پيش گفتار قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
تاليف: آیت الله الحاج شيخ رضا توحيدی عليہ الرحمہ ترجمہ: حجة الاسلام و المسلمين فيروز حيدر فيضی
پيش گفتار بسم اللّٰہ الرحمن الرحيمالحمد للّٰہ ربّ العالمين، و صلّی اللّٰہ علی سيّدنا محمّد وآلہ اجمعين، سيّما الامام الحجة القائم المنتظر المهدی (عجل اللّٰہ تعالیٰ فرجہ الشریف)۔ ) >یَااٴَیُّہَا العَْزِیزُ مَسَّنَا وَاٴَہلَْنَا الضُّرُّ وَجِئنَْا بِبِضَاعَةٍ مُزجَْاةٍ> (یوسف/ ٨٨ اے عزیز فاطمہ! اے یوسفِ زہرا! جان ليوا درد نے مجه کو اور مجه جيسے انسان کو گهيرليا ہے اور اب ہم اپنی بی بضاعتی کے ساته آپ کی طرف آئے ہيں۔ اب تک حضرت بقية الله ارواحنا فداہ کے متعلق تين ہزار سے زائد ہمارے درميان گراں قدر کتابيں تحریر کی جاچکی ہيں، جس ميں حضرت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں ، عظمت، شخصيت، سيرت، اوصاف، شباہتيں ، ملاقاتيں، انتظار،اشتياق دیدار، اظہار عقيدت، لائحہٴ عمل، عدل و انصاف وغيرہ جيسے دوسرے مسائل جو الٰہی حجّتوں کا بقية الله، مصلح عالم، یوسفِ زہرا، حضرت بقية الله ارواحنا فداہ ہے اس کے بارے ميں تحقيق ہوچکی ہے۔ ان مطالب کے درميان بہت سے ناگفتہ مطالب اور جدید موتياں مل جائيں گی جو سلف صالح کی مورد توجہ نہيں قرار پائيں، از باب “کم ترک الاوّل للآخر” یعنی پہلے زمانہ کے لوگوں نے آخری زمانہ والوں کے ليے کتنی باتيں چهوڑ دیں۔ انہيں آئندہ نسلوں کے سپرد کيا ہے۔ منجملہ ان ناگفتہ مطالب ميں سے قرآن اور حجّت زمان عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے درميان موجودہ شباہتيں ہيں کہ اس اہم اور گراں قدر بحث کی تنظيم و ترتيب کی توفيق ایک بزرگ عالم اور عظيم فقيہ جو ناموس دہر حضرت امام عصر عجل الله فرجہ الشریف کے آستانہٴ مقدس کے دل دادہ اور عاشق دلباختہ کو نصيب ہوئی ہے۔ ان عالم بزرگوار نے دراز مدت تک بہت ہی صبر و حوصلہ کے ساته اس بحث کی تحقيق و جستجو کی دسيوں شباہت اور نزدیکی و قرابت قرآن کریم اور اس کے ہم پلہ شریک حضرت صاحب الزمان کے درميان تلاش کی،ان ميں سے ہر ایک کی قرآنی آیات اور ائمہٴ معصومين کے عظيم اقوال سے استناد کرتے ہوئے تفصيلی تحقيق کی اور ان کے درميان جدید اور گراں قدر نکات پيش کيے ہيں۔
موٴلف کا مختصر تذکرہ: اس مقام پر قارئين کرام کو موٴلف بزرگوار کی زندگی سے آشنائی کے ليے استاد گراں قدر آیت الله الحاج مرزا عمران علی زادہ ( ١) صاحب کی تحریر کو یہاں ذکر کر رہے ہيں: آیت الله آقائے الحاج شيخ رضا توحيدی، فرزند محمد علی ابن عبد الحسين، تبریز کے مشہور علماء ميں سے تهے جو صفات جميلہ اور اخلاق حميدہ کے حامل اور تقویٰ و اخلاص سے متصف تهے۔ موصوف ١٣٣٢ ئه ق ميں ایک متدیّن اور پاکيزہ گهرانے ميں تبریز ميں پيدا ہوئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ آیت الله الحاج مرزا عمران علی زادہ (متولد ١٣۵٠ ه ق= ١٣١٠ ش) ایک عالم فرزانہ ، (
دانشمند، ممتاز فقيہ شائستہ استاد اور تعلقات کی قيد سے آزاد انسان تهے، جو روشن ستارہ کی طرح آسمان علم و فضيلت ميں چمک رہے تهے اور مکتب حضرت امام جعفر صادق - کو معارف اہل بيت کے صاف و شفاف چشمے سے سيراب کر رہے تهے۔ یہ خدمت گزار عالم ۵٠ سال سے مسند تدریس پر فائز تهے اور حوزئہ علميہ تبریز ميں تقریباًنصف صدی ميں بہت سے فاضل طلاب کی تربيت کی، انہيں مختلف حوزہ ہای علميہ ميں روانہ کيا اور حوزہ ہای علميہ کی ادبيات کو مزید رونق بخشی اس گراں قدر استاد کی دسيوں اہم کتابيں جو تحریر کی گئيں ہيں ان ميں سے ایک پُر ثمر کتاب “نامداران تاریخ” ہے کہ اس کے آخری حصہ ميں آذر بائيجان کے ہم عصر بعض بزرگوں کا منجملہ آیت الله توحيدی(رہ) کا بغير کسی مبالغہ آرائی کے تعارف کرایا ہے۔ دوران طفوليت ایک حکومتی مدرسہ ميں جو علماء کی نظارت ميں ادارہ ہوتا تها وہاں آڻهویں کلاس تک گزارا، پهر مقدمات اور سطوحِ عاليہ کے بعض حصہ کو تبریز ميں مندرجہ ذیل اساتيد عظام کے پاس حاصل کيا: ١ (فاضل دانيارانی، ٢) الحاج سيد اسماعيل سجادی، ٣) الحاج مير عبد الله کماری (رضوان الله عليہم) سے پڑها۔ ١٣۶٣ ئه ميں تحصيلات عاليہ کی تکميل کی غرض سے حوزہٴ نجف اشرف کی طرف ہجرت کی اور ٢۵ سال تک مقدس آستانہٴ علوی ميں سکونت حاصل کی نيز مندرجہ ذیل آیات عظام سے استفادہ کيا: ١ (مکمل درس خارج صلاة الحاج آقائے رضا ہمدانی، عروہ کی بحث اجارہ اور حج کو آیت الله سيد محمود شاہرودی سے حاصل کيا۔ ٢ (فقہ و اصول اور اخلاق کی بہت سی بحثوں کو آیت الله سيد محمد ہادی ميلانی سے کسب کيا۔ ٣ (آیت الله نائينی کی تقریرات کو آیت الله شيخ حسين حلی کے پاس پڑها۔ ۴ (پهر آیت الله الحاج سيد ابو القاسم الخوئی، آیت الله سيد محسن حکيم، آیت الله سيد حسين حمامی اور آیت الله سيد ابراہيم اصطهباناتی سے کسبِ فيض کيا۔ آیت الله توحيدی (رہ) ١۶ سال کی مدت تک نجف اشرف کی مساجد ميں سے ایک مسجد ميںنماز جماعت اور دینی تعليمات کے فرائض انجام دیتے رہے۔ موصوف ١٣٨٩ ء ه ق ( ١٣۴٨ ش) ميں اپنے آبائی وطن تبریز واپس آئے اور خيابان نادری (اول کوچہ باغ) ميں قيام پذیر ہوئے ، راتوں کو مسجد توحيد اور ظہرین ميں مسجد (باد کوبہ ای) بازار کفاشان ميں نماز جماعت اور مومنين کی ہدایت کے فرائض انجام دیتے تهے۔ آیت الله توحيدی (رہ) کو الحاج سيد محمد ہادی ميلانی، الحاج سيد محمود شاہرودی، سيد عبد الہادی شيرازی، سيد محسن حکيم، الحاج سيد کاظم شریعت مداری اور الحاج سيد ) ابو القاسم خوئی (رضوان الله عليہم) کا اجازہ حاصل ہے۔ ( ١ قارئين کرام کی مزید اطلاع کے ليے آیت الله توحيدی کی حيات کے دوسرے پہلوؤں کے بعض نکات بطور اختصار ذکر کيے جارہے ہيں: ١۔ مذکورہ اساتيد کے علاوہ، آیت الله توحيدی نے قدیمی حوزہٴ نجف اشرف کے ابتدائی دنوں ميں دو سال تک عالمِ تشيّع کے عظيم زعيم مرحوم آیت الله الحاج سيد ابو الحسن اصفہانی جو صفحات تاریخ کے ليے باعث افتخار ہيں ان کے درس سے استفادہ کيا۔ ٢۔ مولف کے نجف اشرف ميں دوسرے اساتيد، آیت الله مرزا احمد اہری، آیت الله الحاج مرزا محمد علی علمی اردبيلی اور آیت الله الحاج مرزا باقر نعيمی خرازی بهی قابل ذکر ہيں۔ ٣۔ مولف کی منجملہ سعادتوں ميں سے ایک یہ تهی کہ ایک چوتهائی صدی ( ٢۵ سال) کی مدت تک اپنی صدی کی بے نظير شخصيت خادم الحجہ مرحوم الحاج شيخ محمد کوفی کی مصاحبت کا شرف حاصل کيا اور ان سے عقد اخو ت منعقد کيا تها۔ اس طریقہ سے حضرت صاحب الزمان عجل الله فرجہ الشریف کی بارگاہ ميں ہميشہ ان کے دل کے سياہ نقطہ ميں عشق تپاں شعلہ ور رہتا ہے اور اپنے محبوب کی یاد سے شب و روز دل کو مانوس اور مصروف بنا رکها ہے جيسا کہ اس کتاب کے درميان بهی آپ اس بات کا مشاہدہ کریں گے۔ ۴۔ آیت الله الحاج شيخ محمد شوشتری، جو “کوفی” کے نام سے مشہور اور نہر کوفہ کے نزدیک قيام پذیر تهے نيز حضرت بقية الله ارواحناہ فداہ کے متعلق اپنے زمانے کے خوش بخت ترین انسانوں ميں سے تهے کيونکہ متعدد مرتبہ امامت کے روشن آفتاب کی خدمت ميں شرفياب ہوئے تهے اور آپ کے متعلق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔نامدارن تاریخ، عمران علی زادہ، مطبوعہ تبریز، ١٣٨٠ ء ش ج ٢، ص ٣٠٧ ۔ (
) اس سلسلہ ميں یہ بات تمام شيعہ بزرگوں نے تسليم کی ہے۔ ( ١ ۵۔ شيخ محمد کوفی وہی سعادت مند انسان تهے جو حضرت ولی عصر عجل الله فرجہ ) الشریف کی طرف سے آیت الله اصفہانی کا پيغام بهيجنے کے ليے مامور کيے گئے تهے۔ ( ٢ ۶۔ ایک دن حضرت آیت الله مرزا کاظم تبریزی صاحب (متوفی، ١۴١۶ ء ه ق) کی خدمت اقدس ميں مرحوم شيخ محمد کوفی صاحب کے متعلق ميں نے دریافت کيا تو کہا: ایک دن ہم نجف اشرف سے مسجد سہلہ کوفہ کی طرف جارہے تهے، گاڑی کهڑی تهی یہ انتظار کر رہے تهے کہ وہ بهر جائے، شيخ کوفی کو علماء ميں سے ایک عالم جو ابهی مشہد مقدس ميں رہتے ہيں انہيں ان کے ساته دیکها کہ پاپيادہ مسجد سہلہ کی طرف جارہے ہيں۔ ان کے دوستوں ميں سے ایک شخص نے خواہش ظاہر کی کہ وہ گاڑی پر سوار ہوجائيں ليکن شيخ کوفی نے کہا: ہم پيدل جائيں گے۔ جب گاڑی بهر گئی تو ہم چلنے لگے اور ان دونوں بزرگوار وں کی طرف سے گزرے ليکن جب مسجد سہلہ پہنچے تو ہم نے انہيں تعجب اور حيرت سے دیکها کہ وہ لوگ ہم سے پہلے غير عادی اور فوق العادت طریقے سے وہاں موجود ہيں اور مسجد سہلہ کے بہت سے اعمال بهی انجام دے چکے ہيں!! آیت الله تبریزی رحمة الله عليہ کہ جن کے ليے مثال دی جاتی ہے کہ وہ زود باور نہيں ہيں وہ اس بات سے مطمئن تهے کہ انہوں نے اس راستہ کو طی الارض کے ذریعے طے کيا تها۔ )٣) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اس قسم کے متعدد شرف حضور کو اجمالاً فصل نامہ انتظار ، شمار ۶، (زمستان، ١٣٨١ ( ٣۵٠ ميں ہم نے ذکر کيا ہے۔ ، ش) ص ٣۴٨ ٢(۔پيغام کے متن کے حصول کے ليے رجوع کریں: آیت الله الحاج شيخ مرتضیٰ حائری، سرِّ ( دلبراں، ص ٢٧٣ ، الامام المہدی، ج ١، ص ۵۶۴ ، حسن شيرازی، آثار الحجہ۔ مرحوم شریف رازی، ج ١، ص ١٣۴ ، گنجينہٴ دانشمندان، مرحوم شریف رازی، ج ١ ، ص ٢٢٢ ، مولف، فصل نامہ انتظار، شمارہ ۶، ص ٣۴٩ ۔ ٣(۔ سينای معرفت، ص ١٢٩ ۔ از قول مولف۔ (
٧۔ ان کے ہمراہ حضرت آیت الله الحاج شيخ محمد رضا بخارانی رحمة الله عليہ متوفی ) ٧شعبان ١۴٢۴ ء ه ق بهی تهے۔ ( ١ مولف کہتے ہيں: بخارانی رحمة الله عليہ کی رحلت سے چند مہينے پہلے مشہد مقدس ميں ان کی خدمت ميں شرف یاب ہوا اور ان سے اس واقعہ کے متعلق ميں نے دریافت کيا تو انہوں نے کوفی رحمة الله عليہ کے بارے ميں تصریح کی وہ طی الارض جانتے تهے ليکن تواضع اور انکساری کی وجہ سے اپنے ليے انکار کرتے تهے! ٨۔ موٴلف بزرگوار، ایک نامور فقيہ، ایک خدمت گزار عالم ، ایک بے قرار عاشق، ایک ارزش مند محقق، ایک پرہيز گار عالم، ایک عالی قدر دانشور ہيں جو آسمانِ تبریز کے علم و فضيلت کے سب سے زیادہ درخشاں ستارے اور محکم ترین علمی بلند پایہ عالم شمار ہوتے ہيں۔ وہ آج بهی اس پيرانہ سالی اور ضعيفی ميں دو مورچہ محراب اور منبر ميں ایک جانباز سپاہی کی طرح، جوانوں کی تعليم و تربيت ، نونہالوں کی ہدایت و رہنمائی ، ائمہٴ معصومين کے علوم و معارف کی تبليغ و ترویج اور تمام لوگوں کی علمی سطح کو بلند کرنے نيز انہيں جان جاناں تمام عالم کے سيد و سردار حضرت ولی عصر امام زمانہ - روحی و ارواح العالمين لہ الفداء سے آشناء کرانے کے ليے شب و روز مصروف و منہمک ہيں۔ ٩۔ شہادتِ حضرتِ فاطمہ زہرا سلام الله عليہا کے دن کہ جس سال پہلی مرتبہ عمومی عزاداری اور لوگوں کو پابرہنہ شارع عام پر چلنے کا دو عظيم مراجع حضرت آیت الله الحاج شيخ حسين وحيد خراسانی حفظہ الله اور آیت الله الحاج مرزا جواد تبریزی رحمة الله عليہ نے حکم دیا تها ( ٢) اسی طرح اُس دن انجمنوں کے افراد آیت الله توحيدی حفظہ الله کے اشارہ سے تبریز ميں کافی شان و شوکت کے ساته سرگرم عمل ہوکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ آپ کی سوانح حيات ، مجلہ ٴ نگاہ مشہد۔ ج ٩٨ ۔ ٩٩ ميں “مشاہير خراسان” کے عنوان کے ( تحت نقل ہوئی ہے۔ ٢(۔ سال ١۴٣٠ ئه ق ( ١٣٧٨ ش) سے یہ عمومی عزاداری جو قم کے گرم روڈ پر شہزادی حضرت ( فاطمہ زہرا سلام الله عليہا کے زخمی سينے کے مصائب و آلام کو محسوس کرنے کے ليے تمام مراجع کرام کے گهروں سے آغاز ہوکر حرم مطہر حضرت معصومہ سلام الله عليہا پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔
) عمومی عزاداری مناتے ہيں۔ ( ١ ١٠ ۔ آیت الله توحيدی حفظہ الله مذہبی شعائر کی تعظيم و تکریم کے ليے خاص اہتمام کرتے ہيں، ایّام عيد ميں رسمی طور پر جشن سرور منعقد کرتے ہيں جس ميں شعرائے اہل بيت اشعار پڑهتے ہيں اور محفل ميں شرکت کرنے والوں کی تبریز کی بہترین مڻهائيوں اور بہترین موسمی پهلوں سے پذیرائی اور مہمان نوازی ہوتی ہے۔ ایّام عزا بالخصوص ایّام فاطميہ ميں بهی آپ کے حسينيہ ميں شان و شوکت کے ساته مجالس منعقد ہوتی ہيں اور شہر کے بعض مشہور خطبائے کرام حاضرین کو اپنے بيانات سے مستفيض کرتے ہيں۔ ١١ ۔ مولف عالی قدر ہميشہ اعتقادی انحرافات سے شدّت سے مقابلہ کرتے ہيں اور اس راستہ ميں اپنے ليے ہر خطرے کو مول ليتے ہيں۔ چند سال پہلے ان دنوں ميں کہ جب کسی ایک ہاسپيڻل ميں داخل تهے، ان کے ڈاکڻروں کی ڻيم کا ایک شخص جو صوفيوں کا سربراہ تها ان کے مخصوص کمرے ميں داخل ہوتا ہے اور ان سے تصوف کے بارے ميں سوال کرتا ہے، موصوف کسی کی پروا کيے بغير صوفيوں کے انحرافات کو ایسے یاد دلاتے ہيں، یہ نشست تقریباً نصف شب تک چلتی رہی ليکن اسی رات صوفيوں کی طرف سے آپ کے ليے مشکلات درپيش ہوتے ہيں کہ افسوس اب بهی چند برس گزر جانے کے بعد بهی اس کے منفی نتائج کا مشاہدہ کر رہے ہيں۔ ١٢ ۔ یہ مشہور دانشمند عالم ہنر ميں ید طولی اور نمایاں شخصيت کے مالک ہيں اس طرح سے کہ بہترین خط و کتابت ميں اپنی مثال آپ ہيں اور اپنے ہم عصر افراد ميں خطاطی کے ہنر ميں سرمایہٴ افتخار ہيں، نہایت نفيس اور عمدہ طغرے تحریر کيے بہترین سونے کے پانی سے مزیّن کيا، کہ جس کے ليے مناسب ہے کہ مختلف ممالک کے ميوزیم ميں اسلامی ہنر کے شيعوں کو غنی اور سربلند بنانے کے ليے استفادہ کيا جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٢ ۔ ، ١(۔ اس سياسی اور اعتقادی پروگرام سے آشنائی کے ليے رجوع کریں۔ نہضت فاطمہ، ج ١ ( کرامات و عنایات فاطمہ زہرا سلام الله عليہا، مولف علامہ سيد حجّت موحد ابطحی، مطبوعہ اصفہان۔
١٣ ۔ آیت الله توحيدی پيرانہ سالی کے باوجود اسلامی آداب کی رعایت کرنے ميں بہت زیادہ کوشاں ہيں: جوشخص بهی ان کی بزم ميں تشریف لاتا ہے تو وہ سر و پا بلند ہوتے ہيں، گهنڻوں مہمان کے سامنے دو زانو ہوکر بيڻهتے ہيں۔ (کبيرا لسن ہونے کی صورت ميں اگرچہ لوگوں کی طبيعت ناساز ہوا کرتی ہے لہٰذا موصوف بهی اس سے بے بہرہ نہيں ہيں) ہميشہ لوگوں کے احترام ميں دو زانو ہوکر بيڻهتے ہيں اور حاضرین ميں سے ایک ایک فرد کی مزاج پرسی کرتے ہيں۔ ١۴ ۔ آیت الله توحيدی اس مشہور و معروف حدیث کے منجملہ مصادیق ميں سے ایک ہيں : ) عِلمِْکُم مَنطِْقُہ، وَ یُرَغِّبُکُم فِی الآْخِرَةِ عَمَلُہُ” ( ١ دُ فی ”مَنْ یُذَکِّرُکُمُ اللہُّٰ رُوٴْیَتُہُ، وَیَزی )یعنی ایسے افراد کی ہم نشينی اختيار کرنے کا حضرت عيسیٰ کی تعليم ميں ذکر ہوا ہے کہ ) جس کی ملاقات سے خدا یاد آجائے، جن کے انداز گفتگو سے تمہارے علم ميں اضافہ ہو اور خود اس کا عمل آخرت کی طرف شوق و رغبت دلائے۔ ایک جملہ ميں یوں کہا جائے: وہ مرد خدا تهے۔ جو شخص آپ کی خدمت ميں شرف یاب ہوتا تها ان کی بزم کو ترک نہيں کرتا تها مگر یہ کہ وہ امام زمانہ - کا عشق اپنے دل ميں احساس کرتا ہوا واپس جاتا تها۔ مزید خاندان عصمت و طہارت کا عقيدت مند اور دنيوی رعنائی اور دل کشی سے اس کے دل ميں بے رغبتی پيدا ہوجاتی تهی۔ ایسا کيوں نہ ہو کہ اس فرزانہ عالم نے بصيرت افروز نگاہ اور عميق موثر نفس اور ولائے امام زمانہ - کی عشق کی آگ ميں خود کو پگهلا دیا تها، جب بهی حضرت کا مقدس اسم گرامی ان کی زبان پر جاری ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ حضرت عيسیٰ - سے کسی نے سوال کيا: یا عيسی روح الله! ہم کو کس کی ہم نشينی ( اختيار کرنی چاہيے؟ فرمایا: جس کی ملاقات سے خدا یاد آجائے، جس کے انداز گفتگو سے تمہارے علم ميں اضافہ ہو اور خود اس کا عمل آخرت کی طرف شوق و رغبت دلائے۔ بحار الانوار، علامہ مجلسی، ج ٧٠ ، ص ٣٢٢ ۔
تها آنکهوں سے قطرات اشک آپ کے چہرہٴ انور پر ان کے صيقل شدہ دل سے زیادہ سے زیادہ نمایاں اور روشن ہوجاتے تهے اور حاضرین اس کشش سے اپنے دل ميں ایک نورانی نقطہ اور روشن شمع کا احساس کرتے تهے کہ جس کی وجہ سے بعض ہدایت یافتہ اور ان کے دل ميں ہميشہ ہدایت کا چراغ شعلہ ور رہتا تها۔ کتاب حاضر آپ کی منجملہ گراں قدر تاليفات ميں سے ایک ہے جو قرآن کریم اور حضرت بقية الله ارواحنا فداہ کے مقدس وجود کے مشترکات کے بارے ميں تحریر کی ہے۔ مولف گرامی نے اس کتاب ميں بدیع و جدت پسند اور ارزش مند نکات کو قرآن کے روشن حقائق حجّت زمان ناموس دہر، امام عصر حضرت بقية الله ارواحنا فداہ کے وجودی کردار کے بارے ميں سپرد قلم کيا ہے جو عصر حاضر کی دوسری کتابوں ميں ناپيد ہيں۔
کتاب کا واقعہ اور صاحب کتاب پر مولا کی عنایت اس کتاب کی دو سال قبل تبریز ميں کتابت ہوئی اور طباعت کے ليے آمادہ کی گئی، تو ميں (علی اکبر مہدی پور) نے مولف کی خدمت ميں اس بات کی گزارش کی اور تقاضا کيا کہ اس کتاب کو قم ميں زیور طبع سے آراستہ ہونے کی اجازت مرحمت کریں، آپ نے خاص بزرگواری کے ساته اس گزارش کو قبول کيا۔ حقير کی کوشش یہ تهی کہ یہ کتاب گزشتہ سال ١۵ شعبان کے موقع پر ہی طباعت اور نشر و اشاعت کے مرحلے کو طے کرلے، ليکن عملی طور پر ممکن نہيں ہوسکا، اس طریقے صفحات ميں “القرآن و الحجة” کے عنوان (A سے اس کا بعض حصہ آمادہ ہوا جو ٢٨٠ وزیری ( ٤ کے تحت منتشر ہوا۔ قابل توجہ نکتہ اور دقت کے شایانِ شان یہ ہے کہ یہاں اس بات کی یاد آوری مناسب ہے کہ گزشتہ سال کتاب کی تنظيم و ترتيب کا مرحلہ ١۵ شعبان کے نزدیک پہنچ گيا شعبان کی دسویں تاریخ کہ جس ميں یہ چاہيے تها کہ وہ ميڻنگ جو “عشرئہ مہدویت” کی مناسبت سے اصفہان ميں ہر سال منعقد ہوتی تهی وہاں جاؤں، ابهی کتاب کی تنظيم و ترتيب ختم نہيں ہوپائی تهی لہٰذا اس وجہ سے شعبان کی دسویں رات ميں سحر تک کتاب کی تنظيم و ترتيب ميں مشغول تها۔ اذان صبح کے کچه لمحات کے بعد ایک مومنہ نے جو ہماری عقيدت مند تهی اس نے مجهے ڻيليفون کرکے کہا: ميں نے ایک خواب دیکها ہے ميں چاہتی ہوں کہ آپ سے بيان کروں، ابهی ابهی ميں نے خواب دیکها ہے کہ ایک بہت ہی وسيع فضا ميں دسيوں ہزار خواتين کے درميان ہوں اور سب ہی حضرت ولی عصر - سے توسل اختيار کيے ہوئے ہيں اور تمام خواتين بہت ہی بلند آواز ميں “یا صاحب الزمان” کہہ کر فریاد کر رہی ہيں۔ ہم سب کے بدن پر لباس احرام تها ميرے خيال ميں ہم لوگ صحرائے عرفات ميں تهے، تمام خواتين اس طرح دل کی اتهاہ گہرائيوں سے آواز دے رہی تهيں کہ کسی کو کسی دوسرے کی آواز سنائی نہيں دیتی تهی۔ ایک لمحہ ميں ميری آنکه بالا خانہ پر پڑی جو مساجد اور حسينيہ ميں خواتين کے حصہ کی شکل کی تهی، وہاں کچه حضرات بهی کهڑے ہوئے تهے جو سب ہی لباس احرام اپنے دوش پر رکهے ہوئے تهے اور ایک بزرگوار آقا کو انگوڻهی کے نگينہ کی طرح درميان ميں حلقہ بنائے ہوئے تهے۔ آپ اس حالت ميں ان حضرت کی طرف اشارہ کرکے ميری طرف متوجہ ہوکر کہتے تهے کہ اس مقدس شخصيت کے احترام ميں خاموش رہوں۔ امام - کا چہرئہ مبارک مجه سے پوشيدہ تها ليکن آپ نے ایک لمحہ کے ليے اس حائل شدہ چيز کو ہڻایا تاکہ ميں حضرت کے جمالِ جہان آراء کا دیدار کروں۔ ميں صرف ایک لمحہ ان کے بے مثال جمال کی زیارت کرسکا اور بغير فاصلہ کے ميں خواب سے بيدار ہوا۔ جمعہ کے دن ١۵ شعبان ١۴٢۵ ئه ق ایک محفل ميں حضرت حجة الاسلام والمسلمين آقای شيخ حسن صدیقين جو آیت الله شيخ محمد باقر رضوان الله تعالی عليہ کے یادگار فرزند تهے ان کی خدمت ميں شرف یاب ہوا، ميں نے خواب کے واقعہ کو ان کی خدمت ميں نقل کيا، اپنے مخصوص تواضع و انکساری کے ساته جو انہيں والد مرحوم سے ارث ميں ملا انہوں نے ميرے اور صاحب خواب کے بارے ميں بہت سے نکات کی یاد دہانی کی منجملہ ان ميں سے کہا : آپ اس وقت ایک کتاب کی تنظيم و ترتيب ميں مشغول تهے جو حضرت حجّت - کے بارے ميں آیات قرآن کی بنياد پر تحریر کی گئی ہے ، اس کتاب کی حضرت نے تائيد کی ہے!!! قابل توجہ بات یہ ہے کہ آقائے صدیقين کتاب کے موضوع سے آگاہ نہ تهے، اس کے علاوہ فطری طور پر اذان صبح کے لمحات ميں بهی تاليف و تحقيق کا وقت نہيں ہے دوسرے نکتہ کی بات یہ ہے کہ یہ نہيں کہا کہ تاليف یا تحقيق ميں مشغول تهے، بلکہ کہا: “ایک کتاب کی تنظيم و ترتيب ميں مشغول تهے” اور یہ تعبير بهی کہ “حضرت حجّت کے بارے ميں آیات قرآن کی بنياد پر تحریر کی گئی ہے” بہت اہميت کی حامل ہے اور مکمل طور پر کتاب کے موضوع پر منطبق ہورہی تهی۔ اس دن جب حضرت آیت الله توحيدی کی خدمت ميں ميں نے فون کيا تاکہ خواب کا واقعہ الحاج آقائے صدیقين کی تعبير کو عرض کروں تو کچه دیر تک فون پر روتے رہے۔ مولا کی اس خاص عنایت کے بعد یہ طے کيا کہ کتاب کے مکمل متن کو بہترین کيفيت کے ساته اس سال ١۵ شعبان تک نشر کریں۔ اپنے گراں قدر دوست، توان مند محقق حضرت حجة الاسلام آقائے محمد رضا فوٴادیان جو مہدویت کے متعلق کامياب محقق ہيں ان سے درخواست کی کہ کتاب کی تصحيح انجام دیں اور اس کے منابع کا استخراج کریں۔ انہوں نے خندہ پيشانی سے قبول کيا اور اپنی گرميوں کی تعطيلات کے پروگراموں کو اس کام کے ليے معطل کيا اور اس ارزش مند تاليف کو جس شکل ميں آپ ملاحظہ کر رہے ہيں آمادہ کيا اور حضرت صاحب الزمان - کے آستانہ کے عقيدت مندوں اور مولا کے عاشقين کی خدمت ميں پيش کيا۔ پهر ہمارے نورچشم آقائے محمد جواد اسلامی سلمہ نے اپنی ذمہ داری اور حسن سليقہ اور سر شار ذوق و شوق کے ساته کتاب کو منظم کرکے مرحلہٴ طباعت کے ليے آمادہ کيا۔ ہم خداوند منّان سے مولف محترم کی عزت و سرفرازی کے ساته طول عمر اور تمام طباعت و اشاعت کے مراحل ميں معاونين کے ليے مزید توفيقات کے طالب ہيں۔ یوسف زہرا - کے دیدار کی آرزو کے ساته دعا کے ليے ہاته اڻهاتے ہيں اور تمام دنيا کے شيعوں کے ساته یگانہ مصلحِ کائنات اور الله تعالیٰ کی آخری حجّت کے امر فرج کی تعجيل کے ليے بارگاہ خداوند منّان ميں عاجزانہ طور پر دعا گو ہيں۔ عيد سعيد مبعث رسول اکرم
علی اکبر مہدی پور
۱
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
نجات بخش بسمہ تعالی و انہ ولی التوفيق اَلقُْرآْنُ حَبلُْ اللہّٰ وَ عِصمَْةُ مِنَ الهَْلَکَة۔ قرآن رشتہٴ اتصال الٰہی ہے اور انسانوں کو ہلاکتوں سے نجات بخشنے والا ہے۔ و کذلک الحجة القائم۔ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف۔ اسی طرح حضرت حجّت قائم اور آپ کے آباء و اجداد کرام صلوات الله عليہم اجمعين بهی تمام انسانوں کو ہر قسم کی ہلاکتوں سے بچانے اور حفاظت کرنے والے ہيں۔ قرآن : ( ١ ”تم سب الله کی رسی (قرآن و اسلام اور ہر قسم کے دوسرے ارتباط کے ذریعہ) کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس ميں تفرقہ نہ پيدا کرو اور الله تعالیٰ کی نصيحت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس ميں دشمن تهے اس نے تمہارے دلوں ميں الفت پيدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بهائی بهائی بن گئے”۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ آل عمران، آیہ ١٠٣ ۔ (
آیت کریمہ تمام لوگوں کو اتحاد کی طرف دعوت دے رہی ہے۔ آیت کریمہ کی شان نزول ميں ذکر ہوا ہے کہ مدینہ ميں جاہليت کے زمانہ ميں دو بڑے قبيلے “اوس” اور “خزرج” نامی موجود تهے، کہ جن کے درميان ایک سو سال سے زائد ان کے درميان اختلافات اور جنگ و خوں ریزی موجود تهی کبهی کبهی تو ایک دوسرے کی جان پر آپڑتے تهے اور ایک دوسرے کو جانی اور مالی نقصان پہنچاتے تهے۔ رسول خدا (ص) کی مدینہ ہجرت کے بعد منجملہ کاميابيوں ميں سے ایک کاميابی یہ تهی کہ اسلام کے ذریعہ صلح و محبت ان دونوں قبيلوں کے درميان ایجاد کی، اختلافات کو برطرف کيا اور دونوں قبيلوں کے اتحاد کے ساته مدینہ ميں طاقت ور گروہ سامنے آیا۔ ليکن جہاں جاہلانہ تعصبات اور شيطانی وسوسے لوگوں کے ذہنوں سے عام طور پر ختم نہيں ہوتے وہاں اختلافات کو دوسرے قالب ميں رونما کرتے ہيں۔ کہتے ہيں: ایک دن قبيلہٴ اوس و خزرج کے دو لوگ جن کا نام ثعلبہ ابن غم اور اسعد ابن زرارہ تها ایک دوسرے کے مدمقابل ہوئے اور اُ ن افتخارات کو شمار کرنا شروع کيا جو انہيں اسلام قبول کرنے کے بعد نصيب ہوا تها۔ ثعلبہ نے کہا: خزیمہ ابن ثابت ذو الشہادتين اور حنظلہ غسيل الملائکہ ہم ميں سے ہيں نيز اسی طرح عاصم ابن ثابت اور سعد ابن معاذ کا نام ذکر کيا۔ اسعد ابن زرارہ جو قبيلہٴ خزرج ميں سے تها اس نے ابی ابن کعب، معاذ ابن جبل، زید ابن ثابت، ابو زید اور اس کے علاوہ مسعود ابن عبادہ جو مدینہ کا سردار اور مشہور خطيب تها افتخار کيا۔ رفتہ رفتہ یہ مسئلہ نہایت سنگين ہوگيا یہاں تک کہ دونوں قبيلوں کے لوگوں کو اس واقعہ سے اطلاع ہوئی ہاته ميں اسلحہ لے کر ایک دوسرے کے مدّ مقابل کهڑے ہوگئے، قریب تها کہ دوبارہ آتش جنگ شعلہ ور ہو اور ان سب کو خاکستر کرکے وہيں بڻها دے۔ جب یہ خبر رسول اسلام (ص) تک پہنچی تو آں حضرت فوراً اس واقعہ کے مقام پر پہنچے اور اپنے بہترین بيان اور خاص تدبير سے اس خطرناک حالت کو ختم کراکے ان کے درميان صلح ومحبت برقرار کی اور مذکورہ آیات اس سلسلہ ميں نازل ہوئيں۔ آ ں حضرت نہ صرف یہ کہ ان دونوں قبيلوں کو بلکہ ایک عمومی حکم کی صورت ميں تمام مسلمانوں کو اپنے بہترین بيانات اور ایک موثر طریقہ سے اتحاد کی دعوت دی : ) >وَاعتَْصِمُوا بِحَبلِْ اللهِ جَمِيعًا وَلاتَفَرَّقُوا> ( ١ ”تم سب الله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس ميں تفرقہ نہ پيدا کرو“ اس سلسلہ ميں کہ حبل الله (ریسمان الٰہی) سے کيا مراد ہے؟ مفسرین کے کلمات ميں بہت سے مختلف احتمالات پائے جاتے ہيں، بعض کہتے ہيں: اس سے مراد قرآن ہے، بعض توحيد اور ولایت، بعض اسلام اور بعض نے خاندان پيغمبر اور ائمہٴ معصومين کی ذوات مقدسہ سے تفسير کی ہے۔ معادن وحی و تنزیل قرآن سے واردہ شدہ روایات ميں بهی یہی مختلف تعبيریں مشاہدہ ميں آتی ہيں: دُ وَ الوِْ یٰ لاَةُ” ( ٢) حبل سے مراد توحيد ولایت ہے۔ ١۔ تفسير قمی ميں: “اَلْحَبْلُ التَّوحی v ٢۔ تفسير عياشی ميں امام محمد باقر - سے وارد ہوا ہے: “آلُ مُحَمَّدٍ هُمْ حَبْلُ اللّٰہِ نِ الَّذی اَمَرَ بِالِاعتِْ صٰامِ بِہِ فَ اٰ قلَ ” ( ٣)۔ المَْتی ”آل محمد وہ ذوات مقدسہ ہيں جو حبل الله المتين ہيں جن سے متمسک رہنے کا الله نے حکم دیا ہے اور فرمایا: تم سب الله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس ميں تفرقہ نہ پيدا کرو”۔ نِ” ( ۴)۔ طٰالِبٍ حَبلُْ اللہِّٰ المَْتی ٣۔ امام موسیٰ کاظم - سے منقول ہے: ““عَلِیُّ بنُْ اَبی ”حبل الله المتين ذات گرامی علی ابن ابی طالب ہيں۔“ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ ( ٢(۔تفسير قمی، ج ١، ص ١٠٨ ۔ ( ) ٣(۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ٣٣۴ (حدیث ٧٢۶ ( ) ۴(۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ٣٣۴ (حدیث ٧۶١ (
۴۔ امالی ميں امام جعفر صادق - سے منقول ہے: “نَحنُْ الحَْبلَْ” ( ١) “ہم حبل الٰہی ہيں۔ “ ۵۔ تفسير سيوطی ميں پيغمبر اکرم (ص) سے اور معانی الاخبار ميں امام سجاد - سے نقل ہوا ہے کہ فرمایا: “الاِْ اٰ ممُ مِناٰ لاٰ یَکُونُ اِلا مَّعصُْوماً وَلَيسَْتِ العِْصمَْةُ فی ظٰاہِرِ الخِْلقَْةِ فَيَعرَْفُ بِ هٰا لَ لَہُ یٰا رَسول اللّٰہ (ص) فَ مٰا مَعنْی المَْعصُْومِ : اٰقلَ هُوَ المُْعتَْصِمُ لِ لٰ ذِکَ لاٰ یَکُونُ اِلا مَّنصُْوصاً فَقی بِحَبلِْ اللہِّٰ وَحَبلُْ اللہِّٰ هُوَ القُْرآْنُ وَالقُْرآْنُ یَهدْي اِلَی الِا اٰ ممِ وَ لٰذِکَ قَولُْ اللہِّٰ تَ اٰ عل یٰ ” ( ٢ لوگوں کا امام اور سرپرست ہم ميں سے نہيں ہوگا مگر یہ کہ وہ معصوم ہوگا اور عصمت ایسی شے نہيں ہے کہ جس کا خارجی وجود پایا جاتا ہے اور خلقت انسانی کے ظاہر سے نمایاں ہو اور وہ پہچانی جائے۔ لہٰذا الله تعالیٰ کی طرف سے معين اور منصوص ہونا چاہيے”۔ کہا گيا: اے رسول خدا (ص)! معصوم کے کيا معنی ہيں؟ فرمایا: “الله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور ریسمان الٰہی وہی قرآن ہے اور قرآن بهی امام کی طرف ہدایت کرتا ہے اور آیہٴ کریمہ کا معنی یہی ہے: “یقينا یہ قرآن اس راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو ) بالکل سيدها ہے” ( ٣ البتہ یہ بهی ذکر کرنا ضروری ہے کہ احادیث اور تفاسير کے درميان کسی قسم کا کوئی اختلاف نہيں پایا جاتا۔ اس ليے کہ ریسمان الٰہی سے مراد الله تعالیٰ کی ذات پاک سے وہ ہر قسم کے ارتباط کا ذریعہ ہے، خواہ اسلام ہو یا قرآن یا پيغمبر (ص) اور اہل بيت پيغمبر، دوسری تعبير ميں جو کچه ذکر ہوا ہے خدا سے ارتباط پيدا کرنے کے وسيع مفہوم ميں حبل الله کے معنی سے نشاٴة پانا موجود ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاً وَ لاٰ ۶۔ تفسير الدر المنثور ميں آیہٴ کریمہ کے ذیل ميں ابن ابی شيبة اور ابن جریر ابن سعيد خدری سے رسول اکرم (ص) سے روایت کی گئی ہے کہ آن حضرت (ص) نے فرمایا: “کِ اٰتبُ اللہِّٰ هُوَ حَبلُْ اللہِّٰ المَْمدُْودُ مِنَ السَّ مٰآءِ اِلَی الاَْرضْ“ِ ”کتاب خدا وہی الله کی رسی ہے جو آسمان سے زمين کی طرف کهنچی ہوئی ہے”۔ )١) ٧۔ انہوں نے اس طرح ابن ابی شيبہ اور ابی شریح خزاعی سے نقل کيا ہے کہ حضرت کُمْ فَتَمَسَّکُوا بِہِ فَاِنَّکُمْ رسول خدا نے فرمایا: “اِنَّ هَ اٰ ذ القُْرآْنَ سَبَبٌ طَرَفُہُ بِيَدِاللہِّٰ وَطَرَفُہُ بِاَیدْی لَن تَضِلُّوا وَلَن تَضِلُّوا بَعدَْہُ اَبَداً “ ”یقينا یہ قرآن ایک سبب اور وسيلہ ہے جس کا ایک حصہ خدا کے ہاته (قدرت) ميں ہے اور اس کا دوسرا حصہ تمہارے ہاته ميں ہے لہٰذا اسے مضبوطی سے پکڑے رہو تاکہ ثابت اور ) پابرجا رہو اور اس کے بعد کبهی بهی گمراہ نہ ہو”۔ ( ٢ ٨۔ حضرت سجاد امام زین العابدین - نے ایک حدیث کے ضمن ميں فرمایا: “وَحَبلُْ اللہِّٰ هُوَ ) الْقُرْآنُ” ۔ “ریسمان الٰہی وہی قرآن ہے”۔ ( ٣ ٩۔ تفسير الدر المنثور ميں طبرانی سے انہوں نے زید ابن ارقم سے اور انہوں نے پيغمبر اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: “اِنِّي لَکُم فَرَطٌ وَاِنَّکُم وَارِدُونَ عَلیَّ الحَْوضَْ ، لَ : وَمَا الثَّقَ لاٰنِ اٰی رَسُولَ اللہِٰ ؟ّ اٰقلَ: اَلاْ کْبَرُ کِتٰابُ اللّٰہِ فَانظُْرُوا کَيفَْ تُخَلِّفُونی فی الثَّقَلَينِْ ” قی کُم ، فَتَمَسَّکُوا بِہِ لَنْ عَزَّوَجلَّ ، سَبَبٌ طَرَفُہُ بِيَدِاللہِّٰ ، وَ طَرَفُہُ بِاَیدْی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير در المنثور، ج ۴، ص ۶٠ ۔ ( ٢(۔ تفسير در المنثور، ج ۴، ص ۶٠ ۔ ( ٣(۔ معانی الاخبار ص ١٣٢ ۔ (
تَ اٰزلُ وَلَن تَضِلُّوا ؛ وَالاَْصغَْرُ عِترَْتی ، وَاِنَّهُمَا لَن یَفتَْرِ اٰق حَتیّٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ ، وَسَاٴَلتُْ لَهُ مٰا اٰ ذکَ ) فَلاٰ تُقَدِّمُوهُمٰا فَتُهلِکُوا وَلاٰ تَعَلِّمُوهُمٰا فَاِنَّهُمٰا اَعْلَمُ مِنْکُمْ”: ( ١ ، رَبّی ” جب تم ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوگے تو ميں تم ميں سے دو سنگين امانت کے بارے ميں دقت سے حفاظت کرنے کا مطالبہ کروں گا؟ دریافت کيا گيا: یا رسول الله وہ سنگين شے کيا ہے؟ فرمایا: “ان دونوں ميں بڑی چيز الله تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجيد) ہے جس کا ایک گوشہ اور کنارہ الله کے ہاته (قدرت و اختيار) ميں ہے اور اس کا دوسرا گوشہ تمہارے ہاته ميں ہے، لہٰذا اس سے متمسک رہو تو کبهی بهی گمراہ نہ ہوگے اور ان دونوں ميں چهوڻی چيز ميری عترت اور اہل بيت ہيں اور وہ دونوں کبهی بهی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔ اور اس بات کا ميں نے اپنے پروردگار سے ان دونوں کے بارے ميں سوال کيا تها، لہٰذا ان دونوں سے آگے نہ بڑهو ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور نہ انہيں تعليم دو کيونکہ وہ دونوں تم سے علم ميں بہت بڑهے ہوئے ہيں”۔ ١٠ ۔ ینابيع المودة ميں نوادر الاصول سے اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساته حذیفہ ابن اسيد غفاری سے روایت کی ہے کہ: جب رسول خدا (ص) حجة الوداع اور آخری حج سے واپس رُ اِنَّہُ فُ الْخَبی تشریف لائے تو خطبہ پڑها پهر ارشاد فرمایا: “اَیُّهَا الناٰسُّ اِنَّہُ قَد اَنبَْاٴَنِیَ اللَّطی ہِ مِن قَبلُْ، وَاِنّیْ اَظُنُّ اَنّی یُوشَکُ اَن اُدعْ یٰ لَم یَعمُْر نَبِیٌّ اِلامِّٰثلَْ نِصفِْ عُمرِْ النَّبِیِّ الَّذی یَلی نَ تَرِدُونَ عَلَیَّ عَنِ الثَّقَلَينِْ ، فَانظُْرُوا بَ، وَاِنّی فَرطُْکُم عَلَی الحَْوضِْ وَاِنّی سٰائلُکُم حی فَاُجی هِ مٰا ، اَلثِّقلُْ الاْکبَْرُ کِ اٰتبُ اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ سَبَبٌ طَرفُْہُ بِيَدِاللہِّٰ تَ اٰ عل یٰ وَ کَيفَْ تُخلِْفُوني فی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير الدر المنثور، ج ۴، ص ۶٠ ۔ (
کُم فَاستَْمسِْکُوا بِہِ وَ لاٰ تَضِلُّوا وَ لاٰ تُبَدِّلُوا وَ عِترَْتی اَهلُْ بَيتْي فَاِنَّہُ قد اَنبَْاٴَنِیَ اللَّطيفُ طَرَفٌ بِاَیدْی ) الخبيرُ اَنَّهُما لَن یَفتَْرِ اٰق ، حَتیّٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ”: ( ١ ”اے لوگو! مجهے (خدائے) لطيف و خبير نے خبر دی ہے کہ ہر نبی کو اپنے سے گزشتہ نبی کے مقابلہ ميں نصف زندگی عطا ہوتی ہے۔ قریب ہے کہ الله تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آجائے تو ميں اس پر لبيک کہوں گا ميں حوض کوثر پر (قيامت کے دن) تم سے پہلے موجود ہوں گا جب وہاں تم ميرے پاس وارد ہوگے تو ميں تم سے دو چيزوں کے بارے ميں سوال کروں گا دیکهو! ميرے بعد ان دونوں سے کيا سلوک کرتے ہو ان دونوں ميں بڑی چيز الله تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجيد) ہے اس کا ایک گوشہ اور حصہ الله تعالیٰ کے دست قدرت ميں ہے اور دوسرا سرا تمہارے ہاته ميں ہے اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے اور اس (کتاب خدا) کو دوسری چيزوں سے تبدیل نہ کرو اس طرح ہماری عترت اور ميرے اہل بيت سے بهی، مجهے خدائے لطيف و خبير نے آگاہ کيا ہے کہ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر ميرے پاس وارد ہوں گے”۔ ١١ ۔ قندوزی نے ابن عقدہ سے، عروہ ابن خارجہ سے انہوں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا سے روایت کی ہے کہ : ميں نے اپنے پدر گرامی کو آپ کی اس بيماری کے دوران جس ميں آپ کا انتقال ہوگيا تها فرماتے ہوئے سنا جب کہ آں حضرت کا حجرئہ مبارک ان کے اصحاب سے پُر تها فرما رہے تهے: ”اَیُّهَا الناٰسُّ یُوشَْکُ اَن اُقبَْضَ قَبضْاً سَریعاً وَقَد قَدَّمتُْ اِلَيکُْمُ القَْولَْ مَعذِْرَةً اِلَيکُْم اَ لاٰ وَاِنّی ثُمَّ اٴخذ بيد علیّ عليہ السلام فقال: اَهلَْ بَيتْی عَزَّوَجَلَّ وَ عِترَْتی یکُم کِ اٰتبَ رَبّی مُخَلِّفٌ ف “ هٰ اٰ ذ عَلِیٌّ مَعَ القُْرآْنِ وَالقُْرآْن مَعَ عَلِیٍّ عليہ السلام لاٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ١، ص ١٠٠ ، المعجم الکبير، طبرانی، ج ٣، ص ١٨٠ ، مجمع الزوائد، ج ٩، ص ( ١۶۴ ۔
) هِ مٰا ” : ( ١ فی یَفتَْرِ اٰقنِ حَتیّٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ ، فَاَسئَْلُکُم اٰ م تُخَلِّفُونی ”اے لوگو! قریب ہے کہ ميرا دنيا سے عنقریب انتقال ہوجائے عذر اور حجّت تمام کرنے کے ليے تمہيں آگاہ کر رہا ہوں کہ ميں تم ميں الله تعالیٰ کی کتاب اور اپنی عترت جو ميرے اہل بيت ہيں چهوڑنے والا ہوں۔ پهر آنحضرت نے حضرت علی - کا دست مبارک پکڑ کر فرمایا: یہ علی - قرآن کے ساته ہے اور قرآن علی - کے ساته ہے یہ دونوں کبهی بهی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے (روز قيامت) ميں تم سے باز پرس کروں گا کہ تم نے ان کے بارے ميں ميرا کيا خيال رکها تها”۔ ١٢ ۔ انہوں نے اسی طرح جابر ابن انصاری سے روایت کی ہے کہ : ميں رسول اکرم (ص) کے آخری حج کے موقع پر ان کے ہمراہ تها۔ وہاں سے واپسی کے وقت جب آپ جحفہ کے مقام پر پہنچے تو وہاں اتر پڑے پهر ایک خطبہ پڑها اور فرمایا : ”اَیُّهَا الناٰسُّ اِنّی مَسئُْولٌ وَاَنتُْم مَسئُْولُونَ ، فَ مٰا اَنتُْم اٰقئِلُونَ ؟ اٰقلُوا نَشهَْدُ اَنَّکَ بَلَّغتَْ وَ کُمُ الثَّقَلَينِْ ، اِن نَصَحتَْ وَاَدَّیتَْ۔ اٰقلَ: اِنِّي لَکُم فَرَطٌ وَاَنتُْم اٰورِدُونَ عَلَیَّ الحَْوضَْ ، وَاِنّی مُخَلِّفٌ فی وَاِنَّهُ مٰا لَن یَفتَْرِ اٰق حَتیّٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ ، تَمَسَّکتُْم بِهِ مٰا لَن تَضِلُّوا ، کِ اٰتبَ اللہِّٰ وَعِترَْتِي اَهلَْ بَيتْی ثُمَّ قٰالَ: اٴَلَستُْم تَعلَْمُونَ اَنّیِ اَولْ یٰ بِکُم مِن اَنفُْسِکُم ؟” قٰالُوا: بَل یٰ ف اٰ قلَ اٰ خِذاً بِيَد عَلِیٍّ عليہ ) السلام: “مَن کُنتُْ مَوُ لاٰہُ فَعَلِیٌّ مَو اْٰلہُ ” ثُمَّ قٰالَ: “اَللهُّٰمَّ وَالِ مَن اٰولاٰہُ وَ عٰادِ مَن عٰا اٰ دہُ ” ( ٢ اے لوگو! مجه سے سوال کيا جائے گا اور تم سے بهی باز پرس ہوگی، لہٰذا تم لوگ کون سی بات کہتے ہو؟ لوگوں نے عرض کيا: ہم گواہی دیتے ہيں کہ آپ نے تبليغ کی نصيحت کی اور مکمل طور پر ان چيزوں کو ادا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ١، ص ١٢۴ ۔ جواہر العقدین، ج ٢، ص ١٧۴ ۔ ( ٢(۔ ینابيع المودة، ج ١، ص ١٢۶ ، جواہر العقدین، ج ٢، ص ١۶٩ ۔ (
فرمایا۔ پهر فرمایا: “ميں تم سے پہلے حوض کوثر پر موجود رہوں گا اور تم ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوگے، ميں تم ميں دو گراں قدر چيزیں چهوڑے جارہا ہوں اگر ان دونوں کے دامن سے متمسک رہو گے تو ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوگے ایک کتاب خدا ہے دوسری ميری عترت، جو ميرے اہل بيت ہيں جو کبهی بهی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔ پهر فرمایا: “کيا تم لوگ نہيں جانتے ہو کہ ميں تمہارا سرپرست اور تمہاری جانوں پر اولیٰ بالتصرف ہوں؟” تمام لوگوں نے عرض کيا: ہاں ایسا ہی ہے اس کے بعد حضرت امير المومنين علی (عليہ السلام) کا دست مبارک پکڑ کر فرمایا: “جس کا ميں مولا اور سرپرست ہوں یہ علی بهی اس کے مولا اور سرپرست ہيں” پهر فرمایا: “اے خدا! تو اس کودوست رکه جو اس کو دوست رکهے تو اس سے دشمنی رکه جو اس سے دشمنی رکهے”۔ ١٣ ۔ خوارزمی سليمان اعمش سے ، حبيب ابن ثابت سے، ابو طفيل ( ١) سے انہوں نے زید ابن ارقم سے روایت کی ہے کہ : جب رسول الله (ص) آخری حج سے واپس تشریف لائے تو غدیر خم پر قيام فرمایا اور منبر بنانے کا حکم دیا پهر فرمایا: “کَاٴَنّي قَد دُعيتُ فَاَجَبتُْ، اِنّی قَد تَرَکتُْ فِيکُْمُ الثِّقَلَينِْ ، اَحَدُهُ مٰا اَکبَْرَ مِنَ الآْخَرِ، کِ اٰتبَ اللہِّٰ وَ عِترَْتِی ، اَہلَْ بَيتِْی فَانظُْرُوا کَيفَْ تُخلِْفُونی هِ مٰا فَانَّهُ مٰا لَن یَفتَْرِ اٰق حَتیّٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضْ“ فی ” ثُمَّ قٰالَ“ اِنَّ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ مَو لْاٰیَ وَاَنَا وَلِیٌّ کُلِّ مُوٴمِْنٍ وَمُوٴمِْنَةٍ“ اَللهُّٰمَّ وَالِ مَن اٰولاٰہُ ، فَ هٰ اٰ ذ وَلِيُّة ثُمَّ اَخَذَ بِيَدِ عَلِیٍّ عليہ السلام فَ اٰ قلَ: “ مَن کُنتُْ وَلِيَّة وَ عٰادِ مَن عٰا اٰ دہُ ”فَقُلتُْ اَنتَْ سَمِعتَْ لٰذِکَ مِن رَسُولِ اللہّٰ (ص) ؟ فَ اٰ قلَ : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”گویا ميرا پروردگار کی طرف سے بلاوا آگيا اور ميں نے اس کی دعوت پر لبيک کہا، یقينا ميں تمہارے درميان دو گراں قدر چيزیں چهوڑنے والا ہوں، ایک دوسری سے زیادہ بڑی ہے، ایک کتاب خدا (قرآن کریم) اور دوسری ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں، دیکهو تم ان کے بارے ميں ميرا کيا لحاظ رکهتے ہو یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پروارد ہوں“ پهر فرمایا: خداوند متعال ميرا مولا ہے اور ميں ہر مومن اور مومنہ کا مولا و سرپرست ہوں”۔ پهر رسول خدا (ص) نے حضرت علی کا دست مبارک پکڑ کر فرمایا: “ميں جس جس کا ولی اور سرپرست ہوں یہ علی بهی اس کا ولی اور سرپرست ہے، اے خدا! تو اس کو دوست رکه جو اس کو دوست رکهے اور تو اس سے دشمنی رکه جو اس سے دشمنی رکهے”۔ پهر ميں (ابو الفضيل) نے کہا تم نے رسول خدا (ص) کی اس حدیث کو سنا؟ زید نے کہا: “ہاں جو شخص بهی وہاں موجود تها اس نے اپنی آنکه سے دیکها اور اپنے کان سے سنا تها”۔ ١۴ ۔ قندوزی نے ینابيع المودة ميں کتاب مودة القربیٰ سے جبير ابن مطعم سے روایت کی کُمُ بَ ، وَاِنّی اٰترِکٌ فی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: “ اِنّی اوُشَکُ اَن اُدعْ یٰ فَاُجی ) هِ مٰا” : ( ٣ فی الثّقَلَينِْ کِ اٰتبَ رَبِّ اٰن وَعِترَْتِی اَهلَْ بَيتْی ، فَانُْظروا کَيفَْ تَحفَظُونْی ”عنقریب” مجهے بلایا جائے گا اور ميں لبيک کہوں گا ميں تم ميں دو گراں قدر امانت چهوڑنے والا ہوں ایک اپنے پروردگار کی کتاب جو قرآن ہے اور دوسری ميرے عترت جو ميرے اہل بيت ہيں، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ “دوحہ” کی جمع ہے جس کا معنی بڑے درخت کے ہيں، سائبان، خيمہ اور بڑی چادر (لسان ( ) العرب، ج ۴، ص ۴٣٧ ٢(۔ مناقب ابن خوارزمی، ص ١۵۴ ، مناقب ابن مغازلی، ص ١۶ ، مستدرک الصحيحين، ج ٣، ص ١٠٩ ۔ ( ٣(۔ ینابيع المودة، ج ١، ص ١٠٢ ، مودّة القربی، ص ١۴ ۔ (
دیکهو ان کے بارے ميں ميرا کيا پاس و لحاظ رکهتے ہو”۔ ١۵ ۔ ابن مغازلی نے اپنی سند کے ساته زید ابن ارقم سے روایت کی ہے کہ : پيغمبر اکرم (ص) آخری حج کے موقع پر مکہ مکرمہ سے تشریف لائے اور حجفہ کے تالاب (غدیر خم) کے کنارے نزول اجلال فرمایا اور ایک خطبہ پڑها اور اس کے ضمن ميں فرمایا: “اَیُّهَا الناٰسُّ اَسئَْلُکُم عَن ثِقلَْیَّ کَيفَْ خَلَّفتُْمُوني فيهِ مٰا ؟“ کُم فَتَمَسَّکُوا بِہِ ، وَ لاٰ ”الاکْبَْرُ مِنهُْ مٰا کِ اٰتبُ اللہِّٰ سَبَبٌ طَرَفُہُ بِيَدِاللہّٰ تَ اٰ عل یٰ وَطَرَفُہُ بِاَیدْی تَضِلُّوا وَالآْخَرُ مِنهُْ مٰا عِترَْتی“ ”ثُمَّ اَخذَ بِيَدِ عَلیٍ عليہ السلام فَرَفَع هٰا ، فَ اٰ قلَ: مَن کُنتُْ مَو اْٰلہُ فَعَلِیٌّ مَو لْاٰہُ ، اَللهُّٰمَّ اٰولِ ) مَنْ وٰالاٰہُ وَعٰادِ مَنْ عٰادَاہُ ”قَالَ هٰا ثَ لاٰثاً:” ( ١ ”اے لوگو! ميں تم سے اپنی دو گراں قدر امانت کے بارے ميں سوال کروں گا کہ تم نے ان کے ساته کيا سلوک کيا، ان ميں سے سب سے بڑی کتاب جو قرآن کریم ہے وہ ایسا وسيلہ ہے کہ جس کا ایک گوشہ الله تعالیٰ کے دست قدرت ميں ہے اور دوسرا سرا تمہارے ہاته ميں ہے لہٰذا اس سے تمسک اختيار کرو تو گمراہ نہ ہوگے اور دوسرے ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں”۔ پهر حضرت علی کا دست مبارک پکڑ کر بلند کرکے فرمایا: “اے خدا! جس جس کا ميں مولا اور سرپرست ہوں یہ علی بهی اس کا ولی اور سرپرست ہے، تو اس کو دوست رکه جو اس کو دوست رکهے اور تو اس سے دشمنی رکه جو اس سے دشمنی رکهے”۔ اس جملہ کو تين مرتبہ فرمایا۔ ١۶ ۔ سليم ابن قيس کا بيان ہے: حضرت علی - نے فرمایا: رسول اکرم (ص) نے عرفہ کے دن اپنی قصویٰ نامی اونڻنی پر سوار ہوکر مسجد خيف ميں جو بات بيان فرمائی تهی وہ غدیر کے دن فرمائی تهی اور جس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مناقب ابن مغازلی، ص ١۶ (حدیث ٢٣ ) ینابيع المودة، ج ١، ص ١٠۴ ۔ (
کُمُ تَرَکْتُ فی دن آپ کا انتقال ہوا تها ایک مفصل خطبہ کے درميان فرمایا: “اَیُّهَا الناٰسُّ اِنّی هِ مٰا، الاْکبَْرِ مِنهُْ مٰا کِتابُ اللہِّٰ وَالاْصغَْرُ عِترَْتي اَهلُْ بَيتْي ، وَاِنَّ الثَّقَلَينِْ لَن تَضِلُّوا اٰ م ان تَمَسَّکتُْم ب فَ الخَْبيرَ عَهِدَ اِلَیَّ اَنَّهُ مٰا لَن یَفتَْرِ اٰق حَتّ یٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ کَ هٰاتَينِْ ” اَشٰارَ بِالسَّباٰبَّتَينِْ “فَاِنَّ اللَّطی اَحَدَهُ مٰا اَقدَْمُ مِنَ الآْخَرِ، فَتَمسَّکُوا بِهِ مٰا لَن تَضِلُّوا، وَ لاٰ تُقَدِّمُوا مِنهُْم وَ لاٰ تُخَلَّفُوا عَنهُْم وَ لاٰ تُعَلِّمُوهُم ) فَاِنَّهُم اَعلَْمُ مِنکُْم ”: ( ١ ”اے لوگو! ميں تم ميں دو گراں قدر امانت چهوڑے جارہا ہوں اگر ان دونوں کے دامن سے وابستہ رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے ان ميں سب سے بڑی کتاب خدا (قرآن مجيد) ہے اور چهوڻی ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں، خدائے لطيف و خبير نے مجه سے عہد کيا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے” اور اپنی انگشت شہادت اور درميانی انگلی سے اشارہ کرکے فرمایا کہ ان ميں سے ایک دوسرے پر مقدم ہے لہٰذا اگر ان دونوں سے متمسک رہو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے ان کے آگے نہ بڑهو اور نہ ہی ان کو کسی چيز کی تعليم دو کيونکہ وہ تم لوگوں سے زیادہ جاننے والے ہيں”۔ ١٧ ۔ صاحب کتاب نظم در رالسمطين کہتے ہيں: زید ابن ارقم نے روایت کی ہے کہ حضرت رسول اکرم (ص) نے آخری حج ميں ہماری طرف رخ کرکے فرمایا: ”اِنّی فَرَطَکُم عَلَی الحَْوضِْ فَاِنَّکُم تَبَعي وَاِنَّکُم تُوشَکُونَ اَن تَرِدُوا عَلَیَّ الحَْوضَْ فَاسئَْلُکُم عَن هِ مٰا“ ثِقلَْیَّ کَيفَْ خَلَّفتُْمُونی فی نَ ، فَ اٰ قلَ: ما الثَّقَ لاٰنِ ؟ اٰقلَ: “الاْکبَْرِ مِنهُْ مٰا کِ اٰتبُ اللہِّٰ ، سَبَبٌ طَرَفُہُ یِبَدِ فَ اٰ قمَ رَجُلٌ مِنَ المُْ هٰاجِری کُم ، وَالاْصَغَرُ عِترَْتي فَتَمَسَّکُوا بِهِ مٰا ، فَمَنِ اللہِّٰ وَطَرَفُہُ بِاَیدْی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کتاب سليم ابن قيس، ص ٨۴ ، ینابيع المودة، ج ١، ص ١٠٩ ، غایة المرام، ج ١، ص ٢٢۶ ۔ (
استَْقبَْلَ قِبلَْتي وَاَ جٰابَ دَعوَْتي فَليَْستَْوصِ بِعِترَْتی خَيرْاً، فَ لاٰ تَقتُْلُوهُم وَ لاٰ تَقهَْرُوهُم وَ لاٰ تَقصُْرُوا عَنهُْم فَ الخَْبيرَ ، فَاَع طْٰاني اَن یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ کَ هٰاتَينِْ ، وَاَشٰارَ وَاِنِّی قَد سَئَلتُْ لَهُمَا اللَّطی ) بِالمُْسَبَّحتَينِْ ، اٰنصِرُهُ مٰا لی اٰنصِرٌ وَ خٰاذِلُهُما لي خٰاذِلٌ وَلِيُّهُ مٰا لي وَلِیٌ وَعَدُوُّهُ مٰا لي عَدُوُّ .( ١ )اے لوگو!) (ميں یقينا حوض کوثر پر تم سے پہلے موجود ہوں گا اور تم ميرے بعد آؤ گے ، تم عنقریب ميرے پاس حوض کوثر پر آؤ گے ميں تم سے اپنی دونوں گراں قدر امانتوں کے بارے ميں سوال کروں گا کہ تم نے ان سے کيسا سلوک کيا؟( پهر مہاجرین ميں سے ایک شخص نے کهڑے ہوکر دریافت کيا: وہ دونوں گراں قدر امانتيں کيا ہيں؟ آنحضرت (ص) نے فرمایا “ان ميں سب سے بڑی کتاب خدا (قرآن کریم) جو ایسا وسيلہ ہے کہ جس کا ایک گوشہ الله تعالیٰ کے دست قدرت ميں ہے اور اس کا دوسرا سرا تمہارے ہاته ميں ہے ان ميں چهوڻی ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں لہٰذا ان سے متمسک رہو تاکہ گمراہ نہ ہو، جس نے ميرے قبلہ کو تسليم کيا اور ميری دعوت کو قبول کرليا تو وہ ميری عترت اور ميرے اہل بيت کے ساته بهلائی سے پيش آئے، ان کوقتل نہ کرنا ان پر ظلم و ستم نہ کرنا ان کے حق ميں کوتاہی نہ کرنا ميں نے ان دونوں کو خدائے لطيف و خبير سے طلب کيا ہے یہ دونوں ميرے پاس اس طرح حوض کوثر پر وارد ہوں گے آنحضرت (ص) نے دونوں تسبيح پڑهنے والی انگليوں سے اشارہ فرمایا ان دونوں کا ناصر و مددگار ميرا ناصر و مددگار ہے ان کو دوست رکهنے والا مجهے دوست رکهنے والا ہے ان سے دشمنی رکهنے والا مجه سے دشمنی رکهنے والا ہے۔ ١٨ ۔ قندوزی رقم طراز ہيں: حذیفہ ابن اسيد غفاری کا بيان ہے: جب پيغمبر اکرم (ص) آخری حج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نظم در رالسمطين، ص ٢٣٣ ، ینابيع المودّة، ج ١، ص ١١۶ ، کنز العمال، ج ١، ص ١٨٨ ، جواہر ( العقدین، ج ٢ ، ص ١۶٨ ۔
سے واپس آئے تو منبر کے اوپر تشریف لے جاکر فرمایا: “ یَا اَیَّهُا النّٰاسُ اِنّی مَسْوٴُولٌ واِنَّکُمْ مَسوْٴُولُونَ ، فَ مٰا اَنتُْم اٰقئِلُونَ ؟” اٰقلُوا نَشهَْدُ اِنَّکَ قَد بَلَّغتَْ وَجَهَدتَْ وَنَصَحتَْ فَجَ اٰزکَ اللہُّٰ خَيرْاً ”فَ اٰ قل:َ ”اَلَيسَْ تَشهَْدُونَ اَن لاٰ اِ ہٰلَ اِلَّا اللہُّٰ وَاٴَنَّ مُحَمَّداً عَبدُْہُ وَرَسوْلُہُ وَاٴَنَّ جَنَّتَہُ حَقٌّ وَ اٰنرَہُ حَقٌّ وَالبَْعثَْ بَعدَْ المَْوتِْ حَقٌّ؟” قٰالُوا: “بَل یٰ نَشهَْدُ بِ لٰ ذِکَ ” اٰقلَ: “اَللهُّٰمَّ اشهَْد ”ثُمَّ قالَ: نَ وَاَنَا اَو لْٰ ی بِهِم مِن اَنفُْسِهِم ، فَمَن کُنتُْ اَیُّهَا الناٰسُّ اِنَّ اللہَّٰ مَو لْاٰیَ وَاَنَا مَولَْی المُْوٴمِْنی مَو لْاٰہُ فَ هٰ اٰ ذ عَلِیٌّ مَو لْاٰہُ اَللهُّٰمَّ اٰولِ مَن اٰولاٰہُ وَ عٰادِ مَن عٰا اٰ دہُ ” ثُمَّ قالَ : ہِ ”اِنّی فَرَطُکُم وَاِنَّکُم اٰورِدُونَ عَلَیَّ الحَْوضَْ حَوضٌْ اٴَعرَْضُ مِن اٰ م بَينَْ بُصرْ یٰ اِ لٰ ی صَن اْٰ عء فی نَ تَرِدُونَ عَلَیَّ عَنِ الثَّقَلَينِْ ، فَانظُْرُوا کَيفَْ عَدَدَ النُّجُومِ قِد حْٰانِ مِن فِضَّةٍ ، وَاِنّی سٰائِلُکُم حی کُم ، وَعِترَْتی اَہلَْ هِ مٰا ، اَلثِّقلُْ الاْکبَْرُ کِ اٰتبُ اللہِّٰ ، سَبَبٌ طَرَفُہُ بِيَدِ اللہِّٰ وَ طَرَفُہُ بِاَیدْی تُخْلِفُونی فی بَيتْی فَاستَْمسِْکُوا بِهِ مٰا ، فَ لاٰ تَضِلُّوا ، اِنَّہُ نَبَّاٴَنِیَ اللَّطيفُ الخَْبيرُ اَنَّهُ مٰا لَن یَفتَْرِ اٰق حَتّ یٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ ) الحَْوضَْ ” :( ١ ”اے لوگو! مجه سے سوال کيا جائے گا اور تم سے بهی باز پرس ہوگی لہٰذا تم کس بات کے قائل ہو؟ لوگوں نے عرض کيا کہ ہم اس بات کی گواہی دیتے ہيں کہ آپ نے الله کی راہ ميں تبليغ رسالت کی کوشش فرمائی اور آپ نے اپنے نفس اور دشمن کے ساته جہاد کيا اور لوگوں کو راہ راست کی نصيحت اور خير خواہی فرمائی الله تعالیٰ آپ کو جزائے خير عطا فرمائے” پهر دریافت فرمایا: ”کيا تم لوگ اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ خدائے یکتا کے سوا کوئی معبود نہيں ہے اور محمد الله کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ١، ص ١١٧ ، معجم کبير، طبرانی، ج ٣، ص ١٨٠ ، مجمع الزوائد، ج ٩، ص ١۶۴ ۔ (
