موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن0%

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف: شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27149
ڈاؤنلوڈ: 3771

تبصرے:

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 62 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27149 / ڈاؤنلوڈ: 3771
سائز سائز سائز
موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

موعود امم (عالمی )امن کا ضامن

مؤلف:
اردو

باب سوئم

اجتماعی شرف زیارت

۱۔ شیخ اسماعیل غازی اور ان کے قافلہ کو شرف زیارت

۴۱ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ میں نے مکہ جانے کا ارادہ کیا اسزمان علیہ السلامے میں بسیں زائرین کو تہران سے مکہ لے جاتی تھیں اور پھر وہاں سے عراق لے جاتی تھیں مکہ سے واپسی پر عراق آتے ہوئے سینکڑوں بسیں ایک دوسرے کے آگے پیچھے کھڑی ہوجاتی اور ان کی تلاشی ہوتی اور حجاز کی پولیس ان کی نگرانی وچیکنگ کرتی تھی ہماری بس کے دو ڈرائیور تھے ایک محمود آغا اور دوسرا اصغر آغا دونوں کا تعلق تہران سے تھا۔ اس گاڑی میں ۸۱ مسافر تھے اصغر آغا جو کہ گاڑی چلا رہا تھا نے کہا کہ اس دفعہ بھی ہماری گاڑی باقی گاڑیوں کے پیچھے آگئی ہے نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم اڑنے والی مٹی اور دھول کھائیں میں گاڑیوں کی لائن میں سے نکلتا ہوں اور متبادل کچے راستوں سے نکل کر جلدی آگے نکل جاوں گا اور قطار کے آگے چلا جاوں گااور یوں ہم گرد و غبار کھانے سے بچ جائیں گے میں نے اسے جتنی بھی نصیحت کی اور روکا لیکن اس نے ایک نہ سنی باقی زائرین بھی اسے روکنے میں میرے ساتھ شامل تھے اس نے گاڑی قطار میں سے نکالی اور کچے راستہ پر ڈال دی نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے راہ گم کر لیا اور دشت لوت میں جا نکلے میں نے ستاروں کے ذریعہ پتا چلا کہ ہم نے بہت غلط راستہ اختیار کر لیا ہے میں نے اسے کہا کہ گاڑی روکو نماز پڑھیں جب ہم نے نماز پڑھی تو طے یہ ہوا کہ ہم یہیں رات ٹھہریں اور صبح گاڑی کے ٹائروں کے نشانات پر واپس اسی جگہ پلٹ جائیں گے جہاں سے چلے تھے لیکن صبح گاڑی کے ٹائروں کے نشانات بھی نہ ملے جو کہ مٹ گئے تھے چونکہ ریتلی زمین تھی ہوا نے ریت کو جا بجا کر دیا تھا ہم نے طے یہ کیا کہ چاروں اطراف ۰۱یا۰۲ فرسخ سفر کریں تاکہ شاید اس طرح کوئی منزل یا نشان مل جائے لیکن کسی جگہ نہ پہنچ سکے پانی اور گاڑی کا ڈیزل ختم ہوگیا تیسرے دن پانی اور ڈیزل ختم ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ خوف زدہ ہو گئے اور راہ ملنے کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں ہم نے کہا کہ اصغر آغا نے ہمیں گم کیا ہے اور اس نے بہت سخت گناہ کیا ہے ہم سب گول دائرہ کی صورت میں اکھٹے ہوئے تاکہ امام زمان علیہ السلام سے متوسل ہوں ساتھ ہی میں نے ساتھیوں سے کہا کہ جس قدر طاقت وقدرت باقی ہے ہر کوئی اپنے لیے