باب دوئم
انفرادی ملاقاتیں
۱۔ گل نرگس گل وفا
حجة الاسلام آقائے احمد قاضی زاہدی گلپاہگانی اپنی کتاب شیفتگان مہدی علیہ السلام ج۲ میں تحریر فرماتے ہیں کہ حوزہ علمیہ قم کے دوستوں میں سے ایک دوست جو کہ جنوب مشرقی ایران کے دانشوروں اور محترم علماءمیں شمار ہوتے ہیں اور جنہیں سرکار امام زمان علیہ السلام سے شرف ملاقات اور خوش نصیبی حاصل ہوئی۲۷/۶/۰۳کو یہ واقعہ انہوں نے حضرت آیة العظمیٰ گلپایگانی کے گھر آیت اللہ العظمیٰ گلپایگانی اور آیت اللہ صافی کی موجودگی میں ان کے سامنے شرف یاب ملاقات سرکار امام زمان علیہ السلام ہونے کا بیان فرمایا جس کو سننے کے بعد آیت اللہ العظمیٰ گلپایگانی نے اشک آلود آنکھوں کے ساتھ فرمایا کہ ”رزقنا مثل ذلک
“(ہمارا بھی ایسا ہی نصیب ہوتا) واقعہ کچھ اس طرح ہے ہم مشرف با زیارت ہونے والے عالم دین کی اپنی زبانی بیان کرتے ہیں ۔
کئی سالوں سے میں اس کی یاد لیے پھرتا تھا ایک مدت سے اس کے ہجر وفراق میں جل رہا تھا اور کئی کئی گھنٹے اس کے عشق میں روتا رہتا تھا جمعہ کی عصر تھی دعائے سمات کی تلاوت کرتے ہوئے جب اس جملے پر پہنچا کہ جہاں لکھا ہے کہ اپنی حاجت طلب کرو میں نے اللہ رب العزت سے سرکار امام زمان علیہ السلام کی زیارت کی درخواست کی اسی رات مجھے خواب میں کہا گیا کہ تو مکہ میں ان کی زیارت کرے گا اس کے بعد حج کے سفر میں مجھے توفیق زیارت ہوئی۔ اس کے بعدوالے سفر میں صبح بیدار ہونے کے وقت اور حرکت کرنے سے پہلے مجھے الہام ہوا کہ ”(
واعلمواانکم ملاقوهُ وبشرالمومنین
)
“۔ (سورئہ بقرہ آیت نمبر۳۲۲)
اگر اس آیت کا آخری جملہ ”(
وبشرالمومنین
)
“ نہ ہوتا تو میں اپنی عمر کے آخری لحظہ تک کسی کو اس قضیہ سے آگاہ نہ کرتااس سے مجھے یقین ہوگیا کہ مجھے اس سفر میں انشاءاللہ دیدار نصیب ہوگا اس پورے سفر میں دعائے سریع الاجابتہ دعائے مشلول کے متعدد جملے اور قرآن کریم کی متعدد آیات میں مسلسل زبان پردھراتا رہا مثلاً ”(
انی توکلت علی الله
)
“(سورئہ ہود آیت۶۵) ”(
انی وجهت وجهی للذی
)
(سورہ انعام آیت ۹۷) اور”(
امن یجیب المضطر اذادعاه ویکشف السوئ
)
(سورہ نمل آیت۲۶)(
ویجعلکم خلفاءالارض
)
“(سورہ نحل آیت ۰۸)کو میں نے تکرار کیا اور آخری دفعہ میں نے آخر آیت تک تلاوت کی اور پھر دس بار یااللہ کہا اور پھراللہ تعالیٰ کوپنجتن کا واسطہ دیا اور آخر میں ”اللهم ارنی الطلعة الرشیده واکحل ناظری بنظرة منی الیه
“۔ (دعائے عہد) پڑھی اور دل وجان سے خلاق عالم سے سرکار امام زمان علیہ السلام کے دیدار و زیارت کی التجا کی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ساتویں دن میں نے مکہ میں مقام ابراہیم علیہ السلام کے پیچھے پوری صحیفہ سجاد یہ کی تلاوت کی اور ناامید ہوکر رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوا مقام سعی عبور کرتے ہوئے میں کچھ دیر کے لیے بیٹھ گیا جب کہ میں مکمل طور پر مایوس اور ناامید تھا کہ اچانک میرے دل میں خوشی کی لہر دوڑی کہ کل نرگس توگُل وفا ہے اور میں بھی تازہ جان ہوگیا میں اٹھا اور اپنی رہائش کی طرف چل پڑا پھر دس ذی الحجہ کی رات کی سحر کے وقت مشعر میں نماز وتر میں مجھے غیبی اشارہ ملا کے روانگی کے وقت میں نے سمجھا کہ مکہ سے روانگی کا اشارہ ہے مگر کچھ نہ ہوا بیت الاحزان اور بقیع میں ہم نے بہت گریہ کیا فریاد کی اور وہی ذکر جس کااشارہ ہوا تھا بار بار زبان پر دہراتا رہا مدینہ میں آخری قیام کے دن میں نے اپنے آپ سے کہا کہ صبح کی نماز مسجد نبوی میں جاوں میں جونہی مسجد میں باب النساء(قبلہ کی بائیں جانب کے دروازوںسے ہے)سے داخل ہوا جب کہ تمام لوگ نماز سے فراغت کے بعد بیٹھے تعقیبات صبح پڑھ رہے تھے۔
اگلی صفوں میں بائیں ہاتھ پر میں نے ایک فرد کو دیکھا وہ اپنے رخ کوقبلہ سے دروازہ کی طرف موڑ کر دیکھ رہا تھا میں اس کی مکمل حالت بیان کرسکتا ہوں اس نے مجھے دیوار کے پیچھے سے دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنی طرف بلایا میں تمام صفوں کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور نگاہیں اسی پر جمالیں تاکہ رش کی وجہ سے دوبارہ گم نہ کربیٹھوں لطف کی بات یہ ہے کہ جب تک میں اس تک نہ پہنچا وہ بھی قبلہ سے رخ ہٹا کر مسلسل مجھ حقیر کودیکھتا رہا ان کے حکم پر میں نے ان سے معانقہ کیا(گلے ملا) اور ان سے سوال کیا کہ آپ کانام کیا ہے انہوں سرکو ہلایامگر جواب نہ دیا میں نے اپنا رخ اس قبلہ مقصود کی طرف رکھا اور اپنی پشت ایک ستون سے لگالی اور ایک قدم کے فاصلے سے اس کا نظارہ کرنے لگا ان کا چہرہ مثل گل گلاب تھا اور ان کے دندان مبارک مثل موتیوں کے تھے ان کی ریش مبارک گھنی اور سیاہ تھی ان کے سر کے بال ریشم کی طرح نرم و ملائم لمبا عربی قمیض زیب کیا ہوا تھا کہ جس کا رنگ ہلکا آسمانی تھا ایسی جگہ تشریف فرماتھے کہ ان کے سامنے فرش کا پتھر نمایاں تھا جس کی وجہ سے انہیں سجدہ گاہ کی ضرورت نہ تھی آپ کے دائیں ہاتھ پر دو آدمی مو دب بیٹھے تھے اور بائیں طرف بھی دو آمی مو دب بیٹھے تھے جن کے لباس اہل یمن کی طرح تھے اس حالت میں کہ ان کے سرمتواضع جھکے تھے اور تعقیبات نماز میں مشغول تھے انہوں نے آخر تک سر اوپر نہیں اٹھایا میں نے اپنے آپ سے کہا کہ سرکار کو قسم دوں تاکہ مجھے اپنا تعارف کردیں پھر مجھے یہ احساس ہوا کہ قسم سے تو ان پر جواب دینا واجب ہوجائے گا اور ممکن ہے تعارف نہ کرانے میں مصلحت ہو اور آپ تعارف نہ کرانا چاہتے ہوں میں انہیں اذیت دینے کا موجب نہ بن جاوں لیکن مجھے اس دوران مکمل یقین حاصل تھا کہ میرے سرکار امام زمان علیہ السلام تشریف فرما ہیں لیکن پھر بھی اطمینان کی کیفیت نہ تھی پس میں نے ارادہ کیا کہ استدعا کروں تاکہ سرکار تعارف کرائیں۔ میں کچھ آگے بڑھا اور سامنے آکر عرض کی کہ مجھے اپنا تعارف کرائیں جس کے جواب میں انتہائی محبت و شفقت کے ساتھ جناب امام زمان علیہ السلام نے جملہ ارشاد فرمایا کہ مجھے جرات نہیں کہ اپنے بارے وہ جملہ دہراوں میں آپ کے سامنے کھڑا ہوگیا اور آپ کی زیارت میں غوطہ زن ہوگیا مجھے خیال آیا کہ میں نے صبح کی نماز ادا کرنی ہے اور ایسی جگہ تلاش کروں جہاں پتھر ظاہر ہو تاکہ وہاں نماز پڑھوں لیکن میں اس بات سے غافل تھا کہ واپس آ کر حضرت امام زمان علیہ السلام سرکار کو دوبارہ نہ پاوں گا اور یہی ہوا۔
۲۔ آقائے ابراہیم صاحبزمان سے ملاقات امام زمان علیہ السلام
