موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن0%

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف: شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27154
ڈاؤنلوڈ: 3771

تبصرے:

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 62 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27154 / ڈاؤنلوڈ: 3771
سائز سائز سائز
موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف:
اردو

باب اول

حضرت امام مہدی (علیہ السلام)کی ذات کے جلوے

۱۔ ولادت حضرت امام مہدی (علیہ السلام)

حضرت کی ولادت باسعادت جمعہ کی صبح ۵۱شعبان ،۵۵۲ہجری طلوع فجر کے وقت شہر سرمن رائے میں ہوئی۔بعض نے کہا ہے کہ جمعہ کی صبح کو ولادت ہوگی اور بعض نے شب جمعہ لکھا ہے تو اس میں فرق نہیں ہے کیونکہ طلوع فجر کے وقت ولادت باسعادت ہے۔ (اس حصہ میں منتہی الآمال سے استفادہ کیاگیاہے)۔

حکیمہ خاتون روایت کرتی ہیں کہ شب جمعہ تھی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے کہا کہ اے پھوپھی جان! آج کی رات ہمارے ہاں ٹھہر جائیے کیونکہ آج کی رات ایک ایسے فرزند نے متولد ہونا ہے خداوند جس کے ذریعہ زمین کو علم وایمان اور ہدایت کے ساتھ زندہ کرے گابعداس کے کہ وہ کفرو ضلالت کے ذریعہ مر چکی ہوگی۔

میں نے پوچھا کہ وہ فرزند کس سے متولد ہوگا فرمایا نرجس علیہ السلام خاتون سے کیونکہ نرجس علیہ السلام خاتون سے ان کے ہاں تو آثار حمل نہ ہیں ؟ حضرت نے تبسم فرمایا اور کہا کہ ان کا حمل مثل حمل مادر موسیٰ علیہ السلام ہے ، رات کا کافی حصہ گزر گیا میری حیرت میں اضافہ ہوتا رہا اس رات میں نے باقی راتوں سے زیادہ نماز و عبادت و تہجد میں صرف کی جب میں نمازوتر تک پہنچی نرجس خاتون نیند سے اٹھیں وضو کیا اور نماز شب کا آغاز کیا صبح کاذب طلوع ہوگئی حمل کی کوئی خبر نہ تھی اچانک امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آواز دی کہ پھوپھی جان! اس فرزند کے ظہورکا وقت قریب آگیا ہے۔

پھر حضرت علیہ السلام نے فرمایا: سورئہ قدر کی تلاوت کرو جب میں نے سورئہ قدر کی تلاوت شروع کی تو میں نے سنا کہ فرزند بھی بطن مادر میں سورئہ قدر کی تلاوت کررہا ہے۔

اچانک میرے اور نرجس خاتون علیہ السلام کے درمیان پردہ حائل ہوگیا، جب پردہ ہٹا تومیں نے حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ روبقبلہ ہیں اور حالت سجدہ میں گرے ہوئے ہیں اور زبان پر یہ کلمات جاری ہیں ”اشهدان لااله الاالله وحده لاشریک له، وان جدی رسول الله وان ابی امیرالمومنین علیه السلام وصیُ رسول الله “۔ پھر حضرت علیہ السلام نے ایک ایک امام علیہ السلام کا ذکر فرمایا یہاں تک کہ اپنے مبارک نام تک پہنچے اور فرمایا:”اے اللہ!وعدہ مدد جو تم نے میرے ساتھ فرمایا ہے وہ پورا فرمانا، میری خلافت اور امامت کے امور کو تمام و کامل فرما، میرے انتقام از دشمنان کو ثابت فرمااور زمین کو میرے طفیل عدل و انصاف سے پر فرما“۔ ایک اور روایت میں حکیمہ خاتون سے نقل ہے کہ:”صاحب الامر علیہ السلام کے دائیں بازو پر لکھا ہوا تھا ”( جاءالحق وزهق الباطل ان الباطل کان زهوقا ) “(اسراءآیت ۱۷)ترجمہ:۔”پس حق آگیا اور باطل نابود ہوگیااور باطل کونابود ہونا ہی تھا“جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ میں فرزند کو حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں لے گئی جونہی سرکار حجت کی نگاہ اپنے والد محترم پر پڑی فوراً سلام کیا۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے انہیں میرے ہاتھوں سے لے لیا اور انہیں اپنے بائیں ہاتھ پر بٹھایا اور داہنا ہاتھ اپنے فرزند کے سر پر پھیرا اور فرمایا: کہ اے بیٹا حکم خدا سے کوئی بات کہہ تو صاحب الامر علیہ السلام حجت نے تعوذ وتسمیہ کے بعد یہ آیت قرآنی تلاوت کی ”( نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلهم اءمةً ونجعلهم الوارثین، ونمکن لهم فی الارض ونری فرعون وهامان وجنودهما منهم ماکانوا یحذرون ) “(سورئہ قصص ۵،۶)

