موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن0%

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف: شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27148
ڈاؤنلوڈ: 3771

تبصرے:

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 62 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27148 / ڈاؤنلوڈ: 3771
سائز سائز سائز
موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف:
اردو

باب دوئم

خلیفة اللہ

زمین کا حجت خدا سے خالی نہ ہونا

اس میں کوئی شک نہیں کہ زمین ہرگز حجت خدا سے اور خلیفہ الٰہی سے خالی نہ رہی ہے اور نہ رہے گی اس ضمن میں قرآن مجید کی بہت زیادہ آیات وارد ہوئی ہیں کہ کچھ کا تذکرہ اور یاد آوری کرتے ہیں :

۱۔ ”( واذ قال ربک للملاءکة انی جاعل فی الارض خلیفه ) “۔(سورئہ بقرہ آیت نمبر۰۳)

ترجمہ:۔ ”جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر خلیفہ بناوں گا“۔

یہ خلیفہ حضرت آدم علیہ السلام نہیں تھے بلکہ جب تک انسانیت باقی ہے خلیفہ خدا ان کے درمیان موجود رہے گا زمین پر خلیفہ کی موجودگی لازم و ضروری ہے۔

۲۔ ”( فکیف اذاجئنامن کل امة بشهیدوجئنابک علی هو لاءشهیدا ) “۔

(سورئہ نساءآیت نمبر۱۴)

ترجمہ:۔ ”پس کیسا ہوگا ان کے لیے جب ہم گواہ قرار دیں ہر امت سے ان کے واسطے اور ان سب گواہوں پر گواہ قرار دیں یعنی انسان کی اولین پیدائش سے لے کرتاوقتیکہ انسان زمین پر سکونت پذیر ہے ہر امت پر ایک ایسا گواہ مووجود ہے جو اس امت کے اعمال کا شاہد ہے اور اے محمد آپ ان گواہان پر شاہد و ناظر دیکھنے اور نظر رکھنے والے ہیں “۔

۳۔ ”( اعلمو انما غنمتم من شی فان للّٰه خمسه، وللرسول ولذی القریٰ، والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل ) “۔(سورئہ انفال آیت نمبر۱۴)

ترجمہ:۔ ”جان لو کہ ہرقسمی منافع جو تمہیں حاصل ہو اس پر پانچواں(خمس) حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے اور رسول کے قرابت داروں میں سے ایک قریبی کے لیے، اور یتیموں اور مساکین ومسافروں کے لیے ہے“۔

وضاحت: اس آیت میں لفظ ”ذی القربیٰ“ آیا ہے جو کہ مفرد ہے اور یہاں ”ذی القربیٰ“ کا مقصد امام معصوم علیہ السلام ہے جو کہزمان علیہ السلامہ میں موجود ہے اور اس کا حصہ سہم امام علیہ السلام کے نام سے معروف ہے اور باقی جو سہم سادات کے نام سے موسوم ہے وہ اسی اولاد رسول سے یتامیٰ مسکینوں اور مسافروں کے لیے مخصوص ہے۔

۴۔ ”( انما انت منذرولکل قوم هاد ) “ ۔(سورئہ رعد آیت نمبر۷)

ترجمہ:۔ ”اے میرے پیامبر! تو خبردار کرنےوالا ہے ،ہرقوم کےلئے ہادی اور امام و رہبرموجود ہے ‘ ‘۔

اس آیت مبارکہ میں بھی مسلمہ حقیقت کا تذکرہ کیا گیا یعنی امامت ہر قوم و گروہ کو ہرزمانہ میں کمال انسانی تک رسائی حاصل کرنے کےلئے ایک ہادی جو اللہ کی طرف سے ہوکی ہمہ وقت ضرورت ہے۔

۵۔ ”( یوم ندعوا کل اناس بامامهم فمن اوتیٰ کتابه، بیمینه فاول ک یقرو ن کتابهم ولا یُظلمون فتیلا ) “۔(سورئہ اسراءآیت ۱۷)