مرحوم حجة الاسلام علامہ آیت اللھی نے یہ واقعہ مجھے بیان کیا کہ میں کئی سال تک آیت اللہ حائری کے درس میں قم میں شریک رہا ایک شخص جس کا نام ابراہیم صاحبزمان تھا آیت اللہ حائری کے درس سے پہلے چند منٹ مجلس پڑھتا (مصائب پڑھتا تھا) چونکہ ہر روز اس کی زبان پر مولا صاحب الزمان علیہ السلام کا نام آتا تھا اس لیے اسے صاحبزمان علیہ السلامی کہا جانے لگا ۔
ایک دن میں نے اسے اکیلا پایا تو کہا کہ تو جو ہمیشہ صاحب الزمان علیہ السلام کا ورد کرتا ہے کیا تمہیں کبھی مولا صاحب الزمان علیہ السلام کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا یا نہیں تو اس نے کہاہاں ! میرا ایک نوکر تھا جس کا نام شیخ حسن تھا جس کے ہمراہ میں گدھے پر تبلیغ و مسائل بیان کرنے جایا کرتا تھا اور میرا نوکر ہمیشہ میرا حقہ اور تمباکو ہمراہ رکھتا تھا ایک دفعہ مجھے نوکر کے ہمراہ قلھک نامی جگہ پر ایک زنانہ مجلس میں شرکت کرنے اور مسائل بیان کرنے جانا تھا۔
راستہ میں میرے نوکر شیخ حسن نے مجھے کہا کہ آج مجھے حقہ اور تمباکو لانا یاد نہیں رہا میں واپس جاتا ہوں اور لے آتا ہوں میں نے اسے کہا کہ اب لازم نہیں ہے رہنے دو آگے بڑھیں جب ہم اپنی منزل مقصود پر پہنچے تو صاحب خانہ باہر چلا گیا شیخ حسن دروازہ کے پاس بیٹھ گیا جب کہ میں کمرے میں بیٹھ گیا اچانک میں نے دیکھا کہ ایک خوبرو شخص کمرے میں داخل ہوا، اس کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا جو اس نے ایک گوشہ میں رکھ دیا اور خود صدر نشین کرسی صدارت پر رونق افروز ہوگیا اور مجھے فرمایا کہ آج تمہارا حقہ نہیں ہے میں نے عرض کی ضرورت نہیں ہے فرمایا کہ حقہ تھیلے میں موجود ہے میں نے شیخ حسن کو آواز دی کہ حقہ لائے تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں خود جاو میں خود گیا اور حقہ لے آیا جو کہ مکمل آمادہ اور تیار تھا اور آگ بھری ہوئی تھی۔ پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئے تو ہر روز صاحب الزمان علیہ السلام کو بلاتا ہے بتا تجھے صاحب الزمان علیہ السلام سے کیا کام ہے میں نے عرض کی جب صاحب الزمان علیہ السلام سامنے ہوں گے تو خود انہیں بتادوں گا تو انہں نے کہا کہ فرض کرو صاحب الزمان علیہ السلام تمہارے سامنے ہے میںنے کہا کہ خدا آپ کی زبان مبارک کرے پھر کہا کہ بتاو ان سے کیا کام ہے میں نے کہا میری حاجت ہے اور اپنی حاجت بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ وہ پوری کردی گئی ہے پھر فرمایا کہ پھر کبھی تمہیں یا ہمارے کسی دوست کو کوئی حاجت ہو تو اس ذکر کو سو مرتبہ کہو ذکر یہ تھا کہ ”یامحمد یاعلی علیہ السلام یافاطمہ علیہ السلام یا صاحب الزمان علیہ السلام اغثنی“ میں نے عرض کی کہ مجھے بھول نہ جائے تو پھر فرمایا کہ قلم اور کاغذ اسی تھیلا میں ہے اٹھا کر لکھ لو میں نے پھر شیخ حسن کو آواز دی تو فرمایا کہ اسے مت بلاو ۔ میں خود اٹھا اور حقہ کو میں نے تھیلا میں رکھا کاغذ قلم لیا اور عطا کردہ جملات لکھنے لگا ”یامحمد، یاعلی علیہ السلام ، یافاطمہ علیہ السلام، یا صاحب الزمان علیہ السلام“ جب کلمہ اغثنی لکھنے لگا تو قلم کو روک لیا وہ فرمانے لگے کہ تو اغثنی کی بجائے ”اغیثونی“ لکھنا چاہتا ہے میں نے عرض کی جی ہاں تو فرمایا کہ نہیں ”اغثنی“ ہی لکھ سب کام خود اکیلا مہدی علیہ السلام ہی کرتا ہے باقی بھی کام اسی کے سپرد کردیتے ہیں یہ جملات لکھنے کے بعد میں کاغذ اور قلم تھیلے میں رکھنے گیا رکھ کر واپس پلٹا تو دیکھا کہ آقا تشریف لے جاچکے ہیں فوراً تھیلے کی طرف پلٹا دیکھا کہ تھیلا بھی نہیں ہے میں نے فوراً شیخ حسن کو آواز دی اور پوچھا کہ یہ آقا کون تھے تو اس نے کہا کہ میں نے تو کسی کو نہیں دیکھا البتہ تم دونوں کی گفتگو کی آواز سنتا رہا ہوں۔
۳۔ مکہ میں زیارت امام زمان علیہ السلام
آقائے سیدرحیم ہاشمی کہ روحانی ہیں اور مشہد مقدس میں مقیم ہیں (یہ ایک نیک آدمی ہیں مشہد مقدس ادارہ خیریہ چلاتے ہیں ان کے توسط سے اب تک پانچ سو غیرشادی شدہ جوڑوں کے لئے شادی کا انتظام کروایا، مصنف)انہوں نے مجھے (مصنف کتاب) کو یہ واقعہ اپنے الفاظ کے ساتھ بیان کیاہے۔چالیس سال قبل میں سخت بیمار ہوگیا میرا مال ختم ہوگیا میں نے اپنا رہائشی گھر جو کہ میں نے دو حصوں میں تقسیم کردیا آدھے حصہ میں میں نے خود رہائش رکھی اور آدھے حصہ کو فروخت کردیا اور شام کے راستے مکہ کی طرف روانہ ہوا اس امید پر کہ امام زمان علیہ السلام سے ملاقات ہواپنے نہ جاننے والوں کےساتھ وارد مکہ ہوا۔
شب عرفہ
نو ذی الحجہ کی رات اپنے خیمہ سے باہر نکلا تو تین آدمیوں سے ملا انہوں نے مجھ سے کہا کہ کیا تم آمادہ ہو کہ ہمارے ساتھ مل کر دعائے عرفہ پڑھو مجھے بڑی خوشی ہوئی ہم ایک کونہ میں چلے گئے وہ تینوں دعائے عرفہ زبانی پڑھتے رہے اور میں ان کی دعا سے لذت حاصل کرتا رہا۔پھر انہوں نے کہا کہ اگر کل ہمیں ملنا چاہتے ہو تو جبل رحمت کے نزدیک فلاں نقطہ پر آجانا دوسرے دن بوقت ظہر وہاں گیا تو ایک آدمی ان سے آیا ہوا تھا مجھے کہا کہ تشریف رکھو باقی بھی آجاتے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ تمہارا دوپہر کا کھانا کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ پنیراور سبزی میں نے ان سے کہا کہ میرے قافلے میں آج مرغ اور چاول ہیں میں دوپہر کے کھانے کے لیے وہاں نہ رکا عید قربان کے دن میں خیمہ سے باہر نکلا تو پھر ان تینوں کو دیکھا انہوں نے مجھے کہا کہ اگر چاہتے ہو کہ تمہارا حج قبول ہو تو ہمارے ساتھ آو ہم جو کام کریں تم بھی وہی کرنا میں ان کے ساتھ رمی جمرات کے لیے گیا وہاں سے قربان گاہ ان کے ہمراہ گیا میں نے اپنی قربانی کسی کو دی اس نے اس کو ذبح کردیا میرے پاوں اور لباس خون آلودہ ہوگئے لیکن ان تینوں افراد کے ساتھ ایسا نہ ہوا میں نے ان کے ساتھ اپنا سرمنڈوایا اور ان کے ہمراہ شعب ابی طالب میں آئے اس دوران ہم ایک پانی کے حوض کے پاس پہنچے مجھے نہیں معلوم کہ یہ حوض کہاں سے آگیا ہم چاروں اس پانی میں اتر گئے ایک نے میرے بدن پر ہاتھ مارا دوسرے نے میرے کپڑے دھوئے اور اس جگہ ڈالے جہاں خشک ہوجائیں پھر ہم چاروں وہاں سے مسجد حرام کی طرف چلے اور باب السلام سے وارد مسجد ہوئے میں نے ان سے کہا کہ اب تک تم تینوں دعا پڑھتے رہے اب مجھے اجازت دو کہ میں بھی کوئی چیز پڑھوں انہوں نے کہا کہ پڑھو میں نے چہاردہ معصومین علیہ السلام پڑھنے شروع کردیے وہ بھی میرے ساتھ دہرانے لگے یہاں تک کہ میں کہا ”السلام علیک یابقیة اللہ“ میں نے دیکھا کہ ان میں سے دونے میرے ساتھ وہ جملہ دہرایا لیکن ایک خاموش ہوگیا اور پھر کہا ”وعلیکم السلام ورحمة اللہ “میں نے توجہ نہ کی کہ یہ کیا ہے ۔ وہ تینوں مسکرانے لگے میں نے کہا کہ آپ کیوں ہنس رہے ہیں کہنے لگے ہمیں ہنسی آگئی تھی ہم اکھٹے طواف کے لیے گئے آقا جو کہ ان دونوں کے آگے تھے اور وہ دونوں میرے دائیں بائیں تھے چونکہ میرا ہاتھ درد کرتا تھا وہ میری حفاظت کررہے تھے کہ کہیں میرا ہاتھ نہ دکھ جائے جب ہم مقام ابراہیم علیہ السلام پر پہنچے تو مجھے کہا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم تیری نیابت میں نماز پڑھیں میں نے کہا ٹھیک ہے تو انہوں نے فرمایا کہ پہلے خود پڑھ لو پھر ہم بھی نماز پڑھیں گے پھر ہم صفاءو مروہ کے لیے چلے گئے۔