اس ریگزار میں قبر تیار کرے اور جب بالکل تھک جائے تو اسی قبر میں لیٹ جائے تاکہ ہوا ریت کے ذریعہ ہماری میت چھپا دے اور ہماری لاشیں پرندوں کی دستبرد سے محفوظ رہیں اور حیوان انہیں نقصان نہ پہنچائیں ہر ایک نے اپنے لیے قبر تیار کر لی اور قبروں کے کنارہ بیٹھ گئے اور چہاردہ معصومین علیہ السلام میں سے ایک ایک کے ساتھ متوسل ہوئے بہت زیادہ گریہ کیا اور ان سے مدد مانگی لیکن کوئی حل نہ ہوا کہ اچانک مجھے الہام ہوا کہ ذکر ”یافارس الحجاز ادرکنی “ کو پڑھو ہم نے پڑھا آنسو بہائے میں نے ساتھیوں سے کہا کہ اگر تمہاری زندگیوں میں کوئی خالص عمل ہے جو تم نے انجام دیا ہے تو خداوند متعال کو اس کام کا واسطہ دو کہ وہ ہمیں نجات دے اور پھر یہ کہا کہ میں منت مانوں کہ اگر خدا نے ہمیں نجات دی تو جوکچھ مال ہمارے ساتھ ہے اسے راہ خدا میں دے دیں گے اور باقی عمر لوگوں کی حاجات کو حل کرنے میں گزاریں گے پھر میں تنہا ہی قریبی ٹیلے کے پیچھے چلا گیا وہاں ایک گڑا تھا کسی نے مجھے نہیں دیکھا میں نے خداوند سے بات چیت شروع کردی خدایا ہم یہاں اس جگہ نہیں مرنا چاہتے اگر یہ ہمارے لیے سعادت ہی کیوں نہ ہو ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے وطن میں مریں میں نے کہ اے ہمارے آقا ومولا امام زمان علیہ السلام اگر اس بے چارگی اور پیاس کی شدت میں آپ نے ہماری مدد نہ کی تو پھر کب ہماری مدد کریں گے اس حال میں ہم مخلوق سے تمام امیدیں قطع کرچکے ہیں اور خالق سے امیدیں لگائے ہیں ۔ ساری عمر اس طرح کی صورتحال مجھے پیش نہیں آئی میں نے آنسو بہاتے ہوئے گریہ وفریاد کی کہ آقا میں اس گروہ کا رہنما ہوں اسی دوران ایک سید عربی سات اونٹوں کے ہمراہ اس بیابان میں ظاہر ہوا اونٹوں پر بار لادا ہوا تھا میں نے سمجھا کہ شاید کوئی مسافر ہیں عربوں میں سے میں انہیں دیکھ کر اتنا خوش ہوا کہ پھولا نہ سماتا تھا وہ سید آقا میری طرف آیا میں نے سلام کیا اور انہوں نے فرمایا ”علیکم السلام ورحمة الله وبرکاته “ میں نے اس کے نورانی اور خوبصورت چہرے کوچوما وہ بہت جاذب نظر تھے انہوں نے میری طرف نگاہ کی اور فرمایا کہ راہ گم کر بیٹھے ہو میں نے عرض کی جی ہاں! انہوں نے فرمایا کہ میں آیاہوں کہ تمہیں راستہ بتاوں پھر فرمایا کہ جب سامنے والے دو پہاڑ عبور کرو گے تو دو اور پہاڑ ظاہر ہوں گے جب انہیں عبور کرو گے تو آگے راستہ مل جائے گاتم بائیں ہاتھ پرجانا تم حربہ جو کہ عراق اور عربستان کی سرحد ہے وہاں پہنچ جاو گے پھر فرمایا کہ جو نذرومنت تم نے مانی ہے وہ لازم اجرا نہیں ہے یعنی ضروری نہیں ہے چونکہ تم اس سفر میں کربلا اور نجف جانے کا ارادہ رکھتے ہو جس کی وجہ سے تمہیں رقم کی ضرورت رہے گی اپنے اموال سے بچاو اسے جاکر وطن میں خرچ کرنا اگر تم نے دوران سفر اس منت پر عمل کیا تو سفر میں محتاج سوال ہوجاو گے اور گدائی بھی حرام ہے ہم خود حیران ہوگئے پھر آقا نے فرمایا اپنے دوستوں کو بلاو میں نے ان کو آواز دی وہ سب آگئے انہوں نے