ترجمہ:۔ ”اور اس دن جب ہم ہر گروہ کو ان کے پیشوا کے ساتھ پکاریں گے اور ہر وہ جس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا تو وہ اپنا اعمال نامہ پڑھیں گے اور ان کے ساتھ ذرہ برابر بھی ظلم نہ ہوگا“۔ اس آیت مبارکہ سے صراحتاً پتہ چلتا ہے کہ ہمیشہ پیشوا اور امام انسان کے ساتھ ہے کہ قیامت کے روز انسان اسی امام کے کیساتھ محشور ہوگا۔

۶۔ ”( واذ قال ابراهیم لابیه وقومه اننی براء مماتعبدون الاالذی فطرنی فانه سیهدین جعلها کلمة باقیة فی عقبه لعلهم یرجعون ) “ (سورئہ زخرف آیت نمبر۶۲،۸۲)

ترجمہ:۔ ”جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا! اپنے چچا سے (جسکو باپ کہا جاتا تھا) اورقوم سے میں بیزار ہوں اس سے جسکی تم پوجا کرتے ہو مگر جس نے مجھے پیدا کیا اور میری راہنمابھی وہی کرے گا(میں تو آپ کی عبادت کروں گا) “ ۔

اکثر مفسرین نے کلمہ ”باقیه فی عقبه “ کو ایک ہدایت کرنے والا انسان ذکر کیا ہے جو کہ ہمیشہ انسانوں کے درمیان موجود ہے اورتوحید کی منادی دے رہا ہے وہ نسل ابراہیم علیہ السلام سے ہے اور وہ دنیا کے اختتام تک باقی رہے گا۔

۷۔ ”( تنزل الملاءکة والروح فیهاباذن ربهم من کل امرسلام هی حتی مطلع الفجر ) “۔(سورئہ قدر آیت ۴۔۵)

ترجمہ:۔”رب العزت کے حکم سے اس رات فرشتے اور روح ہر امر کے لیے نازل ہوتے ہیں تا طلوع صبح سلام ہے“۔ فرشتے اور روح کس پر نازل ہوتے ہیں ؟اور کس امر کےلئے نازل ہوتے ہیں ؟ سلام کس پر ہے؟ اور صاحب شب قدر کون ہے؟۔(لفظ ”الفجر“ کے عدد بحساب ابجد ۴۱۳ بنتے ہیں حضرت امام مہدی علیہ السلام اور آپکے ۳۱۳ ناصران مل کر ۴۱۳ بنتے ہیں اس طرح روح ایک ایسا موجود ہے جو سب فرشتوں سے بلند ہے اسے روح اعظم بھی کہاجاتا ہے اور یہ جبرئیل علیہ السلام جن کا لقب روح الامین ہے اسکے علاوہ ہے) اس طرح سورئہ دخان میں ہے کہ ”( فیها یفرق کل امرٍ حکیم ) “ (سورئہ دخان آیت۴)” ہر امر محکم اس رات مشخص ومعین ہوجاتاہے ، یعنی غیر واضح اور مجمل امور اس رات (لیلة القدر) میںکھل جاتے ہیں “مثلاًمجمل ہے کہ آئندہ سال ایک ہزار نفر اس شہر میں وفات پائیں گے اس رات (لیلة القدر) میں یہ طے ہوجاتا ہے کہ وہ ایک ہزار نفر کون ہیں اور انکے کیا نام ہیں تفسیر نور الثقلین میں ۳۱ روایات نقل کی گئی ہیں کہ صاحب لیلة القدر یعنی شب قدر کے مالک سرکار امام زمان علیہ السلام ہیں کہ فرشتے آپ پر نازل ہوتے ہیں اور طلوع فجر تک مسلسل آپ پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔(نورالثقلین ج۴ص۲۱۶،۳۴۶)