کوہ صفاپر ان میں سے جو آقا تھے انہوں نے تین دعائیں کیں۔
۱۔ خدایا اس جگہ تیری کنیز حاجرہ علیہ السلام پانی کی تلاش میں سات بار دوڑتی ہوئی آئی اور گئی لیکن اب لوگ اپنے گناہوں کو بخشانے کےلئے دوڑتے ہیں اے اللہ تمام کو اپنی رحمت کا مستحق قرار دے ۔
۲۔ خداوند ہمارے شیعوں کو اپنی عنایت خاص کا مورد قرار دے۔
۳۔ اور آقا نے گریہ کی حالت میں جب کہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے تیسری دعا اپنے لیے کی اور فرمایا ”ربنالا نزع قلوبنا بعد ازہدیتنا وھب لنا من لدنک رحمة انک انت الوہاب“۔(سورہ آل عمران آیت ۸)
پھر ہم نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی شروع کردی جب کہ آقا مسلسل یہی آیت تلاوت کرتے رہے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری رہے سعی کے بعد تقصیر کی اور پھر طواف النساءکیا طواف کے بعد نماز پڑھی پہلے کی طرح انہوں نے میری نیابت میں نماز پڑھی۔ میں نے عرض کی کہ میں نے سنا ہے کہ جو شخص اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا کر دیوار کعبہ سے لگائے تو خدا اس کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے کیا میں یہ کام انجام دوں تو آقا نے فرمایا کہ لازم نہیں ہے کیونکہ جو شیعہ ہو اور اس طرح حج انجام دے تو اس کے گناہ معاف ہیں مجھے دو جگہ پر بڑی حیرانی ہوئی ایک اس وقت جب آقا نے کہا کہ (ہمارے شیعہ) اور دوسرا جب کہا کہ جو ہمارا شیعہ ہو، لیکن میںپھر بھی متوجہ نہ ہوا کہ آقا کون ہیں میں نے ان سے خدا حافظی کی آکر دیوار کعبہ کے ساتھ اپنا شکم مس کیا توبہ واستغفار کیا پھر اپنے خیمہ کی طرف آگیا جو کہ صحرا منیٰ میں تھا میں نے اپنے ہمراہ ساتھیوںسے پوچھا کہ کیا کر چکے ہیں تو انہوں نے کہا کچھ رمی جمرات کر چکے ہیں اور قربان گاہ کی طرف گئے ہیں تو نے کیا کیا ہے میں نے کہا کہ میں تو تمام اعمال صحیح انجام دے چکا ہوں کہنے لگے تو جھوٹ بولتا ہے میں نے جب سارا واقعہ سنایا تو سب کے سب رونے لگ پڑے میں ان کے گریہ سے متوجہ ہوا کہ میں نے اپنے حج کے اعمال امام زمان علیہ السلام کے ہمراہ انجام دیے ہیں ۔
۴۔ آیت اللہ شیخ محمد طہٰ کو شرف زیارت
سید حسین بحرالعلوم جو کہ سید علی بحرالعلوم کے پوتے ہیں فرماتے ہیں کہ نجف میں ایک کمرے میں بیٹھا ہوا تھا اور مہمانوں اور آنے والوں کا استقبال کر رہا تھا کہ ایک ہندی مسلمان جو کہ عامل اور ریاضت کار تھا وارد ہوا اس نے دعویٰ کیا کہ وہ غیبی سوال کا جواب دے گا وہ سوالات کا جواب کاغذ قلم اور ریاضی کے ذریعہ دیتا تھا۔(یہ شخص شیعہ تھا جس نے بہت ساری ریاضتیں کی ہوئی تھیں جس وجہ سے اس مقام پر پہنچ چکا تھا(مصنف)
میں نے اس سے سوال کیا کہ بتا اس وقت امام زمان علیہ السلام کہاں ہیں ؟۔ کافی دیر کی خاموشی کے بعد اس ہندی نے جواب دیا کہ وہ شیخ طہٰ کے گھر ہیں میں اور میرے اطراف میں بیٹھے دیگر لوگ فوراً شیخ طہٰ کے گھر کی طرف جلدی سے روانہ ہوئے شیخ طہٰ کے گھر کے قریب ایک شخص کو دیکھا کہ جس نے عراقی لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور بہت باوقار تھا اس کی شکل وصورت سے اس کی ہیبت وقدرت ظاہر تھی ہم شیخ کے گھر داخل ہوئے دیکھا کہ شیخ طہٰ کی آنکھوں سے اشک جاری ہیں اور مسلسل یہی بات دہرا رہے ہیں کہ میرے ہاتھ آئے اور پھر ہاتھ سے نکل گئے ہم نے رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ لوگ مجھ سے شرعی مسائل معلوم کرنے اور دیگر معاملات حل کرانے آتے ہیں اور میں فتویٰ دیتا ہوں ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ کیا میرے اعمال اللہ رب العزت رسالتماب اور آئمہ علیہ السلام کے نزدیک مورد قبولیت ہیں یا نہیں میں نے تین سال تک اس سلسلہ میں مولا امیرالمومنین علیہ السلام سے توسل کیا اور درخواست کی کہ اگر اپنے اعمال میں مجھ سے خطا ہوئی ہے تو مجھے آگاہ فرمائیں کچھ راتیں پہلے مجھے عالم خواب میں مولاامیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: کہ جو چیز تم نے مجھ سے طلب کی ہے بہت جلد میرے بیٹے مہدی علیہ السلام کے ذریعہ جواب تم تک پہنچ جائے گا آج میں اپنے گھر اکیلا بیٹھا تھا اگرچہ میں نابینا ہوں مگر مجھے محسوس ہوا کہ کوئی میرے گھر میں داخل ہوا ہے اس نے مجھ پر عراقی لہجہ میں سلام کیا اور مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا جس کا میں نے جواب دیا اس نے میرے جواب پر علمی اعتراض کیا میں نے پھر جواب دیا اس نے پھر اعتراض میں نے پھر اس کا جواب دیا تیسری مرتبہ اعتراض کیا میں نے پھر اسے جواب دیا اس نے پھر اعتراض کیا میں نے پھر جواب دیا پھر میرے دل میں خیال آیا کہ کیسے ممکن کہ ایک عراقی اس طرح کے مسائل سے آگاہ ہو تو اچانک اس عراقی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ”انت مرضی عندنا“ کہ تو ہمارے نزدیک پسندیدہ ہے مجھے عجیب لگا کہ ایک عراقی کیسے ایک مرجع تقلید کو یہ بات کہہ رہا ہے وہ یہ کہہ کر میرے گھر سے باہر چلا گیا تو میں بعد میں متوجہ ہوا کہ یہ تو میرے آقا و مولا امام زمان علیہ السلام تھے۔ہم نے شیخ طہٰ کو عرض کی کہ ہم اسی لیے آپ کے پاس آئے تھے اور ہم نے سرکار کی زیارت آپ کے گھر کے باہر کی ہے جو کہ عراقی لباس میں تھے۔(نقل از کتاب شیفتگان تلخیص)
۵۔ آیت اللہ عبدالنبی اراکی کو شرف زیارت