سلا م کیا اور آقا کے ہاتھ چومے آقا نے فرمایا کہ گاڑی میں سوا ہو جاو حاج محمد شاہ حسینی نے کہا کہ ہم راہ گم کر چکے ہیں ہماری گاڑی ریت میں دھنس گئی ہے اور مانی گئی نذر سے کچھ آقا کو دیں آقا نے فرمایا کہ وہ منت اس طرح نہیں ہے میں نے آقا کا حکم ان تک پہنچایا آقا نے فرمایا کہ مجھے علم ہے کہ جو رقم تمہارے پاس ہے تمہارے سفر کے لیے کافی ہے اگر کم ہوتی تو میں تمہیں دیتا میں نے محسوس کیا کہ یہ آقا ہم سے رقم نہیں لیں گے تو میں نے سوچا کہ اسے قرآن کی قسم دوں کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ عرب قرآن کا بہت احترام کرتے ہیں اس وقت میری جیب میں جو چھوٹا قرآن تھا وہ باہر نکالا اور کہا آقا آپ کو اس قرآن کی قسم ہمیں حربہ پہنچائیں فرمایا اب جب کہ تم نے قسم دی ہے تو میں تمہیں پہنچاتا ہوں غلطی علی اصغر کی ہے محمود سیٹ پر بیٹھے میں درمیان میں اور تو میرے ساتھ بیٹھ جلدی سوار ہو جاو آقا عربی میں بات کر رہے تھے وہ ہمارے ایک ایک مسافر کے نام سے آگاہ تھے اور مجھے میرے نام سے بلاتے تھے بولے محمود گاڑی اسٹارٹ کرو اور حرکت کرو گاڑی بغیر ڈیزل کے اسٹارٹ ہوگئی جب کہ ہم اس طرف متوجہ نہ تھے گاڑی تیزی سے ریت پر دوڑنے لگی ان دو پہاڑوں کو جو آقا نے کہے تھے عبور کیا اور آقا نے فرمایا کہ وہ سامنے دو پہاڑ ہیں ان کے وسط سے گزرنا ہے اچانک آقا نے آسمان کی طرف نگاہ کی اور فرمایا کہ ”اب ظہر کا اول وقت ہے محمود سے کہو کہ رک جائے تاکہ نماز پڑھیں دوبارہ سوار ہوں اور گاڑی میں دوپہر کا کھانا کھایاجائے تاکہ مغرب سے پہلے ہم اپنے مقصد تک پہنچ جائیں جب ہم گاڑی سے اترے تو آقا نے فرمایا کہ پانی تو تمہارے پاس نہیں ہے میں نے عرض کی نہیں تو انہوں نے فرمایا! اس جھاڑی کو دیکھ رہے ہو وہ جھاڑی خار داری تھی اور بمشکل ایک عصا جتنی بلند تھی وہاں جھاڑی کے پاس جاو اور وہاں پانی ہے ، جی بھر کے پیو اور اپنی مشکیں پر کر لو وضو کر لو اور نماز پڑھو اور فرمایا کہ میں وضو سے ہوں میں نماز پڑھتا ہوں جب ہم اس جھاڑی کے پاس گئے تو ہم نے دیکھا کہ بہترین صاف پانی ہے ہم نے وضو کیا اپنے مشکیزے پر کیئے یہ پانی بہت زیادہ صاف اور شفاف تھا اور اس کی گہرائی ایک یا ڈیڑھ فٹ سے زیادہ نہ تھی جب کہ سعودی عرب میں کنویں کی گہرائی بہت زیادہ ہو تو تب پانی ملتا ہے نماز سے فراغت کے بعد ہم دوبارہ گاڑی میں سوار ہوئے میں نے کچھ خشک میوہ جات اٹھائے کہ کھاوں میں نے کہا کہ وہ کھائیں مگر انہوں نے نہ کھائے انہوں نے گاڑی چلتے وقت اپنی انگلی سے اشارہ کیا مگر کوئی بات نہ کی میں نے عرض کی کہ سعودی بادشاہ ہر حاجی سے ہزار تومان لیتا ہے مگر ایک اچھا راستہ نہیں بناتا کہ کوئی راہ گم نہ کرے تو آقا نے فرمایا کہ وہ کلب ابن کلب (کتاب ہے اور کتے کا بچہ ہے) وہ تمہیں یعنی شیعوں کو دیکھنا برداشت نہیں کرتے کجا کہ وہ تمہارے لیے راہ بنوایں میں نے راہ میں آقا سے کہا کہ ایران میں انگور اور ہندوانہ بہت سستا ہے جب کہ یہاں عربستان