حضرت امام زمان علیہ السلام کی معرفت بارے مشہور حدیث

من مات ولم یعرف امام زمان علیه السلامه مات میتة الجاهلیة “۔ (بحارالانوار ج۸ص۸۶۳)

جواپنےزمان علیہ السلامہ کے امام معصوم علیہ السلام کی معرفت حاصل کیے بغیر مرگیا گویا وہ جاہلیت کی موت مرگیا، ایک اور حدیث صحیح میں آیاہے ، حارث بن عفیرہ سے مروی ہے کہ میں نے اباعبداللہ سے پوچھاکہ کیا پیغمبر نے فرمایا ہے کہ جو معرفت امام زمان علیہ السلام کے بغیر مرگیا وہ جاہلیت کی موت مرا؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں، میں نے پوچھا کہ جاہلیت سے مراد مطلق نادانی و جہالت ہے یا وہ جاہلیت جو امام علیہ السلام کی عدم شناخت کا سبب ہو تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: جاہلیت سے مراد جاہلیت نفاق اور گمراہی ہے۔

(مکیال المکارم ج۱ص۴۱)

عبداللہ بن عمر کا حجاج کے پاس بیعت کے لئے حاضر ہونا

ایک اور مقام پر نقل ہے کہ جب حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر کوتختہ دار پر لٹکادیا تو عبداللہ بن عمر ایک رات تاریکی میں حجاج بن یوسف کے پاس آیا اور کہا کہ اپنا ہاتھ آگے کرو میں عبدالملک کی بیعت تمہارے ہاتھ پر کرنا چاہتا ہوں کیونکہ رسول اکرم نے فرمایا: کہ جس نے معرفت امام زمان علیہ السلام حاصل نہ کی اور مرگیا تو گویا جاہلیت کی موت مرا، حجاج نے اپنے ہاتھے کی بجائے اپنا پاوں آگے کردیااور کہا کہ بیعت کرو، عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میرے ساتھ مذاق کرتے ہو، حجاج نے کہا کہ اے بنی عدی کے احمق! کیا علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام تیرے وقت کا امام نہ تھا تو نے اس کی بیعت کیوں نہ کی، آج میرے پاس حدیث لے کر آگئے ہو اورسنا رہے ہو خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ تُو حدیث کی وجہ سے نہیں بلکہ عبداللہ بن زبیر کا انجام دیکھ کر میرے پاس آیا ہے کہ تم اسے دار پر لٹکا دیکھ کر آئے ہو۔(الکنی والالقاب ج۱ص۳۶۳)

حدیث معرفت امام زمان علیہ السلام سے مراد

یہ حدیث جو کہ شیعہ و سنی دونوں کے نزدیک متفق علیہ ہے اس کے دو پہلو بنتے ہیں اور یہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہے ۔

۱۔ اس میں امام سے مراد حکام وخلفاءحکمران ہیں مثلاً عبدالملک، منصور، ہارون مامون و متوکل وغیرہ مراد ہیں ، تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ حکمران ظالم اور ستمگر تھے اور خداوند عالم رتبہ امامت بارے فرماتا ہے:”( لاینال عهدی الظالمین ) “ ۔ (سورئہ بقرہ آیت ۴۲۱)

ترجمہ:۔ ”یہ عہدہ امامت کسی ظالم کو نہیں دوں گا “ پس کس طرح انہیں امام قرار دیا جاسکتا ہے ۔

۲۔ امام سے مراد آئمہ معصومین علیہ السلام جو امیرالمومنین علیہ السلامسے حضرت امام مہدی علیہ السلام تک ہیں اور اس دور میں جس امام علیہ السلام کی معرفت ضروری ہے، وہ سرکار امام مہدی علیہ السلام کی ذات اقدس ہے اور یہی دوسری مراد ہی آیات و روایات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔

حضرت اما م مہدی علیہ السلام اور اہل بیت علیہ السلام اطہار آیات وروایات کی روشنی میں