سرکار امام زمان علیہ السلام (علیہ السلام) کے اسم و القاب

قرآن میں ارشاد ہے کہ ”( وللّٰه الاسماءالحسنیٰ ) اللہ کے کئی نیک خوبصورت نام ہیں اسی طرح زمین پر اللہ کے خلیفہ کے لیے کئی خوبصورت اور نیک نام ہیں کیونکہ خلیفہ خدا بھی زمین پر اسماءالٰہی و حسنیٰ کا مظہر ہوتا ہے اور اسم اعظم الٰہی ہوتاہے“۔

بارہویں امام علیہ السلام کے بہت زیادہ القاب ہیں کتاب نجم الثاقب(باب دوم ص۵۵) میں سرکار کے ۲۸۱ نام ولقب تحریر کیے گئے ہیں ہم حضرت قائم علیہ السلام کے کچھ نام والقاب کا تذکرہ کریں گے۔

آپ کا اسم مبارک محمد علیہ السلاماور آپ کی کنیت ابوالقاسم علیہ السلام ہے جو کہ حضوراکرم کا نام اور کنیت ہے۔ جس طرح حضور خاتم الانبیائ ہیں اسی طرح سرکار صاحب الامر علیہ السلام ، خاتم الاوصیاء علیہ السلام ہیں سرکار امام زمان علیہ السلام اپنے جد بزرگوار ختم مرتب کے دین و شریعت کااحیاءو اجراءفرمانے والے ہیں آپ خُلق و خَلق میں مکمل شبیہ پیغمبراکرم ہیں خود نبی اکرم کا اپنے فرزند امام مہدی علیہ السلام کے بارے فرمان ہے کہ ”المهدی علیه السلام اشبه الناس خَلقاً وخُلقًا بی “ میرا مہدی علیہ السلام پوری دنیا میں خَلقُ وخُلق میں میری شبیہ ہے(بحارالانوار ۶۱)

۲۔ بارہویں کے اسماءوالقاب

خداوند نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :

( وللّٰه الاسماءالحسنی ) “ (سورئہ اعراف آیت۰۸۱)”اللہ کے لئے اسماءحسنیٰ مخصوص ہیں “۔

۱۔ مہدی علیہ السلام

روایات میں درج ہے کہ آپ کو مہدی علیہ السلام کہا جائے گا کیونکہ آپ علیہ السلام لوگوں کو ہدایات کریں گے ان امور کی طرف جو پہلے لوگوں سے مخفی ہوں گے ان امور سے پہلے کوئی مطلع نہیں ہوگا آپ کو اللہ کی طرف سے ان امور کی ہدایت وراہنمائی مل چکی ہے کہ جس سے اور کوئی مطلع نہیں ہے آپ تمام اسرار و رموز کے جاننے والے ہیں ۔

۲۔ بقیة اللہ

آپ اپنے قیام کے وقت جو پہلا جملہ ارشاد فرمائیں گے وہ یہی ہوگا کہ ”( بقیة اللّٰه خیرلکم ان کنتم مومنین ) “۔ (سورئہ ہودآیت۶۸) روایات میں آیا ہے کہ سرکار امام زمان علیہ السلام سے ملاقات کے وقت یہی کہا جاتا ہے کہ ”السلام علیک یا بقیة اللّٰہ“ یہاں بقیة اللہ سے اشارہ دیا گیا ہے کہ آپ اوصیاءوانبیاءکی باقیات ہیں ۔(النجم الثاقب ص۲۶)

۳۔ حجت

روایات میں ہے”بولاالحجة لساخت الارض باهلها “ کہ اگر حجت خدا زمین میں نہ ہو تو زمین اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل جائے گی۔(کافی ج۱ص۹۷۱)

انسان پر خدا کی دوحجتیں

انسان پر اللہ کی طرف سے دوحجتیں ہیں ۔ ۱۔حجت باطنی ۲۔حجت ظاہری

حجت باطنی

حجت باطنی سے مراد یہاں انسان کا اپنا عقل ہے کہ یہی عقل اللہ کیطرف سے بنیادی رہنما اور حجت ہے ۔

حجت ظاہری

حجت ظاہری سے مراد انبیاء علیہ السلام ، اوصیاء علیہ السلام و آئمہ معصومین علیہ السلام ہیں (حضرت ختمی مرتبت تمام حجج کے سروروسردار ہیں اور جناب سیدہ زہراء علیہ السلام بھی حجت ہیں ) کہ ان کی سنت ان کا قول و فعل ان کی تائی،انسانوں بلکہ کائنات کے لیے حجت خداہے چونکہ معصوم عقل منفصل ہیں اس لیے ان کی حجت پر کوئی دلیل نہیں مانگی جا سکتی ۔(الکافی ج۱ص۹۷۱)سرکار قائم آل محمد کی انگشتری مبارک پر جو نقش کنندہ تھا وہ یہی تھا کہ ”انا الحجة “ میں حجت خدا ہوں اور آپ خطوط کے جواب میں لکھی گئی تحریر کے آخر میں جو دستخط فرماتے تھے وہ ”حجت ابن الحسن علیہ السلام“تھے۔