میں بہت مہنگا ہے تو آقا نے فرمایا کہ یہ سب کچھ ہماری برکات سے ہے اور کبھی فرماتے یہ ہم آئمہ علیہ السلام کی برکت کی وجہ سے ہے ہمارے درمیان سلسلہ گفتگو چونکہ جاری تھا اور سب اس طرف بالکل متوجہ نہ تھے کہ یہ آقا سرکار امام زمان علیہ السلام ہیں آقا نے ہمدان مشہد اور کرمانشاہ کی تعریف کی اور کچھ علماءکرام کی جن میں ملا علی ہمدانی، شیخ حسین خراسانی شامل تھے (شیخ حسین خراسانی سے آیت اللہ خراسان مراد ہیں جو کہ زندہ ہیں )تعریف کی اور فرمایا کہ ہماری عنایات و برکات ان کو حاصل ہیں اور مرحوم سید ابوالحسن کی تعریف کی اور مجھے فرمایا کہ تمہارے حالات ٹھیک ہو جائیں گے اور مجھے جو پریشانیاں تھیں ان کی بابت مجھے تسلی دی میں نے وہ روٹی جو شاہرود میں تیار کی تھی آقا کو دی جو انہوں نے لے لی اور میں نے انہیں کھاتے ہوئے نہیں دیکھا میں نے عرض کی کہ ایران کے راستے بہت آباد ہیں یہاں آدمی راہ گم نہیں کرسکتا تو آقا نے فرمایا کہ یہ سب ہم اہلبیت علیہ السلام کی برکت سے ہے ہم مغرب کے وقت حربہ سرحدی قصبہ پہنچنے اور پھر بصرہ پہنچ گئے وہاں اترے اور میں نے کہا کہ ہر آدمی اپنے کام میں مصروف ہوجائے میں نے آقا کو عرض کی کہ وہ آج رات ہمارے مہمان ہوں تو آقانے فرمایا کہ تو نے مجھے قرآن کی قسم دی تھی میں نے تمہاری بات مانی اور قبول کی مجھے بہت زیادہ کام ہیں میں تم سے خداحافظی کروں گا اورتمہیں خداوند کریم کے سپرد کرتا ہوں اور وہ منت جو تم نے مانی ہے فی الحال ادا نہ کرنا جب تم وطن پہنچ جاو تو پھر ادا کرنا ظہر سے تین گھنٹے پہلے سے لے کر مغرب تک تقریباً ۸گھنٹے آقا کی خدمت میںرہا گرمیوں کا موسم تھا۔ ہم نے بہت اصرار کیا کہ آپ ابھی تشریف رکھیں لیکن آقا نے قبول نہ کیا اسی دوران جب کہ وہ مجھ سے محو گفتگو تھے کہ اچانک غائب ہوگئے میں نے آنسو بہاتے ہوئے فریاد کی اور ان کے پیچھے بھاگا میں اور میرے ساتھی بھی آنسو بہاتے ہوئے فریاد کرنے لگے ہماری آہ و بکاسن کر حکومتی اہلکار آگئے اور پوچھا کہ کیا ہے کیا کوئی فوت ہوگیا ہے کہ تم لوگ گریہ کر رہے ہو ہم نے کہا کہ نہیں ہم راستہ گم کر بیٹھے تھے اب منزل پر پہنچنے کی وجہ سے خوشی سے ہم آنسووں پر قابو نہ پاسکے ان حضرت کے بائیں پہلو میں ایک چھوٹی تلوار اور ان کے دائیں پہلو کے ساتھ ایک بڑی تلوار جس کی لمبائی تقریباً ایک میٹر ہوگی بھی بندھی ہوئی تھی اور ایک کمربند کے ذریعے دونوں تلواروں کو آپس میں جوڑا گیا تھا ان حضرت کے ابرومثل کمان کے خم دار تھے انہوں نے عربوں کی طرح کا لباس پہنا ہوا تھا عربوں کی طرح کا رومال ان کے سر پر تھا ہمارا ڈرائیور اصغر اپنے سر کو پیٹنے میں مصروف تھا اور کہتا تھا کہ میری غلطی تھی جس کی وجہ سے ہم راستہ بھول گئے مگر شکر خدا ہے کہ اس وجہ سے سرکار امام زمان علیہ السلام کا دیدار نصیب ہوا ایک اور ساتھی نے کہا کہ وہ ہمارا نام کیسے جانتے تھے۔ (یہ واقعہ اختصار کے ساتھ شیخ اسماعیل کی کیسٹ سے لیا گیا ہے جو اس وقت زندہ ہیں )۔