قرآن مجید میں بہت زیادہ آیات ایسی ہیں جو جملہ آئمہ معصومین علیہ السلام کی امامت اور بالخصوص امام زمان علیہ السلام مہدی علیہ السلام کے بارے بیان کی گئی ہیں جن میں سے کچھ آیات کی طرف اشارہ کریں گے۔

۱۔ ”( فلا اقسم بالخنس الجوارالکُنس ) “۔(سورئہ تکویر ۵۱۔۶۱)

ترجمہ: ”قسم ہے ستاروں کی جو حرکت کرتے ہیں اور چھپ جاتے ہیں “حضرت امام محمدباقر علیہ السلام فرماتے ہیں ”ایک امام جو کہ ۰۶۲ ہجر ی میں پردہ غیبت میں چلا جائے گا اور پھر ایسے ستارہ کی مانند جو تاریک رات میں روشن ہوجائے ظاہر ہوگا، حضرت راوی کوحدیث بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں جب تم اس کےزمان علیہ السلامہ کو پاو گے تو تمہارے آنکھیں روشن ہوں گی“۔(تفسیر برہان ج۲،ص۴۲۲)

۲۔ ”( والسماءذات البروج ) “۔(سورئہ بروج آیت ۱)

ترجمہ:۔” آسمان کی قسم کہ جو باعظمت اور بلند و بالا برجوں کا حامل ہے“ رسول اکرم فرماتے ہیں کہ ذکر خدا افضل ترین عبادت ہے اسی طرح میرا ذکر عبادت ہے اور میرے بھائی علی علیہ السلام کا ذکر بھی عبادت ہے اور اسکے آئمہ معصومین علیہ السلام بیٹوں کی یاد عبادت ہے، ان آئمہ علیہ السلام برحق کی تعداد بھی سال کے مہینوں جتنی ہے یعنی بارہ ہیں ، وہ تعداد میں موسیٰ علیہ السلام کے نقیبوں کے برابر ہیں یعنی بارہ ہیں اسکے بعد حضرت نے مندرجہ بالاآیت تلاوت کی پھر فرمایا :آسمان سے مراد میں ہوں اور برجوں سے مراد میرے بعد آئمہ علیہ السلام برحق ہیں جن میں سے پہلے علی علیہ السلام اور آخری مہدی علیہ السلام ہیں “۔(تفسیر البرہان ج۱ص۰۵۲)

۳۔ ”( الفجر o ولیال عشرٍ o والشّفع والوتر o واالیل اذایسر o ) “۔ (فجر ۱تا۶)

ترجمہ:۔ ”صبح روشنی بخشیدہ کی قسم،دس راتوں کی قسم، جفت و طاق کی قسم اور اس رات کی قسم جو صبح روشن میں بدل جائے گی“۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :”الفجر“ سے مراد فجر قائم علیہ السلام ہے اور” لیال عشر“ سے مراد حضرت امام حسن”علیہ السلام“ سے لے کر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام تک ۰۱ آئمہ طاہرین علیہ السلام ہیں ”والشفع“(جفت) سے مرادمولیٰ امیرالمومنین اور جناب سیدہ فاطمة الزہراء علیہ السلام ہیں ”والوتر“ سے مراد خداوند واحد واحد ہے کہ جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ”واللیل اذیسر“ وہ رات ہے جو ختم ہونے والی ہے یہاں حکومت جبر (آخری غاصب خلافت اہل بیت علیہ السلام ) کی ہے جو سرکار امام زمان علیہ السلام کی حکومت الٰہیہ کے قیام تک ہوگی۔(تفسیر برہان ج۱ص۶۷۲)

۴۔”( والشمس وضحاهاوالقمراذاتلاهٰاوالنهاراذاجلاها، والیل اذا یغشاهٰا ) “( شمس ۱ تا۴)

