موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن0%

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف: شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26472
ڈاؤنلوڈ: 3214

تبصرے:

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 62 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26472 / ڈاؤنلوڈ: 3214
سائز سائز سائز
موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف:
اردو

باب چہارم

حضرت امام زمان علیہ السلام(علیہ السلام) اور اصلاحات

حضرت امام مہدی(علیہ السلام) اور اختلافات

حضرت امام مہدی علیہ السلام نسلی و قومی اختلافات کو ختم کردیں گے کالے اور گورے سرخ اور زرد انسان آپ کے لئے برابر ہوں گے کوئی کسی پر فوقیت نہیں رکھے گا لوگ آزاد ہوں گے کہ جس لب ولہجہ اور زبان میں بات کریں لیکن یہ بات بعید نہیں ہے کہ آب عربی کو رائج کریں گے چونکہ عربی اسلام قرآن اور اہل بہشت کی زبان ہے اس لیے اس کو تمام اقوام کی زبان قرار دیاجائے گا۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام اور عقل و سلیقہ کا اختلاف

روایات میں ہے کہ آپ لوگوں کے سروں پر ہاتھ پھیریں گے تو تمام لوگوں کا عقل کامل ہو جائے گا اور جس کی وجہ سے لوگوں میں حق گوئی اورحق شناسی زیادہ ہوجائے گی اور لوگ تعصب اور جہالت سے نکل جائیں گے آپ لوگوں کو عقل وفہم کے مطابق مرتبہ ودرجہ دیں گے جو زیادہ عقل وفہم رکھتا ہوگااس کی طرف آپ کی توجہ زیادہ ہوگی۔(بحارالانوار ج۲۵ ص۸۲۳)

حضرت امام مہدی علیہ السلام اور دینی و سیاسی اختلافات

آپ علیہ السلام کے ظہور کے بعد دنیا کے تمام لوگ آئین تشیع قبول کرلیں گے چونکہ لوگوں کی عقل سے پردے ہٹ جائیں گے ان میں عقل و فہم ایجاد ہوجائے گی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی وجہ سے تمام اہل کتاب اور دیگر مسلمان مشرف باتشیع وآئین تشیع ہوجائیں گے بقول قرآن کریم ”وان من اہل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ“۔ (سورئہ نساء۹۵۱)کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہے کہ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان تمام کو امام زمان علیہ السلام کی پیروی کا حکم دیں گے جسکے نتیجہ میں تمام اہل کتاب مشرف بااسلام ہو جائیں گے۔

سرحدیں ختم ہوجائیں گی اور پوری دنیا حکومت جہانی امام زمان علیہ السلام کی اتباع کرے گی حضرت ان پر باخبر اور بابصیرت حکام مقرر کریں گے جو ان کی فریاد سنیں گے جس کی وجہ سے تمام اختلافات ختم ہوجائیں گے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام اور فسادی لوگ

وہ فسادی لوگ جو کسی طرح بھی عقل کی اتباع نہیں کریں گے اور تعصب اور عناد کو نہیں چھوڑیں گے حضرت امام زمان علیہ السلام سرکار اپنی تلوار کے ساتھ انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔

حضرت امام زمان علیہ السلام اور اہل سنت

حضرت امام زمان علیہ السلام جب دشمنان سیدہ زہراء علیہ السلام کو زندہ کریں گے اور ان کا احتساب ومحاکمہ کریں گے تو حق لوگوں پر واضح ہو جائے گا اور دشمنان سیدہ زہراء علیہ السلام کا کردار لوگوں پر واضح ہوجائے گا بالخصوص وہ لوگ جو دنیا میں ان دشمنان زہراء علیہ السلام کی پیروی کرتے رہے ہیں ان پر حقیقت واضح ہو جائے گی اس وقت آپ حکم دیں گے کہ ان کو قبروں سے باہر نکالا جائے اور ایک پرانے اور بوسیدہ درخت کے ساتھ جو کہ خشک ہوگا انہیں پھانسی دے دی جائے گی تو وہ درخت فوری طور پر سرسبز اور شاداب ہوجائے گا۔ اس وقت لوگ دوحصوں میں تقسیم ہوجائیں گے ایک گروہ ایسا ہوگا کہ جو آپ سے کہے گا کہ ہم آپ سے اور آپ کے پیروکاروں سے بیزار ہیں ، اس وقت آپ کالے بادلوں کو حکم کریں گے جو ان کو اٹھا کر ایسے بکھیر دیں گے جیسے پرانے کھجور کے ریشے ہوں پھر دشمنان زہراء علیہ السلام کو سولی سے اتار ا جائے گا اور انہیں زندہ کردیاجائے گا ان کا محاکمہ ہوگا اور وہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں گے تو انہیں پھر سولی پر لٹکا دیا جائے گا اورانہیں آگ لگا دی جائے گی ان کی راکھ کو بذریعہ ہوا دریاوں میں پھیلا دیا جائے گا۔(مہدی علیہ السلام موعود ص۰۶۱۱)