بندے اور اس کے رسول ہيں، اس کی جنت حق ہے، اس کی جہنم حق ہے اور موت کے بعد دوبارہ اُڻهنا حق ہے؟” لوگوں نے عرض کيا: ہاں اس بات کی ہم لوگ گواہی دیتے ہيں۔ آنحضرت (ص) نے فرمایا: “اے خدا! تو بهی گواہ رہنا” پهر فرمایا: “اے لوگو! یقينا خداوند متعال ہمارا مولا اور سرپرست ہے اور ميں مومنوں کا مولا اور سرپرست ہوں اور ميں مومنين کے نفسوں پر اولی بالتصرف ہوں لہٰذا جس جس کا ميں مولا اور سرپرست ہوں یہ علی ابن ابی طالب - بهی اس کے مولا اور سرپرست ہيں، اے خدا! تو اس سے دوستی رکه جو اس سے دوستی رکهے اور تو اس سے دشمنی رکه جو اس سے دشمنی رکهے” پهر فرمایا: ”ميں تم سے پہلے حوض کوثر پر موجود رہوں گا اور تم لوگ بهی ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوگے ایسا حوض جو بُصریٰ سے لے کر صنعا تک کے علاقے سے زیادہ وسيع و عریض ہے اس ميں چاندی کے پيالوں کی تعداد آسمان کے ستاروں کے برابر ہے”۔ جب تم لوگ ميرے پاس حوض کوثر پروارد ہو گے تو ميں تم سے دو گراں قدر امانتوں کے بارے ميں سوال کروں گا کہ تم نے ان کے ساته کيا معاملہ کيا؟ اب دیکهو تمہارے پاس اس کا کيا جواب موجود ہے؟ اور کيساسلوک کيا ہے؟ بڑی گراں قدر امانت کتاب خدا (قرآن کریم) ہے جو ایسا وسيلہ ہے کہ جس کا ایک سرا خداوند متعال کے دست قدرت ميں ہے اور اس کا دوسرا سرا تمہارے ہاته ميں ہے (اور اس کی چهوڻی گراں قدر امانت) ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں لہٰذا ان دونوں کا دامن پکڑے رہو تاکہ گمراہ نہ ہو خدائے لطيف و خبير نے مجهے خبر دی ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز اور کبهی بهی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے”۔ ١٩ ۔ حاکم نے مستدرک ميں اپنی سند کے ساته سلمہ ابن کہيل سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے ابوطفيل سے انہوں نے ابن واثلہ سے سنا ہے کہ زید ابن ارقم کہتے تهے: حضرت رسول اکرم (ص) نے مکہ و مدینہ کے درميان پانچ بڑے درختوں کے نزدیک نزول اجلال فرمایا، پهر لوگوں نے درخت کے نيچے سے خار اور خس و خاشاک کو صاف کيا اس کے بعد رسول خدا (ص) نماز عصر بجالائے خطبہ پڑهنے کے ليے کهڑے ہوئے: حمدو ثنائے پروردگار بجالائے، موعظہ و نصيحت فرمائی جو کچه چاہتے تهے بيان کيا پهر فرمایا: “ اَیُّهَا النّٰاسُ اِنّی تٰارِکٌ کُم اَمرَْینِْ لَن تَضِلُّوا اِنِ اتَّبَعتُْمُوهُ مٰا ، وَهُ مٰا کِ اٰتبُ اللہِّٰ وَاَهلُْ بَيتْي عِترَْتي (ثُمَّ قٰالَ) اَتَعلَْمُونَ اَنّي فی اَوْلٰی بِالْمُوٴْمِنينَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ، ثَلاٰثَ مَرّٰاتٍ ؟ قٰالُوا بَلٰی ، فَقالَ رسول اللّٰہ (ص) “ مَنْ کُنْتُ مَوْ لاٰہُ ) فَعَلِیٍّ مَو لْاٰہُ ” ( ١ ”اے لوگو! ميں تمہارے درميان دو اہم امانتيں چهوڑ رہا ہوں، اگر ان دونوں اہم امانتوں کی پيروی کروگے تو کبهی بهی گمراہ نہ ہوگے، ان ميں سے ایک کتاب خدا (قرآن کریم) ہے اور دوسری ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں”۔ پهرفرمایا: “کيا تمہيں معلوم ہے کہ ميں تمام مومنين کے نفسوں پر اولیٰ بالتصرف اور ان کا سرپرست ہوں” اس جملہ کی تين مرتبہ تکرار کی، سب نے کہا: ہاں، پهر رسول خدا (ص) نے فرمایا: “ميں جس جس کے نفس پر اولیٰ بالتصرف اور ان کا سرپرست ہوں، یہ علی بهی اس اس کے نفس پر اولی بالتصرف اور ان کے سرپرست ہيں”۔ ٢٠ ۔ مسند احمد حنبل ميں زید ابن ثابت سے روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا : فَتَينِْ : کِ اٰتبَ اللہِّٰ ، حَبلٌْ مَمدُْودٌ اٰ م بَينَْ السَّمآءِ وَالاَْرضْ ( اَو اْٰ م بَينَْ کُم خَلی ”اِنّی تٰارِکٌ فی ) السَّمآءِ اِلَی الْاَرْضِ ) وَعِترَْتي اَهلَْ بَيتْي ، وَاِنَّهُ مٰا لَن یَفتَْرِ اٰق حَتیّٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ” :( ٢ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
، ١(۔ مستدرک صحيحين، ج ٣ ص ١٠٩ ، مسند احمد، ج ٣، ص ١٧ ، الصواعق المحرقہ، ص ١۵٠ ( جواہر العقدین، ج ٢، ص ١۶٧ ، ینابيع المودة، ج ١، ص ١١۵ ۔ ٢(۔ مسند احمد، ج ۵، ص ١٨٢ ، کتاب الولایة، ابن عقدہ، ص ٢٠٩ ، ینابيع المودة، ج ١، ص ١١٩ ۔ (
”ميں تمہارے درميان دو خليفہ بطور یادگار چهوڑنے والا ہوں، ایک کتاب خدا ہے جو رسی کی طرح آسمان اور زمين کے درميان کهنچی ہوئی ہے (یا آسمان اور زمين کے درميان ہے) دوسری ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں یہ دونوں جب تک ميرے پاس حوض کوثر پر نہ پہنچ جائيں جدا نہ ہوں گے”۔
۲
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
قرآن اور عترت کو ثقلين کہے جانے کی وجہ تسميہ: اس کی وجہ تسميہ ميں مختلف نظریات پائے جاتے ہيں: لغت کے اعتبار سے “ثَقْلْ” ثاء پر زیر اور قاف پر سکون کے ساته، اکثر اوزان ميں سنگين چيز کے معنی ميں استعمال ہوتا ہے، قرآن مجيد اور اہل بيت پيغمبر (ص) کو اس اعتبار ے ثقلين کہا جاتا ہے چونکہ ان کا عمل سنگين ہے۔ ليکن “ثَقَل”ْ دونوں (ثاء اور قاف) پر زبر کے ساته گراں قدر چيز اور عمدہ سامان کے معنی ميں ہے قرآن اور عترت کو “ثَقَلَينْ” اس اعتبار سے کہا جاتا ہے چونکہ ان کی جلالت و منزلت عظيم اور گراں قدر ہے۔ ابن ابی الحدید کہتے ہيں: جب پيغمبر اکرم (ص) نے خود کو جوار رحمت پروردگار کی طرف انتقال ہونے کے قریب پایا جيسے ایک مسافر ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف منتقل ہوتا ہے، تو کتاب خدا (قرآن) اور عترت کو اپنی متاعِ حيات اور جاہ و حشم کی جگہ قرار دیا اس ليے کہ وہ آنحضرت (ص) کی مخصوص ترین اشياء تهيں اسی ليے امت کو ان کی سفارش اور وصيت کی۔ صاحب منهاج البراعة کہتے ہيں: اظہر یہ ہے کہ “ثقل” عمدہ سامان کا معنی کيا جائے کيونکہ جلالت و منزلت کے لحاظ سے عظيم اور گراں قدر ہے۔ یہاں مناسب یہ ہے کہ نہج البلاغہ کے خطبات ميں سے ایک خطبہ کی طرف اشارہ کيا جائے وہ خطبہ جس کا آغاز اس عبارت سے ہوتا ہے: ٢١ ۔ “عِ اٰبدَ اللہِّٰ اِنَّ مِن اَحَبِّ عِ اٰبدَ اللہِّٰ اِلَيہِْ عَبدٌْ اَ عٰانہَ اللہُّٰ عَ لٰی نَفسِْہِ ․․․” “بندگان خدا ! الله کی نگاہ ميں سب سے محبوب بندہ وہ ہے جس کی خدا نے اس کے نفس کے خلاف مدد کی ہے ․․․” خطبہ کے آخری حصے ميں رسول اکرم (ص) کے قول پر عمل کرنے کی لوگوں کو یاد دہانی کراتے ہوئے فرمایا: ”اِنَّہُ یَموْتُ مَن اٰ متَ مِنّا وَلَيسَْ بِمَيِّتٍ ( ١) وَیَب لٰی مَن بَلِیَ مِنّا وَلَيسَْ بِ اٰبل“ٍ ”فَ لاٰ تَقُولُوا بِ مٰا لاٰ تَعرِْفُونَ ، فَاِنَّ اَکثَْرَ الحَْقِّ فيِ مٰا تُنکِْرُونَ وَاَعذِْرُوا مَنَ لاٰ حُجَّةَ لَکُم عَلَيہِْ وَاَنَا هُوَ․“ کُم بِالثَّقَلِ الاْکبَْرِ وَاٴَترُْک فيِکُمُ الثَّقَلَ الاَْصغَْرِ ، قَد رَکَزتُْ فيِکُم اٰریَةَ الاِی مٰانِ ”اٴَلَم اَعمَْل فی ) وَوَقَفتُْکُم عَ لٰی حُدُودِ الحَْ لاٰلِ وَالحَْ اٰرمِ ”․ ( ٢ یعنی “اے لوگو! پيغمبر خاتم النبين (ص) کے اس قول کو ان کی اولاد طاہرین کے بارے ميں قبول کرو، کيا گمان کرتے ہو کہ ہمارا مرنے والا ميت ہوتا ہے حالانکہ ہم ميں سے کوئی مرور زمانہ سے مردہ نہيں ہوتا اور اس طرح کيا خيال کرتے ہو کہ ہم ميں سے جانے والا بوسيدہ ہوجاتا ہے حالانکہ ہم ميں سے کوئی بهی مرور زمانہ سے بوسيدہ نہيں ہوتا”۔ ”اے لوگو! جو تم نہيں جانتے ہو وہ نہ کہو، اس ليے کہ بسا اوقات حق اسی ميں ہوتا ہے جسے تم نہيں پہچانتے ہو اور جس کے خلاف تمہارے پاس کوئی دليل نہيں ہے، لہٰذا اس کے عذر کو قبول کرلو اور اس کی مذمت نہ کرو جس کے بارے ميں تمہيں کوئی دليل نہ ملی ہو۔ اور وہ ميں ہوں، ميں نے تمہيں راہ راست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ آیہٴ کریمہ< وَلاَتَحسَْبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِيلِ اللهِ اٴَموَْاتًا بَل اٴَحيَْاءٌ عِندَْ رَبِّہِم یُرزَْقُونَ >کی ( طرف اشارہ ہے۔ “اور خبردار راہ خدا ميں قتل ہونے والوں کو مردہ خيال نہ کرنا وہ زندہ ہيں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہيں۔ آل عمران، ١۶٩ ٢(۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ٨٧ ۔ (
کی طرف ہدایت کی اور ميں نے تمہارے ليے عذر کی کوئی راہ نہيں چهوڑی ليکن تم نے ميری پيروی نہيں کی۔ کيا ميں نے تمہارے درميان ثقل اکبر (قرآن مجيد) پر عمل نہيں کيا ہے اور کيا ثقل اصغر اپنے اہل بيت کو تمہارے درميان نہيں رکها ہے، ميں نے تمہارے درميان ایمان کے پرچم کو نصب کردیا ہے اور تمہيں حلال و حرام کے حدود سے آگاہ کردیا ہے ”۔ شيعہ اماميہ کے اعتقاد کے مطابق عترت قرآن سے افضل ہے، اور وہ لوگ قرآن کے محافظ و سرپرست ہيں ليکن قرآن کا اکبر ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن اصل ہے اور ) تمام لوگ اس کی پيروی اور اقتدا کرتے ہيں ۔ ( ١ علامہ خوئی رحمة الله عليہ شارح نہج البلاغہ رقم طراز ہيں: “عترت بهی اصل ہے اور اس کی تمام لوگ پيروی اور اقتدا کرتے ہيں”۔ اور یہ احتمال بهی پایا جاتا ہے کہ قرآن کا اکبر سے متصف ہونا اس جہت سے ہے کہ معجزہ رسالت اور رسالت و ولایت کی سند شرع مبين اور دین اسلام کی اصل و اساس ہے اگر قرآن نہ ہوتا تو نہ رسالت ہوتی نہ ہی شریعت اور ولایت، نہ ہی امن و ایمان ثابت ہوتا لہٰذا بڑے ہونے سے قرآن توصيف کيا گيا ہے۔ ممکن ہے کہ عظيم صحابی (ابو سعيد خدری) کی روایت سے بهی اس بات کا استظہار کيا جائے وہ بيان کرتے ہيں کہ پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: کُمُ الثَّقَلَينْ اَحَدُهُ مٰا اَکبَْرُ مِنَ الآْخَرِ کِ اٰتبَ اللہِّٰ حَبلٌْ مَمدُْودٌ مِنَ السَّ مٰآءِ ٢٢ ۔ “ اِنِّي تٰارکٌ فی ) اِلَی الاَْرضِْ وَعِترَْتی اَهلَْ بَيتْی ، لَن یَفتَْرِ اٰق حَتّ یٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ”: ( ٢ ”یقينا ميں تمہارے درميان دو گراں قدر چيزیں چهوڑ کر جارہا ہوں ان ميں سے ایک، دوسر ی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ شرح نہج البلاغہ ابن ميثم، ج ٢، ص ٣٠٣ ۔ ( ٢(۔ ینابيع المودة، ج ١، ص ۴۶٠ ، غایة المرام، ج ٢، ص ٣١۴ ۔ (
بڑی ہے، (جو بڑی ہے) وہ کتاب خدا قرآن مجيد ہے جو ایسی رسی ہے کہ زمين سے آسمان تک کهنچی ہوئی ہے (اور جو چهوڻی ہے) ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں۔ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے”۔ اس سے زیادہ واضح امام محمد باقر - کی روایت ہے جسے جابر ابن عبد الله نے بيان کيا ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا : کُمُ الثَّقَلَينِْ ، الثَّقَلُ اَلاَْکبَْر وَالثَّقَلُ الاَْصغَْر، اِن تَمسَّکتُْم ٢٣ ۔ “یٰا اَیُّهَا النّٰاسُ اِنّی تٰارِکٌ فی رَ لاٰ یَفتَْرِ اٰقنِ حَتّ یٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ فَ الخَْبی بِهِ مٰا لَن تَضِلُّوا وَلَن تُبَدِّلوُا ، فَاِنّی سَاٴَلتُْ اللہَّٰ اللَّطی تُ․“ الحَْوضَْ فَاُعطْی لَ : فَمَا الثَّقَلُ الاْکبَْرُ وَمَا الثَّقَلُ الاْٴصَغَرُ ؟ فَ اٰ قلَ: اَلثَّقَلُ الاَْکبَْرُ کِ اٰتبُ اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ ، ”فَقی ) کُم وَالثَّقَلُ الاْٴصغَْرُ عِترَْتي اَهلُْ بَيتْي ” : ( ١ سَبَبٌ طَرَفُہُ بِيَدِ اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ وَطَرَفٌ بِاَیدْی ”اے لوگو! یقينا ميں تمہارے درميان دو گراں قدر امانتيں چهوڑ رہا ہوں، جب بهی ان سے متمسک رہو گے اور مضبوطی سے پکڑے رہو گے، گمراہ نہ ہوگے اور ان کو دوسری چيز سے تبدیل نہ کرو لہٰذا ميں نے مہربان خدائے لطيف و خيبر سے درخواست کی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں ، پس خداوند متعال نے مجهے عطا فرمایا”۔ سوال کيا گيا: وہ بڑی امانت کون سی ہے اور چهوڻی امانت کيا ہے؟ فرمایا: “بڑی امانت کتاب خدا قرآن مجيد ہے جو ایسا وسيلہ ہے کہ اس کا ایک سرا خداوند متعال کے دست قدرت ميں ہے اور دوسرا سرا تم لوگوں کے ہاته ميں ہے اور چهوڻی امانت ميری عترت اور ميرے اہل بيت ہيں”۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٢۴ ۔ جو کچه تفسير علی ابن ابراہيم قمی ميں انہوں نے اپنے باپ سے، صفوا ن ابن یحيیٰ سے، ابی جارود سے، عمران ابن ميثم سے، مالک ابن حمزہ سے انہوں نے ابوذر سے روایت کی ہے، وہ جابر کی روایت کی مزید وضاحت بيان کرتی ہے۔ ابوذر کہتے ہيں: جب آیت ( ١) “قيامت کے دن جب بعض چہرے سفيد ہوں گے اور بعض چہرے سياہ ہوں گے” نازل ہوئی تو پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : ”تَرِدُ عَلَیَّ اُمَّتي یَومَْ القِْ اٰيمَةِ عَل یٰ خَمسِْ اٰراٰیتٍ: فَ اٰریَةٌ مَعَ عِجلِْ هٰذِہِ الاُْمَّةِ فَاَساْٴلُْهُم اٰ م فَعَلتُْم بِالثَّقَلَينِْ مِن بَعدِْی ؟ فَيَقُولُونَ اَمّا الاْکبَْرُ فَحَرَّف اْٰنہُ وَ نَبَذ اْٰنہُ وَ آٰرء ظُهُورِ اٰن ، وَاَمَّا الاَْصغَْرُ فَ اٰ عدَی اْٰنہُ وَاَبغَْض اْٰنہُ وَظَلَم اْٰنہُ ، فَاَقُولُ: رُدُّوا اِلَی الناٰرِّ ضَمآْءَ نَ مُسْوَدَّةً وُجُوهُکُم․ْ مُضِمِئی ثّمَُ تَرِدُ عَلَیَّ اٰریَةٌ مَعَ فِرعَْونِْ هٰذِہِ الاُْمَّةِ فَاَقُولُ لَهُم : اٰ م فَعَلتُْم بِالثَّقَلَينِْ ، مِن بعدْی؟ فَيَقُولُونَ : اَمَّا الاْکبَْرُ فَحرَّف اْٰنہُ وَمَزَّق اْٰن ہُ وَ خٰالَف اْٰنہُ، وَاَمَّا الاَْصغَْرُ فَ اٰ عدَی اْٰنہُ وَ اٰقتَل اْٰنہُ ، فَاَقُولُ رُدُّوا نَ مُسْوَدَّةً وُجُوهُکُم․ْ اِلَی الناٰرّ ضَمآْءَ مُضمِْئی ثُمَّ تَرِدُ عَلَیَّ اٰریَةٌ مَعَ سٰامِرِیِّ هٰذِہِ الاُْمَّةِ فَاَقُولُ لَهُم : اٰ م فَعَلتُْم بِالثَّقَلَينِْ مِن بَعدِْي ؟ فَيَقُولُونَ : اَمَّا الاْکبَْرُ فَعَصَي اْٰنہُ وَ تَرَک اْٰنہُ وَاَمَّا الٴَاصغَْرُ فَخَذَل اْٰنہُ وَضَيَّع اْٰنہُ فَاَقُولُ رُدُّوا اِلَی النَّارِ نَ مُسْوَدَّةً وُجُوهُکُم․ْ ضَمآْءَ مُضمِْئی ثُمَّ تَرِدُ عَلَیَّ اٰریَةٌ ذِی الثَّدیَةِ مَعَ اَوَّلَ الخَْ اٰورِجِ وَآخِرِهِم وَاَسئَْلُهُم اٰ م فَعَلتُْم بِالثَّقَلَينِْ مِن فَيَقُولُونَ اَمَّا الاْکبَْر فَمَزَق اْٰنہُ وَ بَرِئ اْٰن مِنہُْ وَاَمَّا الاٴَصغَْرُ فَ اٰ قتَل اْٰنہُ وَ بَعدْی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔سورہ آل عمران، آیت ١٠۶ ۔ (
نَ مُسْوَدَّةً وُجُوهُکُم․ْ قَتَل اْٰنہُ فَاَقوْلُ رُدُّوا اِلَی الناٰرِّ ضَمآْءَ مُضمِْئی نَ وَوَصِیِّ نَ وَ اٰقئِدِ الغُْرِّ المُْحَجَّلی نَ وَ سَيِّدِ المُْسلِْمی ثُمَّ تَرِدُ عَلَیَّ اٰریَةٌ مَعَ اِ اٰ ممِ المُْتَّقی نَ ، فَاَقُولُ لَهُم اٰ م فَعَلتُْم بِالثَّقَلَينِْ مِن بَعدِْی ؟ رَسُولِ رَبِّ ال اْٰ علَمی فَيَقُولُونَ: اَمَّا الاْکبَْرُ فَاتَّبَع اْٰنہُ وَاَطَع اْٰنہُ ، وَاَمَّا الاَْصغَْرُ فَاَحبَْب اْٰنہُ و اٰولَي اْٰنہُ وَزُر اْٰنہُ وَ نَصَر اْٰنہُ حَتّ یٰ نَ مُبيَْضَّةً وُجُوهَکُم․ْ هِم دِ اٰ مئُنا ، فَاَقُولُ رُدُّوا اِلَی الجَْنَّةِ رَوآٰءَّ مَروِْیّی قَتْ فی اُهْری ثُمَّ تَلیٰ رَسُولُ اللّٰہِ (ص) < یَومَْ تَبيَْضُّ وُجُوہٌ وَتَسوَْدُّ وُجُوہٌ فَاٴَمَّا الَّذِینَ اسوَْدَّت وُجُوہُہُم اٴَکَفَرتُْم بَعدَْ إِیمَانِکُم فَذُوقُوا العَْذَابَ بِمَا کُنتُْم تَکفُْرُونَ وَاٴَمَّا الَّذِینَ ابيَْضَّت وُجُوہُہُم فَفِی رَحمَْةِ اللهِ ہُم ) فِيہَا خَالِدُونَ >” ․ ( ١ جب سورئہ آل عمران کی آیت نمبر ١٠۶ نازل ہوئی تو حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمایا: ميری امت بروز محشر پانچ علم لے کر ميرے پاس پہنچے گی : ١ (پہلا عَلم ميری اس امت کے گوسالہ (بچهڑے) کا ہوگا ان سے دو گراں قدر امانتوں کے بارے ميں سوال کروں گا؟ تو وہ کہيں گے: ليکن جوان ميں سے بڑی امانت کتاب خدا تهی اس کی ہم نے تحریف کی تهی اور اس کو پس پشت ڈال دیا تها (اس پر عمل نہيں کيا) ليکن جو چهوڻی امانت عترت تهی اس کو اپنی دشمنی اور بغض و حسد کا نشانہ بنایا اور اس پر ظلم و ستم کيا تها، لہٰذا ميں کہوں گا : روسياہ اور پياسے ہوکر جہنم کی طرف چلے جاؤ۔ ٢ (پهر ميرے پاس ميری اس امت کے فرعون کا دوسرا علم وارد ہوگا، پهر ان سے دو گراں قدر امانت کے بارے ميں سوال کروں گا کہ تم نے ميرے بعد ان کے ساته کيسا سلوک کيا؟ تو وہ کہيں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔تفسير قمی، ج ١، ص ١٠٩ ، تفسير برہان، ج ١، ص ۴٧۴ ، غایة المرام، ج ٢، ص ٣۴۶ ۔ (
گے: ليکن جو ان ميں سے بڑی امانت کتاب خدا تهی اسے ہم نے بدل ڈالا اور اسے ڻکڑے ڻکڑے کرکے اس کے برخلاف عمل کيا، ليکن جو چهوڻی امانت عترت تهی اس سے لڑائی اور دشمنی کی تهی، تو ميں ان سے کہوں گا: روسياہ اور نہایت تشنگی کے عالم ميں جہنم کی طرف چلے جاؤ۔ ٣ (اس کے بعد ميرے پاس ميری اس امت کے سامری کا تيسرا علم وارد ہوگا، پهر ميں ان سے سوال کروں گا کہ تم نے ان دونوں گراں قدر امانتوں کے ساته کيا سلوک کيا؟ وہ لوگ کہيں گے: ليکن جوان ميں سے بڑی امانت (قرآن) تهی اس کی نافرمانی کی تهی اسے پس پشت ڈال دیا تها اسے چهوڑ دیا تها اور جو چهوڻی امانت (عترت) تهی اس کو ذليل و رسوا کيا تها اسے ضایع کردیا تها پهر انہيں بهی روسياہ اور تشنگی کے عالم ميں جہنم کی طرف بهيجوں گا۔ ۴ (اس کے بعد ميرے پاس اس امت کا چوتها علم تمام خوارج کی ہمراہی ميں وارد ہوگا ان ميں اول سے آخر تک کی ہر ایک فرد سے دریافت کروں گا: تم نے ميرے بعد ان دو گراں قدر امانتوں کے ساته کيسا سلوک کيا؟ وہ کہيں گے: ليکن جو ان ميں سے بڑی امانت کتاب خدا تهی اس کو ڻکڑے ڻکڑے کيا اس سے بيزار ہوگئے تهے کنارہ کشی کی تهی ليکن ان ميں سے جو چهوڻی امانت (عترت) تهی ان سے لڑے اور ان سب کو قتل کيا تها پهر انہيں بهی روسياہی اور تشنگی کے عالم ميں جہنم کی طرف بهيجوں گا۔ ۵ (پهر (سب سے آخر ميں) امام المتقين، سيد الوصيين قائد غرّ المحجلين حضرت علی ابن ابی طالب- کا پرچم وارد ہوگا، پهر ان سے بهی سوال کروں گا کہ ميرے بعد ان دونوں گراں قدر امانتوں کے ساته کيسا سلوک کيا؟ وہ کہيں گے: ليکن جو ان ميں سے بڑی امانت کتاب خدا تهی اس کی پيروی کی اور اس کے احکام پر عمل کيا اس کی اطاعت کی تهی ليکن جو ان ميں سے چهوڻی امانت (عترت) تهی ان سے محبت کرتے تهے ان کو اپنا سرپرست قرار دیا، ان کی زیارت کی ان کی نصرت و مدد کی یہاں تک کہ ہم نے اپنے خون کا آخری قطرہ ان کی نصرت ميں قربان کردیا تها، پهر ميں ان سے کہوں گا:حوض کوثر سے سيراب ہوکر نورانی اور سفيد چہروں کے ساته جنت ميں چلے جاؤ۔ اس کے بعد حضرت رسول اکرم (ص) نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی: “قيامت کے دن بعض چہرے سفيد اور نورانی ہوں گے”۔ ان روایات سے نتيجہ اخذ ہوتا ہے کہ :ریسمان الٰہی سے متمسک رہنا خواہ وہ قرآن مجيد ہو یا اہل بيت عصمت و طہارت عليہم السلام ہوں اختلافات رفع کرنے کے ليے بہت قوی عامل ہيں جو دنيا ميں ملتوں کے درميان اور امتوں کے مابين مادی، معنوی، اعتقادی، اخلاقی دنيا اور آخرت کے متعلق رونما ہوتے ہيں۔ اب اس سلسلے ميں چند آیات کی طرف اشارہ کرتے ہيں : ١ > (وَمَا اٴَنزَلنَْا عَلَيکَْ الکِْتَابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَہُم الَّذِی اختَْلَفُوا فِيہِ وَہُدًی وَرَحمَْةً لِقَومٍْ یُؤمِْنُونَ > : )١) ”اور ہم نے آپ پر کتاب (قرآن کریم) صرف اس ليے نازل کی ہے کہ آپ ان مسائل کی وضاحت کردیں جن ميں یہ اختلاف کيے ہوئے ہيں (وہ امور جو مبداٴ و معاد، حلال و حرام سے مربوط ہيں) اور یہ کتاب صاحبان ایمان کے ليے مجسمہ ہدایت اور رحمت ہے”۔ ٢> (وَکَيفَْ تَکفُْرُونَ وَاٴَنتُْم تُتلَْی عَلَيکُْم آیَاتُ اللهِ وَفِيکُم رَسُولُہُ وَمَن یَعتَْصِم بِاللهِ فَقَد ہُدِیَ ) إِلَی صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍ> : ( ٢ ”اور تم لوگ کس طرح کافر ہوجاؤ گے جب کہ تمہارے سامنے آیات الٰہيہ کی تلاوت ہورہی ہے اور تمہارے درميان رسول (پيغمبر اکرم (ص)) موجود ہے اور جو خدا سے وابستہ ہوجائے سمجهو کہ اسے سيدهے راستہ کی ہدایت کردی گئی”۔ انکار اور اظہار تعجب ان کے کفر کی وجہ سے ہے حالانکہ ان کے ليے تمام مقتضی ایمان کے اسباب اور کفر کے مواقع جمع ہوگئے تهے۔ خداوند متعال کی آیات اور نشانياں الله کی معرفت کے ليے قوی ترین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عامل ہے، اس کے علاوہ پيغمبر اکرم (ص) کا مقدس وجود جو تمام کا تمام نور اور ہدایت کا حامل ہے ان کے درميان موجود تها، اس بنا پر جو شخص ان کے دین سے متمسک ہو اور تمام امور ميں ان سے التجا کرے تو یقينا وہ راہ راست کی طرف ہدایت پاگيا ہے۔ جملہٴ < وَاٴَنتُْم تُتلَْی عَلَيکُْم آیَاتُ اللهِ وَفِيکُم رَسُولُہُ>اس بات کو گوش گزار کر رہا ہے کہ تمہيں کتاب الٰہی کی تلاوت اور اس ميں تدبر و تفکر کی طاقت موجود تهی اور ان امور ميں جو تم پر مخفی تهے رسول خدا کی طرف رجوع کرنے یا ان امور ميں بهی جو یہودی لوگ تمہيں یاد دلاتے تهے، اور سے مراد: وہی راستہ ہے کہ جس ميں اختلاف نہيں ہے اور نہ ہی ) اختلاف ہوسکتا ہے اور اس وادی پر چلنے والے افراد کبهی بهی گمراہ نہيں ہوں گے۔ ( ١ ٣> (وَلَقَد آتَينَْا مُوسَی الکِْتَابَ فَاختُْلِفَ فِيہِ وَلَولْاَکَلِمَةٌ سَبَقَت مِن رَبِّکَ لَقُضِیَ بَينَْہُم وَإِنَّہُم ) لَفِی شَکٍّ مِنہُْ مُرِیبٍ > ( ٢ ”اور یقينا ہم نے موسی کو کتاب دی تو اس ميں بهی اختلاف پيدا کردیا گيا اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے پہلے بات نہ ہوگئی ہوتی تو ان کے درميان فيصلہ کردیا جاتا اور یہ لوگ اس عذاب کی طرف سے شک ميں پڑے ہوئے ہيں”۔ جملہ ولقد آتينا موسی الکتاب: یعنی: جس وقت ہم نے حضرت موسیٰ - کو کتاب (توریت) دی تو ان کی قوم کے درميان اختلاف ہوگيا تها، بعض ایمان لائے اور بعض نے کفر اختيار کيا، جس طرح ان لوگوں نے قرآن ميں بهی اختلاف ایجاد کيا۔ ٢۵ ۔ روضہ کافی ميں امام محمد باقر -سے روایت ہوئی ہے کہ حضرت نے فرمایا: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اِختَْلَفُوا کَمَا اختَْلَفَ هٰذِہِ الاُْمَّةُ فی الکِْ اٰتبِ وَسَيَختَْلِفُونَ فی الکِْ اٰتبِ الَّذی مَع ال اْٰ قئِمِ عليہ هِم بِہِ حَتّ یٰ یُنکِْرُہُ اٰنسٌ مِنهُْم فَيُقَدِّمُهُم فَيَضرِْبُ اَع اْٰنقَهُم:ْ “ لسلام الَّذی یَاٴتی ) ”یہودیوں نے)اختلاف کيا جس طرح اس امت نے کتاب “قرآن” ميں اختلاف کيا اور عنقریب اس قرآن ميں بهی اختلاف کریں گے جب حضرت قائم آل محمد - اسے لے کر آئيں گے، یہاں تک کہ اس کا بعض لوگ انکار کریں گے پهر حضرت (اتمام حجّت کے بعد) ان کی گردنوں کو کاٹ دیں گے”۔ آیہٴ کریمہ کے اس فقرہ ميں موسی - کے بعد توریت ميں یہودیوں کے اختلاف کی طرف اشارہ کيا گيا ہے۔ قرآن کریم ميں الله تبارک وتعالیٰ نے لوگوں کے دنيوی امور ميں اختلاف کو متعدد مرتبہ ذکر کيا ہے جو ایک فطری امر ہے ليکن ان کا اختلاف جو ظلم اور تجاوز کے علاوہ ہے وہ بهی علم و یقين کی وجہ سے تها اس کا کوئی منشا نہيں پایا جاتا، الله تعالیٰ فرماتا ہے: ( ١) (سارے انسان فطرتاً ایک امت تهے پهر سب آپس ميں الگ الگ ہوگئے)۔ فرماتا ہے: ٢) (اور اہل کتاب نے علم آنے کے بعد ہی جهگڑا شروع کيا ہے صرف آپس کی شرارتوں کی بنا ) پر) فرماتا ہے: ( ٣ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)فطری اعتبار سے) (سارے انسان ایک قوم تهے پهر الله نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبياء بهيجے اور ان کے ساته برحق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فيصلہ کریں اور اصل اختلاف انہيں لوگوں نے کيا ہے جنہيں کتاب مل گئی ہے اور ان پر آیات واضح ہوگئيں صرف بغاوت اور تعدی و تجاوز کی بنا پر)۔ مذکورہ آیات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ : جنہوں نے اختلاف ایجاد کيا باوجودیکہ انبيائے الٰہی نے ان کے ليے دین کو واضح و روشن طور پر بيان فرما دیا ہے، جان بوجه کر تعدی اور ظلم و ستم کی وجہ سے اختلاف کيا ہے۔ الله تبارک و تعالیٰ نے ایسا مقدر فرمایا ہے کہ ہر وہ عمل جو لوگ انجام دیتے ہيں اس کا انہيں اجر و ثواب عطا کرے اور یہی تقاضا کرتا ہے کہ الله تعالیٰ جس ميں وہ اختلاف کرتے ہيں اسی اختلاف ميں حکم اور فيصلہ کرے ليکن حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بهی روئے زمين پر لطف اندوز ہوں تاکہ قيامت اور ان کی دنيا آباد ہو اور اپنے ليے زاد آخرت مہيا کریں، جيسا کہ فرمایا: < وَلَکُم فِی الاْٴَرضِْ مُستَْقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَی حِينٍ> ( ١) “زمين ميں تمہارے ليے ایک مدت تک ڻهکانا اور سامان زندگانی ہے”۔ ان دونوں قضاو قدر کا تقاضا یہ ہے کہ جن لوگوں نے دین الٰہی اور کتاب خدا (قرآن) ميں تعدی اور ظلم و ستم کی وجہ سے اختلاف ایجاد کيا ہے ان کا عذاب قيامت کے دن تک ملتوی ) کردیا جائے۔ ( ٢ ۴ > (فَلاَوَرَبِّکَ لاَیُؤمِْنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ فِيمَا شَجَرَ بَينَْہُم ثُمَّ لایَجِدُوا فِی اٴَنفُسِہِم حَرَجًا مِمَّا ) قَضَيتَْ وَیُسَلِّمُوا تَسلِْيمًا> ( ٣ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”پس آپ کے پروردگار کی قسم! کہ یہ ہرگز صاحبِ ایمان نہ بن سکيں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات ميں حَکَم نہ بنائيں اور پهر جب آپ فيصلہ کردیں تو اپنے دل ميں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فيصلہ کے سامنے سراپا تسليم ہوجائيں ”۔ ٢۶ (کافی ميں حضرت امام محمد باقر - سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا: یقينا خداوند متعال نے امير المومنين - کو اپنی کتاب کی اس آیت ميں مورد خطاب قرار دیا اٰ م تَ اٰ عقدُوا عَلَيہِْ لَئِن اٴَ اٰ متَ اللہُّٰ مُحَمَّداً (ص) لاٰ اٰقلَ : فی اٰ م قَضَيتُْ عَلَيهِْم مِنَ القَْتلِْ اَوِ یَرُدُّوا هٰذَا الاَْمرَْ فی بنی ہاشمٍ ثُمَّ لاٰ یَجِدُوا فی اَنفُْسِهِم حَرَجاً فی ) ماً ”( ١ العَْفوِْ وَیُسِلِّمُو ا تَسلْی ”فرمایا: جو کچه اس کے بارے ميں عہد و پيمان کيا تها یہ تها اگر الله تعالیٰ اپنے پيغمبر کو مار دے تو اس امر (رسالت و امامت کو بنی ہاشم ميں نہ آنے دیں گے پهر اس سے اپنے نفسوں ميں کوئی تنگی نہ پائيں گے اس امر ميں کہ جو تو نے ان کے بارے ميں فيصلہ کردیا ہے قتل یا عفو کرنے کا اور یہ کہ تيرے حکم کو مکمل طور پر تسليم کریں”۔ و قولہ تعالیٰ : ․ ( ٢ ”اے ایمان والو! الله کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تمہيں ميں سے ہيں پهر اگر آپس ميں کسی بات ميں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلڻادو اگر تم الله اور روز آخرت (قيامت) پر ایمان رکهنے والے ہو یہی تمہارے حق ميں خير اور انجام کے اعتبار سے بہترین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔اصول کافی، ج ١، ص ٣٩١ ، تفسير برہان، ج ٢، ص ١۵٨ ۔ ( ٢(۔ سورئہ نساء، آیت ۵٩ ۔ (
بات ہے”۔ یہ آیہٴ کریمہ اور چند بعد والی دوسری آیات ایک اہم ترین اسلامی مسائل ميں سے یعنی مسئلہ قيامت اور واقعی اماموں کی راہ کو مختلف دینی اور سماجی مسائل کے بارے ميں معين کرتی ہے۔ سب سے پہلے جو لوگ ایمان لائے انہيں حکم دیتا ہے کہ الله تبارک و تعالیٰ کی اطاعت کریں یہ ظاہر ہے کہ ایک باایمان فرد کے ليے تمام اطاعتيں اطاعت پروردگار تک اختتام پذیر ہوں اور ہر قسم کی رہبری اور قيادت اس کی ذات پاک سے نشاٴة پاتی ہو اور اسی کے تابع فرماں ہو چونکہ جہان ہستی کا حاکم اور تکوینی (تخليقی) مالک خداوند سبحان ہے اور ہر طرح کی حاکميت اور مالکيت بهی اسی کے حکم سے ہونی چاہيے: ․ )١) بعد والے مرحلے ميں پيغمبر اکرم (ص) کی پيروی کا حکم دیتا ہے وہ پيغمبر (ص) جو معصوم ہے اور کبهی بهی ہوا و ہوس کی بنا پر کلام نہيں کرتا۔ ایسا پيغمبر جو لوگوں کے درميان خدا کا نمائندہ ہے اور اس کا قول خدا کا قول ہے : ․ ٢) اس موقعيت اور منصب کو الله تعالیٰ نے انہيں عطا کيا ہے اس بنا پر خداوند متعال کی ) اطاعت اس کی خالقيت اور حاکميت کی ذات کے تقاضے کے مطابق ہے، ليکن پيغمبر اکرم (ص) کی اطاعت الله تعالیٰ کے حکم سے ہے۔ دوسری تعبير ميں یوں کہا جائے کہ الله تعالیٰ واجب الاطاعت بالذات ہے پيغمبر واجب الاطاعت بالغير ہيں اور شاید اس آیت ميں “اطيعوا” کی تکرار اسی موضوع کی طرف اشارہ ہو کہ فرمایا:و اطيعوا الرسول․< تيسرے مرحلے ميں اولو الامر کی اطاعت کا حکم دیتا ہے جو اسلامی معاشرہ کے ) درميان سے نکلا اور لوگوں کے دین و دنياکا محافظ ہے۔ ( ٣ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سلسلے ميں کہ اولو الامر کون لوگ ہيں؟ مفسرین کے درميان بہت سے مختلف نظریات پائے جاتے ہيں، ان سب کی وضاحت کو اگر مدّنظر رکها جائے تو اس کتاب کے دائرہ سے خارج ہے، ہم اولو الامر کو معادن وحی و قرآن سے ذکر ہونے والی آیات و روایات جو سب کے ليے تسکين بخش اور مومنين کے قلوب کو نورانی بنانے والی ہے۔ ٢٧ ۔ تفسير عياشی ميں جابر جعفی سے روایت نقل ہوئی ہے کہ انہوں نے امام محمد باقر - سے آیہٴ کے متعلق دریافت کيا، تو فرمایا : ) ”اس سے مراد اوصياء ہيں”۔ ( ١ ٢٨ ۔ ابن شہر آشوب نے حسن ابن صالح سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق - سے اس مذکورہ آیت کے بارے ميں ، ميں نے دریافت کيا تو فرمایا: “الائِمَّةُ مِنْ اهِل بَيت رسولِ اللّٰہِ (ص) ” ( ٢) “اہل بيت رسول خدا (ص) کے ائمہ مراد ہيں۔“ شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے اس جيسی حدیث ابو بصير سے امام محمد باقر - سے نقل کی ہے اور وہاں یہ فقرہ ذکر ہوا ہے کہ حضرت نے فرمایا: “الاٴئِمَّةُ مِن وُلدِ عَلِیٍّ وَ اٰفطِمَةَ اِل یٰ اَن تَقُومَ السّاعَةُ: “ ) ”اس سے روز قيامت تک اولاد علی و فاطمہ عليہما السلام سے ائمہ مراد ہيں”۔ ( ٣ ٢٩ ۔ مشہور و معروف اسلامی مفسر ابو حيان اندلسی مغربی (متوفی ٧۵۶ ئه ق) تفسير بحر المحيط ميں رقم طراز ہيں کہ یہ آیت علی - اور ائمہٴ اہل بيت کے حق ميں نازل ) ہوئی ہے۔ ( ۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ۴٠٧ (حدیث ١۶٩ ) تفسير برہان، ج ٣، ص ١۴۵ (حدیث ١١٧ ) بحار ( ج ٢٣ ، ص ٣٠٠ (حدیث ۵٢ ) ۔ ٢(۔ مناقب ابن شہر آشوب ج ٣، ص ٢٠ ۔ ( ) ٣(۔ کمال الدین، ج ١، ص ٢٢ (حدیث ٨) تفسير البرہان، ج ٣، ص ١۴١ (حدیث ١٠ ( ۴(۔تفسير بحر المحيط۔ (
٣٠ ۔ تفسير برہان ميں شيخ صدوق نے اپنے اسناد کے ساته جابر ابن عبدالله انصاری سے روایت کی ہے کہ جب خداوند متعال نے اپنے پيغمبر حضرت محمد (ص) پر آیہٴ نازل فرمائی تو ميں نے عرض کيا: اے الله کے رسول! خدا اور اس کے رسول کی معرفت حاصل کرلی، پس اولو الامر کون سے افراد ہيں کہ الله تعالیٰ نے ان کی اطاعت کو آپ کی اطاعت کے ساته قرار دیا ہے؟ تو آنحضرت نے فرمایا : ”هُمْ خُلفائی یا جابِر وائمَّةُ المسْلمينَ مِن بَعدی : اَوَّلُهُم عَلیُّ بن ابی طالِبٍ ، ثُمَّ الحَسَنُ، ثُمَّ الْحُسَيْنُ ، ثُمَّ عَلیِّ بنُ الْحُسَيْنُ ، ثُمَّ محمَّدُ بنُ علیٍ المعروُفُ فی التّوراة بِالباقِر، ستدرکُہُ یا تَہُ فاقراٴہ مِنّی السَّلامَ ، ثُمَّ الصادقُ جعفرُ بن محمّدٍ ، ثُمَّ موُسیٰ بن جَعفرٍ ، ثُمَّ جابِرُ ، فَاِذا لقی عَلی بنُ موُسیٰ، ثُمَّ محمَّدٌ بنُ عَلیٍ ، ثُمَّ عَلیٌّ بنُ محمَّدٍ ، ثُمَّ الْحَسَنُ بنُ عَلیٍّ ، ثُمَّ سَميّی حجة اللّٰہ فی ارضِہِ وَبقيَّتُہُ فی عِبادِہِ ، ابنُ الحَسَن بن عَلیٍ ، ذاکَ الذی یَفتَحُ (محمّدٌ) وَکَنِيّی اللہَّٰ تعال یٰ ذکرُہُ عَل یٰ یَدَیہِ مشارِقَ الارضِ وَمغارِبها ، ذاکَ الَّذی یَغيبُ عَن شيعتِہِ وَاَوليآئہِ غيبَةً لا یثبتُ فيہِ عَلَی القولِ بامامَتِہِ الا مَن اِمتحَنَ اللہّٰ قَلبہُ للایمان․ِ“ وَالَّذی بَعَثنی قال جابر: فَقُلتُ لَہُ یا رَسُولَ اللہِّٰ فَهَل یَقَعُ لِشيعتِہِ الِانتِفاع بِہِ فی غيبتِہِ ؟فَقالَ “ای بِالنّبوةِ انّهم یستَضيئوُنَ بِنورِہِ وَینتفعوُنَ بِوِلایتِہِ فی غيبتہِ کانتفاعِ النّاسِ بالشَّمسِ وَان تجَلاهّٰا ) سَحابٌ ، یا جابُر هذا مِن مَکنوُنِ سرِّ اللّٰہِ ، وَمخزونِ عِلمِ اللّٰہِ فاکتمہُ الاَّعَن اہلِہِ ” : ( ١ ”اے جابر ! وہ ميرے خلفاء و اوصياء اور مسلمانوں کے امام ہوں گے، ان ميں سے اول علی ابن ابی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ١، ص ٢۵٣ (حدیث، ٣) تفسير برہان، ج ٣، ص ١٣۴ ۔ (
طالب ، پهر حسن، پهر حسين، پهر علی ابن الحسين، پهر محمد ابن علی کہ جن کا نام توریت ميں باقر مشہور ہے، اے جابر! تم عنقریب ان کو پاؤ گے جب تم ان سے ملاقات کرنا تو ان کو ميرا سلام کہنا، پهر جعفر ابن محمد الصادق، پهر موسی ابن جعفر، پهر علی ابن موسی، پهر محمد ابن علی، پهر علی ابن محمد، پهر حسن ابن علی ہوں گے، ان کے بعد ميرے ہم نام (محمد) اور ميری ہم کنيت حجّت خدا ، بقية الله روئے زمين ميں الله کے بندوں کے درميان حسن ابن علی عليہم السلام کے فرزند ہوں گے۔ وہ ایسی فرد ہيں کہ الله تبارک و تعالیٰ ان کے دست مبارک سے زمين کے تمام مشرق و مغرب کو کاميابی و کامرانی عطا فرمائے گا۔ وہ وہی بزرگوار ہيں جو اپنے شيعوں اور چاہنے والوں کی نظروں سے ایک عرصہ تک غائب ہوجائيں گے آپ کی امت ميں سے وہ لوگ اپنے عقيدہٴ امامت پر ثابت قدم رہيں گے کہ جس کے قلب کا امتحان الله تعالیٰ نے ایمان کے ذریعے لے ليا ہوگا۔ جابر نے عرض کيا: اے رسول خدا! کيا حضرت کے شيعوں کو ان کی غيبت کے زمانہ ميں کوئی فائدہ حاصل ہوگا؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: ہاں “قسم ہے اس ذات کی جس نے مجهے نبوت (و رسالت) کے ساته مبعوث کيا! وہ لوگ آپ کی غيبت ميں آپ کی ولایت کے نور کی ضو سے اسی طرح فائدہ اڻهائيں گے جس طرح سورج بادل کو چهپاليتا ہے تو لوگ سورج کی روشنی سے فائدہ اڻهاتے ہيں۔ اے جابر! یہ بات الله تعالیٰ کے راز ميں پوشيدہ ہے، علم الٰہی کے خزانہ ميں مخفی ہے، لہٰذا (اس راز کو) اس کے اہل کے سوا دوسروں سے پوشيدہ رکهو”۔ ٣١ ۔ اہل سنت کے مشہور و معروف علماء ميں سے شيخ سليمان حنفی قندوزی نے اپنی کتاب ینابيع المودة ميں کتاب مناقب سے سليم ابن قيس هلالی سے روایت نقل کی ہے کہ ایک دن ایک شخص امير المومنين حضرت علی - کی خدمت بابرکت ميں حاضر ہوا اور دریافت کيا: وہ کون سی مختصر شے ہے کہ جس کی وجہ سے بندہ مومنين ميں شامل ہوجاتا ہے؟ اور وہ کون سی مختصر شے ہے کہ جس کی وجہ سے بندہ کافروں یا گمراہوں ميں شامل ہوجاتا ہے؟ تو امام علی - نے فرمایا: جب تم نے سوال کر ہی ليا ہے تو جواب کو سنواور سمجهو : ”امّا اٴد نٰ ی مایکَوُنُ بِہِ العَْبدُْ موٴمِناً اٴن یُعَرِّفَہُ اللہّٰ تبارکَ وَ تَعال یٰ نَفسہ فَيُقِرَّلَہُ بِالطّاعَةِ وَ یُعَرِّفَہُ نَبِيَّہُ (ص) فَيُقِرَّلَہُ بِالطّاعَةِ ویُعَرِّفَہُ اِمامَہُ وَحجتہُ فی ارضِہِ وَشاهِدَہُ عَل یٰ خَلقِہِ فَيُقِرَّلَہُ بِالطّاعَةِ․ قُلتُ: یا امير الموٴمنين وَانِ جَهِلَ جَميع الاٴشياءِ اِلاّ ما وَصَفَت ؟ قالَ: نَعَم اِذا اَمَرَ اطاعَ وَاِذا نَهی انتَهی․ وَادنی مایکوُنُ العَبدُ بِہِ کافِراً مَن زَعَمَ انَّ شَيئاً نَهَی اللہّٰ عَنہُْ انَّ اللہّٰ امَرَہُ بِہِ وَنصبہُ دیناً یتَوَلّی عَلَيہِ ، وَیَزعُم انَّہُ یَعبد اللّٰہ الذی امرَہُ بہِ وَما یعبُدُ الاَّ الشيطانَ․ وَامّا ما یکَوُنُ العبد بہ ضالاً اَن لا یعرِف حجَة اللّٰہ تبارکَ و تعالٰی وَ شاہِدَہُ عَلیٰ عِبادہِ الَّذی اَمَرَ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ عِبادَہُ بِطاعَتِہ وَ فَرضَ ولایتَہ․ُ قُلت: یا اَميرَ الموٴمنينِ صِفهُم لی․ قالَ: الذینَ قَرنہُ اللّٰہ تعالیٰ بنفِسِہ وَنَبيّہ فقال: یَاا یّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِيعُوا اللهَ وَاٴَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاٴُولِْی الاْٴَمرِْ مِنکُْمْ فَقلت لَہُ: جَعَلَنی اللہّٰ فَداکَ اَوضِْح لی․ فَقالَ: الَّذینَ قالَ رَسوُلُ اللہِّٰ (ص) فی مَواضِعَ وَفی آخِر خُطَبةٍ یَومَ قبضَہُ اللہّٰ عزوَجَلَّ اِليہِ - اِن تَمَسَّکتُْم بهِ مٰا ، کِ اٰتبَ اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ وَ عِترَْتی ، اَهلُْ اِنّی تَرَکتُ فيکُم اَمرْینِ لَن تَضِلّوا بعدی بَيتْی ، فَانَّ اللَّطيفَ الخَبير ، قَدَ عَهدَ اِلَیَّ اَنَّهُما لَن تَفرْ اٰق حَتّی یردا عَلَیّ الحوضَ کهاتينِ ، وَجَمَعَ ) مسبحتَيہِ ، وَلا اقولُ کَهاتَين ، وَجَمَعَ مَسبحَتَہ والوُسطی فَتَمسکَوَا بِهِ مٰا وَلا تقدَّموُهم فتضِلّوا ” ( ١ ”وہ مختصر سی شے جس کی وجہ سے بندہ مومنين ميں شامل ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ الله تبارک و تعالیٰ اس کو اپنی معرفت عطا کرتا ہے پهر وہ اس کی اطاعت کا اقرار کرتا ہے اور اپنے نبی کی اس کو معرفت عطا کرتا ہے۔پهر وہ ان کی اطاعت کا اقرار کرتا ہے نيز اس کو اپنے امام کی معرفت عطا کرتا ہے جو روئے زمين پر اس کی حجّت اور مخلوق پر گواہ ہے پهر وہ اس اطاعت کا اقرار کرتا ہے۔ ميں نے عرض کيا: یا امير المومنين ! جو اوصاف آپ نے بيان فرمائے ہيں اگر ان سب سے ناواقف ہو تو؟ فرمایا: ہاں! اگر اس کو حکم دیا جائے تو وہ اطاعت کرے اور جب اسے منع کيا جائے تو وہ اس سے باز آجائے اور وہ کم ترین شے جس کی وجہ سے بندہ کافروں ميں شامل ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان نے کسی چيز کے بارے ميں محض یہ خيال کيا کہ اس سے الله تعالیٰ نے منع کيا ہے جس کا اس نے حکم دیا ہے لہٰذا اسے اس کے اپنے ليے ایک دین کی شکل دے دی اور اس کی اطاعت اور ولایت کو اپنے ليے لازم بناليا اور اس نے اپنے خيال ميں یہ گمان کيا کہ وہ الله کی عبادت کر رہا ہے حالانکہ وہ الله کی عبادت نہيں کرتا بلکہ شيطان کی عبادت کرتا ہے۔ ليکن وہ کم ترین شے جس کی وجہ سے بندہ گمراہوں ميں شامل ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ شخص حجّت خدا کی محبت اور اس کے بندوں کے گواہ کی معرفت نہيں رکهتا کہ جس کی اطاعت اور ولایت کو (اپنے بندوں پر) فرض قرار دیا ہے۔ اس شخص نے عرض کيا: یا امير المومنين ! ان حضرات کی توصيف سے ہميں آگاہ فرمائيے تو امام علی - نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہيں کہ جن کا الله تعالیٰ نے اپنی ذات اور اپنے نبی کی ذات کے ساته ذکر کيا اور فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ١، ص ٣۴٩ ۔ (
>یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِيعُوا اللهَ وَاٴَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاٴُولِْی الاْٴَمرِْ مِنکُْم < اس شخص نے عرض کيا : الله تعالیٰ مجهے آپ پر قربان کرے ذرا مجهے وضاحت سے بيان فرمائيے، تو حضرت علی - نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہيں کہ جن کا ذکر رسول خدا (ص) نے متعدد مقامات پر فرمایا ہے منجملہ ان ميں سے اپنی عمر کے آخری خطبہ ميں بهی جن کا ذکر کيا اور فرمایا ہے: “انی ترکت فيکم امرین لن تضلّوا بعدی ان تمسکتم بهما، کتاب اللّٰہ وعترتی اہل بيتی” ميں تم ميں دو چيزیں بطور یادگار چهوڑے جارہا ہوں اگر ان کے دامن سے متمسک رہوگے تو ميرے بعد ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوگے ایک کتاب خدا ہے اور دوسرے ميرے عترت جو ميرے اہل بيت ہيں۔ خدائے لطيف و خبير نے مجه سے وعدہ کيا ہے کہ یہ دونوں ہرگز ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔ الله ہميں اور تمام مومنين کو اس رزق سے نوازے انشاء الله۔ ٣٢ ۔ کافی ميں بطور مسند ابو مسروق نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ ميں نے حضرت سے عرض کيا کہ ہم علمائے علم کلام سے گفتگو کرتے ہيں اور آیت ( ١) کے ذریعہ ان سے احتجاج کرتے ہيں تو وہ کہتے ہيں: یہ مومنين کے بارے ميں نازل ہوئی اور آیہٴ مودت < قُل لاَاٴَساْٴَلُکُم عَلَيہِْ اٴَجرًْا إِلاَّ المَْوَدَّةَ فِی القُْربَْی > ( ٢) سے احتجاج کرتے ہيں تو وہ کہتے ہيں : یہ عام مومنين کے اقرباء سے محبت کرنے کے ليے نازل ہوئی ہے۔ راوی کابيان ہے: جو کچه مجهے یاد تها اسی طرح احتجاج کے طور پر ذکر کرتا رہا اور کوئی چيز فروگزار نہيں کی اور سب کو ميں نے ذکر کيا پهر بهی کوئی خاطر خواہ نتيجہ برآمد نہيں ہوا تو حضرت نے فرمایا: ”اِذا کانَ ذلِکَ فادعُهُم اِلَی المُْ اٰبهَلَةِ ، قُلتُ: وَکَيفَ اٴصنَعُ ؟ فَقالَ: اٴصْلحْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نَفسَْکَ ثَ لاٰثاً واٴظنّہ قال: صُمْ وا غتسلِ وابرز اٴنت وهو الی الجبّان ، فشبّک اٴصابعک من یدک الْيُمْنیٰ فی اٴصابعہ ، فابدء بنفسک فقل: اللّهُم رَبَّ السَّمواتِ السَّبع وَ ربَّ الاٴرَضينَ السَّبعِ، عالِمَ الغَيبِ وَالشَّهادةِ الرَّح مٰنَ الرَّحيمُ اِن کانَ اَبوُ مَسروُق جَحدَ حَقّاً وَادَّع یٰ باطِلاً فاٴنِزل عَلَيہِ حُسباناً مِنَ السَّماءِ اوْ عذاباً اليماً ، ثُمّ ردَّ الدَّعوة عليْہِ فَقُل وَاِنْ کان فُلاٰنٌ جَحَدَ حَقّاً وَادَّعیٰ باطِلاً فاٴنزل عَلَيہِ حُسباناً مِنَ السَّمآء او عذاباً اليماً․“ ) فَاِنَّکَ لا تَلبثُ اٴن تَریٰ ذلِکَ فيہِ ، فَوَا للّٰہِ ما وجدت خلقاً یجيبُنی عليہِ ” ( ١ “ : ثُمَّ قالَ لی ”جب ایسی صورت درپيش ہوتو ان کو مباہلہ کی دعوت دینا ميں نے دریافت کيا: کيسے مباہلہ کروں، فرمایا: پہلے تين دن اپنے پاکيزگی نفس اور اصلاح کو عبادت کے ذریعہ انجام دو اور روزہ رکهو، غسل انجام دو اور اس کے بعد تم اور تمہارا مخالف دونوں ایک پہاڑ پر جاؤ اس کے بعد اپنے داہنے ہاته کی انگلياں اس کی انگليوں ميں ڈال دو پهر انصاف سے کام لو یعنی پہلے اپنی طرف سے آغاز کرو اور کہو: اے خدا! اے سات آسمان اور سات زمين کے پروردگار! اے ظاہر و غائب کے جاننے والے! اے رحمن و رحيم! اگر ابو مسروق نے حق سے انکار کيا ہے اور باطل کا مدعی ہے تو اس کے ليے آسمان سے بلائے عظيم اور دردناک عذاب نازل فرما پهر یہی الفاظ اپنے مخالف سے کہلواؤ ، اگر (فلاں شخص نے) حق سے انکار کيا اور باطل کا مدعی ہے تو اس کے ليے آسمان سے بلائے عظيم اور دردناک عذاب نازل فرما”۔ ٣٣ ۔ عياشی نے ابو بصير سے امام محمد باقر - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: آیہٴ حضرت علی ابن ابی طالب - کے حق ميں نازل ہوئی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۵١٣ ، وسائل الشيعہ، ج ٧، ص ١٣ ۔ (
ميں نے عرض کيا: وہ لوگ کہتے ہيں: کون سی رکاوٹ تهی کہ الله تعالیٰ حضرت علی - اور اہل بيت عليہم السلام کا نام اپنی کتاب ميں ذکر کرتا؟ تو امام محمد باقر - نے فرمایا : ”قوُلوُا لَهُم اِنَّ اللہّٰ انزَلَ عَل یٰ رَسوُلِہِ الصَّلاة وَلَم یُسَمّ بہ ثلاثاً وَلا اربعَاً حَتّ یٰ کانَ رَسوُل فَسَّرَ ذَلِکَ لَهُم ․ وَانزَلَ الحجّ وَلَم یُنزِل طوُفوا اُسبُوعاً حَتّ یٰ فَسَّرَ ذَلِکَ لَهُم اللّٰہ (ص) هُوَ الَّذی رَسوُلُ اللّٰہ (ص) وَاٴنزَلَْ فنَزلَت فی عَلیٍ والحَسَنَ والحُسينِ عليہم السلام․ وَقالَ فی عَلِیٍ مَن کُنتُ مَولاہُ فَعَلیٌ مَولاہُ ، وَقالَ رَسوُل اللّٰہ (ص) اوُصيکُم بِکِتاب اللّٰہ واهلِ بيتی ، انّی سَاٴَلتُ اللّٰہ ان لا یفرِّقَ بينَهما حَتی یوردَهُما عَلَیَّ الحوضَ ، فَاَعُطانی ذلِکَ ، وَقالَ فَلا تُعَلِّمُوهُم فَاِنَّهُم اٴعلَمُ مِنکُم ، اِنَّهُم لَن یُخرجوُکُم مِن بابِ هُدیً وَلَن یُدخِلوُکُم فی باب ضَلالٍ، وَلَو سَکَتَ رَسول اللّٰہِ وَلَم یُبَيِّن اهلَها لا دعٰاهٰا آل عبّاسٍ وَآل عقيلٍ وآل فُلانٍ وَلکِنْ انزَلَ ) اللّٰہ فی کتابِہِ < إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِيُذہِْبَ عَنکُْمُ الرِّجسَْ اٴَہلَْ البَْيتِْ وَیُطَہِّرَکُم تَطہِْيرًا >،( ١ فکانَ عَلیٌ والحَسنُ والحسيَنُ وَ فاطِمَةُ عليہم السلام تَاٴویلُ ہذہِ الآیة ، فاٴخذَ رَسوُل اللّٰہ (ص) بِيَدِ عَلیٍّ وَفاطِمَةَ والحَسَنِ والحسيَنِ صَلَوات اللہّٰ علَيہم ، فاٴدخَلَهُم تحتَ الکِساءِ فی بَيتِ اُمِّ سَلَمةَ وقالَ: اللّهُم اِنَّ لِکُلِّ نبیٍّ ثقلاً واهلاً ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ احزاب، آیت ٣٣ ۔ (
فَهولٓاء ثقلی وَاَهلْی․ ” وَاَهلْی وَقالَت: اُمُّ سَلَمةَ : الستُ مِن اهلِکَ ؟ قالَ اِنَّکِ اِلٰی خيرٍ، وَلٰکِن هٰوٴُلاٰءِ ثِقلی )١) ”تم ان سے کہو: الله تعالیٰ نے نماز کو حضرت رسول خدا (ص) پر نازل کيا ليکن یہ نہيں بتایا کہ تين رکعت یا چار رکعت یہاں تک کہ اُس کی تفسير و توضيح رسول خدا (ص) نے بيا ن کی، الله تعالیٰ نے آیہٴ حج نازل کی ليکن یہ نہيں بتایا کہ سات طواف کرو یہاں تک کہ رسول خدا (ص) نے اس کی تفسير و تشریح کی اور الله تعالیٰ نے آیہٴ علی، حسن اور حسين عليہم السلام کے حق ميں نازل فرمائی۔ اور حضرت علی - کے بارے ميں فرمایا: اے لوگو! جس جس کا ميں مولا اور سرپرست ہوں یہ علی بهی اس کے مولا اور سرپرست ہيں۔ اور رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے لوگو! ميں تم ميں الله کی کتاب اور اپنے اہل بيت کے بارے ميں وصيت کرتا ہوں ميں نے خدا سے دعا کی تهی کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے کبهی بهی جدا نہ ہوں یہاں تک کہ حوض کوثر پر ميرے پاس وارد ہوں الله تعالیٰ نے ميری یہ حاجت قبول کی۔ مزید فرمایا: تم ان کو تعليم نہ دو کيونکہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہيں اور وہ تم کو باب ہدایت سے نہيں نکلنے دیں گے اور کبهی بهی تمہارے ليے گمراہی کا راستہ ہموار نہيں کریں گے۔ اگر رسول خدا (ص)خاموش ہوجاتے اور اپنے اہل بيت کو نہ بتاتے تو یقينا آل عباس، آل عقيل اور فلاں خاندان والے اہل بيت ہونے کا دعویٰ کر بيڻهتے، ليکن الله تعالیٰ نے خود اپنی کتاب ميں ان کے بارے ميں آیہٴ تطہير إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِيُذہِْبَ عَنکُْم الرِّجسَْ اٴَہلَْ البَْيتِْ وَیُطَہِّرَکُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ۴٠٨ (حدیث ١٧٠ ) اصول کافی، ج ١ ، ص ٢٨۶ (حدیث ١) تفسير ( فرات، ج ١، ص ١١٠ (حدیث ١١٢ )۔
تَطہِْيرًا> نازل فرمائی کہ: الله کا ارادہ یہ ہے اے اہل بيت! ہر قسم کے رجس کو تم سے دور رکهے اور اس طرح پاک و پاکيزہ رکهے جو پاک و پاکيزہ رکهنے کا حق ہے۔ لہٰذا علی ، حسن ، حسين، اور فاطمہ عليہم السلام اس آیت کے مصداق ہيں۔ پهر رسول خدا (ص) نے علی، فاطمہ، حسن اور حسين عليہم السلام کا دست مبارک پکڑا اور خانہٴ ام سلمہ ميں چادر کے اندر داخل کرکے فرمایا: بار الٰہا! (اے ميرے پروردگار!) ہر نبی کے کچه اہل اور گراں قدر ذاتيں اور اہل بيت ہوا کرتے ہيں ميرے اہل بيت اور گراں قدر عزیز یہ ہيں۔ ام سلمہ نے عرض کيا: کيا ميں آپ کے اہل بيت ميں شامل نہيں ہوں؟ تو حضرت نے فرمایا: تم ہميشہ خير پر ہو ليکن ميرے گراں قدر عزیز اور اہل بيت یہ ہيں۔ ٣۴ ۔ تفسير صافی ميں امام جعفر صادق - سے روایت نقل ہوئی ہے کہ حضرت - سے دریافت کيا گيا کہ اسلام کی بنياد یں کن چيزوں پر قائم ہےں کہ اگر انسان انہيں حاصل کرلے تو اس کا عمل پاک و پاکيزہ ہوجائے گا اور اس کے علاوہ جہل نقصان نہيں پہنچا سکتا ؟ حضرت نے فرمایا: ”شَہادَةُ ان لا اِلہ اِلاَّ اللّٰہُ وانَّ محمَّد اً رَسوُل اللّٰہ وَالاٴقِرار بما جآءَ بِہِ مِن عِندِ اللّٰہِ وَحَقٌ فی الاٴموالِ الزکاة ، والوِلایةُ الَّتی امَرَ اللّٰہ بِها وِلایة آل محمَّدٍ فَانَّ رَسوُلَ اللّٰہ (ص) قال : مَن ماتَ وَلَم یَعرِف امامَہُ ماتَ ميتةً جاهِليةً قال اللّٰہ تعالیٰ فکانَ عَلیٌ عليہ السلام ثُم صارَ مِن بَعدِہِ الحَسَنُ، ثُم مِن بَعدِہِ الحُسينُ ، ثُمّ مِن بَعدِہِ عَلیُّ بنُ الحُسينُ ، ثُم مِن بَعدِہِ مُحمدٌ بنُ علیٍ ،ثُمَّ هکَذا یَکُون الامرْ ، اِنَّ الارضَ لا تُصلحُ اِلاَّ بِامِامٍ )١) ” اس بات کی گواہی دینا کہ الله تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہيں اور محمد الله کے رسول ہيں اور ان تمام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير صافی، ج ١، ص ۴٢٨ ۔ (
باتوں کا اقرار کرنا جو آنحضرت (ص) خدا کی طرف سے لائے اور اپنے مال ميں زکوٰة کا ہونا حق ہے اور وہ ولایت کہ جس کا الله تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہ آل محمد ہے اور رسول خدا (ص) نے فرمایا: جو شخص مرگيا اور اس نے اپنے امام کو نہ پہچانا تو وہ جاہليت کی موت مرا۔ اور الله تعالیٰ نے فرمایا: الله کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان امر کی جو تم ميں سے ہوں لہٰذا وہ علی (عليہ السلام) ہيں پهر ان کے بعد حسن پهر حسين پهر علی ابن الحسين پهر محمد ابن علی، پهر اسی طرح یہ امر جاری رہے گا، روئے زمين کی اصلاح نہيں ہوسکتی مگر امام کے ذریعہ۔ ٣۵ ۔ سليم ابن قيس ہلالی نقل کرتے ہيں: حضرت امير المومنين - سے دریافت کيا گيا: کم ترین شے جو انسان کو گمراہ کرتی ہے وہ کيا ہے؟ فرمایا : ”اَن لا یَعرِفَ مَن امَرَ اللہّٰ بِطاعَتِہِ وَفرَضَ ولایَتَہُ وَجَعَلَ حُجَّتَہُ فی ارضِہِ وَشاہِدَہُ عَل یٰ خَلقہِ ، قالَ ومَنْ هُم یا امير الموٴمنينَ ؟ قالَ: الَّذین قَرَنَهُم اللہّٰ بِنَفسِہِ وَنَبيّہِ فَقالَ :یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِيعُوا اللهَ وَاٴَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاٴُولِْی الاْٴَمرِْ مِنکُْم․ْ< قالَ: فَقَبَّلتُ رَاٴسَہُ وَقُلت: اوضَحتَ لی وَفَرَّجتَ عَنّی واذهَبت کُل شَیٍ کانَ فی قَلبی ” ․ )١) یہ ہے کہ وہ انسان حجّت خدا کی محبت اور اس کے بندوں کے گواہ کی معرفت نہيں رکهتا کہ جس کی اطاعت اور ولایت کو اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے۔ ميں نے عرض کيا: اے امير المومنين ! وہ کون افراد ہيں؟ فرمایا: یہ وہ لوگ ہيں کہ جن کا الله تعالیٰ نے اپنی ذات اور اپنے نبی کی ذات کے ساته کيا ذکر کيا اور فرمایا: ‘(اے ایمان والو! الله کی اطاعت کرو ، رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم ميں سے ہيں”۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سليم ابن قيس، ص ۵٩ ، تفسير صافی، ج ١، ص ۴٢٩ ۔ (