ترجمہ:۔ ”سورج کی قسم اور اس کی درخشندگی کی قسم، چاند کی قسم جب وہ چمک رہا ہو، دن کی قسم کہ جو تاریکی کو ختم کردیتا ہے اور دنیا کوروشن کردیتا ہے اور رات کی قسم کہ جب وہ دنیا کو پردہ تاریکی میں ڈھال دیتی ہے“۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:”یہاں سورج سے مراد رسول خدا ہیں اور چاند سے مراد حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ، دن کی قسم سے یہاں آخر الزمان علیہ السلامجو کہ ذریت سیدہ زہراء علیہ السلام سے ہے کہ ظلم وجور کی تاریکی کو ختم کردے گا اورجہاں کو روشن کرے گااور رات سے مراد یہاں آئمہ ظلم وجور(یعنی جھوٹے امام مراد ) ہیں ۔(تفسیر برہان ج۱ص۷۹۲)

شیعہ اور سنی کتب میں آئمہ علیہ السلام اور بالخصوص امام زمان علیہ السلام کی امامت حقہ بارے کچھ روایات نقل ہیں اور خصوصاً امام مہدی علیہ السلام بارے شیعہ وسنی تقریباً ۶ہزار حدیثیں موجود ہیں جن میں سے ۴سو احادیث سنی کتب میں درج ہیں اور ان چار سو احادیث میں سے ۰۷۲ احادیث اہل سنت کی معتبر ترین کتب میں درج ہیں مثلاً صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ترمذی، سنن ابن داود، سنن ابن ماجہ وغیرہ مسندحنبل ومستدرک میں احادیث وارد ہیں مزید تشریح کے لیے آیت اللہ صافی کی کتاب منتخب الاکثر کی طرف رجوع کیا جاسکتاہے۔آیت اللہ ناصری مجلہ موعود(نشریہ نمبر۶۳سال۶) میں تحریر فرماتے ہیں کہ اہل سنت کی طرف سے امام مہدی علیہ السلام کے حوالہ سے ۲۰۲ کتب اب تک ضبط تحریر میں آ چکی ہیں اور مکتب تشیع کی طرف سے (۰۰۰۲) دو ہزار کتب سرکار امام زمان علیہ السلام پر تحریر کی جاچکی ہیں جس میں سرکارامام زمان علیہ السلام کا مکمل تعارف نامہ ،پتہ، ماں باپ و دیگر حوالہ جات کی معرفی کی گئی ہے ۷۰۲ قرآنی آیات اور ۷۰۲۶ روایات و احادیث سرکار امام زمان علیہ السلام کے بارے وارد ہوئی ہیں ۔

باب سوئم

اللہ کا اٹل ارادہ

اٹل وعدہ

خداوند مہربان نے ابتداءتخلیق دنیا وجہان سے جب سے اس نے انسان کو زمین پر پیدا کیا ساتھ ہی اپنے پیامبروں کا سلسلہ جاری کردیا تاکہ وہ انسانوں کو راہ ہدایت دکھاتے رہیں اور اسے ستمگروں اور ظالموں کے درندہ نماپنجوں سے آزادی دلائیں ۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ:”( یریدون لیطفو ا نورااللّٰه بافواههم واللّٰه متم نوره ولوکره الکافرون ) “۔(سورئہ صف آیت ۸)

ترجمہ:۔ ”(دشمنان خدا) چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ کی پھونک سے بجھا دیں، لیکن خداوند اپنے نور کو تمام و مکمل کرنے والا ہے اگرچہ کافروں کو یہ بات ناگوارہے ارادہ خدا ہر صورت پورا ہونا ہے اگرچہ دشمن خدا اس کے لیے جتنا جلتے رہیں نور خدا کو ظاہر ہوناہے“۔

ہم اس باب میں ظہور مصلحان بزرگ کو مدنظر رکھتے ہوئے تفصیل ظہور پرنور سرکار امام زمان علیہ السلام کا جائزہ لےں گے۔