حضرت امام مہدی علیہ السلام اور طبقاتی اختلاف

آپ فقرو تنگدستی کو دنیا سے ختم کردیں گے اس وقت کوئی انسان بھوکا اور غریب نہیں رہے گا بلکہ ہر آدمی آرام و سکون اور آسائش کی زندگی اور خوشبختی کی زندگی گزارے گا آپ طبقاتی اختلاف کو بہت حد تک کم کردیں گے لیکن نجی مالکیت کو جو کہ اسلام کا فطری فیصلہ ہے آپ اسے برقرار رکھیں گے۔یعنی نجی ملکیت کا قانون ختم نہ ہوگا۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کا مجرموں ، جاہلوں اور فاسقوں کے ساتھ برتاو

آپ ایسے مجرموں کو جو قابل اصلاح نہیں ہیں انہیں موت کا حکم سنائیں گے چھوٹے مجرموں اور فاسقوں کو توبہ کرائیں گے اور انہیں تزکیہ نفس پر آمادہ کریں گے اور ایسے نادان جو پوری دنیا میں اسلام کے نام لیوا تھے ان سے نہایت مہربانی اور محبت کے ساتھ پیش آئیں گے اور ان پر اپنے خالص شیعوں کا حکم لگائیں گے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام اور اچھے انسان

جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ ”( اِنَّ اکرمکم عنداللّٰه اتقٰیکم ) “ (سورئہ حجرات)

آپ اچھے انسانوں کومزید بلندی اور عزت دیں گے بالخصوص وہ لوگ جو بلند درجات رکھتے ہیں انہیں زمین پر حاکمیت دیں گے اور وہ لوگ جو کچھ نچلا درجہ رکھتے ہیں انہیں کلیدی عہد ے دیں گے البتہ تمام لوگوں کا ماہانہ معاوضہ اور وظیفہ ایک جیسا ہوگا اور وہ بیت المال سے ہوگا۔

این آہ دل

کاری آخر می کند این آہ دل

گربہ یادی مدّتی شد مشتغل

بی دل و بیمار و بی طاقت شدم

گربمیرم از فراقش یحتمل

ساقیا! می دہ بہ یاد مہدیم

بند بندم راز ہم کن منفصل

برمشامم بویی از یوسف رسید

وزپی آن مژدہ ھای متّصل

می رسد از رہ بشیر و پیرھن

می کند ما رابہ کویش منتقل

اَیُّهَا اَلا ح بَابُ قُومُوا فَان دُبُوا

وَاَط لُبُوا اَلمَه دِی بِدَم عٍ مُن هَمِل

جستجویی آخر از مہدی کنید!

در کجایی مہدی! ای محبوب دل؟

ای طبیب عشق! فریادم برس!

بین مرا از پای تاسر مشتعل

یٰا شَفٰاء اَلقَل ب یَاب نَ العَس کَرى

لَی سَ جُر حِى یَا طَبِیِبى یَن دَمِل

آرزو دارم ببینم روی تو

گرچہ ہستم از رخ ماہت خجِل

یک نگاہ از لطف تو مارا بس است

ہست چون بر صد کرامت مشتمل

ای گل نرگس! بہ حقّ مادرت

فاطمہ، مارا بکش از آب وگل

(دیوان گنجینہ گوھر)

لِکُلِّ اُنٰاسٍ دَو لَة یَر قُبُونَهٰا

وَدَو لَتُنٰا فی اٰخِرِ اَلذَّه رِ یَظ هَرُ

( اِنَّ اَلا ر ضَ لِلّٰهِ یُورِثُهٰامَن یَشٰاء مِن عِبٰادِهِ وَاُل عٰاقِبَةُ لِل مُتَّقینَ ) “۔

”یہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے ، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے وہ مالک بنا دے اور اخیر کامیابی ان ہی کی ہوتی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں “۔(اعراف ۸۲۱)