حجة الاسلام سید محمدمہدی مرتضوی لنگرودی جو کہ اس دور کے بہترین مصنف اور علماءسے ہیں نے یہ واقعہ مجھے بیان فرمایا کہ ایک روز آیت اللہ عبدالنبی اراکی میرے والد مرحوم سے جو کہ نامور علماءسے تھے ملنے کے لیے ہمارے گھرتشریف لائے سلام و دعا کے بعد میرے والد صاحب کو کہنے لگے کہ تمہیں پتہ ہے کہ ہماری نجف میں آیت اللہ اصفہانی بارے رائے کیا تھی اور ہم ان کی ترویج مرجعیت نہیں کرتے تھے بلکہ ہم اکثر علماءوفضلاءکی محفلوں میں کچھ یوں اظہار خیال کرتے تھے کہ ہم آیت اللہ اصفہانی سے کوئی زیادہ کم مرتبہ نہیں ہیں کہ ان کی مرجعیت کے حوالہ سے ترویج کریں۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ تم آیت اللہ اصفہانی کے بارے میں یہی کہتے تھے اور تمہارا دعویٰ یہی تھا مگر درحقیقت تم مراتب میں ان سے بہت کم تھے بلکہ تمہارا اور ان کاموازنہ کرنا مناسب ہی نہیں ہے۔ آیت اللہ اراکی نے کہا کہ آج میں تمہیں آیت اللہ اصفہانی کی عظمت وشخصیت کے بارے کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں اور کچھ یوں گفتگو جاری رکھی کہ ایک دن ہمیں پتہ چلا کہ ہندی ریاضت کار عامل نجف آیا ہے جو کہ بہت خدارسیدہ ہے کئی علماءوفضلا اورطلباءحوزہ علمیہ اس کے دیدار کے لیے جانے لگے۔میں بھی ا س کے دیدار کے لیے گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا دوران ریاضت کوئی ایسا ختم یا ورد وظیفہ تمہارے ہاتھ آیا ہے کہ جس کے ذریعہ سے امام زمان علیہ السلام کی خدمت میں رسائی ہو تو اس نے جواب دیا کہ ہاں میرے پاس ایک تجربہ شدہ ختم ہے میں نے اس سے وہ مجرب ختم حاصل کیا وہ کچھ اس طرح تھا۔پاک وصاف لباس اور بدن کے ساتھ بیابان میں چلے جاو اور ایسی جگہ کا انتخاب کرو جو کہ لوگوں کی آمدو رفت کی جگہ نہ ہوباوضو ہو کر قبلہ رخ بیٹھ جاو اپنے ارد گرد ایک دائرہ کھینچ لو اور ۵۷ مرتبہ آیت الکرسی کی تلاوت شروع کردو پس ختم آیت الکرسی کے اختتام پر جو بھی پہلا شخص ختم پڑھنے والے کو ملے گا وہ امام زمان علیہ السلام ہوں گے، آیت اللہ اراکی فرماتے ہیں کہ میں بیابان میں چلا گیا اور بتائے گئے طریقہ مطابق ختم آیت الکرسی انجام دیا جیسے ہی ختم تمام ہوامیں نے ایک سید کو دیکھا جس کا سبز عمامہ تھا مجھ سے اس نے کہا کہ تمہاری کیا حاجت ہے میں نے فوراً کہا کہ مجھے تم سے حاجت نہیں ہے سید نے کہا کہ تم نے مجھے بلایا ہے میں نے کہا کہ آپ کو اشتباہ ہوا ہے میں نے آپ کو نہیں بلایا تو سید نے کہا کہ مجھے ہر گز اشتباہ نہیں ہے تو نے مجھے بلایا ہے جس کی وجہ سے میں یہاں آیا ہوں ورنہ ہمارے انتظار میں تو بہت لوگ ہیں لیکن تو نے اپنی درخواست میں جلدی کی ہے اس لیے ہم پہلے تمہارے پاس چلے آئے ہیں تاکہ تمہاری حاجت پوری کریں اور پھر یہاں سے کسی اور جگہ جائیں میں نے کہا کہ میرے ذہن میں نہیں آتا کہ مجھے آپ سے کوئی کام ہو آپ جس اور جگہ جانا چاہتے ہیں جا سکتے ہیں جہاں اورلوگ آپ کے خواہشمندہیں آپ ان سے جا کر ملیں میں تو ایک بزرگ و عظیم شخصیت کے انتظار میں ہوں سید کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ مجھ سے دور ہوگئے ابھی چند قدم دور گئے تھے کہ میرے دل میں خیال آیا کہ کیا اس عامل نے نہیں کہا تھا کہ ایسی جگہ جا کر بیٹھنا جہاں آمدورفت نہ ہو تو ایسی جگہ پر ختم کے مکمل ہوتے ہی جو شخص ظاہر ہوگا وہ آقا ومولا ہوں گے یقینا امام زمان علیہ السلام سرکار تھے، میں فوراً ان کے پیچھے ہو لیا لیکن میں نے انہیں جتنا بھی تلاش کیا ان تک نہ پہنچ سکا ناچار میں نے عبا اتاری اور بغل میں دی جوتے اتار کر ہاتھوں میں پکڑ لیے اور ننگے پاوں تیز تیز دوڑ کر آقا کے پیچھے ہو لیا لیکن ان تک نہ پہنچ سکا اگرچہ وہ بہت آہستہ چل رہے تھے تو مجھے یقین حاصل ہو گیا کہ وہ سید امام زمان علیہ السلام ہی تھے چونکہ میں بہت زیادہ دوڑا تو تھک گیا میں نے کچھ آرام کیا لیکن میری آنکھیں آقا کی طرف اورجستجو میں تھیں اور تلاش میں تھی کہ آقا کون سے جھونپڑے میں چلے گئے ہیں تاکہ میں کچھ آرام کے بعد اسی جھونپڑے میں چلا جاوں میں نے دور سے دیکھا وہ ایک جھونپڑے میں وارد ہوئے میں بھی کچھ دیر بعد اس جھونپڑے کی طرف چلا کچھ دیر چلنے کے بعد اس جھونپڑے تک پہنچ گیا میں نے دروازہ پر دق الباب کیادروازہ پر ایک شخص ظاہر ہوا اور کہا کیا کام ہے میں نے کہا کہ آقا سے ملنا چاہتا ہوں اس نے کہا آقا سے ملنے کے لیے اجازت چاہیے تم ٹھہرو میں تمہارے لیے اجازت طلب کروں وہ چلاگیا اور کچھ دیر بعد واپس آکر کہا کہ آقا نے اجازت دے دی ہے میں جھونپڑے میں داخل ہوا میں نے دیکھا کہ وہی آقا جو مجھے ملے تھے ایک تخت ، چٹائی پر بیٹھے تھے میں نے سلام کیا اور آقا نے جواب دیا میں نے سنا آقا نے فرمایا کہ چٹائی پر بیٹھ جاو میں اطاعت حکم کی اور آقا کے سامنے تخت پر بیٹھ گیا۔ کچھ ججھک کے بعد اپنے مشکلات مسائل ایک ایک کر کے بیان کرنا چاہا میں نے جتنی بھی کوشش کی کوئی ایک مسئلہ بھی مجھے یاد نہ آیا میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد سراٹھایا تو دیکھا کہ آقا میرے منتظر ہیں مجھے شرمندگی ہوئی میں شرمسار ہوکر عرض کی آقا مجھے اجازت دیں انہوں نے فرمایا کہ ماشاءاللہ جاسکتے ہیں میں جھونپڑے سے نکلا ابھی چند قدم چلا تھا کہ مجھے اپنے مسائل ومشکلات تمام یاد آگئے مجھے خیال آیا کہ یہ سب زحمت جو میں نے اٹھائی ہے اوراس جگہ تک پہنچا ہوں لیکن آقا سے کوئی فائدہ نہیں لے سکا مجھے چاہیے کہ دوبارہ جرات کرتے ہوئے جھونپڑے کا دروازہ کھٹکھٹاوں آقا کی خدمت میں جاوں اور اپنے سوال بیان کروں میں نے جھونپڑے کا دروازہ بجایا، دوبارہ وہی شخص باہر آیا میں نے کہا کہ دوبارہ آقا سے ملنا چاہتا ہوں اس نے کہا کہ آقا نہیں ہیں میں نے کہا کہ جھوٹ نہ بولو میں گھومنے پھرنے نہیں آیا بلکہ مشکلات و مسائل ہیں جن کا آقا سے حل چاہتا ہو اس نے کہا کہ کیسے میری طرف جھوٹ کو نسبت دے رہے ہو۔ استغفار کرو، جھوٹ بولنا تو درکنار اگر میں صرف جھوٹ کا قصد بھی کروں تو مجھے یہاں کیسے ٹھہرایا جا سکتاہے۔ یہ آقا عام شخصیت نہیں ہیں یہ امام والا مقام ہیں مجھے بیس سال ہوگئے ہیں کہ آقا کی نوکری کررہا ہوں آقا نے مجھے کبھی دروازہ کھولنے کی زحمت نہیں دی اگر دروازہ بند ہو تو کبھی دروازہ بند ہونے کے باوجود اندر تشریف لے آتے ہیں کبھی چھت سے اندر آتے ہیں کبھی دیکھتا ہوں تو آقا تخت پر مشغول عبادت ہوتے ہیں اور کبھی اچانک غیب ہوتے ہیں لیکن ان کی صدا مبارک مجھے سنائی دیتی رہتی ہے اور کبھی کبھی تو مستقلاً جھونپڑا چھوڑ دیتے ہیں ۔کبھی اچانک تشریف لے آتے ہیں کبھی کبھی تین تین دن تک تشریف نہیں لاتے کبھی کبھی چالیس دن کبھی کبھی دس دن یا مسلسل جھونپڑے میں تشریف فرمارہتے ہیں ۔ ان آقا کے کام دیگر لوگوں سے مختلف ہیں میں نے کہا کہ میں نے جھوٹ کو آپ کی طرف نسبت دی جس پر معذرت خواہ ہوں اور استغفار کرتا ہوں مجھے امید ہے کہ آپ مجھے معاف فرمائیں گے۔ اس نے کہا کہ میں نے آپ کو معاف کیا تو میں نے کہا کہ میری مشکلات کے حل کے لیے کوئی راہ ہے ! تو اس نے کہا کہ ہاں جب امام زمان علیہ السلام سرکار یہاں تشریف نہ رکھتے ہوں تو ان کے نائب یہاں آکر تشریف فرما ہو جاتے ہیں اور تمام مشکلات کا حل پیدا کرتے ہیں میں نے کہا کہ کیا ممکن ہے کہ میں اس نائب سے مل سکوں اس نے کہا کہ ہاں میں جھونپڑے میں داخل ہوا میں نے دیکھا کہ آقا امام زمان علیہ السلام کی جگہ پر آقائے ابوالحسن اصفہانی تشریف فرما ہیں میں نے سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اور مسکر کر اصفہانی لہجہ میں فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کی الحمدللہ پھر میں نے ایک ایک کر کے اپنے مسائل بیان کرنا شروع کر دیے میں نے جوبھی سوال عرض کیا انہوں نے بلاتامل جواب دیا اور ساتھ حوالہ دیا کہ یہ مسئلہ صاحب جواہر نے فلاں صفحہ پر درج کیا ہے اور فلاں جواب کتاب حدائق میں فلاں صفحہ پر ہے جو صاحب حدائق نے دیا ہے اس مسئلہ کا جواب صاحب ریاض نے فلاں صفحہ پر دیا ہے ان کے تمام جوابات اور حل انتہائی تحقیقی اور مطمئن کرنے والے تھے۔ تمام حل سننے کے بعد میں نے ان کے ہاتھوں کا بوسہ دیا اور اجازت لے کر رخصت ہوا!۔
جب باہر آیا تو میں نے اپنے آپ سے کہا کہ کیا یہ واقعاً سید ابوالحسن اصفہانی ہی تھے یا انکی شکل میں کوئی اور تھا میں تردد میں تھا میںنے اپنے آپ سے کہا کہ میرا تردد تب ختم ہوگا کہ نجف جاوں اور سید ابوالحسن اصفہانی کے گھرجاوں اور وہی مسائل جا کر ان سے دوبارہ پوچھوں اگر جواب وہی ہوئے اور کوئی کمی بیشی نہ ہوئی تو مجھے یقین ہو جائےگا کہ وہاں یہی سید ابوالحسن اصفہانی ہی تھے جب میں نجف میں آیا اور انکی منزل پر پہنچا ان کے مخصوص کمرے میں وارد ہوا سلام کیا انہوں نے جواب دیا انہوں نے مسکراتے ہوئے اسی انداز میں جیسا جھونپڑے میں تھا مجھ سے میرا حال خالص اصفہانی لہجہ میں پوچھا میں نے جواب دیا اور پھر اپنے مسائل اسی طرح بیان کیے اور انہوں نے جواب دیے اور پھر فرمایا کہ اب مطمئن ہو یا ابھی تردد میں ہو، میں نے کہا کہ اب یقین ہے میں نے انکے ہاتھوں کو بوسہ دیا جب میں انکی خدمت سے جانے لگا تو انہوں نے فرمایا کہ میں قطعاً راضی نہیں ہوں گا کہ میری زندگی میں یہ واقعہ کسی کو نقل کرو ہاں میرے مرنے کے بعد بے شک کرنا
۶۔ ایرانی انجینئر اور اس کی امریکی بیوی کو شرف زیارت
ایک ایرانی جوان جو کہ امریکہ کی یونیورسٹی میں انجینرنگ کررہا تھا ایک مسیحی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوگیا جو کہ طالبہ تھی اس نے اسے شادی کی پیشکش کی ایرانی جوان نے کہا کہ شادی ممکن نہیں ہے کیونکہ میں مسلمان ہوں اور تم عیسائی ہو تو لڑکی نے کہا میں مسلمان ہوجاتی ہوں لڑکے نے کہا کہ ہوس کی وجہ سے اسلام لانااسلام نہیں ہے تولڑکی نے کہا کہ پھر مجھے کیسے مسلمان ہونا چاہیے لڑکے نے کہا کہ پہلے تم اسلام کی معرفت اورپہچان حاصل کرو اگر پسند آئے تو اسلام قبول کر لینا لڑکے نے دو کتابیں قرآن مجید اور نہج البلاغہ جو کہ انگریزی زبان میں تھیں اس لڑکی کو دیں اور کہا کہ ان کا مطالعہ کرو اور اپنا نظریہ مجھے بتاو،لڑکی نے تقریباً دو ماہ تک قرآن اور نہج البلاغہ کا مطالعہ کیا اور کہا کہ اسلام اچھا دین ہے اور میری عقل سے ہم آہنگ ہے لڑکے نے کہا کہ اسلام صرف عقیدہ کا نام نہیں ہے بلکہ عقیدہ کے ساتھ عمل بھی ہے اور پھر اسے نماز کی تعلیم دی اور کہا کہ تم چالیس دن نماز پڑھو اور پردہ کی حفاظت کرو تاکہ تمہاری عادت بن جائے پس لڑکی نے چالیس دن تک دیے گئے دستور مطابق عمل کیا تو ایرانی جوان نے اس لڑکی سے شادی کر لی لڑکے نے کہا کہ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس ایران جا کر خدمت کرنا چاہتا ہوں تم بھی میرے ساتھ ایران چلو گی لڑکی نے کہا جی ہاں میں جاوں گی کچھ مدت بعد جب تعلیم مکمل ہوگئی تو ایران جانے کا وقت آگیالڑکے نے بیوی سے کہا کہ ایام حج نزدیک ہیں بہتر ہوگا کہ یہیں سے ہم حج پر چلے جائیں اور پھر وہاں سے ایران چلے جائیں گے لڑکی نے یہ بات قبول کر لی، واضح رہے کہ ان دونوں میاں بیوی کے درمیان امام زمان علیہ السلام کے حوالہ سے بہت زیادہ بحث و مباحثہ ہوتا رہا لڑکی کہتی تھی کہ امام زمان علیہ السلام کی غیبت کا کیا فائدہ ہے؟ امام کو چاہیے کہ وہ حاضر ہو تاکہ اس سے فائدہ حاصل کیا جا سکے لڑکا جواباً کہتا کہ امام دین اور افراد کے پشت پناہ ہیں مگر پردہ کے پیچھے سے اور جب دین کونابود ہونے کا خطرہ ہوگا تو امام ظہور فرمایں گے اور جب کہیں انسان پریشان و مضطر ہو جاتے ہیں تو امام سے متوسل ہوتے ہیں اور مدد چاہتے ہیں تو امام ان کی فریاد پر پہنچتے ہیں ۔
وہ ہر ضرورت کے موقعہ پر انسان کی مدد کے لیے آجاتے ہیں دونوں میاں بیوی اعمال حج انجام دیتے رہے رمی جمرات کے موقع پر رش کی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوگئے لڑکی جو کہ عربی اور فارسی نہ جانتی تھی جتنا تلاش کرتی رہی مگر شوہر نہ نظر آیا اور نہ ہی اپنا خیمہ تلاش کر سکی تھک کر ایک جگہ بیٹھ گئی اور رونے لگی اور اس نے امام زمان علیہ السلام سے مدد طلب کی دوسری طرف اس کا شوہر بھی سخت پریشان اپنے خیمہ کے دروازہ پر مایوسی کی حالت میں کھڑا دل ہی دل میں کہہ رہا تھا کہ شاید اب وہ مجھے کبھی نہ ملے کہ اچانک اس کی بیوی ایک شخص کے ساتھ گفتگو کرتی ہوئی آرہی ہے ساتھ آنے والے شخص نے لڑکی کو اس کے شوہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمہارا شوہر ہے اور لڑکی نے بھی دیکھ کر کہا کہ ہاں پس ساتھ آنے والے شخص نے خداحافظی کی اور لڑکی کو شوہر کے پاس پہنچا کر چلا گیا۔ ایرانی انجینئر نے بیوی سے پوچھا کہ تم کیسے پہنچی ہو تو لڑکی نے کہا کہ میں نے امام زمان علیہ السلام سے توسل کیا تو یہ آقا جو مجھے یہاں پہنچانے آئے تھے میرے پاس آگئے میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں مہدی علیہ السلام ہوں اور مجھ سے انگلش میں بات کی اور مجھے سیدھا اپنے خیمہ کی طرف لے آئے ۔
۷۔ نو مسلم خیبری کو شرف زیارت
حجة الاسلام یحیٰ طہرانی نے ثقة الاسلام سید ابوالحسن طالقانی جو کہ میرزا بزرگ کے اصحاب سے تھے سے واقعہ نقل کیا ہے انہیں کی زبانی تحریرہے۔
ہم کچھ دوستوں کے ساتھ کربلا معلی سے واپس سامرالوٹے ظہر کے وقت ہم ایک قصبہ جس کا نام دجیل ہے پہنچے دوپہر کے کھانے اور آرام کے لیے ہم وقت عصر تک رکے رہے۔