ظہور حضرت ابراہیم (علیہ السلام)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ظہور سے پہلے نمرود نے خواب دیکھا جو کہ نجومیوں کی پیشین گوئیوں سے مطابقت رکھتا تھا اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص آیا ہے جس نے اس کے خدائی تخت و تاج کو متزلزل کردیا ہے اس بنا پر اس نے فیصلہ کیا کہ مردوں کو عورتوں سے علیحدہ کردیاجائے تاکہ ایسا بچہ پیدا ہی نہ ہوسکے لیکن نمرود کی حکومت میں ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک غار میں پیدا ہوئے اور مقام پیغمبری پر فائز ہوئے اور لوگوں کو خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت دی مشرکوں کے بتوں کو توڑا جس کی پاداش میں انہیں آگ میں پھینکا گیا لیکن آگ حکم خدا سے ان کے لیے گلزار ہوگئی۔

ظہور حضرت موسیٰ(علیہ السلام)

فرعون کو نجومیوں نے خبردی کہ بنی اسرائیل سے ایک شخص تیری حکومت و اقتدار کو برباد کر دے گا جس کی بنا پر فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے ہر فرزند کو جو لڑکا ہو پیدائش کے بعد فوراً قتل کردیا جائے اسی بارے قرآن کہتاہے: ”( یذبح ابناءهم ویستحى نساءهم ) “۔(قصص ۴)

ترجمہ:۔ ”فرعون ان کے بیٹوں کو ذبح کردیتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا اور ان کی آبروریزی کرتا“۔ لیکن ارادہ خداوند یہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دنیا میں آنا ہے موسیٰ(علیہ السلام) دنیا میں آئے عجب شرائط کے تحت آئے اور ان کی ماں نے انہیں پانی میں پھینک دیا فرعون نے انہیں پانی سے پکڑ لیا اور اپنے محل میں پرورش دی اور خود مادر موسیٰ کو اجرت دی اوراسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلانے پر مامور کیا یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) مقام نبوت پر فائز ہوئے، بنی اسرائیل کو مظالم فرعون سے نجات دی اور فرعون اور فرعونیوں کو دریائے نیل میں غرق کیا فرعون کے ناچاہتے ہوئے بھی نور خدا یعنی ظہور موسیٰ(علیہ السلام) ہوا اور ارادہ خدا ظاہر ہوا۔

ظہور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آنے سے پہلے بھی ماہرین ستارگان نے خبر دے دی تھی تاریخ میں ہے کہ کئی بچوں کو صرف اس لیے کہ نقشہ الٰہی اور ارادہ خدا کو ناکام کیا جائے قتل کردیا گیا۔ لیکن خداوند متعال نے اپنی حکمت کے ساتھ اپنے اس عظیم پیغمبرکو بغیر باپ کے پیدا کیا اور جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تو خداوند عالم نے دشمنان خدا کے ارادوں کو ناکام کرتے ہوئے عیسیٰ(علیہ السلام) کو آسمان چہارم پر اٹھا لیا جو سرکار امام زمان علیہ السلام کو ظہور کے وقت آپ کے ہمراہ اور ساتھ ساتھ ہوں گے اور انصار میں ملیں گے۔

ظہور حضرت محمد (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم)

حضور نبی اکرم جو کہ سید الانبیاء اور مصلح اعظم ہیں ان کے بارے تورات و انجیل میں ان کے ظہور سے پہلے آگاہ کردیاگیا تھا روایات کے مطابق ایران کے حکمران شاہ پور جو کہ” شاہ پور ذوالاکتاف“ کے نام سے معروف تھا کو جب حضور کے بارے آگاہی دی گئی کہ ایک عرب پیغمبر دنیا میں آئے گا جو کیانیوں (ایرانیوں) کے تخت و تاج کو برباد کردے گاشاہ پور ”ذوالاکتاف“نے فیصلہ کیا کہ عربوں کی نسل کو بڑھنے نہ دے گا لیکن ارادہ خداوندپورا ہوا اور ظہورسید الانبیاء علیہ السلام ہوکررہا۔ ”( واللّٰه غالب علی امره ) “۔ اور اللہ اپنے امروفیصلہ پر غالب ہے۔ (سورئہ یوسف آیت ۱۲)