فصل نہم

آخری حکومت

تحریکیں حکومت کے نام

حکومت الٰہی کا قیام

چھ انوکھے کام

حکومت کی مدت

باب اول

تحریکیں

ارشاد امیرالمومنین علیہ السلام ہے کہ ”افلح من نهض بجنٰاحٍ اواستسلم فا راح “(نہج البلاغہ خطبہ ۵ ص۷۵)

وہ فلاح پاگیا کہ جس نے قیام کیا اپنے پروں کے ساتھ یا پھر تسلیم ہوا تو وہ آسودہ حال ہوگیا نہضت کا لغوی معنی اٹھنا ہے حرکت کرنا جنبش لینا ہے اور اصطلاح میں نہضت کا معنی ہے اپنے سیاسی یا اجتماعی اغراض تک پہنچنے کے لئے قیام کرنا۔

یہاں ہماری بحث دینی تحریکوں اور بالخصوص امام زمان علیہ السلام کی تحریک بارے ہے۔البتہ اس بحث میں داخل ہونے سے پہلے ہم کچھ اشارہ انبیاء علیہ السلام و اولیاء علیہ السلام کے قیام کی طرف کریں گے۔

۱۔ (بعثت کا معنی اٹھنا ہے جس کا معنی خداوند کی جانب پیغمبر کامبعوث ہونا ہے اگرچہ تمام انبیاءعلیہ السلام اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے۔ لیکن سب انبیاء علیہ السلام صاحب شریعت نہیں ہیں ۔ یعنی سب اولوالعزم پیغمبر نہیں ہیں ، بعض پیغمبر ایک قبیلہ کے لئے تھے اور بعض ایک علاقہ کے لئے تھے۔ ان کی ذمہ داریاں اولوالعزم پیغمبروں جیسی نہ تھیں(مصنف) بعثت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کا اپنےزمان علیہ السلامے کے متکبر اور طاغوت (رامس دوئم) فرعون کے خلاف قیام جس کی بنا پر آپ نے اسے اور اس کے لشکر کو برباد و فنا کردیا اور آپ نے اسرائیلی تمدن کی بنیاد رکھی۔

۲۔ طالوت کا سموئیل علیہ السلام نبی کی تائید سے جالوت جیسے طاغوت وسرکش حکمران کے خلاف قیام اور حضرت داود علیہ السلام کی مدد سے اسے قتل کیا اور اپنی حکومت تشکیل دی۔

۳۔ ذوالقرنین (کورش کبیر) جس کا قرآن میں اچھے الفاظ سے تذکرہ کیا گیا ہے انہوں نے ظلم و ستم کے خلاف بلکہ شرک کے خلاف اپنے قیام کے لئے لشکر کشی کی اور سلسلہ ہخا منشیاں کے سردار ٹھہرے ۔

۴۔ اگر چہ رسول کریم مکہ میں پیدا ہوئے اور اعلان رسالت بھی وہیں کیا مگر آپ نے اپنی تحریک کا باقاعدہ آغاز و قیام مدینہ سے کیا آپ نے بہت سی جنگیں لڑیں اور تقریباً اا(گیارہ) سال تک فتح مکہ کے بعد اپنی اسلامی تحریک کو دنیا کی دیگر جہات میں پھیلایا۔(آپ نے مدنی زندگی کے دوران چھوٹے بڑے ۰۷ معرکے دشمنوں کے خلاف لڑے)

۵۔ عثمان بن عفان کے قتل کے بعد لوگوں کی عمومی درخواست اور اصرار پر حکومت حضرت امیرالمومنین علیہ السلام علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام نے سنبھالی اور اپنے قیام کے لئے راہ ہموار، دیکھ کر آمادہ ہوئے کہ ایک بے نظیر عادلانہ اسلامی حکومت قائم کریں یہی وجہ ہے کہ جب آپ لوگوں سے بیعت لے چکے تو آپ نے فرمایا ”قمت بالامر“ میں نے امر کی بجاآوری کے لیے قیام کیا ہے اور آپ علیہ السلام نے اس وقت مدینہ کے ہر فرد کو تین سونے کے سکے دیئے آپ نے اپنے لئے اور حسنین علیہ السلام شریفین اور باقی بنی ہاشم اور اپنے خواص کے لئے بھی دوسروں کی طرح تین سکے ہی مخصوص کئے ہر ایک صاحب سکہ طلا ہوا۔(نہج البلاغہ خطبہ نمبر۵، ص۷۵)(ترجمہ فیض الاسلام)