شیخ محمد حسن کے ہمراہ ایک سامرہ کے طالب علم کو دیکھا جو دیگر طلبہ کے ساتھ کھانا تیار کرانے میں مصروف تھا وہ طالب علم شیخ کے ساتھ عبرانی زبان میں تورات پڑھنے میں مصروف تھا مجھے تعجب ہوا اور میں نے شیخ محمد حسن سے پوچھا کہ یہ کون ہے اور اس نے عبرانی زبان کہاں سے سیکھی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ نومسلم ہے پہلے یہودی تھا میں نے اس کے مسلمان ہونے کا واقعہ پوچھا کہ کیسے مسلمان ہوا؟تو خود اس طالب علم نے بتایا کہ میں خیبر کے یہودیوں سے تھا خیبر میں یہود کا ایک بہت بڑا اور پرانا کتاب خانہ ہے اس میں ایک تورات جو قدیم ہے جو کہ چمڑے پر لکھی ہوئی تھی ایک کمرہ میں بند تھی اور اسے تالا لگا کر رکھاجاتا تھا ۔ گذشتگان نے سفارش کی تھی کہ اس کمرے کا تالا کبھی نہ کھولا جائے اور کوئی اس تورات کی تلاوت ومطالعہ نہ کرے اور مشہور کر رکھا تھا کہ جو بھی اس تورات کو دیکھے گا پاگل ہو جائے گا اور بالخصوص جوانوں کو سختی سے منع کیا گیا تھا میں اور میرا بھائی اس چکر میں تھے کہ کسی طرح اس تورات کو دیکھیں ہم اس کمرے کے کلید بردار کے مخصوص کمرے میں گئے اور اس سے گزارش کی کہ وہ ہمارے لیے دروازہ کھول دے اس نے پہلے پہل تو انکار کردیا مگر ہمارے اصرار پر راضی ہو گیا ہم نے اسے کافی رقم کا لالچ دے کر راضی کیا ہم اس کے ساتھ طے شدہ وقت میں وہاں پہنچے اور کمرے میں داخل ہوگئے اور اس تورات کے مطالعہ میں مصروف ہوگئے ایک مخصوص صفحہ نے ہماری توجہ خاص طور پر اپنی طرف مبذول کرالی میں نے اسے بادقت پڑھا ایک صفحہ میں لکھا تھا کہ عربوں سے ایک پیغمبر آخریزمان علیہ السلامہ میں معبوث ہو گا جس کی تمام اوصاف و خصلت نام ونشان نسب وغیرہ بیان کیا گیا تھا اور ساتھ اس نبی کے ۲۱ اوصیاءکے نام اور تعارف بھی لکھا تھامیں نے اپنے بھائی سے کہا کہ ہمیں ان صفحات کو نقل کر لینا چاہیے اور اس پیغمبر بارے جستجو کریں ہم اس پیغمبر کے پرستار ہوگئے اور ہماری ساری کوشش اس نبی بارے جستجو کرنے اور تلاش میں ہوتی تھی ہمارا علاقہ پسماندہ تھا رفت وآمد کے ذرائع نہ تھے اور غیر ممالک یا شہروں سے ہمارا رابطہ بہت کم تھا۔
آخر کار مدینہ کے کچھ تاجر ہمارے شہر وارد ہوئے ہم نے بہت مخفی طریقہ سے ان میں سے دو آدمیوں سے پتہ چلایا کہ وہ پیغمبر جس کا تورات میں تذکرہ ہے وہ مبعوث ہوچکا ہے اور ہم کو اسلام کی حقانیت کا یقین ہوگیا لیکن ہم میں جرات نہ تھی کہ اس موضوع پر کسی سے گفتگو کریں میں نے اپنے بھائی کے مشورہ سے یہاں سے فرار کا منصوبہ بنا لیا ہم نے سوچا کہ اگر ہم مسلمانوں کے مرکزی شہر مدینہ جائیں تو چونکہ مدینہ ہمارے شہر کے نزدیک ہے یہودی ہمارے لیے مشکلات پیدا کریں گے ہم نے موصل اور بغداد کانام سنا ہواتھا۔ چونکہ انہی دنوں والد فوت ہوا تھا اور اس نے اپنا ایک وصی مقرر کیا ہوا تھا ہم اس وصی کے پاس گئے اس سے دوسواریاں اور کچھ رقم حاصل کی سواریوں پرسوار ہو کر ہم نے عراق کی طرف سفر شروع کردیا جب ہم موصل پہنچے تو ایک سرائے میں گئے رات وہاں بسر کی صبح ہماری سواریوں کو دو آدمیوں نے کافی اصرار کر کے ہم سے خرید لیا ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں بغداد جانا چاہیے لیکن دوسری طرف ہم خوفزدہ تھے کیونکہ بغداد میں ہمارا ماموں رہتا تھا اورتجارت کرتا تھا ممکن ہے اسے ہمارے فرار کی خبر ہوچکی ہو بہرحال ہم بغداد آگئے اور ایک کاروان سرائے میں جگہ حاصل کی ایک دن سرائے کا مالک جو کہ بوڑھا آدمی تھا ہمارے کمرے میں آیا ہم نے اسے کہا کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں کسی مسلمان عالم کے پاس لے چل اس نے اپنے اپنے ابرو ہاتھوں سے اٹھاکر دیکھا اور کہا کہ چلیں۔
ہم تین آدمی قاضی بغداد کے گھر پہنچ گئے قاضی نے پہلے توحید بارے گفتگو کی پھر پیامبر اسلام کے بارے بیان کیا اور پھر خلفاءپیغمبر میں سے عبداللہ بن ابی قحافہ (ابوبکر) کا تعارف کرایا میں نے قاضی سے کہا یہ عبداللہ کون ہے اس کا ذکر ہماری تورات میں اوصیاءپیغمبر میں نہیں ہے قاضی نے کہا کہ ابوبکر وہ ہے کہ جس کی بیٹی پیغمبر کی زوجہ ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے تورات میں پڑھا کہ وصی پیغمبر وہ ہے کہ پیغمبر کی بیٹی جس کی زوجہ ہوگی۔ میری یہ بات سنتے ہی قاضی کا رنگ بدل گیا اور سخت ناراض ہوگیا اور کہا اس رافضی کو باہر نکال دو۔
مجھے اور میرے بھائی کو انہوں نے دھکے مار کر نکال دیا ہم سرائے میں واپس آگئے سرائے کا مالک بھی ہمارے اس ماجرا سے حیران تھا اور ہم سے بے پروائی یا غفلت نہیں برتتا تھا ہم حیران تھے کہ یہ رافضی کیا ہے رات کو ہم سوگئے صبح ہم نے پھر سرائے کے مالک کو بلایا اور اسے کہا کہ شاید قاضی کو ہماری بات سمجھ نہیں آئی ہمیں پتہ نہیں کہ یہ رافضی کیا ہوتا ہے اس نے کہا کہ جو کچھ قاضی کہتا ہے اسے قبول کرلو ہم نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی ہم نے اسلام کی تلاش میں اپنا گھر شہر اور عزیز و اقارب چھوڑے ہمیں دیگر کوئی غرض و غایت نہیں ہے ہم صرف حقیقت تلاش کرنا چاہتے ہیں اس نے کہا کہ آو دوبارہ قاضی کے پاس چلتے ہیں ہم دوبارہ قاضی کے پاس گئے اور اسے کہا کہ ہم نے اپنا شہر اور گھر چھوڑ دیا ہے اور حقیقت کی تلاش میں ہیں ہم نے پیغمبر اور اس کے اوصیاءکی صفات اور نشانیاں قدیمی نسخہ تورات میں پڑھی ہیں لیکن اس میں عبداللہ ابن ابی قحافہ (ابوبکر) کا تذکرہ نہیں ہے تو قاضی نے کہا کہ اگر ابوبکر کا ذکر نہیں ہے تو پھر کس کا ہے میں نے کہا کہ تورات قدیم میں تو لکھا ہے کہ پیغمبر کا خلیفہ وہ ہوگا جو پیغمبر کا داماد اور چچازاد ہوگا۔ ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ قاضی نے اپنے پاوں سے جوتا اتار لیا میرے منہ اور سر پر جتنا مارسکتا تھا مارا بڑی مشکل سے میں نے اس سے جان چھڑائی میرا بھائی تو پہلے ہی بھاگ گیا تھا میں بھی زخمی منہ اور سر کے ساتھ بھاگ گیا اور مجھے معلوم نہ تھا کہ کہاں جاوں میں دریائے دجلہ کے کنارے پہنچا کمزوری کی وجہ سے بیٹھ گیا مصیبت مسافرت اور خوف کی وجہ سے رونے لگا اچانک ایک نوجوان کو دیکھا جس نے سفید لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور دو خالی کوزے اس کے ہاتھ میں تھے شاید دریا سے پانی بھرنا چاہتا تھا میرے قریب آیا اور بیٹھ گیا جب اس نے میرا منہ سرزخمی دیکھا تو پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ میں نے کہا کہ پردیسی ہوں اور خیبر کے یہود سے ہوں اور پھر اپنا تمام ماجرا اسے سنا دیا تو اس نے کہا کہ کیا میں تمہارے لیے تورات پڑھوں میں نے عرض کیا ہاں!