۲۔ چالیس افراد امام زمان علیہ السلام کی جستجو میں

نجف کے چالیس کارکنوں نے ارادہ کیا کہ وہ چالیس بدھ کی راتیں مسلسل مسجد سہلہ جائیں گے تاکہ شاید سرکار امام زمان علیہ السلام کا دیدار نصیب ہو جائے انہوں نے اپنا عمل شروع کر دیا چالیسویں رات ان میں سے دو آدمی باقی افراد کے سامان وغیرہ کی حفاظت کے لئے مسجد سہلہ میں رک گئے اور باقی مسجد کوفہ چلے گئے اچانک ایک عربی ان دو افراد کے پاس آیا اس کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا اس نے ان دو افراد سے کہا کہ یہ تھیلا تمہارے پاس میری امانت رہے میں واپس آکر لے لوں گا ان دو افراد نے وہ تھیلا قبول کر لیا جب وہ عربی چلا گیا تو انہوں نے تھیلے کو اٹھا کر دیکھا تو وہ کافی وزنی تھا ایسا لگتا تھا کہ اس میں سکے ہیں ان دونوں نے سوچا کہ ہمارے ساتھی واپس آجائیں تو ان سے مشورہ کریں گے اگر وہ راضی ہوگئے تو یہ سب کے درمیان برابر بانٹ لیں گے اور اس عربی کی امانت سے مکر جائیں گے جب ساتھی آگئے تو انہوں نے سکے تقسیم کرنے پر آمادگی ظاہری کردی اسی دوران وہ عرب واپس آگیا اس نے اپنے تھیلے کا تقاضا کیا تو انہوں نے کہا کہ کیسا تھیلا ہمارے پاس کوئی تھیلا نہ ہے اس نے آیت قرآن کی تلاوت کی کہ ”( ان اللّٰه یامرکم ان تو دوالامانات الی اهلها ) “(سورہ نساءآیت ۸۵) اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کو واپس کردو اس کے بعد عرب نے دوبارہ آیت قرآن پڑھی مگر وہ لوگ آمادہ نہ ہوئے تمام گفت وشنید بے سود ثابت ہوئی نوبت تکرار تک آگئی کہ اچانک وہ عرب نظروں سے غائب ہوگیا تو تمام لوگوں کو سمجھ آئی کہ وہ ہمارے امام زمان علیہ السلام تھے وہ سب کے سب رونے لگے انہوں نے جب تھیلے کا منہ کھولا تو وہ کوڑے کرکٹ سے بھرا ہوا تھا۔”( خسرالدنیا والاخرة ) “۔ (سورہ حج آیت ۱۱)