امام زمان علیہ السلام کی عالمی تحریک اور قیام

آپ کی تحریک و قیام کی بنیاد اللہ کے فرمان پر مبنی ہے وہ تحریک مکہ سے شروع ہو گی جس کے آغاز میں ۳۱۳ ،افراد جو کہ سب کے سب برگزیدہ اور شائستہ فرد ہوں گے مدینہ اور عراق کے علاوہ تمام نقاط جہان میں پہنچیں گے اور امام زمان علیہ السلام اپنے طے شدہ طریقہ و پروگرام جو کہ ان کو علم ہے کے مطابق تمام دنیا کو فتح فرمائیں گے اور دجال کے قتل کے بعد تمام دنیا ہمیشہ کے لئے حضرت امام زمان علیہ السلام اور ان کے خانوادہ عصمت کے زیر اثر ہوجائے گی۔

حضرت امام زمان علیہ السلام کی تحریک کے بنیادی ارکان

آپ کی تحریک کے چار ارکان ہیں

۱۔ رہبر ۲۔ تحریک کے مقصد کا اجراء ۳۔ قانون اور پروگرام ۴۔بجٹ

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ظہور امام زمان علیہ السلام بارے وعدہ فرمایا ہے کہ ”( وعداللّٰهُ الذین امنوا منکم وعملواالصالحات یستخلفنهم فی الارض ) “۔ (سورئہ نور ۵۵)

جو لوگ ایمان لائے اور اعمال شائستہ بجالائے اللہ تعالیٰ کا ان سے وعدہ ہے کہ انہیں زمین پر اپنا جانشین و خلیفہ بنائے گا۔ہم اس جگہ اختصار کے ساتھ حضرت امام زمان علیہ السلام کی عالمی حکومت و تحریک کے ارکان بارے بحث کریں گے۔

۱۔ رہبری وقیادت

ہر تحریک کی کامیابی کےلئے رہبر کلیدی حیثیت رکھتا ہے اس عالمی حکومت و تحریک کی رہبری ایک معصوم رہبر کے پاس ہوگی جو علمی کمالات اور معنوی فضائل میں اور اخلاقی امور میں اعلیٰ و والا ہوں گے۔

۲۔ تحریک کے مقاصد کا اجراء

آپ کے اہداف کے جاری کرنے والے، ۳۱۳، اصحاب باوفا اور آہنی عزم جو کہ انتہائی مہذب اور خود سازی میں اعلیٰ مقام پر فائز ہوں گے اور کامل انسان ہوں گے جن کے ذریعے اجرائی کام ہوں گے مثلاً آپ کے لشکر کی کمانڈ منصف وجج اورگورنر یہی لوگ ہوں گے قرآن میں ان لوگوں کے اوصاف کا تذکرہ ہے۔

۳۔ آئین و قانون حکومت امام زمان علیہ السلام

آپکی عالمی حکومت کا آئین و قانون قرآن کی بنیادپر ہوگا جسکے معانی اور مفاہیم سے امام علیہ السلام آشناءہوں گے اسکے علاوہ تمام آسمانی اور زمینی علوم بارے سب سے زیادہ عالم وبا خبر ہونے کی وجہ سے اور آپ کا خالق کائنات سے مربوط ہونے کی بنا پر تمام بیش آمدہ مشکلات حل ہوتی جائیں گے۔

۴۔ بجٹ

آپ کی عالمی حکومت میں زمین اپنے خزانے آپ پر ظاہر کر دے گی بلکہ باہر نکال دے گی دوسری طرف آسمان سے رحمت خدا اورآسمانی برکات مثل بارش کے برسیں گی اس بارے امیرالمومنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ اسزمان علیہ السلامہ میں اگر ایک کسان دس سیر گندم یا چاول کاشت کرئے گا تو وہ اس سے سات سو گنا زیادہ حاصل لے گا مکہ اور مدینہ میں مسلسل کھجوروں کا بصورت باغات بار آور ہونا اور حضرت آدم علیہ السلام کےزمان علیہ السلامہ کی طرح ہر طرف قیمتی سبزوں کا اگ آنا اور زمین و آسمان میں دروازہ ہائے رحمت کاکھل جاناجس کی طرف سورئہ اعراف کی آیت نمبر۸۵۔۷۵ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ خرچ دفاع پر کیاجاتا ہے اس وقت ہر ملک کے بجٹ کا بہت زیادہ حصہ اس شعبہ پر خرچ ہوجاتا ہے آپ علیہ السلام کی حکومت میں یہ بجٹ حذف کرکے عوام کی ترقی اور فلاح پر صرف کیا جائے گا ہمارے اسزمان علیہ السلامہ میں بجٹ کے غلط طور طریقوں اور غلط استعمال کو آپ آکر ختم کر کے صحیح خطوط پر بجٹ تیار کریں گے اور دنیا میں مالی نظام کی تمام خرابیوں کی اصلاح کریں گے جس کی وجہ سے آپ کی عالمی حکومت کا بجٹ ایک مثالی بجٹ ہوگا۔