راوی کا بيان ہے : ميں نے حضرت کے سر مبارک کا بوسہ دیا اور عرض کيا: ميرے ليے آپ نے مسئلہ واضح کردیا اور ميرے دل کے تمام ہم و غم کو ختم کردیا۔ حضرت امام مہدی کے بارے ميں اہل سنت سے مروی احادیث ٣۶ ۔ خواجہ کلان ، شيخ سليمان بلخی حنفی اپنی گراں قدر کتاب “ینابيع المودة” ميں علامہ سمہودی شافعی اپنی کتاب “جواہر العقدین” ميں ، ابن ہيتمی اپنی کتاب (صواعق محرقہ) ميں اور طبرانی اپنی کتاب “اوسط” ميں ابو ایوب انصاری سے نقل کرتے ہيں کہ حضرت فاطمہ زہرا رسول اکرم (ص) کی خدمت ميں آپ کے مرض الموت کے موقع پر حاضر ہوئيں اور رو پڑیں، تو رسول اکرم (ص) نے فرمایا: “اِنَّ لِکَرامةِ اللہِّٰ ایّاکِ زَوَّجَکِ مَن هُو اقدمُهُم سِلماً وَاکثَْرُهُمُ ) عِلمْاً ” : ( ١ ”آپ کے بارے ميں پروردگار کی منجملہ کرامتوں ميں سے یہ ہے کہ آپ کی شادی ایسے شخص سے کی جو اسلام لانے ميں سب سے پہلے اور علم و دانش کے لحاظ سے سب سے زیادہ جاننے والا ہے”۔ پهر فرمایا: خداوند متعال نے اہل زمين پر نظر ڈالی تو مجهے منتخب کيا، پهر دوبارہ نظر ڈالی تو تمہارے شوہر کو منتخب کيا پهر مجهے وحی کی کہ تمہاری شادی اس سے کردوں اور اسے اپنا وصی قرار دوں۔ ”یافاطِمة مِناّ خَير الانبيآء وَهُوَ ابوکِ وَمِنّا خَير الاَوصيآء وَهُوَ بَعلکِ وَمِنّا خَير الشُّہَداء وَهُوَ حمزة عمُّ ابيکِ وَمِنّا مَن لَہُ جَناحانِ یطير بِهِما فی الجَنَّةِ حَيث شَاء وَهُوَ جَعفر ابنِ عَمِّ ابيکِ وَمِنّا سِبطا هذِہِ الاُمّة وَسَيّدا شبابِ اہلِ الجَنَّةِ ، الحَسَنُ والحُسينُ ، وَهما ابناکِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٢۶٩ ، مناقب ابن مغازلی، ص ١٠١ (حدیث ١۴۴ )، فرائد السمطين، ( ج ١، ص ٩٢ (حدیث ۶١ )۔
) وَالَّذی نَفسی بيدِہِ ، مِنَّا مَهدیُّ ہذهِ الامَّة وَهُو مِن وُلدِکِ” : ( ١ اے بيڻی فاطمہ! بہترین انبياء ہم ميں سے ہے اور اور وہ تمہارے باپ ہيں اور ہم ميں سے بہترین اوصياء ہيں اور وہ تمہارے شوہر ہيں اور ہم ميں سے بہترین شہداء ہيں اور وہ تمہارے باپ کے چچا حمزہ ہيں اور ہم ميں سے وہ شخص موجود ہے کہ جس کو دو پر عطا ہوئے ہيں جن کے ذریعے جہاں چاہتے ہيں پرواز کرتے ہيں اور وہ جعفر ہيں تمہارے باپ کے پسر عم اور ہم ميں سے اس امت کے دو سبط ہيں اور اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہيں، وہ حسن و حسين ہيں جو تمہارے فرزند ارجمند ہيں۔ اس خدا کی قسم! جس کے قبضہٴ قدرت ميں ميری جان ہے ہم ميں سے اس امت کا مہدی ہے جو تمہاری اولا دميں سے ہے”۔ ٣٧ ۔ اسی کتاب ميں سعيد ابن جبير سے ابن عباس سے نقل کرتے ہيں کہ حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمایا: وَمِن وُلدِہِ القائِمُ المُنتظَرُ الَّذی یملاءُ الاٴرضَ قِسطاً وَ عَدلاً ، ”اِنَّ عَليّاً اِمامُ اُمَّتی من بِعدی کَ مٰا مُلئَت جوراً وَ ظُلماً وَالَّذی بعثنی بِالحّقِ بَشيراً وَ نَذیراً اِن الثاٰبّتينَ عَلَی القولِْ بِامِامَتِہِ فی زَمانِ غَيبَْتِةِ لاٴعَزّ مِنَ الکبریتِ الاَحّمر فقال اليہ جابر بن عبد اللّٰہ فقال : یا رسول اللّٰہ (ص) ولِل اْٰ قئِمِ من وُلدِْکَ غَيبَْةٌ ؟ قال (ص) ای وربّی ( ٢) ثُمّ قالَ یا جابِر انّ هذا امرٌ مِن امرِ اللّٰہ ) ہِ فانّ الشکَ فی امرِ اللّٰہ عزّوجلّ کُفر ” ( ١ وَسِرٌّ مِن سِرِّ اللہّٰ فایّاکَ وَالشَّک فی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یقينا علی ميرے بعد ميری امت کے امام ہيں آپ کے فرزندوں ميں قائم المنتظر ہوں گے جو زمين کو اس طرح عدل و انصاف سے بهر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بهری ہوگی، قسم ہے اس خدا کی کہ جس نے مجهے حق کے ساته بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بهيجا! وہ لوگ جو آپ کی غيبت کے زمانہ ميں آپ کی امامت کے عقيدہ پر ثابت قدم رہيں گے وہ آپ سے زیادہ عزت والے اور کم یاب ہوں گے۔ جابر نے اپنے مقام پر کهڑے ہو کر عرض کيا: یا رسول الله! کيا آپ کے فرزندوں ميں سے قائم کے ليے کوئی غيبت ہے؟ فرمایا: ہاں ميرے رب کی قسم! “تاکہ الله مومنين کو پاک و پاکيزہ بنائے اور کافروں کو نيست و نابود کرے“ پهر فرمایا: یہ الله تعالیٰ کے رازوں ميں سے ایک راز ہے، اور اسرار رب ميں سے ایک مخفی بات ہے اس ميں کبهی بهی شک نہ کرنا کيونکہ پروردگار کی ذات ميں شک کرنا کفر کا باعث ہے”۔ ٣٨ ۔ حسن ابن خالد کا بيان ہے کہ حضرت علی ابن موسیٰ الرضا - نے فرمایا: ”لا دینَ لِمَن لا وَرَعَ لَہُ ( ٢) ای اعملکُم بالتَّقویٰ ثُمَّ قالَ اِنَّ الرَّابعَ مِن وُلدِی ابنُ سَيِّدَةِ الاِماءِ یُطَهِّرُ اللہّٰ بِہِ الاٴرضَ مِن کُلّ جَورٍ وَظلمٍ وَهُوَ الذی یَشُکُّ النّاسُ فی ولادَتِہِ وَهُوَ صاحِبُ الغيبةِ ، فاذا خَرَجَ اٴشرَقَتِ الاَرضَ بنور رَبّها ، وَ وَضَعَ ميزانَ العَدل بَينَ النّاسِ فَلا یظلمُ احَدٌ اَحداً وَهُوَ الذی تُطویٰ لَہُ الاَرضُ وَلا یَکُونَ لَہُ ظِلٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَهُوَ الذی یُنادی مُنادٍ مِن السَّمآء یَسمَعُہُ جَميعُ اَهْل الاٴرضِ : اَ لاٰ اِنّ حُجَّةَ اللہِّٰ قَد ظَهَرَ عِند بيتِ اللّٰہِ فاتّبِعُوہُ ، فَاِنَّ الحقَّ فيہ وَمَعہُ ، وَهُوَ قولُ اللّٰہ عزّوجلّ ( ١) وَقَولُْ اللہِّٰ عَزّوَجَلَّ ( ٢) اَیْ خُروجُ وَلَدِیَ الْقآئِمُ الْمُہْدِیُّ عليہ السلام” ( ٣ ”اس شخص کے ليے دین نہيں ہے جس کے پاس پرہيزگاری نہيں ہے یقينا الله کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو تم ميں سے زیادہ تقوا اور پرہيز گار ی کے ساته زیادہ عمل کرنے والا ہو۔ پهر فرمایا: یقينا ميرے فرزندوں ميں سے جو چوتها کنيزوں کی ملکہ (سيدة الاماء) سے ہوگا الله تعالیٰ اس کے ذریعہ زمين کو ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک کرے گا۔ وہ وہی شخص ہے کہ جس کی ولادت کے بارے ميں لوگ شک و شبہ کریں گے۔ اس کے ليے غيبت کبریٰ ہے، جب ظہور کرے گا تو زمين اپنے رب کے نور سے چمک اڻهے گی، لوگوں کے درميان عدل و انصاف کی ميزان قائم کرے گا کوئی شخص کسی شخص پر ظلم نہيں کرے گا آپ وہ ہيں کہ جس کے ليے زمين سمٹ جائے گی (طی الارض کا حامل ہوگا) آپ کا کبهی بهی سایہ نہيں ہوگا۔ آپ وہ بزرگوار ہيں جن کی خاطر آسمان سے ایک آواز دینے والا آواز دے گا جس کی آواز کو تمام زمين والے سنيں گے: “(اے لوگو!) خبردار! یقينا الله کے گهر کے پاس حجّت خدا ظاہر ہوگئے ہيں لہٰذا ان کی پيروی کرو، کيونکہ وہ خود حق ہے اور حق بهی ان کے ساته ہے” الله تعالیٰ کے اس قول کا معنی یہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے: “اگر ہم چاہتے تو آسمان سے ایسی آیت نازل کردیتے کہ ان کی گردنيں خضوع کے ساته جهک جائيں” مزید فرماتا ہے: “اور اس دن غور سے سنو جس دن قدرت کا منادی (اسرافيل) قریب ہی کی جگہ آواز دے گا جس دن خدائے آسمان کو سب بخوبی سن ليں گے اور وہی دن قبروں سے نکلنے کا دن ہے” فرمایا: یعنی ميرے فرزند قائم مہدی کے ظاہر ہونے کا دن ہوگا”۔ ۴٠ ۔ عبایة ابن ربعی جابر (ابن عبد الله انصاری) سے روایت کرتے ہيں کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: “انَا سَيد النبيّينَ وَعَلِیٌ سَيّد الوَصييَن وَانَّ اوصِيآئی بَعدی اِثنا عَشَر ، اَوّلُهُم عَلِی ) وَآخرُهم القائم المَہدی - عجل اللّٰہ تعالیٰ فرجہ الشریف ” ( ١ ”ميں انبياء کا سردار ہوں اور علی تمام اوصياء کے سردار ہيں” ميرے بعد ميرے اوصياء بارہ افراد ہيں، ان سب ميں اول علی ہيں اور ان ميں آخری قائم (آل محمد) مہدی ہيں”۔ ۴١ ۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: نُ وَلا یُصْلِحُہُ اِلاَّ المَہدِیُّ عليہ السلام نَ بِعَلیٍّ ،وَاذَا قُتلَ فَسَدَ الدّی ”اِنَّ اللہَّٰ فَتَحَ ہَذَا الدّی )٢) ” ”یقينا الله تعالیٰ نے اس دین کو حضرت علی - کے ذریعہ فتح کيا اور جس زمانے ميں وہ قتل کردیے جائيں گے تو دین اسلام تباہ و برباد ہوجائے گا اس کو سوائے حضرت مہدی کے کوئی درست نہيں کرے گا”۔ ۴٢ ۔ ابو نعيم اصفہانی اپنی کتاب “صفة المہدی” ميں حزیفہ ابن یمان سے روایت کرتے ہيں کہ رسول اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا: ” هٰذِہِ الامّةَ مِن مُلوکٍ جَبابِرَةٍ کَيفَ یقتلوُنَ وَیَطردُونَ المُسلمِينَ اِلاَّ مَن اظهَر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طاعَتَهم فَالموٴمن التَّقِیُّ یُ صٰانِعُهُم بِلِسانِہ وَیفِرُّ مِنهُم بقلبہِ فَاِ اٰ ذ ارادَ اللہّٰ تَبارَکَ وَتَعال یٰ ان یُعيدَ الاِسلامَ عَزیزاً قصَمَ کُلّ جَباٰرٍّ عَنيدٍ ، وَهُوَ القادِر عَل یٰ ما یشآء ، وَاصلَحَ الا مة ، بَعدَ فَسادِها یا حذیفة ، لو لم یبق مِنَ الدُّنيا الاَّ یومٌ واحِدٌ لِطَوّل اللّٰہ ذلِکَ اليومَ ، حَتّی یملِک رَجُلٌ مِن ) اٴهِل بيتی ، یظهِرُ الاسلام ، وَاللّٰہ لا یخلفُ وَعدَہُ ، وَهُوَ عَلیٰ وَعدِہِ قدیر” : ( ١ اس امت مسلمہ کے ظالم و جابر بادشاہوں پر وای ہووہ کس طرح مسلمانوں کا قتل کریں گے اور انہيں شہر بدر کریں گے سوائے ان افراد کے جو ان کی اطاعت و فرماں و برداری کرے گا،پرہيز گار مومن ان سے زبانی طور پر بنائے رکهے گا اور قلبی طور پر ان سے دور بهاگے گا۔ جب الله تبارک و تعالیٰ اسلام کی عزت کو دوبارہ واپس کرنا چاہے گا تو تمام ظالم اور شرپسندوں کو تباہ و برباد کرے گا وہ اس اسلام کو غلبہ عطا کرے گا، خدا کی قسم! الله اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہيں کرتا وہ اپنے وعدے کو پورا کرنے کی قدرت رکهتا ہے۔ اے حذیفہ! اگر دنيا کا صرف ایک دن باقی رہے تو خداوند متعال اس کو طولانی کردے گا یہاں تک کہ ایک شخص ميرے اہل بيت ميں سے اس کائنات کا مالک ہوگا اور اسلام کو آشکار کرے گا کيونکہ الله تعالیٰ کبهی بهی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہيں کرتا وہ اپنے وعدے پورا کرنے کی طاقت رکهتا ہے”۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٢٩٨ ، عقد الدّرر، ص ۶٢ ۔ (
۳
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
حضرت مہدی - پيغمبر اسلام کے بارہویں جانشين ہيں۔ ٣٩ ۔ شيخ الاسلام حموینی اپنی کتاب ميں اپنی سند کے ساته ابن عباس سے نقل کرتے ہيں کہ رسول خدا نے فرمایا: ”اِنّ خُلَفائی اوصيائی حُجَجُ اللّٰہِ عَلَی الخلق بَعدی الاَثنا عَشَرَ ، اَوّلُهُمْ عَلیّ وَآخرهُمُ وَلدی خَلْفَ المہدیِّ ، وَتشرُقُ الارضُ بنورِرَبّها وَیبلغُ المَهدی ، فينزلُ رُوْح اللّٰہِ عيسیَ بن مَریمَ فيُصَلّی ) سلطانُہُ المشرِقَ وَالمغرِبَ ” ( ١ ”یقينا ميرے خلفاء اور ميرے اوصياء ميرے بعد مخلوق پر خدا کی حجّت ہيں جو بارہ افراد ہيں، ان ميں سے پہلا حضرت علی ابن ابی طالب - ہے اور ان ميں کا آخری ميرا بيڻا مہدی ہے کہ روح الله حضرت عيسیٰ ابن مریم جب آسمان سے نازل ہوں گے تو ان کے پيچهے ان کی اقتدا ميں نماز پڑهيں گے، تو زمين اپنے رب کے نور سے چمک اڻهے گی حضرت مہدی کی سلطنت مشرق اور مغرب ميں ہوگی”۔ ۴٠ ۔ حموینی اسی طرح ابن عباس سے روایت کرتے ہيں کہ رسول اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا: ”اناَ سَيِّدُ النبيّينَ وَعَلِیٌّ سيّدُ الوَصيّينَ وَانَّ اوصيآئی بَعدی اِنثا عَشَرَ ، اولُهم عَلیٌّ وَآخِرهُمُ ) المَہدیُّ عليہ السلام ” ( ٢ ”ميں تمام انبياء کا سيد و سردار ہوں اور حضرت علی - تمام اوصياء کے سردار ہيں ميرے بعد ميرے بارہ اوصياء ہيں ان ميں سے پہلا علی اور ان ميں سے آخری مہدی ہے”۔ ۴١ ۔ ابو الموٴیّد احمد ابن محمد اخطب خوارزم حضرت علی ابن موسیٰ الرضا - سے بطور مسند اپنے آبائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٢٩۵ ، فرائد السمطين، ج ٢، ص ٣١٢ ۔ ( ٢(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٢٩۶ ، فرائد السمطين، ج ٢، ص ٣١٣ ۔ (
کرام سے حضرت رسول اکرم (ص) سے اس ایک حدیث ميں کہ جس ميں اپنے اہل بيت گرامی کی فضيلت و عظمت اور حدیث کے بعض حصے ميں اپنی معراج کے بارے ميں گفتگو کی ہے فرمایا: ”فقُلت یارَبّی وَمَن اوصيآئی ؟ فنودیتُ : یا محمَّد اٴوصيائُکَ المَکتوبُونَ عَلیٰ سُرادِقِ عَرشی، فَنَظَرتُ فَرَاٴیتُْ اثنی عَشَرَ نوراً ، و فی کُلِّ نوُرٍ سَطرٌ اخضَر ، عَلَيہ اِسمُ وَصِیٍّ مِن ) اوصيآئی اَوَّلُهُم عَلِیٌّ وَآخرِهُمُ القائِمُ الُمَہْدِیُّ عليہ السلام ” ( ١ ”ميں نے عرض کيا: اے ميرے پروردگار! ميرے اوصياء کون ہيں؟ آواز قدرت آئی: اے محمد! تيرے اوصياء کے نام ميرے عرش کے سرورق پر لکهے ہوئے ہيں ميں نے نظر کی تو بارہ انوار کا مشاہدہ کيا ہر ایک نور ميںایک سبز سطر موجود ہے کہ جس ميں ميرے اوصياء ميں سے ایک وصی کا اسم گرامی تحریر ہے ان ميں سے پہلے علی اور ان کے آخر ميں قائم مہدی (آل محمد) ہےں”۔ ۴٢ ۔ ابو موید موفق ابن احمد خوارزمی اپنی سند کے ساته ابو سليمان رسول خدا کے چوپان سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہيں کہ: ميں نے رسول اکرم (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اِلَی السَّمآءِ ( وَساق الحدیثَ اِل یٰ اَن قالَ :) قالَ اللّٰہ تعالیٰ : یا محمَّدُ ”ليلةً اُسرِْیَ بی تحِبُّ ان تراهُم ؟ قُلتُ : نَعَم یا رَبِّ ، قال لی : اُنظر اِ لٰ ی عَينِ العَرشِ ، فَنَظَرتُ فَاذِاً عَلِیٌ وَالحَسن وَالحُسَينُ وَعَلیُّ بنُ الحُسَينِ وَمحمدُ بنُ عَلیٍ وَجعفر بنَ محمَّدٍ وَموسیَ بنُ جعفرٍ وَعَلیُّ بنُ مُوسیٰ وَمحمَّدُ بنُ عَلیٍّ وَ عَلیُّ بنُ محمَّدٍ وَالحَسَنُ بنُ عَلیٍّ وَمحمَّد نِِ المہدیُّ ، ابنُ الحَسَنِ ، کَاَنَّہُ کَوکَبٌ دُرِّیٌّ بَينَهُم ) وقالَ تعالیٰ: یا محمُد هٰوٴُلآء حججی عَلیٰ عِبادی وَهُم اوصيائکَ ” ( ٢ ”جس رات مجهے آسمان کی طرف لے جایا گيا تو یہاں تک کہ الله تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد! تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٣٧٩ ۔ ( ٢(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٣٨٠ ، فرائد السمطين، ج ٢، ص ٣١٩ ، غایة المرام، ج ٢، ص ٢۵۶ ۔ (
انہيں دیکهنا چاہتے ہو؟ ميں نے عرض کيا: ہاں اے پروردگار! تو الله نے مجه سے کہا: عرش کے داہنی جانب دیکهو ميں نے نظر کی تو اس وقت ناگاہ کيا دیکهتا ہوں کہ (حضرات) علی ، فاطمہ ، حسن ، حسين ، علی ابن الحسين ، محمد ابن علی ، جعفر ابن محمد ، موسی ابن جعفر ، علی ابن موسیٰ ، محمد ابن علی ، علی ابن محمد ، حسن ابن علی اور محمد مہدی ابن حسن عليہم السلام موجود ہيں جو گویا ان کے درميان روشن (ستارے)کی طرح ہيں”۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد! یہ روئے زمين پر ميرے حجج ہيں اور لوگوں کے درميان تيرے جانشين ہيں”۔ ۴٣ ۔ حموینی نے سعيد ابن حبيب سے، ابن عباس سے انہوں نے نبی اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: ”ان اوصيائی وَحُجَجَ اللّٰہ عَلیٰ الخلق بَعدی الاثنی عَشَرَ اَوّلُهُم اخی وَآخِرُهُم وَلَدی قيل یا رسوُلَ اللّٰہ (ص) مَن اخوُک ؟ قالَ عَلی عليہ السلام قيلَ : مَن وَلدَکَ ؟ قالَ: المَہدی الَّذی یملاء الارضَ قِسطاً وَ عَدلاً کَما مُلئِت جَوراً وَظُلماً وَالذی بعَثَنی بالحَق بشيراً وَنذیراً لو لَم یبق مِنَ الدُّنيا الاَّ یومٌ واحِدٌ لِطَوَّل اللّٰہُ ذٰلِکَ اليومَ حَتی یخرَج فيہِ وَلَدی المَهدی فينزِل روُحُ اللّٰہ عيسیٰ بنُ مَرَیمَ ) فَيصلّی خَلفَ وَلَدی و تشرق الاَرضُ بنورِ ربّها وَیبلغُ سلطانُہُ المشرق و المغرِبَ ( ١ ميرے خلفاء اور اوصياء ميرے بعد مخلوق پر خدا کی حجّت ہيں جو بارہ ہيں ان ميں کا پہلا علی - ہے اور ان ميں کا آخری ميرا بيڻا ہے، دریافت کيا گيا: یا رسول الله! آپ کے بهائی کون ہيں؟ فرمایا: علی -۔ آپ کا بيڻا کون ہے؟ فرمایا: مہدی، جو زمين کو عدل و انصاف سے بهردے گا جس طرح وہ ظلم و جور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴٨۶ ۔ (
سے بهرچکی ہوگی قسم ہے مجهے اس خدا کی ! کہ جس نے مجهے حق کے ساته بشارت دینے والا اور ڈرانے والا مبعوث کيا اگر دنيا کا صرف ایک ہی دن باقی رہے تو الله تعالیٰ اس دن کو طولانی کردے گا یہاں تک کہ اس ميں ميرا بيڻا مہدی ظہور کرے گا اور عيسی ابن مریم آسمان سے نازل ہوں گے تو ان کے پيچهے ان کی اقتدا ميں نماز پڑهيں گے، زمين اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہوجائے گی حضرت مہدی کی سلطنت مشرق و مغرب ميں ہوگی (انشاء الله)۔ ۴۴ ۔ “وفيہ عن مناقب الخوارزمی باسنادہ عَن اَبی حمزَةِ الثُمالی عَن محمَّدٍ الباقِرِ عَن ابَيہِ عَلیِ بن الحُسينِ عَن اَبيہِ الحُسَينِ بن علیٍ (سَلامُ اللّٰہ عَلَيہم ) قالَ دَخَلَتُ عَل یٰ جَدی رَسُول اللّٰہِ (ص) فاجلَسَنی عَل یٰ فَخِذہِ وَقال لی: اِنَّ اللہّٰ اختارَ مِن صُلبِکَ یا حُسَينُ تِسعَة ائمَةٍ ) تاسِعُهُم قائِمُهُم وَکُلُّهُم فی الفَضِل والمنزِلة عِند اللّٰہِ سواءٌ ” ( ١ اسی کتاب ميں مناقب خوارزمی اپنی سند کے ساته ابو حمزہ ثمالی سے حضرت امام محمد باقر - سے انہوں نے اپنے آباء و اجداد طاہرین سے انہوں نے امام حسين - سے روایت کی ہے کہ ميں اپنے جد بزرگوار رسول خدا (ص) کی خدمت اقدس ميں حاضر ہوا آپ نے مجهے اپنے زانوئے مبارک پر بڻهایا اور مجه سے فرمایا: اے حسين! یقينا الله تعالیٰ نے تيرے صلب سے نو ائمہ کو منتخب کيا ہے کہ ان ميں سے نواں قائم ہے اور وہ سب کے سب الله تعالیٰ کے نزدیک فضيلت و منزلت ميں برابر ہيں۔ ۴۵ ۔ “وفيہ عن مناقب الخوارزمی بسندہ عَن سُليمِ بن قَيسِ الہِلالی عَن سَلمانِ الفارِسی قالَ دَخَلت عَل یٰ رَسوِلِ اللہِّٰ (ص) واِذاً الحسينُ بن علی ، عَلیٰ فَخذِہِ وَهُوَ یُقَبِّل عينيہ وَیلثم فاہ وَهُوَ یَقولُ انتَ سَيّد ابنِ سَيّدٍ اخو سَيّدٍ انتَ اِمامُ ابنُ اِمامٍ اخو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴٢٩ ۔ (
) اِمامٍ انتَ حجةُ ابنُ حجةِ اخوُ حجَّةٍ واَنتَ ابو حجَجٍ تِسعة تاسِعُهُم قائمهُمْ ” ( ١ پهر اسی کتاب ميں سليم ابن قيس ہلالی سے وہ سلمان فارسی رضوان الله عليہم سے روایت کرتے ہيں کہ ميں رسول اکرم (ص) کی خدمت اقدس ميں حاضر ہوا تو ناگاہ ميں نے دیکها کہ حضرت حسين ابن علی - آنحضرت کے زانوئے مبارک پر تشریف فرما ہيں اور آنحضرت (ص) آپ کی دونوں آنکهوں کو بوسہ دے رہے تهے، ان کے دہن مبارک کو چوم رہے تهے اور فرماتے تهے: تم سيد و سردار ہو، سيد و سردار کے فرزند ہو، سيد و سردار کے بهائی ہو، تم امام ہو امام کے فرزند ہو، امام کے بهائی ہو تم خود حجّت ہو حجّت کے بهائی ہو اور تم نو حجّتوں کے باپ ہو ان ميں نواں ان کا قائم (مہدیِ فاطمہ سلام الله عليہا) ہے”۔ ۴۶ ۔ “وفيہ عن المناقب الخوارزمی عن جابر بِن عَبد اللّٰہِ الاَنصاری قالَ قالَ لی رَسُولُ اللّٰہِ (ص) یا جابِرِ انَّ اوصيائی وائمة المُسلِمينَ مِن بَعدی ، اوَّلُهُم عَلیٌ ثُم الحسنَ ثُم الحُسين ثُمَ عَلِی بنُ الحسينُ ثُمَ محمّد بن عَلِیٍّ المعروُفُ بالباقُرُ ، ستدرِکُہُ یا جابِر ، فَاذِا لقيتَہُ فاقراہُ مِنّی السَّلام ثُمَ جَعفَر بن محمَّدُ ثُمَ مُوسیٰ بن جعفَرٍ ثُمّ عَلِی بن موُسیٰ ثُمّ محمَّدُ بن عَلِیٍ ثُمَ عَلی بن محمّدٍ ثُم الحسَنُ بنُ عَلیٍ ثُمَّ القآئم، اسمُہُ اسمی وَکنيتُہ کنيتی ابنُ الحَسَن بن عَلیٍ ، ذلِکَ الذی یفتح اللّٰہ تبارکَ وَ تعالیٰ عَلیٰ یَدیہ مَشارِق الارضِ وَمَغارِبهَا، ذلِکَ الذی یغيب عَن اوليآئہِ غيبةً لا یثبتُ عَلَی القولِ بامامتِہِ اِلاَّ مَن امتَحَن اللّٰہ قَلبہ للایمانِ : قالَ جابِر فَقلتُ : یا رَسوُلَ اللہِّٰ فَهَل لِلنّاسِ الانتِفاعُ بِہِ فی غَيبتہِ ؟ فَقالَ : ای والَّذی بَعَثَنی بالنبوةُ انَّهُم یستضيئون نبورِ ولایتہِ فی غيبتہ کانتفاعِ النّاس بالشمسِ وَاِن سَتَرَها سِحابٌ ، هذا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ص ۴٩٢ ۔ (
) مِن مکنوُنِ سِرّ اللّٰہِ ومخزونِ عِلم اللّٰہِ فاکتمہُ اِلاَّ عَن اهلہ ” ( ١ اسی کتاب ميں مناقب خوارزمی سے جابر ابن عبد الله انصاری سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا کہ رسول خدا (ص) نے مجه سے فرمایا: اے جابر ! یقينا ميرے اوصياء جو ميرے بعد ائمہٴ مسلمين ہيں ان ميں سے جو پہلے ہيں علی پهر حسن پهر علی ابن الحسين پهر محمد ابن علی جو باقر کے نام سے مشہور ہيں اے جابر! عنقریب تم ان کا دیدار کرو گے جب تم ان سے ملاقات کرنا تو ان کو ميرا سلام کہنا، پهر جعفر ابن محمد پهر موسی ابن جعفر پهر علی ابن موسی، پهر محمد ابن علی پهر علی ابن محمد پهر حسن ابن علی پهر قائم (آل محمد) ہوں گے کہ جو ميرے ہم نام ہوں گے اس کی کنيت ميری کنيت پر ہوگی وہ محمد ابن حسن ابن علی ہوں گے ، یہ وہ ہيں کہ جن کے دست مبارک سے خداوند تبارک و تعالیٰ زمين کے تمام مشرق و مغرب کو فتح کرے گا ، یہ وہ ہيں جو اپنے اولياء سے ایک عرصہ تک ایسا غائب ہوں گے کہ ان کی امامت پر صرف وہی لوگ ثابت قدم رہيں گے جن کے دل کا الله تعالیٰ نے امتحان لے ليا ہوگا۔ جابر کہتے ہيں: ميں نے عرض کيا : یا رسول الله! کيا آپ کی غيبت کے زمانہ ميں لوگ فائدہ اڻهائےں گے؟ فرمایا: ہاں قسم ہے اس خدا کی کہ جس نے مجهے نبوت ے ساته مبعوث کيا! وہ لوگ آپ کی غيبت ميں آپ کی ولایت کے نور کی ضو سے اس طرح فائدہ اڻهائيں گے جس طرح سورج کو بادل پنہان کرليتا ہے مگر لوگ پهر بهی سورج کی روشنی سے فائدہ حاصل کرتے ہيں، یہ بات تمام لوگوں کے ليے اسرار الٰہی ميں سے ہے اور الله کے علم ميں مخزون ہے اس کو اس کے غير اہل سے مخفی رکهو۔ ۴٧ ۔ “وفی نہج البلاغة: قالَ علیٌّ امير الموٴمنين عليہ السلام : بَلی لا تخلُوا الارضُ مِن ) قائِمٍ للّٰہِ بحجةٍ امّٰا ظاہِرٌ مَشہُورٌ او خائِفٌ مغموُرٌ” ( ٢ ”وَعَن التفتازانی قال قالَ علیٌ کَرَّمَ اللّٰہ وَجهَہُ لا تخلوا لارض مِن امامٍ قائِمٍ للّٰہِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
) بحجةٍ اِمّا ظاہِرٌ مشہُورٌ او خائِفٌ مضمودٌ انتهی ۔” ( ١ نہج البلاغہ ميں مولا حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - فرماتے ہيں: ہاں روئے زمين کبهی بهی حجّت خدا سے خالی نہيں ہوتی جو دین خدا کو قائم رکهتی ہے، خواہ وہ امام اور حجّت یا ہر ایک گيارہ اماموں کی طرح ظاہر اور مشہور ہو یا امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کی طرح خوف زدہ اور پوشيدہ ہو۔ تفتازانی نے بهی اس حدیث کو حضرت علی کرم الله وجهہ سے اسی مضمون کی طرح الفاظ کے مختصر فرق کے ساته ذکر کيا ہے۔ ۴٨ ۔ “وفی کتاب المهدی لآیة اللّٰہ السيد صدر الدین المعروف بالصّدر( ٢) بِاِسنادِہِ عَن عَبدِ الرَّحمنِ بن سمرة قالَ قُلتُ لِلنبی (ص) یا رِسوُلَ اللہِّٰ ارشِدنی اِلیَ النَجاةِ فَقالَ یابنَ سَمَرة اِذا اختلفَ الاهواءُ وَتَفَرَّقَتِ الآراء فَعَليکَ بِعَلِی بن ابی طالِبٍ فَانَّہ امامُ اُمَّتی وخليفَتی عليهمِ مِن بَعدی ، الی ان قالَ : وَانَّ منهُم امامُ امَّتی وَسَيّدی شَباب اهل الجَنَّةِ الحَسَن والحُسينُ وَتسعَةٌ مِن ولد ) الحُسينِ تاسِعُهُم قائِم امَّتی ۔” ( ٣ آیت الله صدر رحمة الله عليہ اپنی سند کے ساته عبد الرحمن ابن کمرہ سے نقل کرتے ہيں کہ وہ کہتے ہيں: ميں نے پيغمبر اکرم (ص) سے عرض کيا : یا رسول الله ! مجهے راہ نجات کی طرف رہنمائی فرمائيں۔ تو فرمایا: اے کمرہ کے بيڻے! جب لوگوں کی ہوائے نفس مختلف ہوجائے اورلوگوں کی رائيں متعدد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ المہدی، سيد صدر، ص ١٠١ ۔ ( ٢(۔ حضرت آیت الله العظمی سيد صدرالدین صدر منجملہ مراجع تقليد عظام ميں سے ایک ہيں ( جو حضرت آیت الله العظمیٰ حائری رضوان الله عليہم اجمعين کی رحلت کے بعد تين آیات عظام ميں سے تهے۔ ٣(۔ المہدی سيد صدر، ص ١٠١ ۔ (
ہوجائيں تو تمہارے ليے لازم ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب - کے دامن سے متمسک رہو کيونکہ وہ ميری امت کا امام اور ميرے بعد ان کے ليے ميرا جانشين ہے (یہاں تک کہ فرمایا:) اس سے ميری امت کے دو امام ایسے ہيں جو جوانان اہل بہشت کے سيد و سردار حسن و حسين ہيں اور اولاد حسين ميں سے دوسرے نو افراد ہيں کہ جن ميں سے نواں ميری امت کا قائم، حضرت مہدی (عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف) ہے۔ ۴٩ ۔ “وفيہ باسنادہ عن ابن مغازلی عَن ابی امامَةٍ عَنِ النَّبیِ (ص) وَاِنَّہ قالَ الائمِة بَعدی ) اِثنا عَشَرَ کُلُّهم مِن قرَیشٍ تسعةٌ مِن صُلب الحُسينِ وَالمهدِیُّ مِنهُم ” ( ١ اسی کتاب ميں ابو امامہ نے نبی اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: “ميرے بعد بارہ ائمہ ہيں جو سب کے سب قریش سے ہيں ان ميں سے نو افراد اولاد حسين ميں سے ہيں اور مہدی بهی ان ميں سے ہے۔“ ۵٠ ۔ “وفيہ باسنادہ عَن اَبی صالح عَن زَید بِن ثابِتٍ عَنِ النَّبیِ (ص) اِنہ قالَ لا یذهَبُ الدنيا حَتّیٰ یقومَ باَمرامَّتی رَجُلٌ مِن صلبِ الحُسين یملاٴها ( عَدلاً) کَما ملئت جَوراً قُلنا: مَن هُوَ؟ قالَ هُوَ ) الاِمامُ التاسِعُ مِن ولد الحُسينِ عليہ السلام”( ٢ اسی کتاب ميں ابو صالح سے وہ زید ابن ثابت سے وہ رسول اکرم (ص) سے روایت نقل کرتے ہيں کہ آنحضرت نے فرمایا: “دنيا ختم نہيں ہوگی اور اپنی آخری مدت تک نہيں پہنچے گی یہاں تک کہ ایک شخص حسين - کی صلب سے ميری امت کے امر کے ليے قيام کرے گا اور دنيا کو عدل و انصاف سے بهردے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بهرچکی ہوگی، ميں نے عرض کيا: وہ کون (بزرگوار) ہيں؟ فرمایا: اولاد حسين سے نواں امام ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ المہدی، سيد صدر، ص ١٠۴ ۔ ( ٢(۔گزشتہ حوالہ۔ (
۵١ ۔ “وفی تذکرة الاٴمة فی بيانِ اولادِ ابی محمَّدٍ الحَسَن العَسکَری قالَ: مِنهم محمَّدُ الاِمامُ هُوَ محمَّدُ ابنُ الحَسَنِ بن عَلی بن محمَّد بن عَلی بن مُوسیٰ بن جعَفِر بن محمَّد بِن عَلیّ بن الحُسين بن عَلی بن ابی طالِبٍ وَکنيتہُ ابو عَبِد اللّٰہ وَاَبُو القاسم وَهُوَ الخَلَفُ الحُجةُ صاحِبُ ) الزَمانِ القائِم والمنتظر والتالی وَهُوَ اخِر الائِمةَ ” ( ١ صاحب تذکرة الامة حضرت ابو محمد حسن عسکری کی اولاد کے بيان ميں رقم طراز ہيں: ان ميں سے محمد امام ہے اور وہ محمد ابن حسن ابن علی ابن محمد ابن علی ابن موسی ابن جعفر ابن محمد ابن علی ابن الحسين ابن علی ابن ابی طالب (عليہم السلام) ہيں ان کی کنيت ابو عبدالله اور ابو القاسم ہے ان کا خلف صالح حجّت، صاحب الزمان، قائم ، منتظر اور قائم ان کے ائمہ ميں سے آخری امام ہے۔ ۵٢ ۔ “وفی صحيحة ابی داوٴد عَن عَلیٍ ( سلامُ اللّٰہ عَليہِ ) عَنِ النَّبیِ (ص) انَّہُ لَو لَم یبق ) مِنَ الدهرِ اِلاَّ یومٌ لَبَعَثَ اللّٰہ رَجُلاً مِن اهلِ بَيتی یملاءُ ها عَدلاً کما مُلِئَت جَوراً الحدیث ” ( ٢ کتاب صحيح ابو داؤد ميں حضرت علی - نے انہوں نے رسول خدا (ص) سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: “اگر زمانہ ایک ہی دن باقی رہے تو اس دن یقينا خداوند متعال ميرے اہل بيت ميں سے ایک شخص کو بهيجے گا وہ زمين کو عدل و انصاف سے اسی طرح بهردے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بهرچکی ہوگی۔“ ۵٣ ۔ “محمّد بن یوسف الکنجی فی کتاب البيان ومحمّد بن طلحة الشافعی فی کتاب مطالب السئول وسبط بن الجوزی فی کتاب تذکرة الائمة والشعرانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ص ١١۶ ۔ ( ٢(۔ گزشتہ حوالہ، ص ٧٧ ، صحيح ابن داؤد، ج ۴، ص ٨٧ ۔ (
فی اليواقيت والجواہر قالَ: المهدِیُّ مِن ولدِ الامامِ الحَسنِ العَسکَری مَولدُہُ ليلَةُ النِّصفِ مِن شعبان ) سَنَةَ خمسٍ وخمسينَ وَ مِاٴتَينِ وَهُو باقٍ الیٰ انَ یجتمع لعيسی بن مریمَ عليہ السلام ” ( ١ محمد ابن یوسف گنجی اپنی کتاب البيان ميں ، محمد ابن طلحہ شافعی اپنی کتاب مطالب السوول ميں سبط ابن جوزی اپنی کتاب تذکرة الائمة ميں اور شعرانی نے اپنی کتاب اليواقيت و الجواہر ميں ذکر کيا ہے کہ حضرت مہدی حضرت امام حسن عسکری کی اولاد ميں سے ہيں ان کی ولادت باسعادت شب نيمہٴ شعبان سن دو سو پچپن ہجری ميں واقع ہوگی وہ زندہ و پائندہ ہيں یہاں تک کہ عيسی ابن مریم امام زمانہ کے ظہور کے وقت باہم جمع ہوں گے۔ ۵۴ ۔ “عن کتاب فصل الخطاب قالَ وَمِن ائمة اہلِ البَيتِ الطَّيبينَ ابوُ محمَّدٍ الحَسن العَسکَری الی ان قال : وَلَم یُخْلفِ وَلَداً غَير اَبی القاسم محمَّدٍ المنتظِر المُسمّیٰ بالقائم والحجةِ والمهدی وَصاحِبِ الزمانِ وَخاتِمِ الائِمةِ الاثنا عَشَرَ ( عند الامامية) وَکانَ مَولَد المنتظَرِ لَيلَة النِّصف مِن شعبان سَنَة خمس وخمسينَ وَماٴتَينِ امّہُ امُ وَلَدٍ یقالُ لاٴنها نرجس توفّی ابوُہُ وَهُوَ ابن خَمسِ سنين فاختفی اِلَی الانِ ، وابو محمَّدٍ الحَسَن العَسکری ، ولدُہُ محمَّدٍ المنتظَرِ المهدی ) رَضی اللّٰہ عنهُما ” ( ٢ صاحب کتاب فصل الخطاب کہتے ہيں: ائمہٴ اہل بيت طيبين و طاہرین ميں سے حضرت ابو محمد امام حسن عسکری ہيں یہاں تک کہتے ہيں کہ: ان کا کوئی فرزند خلف موجود نہيں ہے سوائے ابو القاسم محمد منتظر کے کہ جن کا نام قائم، حجّت، مہدی اور صاحب الزمان ہے، اور بارہ اماموں ميں سے آخری امام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔دانشمندان عامہ و مہدی موعود کی طرف رجوع کریں، ص ۶٨ ، ص ١٢١ ۔ ( ٢(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴۵١ ۔ (
کی ولادت شبِ نيمہٴ شعبان ميں دو سو پچپن ہجری ميں واقع ہوئی، ان کی مادر گرامی کنيز تهيں جن کا اسم گرامی نرجس خاتون تها وہ صرف پانچ سال کے تهے کہ ان کے پدر بزرگوار دنيا سے رحلت فرما گئے اور فردوس اعلیٰ کی طرف چلے گئے حضرت اس وقت سے اب تک لوگوں کی نظروں سے غائب ہيں اور وہ ابومحمد امام حسن عسکری - کے فرزند ارجمند حضرت محمد منتظر مہدی (سلام الله تعالیٰ عليہم اجمعين) ہيں۔ ۵۵ ۔ “و فی عقدالدرر فی الباب الثانی عن الحافظ ابی نعيم فی کتابہ صفة المہدی والامام ابی عمر المقری فی سننہ عن عبد اللّٰہ بن عمر قالَ قالَ رَسوُل اللّٰہ صلّی اللّٰہ عليہ وآلہِ وَسَلَّم یخرجُ رَجُلٌ مِن اهلِ بيتی یواطی اِسمہ اسمی وخلقُہ خُلقی یملاءُ الاَرض قِسطاً وَعَدلًا الحدیث ” )١) کتاب عقد الدرر کے دوسرے باب ميں حافظ ابو نعيم سے اپنی کتاب صفة المہدی ميں اور امام ابو عمر مقری اپنی کتاب سنن ميں عبد الله بن عمر سے نقل کرتے ہيں کہ رسول خدا نے فرمایا: ایک شخص ميرے اہل بيت ميں سے جس کا نام ميرے نام پر ہوگا اور اس کا اخلاق ميرا اخلاق ہوگا وہ زمين کو عدل و انصاف سے بهردے گا۔ ۵۶ ۔ “وفيہ فی الباب المذکور عن الحافظ ابی نعيم فی کتابہ صفة المہدی عن حذیفة بن یمان قالَ قالَ رسوُل اللّٰہ (ص) : لولَم یبقَ مِنَ الدُّنيا اِلاَّ یَوم واحِدٌ لَبَعثَ اللہّٰ رَجُلاً اِسمُہ اسمی ) وَخُلقُہ خُلقی یُکَنی ابُو عَبدِ اللّٰہِ ” ( ٢ اس کتاب ميں حافظ ابو نعيم سے اپنی کتاب صفة المہدی ميں حذیفہ ابن یمان سے نقل کرتے ہيں کہ رسول خدا نے فرمایا: اگر دنيا کا صرف ایک ہی دن باقی رہے تو اس دن یقينا خداوند متعال ایک شخص کو بهيجے گا جس کا نام ميرے نام پر ہوگا اور اس کا اخلاق ميرا اخلاق ہوگا اس کی کنيت ابو عبدالله ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ عقد الدرر، ص ٣١ ۔ ( ٢(۔ گزشتہ حوالہ۔ (
۵٧ ۔ “فی ینابيع المودة : فی سورة الدخان حم وَالکِْتَابِ المُْبِينِ إِنَّا اٴَنزَلنَْاہُ فِی لَيلَْةٍ مُبَارَکَةٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِینَ فِيہَا یُفرَْقُ کُلُّ اٴَمرٍْ حَکِيم : عن عبد اللّٰہ بن مسکان عَنِ الباقِرِ والصّادِقِ وَالکاظِمِ ( سَلام اللّٰہ عَلَيہم ) قالُوا:انزَلَ اللّٰہ تبارَکَ وَ تَعالی القرآن فی ليلَةٍ مبارکةٍ وَهِیَ لَيلَةُ القَدرِ انزلَ القرآنَ فيها اِلی البيتِ المعمُورِ جُملَةً واحَدِةً ثُمَّ انزَلَ مِنَ البَيتِ المعمورُ ، عل یٰ رَسُولِ اللہِّٰ (ص) فی طُولِ ثَلاثٍ وَ عشرین سَنَةً یقدِّرُ اللّٰہ کُلَّ امرِ مِنَ الحَقِ والباطِلِ وَما یَکُونُ فی تِلکَ السَّنَةِ وَلَہُ فيها البَداء والمَشيَّةُ یُقَدم ما یشآءُ ویوٴخِّرَ ما یَشآء مِنَ الآجالِ والارزاقِ وَالاٴمنِ والسَّلامَةِ والعافِيَةِ وَغَير لٰذِکَ ، وَیُلقيہِ رَسُولُ اللہّٰ (ص) اِلیٰ اميرِ الموٴمنينَ عليہ السلام وَهُوَ اِلَی الائِمة مِن اولادِہِ عَلَيهِم السَّلامُ حَتّ یٰ یَنتهی ال یٰ صاحِبِ ) الزَّمانِ المَهدی عليہ السلام ” ( ١ ینابيع المودة ميں نقل ہوا ہے کہ الله تعالیٰ کا قول سورہ دخان ميں ذکر ہوا “واو” قسم کے ليے ہے روشن کتاب کی قسم ہے ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات ميں جو شب قدر ہے نازل کيا ہے ہم بے شک ہميشہ عذاب سے ڈرانے والے تهے اس رات ميں تمام حکمت و مصلحت کے امور کا فيصلہ کيا جاتا ہے۔ عبد الله ابن مسکان امام محمد باقر ، امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظم (عليہم السلام) سے روایت کرتے ہيں کہ انہوں نے فرمایا: الله تبارک و تعالیٰ نے قرآن کو مبارک رات ميں نازل کيا اور وہ شب قدر ہے الله تعالیٰ نے اس رات تمام قرآن کو بيت المعمور (چوتهے آسمان) پر ایک دفعہ نازل کيا، پهر اسے الله تعالیٰ نے بيت المعمور سے رسول اکرم (ص) پر تيئيس سال کی طویل مدت ميں (ضرورت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٢(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴٢٨ ۔ (
کے مطابق تدریجی طور پر) نازل فرمایا اس سال ميں جو امر حق اور باطل واقع ہونے والا ہے الله ان کو مقدر فرماتا ہے۔ الله تعالیٰ اس سال کے اندر بدا اور مشيت الٰہی کے ذریعہ زندگی، رزق، امن و سلامتی اور عافيت وغيرہ کے متعلق جس کے ليے چاہتا ہے تقدیم اور تاخير کرتا رہتا ہے۔ اور ان مقدّرات کو حضرت رسول اکرم کو عطا کرتا ہے وہ حضرت امير المومنين کے حوالے کرتے ہيں اور وہ اپنی اولاد کے ائمہ کے سپرد کرتے ہيں یہاں تک کہ وہ حضرت صاحب الزمان مہدی آل محمد عليہم السلام عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف تک پہنچتا ہے۔ سورئہ دخان کی پہلی آیت جو حروف مقطعات ميں سے شروع ہوتی ہے بعض سوروں کے آغاز ميں ذکر ہوئے ہيں مفسرین ميں سے قدماء اور متاخرین کے درميان اختلاف پایا جاتا ہے شيخ جليل طبرسی رحمة الله عليہ نے مجمع البيان ( ١) ميں گيارہ اقوال ذکر کيے ہيں اور اس کے بارے ميں مطالب بيان کيے ہيں علامہ طباطبائی رحمة الله عليہ نے تفسير الميزان ميں سورہ شوریٰ کی تفسير ميں ضروری تحقيقات کو انجام دیا ہے کہ ان سب کی طرف اشارہ کرنا اس مختصر کتاب کے دائرہ سے خارج ہے، صرف اس قدر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان حروف مقطعات اور دوسرے سوروں کے مضامين ميں جن کا اسی سے آغاز ہوتا ہے ایک خاص ربط پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ حروف حضرت رسول اسلام (ص) اور خداوند سبحان کے درميان مخفی اسرار ميں سے ہيں کہ جسے عام عقليں نہيں درک کرسکتيں۔ ۵٨ ۔ “وفی قولہ تعالیٰ : والسّماءِ ذاتِ البُرُوجِ عَن الاصبَغِ بن نُباتة قالَ سَمِعت ابِن عَبَّاس رَضی اللّٰہ عنهما یقُولُ قالَ رَسُول اللّٰہِ (ص) : انَا السّمآء واَمَّا البُرُوجُ فالائِمةُ مِن اهلِ بيتی وَعِترتی ، اوَّلُهُم عَلیٌّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مجمع البيان، ج ١، ص ۴٠ ۔ (
) واخرهُم المهدِیُّ وهُم اِثناعَشَرَ عليہم السلام ” ( ١ قولہ تعالیٰ :“واو” قسم ہے، قسم ہے اس آسمان کی جس کے متعدد برج ہيں۔ اصبغ ابن نباتہ کہتے ہيں کہ ميں نے ابن عباس سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت رسول خدا نے فرمایا: آسمان سے مراد ميں ہوں اور بروج ميرے اہل بيت اور ميری عترت کے بارہ ائمہ ہيں ان ميں سے پہلے حضرت علی اور ان ميں سے آخری حضرت مہدی جو بارہویں بزگوار ہيں۔ ۵٩ ۔ “وفيہ نقلاً عَن فَرائِدِ السِمطينِ بِسَنَدِہِ عَن مُجاهِدٍ عَن ابنِ عَبّاسَ رَضِی اللہّٰ عَنهُما قالَ: قَدِمَ یهودِیٌ یقالُ لَہُ نعثل فَقالَ : یا محَمَّدُ اسئلَکَ عَن اشياء تلجلج فی صَدری مُنذُ حينٍ فاَنِ اجَابَتنِي عَنها اسلَمتُ عَلی یَدَیکَ ، قال: سَل یا اٴبا عَمارةَ فقالَ: یا محمَّداً صِف لِی رَبَّکَ فَقالَ (ص) لا یُوصَف اِلاَّ بِما وَصَفَ بِہِ نَفَسہُ وَکيفَ یُوصَف الخالِقُ الذی تعجز العقولُ ان تُدرِکَہُ وَالاوهامُ ان تَنالَہُ وَالخطراتُ ان تحِدَہ والابصارُ اَن تحيطَ بہِ جَلّ وَعَلا عمّا یصِفُہ الواصِفونَ نایٴٍ فی قربِہِ وَقَریبٌ فی نائِہِ ، هُوَ کَيَّفَ الکَيفَ وَایَّنَ الاینَ ، فَلا یقالَ لَہُ : اینَ هُو وَهُوَ منقعُ الکَيفيةَ وَالاٴینونيّة هو الاحَد الصَّمد کَما وَصَفَ نفسہُ والواصِفُونَ لا یبلغُون نعتہ ، ، قالَ: صَدَقتَ یا محمَّدَ (ص) فَاخبرنی عَن قولکِ انّہُ واحِدٌ لا شَبيہ لَہُ ، اليسَ اللّٰہ واحِدٌ وَالاِنسانُ واحِدٌ؟ فَقالَ (ص) اللّٰہُ عَزَّوَعَلا واحِدٌ حقيقیٌ احَدی المَعنی ، ای لا جزء لَہُ ولا تَرکُب لَہ وَالاِنسانُ واحِدٌ ثُنائیّ المَعنی مَرکَّبٌ مِن روُحٍ وَبَدنِ ، قال : صدَقتَ ، فَاَخبِرنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴٣٠ ۔ (
عَن وَصِيَّکَ مَن هُوَ ؟ فَما من بَنّیٍ الَّا وَلہُ وصیٌّ وانَّ نبينا مُوسیٰ بن عِمران اوصیٰ یُوشع بن نونٍ ، فَقالَ : انَّ وَصيی عَلی بنُ ابی طالِبٍ وَبَعدَہ سبطای الحَسَنُ والحسينُ ، تتلُوہ تسعَةُ ائمّةٍ مِن صُلبِ الحُسين ، قالَ: یا محمَّد فَسَمِّيِهِم لہ ، قالَ اذا مَضَی الحسينُ فَاِبنُہُ عَلیٌ ، فَاِذا مَضی عَلیٌ فابنُہُ محمَّدٌ ، فَاِذا مضیٰ محمَّد فابنُہُ جَعفَرُ، فاِذا مضیٰ جعفَر فابنہُ موسیٰ ، فَاِذا مَضی مُوسیٰ فابنُہُ عَلی ، فاذا مَضی عَلیٌّ فابنہ محمَّد، فاذا مَضیٰ محمدٌ فاِبنہُ عَلیّ ، فاذا مَضیٰ عَلیُّ فابنہُ الحَسَنُ ، فاِذا مَضیٰ الحسَنُ ، فَابنہُ الحجةُ محمَّدُ المہَدی ، فهولاءِ اثناعَشَرَ قالَ اخبرنی کيفيّةِ مَوتِ عَلِیٍ والحَسنَ والحُسينِ ؟قالَ (ص): یُقتلُ عَلِیٌ بِضرَبَةٍ مِن قرنِْہِ والحَسَنُ یُقتلَ بِالسّمِ وَالحُسينُ بِالذّبحِ قالَ فَاینَ مَکانُهُم ؟ قالَ فی الجَنَّةِ فی دَرَجَتی ، قالَ اشهَدُ ان لا اِلہَ اِلاَّ اللّٰہ وَانَّکَ رَسوُلُ اللّٰہِ وَاشهَدُ اَنَّهُمُ الاوصيآء بَعدَکَ وَلَقد وَجَدتُ فی کُتُب الانبيآء المتقدِّمةِ وَفيما عَهِدَ اِلينا مُوسیٰ بنُ عِمران عليہ السلام اِنَّہُ اِذا کانَ آخر الزمانِ یخرجُ نبیٌ یقالُ لَہ احمدُ ومحمَّد، هُوَ خاتِم الانبياء لا نبیَّ بعدَہُ فيکُونُ اوصيآئہُ بعدَہُ اِثنا عَشَرَ ، اَوَّلُهُم ابن عَمَّہ وختنِہ والثانی والثالِثُ کانا اخَوَینِ مِن وُلدِہِ ویقتل امَّةُ النبی الاوَّلَ بالسَيفِ وَالثانیِ بِسّمِّ وَالثالِثَ مَعَ جَماعَةٍ مِن اهل بيتہِ باِلسَّيفِ وَبالعطشَ فی موضِعٍ الغربةِ فهوُ کولد الغنَمِ یذبَحُ وَیصبرُ عَلَ یٰ القتل لرَفعِ دَرَجاتِہ ودَرجاتِ اَهلِ بَيتہِ وَ ذُرِّیَتہِ ولا خراجِ محبيّہِ واَتباعِہِ مِنَ النّارِ وَتسعةُ الاوصيآء منهُم من اولادِ الثالِثِ فَهولآء الاثِنا عَشَرَ عَدَدَ الاسباطِ قال (ص): اتَعرِفُ الاسباطَ قالَ نَعَم کانوا اِثنا عَشَرَ اَوَّلُهُم لاوِی بن بَرخِيا وَهُو الَّذی غابَ عَن بنی اسرائيلَ غيبةً ثُمَّ عادَ فَاظهَرَ اللہّٰ بِہِ شَریعَتَہُ بَعد اندرِاسِها وَقاتَلَ قَرسيطيا الملکَ حَت یٰ قَتَلَ الملِکَ قالَ (ص) کائنٌ فی امَتی ما کانَ فی بَنی اسرائيل حذو النعَل بِالنعل والقذة بِالقذَةِ وَانَّ الثانی عَشَرَ مِن وُلدی یَغيبُ حَتیٰ لا یُری وَیاٴتی عَلیٰ امَتی بِزَمنٍ لا یبقی مِنَ الاسلامِ اِلاَّ اِسمُہُ وَلایبقی مِنَ القرآنِ اِلاَّ رسمُہُ فحينئذٍ یاٴذَنُ اللّٰہ تَبارکَ و تعالیٰ لَہُ بالخروُجِ فيظهِر اللّٰہ الاِسلام بِہِ ویُجدَّدُہُ ، طوبیٰ بِمَن احبَّهُمْ وتبعهُمْ والوَیل لِمَن ابغضَهُم وَخالفَهُم وَطوبیٰ لمَن تَمسَّکَ بِهُدٰاهُمْ” )١) صاحب فرائد السمطين اپنی سند کے ساته مجاہد سے روایت کرتے ہيں کہ ابن عباس ناقل ہيں : ایک یہودی پيغمبر اکرم (ص) کی خدمت اقدس ميں وارد ہوا جس کا نام نعثل تها عرض کيا: اے محمد! ميں آپ سے چند چيزوں کے بارے ميں سوال کرتا ہوں جو دراز مدت سے ميرے سينے ميں محفوظ ہے اگر آپ اس کا جواب دیں گے تو ميں اسلام قبول کروں گا تو آنحضرت نے فرمایا: اے ابو عمارہ! سوال کرو عرض کيا: اے محمد! مجهے اپنے رب کی صفت بيان فرمائيے تو آنحضرت نے فرمایا: اس کی صفت صرف اتنی بيان ہوسکتی ہے جس قدر خود اس نے اپنی صفت بيان کی ہے، وہ پيدا کرنے والے کی توصيف سے کيسے بيان ہوسکتی ہے جس کو پانے سے تمام عقليں عاجز اور خيالات اس کو حاصل کرنے سے قاصر ہيں نيز تمام قلبی خطورات اس کو محدود یا اس کی تعریف نہيں کرسکتے نہ ہی آنکهيں اس کا احاطہ کرسکتی ہيں جس قدر اس کی صفت بيان کرنے والے بيان کرتے ہيں وہ اس سے بزرگ و برتر ہے، وہ دور ہونے کے باوجود قریب ہے قریب ہونے کے باوجود دور ہے کيف الکيف اور این الاین ہے اس نے کيف کو کيف بنایا اور کہاں کو کہاں اس نے بنایا، الله تعالیٰ واحد حقيقی احدی المعنی ہے وہ ہر جگہ ہے اور تمام چيزوں پر احاطہ کيے ہوئے ہے جس طرح اس نے اپنی توصيف کی ہے وصف بيان کرنے والے اس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ فرائد السمطين، ج ٢، ص ٣١٨ ۔ (
کی صفت کی کنہ اور حقيقت تک نہيں پہنچ سکتے ”اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی والد اور نہ اس کا کوئی کفوو ہمسر ہے“ یہودی نے عرض کيا: اے محمد! آپ نے سچ فرمایا اب مجهے اپنے اس فرمان سے باخبر کيجيے کہ جس ميں آپ نے فرمایا: الله تعالیٰ یکہ وتنہا ہے اس کا کوئی شبيہ و نظير نہيں ہے کيا الله ایک نہيں اور انسان بهی ایک نہيں؟ تو آنحضرت نے فرمایا: خدائے عزوجل ١ حد حقيقی ہے ایک سے زیادہ معنی نہيں ہے یعنی نہ اس کے ليے کوئی جزء ہے اور نہ ہی اس کے ليے مرکب ہوتا ہے۔ انسان کا ایک ہونا ثنائی المعنی کے اعتبار سے ہے جو روح اور بدن سے مرکب ہے۔ عرض کيا: آپ نے سچ فرمایا: اے محمد! مجهے اپنے وصی کے بارے ميں آگاہ فرمائيے وہ کون ہے؟ کيونکہ ہر آنے والے نبی کا ایک وصی ہوا کرتا ہے ہمارے نبی موسی بن عمران نے یوشع بن نون کو اپنا وصی قرار دیا تها آنحضرت نے فرمایا: ميرے وصی علی ابن ابی طالب - ہيں آپ کے بعد ميرے دو سبط ہيں وہ حسن - و حسين - ہيں آپ کے ساته ساته نو امام، حسين - کے صلب سے پيدا ہوں گے۔ عرض کيا: اے محمد! مجهے ان کے اسمائے گرامی سے آگاہ فرمائيے؟ تو آنحضرت نے فرمایا: جب حسين دنيا سے رخصت ہوجائيں گے تو آپ کے فرزند علی - امام ہوں گے جب آپ رخصت ہوجائيں گے تو آپ کے فرزند محمد - ہوں گے جب محمد - تشریف لے جائيں گے تو آپ کے فرزند جعفر - ہوں گے جب جعفر - تشریف لے جائيں گے تو آپ کے فرزند موسیٰ - ہوں گے جب موسی - تشریف لے جائيں گے تو آپ کے فرزند علی - ہوں گے جب علی - تشریف لے جائيں تو آپ کے فرزند محمد - ہوں گے جب محمد - تشریف لے جائيں گے تو آپ کے فرزند علی - ہوں گے جب علی - تشریف لے جائيں گے تو آپ کے فرزند حسن - ہوں گے جب حسن - تشریف لے جائيں گے تو آپ کے فرزند حجّت خدا محمد مہدی - (عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف ) ہوں گے پس ميری امت کے یہ ميرے بارہ اوصياء اور ائمہ ہيں۔ عرض کيا: مجهے علی - ، حسن - اور حسين - کی موت کے بارے ميں آگاہ فرمائيے؟ تو آنحضرت نے فرمایا: علی - ایک ( زہر آلود) شمشير کی ضربت سے اور سر مبارک شکافتہ شدہ قتل اور شہيد کيے جائيں گے حسن - کو زہر سے قتل کيا جائے گا اور حسين - کو ذبح کرکے ان کا سربدن سے جدا کرکے شہيد کيا جائے گا۔ یہودی نے عرض کيا: ان کا ڻهکانہ کہاں ہے؟ آنحضرت نے فرمایا: جنت ميں ميرے درجے ميں ہوں گے تو پهر یہودی نے عرض کيا: ميں گواہی دیتا ہوں کہ خدا ئے وحدہ لاشریک کے علاوہ کوئی خدا نہيں اور آپ الله کے رسول ہيں ميں گواہی دیتا ہوں کہ یہ حضرات آپ کے بعد آپ کے اوصياء ہيں۔ خدا کی قسم ! ان سب کا ذکر گزشتہ انبياء کی کتابوں ميں موجود ہے اور ہم لوگوں سے اس بات کا موسی ابن عمران نے بهی عہد لياتها کہ جب آخری زمانہ آئے گا تو ایک نبی تشریف لائيں گے کہ جن کا نام احمد اور محمد ہوگا۔ وہ انبياء کے خاتم ہوں گے آپ کے بعدکوئی نبی نہيں ہوگا آپ کے بعد بارہ اوصياء ہوں گے پہلا وصی آپ کے چچا کا بيڻا ہوگا جو آپ کا داماد بهی ہوگا۔ دوسرا اور تيسرا وصی دو بهائی ہوں گے جو آپ کے فرزند ہوں گے پہلے کو یعنی علی ابن ابی طالب کو نبی کی امت تلوار سے دوسرے کو زہر سے تيسرے کو آپ کے اہل بيت کی ایک جماعت کے ساته تلوار سے پياس کے حالت ميں عالمِ مسافرت ميں گوسفند کے بچے کی طرح ذبح کرے گی۔ (اس کے باوجود) آپ قتل پر صبر کریں گے تاکہ آپ کے اہل بيت کی اولاد کے درجات بلند ہوں اور اپنے دوستوں اور اتباع کرنے والوں کو آتش جہنم سے نجات دے سکيں۔ نو امام اس تيرے (امام حسين -) کی اولاد سے پيدا ہوں گے جو اسباط کی عدد کے برابر مجموعی طور پر بارہ ہيں۔ پهر حضرت رسول اکرم (ص) نے دریافت فرمایا: کيا تم اسباط کو جانتے ہو؟ عرض کيا: ہاں وہ بارہ حضرات تهے ان ميں سے پہلا شخص لاوی بن برخيا تها۔ یہ وہ شخص ہيں جو ایک عرصہ تک بنی اسرائيل سے غائب تهے پهر واپس تشریف لائے تهے الله تعالیٰ نے اپنی شریعت کے مٹ جانے کے بعد ان کے ذریعہ ظاہر کيا تها اس نے قرسطيا بادشاہ کو قتل کيا تها۔ آنحضرت (ص) نے فرمایا: ميری امت ميں ہوبہو ایسا ہونے والا ہے جس طرح بنی اسرائيل ميں جو کچه واقع ہوا تها۔ اور یہ کہ ميرے فرزندوں ميں سے گيارہواں فرزند غائب ہوجائے گا اور دکهائی نہيں دے گا۔ ميری امت پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اسلام کا صرف نام (یعنی اس کے دستورات و احکام پر عمل نہيں کيا جائے گا) باقی رہ جائے گا اور قرآن صرف رسمی طور پر باقی رہے گا (یعنی اس کی جلد سونے کے پانی سے کتابت اور اس کے رسم الخط کو لوگ اہميت دیں گے ليکن اس کے مضمون ، دستورات زندگی اور احکام و قوانين کی کسی بهی حيثيت سے کوئی خبر نہ ہوگی۔ اس وقت الله تبارک و تعالیٰ اپنے زمانہ کے ولی اعظم امام عصر (سلام الله عليہ) کو خروج کے ليے اجازت دے گا، اس کے ذریعہ الله تعالیٰ اسلام کو (تمام دنيا ميں) ظاہر اور غائب کرے گا اور ظلم و جور کا روئے زمين سے خاتمہ ہوگا اور عدل و انصاف پهيل جائے گا آنحضرت نے فرمایا: اس شخص کے ليے خوش خبری ہے جس نے ان حضرات کو دوست رکها اور ہر حالت ميں ان کا تابع فرماں رہا۔ اور اس شخص کے ليے ہلاکت ہے جس نے ان سے دشمنی رکهی اور ان کی مخالفت کی اور اس شخص کے ليے خوش خبری ہے کہ جس نے ان کے دامن سے وابستگی رکهی اور ان کی راہ ہدایت پر گامزن رہا۔ اللّٰهم وفّقنا لما تحبّ و ترضی وثبّتنا علی ولایتهم وهدایتهم واحشرنا معهم فی الدنيا والآخرة بفضلک واحسانک یاکریم اے خدا! ہميں ان چيزوں کی توفيق دے جس کو تو دوست رکهتا ہے اور اس سے راضی ہے اور ہميں ان کی ولایت اور راہ ہدایت پر ثابت قدم رکه اور ہميں اپنے فضل اور احسان کے ذریعہ دنيا اور آخرت ميں ان کے ساته محشور فرما اے رب کریم! آمين۔ ۶٠ ۔ “وفيہ : عَن جابِرِ بن یزَیدِ الجفعی قالَ قُلتُ لِلباقرٍ ( سَلام اللہّٰ عَلَيہِ ) یا بنَ رَسوُل اللّٰہِ انَّ قوماً یقولونَ اِنَّ اللّٰہ تعالیٰ جَعَلَ الاِمٰامة فی عَقِبِ الحَسَن عليہ السلام رَضِیَ اللّٰہ عنہ قالَ یا جابِر اِنَّ الائمةَ هُمُ الذین نَصَّ علَيهم رَسوُل اللّٰہ (ص) بِاِمامتِهم وَهُم اثنا عَشَر وَقالَ لَمّا اسرِی بی الَی السَمآء وَجَدتُ اسمائُهم مَکتوبةٌ عَلی ساقِ العَرشِ بالنّورِ ، اِثنا عَشَرَ اسِماً اَوَّلُهُم عَلی وَسِبطاہُ وَ عَلیٌ وَمحمدٌ وَ جَعفَر وَمُوس یٰ وَعَلِیٌ وَمَحمّدٌ وَعَلیٌ وَالحَسَنٌ وَمَحمَّدٌ القائمُ الحجةُ ) المَهدی عليہم السلام۔” ( ١ اسی کتاب ميں جابر ابن یزید جعفی کا بيان ہے کہ ميں نے حضرت امام محمد باقر - سے عرض کيا: اے رسول خدا (ص) کے فرزند! ایک قوم کے لوگ کہتے ہيں کہ الله تعالیٰ نے امامت کو امام حسين - کے عقب (نسل) ميں قرار دیا ہے۔آنحضرت نے فرمایا: اے جابر! یقينا ائمہ وہ لوگ ہيں جن کی امامت کی رسول خدا (ص) نے تصریح کی ہے اور معين فرمایا ہے وہ بارہ حضرات ہيں۔ آنحضرت نے فرمایا:جب مجهے آسمان (معراج) پر لے جایا گيا تو ميں نے ان حضرات کے ناموں کو ساق عرش پر نور سے لکها ہوا دیکها وہ بارہ نام تهے ان ميں پہلا نام علی کا تها اور آپ کے دونوں فرزندوں کا تها، علی، محمد، جعفر، موسیٰ، علی، حسن اور محمد قائم حجّت مہدی عليہم السلام کے اسمائے گرامی تهے۔ ۶١ ۔ “ و فيہ نقلاً عَنِ المَناقِب عَن واثلةِ بن الاسقَعِ بن فَرخابَ عَن جابِرِ بن عَبدِ اللہِّٰ الانصاری قالَ دَخَلَ جندَلُ بن جُنادَةِ بن جُبَير اليَهوُدی عَلیٰ رَسُولِ اللّٰہِ (ص) فَقال یا محمّد (ص) اخبرنی عَمّا لَيسَ للّٰہِ وَعَمّا لَيسَ عندَ اللّٰہِ وَعَمَّا لا یعلمُہُ اللّٰہُ ؟ فَقالَ (ص) امّا ما لَيس للّٰہِ لَيسَ للّٰہِ شَریکٌ وَاَمَّا ما لَيسَ عِند اللّٰہِ ، فَلَيسَ للّٰہِ عِند اللّٰہِ ظُلمٌ للعِبادِ وَامّا ما لا یعلَمُہُ اللّٰہ فَذلِکَ قولُکُم یا معشَرَ اليهودِ انَّ عزیز ابن اللّٰہِ وَاللّٰہِ لا یعَلَم اَنّ لہُ وَلداً بَل یعَلم اٴنّہُ مخلوقُہُ وَ عَبدُہُ ، فَقالَ: اشهَدُ ان لا اِلہ الاَّ اللّٰہَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴٢٧ ۔ (