۳۔ برزخ میں سرکار امام زمان علیہ السلام کی عنایت ومہربانی

مرحوم شریف رازی نقل کرتے ہیں کہ میں حضرت آیة اللہ العظمیٰ میلانی کے پاس تھا کہ انہوں نے فرمایا کہ ”دو بھائی جو کہ سید تھے اور تبریز سے تھے ایک ان میں سے روحانی تھا اور دوسرا بازاری دونوں صاحب استطاعت تھے دونوں کے لئے مکہ مکرمہ جانا ممکن تھا جو بھائی غیر روحانی تھا یعنی بازاری تھا نے مکہ جانے کا ارادہ کیا دوسرا بھائی جو رووحانی تھا اور محرم قریب تھا اس نے محرم میں مجالس کے لئے وعدہ کیا ہوا تھا اس لیے اس نے حج کا پروگرام اگلے سال تک موخر کر دیا لیکن اسے موت نے مہلت نہ دی اور وہ تین ماہ بعد فوت ہوگیا اور دوسرا بھائی جو مکہ کے لئے گیا ہوا تھا وہ بھی واپس آگیا اپنے بھائی کی آخرت کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتا تھاکیونکہ وہ حج ادا کیے بغیر فوت ہوگیا تھا ایک رات اس نے عالم خواب میں اپنے روحانی بھائی کو دیکھا کہ وہ ایک خوبصورت باغ میں سکونت پذیر ہے اس نے تعجب کرتے ہوئے پوچھا کہ تم یہاں باغ میں کیسے آئے ہوتو روحانی نے جواب دیا کہ پس ازموت جب مجھے حساب کے لئے لے گئے اور حج نہ کرنے کی وجہ سے مجھے ایک انتہائی اندھیرے اور وحشت ناک مکان میں لے گئے جہاں بہت زیادہ بدبو تھی میں تنگی کی وجہ سے اپنی ماں سیدہ زہراء علیہ السلام سے متوسل ہوا اور میں نے عرض کی بی بی علیہ السلاممیں نے ایک عمر آپ علیہ السلام کے بیٹے حضرت امام مظلوم حسین علیہ السلام کی مظلومیت بیان کی ہے مجھے اس تنگی سے نجات دلوائیے۔ فرشتے مجھے سیدہ علیہ السلام کے پاس لے گئے سیدہ علیہ السلام نے مولائے متقیان امیرالمومنین علیہ السلام سے میری بخشش کی درخواست کی مولا علی علیہ السلام نے فرمایا اے دختر پیغمبر اس شخص نے کئی مرتبہ مجالس میں دوران مجلس لوگوں سے کہا کہ وہ شخص جس پر حج واجب ہو اور وہ نہ کرے تو بوقت موت اسے کہا جاتا ہے کہ بے شک وہ یہودی ہے نصرانی ہے اور یہ خود ترک حج کا مرتکب ہوا ہے میں اس کے بارے کیا کروں بی بی علیہ السلام نے کہا اے علی علیہ السلام اس کی بخشش کی کوی سبیل نکالو۔ حضرت علی علیہ السلام نے کہا کہ اس کی بخشش کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے بیٹے مہدی علیہ السلام سے کہو کہ اس سید کی نیابت میں حج ادا کرے تاکہ خدا اسے بخش دے میری ماں زہراء علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اور امام مہدی علیہ السلام نے میری نیابت میں حج مقبول کرلیا اور مجھے نجات مل گئی جس کے بعد مجھے ان خوبصورت باغات میں لایا گیا۔ (کرامات صالحین)

فراق تاکی؟!

گفتم کہ: (روی خوبت از من چرانہان است؟)

گفتا: (توخود حجابی، ورنہ رخم عیان است)

گفتم کہ :(از کہ پرسم، جانا! نشان کویت؟)

گفتا: (نشان چہ پرسی؟ آن کوی بی نشان است)

گفتم: (مراغم تو، خوشتر ز شادمانی)

گفتا کہ :(در رہ ما، غم نیز شادمان است!)

گفتم کہ: (سوخت جانم از آتش نہانم)

گفت: (آن کہ سوخت، او راکی نالہ یافغان است؟)

گفتم: (فراق تاکی؟) گفتا کہ:(تاتوہستی)

گفتم: (نَفَس ہمین است؟) گفتا: (سخن ہمان است)

گفتم کہ: (حاجتی ہست) گفتا: (بخواہ ازما!)

گفتم: (غمم بیفزا!) گفتا کہ :(رایگان است)

گفتم: (ز(فیض) بپذیر این نیم جان کہ داراد!)

گفتا: (نگاہ دارش! غمخانہ تو جان است)

(کلیّات اشعار فیض کاشانی ص۱۸)

چون فرا آیدزمان علیہ السلام متّقین

صالحین گردند ورّاث زمین

( وَلَقَد کَتَبنَا فِى اَلزَّبُورِ مِن بَعدِ اَلذَّکرِا نَّ اَلارضَ یَرِثُهَا عِبَادِى اَالصَّالِحُونَ ) “۔

”ہم زبور میں پندو نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے (ہی) ہوں گے“۔(سورہ انبیاء۵۰۱)

فصل ششم

امام زمان علیہ السلام اور صالحین

خاتم الاوصیاء

عظمت ولی العصر علیہ السلام

محور کائنات

مشابہت با انبیاء علیہ السلام

وارث انبیاء

معجزات

انصاران مہدی علیہ السلام