابق شیطانزمان علیہ السلامہ رجعت تک زندہ رہے گا، اس بارے ابن عباس کی روایت ہےزمان علیہ السلامہ رجعت میں رسول خدا تشریف لائیں گے اور شیطان کو حربہ کے ذریعہ قتل کریں گے۔

اس روایت کے بارے یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ ابن عباس نے روایت اہل تسنن کی وجہ سے بصورت تقیہ یہ بات کی ہے۔

سید علی بن عبدالحمید نے اپنی کتاب انوار المضیئہ میں اپنی سند کے ساتھ اسحاق بن عمار سے نقل کیا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ شیطان سے خداوند کریم نے فرمایا کہ:

فانک من المنظرین الی یوم الوقت المعلوم “ یہ وقت معلوم کب آئے گا آپ نے فرمایا یہ وقت معلوم ہمارے قائم کے قیام کادن ہے۔جب سرکار امام زمان علیہ السلام آمادہ قیام ہوں گے آپ مسجد کوفہ میں ہوں گے شیطان اس وقت زانوں پر یعنی گھنٹوں کے بل چلتا ہوا وہاں آئے گا اور کہے گا کہ ہائے آج بہت خطرہ ہے ہمارا قائم اس کے پیشانی کے بالوں سے پکڑے گا اور اس کی گردن اڑا دے گا وہ ہی وقت، وقتِ معلوم ہوگا کہ جب شیطان کو دی گئی مدت ختم ہوجائے گا۔

بعض تفاسیر میں سورئہ حجر بارے تفسیر کرتے ہوئے شیطان کے انجام تک پہنچنے کو عصر ظہور امام زمان علیہ السلام بیان کیا ہے ان کے بقول کہ کیا ممانعت ہے کہ پوری دنیا صالح ہوجائے گی جب شیطان ختم ہوجائے گا کہ ”( ان الارض یرثها عبادی الصالحون ) “۔ (سورئہ انبیاء علیہ السلام ۵۰۱)

یہ مفسرین مزید کہتے ہیں کہ شیطان کے وجودکا لازمہ گناہ ہے اور یہ بات اس حوالہ سے درست بھی ہے اور اس کی دلیل یہ آیت مبارکہ ہے کہ ”( الم اعهدالیکم یابنی آدم ان ل اتعبدو االشیطان ) “ (سورئہ یس ۰۶)

یعنی اگر شیطان نہ ہوتا تو لوگ گناہ نہ کرتے لیکن شرعی تکالیف کی بقاءکا لازمہ نہیں ہے کہ شیطان کا وجود باقی رہے تاکہ اس وجہ سے یہ کہا جا سکے کہ جب تک انسان باقی ہے شیطان بھی باقی رہے یہ لازم نہیں ہے بلکہ یہ غلط خیال ہے۔ (مہدی علیہ السلام موعود ص۶۳۱۱)

کامیابی کے اسباب

سرکار امام زمان علیہ السلام کی حکومت جہانی اور دین اسلام کی برتری یہ موضوع قابل بررسی و گفتگو ہے ہم اس بحث میں آپ علیہ السلام کی حکومت کی کامیابی کے اسباب وعوامل کا جائزہ لیں گے۔

۱۔ آپ کی کامیابی کی سب سے اہم وجہ و سبب یہ ہے کہ آپ کا ظہور ارادہ خداوندی ہے تاریخ اس کی شاہد ہے کہ خداوندکریم نے اصحاب فیل کے ساتھ کیا سلوک کیا، یا دریا نیل میں فرعونیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا، اگرچہ آپ کے تمام کام معجزات نہیں ہوں گے البتہ بہت زیادہ امور میں آپ معجزہ سے استفادہ کریں گے۔

۲۔ آسمان سے آواز کا آنا اور پھر اسکے ساتھ ہی آپکا کعبہ سے خطاب جو کہ بہت زیادہ جوش و جذبہ دے گا اور تمام انسان حضرت کے اس خطاب کو اپنی اپنی زبان میں سنیں گے اور سمجھیں گے۔

۳۔ ہر نبی اپنےزمان علیہ السلامہ کے حالات کے مطابق معجزہ ساتھ لایا اسی طرح جب سرکار امام زمان علیہ السلام کا ظہور ہوگا تو وہزمان علیہ السلامہ علم و ہنر کازمان علیہ السلامہ ہوگا، حضور ایسا علم لائیں گے جو کہ اس وقت دنیا کے علم سے کئی گنا زیادہ ہوگا اور آپ کا علم اس وقت کے تمام دانشمندوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دے گا۔

۴۔ چونکہ سرکار امام زمان علیہ السلام امام معصوم اور توکل و تکیہ بر خدا کرتے ہیں اس لئے لوگ آپ سے مطمئن ہوں گے اور آپ کی اطاعت کریں گے۔

۵۔ اللہ تعالیٰ نے سرکار امام زمان علیہ السلام کی مدد بذریعہ رعب کی ہے آپ ”المنصور بالرعب“ ہیں آپ کے ظہور کے ساتھ ہی فرشتے ستم گروں کے دلوں میں آپ کا رعب ڈال دیں گے یہی رعب آپ کی کامیابی کا سبب ہوگا۔

۶۔ آپ کو آ ہنی عزم کے مالک اصحاب اور مخلص جانثار میسر ہوں گے اس طرح کے اصحاب امام حسین علیہ السلام کے بعد کسی کو میسر نہیں ہوئے۔

۷۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے آجائیں گے اور آپ کی نصرت کریں گے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد آپ کے لیے کامیابی کا سبب ہے ۔

۸۔ قوت ملکوتی آپ کے ہمراہ ہوگی مثلاً جبرئیل علیہ السلام آپ کے حکم پر ظالموں کی بربادی کے لئے زمین کو زلزلہ میں ڈال دیں گے یہ نصرت و مدد آپ کی کامیابی و کامرانی کا اہم سبب ہوگا۔(مہدی علیہ السلامموعود ص۹۱۱۱)(خرائج راوندی)