تو اس جوان نے تورات عبرانی زبان میں پڑھنی شروع کردی وہ ایسے پڑھ رہا تھا کہ جیسے وہ قدیمی نسخہ تورات جو چمڑے پر لکھا ہوا تھا اسی جوان کا لکھا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے اسلام قبول کیا ہے اور میرے ساتھ یہ سب کچھ ہوا ہے اس سفید پوش جوان نے مجھ سے پوچھا کہ بتاو یہود کے کتنے فرقے ہیں میں نے عرض کی بہت زیادہ ہیں تو جوان نے کہا کہ ۱۷ فرقہ ہے اور پوچھا کہ کیا سارے حق پر ہیں میں نے کہا نہیں پھر اس نے پوچھا کہ عیسائی کتنے فرقے ہیں میں نے کہا کہ کئی ہیں فرمایا وہ ۲۷ فرقے ہیں پھر پوچھا کہ سارے حق پر ہیں میں نے عرض کی نہیں پھر اس نے فرمایا کہ اسلام کے بھی ۳۷ فرقے ہیں صرف ایک حق پر ہے تو میں نے عرض کی اسی حق والے فرقہ کا متلاشی ہوں کیا کروں تو اس جوان نے کہا کہ تم اس راستے سے کاظمین چلے جاواور شیخ محمد حسن آل یٰسین کے پاس پہنچو وہ تمہاری حاجت پوری کردے گا پھر اچانک نوجوان میری نظروں سے غائب ہوگیا میں نے بڑاڈھونڈھا مگر کوئی آثار اس کے نہ ملے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ عام لوگوں سے نہ تھا بلکہ ایک غیبی انسان تھا مجھے ہدایت کا یقین ہوگیا میں نے نئی طاقت پیدا کی اور اپنے بھائی کی تلاش میں نکل پڑا آخر اسے تلاش کرلیا اس وجہ سے کہ کاظمین اور شیخ محمد حسن کانام نہ بھول جاوں مسلسل زبان پر یہ دو نام لیتا رہا میرے بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ کون سی دعا پڑھ رہے ہو میں نے اسے واقع بتایا وہ بہت خوش ہوا اور ہم کاظمین روانہ ہوئے شیخ آل محمد حسن آل یٰسین کی خدمت میں حاضر ہوئے انہیں تمام واقعہ جوپیش آیا بیان کیا جس کو سن کر شیخ بہت رویا کچھ دیر ہماری آنکھوں کو چومتا رہا اور کہتا رہا کہ تم نے ان آنکھوں سے مولا ولی العصر امام زمان علیہ السلام کا دیدار کیا ہے ہم کچھ وقت شیخ کے مہمان رہے یہاں تک کہ ہم خبر ملی کہ ہماری گھر سے فرار کی خبر ہمارے ماموں کو بغداد میں کر دی گئی ہے اور ہمارا ماموں ہماری تلاش میں ہے اس بنا پر شیخ محمد حسن نے ہمیں سامرہ بھیج دیا ہم ایک مدت تک سامرہ رہے ہمارے ماموں کو اطلاع ملی اس نے حکومت کو شکایت کی کہ دوجوان اپنے باپ کا مال چوری کرکے سامرہ بھاگ آئے ہیں مرحوم آیت اللہ مرزا بزرگ نے فرمایا کہ تمہارے ماموں نے ہمارے لیے بڑی مشکلات اور زحمات پیدا کی ہیں ڈر ہے کہ وہ تمہیں کوئی صدمہ نہ پہنچائے لہٰذا تم حلہ چلے جاو ہم حلہ آئے اور علم دین حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے۔(مصلح حقیقی جہان)
۸۔ تین چِلّے امام زمان علیہ السلام کی جستجو میں
اہل علم سے نقل ہے کہ جوکوئی چالیس روز تک عمل صالح مسلسل بجالائے خلوص کے ساتھ اور اس نیت کے ساتھ کہ مجھے دیدار سرکار امام زمان علیہ السلام ہو تو اسے امام زمان علیہ السلام کا دیدارہوگامثلاً اگر کوئی مالدار مسلسل چالیس رات ۰۴ آدمیوں کو کھانا کھلاے تو اسے دیدار سرکار حاصل ہوگا ایک مال دار شخص نے یہ بات جب ایک عالم سے سنی تو پکاارادہ کر لیا کہ وہ چالیس رات ۰۴ مساکین کو کھانا کھلائے گا اس نے ایسا ہی کیا آخری رات کے کھانے بعد اس ثروت مند کر اطلاع دی گئی کہ ایک شخص نے کھانا مانگا ہے ثروت مند نے کہا کہ اسے کہو کھانا ختم ہوگیا ہے جب کہا گیا تو اس کھانا مانگنے والے شخص نے جواب دیا کہ ایک دیگ میں کچھ کھانا پڑا ہے اسی سے دے دو صاحب طعام کو بتلایا گیا تو اس نے پھر کہا کہ اسے کہو کھانا نہیں ہے وہ کیونکہ چالیس رات مسلسل کھانا دے چکا تھا اور ابھی تک دیدار امام سے محروم تھا اس لیے ناراحت تھا اس لیے غذا مانگنے والا آخر چلاگیا۔
اس ثروت مند نے اسی عالم دین سے دوبارہ رابطہ کیا اور ماجرا بیان کیا تو اس عالم دین نے کہا کہ سب سے آخر میں جس شخص نے غذ اطلب وہ ہی تو امام زمان علیہ السلام تھے لیکن تم چونکہ تھکے ہوئے تھے لہٰذا غذا کے نہ ہونے کا تم نے جھوٹ بولا اور دیدار حضرت سے محروم ہوگئے لہٰذا اب کوئی ویران مسجد تلاش کرو اور چالیس دن تک اس میں جاروب کشی کرو اور اس میں چراغ جلاو اور صبح کی نماز اسی مسجد میں پڑھو تاکہ تم سرکار کو مل سکو اس صاحب ثروت نے ایسا ہی کیا، چالیسویں دن جب یہ اپنے وقت مقررہ پر مسجد گیا تو دیکھا کہ مسجد کا دروازہ کھلاہوا ہے چراغ جلایا جا چکا ہے جائے نماز بچھ چکا ہے اور کوئی شخص مصروف عبادت ہے صاحب ثروت نے اس شخص سے اظہار ناراضگی کیا کہ تم نے یہ کام کیوں انجام دیا جب کہ یہ کام مجھے انجام دینا تھا جواباً اس شخص نے کہا کہ میں نے یہ کام خدا کے لیے انجام دیاہے۔ صاحب ثروت دوبارہ عالم دین کے پاس آیا اور ماجرا بیان کیا عالم دین نے کہا کہ جو تم سے پہلے مسجد میں موجود تھا وہی تو تمہارے امام زمان علیہ السلام تھے جس پر تو نے اعتراض کیا بوجہ مغروری نہ جان سکے لہٰذا اب جاو اور نجف کے ایسے محلہ میں جہاں پانی کم ہے لوگوں تک چالیس روز پانی پہنچاو اس صاحب ثروت نے مسلسل اپنا وقت لوگوں تک پانی پہنچا نے میں صرف کرنا شروع کردیا آخری دن یعنی چالیسویں دن جب یہ پانی سیڑھیوں سے اوپر لارہا تھا ایک شخص نے اس سے پانی کی درخواست کی اس ثروت مند نے اسے پانی دینے کی بجائے اسے پانی دکھایا اور کہا کہ جاو خود پی لو تمہیں نظر نہیں آتا اس جواب پر جس شخص نے پانی مانگا تھا مسکرانے لگا تو صاحب ثروت آدمی کے حواس درست ہوئے اور احساس ہوا کہ یہی میرے مقصد و مطلب سرکار امام زمان علیہ السلام ہیں حضرت نے اس کی زحمات کے عوض جو اس نے تین بار اٹھائیں تین بار شرف زیارت بخشا۔
۹۔ جمال اصفہانی سرکار امام زمان علیہ السلام کی خدمت میں
میں نے ایک ایسے بااعتماد اور باوثوق شخص کہ جسے اولیاءخدا سے شمار کیا جا سکتا ہے یہ واقعہ سنا ہے کہ حجة الاسلام سید اسماعیل شفتی اصفہانی اپنے ایک سومعنقدین کے ہمراہ عازم زیارات مقامات عالیہ مکہ مکرمہ ہوئے زیارات کے اختتام پر نجف اشرف میں ایک بوڑھے مرد اور عورت نے کچھ رقم کی تھیلی امانتاًبرائے حفاظت آقائے شفتی کے حوالہ کی آخری رات جس میں طے تھا کہ کل قافلہ شمال عراق کی طرف سے براستہ رمل حجاز کی طرف سفر کرے گا۔ آقائے اسماعیل شفتی حرم امیرالمومنین سے واپس لوٹے اور اپنی ضروریات سفر وغیرہ دیکھنے لگے متوجہ ہوئے کہ ان بوڑھے میاں بیوی کی رقم والی تھیلی موجود نہیں ہے گم ہوگئی ہے۔ پریشان ہو کر مہمان سرا سے باہر نکلے اور مسجد سہلہ کی طرف چل پڑے درمیان راہ میں انہوں نے ایک گھوڑے سوار کو دیکھا کہ جس کے نور سے پورا بیابان روشن ہے اس گھوڑے کے سوار نے فرمایا کہ سید اسماعیل کہاں جارہے ہو میں نے عرض کی مسجد سہلہ کی طرف تاکہ امام زمان علیہ السلام سے اپنی حاجت بیان کروں اس گھوڑے سوار نے کہا کہ اپنی حاجت بیان کر میں نے کہا کہ اگر مولا کا دیدار ہو تو ان کو حاجت بیان کروں گا فرمایا کہ فرض کرو میں ہی مہدی علیہ السلام ہوں تو میں نے کہا کہ اگر آپ علیہ السلام مہدی ہیں تو آپ کو میری حاجت کا پتہ ہوگا تو اس وقت اس گھوڑے سوار نورانی جوان نے کہا کہ ان بوڑھے مرد اور عورت کی رقم گم کر بیٹھے میں نے عرض کیا جی ہاں!