وَانّکَ رَسُولُ اللہِّٰ حَقاً وَصِدقاً ”۔ ثُمَ قالَ انّی رایتُ البارِحَةَ فی النومِ مُوسیَ بنَ عِمرانَ عليہ السلام فَقالَ یا جُندَل اٴسلم عَلیٰ یدِ محمَّدٍ خاتم الانبياء واستمسک اوصيائہ من بعدہ ، فقلت اٴسلم ، فللہ الحمد اسلمت وهدانی بک ثُمَّ قالَ اخبِرنی یا رَسُولَ اللّٰہِ عَن اوصيآئِکَ مِن بَعدِکَ لاٴتمَسِکَ بهِم قالَ اوصيآئی الا ثنا عَشَرَ قالَ جندل هکذا وَجَدناهُم فی التَوراةِ وَ قالَ : یا رَسُولَ اللّٰہِ سَمِّهِم لی ، فَقالَ : اوّلهُم سَيّد الاوصيآء ابو الائِمةِ عَلی عليہ السلام ثُمَ ابناہُ الحَسَن وَالحُسَين فاستمسِک بهِم وَلا یُغَرنَکَ جهلُ الجاهِلينَ ، فَاذِا وُلدِ عَلِِیّ بن الحُسينِ زَینُ العابِدینَ یقضی اللہّٰ عَليکَ وَیَکُوُنُ آخِر زادِکَ مِنَ الدُّنيا شَرَبةً لَبَنٍ تَشربُہَ فَقالَ جُندَلُ وَجَدنا فی التَوراةِ وَفی کُتُبِ الانبيآء عليہم السلام ایليا وَ شَبَّراً وشُبيراً ، فَهذہِ اسمُ عَلیٍ و الحَسَن والحُسينَ ، فَمَن بعد الحسين ؟ فَما ساميهم ؟ قالَ اذا انقضَت مدة الحُسين فالاِمامُ ابنہ عَلِیٌ ویلقَّب بزینِ العابدینَ فَبعدَہ ابنہُ محمَّد یلقَّبُ بِالباقِرِ ، فبعَدہُ ابنُہُ جَعفَرُ یُدعیٰ بِالصَّادِقِ فبَعدہُ ابنہُ موسیٰ یدعیٰ بالکاظِمِ فَبَعدہُ ابنہُ عَلِیٌ یدعیٰ بالرّضا فَبَعدہ اِبنہ محمَّد یدعیٰ بالتقیِ والزکیّ فَبَعدُہُ اِبنہُ علیٌ یُدعیٰ بالنَّقی والهادی فَبعدہُ اِبنُہُ الحَسَنُ یدعیٰ بالعَسکَری ، فبعدَہ اِبنہُ محمدٌ یدعیٰ بالمهدِیِ والقائِمِ والحُجَّةِ فَيَغيبُ ثُمَ یخرجُ فاَذِا خَرَجَ یملاءُ الاَرض قِسطاً وَ عَدلاً کَما ملئت جوراً و ظلماً طوبی للصّابرینَ فی غيبتہ طُوبی للمُقيمينَ عَلیٰ حجتِہِم اولئک الذینَ وَصفَهُم اللہّٰ فی کِتابِہِ وَ قالَ : ثُمَ قالَ تعالیٰ : فقالَ جندلُ الحمد للّٰہِ الَّذی وفقَنی ) بِمعرِفتهِم ” ( ١ اسی کتاب ميں مناقب سے واثلہ ابن اسقع بن فرخاب جابر ابن عبد الله انصاری سے نقل کرتے ہيں کہ جندب ابن جنادة ابن جبير نامی یہودی حضرت رسول خدا (ص) کی خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض کيا: اے محمد! مجهے خبر دیجيے کہ وہ کون سی چيز ہے جو الله کے ليے نہيں ہے؟ اور وہ کون سی شے ہے جو الله کے پاس نہيں ہے اور وہ کون سے چيز ہے جس کو الله تعالیٰ نہيں جانتا؟ تو رسول خدا (ص) نے فرمایا: وہ چيز جو الله کے ليے نہيں ہے تو خدا کے ليے شریک نہيں ہے اور جو شے خدا کے پاس نہيں ہے تو وہ ظلم نہيں ہے الله تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہيں کرتا اور وہ چيز جو الله تعالیٰ نہيں جانتا وہ یہ ہے کہ اے گروہ یہود! وہ تمہارا قول ہے کہ عزیر الله کا بيڻا ہے البتہ الله تعالیٰ نہيں جانتا کہ اس کے ليے کوئی فرزند ہو بلکہ الله تعالیٰ یہ جانتا ہے کہ عزیر اس کی مخلوق اور اس کا بندہ ہے ۔ یہودی نے کہا: ميں گواہی دیتا ہوں کہ الله کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہيں ہے اور آپ الله کے برحق اور سچے رسول ہيں۔ اس کے بعد اس نے کہا: ميں نے کل رات موسی ابن عمران کو عالم خواب ميں دیکها تها تو انہوںنے مجه سے فرمایا: اے جندل! تم محمد خاتم الانبياء کے دست مبارک پر اسلام لاؤ اور ان کے بعد ہونے والے اوصياء کے دامن سے متمسک رہو، ميں نے عرض کيا: الله کا شکر ہے کہ ميں اسلام لایا ہوں اور آپ کے ذریعہ مجهے ہدایت دی گئی۔ پهر اس نے کہا: اے الله کے رسول! مجهے اپنے اوصياء کے بارے ميں آگاہ فرمائيے تاکہ ميں ان سے تمسک اختيار کرسکوں، آنحضرت نے فرمایا: ميرے اوصياء بارہ ہيں، جندل نے عرض کيا: اسی طرح ہم لوگوں نے توریت ميں دیکها ہے جس طرح آپ نے فرمایا۔ اور عرض کيا: اے رسول خدا (ص)! ان حضرات کے ناموں سے مجهے آگاہ فرمائيے۔ تو فرمایا: ان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ج ٣، ص ٢٨۴ ۔ (
ميں سے پہلے اوصياء کے سيد و سردار ہيں اور تمام ائمہ کے باپ علی (ابن ابی طالب) ہيں پهر آپ کے دونوں فرزند حسن - و حسين - ہيں۔ لہٰذا ان کے دامن سے وابستگی اختيار کرو کہيں تم کو جاہلوں کی جہالت مغرور و گمراہ نہ کردے، جب علی ابن الحسين زین العابدین پيدا ہوں گے الله تعالیٰ مجهے موت دے گا تيری دنيا کی آخری خوراک دوده کا ایک گهونٹ ہوگا جس کو تو پيے گا۔ اس کے بعد جندل نے عرض کيا: ہم لوگوں نے توریت اور انبياء عليہم السلام کی کتابوں ميں اسی طرح ایليا، شبر و شبير کا نام دیکها ہے یہ نام علی -، حسن -، حسين - کے ہيں۔ حسين - کے بعد کون حضرات ہوں گے؟ ان کے نام کيا ہيں؟ آنحضرت نے فرمایا: جب حسين - کی زندگی ختم ہوجائے گی تو ان کے فرزند علی - امام ہوں گے جن کا لقب زین العابدین - ہے آپ کے بعد آپ کے فرزند محمد - امام ہوں گے جن کا لقب باقر - ہے آپ کے بعد آپ کے فرزند جعفر - امام ہوں گے کہ جن کا لقب صادق - ہے آپ کے بعد آپ کے فرزند موسیٰ - امام ہوں گے جن کو کاظم کہا جاتا ہے، آپ کے بعد آپ کے فرزند علی - ہوں گے کہ جن کو رضا - کہا جاتا ہے آپ کے بعد آپ کے فرزند محمد - امام ہوں گے جن کو تقی اور ذکی - کہا جاتا ہے، آپ کے بعد آپ کے فرزند علی - ہوں گے جن کو نقی اور ہادی - کہا جاتا ہے آپ کے بعد آپ کے فرزند حسن - ہوں گے جن کو عسکری - کہا جاتا ہے، آپ کے بعد آپ کے فرزند محمد - ہوں گے جن کو مہدی ، قائم اور حجّت - کہا جاتا ہے پهر لوگوں کی نظروں سے جب تک خدا چاہے گا غائب ہوں گے پهر اپنے پروردگار کی اجازت سے خروج فرمائيں گے جب خروج فرمائيں گے تو جس طرح زمين ظلم و جور سے بهر چکی ہوگی اسی طرح اس کو عدل و انصاف سے بهردیں گے۔ آپ کی غيبت ميں صبر کرنے والوں کے ليے خوش خبری ہے ان حضرات سے محبت کرنے والے پرہيز گاروں کے ليے خوش خبری ہے یہ وہ لوگ ہيں کہ جن کی تعریف الله نے اپنی کتاب ميں کی ہے اور کہا ہے: “قرآن صاحبان تقویٰ اور پرہيز گاروں کے ليے مجسمہٴ ہدایت ہے جو لوگ غيب پر ایمان رکهتے ہيں” پهر فرمایا: یہی خدا کا گروہ ہے اور جان لو کہ خدا کا گروہ ہميشہ غالب ہے” پهر جندل نے کہا: الله تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجهے ان حضرات کی ) معرفت کی توفيق مرحمت فرمائی۔ ( ١ ۶٢ ۔ “و فی الدرر الموسویة ( ٢) قال محمّد بن محمّد بن محمود الحافظ البخاری المعروف بخواجہ پارسا فی حاشيتہ علی ہامش کتابہ فصل الخطاب عند ذکرہ ولا دة المهدی (عليہ السلام) ما لفظہ : انَّ الاحادیثَ فی هذا البابِ فوقَ حَدِّ الاحصاء وَ مَناقِب المهَدی رَضِی اللّٰہ عنہُ صاحِبُ الزمانِ الغائب عَنِ العَيانِ الموجودُ فی کُلِ الاٴزمانِ کثيرة مُتَظافِرةٌ والاخبارُ فی ظهُورہِ وَشوارِقِ نُورِہِ وتجدید الشَّریَعةِ المحمَّدیةَ و مجاهَدَتہِ فی اللہّٰ حق جهادِہِ وَتطہير الاقطارِ مِن سائِرِ الادناس مقطوُعٌ بِہِ وَاصحابُہُ قَد خَلَصُوا مِنَ الرَّیبِ وَسَلمُوا مِنَ العَيبِ وَاخَذَوا طَریق الهِدایَةَ وَسَلکُوا مِن طَریقِ الحَقِ الیِ التحقيق وَبِہِ ختمَتِ الخِلافةُ والاِمامة وَهُوَ اِمامٌ منذُ وَفاةِ ابيہِ اِل یٰ یومِ القيامةَ ) وَعيسیٰ عليہ السلام یُصلی خَلفَہ ویُصدِّقُہُ ویدعُوا النّاس اِلیٰ مِلَّتِہِ وَ هِیَ مِلَّةُ النّبی (ص) ۔” ( ٣ صاحب الدّرر الموسویہ کہتے ہيں : محمد ابن محمود حافظ بخاری جو خواجہ پارسا کے نام سے مشہور ہيں اپنی کتاب فصل الخطاب ميں اپنی برہان نامی کتاب کے حاشيہ ميں حضرت مہدی (عجل الله فرجہ الشریف( ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ وہ اس کے بعد زندہ رہا یہاں تک کہ حضرت علی ابن الحسين امام زین العابدین - کی ( ولادت ہوئی پهر وہ طائف گيا اور وہاں وہی دوده پيا اور کہا: پيغمبر خدا (ص) نے مجه سے فرمایا تها کہ زندگی ميں تمہاری آخری خوراک دوده کا ایک گهونٹ ہوگا وہاں اس کا انتقال ہوا اور طائف کے زارہ نامی مشہور محلہ ميں دفن ہوا اور رحمت و رضوان خدا سے جاملا۔ ٢(۔ الدرر الموسویہ فی شرح الجعفریة۔ ( ٣(۔ المہدی، سيد صدر رحمة الله عليہ، ص ١٠۶ ۔ (
کی ولادت کے متعلق گفتگو کرتے ہيں اس بيان سے کہ اس باب ميں موجودہ احادیث بے حد و حصر ہيں اور حضرت مہدی صاحب الزمان کے فضائل و مناقب ہر زمانہ ميں بہت زیادہ ہيں وہ لوگوں کی نظروں سے غائب ہيں ان کے ظہور کے بارے ميں ان کے نور کے چمکنے اور شریعت محمدیہ کی تجدید کرنے نيز ان کی راہ خدا ميں خدمات انجام دینے اور وہ تمام دنيا کی ناپاکيوں کو بلا شک و شبہ یقينا پاک کریں گے اور ان کے اصحاب کرام ہر شک و شبہ سے خلاص اور تمام عيوب سے سالم ہيں انہوں نے راہ ہدایت کو اپنایا ہے اور راہ حق سے تحقيق و یقين کی منزل تک پہنچے ہيں ان بزرگوار کے ذریعے خلافت و امامت کا سلسلہ ختم ہوا ہے اور وہ اپنے والد گرامی کی وفات کے وقت سے صبح قيامت تک امام زمانہ ہيں۔ حضرت عيسیٰ ان کے پيچهے ان کی اقتدا ميں نماز پڑهيں گے ان کی تصدیق کریں گے اور تمام لوگوں کو ان کی قوم وملت کی طرف دعوت دیں گے اور وہ قوم و ملت نبی اکرم (ص) کی قوم و ملت ہے۔ محمد ابن محمد ابن محمود حافظ بخاری جو خواجہ پارسا کے نام سے مشہور ہيں انہوں نے کتاب فصل الخطاب کے اپنے حاشيے ميں حضرت بقية الله الاعظم مہدی موعود (عجل الله فرجہ الشریف) کے بارے ميں بعض مطالب ذکر کيے ہيں ضمنی طور پر ان کے ظہور نيز ان کے نور کے چمکنے اور شریعت محمدیہ کی تجدید وغيرہ کے بارے ميں اشارہ کيا ہے، مولف بعنوان حسن اختتام ان ميں ہر ایک سے دو حدیث بطور تبرک نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہيں اور یہ کہ پہلی فصل ميں جو عنوان ذکر ہوا ہے کہ جس طرح قرآن کریم آخری آسمانی کتاب ہے حضرت بقية الله الاعظم(عجل الله فرجہ الشریف) بهی آخری اوصياء ميں سے ہيں ہم اس بحث کو یہيں ختم کرتے ہيں۔ ۶٣ ۔ “و فی عقد الدرر فی الباب الثانی عَن عَبدِ اللّٰہِ بْن عُمَر قالَ قالَ رَسُول اللّٰہِ (ص) : یَخرُْجُ فی آخِرِ الزّمانِ رَجُلٌ مِن وُلدْی اسمُْہُ کَاسمِی وَکُنيَْتُہُ کَکُنيَْتی یَملَاُ ) الاْرضَْ عَدلْاً کَما مُلِئَت جَورْاً ”۔ ( ١ عبد الله ابن عمر نقل کرتے ہيں کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: ایک شخص آخری زمانہ ميں ميری اولاد ميں سے خروج کرے گا اس کا نام ميرے نام پر ہوگا (محمد) اور اس کی کنيت (ابو القاسم) ہے زمين کو عدل و انصاف سے بهردے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بهرچکی ہوگی۔ ۶۴ ۔ “وفی ینابيع المودة عَنْ مِشْکوةِ المَصابيح عَنْ صحيح مُسْلِم ومُسْنَدِ احْمَد عَن جابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہ قال قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) : یَکوُنُ فی آخِرِ الزّمانِ خَليفَةٌ یُقَسِّمُ المال وَلا یَعُدُّہُ وَفی ) رِوایة یَکوُنُ فی آخِرِ اُمَّتی خَليفَة یُحثِْی المالَ حثاً وَلا یَعَدُّہُ عَدّاً ” ( ٢ جابر ابن عبد الله انصاری رضی الله عنہ کہتے ہيں کہ حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمایا: آخری زمانہ ميں ایک خليفہ آئے گا جو مال کو تقسيم کرے گا اور اس کو شمار نہيں کرے گا۔ اور دوسری روایت ميں ذکر ہوا ہے کہ ميری امت کے آخر ميں ایک خليفہ ہوگا جو مال مڻهی بهر بهر کے تقسيم کرے گا اور کو شمار نہيں کرے گا۔ یعنی امام زمانہ - کے مقدس اور بابرکت وجود سے اتنی فراوانی ہوگی کہ عطا و بخشش بے شمار ہوگی۔ ۶۵ ۔ “وفيہ : عن فرائد السمطين عَنِ الْحَسَن بْنِ خالِدٍ عَنْ اَبی الْحَسَن عَلیِّ بن مُوسیٰ الرِّضا عليہ السلام فی حَدیثٍ ذَکَر فيہِ الْمَهدیَّ وغَيْبَتَہُ وَانَّہُ الرّابعُ مِنْ وُلْدِہِ الی ان قال وَهُوَ الّذی ینادی مُنادٍ مِنَ السّماءِ یَسْمَعُہُ جَميعُ اَهْلِ الارْض : اَلا اِنَّ حُجَّةَ اللہِّٰ قَد ظَهَرَ عِندَْ بَيتِْ اللہِّٰ فاَتّبِعُوہُ ) فاِنَ الحقَ فيہِ وَمَعَہُ الحدیث” ( ٣ اسی کتاب ميں فرائد السمطين سے حسن ابن خالد سے ایک روایت حضرت ابو الحسن علی ابن موسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ المہدی، سيد صدر، ص ٢٠۶ ۔ ( ٢(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴٣٠ ۔ ( ٣(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴۴٨ ۔ (
الرضا سے ذکر ہوئی ہے جس ميں ایک حدیث کے ضمن ميں حضرت مہدی اور ان کی غيبت کے بارے ميں گفتگو ہوئی ہے اور یہ کہ وہ حضرت امام رضا - کے چوتهے فرزند ہيں یہاں تک کہ فرمایا: آپ وہ ہيں جن کے ليے آسمان سے ایک آواز دینے والا اس طرح آواز دے گا کہ جس کی آواز کو تمام زمين و والے سنيں گے: اے لوگو! خبردار ہوجاؤ الله کے گهر کے پاس حجّت الله ظاہر ہوگئے ہيں لہٰذا ان کی پيروی کرو یقينا حق ان ميں ہے اور ان کے ساته ہے۔ ۶۶ ۔ “فی ینابيع المودة : عن فرائد السمطين عن سعَيد بْنِ جُبير عَن ابنِ عَباس قالَ: قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) :“ اِنَّ خُلَفائی اوصيآئی حُجَجُ اللّٰہُ عَلَی الخلقِ بَعدیِ اثنا عَشَرَ ، اولُهُم عَلیٌ وَآخِرِهُمُ وَلَدی المهدیُّ ، فينزِلُ رُوح اللّٰہِ عيسیٰ بنُ مریمَ فيصلّی خَلفَ المہدی ، وتَشرقُ الارض ) بنورِرَبّها وَیبلغُ سُلطانہُ المشرِقَ والمغرِب” ( ١ ینابيع المودة ميں فرائد السمطين سے سعيد ابن جبير سے وہ ابن عباس سے نقل کرتے ہيں کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: یقينا ميرے خلفاء اور اوصياء ميرے بعد مخلوق خدا پر خدا کی حجّت ہيں جو بارہ ہيں ان ميں کا پہلا علی - ہے اور ان ميں کا آخر ميرا بيڻا مہدی ہے کہ روح الله حضرت عيسی ابن مریم جب آسمان سے نازل ہوں گے تو ان کے پيچهے ان کی اقتداء ميں نماز پڑهيں گے زمين اپنے رب کے نور سے چمک اڻهے گی حضرت مہدی کی سلطنت مشرق اور مغرب ميں ہوگی۔ ۶٧ ۔ “وما رواہ الشيخ الجليل علیّ بن ابراہيم القُميۺ فی تَفسيرہِ مسنَداً عَنِ المُفضَّل بن عمَرۺ انّہُ سَمعَ ابا عَبد اللّٰہ عليہ السلام یقُولُ فی قولِ اللّٰہ تعالیٰ قالَ رَبُّ الارضِ یَعنی اِمامُ الارضِ ، قُلتُ فَاِذا ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ص ۴۴٧ ۔ (
خَرَجَ یکُون ماذا قالَ عليہ السلام اَذاً استغنی الناسُ عَن ضوء الشَّمسِ وَنُور القَمَر ویجتزُون بِنورِ ) الاِمام” ( ١ شيخ جليل علی ابن ابراہيم قمی نے اپنی تفسير ميں مفضل ابن عمر سے اپنی سند کے ساته روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہيں کہ انہوں نے امام جعفر صادق - کو یہ بيان کرتے ہوئے سنا: کلام خدا اور (واشرقت الارض بنور ربها) (اور جب زمين اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہوجائے گی) کی تفسير ميں فرمایا: رب الارض یعنی روئے زمين پر امام مراد ہيں، ميں نے عرض کيا: جس زمانہ ميں وہ خروج کریں گے تو کيا ہوگا؟ فرمایا: اس وقت لوگوں کو آفتاب کی روشنی اور نور ماہتاب کی ضرورت نہ رہے گی اور لوگ نور امام پر اکتفا کریں گے۔ ۶٨ ۔ “وما رواہ العالم الکامل المجلسيۺ فی البحار عَن المفضّلِ ایضاً قال: سمعتُ ابا عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام یقُولُ : انّ قائِمنا اِذا قامَ اشرَقتِ الارضُ بنُور رَبّها واستغنیَ العبادُ عَن ضوء ) الشَّمسِ و ذهَبَتِ الظلامةُ ” ( ٢ اس حدیث کو عالم کامل علامہ مجلسی نے بحار ميں مفصل طور سے نقل کيا ہے کہ وہ بيان کرتے ہيں کہ اُنہوں نے امام جعفر صادق - کو یہ کہتے ہوئے سنا: یقينا جب ميرا قائم ظہور کرے گا تو زمين اپنے پروردگار کے نور سے روشن و منور ہوجائے گی اور بندگان خدا کو آفتاب کی روشنی کی ضرورت نہ رہے گی نيز تمام تاریکياں ختم ہوجائيں گی۔ ۶٩ ۔ “منها مارواہ ثقة الاسلام محمد بن یعقُوبَ الکلينيۺ فی اصُولِ الکافی عَن ابی خالِدِ الکابلی عَن ابی جعفَرٍ عليہ السلام قالَ:یا اَبا خالدٍ لَنُورُ الامام فی قُلوب الموٴمنين اَنوَرُ مِن الشّمس المُضئية بالنهارِ وهم وَاللّٰہ یُنوّرونَ قُلوبُ الموٴمنين ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير قمی، ج ٢، ص ٢۵٣ ، تفسير نور الثقلين، ج ۴، ص ۵١٣ ۔ ( ٢(۔ بحار الانوار، ج ۵٢ ، ص ٣٣٧ ۔ (
وَیَحجَب اللّٰہ عزّوجلّ نُورَهم عَمّن یَشآء فَتظلَم قُلوبُهم وَاللّٰہ یا ابَا خالِدٍ لا یُحبّنا عَبدٌ وَ یَتولانا حَتّی یُطهّر اللّٰہ قَلبَہ وَلا یُطهِر اللّٰہ قَلب عَبدٍ حَتّی یسلم لَنا وَ یَکون سِلماً لَنا فَاذا کانَ مُسلماً لنا سلّمہ ) اللّٰہ مِن شدید الحِسابِ وَآمَنَہُ مِن فَز ع یَوم القيامَة الاکبر ” ( ١ ثقة الاسلام محمد ابن یعقوب کلينی نے اصول کافی ميں نقل کيا ہے کہ ابو خالد کابلی کا بيان ہے کہ حضرت امام محمد باقر - نے فرمایا: اے ابو خالد! خدا کی قسم! جو نورِ امام قلوبِ مومنين ميں ہے وہ نصف النہار کے سورج سے زیادہ روشن ہوتا ہے اور وہ (ائمہ) قلوب مومنين کو منور کرتے رہتے ہيں اور الله تعالیٰ ان کے نور کو جس سے چاہتا ہے چهپاتا ہے تو ان کے قلوب تاریک ہوجاتے ہيں خدا کی قسم! اے ابو خالد! ہم سے کوئی بندہ محبت نہيں کرتا اور نہ ہی ہم کو دوست رکهتا ہے مگر یہ کہ الله اس کے قلب کو پاک و پاکيزہ کرتا ہے اور کسی بندہ کا دل پاک نہيں کرتا جب تک وہ ہم کو تسليم نہ کرے اور ہم سے صلح و مصالحت سے پيش نہ آئے لہٰذا جب وہ ہم سے صلح و مصالحت سے پيش آتا ہے تو الله تعالیٰ اس کو قيامت کے دن سخت حساب اور عظيم خوف سے محفوظ رکهتا ہے۔ ٧٠ ۔ “وما فی البحار عن السيدِ عَلیِ بن عَبدِ الحَميد فی کِتابِ سلطانِ المُفَرجِ عَن اهلِ الایمانِ عِند ذِکر مَن رآ القآئِم عليہ السلام قالَ: فمِن ذلِکَ ما شتَهَر وذاعَ وَمَلاء البُقاعَ وَشَهِدَ بالعَيانِ ابناءُ الزَّمانِ وهُو قصَّةُ اَبی راجح الحمَّامی بِالحلّةِ وَقَد حکَی ذلِکَ جَماعَةٌ مِنَ الاعيان الاَماثِلِ وَاَهل الصِّدقِ الافاضِلِ مِنهمُ الشَيخُ الزَّاہِدِ العابِدِ المحققِ شَمسُ الدین محمَّد بنُ قارُونَ سَلَّمَہُ اللّٰہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ١٩۴ ۔ (
تعالیٰ قال: کانَ الحاکِمُ بالحِلّةِ شَخصاً یُدعیٰ مَرجانُ الصَّغيرُ فَرفع الَيہِ اَنَّ ابا راجح هذا یسبّ الصَّحابَةَ فاحضَرَہُ واَمَر بضَربہِ ، فضُرِبَ ضرباً شَدیداً مُهلِکاً عَلی جَميع بَدَنِہِ ، حَ تٰی اِنَّہُ ضَرَبَ عَل یٰ وَجهِہِ فَسَقَطَت ثَنایاہُ واخرَجَ لِسانَہُ فجعَلَ فيہِ مَسَلّةً مِن الحدیدِ وَخَرَقَ انفہُ وَوَضَعُ فيہِ شَرِکَةً مِنَ الشَعرِ وَ شَدَّ فيها حَبلاً وَسَلّمہ ال یٰ جَماعَةٍ مِن اصحابِہِ وامَرَهُم ان یدُورُوا بہِ ازقَّةَ الحِلَّةِ والضَرب یاٴخُذُ مِن جَميع جوانِبہِ حَتیّٰ سَقَطَ اِلَی الارضِ وَعایَنَ الهَلاکَ ، فاخبَر الحاکمُ بِذلِکَ فَاَمَرَ بقَتلِہِ فَقالَ الحاضِرُونُ انَّہُ شَيخ کبيرٌ وَقَد حَصَلَ لَہُ ما یَکفيہ وَهُوَ مَيتٌ لِما بِہِ فاترکُہُ وَهُو یموتُ حَتفَ انفِہِ وَلا تَتَقَلّد بِدمِہِ ، وَبالَغوا فی لٰذِکَ حَت یٰ امَرَ بتخليتہ وَقَد انتفَخ وَجهُہُ وَلِسانُہُ فَنَقَلَہُ اهلُہُ فی الموتِ وَلَم یَشُکَّ اَحدُ انَّہ یمُوتُ مِن لَيلَةِ فَلَما کانَ مِنَ الغَدِ غَدا عَلَيہِ النّاسُ فَاِذا هُوَ قائِمٌ یُصلّی عَل یٰ اتَمِ حالَةٍ وَقَد عادَت ثَنایاہُ الَتی سَقَطَت کَما کانَت وَاندَمَلت جَراحاتہُ وَلَم یبَق لَهَا اثَرٌ والشَّجَّةُ قَد زالَت من وَجهِہِ ، فَعَجب النّاس لِسانٌ اٴسالُ اللّٰہ تَعالیٰ بِہِ، مِن حالِہِ وَ سائلوُہُ عَن امرِہِ فَقالَ انّی لَمّا عاینتُ المَوتَ وَلَم یبق لی فکنت اٴساٴلہ بقلبی واستغثتُ اِلی سَيِّدی وَمَولایَ صاحِب الزَّمانِ عليہ السلام فَلَمَّا جَنَّ عَلَیّ الَّليلُ فَاِذاً بَالدّارِ قَد امتَْلاٴت نوُراً وَ اِذاً بمولایَ صاحِبِ الزمانِ قَد امَرَّ یَدَہُ الشرَیف عَل یٰ وَجهی وَقالَ الی اخُرجُ وَکَدِّا عَل یٰ عَيالِکَ عافاکَ اللہّٰ تَعال یٰ فاصحبتُ کَما تَرون وَحَکَی الشيخ شَمس الدّین محمَّد بن قارُونَ المذکُور قالَ واقسِمُ بِاللّٰہ تَعالیٰ اِنَّ هذا ابو راجح کانَ ضعيفاً جِداً ضَعيف الترکيبِ اَصفَر اللون شينَ الوَجہ مُقَرِضَ اللحيَةِ وَکُنتُ دائِماً ادخُلُ الْحمامَ الَّذی هُوَ فيہِ وَکُنتُ دائِماً اٴراہُ عَلیٰ هذِہِ الحالَة وَهذا الشَّکلِ فَلمَّا اصبَحتُ کُنتُ مِمَّن دَخَلَ عَلَيہِ فَراٴیتُہُ قَدِ اشتَدّت قوَّتہُ وَانتَصَبت قامَتُہُ وطالَت لحيتُہُ وَاحمّرِ وجهہُ وَعاد کاٴنَّہُ ابِن عِشرین ) سَنة وَلَم یزَل عَل یٰ ذلِکَ حَتّ یٰ ادرَکَہُ الوفاة ” ( ١ بحار ميں سيد علی ابن عبد الحميد سے جنہوں نے اپنی کتاب “السلطان المفرّج عن اهل الایمان” ميں ان لوگوں کا تذکرہ کيا ہے کہ جن افراد نے حضرت قائم سے ملاقات کی ہے چنانچہ وہ تحریر کرتے ہيں: وہ واقعہ جو تمام شہروں ميں سب سے زیادہ مشہور و معروف ہوا ہے اور لوگوں نے ان کو اپنی آنکهوں سے دیکها ہے وہ حلّہ ميں ابو راجح حمامی کا واقعہ ہے جسے وہاں کے علماء و افاضل کی ایک جماعت نے بيان کيا ہے، منجملہ ان افاضل ميں سے ایک فاضل، زاہد، عابد محقق شمس الدین محمد ابن قارون حفظہ الله تعالیٰ بهی ہيں ان کا بيان ہے کہ حلّہ ميں ایک حاکم تها جس کو لوگ مرجان صغير کے نام سے یاد کرتے تهے اس کو لوگوں نے بتایا کہ یہ ابو راجح، صحابہ پر لعنت کرتا ہے اور گالی دیتا ہے چنانچہ راجح کو پکڑ کر لایا گيا اور حکم دیا کہ جتنا زیادہ ہوسکے شدید طور پر اس کو مارو تاکہ وہ مرجائے تو یہ حکم عملی شکل ميں تبدیل ہوا لوگوں نے اس کو اتنی شدید ضرب لگائی کہ اس کے سامنے کے دانت تک توڑ کر گرا دیے اس کی زبان کهينچ لی گئی اس کی ناک ميں سوراخ کرکے اس ميں ایک بال کی رسی باندهی گئی اور اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے حوالے کيا اور حکم دیا کہ اس کو حلّہ کی گليوں ميں پهراؤ اور ہر طرف سے جتنا ہوسکے اس کو زد وکوب کرو۔ چنانچہ ویسا ہی ہوا اور وہ مار کهاتے کهاتے مرنے کے نزدیک پہنچ گيا حاکم کو اطلاع دی گئی تو اس نے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ دربار کے حاضرین نے حاکم سے کہا: یہ ایک بوڑها آدمی ہے اس کے خودبخود مرنے کے ليے وہی کافی ہے جو اتنی زیادہ اس کو مار پڑی ہے اب اسے چهوڑ دیجيے، یہ خود اپنی موت مرجائے گا آپ اس کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ۵٢ ، ص ٧٠ ۔ (
خون اپنی گردن پر کيوں ليتے ہيں۔ جب لوگوں نے بہت زیادہ اصرار کيا تو حکم دیا کہ اسے چهوڑ دو اس کا منہ ورم کر گيا ہے اور زبان بهی سوج چکی ہے۔ چنانچہ اس کو اس کے گهر والوں کے پاس منتقل کيا اور اس کے اہل خانہ اس کے اسی رات مرنے ميں کسی طرح کا شک و شبہ نہيں رکهتے تهے۔ دوسرے دن جب صبح ہوئی لوگ اسے دیکهنے کے ليے احوال پرسی کی غرض سے آئے تو دیکها کہ وہ بالکل صحت مند ہے اور کهڑے ہوکر نماز پڑه رہا ہے اس کے دانت جو توڑ دیے گئے تهے سب بعينہ اس کے منہ ميں موجود ہيں اس کے جسم کی تمام جراحت اور منہ کے زخم اس طرح مندمل ہوچکے تهے کہ گویا اسے چوٹ کی کوئی تکليف تهی ہی نہيں اور زخم کے نشانات بهی نہيں تهے۔ یہ دیکه کر لوگوں کو بڑا تعجب ہوا اور اس سے دریافت کيا کہ یہ کيا ماجرا ہے؟ اس نے جواب دیا: ميں موت کو اپنی آنکهوں کے سامنے دیکه رہا تها زبان تو گویا تهی ہی نہيں جس سے دعا کرتا، لہٰذا ميں نے دل ہی دل ميں الله تعالیٰ سے دعا کی اور اپنے آقا و مولا سے فریاد کی، جب شب کا کافی حصہ گزر گيا تو ناگہاں ميں نے دیکها کہ تمام گهر روشنی سے منور ہوگيا ہے اور ميرے سيد و سردار حضرت صاحب الزمان - تشریف لائے ہيں اور اپنا دست مبارک ميرے چہرے پر مس کر رہے ہيں اور یہ فرما رہے ہيں: اب اڻه جاؤ اپنے اہل و عيال کے پاس جاؤ اور ان کی ضروریات زندگی پوری کرو الله تعالیٰ نے تمہيں صحت و عافيت عطا کی پهر صبح ہوئی اور ميں ایسا صحت مند اڻها کہ جس طرح تم لوگ دیکه رہے ہو۔ شمس الدین محمد ابن قارون مذکور کا بيان ہے کہ: خدا کی قسم! یہ راجح بہت ضعيف، نحيف و لاغر، زرد رنگ بدصورت تها اور اس کی چهوڻی سی داڑهی تهی، ميں ہميشہ اس حمام ميں جاتا کرتا جس ميں وہ موجود ہوا کرتاتها اور ميں ہميشہ اس کو اسی حالت ميں پاتا تها، مگر اس دن صبح کو جب ميں دوسرے لوگوں کے ساته پہنچا تو دیکها کہ اس کا جسم مضبوط، اعضاء و جوارح توانا وقدرت مند اور قدو قامت طولانی ہے اور داڑهی پہلے سے بڑی ہے اور چہرہ سرخی مائل ہے معلوم ہوتا تها کہ وہ بيس سال کا نوجوان ہے پهر وہ مرتے دم تک اسی حالت ميں رہا۔ ٧١ ۔ “وفی ینابيع المودة عَنِ المنَاقِبِ عَن عَلیّ بن مُوسیٰ الرّضا عَن آبائِہِ عَن رَسُول اللّٰہِ (ص) فی حَدیثٍ طویلٍ ذکَرَ فيہِ فضلَهُم وَشيئاً مِن حَدیثِ المِعراجِ اِ لٰ ی ان قالَ فقُلتُ : یا رَبّی وَمَن اوَصِيآئی ؟ فنودیتُ یا محمَّد اوصيآئکَ المکتوبُونَ عَلی سُرادِق عَرشی ، فَنَظَرت فَراٴیَتُ اثنی عَشَرَ نوراً وفی کُلّ نُورٍ سترٌ اخضَر عَلَيہ اسِمُ وَصِیِّ مِن اوصيآئی ، اوَّلُهُم عَلِیّ وآخِرهُمُ المهَدی ، فَقُلتُ : یا رَبِّ هوٴلائی اوصِيآئی مِن بَعدی؟ فَنودیتُ یا محمَّد : هوٴ لاء اوليائی واحِبّائی واصِفيائی وَحُجَجی بَعدَکَ عَل یٰ بَرّیتی، وَهُم اوصِيآئکَ وَعِزَّتِی وَجَلالی لاُ طَهِّرَنَّ الاٴرضَ بآخِرِهِم المَهدی مِنَ الظُلمِ وَلاٴ مِکَّننّہُ مَشارِقَ الارضِ وَمَغارِبَها وَلا سَخِّرنَّ لَہُ الرِّیاح وَ لاٴذَلِلَّن لَہُ السَّحابَ وَلاٴ رقينَّہُ فی الاٴسبابِ وَلاٴ نصِرَنَّہُ بجندی وَلاُ مِدنَّہُ بملائکَتی حَتّی تَعلُوَ دَولَتی وَیجتمعَ الخَلقُ عَلَی توحيدی ، ثُمَّ لاُ دیمَنَّ ) مُلکَہُ وَلاُ اٰ دوِلَنَّ الایام بَينَ اوليآئی اِل یٰ یَومِْ القِ يٰمةِ ” ( ١ ینابيع المودة ميں مناقب سے حضرت علی ابن موسی الرضا - اپنے آبائے کرام سے ان حضرات نے حضرت رسول اکرم (ص) سے ایک مفصل حدیث ميں کہ جس ميں ان کی فضيلت و منقبت اور حدیث معراج کا بعض حصہ ذکر کيا ہے یہاں تک کہ فرمایا: ميں نے کہا: اے پروردگار! ميرے اولياء کون ہيں؟ آواز آئی: اے محمد!تيرے اوصيا کے نام ميرے عرش کے سرورق پر لکهے ہوئے ہيں ميں نے نظر کی تو بارہ انوار کو دیکها۔ ہر ایک نور کی سبز سطر ہے جس پر ميرے اوصياء ميں سے ميرے وصی کا نام موجود ہے ان ميں اول علی ابن ابی طالب اور ان ميں آخری مہدی - ہيں۔ ميں نے عرض کيا : اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴٨۶ ۔ (
پروردگار! ميرے بعد یہ ميرے اوصياء ہيں، آواز آئی اے محمد! یہ ميرے اولياء ہيں ، مجهے ميری عزت اور جلال کی قسم! زمين کو ضرور ضرور ان کے آخری مہدی کے ذریعہ ظلم سے پاک کروں گا ميں اس کو زمين کے مشرق و مغرب کا مالک بناؤں گا۔ پس اس کے ليے ہواؤں کو اس کا فرماں بردار قرار دوں گا سخت بادلوں کی گردنيں اس کے ليے جهکادوں گا۔ ميں اس کو اسباب ميں بلند کروں گا۔ ميں اس کی اپنے لشکر کے ذریعے مدد کروں گا اپنے فرشتوں سے اس کی نصرت کروں گا۔ آخرکار ميری حکومت عروج پر پہنچے گی ميری تمام مخلوق ميری توحيد پر جمع ہوجائے گی ميں اس کی سلطنت کو دوام بخشوں گا۔ بڑے دنوں کو اپنے اوليا کے درميان قيامت کے روز گردش دوں گا۔ ٧٢ ۔ مشہور و معروف اور معتبر دعا جس کو شيخ ابو عمر و عثمان ابن سعيد امام زمانہ - کے پہلے نائب نے املا کرایا تها اور سيد ابن طاووس عليہ الرحمہ نے بهی حضرت کے زمانہٴ غيبت ميں پڑهنے کی خصوصی تاکيد کی ہے اس کا آغاز یوں ہوتا ہے: اللهُّٰمَّ عَرِّفنی نَفَسَکَ ال یٰ قولہ ”اللّٰهم عَجِّل فَرَجَہ وایِّدہُ بالنصر حَتّ یٰ لا تَدَعَ مِنهُْم دَیّاراً وَلا یبقَی لهُم آثاراً طَهِّر مِنهُْم بِلادَکَ وَاشفِ منهُم صُدُور عِبادِکَ وَجَدّد بِہِ ما امتَح یٰ مِن دینِکَ واصلحُ بِہِ ما بُدِّلَ مِن حکمِکَ وَغُيِّرَ مِن سنتکَ حَت یٰ یعُودَ دینُکُ بِہِ وَعَل یٰ یَدَیہِ غَضّاً جَدیداً صَحيحاً لا عِوَجَ فيہِ ولا بِدعةَ مَعَہُ حَتّ یٰ تطفِیَّ بعدلِہِ ني اٰزنَ الکافِرینَ اللّهُمَّ واَحیِْ بوَليِّکَ القرآن وَاٴرِنا نورَہُ سَرمَداً لاليلَ فيہِ وَاٴحیِْ بِہِ القُلُوب الميتة واشف بہ الصدور الوغرة واجمَع بِہِ الْاٴهوآءَ المختلفَةَ عَلَی الحَقّ وَاٴقِم بِہِ الحدوُدَ ) المُعَطَّلةَ والاٴحکامَ المهملَةَ حَتیٰ لا یبقی حَقٌ الاَّ ظهر ولا عَدلٌ الاَّ زَهَر۔”( ١ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مصباح المتهجد، ص ۴١۴ ، جمال الاسبوع، ص ٣١٢ ، بحار الانوار، ج ۵٣ ، ص ١٨٩ ۔ (
اے پروردگار! تو مجهے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما یہاں تک کہ فرمایا: اے پروردگار! تو حضرت امام مہدی - کے ظہور ميں تعجيل فرما اور اپنی نصرت سے ان کی تائيد فرم یہاں تک کہ ان کا کوئی گهر باقی نہ رہے اور ان کا نام و نشان تک نہ رہنے دے اور ان سے اپنے شہروں کو پاک و پاکيزہ اور ان لوگوں کو برباد کرکے اپنے بندوں کے دلوں کو شفا بخش اور حضرت - کے ذریعہ تيرے دین سے جو محو کر دیا گيا ہے اس کی تجدید فرما اور تيرے احکام ميں جو تبدیلی کی گئی ہے اور تيری سنت ميں جو تفسير کی گئی ہے حضرت - کے ذریعے ان سب کی اصلاح فرما یہاں تک کہ تيرا دین حضرت کے ذریعے جدید اور صحيح انداز ميں پهر سے پلٹ آئے اس طرح کہ اس ميں نہ کوئی کجی ہو اور نہ اس کے ساته کوئی بدعت واقع ہو یہاں تک کہ ان کے عدل و انصاف کی وجہ سے کافروں کی بهڑکائی ہوئی آگ بجه جائے اے ميرے پروردگار! تو اپنے ولی کے ذریعے قرآن ميں تازہ روح پهونک ہميں اس کا وہ سرمدی (ازلی و ابدی) نور دکها جس ميں ظلمت نام کی کوئی شے نہ ہو اور ان کے ذریعے مردہ دلوں کو زندہ کر نيز ان کے ذریعے لوگوں کے دلوں کی آگ کو خاموش کر مزید یہ کہ لوگوں کے مختلف خيالات کو حق پر جمع کردے اور ان کے ذریعے معطل حدود اور غير موٴثر کيے ہوئے احکام کو پهر سے قائم کردے تاکہ کوئی حق بغير ظاہر ہوئے باقی نہ رہ جائے اور کوئی عدل بغير نمایاں ہوئے نہ رہے۔ ٧٣ ۔ اسی طرح دعا کے ان جملوں ميں کہ جسے سيد ابن طاووس رحمة الله عليہ نے سرداب مقدس کے اعمال ميں اور شيخ نے مصباح ميں روز جمعہ کے اعمال ميں حضرت امام رضا - سے نقل کيا ہے اور ضمنی طور پر یونس ابن عبد الرحمن نے بهی نقل کيا ہے کہ حضرت امام رضا - نے حضرت صاحب الامر کے ليے اس دعا کے پڑهنے کا حکم دیا ہے: اللّهُمَّ ادفَع عَن وِليِّکَ وَخَليفَتِکَ اللّهُمَّ طَهِّر مِنهُم بِلادکَ واشفِ منهم عبادَکَ وَاَعزَّ بِہِ الموٴمنينَ وَاٴحیِْ بِہِ سنَنَ المُرسَلينَ وَدارِسَ حُکم النّبيينَ وَجَدِّد بِہِ ما امتَحی مِن دینکَ وَبُدِّلَ مِن حکمِکَ حَت یٰ تعيد دینک بہ وَعَلی یَدَیہ جَدیداً غَضّاً محضاً صحيحاً لا عِوَجَ فيہِ وَلا بِدعَةَ مَعَہُ ، وَحَت یٰ تُغيِّر بِعَدلِہِ ظُلَمَ الجورِ وَتُطفِیَ بہِ ني اٰرنَ ) الکُفرِ وَ توضِحَ بِہِ مَعاقد الحقِ وَمجهُولَ العَدلِ۔ ( ١ اے پروردگار! شہروں کو ان سے پاک و پاکيزہ کر، اور ان لوگوں کی نابودی کے ذریعہ اپنے بندوں کے دلوں کو شفا بخش اور حضرت امام مہدی - کے ذریعہ مومنين کو عزت عطا فرما اور پيغمبروں کی سنتوں کو اس کے ذریعہ احيا کر۔ اور حضرت - کے ذریعہ تيرے دین سے جو محو کردیا گيا ہے اس کی تجدید فرما، اور اپنے احکام ميں تبدیلی لادے یہاں تک کہ اس کے ذریعہ تيرا دین واپس آجائے اور حضرت کے ذریعے ان سب کی اصلاح فرما یہاں تک کہ تيرا دین خالص ہوجائے اس ميں کوئی کجی اور بدعت نہ رہ جائے، تاکہ حضرت - کی عدالت کے ذریعہ تاریکياں روشنائی ميں تبدیل ہوجائےں کافروں کی بهڑکائی ہوئی آگ خاموش ہوجائے اور حضرت کے ذریعہ تمام مشکلات برطرف فرما نيز حق کی گرہيں کهول دے اور ان کی نامعلوم عدالت کو لوگوں کے ليے آشکار فرما۔ ٧۴ ۔ دعائے ندبہ ميں ہم پڑهتے ہيں: “اینَ بَقِيَّةُ اللہِّٰ الَّتی لا تخلُومِنَ العِترةِ الهادِیةِ ، اینَ المُعَدُّ لقطع دابِرِ الظَّلَمةِ ، اینَ المُنْتَظَرُ لا قٰامةِ الاٴمتِ وَالعِوَجِ اینَ المرتجی لاِ زٰالةِ الجَور والعُدوٰانِ ، اینَ المدّخُر لِتجدیدِ الفرایِضِ والسُّنَنَ“ وہ بقية الله کہاں ہے؟ جس سے ہدایت کرنے والی عترت پيغمبر سے دنيا خيال نہيں ہوسکتی وہ کہاں ہے؟ جسے سلسلہٴ ظلم کو قطع کرنے کے ليے مہيا کيا گيا ہے وہ کہاں ہے؟ جس کا کجی او ر انحرافات کو درست کرنے کے ليے انتظار ہورہا ہے وہ کہاں ہے؟ جس سے ظلم و تعدی کو زائل کرنے کی اميدیں وابستہ ہيں وہ کہاں ہے؟ جسے فرائض اور سنن کی تجدید کے ليے ذخيرہ کيا گيا ہے۔ ٧۵ ۔ وہ صلوات کہ جسے شيخ کفعمی نے کتاب مصباح ميں نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہصلوات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مصباح المتهجد، ص ۴١٠ ، جمال الاسبوع، ص ٣٠٨ ، بحار الانوار، ج ٩٢ ، ص ٣٣١ ۔ (
صلواتحضرت صاحب الزمان - سے مروی ہے جو ابو الحسن ضرّاب اصفہانی کے ليے حضرت کے وجود مقدس کی طرف سے مکہ ميں صادر ہوئی ہے اور اس کی سند کو مختصر طور پر ذکر کيا ہے۔ “بِسمِ اللّٰہِ الرحمٰنِ الرحيمِ اللّٰهُمَّ صَلّ عَلیٰ محمَّدٍ سيدِ المُرسَلينَ وخاتَم النبيينَ وحجة ربّ العالمين ، الیٰ ان قال : اللهُم جَدِّد بہِ ما امتح یٰ مِن دینک واَحیِْ بِہِ ما بُدِّلَ مِن کِتابِک وَاٴظهِر بِہِ ما غُيِّر مِن حُکمِکَ حَتّی یَعُودَ دینکَ بِہِ وَعَل یٰ یَدَیہِ غَضّاً جَدیداً خالصِاً مخلَصاً لا شَکَّ فيہِ وَلا شُبهة ) مَعَہُ ولا باطِلَ عِندَہُ وَلا بِدعَْةَ لَدَیہِ”( ١صلوات عظيم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے: اے پروردگار! اپنا درود و سلام بهيج محمد پر جو تمام رسولوں کے سردار خاتم النبين اور تمام عالمين پر پروردگار کی حجّت ہيں یہاں تک کہ فرمایا: اے پروردگار! حضرت - کے ذریعہ جو تيرے دین سے محو ہوگيا ہے اس کی تجدید فرما اور حضرت - کے ذریعہ جو کچه تيری کتاب ميں (تحریف کرنے والوں کی وجہ سے) تبدیلی ہوئی ہے اس کا احياء فرما اور جو کچه تيرے حکم ميں ردّ و بدل کيا گيا ہے حضرت - کے ذریعہ ظاہر فرما یہاں تک کہ تيرا دین واپس آجائے اور حضرت - کے دست مبارک سے وہ ایسا خالص ہوجائے کہ اس ميں کبهی بهی کوئی شک و شبہ باقی نہ رہ جائے اور نہ ہی اس ميں کوئی باطل یا بدعت باقی رہ جائے۔صلوات روحی لہ الفداء و عجل اللّٰہ تعالیٰ فرجہ الشریف وجعلنا وجميع الموٴمنين من اٴعوانہ واٴنصارہ وشيعتہ آمين ہماری جان ان پر قربان! اور خدا ان کے مبارک ظہور ميں تعجيل فرمائے اور ہميں اور تمام مومنين کو ان کے اعوان و انصار اور ان کے شيعوں ميں قرار دے۔ آمين یارب العالمين ۔صلوات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مصباح المتهجد، ٢٠٨ ، دلائل الامامة، ص ۵۵١ ۔ (
۴
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
٢۔ تازگی ”القرآْنُ غَضٌّ طَرِیٌ لا یَندْرِسُ بمرُورِ الزَمّانِ وَکَ لٰ ذِکِ الحجةُ عليہ السلام“ قرآن اور امام زمانہ - ہميشہ تازہ ہيں اور کبهی بهی مرور زمانہ سے ان کی طراوت و شادابی اور تازگی کم نہيں ہوگی۔ ٧۶ ۔ “عَنِ الرِضا عَنْ اَبيہ عليہما السلام انَّہ سُئِلَ اَبو عَبدِ اللّٰہِ عليہ السلام ما بالُ القرآنْ لا یَزْدادُ عَلَی النّشر والدَّرس الاَّ غَضّاً ؟ فَقال عليہ السلام : لاٴ نَّ اللہَّٰ تَبارکَ وَ تَعال یٰ لَم یَجعَْلہُْ لِزَمانٍ ) دوُنَ زَمانٍ وَلا لِناسٍ دوُنَ ناسٍ ، فَهُو فی کلِّ زَمانٍ جَدیدٌ وَعِندَ کُلّ قومٍ غَضٌّ اِل یٰ یَومِ الق يٰمة ” ( ١ حضرت امام رضا - نے اپنے پدر بزرگوار (عليہما السلام) سے روایت کی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق - سے سوال کيا کہ کيوں قرآن کی جتنا زیادہ نشرو اشاعت کرتے ہيں اور اس کی تدریس کرتے ہيں اس کی شادابی اور تازگی ميں اضافہ ہوتا جاتا ہے (اس سے احساس خستگی نفرت اور دوری نہيں پيدا ہوتی) تو امام - نے فرمایا: چونکہ الله تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجيد کو کسی ایک ہی زمانہ سے مخصوص نہيں کيا ہے اور اسی طرح صرف خاص لوگوں کے ليے نہيں نازل فرمایا بلکہ ہر زمانے ميں اور وہ ہر قوم کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
، ١(۔ عيون اخبار الرضا -، ج ١، ص ٩٣ ۔ امالی طوسی، ص ۵٨٠ ۔ بحار الانوار، ج ٢، ص ٢٨٠ ۔ ج ١٧ ( ص ٢١٣ ، ج ٨٩ ، ص ١۵ ۔
نزدیک صبح قيامت تک ہر دل عزیز اور شادابی و تازگی کے ساته ہے۔ مولف کہتے ہيں: حضرت حجّت بقية الله الاعظم ولی عصر ناموس دہر امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا ہر دل عزیز وجود بهی خدا ئے حی و قدیر کی قدرت سے جہاں تک اس کی مشيت و مرضی ہوگی زندہ و شاداب اور جوان رہے گا، کبهی بهی فرسودگی ، پيری ، سستی اوران کے مقدس وجود ميں کسی قسم کے عيوب و نقائص ان ميں عارض نہيں ہوسکتے اور ان کی امامت و خلافت اور تمام موجودات پر ان کا حجّت ہونا کسی خاص زمانہ اور صدی سے مخصوص نہيں ہے، بلکہ جب تک خدائے حی و قيّوم ازلی و ابدی جو ہميشہ سے ہے اور ہميشہ رہے گا امام زمانہ - کا پر برکت وجود بهی فریقين کی مسلّم اور معتبر روایت کی صراحت کی بنا پر باقی رہے گا روئے زمين حجّت خدا سے خالی نہيں رہے گی یعنی جس زمانہ تک زمين و زمان باقی ہيں واضح طور پر امام زمانہ - کا بهی ہونا ضروری ہے تاکہ خدا کے بندے بے سرپرست حيراں و سرگرداں نہ ہوں۔ ٧٧ ۔ “وَفی الکافی بِسَندٍ صَحيح عَن الوَشّا( اسمہ حسن بن علی ) قالَ سَئَلتُ اَبَا الحَسَن الرّضا عليہ السلام هَل تَبقی الاَرضُ بِغيرِ امامٍ ؟قالَ لا، قُلتُ: انّا نَروی انَهّا لا تَبقی اِلاَّ انی یَسخَطَ ) اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ عَلی العِبادِ قالَ: لا تَبقی ، اِذاً لَساخَت”ْ( ١ کافی ميں صحيح سند کے ساته وشا (کہ جن کا نام حسن ابن علی ہے) سے روایت نقل کی گئی ہے کہ ميں نے ابو الحسن امام علی رضا - سے دریافت کيا : کيا امام کے بغير زمين باقی رہے گی؟ فرمایا: نہيں ميں نے عرض کيا: ہم روایت کرتے ہيں کہ بغير امام کے نہ رہے گی مگر جب الله تعالیٰ اپنے بندوں سے ناراض ہو۔ فرمایا: اس وقت یقينا وہ اضطراب ميں آجائے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ١٧٩ ۔ (
٧٨ ۔ “وَ فی رِوایةٍ اُخریٰ عَن ابی عبدِ اللّٰہ عليہ السلام لَو بَقَيتِ الاَرضُ بِغير امامٍ لَساخَتْ” )١) دوسری روایت ميں امام جعفر صادق - سے نقل ہوا ہے کہ اگر زمين بغير امام کے ہو تو وہ ویران و برباد ہوجائے گی۔ ٧٩ ۔ “وَعَن غيبة النّعمانی عَن الّصادِق عَنْ اميرِ الموٴمنينَ عليہما السلام : وَاعلَْمُوا اَنَّ الاَرضَ لاتَخلوُمِن حُجّةٍ للہِّٰ وَ کٰلنَّ اللہّٰ سَيعم یٰ خَلقَہُ مِنها بِظُلمِهِم وَجَورِهِم وَاسِرافِهِم عَل یٰ ) اَنفُسهِمِ وَلَو خَلَتِ الارض ساعَةً واحِدةً مِن حُجةٍ للہِّٰ لسَاخَت بِاهلِْها ” ( ٢ غيبت نعما نی ميں امام صادق - سے انہوں نے امير المومنين عليہما السلام سے روایت کی ہے کہ : یاد رکهو کہ زمين کبهی بهی حجّت خدا سے خالی نہيں رہتی بس الله تعالیٰ لوگوں کو ان سے ظلم و ستم جور و جفااور زیادتی کی وجہ سے اندها بنا دیتا ہے ورنہ اگر زمين ایک لمحے کے ليے بهی حجّتِ خدا سے خالی ہوجائے تو شق ہوجائے اور تمام اہل زمين اس ميں سما جائيں۔ ان روایت کی کثرت سے جو اس باب ميں ذکر ہوئی ہيں یہ نتيجہ اخذ ہوتا ہے کہ زمين ایک لمحہ کے ليے بهی امام اور حجّت خدا کے بغير ناممکن ہے کہ باقی رہ جائے ورنہ تمام زمين و زمان اور لوگ فنا ہوجائيں۔ قابل توجہ یہ ہے کہ یہ روایات اس زمانہ ميں امام زمانہ - کے وجود کو حتماً باقی رہنے پر محکم دليل اور برہان قاطع ہے جو اِن لوگوں کے ليے ایک دندان شکن جواب بهی ہے کہ بعض کوتاہ نظر لوگوں کو حضرت کی طولانی غيبت ان کے افکار کے تشویش کا باعث ہوئی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نتيجہ ميں اس عالمی مصلح کی عمر مبارک کی کميّت (مدّت) اور کيفيّت کے بارے ميں گفتگو ميں الجهے ہوئے ہيں۔ جب کہ اس عظيم ہستی کی طولانی عمر خواہ اعتقادی نقطہٴ نظر سے ہو یا علمی نظریہ کی بنا پر ہو بہت واضح ہے اور کسی قسم کا اس ميں شک و شبہ نہيں پایا جاتا ہے، اس کے علاوہ قرآنی آیات اور بيرونی اور طبيعی شواہد بهی بہت ہيں قارئين اس کے مقامات اور مطالب کی طرف رجوع کریں۔ یہاں بهی قرآن مجيد کی ایک آیت ہے کہ جس ميں حضرت یونس (علی نبينا و آلہ عليہ السلام) کے واقعہ کی طرف اشارہ کيا گيا ہے ہم اس پر اکتفا کرتے ہيں۔ ) قالَ اللّٰہ تعالیٰ:( ١ الله تعالیٰ فرماتا ہے: “پهر اگر حضرت یونس مچهلی کے شکم ميں خدا ئے سبحان کی تسبيح و تقدیس نہ کرتے اور ندائے ( ٢) تيرے علاوہ کوئی خدا نہيں ہے تو پاک و بے نياز ہے اور ميں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں ميں تها۔ نہ دیتے تو یقينا روز قيامت تک مچهلی کے شکم ميں رہتے۔ فطری بات ہے کہ الله تبارک و تعالیٰ اپنی لازوال قدرت سے مچهلی اسی طرح حضرت یونس - کو صبح قيامت تک محفوظ رکهتا ، تو پهر کيا بڑی بات ہے کہ وہ اپنے نمائندہ اور حجّت قائم آل محمد - کے مبارک وجود کو اور ان کے آباء و اجداد طاہرین کو الله تعالیٰ آسمان و زمين کے گرنے اور برباد ہونے سے محفوظ رکهے، اور اپنی رحمت کو بندوں پر نازل کرے ان کی دعا مستجاب فرمائے اور بلاؤں کو ان سے دور کرے۔ اللّهُمَّ عَجِّل فرَجَہ وَسَهِّل مَخرجہُ وَبَلّغہ اَفضَلَ مَا امّلَہَ ، واجعَلنا مِن اٴعوانِہِ وَاَنصارِہِ وَشيعتَہِ وَالمستشهدینَ بَينَ یدَیہ، بحمدٍ وآلہ الطيبينَ الطّاهرینَ صلواتکَ عَليهِم اجمَعينَ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے خدا ! اس کے ظہور ميں تعجيل فرما اس کے خروج کو آسان فرما اور اس کو اس کی بہترین آرزوؤں تک پہنچا دے، اور ہميں اس کے اعوان و انصار اور شيعوں ميں قرار دے اور اس کے حضور ميں ہميں شہادت نصيب فرما۔ بحق محمد وآلہ الطيبين الطاہرین صلواتک عليہم اجمعين۔ مولی الموحدین حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب نے نہج البلاغہ ميں کتاب الله العزیز کے اوصاف کے بارے ميں مختلف مقامات پر اور قرآن مجيد کی خصوصيات نيز عظمت و منزلت کے متعلق بہترین مطالب بيان فرمائے ہيں کہ ان ميں سے ہر ایک جملہ قابل تعریف ہے ناچيز حقير نے ان سے جو بہت زیادہ جامع اور قابل توجہ ہے اس ميں بياليس قسم کی فضيلت و منقبت ذکر کی ہے۔ ہم اسے بطور تبرک ذکر کرتے ہيں اور ان ميں سے ہر ایک کو امام زمانہ - کے مقدس وجود پر منطبق کرتے ہوئے بيان کریں گے۔ حضرت امير المومنين - نے اس خطبہ ميں پيغمبر کی بعثت اور اس کے عظيم فوائد کے بارے ميں گفتگو فرمائی ہے اور مزید فرماتے ہيں: ٨٠ ۔ “ثُمَّ اَنَزلَْ عَلَيہِ الکِتابَ نُوراً لا یُطفَاٴ مَصابيحُہُ وَ سِراجاً لا یَخبُْو تَوَقُّدُہُ وَبَحراً لا یُدرَکُ قعرہُ وَمِنهاجاً لا یَضِلّ نَهجُہُ وَشعاعاً لا یظلمُ ضوئہ وَفرقاناً لا یخْمد بُرهانُہُ وَبُنياناً لا یُهدَم اٴرکانُہُ وَشِفاءً لا تُخشیٰ اٴسقامُہُ وَعِزّاً لا تُهزمُ اٴنصارُہُ وَحَقّاً لا تُخْذَلُ اٴعْوانُہُ فَهُوَ مَعدِنُ الایمانِ وَبُحبُوحَتُہُ وَیَنابيعُ العِلِم وَبُحوُرُہُ وَریاضُ العَدلِ وَغُدرانُہُ اٴثافیّ الاسلامِ وَبُنيانہُ وَاَودِیةُ الحِقّ وَغيطانُہُ ، بَحر لا یَنزِفُہُ المُستنَزفونَ ( الْنْتَزِفُون خ ل ) وَعيونٌ لا یُنضِبُها الماضونَ وَمناهِل لا یغُضَها الواردونُ وَمَنازلُ لا یَضلُّ نَهجهَا المسافِرُونَ وَاَعلامُ لا یَعم یٰ عَنها السّائِرُونَ وَآکامٌ لایَجُوزُ عَنها القاصِدُونَ جَعَلَہ اللہّٰ رَیّاً لِعَطَشِ العلمآء وَرَبيعاً لِقلوبِ الفقَهاء وَمحاجّاً لِطُرقِ الصُّلَحاء وَ دَوآءً لَيسَْ مَعَہ (بَعدہُ خ ل ) داءٌ وَ نوراً لَيسَ مَعَہ ظُلمةٌ ، حبلاً وَثيقاً عُروتَہُ وَمَعقِلاً مَنيعاً ذِروتُةُ ، عِزّاً لِمَن تَولاَّہُ وَسِلماً لِمَن دَخَلَہ وَهُدیً لِمَنِ ائتم بِہِ وَعذراً لِمنَ اِنتَْحلَہ وَبُرهاناً لِمَن تَکَلَّم بِہِ وَ شاهِداً لِمَن خٰاصَمَ بِہِ وَفلجاً لِمَن حاجَّ بِہِ وَحامِلاً لِمَن حَمَلَہُ وَمَطيّةً لِمَن اٴعملہ وَآیةً لِمن تَوسَّمَ وَجُنَّةً لَمَنِ استَلامَ ) وَعِلماً لِمَن وَع یٰ وحَدیثاً لِمَن رَو یٰ وَحُکمْاً لِمَن قض یٰ ” ( ١ اس کے بعد ان پر اس کتاب کو نازل کيا جس کی قندیل بجه نہيں سکتی اور جس کے چراغ کی لو مدہم نہيں پڑ سکتی ہے وہ ایسا سمندر ہے کہ جس کی تهاہ مل نہيں سکتی اور ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والا بهڻک نہيں سکتا ہے۔ ایسی شعاع ہے جس کی ضو تاریک نہيں ہوسکتی اور ایسا حق و باطل کا امتياز ہے جس کا برہان کمزور نہيں ہوسکتا ہے۔ ایسی وضاحت ہے کہ جس کے ارکان منہدم نہيں ہوسکتے ہيں اور ایسی شفا ہے جس ميں بيماری کا کوئی خوف نہيں ہے ایسی عزت ہے جس کے انصار پسپا نہيں ہوسکتے ہيں اور ایسا حق ہے جس کے اعوان بے یارو مددگار نہيں چهوڑے جاسکتے ہيں۔ یہ ایمان کا معدن و مرکز، علم کا چشمہ اور سمندر، عدالت کا باغ اور حوض، اسلام کا سنگ بنياد اور اساس، حق کی وادی اور اس کا ہموار ميدان ہے۔ یہ وہ سمندر ہے جسے پانی نکالنے والے ختم نہيں کرسکتے ہيں اور وہ چشمہ ہے جسے اُلچنے والے خشک نہيں کرسکتے ہيں۔ وہ گهاٹ ہے جس پر وارد ہونے والے اس کا پانی کم نہيں کرسکتے ہيں اور وہ منزل ہے جس کی راہ پر چلنے والے مسافر بهڻک نہيں سکتے ہيں۔ وہ نشانِ منزل ہے جو راہ گيروں کی نظروں سے اوجهل نہيں ہوسکتا ہے اور وہ ڻيلہ ہے جس کا تصور کرنے والے آگے نہيں جاسکتے ہيں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٨ ۔ (
پروردگار نے اسے علماء کی سيرابی کا ذریعہ فقہاء کے دلوں کی بہار، علماء کے راستوں کے ليے شاہراہ قرار دیا ہے یہ وہ دوا ہے جس کے بعد کوئی مرض نہيں رہ سکتا اور وہ نور ہے جس کے بعد کسی ظلمت کا امکان نہيں ہے۔ وہ ریسمان ہے جس کے حلقے مستحکم ہيں اور وہ پناہ گاہ ہے جس کی بلندی محفوظ ہے چاہنے والوں کے ليے عزت، داخل ہونے والوں کے ليے سلامتی، اقتداء کرنے والوں کے ليے ہدایت نسبت حاصل کرنے والوں کے ليے حجّت، بولنے والوں کے ليے برہان اور مناظرہ کرنے والوں کے ليے شاہد ہے بحث کرنے والوں کی کاميابی کا ذریعہ، اڻهانے والوں کے ليے بوجه بڻانے والا، عمل کرنے والوں کے ليے بہترین سواری، حقيقت شناسوں کے ليے بہترین نشانی اور اسلحہ بيچنے والوں کے ليے بہترین سپر ہے، فکر کرنے والوں کے ليے علم اور روایت کرنے والوں کے ليے حدیث اور قضاوت کرنے والوں کے ليے قطعی حکم اور فيصلہ ہے۔ ہم حضرت مولی الموحدین امير المومنين - کے اس مبارک خطبہ کا ترجمہ اور تشریح قرآن اور امام زمانہ - کے موازنہ کے ساته پيش کرتے ہيں امام نے فرمایا: الله تعالیٰ نے پيغمبر اسلام کو مبعوث کرنے کے بعد قرآن مجيدکو آنحضرت کے قلب مبارک پر نازل فرمایا جو اِن تمام مندرجہ ذیل اقدار اور معيار پر مشتمل ہے۔