ظہور حضرت امام مہدی (علیہ السلام)

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ تمام ادیان عالم نے اپنے اپنے انداز میں ظہور امام مہدی علیہ السلام بارے ذکر کیا ہے اسی طرح رسول اکرم اور آئمہ علیہ السلام نے ظہور سرکار امام مہدی علیہ السلام بارے بہت زیادہ تذکرہ فرمایا وہ مہدی علیہ السلام جو کہ ظلم و طاغوت کے نابود کرنے والے ہیں ، اسی بنا پر بنی عباس نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے خاندان کو مسلسل اپنی نظروں میں رکھا تا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے ہاں بیٹا پیدا ہوتے ہی اسے قتل کر دیا جائے امام مہدی علیہ السلام کی ولادت مکمل طور پر مخفی رہی یہاں تک کہ آپ کی عمر مبارک کے پانچ سال گزر گئے اور آپ حکومتی اہکاروں سے مخفی رہے یہاں تک کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی حضرت امام مہدی علیہ السلام پانچ سال کی عمر میں ظاہر ہوئے اور اپنے پدربزرگوار کا جنازہ پڑھااور سب کو حیرت میں ڈال دیا، حکومتی ادارے آپ کے قتل کے درپے ہوگئے لیکن آپ پھر غائب ہوگئے جی ہاں! کسی میں جرات نہیں کہ وہ احکام الٰہی اور اہداف خداوندی کے اجراءمیں رکاوٹ بنے جب دنیا ظلم و جور سے پرہو جائے گی تو حضرت قائم علیہ السلام کا ظہور ہو گا اور وہ دنیا کو عدل و انصاف سے پر کردیں گے۔

حبیبم

حبیبم فریبا وزیباستی

گرفتار اوپیرو برناستی

چو گیسوی خود برفشاند فلک

ندا می دھد شام یلداستی

چو بیرون شود روی او از حجاب

سراسر جہان غرق غوغاستی

بہ پیشانی اوست بخت بلند

بلند است کز چرخ اعلاستی

بہ ابروی خود صید دلھا کند

کہ بر گردن او چہ خونہاستی

مگو چشم، سرچشمئہ لطف و مہر

بگو فتنہ اہل دنیاستی

از آن نقطئہ خال رویش خیال

گرفتار صد گونہ رو یاستی

کہ لعل لبش کانِ شہد و شکر

کلامش چہ شیرین و شیواستی

از آن خندہ و برق دندان او

چہ دلہا کہ دائم بہ یغماستی

مگو سینہ ، مرآت ایزدنما

زنورش جہان طور سیناستی

عطا و نوازش اگر خواستی

روان از دو دستش دو دریاستی

بہ ہر سو کہ آن قامت افتد بہ راہ

قیامت در آن نقطہ برپاستی

چہ گویم از آن یوسف گمشدہ

کہ گیتی زہجرش پر آواستی؟!

زہر کوی وبرزن کہ خواہی بپرس

اگر نام محبوب من خواستی

بہ ہر ملّتی نام او ہر چہ ہست

تو دانی کہ او مہدی ماستی

(دیوان گنجینئہ گوھر)

من از ہمہ بیگانہ ام ، در کوی تو پروانہ ام

وز عشق تو دیوانہ ام، لبریز شد پیمانہ ام

( یُرِیدُونَ لِیُطفِئُوا نُورَاَللّٰهِ بِافوَاهِهِم وَاَللّٰهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَو کَرِهَ اَلکَافِرُونَ ) “۔

”یہ لوگ اپنے منہ سے (پھونک مار کر) خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں حالانکہ خدا اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا اگرچہ کفار برا ہی (کیوں نہ) مانیں“۔ (سورہ صف۸)

فصل دوئم

مہدی علیہ السلام اور مہدویت کے دعویدار

جلوے

ولادت مہدی علیہ السلام

القاب مہدی علیہ السلام

جھوٹے دعویدار