تحریک امام زمان علیہ السلام کا دیگر تحریکوں سے فرق

وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون “۔

” میں نے نہیں پیدا کیا جن اور انس کو مگر عبادت کے لئے“۔

۱۔ آپ کی حکومت ہمہ جہتی ہوگی آپ کی تحریک ، آپ کی حکومت مادی لحاظ اور تعلیم و تعلم کے اعتبار سے،پرورش اور تربیت کے لحاظ سے، عدالت و فیصلہ جات کے لحاظ سے، ان کا انداز حکومت اور روابط مثالی اور منفرد ہوں گے آپ کی حکومت میں علاج و معالجہ کی سہولت وافرمقدار میںہوگی میڈیکل کی سہولیات سب کے لئے یکساں ہوںگی۔

۲۔ آپ کی تحریک اور حکومت معنوی اور روحانی اعتبار سے بھی منفرد ہوگی مذہب حقہ کی ترویج ہوگی، راہ سیروسلوک الی اللہ واضح ہوگا آپ کی حکومت میں لوگوں کا ہدف مال و دولت حاصل کرنا نہیں ہوگا بلکہ ان کا ہدف معنوی کمالات کا حاصل کرنا ہوگا اور روحانی تکامل ان کا مقصد ہوگا لوگ قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہوں گے آپ کی حکومت میں تمام لوگوں کا مرکز عبادت و خداوند کی رضایت اور تقرب کا حصول ہوگا۔

۳۔ آپ کی حکومت اور تحریک عالمی ہوگی جوپوری کرہ ارض پر محیط ہوگی۔

۴۔ آپکی تحریک پائیدار اور مضبوط ہوگی اور ابدی وہمیشہ رہنے والی ہوگی چونکہ شیطان اور اسکا لشکر اور انسان و جن میں موجود شیاطین سب ختم ہوجائیں گے تمام ظالم حکمرانوں کا خاتمہ ہوگا۔

امام زمان علیہ السلام کی حکومت کے نام

آپ کی حکومت کے چند نام تحریر کئے گئے ہیں ہم ان میں سے کچھ ناموں کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

۱۔ حکومت کریمہ

یعنی آپ کی حکومت کا محور ومرکز کرامت و بزرگی ہوگا جیسے کہ مفاتیح الجنان کی ماہ رمضان میں پڑھی جانے والی دعائے اافتتاح میں درج ہے کہ ”اللهم انانرغب الیک فی دولة کریمة تعز بهاالاسلام واهله، وتذل بها النفاق واهله “۔ اے خدایا ہم سب ایک ایسی کریم حکومت کے مشتاق و خواہشمند ہیں کہ جس میں اسلام اور اہل اسلام عزت والے ہوں اور اس حکومت کی وجہ سے منافقین ذلیل وخوار ہوں گے۔(مفاتیح الجنان دعائے افتتاح)

۲۔ حکومت صالحین

یعنی صالح اور باکردار لوگوں کی حکومت قرآن مجید کی سورئہ انبیاء علیہ السلام میں ہے:”ان الارض یرثہا عبادی الصالحون“(انبیاءآیت ۵۰۱)” زمین کے وارث صالح بندگان خدا قرار پائیں گے“۔

۳۔ حکومت مستضعفین

آپ کی حکومت میںضعیف اور کمزور لوگوں کی حکمرانی ہوگی جیسا کہ قرآن مجید کی سورئہ قصص کی آیت نمبر ۵ میں ارشاد ہے ”( نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلهم اءمةً ونجعلهم الوارثین ) “(قصص آیت۵) ”ہم نے ارادہ کیا ہے کہ کمزور اور مستضعف لوگوں کو امام اور رہنما بنایں اور انہیں زمین کا وارث قرار دیں“۔

۴۔ حکومت حق

”للحق دولة وللباطل جولة “کے مصداق حکومت حق کے لئے ہے باطل کی صرف بھاگ ڈورہوتی ہے جن کی حکومت کو دوام ہے، باطل کی حکومت وقتی ہے۔