١۔ نور /٢ ١۔ نوراً لا یُطفاٴ مَصابيحُہُ۔ قرآن ایسا نور ہے کہ جس کے چراغ کی روشنائی ناتمام ہونے والی نہيں ہے۔ لوگوں کو اس کے ذریعہ ہدایت کرنے سے شباہت دینا جہل و نادانی کی ظلمتوں اور تاریکيوں کی بنا پر ہے جس طرح محسوس نور اور روشنی کے ذریعہ تاریکی شب ميں لوگ سامنے کی چيزیں دیکهتے ہيں الله تعالیٰ نے فرمایا: < انّ هذا القرآن یهدی للتی هی اقوم> ١) بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے۔ اور مصابيح سے مراد ) ہدایت کے مختلف راستے اور علوم و فنون ہيں جو قرآن ميں موجود ہيں۔ مولف کہتے ہيں: قرآن مجيد کے بہت سے مختلف راستے ہيں کہ انسان ان ميں سے کسی ایک پر چل سکتا ہے تو وہ فطر ی طور پر شاہ راہ ہدایت اور صراط مستقيم تک پہنچ جائے گا، قرآن کریم نے لوگوں کو ان راستوں کی طرف متوجہ کيا ہے اور اس کی طرف چلنے کا حکم دیا ہے۔ خلقت کے لحاظ سے اس کے تمام پہلو جو ابتدائی مادوں سے ڻپکے اور زمين کی تہ سے باہر آئے یہاں تک کہ بعد والی تبدیلياں نطفہ، علقہ، مضغہ، ہڈی گوشت اور پهر روح داخل کرکے انسانوں کو مکمل طور پر بنایا پهر فتبارک اللّٰہ (خدا کس قدر بابرکت ہے) کے امتياز کا سزاوار ہوا اور کبهی فطرت کے ایجادات اور خلقت کے شاہکاروں کے لحاظ سے اس ميں غوروفکر کرکے الله تعالیٰ کی صناعی ازل ميں غور کرکے جہالت و نادانی کے گرداب سے نکل کر فضل و کمال اور راہ سعادت کے ساحل پر پہنچا ہے ( ٢) کيا یہ لوگ اونٹ کی طرف نہيں دیکهتے ہيں کہ اسے کس طرح پيدا کيا گيا ہے۔ ( ٣) کيا ان لوگوں نے اپنے اوپر اپنے پرندوں کو نہيں دیکها جو پر پهيلا دیتے ہيں اور سميٹ ليتے ہيں کہ انہيں فضا ميں الله کے علاوہ کوئی نہيں سنبهال سکتا کہ وہی ہر شے کی نگرانی کرنے والا ہے۔ پهر آسمانوں کی خلقت ميں فکر کرنا کہ اس کو بغير ستون کے کيسے آویزاں خلق کيا ہے اسی طرح شب و روز کی گردش کشتی کو بيکراں دریاؤں کے اوپر رواں دواں ہونا ابر باراں کا نازل ہونا آباد زمينوں کو آباد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنا اسی کی بابرکت ذات سے مختلف ہواؤں کا چلنا بادلوں کا زمين اور آسمان کے درميان چلنا یہ سب قدرت الٰہی کے کرشمے ہيں اور انسانوں کی پروردگار کی طرف ہدایت کرتے ہيں۔ جيسا کہ فرماتا ہے: > إِنَّ فِی خَلقِْ السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضِْ وَاختِْلاَفِ اللَّيلِْ وَالنَّہَارِ > ( ١) بے شک زمين وآسمان کی خلقت روز و شب کی رفت و آمد ۔ یہ قابل تردید بات نہيں ہے کہ ان آیات یا اسی طرح اور دوسری آیتوں کے حقيقی اور واقعی مطالب کے پيش نظر انسان کے ليے اس کا ضمير روشن ہوتا ہے اور دل کو نورانيت حاصل ہوتی ہے جو حق کو باطل سے جدا اور صراط مستقيم کو غير مستقيم سے مشخص کرتا ہے۔ ائمہ کا مبارک وجود نور ہے اور مخلوقات کی خلقت سے ہزاروں سال پہلے الله تعالیٰ نے ان کے انوار مقدسہ کو خلق کيا اور تمام عالم اور جو کچه اس ميں شمس و قمر، بہشت، حور العين، ملائکہ ، عرش اور تمام افلاک اور ستاروں کو ان بزرگوں کے انوار کے حصوں سے پيدا کيا، بالخصوص امام زمانہ کے مقدس نور سے جو ہميشہ مومنين کے دلوں ميں چمکتا رہتا ہے اور آیات اور متعدد روایات اس بات کی تاکيد کرتی ہيں۔ ٨١ ۔ “عَنِ الصّادِقِ عليہ السلام قالَ: ان محمّداً وَعَليّاً عليہما السلام کانا نوراً بَيْنَ یَدَیِ اللّٰہ عزَوجل جلالہُ قَبلَ خَلقِ الخَلقِ بالْفی عامٍ وانَّ الملائِکة لمَّا رَاَتْ ذلٰکَ النُور راٴتْ لہ اصلاً وقد انشَعَبَ منہُ شعاعٌ لامعٌ فقالتْ: الهٰنَا وَسَيّدنا مٰا هذا النّور ؟ فَاَوْحیَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اِليْهم هذا نورٌ مِنْ نوری ، اصْلُہُ نُبُوَّة وَفَرعہُ امِامة، فامّا النّبوة لمحمدٍ (ص) عَبدْی وَرَسُولی وَاٴمَّا الاِمامة فَلِعَلِیٍ ) حجتی وَوَلِیّ وَلَولا هُما ما خَلقْتُ خَلْقی ” ( ٢ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شيخ المحدثين علامہٴ جليل مجلسی رضوان الله تعالیٰ عليہ نے اپنے گراں قدر دائرة المعارف “بحار الانوار” ميں امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: محمد و علی عليہما الصلاة و السلام دونوں ایک نور تهے جو خدائے عزوجل کی بارگاہ ميں دو ہزار سال تمام مخلوقات کی خلقت سے پہلے موجود تهے، جب ملائکہ نے ان انوارِ قدسيہ کا مشاہدہ کيا تو دیکها کہ وہ اصلی نور ہيں کہنے لگے: بار الٰہا! اے ميرے سيد و سردار! یہ نور کيسا ہے (جسے ہم مشاہدہ کر رہے ہيں؟) خدائے عزوجل نے ان کی طرف وحی کی: یہ ایک ایسا نور ہے جو ميرے نور سے مشتق ہے اس کی اصل اور اساس نبوت اور اس کی فرع اور شاخ امامت ہے، نبوت ميرے بندہٴ خاص محمد سے مخصوص ہے اور وہ ميرا رسول اور فرستادہ ہے ليکن امامت علی سے مخصوص ہے جو ميرا حجّت اور ولی ہے اگر وہ نہ ہوتے تو ميں ) مخلوقات کو خلق نہ کرتا۔ ( ١ ٨٢ ۔ “فيہ ایضاً عَنِ النّبی (ص) قالَ: اِنَّ اللہّٰ خَلَقَنی وَخَلَقَ عَلياً فاطِمة والحَْسَنَ والحُسَينْ عليہم السلام قَبْل ان یخلْقَ آدَمَ حينَ لا سَمآء مبنيّة ولا ارْضَ مدحيةٌ ولا ظُلُمة وَلا نورٌ ولا شَمْسٌ وَلا قَمَر ولا جنَّةٌ وَلا نارٌ فَقالَ العَّباس : فيکف کان بدو خِلقتکم یا رسول اللّٰہ (ص) فقالَ : یا عَمِّ لمّا ارادَ اللہّٰ اَن یَخلُْقنا تَکلَّم بِکلِمةٍ خَلَقَ مِنها نُوراً، ثمَ تکَلَّم بِکلمةٍ اخر یٰ فَخَلَقَ مِنها رُوحاً ، ثُمَّ مَزَجَ النورَ بِالرُّوحِ فخَلَقنی وَخَلَقَ عَلياً وَفاطمةً وَالحسَن والحسينَ ، فَکُنّا نُسبّحہُ حين لا تسبيح ونقدّسہُ حين لا تقْدیسَ ، فَلما اراد اللّٰہ تعالیٰ اَنْ ینشیء خَلقَہ فَتَقَ نُوری فخلَقَ مِنہ العرش والعرش مِنْ نُوری ، وَنوری مِنْ نُورِ اللّٰہ، انَّ نوری افْضَل مِنَ العَرش ، ثمَّ فَتَقَ اخی عَلیٍ فَخَلَقَ مِنہُ الملائِکَةَ فملائِکة مِنْ نور عَلیٍّ وَنُور عَلیٍّ مِنْ نور اللّٰہ وَ عَلیّ افْضَلُ مَن الملائکة ثمَّ فَتَقَ نور ابنتی فاطمة ونور ابنتی فاطمة من نور اللّٰہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ۶، ص ١١ ۔ (
وابنتی فاطمة افضل من السموات والارض ثم فتَقَ نورَ ولدی الحَسَنَ فخلقَ مِنہ الشَّمس والقَمر، فالشمس والقَمر مِنْ نور وَلَدی الحسَن عليہ السلام وَ نُورُ الحَسَن مِن نور اللّٰہ والحسَن افضَل مِنَ الشَّمس والقمر ، ثمَ فَتَقَ نورَ وَلدی الحُسَين صَلوات اللّٰہ عليہ وسلامہ فخلق مِنہ الجنّةَ وَالحور العينَ ، فالجنة والحور العَين مِن نور وَلَدی الحسينِ وَ نُورُ وَلَدِیَ الحُسين مِنْ نورِ اللّٰہِ ، وَلدی ) الحُسَيْنُ افْضَلُ مِنَ الجنَّة والحُور العين” ( ١ نيز بحار الانوار ميں رسول اکرم (ص) سے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: یقينا الله تعالیٰ نے مجهے خلق فرمایا اور علی، فاطمہ، حسن اور حسين عليہم السلام کو بهی خلق فرمایا قبل اس کے کہ آدم کو پيدا کرے، جس وقت نہ آسمان وجود ميں آیا تها اور نہ ہی زمين کا فرش بچهایا گيا تها نہ ہی نور و ظلمت ، آفتاب و ماہتاب اور جنت و جہنم کا وجود تها پهر عباس نے عرض کيا: اے رسول خدا (ص)! آپ کی خلقت کے آغاز کی کيفيت کيا تهی؟ فرمایا: اے چچا! جس زمانے ميں خدائے بزرگ و برتر نے ہميں خلق کرنے کا ارادہ کيا تو ایک کلمہ کہا اور اس کلمے سے ایک نور خلق فرمایا پهر دوسرا کلمہ کہا اور اس سے ایک روح خلق کی پهر خود کو روح کے ساته مخلوط کيا پهر مجهے خلق کيا اور علی، فاطمہ اور حسن و حسين کو بهی خلق فرمایا۔ ہم وہ تهے کہ خدائے سبحان کی تسبيح و تقدیس کرتے تهے جب کوئی بهی تسبيح و تقدیس کرنے والا نہيں تها، جب خدائے بزرگ و برتر نے اپنی مخلوقات کو ایجاد و تخليق کا ارادہ کيا تو ميرے نور کو شگافتہ کيا اور عرش کو ميرے نور سے خلق فرمایا اور ميرا نور خدا کا نور ہے اور ميرا نور عرش سے افضل ہے، پهر ميرے بهائی علی کے نور کو شگافتہ کيا اور ان کے نور سے ملائکہ کو خلق فرمایا پهر ملائکہ کو علی کے نور سے اور علی کے نور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ١۵ ، ص ١٠ ۔ (
کو خدا کے نور سے خلق کيا اور علی ملائکہ سے افضل ہيں اس نور کے بعد ميری بيڻی کے نور کو شگافتہ کيا اور اس سے آسمانوں اور زمين کو پيدا کيا پس تمام آسمان اور زمين ميری بيڻی فاطمہ کے نور سے خلق ہوئے اور ميری بيڻی فاطمہ کا نور خدا کا نور ہے اور ميری بيڻی فاطمہ آسمانوں اور زمين سے افضل ہے، پهر ميرے بيڻے حسن کے نور کو شگافتہ کيا اور اس سے آفتاب و ماہتاب کو خلق فرمایا اور سورج چاند کو ميرے بيڻے حسن کے نور سے خلق کيا اور ميرے بيڻے کا نور خدا کے نور سے ہے اور حسن آفتاب و ماہتاب سے افضل ہے، اس کے بعد ميرے بيڻے حسين کے نور کو شگافتہ فرمایا اور اس سے بہشت اور حور العين کے نور کو خلق کيا پهر بہشت اور حور العين کو ميرے بيڻے حسين کے نور سے خلق کيا اور ميرے بيڻے حسين کا نور خدائے سبحان کے نور سے ہے اور ميرا بيڻا حسين (عليہ و عليہم صلوات الله و سلامہ) بہشت اور حور العين سے افضل ہے۔ ان دونوں روایت سے یہ استنباط و استنتاج ہوتا ہے کہ پيغمبراکرم (ص) اور ائمہٴ اطہار کے انوار مقدسہ تمام موجودات کی اصل و اساس تهے اور ان سب کے انوار قدسيہ کی روشنی سے تمام منظومات شمسی اور روشن ستارے تمام کواکب و انجم اور کہکشائيں انہيں عظيم ہستيوں کے مقدس نور سے نشاٴة پاتے ہيں۔ قرآن مجيد ایسا نور اور روشنی ہے جو دائمی ہے اور خاموش ہونے والی نہيں ہے اور لوگ ہميشہ ہميشہ اس کی ضيا اور نورانيت سے جہل اور جہالت کی ظلمتوں کی تاریکيوں اور ظلم و بربریت سے نجات پائيں گے اور دونوں جہاں کی ہدایت و سعادت کی شاہراہ تک پہنچيں گے۔ مہدی آل محمد حضرت قائم امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا ہر دل عزیز وجود اور ان کے آباء و اجداد طاہرین (سلام الله عليہم اجمعين) جو تمام انوار قدسيہ کا مبداٴ و منشاٴ ہيں ہميشہ دوسروں کے لےے ساطع و منور اور پرتو افکن تهے وہ بهی بطریق اولی غير قابل زوال اور تغير ناپذیر ہوں گے۔ بالخصوص حضرت ولی عصر روحی لہ الفداء کا مقدس نور بہت سے مقامات ميں خواہ ابتدائے ظہور ميں خواہ زمانہ غيبت اور زمانہ حضور ميں اشراقات و نورانيت کے حامل تهے جيسا کہ عالم ملکوت ميں حضرت ابراہيم خليل الرحمن اور حضرت سيد الشہداء حسين ابن علی عليہا السلام کی شہادت کے وقت اور معراج ميں خاتم الانبياء کے ليے ظاہر ہوا ہے ایک مفصل حدیث کے ضمن ميں منقول ہے: ” یا محمد (ص) اٴتحِبّ اٴنْ تَراهُمْ ؟ قُلْتُ: نعَمَ یا رَبِّ ، فَقالَ: اٴلتفِت عَن یَمين العَرشِ فَالتَفَتُّ فَاِذاً بعَلِیٍ وَفاطِمَةَ وَالحَْسَنِ وَالحُسَينِْ وَعَلیِّ بن الحسينِ وَمُحمَّد بن عَلیٍّ وَجَعفرَ بنَْ مُحمَّد وَمُوس یٰ بنَ جَعفَْرٍ وَعَلِیّ بنِْ مُوس یٰ وَ محمَّد بنِْ عَلِیٍّ وَعَلِیّ بنْ محمدٍ وَالحَسَن بنَ عَلِیٍّ وَالمَهدِْیُّ فی ضَحضْاحٍ مِن نُور، قيامٌ یُصَلّونَ ، وَهُوَ فی وَسَطِهِم - اَی المهْدی - کَانَّہُ کوکَبٌ دّرُِیٌ ” )١) اے محمد (ص) ! کيا ان کو دیکهنا چاہتے ہو؟ پيغمبر (ص) نے عرض کيا: ہاں ميرے پروردگار! فرمایا: عرش کے داہنی طرف نگاہ کرو، لہٰذا ميں نے جب نگاہ کی تو علی، فاطمہ اور حسن و حسين (بارہ امام) کا مشاہدہ کيا۔مہدی ان کے درميان نور کا ایک ہالہ تهے جو حالت نماز و قيام ميں تهے اور وہ ان کے درميان نورانی ستارے کی طرح چمک رہے تهے۔
٢۔ چراغ /٢ ٢۔ وَ سراجاً لاٰ یَخْبو تَوَقُّدُوہ (ایسا نور ہے جس کی لو مدہم نہيں پڑ سکتی ہے) ایسا ضوفشاں چراغ ہے جو کبهی بهی خاموش نہيں ہوسکتا جب تک دنيا باقی ہے اس کی لوگوں کی ہدایت ختم نہيں ہوسکتی اور اس کے نور کے پرتو سے روشنی حاصل کریں گے۔ یہی معيار پيغمبر اکرم (ص) اور ان کے اوصياء کرام کے ہر دل عزیز وجود ميں آیہٴ کریمہ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صراحت ١) (اے پيغمبر! ہم نے آپ کو گواہ بشارت دینے والا، عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اور خدا کی ) طرف سے اس کی اجازت سے دعوت دینے والا اور روشن چراغ بناکر بهيجا ہے) کے ساته موجود ہے : اے پيغمبر! ہم نے آپ کو اس امت کے تمام حالات پر شاہد اور حاضر و ناظر بناکر بهيجا تاکہ اس کی تصدیق و تکذیب کو دیکهو اور ان کی گمراہيوں کا مشاہدہ کرو اور ہمارے نيک وعدوں جنت اور الله کی لامتناہی نعمتوں کی خوش خبری دینے والا اور جہنم کے عذاب سے ڈرانے والا اور خدائے سبحان کی اجازت و توفيق کے ساته اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینے والا اور ایسا روشن و تابندہ چراغ بناکر بهيجا کہ لوگوں اس کے ذریعہ جاہليت کے تعصبات اور جہالت کی تاریکيوں سے نجات دے اور انہيں دنيا و آخرت کے سعادت کی معراج پر پہنچا دے۔ ٨٣ ۔ حضرت امير المومنين علی بن ابی طالب عليہما السلام حدیث منزلت کے منطوق: ) “اَنتَْ مِنّی بِمَنزِْلَةِ هٰرُونَ مِن مُوس یٰ الاَّ اَنّہ لانَبی بَعَدی” ( ٢ ”تمہيں مجه سے وہ نسبت و منزلت حاصل ہے جو حضرت ہارون کو حضرت موسیٰ سے تهی مگر ميرے بعد کوئی نبی نہيں آئے گا” کی بنا پر پيغمبر اکرم (ص) کے تمام کمالات کے حامل تهے سوائے منصب نبوت کے جو انہيں کی ذات اقدس سے مخصوص ہے۔ اور آیہٴ مباہلہ ميں “اَنفُْسَ اٰن” بهی اسی معنی کی وضاحت کرتا ہے۔ اور علی - کے گيارہ عزیز جو اسی شجرہٴ طيبہ سے تهے انبياء اور اوصياء کے وارث ہيں حضرت بقية الله الاعظم - امام عصر (عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف) بهی جو ان کے تمام فضائل و مناقب اور کمالات کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حامل ہيں ان کا انوار مقدسہ بهی جب تک دنيا باقی رہے خاموش نہيں ہوا ہے اور نہ ہوگا ( ١) اور الله اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے چاہے یہ بات کفار کو کتنی ہی ناگوار کيوں نہ ہو۔
٣۔ دریا /٢ ٣۔ وَ بَحْراً لا یُدْرَکُ قَعْرُہُ( وہ ایسا سمندر ہے جس کی تهاہ نہيں مل سکتی ہے( )وہ ایسا سمندر ہے جس کی تهاہ نہيں مل سکتی ہے)۔ اس ميں قرآن مجيد کی عظمت کی طرف اشارہ ہے اس اعتبار سے کہ وہ جدید نکات اور اسرار خفيّہ پر مشتمل ہے نيز اس ميں علوم کے دقائق و لطائف موجود ہيں اس کی گہرائی اور حقيقت کو درک نہيں کيا جاسکتا اگرچہ تمام ہمتوں کو بروئے کار لایا جائے۔ بہت زیادہ قوی شناور بهی جس طرح سمندروں کی گہرائی تک نہيں پہنچ سکتے قرآن مجيد کے مطالب کو بهی کہ جس کے بہت سے بطون ہيں قابل درک نہيں ہيں۔ مولف کہتے ہيں: قرآن مجيد کی بہت سی آیتوں ميں ایک قسم کے موضوعات اور عناوین نگاہوں کے سامنے آتے ہيں کہ وہ سب پيغمبر خاتم (ص) کے وجود اقدس اور ان کے اوصياء گرامی سے تعبير و تفسير کيے گئے ہيں۔ ٨۴ ۔ “ فی الکٰافی بِاسنٰادِہِ عَنْ بُرَید بْنِ مُعاوِیَةَ عَنْ اَحَدِهما عليہما السلام فی قَوْلِ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ( ٢) فَرَسُولَ اللہّٰ (ص) اَفْضَلُ الرّاسِخُون فی العِلم قَد عَلّمہ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ جَميعَ اما اَنزَْلَ عَلَيہِ منَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
التنزیل وَالتَاٴویل ، وَما کانَ اللّٰہ لينزِّل عَلَيہ شيئاً لَمْ یُعلِّمہ تاٴویلہ ، اٴوصيآئہُ مِنْ بعدِہِ یَعلمونہ کُلّہ، یَقُولُونَ آمَنَّا بِہِ کُلٌّ مِن > والَّذین لا یَعْلَمُونَ تَاٴویلَہُ اذا قالَ العالمُ فيهم بِعلمٍ ، فَاَجابَهُمُ اللّٰہ بقولہ عِندِْ رَبِّنَا>( ١) وَالقُرآن خاصٌ وَعامٌ وَمُحکمٌ وَمُتشابہٌ وناسِخٌ وَ مَنسوخٌ فالراسخون فی العِلمِ ) یَعلمونَہ۔ ”( ٢ کافی ميں اپنی سند کے ساته برید ابن معاویہ نے امام محمد باقر - یا امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ آیہٴ کریمہ کے بارے ميں فرمایا: رسول خدا (ص) راسخون فی العلم ميں افضل ہيں، یقينا الله تعالیٰ نے انہيں ان تمام چيزوں کا علم دیا تها جو چيزیں ان پر تنزیل اور تاویل (قرآن) کی رو سے نازل کی تهيں اور الله تعالیٰ نے آنحضرت (ص) پر کوئی ایسی شے نازل نہيں کی جس کی تاویل نہ بتادی ہو اور آنحضرت (ص) کے بعد ان کے اوصيائے گرامی بهی ان تاویلات کے جاننے والے ہيں وہ لوگ جو نہيں جانتے ( شيعيان اہل بيت) تو جب عالم آل محمد ان کو آگاہ کرتا ہے تو وہ کہتے ہيں کہ ہم اس پر ایمان لائے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔ قرآن کریم (جو بہت سے علوم پر مشتمل ہے) خاص و عام محکم و متشابہ، اس ميں ناسخ و منسوخ موجود ہے وہ لوگ جو راسخون فی العلم ہيں تمام علوم قرآن کو جانتے ہيں۔ اسی کتاب ميں دوسری حدیث ميں عبد الرحمن ابن کثير نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: ) ٨۵ ۔ “الرّاسخون فی العلم اٴمير الموٴمنين والائمّة من بعدہ عليہم السّلام” : ( ٣ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راسخون فی العلم حضرت امير المومنين - ہيں اور ان کے بعد ائمہٴ ہدیٰ ہيں۔ و قال تعالیٰ : ( ١ الله تعالیٰ نے فرمایا: اگر روئے زمين کے تمام درخت قلم بن جائيں اور سمندر کا سہارا دینے کے ليے سات سمندر اور آجائيں تو بهی کلمات الٰہی تمام ہونے والے نہيں ہيں بے شک الله صاحب عزت بهی ہے اور صاحب حکمت بهی ہے۔ و قال تعالیٰ : ( ٢ الله تعالیٰ نے فرمایا: آپ کہہ دیجيے کہ اگر ميرے پروردگار کے کلمات کے ليے سمندر بهی روشنائی بن جائيں تو کلمات رب کے ختم ہونے سے پہلے ہی سارے سمندر ختم ہوجائيں گے چاہے ان کی مدد کے ليے ہم ویسے ہی سمندر اور بهی لے آئيں۔ دونوں آیہٴ کریمہ کے معنی کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کبهی تمام سمندروں کے پانی روشنائی ہوجائيں اور اس ميں چند برابر اضافہ ہوجائے اور جو کچه روئے زمين ميں درخت موجود ہيں قلم ہوجائيں (اور جن و انس کاتب) کلمات الٰہی کو تحریر کریں یا احصاء کریں تو تمام سمندر ختم ہوجائيں گے مگر کلمات خداوندی کبهی بهی ختم نہيں ہوں گے۔ آیات کریمہ کی تفصيل اور حضرت موسیٰ ابن جعفر - سے جناب موسی مبرقع کا آیت کے تمام پہلوؤں کا دریافت کرنا اور حضرت کا جواب دینا کہ ہم کلمات الٰہی ہيں کہ ان کے فضائل و مناقب (جو الله نے اپنے فضل سے عطا فرمایا) کی کنہ و حقيقت تک ہرگز نہيں پہنچ سکتے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۔ شاہراہ /٢ ۴۔ وَ منهاجاً لا یَضَلُّ نَهْجُہُ ( ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والا بهڻک نہيں سکتا ہے( )ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والا بهڻک نہيں سکتا ہے)۔ ایسی مستقيم اور روشن شاہراہ ہے جو ہر قسم کی کجی سے خالی، اس کی علامات اور نشانياں نصب کی ہوئی ہيں جو ہميشہ چلنے والوں کو حق و حقيقت کی راہ پر چلنے کی ہدایت کرتی ہيں، اس کے سالکين کبهی بهی منحرف اور گمراہ نہيں ہوں گے۔ جس طرح قرآن مجيد ميں سيدها راستہ ہے کہ اس کے تمام پيروکار منحرف اور گمراہ نہيں ہوں گے، پيغمبر اکرم (ص) اور ان کے اوصياء و اہل بيت اطہار بهی صریحی آیات و روایات کی بنا پر سيدها راستہ ہيںجس ميں داہنی اور بائيں طرف بغير منحرف ہوئے گم گشتہٴ راہ اور حيرت زدہ افراد کو اپنی طرف جذب کرتے ہيں۔ اور انہيں کجی اور گمراہی سے نجات عطا کرتے ہيں، الله تعالیٰ قرآن کریم ميں پيغمبر اسلام (ص) کو خطاب کرکے فرماتا ہے: ( ١) آپ کہہ دیجيے کہ یہی ميرا راستہ ہے کہ ميں بصيرت کے ساته خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں اور ميرے ساته ميرا اتباع کرنے والا بهی ہے (اس دعوت ميں یعنی ميرے اوصياء جو تمام جہات ميں ميرے وارث ہيں) اور خدائے تبارک و تعالیٰ پاک و بے نياز ہے اور ميں مشرکوں ميں سے نہيں ہوں۔ و قال اللّٰہ تعالیٰ : ( ٢ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: اور یہ ہمارا سيدها راستہ ہے (کہ اس ميں کسی قسم کی کجی اور انحراف نہيں پایا جاتا) لہٰذا اس کا اتباع کرو اور کبهی بهی دوسرے راستوں کے پيچهے نہ جاؤ کہ راہ مستقيم اور حق کے راستہ سے الگ ہوجاؤ (الله تعالیٰ نے اس اہم امر کی ولایت کے طور پر) تمہيں نصيحت کی ہے کہ اس طرح شاید متقی اور پرہيز گار بن جاؤ۔ ٨۶ ۔ شيخ المحدثين غوّاص بحار الانوار، علامہ مجلسی (عليہ الرحمة و الرضوان) اپنی کتاب بحار ميں شيخ جليل القدر نے ابو عمرو محمد ابن عمر ابن عبد العزیز رحمة الله عليہ سے اپنی رجال جو رجال الکشی کے نام سے مشہور ہے اپنے اسناد کے ساته حمزہ سے انہوں نے اپنے پدر بزرگوار محمد طيار سے روایت نقل کی ہے کہ : ميں نے امام محمد باقر - کے بيت الشرف ميں داخل ہونے کے ليے اجازت طلب کی تاکہ حضرت کی خدمت ميں شرف یاب ہوں مجهے اجازت نہيں دی ليکن ميرے علاوہ دوسروں کو اجازت دی، ميں بہت رنجيدہ خاطر ہو کر واپس پلڻا، خود کو گهر کے ایک موجودہ تخت پر گرا دیا تها ليکن ميری آنکهوں سے نيند اڑ گئی، ميں خود فکر کر رہا تها اور کہہ رہا تها : کيا مرجئہ، قدریہ، حروریہ اور زیدیہ ایسا نہيں کہتے کہ ہم ان کی بات کو باطل و فاسد کریں، ميں اسی فکر ميں تها کہ ایک آواز دینے والے نے دروازہ پر آواز دی، ميں نے دیکها کہ دروازہ پر کسی نے دستک دی، ميں نے دریافت کيا: تم کون ہو؟ کہا: ميں ابو جعفر امام محمد باقر - کا فرستادہ ہوں امام نے تمہيں طلب کيا ہے، ميں نے اپنا لباس پہنا اور ساته ميں حضرت کی خدمت ميں پہنچے جب ميں گهر ميں داخل ہوا تو مجهے دیکه کر فرمایا: ”یا محمَّد لا اِلی المرجئةِ وَلا اِلَی القَدِریَّہ وَلا اِلَی الحَروریَةِ وَلا اِلَی الزَّیدیةِ وَ کٰلن اليَنا وَانَّما ) حَجَتُکَ لِکذا وَکَذَا فقبلت وَقُلتَ بِہ ” ( ١ اے محمد! نہ مرجئہ کے گهر کے دروازے پر نہ حروریہ کی طرف نہ قدریہ کی جانب اور نہ ہی زیدیہ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ٧۴ ، بحار الانوار، ج ۶، ص ٢٧١ ۔ (
سمت (ان ميں سے کسی کی طرف) جانے کی ضرورت نہيں ہے بلکہ ميرے گهر کے دروازہ پر آؤ (وہ سب کے سب شاہراہ مستقيم سے نکل کر ضلالت و گمراہی کی سنگلاخ وادی ميں پڑے ہوئے ہيں) ليکن ہمارا راستہ سيدها اور شاہراہ ہدایت و سعادت ہے اور یہ کہ ميں نے تم کو اجازت مرحمت نہيں فرمائی وہ کچه مصلحتوں کی بنا پر تهی جس کی وجہ سے ميں مانع ہوا۔ راوی کا بيان ہے : حضرت کی بات کو قبول کيا اور اپنے عقيدہ پر ثابت رہا۔ یہ چار فرقے جو روایت ميں ذکر ہوئے ہيں ان کے اعتقادات دین اسلام اور عقائد حقّہ کے مخالف ہيں : ١ (ليکن مرجئہ کا عقيدہ یہ ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے کسی قسم کی نافرمانی انسان کو نقصان نہيں پہنچا سکتی جس طرح کفر کے ہوتے ہوئے کسی قسم کی اطاعت فائدہ نہيں بخشتی، اور کہتے ہيں: جو شخص نماز نہ پڑهے روزہ نہ رکهے غسل جنابت نہ انجام دے خانہٴ کعبہ کو خراب کرے اور اپنی ماں کے ساته زنا کرے تو وہ جبرئيل و ميکائيل کے ایمان پر باقی ہے۔ شياطين کے وسوسوں سے ہم خدا کی پناہ طلب کرتے ہيں۔ ٢ (ليکن قدریہ، لفظ “قدری” روایات ميں جبری اور تفویض دونوں مذاہب والوں کے ليے استعمال ہوا ہے ليکن اس مقام پر دوسری قسم ہماری مورد بحث ہے جو تفویض ہے، ان کے عقائدميں یہ کہا گيا ہے کہ وہ کہتے ہيں: کسی بهی قسم کا خير و شر تقدیر اور مشيت الٰہی کی بنا پر نہيں ہے اور بعض نے اس کے برخلاف بات کہی ہے وہ یہ کہ ان کا عقيدہ یہ ہے کہ تمام خير و شر مشيت الٰہی کی بنا پر نہيں واقع ہوتے ہيں۔ بہرحال روایت صحيحہ ميں ذکر ہوا ہے کہ ستّر پيغمبروں کی زبانی قدریہ کے فرقوں پر خدا نے لعنت کی ہے۔ پيغمبر اسلام (ص) سے صحيح روایت کے ساته یہ بات ہم تک پہنچی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: قدریہ ميری امت کے مجوس ہيں نيز فرمایا: جب قيامت ہوگی اہل محشر کو آواز دینے والا آواز دے گا: “این خصماء اللّٰہ” دشمنانِ خدا کہاں ہيں؟ تو قدریہ لوگوں کے درميان سے اڻه کهڑے ہوں گے اور وہ مشخص ہوجائيں گے۔ ٣ (ليکن حروریہ، جو خوارجِ نہروان کے ایک گروہ کے لوگ ہيں، وہ حروراء سے منسوب ہيں کوفہ کے نزدیک ایک محلہ جہاں ان کا پہلا اجتماع ہوا تها اور نہروان کے مشہور خوارج کہ جنہوں نے حضرت امير المومنين - کے خلاف خروج اور قيام کيا تها جن کی تعداد بارہ ہزار تهی حضرت امير المومنين - نے گفت و شنيد کے بعد امان کا پرچم ابوتراب - کو عطا کيا اور آوازی دی: جو بهی اس پرچم کے سائے ميں آجائے یا اس گروہ کے درميان سے باہر جائے امن و امان ميں ہوگا، تو ان ميں سے آڻه ہزار برکنار ہوگئے، بقيہ افراد اپنی مخالفت پر باقی رہے اور وہ سب کے سب نہروان ميں قتل کيے گيے سوائے نو افراد کے کہ جس کی تفصيل کتب تواریخ ميں ذکر ہوئی ہے۔ ۴ (ليکن زیدیہ: امام جعفر صادق - سے ناصبی اور زیدیہ کو صدقہ دینے کے بارے ميں دریافت کيا گيا تو فرمایا: انہيں کوئی چيز صدقہ نہ دیں اور اگر ہوسکے تو انہيں ایک گهونٹ پانی بهی نہ دو پهر فرمایا: زیدیہ نصّاب ہيں یعنی حضرت امير المومنين سے تعصب اور عداوت رکهتے ہيں۔ ٨٧ ۔ دوسری روایت ميں نقل ہوا ہے کہ زیدیہ اور واقفيہ اور نصّاب ایک ہی درجہ ميں ہيں اور اعتقادات ميں برابر ہيں ان کے حق ميں یہ آیات نازل ہوئيں۔ ( ١) (اس دن بہت سے چہرے ذليل اور رسوا ہوں گے محنت کرنے والے تهکے ہوئے)۔ ٨٨ ۔ رسول خدا (ص) نے معراج کی شب ميں مرجئہ، قدریہ، حروریہ، بنی اميہ اور نواصب کو دیکها کہ سب کے سب کو آتش جہنم ميں ڈال رہے ہيں، تو آنحضرت (ص) سے کہا گيا ان پانچوں گروہ کا اسلام ميں کوئی حصہ نہيں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ غاشيہ، آیت ٢،٣ ۔ (
٨٩ ۔ تاریخ ميں نقل ہوا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امير المومنين - مسجد کوفہ ميں تشریف فرما تهے تو اپنی انگشت مبارک سے روئے زمين پر تين عدد خط کهينچ کر فرمایا: داہنے اور بائيں گمراہ ہيں اور درميانی خط سيدها اور نجات عطا کرنے والا ہے۔ راہ مستقيم وہی راستہ ہے کہ جسے دین مقدس کے اماموں اور انبياء و اوصياء نے طے کيا ہے اور ہماری بهی اس کی طرف ہدایت اور رہنمائی فرمائی ہے الله تعالیٰ نے اسی صراط مستقيم کو انبياء صدیقين شہداء اور صالحين کو بطور انعام و اکرام نوازا ہے اور روزانہ کی پنجگانہ نماوزں ميں الله تعالیٰ سے درخواست کرتے ہيں کہ ہميں حق و حقيقت کے راستے پر ثابت قدم رکهنا اور جو ہميں یہ عظيم نعمت عنایت فرمائی ہے اس کو ہم سے سلب نہ کرنا۔ وہی صراط مستقيم کہ پيغمبر اکرم (ص)اور تمام اوصياء کرام نے سب کو اسی کی طرف دعوت دی ہے اب غيبت کبریٰ کے زمانہ ميں اس راستہ کی طرف رہنمائی کرنے والی ذات گرامی امام زمانہ - کی (عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف) ہے۔ اللهُّٰمَّ یارَّبنا اِهدِنا اِلیَ الحَقّ وَالی طَریقٍ مُستقيمٍ صِراطَ الَّذینَ اَنعَْمتَْ عَلَيہم غَيرِ المغضُْوبِ عَلَيہم وَلا الضّاليّن آمين رب العالمين اے خدا! اے ميرے پروردگار! ہميں حق کی طرف ہدایت فرما اور صراط مستقيم پر گامزن رکه جو اِن لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتيں نازل کی ہيں ان کا راستہ نہيں جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہيں۔ آمين یارب العالمين۔
۵
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
۵۔ روشنی /٢ ۵۔ وَ شُعاعاً لا یُظلَمُ ضَوْئُہُ (ایسی درخشاں روشنی ہے کہ جس کی ضو تاریک نہيں ہوسکتی ہے( قرآن مجيد ایسی نورانی کرن ہے کہ جس ميں ظلمت و تاریکی عارض نہيں ہوسکتی ہے۔ یہ اس کی حقانيت کی طرف اشارہ ہے، یعنی اس کا خدا کی جانب سے ہونا برحق ہے، جيسا کہ واضح اور روشن ہے کہ جس ميں کسی قسم کا شک و شبہ نہيں پایا جاتا اور باطل کی ظلمت کا شائبہ بهی اس ميں قرار نہيں پاسکتا جيسا کہ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ١) یہ وہ کتاب ہے جس ميں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہيں ہے۔ اور الله تعالیٰ نے فرمایا ( ٢ بے شک جن لوگوں نے قرآن کے آنے کے بعد اس کا انکار کردیا ان کا انجام برا ہے اور یہ ایک عالی مرتبہ کتاب ہے جس کے قریب سامنے یا پيچهے کی طرف سے باطل آبهی نہيں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکيم و حميد کی نازل کی ہوئی کتاب ہے۔ ٩٠ ۔ و فی تفسير القمی:: قالَ لا یاٴتيہ الباطِلُ ) مِن قِبَلِ التَّوراة وَلا مِن قِبَلِ الانجيلِ وَالزَّبُورِ وامَّا من خَلفِْہِ لا یاتيہِ مِن بَعدِہِ کِتابٌ یبطْلہ۔ ( ٣ علی ابن ابراہيم قمی رحمة الله عليہ نے اپنی تفسير ميں اس آیہٴ کریمہ کے ذیل ميں ذکر کيا ہے کہ نہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توریت ميں سے نہ ہی انجيل و زبور ميں سے کوئی بهی شے قرآن کریم کے کسی مطلب کو باطل کرنے کے ليے آئی ہے اور نہ ہی قرآن کے بعد کوئی کتاب آئے گی جو اسے باطل کرکے نيست و نابود کردے۔ ٩١ ۔ شيخ بزرگوار علامہ طبرسی نے اپنی کتاب مجمع البيان ميں ذکر کيا ہے: “و قِيل اِنَّ الباطِلَ الشَّيطانُ” یعنی کہا گيا ہے کہ شيطان کو اتنی طاقت نہيں ہے کہ اس ميں سے کسی حق کو اڻها کر اس ميں باطل کا اضافہ کردے۔ یہ کہ باطل کسی جہت سے اس قرآن پر عارض نہيں ہوسکتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ اس کے الفاظ ميں تضاد پایا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی خبروں ميں جهوٹ پایا جاتا ہے، نہ ہی اس ميں کسی شے کا اضافہ کيا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی ردّو بدل کيا جاسکتا ہے بلکہ وہ الله تعالیٰ کی طرف سے صبح قيامت تک ہر مکلف کے ليے حجّت ہے، جيسا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: ( ١) ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کيا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہيں۔ مولف کہتے ہيں: حضرت پيغمبر اکرم (ص) امير المومنين اور ان کی اولاد طاہرین عليہم السلام کے انوار مقدسہ کی درخشندگی صبح قيامت تک یہاں تک کہ روز قيامت عرصات محشر ميں بهی اپنی تابانی اور نورانيت کے عروج کے آخری نقطہ پر ہوگی اور ہميشہ اپنے چہرے کی تابانيوں سے تمام شيعوں اور مومنين کو منور کریں گے۔ ٩٢ ۔ عَنِ الصّادِقِ عليہ السلام قالَ: انَّ مُحمَّداً وَعَليّاً عليہما السلام کانٰا نُوراً بَينَ یَدَی اللّٰہ جلّ جَلالُہُ قبلَ خَلقِ باَلْفَی عامٍ وَاِنَّ الملائکة لمّا راٴت ذلِکَ النّور راٴت لَہْ اصْلاً وَقد انشَعَب مِنہ شُعاعٌ لامعٌ فقالَت:ْ الهَنا وسيَّدنا ما هذا النّورُ ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ حجر، آیت ٩۔ (
فَاوْحیَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اليهمْ هذا نورٌ مِنْ نُوری ، اصْلُہُ نبوّة وَفَرعہ امامة فَامّا النبوَّةُ لِمحمدٍ (ص) ) عَبدی وَرَسُولی وَاَمَّا الاِمامَةُ فَلِعَلیٍّ حُجّتی وَوليّی وَلَولْا هُما اٰ م خَلَقتُْ خَلقْی۔ ( ١ علامہ مجلسی رحمة الله عليہ نے بحار الانوار ميں امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: محمد اور علی عليہما السلام دونوں خدائے عزوجل کی خدمت اقدس ميں مخلوقات کی خلقت سے دو ہزار سال پہلے نور کی شکل ميں تهے اور جب ملائکہ نے ان انوار مقدسہ کا مشاہدہ کيا کہ جن کی اصل و اساس ہے اور اس سے روشن شعاع چمک رہی ہے تو عرض کيا: اے خدائے عزوجل اور ميرے مولا! یہ کون سا نور ہے (جو اس طرح چمک رہا ہے) ؟ الله تعالیٰ نے ان کی طرف وحی نازل کی کہ یہ ميرے نور کا ایک حصہ ہے جو ميرے نور سے (مشتق) ہے اس کی اصل اور ریشہ نبوت ہے اور اس کی شاخ امامت ہے ليکن امامت محمد (ص) سے مخصوص ہے جو ميرا بندہ اور رسول ہے ليکن امامت حضرت علی کی خصوصيات ميں سے ہے جو ميرا ولی اور حجّت ہے اگر ان کا وجود نہ ہوتا تو ميں اپنی مخلوقات کو پيدا نہ کرتا یعنی تمام کائنات ان کے وجود کی برکت سے ہے۔ (یہ مکمل روایت بحار الانوار ميں موجود ہے ہم نے اختصار کو لحاظ رکهتے ہوئے صرف اپنے محل شاہد کو بيان کيا ہے قارئين کرام رجوع کریں)۔ ٩٣ ۔ “عِنّ ابی ذِرِّالغفارِی قالَ قالَ رَسول اللّٰہ (ص) یَردُ عَلیّ الحَوْضَ رایةُ امير الموٴمنين وَامامَ الغُرِّ المحجّلِينَ ، فَاَقُومُ فَآخُذُ بِيَدِہِ فَيبيضُّ وَجهُْہُ وَوُجُوہُ اصحابِہِ، فاَقولُ اٰ م خَلّفتمُوُنی فی الثَّقَلَينِ بَعدْی فيَقولُونَ تَبَعنَا الاٴکَبرَ وَصَدَّقناہُ وَاوازَرنَْا الاصغَْرَ وَ نَصرناہُ ، وَقَتَلنْا مَعَہُ، فَاَقولَ رَوُّوا روّاءً مَروِیّين فَيَشربونَ شَربْةً لا یظمْاٴ وُنَ بَعدَْها ، وَجہُ امامِهِم کالشَّمسِ الطّالِعَةٍ وَوُجُوهُهُم کَالقَْمَرِ لَيلَْة البَدرِ وَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ١۵ ، ص ١١ ۔ (
) کَاَ ضوْاءِ نَجمٍْ فی السَّ مٰآءِ ” ( ١ مزید علامہ مجلسی عليہ الرحمہ نے بحار الانوار ميں ابوذر غفاری (رضوان الله عليہ) سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمایا: (قيامت کے دن) حوض کوثر پر حضرت امير المومنين امام الغرّ المحجلين(یعنی جو روشن و منور پيشانی والے مومنين کے امام ہيں کہ ان کی پيشانياں ان بزرگوار کے نور ولایت سے تاب ناک اور روشن ہيں) حوض کوثر کے کنارے ميرے پاس اپنے پرچم کے ساته وارد ہوں گے، پهر ميں ان کا دست مبارک پکڑ کر کهڑا ہوجاؤں گا تو ان کا چہرہ اور ان کے اصحاب کا چہرہ سفيد اور منور ہوجائے گا، پهر ميں ان سے کہوں گا: تم نے ميری کتاب اور ميری دونوں امانت (ثقلين) یعنی کتاب خدا اور ميری عزت جو ميرے اہل بيت ہيں) کے ساته ميرے بعد کيسا سلوک کيا؟ تو اسی وقت اصحاب علی - کہيں گے: ہم نے دونوں ميں سے بڑی امامت قرآن کریم تهی اس کا اتباع کيا اس کی تصدیق کی اور اس کے احکام و دستورات کی پيروی کی اور چهوڻی امانت جو عترت اور اہل بيت عصمت و طہارت تهے ان کی بهی حفاظت اور نصرت و مدد کی اور ان کے سامنے درجہٴ شہادت پر فائز ہوئے، اس کے بعد ميں کہوں گا: اس آب کوثر سے سيراب ہوجاؤ وہ تمہيں خوش گوار اور مبارک ہو پهر وہ لوگ اس سے کچه پی کر سيراب ہوں گے اس کے بعد کبهی بهی دنيا ميں پياسے نہ ہوں گے۔ پهر پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ان کے امام کا چہرہ نصف النہار ميں چمکتے سورج کے مانند روشن و منور ہوگا اور ان کے اصحاب کے چہرے شب بدر کے چاند کی طرح روشن ہوں گے جيسے آسمان پر نورانی ستارے چمکتے ہيں۔ مولف کہتے ہيں: شاید ان کی مراد آقا سے خود حضرت امير المومنين - یا امام زمانہ - کا ہر دل عزیز وجود ہو جو کوکب درّی یعنی روشن چمکتے ستارہ ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔بحار الانوار، ج ٨، ص ١۵ ۔ (
اللهم ارزقنا من حوضہ بيد علی امير الموٴمنين ریاً رویاً لا ظماٴ بعدہ ابداً بحق محمَّد وا لہ الطاہرین اے خدا! ہميں حوض کوثر سے حضرت امير المومنين علی - کے ہاتهوں ایسا مکمل سيراب ہونے کا رزق مرحمت فرما کہ پهر اس کے بعد کبهی احساسِ تشنگی نہ ہو۔ بحق محمد و آلہ الطاہرین۔
۶ باطل کو حق سے جدا کرنے والا /٢ ۶۔ وَ فُرْقاناً لا یُخْمَدُ بُرْهانُہُ ( اور ایسا حق کو باطل کرنے والا امتياز ہے جس کی دليل کمزور نہيں ہوسکتی ہے( قرآن مجيد حق کو باطل سے جدا کرنے والی برہان ہے اور اس کی حجيت و قاطعيت ہميشہ زندہ اور گویا ہے وہ کسی وقت بهی خاموش نہيں ہوسکتا۔ انہيں براہين جليہ اور بينات واضحہ کے ساته حق و باطل کے درميان امتياز اور فرق پيدا کرنے والا ہے جيسا کہ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ١) بے شک یہ قول فصل ہے اور وہ مذا ق نہيں ہے۔ اور الله تعالیٰ کا قول ہے: ( ٢) لوگوں کے ليے ہدایت ہے اور اس ميں ہدایت اور حق و باطل کے امتياز کی واضح نشانياں موجود ہيں۔ دونوں آیات مبارکہ اس بات کی صراحت کرتی ہيں کہ قرآن کریم سنجيدہ کلام ہے اور حق و باطل کے درميان نزاع کا فيصلہ کرنے کے ليے قطعی حجّت و دليل موجود ہے۔ مولف کہتے ہيں: حضرت بقية الله الاعظم امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا مقدس وجود اور ان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کے آباء و اجداد گرامی عليہم السلام جو تمام انبياء کے علوم کے وارث ہيں اور وہ وحی الٰہی سے اخذ کيا گيا ہے وہ لوگ خود حق محور اور حق مدار ہيں اور حق ميں سے جو چيز بهی لوگوں کے ہاته ميں ہے انہوں نے اسی خاندان جو وحی و تنزیل کے معادن و مرکز ہيں سے اخذ کيا ہے اور یہ بات فطری ہے جاہل کو حق سے جدا کرنے والے بهی ہيں۔ ٩۴ ۔ “فی الکافی بِاسنْادِہِ عَنْ مُحمَّد بن مُسلمٍ قالَ سمعت اَبا جَعفَرٍ عليہ السلام یَقولُ لَيس عندَ اَحَد مِنَ النّاسِ حقٌ وَلا صَوابٌ وَلا اَحَدٌ مِنَ النّاسِ یَقضی بِقَضاءِ حَقٍّ الاَّ ماخَرَجَ مِنّا اَهلَ ) البَيتِ وَاِذٰا تَشعبَتْ لهُمُ الاٴُمُورُ کٰانَ الخَطاٴ مِنهم وَالصّوابُ من عِلیٍّ عليہ السلام ” ( ١ کافی ميں کلينی اپنی سند کے ساته نقل کرتے ہيں کہ محمد ابن مسلم کا بيان ہے: ميں نے حضرت امام محمد باقر - سے سنا ہے کہ کسی بهی انسان کے پاس عمل اور حق و حقيقت پر مبنی صحيح بات نہيں پائی جاتی اور نہ ہی کوئی شخص خدا کے حکم کے مطابق صحيح اور حق کے ساته فيصلہ کرسکتا ہے مگر یہ کہ ہم اہل بيت (عصمت و طہارت) ہی سے اس کو اس نے دریافت کيا ہے لہٰذا جب ایسے امور ان سے شائع ہوں تو ان ميں جو (حق و باطل کے ساته مخلوط ہوں) خطا اور باطل پر مبنی ہوں گے تو وہ ان لوگوں کی طرف سے ہوں گے اور جو حق و صواب پر مبنی ہوں گے وہ حضرت علی - کی طرف سے ہوں گے۔ ٩۵ ۔ “وفيہ ایضاً باسنادہ عن ابی بصير ، قالَ ساٴلت اَبا جَعفَر عليہ السلام عَن شَہادَة وَلَد الزّنا تجُوزُ؟ فَقال لا ، فَقُلْتُ اِنَّ الحَکَمَ بن عُتيْبَة یزعَمُ انّها تجوزُ فَقالَ: اللّهم لاٰ تغفرُ ذَنبُہ ما قالَ اللّٰہ لِلحکَمَ : ( ٢) فَليَذهَب الحکَمُ یَميناً و شمالاً فَوَاللہّٰ لا یُوٴخَْذُ العِلمُ اِلا مِن اهلْ بيتٍ نَزَلَ عَلَيہم جَبرئيل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
) عليہ السلام ” ( ١ اسی کافی ميں ہی ابوبصير سے روایت نقل ہوئی ہے کہ وہ کہتے ہيں : ميں نے حضرت امام محمد باقر سے ولد الزنا کی گواہی کے بارے ميں دریافت کيا کہ کيا اس کی گواہی دینا جائز اور وہ نافذ ہوگی؟ تو امام - نے فرمایا: نہيں، ميں نے عرض کيا: حَکَم کہتا ہے: جائز ہے، تو امام - نے اس کو نفرین اور ملامت کرکے فرمایا: اے خدا ! تو حَکَم کے گناہ کو نہ بخشنا، خدائے عزوجل نے حَکَم بن عتبہ سے یہ نہيں فرمایا ہے کہ یہ قرآن تمہارے اور تمہاری قوم کے ليے نازل ہوا ہے، حکم جہاں بهی جانا چاہے جائے داہنی طرف یا بائيں طرف (دونوں گمراہ کرنے والے ہيں) الله کی قسم! کسی بهی قسم کا علم حاصل نہيں ہوگا سوائے ان اہل بيت کے کہ جن کے اوپر جبرئيل امين نازل ہوئے ہيں۔ ٩۶ ۔ آیہٴ کریمہ کی تفسير ميں امام جعفر صادق - سے روایت ہوئی ہے کہ حضرت نے فرمایا: ذکر قرآن ہے یا پيغمبر اسلام کی قوم ہے اور ہم سے سوال کيا جائے گا الله تعالیٰ نے ہمارے ذکر کا قصد کيا ہے اور ہم اہل ذکر ہيں اور ہم ہی سے سوال کيا جائے گا۔ )٢) ٩٧ ۔ فریقين کی روایات ميں بطور مستفيض بلکہ متواتر طریقہ سے پيغمبر اسلام سے یہ حدیث ہم تک پہنچی ہے: “ عَلِیٌّ مَعَ الحَقِّ وَالحَقُّ مَعَ عَلِیٍ یَدُورُ حَيثُْ اٰ در ”۔ ( ٣) علی حق کے ساته ہيں اور حق علی کے ساته ہے حق وہاں وہاں جائے گا جہاں علی جائيں گے۔ ٩٨ ۔ زیارت جامعہٴ کبيرہ ميں یہ فقرہ موجود ہے :وَالحقُّ معکم وَفيکُمْ وَاَنتُم اهَلہُ وَمَعْدِنُہُ الخ۔ حق آپ کے ساته آپ ميں آپ سے اور آپ کی طرف ہے آپ ہی اسی کے اہل اور راز کے معدن و مرکز ہيں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ۴٠٠ ۔ ( ٢(۔ بصائر الدرجات، ص ۶٢ ، مستدرک الوسائل، ج ١٧ ، ص ٢٧٨ ۔ ( ٣(۔ الفصول المختارة، ص ٣٣٢ ، مناقب ابن شہر آشوب، ج ٢، ص ٢۶٠ ، النص و الاجتہاد، ص ۶٩ ۔ (
٧۔ محکم اساس /٢ ٧۔ وَبُنيٰاناً لا تُهْدَمُ اَرْکانُہُ (ایسی عمارت ہے کہ جس کے ارکان منہدم نہيں ہوسکتے ہيں( آسمانی اور الٰہی کتاب عزیز ایسی عمارت ہے کہ اس کے ارکان انہدام پذیر نہيں ہيں، ایسی عمارت ہے کہ جسے بہت قوی مصالح اور محکم ستون سے اس کی اساس و بنياد رکهی گئی ہے اور اس کے تمام ارکان انجينئرنگ کے صحيح اصولوں کے ساته درست کيے گئے ہيں، اس طرح سے کہ تمام جہتوں سے ڻوڻنے اور خراب ہونے سے محفوظ رہيں قرآن مجيد کے بهی تمام الفاظ اور اجزاء بطور منظم صحيح تنظيم و ترتيب دینے والے کے ذریعے اس کے بعض جز بعض دوسرے محکم حصے سے مستحکم طور پر مرتبط ہيں، خلل ، کہنگی اور شکست عارض ہونے سے محفوظ ہيں۔ ٩٩ ۔ “وفی العُيونْ باسنادِہِ عَن مُحمّد بن مُوسیٰ الرّازی عَن ابيہ قالَ ذَکَرَ الرضا عليہ السلام یَوماً القرانَ فَعَظَّم الحجَّة فيہِ والاٴَیَةَ المُعجزَة فی نظمِْہِ فَقالَ هُوَ حَبلُْ اللہّٰ المتين وَعُروَتُہُ الوُثقی وَ طَریقتةُ المثُلْی ، الموٴدّی اِلی الجنَّةِ وَالمنجی مِنَ النّارِ ، لا یخلَقُ مِنَ الازْمِنَةِ وَلا یُغْمَتُ عَلَی الاٴلسِنَةِ لِاَنّہ لَم یُعجلَ لِزمانٍ دُونَ زَمانٍ بَل جُعِلَ دَليل البُرهْانِ ، حُجَّةً عَل یٰ کُلّ انسانٍ ، لا ) یاٴتيہِ الباطِلُ مِن بَينِ یَدَیہِ وَلا مِن خَلفِہِ تَنزیلٌ مِن حَکيمٍ حَميدٍ ۔” ( ١ کتاب عيون الاخبار الرضا ميں محمد ابن موسی رازی نے اپنے پدر بزرگوار سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: حضرت امام رضا - نے ایک دن قرآن مجيد کے بارے ميں گفتگو کی توفرمایا: اس ميں حجّت اور برہان بہت عظيم ہے ایک عاجز کردینے والی علامت اس کی نظم و ترتيب ميں پائی جاتی ہے پهر فرمایا: قرآن الله تعالیٰ کی محکم رسّی ہے اور اس خدا کا نہ ڻوڻنے والا دستہ ہے اور اس (خدائے سبحان) کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ عيون الاخبار الرضا، ج ١، ص ١٢٧ ، بحار الانوار، ج ١٧ ، ص ٢١٠ ، تفسير نور الثقلين، ج ١، ص ( ٢۶٣ ۔
بغير کجی کے سيدها راستہ ہے جو بہشت کی طرف لے جاتا ہے اور آتش جہنم سے نجات عطا کرتا ہے، زمانے کی طولانی مدت اسے بوسيدہ نہيں کرسکتی اور زبانوں پر سنگينی کا احساس نہيں ہونے دیتيں اس ليے کہ اسے کسی مخصوص زمانہ کے ليے نہيں قرار دیا گيا ہے بلکہ اسے تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی اور رہ گشائی کے ليے دليل و برہان قرار دیا گيا ہے۔ اس کے قریب سامنے یا پيچهے کسی طرف سے باطل آبهی نہيں سکتا ہے کيونکہ یہ خدائے حکيم و حميد کی نازل کی ہوئی کتاب ہے۔ حضرت ولی عصر حجة ابن الحسن العسکری عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف ناموس دہر کا مقدس وجود اور ان کے اجداد طاہرین عليہم السلام جو قرآن مجيد کے مساوی اور ثقلين کا دوسرا حصہ ہيں ان کا وجود اقدس و اطہر یکے بعد دیگرے دین مقدس اسلام کے ائمہٴ راہ حق اور صراط مستقيم کے رہبر ہيں کہ کسی بهی قسم کا باطل انحراف اور ضلالت ان ميں نفوذ نہيں کرسکتی اور کسی ایک کو بهی گمراہی کی وادی تک نہيں پہنچایا ہے۔ جس طرح قرآن کریم کسی مخصوص زمانہ اور مخصوص امت کے ليے نہيں نازل کيا گيا بلکہ تمام افراد بشر کے ليے ثابت اور محکم قوانين کے ساته نہایت بلند مضامين اور انسان ساز مطالب پر مشتمل ہے جو پيغمبر اکرم کے قلب مبارک پر نازل ہوا اور اس کے تمام علوم و مطالب کو اپنے حبيب حضرت محمد ابن عبدالله (ص) کے ہر دل عزیز قلب ميں قرار دیا نيز ائمہٴ اطہار کو تمام مخلوقات سے منتخب کيا نيز انہيں اپنا نمائندہ اور اولو الامر ميں سے قرار دیا اور تمام مخلوق پر گواہ بنایا ہے، وہ وہی ذوات مقدسہ ہيں کہ کتاب عزیز ميں انہيں راسخون فی العلم اور ہدایت کی علامات اور اہل ذکر سے توصيف کيا گيا ہے اور اپنی تمام مخلوقات کو حکم دیا ہے کہ اپنی مادی اور مصنوعی مشکلات ميں ان سے سوال کریں، یہ وہی لوگ ہيں کہ جن پر آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہيں بالخصوص شبہای قدر ميں (اس ميں ملائکہ اور روح القدس اذن خدا کے ساته تمام امور لے کر نازل ہوتے ہيں) الله تعالیٰ کے حکم سے مخلوقات خدا کی تقدیریں امام زمانہ عجل الله فرجہ الشریف کے پُر برکت ہاتهوں سے اجرا کی جاتی ہيں لہٰذا یہ عظيم ہستياں بهی قرآن مجيد کی طرح کسی خاص اور مخصوص زمانے کے ليے نہيں ہيں بلکہ صبح قيامت تک ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ رہيں گی یہاں تک کہ حوض کوثر پر پيغمبر اکرم (ص) کی خدمت ميں حاضر ہوں گی۔اللهم لا تفرّق بيننا وبينهم طرفة عين ابداً بمحمد وآلہ الطاہرین اے خدا! ہمارے اور ان لوگوں کے درميان کبهی بهی ایک لحظہ کے ليے جدائی قرار نہ دے۔ بمحمد وآلہ الطاہرین۔
٨۔ شفاء /٢ ٨۔ وَشفاءً لا تُخْشی اٴسقٰامُہُ (ایسی شفا ہے جس ميں بيماری کا کوئی خوف لاحق نہيں ہے( یعنی قرآن مجيد تمام ابدان اور ارواح کے ليے شفا بخش ہے اور ہر انسان کی روح اور بدن کا اس طرح بيمہ کردیتا ہے کہ کس بهی قسم سے کفر ق نفاق اور جہل و عناد کے جراثيم ميں سے اس کی جڑ ميں نفوذ نہيں کرسکتے ۔ موجودہ احادیث کے علاوہ تجربات اور عينی مشاہدات کے ذریعے شفا حاصل کرنے کے ليے آیات کے خواص نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مختلف اقسام کے درد و آلام اور متعدد بيماریوں کا آیات قرآنی کے ذریعے علاج کرکے شفا حاصل کی گئی ہے۔ ١٠٠ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن السکونی عن ابی عبد اللّٰہ عن آبائہ عليہم السلام قال: شَکی رَجُلٌ اِلَی النَّبی (ص) وَجَعاً فی صَدرِہِ فقالَ اِستَشفِْ بِالقرآن فَانَّ اللہّٰ عَزوجلَ یَقُولُ :< وَ ) شِفاءٌ لِما فی الصّدُورِ > ( ١ کلينی نے کافی ميں اپنی سند کے ساته سکونی سے روایت ذکر کی ہے کہ امام جعفر صادق - نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶٠٠ ، مکارم الاخلاق، ص ٣٧٨ ، عدة الداعی، ص ٢٧۴ ، بحار الانوار، ( ج ٨٩ ، ص ١٧۶ ۔
اپنے آبائے کرام سے روایت نقل کی ہے کہ : ایک شخص نے اپنے سينہ کے درد کی شکایت کی تو حضرت نے فرمایا: قرآن کے ذریعہ شفا حاصل کرو کيوں کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: قرآن ہر درد (اور اس مرض) کے ليے شفا ہے جو سينوں کے اندر ہے۔ ١٠١ ۔ سلمة ابن محرّر کا بيان ہے: ميں نے حضرت امام محمد باقر - کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص کی بيماری کا علاج سورئہ حمد نہ کرسکے تو دوسری چيز اس کو شفا نہيں عطا کرسکتی۔ اس جملہٴ مبارکہ کی تفصيل کو ( وَشفاءً لا تُخْشی اٴسقٰامُہُ ) (ایسی شفا ہے جس ( ميں بيماری کا کوئی خوف لاحق نہيں ہے) پچيسویں حصہ ميں فرمایا: “ودواء ليس معہ داء” ( ١ (یہ وہ دوا ہے جس کے بعد کوئی مرض نہيں رہ سکتا) توفيق الٰہی اور الله کی عطا کردہ قوت سے ذکر کریں گے انشاء الله تعالیٰ۔ ليکن ارواح کے علاج کی کيفيت جو جہل اور عناد جيسے امراض ميں مبتلا ہيں، مذکورہ مطالب جسے ہم نے اجمالی طور پر ذکر کيا ہے معلوم ہوا کہ قرآن کریم تمام درد اور مختلف بيماریوں جسموں سے شفا دینے والی ہے نيز تمام دلوں کو ہر اس قسم کے شک و شبہ سے شفا بخشتا ہے جو ان پرعارض ہوا ہے۔ ) الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ١ آپ کہہ دیجيے کہ یہ کتاب صاحبان ایمان کے ليے شفا اور ہدایت ہے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: < وَنُنَزِّلُ مِن القُْرآْنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَرَحمَْةٌ لِلمُْؤمِْنِينَ وَلاَیَزِیدُ الظَّالِمِينَ إِلاَّ ) خَسَارًا > ( ٢ اور ہم قرآن ميں وہ سب کچه نازل کر رہے ہيں جو صاحبان ایمان کے ليے شفا اور رحمت ہے اور ظالمين کے ليے خسارہ ميں اضافہ کے علاوہ کچه نہ ہوگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولف کہتے ہيں: شيخ بزرگوار حضرت امين الاسلام طبرسی رحمة الله عليہ نے قرآن کے شفاء ہونے کے بارے ميں چند دليل بيان کی ہے۔ ١۔ چونکہ قرآن ميں ایسے بيانات موجود ہيں جو نابينائی جہالت و حيرت اور شک و شبہ کو ختم کردیتے ہيں۔ ٢۔ چونکہ قرآن ميں ایسی نظم و ترکيب اور فصاحت و بلاغت موجود ہے جو اعجاز کی حد تک پہنچی ہوئی ہے جو نبی اکرم (ص) کی صداقت پر دلالت کرتی ہے لہٰذا قرآن اس جہت سے شفاء ہے کہ نابينائی، جہالت اور شک و شبہ کو دین اور ان کے دلوں سے برطرف کرتا ہے۔ ٣۔ قرآن اور اس کی تلاوت کے ساته بطور تبرک بيماریوں اور ناگوار چيزوں ميں اس کے ذریعہ خدا سے مدد طلب کرتے ہيں اور الله تعالیٰ اس کے وسيلے سے بہت سی ناگوار چيزوں اور مضرات کو اپنی حکمت کے تقاضوں کے تحت دور کردیتا ہے۔ ۴۔ ہر قسم کے دلائل توحيد و عدل اور شریعتوں کا بيان قرآن کریم ميں پایا جاتا ہے۔ لہٰذا لوگوں کے ليے دنيا ميں اور ان کی آخرت ميں شفاء ہے نيز مومنين کے ليے رحمت ہے یعنی ان کے ليے نعمت ہے کيونکہ ان سے ایمان کے ذریعہ انہيں نفع پہنچتا ہے ۔ طبرسی صاحب کی ) بات ختم ہوئی خدا ان کے درجات بلند فرمائے۔ ( ١ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير مجمع البيان، ج ۶، ص ۶٧٣ ۔ (
٩۔ عزت /٢ ٩۔ وَعِزّاً لا تُهزَْمُ اَن صٰارُہُ ( ایسی عزت ہے جس کے انصار پسپا نہيں ہوسکتے( یہ قرآن مجيد ہر مومن قاری کے ليے عزت و سربلندی کا باعث ہے کہ جس کے اعوان و انصار کبهی بهی مقلوب و مغلوب نہيں ہوسکتے۔ و قال اللّٰہ تعالیٰ : ( ١ الله تعالیٰ نے فرمایا: صاحبان ایمان درحقيقت وہ لوگ ہيں جن کے سامنے ذکر خدا کيا جائے تو ان کے دلوں ميں خوف خدا پيدا ہو اور اس کے آیتوں کی تلاوت کی جائے تو ان کے ایمان ميں اضافہ ہوجائے اور وہ لوگ الله ہی پرتوکل کرتے ہيں۔ و قال اللّٰہ تعالیٰ : ( ٢) الله تعالیٰ نے فرمایا: الله تعالیٰ کبهی بهی کافروں کو مومنين پر مسلط نہيں فرماتا اور ان کے پاس دین کا کوئی راستہ نہيں ہے۔ آیہٴ کریمہ کی وضاحت مومنين پر کفار کے مسلّط ہونے اور نفوذ پيدا کرنے کے ليے کہ کن مقامات پر اس کاامکان پایا جاتا ہے اور کن مقامات پر امکانات موجود نہيں ہيں، بعد والے حصّے ميں (حضرت - کے قول “ولا تخذل اعوانہ” وہ ایسا حق ہے کہ جس نے اعوان بے یارو مددگار نہيں چهوڑے جاسکتے )کے ضمن ميں آئے گا انشاء الله تعالیٰ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١٠ ۔ حقيقت /٢ ١٠ ۔ وَحَقَّا لا تُخذَْلُ اَعوْانُہ(وہ ایسا حق ہے کہ جس کے اعوان بے یارومددگار نہيں چهوڑے جاسکتے)۔ قرآن مجيد ایسا حق ہے اس کے اعوان و انصار زمانے کے کسی بهی حصے ميں بے یارو مدگار نہيں ہوسکتے اس کے اعوان و انصار سے مراد ایسے مسلمان حضرات ہيں جو حق کی معرفت رکهتے ہيں اور اس کے احکام و قوانين پر عمل کرنے والے تهے اور کسی بهی طاقت کے مقابل ميں ان کے زیر تسلط اور تحت تاثير نہيں قرار پائے کہ وہ مغلوب اور پسپا نہيں ہوتے اسی معنی ميں آیہٴ کریمہ (اور کفار کے ليے صاحبان ایمان کے خلاف کوئی راہ نہيں قرار دے سکتا) صریحی طور پر دلالت کرتی ہے۔ شيخ بزرگوار، عالی قدر مفسر طبرسی عليہ الرحمة اپنی کتاب مجمع البيان ميں آیہٴ کریمہ کے ذیل ميں رقم طراز ہيں کہ اس ميں چند اقوال پائے جاتے ہيں: ١۔ “لَن یَجعلَ اللہُّٰ لِليهودِ عَلَی الموٴُمِنينَ نَصراً وَلا ظَهُورا“ً یعنی الله تعالیٰ نے کبهی بهی کوئی ایسی چيز قرار نہيں دی ہے کہ یہود مومنين کے خلاف قيام کریں اور خدائے عزوجل مومنين پرانہيں نصرت اور غلبہ عطا کرے۔ ٢۔لَن یَجعلَ اللہّٰ لِلکافِرینَ عَلَی الموٴمنينَ سَبيلاً بِالحُجَّةِ وَانِ جاَزان یغلِبوهُم بِالقُوة کٰلنَّ الموٴمِنينَ منصُْورُونَ بِالدَّلالَةِ والحجةِ یعنی الله تعالیٰ نے مقام احتجاج اور کفار کے ساته مناظرہ کی صورت ميں ان کو مومنين کے خلاف کوئی راستہ قرار نہيں دیا ہے، اگرچہ طاقت اور ظاہری مادی قوت کی بنا پر غالب آنے کا امکان پایا جاتا ہے ليکن ایسے بهی مومنين موجود ہيں جو خدائے منّان کی طرف سے قاطع دليلوں اور حجّتوں کے ذریعہ نفوذ پيدا کرنے والے تائيد شدہ اور مدد کيے ہوئے ہيں۔ ٣۔ “لَن یَجعلَ اللہُّٰ لَهُم فِی الآخِرَةِ عَلَيهِم سَبيلا“ً یعنی خدائے عزوجل نے آخرت ميں مومنين پر یہود کو غلبہ پانے کے ليے کوئی راستہ قرار نہيں دیا ہے چوں کہ آیہٴ کریمہ کے ذیل ميں (یعنی الله ان کے درميان قيامت کے دن فيصلہ کرے گا) فرماتا ہے: ( ١) لہٰذا اگر کفار اور یہود دنياميں بهی مومنين کے خلاف کوئی راستہ، قہر وغلبہ قتل و غارت اسارت و استعمار گری اور غارت گری وغيرہ کے ذریعے کسی طرح کا غلبہ حاصل کر بهی ليں ليکن قيامت کے دن کسی بهی عنوان سے اور کسی بهی صورت ميں مومنين پر غلبہ پانے کا کوئی راستہ موجود نہ ہوگا۔ مولف کہتے ہيں: دوسرا قول اکثریت کا ہے بلکہ تمام علمائے و فقہاء اسلام کا یہی نظریہ ہے اور بارہا تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ بہت سے عام لوگوں سے نزاع اور احتجاج کے وقت اسلام کے مخالفين کے ساته ایسے کلمات اگرچہ خود ساختہ طور پر صادر ہوئے ہيںجن کے ذریعے مقابل کو پسپا کردیا اور اسے اپنی بات تسليم کرالی ہے اور آیہٴ کریمہ نے واقعی مصداق پيدا کرليا ہے اس قول کی تائيد ميں یہ آیہٴ کریمہ ہے: ( ٢ اور جو لوگ اس کے مان ليے جانے کے بعد خدا کے بارے ميں جهگڑا کرتے ہيں ان کی دليل و حجّت بالکل مہمل اور لغو ہے اور ان پر الله کا غيظ و غضب ہے اور ان کے ليے شدید قسم کا دردناک عذاب ہے۔ مولف کہتے ہيں: امام عصر ناموس دہر حضرت بقيہ الله الاعظم روحی لہ الفداء اور تمام ائمہ عليہم السلام الله تعالیٰ کے ولی امر اور برحق خليفہ اور نمائندہ تهے اور ان بزرگوار کے تمام باوفا یار و یاور مومنين ان کے حق کو پہچانتے تهے اور ان کے احکام کی بجا آوری، فداکاری اور جاں نثاری نيز ان کے مقدس وجود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کے حریم سے دفاع کرتے ہيں کوتاہی اور دریغ نہيں کيا۔ اس دعوی کی زندہ دليل صدر اسلام ميں راہ حق و فضيلت کے جاں باز سپاہی اور شہداء سے لے کر حضرت سيد الشہداء سلام الله عليہم اجمعين کے اصحاب و انصار ہيں۔ ليکن مناظرہ اور گفتگو کی جہت سے کون عالم ، فقيہ، فلسفی اور دنيا کا دانشمند ایسا ہے جو ان عظيم ہستيوں کے مقابل ميں اپنے وجود کا اظہار کرے انہيں مغلوب اور ذليل و رسوا کرنے کی بات تو بہت دور کی ہے۔