۴۔ خلیفة اللہ

خداوند متعال نے فرشتوں کومخاطب ہو کرفرمایا ”( انی جاعل فی الارض خلیفة ) “ (سورئہ بقرہ آیت ۰۳)

”میں زمین پر اپنا جانشین بنا رہا ہوں“ ۔ یعنی ہمیشہ زمین پر خلیفہ خدا وحجت خدا موجود ہے کہ سب سے پہلے خلیفہ حضرت آدم علیہ السلام اور سب سے آخری جناب قائم مہدی علیہ السلام ہیں ۔

۵۔ قائم

سرکار امام زمان علیہ السلام کا قیام ایک مکمل اور ہمیشہ قائم رہنے والا قیام ہے اسی وجہ سے جناب کے مقدس وجود کو قائم بالخصوص ”یاقاءم بامراللّٰه “ قائم قیام کرنے والے کوکہتے ہیں ۔

۶۔ منتظر

یعنی وہ کہ جس کا انتظار کیا جا رہا ہے جیسے کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ پوری دنیا بلا امتیاز، شیعہ سنی و مسلم و غیر مسلم بلکہ لامذہب بھی ایک ایسے مصلح کے منتظر ہیں جو کہ بشریت کو علمی، سیاسی و اجتماعی تاریکیوں سے نکال کر راہ نجات دے ۔ لہٰذا تمام بشریت آپ کے لیے منتظر ہے ۔

۷۔ نور اللہ

سورج کا نورو روشنی زندگی کی بقاءکے لیے ضروری ہے اگر سورج نہ ہو تو زندگی کے اثرات ہی نہ ہوں ، امام زمان علیہ السلام سرکار بھی تین زاویوں سے نور خدا ہیں ۔

الف) حضور نبی اکرم سے سوال کیا گیا کہزمان علیہ السلامہ غیبت مہدی علیہ السلام میں لوگ آپ سے کیسے استفادہ کرینگے جب کہ وہ تو غائب ہونگے حضرت نے جواب میں فرمایا کہ میرا مہدی علیہ السلام مثل اس سورج کے ہے جو بادلوں کے پیچھے چھپا ہوا ہوتا ہے جب کہ وہ اپنی روشنی پھر بھی پہنچا رہا ہوتا ہے اور زندگی کے اثرات کو بقاءدے رہا ہوتاہے (مہدی علیہ السلام موعود ص۶۴۸نقل از کمال الدین) ازطرف ابن عبداللہ )۔

میرا مہدی علیہ السلام بھی پردہ غیبت سے اپنا نور خلق خدا پر ڈال رہا ہے اور دنیا ان کے نور سے مستفید ہو رہی ہے سرکار قائم علیہ السلام کا نور سورج کی روشنی سے بہت اعلیٰ و برتر ہے کیونکہ سورج کی روشنی میں تپش و جلاو ہے مگر حضور امام زمان علیہ السلام کی روشنی ونورمیں ملائمت اور محبت ہی محبت ہے۔

ب) آپ سرکار امام مہدی علیہ السلام نور ہدایت ہیں جس پر قرآن مجید کی آیات گواہ ہیں ”( یهدی اللّٰه لنوره من یشاء ) (سورئہ نور آیت ۵۳)( واللّٰه متم نوره ) “(سورہ صف آیت۸) یہاں نور سے مراد معنوی اور ہدایت کانورہے۔

ج) سرکار(عج) کا نور نور محسوس ہے یعنی محسوسات سے ہے کیونکہ جو کوئی تاریک رات میں آپ کو دیکھے کہ آپ کے ہرطرف روشنی ونور ہی نور ہے مختلف واقعات میں نقل ہے کہ وہ لوگ جو تاریک اور اندھیری راتوں میں ویرانی میں حضور کی زیارت سے مشرف ہوئے کہتے ہیں کہ بیابان ویرانہ آپ کے نور مقدس کی وجہ سے دن میں بدل جاتاتھا۔اسی لیے دعا کا جملہ ہے۔ ”علیه جلا بیبُ النور وعلم النور فی طغیاءالدیجور “۔ (روز گار رہائی ج۱ص۸۲۱)

آپ نور کے لباس میں ہیں اور آپ تاریکی شب میں نورانی پرچم ہیں ”السلام علیک یا نور اللّٰه الذی لایطفی “ سلام آپ پر اے نور خدا کہ جو کبھی نہیں بجھتا“۔(مفاتیح الجنان )

۸۔ ماءمعین

خداوند کریم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ”( قل اراءیتم ان اصبح ماو کم غوراً فمن یاتیکم بماء معین ) “ ۔ (الملک ۰۳)ترجمہ:۔ مجھے بتاو کہ جب تمہارا پانی تم سے چھپ گیا تو کون ہے جو تمہارا مدد گار پانی کو واپس دلائے پانی چونکہ مایہ حیات اور باعث زندگی ہے اس طرح بارہویں سرکار بھی دو زاویوں سے ماءمعین سے ملقب ہیں ۔