۵۔ آخری حکومت

آپ کی حکومت کے ناموںمیں سے یہ بہترین نام ہے ارشاد امیرالمومنین علیہ السلام ہے کہ:

لیس بعد ملکنا ملک لانا اهل العاقبة یقول اللّٰه عزوجل والعاقبة للمتقین “۔

ہماری حکومت کے بعد کوئی حکومت نہیں ہے کیونکہ ہم اہل عاقبت ہیں اور ارشاد خداوندی ہے کہ عاقبت متقیوں کے لئے ہے اور اسی طرح قرآن میں ہے کہ :

( ان الارض یرثها من یشاءمن عباده والعاقبة للمتقین ) “ (سورہ اعراف ۶۲۱)

پس بتحقیق جسے وہ چاہے اسے اپنے بندگان سے زمین کاوارث بنائے گا اور عاقبت متقین کے لئے ہے۔ ایک اور روایت میں امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں ’دولتنا اٰخِرُالدول ولم یبق اهل بیتٍ لهم دولة الا ملکوا قبلنا وهو قول اللّٰه ”عزوجل( والعاقبة للمتقین ) “۔

ہماری حکومت آخری حکومت ہوگی ہر خاندان کے لئے حکومت ہوگی جو کہ ہم سے پہلے حکومت کریں گے آخری حکومت ہماری ہوگی کیونکہ ارشاد خداوندی ہے کہ عاقبت و انجام متقیوں کے لیے ہے۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

لِئِلّٰا یقولوا اذٰا را واسیرتنا، اذ ملکنا سرنا مثل سِیرَةِ هﺅلاء “۔ (غیبت شیخ طوسی ص ۲۸۲)

ہم سے پہلے تمام گروہ حکومت کرلیں گے لیکن جب آخر میں ہماری حکومت کاانداز دیکھیں گے تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ اگر ہمیں حکومت ملتی تو ہم اسی طرح حکومت کرتے اوران کی (امام مہدی علیہ السلام) روش پر عمل کرتے۔

آخر میں ہم ایک شعر جو کہ آئمہ علیہ السلام کی طرف منسوب ہے تحریر کرتے ہیں ۔

لِکُلّ اُنَاسٍ دولةً یَرقُبُونها

وَ دولتُنا فی اَخِرِالدهریظَه ر

ہر گروہ اور جماعت کے لئے حکومت ہے جس کے وہ منتظر ہیں ، ہماری حکومت آخریزمان علیہ السلامہ میں ہوگی اور ظاہر ہوگی اوروہ آخری حکومت ہوگی۔

اب تک تحریر شدہ دلائل جو نقل کیے ہیں وہ سب آیات اورروایات سے ا خذکیے گئے ہیں اب ہم آپ علیہ السلام کی حکومت کے حوالے سے کچھ عقلی دلائل تحریر کرتے ہیں ۔

۱۔ عدالت، تمام بشریت کی ضرورت ہے اور ہرانسان عدالت کا محتاج اور غرض مند ہے ۔

۲۔ خداوند کریم نے زمین کو بغیر امام اور انصاف کرنے والے کے نہیں چھوڑ رکھا۔

۳۔ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ عدالت و انصاف کو قبول کرے اور تمام انسان اس وقت تک انصاف کو قبول نہیں کریں گے جب تک کہ ان کے لئے تمام انصاف کے دروازے بند نہ ہوجائیں اور پھر وہ اللہ سے عدل و انصاف کی فریاد کریں اور انصاف و عدالت سوائے ظہور امام علیہ السلام اور حکومت امام علیہ السلام کے ممکن نہیں ہے۔(غیبت شیخ طوسیؒ، ص۲۸۲)

آخری زمان علیہ السلامہ

آخریزمان علیہ السلامہ سب سے برازمان علیہ السلامہ ہوگا وہزمان علیہ السلامہ نافرمانی اور خودپسندی اور خود سری کازمان علیہ السلامہ ہوگا، وہزمان علیہ السلامہ بشر کی بدبختی کا آخریزمان علیہ السلامہ ہوگا، ظلم وجور سے کرہ ارض پر ہوگاہر طرف افراتفری کا عالم ہوگا، دہشت گردی عام ہوگی، لوگ عدل وانصاف کو ترسیں گے تو پھر خداوند عالم ایک امام عادل و منصف حاکم کو اذن ظہور دے گاتاکہ دنیا پر عدل و انصاف کی حکمرانی قائم کرے ۔

(من لایحضر الفقیہ)