۶
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
١١ ۔ خزانہ /٢ ١١ ۔ “فَهُوَ مَعدِْنُ الایمانِ وَ بُحبوُحَتُہُ” (یہ ایمان کا معدن و مرکز ہے( پس کلام الله مجيد معدن ایمان اور مرکز ہے یعنی مرکز ایمان ہے ، اس ميں شباہت کی وجہ یہ ہے کہ معدن، رشد و ونمو کی جگہ اورمرکز ہوتا ہے جس ميں انواع و اقسام کے جواہرات سونا چاندی اور بہت سے قيمتی پتهر جيسے عقيق وفيروزہ وغيرہ ہوتے ہيں اور چوں کہ الله اور اس کے رسول پر ایمان رکهنا عقلاً اور مومنين کے نزدیک نفيس ترین اور گراں قدر جواہرات ميں سے ہے کہ جس سے بالاتر گوہری تصور نہيں کرسکتاعين اسی حالت ميں جس سے استفادہ کے ليے استخراج کيے جا رہے ہيں وہ قرآن مجيد ہے، لہٰذا حضرت امير المومنين علی نے اپنے گراں قدر کلام ميں قرآن کو اس معدن کا جوہر قرار دیا اور اس بات کو مدّنظر رکهتے ہوئے کہ ایمان کے تمام پہلووٴوں اس کے اجزاء و شرائط اور اس کے اعمال و مراسم قرآن کے محور پر گردش کرتے ہيں نيز قرآن ایک مرکز اور دائرہٴ ایمان کی بہ نسبت قطب کی حيثيت رکهتا ہے لہٰذا حضرت نے فرمایا کہ وہ مرکز ایمان ہے۔ ائمہٴ اطہار عليہم السلام اس آیہٴ کریمہ کے حکم سے معادن وحی و تنزیل اور ایمان کا ) منبع و مبداء اور سرچشمہ ہيں ( ١ ایمان کا تدریجی طور پر عطا کرنا چونکہ وہ اختلاف مراتب کا حامل ہے لہٰذا اس صاف و شفاف سرچشمہ سے ہر مومن کی صلاحيت اور قوت برداشت اور ظرفيت کے اعتبار سے عطا کيا جائے گا۔ دوسری تعبير ميں ان عظيم ہستيوں کی محبت و ولایت جو وہی ایمان ہے ایسا گوہر ہے کہ بہت قيمتی اور گراں قدر ہے کہ اگر تمام دنيا و ما فيہا اور جن چيزوں پر آفتاب کی روشنی پڑتی ہے اس سے ردّو بدل یا معاملہ کرنے کے ليے آجائيں تو وہ افراد جو صاحبانِ عقل و خرد ہيںردّ و بدل نہيں کریں گے۔
١٢ ۔ علم کا سمندر /٢ ١٢ ۔ “وَ یَنابيعُ العِلمِْ وَبُحوُرُہُ ” (علم کا چشمہ اور سمندر( تمام علوم قرآن مجيد سے نشاٴة پاتے ہيں جو دریاوٴں اور سمندروں کی صورت ميں فيض یاب ہوتے ہيں اس جہت سے کہ تمام علوم اپنے تمام اقسام کے ساته خواہ وہ الٰہيات، طبيعات، اقتصادیات اور سياسيات وغيرہ سے ہی مربوط ہوں یہ سب کے سب اسی کے قطرات کے فيوضات و برکات ہيں جو علم و دانش کے تشنہ کاموں کی تشنگی بجها کر حيات عطا کرتا ہے جس طرح چشموں سے پانی جاری ہوتا ہے اور وہ انسانوں حيوانوں چراگاہوں، کهيتوں، درختوں اور باغات کی آبياری کرتے اور وہ اس سے سيراب ہوتے ہيں۔ جس طرح دریاؤں اور سمندروں ميں آب بيکراں پایا جاتا ہے قرآن مجيد کے مضامين بهی انواع و اقسام کے علوم و فنون پر مشتمل ہيں لہٰذا (بحور) دریاؤں سے تعبير کيا گيا ہے۔ ) الله تعالیٰ نے فرمایا: < وَلاَرَطبٍْ وَلاَیَابِسٍ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِينٍ > ( ٢ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ ص، آیت ٣٩ ۔ (یہ سب ميری عطا ہے اب چاہے لوگوں کو دے دو یا اپنے پاس رکهو تم ( سے حساب ہوگا۔( ٢(۔ سورئہ انعام، آیت ۵٩ ۔ (
) الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ١ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ٢ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجيد ميں جو چاہو خشک و تر اور جو کچه آسمان و زمين ميں ہے اور ہم سے پوشيدہ ہے وہ سب کتاب مبين جو قرآن مجيد ہے اس ميں موجود ہے اور تيسری آیت ميں رسول اکرم سے خطاب ہورہا ہے کہ ہم نے کتاب (قرآن) کو آپ پر نازل کيا ہے جس ميں تمام ضروریات زندگی کی ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب تمام اطاعت گزاروں اور مسلمانوں کے ليے ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔ مولف کہتے ہيں: عالمی مصلح امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا مقدس وجود جو تمام انبياء اور اوصياء کے علوم کا وارث جو معادن وحی و تنزیل سے ہے معتبر روایات ميں اس کی طرف اشارہ کيا گيا ہے۔ ١٠٢ ۔ “وَفی الکافی بِاِسنادِہِ عَن یَحيیَ بنِْ عَبد اللہّٰ ابی الحَسَنِ صاحِبِ الدَّیلَْمِ ( ٣) قالَ سَمِعْتُ جَعْفَر بن مُحمَّد عليہما السلام یَقُولُ - وَعِندَہُ اُناسٌ مِن اهل الکُوفَةِ: عَجَباً لِلنّاسِ - انَّهُم اَخَذوا عِلمهم کُلّہ عَن رَسول اللّٰہ (ص) فَعَملوا بہِ وَاهتَدَوا یَرَونَ انَّ اَهلَْ بيتہ لَم یاٴخذُوا عِلمَہ وَنَحن اهلُ بيتہ وَذُریّتہ ، فی مَنازِلِنا نَزَلَ الوَحیُ وَمِن عِندنا خَرَجَ العِلم اليهمِ ، اٴفَيرَونَْ انَّهُم عَلِموا وَاهتَدواْ وَجَهِلنا نَحنُْ وَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٣(۔ علی الظاہر حدیث کے راوی یحيیٰ ابن عبدالله ابن الحسن ہيں جيسا کہ رجال کی کتابوں ( ميں موجود ہے۔ ) ضَلَلْنا ، اِنَّ هذا لمحالٌ۔ ( ١ شيخ بزرگوار کلينی رحمة الله عليہ نے کتاب کافی ميں اپنی سند کے ساته یحيیٰ ابن عبدالله ابو الحسن صاحب دیلم سے روایت کی ہے وہ کہتے ہيں کہ : ميں نے حضرت امام محمد باقر - سے سنا: آپ کے پاس کوفہ کے کچه لوگ (بيڻهے ہوئے) تهے (مجهے بہت زیادہ تعجب ہے) ان لوگوں پر جو یہ کہتے ہيں کہ انہوں نے اپنے تمام علوم کو رسول خدا (ص) سے حاصل کيا ہے اس پر عمل کيا اور ہدایت پائی اور وہ یہ خيال کرتے ہيں کہ ان کے اہل بيت نے ان کا علم نہيں حاصل کيا در آن حاليکہ ہم آنحضرت کے اہل بيت اور اس کی ذریت ہيں ہمارے گهروں ميں وحی نازل ہوئی ہمارے ہی گهر سے ان لوگوں کو علم حاصل ہوا ہے کيا وہ یہ وہم و گمان کرتے ہيں کہ ان لوگوں نے علم حاصل کيا ہدایت پائی اور ہم جاہل اور گمراہ ہوئے یقينا یہ امر محال ہے۔ ١٠٣ ۔ “وفيہ ایضاً بِاِسنادِہِ عنِ الحکَمَ بن عُتيبة قالَ: لَقی رَجُلٌ الحُسَينَ بنَْ عَلیٍ عليہما السلام بِالثعلبيَّةَ وَهُوَ یرید کَربَْلا ، فَدَخَلَ عَلَيہِ فَسَلَّم عَلَيہِ ، فَقالَ لَہُ الحُسين عليہ السلام : مِن ایِّ البلاد انتَ؟ قالَ : مِن اهْل الکُوفَةِ ، قالَ اما واللّٰہ یا اَخا اَهل الکُوفة لَو لَقِيتُکَ بِالمدینةِ لاٴ رَیتُکَ اَثَرَ جَبرَئيلَ عليہ السلام مِن دارِنا وَنُزُولَہُ بالوَحی عَلی جَدّی ، یا اَخا اَهلِ الکُوفَةِ اٴَفَمُستَقَی النّاسِ ) العِلمَ مِن عَندنا فَعَلموا وَجَهِلنا ؟ هذ ا مَا لایَکُونُ ” ( ٢ نيز اس کتاب کافی ميں حکم ابن عتيبہ سے اپنی سند کے ساته روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہيں: ایک شخص نے مقام ثعلبيہ پر حضرت سيد الشہداء حسين بن علی عليہما السلام سے ملاقات کی جب آپ کربلا جانے کا قصد رکهتے تهے تو وہ حضرت کے پاس آیا ، سلام کيا امام حسين نے اس سے دریافت کيا: تم کس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٣٩٩ ۔ ( ٢(۔ کافی ، ج ١، ص ٣٩٨ ۔ (
شہر کے رہنے والے ہو؟ اس نے کہا: ميں کوفہ کا باشندہ ہوں ، فرمایا: خدا کی قسم! اے کوفی بهائی! اگر آپ مجه سے مدینہ ميں ملاقات کرتے تو ميں یقينا آپ کو اپنے گهر ميں جبرئيل کا وہ نشان اور اپنے جد پر وحی نازل ہونے کے مقام کی نشان دہی کراتا، اے برادرِ کوفی! کيا ایسا ہوسکتا ہے کہ لوگوں نے تو ہمارے سرچشمہٴ علم سے سيرابی حاصل کی ہو اور وہ اس سے باخبر ہوں ليکن خود ہم لوگ جاہل رہ جائيں؟! ایسا ہرگز نہيں ہوسکتا۔ ١٠۴ ۔ “فی البَصآئر بِاسنادِہِ عَن زُرارَةٍ قالَ کُنتُْ قاعِداً عِندَ ابی جَعفرٍ عليہ السلام فَقالَ رَجُلٌ مِن اَهْل الْکوفَةِ یَسئَلُہُ عَن قَول امير الموٴمِنينَ عليہ السلام سَلُونی عَمّا شِئتم وَلا تَسئلونی عَن شَیء اِلاَّ انبْاٴتکُم بِہِ فَقالَ انَّہ لَيسَ اَحَدٌ عِندَہُ عِلمٌ الاَّ خَرَجَ عِند امير الموٴمنينَ عليہ السلام فَليذْهَب النّاس حَيثُ شآوٴوا فواللّٰہ ليَاٴ تيهم الاَمر مِن هٰيهنا وَاَشار بيدہ الیَ المَدینةِ ( الی بيتہ )” )١) محدث جليل القدر شيخ القميين ابو جعفر محمد ابن حسن صفار نے کتاب بصائر الدرجات ميں اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساته زرارہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ميں حضرت امام محمد باقر - کی خدمت اقدس ميں بيڻها ہوا تها کہ کوفہ کے رہنے والے ایک شخص نے حضرت سے دریافت کيا کہ حضرت امير المومنين علی کے اس قول کے کيا معنی ہيں (جو چاہو مجه سے سوال کرلو لہٰذا جو چيز بهی تم مجه سے دریافت کرو گے ميں اس چيز کے بارے ميں تم کو باخبر کروں گا) تو امام محمد باقر نے فرمایا: حقيقت ميں کسی شخص کے پاس علم نہيں ملے گا مگر یہ کہ وہ حضرت امير المومنين علی - کی طرف سے حاصل ہوا ہے، تمام لوگ جدهر چاہيں چلے جائيں خدا کی قسم ! جو کچه انہيں علم ملے گا یہاں سے ملے گا، یہ کہتے ہوئے اپنے دست مبارک سے مدینہ کی طرف اشارہ فرمایا: (کتاب وافی کے نسخہ ميں ذکر ہوا ہے کہ اپنے گهر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، ص ٣٢ ۔ (
کی طرف اشارہ کيا)۔ ١٠۵ ۔ “فی الکَافی بِاسنادِہِ عَن مُحمّدِ بن مُسلِم قالَ : سَمِعت اَبا جَعفَْرٍ عليہ السلام یَقُولُ : لَيس عِندْ اَحَدٍ مِنَ النّاسِ حَقٌ وَلا صَوابٌ وَلا اَحَدٌ مِنَ النّاسِ یَقضْی بِقَضآء حَقٍ الاَّ ماخَرَجَ مِنّا ) اَهلَْ البَيتِ وَاِذا تَشَعَّبَت بِهِمُ الاُمُورُ کاَن الخَطاء مِنهُم وَالصوابُ مِن عَلیٍ عليہ السلام ” ( ١ کافی ميں کلينی عليہ الرحمة نے اپنی سند کے ساته محمد ابن مسلم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ميں نے حضرت امام محمد باقر - کو یہ کہتے سنا ہے کہ: کسی بهی انسان کے پاس درست کام اور حق و حقيقت پر مبنی صحيح بات نہيں پائی جاتی اور نہ ہی کوئی شخص خدا کے حکم کے مطابق صحيح اور حق کے ساته فيصلہ کرسکتا ہے مگر یہ کہ ہم اہل بيت (عصمت و طہارت) ہی سے اس کو اس نے دریافت کيا ہے لہٰذا جب ایسے امور ان سے شائع ہوں تو ان ميں جو (حق و باطل کے ساته مخلوط ہوں) خطا اور باطل پر مبنی ہوں گے تو وہ ان لوگوں کی طرف سے ہوں گے اور جو حق و صواب پر مبنی ہوں گے وہ حضرت علی ابن ابی طالب - کی طرف سے ہوں گے۔ ١٠۶ ۔ “و فيہ با سنادہ عن ابی مریم قال : قالَ ابُو جَعفَْرٍ عليہ السلام لِسَلمَْةِ بن کُهَيل ) وَالحَکَمِ بن عُتبْةَ شَرِّقا وَ غَرِّبا فَلا تَجِدانِ عِلماً صَحيحاً اِلاَّ شَيئاً خَرَجَ مِن عِندِ نا اَهلَْ البَيتِ ” ( ٢ اسی کتاب ميں کلينی اپنی سند کے ساته ابو مریم سے روایت کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا: حضرت باقر العلوم امام محمد باقر - نے سلمة ابن کهيل اور حکم ابن عتبہ سے فرمایا کہ : دنيا کے مشرق و مغرب ميں جہاں کہيں بهی جاؤ مگر صحيح علم (جو تمہاری دنيا و آخرت کی سعادت کے راستہ کی طرف لے جائے ( ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٣٩٩ ۔ ( ٢(۔ اصول کافی، ج ١، ص ۴٩٩ ۔ (
تمہيں نہيں مل سکتا سوائے یہ کہ وہ ہم اہل بيت کے گهر سے نکلا ہوگا۔ ١٠٧ ۔ “وفيہ ایضاً بِاِسنادِہِ عَن بَصيرٍ قالَ: قالَ لی : اِنَّ الحَکَمِ بن عُتيبةَ مِمَّن قالَ اللّٰہ ( ١)فَليُشَرَّقِ الحَکَمُ وَ ليُغرّب ، اٴما وَاللّٰہ لا ) یُصيبُ العِلم اِلا مِن اهلِ بَيتٍ نَزَل عَلَيهم جَبرئيلُ عليہ السلام” ( ٢ اسی کتاب ميں کلينی اپنی سند کے ساته ابو بصير سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے (شاید یہ حدیث کہنے والے امام صادق - ہوں) مجه سے کہا کہ: حکم ابن عتيبہ ان لوگوں ميں سے ہے کہ جن کے بارے ميں الله تعالیٰ قرآن مجيد ميں فرماتا ہے: “کچه لوگ (ظاہری اور زبانی طور پر) کہتے ہيں کہ ہم الله اور روز قيامت پر ایمان لائے (حالانکہ باطن ميں) وہ ایمان نہيں لائے ہيں” حکم چاہے تو دنيائے مشرق و مغرب ميں کہيں بهی چلا جائے خدا کی قسم ! صحيح علم اسے نہيں مل سکتا سوائے اس خاندان اہل بيت کے کہ جبرئيل امين ان پر نازل ہوئے۔ آل محمد معادن و مرکز وحی و تنزیل ہيں اور علوم الٰہيہ کے حامل ہيں ہر چيز کو اس کے اپنے اصلی مرکز و منبع سے تلاش کرنا چاہيے۔ ١٠٨ ۔ “وَفی بَصائر الدَرَجات قال سمعت ابا جعفر عليہ السلام و عندہ رجلٌ یُقالُ لَہُ عُثمان الاٴعَمی وَهُوَ یَقُولُ انّ الْحَسَنَ البصَری یَزْعمُ انَّ الّذینَ یَکتُمُونَ العِلمَ یُوٴذی ریحُ بُطُونِهِم اهْل النّارِ فَقالَ اَبُوجَعفر عليہ السلام فَهَلَکَ اِذاً موٴمِن آل فِرعَون وَما زالَ العِلمُ مَکتوماً مُنذُ بَعَثَ اللہّٰ نُوحاً ) عليہ السلام فَليَذهَبِ الحَسنُ یَميناً وَ شمالاً فَوَا للّٰہِ ما یُوجَدُ الْعِلمُ اِلاَّ هٰيهُنا ” ( ٣ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بصائر الدرجات ميں اپنی سند کے ساته عبد الله ابن سليمان سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ميں نے حضرت امام محمد باقر - سے سنا اور آپ کے پاس بصرہ کا ایک شخص بيڻها ہوا تها جو عثمان نابينا کے نام سے مشہور تها اس نے کہا کہ حسن بصری کا وہم و گمان یہ ہے کہ جو لوگ علم کو چهپاتے ہيں ان کے بدن کی بدبو اہل جہنم کو آزار و اذیت پہنچائے گی؟ تو حضرت امام محمد باقر - نے فرمایا: تو اس صورت ميں مومن آل فرعون جہنمی قرار پایا کيوں کہ وہ ہميشہ علم کو چهپاتا تها جس وقت سے الله تعالیٰ نے حضرت نوح کو مبعوث کيا، حسن بصری دنيا ميں جہاں کہيں بهی جانا چاہتا ہے دائيں بائيں (مشرق و مغرب ) کی سمت چلا جائے خدا کی قسم! اسے یہاں (یعنی خاندان اہل بيت عصمت وطہارت) کے علاوہ کہيں اور علم نہيں مل سکتا۔ ١٠٩ ۔ وفيہ باسنادہ عَنْ یَحيیَ بن الحَلَبی عَنْ ابيہِ عَنْ ابی جعفر عليہ السلام قال : قالَ رَجُلٌ وَانا عِندَہُ اِنَّ الحَسَنَ البَصری یروی انّ رَسُولَ اللّٰہ (ص) قالَ: مَن کَتَمَ عِلماً جآء یوم الق يٰمة مُلجَماً بلجامٍ مِنَ النّارِ ، قالَ: کَذَبَ وَیحَہُ فَاٴینَْ قَول اللہّٰ (عَزوجَلَ)< وَقَالَ رَجُلٌ مُؤمِْنٌ مِن آلِ فِرعَْونَْ یَکتُْمُ إِیمَانَہُ اٴَتَقتُْلُونَ رَجُلًا اٴَن یَقُولَ رَبِّی اللهُ >( ١) ثُمَّ مَدّبها ابُو جَعفَرٍ عليہ السلام صَوتہُ فقالَ لِيَذهَبوا حَيثُ شآوٴ ا امٰا وَاللّٰہ لا یجدُونَ العِلم اِلاَّ هٰهُنا ، ثَمَّ سَکَتَ ساعةً ثُم قالَ اَبُو جَعفرٍ عليہ ) السلام : عِندَ آل مُحمدٍ ( عليہم السلام ) ( ٢ اسی کتاب ميں اپنی سند کے ساته یحيیٰ ابن حلبی نے اپنے پدر بزرگوار سے انہوں نے حضرت امام محمد باقر - سے نقل کيا ہے کہ: ایک شخص آپ کی خدمت اقدس ميں حاضر ہوا اور ميں بهی ان کے پاس موجود تها تو اس نے کہا کہ : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ غافر، آیت ٢٨ ۔ (اس سورہ کا دوسرا نام مومن بهی ہے۔ مترجم( ( ٢(۔ بصائر الدرجات، ص ٣٠ ۔ (
حسن بصری نے رسول خدا (ص) سے روایت کی ہے کہ جو لوگ علم کو مخفی رکهتے ہيں تو اسے قيامت کے دن اسی حالت ميں محشور کيا جائے گا کہ آتش جہنم کی ایک لگام اس کے ساته ہوگی (یعنی ایک آگ کی لگام اس کے منه پر لگی ہوگی) امام نے فرمایا: اس پر افسوس کہ اس نے غلط بيانی سے کام ليا ہے پهر اس صورت ميں مومن آل فرعون کا معاملہ کيسے صحيح ہوگا اس قول خدا وند متعال کا کيا ہوگا (اور فرعون والوں ميں سے ایک مرد مومن نے جو اپنے ایمان کو چهپائے ہوئے تها یہ کہا کہ کيا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ ميرا پروردگار الله ہے) پهر امام باقر - نے اپنی بلند آواز کے ساته فرمایا: جہاں ان کا دل چاہے چلے جائيں خدا کی قسم ! انہيں سوائے یہاں کے علم مل ہی ) نہيں سکتا پهر کچه دیر تک خاموش رہے اور فرمایا: آل محمد (عليہم السلام ) کے پاس۔ ( ١
٢۔ عدالت کا گلستاں / ١٣ ١١٣ ۔ وریاضُ العَدْلِ وَغُدرانُہُ قرآن مجيد عدالت کا گلستان اور عدل و انصاف کا دریا ہے۔ اسی طرح حضرت حجّت قائم آل محمد عليہم السلام کی ذات با برکت ہے۔ ریاض ، روضة کی جمع ہے جس کا معنی سرسبز و شاداب زمين کے ہيں جو نباتات اور سبزوں سے پُر ہو (باغ اور گلستان) پانی کا ایک ایسی جگہ جمع ہونے کے معنی ميں ہے جو تمام جگہوں کو اپنے حصار ميں لے لے۔ غدرانہ ، غدیر کی جمع ہے: پانی کا وہ حوض کہ سيلاب کے جاری ہونے کی وجہ سے تہ نشين مقام پر آب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ آیت الله مرزا مہدی اصفہانی کے ليے امام زمانہ - کا پيغام بهی اہميت کا حامل ہے اور وہ ( یہ ہے کہ: “” یعنی خاندان اہل بيت کی راہ سے جدا ہوکر علوم و معارف کی سعی اور تلاش ہمارے انکار کے مساوی ہے۔ مجالس حضرت مہدی، ص ١۵٧ ۔
رواں جمع ہوگيا ہو۔ دونوں معنی سے مراد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نباتات درختوں اور انسانوں کو محفوظ رکهنے کے ليے ان کی آبياری کا مرکز ہے جس سے استفادہ کيا جاتا ہے۔ یعنی قرآن کریم کی آیات کے حقائق کو ادراک کرنے سے تمام مردہ دلوں کی چشم بصيرت اندهی ہوچکی ہے اس کا احياء کيا اور وہ اس طرح صيقل اور جلا دیتی ہيں کہ جس کے نتيجے ميں ان کے ایمان ميں اضافہ ہوتا ہے۔ جب کہ الله تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ( ١ صاحبان ایمان (حقيقت ميں) وہ لوگ ہيں کہ جن کے سامنے ذکر خدا کيا جائے تو ان کے دلوں ميں خوف خدا پيدا ہو اور اس کی آیتوں کی تلاوت کی جائے تو ان کے ایمان ميں اضافہ ہو جائے اور وہ لوگ الله ہی پر توکل کرتے ہيں۔ مولف کہتے ہيں: حضرت حجّت مہدی قائم آل محمد (عليہم السلام) جس وقت تشریف لائيں گے تو دنيا پر عدل و انصاف چها جائے گا کہ کوئی بهی زمين پر چلنے والا خواہ انسان ہو یا حيوان، چرند ہو یا پرند یا درند کبهی بهی ہو اپنی صنف والوں کو کسی قسم کی کوئی آزار و اذیت نہيں پہنچائے گا، الله چيزوں کو جمع کرے گا وہ ایسا امن و امان اور رفاہ و آسائش کا ماحول فراہم کریں گے کہ اگر ایک بيوہ عورت سونے کا ایک طشت مشرق سے مغرب ميں لے جائے تو کوئی بهی شخص اس کی طرف متوجہ نہيں ہوگا۔ ١١٠ ۔ “وفی کمال الدّین باسنادہ عن ابی احمد محمّد بن زیاد الاٴزدی رضی اللّٰہ عنہ قالَ سَئَلتُ سَيدی مُوسیَ بن جَعفَر عليہما السلام عَن قَول اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ( ٢) فَقال عليہ السلام النّعمة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الظَّاہِرَةُ الاِمامُ الظّاہِر، وَالباطِنَة الاِمامُ الغائِب ، فَقلتُ لَہُ وَیَکون فی الائِمةِ من یغيب ؟ قالَ نعمَ یَغيب عَن ابصارِ النّاسِ شَخصُہُ وَلا یَغيب عَن قُلوبِ الموٴمنينَ ذِکرُہُ ، وهو الثانی عشر منّا یُسهَّل اللّٰہ لَہُ کلّ عسير ویذلّل لَہُ کلّ صَعبٍ ویظهر لَہُ کنوز الارض وَیقرِّب لَہُ کُلَ بعيدٍ، یُبيرُ بہ کُلَ جَبّارٍ عنيدٍ وَیهلِک عَل یٰ یَدِہ کلَّ شيطانٍ مریدٍ ، لٰذکَ ابن سَيِّدةِ الاِماء الَّذی تَخفی عَلَی النّاسِ وِلادَتُہُ وَلا ) یَحِلُّ لَهم تَسِميتہُ حَتّ یٰ یُظهِرَہُ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ فيملاٴ الاَْرضِ قسطاً وَ عَدلاً کَما مُلِئَت جَوراً وَظلماً ” ( ١ کمال الدین ميں شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته نقل کيا ہے کہ ابو احمد محمد ابن زیاد ازدی کا بيان ہے: ميں نے اپنے آقا و مولا حضرت امام موسیٰ ابن جعفر - سے الله تعالیٰ کے اس قول کے بارے ميں دریافت کيا (اس نے تم پر اپنی ظاہری و باطنی نعمتيں فراوانی سے عطا کيں) تو امام نے فرمایا: ظاہری نعمت سے مراد امام ظاہر اور باطنی نعمت سے مراد امام غائب ہيں۔ ميں نے عرض کيا: کيا ائمہ ميں سے کوئی غائب بهی ہوگا؟ تو حضرت نے ارشاد فرمایا: ہاں وہ جسمانی طور پر لوگوں کی نظروں سے پوشيدہ رہيں گے مگر مومنين کے دلوں سے ان کا ذکر محو نہيں ہوگا وہ ہم ائمہ ميں سے بارہویں ہوں گے الله تعالیٰ ان کے ليے ہر مشکل کو آمادہ کردے گا، ہر سخت چيز کو نرم کردے گا، ان کے ليے زمين کے تمام خزانوں کو ظاہر کردے گا اس کے ليے ہر بعيد کو قریب اور ان کے ذریعے تمام ظالم اور دشمن کا قلع قمع کرے گا، ہر شيطان مردود کو ہلاک کرے گا، وہ کنيزوں کی ایک سردار کے بطن سے پيدا ہوں گے اور ان کی ولادت کو لوگوں سے پوشيدہ رکها جائے گا، ان کا نام اس وقت تک لينا جائز نہ ہوگا، جب تک کہ الله تعالیٰ انہيں ظاہر نہ فرما دے کہ جب وہ ظاہر ہوں گے تو وہ زمين کو عدل و ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین ، ج ٢، ص ٣۶٨ ۔ (
انصاف سے اس طرح بهر دیں گے جس طرح وہ ظلم و ستم سے پر ہوچکی ہوگی۔ ١١١ ۔ “ وفی غيبة النعمانی عن الصادق عليہ السلام قالَ اَما وَاللّٰہ لَيَدخُلُنَّ عَلَيهمْ عَدلُہُ ) جَوفَ بُيوتِهِم کَما یَدخُْلُ الحرّ والبر” ( ١ غيبت نعما نی ميں حضرت امام جعفر صادق - نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! ضرور ضرور ان لوگوں کے اندر حضرت کا عدل و انصاف اس طرح داخل ہوجائے گا جس طرح سردی اور گرمی داخل ہوتی ہے۔ مولف کہتے ہيں: متعدد کتابوں ميں جيسے کمال الدین، ینابيع المودة، ملاحم اور غيبت نعمانی و طوسی، مستدرک وغيرہ ميں مختلف عبارتوں کے ساته اسی مضمون کی اڻهارہ روایتيں نقل ہوئی ہيں۔ ١١٢ ۔ غيبت نعمانی ميں نقل ہوا ہے “یَملاءُ الاَرضَْ عَدلاً وَقسطاً وَ نُوراً کما مُلئت ظُلماً وَ جوراً وَ شَر“ غيبت نعمانی ميں حضرت امام محمد باقر - نے فرمایا: وہ زمين کو عدل و انصاف سے اس طرح بهر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور اور شر سے بهر چکی ہوگی۔ حضرت بقية الله الاعظم عجل الله تعالیٰ فرجہ کی سيرت طيّبہ کے بارے ميں جو روایات معادن و حی و تنزیل سے وارد ہوئی ہيں اس ميں یہ ہے کہ حضرت رسول خدا کی سيرت کے مطابق عمل کریں گے، یہ واضح سی بات ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) کا ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں اور رسالت ميں عدل و انصاف اظہر من الشمس ہے اور امام زمانہ - جو تمام انبياء اور اوصياء کے علوم کے وارث ہيں ان کا عدل و انصاف اپنے انتہائی کمال پر ہوگا۔ ١١٣ ۔ نعمانی نے غيبت ميں اپنی سند کے ساته عبد الله ابن عطاء مکی سے نقل کيا ہے کہ ميں نے امام جعفر صادق - سے حضرت مہدی - کی رفتار و سيرت کے بارے ميں دریافت کيا کہ وہ کس نوعيت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ غيبت نعمانی، ص ٢٩٧ ۔ (
کی ہوگی؟ تو امام جعفر صادق - نے فرمایا: رسول خدا (ص) کی سيرت کے مطابق عمل کریں گے اور اس کو نئے سرے سے بنائيں گے اور ہر اس چيز کو خراب کریں گے جو جاہليت کے ) زمانہ ميں تهی۔ ( ١ ١١۴ ۔ تہذیب ميں نقل ہوا ہے کہ حضرت امام محمد باقر - سے سوال کيا گيا کہ حضرت حجّت کی رفتار و سيرت لوگوں کے درميان کس نوعيت کی ہوگی؟ تو حضرت نے فرمایا: جو کچه رسول خدا (ص) کی سيرت تهی یہاں تک کہ اسلام ظاہر ہوا ۔ عرض کيا گيا: رسول خدا (ص) کی سيرت کيا تهی؟ فرمایا: جو چيزیں جاہليت کے زمانہ ميں تهيں اسے باطل کيا تها اور لوگوں سے عدل و انصاف کے ساته پيش آئے اس طرح جب حضرت حجّت قيام فرمائيں گے تو جو چيزیں ان کے زمانہ ميں تهيں انہيں باطل کریں گے اور لوگوں کے ساته عدل و انصاف سے پيش ) آئيں گے۔ ( ٢ ١١۵ ۔ “ وفی الارشاد للشيخ المفيد وَلَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) غَنایِم حُنَينِ اقبَْلَ رَجُلٌ طَویلٌ آدم اَحن یٰ بَينَ عَينَيہ اَثَر السُّجُودِ فَسَلَّمَ وَلَم یَخصَّ النَّبی (ص) ثُمَّ قالَ قَد رَاَیتکَ وَما صنعتَ فی هٰذِہِ الغَنائم ، قالَ وَکَيفَْ رَاٴیتَ ؟ قالَ لَم اَرَکَ عَدَلتَْ ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللہِّٰ (ص) وَقالَ وَیلکَ اِذا لَمْ یَکُن العَدل عِندی فَعنْدَ مَنْ یَکُونُ ؟ فقَال المُسلِمُونُ اَلاَّ اقْتُلُہُ؟ قالَ دَعُوہ فَاِنَّہُ سَيَکُونُ لَہُ اتباعٌ یَمرُقُونَ مِنَ الدّینِ کَما یَمرقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمْيَةِ یَقتلُهُمُ اللّٰہ علی یَد اَحبّ الخَلق اليہ مِنْ بعدی ، ) فقتلَہُ اٴمير المومنينَ علی بن ابی طالب عليہ السلام فيمن قَتَل یَومَ النَّهروانِ مِنَ الخوارجِ ” ( ٣ ارشاد شيخ مفيد رحمة الله عليہ ميں نقل ہوا ہے کہ: جب رسول خدا (ص) جنگ حنين کا مال غنيمت تقسيم کر رہے تهے تو ایک طویل قد و قامت کا لحيم شحيم انسان آیا جس کی دونوں آنکهوں کے درميان سجدے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ غيبت نعمانی، ص ١٢٣ ۔ ( ٢(۔ تہذیب، ج ۶، ص ١۵۵ ۔“” ( ٣(۔ ارشاد شيخ مفيد، ج ١، ص ١۴٨ ۔ (
کے اثر سے جهکاؤ تها اس نے سلام کيا اور نبی اکرم (ص) کو خصوصی طور پر سلام نہيں عرض کيا پهر وہ کہنے لگا کہ: ميں نے تجهے دیکها ہے کہ جو کچه تم نے اس مال غنيمت ميں انجام دیا ہے، تو آنحضرت نے دریافت فرمایا: تو نے کيا دیکها ہے ؟ کہنے لگا:ميں نہيں سمجهتا کہ تم نے عدل و انصاف سے کام ليا ہو، پس رسول خدا (ص) غضب ناک ہوئے اور فرمایا: تيرے ليے ہلاکت ہو اگر ميرے ہی پاس عدل و انصاف نام کی کوئی چيز نہيں ہوگی تو پهر وہ کس کے پاس ہوگی! تو موجودہ مسلمان دریافت کرنے لگے کہ کيا ہم اسے قتل نہ کر دیں؟ تو رسول خدا (ص) نے فرمایا: اسے چهوڑ دو عنقریب اس کے کچه پيروکار ہوں گے جو دین سے اس طرح نکل جائيں گے جس طرح تير کمان سے نکل جاتا ہے خدا انہيں ميرے بعد اس شخص کے ہاتهوں قتل کرے گا جو اسے تمام مخلوق سے زیادہ محبوب ہے پهر امير المومنين علی ابن ابی طالب - نے خوارج کے ان لوگوں کے ساته جنہيں نہروان کی جنگ ميں قتل کيا تها اسے بهی قتل کيا۔ ) ١١۶ ۔ “وفی ینابيع المودة فی قولہ تعالیٰ< وَاعلَْمُوا اٴَنَّ اللهَ یُحیِْ الاْٴَرضَْ بَعدَْ مَوتِْہَا> ( ١ عن سلام بن المستنير عن الباقر عليہ السلام قالَ یُحيها اللّٰہ بِالقَائِم عليہ السلام فَيعدِلُ ) فيها فيُحيی الاَرضْ بِالعَدلِْ بَعدَْ مَوتِها بِالظلمِ ” ( ٢ ینابيع المودة ميں امام محمد باقر - سے روایت نقل ہوئی ہے کہ حضرت نے فرمایا: “” یعنی زمين کو حضرت قائم کے ذریعہ زندہ کرے گا پس زمين ظلم و ستم کی وجہ سے مرنے کے بعد ان کے عدل و انصاف کے ذریعہ دوبارہ زندہ ہوگی لہٰذا وہ عدل و انصاف سے کام ليں گے۔ پهر مشيت الٰہی کا تقاضا یہ ہوگا کہ حضرت قائم آل محمد قيام اور ظہور فرمائيں اس طرح ان کے دریائے عدل و انصاف کے فيض ميں تلاطم پيدا ہوگا کہ ان کا کوہ گراں پيکر تمام دنيا کو گهير لے گا اور ان کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدل و انصاف تمام انسانی جسم ميں مجسم ہوجائے گا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں دنيا و ما فيها اپنے وجود ميں بہشتی تازہ روح کا احساس کرے گی اور تمام مخلوقات امن و امان، رفاہ و آسائش اور صلح و مصالحت کے ساته زندگی بسر کرے گی۔
٢۔ اسلام کی بنياد / ١۴ ١۴ ۔ “وَاَثافِیّ الاِسلامِ وَبُنيانُةُ” (اسلام کی سنگ بنياد اور اساس) اثافی اثفيہ کی جمع ہے اس سے مراد ایسا پتهر ہے کہ جس پر دیگ کو رکها جاتا ہے اور اگر دو دوسرے پتهر مثلث کی شکل اختيار کریں تو اسے “اثافی” کہتے ہيں جب کبهی دیگ اس کے اوپر رکها جائے تو بغير حرکت کے اپنی جگہ مستحکم اور مستقر ہوجائے گا۔ اس اعتبار سے کہ اسلام قرآن مجيد کی محکم و استوار بنيادوں پر مستقر ثابت اور پا برجا ہے اثافی سے شباہت دی ہے۔ ١١٧ ۔ “وَفی الکافی عَنِ الصّادقُ عليہ السلام قالَ اثا فِی الاِسلامُ ثَلاثَةٌ الصُّلوةُ وَالزَّکٰوة ) وَالوِلایَةُ لا تصِحُّ واحِدةٌ مِنهُنَّ اِلاَّ بِصاحبتيها ” ( ١ کافی ميں امام صادق - سے مروی ہے کہ اسلام کے بنيادی ارکان تين ہيں۔ نماز، زکوٰة اور ولایت ائمہٴ اطہار عليہم السلام ان ميں سے کوئی بهی اپنے دو کے بغير صحيح اور قابل قبول نہ ہوگی۔ اس جيسی حدیث روزہ اور حج کے اضافہ کے ساته حضرت امام محمد باقر - سے نقل ہوئی ہے۔ ١١٨ ۔ “وفيہ عن ابی جعفر عليہ السلام قالَ بُنِی الاِسلامُ عَلیٰ خَمسٍ الصَّلاةُ وَالزَّکاةُ والصّوم والحَجّ وَالوِلایةُ وَلَم ینادِ بِشَیءٍ کَما نُودِیَ بالولایةِ، وفی روایة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ١٨ ۔ (
) کما نودِیَ بالولایَةِ یومَ الغَدیر ” ( ١ اسی کتاب ميں مذکور ہے کہ امام محمد باقر - نے فرمایا: اسلام کی اساس پانچ چيزوں پر استوار ہے، نماز، زکوٰة، روزہ، حج اور ولایت اور ان ميں سے ولایت کی طرح کسی چيز کی تاکيد نہيں کی گئی ہے۔ اور دوسری روایت ميں ذکر ہوا کہ کسی چيز کی غدیرخم کے دن ولایت کی طرح سفارش نہيں کی گئی ہے۔ ١١٩ ۔ “وَفيہ ایضاً بِاِسنادِہِ عَن عَبدِ الحميد بن ابی العَلاء الاٴزدی قالَ سَمعت اَبا عبد اللّٰہِ عليہ السلام یَقُولُ اِنَّ اللہَّٰ عَزَّوَجَلَّ فَرَضَ عَ لٰی خَلقہِ خَمساً فَرخَّصَ فی اَربَْعٍ وَلَم یُرخّص فی واحِدة )٢) ” اس کتاب ميں کلينی اپنی سند کے ساته عبد الحميد ابن ابی العلا ازدی سے روایت کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا: ميں نے ابو عبد الله امام جعفر صادق کو یہ فرماتے سنا: خدائے عزوجل نے اپنی مخلوق پر پانچ چيزیں واجب قرار دی ہيں ان ميں سے چار ميں ترک کرنے کی اجازت دی ہے ليکن ان ميں سے ایک کے ليے کبهی بهی رخصت نہيں دی ہے۔ مولف کہتے ہيں: وہ چار واجب کہ جن ميں رخصت ہے اس سے مراد نماز ہے جو بعض افراد سے ساقط ہے جيسے جس زمانہ ميں عورتيں حيض و نفاس کی حالت ميں ہوتی ہيں اور بعض حالات ميں تو دونوں کی طہارت مفقود ہوتی ہے اور زکوٰة ان لوگوں سے متعلق نہيں ہوتی جن کے اموالِ زکوٰة اپنے نصاب کی حد تک نہ پہنچے ہوں، اور روزہ ان افراد سے کہ جو روزہ رکهنے کی طاقت نہيں رکهتے جيسے ضعيف العمر انسان اور ضعيفہ عورت اور حج ان افراد سے کہ جنہيں مالی اور جانی استطاعت وغيرہ نصيب نہيں ہوئی ان سب سے ساقط ہے ليکن ولایت کبهی بهی کسی صورت ميں قابل قبول عذر نہيں ہے اور نہ ہی کسی بهی فرد سے ساقط ہوتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ مجلسی کہتے ہيں: اس حدیث ميں کہ جس ميں تين رکن پر اکتفا کيا گيا ہے کيوں کہ اہم اجزاء یہی نماز، زکوٰة اور ولایت ہے اور بلاشک و شبہ ان ميں سے ہر ایک کا قبول ہونا دوسرے کے قبول ہونے پر موقوف و مشروط ہے بالخصوص ولایت جو تمام اعمال کے قبول ہونے کی شرط ہے۔ ١٢٠ ۔ “وَفی الکافی عَنْ ابی جَعفرٍ الثانی عَنْ اَبيہِ عَن جَدِّہِ عليہم السلام قال: قالَ اَمير الموٴمنينَ عليہ السلام قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) اِنَّ اللہّٰ خَلَقَ الاِسلامَ فَجَعَلَ لَہُ عَرصَْةً وَجَعَلَ لَہ نوراً وَجَعَلَ لَہُ حِصناً وَجَعَلَ لَہُ ناصِراً فامّا عَرصَْتُہُ فَالقُران ، وَامّا نُورُہُ فَالحِکمْة ، وَاَما حِصنہُ فالمعرُوفُ ، فامّا انصارُہُ فَانَا وَاَهلُ بَيتی وَشيعتُنا ، فَاَحِبّوا اَهْلَ بَيتی وَشيعَتهُمْ وانصارَهُم ، فَاِنَّہ لمّا اُسری بی اِلَی السّمآء الدنيا فَنَسبنی جَبرَْئيلُ عليہ السلام لِاَ هلِْ السَّمآءِ اِستَودَعَ اللہِّٰ حُبّی وَحُبَّ اَهلِ بيتی وَ شيعَتهِم فی قُلُوبِ المَلائِکَةِ فَهو عِندَهُم ودیَعةٌ اِلیٰ یَومِ القيٰمةَ ثُمَّ هَبَطَ بِی الیٰ اهْل الارض فَنَسَبنی لِاَهلْ الاَرض فاَستودَعَ اللہُّٰ عَزَّوَجَلَّ حُبّی وَحُبَّ اهلِ بَيتی وَ شيعَتهم فی قلُوب موٴمنی امتی ، فموٴمِنوا اُمَّتی یَحفَظُونَ وَدیعَتی الیٰ یومِ القِيٰمةِ ، اَلا فَلَو انَّ الرَّجُلَ مِن اُمّتی عَبَدَ اللہّٰ عَزَوَجل عمرہ ایَّامَ الدُّنيا ثُمّ لَقِیَ اللہّٰ عَزَوَجَلّ مبغضاً لاَهلِ بيتی وَ شيعَتی ما فَرَّجَ اللہّٰ صَدرَہُ الا ) عَن نِفاقٍ ” ( ١ شيخ کلينی نے کتاب کافی ميں حضرت امام جواد تقی - سے انہوں نے اپنے آباء و اجداد بزرگوار سے انہوں نے حضرت امير المومنين سے انہوں نے حضرت رسول اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: خدائے عزوجل نے اسلام کو خلق کيا اس کے ليے وسعت پيدا کی، اس کے ليے نور قرار دیا، اس کے ناصر بنائے، اس کا عرصہ (صحن خانہ) قرآن ہے اس کا نور،حکمت ہے اس کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ۴۶ ۔ (
حصار و قلعہ نيکی ہے اور اس کے اعوان و انصار ، ميرے اہل بيت ہيں لہٰذا ميرے اہل بيت اور ميرے شيعوں اور مدد کرنے والوں کو دوست رکهو کيونکہ جب مجهے جبرئيل دنيا کے آسمان (معراج) کی طرف لے گئے تو ميرا تعارف اہل آسمان سے کرایا الله نے ميری اور ميرے اہل بيت کی اور ان کے شيعوں کی محبت ملائکہ کے دلوں ميں پيدا کی جو قيامت تک ان کے دلوں ميں رہے گی پهر جبرئيل نے زمين پر مجهے اتارا تو زمين والوں سے ميرا تعارف کرایا اور ميری اور ميرے اہل بيت اور ان کے شيعوں کی محبت ميری امت کے مومنين کے دلوں ميں قرار دی پس ميری امت ایمان لائی پس مومنين ميری امانت (ميرے اہل بيت اور ان کے شيعوں کی ولایت و محبت ہے) کی روز قيامت تک حفاظت کریں گے۔ آگاہ ہوجاؤ ! اور یہ جان لو کہ اگر ميری امت کا کوئی شخص بقدر عمر دنيا رکهتا ہو اور الله تعالیٰ کی عبادت تمام دنيا کے دنوں (دنيا کے تمام عمر) ميں انجام دیتا رہے پهر وہ ایسی صورت ميں خدائے سبحان سے ملاقات کرے کہ اس کے دل ميں ميرے اہل بيت اور ميرے شيعوں کی عداوت ہو تو الله اس کے سينہ کو کشادہ نہيں کرے گا مگر نفاق سے۔ بعض روایات ميں نقل ہوا ہے کہ اگر ثقلين (انس و جن) کی عبادت بجالائے ليکن ہماری ولایت و محبت اس کے دل ميں نہ پائی جاتی ہو تو اسے وہ تمام عبادت کوئی فائدہ نہ دے گی۔ مولف کہتے ہيں: جيسا کہ قرآن مجيد دین اسلام کی اساس و بنياد ہے اسی طرح حضرت بقية الله الاعظم حجة ابن الحسن اور ان کے آباء و اجداد طاہرین کی معرفت و ولایت اسلام کی اساس اور سنگ بنياد ہے کہ اس کے بغير کوئی بهی عمل قابل قبول نہ ہوگا اور نہ ہی اس پر کوئی آثار و ثواب ہی مترتب ہوں گے۔ ١٢١ ۔ “وفی الکافی فی الصَّحيح عَنْ مُعاویةَ بن عَمَّارٍ عَن ابی عبدِ اللّٰہِ عليہ السلام فی قولِ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ ( ١) قالَ نَحنُْ وَاللہِّٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اعراف، آیت ١٨٠ ۔ (
) الاسمآءُ الحُسن یٰ الذی لایقبَلُ اللہّٰ مِنَ العِبادِ عَمَلاً اِلاَّ بِمعرفَتِنا ” ( ١ کافی ميں صحيح روایت کے ساته کلينی عليہ الرحمہ نے معاویہ ابن عمار سے نقل کيا ہے کہ وہ امام جعفر صادق سے روایت کرتے ہيں کہ آیہٴ کریمہ “کہ الله کے ليے بہترین نام ہيںلہٰذا اسے انہيں سے پکارو” کی تفسير کے بارے ميں حضرت نے فرمایا: خدا کی قسم! ہم الله کے اسماء الحسنی ہيں بغير ہماری معرفت کے الله تعالیٰ بندوں کا کوئی عمل قبول نہيں کرے گا۔ مولف کہتے ہيں: جو شخص بهی الله تعالیٰ پر ایمان لائے اور پيغمبراکرم (ص) کی رسالت کا اعتراف کرے تو اس کے ليے لازم ہے کہ ان کی پيروی اور ان بزرگوار کی تصدیق کرے تاکہ الله اور رسول کی بہ نسبت جو حقوق ہيں ان کی معرفت پيدا کرے اور اس کو ادا کرے ظاہر ہے کہ سب سے بڑا حق جو تمام مخلوقات پر واجب ہے ائمہٴ ہدی کی ولایت کا تحفظ ہے اِس بنا پر ولایت کی رعایت اور حفاظت کيے بغير کوئی بهی عمل بارگاہ الٰہی ميں قابل قبول نہيں ہے۔
٢۔ وادی حق / ١۵ ١۵ ۔ “وَ اٴَودِیَة الحَقّ وَ غيطانُہُ” حق و حقيقت کی پيروی کی وادی اور اس کا ہموار ميدان و بيابان ہے کہ جس ميں دین و دانش کے گل و ریحان اُگتے ہيں تاکہ ان کے طالبوں کے دماغ کو اُن کی خوشبو سے معطر کرے، اودیہ، وادی کی جمع ہے جس کے معنی بيابان کے ہيں دو پہاڑ کے درميان وسيع نہر اسلوب، راستہ اور مذہب کے معنی ميں بهی استعارہ کے عنوان سے استعمال ہوا ہے۔ غيطان، غيط کی جمع ہے جس کا معنی باغ کے ہيں اور کسی چيز ميں داخل ہونے کے ہيں اور نزاع نيز دوسرے مختلف کلام کے معنی ميں بهی ذکر ہوا ہے، یعنی جو شخص حق و حقيقت کا طالب ہے وہ قرآن مجيد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١۴٣ ۔ (
کے وسيع بيابانوں ميں اور اس کی ہر قسم کی کجی و انحراف اور خطرناک حوادث سے محفوظ سرزمين سے حاصل کرسکتا ہے۔ شارح بحرانی بيان کرتے ہيں : دونوں ہی لفظ استعارہ کے طور پر آئے ہيں اس اعتبار سے کہ قرآن مجيد حق کا معدن و مرکز اور اس کے پائے جانے کا جہاں قوی گمان پایا جاتا ہے جس طرح بيابانوں اور نشيبی مقامات ميں گهاس اور پانی جمع ہونے کا قوی گمان و امکان پایا جاتا ہے۔ حضرت ولی عصر بقية الله الاعظم امام زمانہ عجل الله فرجہ الشریف اور تمام ائمہ ٴہدیٰ عليہم السلام حق کے معدن و مرکز اور آب حيات کا سرچشمہ ہيں، حق کے طلب کرنے والے افراد کو چاہيے کہ خاندان عصمت اور معادن وحی تنزیل کے پاس اس کو تلاش کریں جيسا کہ ہم زیارت جامعہٴ کبيرہ ميں پڑهتے ہيں۔ ١٢٢ ۔ “وَالحقّ مَعَکم وَفيکُم وَاَنتمُ اَهلُْہُ وَمَعدِنُہُ” حق آپ کے ساته آپ ميں آپ سے اور آپ کی طرف ہے آپ ہی اس کے اہل اور اس کے معدن و مرکز ہيں۔ ١٢٣ ۔ “عَلِیٌّ مَعَ الحَقّ وَالحق مَعَ عَلی یَدُوُر حيث دارِ ” علی حق کے ساته ہيں اور حق علی کے ساته ہے حق کو اسی طرف پهير دے جدہر علی جائيں۔
۷
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
٢۔ بے کراں سمندر / ١۶ ١۶ ۔ وَبَحرٌ لا ینَزِفُہُ المُستَْنزِفُونَ (یہ وہ سمندر ہے جسے پانی نکالنے والے ختم نہيں کرسکتے): نزف، کنویں سے تمام پانی کو تدریجی طور پر نکالنے کو کہتے ہيں، یعنی قرآن کریم ایسا سمندر ہے کہ اس کے تمام پانی کو نہيں نکالا جاسکتا اگرچہ تدریجا اور وقفہ کے ساته ہی کيوں نہ ہو، یہاں تک کہ اگر تمام لوگ اس سے استفادہ کریں پهر بهی اسے ختم نہيں کرسکتے۔ یعنی وہ علوم جن کا کتاب عزیز سے استفادہ کيا جاتا ہے اس کی حد نہيں ہے اس ميں جو کچه ہوچکا جو ہو رہا ہے یا قيامت کے دن تک ہونے والا ہے سب کا علم اس ميں موجود ہے۔ قرآن مجيد ہی وہ ہے جو حلال و حرام ، فرائض، فضائل، ناسخ و منسوخ، رخصت و عزیمت، خاص و عام، صبر و امثال، مرسل و محدود، محکم و متشابہ کو واضح طور پر بيان کرنے والا ہے جو علوم و احکام کی پيچيدگيوں مجملات اور مشکلات کی تفسير کرنے والا ہے۔ قرآن مجيد کے مطالب جو کلمات الٰہيہ پر مشتمل ہيں وہ بے نہایت عظيم ہيں کہ خود قرآن اس معنی کو بيان کر رہا ہے: الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ١ آپ کہہ دیجيے کہ اگر ميرے پروردگار کے کلمات کے ليے سمندر بهی روشنائی بن جائيں تو کلمات رب کے ختم ہونے سے پہلے ہی سارے سمندر ہو جائيں گے چاہے ان کی مدد کے ليے ہم ویسے ہی سمندر اور بهی لے آئيں۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ٢ اور اگر روئے زمين کے تمام درخت قلم بن جائيں اور سمندر کا سہارا دینے کے ليے سات سمندر اور آجائيں تو بهی کلمات الٰہی تمام ہونے والے نہيں ہيں بے شک الله صاحب عزت بهی اور صاحب حکمت بهی ہے۔ پہلی آیت ميں فرماتا ہے:“ اگر سمندر اپنے تمام حجم کے ساته عالمين کے پروردگار کے کلمات تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنے کے ليے روشنائی بن جائے تو سمندر ختم ہوجائے گا قبل اس کے کہ کلمات الٰہيہ تمام ہوں اگرچہ اس ميں دوسرے سمندر کا اضافہ بهی کيا جائے” ليکن دوسری آیت ميں ایک بہت دقيق مطلب کی طرف اشارہ کيا گيا ہے فرماتا ہے: “روئے زمين کے تمام درخت (خواہ باغات کے تمام درخت ہوں یا طبيعی جنگلوں کے کہ ان ميں سے بہت سے کی لمبائی ایک ميڻر یا دو ميڻر کی حد تک ہو) ان سب کو قلم بنائيں اور سمندر کے پانی کو روشنائی پهر اس ميں دوسرے سات سمندر کا اضافہ کریں پهر بهی خدا کے کلمات تمام ہونے والے نہيں ہيں”۔ روئے زمين کے تمام درخت اگر معمولی قلم کی شکل اختيار کرليں تو اس کی حد معلوم کرنا اور اسے شمار کرنا ہمارے بس کی بات نہيں ہے اس کے علاوہ اگر تمام سمندر اور اقيانوس تمام تعاون اور مدد کرنے کے ساته روشنائی بن جائيں تو طبيعی طور پر اس کے لکهنے والے جن و انس کے تمام خلائق ہی ہونے چاہئيں، اس کے باوجود یہ سب کچه ختم ہوجائے گا ليکن کلمات الٰہيہ اختتام پذیر نہ ہوں گے۔ حضرت حجّت، مہدی اہل بيت سالت عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف اسی طرح ان کے آباء و اجداد طاہرین کہ جن پر قرآن نازل ہوا اور اس کے تمام علوم کے حامل ہيں علوم الٰہی کے سمندر اور قرآن مجيد ہيں کہ جتنا بهی ان سے فيض حاصل کيا جائے اور لوگ سيراب ہوں پهر بهی ختم ہونے والے نہيں ہيں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ خود ان عظيم ہستيوں سے ایسی روایات صادر ہوئی ہيں جو اس معنی پر دلالت کرتی ہيں شيخ مفيد رحمة الله عليہ کی کتاب اختصاص ميں وہ موسی المبرقع ١) کی حدیث ميں جو یحيیٰ ابن اکثم نے حضرت سے دس سوال دریافت کيے تهے ان ميں ) سے ایک یہ ہے: مجهے اس آیت کے بارے ميں باخبر کریں کہ سمندر کيا ہيں؟ اور اس سے کيا مراد ہے؟ الله تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَو اٴَنَّمَا فِی الاْٴَرضِْ مِن شَجَرَةٍ اٴَقلَْامٌ وَالبَْحرُْ یَمُدُّہُ مِن بَعدِْہِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ابو احمد موسیٰ المبرقع امام ہادی علی نقی - کے بهائی ہيں اور رضوی سادات کے جدّ ( بزرگوار ہيں۔
سَبعَْةُ اٴَبحُْرٍ مَا نَفِدَت کَلِمَاتُ الله>( ١) ماهٰذا لاٴ بحرُ و اَیْن هِیَ ؟ ١٢۴ ۔ حضرت امام موسیٰ کاظم - جواب ميں فرماتے ہيں: “ وَاَمّا قَولُہُ تعال یٰ< وَلَو اٴَنَّمَا فِی الاْٴَرضِْ مِن شَجَرَةٍ اٴَقلَْامٌ > الآیہ فَهُوَ کَذلکَ لَو اَنَّ اشجارَ الدّنيا اقلامٌ وَالبَحرُ مدادٌ لَہُ بَعدَ سَبعَةَ مَددِ البحُرِ حَت یٰ فُجّرَتِ الارضُ عيوناً فَغَرق اصحابُ الطّوفان لَنَفَدت قَبل ان تَنفَدَ کلِماتُ اللہِّٰ عزَّوَجَلَّ ) الیٰ قولہ عليہ السلام وَنَحْنُ الکَلماتُ التی لا تُدرَک فَضائلنُا وَ لا تُستَقصی” ( ٢ یعنی اگر تمام اشجار قلم بن جائيں، تمام سمندر روشنائی بن جائيں بلکہ اس ميں سات دریا زمين سے پهوٹ کر مزید شامل ہوجائيں ، ایسے ہی ہےں جيسا کہ اصحاب طوفانِ (نوح) غرق ہوئے، پهر بهی الله کے کلمات ختم نہيں ہوسکتے(اس کے بعد امام - نے بعض چشموں کے نام بہ عنوان مثال ذکر کيے اور وہ سات چشمے یہ ہيں) چشمہٴ کبریت، چشمہ ٴ یمن، چشمہ ٴبرہوت، چشمہ ٴ طبریہ، چشمہٴ حمر ( ٣) چشمہ ٴ ماسبذان (جس کو المنيات بهی کہا جاتا ہے) چشمہٴ افریقہ (جس کو بسلان بهی کہتے ہيں) چشمہٴ باجروان (بحرون نسخہ بدل) لسان بهی کہتے ہيں فلاں چشمہ فلاں چشمہ پهر فرمایا: ہم لوگ وہ کلمات ہيں کہ جن کے فضائل کو درک نہيں کيا جاسکتا اور نہ ہی ان کا احاطہ کيا جاسکتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٣(۔ حَمَّة حاء پر فتحہ اور تشدید ، ایسے چشمے جن کا پانی گرم ہوتا ہے اور معلول و اپاہج لوگ ( اور بعض دوسرے افراد اس سے شفا حاصل کرتے ہيں یہ سب اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر پانی کے ليے ایک منبع اور اس سے کوئی چيز کم نہيں ہوگی اس کے باوجود مکمل طور پر نابود اور ختم ہوجائيں گے مگر کلمات الٰہيہ کی کوئی انتہا نہيں ہے۔ اور ممکن ہے کہ ان چشموں کے اسماء سائل کے ذہن ميں موجود ہوں اور امام- نے اس کو انہيں سے قانع کيا ہو۔
٢۔ چشم / ١٧ ١٧ ۔ وَ عُيُونُ لا یَنضِبُهاَ ال مٰاتِحُونَ (یہ وہ چشمہ ہے جسے الچنے والے کم نہيں کرسکتے): “نضب” جاری و ساری اور ختم ہونے کے معنی ميں ہے، نضب الماء، پانی جاری ہوا، اور اس کا طغيانی حالت پيدا کرنا، نضب عمرہ ، یعنی اس کی عمر ختم ہوگئی، نضب البحر، سمندر کا پانی خشک ہوگيا، چشمے کا پانی کم ہوگيا، نضب ماء وجهہ، ان کی عزت چلی گئی اور کسی چيز سے شرم نہيں کرتے وغيرہ کے معانی ميں استعمال ہوا ہے۔ ”متح متحا” پانی کهينچنااگرچہ ڈول ہی سے نکالے “متح الشجرة” درخت کو کاڻنا یا کاڻنے کو کہتے ہيں بئر متوح کم نشيب والے کنویں کو کہتے ہيں جس سے آسانی کے ساته پانی نکالا جاسکے۔ یعنی قرآن مجيد ایسا کنواں ہے کہ جس کا پانی صاف و شفاف ، شيرین، گوارا یا ایسا چشمہ ہے کہ جتنا بهی اس سے استفادہ کيا جائے اور سيرابی حاصل کی جائے کبهی بهی اس ميں کوئی تبدیلی واقع نہيں ہوگی، کثيف نہيں ہوگا اس ميں سے کوئی شے کم نہيں ہوگی اور نہ ہی خشک ہوگا۔ امام عصر (عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا مقدس وجود اولين و آخرین کے علوم کا منبع اور سرچشمہ ٴ آب حيات ہے کہ جتنا بهی اس سے استفادہ کيا جائے کبهی اس ميں کوئی شے کم نہيں ہوگی اور کسی بهی صورت ميں اختتام پذیر ہونے والا نہيں ہے، اس ليے کہ ائمہٴ ہدیٰ علوم الٰہی کے خزانے اور وحی و تنزیل کے معادن و مراکز ہيںاور عظيم المرتبت پيغمبر (ص) تمام انبياء ان کے اوصياء کے علم کے وارث ہيں اور یہ عظيم ہستياں ہيں کہ تمام الله تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتابيں ان کے پاس موجود ہيں ان سب کے مطالب کے اختلاف کو ان کی زبانی جانتے ہيں۔ ١٢۵ ۔ “فی الکافی بِاسنادِہِ عَنْ عَبدِ الرّحمٰن بن کثيرٍ قالَ: سِمَعت اَبا عَبدِ اللہّٰ ) عليہ السلام یَقولُ نَحنُ وُلاةُ الاَمرِ اللہِّٰ وَخَزَنَةُ عِلم اللہِّٰ وَ عَيبةُ وِحیِ اللہِّٰ ” ( ١ کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ اپنی سند کے ساته عبد الرحمن ابن کثير سے روایت کرتے ہيں کہ ان کا بيان ہے کہ ميں نے امام جعفر صادق کو کہتے سنا: ہم واليان امر الٰہی ہيں ہم علوم الٰہی کا خزانہ ہيں اور وحی الٰہی کی حفاظت کرنے والے ہيں۔ ١٢۶ ۔ “وفيہ عَنْ سُدَیْرٍ عَن ابی جَعفرٍ عليہ السلام: قُلتُ لَہُ : جعلت فداک ما انتُم ؟ قالَ نَحنُ خُزّانُ عِلمِ اللہِّٰ وَنَحنُ تراجِمَةُ وَحیِ اللہِّٰ وَنَحنُ الحجَّةُ البالِغَةُ عَل یٰ مِن دُونَ السّ مٰآء وَمَن فَوق ) الاَرضِْ ” ( ٢ اسی کتاب ميں منقول ہے کہ سدیر امام محمد باقر - سے عرض کرتے ہيں: آپ کيا ہيں؟ امام - نے فرمایا: ہم علم الٰہی کے خزانہ دار ہيں ، ہم وحی الٰہی کے ترجمان ہيں، ہم خدا کی حجّت بالغہ ہيں ان لوگوں پر جو آسمانوں کے نيچے اور زمين کے اوپر ہيں۔ ) ١٢٧ ۔ دوسری روایت ميں ہے کہ : “ لاٰ عَل یٰ ذَهَبٍ وَلا عَلی فضَّةٍ اِلا عَل یٰ عِلمِہِ ” ( ٣ ہم زمين وآسمان ميں الله کے خزانہ دار ہيں مگر سونے چاندی کے خزانہ دار نہيں بلکہ ہم علم الٰہی کے خازن ہيں۔ مولف کہتے ہيں: ان تين روایت کو تبرکاً ہم نے ذکر کيا ہے مذکورہ عناوین کی دوسری روایات کتاب اصول کافی ( ۴) ميں موجود ہيں قارئين کرام وہاں ملاحظہ کریں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١٩٣ ، باب ان الائمہ عليہم السلام ولاة امرالله و عيبة وحی الله”۔ ( ٢(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١٩٢ ، حدیث ۴۔ ( ٣(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١٩٢ ، حدیث ٢۔ ( ٢۶۴ ۔ ، ۴(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٢١۴ (