۱) جب سرکار قائم علیہ السلام کا ظہور ہوگا تو آسمان اور زمینوں سے دریائے رحمت انسانوں کی طرف رواں ہوگا اور بے موسم بارشیں ، دریاوں اور نہروں کے جاری ہونے کا سبب بنیں گی اس لیے حضرت صاحب الامر علیہ السلام کی زیارت میں درج ہے ”السلام علیک یا ربیع الانام و نضرة الایام “۔(مفاتیح الجنان زیارت صاحب الزمان علیہ السلام)

ترجمہ:۔”سلام آپ پر اے دنیا جہان کی بہار اےزمان علیہ السلامہ کے خرمن ذخیرہ اور خوشحالی“اس عبارت میں( ربیع لانام) خلائق کو پھولوں اور سبزوں سے تشبیہ دی گئی ہے سرکار کے ظہور سے اس گل وسبزہ میں بہار آجائے گی اورشادابی پھیل جائے گی۔

ب) بوقت ظہور :بوجہ ظہور دل کو زندہ کردیں گے کیونکہ دلوںکی زندگی آب حیات سے زیادہ باازرش ہے لہٰذا زندہ کندہ یعنی آب حیات سے سرکار کو تشبیہ دی گئی۔

۹۔ غریم

غریم غرامت سے مشتق ہے اس کے دو معانی ہیں قرض خواہ اور قرض دہندہ۔ یہ قرض لینے اور دینے والے دونوں معانی میں مستعمل ہے۔کیونکہ سرکار قائم علیہ السلام کا ہماری گردنوں پر بہت زیادہ حق ہے اور صاحب کتاب وظیفة الانام نے تقریباً ۰۶ حقوق اپنی کتاب میں درج کیے ہیں جو صاحب الامر علیہ السلام کے ہماری گردنوں پر قرض ہیں مرحوم صدرالاسلام ہمدانی نے بھی اور کتاب مکیال المکارم ج ۱۳ص۶۶۱تاآخر (فارسی ترجمہ) میں بھی سرکار قائم علیہ السلام کے کافی زیادہ تقریباً۰۸ حقوق جو کہ ہماری گردنوں پر ہیں کا تذکرہ کیا گیا ہے اسی پر سرکار قرض خواہ ہیں اور کم سے کم سرکار(عج) کاجو حق ہم پر ہے وہ سہم امام علیہ السلام کی ادائیگی ہے۔

دوسری طرف چونکہ خداوند کریم نے انہیں ہماری فریاد رسی کے لئے اور ہمیں فیض رسانی کے لیے پیدا فرمایا ہے اس بنا پر ہم حضرت سے فیض کے خواہاں ہیں اوریوں حضرت مقروض اور ہم قرض خواہ کہ وہ ہمیں معنوی ومادی لحاظ سے عنایت فرمائیں۔

۱۰۔ مطہرالارض

زمین کو پاک کرنے والا آپ کرُہ ارض کو طول وعرض میں ظاہری نجاسات اور باطنی نجاسات سے مکمل پاک فرمائیں گے آپ کے ظہور کے بعد کچھ نجاستوں کا وجود ختم ہوجائے گا اور انہیں ختم کردیں گے۔ مثلاً سور،کتا،کافر،شراب اور دیگر پلیدوں کو ختم فرمائیں گے۔

۱۱۔ عدل مشتہر

حضرت امام مہدی علیہ السلام مظہر عدل پروردگار ہیں بعض دعاوں میں ذکر ہے”والعدل المشتهر مطهر الارض وناشرالعدل فی الطول والعرض “۔ (مفاتیح الجنان زیارت صاحب الامر)آپ محمدی عدل مشہور ہیں اورزمین کو رذائل سے پاک کرنے والے ہیں اور پوری دنیا میں عدل و انصاف کی فراہمی کرنے والے ہیں ۔

باب دوئم

جھوٹے مدعیان مہدی علیہ السلام

زمانہ غیبت کے بعد کئی لوگوں نے امام مہدی علیہ السلام ہونے کا جھوٹادعویٰ کیا اور کئی افراد کے گمراہ ہونے کا باعث بنے جن میں سے ہم یہاں کچھ جھوٹے مدعیاں مہدی کا تذکرہ کریں گے۔