تو مولانے ہاتھ اصفہان کی طرف اٹھایا اور آواز دے کر کہا ھالو،ھالو اصفہان کے ایک قلی کانام تھا جس کو میں پہچانتا تھا مولا کے سامنے حاضر ہوگیا مولا نے فرمایا ھالو دیکھ تیرا ہمسایہ کیا کہتا ہے میں نے ھالو کی طرف رخ کیا اور اپنا معاملہ بتایا کہ میری امانت والی تھیلی گم ہوگئی ہے میں نے دوبارہ گھڑسوار کی طرف دیکھا تو وہ غائب تھے ھالو نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے مہمان سرا کی طرف لے کر چل پڑا مجھے مہمان سرا والی گلی میں چھوڑ کر کہا کہ صبح بوقت روانگی تیرے پاس امانت والی تھیلی لے آوں گا، صبح جب قافلہ عازم حجاز ہوا ھالو راہ میں پہنچ گیا اور وہ رقم مجھے دی اور کہا کہ تم نے گویا مجھے نہیں دیکھا کبھی میری اس ملاقات کا ذکر نہ کرنا میں نے اس سے سوال کیا کہ میں تمہیں کہاں مل سکتا ہوں تو ھالو نے کہا کہ منیٰ میں عید قربان کی ظہر کے وقت میں نے سوچا کہ ھالو مجھے کہاں ملے گا احتمال ہوا کہ شاید مسجدخیف میں ،میں نے اپنی چادر کندھوں سے اتاری اور مسجد خیف کی طرف چل پڑا میں نے مسجد کے نزدیک تقریباً ۰۳ آدمیوں کو لباس احرام میں دیکھا ان سب سے آگے امام زمان علیہ السلام سرکار تھے اور وہ سب کے سب مسجد کی طرف جارہے تھے ان میں ھالو بھی تھا میں نے ھالو کو اشارہ کیا کہ کہاں جارہے ہو ھالو نے بتایا کہ یہ وہ نفر ہیں جو حج پر خدمت امام زمان علیہ السلام میں ہوتے ہیں تاکہ مصیبت زدہ اور پریشان حال حاجیوں کی مدد کریں اب مسجد کی طرف جا رہے ہیں کہ نماز ظہر پڑھیں تم بھی اگر چاہتے ہوتو ہمارے ساتھ آو میں نے بھی ان کی ہمراہی کی اور امام زمان علیہ السلام کے پیچھے نماز باجماعت ادا کی اور میں نے ھالو سے کہا کہ کیا ممکن ہے کہ میں امام زمان علیہ السلام سرکار کے ہاتھ چوم لوں تو ھالو نے کہا کہ بس یہی کافی ہے اور ہاں اصفہان میں تم ویسے ہی حجة الاسلام ہوگئے اور میں ایک قلی میرے بارے کسی کو کچھ نہ بتانا، اصفہان واپس آکر ملنے والے لوگوں سے جلد فارغ ہونا چاہتا تھا کہ ھالو کے دیدار کے لیے جاوں اور اس سے استفادہ کروں مجھے آئے ہوئے تیسرا دن تھا کہ لوگ میرے گھر آئے اور کہا ھالو آپ کو سلام کہتے ہیں اور کہا ہے کہ مجھے آکر حوالہ خاک کرودفن کرو میں نے باکمال افسوس و دکھ ھالو کا جنازہ پڑھااور اسے دفن کیا۔
۱۰۔ شیخ حسن کا امام زمان علیہ السلام سے ملنا
نجف اشرف میں مدرسین میں سے ایک مدرس کے درس کے جلسہ میں طالب علموں کے ساتھ ایک طالب علم بنام شیخ حسن شرکت کرتا تھا جو کہ بہت زیادہ ذہین نہ تھا اور سادہ تھا اس نے ۵۲ سال دروس میں شرکت کی مگر کوئی قابل توجہ پیش رفت نہ کرسکا۔ استاد اور طالب علم اس کی سادگی کی وجہ سے اسے پسند کرتے تھے اور اس سے مذاق کرتے تھے اور کبھی استاد دوران درس یہ کہتے کہ جس کو درس کی سمجھ نہیں آتی وہ شیخ حسن سے پوچھ لے ایک دن استاد نے کہا کہ کئی ایسے لوگ گزرے ہیں کہ انہوں نے مسلسل ۰۴ روز تک نیک عمل برائے دیدار امام زمان علیہ السلام انجام دیے اور انہیں دیدار امام زمان علیہ السلام نصیب ہوا شیخ حسن نے کہا کہ آج مجھے درس سمجھ آیا ہے اس نے پکا ارادہ کرلیا کہ وہ چالیس روز تک وادی السلام میں مقام امام زمان علیہ السلام پر جائے گا اور ہروز ایک پارہ قرآن برائے ملاقات امام زمان علیہ السلام تلاوت کرے گا اس نے یہ کام ۷۳ یا۸۳ روز انجام دیا ایک دن جب کہ وہ قرآن پڑھنے میں مصروف تھا اس نے دو آدمیوں کو اپنی پشت پیچھے بات کرتے ہوئے سنا اس نے مڑ کر دیکھا تو دو سید آپس میں گفتگو کر رہے تھے شیخ حسن نے انہیں کہا کہ تمہاری گفتگو کی وجہ سے میری توجہ تبدیل ہوگئی ہے وہ دونوں وہاں سے چلے گئے دوسرے دن شیخ حسن مشغول تلاوت تھا کہ پھر دوآدمی وہاں آکر گفتگومیں مصروف ہوگئے شیخ حسن نے دوبارہ انہیں کہا کہ میری توجہ تبدیل ہوجاتی ہے وہ دونوں مسکرانے لگے اور کہا کہ کیا تو امام زمان علیہ السلام سے ملاقات نہیں کرنا چاہتا شیخ نے کہا کیوں نہیں تو انہوں نے کہا کہ آو اکھٹے چلتے ہیں شیخ حسن ان کے ہمراہ چل پڑھا اور نزدیک ہی ایک بڑی چادر کے پاس گئے امام زمان علیہ السلام علیہ السلاماس چادر سے باہر تشریف لائے اور کہا کہ شیخ اگر میری زیارت کرنا چاہتے ہو تو میرے جدبزرگوار امام رضا علیہ السلام کی قبر کے کنارے مشہد آو شیخ حسن تنہا پیدل مشہد کی طرف روانہ ہوگیا جب مشہد پہنچا حرم میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ امام زمان علیہ السلام داخل حرم امام رضا علیہ السلام کی قبر کے سامنے زیارت امین اللہ پڑھنے میں مصروف ہیں پھرفرمایا اے شیخ! اگر مجھ سے ملاقات چاہتے ہو تو میرے جدبزرگوار امام حسین علیہ السلام کی قبر پر آو شیخ حسن بہت صبروتحمل کے ساتھ تکالیف برداشت کر کے کربلا پہنچا تو وہاں دیکھا کہ امام زمان علیہ السلام قبر مولا مظلوم کربلا کے ساتھ کھڑے زیارت امین اللہ پڑھ رہے ہیں ۔شیخ کے سلام کے ساتھ ہی انہوں نے فرمایا کہ میری زیارت کرنے کے لیے آئے ہو تو میرے مولا ابوالفضل العبا س علیہ السلام کی قبر پر آو شیخ حسن حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کی قبر مبارک پر وارد ہوا اور وہاں امام زمان علیہ السلام کودیکھا انہوں نے فرمایا کہ ہماری زیارت کرنے آئے ہو شیخ حسن نے حضرت امام زمان علیہ السلام کا دامن پکڑ لیا اور کہا کہ آپ کو اپنے جدامجد کا واسطہ مجھے مزید حیران نہ کریں آقا نے فرمایا کیا چاہتے ہو شیخ حسن نے کہا کہ آپ کو چاہتا ہوں آقانے متعدد بار کہا کہ کیا چاہتے ہو شیخ نے ایک ہی جواب دیا کہ آ پ کو آپ سے چاہتا ہوں آقا نے فرمایا اچھا جاو خداحافظی کرو اور واقعہ اپنے استاد کو بتاو اور پھر میرے پاس آجانا شیخ حسن کو۶ماہ گزر گئے تھے کہ ان کے بارے استاد اور طلبہ کو خبر نہ تھی اچانک شیخ وارد مدرسہ ہوا توشیخ حسن کو دیکھتے ہی سب خوشحال ہوگئے شیخ نے اپنا واقعہ خاص طورپر استاد کو بیان کیا استاد نے کہا کہ میں کس طرح تمہاری بات کو سچ سمجھوں شیخ نے کہا کہ آپ کوئی بات اپنے ذہن میں رکھیں میں آپ کو بتادوں گا استاد نے کئی چیزیں ذہن میں رکھیں شیخ بتلاتا رہا شیخ حسن نے استاد سے کہا کہ دوسری نشانی یہ ہے کہ میں جب اس جگہ سے امام زمان علیہ السلام کی طرف جاوں گا تو آپ مجھے جاتا ہوا دیکھیں گے شیخ حسن نے استاد سے خدا حافظی کی اور ہوا میں اڑتا ہوا امام زمان علیہ السلام کی طرف چلاگیا۔(اس ملاقات بارے مجھے تیس سال قبل ایک با اعتماد آدمی نے بیان کیا۔ (مصنف)