٢۔ ہدایت کا چشمہ / ١٨ ١٨ ۔ وَمَنا هِلُ لا یَغيضُهَا الوارِدُونَ ؛ (ایسا گهاٹ ہے کہ جس پر وارد ہونے والے اس کا پانی کم نہيں کرسکتے) منهل ، پانی پينے کے مقام اور جگہ کے معنی ميں ہے ۔ جيسے چشمہ اور نہر۔ غيض ، نقصان کے معنی ميں ہے کسی شے کو خراب کرنے یا داخل کرنے کو کہتے ہيں جيسا کہ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ١ طوفان نوح کے واقعہ ميں ہے: (اور قدرت کا حکم ہوا کہ اے زمين! پانی کو نگل لے اور اے آسمان! اپنے پانی کو روک لے اور پهر پانی گهٹ گيا اور کام تمام کردیا گيا اور کشتی کوہ جودی ) پر ڻهہر گئی)۔ دوسری آیت ميں فرمایا: ( ٢ یعنی یہ آسمانی عزیز ترین کتاب ایسا سرچشمہ ہے کہ اس پر وارد ہونے سے اس ميں کوئی کمی نہيں واقع ہوتی، یہ عادی اور مادی چشموں کی طرح نہيں ہے کہ اگر حد سے زیادہ اس سے لوگ استفادہ کریں تو اس ميں کمی واقع ہوجائے اور اس پر کثرت سے وارد ہونے والے اس کو خراب اور کثيف کردیں بلکہ وہ اس گہرے کنویں کی طرح ہے جو اصل پانی کے مادّہ سے موجود ہے جتنا بهی آپ پانی نکاليں کبهی بهی اس ميں (FELTER) متصل ہے اور اس ميں فلڻر کوئی اثر نہيں پڑے گا۔ حضرت ولی عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا ہر دل عزیز وجود اور تمام ائمہٴ اطہار کے علوم اور ان کے سارے فضائل و مناقب لوگوں کے ليے چشمہ اور روشنی حاصل کرنے کا مرکز ہيں جو ختم ہونے والے نہيں ہيں کيونکہ یہ عظيم ہستياں تمام نبيوں اور رسولوں بالخصوص حضرات خاتم الانبياء کے علوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کے نہ صرف یہ کہ وارث ہيں بلکہ آنحضرت (ص) کے علم ميں شریک ہيں۔ ١٢٨ ۔ “وفی الکافی بِاِسنادِہِ عَنْ محمدِ بن مُسلِمٍ قالَ سَمِعت اَبا جعفرٍ عليہ السلام یَقُولُ نَزَلَ جَبرَئيل عَلی محمَّدٍ (ص) بُرمّا نَتَينِْ مِنَ الجنَّةِ فَلَقِيہ عَلیٌ عليہ السلام فَقالَ ماهاتانِ الرُّمانتانِ اللَّتان فی یدَکَ ؟ فَقالَ امْا هٰذِہِ فالنّبوَةُ لَيسَ لَکَ فيها نصيبٌ ، وَاٴمّا هذِہِ فالعِلمُ ، ثمّ فَلَقَها رَسُولُ اللّٰہُ (ص) بِنِصفَينِ فاعطاہُ نصفها وَاٴخَذَ رَسُولُ اللہّٰ (ص) نِصفَها ، ثُمَّ قالَ : اَنتَ شَریکی فيہِ وَاَنَا شَریکُکَ فيہِ ، قالَ فَلَم یَعْلَم وَاللّٰہ رَسُولُ اللّٰہ (ص) حَرفاً مِمَّا عَلَّمہ اللہُّٰ عَزّوَجَلَّ الاَّ وَقَد عَلّمہ عَليّاً ) ثمّ انتَهی العِلمُ الينا ، ثُمَّ وَضَعَ یَدَہُ عَل یٰ صَدرِہِ ” ( ١ شيخ بزرگوار کلينی رحمة الله عليہ کافی ميں اپنی سند کے ساته محمد ابن مسلم سے روایت کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا: ميں نے امام محمد باقر - کو کہتے سنا: جبرئيل حضرت محمد مصطفی (ص) کے پاس دو انار جنت سے لائے اس کے بعد آنحضرت (ص) کی حضرت علی - سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے دریافت کيا: آپ کے ہاته ميں یہ دو انار کيسے ہيں؟ فرمایا: یہ ایک نبوت ہے جس ميں تمہارا حصہ نہيں ليکن دوسرا علم ہے اس کے بعد آپ نے دو ڻکڑے کيے۔ نصف حضرت علی - کو عطا کيا اور نصف خود رسول خدا (ص) نے ليا اور حضرت علی - سے فرمایا: اس ميں تم ميرے شریک ہو اور ميں بهی اس ميں تمہارا شریک ہوں۔ پهر امام محمد باقر - نے فرمایا: خدائے عزوجل کی قسم! اگر پيغمبر اکرم (ص) کو جو کچه الله تعالیٰ نے تعليم دی ان ميں سے ایک حرف بهی فروگزار نہيں کيا بلکہ سب کا سب علی کو تعليم دیا۔ پهر ان بزرگوار کے بعد وہ ہميں وراثت ميں ملا۔ اس کے بعد امام محمد باقر - نے اپنے دست مبارک کو اپنے سينے پر رکها۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٢۶٣ ۔ (
مولف کہتے ہيں: یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم علم رسول اکرم (ص) ميں شریک اور آنحضرت کے علوم کے وارث ہيں، وہ سينہ بہ سينہ یکے بعد دیگرے ہماری طرف منتقل ہوا پهر وہ خاتم الاوصياء حضرت مہدی آل محمد صاحب العصر و الزمان عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے ہر دل عزیز وجود تک پہنچا لہٰذا ان سب کا علم کم ہونے والا نہيں ہے اور جتنا بهی زیادہ اس سے استفادہ کيا جائے ختم نہيں ہوگا۔
٢۔ منزل ہدایت / ١٩ ١٩ ۔ “وَمَنازِلُ لا یَضِلُّ نَهجَهَا المُسافِرُونَ ؛” (وہ ایسی منزل ہے کہ جس کی راہ پر چلنے والے مسافر بهڻک نہيں سکتے( منازل، منزل کی جمع،گزرنے والوں کے ڻهہرنے اور آرام کرنے کی جگہ کو کہتے ہيں کہ قافلے والے ان منازل کو گم نہ کریں۔ یعنی قرآن مجيد بهی خدا ئے عزوجل کی راہ پر چلنے والوں کے ليے منزل اور ڻهہرنے کی جگہ ہے کہ جسے مسافرین کسی وقت راستہ کو گم نہيں کرتے اس ليے کہ ایسا صاف و شفاف سيدها جادہ ہے کہ کبهی بهی اس ميں کجی اور انحراف نہيں پيدا ہوسکتا لہٰذا جو شخص بهی اس راستہ کی سير کرے گا بلاشک و شبہ شاہراہِ ہدایت و سعادت تک پہنچ جائے گا۔ ) الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ١ اور جن لوگوں نے ہمارے حق ميں جہاد کيا ہے ہم انہيں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقينا الله حُسنِ عمل والوں کے ساته ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ عنکبوت ، آیت ۶٩ ۔ (
>إِنَّ ہَذَا القُْرآْنَ یَہدِْی لِلَّتِی ہِیَ اٴَقوَْمُ وَیُبَشِّرُ المُْؤمِْنِينَ الَّذِینَ یَعمَْلُونَ الصَّالِحَاتِ اٴَنَّ لَہُم اٴَجرًْا ) کَبِيرًا > ( ١ بے شک یہ قرآن اسی راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نيک عمل بجا لاتے ہيں کہ ان کے ليے بہت بڑا اجر ہے۔ حضرت حجة ابن الحسن اور ان کے اجداد طاہرین عليہم السلام بهی اسی طرح ہيں جيسا کہ زیارت جامعہٴ کبيرہ ميں وارد ہوا ہے۔ ١٢٩ ۔ انتُمُ الصِراطُ الاَقومُ وَالسَّبيلُ الاٴعظَم ، مَنْ اتاکُم نَجیٰ وَمَن لَم یَاٴْتِکُم هَلَکَ ،ان عظيم ہستيوں سے تمسک اختيار کرنے والا اور ان کی راہ پر چلنے والا سعادت تک پہنچا، دنيا اور آخرت کی ہلاکتوں سے نجات پاگيا ورنہ بے چارہ بدبخت اور دونوں جہان ميں نقصان اڻهانے والا ہے۔ ١٣٠ ۔ “رویٰ ابراہيمُ بْنُ محمَّد الحَمَوینی مُسنداً عَن الاعْمَش عَن ابراہيم ، عَن عَلْقَمہ وَالاسود قالا: اتَينا اَبا اَیوب الاَنصاری وَقلنا لَہُ یا اَبا اٴیوبِ انَّ اللّٰہِ تعالیٰ اَکرَمَک بنبيّہ حَيثُ کانَ ضَيفاً لَکَ فَضيلة مِن اللّٰہ فَضَّلَکَ بِها اخبرنا مخرَجِکَ مَعَ عَلیٍّ عليہ السلام تُقاتِلُ اَهلَ لا اِلہ الاَّ اللّٰہ ، قالَ : اُقسمُ لکما بِاللّٰہِ لَقَد کانَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص) فی هذا البَيتِ الذی انتُما فيہِ مَعی وَما فی البَيتِ غَيرُ رَسَول اللہِّٰ (ص) ، وَعَلیٌ عليہ السلام جالِسٌ عَن یَمينِہِ وَاٴنَا جالِسٌ عَن یَسارِہِ وَاَنَس قائمٌ بَينَ یَدَیہِ اِذحرَّکَ البابُ فَقالَ رَسُولُ اللہّٰ (ص) اِفتَح لِعَمّار الطّيب المُطَيّب فَفَتَحَ النّاس البابَ وَدَخَلَ عَمّارٌ فَسَلَّمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اسراء، آیت ٩۔ (
عَلیٰ رسول اللّٰہ (ص) فَرَحَّبَ بِہِ ثم قالَ لِعَمّارٍ انّہ سَيَکُونُ فی امّتی بَعدی هُناة حتّی یَختلِفَ السَّيف فيما بَينَهم وَحتّی تَقتل بَعضُهُم بَعضاً ، فَاِذا رَاٴیتَْ لٰذِک فَعَلَيکَ بِهذا الاٴضلَْعِ عَن یمينی ، یَعنی عَلیَّ بن ابی طالبٍ عليہ السلام فَاِذا سَلَکَ النّاسُ کُلّهم وادیا وَسَلَکَ عَلیٌّ وادیاً فَاسلک وادِی عَلیٍّ وَخلّ عَن النّاسِ یا عمار انَّ عَلياً لا یردّکَ عَن هدیً وَلا یَدُلُّکَ عَلیٰ رَدیً ، یا عمّار طاعةُ ) عَلیٍّ طاعَتی وَ طاعتی طاعَة اللّٰہ عزّوجلّ” ( ١ ابراہيم ابن محمد حموینی نے اپنے اسناد کے ساته علقمہ اور اسود سے روایت کی ہے کہ ان کا بيان ہے: ہم دونوں ابو ایوب انصاری کی خدمت ميں حاضر ہوئے (جو مکہٴ مکرمہ سے مدینہ ٴ منورہ کی طرف ہجرت کرتے وقت حضرت رسول اکرم (ص) کے ميزبان تهے) اور ہم نے عرض کيا: اے ابو ایوب ! الله تعالیٰ نے پيغمبر اسلام (ص) کے مہمان ہونے کی برکت سے بزرگی اور فضيلت کی دولت سے مالا مال کيا ہے ہميں اپنے خروج کی وجہ بتائيے کہ آپ نے علی ابن ابی طالب - کے ساته کلمہ گویوں سے کيوں جنگ کی (جو خدا کو یکتا تسليم کرکے اس کی عبادت کرتے ہيں)۔ اور (شاید ان کی نظر ميں نہروان کے خوارج ہوں) ابو ایوب انصاری نے کہا: ميں تم دونوں سے الله کی قسم کها کر کہتا ہوں ميرے گهر ميں رسول خدا (ص) موجود تهے جس گهر ميں تم دونوں ميرے ساته بيڻهے ہوئے ہو۔ حضرت علی - ، رسول خدا (ص) کی دائيں طرف اور انس رسول الله (ص) کے سامنے تشریف فرما تهے گهر ميں ہمارے علاوہ اور کوئی موجود نہيں تها اس دوران دقّ الباب ہوا رسول خدا (ص) نے انس سے فرمایا: عمار کے ليے دروازہ کهول دو (وہ عمار جو ہر لحاظ سے پاک و پاکيزہ، طيّب و طاہر تهے) لوگوں نے دروازہ کهول دیا، عمار نے داخل ہوکر رسول خدا (ص) کو سلام عرض کيا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول خدا (ص) نے آپ کو سلام کا جواب دیا ان کا احترام کيا اور خوش آمدید کہہ کر عمار سے فرمایا: عنقریب ميرے بعد ميری امت ميں ناگفتہ بہ امور صادر ہوں گے آخرکار ان امور کی وجہ سے لوگوں ميں تلوار چلے گی وہ ایک دوسرے کو قتل کریں گے جب تم ان باتوں کو دیکهو تو ميری دائيں طرف بيڻهنے والے مرد اضلع ( ١) یعنی علی ابن ابی طالب کا ساته دینا، اگر تمام لوگ ایک راستہ پر چليں اور علی تنہا دوسرے راستہ کو اختيار کریں تو تم انہيں کے راستہ کو منتخب کرنا اور انہيں کی پيروی کرنا اور دوسرے تمام لوگوں کے راستے کو چهوڑ دینا (اور یاد رکهو!) اے عمار! علی - (کسی وقت بهی) تم کو راہِ ہدایت سے برگشتہ نہيں کرے گا اور نہ ہی تمہيں ناپسند امور اور انحرافی و باطل راستوں کی طرف تمہاری رہنمائی کرے گا، اے عمار! علی کی اطاعت و فرماں برداری ميری اطاعت ہے اور ميری اطاعت بهی الله تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری ہے۔ حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - جو ہر قسم کے فضائل و مناقب اور کمالات پر فائز تهے ان کے گيارہ فرزند ارجمند عليہم السلام بهی ان کے وارث ہيں چنانچہ فرمایا: ١٣١ ۔ “اوّلنا محمّد وا وسطنا محمّد وآخرنا محمّد و کلّنا محمّد ” ( ٢) (ہمارا اول محمد ہے ہمارا اوسط محمد ہے ہمارا آخر محمد ہے اور ہم سب ہی محمد ہيں) سب کے سب ایک ہی نور ہيں۔ مذکورہ روایت ميں حضرت امير المومنين علی -کے اعلیٰ اور عظيم مرتبہ کی تصریح کی اور یہ کہ وہ ایک امت بلکہ سارے لوگوں کے مقابل ميں وہ پوری امت ہيں، اور اگر تمام لوگ اور ہر ایک امت مختلف راستوں پر یا بالاتفاق سب ایک راستہ کو اختيار کریں ليکن علی - ان سب کے برخلاف چليں تو صرف راہِ مستقيم ، ہدایت اور سعادت کا راستہ علی کا ہے اور ان سب کا راستہ ضلالت و گمراہی اور بدبختی کا ہے جس کا نتيجہ ہلاکت اور نقصان ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اضلع اُس شخص کو کہتے ہيں جس کے سر کے آگے بال کم ہوتے ہيں۔ ( ٢(۔ غيبت نعمانی، ص ٨۶ ، بحار الانوار، ج ٢۶ ، ص ۶، ص ١۶ ، تفسير قمی، ج ١، ص ١٨ ۔ (
٢۔ نورانی نشان / ٢٠ ٢٠ ۔ “وَاَعلامٌ لا یُعم یٰ عَنها السّائِرُونَ ” (وہ نشان منزل ہے جو راہ گيروں کی نظروں سے اوجهل نہيں ہوسکتا ہے( یہ عزیز ترین الٰہی کتاب بہت نورانی اور روشن نشانی ہے کہ اس کی سير کرنے والے نابينا نہيں ہوسکتے۔
۸
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
٢۔ سرحدِ ہدایت / ٢١ ٢١ ۔ وَآکام لا یجوُزُ عَنهاَ القاصِدُونَ یہ وہ ڻيلہ ہے جس کا تصور کرنے والے آگے نہيں جاسکتے ہيں، اس ليے کہ وہ تہ بہ تہ سبزاور خرم و شاداب معارف کا گلستان اور علوم کا دریا ہے کہ اس پر چلنے والے اسے ترک نہيں کریں گے۔ شارح بحرانی کہتے ہيں: لفظ اعلام و آکام ان ادلہ اور علامات سے استعارہ ہے جو قرآن مجيد ميں ہے ایسا راستہ ہے جو اس کی اور اس ميں موجودہ احکام کی معرفت پر ختم ہوتا ہے اس اعتبار سے کہ اپنے تمسک رکهنے والوں کی ان کی طرف ہدایت کرتا ہے جيسا کہ نصب شدہ علامتيں اور پہاڑ وغيرہ راستوں اور شاہراہوں کی رہنمائی کرتے ہيں۔ الله تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: < إِنَّ فِی خَلقِْ السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضِْ وَاختِْلاَفِ اللَّيلِْ وَالنَّہَارِ وَالفُْلکِْ الَّتِی تَجرِْی فِی البَْحرِْ بِمَا یَنفَعُ النَّاسَ وَمَا اٴَنزَلَ اللهُ مِن السَّمَاءِ مِن مَاءٍ فَاٴَحيَْا بِہِ الاْٴَرضَْ بَعدَْ مَوتِْہَا وَبَثَّ فِيہَا مِن کُلِّ دَابَّةٍ وَتَصرِْیفِ الرِّیَاحِ وَالسَّحَابِ المُْسَخَّرِ بَينَْ السَّمَاءِ وَالاْٴَرضِْ لَآیَاتٍ لِقَومٍْ ) یَعقِْلُونَ> ( ١ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١۶ ۔ (
بے شک زمين و آسمان کی خلقت روز و شب کی رفت و آمد ان کشتيوںميں جو دریاؤں ميں لوگوں کے فائدہ کے لئے چلتی ہيں اور اس پانی ميں جسے خدا نے آسمان سے نازل کرکے اس کے ذریعہ مردہ زمينوں کو زندہ کردیا ہے اور اس ميں طرح طرح کے چوپائے پهيلا دیئے ہيں اور ہواؤں کے چلانے ميں اور آسمان و زمين کے درميان مسخر کيے جانے والے بادل ميں صاحبان عقل کے ليے الله کی واقعی نشانياں پائی جاتی ہيں۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ١ اور اس کی نشانيوں ميں سے یہ بهی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تمہيں ميں سے پيدا کيا ہے تاکہ تمہيں اس سے سکون حاصل ہو اور پهر تمہارے درميان محبت اور رحمت قرار دی اور اس کی نشانيوں o ہے کہ اس ميں صاحبان فکر کے ليے بہت سی نشانياں پائی جاتی ہيں ميں سے آسمان و زمين کی خلقت اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف بهی ہے کہ اس ميں صاحبان علم کے ليے بہت سی نشانياں پائی جاتی ہيں۔ اور ٢٣ سے ٢۵ نمبر تک کی اس سورہ کی دوسری آیتيں بهی تمام لوگوں کو تمام عالمين کے پروردگار کی معرفت کی طرف متوجہ کرتی ہيں۔ مولف کہتے ہيں: ائمہٴ ہدی بالخصوص حضرت بقية الله الاعظم امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف ہدایت کی علامات اور نشانياں ہيں کہ ان پر چلنے والے ظلم و تجاوز نہيں کرسکتے اور نہ ہی نيست و نابود ہوسکتے ہيں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ روم، آیت ٢٠ ۔ ٢٢ ۔ (
الله تعالیٰ نے فرمایا: اور علامات معين کردیں اور لوگ ستاروں سے بهی راستے دریافت کرليتے ہيں۔ اس آیت کی تفسير ميں امام جعفر صادق - نے فرمایا: “النجم (ص) و العلامات هم الائمة عليهم السلام ” ( ١) نجم رسول خدا (ص) اور ہم علاماتِ الٰہيہ ہيں۔
٢۔ گوارا پانی / ٢٢ ٢٢ ۔ “جَعَلَہُ اللہُّٰ تَعال یٰ رَیّاً لِعَطَشِ العُلَماء ” (پروردگار نے اسے علماء کی سيرابی کا ذریعہ قرار دیا ہے) خداوند متعال نے قرآن کریم کو علماء کی پياس کی حرارت کو کم کرنے اور سيراب کرنے والا قرار دیا شباہت کی وجہ علماء کے نفوس کا حقائق و معارف الٰہيہ کا شدید اشتياق ہے جو قرآن ہے۔ جيسا کہ صاف و شفاف سرد پانی پياسوں کی پياس کو برطرف کرتا ہے یہ عزیز ترین کتاب الٰہی بهی انہيں اپنے بے انتہا حقائق و معارف سے سيراب کرتی ہے۔ جس طرح قرآن مجيد طالبان علم و بصيرت اور حقائق و معارف الٰہيہ کے آتش عشق کو خاموش کرتا اور تسکين بخشتا ہے اس طرح ائمہٴ ہدی کا مقدس وجود بهی ہے موت و حيات کی صورت ميں وہ نور ہدایت اور علم، ادب و ہنر کے عاشقين اور متلاشيوں کے ليے آرام و سکون کا باعث ہے چونکہ وہ حضرات معادن وحی اور علم الٰہی کے خزانہ دار ہيں نيز آب حيات کا منبع و سرچشمہ ہيں، جو لوگ ان کی خدمت ميں شرف یابی کی سعادت حاصل کرچکے ہيں انہوں نے ان کے مکتب توحيد، عقائد اور مختلف النوع علوم و فنون سے استفادہ اور روشنی حاصل کی ہے نہ دس نہ نو بلکہ ہزاروں بزرگوں اور احادیث ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٢٠۶ ۔ امالی طوسی، ص ١۶٣ ۔ بحار الانوار، ج ۶، ص ٩١ ۔ (
کے حاملين جيسے برید ابن معاویہ زرارہ جيسے افراد، محمد ابن مسلم جيسے لوگ، ابو بصير جيسی ہستياں اور جابر جعفی (رضوان الله تعالیٰ عليہم) وغيرہ جيسے لوگ جو سب کے سب امام محمد باقر اور امام صادق عليہما السلام کے اصحاب ميں سے تهے وہ ثقہ، فقيہ، سر شناس اور اثر و رسوخ رکهنے والے اصحاب تهے اور ان عظيم ہستيوں کے نزدیک اعلیٰ و بالا عظمت و منزلت کے حامل تهے۔ ١٣٢ ۔ “عَن جَميل بن درّاج قالَ سَمعت اَبا عَبدِ اللّٰہِ عليہ السلام یَقُولَ بَشّر المخبتينَ بالجنة بُرید بن معٰویَةَ العجلی وَابُو بَصير لَيث بن البختری المُرادی وَمحمَّد بن مُسلمٍ وزُرارةَ اربعةً ) نجبآء اُم اٰنءُ اللہِّٰ عَل یٰ حلالِہِ وَحَرامِہِ لَو لاٰ هوٴلآء انقَطَعَ آثارُ النُبُوّةِ وَاندرَسَت ” ( ١ جميل ابن درّاج کا بيان ہے : ميں نے امام جعفر صادق - کو فرماتے ہوئے سنا کہ:مخبتين (خشوع کرنے والوں) کو (الله کی) جنت کی خوش خبری دو برید ابن معاویہ عجلی، ابو بصير، محمد ابن مسلم اور زرارہ یہ چاروں منتخب لوگوں ميں سے الله تعالیٰ کے حلال و حرام کے امانت دار ہيں، اگر یہ نہ ہوتے تو آثار نبوت منقطع اور کہنہ ہو کر ختم ہوگئے ہوتے۔ ائمہٴ اطہار انبياء کے علوم کے وارث واليان امر الٰہی اور علم خداوندی کے خزانہ دار نيز وحی الٰہی کے خزانہ ہيں ان ميں سے پہلے علی ابن ابی طالب - اور ان ميں سے آخری قائم آل محمد بقيہ الله الاعظم عجل الله تعالیٰ فرجہ صلوات الله و سلامہ عليہم اجمعين ہيں۔ ١٣٣ ۔ “فی الکافی بِاسنادِہِ : عَن عَبدِ الرّح مٰن بن کَثير قالَ سَمِعتُ اَبا عَبدِ اللہِّٰ عليہ ) السلام یَقولُ نحنُ ولاةُ اٴمر اللہّٰ وَخَزَنَةُ عِلمِْ اللہِّٰ وَعَيبَةُ وَحی اللہِّٰ ” ( ٢ کافی ميں کلينی نے اپنی سند کے ساته نقل کيا ہے کہ عبد الرحمن ابن کثير کا بيان ہے کہ ميں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت امام جعفر صادق - کو فرماتے سنا: ہم واليان امر الٰہی ہيں ہم علوم الٰہی کا خزانہ اور وحی پروردگار کی حفاظت کرنے والے ہيں۔ ١٣۴ ۔ “وفيہ بِاسنادِہِ عنَ عَبد اللہِّٰ بن اَبی یَعفور قالَ : قالَ اَبو عَبدِ اللّٰہِ عليہ السلام یا ابنَ اَبی یَعفُور انَّ اللہَّٰ واحدٌ متوحِدٌ بِالوَاحدانيةِ ، متفَرِّدٌ بِامرِہِ فَخَلَقَ خَلقْاً فَقدَّرَهُم لِذلکَ الامرْ، فَنَحنُ ) هُم یا ابنَ ابی یعفورُ فَنَحنُ حججُ اللّٰہِ فی عِبادِہِ خُزّٰانُہُ عَلیٰ عِلمہ وَالقائمونَ بِذلِکَ ” ( ١ اس کتاب ميں کلينی اپنی سند کے ساته عبد الله ابن ابی یعفور سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا: حضرت صادق آل محمد - نے فرمایا: اے ابن ابی یعفور! خدائے سبحان واحد ہے اور اپنی وحدانيت ميں منحصر بہ فرد ہے (یعنی وحدانيت کی صفت اور امر خداوندی اس کی مقدس ذات سے مخصوص ہے) لہٰذا خدائے متعال نے اپنی بعض مخلوقات کو خلق کيا اور اس امر دین کو ان کے ليے مقدر فرمایا، یقينا ہم الله کے بندوں کے درميان اس کی حجتيں اور علم الٰہی کے خزانے نيز اس کی حفاظت کرنے والے ہيں۔ ١٣۵ ۔ “وَفيہ بِاسنادِہِ عَن عَلیً بن جعفر عن ابی الحَسَن موسیٰ عليہ السلام قالَ قالَ اَبُو عَبد اللہّٰ عليہ السلام اِنَّ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ خَلَقنا فَاَحسَنَ خَلقَنا وَصَوَّرَنا فَاَحسَن صُوَرَنا وَجَعَلَنا خُزاٰنَّہُ فی ) سمآئِہِ و ارضِہِ وَلَنا نَقَطَتِ الشَجَرة وَبِعبادتنا عُبِد اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ وَلَولانا ما عُبد اللہّٰ ” ( ٢ اسی کتاب ميں کلينی اپنی سند کے ساته علی ابن جعفر سے انہوں نے حضرت موسی ابن جعفر - سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے کہ حضرت امام جعفر صادق - نے فرمایا: خدائے عزوجل نے ہم کو بہترین خلقت کے ساته پيدا کيا اور ہميں بہترین خوبصورت شکل عطا کی اور ہم کو اپنے آسمان و زمين کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خزانہ دار بنایا اور ہم سے درختوں نے گفتگو کی ہماری عبادت سے خدائے سبحان کی عبادت ہوئی اور اگر ہم نہ ہوتے تو خدائے سبحان کی عبادت نہ کی جاتی۔ (ہم نے لوگوں کو الله کی طرف دعوت دی اور انہيں خدا کو پہچنوایا ہے اسی معرفت کے نتيجہ ميں وہ الله تعالیٰ کی عبادت انجام دیتے ہيں۔ ليکن جو لوگ اسی نعمت عظمیٰ (ان عظيم ہستيوں کی بارگاہ کے کسب فيض) سے محروم تهے وہ حضرت حجة ابن الحسن مولانا حضرت صاحب العصر و الزمان - عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے پُر فيض وجود کی برکتوں سے براہ راست یا اس طرح کے علاوہ استفادہ یا روشنی حاصل کی یا کرتے رہتے ہيں اگرچہ اس غيبت کے پردہ ميں برج امامت کا آفتاب اپنے عاشقين اور منتظرین کی آنکهوں سے مخفی ہے ليکن ہميشہ حضرت کی غيبی عنایات و برکات تمام موجودات کے شامل حال ہوتی ہيں۔ جن لوگوں نے معصوم ائمہٴ ہدیٰ اور پيشواؤں سے استفادہ کيا اور ان کے علوم و آثار کے حامل تهے انہوں نے ہمارے ليے تحفہ پيش کيا ان ميں سے ہم صرف ایک کو بطور نمونہ تبرکا ذکر کرتے ہيں: محمد ابن مسلم ابن ریاح، ابو جعفر الطحان الثقفی جو اصحاب اماميہ کے سرشناس اور اثر و رسوخ رکهنے والے کوفہ ميں فقيہ اور تقویٰ و پرہيز گاری کے حامل تهے انہوں نے صادقين آل محمد سے بہت زیادہ کسب فيض کيا ہے۔ اور ان حضرات سے روایت نقل کی ہے۔ امام محمد باقر - سے تيس ہزار حدیث اور امام جعفر صادق سے سولہ ہزار سوال کرکے اسے حفظ کيا ہے۔ قرآن مجيد اور ہر دل عزیز حجّت الٰہی حضرت ولی اعظم امام زمانہ - کے درميان موازنہ اور وجہ شباہت جو کتاب کے عنوان ميں (القرآن و الحجة) اخذ کيا گيا ہے آنے والے مطالب سے واضح اور روشن ہوجائے گا۔ حضرت امير المومنين - نے قرآن مجيد کی توصيف ميں فرمایا: “ جعلہ اللّٰہ رَیّا لعطش العلماء” یعنی قرآن کریم علماء کی پياس کو خنکی اور سکون بخشتا ہے جتنا بهی چاہيں اس کے لامتناہی علوم سے استفادہ کریں ان کے ایمان اور اطمينان قلب ميں اضافہ کا باعث ہوگا الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب (آگاہ ہوجاؤ کہ اطمينان یاد خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے) ليکن ائمہٴ اطہار کا قرآن کریم کے ہم پلہ ہونا اور اس کے موازنہ کا تقاضا یہ ہے کہ یہی اوصاف اور خصوصيات ان عظيم ہستوں ميں بهی پائی جانی چاہيے اس بنا پر محمد ابن مسلم اور جيسے افراد کے حالات زندگی ميں مختصر عنایت اور توجہ کے بعد مذکورہ مطالب کی دليل روشن ہوجائے گی کہ حضرات ائمہٴ اطہار کے وجود کی برکتوں سے علم و بصيرت اور علوم الٰہی کے متلاشيوں کے دلوں کی آگ کو کيسے آرام و سکون ملتا ہے ليکن جو بہت زیادہ قابل توجہ امر ہے وہ یہ کہ محمد ابن مسلم مختلف موضوعات ميں اڑتاليس ہزار حدیث کے حامل ہوتے ہوئے بهی اپنی مزید کاميابی کے ليے اس منبع اور خوش گوار سرچشمہٴ حيات سے فيض حاصل کرنے کے ليے سوال کرتے ہيں کہ آفتاب کے ڻهہرنے کی کيفيت کو بهی حضرت بيان فرمائيں۔ ١٣۶ ۔ “وَفی الاِختِصاصِ لِلمُفيد بِاسنادِہِ عَن محمَّدَ بنِْ مُسلِمٍ قالَ: قُلت لابی جَعَفرٍ عليہ السلام جُعِلتُ فَداکَ اخبرنی برُکودِ الشَّمسِ قالَ وَیحَک یا محمَّدُ ما اصغَر جثّتکَ وَاعضَلَ ) مَساٴلتکَ ، ثُمَّ سَکَتَ عَنّی ثَلاثَةَ ایّامٍ ، ثُمَّ قالَ لی فی اليَومِ الرّابِعِ اِنَّکَ لاَ هلٌ لِلجوابِ ” ( ١ اختصاص ميں شيخ مفيد اپنی سند کے ساته محمد ابن مسلم سے نقل کرتے ہيں کہ ان کا بيان ہے ميں نے امام محمد باقر - سے عرض کيا : ميں آپ پر قربان مجهے یہ تو بتائيں کہ کس طرح سورج ڻهہرتا ہے (اور زوال کے وقت حرکت کا احساس نہيں ہوتا) تو حضرت - نے فرمایا:ویحک ( ٢) اے محمد ! اس معمولی جثہ کے ساته ایسا مشکل اور سخت مسئلہ دریافت کر رہے ہو؟ راوی کا بيان ہے: حضرت - تين دن تک خاموش رہے اور اس کا جواب نہيں دیا پهر چوتهے دن فرمایا کہ: تم اس لائق ہو کہ تمہيں اس کا جواب دیا جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الاختصاص، ص ٢٠١ ، بحار الانوار، ج ۴، ص ٣٢٨ ۔ ( ٢(۔ ویحک کا معنی ترحّم اور توجّہ کے ہيں اور کبهی مدح اور تعجب کے ليے بهی استعمال ہوتا ( ہے اس معنی کی تائيد امام کے قول سے ہوتی ہے۔
حضرت باقر العلوم - کا محمد ابن مسلم کو یہ کہنا کہ اس معمولی جثہ کے ہوتے ہوئے مشکل مسئلہ دریافت کر رہے ہو اس ميں چند احتمالات پائے جاتے ہيں ١)۔ شاید از باب مزاح اور مستحب مذاق کی بنياد پر ایسا کہا ہو ٢)۔ یا اس باب سے ہو کہ اولاد آدم معمولی جثہ کے باوجود خود کو مشکل مسائل جاننے کے ليے سختی ميں ڈالتی ہيں۔ ٣)۔ یا ادب سکهانے کے باب سے ہو کہ انسان غير ضروری چيزوں اور غير مکلف امور کی معرفت کی تلاش ميں پڑے۔ یا ایسے مسائل کہ اکثر لوگوں کی عقليں وہاں تک رسائی نہيں کر سکتيں یا اس کے احتمال تک کو درک نہيں کر سکتيں۔ جيسا کہ کميل ابن زیاد نخعی (جو مولی الموحدین حضرت امير المومنين -کے ہم راز تهے) نے حضرت - سے حقيقت کا معنی دریافت کيا تو فرمایا: “ما لک و الحقيقة” یعنی تمہيں حقيقت کے معنی سے کيا سروکار ہے، بہت زیادہ اصرار کے بعد اور حضرت کی وضاحت کے باوجود بهی کچه حاصل کرسکے تو فرمایا: چراغ کو گل کردو صبح ہو گئی ہے۔ اس بنا پر مولف بهی حضرت باقر العلوم - کا محمد ابن مسلم کے جواب ميں قارئين کرام کو اس کے اصل ماخذ جو کتاب من لا یحضرہ الفقيہ ( ١) ہے حوالہ دیتے ہيں اور کتاب روضة المتقين ميں علامہ مجلسی عليہ الرحمہ نے مفصل طور پر اسے ذکر کيا ہے ( ٢) مولف بطور تبرک اس مبارک حدیث کے بعض جملات کی طرف اشارہ کر رہے ہيں: ”ساٴل محمّد بن مسلم ابا جعفر عليہ السلام عن رکود الشمس فقال : یا محمّد اصغر جثتک واعضل مساٴلتک وانک لاٴهل للجواب اِنَّ الشمس اذا طلعت جذبها سبعون الف ملک بعد ان اخذ بکل شعاع ( شعبة خ ) منها خمسة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ من لا یحضرہ الفقيہ، ج ١، ص ١۴۵ ۔ ( ٢(۔ روضة المتقين فی شرح من لا یحضرہ الفقيہ، ج ٢، ص ٨٠ ۔ (
آلاف من الملائکة من بين جاذب ودافع ، الی ان قال ، فعند ذلک نادت الملائکة : سبحان اللّٰہ ولا الہ الا اللّٰہ والحمد للّٰہ الذی لم یتخذ صاحبة ولا ولداً ولم یکن لہ شریک فی الملک ولم یکن لہ ولی من الذّل وکَبّرہ تکبيراً ، فقال لہ: جعلت فداک اُحافِظ علی هذا الکلام عند زوال الشمس ؟ فقال نعم حافظ عليہ کما تحافظ علی عينيک فاذا زالت الشمس صارت الملائکة من ورائها ) یسبحون اللّٰہ فی فلک الجوالی ان تغيب ۔” ( ١ محمد ابن مسلم نے حضرت امام محمد باقر - سے سورج کے ڻهہرنے کے بارے ميں دریافت کيا تو حضرت - نے فرمایا: اے محمد ابن مسلم ! تمہارا جثہ کتنا معمولی ليکن تمہارا مسئلہ کتنا دشوار ہے مگر جواب کی اہليت تم ميں موجود ہے : جب سورج طلوع کرتا ہے تو ستّر ہزار فرشتے اس کو جذب کرتے ہيں اس کے بعد ہر شعاع کو پانچ ہزار فرشتے اپنے اختيار ميں رکهتے ہوئے بعض جذب کرتے ہيں بعض دفع کرتے ہيں۔ اس وقت فرشتے فریاد کرتے ہيں : پاک و پاکيزہ ہے وہ خدا کہ جس کے علاوہ کوئی معبودنہيں ہے، تمام حمدو ثناء اسی الله کے ليے ہے جس نے نہ کسی کو فرزند بنایا ہے اور نہ کوئی شخص اس کے ملک ميں شریک ہے اور نہ کوئی اس کی کمزوری کی بنا پر اس کا سرپرست ہے اور پهر باقاعدہ اس کی بزرگی کا اعلان کرتے رہو۔ محمد ابن مسلم نے دریافت کيا: کيا اس بات کو سورج کے زوال کے وقت محفوظ رکهوں؟ فرمایا: ہاں اس کی حفاظت کرو، جس طرح اپنی آنکهوں کی حفاظت کرتے ہو۔ جب سورج مکمل زوال پذیر ہوجائے تو فرشتے اس کے پيچهے حرکت کرتے ہيں اور الله ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ روضة المتقين، ج ١، ص ٨٠ ۔ (
کے چرخ گردوں ميں تسبيح کرتے ہيں یہاں تک کہ وہ غروب ہو جائے۔ مولف کہتے ہيں: اس سلسلے کی دوسری احادیث کے ساته مذکورہ حدیث کی مکمل ) وضاحت کے ليے اسی کی اہليت رکهنے والے قارئين روضہ المتقين کی طرف رجوع کریں۔ ( ١
٢۔ دلوں کی بہار / ٢٣ ٢٣ ۔ وَرَبيعاً لِقُلُوبِ الفقَهاء (مجتہدین کے دلوں کی بہار ہے( قرآن مجيد فقہاء کے دلوں کی بہار ہے اس ليے کہ تدبير اور قرآن کے بطون ميں غور وفکر کی بنا پر استنباط اور استظہار احکام و حقائق نيز اس کی معنویات سے شرح صدر اور فراخ دلی حاصل ہوتی ہے مزید ان کے دلوں ميں بہت زیادہ فرحت اور سرور و نشاط پيدا ہوتا ہے اور اس کے با ارزش مطالب سے ایسی لذت حاصل کرتے ہيں کہ تمام مادی لذتيں اس کے مقابل ميں کبهی بهی کوئی قيمت نہيں رکهتی اور جس قدر زیادہ تلاوت کریں اور اس کے عميق مفاہيم تک پہنچيں اس کے علاوہ کہ ان کے ایمان ميں اضافہ ہوتا ہے ان کا اشتياق فراوان اور پياس بهی زیادہ محسوس ہوتی ہے یہ خود قرآن کریم کی واقعيت اور معجزات ميں نيز مومنين کے اوصاف ميں ذکر ہوا ہے ( ٢) اور جب اس کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان ميں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اوریہ کہ فرمایا: قرآن فقہاء کے دلوں کی بہار ہے جس طرح لوگ اور فصل بہار ميں دنيا کے طبيعی مناظر جو تمام پہاڑ دشت و صحرا باغات وغيرہ ہيں سرسبز و شاداب ہوتے ہيں اور جہاں بهی جائيں رنگا رنگ شکوفے چمکتے ہيں اور مختلف بوڻے کوہ کے دامن ميں اور خود فصل بہار کی نسيم جاں فزا ہر افسردہ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکستہ دل انسان کو نشاط و فرحت بخشتی ہے قرآن بهی اپنے اہل کو فرحت و سرور کی نوید سناتا ہے۔ مومنين کا ایک دوسرے کی زیارت کرنے کے باب ميں بہت سی روایات معادن وحی و تنزیل سے وارد ہوئی ہيں جو احيائے قلوب اور ائمہٴ ہدی کی احادیث کو ذکر کرنے کا باعث ہےں اور اس عمل کے اہم آثار و فوائد اور فوق العادت نتائج ذکر ہوئے ہيں۔ ١٣٧ ۔ “ فی السّفينةِ عَن الکافی عَن ابی عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام قالَ تَزاوَرُوا فَانَّ فی زیارَتِکُم اِحيٰاءٌ لِقلُوبِکم وذِکرٌ لاٴحادیثنا واَحادیثنا تعطفُ بَعضکُم عَلیٰ بَعضٍ فَاِن اَخَذتمُ بها رشدتُم ونجوتم ) وَاِن تَرَکتُْموها ضَلَلتُم وَهَلکتُْم ، فخُذُوابِها وَاَنَا بِنجاتِکُم زَعيمٌ ” ( ١ محدث قمی نے سفينہ ميں کافی سے نقل کيا ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: ایک دوسرے کی زیارت کرو تمہارے زیارت کرنے کی وجہ سے تمہارے قلوب زندہ ہوں گے اور ہماری احادیث کا ذکر ہوگا (یاد آوری کے فوائد) ہماری حدیث ایک کو دوسرے پر مہربان بنائيں گی،لہٰذا اگر تم ان کے مطالب کو اپنا دستور العمل قرار دو گے تو تم ترقی یافتہ ہوگے ، نجات حاصل کرو گے اور ان کو چهوڑ دو گے تو گمراہ اورہلاک ہوجاؤ گے پهر امام - نے تاکيد فرمائی لہٰذا ان احادیث کے مطالب کو اس کے مختلف موضوعات خواہ اصول، عقائد، احکام یا اخلاقيات ميں ذکر کيے گئے ہوں اسے اپنی روزہ مرہ زندگی کا معمول قرار دو تو پهر ميںتمہاری نجات کا ضامن ہوں۔ ١٣٨ ۔ “ وَفيہ ایضاً بِاِسنادِہِ عَن مَيسرٍ عَن ابی جعفَرٍ عليہ السلام قالَ قالَ لی اٴَتخلُونَ وَ تَتَحَدَّثُونَ تَقُولونَ ما شِئتُم ؟ فَقلتُ : ای وَاللہّٰ اِنّا لَنَخلُو وَنَتَحدّثُ وَنَقُولُ ما شِئنا فَقالَ : اٴَما وَاللہِّٰ لَوَدَدتُ انّی مَعَکُم فی بَعضِ تِلکَ المواطِنِ ، اٴما وَاللہِّٰ انّی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ١٨۶ ۔ سفينة البحار، ج ٣، ص ۵٢٩ ۔ (
) لاٴحِبُّ ریحَکُم وَاَرواحَکُم وَانَّکم عَلی دینِ اللہِّٰ وَدینِ ملائِکَتِہِ فاَعينونی بوَرَعٍ وَاجتِهادٍ ” ( ١ اسی کتاب کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے روایت نقل کی ہے کہ امام محمد باقر - سے ميسر نے روایت کی ہے کہ حضرت - نے مجه سے دریافت فرمایا: کيا تم لوگ خلوت نشين ہوکر گفتگو کرتے ہو اور جو چاہتے ہو کہتے ہو؟ ميں نے عرض کيا: بے شک خدا کی قسم! جب بهی ہمارا دل چاہتا ہے ہم لوگ خلوت ميں بيڻهتے ہيں اور اہل بيت عصمت و طہارت کے فضائل و مناقب کے بارے ميں بات چيت کرتے ہيں۔ تو حضرت محمد باقر - نے فرمایا: جان لو کہ خدا کی قسم ! ميرا دل تو بہت چاہتا ہے کہ ميں بهی ایسے مواقع پر بعض جگہ تمہارے ہمراہ ہوتا، خدا کی قسم ! ميں تمہاری قوت اور جانوں کو دوست رکهتا ہوں تم خدا کے دین اور اس کے ملائکہ کے دین پر ہو لہٰذا تم تقوی و پرہيز گاری اور اپنی کوششوں سے اس کی مدد کرو۔ ١٣٩ ۔ “عَنِ الصّادِقِ عليہ السلام قالَ قالَ الحَسنُ بنُ عَلیٍ عليہما السلام لِرَسول اللّٰہِ (ص): یا اباہُ ما جَزآء مَن زارَکَ ؟ فَقالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) یا بنیَّ مَن زارَنی حيّاً اَو مَيّتاً ، او زارَ اَباکَ ) او اخاکَ اَو اٰزرَکَ کانَ حَقاً عَلیّ اَنَّ ازُورَہُ یَوم القِ اٰيمةِ فاخَلّصہُ مِن ذُنُوبہِ ” ( ٢ شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے اپنی کتاب علل الشرائع ميں امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: امام حسن مجتبیٰ نے حضرت رسول خدا (ص) کی خدمت ميں عرض کيا: اے ميرے پدر گرامی! جو آپ کی زیارت کرے اس کا کيا اجر و ثواب ہے؟ فرمایا: اے بيڻے! جو ميری زندگی ميں یا مرنے کے بعد ميری زیارت کرے یا تمہارے والد گرامی یا تمہارے عزیز بهائی یا خود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ١٨٧ ۔ ( ٢(۔ کامل الزیارات، ص ۴٠ ، علل الشرائع، ج ٢، ص ۴۶ ۔ تہذیب الاحکام، ج ۶، ص ۴، مزار ابن ( مشہدی، ص ٣٢ ۔
تمہاری زیارت کرے تو یہ ميرے ليے اس کے زائد حق ميں واجب ہے کہ اس کی قيامت کے دن زیارت کروں اور اسے گناہوں کی قيد سے نجات اور چهڻکارا دلاؤں۔ ١۴٠ ۔ “وَفی فَرحةِ الغَرِیّ للسَّيدِ بن الطّاووسِ ( رضوان تعالیٰ عليہ ) عن الصَّادِقِ عليہ السلام وَ قَد ذکِرَ امير الموٴمنينَ عليہ السلام فقال : یَابنَ مارِد مَن زارَ جَدّی عارِفاً بِحَقةِ کَتَبَ اللہّٰ لَہ بِکلّ خطوةٍ حَجَّةً مقبولةً وعمرةً مبرورة یَابن مارِد وَاللہّٰ ما یَطعَْمُ النّارُ قَدَماً تَغَيّرت فی زیارَةِ ) اميرالمُوٴمنينَ عليہ السلام ما شِياً کانَ اَوْ راکِباً ، یَابْنَ مارِدٍ اکتُب هذا الحَدیثَ بمآءِ الذّهَب ” ( ١ سيد جليل القدر جناب ابن طاووس رضوان الله تعالیٰ عليہ نے اپنی کتاب فرحة الغری ميں امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ گویا ان کے جد بزرگوار کے بارے ميں گفتگو ہوئی (ابن مارد کے ذریعہ یا کسی دوسرے کے ذریعہ) تو حضرت نے ابن مادر کو خطاب کرکے فرمایا: اے فرزند مادر! جو شخص ميرے جد بزرگوار کی حقيقی معرفت کے ساته زیارت کرے (ان کی ولایت و خلافت بلا فصل کا عقيدہ رکهتا ہو) تو خدائے عزوجل اس کے ہر ایک قدم پر قبول شدہ حج اور عمرہ اس کے نامہٴ اعمال ميں تحریر کرتا ہے، اے فرزند مادر! خدا کی قسم ! آتش جہنم اس قدم کو اپنی غذا نہيں بناتی جو حضرت امير المومنين - کی زیارت کی راہ ميں اڻهایا جائے ، خواہ وہ پيادہ گيا ہو یا سواری کے ساته اے فرزند مادر! اس حدیث کو سونے کے پانی سے تحریر کرو۔ مولف کہتے ہيں: جس جگہ مومنين کی زیارت اور ائمہٴ اطہار کی حدیثوں کا مذاکرہ کيا جائے تو وہ ان کے احيائے قلوب کا باعث اور ان کے درميان محبت و مہربانی ایجاد ہوگی، ترقی اور ہلاکت سے نجات کا سبب ہوگی اور خود ائمہ کو شرکت کرنے کی تمنا پيدا ہوگی تو پهر واضح سی بات ہے کہ خود ان عظيم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہستيوں کے قبور مطہر کی زیارت کے آثار و فوائد خواہ ان کی زندگی اور موجودگی ميں ہوں خواہ ان کی رحلت کے بعد ہوں وہ بے شمار اور ر تصور سے بالاتر ہوں گے۔ قرآن مجيد جو فقہاء کے دلوں کی بہار ہے، حضرت بقية الله الاعظم امام زمانہ اور ان کے اجداد طاہرین کا مقدس وجود جو قرآن کریم کے ہم پلہ اور شریک ہيں جو ایک دوسرے سے جدا ہونے والے نہيں ہيں فطری بات ہے کہ ان کے مقدس حضور کو درک کرنا اور ان کے گہر بار کلمات کو غور سے ان فقہاء کا سننا جو حلال و حرام خدا کے امين ہيں حيات بخش نسيمِ بہاری کی طرح فراخ دلی اور دلوں کی پاکيزگی کا باعث ہوگا نہ صرف فقہاء کے ليے بلکہ امام - کا مقدس نور تمام مومنين کے قلوب ميں ضو فگن ہے تو وہ دلوں کی سياہی اور سب کے مشکلات کو دور کرنے کا موجب ہوگا۔ ١۴١ ۔ “ وَفی الکافی عَن اَبی خالدِ الکابُلی عَن اَبی جَعفر عليہ السلام یا اَبا خالدٍ لَنُورُ الامامِ فی قُلُوبِ الموٴمنين اَنْوَرُ مِنَ الشّمس المُضئيةِ بِالنَهارِ وَهُمْ وَاللّٰہ یُنوّرونَ قُلُوبَ الموٴمنين ، وَیَحجبُ اللّٰہ عزّوجلّ نُورَهم عَمّن یَشآء فَتظلَم قُلوبَهم وَاللّٰہ یا ابَا خالد لا یُحبنا عَبدٌ وَ یَتولّانا حَتّی یُطهِّرَ اللّٰہ قَلبَہ وَلا یُطهِّر اللّٰہ قَلب عَبدٍ حَتّی یُسلَّم لَنا وَ یَکون سِلماً لَنا فَاذا کانَ مسلماً لنا سَلّمہ ) اللہّٰ مِن شدیدِ الحِسابِ وَآمَنَہُ مِن فَزَ عِ یَوم القيامَة الاَکبَرِ ” ( ١ ١۴٢ ۔ “ وَفی الخرایجِ عَن اَبی بَصيرٍ قالَ دَخَلتُ المَسجِدَ مَعَ اَبی جَعفَرٍ عليہ السلام وَالنَّاسُ یَدخُلُونَ وَیخرُجُونَ فَقالَ لی سَلِ النّاسَ هَل یَرَونَنَی ؟ فَکل مَن لَقيتہ قُلتُ لَہ : اَرَاَیتَْ اَبا جَعفرٍ عليہ السلام یَقُولُ: لا،وَهُوَ وَاقِفٌ ، حَت یٰ دَخَلَ اَبُو رٰہونُ المکفُوف قالَ: سَل هذا؟ فَقُلت : هَل راٴیتَ اَبا جَعفَر ؟ فَقالَ: اٴلَيس هُو بقائمٍ ، ثُمَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١٩۴ ۔ مختصر بصائر الدرجات، ص ٩۶ ۔ بحار الانوار، ج ٢٣ ، ص ٣٠٨ ۔ تفسير ( قمی،ج ٢، ص ٢٧١ ۔ تفسير نور الثقلين، ج ٣، ص ۴۶٢ ۔
) قالَ: وَما عِلمکَ ؟ قالَ: وَکَيَفَ لا اعَلم وَهُوَ نُورٌ ساطعٌ ۔” ( ١ راوندی رحمة الله عليہ نے خرائج ميں ابو بصير سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا: ميں امام محمد باقر کے ہمراہ مسجد ميں داخل ہوا لوگ بهی رفت و آمد کر رہے تهے حضرت نے مجه سے فرمایا: لوگوں سے دریافت کرو کيا وہ مجهے دیکه رہے ہيں؟ ميں نے جس سے بهی ملاقات کی اس سے سوال کيا: ابو جعفر امام باقر - کو دیکها ہے ؟ کہا: نہيں، جب کہ حضرت - مسجد ميں تشریف فرما تهے یہاں تک کہ ابو ہارون مکفوف ( ٢) آئے تو حضرت نے فرمایا: اس سے دریافت کرو، ميں نے کہا: اے ابو ہارون! کيا ابو جعفر - کو تم نے دیکها ہے؟ کہا: کيا وہ وہی نہيں ہيں جو کهڑے ہوئے ہيں، بعد ميں راوی نے دریافت کيا کہ تمہيں کيسے معلوم ہوا؟ کہا: کيسے مجهے علم نہ ہو جب کہ اس عظيم ہستی ميں ایک نور تابان اور شمع روشن ہے۔ مولف کہتے ہيں: امام - کے نور کی روشنی یہ ہے کہ مومنين کے قلوب اگرچہ مادی نگاہيں ناقص اور وہ نابينا ہوں ليکن چشم دل سے ان عظيم ہستيوں کے نور اور حقيقت کو درک اور مشاہدہ کرتے ہيں۔
٢۔ مستقيم راستہ / ٢۴ ٢۴ ۔ “ وَمَحاجَّ لِطُرُقِ الُّلحاء ” (اور اسے علماء کے راستوں کے ليے شاہراہ قرار دیا ہے)۔ قرآن مجيد روشن اور مستقيم شاہراہ ہے کہ نہ اس ميں کوئی کجی ہے نہ گهاڻی اور سرنگ “صحاج” جای پناہ اور پناہ گاہ کے معنی ميں ہے یعنی قرآن صالحين کے ليے جو حق و حقيقت کے راستے پر چلتے ہيں ان کے ليے ایسی پناہ گاہ ہے کہ انہيں اپنی طرف ہدایت کرتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الخرائج و الجرایح، ج ٢، ص ۵٩۶ ۔ ( ٢(۔ مکفوف: نابينا۔ (
الله تعالیٰ فرماتا ہے: ( ١) بے شک یہ قرآن اس ) راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے۔ ( ٢ ١۴٣ ۔ “فی الکافی باسنادہ عن العلاء بن سيّابَة ، عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فی قولہ ) تعالیٰ < إِنَّ ہَذَا القُْرآْنَ یَہدِْی لِلَّتِی ہِیَ اٴَقوَْمُ >؛قالَ: یَهدیَ اِلیَ الا اٰ ممِ ” ( ٣ کافی ميں کلينی اپنی سند کے ساته علاء الدین سيّابہ سے نقل کرتے ہيں کہ امام صادق - فرماتے ہيں: یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے۔ اس سے مراد امام معصوم - ہے جو تمام ملتوں اور فرقوں کو قرآن کی طرف ہدایت کرنے والا ہے اس کے احکام و قوانين اور مطالب کو واضح طور پر بيان کرنے والا ہے نيز اس کی معرفت اور عمل کرنے کی دعوت دینے والا ہے۔ مولف کہتے ہيں : حضرت بقية الله الاعظم اور ان کے اجداد طاہرین سب کے سب جادہٴ مستقيم سے منحرف ہونے والوں کی علامات اور نشانياں ہيں اور وادی حيرت و ضلالت ميں گم شدہ افراد کے قلوب کو روشن اور جذب کرنے والے ہيں نيز راہ حق جو کہ حضرت علی بن ابی طالب - اور ان کی اولاد طاہرین کا راستہ ہے اس پر چلنے والوں کے ليے پناہ گاہ ہيں۔ صِراطٌ عَلیٍ حَقٌ نُمْسِکُہُ، علی کا راستہ حق ہے ہم سب اس سے متمسک ہيں۔ ١۴۴ ۔ “ وفی الکافی باسنادہ عن الوشاء قال: سَالتُ الرِّضا عليہ السلام عَن قول اللّٰہ تعالیٰ < وَعَلامَاتٍ وَبِالنَّجمِْ ہُم یَہتَْدُونَ >( ۴) قال عليہ السلام نَحن العلاماتِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورہ اسراء، آیت ٩۔ ( ٢(۔ قولہ للتی هی اقوم ای للملة هی اقوم الملل و الطریقة التی هی اقوم الطریق۔ ( الله تعالیٰ کا یہ قول “جو بالکل سيدها ہے ” یعنی وہ ملت جو تمام ملتوں ميں بالکل راہ راست پر ہے اور وہ راستہ جو بالکل سيدها ہے۔ ٣(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٢١۶ ۔ ( ۴(۔ سورئہ نحل، آیت ١۶ ۔ (
) وَالنجم رُسُولُ اللّٰہ (ص) ” ( ١ کافی ميں کلينی نے اپنی سند کے ساته وشاء سے نقل کيا ہے کہ ميں نے امام علی رضا - سے آیہٴ کریمہ “اور علامات معين کردیں اور لوگ ستاروں سے بهی راستے دریافت کرليتے ہيں” کے بارے ميں دریافت کيا تو امام نے فرمایا: علامات سے مراد ہم (ائمہ) ہيں اور ستارے سے مراد رسول خدا (ص) ہيں۔ ١۴۵ ۔ “وفيہ باسنادہ عن برید العجلی عن ابی جعفر عليہ السلام فی قول اللّٰہ تعالیٰ < إِنَّمَا اٴَنتَْ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَومٍْ ہَادٍ >( ٢) فقال: رسول اللّٰہ (ص) المنذر ، ولکل زمان منّا هاد یهدیهم ) الی ماجآء بہ نبی اللّٰہ (ص) ثم الهداة من بعدہ علی ، ثم الاوصياء واحد بعد واحد ” ( ٣ کافی ميں کلينی نے اپنی سند کے ساته یزید عجلی سے نقل کيا ہے کہ امام محمد باقر - نے آیہٴ کریمہ “آپ کہہ دیجيے کہ ميں صرف ڈرانے والا ہوں اور ہر قوم کے ليے ایک ہادی اور رہبر ہے” کے بارے ميں فرمایا: رسول خدا (ص) ڈرانے والے ہيں اور ہر زمانہ ميں ہم اہل بيت ميں سے ایک ہادی ہوتا ہے جو لوگوں کو ان چيزوں کی طرف ہدایت کرتا ہے کہ جسے پيغمبر اکرم (ص) لے کر آئے، حضرت رسول خدا (ص) کے بعد پہلے ہادی حضرت علی - پهر ان کے اوصياء ہيں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٢۔ اکسيرِ شفاء / ٢۵ ٢۵ ۔ وَدَواءً لَيسَ مَعَہ داءٌ (یہ وہ دوا ہے جس کے بعد کوئی مرض نہيں رہ سکتا( یہ عزیز ترین آسمانی کتاب ہر قسم کے درد و آلام کی دوا اور علاج ہے تمام دردوں اور امراض کو خواہ جسمانی ہو یا روحانی، ظاہری ہوں یا باطنی سب کا علاج کرتی اور جلد شفا بخشتی ہے، مادی دواؤں کی طرح نہيں ہے کہ اگر ایک درد کے ليے مفيد ہو تو دوسرے حصّہ کو ضرر پہنچائے بلکہ اس کا علاج ہميشہ بغير کسی قسم کے عارضہ کے ہوتا ہے الله تعالیٰ فرماتا ہے: ( ١) اور ہم قرآن ميں وہ سب کچه نازل کر رہے ہيں جو صاحبان ایمان کے ليے شفا اور رحمت ہے۔ حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - کے اس پُر معنی اور گراں قدر آڻهویں فقرہ کی وضاحت “وَشَفِآءً لا تُخشیٰ اٴسْقامُہُ ” (اور وہ ایسی شفاء ہے جس ميں بيماری کا کوئی خوف نہيں ہے) کو اس حصے پر موقوف کيا تها اس کی حتی المقدور تشریح کریں گے۔ اب الله ) تعالیٰ کی طاقت و قوت اور تائيد سے اس کی وضاحت بيان کر رہے ہيں ( ٢ یہ عظيم الشان قرآن اور عزیز آسمانی کتاب تمام جسمانی و روحانی اور ابدان و ارواح کا علاج کرنے والی اور شفا بخشنے والی ہے۔ ليکن ابدان کے بارے ميں تجربات اور عينی مشاہدات سے ثابت ہوا ہے کہ اس کے علاوہ ائمہٴ ہدی کی بہت سی احادیث ميں سوروں کے خواص اور بہت سی آیات، شفا حاصل کرنے اور ان کی تعویذ بنانے کے ليے وارد ہوئی ہيں ہم ان ميں سے بعض حصّہ کو بطور تبرک ذکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اسراء، آیت ٨٢ ۔ (
١(۔ قرآن اور امام زمانہ - کے درميان اسی کتاب ميں (اکتيسویں ) شباہت کے درميان اس ( موضوع کے بارے ميں ہم مفصل بحث ذکر کر چکے ہيں۔ کرتے ہيں: ١۴۶ ۔ “ فی الکافی باسنادہ عَنِ السّکونی عَنْ ابی عَبدِ اللّٰہ عن آبائہ عليہم السلام قالَ: شَکیٰ رُجُلٌ اِلَی النّبی (ص) وَجَعاً فی صَدرِہِ فَقالَ : اِستشفِ بِالقُرآنِ فَانتَ اللہّٰ عَزَّوجل یَقُولُ :” ) >َشِفَاءٌ لِمَا فِی الصُّدُورِ > ( ١ کافی ( ٢) ميں کلينی اپنی سند کے ساته سکونی سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے امام جعفر صادق - سے انہوں نے اپنے آبائے کرام سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے رسول خدا (ص) سے سينہ کے درد کی شکایت کی تو حضرت نے فرمایا: قرآن کے ذریعہ شفا حاصل کرو خدائے بزرگ و برتر فرماتا ہے قرآن شفا ہے اس مرض کے ليے جو سينوں کے اندر ہے۔ ١۴٧ ۔ “وعَن ابراہيم مَهزَم عَن رَجلٍ سَمعَ اَبا الحَسَنِ عليہ السلام یَقُولُ : مَن قَرَءَ آیَة الکُرسی عِندَْ مَنامِہِ لَم یَخَفِ الفِالج اِنشاءَ اللہّٰ ،وَمَن قراٴها فی دَبرِ کُلّ فریضةٍ لَم یُضِرَّہُ ذو حِمَة ” )٣) ابراہيم مہزم نے ایک شخص سے سنا تها کہ حضرت علی - فرمایا کرتے تهے: جو شخص سوتے وقت آیة الکرسی کو پڑهے تو اگر الله نے چاہا تو فالج کے مرض ميں مبتلا نہيں ہوگا اور جو شخص ہر فریضہ کے بعد پڑهے تو اسے کوئی چيز نقصان نہيں پہنچا سکتی۔ ١۴٨ ۔ “وفی من کتاب العياشی بِاسنادِہِ انَّ النَّبی (ص) قالَ لِجابِرِ بن عبد اللّٰہ الاٴنصاری الا اعَلّمَکَ افضَلَ سورةٍ انزلَهَا اللہّٰ فی کِتابِہِ ؟ قالَ: فَقالَ لَہُ جابر : بَلی بِابی اَنتَ وَاٴمّی یا رَسُولَ اللہِّٰ عَلِّمِني هٰا ، قالَ: فَعَلَّمہ الحَمدَ امَّ الکِتابِ ، ثُمّ قال : یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جابِر اٴلا اُخبرُکَ عَنها ؟ قالَ :بَلی بِاَبی اَنت وَامّی فاٴخبرنی ، فقالَ: هِیَ شِفاءٌ مِن کُلّ اٰ دءٍ اِلاَّ ) السّام یعنی الموتُ” ( ١ عياشی نے اپنی کتاب ميں اپنی سند کے ساته نبی اکرم (ص) سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت نے جابر ابن عبد الله انصاری سے فرمایا: کيا ميں تمہيں با فضيلت ترین سورہ جو خدا نے اپنی کتاب ميں نازل کيا ہے تعليم نہ دوں؟ جابر نے عرض کيا: ہاں ميرے ماں باپ آپ پر قربان، تعليم فرمائيں، آنحضرت (ص) نے سورہ الحمد جو ام الکتاب ہے جابر کو تعليم دی پهر فرمایا: اے جابر! کيا اس کے آثار اور فوائد کی خبر تمہيں نہ دوں؟ عرض کيا: ميرے ماں باپ آپ پر قربان جائيں مجهے باخبر کریں تو فرمایا: وہ ہر درد کا علاج اور شفاہے سوائے سام یعنی موت کے۔ ١۴٩ ۔ “و فی ثواب الاعمال : عن الصادق عليہ السلام مَنْ قَرَء فی المُصحَفِ نَظَراً مُتّعَ ) بِبَصرِہِ وَخُفِّفَ عَن والدَیہ وَان کانا کافِرینَ ، ()( وفی نُسخةٍ وَانْ کٰانا مُشرِکين ) ” ( ٢ ثواب الاعمال ميں شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے صادق آل محمد - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: جو شخص مصحف (قرآن) کو دیکه کر پڑهے تو اس کے نور سے اس کی آنکهيں لطف اندوز ہوں گی اور ان کے والدین کے عذاب ميں کمی واقع ہوگی اگرچہ دونوں کافر (ایک نسخہ کی بنا پر دونوں مشرک) ہی کيوں نہ ہوں۔ ١۵٠ ۔ “وفی حدیث الاربعماٴة: عن امير الموٴمنين عليہ السلام : قالَ عليہ السلام اِذَا اشَتکی اَحَدکُمْ عَينَہُ فَليقَراْ آیة الکُرسی وَليضمِر فی نَفسِہِ انَّها تُبرء فَانہ یُعافی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ٢٠ ، تفسير صافی، ج ١، ص ٨٨ ۔ ( ٢(۔ ثواب الاعمال، ص ١٠٣ ۔ (
) اِنْشاءَ اللّٰہ تعالیٰ ” ( ١ حدیث اربعماٴة ميں حضرت امير المومنين - نے فرمایا: اگر تم ميں کسی شخص کو آنکه کے درد کی شکایت ہو تو اسے چاہيے کہ آیت الکرسی پڑهے اور وہ اپنے دل ميں شفا حاصل کرنے کی نيت کرے تو وہ انشاء الله عافيت حاصل کرے گا۔ ١۵١ ۔ “فی مکارم الاٴخلاق: عن الصادق عليہ السلام قال : لَو قُرِاٴَتِ الحمد عَلی ميتٍ ) سبعين مَرَّةً ثُمَّ رُدَّت فيہِ الرُّوحُ ما کانَ عَجباً ” ( ٢ مکارم الاخلاق ميں طبرسی عليہ الرحمہ نے صادق آل محمد سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: جب کبهی سورئہ حمد کو ميت پر ستّر مرتبہ پڑها جائے تو اس کے بعد اس کی روح واپس آجائے یعنی سورہ حمد کی برکت سے زندہ ہوجائے۔ تو کوئی تعجب کی بات نہيں ہے بہت سے دردوں اور مختلف امراض کے مداوا و علاج کے ليے جو انسان کے تمام بدن ميں عارض ہوتے ہيں قرآن مجيد کی آیات اور سوروں سے استفادہ کيا گيا اور تجربہ سے بهی یہ بات ثابت ہوچکی ہے ہم نے اختصار کے ساته چند مذکورہ مقام کی طرف اشارہ کيا ہے۔ ليکن قرآن کریم سے روحانی امراض جيسے: جہل، حسد، کينہ، شک و شبہ وغيرہ سے شفا حاصل کرنا یہ معنی بہت سی آیات کے ضمن ميں بيان ہوا ہے۔ ) الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ٣ آپ کہہ دیجيے: کہ یہ کتاب صاحبان ایمان کے ليے شفا اور ہدایت ہے۔ و قالَ عَزَّ مِن قائِلِ:وَنُنَزِّلُ مِن القُْرآْنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَرَحمَْةٌ لِلمُْؤمِْنِينَ وَلایَزِیدُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