۱۔ جعفر کذاب

جب حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے ہاں جعفر نامی بیٹے کی ولادت ہوئی تو بجائے خوش ہونے کے امام علیہ السلام کے چہرہ مبارک پر اداسی چھا گئی اہل خانہ سے کسی خاتون نے افسردگی کیوجہ پوچھی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا صبر کرو کئی لوگ اس مولود یعنی جعفر کی وجہ سے گمراہ ہوجائےں گے جب جعفر جوانی کی حدود میں سے داخل ہوا تو شراب وشباب کی محفلیں سجانے لگا حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے دوستوں کو جعفر کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور راہ ورسم رکھنے سے منع فرمادیا اور کہاکہ وہ میری اطاعت سے نکل گیا ہے وہ دین سے اورتعلیمات دین اسلام سے باہر ہوگیا ہے فرمایا ”( تجنبواابنی جعفر فانه بمنزلة نمرود ابن نوح µ الذی قال اللّٰه یانوح انه لیس من اهلک انه عمل غیرصالح ) “ ۔ (سورئہ ہود ۶۴)(تاریخ سامراءج۲ص۱۵۲)”میرے بیٹے جعفر!سے بچو یہ مثل فرزند نوح کے ہے(بعض جگہوں پر نوح کے بیٹے کا نام کنعان تھا، احتمال دیاجاسکتا ہے کہ اسکے دونام ہوں) جس کے بارے اللہ نے نوح سے فرمایا تھا کہ یہ تم میں سے نہیں کیونکہ اس کا عمل غیر صالح ہے“ حضرت نے جعفر کے معاملہ کو بہت زیادہ بیان کیا اور اسکے قصہ کو بہت تفصیل سے شیعوں کو ذکر فرمایا تاکہ فرزند امام ہونے کے ناطے کوئی اس سے دھوکہ نہ کھائے، جب ایک شخص نے جعفر بارے آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: جعفر علی الاعلان بدکار ہے وہ نافرمان خدا ہے وہ فاجر اور شراب خوارہے۔

جعفر کے غیر شرعی اقدامات

جو بات روایات سے سامنے آتی ہے کہ جعفر نے تین آئمہ معصومین علیہ السلام کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور ان کی مخالفت کرتا رہا اور سرکار قائم کے خلاف اعلانیہ مخالفت اور مبازرہ کرتا رہا اور اس نے آئمہ حق سے تین طرح سے مخالفت جاری رکھی۔

دعویٰ امامت

جعفر نے اپنے بھائی امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد امامت کا دعویٰ کردیا پہلے تو وہ امام کی تعزیت کے لئے آنے والوںاور افسوس کرنے والوں کی توجہ کا مرکز بنا پھر اس نے امامت کی مبارک بادیں قبول کرنا شروع کردیں اس کے بعد اس نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی نماز جنازہ پڑھانے کی تیاری کی اور اس بارے حکومت وقت کی مکمل حمایت حاصل کی تاکہ وہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی جگہ اپنے آپ کو امام منوائے اورشیعوں کی باگ ڈور اس کے ہاتھ لگ جائے، اس کام کے لئے اسے حکومت وقت کی مکمل تائید حاصل تھی۔

حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام)کے ورثاءسے انکار

جعفر نے امام حسن عسکری علیہ السلام کے دیگر وارثان سے مکمل انکار کرکے اپنے آپ کو واحدوارث ظاہر کیا چنانچہ ہم بعد میں دیکھتے ہیں سرکار امام مہدی علیہ السلام نے کس خوبصورت انداز میں اس سے وراثت بارے مبارزہ کیا

غصب میراث کے لیے حکومت کو تحریک

جب جعفر نے نماز جنازہ کے موقع پر سرکار قائم کے آنے اور نماز جنازہ پڑھانے کے بعد کی صورتحال کو دیکھا تو اس نے حکومت وقت کو دعوت دی کہ وہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی میراث کو اپنے قبضہ میں لے لیں۔ جس کے بعد حکومتی کارندوں نے دوبارہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے گھر پر دھاوا بول دیا اور امام مہدی علیہ السلام کی تلاش میں گھر کا کونہ کونہ چھان مارا لیکن حضرت قائم علیہ السلام کو تلاش نہ کرسکے جعفر نے تمام اموال امام حسن عسکری علیہ السلام پر حکومتی کارندوں کے ذریعہ قبضہ کرلیا اور اپنے استعمال میں لے لیا اس کے لیے اس نے دو باتوں کا سہارا لیا۔

۱۔ چونکہ سرکار قائم علیہ السلام کی ولادت مخفی تھی اور امام حسن عسکری علیہ السلام کا ظاہراً کوئی بیٹانہ تھا پس جعفر نے اپنے آپ کو امام حسن عسکری علیہ السلام کا جانشین متعارف کرا کے تمام اموال کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور خود کو تنہا وارث کے طور پر تعارف کرایا۔

۲۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد جعفر نے اپنے آپ کو امام کہلوانا شروع کردیا اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے تمام اموال پر تصرف اپنا شرعی حق سمجھتا رہا جعفر نے امام حسن عسکری علیہ السلام کے اہل خانہ کو لوازمات زندگی مثلاً خوراک ،لباس و رہائش کے حوالہ سے انتہائی تنگ دستی کا شکار کردیا کوئی بھی ان کے ساتھ اظہار ہمدردی یا محبت نہیں کرسکتا تھا جو کوئی ان کے ساتھ اظہار محبت کرتا حکومت کے نزدیک معتوب ٹھہرتا۔

ایک گروہ کی قم سے سامرہ آمد

ایک گروہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی زیارت اور مال امام و دوسری امانتیں آپ تک پہنچانے کےلئے قم سے عازم سامرہ ہوا۔جب یہ گروہ سامرہ پہنچا تو انہیں پتہ چلا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام شہید ہوگئے ہیں وہ حضرت کے جانشین کی تلاش کرنے لگے کچھ لوگوں نے انہیں جعفر کا تعارف بطور جانشین امام کرایا وہ جعفر کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے تو انہیں پتہ چلا کہ جعفر دریائے دجلہ میں ایک کشتی پرسوار ہو کر مشغول شراب نوشی ہے اور اسکے ساتھ کئی اور ساتھی بھی ہیں جعفر جب گھر واپس آیا تو یہ گروہ گھر پر جعفر سے ملنے آیا اور انہوں نے کہا ہم قم سے آئے ہیں ہمارے پاس قم کے شیعوں کی طرف سے دی گئی رقم کی تھیلیاں ہیں جو کہ سربمہر ہیں اور سابقہ طریقہ کچھ اس طرح ہے کہ خود امام بتاتا ہے کہ تھیلی میں کتنے سکے ہیں ، ان پر کیا نقش ہے اور یہ تھیلی کس نے بھیجی ہے اگرتو امام کا جانشین ہے تو وہی خصوصیات اور نشانیاں بتا اورہم سے یہ امانتیں اپنی تحویل میں لے۔جعفر نے کہا کہ میں علم غیب نہیں جانتا اور تم بھی جھوٹ بولتے ہو کہ میرابھائی حسن عسکری علیہ السلام غیب جانتا تھا اور ان سے کہا کہ امانتیں مجھے دے دو انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کے اموال کے وکیل ہیں ہمارا شرعی وظیفہ ہے کہ رسم قدیم کے مطابق ہم امانتیں اس کے حق دار کو تحویل دیں ورنہ ان کے بھیجنے والوں کو لوٹائیں گے۔جعفر معتمدعباسی خلیفہ وقت کے پاس گیا اور قم سے آنے والے گروہ کی شکایت کی جعفر اور اس گروہ کو دربار طلب کرایا گیا دونوں طرف کی باتیں سننے کے بعد معتمد نے کہا کہ وکیل موکل کے اذن کے ساتھ ہی حق تصرف رکھتا ہے اس نے گروہ کو حق دیاکہ وہ امانتیں واپس لے جائیں اس گروہ نے معتمد سے درخواست کی کہ ایک مامور متعین کردیاجائے تاکہ وہ اس مامور کی نگرانی میں شہر سامرہ سے باہر جائیں جب وہ شہر سے باہر نکلے تو ایک شخص ان سے ملا اور کہاکہ اپنے مولا کی خدمت میں چلو،انہوں نے پوچھا تم کون ہو؟ تو اس شخص نے کہا میں غلام، امام حسن عسکری علیہ السلام ہوں اور تمہیں انکے گھر تک راہنمائی کرنے آیا ہوں وہ لوگ اس شخص کےساتھ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے گھر پہنچے انہوں نے وہاں سرکار قائم کی زیارت کی جو کہ سبز لباس میں ملبوس چمکتے ہوئے چہرے کےساتھ ایک تخت پر تشریف فرماتھے انہوں نے سلام کیا حضرت نے جواب دیا اور پھر ان کی رقومات کی تعداد نقش اور بھیجنے والوں کے بارے تمام تفصیلات سے انہیں آگاہ فرمایا، انہیں ان کے جانوروں تک سے آگاہ فرمایا، اس گروہ نے خوشی کی وجہ سے سجدہ شکر ادا کیا اور تمام اموال حضرت کے سپرد کیے حضرت نے انکے سوالات کے جوابات بیان فرمائے اور فرمایا کہ میں تمہارے لیے اپنے افراد میں سے ایک نمائندہ مقرر کرتاہوں آئندہ ہماری بجائے اموال وغیرہ اسی کی تحویل میں دے دیا کرو اور اس کے ذریعہ مجھ تک رسائی حاصل کیا کرو پھر وہ گروہ حضرت سے رخصت ہوا یہ واقعہ آغاز غیبت صغریٰ کا ہے جس کا دورانیہ ۰۷ سال تک تھا۔

جعفر کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کا امام حسن عسکری علیہ السلام کے گھر اہل قم کے گروہ سے ملاقات اور اموال کی تحویل کا پتہ چل گیا اس نے یہ خبرمعتمدکو دے دی حکومتی کارندوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے گھر دوبارہ دھاوا بول دیا امام علیہ السلام کے گھر میں جو کچھ تھا اسے اپنے قبضہ میں لیا اور سرکار قائم علیہ السلام کی والدہ ماجدہ بی بی نرجس علیہ السلام خاتون کو گرفتار کرلیاگیاحکومت وقت اور عدالت نے بی بی نرجس علیہ السلام خاتون کو مورد الزام ٹھہرایا اورسخت تکلیف میں رکھا اور کہا کہ وہ اپنے بیٹے کو حکومتی تحویل میں دے بی بی نرجس علیہ السلام نے تمام واقعہ سے اظہار لاعلمی کیا اور کہا کہ کیسا بیٹا جب کہ میں نے ابھی تک کسی بچے کو نہیں جنا اور میں تو ابھی حاملہ ہوں جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ بی بی کو وزیر اعظم حکومت اور قاضی ابن شوراب کے گھر خواتین کی نگرانی میں رکھا گیا تاکہ ولادت مولود یہیں ہو لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔(منتہی الامال میں ہے کہ غیبت صغریٰ ۴۷سال ہے)۔

جعفرکا انجام

(جعفر کے انجام بارے بحث ”المہدی من المہدالی الظہور“سے لی گئی ہے)

محدثین جعفر کذاب کی توبہ بارے اختلاف رکھتے ہیں جو جعفر کی توبہ کرنے بارے نظریہ رکھتے ہیں ان کے پاس کوئی بھی دلیل نہیں ہے کہ جس سے توبہ جعفرثابت ہو سوائے سرکار امام زمان علیہ السلام کے اس جواب کے جوانہوں اسحاق بن یعقوب کے سوال کے جواب میں محمدبن عثمان کوفرمایا وہ جملہ یہ ہے ”واما سبیل عمی جعفرو ولدہ سبیل اخوةیوسف“۔ کہ میرے چچا جعفر اور اس کے بیٹوں کا راستہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں والا راستہ ہے اس جملہ سے برادران یوسف علیہ السلام کی خطا ظاہر ہوتی ہے لیکن بردران یوسف علیہ السلام کا تذکرہ کچھ یوں بھی ہے کہ”یاابانااستغغفرلنا ذنوبنا اناکنا خاطئنِ“۔(سورئہ یوسف ۷۹)

اے ہمارے باپ ہمارے لیے استغفار کر ہمارے گناہوں پر کہ ہم خطاکار ہیں اور جواب میں حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا ”سوف استغفرلکم ربی “۔(سورئہ یوسف آیت۸۹)” میں تمہارے لیے اپنے رب سے استغفار کروں گا“۔یہاں امام زمان علیہ السلام کے جواب سے یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ چونکہ برادران یوسف علیہ السلام کی توبہ قبول ہو گئی تھی جعفر اور اس کے بیٹوں کا راستہ بھی برادران یوسف علیہ السلام کی طرح ہے جب کہ یہ توقیع مکمل مطابقت نہ رکھتی ہے کیونکہ برادران یوسف علیہ السلام نے درخواست استغفار کی تھی جب کہ جعفر نے تفاضائے عفووبخشش نہیں کیا۔(اگرچہ اس توقیع کا شیخ صدوقؒ نے کمال دین میں حوالہ نقل کیا ہے اگرچہ شیخ صدوقؒ ثقہ وبااعتماد ہیں لیکن اوپر جودلائل بیان ہوئے ہیں ان کی روشنی میں ایسی توقیع کا صحیح ہونا ثابت نہیں )۔

آقائے سید محمدصدرجوکہ کتاب زندگانی حضرت مہدی علیہ السلام کے مصنف ہیں اس توقیع بارے تحریر کرتے ہیں کہ یہ توقیع محمد بن عثمان نائب ”دوئم امام زمان علیہ السلام علیہ السلام“ کی طرف سے ہے لیکن اس کی تاریخ معلوم نہیں ہے ہم اس توقیع کو عقل وعدل کے ترازو میں جانچنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ صورتحال واضح ہوسکے اگر اس جملہ امام سے مراد، راہ برادران یوسف علیہ السلام ۔ اشارہ توبہ کی طرف ہے تو دوسری طرف حضرت امام علی نقی علیہ السلام کا فرمانا کہ جعفر کا راستہ نمروداور پسرنوح علیہ السلام کا راستہ ہے یہ دونوں فرمان آپس میں ٹکراتے نظر آتے ہیں کیونکہ پسرنوح مجسمہ فساد تھا اور آئمہ علیہ السلام نے جعفر کی پیدائش سے پہلے اس کی بدکاریوں بارے خبریں دی تھیں ان پیشینگوئیوں کے ہوتے ہوئے اسے جعفرتواب کے عنوان سے کیسے پکاریں؟ اگر جعفر نے توبہ کرنی تھی اور اس کی توبہ قبول ہونی تھی تو پھر آئمہ معصومین علیہ السلام نے اس کی بدکاریوں کا تذکرہ کیوں کیا لوگوں کو اس کے برے اعمال کا تعارف کیوں کرایا جب کہ اس کا سرانجام توبہ ہونا تھا لہٰذا دوسرا سب سے بڑا ظلم یعنی دعویٰ امامت کیا جو کہ ناقابل معافی وبخشش ہے قرآن کہتا ہے ”فمن افتریٰ علی اللّٰہ کذبا“ (سورئہ انعام ۱۲) ”خداوندکریم پر جھوٹ باندھنے سے بڑا اور کیا ظلم ہے؟۔جعفر کذاب نے ایک نہیں تین آئمہ علیہ السلام کو اذیت دی ہے اور وہ تین آئمہ علیہ السلام کی تکالیف کا موجب بنا ہے ۔

۱۔حضرت امام علی نقی علیہ السلام ۲۔حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ۳۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام

جس کسی نے ایک معصوم علیہ السلام کو ناراض کیا وہ ناقابل بخشش ہے اور کجا کہ تین آئمہ معصومین علیہ السلام کی ناراضگی اس نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کو سخت اذیت دی ان کی میراث غصب کی آپ کی والدہ گرامی بی بی نرجس علیہ السلام کو سخت تکالیف میں مبتلا کیا اسی جعفر کی وجہ سے امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں کو اذیت ہوئی قرآن کی رو سے نبی کے قرابت داروں کے گناہ بانسبت دوسروں کے دوبرابرسزارکھتے ہیں اور اسی طرح ان کی نیکی کی جزا بھی دوسروں کی نیکی کے دوبرابرہے.... جعفر بھی فرزند امام تھے، اس کی برائی بھی یقینا دو برابر ہوگی توکہا جاسکتا ہے کہ جس نے اتنا ظلم کیا ہو اس کی توبہ کیسے قبول ہوسکتی ہے قرآن اسی طرح کے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :”( ختم اللّٰه علی قلوبهم وعلی سمعهم وعلی ابصارهم غشاوة ) “ ۔ (سورہ بقرہ آیت۷)

ترجمہ:۔ ”انکے دلوں اور انکے کانوں اور انکی آنکھوں پرمہر لگ چکی ہیں یہ قابل ہدایت نہیں “۔

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ”( کذلک یطبع الله علی کُلِّ قلبٍ متکبرجبار ) “۔(سورئہ غافر آیت ۵۳)”خدا نے ہر متکبر اور جابر کے دل پر مہر لگادی ہے“۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جعفر کذاب نے توبہ کی تھی تو یہ اس چیز کی دلیل تونہیں کہ اس کی توبہ قبول ہوگئی ہے کتنے لوگ ہیں جو توبہ کرتے ہیں مگر ہم ان کی توبہ کی قبولیت بارے کچھ نہیں کہہ سکتے آیات و روایات کی رو سے چار افراد کی توبہ قبول نہ ہوسکے گی۔ان میں سے ایک وہ ہے جو خلق خدا کوگمراہ کرے اوراسے غلط راستہ دکھائے ۔جعفر کذاب نے آئمہ علیہ السلام حق سے لوگوں کو گمراہ کر کے غلط راستہ پرلگادیا۔ بعض روایات و آیات کی روشنی میں اس کی توبہ قبول نہیں ہوسکتی۔

جن چار گروہوں کی توبہ قبول نہیں وہ یہ ہیں ۔

۱۔ جو عذاب دیکھ کر توبہ کرے جیسے فرعون نے کیا۔ (سورہ غافر آیت۵۸)

۲۔ جوشخص حالت احتضار میںہو، سب پردے آنکھوں سے ہٹ جائیں۔

۳۔ جس کسی نے کسی اور شخص کو گمراہ کیا ہو اور وہ مرچکا ہوجب کہ ایسا شخص اب اس کی صحیح راہنمائی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ مرچکا ہوتاہے۔

۴۔ جس کسی نے پیغمبر یامعصوم (نمائندہ خدا) کوشہید کیاہو۔

ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے پیغمبراکرم سے سوال کیا کہ میں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اور کچھ لوگ میرے پیروکاربن گئے تھے تو میری توبہ کیسی ہے؟ آپ نے جواب میں فرمایا: کہ جن لوگوں کو تونے گمراہ کیا ہے ان کو دوبارہ سیدھے راستے پر لے آجو ان گمراہ ہونے والوں میںسے مرگئے ہیں ان کو دوبارہ زندہ کر اور پھر انہیں ہدایت کر اس کے علاوہ جعفر کذاب دو آیت قرآن کا مصداق ٹھہرتا ہے ”( الا لعنة اللّٰه علی الظالمین ) “۔(سورئہ ہود آیت۸۱)”( الذین یصدّ ون عن سبیل اللّٰه یبغونهاعوجا ) “۔(سورئہ اعراف آیت۵۴)

انہیں دو آیات کی رو سے اسے جعفر کذاب کا لقب دیاجاسکتا ہے اور ان ہی کاموں کی وجہ سے لوگوں میں وہ کذاب کے نام سے مشہورہوا۔

(عرض مترجم: قارئین محترم ہم نے جعفر بارے مصنف کتاب کی تحریر میں کسی قسمی کمی بیشی کئے بغیر من و عن ترجمہ کردیا ہے جو کہ مصنف کی ذاتی تحقیق ہے البتہ بعض علماءکی تحقیق اور اس موضوع پر لکھی گئی قدیم کتب سے جعفر کی توبہ ثابت ہے اور یہی رائے مبنی بر حقائق ہے البتہ مزید تحقیق کے لئے قدیم کتب ، غیبت شیخ طوسی، غیبت نعمانی، اکمال الدین کی طرف رجوع کیا جا سکتاہے۔)