) الظَّالِمِينَ إِلاَّ خَسَارًا> ( ١ اور ہم قرآن ميں وہ سب کچه نازل کر رہے ہيں جو صاحبان ایمان کے ليے شفا اور رحمت ہے اور ظالمين کے ليے خسارہ ميں اضافہ کے علاوہ کچه نہ ہوگا۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ٢ اے لوگو! یقينا تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصيحت دلوں کی شفا کا سامان اور ہدایت نيز صاحبان ایمان کے ليے رحمت قرآن آچکا ہے۔ مشہور و معروف حدیث ثقلين ميں جسے پيغمبر اکرم (ص) نے اپنی با برکت عمر کے آخری لمحات ميں قرآن اور اہل بيت عصمت و طہارت کو امت کے درميان امانت کے عنوان سے متعارف کرایا اور تمام تاکيدی بيان کے ساته فرمایا کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں اپنے اس قول کے ذریعہ “ لَن یَتَفَرَّ اٰق حَتیّٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَ” تمام پہلوؤں اور خصوصيات ميں ایک دوسرے سے اتصال اور تلازم رکهتے ہيں۔ جيسا کہ قرآن مجيد شفا اور تمام جسمانی و روحانی ، مادی و معنوی امراض کا علاج ہے۔ ائمہٴ اطہار بهی الله کے بندوں کے مختلف مادی و معنوی امراض سے شفا بخشنے والے ہيں، اور حضرت خاتم الاوصياء بقية الله الاعظم حجّت زمانہ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف بهی تمام مخلوقات کے ليے ملجا و ماوی اور پناہ گاہ ہيں اور بہت سے وہ لوگ جو مختلف امراض اور صعب العلاج مرض ميں مبتلا ہيں کہ تمام ڈاکڻر ان کے علاج سے روئے زمين پر عاجز ہوکر اپنا ہاته بيماروں کے سينے پر رکه کر لاعلاج بتایا ہے اور ان عظيم ہستيوں کی سانس کی برکت سے ان بيماروں نے شفا پائی اور صحت سلامتی کے ساته اپنی عمر کا ایک حصہ بسر بهی کيا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولف کہتے ہيں: اب خاندان عصمت و طہارت محمد و آل محمد کے دوستوں کی روشنیِ چشم کے ليے اور شيعيان علی - اور اولاد علی کو خو ش خبری دینے کے ليے ہم اس کے چند مورد کی طرف تبرک اور برکت کے طور پر ذکر کرتے ہيں۔ ١۵٢ ۔ “وفی بحار الاٴنوارعن کتاب صفوة الاخبار : رَوَی الاَعمَش قالَ راٴیتُ جارِیَةً سَوداء تَسقی الماءَ وَهِیَ تَقُولُ : اِشْربُوا حُبّاً لِعَلِیّ بن ابی طالِبٍ عليہ السلام وَکانَت عَمياء قالَ ثُمَّ اتيتُها بِمکَّة بَصيرةً تَسقی الماءَ وَ تَقُولُ : اِشربُوا حُبّاً لِمَن رَدَّ اللہّٰ عَلیَّ بَصَری بِہِ ، فَقُلتُ : یا جارِیة رَاٴیتُکِ فِی المَدینةِ ضَریرَةً تقولينَ اِشربُوا حُبّاً لِمَولایَ عَلیّ بن ابی طالِب عليہ السلام وَانتَْ اليَومَ بَصيرةٌ فَمٰا شانُکِ ؟ قالت: بَاَبی اَنتَ اِنَّی رَاٴیتُ رَجلاً قالَ یا جارِیةُ اَنتَ مولاة لِعَلِی بن ابی طالِبٍ عليہ السلام وَمُحبَّتِہِ فقلتُ: نعم فَقالَ اللهُّٰمَّ اِن کانَت صادِقةً فَردّ عَلَيها بَصَرَها فَوَاللہِّٰ لَقدَ ردَّ اللہّٰ عَلَیّ بَصَرِی ، فَقلتُ: مَن انت ؟ قالَ : اَنَا الخضرُ وَاَنَا مِن شيعةِ عَلیِّ بن بی طالبٍ عليہ السلام ” )١) محدث عالی قدر غوّاص بحار آل محمد علامہ مجلسی رحمة الله عليہ نے اپنی کتاب بحار الانوار ميں کتاب صفوة الاخبار ميں اعمش سے روایت نقل کی ہے کہ اس کا بيان ہے: ميں نے ایک سياہ کنيز کا دیدار کيا جو پانی پلا رہی تهی اور یہ کہہ رہی تهی: علی بن ابی طالب - کی دوستی اور محبت کی بنا پر پانی پيو جب کہ وہ نابينا تهی، پهر ميں مکہ مکرمہ مشرف ہوا تو اس سياہ کنيز کو دیکها کہ اس کی آنکهيں کهلی ہوئی ہيں اور پانی پلا رہی ہے اور وہ کہہ رہی ہے: اس کی محبت کی بنا پر پيو کہ جس نے ميری آنکهوں کی بصارت مجهے واپس لوڻا دی پهر ميں نے اس سے کہا: اے کنيز! ميں نے تجهے مدینہ ميں دیکها تو ضریر العين (نابينا) تهی اور کہہ رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ۴٢ ، ص ٩۔ (
تهی ميرے مولا علی ابن ابی طالب - کی محبت ميں پانی پيو اور آج تيری بينائی واپس آگئی ہے آخر اصل واقعہ کيا ہے؟ کہا: ميرے باپ تم پر قربان جائيں یقينا ميں نے ایک شخص کو دیکها کہ جس نے کہا: اے کنيز! تو علی ابن ابی طالب - سے دوستی اور محبت رکهتی ہے؟ ميں نے کہا: ہاں، تو کہا: اے خدا! اگر (یہ کنيز) اپنے دعوی ميں سچی ہے تو اس کی آنکه کی بينائی اسے واپس کردے، خدائے بزرگ و برتر کی قسم ! اِس نے ميری آنکهوں کی روشنی واپس کردی پهر ميں نے دریافت کيا: تم کون ہو؟ جواب دیا: ميں خضر - اور حضرت علی ابن ابی طالب - کا شيعہ ہوں۔ ١۵٣ ۔ “وفی الخرایج : روی ابُو ہاشِمِ الجعفَری انّہ ظَهَرَ برجُل مِن اهلِ سُرّ مَن رَاٴی بَرَصٌ فَتَنَغّص عَلَيہِ عَيشہ ، فَجَلَسَ یوماً الیٰ اٴبی عَلیّ الفهری، فشَکا اِليہِ حالہ ، فقال لہُ : لَو تعرّضتَ یَوماً لابی الحَسَن عَلیٍّ بن محمَّد بن الرّضا (عَلَيہم السَّلامُ ) فَسَاٴلتَہُ ان یَدعُوَلَکَ لَرَجوتُ ان یَزوُلَ عَنکَ ، فَجَلَسَ لَہُ یوماً فی الطّریقِ وَقتَ منصَرَفِہِ مِن دار المُتوکِّلِ ، فَلَما راٴہ قامَ لِيَدنومِنہُ فَيَساٴلَہُ ذلِکَ ، فقالَ : تَنحَّ عافاکَ اللہّٰ ، وَاَشارَ اليہِ بِيَدہِ تَنَحَّ عافاکَ اللہّٰ ثَلاث مرّاتٍ، فاٴبعدَ الرَّجُلُ وَلَم یجسُر اَن یَدنومِنہُ ، فانصَْرفَ فَلِقی الفهری فَعرفَہ الحالَ وَما قالَ: قَد دَعالَکَ قَبل اَن تَساٴَلَ ، فامضِ فَانَّکَ سَتُعافی ، فَانَصَرفَ الرَّجل اِلی بَيتہِ ، فَباتَ تِلکَ اللَّيلة فَلمَّا اصبَحَ لَم یَر عَلَی بدنِہِ شيئاً مِن ذلکَ ” )١) خرائج راوندی ميں مروی ہے کہ ابو ہاشم جعفری نے روایت کی ہے کہ ایک شخص سرمن سرای (سامرا) کا رہنے والا تها اس کے اندر برص کا مرض ظاہر ہوا اس طرح اس کی زندگی کا عيش و آرام درہم برہم کردیا ایک دن ابو علی فہری کے پاس گيا اور اپنی حالت کی اس سے شکایت کی فہری نے اس سے کہا : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الخرائج و الجرائح، ج ١، ص ٣٩٩ ، مدینہ المعاجز، ج ٧، ص ۴٧٢ ، بحار الانوار، ج ۵٠ ، ص ١۴۶ ۔ (
اگر کسی دن خود کو حضرت ابو الحسن علی ابن محمد ابن الرضا - (یعنی امام علی نقی -) کو دیکهاؤ اور ان کی خدمت اقدس ميں اپنا حال بيان کرو تاکہ وہ تمہارے حق ميں دعا کریں، مجهے اميد قوی ہے کہ تمہارا یہ مرض ختم ہوجائے گا پهر وہ شخص ایک دن حضرت کے راستہ ميں بيڻه گيا جب آپ متوکل کے گهر تشریف لا رہے تهے تو اس نے خود کو امام کو دکهایا جب اس وقت اس کی نظر حضرت - پر پڑی تو کهڑا ہوگيا تاکہ نزدیک جاکر ان سے اپنے مرض سے شفا پانے کی دعا کا طلب گار ہو حضرت امام علی نقی - نے فرمایا: دور ہوجاؤ خدا تم کو صحت و عافيت عطا فرمائے، حضرت - نے اپنے دست مبارک سے اشارہ فرمایا یہ کہ دور ہوجاؤ خدا تمہيں صحت و عافيت سے نوازے تين مرتبہ اسی جملہ کی تکرار کی تو اس شخص نے خود کو حضرت سے دور رکها اور جسارت نہيں کی کہ وہ حضرت سے نزدیک ہو پهر واپس ہوا ابو علی فہری سے ملاقات کی اور تمام واقعہ اس سے بيان کيا اور حضرت کی باتوں کو بهی اس سے بيان کيا۔ فہری نے کہا: اس عظيم المرتبت انسان نے تمہارے سوال کرنے سے پہلے تم کو دعائے عافيت دی اور کہا جاؤ اپنا کام انجام دو، یقينی طورپر عنقریب تمہيں شفا مل جائے گی وہ شخص واپس ہوا اور اپنے گهر اسی رات کو سویا جب صبح ہوئی تو اس نے اپنے برص کا کوئی اثر اپنے بدن ميں مشاہدہ نہيں کيا اور کلی طور پر وہ حضرت امام علی نقی - کی دعا کی برکت سے ختم ہوچکا تها۔ ١۵۴ ۔ “وفی الامالی : بِاسنادِہِ عَن سُدَیر الصِّيرفی قالَ: جآئتِ امراٴةٌ اِلیٰ ابی عَبدِ اللّٰہِ عليہ السلام فقالَت لَہُ : جُعِلت فَداک انّی واَبَی وَاَهلُ بيتی نَتَوَلاکم ، فَقالَ لَها ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام : صَدَقتِ فَمَا الذی تریدین ؟ مَن قالت لَہ المراٴةُ : جُعِلتُ فِداک یابنَ رَسُول اللّٰہِ اٴصابنی وَضحٌ فی عَضدی فَادعُ اللّٰہ اَن یذَهبَ ، بِہِ عَنّی ، قالَ ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام : اللّٰهمَّ اِنک تُبری الاکمَہَ وَالابَرصَ وَتُحيی العِظامَ وَهِی رَميمٌ اٴلبسها مِن عَفوِکَ وَعافِيتَکَ ما تر یٰ اَثَر اِجابَةِ دعائی ، فَقالتِ المراٴةُ : ) وَاللّٰہِ لَقد قمت وَما بی مِنہُ قَليلٌ ولا کثيرٌ ” ( ١ کتاب امالی ميں شيخ بزرگوار علامہ طوسی (رحمة الله عليہ) نے اپنی سند کے ساته سدیر صيرفی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ایک خاتون حضرت امام جعفر صادق - کی خدمت اقدس ميں حاضر ہوئی اور عرض کيا: ميں آپ پر قربان ،ميں ميرے باپ اور ميرے گهر والے آپ کی محب اور دوست دار ہيں تو حضرت امام جعفر صادق -نے اس سے فرمایا: تم سچ کہتی ہو، تم کيا کہنا چاہتی ہو؟ کہا: ميں آپ پر قربان ميرے بازو پر سفيد داغ ہيں دعا فرمائيں کہ الله تعالیٰ اس کو ميرے بازو سے ختم کردے تو حضرت نے ان کلمات کے ذریعہ اس کے ليے دعا کی: اے خدا! یقينا تو ابرص (مادر زاد نابينا اور برص والوں) کو شفا دیتا ہے اور بوسيدہ ہڈیوں کو زندہ کرتا ہے ان ميں روح ڈالتا ہے اپنا لباس صحت و عافيت اس خاتون کو پہنا دے اس طرح سے کہ ميری دعا قبوليت کا اثر دیکه لے ۔ اس خاتون کا بيان ہے: خدا کی قسم ! ميں اپنی جگہ سے کهڑی ہوئی تو ميں نے اس مرض سے کسی بهی قسم کا اثر باقی نہيں دیکها۔ ١۵۴ ۔ محدث جليل القدر الحاج شيخ عباس قمی رحمة الله عليہ نے سفينة البحار ميں خرائج راوندی سے اسماعيل ہرقلی کا مشہور و معروف واقعہ نقل کيا ہے و کہتے ہيں: “ هُو الذَی خَرَجَ عَلی فَخذِہِ الاٴیَسرِ توثةٌ قطعہ اٴلمها عَن کَثير منْ اشغالِہِ فاَحضرَ لَہُ السَّيدُ بن طاوُوسُ اَطِباّءَ الحِلّة وَبغدادَ قالُوا هذِہِ التّوثة فَوقَ العِرق الاکحلِ وَعلاجُها خَطرٌ وَمَتی قُطِعتَ خيفَ اٴن یَنقَطعَ العِرقْ فَيَمُوتَ فَتَوجَّہ ال یسُرَّ مَن رَاٴی وَزارَ الائمة عليہم السلام وَنَزَلَ السَّردابَ فاَستَغاثَ بالاِمامِ صاحِبِ الزَّمانِ ( صَلَواتُ اللّٰہ عليہ ) ثُمَ مَضی ال یٰ دجلةٍ وَاغتَسَلَ فَرَجَعَ فَتَشَرَّفَ بِلقاءِ الامامِ عليہ السلام فَمَدّہ اليہِ وَجَعَلَ یَلمسِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امالی طوسی، ج ١، ص ۴۶٠ ۔ (
جانبہُ مِن کتفِہِ ال یٰ ان اصابت یَدَہُ التّوثة فعصَرَها فَبَرئت فکَشَفَ عَن فَخذِہ فَلَم یَرَلَها اثَراً فتداخَلَہُ ) الشک فاَخَرجَت رَجلہُ الاٴخر یٰ ، فَلَم یَرَشَيئاً فَانطَبَقَ النّاسُ عَلَيہِ وَمَزّقَوا قميصہ” ( ١ ( محدث قمی کہتے ہيں کہ: اسماعيل ہر قلی وہ ہيں کہ ان کی بائيں ران ميں “توثة” ( ٢ نامی ایک زخم ہو گيا تها اور وہ ان کے بہت سے امور سے مانع ہوا، سيد ابن طاووس رحمة الله عليہ نے حلّہ اور بغداد کے ڈاکڻروں کو بلاکر دکهایا تو ان لوگوں نے کہا کہ یہ ایک قسم کی توثة نامی بيماری ہے جو رگِ اکحل کے اوپر ہے اس کا علاج بہت زیادہ خطرناک ہے اگر اسے کاڻا جائے تو رگ کے کٹ جانے کا خطرہ ہے جس کی وجہ سے موت بهی واقع ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ہر قلی (حلہ اور بغداد کے ڈاکڻروں سے مایوس ہوگئے) اور سرمن سرای (سامرا) کے ليے روانہ ہوگئے حضرات عسکریين عليہما السلام کی زیارت کے بعد سرداب مقدس ميں پناہ حاصل کی اور وہاں حضرت امام زمانہ عجل الله فرجہ سے استغاثہ و فریاد کی توسل اختيار کيا پهر دریائے دجلہ کی طرف روانہ ہوگئے، وہاں غسل کيا اور واپس آئے (اسی اثنا ميں) امام زمانہ - کی ملاقات کا شرف حاصل کيا اس عظيم ہستی نے اپنے دست مبارک سے شانہ کی طرف سے (توثہ) زخم کی جگہ تک مس کرکے اسے دبا دیا (شبہ دور کرنے کے ليے ) دوسرے پير کو بهی نکالا تو کچه نہ دکهائی دیا پهر لوگوں نے چاروں طرف سے اسماعيل کو اپنے حصار ميں ليا اور ان کی قميص کے کپڑے کو تبرک کے طور پر نوچنا شروع کردیا۔ مولف کہتے ہيں : اس واقعہ کی تفصيل خرائج راوندی ميں ذکر کی گئی ہے۔ حضرت بقية الله الاعظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سفينة البحار، ج ٣، ص ٢٨٣ ۔ الانوار البهيہ، ص ٣۶ ۔ ( ٢(۔ “توثہ” آنکه کی ایک بيماری ہے۔ خوارزم شاہی ذخيرہ ميں رقم طراز ہيں: اضافی گوشت ہے (
سرخ اور نرم توث کی شکل ميں لڻکا ہوتا ہے کبهی سياہ ہوتا ہے اور اکثر و بيشتر گوشہٴ چشم کے نزدیک ہوتا ہے اور ہميشہ سرخ اور زخمی سياہ خون اس سے خارج ہوتا ہے، بحر الجواہر ميں ذکر ہوا ہے: “” ایک قسم کی بواسير ہے جو خلوت گاہ ميں ہوتی ہے۔ مولف کہتے ہيں: دوسری جگہوں پر بهی نکلتا ہے (هخدا( روحی لہ الفداء کے عاشقين وہاں رجوع کریں۔ مزید مولف کہتے ہيں: ان چند مورد کو اختصار کے ساته تبرک کے طور پر خاندان عصمت و طہارت اور ائمہٴ ہدی عليہم السلام کے چاہنے والوں کی چشم و دل کے روشنی کے ليے ہم نے ذکر کيا ورنہ اگر بنا یہ ہو کہ جو لوگ ان کے مقدس وجود کی برکتوں سے اپنی زندگی ميں یا مرنے کے بعد ان ميں ائمہ کے مشاہد مشرفہ اور مشہد مقدس ميں ثامن الائمہ امام رضا - بالخصوص حضرت صاحب العصر و الزمان مہدی آل محمد کے پُر برکت وجود () سے پرندے چہچہاتے رہيں اور درختوں ميں پتے رہيں اور پهل تيار ہوتے رہيں نيز مادی و معنوی اور جسمانی و روحانی امراض سے شفا حاصل کيا مزید اپنی لا ینحل مشکلات کو حل کيا ہے اس کو شمار کریں تو اس کا احصاء کرنا ہماری قدرت سے باہر اور مثنوی کے ليے سو من دفتر درکار ہوں گے اللهم عجّل فرجهم وفرّجنا بفرجهم بمحمد وآلہ آمين اے خدا! ان کے ظہور ميں تعجيل فرما اور ان کے ظہور سے ہميں آسائش عطا فرما بمحمد و آلہ الطاہرین۔ آمين۔
۹
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
٢۔ نور / ٢۶ ٢۶ ۔ وَنُوراً لَيسَ مَعَہُ ظُلمَةٌ (ایسا نور ہے کہ اس کے بعد کسی ظلمت کا امکان نہيں ہے( اس کی حفاظت کی طرف اشارہ ہے کہ کسی بهی صورت ميں باطل اس ميں نہيں جاسکتا اور اس سے آلودہ نہيں ہوسکتا پانچویں منقبت ميں ان بزرگوار کے قول کی وضاحت ميں فرمایا: “و شعاعاً لا یظلم نورہ” وہ ایسی شعاع ہے کہ اس کی ضوء تاریک نہيں ہو سکتی۔ تفصيل کے ساته ذکر کيا ہے۔ ١۵۶ ۔ “ وفی الکافی بِاِسنادِہِ عَن اَبی جَميلة قالَ قالَ اَبُو عَبدِ اللّٰہِ عليہ السلام کانَ فی وَصيَّةِ اَمير المُوٴمنينَ عليہ السلام اَصحابَہُ اَنَّ هذا القرآنَ هُدیٍ النّهارِ وَنُورُ اللَّيل المُظلم عَلیٰ ماکانَ ) مِن جُهدٍ وَفاقَةٍ ” ( ١ کافی ميں ابو جميلہ سے کلينی نے روایت کی ہے کہ ان کا بيان ہے: امام جعفر صادق - نے فرمایا: حضرت امير المومنين - نے اپنے اصحاب کو وصيت کی تهی کہ آگاہ ہو کہ قرآن دن اور رات ميں ہدایت کرنے والا ہے اور ضلالت کی تاریکی ميں روشنی دینے والا چراغ ہے جس قدر تلاش اور ضرورت ہو۔ ١۵٧ ۔ “وفيہ عَن طلحَة بِن زَیدٍ عَن ابی عَبد اللّٰہ عليہ السلام اِنَّ هذ القُرآنَ فيہ منَار الهُدیٰ وَمَصابيحُ الدُّجی فَليُجلِْ جالٍ بَصَرَہُ وَفَتح لِلضِّياءِ نَظَرَہ ، فَاِنَّ لتَّکَفرُ حَياةُ قَلبِ البَصيرِ کَما یَمشی ) المُستَنيرٌ فی الظّلُماتِ بِالنّورُ ” ( ٢ مزید اسی کتاب ميں طلحہ ابن زید نے امام جعفر صادق سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: اس قرآن ميں ہدایت و سعادت کے روشن منارے ہيں تاریکی اور اسے ختم کرنے کے ليے چراغ ہيں۔ )بہت بجا اور مناسب ہے) جو افراد اس جادہ مستقيم اور پُر نور راہ ميں کہ جس ميں ہدایت و سعادت کی علامات پائی جاتی ہيں انہيں بصيرت اور چشم دل کو کهول کر تمام غورو فکر کے ساته اس راستہ کو طے کریں، جس طرح تاریک شب ميں چلنے والے روشنی سے استفادہ کرکے خود کو ظلمت کے حوادث اور نشيب و فراز سے محفوظ رکهتے ہيں عميق غور وفکر سے قرآن مجيد کی رہنمائيوں سے صاحب بصيرت افراد کے دلوں کو تازہ روح ملتی ہے اور اس کے گراں قدر مطالب سے استفادہ کرتے ہيں۔ امام - کا مقدس نور بهی مومنين کے دلوں ميں چمکتا ہے اور انہيں روشن کرتا ہے لہٰذا اس عظيم ہستيوں کی عظمت و منزلت کی کماحقہ معرفت رکهنی چاہيے اور ہر حال ميں ان کے سامنے سر تسليم خم کرنا چاہيے۔ ١۵٨ ۔ “ وفی کمال الدّین للصدوق عَن جابِرِ الاٴنصاری فی حَدیثٍ نَصَّ رَسُولُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ٢١۶ ، ص ۶٠٠ ۔ بحار الانوار، ج ۶۵ ، ص ٢١٢ ۔ ( ٢(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶٠٠ ۔ وسائل الشيعہ، ج ۴، ص ٨٢٨ ۔ (
اللّٰہ (ص) عَلَی الائمة الاثنی عشَرَ ، الیٰ اَن قالَ (ص) ثُمَ سميّی وَکنيّی حُجَّة اللّٰہ فی ارضِہِ وَبقيِتہ فی عِبادِہِ ، ابن الحَسَن بن عَلی ، ذَاکَ الذَی یَفتَح اللہّٰ تعال یٰ ذِکرہُ عَل یٰ یَدیہِْ مَشارِقَ الاٴرض وَمَغارِبها ، ذاکَ الذَی یَغيب عَن شيعتہ وَاَوليائِہِ غَيبةً لا یَثبُتُ فيہا عَلَی القَولِ بِامامَتِہِ الاَّ مَنِ امتَحَن اللہّٰ قَلبَہُ للایمان ،قال جَابِرُ: فَقُلتُ یا رَسُول اللّٰہِ فَهَل یَقع لشيعتہ الاٴتنفاعُ بہ فی غَيبتہ ؟فَقالَ عليہ السلام ای والّذی بَعَثَنی بالنّبوة اِنّهم یَستَضيئونَ بنورِہِ وَینتفعونَ بِولایتہِ فی غَيبتِہِ کانتفاعِ الناسِ بالشمسِ وَاِن تجلَّلهَا سحابٌ ، یا جابر هذا مِن مَکنُون سرّ اللّٰہِ ، وَمَخزونِ عِلمِ اللّٰہِ ) فاکتمہ الاَّعَن اہلِہِ ” ( ١ اسی کتاب ميں مناقب خوارزمی سے جابر ابن عبد الله انصاری سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا کہ رسول خدا (ص) نے مجه سے فرمایا: اے جابر ! یقينا ميرے اوصياء جو ميرے بعد ائمہٴ مسلمين ہيں ان ميں سے پہلا علی پهر حسن پهر علی ابن الحسين پهر محمد ابن علی جو باقر کے نام سے مشہور ہيں اے جابر! عنقریب تم ان کو پاؤ گے جب تم ان سے ملاقات کرنا تو ان کو ميرا سلام کہنا، پهر جعفر ابن محمد پهر موسی ابن جعفرپهر علی ابن موسی، پهر محمد ابن علی پهر علی ابن محمد پهر حسن ابن علی پهر قائم (آل محمد) ہوں گے کہ جو ميرا ہم نام ہوگا اس کی کنيت ميری کنيت پر ہوگی وہ محمد ابن حسن ابن علی ہوں گے ، یہ وہ ہيں کہ جن کے دست مبارک سے خداوند تبارک و تعالیٰ زمين کے تمام مشرق و مغرب کو فتح کرے گا ، یہ وہ ہيں کہ جو اپنے اولياء سے ایک عرصہ تک ایسا غائب ہوں گے کہ ان کی امامت پر صرف وہی لوگ ثابت قدم رہيں گے کہ جن کے دل کا الله تعالیٰ نے امتحان لے ليا ہوگا۔ جابر کہتے ہيں: ميں نے عرض کيا : یا رسول الله! کيا آپ کی غيبت کے زمانہ ميں لوگ فائدہ اڻهائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گے؟ فرمایا: ہاں قسم ہے اس خدا کی کہ جس نے مجهے نبوت کے ساته مبعوث کيا! وہ لوگ آپ کی غيبت ميں آپ کی ولایت کے نور کی ضو سے اس طرح فائدہ اڻهائيں گے جس طرح سورج کو بادل پنہان کرليتا ہے مگر لوگ پهر بهی سورج کی روشنی سے فائدہ حاصل کرتے ہيں، یہ بات تمام لوگوں کے ليے اسرار الٰہی ميں سے ہے اور الله کے علم ميں مخزون ہے اس کو اس کے غير اہل سے مخفی رکهو۔
٢۔ ریسمان الٰہی / ٢٧ ٢٧ ۔ وَحَبلاً وَثيقاً عُروَتُہُ (وہ ریسمان ہے کہ جس کے حلقے محکم ہيں( قرآن مجيد ایسی رسی ہے کہ اس کا دستہ بہت محکم اور ڻوڻنے والا نہيں ہے جس نے بهی اسے مضبوطی سے پکڑ ليا نجات پائے گا اور اس کی کاميابی محقق ہے ، کبهی بهی وہ وادی ضلالت و گمراہی ميں نہيں جاسکتا یہاں تک کہ حوض کوثر پر پيغمبر اکرم (ص) کے پاس وارد ہوگا، جيسا کہ حدیث ثقلين اس معنی کے ليے گویا اور صریح ہے الله تعالیٰ نے فرمایا: < فَمَن یَکفُْر بِالطَّاغُوتِ وَیُؤمِْن بِاللهِ فَقَد استَْمسَْکَ بِالعُْروَْةِ الوُْثقَْی لاَانفِصَامَ لَہَا > ( ١) اب جو شخص بهی طاغوت کا انکار کرکے الله پر ایمان لے آئے وہ اس کی مضبوط رسی سے متمسک ہوگيا ہے جس کے ڻوڻنے کا امکان نہيں ہے۔ مولف کہتے ہيں: حبل، ریسمان کے معنی ميں ہے اور ہر اس شے کے ليے استعمال ہوتی ہے جس کے ذریعہ ہدف تک پہنچا جائے اور کتاب خدا اور عترت پيغمبر (ص) کو اس سے اس وجہ سے تشبيہ دی ہے کہ ان دونوں محکم و مضبوط رسيوں سے تمسک اختيار کرنے والوں کو رضائے الٰہی اور قرب پروردگار تک پہنچاتی ہے نيز اس (خدائے سبحان) کی محبت اور ثواب پر فائز کرتی ہے۔ ١۵٩ ۔ شيخ بزرگوار طبرسی عليہ الرحمہ نے حبل کے معنی کے ليے چند اقوال نقل کيے ہيں: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ ، آیت ٢۵۶ ۔ (
ان ميں سے ایک یہ ہے کہ حبل قرآن مجيد ہے۔ دوسرے یہ کہ دین اور اسلام ہے۔ تيسرے معنی کے ليے ابان ابن تغلب کی امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: نَحن حبلُ اللّٰہِ الذَی قالَ اللّٰہ تعالیٰ: ( ١) الآیہ ۔ یعنی ہم حبل الله ہيں جس کے ليے الله تعالیٰ نے فرمایا: اور تم سب الله کی رسی کو مضبوطی سے ) پکڑے رہو۔ بہتر ہے کہ تمام معانی پر حمل کيا جائے۔ ( ٢ پيغمبر اکرم (ص) جو تمام صفات جميلہ و جليلہ اور سارے علوم کے حامل ہيں فرمایا: ميں معراج سے واپس نہيں ہوا مگر یہ کہ الله تعالیٰ نے مجهے تمام چيزوں کا علم عطا کيا اور جو کچه ميرے پاس تها اسے علی ابن ابی طالب - کو تعليم دیا۔ اس کے بعد امام حسن و امام حسين عليہما السلام کو پهر یکے بعد دیگرے یہاں تک کہ اس امت کے مہدی حضرت حجة ابن الحسن العسکری عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کو یہ سب کے سب انبياء علوم کے وارث ہيں۔ اس بنا پر جيسا کہ حضرت امير المومنين - حبل الله ہيں تمام ائمہٴ اطہار عليہم السلام اور امام زمانہ - کا مقدس وجود حبل المتين ميں سے ہے۔ ١۶٠ ۔ “وفی کمال الدّین وتمام النعمة باسنادہ عَنْ یَونِسِ بن عَبد الرَّحمن : دَخَلتُ عَل یٰ موسیٰ بن جَعفرَ عليہما السلام فَقلت لَہ یا بنَ رَسولِ اللّٰہ (ص) انتَ القائِم بِالحَقَّ ؟ فَقالَ عليہ السلام اَنا القائم بِالحَق وَلکِنَّ القائِم الذَی یُطهّر الاَرض مِن اَعداء اللّٰہ عَزَّوجَلَّ وَیملاٴها عَدلاً کما ملِئت جوراً وَظلماً هوَ الخامِس مِن وُلدی ، لَہَ غَيبةٌ یَطُولُ اٴمَدُها خَوفاً عَلیٰ نَفسِہِ یَرتَدَّ فيها اقوامٌ وَیَثبُتُ فيها آخرُونَ ثُمَّ قالَ عليہ السلام : طوبی لشيعتِنا المُتمسکين بحبلنا فی غيبِةِ قائمِنا الثَّابِتينَ عَل یٰ موالا تِنا وَالبَرائة مِن اعدائِنا، اولئِک مِنّا وَنَحنُ مِنهُم ، فَقَد رضوا بِنا ائمّةً وَرَضينا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
) بِهِم شِيعةً ، فطوبی لَهُم ثُمَّ طُوبی لَهم ، هُم واللّٰہِ مَعَنا فی دَرَجاتِنا یَومَ القٰيمةَ ” ( ١ عالم جليل القدر شيخ صدوق (عليہ الرحمہ) نے اپنی کتاب کمال الدین ميں اپنی سند کے ساته یونس ابن عبد الرحمن سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا: ميں امام موسی ابن جعفر - کی خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض کيا: فرزند رسول (ص)! کيا آپ قائم بالحق ہيں؟ تو امام نے فرمایا: ميں قائم بالحق ہوں ليکن وہ قائم جو زمين کو دشمنان خدا سے پاک کریں گے اس کو عدل و انصاف سے اس طرح بهردیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بهری ہوگی وہ ميرے پانچویں فرزند ہوں گے اور ان کی غيبت بہت طولانی ہوگی اپنے (مقدس) نفس پر خوف (و ہراس) کی بنا پر (اور اس طولانی غيبت ميں بہت سے لوگ اپنے دین سے پهر جائيں گے مرتد ہوجائيں گے اور بہت سے دوسرے لوگ ہدایت پر باقی رہيں گے پهر فرمایا : ہمارے ان شيعوں کے ليے خوش خبری ہے جو ہمارے قائم کی غيبت کے زمانہ ميں بهی ہماری دوستی و محبت سے متمسک رہيں گے اور ہماری دوستی پر ثابت قدم رہيں گے نيز ہمارے دشمنوں سے بيزاری کا اظہار کرتے رہيں گے وہی لوگ ہمارے ہيں اور ہم ان کے ہيں۔ یقينا وہ لوگ اس بات پر راضی و خوش ہوں گے کہ ہم ان کے امام ہيں اور ہم اس پر خوش ہيں کہ وہ ہمارے شيعہ ہيں۔ انہيں خوش خبری ہو کہ وہ لوگ خدا کی قسم! قيامت کے دن ہمارے ساته ہمارے درجے ميں ہوں گے۔ ١۶١ ۔ “ وفی امالی الشيخ طوسی رضوان اللّٰہ تعالیٰ باسنادہ عن ابان بن عثمان عن ابی عبد اللّٰہ جعفر بن محمد عليہما السلام قالَ: اِذا کانَ یَوم القِيٰمةِ نادیٰ منادٍ مِن بطنانِ العَرش اینَ خَليفة اللّٰہ فی اَرضِہِ؟ فيقوم داوُدُ النَّبی عليہ السلام فَيَاٴتی النّدآءُ مِن عِندِ اللّٰہِ عزوجَل لسنا اِیّاکَ ارَدنا وان کُنتَ للّٰہِ خَلَيفة ، ثمّ ینادی ثانيةً اینَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ٣۶١ ۔ (
خَليفة اللّٰہِ فی اَرضِہِ ؟ فَيَقوم اَمير الموٴمنينَ عليہ السلام فَيَاٴتی النّدآء مِن قِبل اللّٰہ عَزوجَل : یا مَعاشر الخلائق هذا عَلیّ بن ابی طالبٍ خَلفية اللّٰہ فی ارضِہِ وَحجتہ عَلیٰ عبادِہِ فَمن تَعَلّقَ بحبلہِ فی دارِ الدُّنيا فَيتعَلَّق بحبلہ فی هذا اليوم لِيَستضی بِنورِہِ وَليتَّبِعْہُ الی الدرَجات العُلیٰ مِن الجنانِ قالَ فَيقوم اناسٌ قد تعلقوا بحبلِہِ فی الدنيا فيتّبعونہ الی الجنة ، ثُمَّ یاٴتی النّداء مِن عِند اللّٰہ عَزَّوجَلَّ الا مَن ائتمّ بامامٍ فی دارِ الدُنيا فَليتّبعہ الیٰ حدیث یَذهبُ بِہِ ، فحينئذٍ یَتَبَرَّء” ( ١ محقق بزرگوار عالم جليل القدر شيخ طوسی رحمة الله عليہ اپنی کتاب امالی ميں اپنی سند کے ساته ابان ابن عثمان سے انہوں نے صادق آل محمد سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: جب قيامت کا دن ہوگا تو ایک آواز دینے والا عرش کے درميان آواز دے گا: روئے زمين پر الله تعالیٰ کا خليفہ کہاں ہے؟ تو حضرت داؤد کهڑے ہوں گے، الله تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی اگرچہ آپ زمين ميں خليفہ ہيں ليکن ميری مراد آپ نہيں تهے پهر دوبارہ الله تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی کہ روئے زمين ميں الله تعالیٰ کا خليفہ کہاں ہے؟ پهر حضرت امير المومنين علی کهڑے ہوں گے، خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے آواز آئے گی: اے گروہ خلائق! (جو عرصات محشر ميں جمع ہو) یہ علی ابن ابی طالب - روئے زمين پر الله کا خليفہ اور اس کے بندوں پر حجّت ہے جس شخص نے بهی دنيا ميں اس کی حبل اور دامن سے تمسک اختيار کيا تها آج بهی اس کی حبل سے تمسک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۶٧ ۔ ، ١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١۶۶ (
اختيار کرے ان کے دامن سے وابستہ رہے تاکہ ان کے ذریعہ روشنی حاصل کرے اور ان کی قيادت ميں بہشت کے درجات عاليہ ميں جائے، فرمایا: پهر کچه لوگ بلند ہوں گے کہ جنہوں نے دنيا ميں ان کے مقدس دامن سے تمسک اختيار کيا تها تو وہ حضرت - کے پيچهے بہشت ميں داخل ہوں گے۔ پهر خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے آواز آئے گی، جان لو آگاہ ہوجاؤ جس شخص نے اپنے امام کی دنيا ميں اقتدا اور اتباع کيا ہوگا اس مقام پر بهی وہ جہاں جائيں گے ان کے پيچهے ان کے ساته چلا جائے ، اس وقت حضرت - نے اس آیہٴ کریمہ کی تلاوت کی: اس قت جب کہ پير اپنے مریدوں سے بيزاری کا اظہار کریں گے اور سب کے سامنے عذاب ہوگا اور تمام وسائل منقطع ہوچکے ہوں گے اور مرید بهی یہ کہيں گے کہ اے کاش! ہم نے ان سے اس طرح بيزاری اختيار کی ہوتی جس طرح یہ آج ہم سے نفرت کر رہے ہيں خدا ان کے اعمال کو اسی طرح حسرت بنا کر پيش کرے گا اور ان ميں سے کوئی جہنم سے نکلنے والا نہيں ہے۔ ١۶٢ ۔ “وفی المناقب شيخ الاهل قطب المحدثين محمّد بن شہر آشوب عن النبی (ص) انّہ ساٴل اعرابیٌ عَن قولِہِ تعالیٰ : ( ١) فَاَخَذَ رَسُولُ اللہّٰ (ص) یَدَہُ فَوَضَعَها عَلیٰ کِتف عَلیٍ عليہ السلام فَقالَ یا اعرابی هذا حبل اللّٰہ فاعتَصِم بِہِ فَدٰارَ الاعرابی مِن خَلفِ عَلیٍ عليہ السلام وَالتَزَمہ ، ثمَ قالَ انّی اشهِدک انّی اِعتصمْت بحبْلکَ فَقالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) مَن ) اراد ان ینظر الیٰ رَجلٍ مِن اهل الجنةِ فلينظر الیٰ هذا ” ( ٢ سفينہ ميں مناقب محمد ابن شہر آشوب سے پيغمبر اکرم (ص) سے نقل کيا ہے کہ ایک اعرابی نے آنحضرت (ص) سے الله تعالیٰ سے اس قول یعنی الله کی رسی کو مضبوطی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٠٣ ۔ ( ٢(۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج ٣، ص ٩٣ ۔ (
سے تهامے رہو) کے بارے ميں دریافت کيا کہ یہ حبل کيا ہے کہ جس سے الله تعالیٰ متمسک رہنے کا حکم دیتا ہے؟ تو رسول خدا (ص) نے اعرابی کا ہاته پکڑا اور حضرت علی - کے شانہٴ مبارک کے اوپر رکه کر فرمایا: اے اعرابی یہ حبل الله ہے، اس سے متمسک رہو (اس کا دامن تهامے رہو) اعرابی نے حضرت علی - کے پسِ پشت چکر لگایا (آگے کی طرف آیا اور انہيں اپنی بانہوں ميں لے کر ) کہا: ميں گواہی دیتا ہوں کہ ميں نے یقينی طور پر آپ سے تمسک اختيار کيا، پهر رسول خدا (ص) نے فرمایا: جو شخص بهی اس بات کا خواہش مند ہے کہ اہل بہشت کے کسی مرد کو دیکهے تو اسے اس اعرابی مرد کو دیکهنا چاہيے۔ ١۶٣ ۔ اسی جيسی روایت مفصل طورپر بحار الانوار ميں نقل ہوئی ہے اور اس کے آخر ميں ذکر ہوا ہے “ انَّ الرجُلَ خَرَجَ فَيلحقُها الثانی وسَاٴلہ انّ یَستَغفِر لَہُ فَقال لَہُ هَل فَهمتَ ماقالَ لی رُسُول اللّٰہ (ص) وَما قُلتَ لَہُ قالَ نَعَم فَقالَ لَہُ اٴنِ کنتَ متمسکاً بِذلِکَ الحبل فَغَفَر اللہّٰ لَکَ وَالا ) فلا غفر اللّٰہ لک ۔” ( ١ البتہ اس طرح کی روایت کو تفصيل کے ساته کنز الفوائد ميں کراجکی عليہ الرحمہ نے نقل کيا ہے اور اس کے آخر ميں ذکر ہوا ہے کہ وہ شخص رسول خدا (ص) کے پاس سے باہر آیا تو عمر ابن خطاب نے اس سے ملاقات کی اور اس اعرابی سے درخواست کی کہ اس کے حق ميں طلب مغفرت کرے، اعرابی نے ان سے کہا: کيا تم جانتے اور سمجهتے ہو کہ مجه سے رسول خدا (ص) نے کيا فرمایا اور ميں نے ان سے کيا عرض کيا؟ کہا: ہاں ميں سمجهتا ہوں ، تو اعرابی نے خليفہٴ دوم سے کہا: آپ بهی اس حبل یعنی علی - سے متمسک ہوجائيں گے تو الله تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے گا ورنہ (اگر مخالفت کی اور ان سے تمسک اختيار نہ کيا تو) الله آپ کی مغفرت نہيں کرے گا۔ ہم الله تعالیٰ کو خود اپنے آقا امير المومنين - کے مقام ولایت و عظمت کی قسم دیتے ہيں کہ اس حقير کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٣۶ ، ص ١۶ ۔ تفسير کنز الدقائق، ج ٢، ص ١٨۶ ۔ تاویل الآیات، ج ١، ص ١١٨ ۔ (
اور تمام شيعوں اور مومنين کو ان دونوں حبل قرآن عترت جو آنحضرت کے اہل بيت ہيں بالخصوص حضرت بقية الله عجل الله فرجہ الشریف کے مقدس وجود سے متمسک رہنے والوں ميں قرار دے۔ بحمد وآلہ الطاہرین ۔
٢۔ پناہ گاہ / ٢٨ ٢٨ ۔ “ومَعقَلاً منيعاً ذِروَتُہُ” (اور وہ پناہ گاہ ہے کہ جس کی بلندی محفوظ ہے( قرآن کریم ملجا و مآوی اور ایسی پناہ گاہ ہے جو بہت بلند، اور ایسا قلعہ اور حصار ہے جو فوق العادت مضبوط و مستحکم ہے کہ اس کی بلندی اور استحکام اس بات سے مانع ہے کہ اس کے پناہ لينے والے کے پاس کوئی ناپسند شے یا عذاب و ناراضگی پہنچے۔ ١۶۴ ۔ “وفی تَفسير العيَّاشی عَن جَعفر بن محمَّدٍ عَن ابيہ عَن آبائِہِ عَليہم السلام قالَ قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) ایّها النّاسُ اِنَّکُم فی زمان هدنَةٍ وَانتُم عَلیٰ ظَهر السَّفَر والسَّير بِکُم سَریعُ فَقَد رَاٴَیتم اللّيلَ والنّهار وَالشَّمسَ وَالقَمَر یُبليان کُلَّ جدیدٍ وَیقرّبان کلَّ بَعيدٍ وَیاٴتيانِ بِکلّ موعودٍ، فَاَعِدّوا الجهَازَ لِبُعد المفازِ ، فَقامَ المِقداد فَقالَ: یا رَسولَ اللّٰہ (ص) مادار الهدنةِ ؟ قالَ دار بَلیً وانقطاعٍ ، فَاِذا التَبَسَت عَلَيکم الفِتَن کَقِطَع اللَّيلِ المُظلم فَعَلَيکُم بِالقرآن فَانَّہ شافعٌ مُشَفَّعٌ وَماحِلٌ مُصَدَّقٌ مَن جَعَلَہ اٴمامَہُ قادہ اِلی الجنَّةِ وَمَن جَعَلَہ خَلفَہ ساقہ اِلَی النّارِ ، ال یٰ قولہ لا تحص یٰ عَجائِبُہُ وَلا ) تُبل یٰ غرائِبہ ، فيہِ مَصابيح الهُدی ومنار الحِکمَةِ وَدَليلٌ عَلَی المَعروفِ لِمَن عَرَفَہ” ( ١ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ٢۔ بحار الانوار، ج ٨٩ ، ص ١٧ ۔ (
عياشی نے اپنی تفسير ميں امام جعفر صادق - سے انہوں نے اپنے آبائے طاہرین سے روایت کی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: تم ہدنہ کے گهر ميں ہو تم سفر ميں ہو (ایسی سواری جو بہت تيز رفتار ہے) اور نہایت تيزی سے سفر کر رہے ہو یقينا تم نے دیکها کہ رات اور دن (طلوع و غروب) سورج اور چاند ہر نئی چيز کو کُہن بنا رہے ہيں اور ہر بعيد کو قریب کرتے جا رہے ہيں اور وعدہ کيے ہوئے کو لا رہے ہيں لہٰذا راستہ دور ہے اور اپنی کوششوں سے کوچ کو آمادہ رکهو تاکہ مفاز جو فلاح و نجات کی جگہ ہے پہنچ جاؤ۔ اس وقت مقداد نے کهڑے ہوکر عرض کيا: یا رسول الله! وہ کيا ہے؟ فرمایا: وہ امتحان (و آزمائش) کا گهر ہے اور اسی طرح کی لذتوں سے قطع کرنے کا مقام ہے لہٰذا جب بهی فتنے تمہارے اوپر مشتبہ ہوجائيں اور تاریک رات کی طرح چها جائيں تو تم قرآن کی طرف رجوع کرو اس سے متمسک رہو کيونکہ وہ شفاعت کرنے والا بهی ہے اور شفاعت کو قبول کرنے والا بهی اور جو خدا کی طرف سے آیا ہے اس کی تصدیق کرنے والا جس نے اُسے آگے رکها وہ جنت کی طرف لے گيا اور جس نے اسے پيچهے ڈالا اور اس کا احترام ملحوظ خاطر نہيں رکها تو وہ اسے دوزخ کی طرف کهينچ لے گيا (روایت مفصل ہے) یہاں تک کہ فرمایا: قرآن مجيد کے عجائب و غرائب شمار ميں نہيں آتے اس کی حد شمار سے باہر اور اس کے غرائب ہميشہ جدید اور تازہ ہيں ، بوسيدہ و کہنہ نہيں ہوتے وہ ہدایت کے چراغ ہيں اور حکمت کے منارے ہيں اور جس نے اس کی حقيقت اور با ارزش مطالب کو پہچان ليا وہ اس کے ليے تمام نيکيوں کے ليے دليل و راہ گشا ہوگيا۔ مولف کہتے ہيں: ائمہٴ اطہار کا مقدس وجود ہر زمان و مکان ميں ان کی امامت کے زمانے ميں ان کی موت و حيات کے دوران وہ تمام لوگوں کے مرجع و ملجا و ماوی اور پناہ گاہ تهے اور ہيں بهی، بالخصوص مہدی آل محمد حضرت بقية الله الاعظم ولی مطلق رب العزت صاحب العصر و الزمان - عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا ہر دل عزیز وجود جو ہر بے پناہ اور مستضعف لوگوں کے ليے ملجا و مآوی ہے نيز وہ دنيائے واقعی مستضعفين کا انتقام لينے والے ہيں۔ ١۶۵ ۔ “وفی الامالی للشيخ الطوسی رضوان اللّٰہ تعالیٰ عليہ ) بالاٴسناد الیٰ احمد بن المعافا بقَصر صَبيح ، قالَ حدثَنا عَلیّ بن مُوسیٰ الرِضا عليہ السلام عن ابيہِ مُوسیٰ عن اَبيہِ جَعفر بن محمَّد عن اَبيہ محمَّد بن علی عَن اَبيہ عَلیّ بن الحسين عن اَبيہ الحُسين بن علیِّ ابن ابی طالبٍ عليہ السلام ، عن النّبی (ص) عن جبرائيلَ عَن ميکلائيل عَن اسرافيل - صلوات اللّٰہ عليہم ) - عَن القَلَم عَنِ اللوح عَنِ اللہّٰ تعال یٰ : عَلیٌ عليہ السلام حِصنی من دَخلَہ اَمِنَ ناری ” ( ١ محدث اور فقيہ عالی قدر شيخ جليل علامہ طوسی نے اپنی سند کے ساته احمد ابن معافا سے قصر صبيح سے کہا کہ مجه سے حضرت علی ابن موسی الرضا - نے اپنے پدر بزرگوار موسی کاظم - سے انہوں نے اپنے والد گرامی جعفر صادق - سے انہوں نے اپنے پدر گرامی محمد باقر - سے انہوں نے اپنے پدر بزرگوار علی ابن الحسين - سے انہوں نے اپنے والد گرامی حسين ابن علی ابن ابی طالب سے انہوں نے نبی اکرم سے انہوں نے جبرئيل سے انہوں نے ميکائل سے انہوں نے اسرافيل سے انہوں نے قلم سے انہوں نے لوح سے اس نے الله تعالیٰ سے یہ حدیث بيان کی ہے:“ علی ميرا قلعہ ہے جو اس ميں داخل ہوگيا وہ ميری آتش جہنم سے امان ميں ہے“ مولف کہتے ہيں: بارہویں حجّت خدا آسمان ولایت کے درخشاں ستارے کی ولایت اور محبت و دوستی اور تمام اہل بيت عصمت و طہارت کی ولایت ایسا گوہر ہے جو بہت زیادہ گراں قيمت ہے کہ اگر تمام دنيا کے ماہرین جمع ہوجائيں تو اس کی قيمت اور معيار کا اندازہ نہيں لگا سکتے نہ ہی اسے معين کرسکتے ہيں۔ اس عالی قدر گوہر کے حامل افراد نے خدانخواستہ اگر نا آگاہی یا بے اہميتی کی وجہ سے یا مادّی اقدار سے موازنہ کرنے کی بنا پر اپنے ہاتهوں سے اسے کهودیں یا سہل انگاری کریں تو بہت زیادہ اور ناقابل تلافی نقصان تحمل کرنا ہوگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امالی شيخ طوسی، ص ٣۵٣ ۔ (
٢۔ شرافت / ٢٩ ٢٩ ۔ وَعِزّاً لِمَن تَوَلاّہُ (چاہنے والوں کے ليے عزت اور قيمتی ہے( قرآن اپنے چاہنے والوں کے ليے عزت و شرف ہے اور ان لوگوں کے ليے بهی جو اسے اپنا ولی و رہبر اور پيشوا قرار دیں نيز اپنے دنيوی اور اخروی زمام امور کو اس کے اختيار ميں دے دیں اس کے اوامر و نواہی پر عمل کریں تمام اقدار اور معياروں کو اسی پر تطبيق دیں تو ان کی دنيا و آخرت کی عزت و شرف کا حامل ہوگا۔ مولف کہتے ہيں: حضرت ولی عصر - ناموس دہر امام زمانہ - اور ان کے آباء و اجداد طاہرین کی دوستی اور ولایت و محبت ایسا شرف اور عزت ہے جو تمام شرافتوں سے بالاتر اور دنيا وآخرت ميں سربلندی کا باعث ہے نيز اس کے نطفہ کی قداست اور طاہر الولادت ہونے کی علامت ہے۔ ١۶۶ ۔ “ و فی بشارَةِ المُصطفیٰ لِشيعة المُرتضیٰ باِسنادِہِ عَن المفَضَّل بن عُمر قالَ قالَ ) اَبو عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام : مَن وَجَدَ بَردَ حبّنا عَلی قلبِہِ فليکثِر الدُعآء لاٴمِّہِ فَانّها لَم تَخُن اَباہُ ” ( ١ مولف بشارة المصطفیٰ لشيعة المرتضی نے اپنی سند کے ساته مفضل ابن عمر سے نقل کيا ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: جو شخص ہماری محبت کی لذت اور خنکی کا اپنے دل ميں احساس کرے (ہماری دوستی و مودت اس کے دل ميں جاگزیں ہوجائے) تو اسے اپنی مہربان ماں کو بہت دعائيں دینی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بشارة المصطفیٰ، ص ١١ ۔ (
چاہيے اس ليے کہ اس نے اس کے باپ کے ساته خيانت نہيں کی ۔ یعنی اس کا نطفہ قداست و پاکيزگی کے ساته رحم مادر ميں مستقر ہوا اور اسی طرح اس نے دنيا ميں آنکهيں کهوليں۔ ١۶٧ ۔ “وَفيہ باِسنادِہِ عَن اَبی سَلمةَ عَن اَبی ہُریرةٍ قالَ اِنَّ رَسُول اللہّٰ (ص) جآء ہ رَجُلٌ فقالَ یا رَسولَ اللّٰہ (ص) اَما رَاٴَیتَ فلاناً رَکِبَ البَحر ببِضاعةٍ یَسيرةٍ الیَ الصين فَاَسرَعَ الکرَّةَ واعظمَ الغنيةَ حَت یٰ حَسَدَہ اهلُ وُدِّہِ وَاَوسَعُ قَراباتِہِ وَجيرانِہِ ، فَقالَ رَسُولُ اللہّٰ (ص) انَّ مالَ الدُّنيا کلّما ازدادَ کثرةً وَعظَمَةً اِزدادَ صاحَبہُ بَلاءً تَغبطوا اصحابَ الاموال الاَّ بِمن جآءَ بمالِہِ فی سَبيل اللہّٰ وَ کٰلن الا اُخبِرکُم بِمَن هُو اقلّ مِن صاحِبک بِضاعَةً واسرَعُ مِنہ کرَّةً ؟ قالوا بَلی یا رَسولَ اللّٰہ (ص) فَقالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) انظُروا اِلیٰ هذَا المُقبِلِ فَنَظَرنا فَاذِاً رَجُلٌ مِن الاٴنصار رثّ الهيئةِ فَقال رَسُولُ اللّٰہ (ص) اِنَّ هذا الرجلُ لَقَد صَعَدَ لَہ فی هذااليَوم اِلَی العُلُوّ مَن الخيراتِ وَالطّاعَةِ ما لو قُسمَ عَلی جَميع اهل السَّمواتِ وَالارض لَکانَ نصيب اقلّهِم مِنہ غُفران ذُنُوبہِ وَوُجُوب الجنَةَ لَہُ ، قالوا: بِما ذایا رَسُولَ اللّٰہ (ص) فَقالَ سَلُوہُ یخبرکُم بِما صَنَعَ فی هذا اليوم ، فاقْبَل اليہِ رَسُول اللّٰہ (ص) وَقالوا لَہُ هنيئاً لَکَ ما بَشَّرَکَ بِہِ رَسُولُ اللہّٰ (ص) فماذا صنعتَ فی یَومِکَ هذا حتّی کُتِبَ لَکَ ماکتِبَ ؟ فقالَ الرجُلُ ما اعْلَمُ انّی صَنَعت شَيئاً غَير انّی خَرجتُ مِن بيتی وَاَردتُ حاجَة کُنتُ ابطاٴتُ عَنها فَخَشيتُ اٴن یکونَ فاتتنی ، فقُلتُ فی نَفسی لاٴعتاض مِنها بِالنظَرِ الیٰ وَجہ عَلیِّ بن ابی طالِبٍ عليہ السلام فَقَد سَمِعت رَسُول اللّٰہ (ص) یَقُولُ النظر اِلی وَجہِ عَلیِ بن ابی طالِبٍ عِبادَة، فقال رَسُول اللّٰہ (ص) ای و اللّٰہ عِبادةٌ وَایُّ عِبادَةٍ، انَّکَ یا عبد اللّٰہِ ذَهَبتَ تبتَغی اٴن تکسِب دیناراً لِقوتِ عيالِکَ فقاتَکَ ذلِکَ فاعتَضتَْ مِنہُ بِالنَّظَر اِل یٰ وَجہ عَلیّ ابن ابی طالبٍ عليہ السلام وَانتَ محِبٌّ لَہ وَلِفضلِہِ معتَقِدٌ وَ لٰذکَ خَيرٌ لَکَ مِن ان لو کانَتِ الدّنيا کلّها ذَهَبَةً فَانفَقتْها فی سَبيل اللہِّٰ وَلتشفعنَّ بَعِدَدِ کُلِّ نَفَسٍ تنفَّستہَ فی مَسيرِکَ اليہِ فی الف رَقَبةٍ یعتِقهُمُ اللہّٰ مِنَ النَّارِ بش اٰ فعتِکَ” )١) نيز اسی کتاب ميں رسول خدا (ص) سے روایت کی گئی ہے کہ ایک شخص رسول خدا (ص) کی خدمت اقدس ميں حاضر ہوا اور کہا: اے رسول خدا (ص) ! کيا آپ نے فلاں شخص کو نہيں دیکها کہ جس نے دریا کا سفر طے کيا اورمختصر سرمایہ کے ساته چين گيا اور بہت جلد بڑے کافی منافع کے ساته واپس آیا، اس طرح کہ اس کے دوستوں نے حسد کرنا شروع کيا یہاں تک کہ اس کے رشتے دار اور پڑوسی لوگوں ميں بهی یہ حسد پهيل گيا، حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمایا: مالِ دنيا جس قدر بهی زیادہ اور بہت عظيم المرتبت ہو اس کا مالک زیادہ آزمائشوں ميں مبتلا ہوگا لہٰذا صاحبانِ اموال پر غبطہ نہيں کرنا چاہيے اور ان کی طرح اموال کی تمنا نہيں کرنی چاہيے ہاں ایسے شخص پر غبطہ کرنا چاہيے جو اپنے مال کو راہِ خدا ميں خرچ کرے ليکن کيا تم یہ چاہتے ہو کہ تمہيں ایسے شخص کے بارے ميں خبر دوں جو تمہارے دوستوں ميں سے ہے اس نے کم سرمائے اور مختصر پونجی کے ساته اپنا سفر کيا اور بہت جلد واپس آگيا اور اس سے زیادہ منافع لے کر واپس ہوا ہے؟ کہا: ہاں یا رسول الله (ص)! تو رسول اکرم (ص) نے فرمایا: اس شخص کی طرف نظر کرو جو ہماری طرف آ رہا ہے لہٰذا ہم لوگوں نے اس کی طرف نظر کی تو وہ انصار ميں سے ایک شخص کہنہ لباس اور اپنی معمولی ہيئت کے ساته ہے۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا: اس شخص نے اس دن خيرات اور اطاعت کی وجہ سے ایسا اعلیٰ مقام حاصل کيا ہے اور اس حد تک پہنچا ہوا ہے کہ اگر تمام اہل آسمان و زمين کے لےے تقسيم کر دیا جائے تو ان سب کا کم سے کم حصہ ان کے گناہوں کی بخشش اور ان کے ليے بہشت واجب ہونا ہے کہا: یا رسول الله ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بشارة المصطفیٰ، ص ۶٨ ۔ (
کس عمل کے ذریعے؟ فرمایا: خود اسی سے دریافت کرو کہ اس نے آج کون سا عمل انجام دیا ہے؟ پس اصحاب رسول خدا (ص) اس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا:تمہارے ليے وہ خوش خبری گوارا ہو جو تمہيں رسول خدا (ص) نے دی ہے تم نے آج کون سا عمل انجام دیا ہے کہ جو تمہارے اعمال ميں لکهاجانا چاہيے تها وہ تحریر کيا جا چکا ہے؟ اس شخص نے کہا: مجهے اس عمل انجام دینے کے علاوہ کسی اور کام کرنے کی اطلاع نہيں ہے، آج گهر سے باہر آیا ایک حاجت اور ضرورت کے پوری کرنے ميں تهوڑی تاخير کردی، جب ميں نے اس کے فوت ہونے کا خوف محسوس کيا تو اپنے دل ميں کہا: (اگر وہ ضرورت پوری نہ ہوتی تو) اس کے عوض ميں (مبارک) چہرہٴ علی ابن ابی طالب - کا نظارہ کروں گا، کيونکہ رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے ميں نے سنا ہے: علی ابن ابی طالب - کے چہرے کی طرف نگاہ کرنا عبادت ہے، رسول خدا (ص) نے فرمایا:ہاں خدا کی قسم! عبادت ہے اور وہ بهی کيسی عبادت؟ یقينا اے بندہٴ خدا! تم دینار حاصل کرنے کے ليے گئے تاکہ اپنے اہل و عيال کا رزق فراہم کرو اور وہ فرصت تم سے فوت ہوگئی اسے نہ حاصل کرسکے، ليکن اس کے عوض ميں تم نے علی ابن ابی طالب - کے چہرے کی طرف نظارہ کرنا اختيار کيا حالانکہ تم ان کے عاشق اور محب تهے، ان کے فضل و مقام کے معتقد تهے (یعنی ان سے محبت و دوستی رکهتے تهے اور ان کے فضل و مقام کے معتقد تهے) وہ تمہارے ليے اس چيز سے بہتر ہے کہ اگر تمام دنيا (وما فيها) سرخ سونا ہو اور ان سب کو راہِ خدا ميں خرچ کرو، اس کے علاوہ تم یقينا اپنی ان تمام سانسوں کے برابر جو اس راہ ميں لی ہے اس کی تعداد کے برابر شفاعت کرو گے الله تمہاری شفاعت کے ذریعے ہزار غلام کو آتش جہنم سے آزاد کرے گا۔
٢۔ سلامتی / ٣٠ ٣٠ ۔ وَسِلماً لِمَن دَخَلَہُ (اس ميں داخل ہونے والوں کے ليے سلامتی ہے( شارح بحرانی کہتے ہيں: سلم امن کے معنی ميں ہے اور اس ميں داخل ہونا یعنی اس کے مقاصد ميں تدبر اور غور وفکر کرنا ہے اور اس کے اندر کی کرن سے اقتباس کرنا نيز اس کے انوار کا خاموش نہ ہونا اس اعتبار سے عذاب خدا اور ان شبہات ميں پڑنے سے پناہ گاہ ہے جو ہلاکت کا زمينہ فراہم کرتے ہيں۔ اور یہ بهی کہا گيا ہے کہ لفظ سلم استعارہ اور کنایہ ہے اس اعتبار سے کہ جو بهی اس ميں داخل ہوجائے اسے کسی بهی صورت ميں آزار و اذیت نہيں پہنچ سکتی۔ جس طرح قرآن مجيد اپنی پناہ حاصل کرنے والوں کے ليے ملجا و مآوی اور شبہات سے محفوظ رکهنے والا ہے اسی طرح ائمہٴ اطہار کی ولایت و محبت حضرت علی بن ابی طالب - اور ان کی اولاد طاہرین کہ جن کی آخری فرد حضرت بقية الله (روحی لهم الفداء) ہيں جو اپنے پاس وارد ہونے والوں کے ليے بہت مضبوط و مستحکم اطمينان اور پناہ گاہ ہيں۔ ١۶٨ ۔ “وفی فضائل الشيعة بِاِسنادِہِ عَن جابر عَن ابی جعفَرٍ محمَّد بنَ عَلیِّ بن الحُسين عَن عَلیّ بن الحسين عَن اَبيہ قالَ قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) حُبّی وَحبُّ اَهل بَيتی نافعٌ فی سَبعِ مواضِعَ اٴهو الهنّ عَظميةٌ: عِندَ الوفاةِ وَفی القبرِ وَ عِندَ النُّشُورِ وَعندَ الکِتابِ وَ عند الحِسابِ وَعند ) الميزانِ وعند الصِّراط ” ( ١ کتاب فضائل الشيعہ ميں شيخ صدوق نے اپنی سند کے ساته امام محمد باقر - سے انہوں نے اپنے آباء و اجداد طاہرین سے انہوں نے حضرت رسول خدا (ص) سے نقل کيا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: ميری اور ميرے اہل بيت کی دوستی و محبت سات مقامات ميں کہ جہاں ان کی دہشت و حشت بہت زیادہ عظيم ہے فائدہ بخش ہے۔ ١۔ احتضار اور موت کی حالت ميں، ٢۔ قبر ميں، ٣۔ حشر و نشر کے وقت کہ جب قبروں سے محشر کی طرف آئيں گے، ۴،۵ ۔ حساب و کتاب کے وقت اور جب نامہٴ اعمال اڑ کر لوگوں تک پہنچيں گے، ۶۔ ميزان اور اعمال کے وزن کے موقع پر، ٧۔ صراط سے عبور کرتے وقت۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ فضائل الشيعہ، ص ۵۔ روضة الواعظين، ص ٢٧١ ۔ (
۱۰
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
٢۔ کاميابی / ٣١ ٣١ ۔ وَ هُدیً لِمَنِ ائتَمَّ بِہِ (اقتداء کرنے والوں کے ليے ہدایت ہے( قرآن کریم ان لوگوں کے ليے ہادی و رہنما ہے جو اس کی رہنمائی کی پيروی کرتے ہيں اس کے دستورات عاليہ کا اتباع اور ان پر عمل کرتے ہيںاور یہ بہت واضح سی بات ہے جب کہ ) الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ١ یہ صاحبان تقویٰ اور پرہيز گاروں کے ليے مجسم ہدایت ہے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ٢ اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے جو اِن ميں سے بہت سی باتوں کی وضاحت کر رہا ہے جن کو تم کتاب خدا ميں چهپا رہے تهے اور بہت سی باتوں سے درگزر بهی کرتا ہے تمہارے پاس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے جس کے ذریعہ خدا اپنی خوشنودی کا اتباع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے اور انہيں جہل و کفر و شرک کی تاریکيوں سے نکال کر اپنے حکم سے نور کی طرف لے آتا ہے اور انہيں صراط مستقيم کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ جس طرح کہ فرق بيان و ظہور کلام اور بيان کرنے والے پر قائم ہے۔ نور اور کتاب کا لانے والا ذات اقدس باری تعالیٰ کی ذات پر قائم ہے، اور یہی معنی تائيد کرتا ہے کہ نور سے مراد قرآن کریم ہے کتاب اور مبين عطف تفسير و توضيح ہے اس بنا پر نور اور کتاب مبين دونوں سے مراد قرآن مجيد ہے، الله تعالیٰ نے بہت سے مقامات ميں قرآن کو نور سے تعبير فرمایا ہے جيسا کہ الله تعالیٰ کا قول ہے: ( ١) اور اس نور کا اتباع کيا جو اس کے ساته نازل ہوا ہے۔ الله تعالیٰ کا یہ قول : ( ٢) لہٰذا خدا اور رسول اور اس نور پر ایمان لے آؤ جسے ہم نے نازل کيا ہے۔ نيز الله تعالیٰ کا یہ قول: ( ٣) اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور بهی نازل کردیا ہے۔ مزید یہ بهی احتمال پایا جاتا ہے کہ نور سے مراد نبی اکرم (ص) کی ذات گرامی ہو جيسا کہ صدر آیت سے ممکن ہے یہ استفادہ کيا جائے (یقينا تمہارے پاس الله کی طرف سے نور اور روشن کتاب آئی) اس بنا پر عطف تفسير و توضيح ہوگا، بلکہ دونوں مستقل ہوگا، نور ؛ پيغمبر خدا اور کتاب مبين؛ اس بنا پر پهر عطف تفسير نہيں ہوگا بلکہ دونوں مستقل طور پر پيغمبر خدا (ص) کا نور اور کتاب مبين قرآن مجيد ہوگا۔ اور “بہ” کی ضمير کتاب یا نور کی طرف پلڻتی ہے خواہ اس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سے نبی اکرم (ص) کا نور یا قرآن کا ارادہ کيا گيا ہو دونوں کا نتيجہ ایک ہی ہے، کيونکہ پيغمبر اکرم کی ذات ہدایت کے مرحلہ ميں منجملہ اسباب ظاہریہ ميں سے ایک ہے اور اسی طرح قرآن کریم اور حقيقت ہدایت حق تعالیٰ کی ذات پر قائم ہے، الله تعالیٰ فرماتا ہے: < إِنَّکَ لاَتَہدِْی مَن ) اٴَحبَْبتَْ وَلَکِنَّ اللهَ یَہدِْی مَن یَشَاءُ > ( ١ پيغمبر بے شک آپ جسے چاہيں اسے ہدایت نہيں دے سکتے ہيں بلکہ الله جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے۔ اور الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ٢ اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح (قرآن) کی وحی کی ہے آپ کو نہيں معلوم تها کہ کتاب کيا ہے اور ایمان کن چيزوں کا نام ہے ليکن ہم نے اسے ایک نور قرار دیا ہے جس کے ذریعہ اپنے بندوں ميں جسے چاہتے ہيں اسے ہدایت دے دیتے ہيں اور بے شک آپ لوگوں کو سيدهے راستہ کی ہدایت کر رہے ہيں اسی خدا کا راستہ جس کے اختيار ميں زمين و آسمان کی تمام چيزیں ہيں اور یقينا اس کی طرف تمام امور کی بازگشت ہے۔ آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) سے خطاب ہے کہ حقيقی ہدایت اور ایصال ) الی المطلوب یہ الله تعالیٰ کے ذمہ ہے آپ صرف ہدایت کی طرف رہنمائی کرنے والے ہيں ( ٣ ائمہٴ اطہار جو انبياء کے وارث ہيں بالخصوص حضرت بقية الله الاعظم - جو تمام انبياء اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوصياء کے وارث ہيں وہ بهی ان کی تمام خصوصيات و امتيازات لوگوں کی ہدایت و رہنمائی ، تدبير امور کے حامل اور تمام مخلوقات کے نظام کے محافظ ہيں نيز تمام جہان ہستی کے سارے موجودات اس عظيم ہستی کی ولایت عظمیٰ کے تحت چل رہے ہيں۔ ١۶٩ ۔ “ وفی الکافی : عَن ابی عَبد اللہّٰ عليہ السلام اِنَّ اللہّٰ خَلَقنا فاحسَْنَ خَلقَنا وَصَوَّرنَا فاحسَنَ صُوَرَنا وَجَعَلنا عَينہ فی عِبادِہِ ولسانہُ النّاطِق فی خَلقِہِ وَیَدَہُ المبسُوطَة علی عِبادِةِ بالراٴفةِ وَالرَّحمةِ وَوَجْهہ الذی یوٴتی مِنہ ، وَبابَہ الذی یدلّ عليہ وخُزّانَہُ فی سَمائِہِ وَارضِہِ، بنا اثمَرَتِ الاَشجار راینعت الثِمار وَجَرَتِ الاٴنهار وَبنا ینَزل ( الغيث ) غيثَ السمآء وینبتُ عشبَ الاٴرضِ ) وَبِعبادَتنا عُبد اللّٰہ وَلَو لا نحن ما عُبِدَ اللّٰہ ” ( ١ حضرت امام جعفر صادق - نے فرمایا: الله تعالیٰ نے ہم کو پيدا کيا اور بہترین صورت دی اور ہم کو اپنے بندوں ميں اپنی آنکه اور ناظر قرار دیا اور اپنی مخلوق پر لسان ناطق بنایا ، بندوں پر ہم کو دست کشادہ قرار دیا، مہربانی اور وقت کے ليے اپنا وجہ (چہرہ) بنایا جس سے اس کی طرف توجہ کی جاتی ہے اور ہميں اپنا دروازہ قرار دیا جس سے اس کی طرف پہنچنا ہوتا ہے ہم زمين و آسمان ميں اس کے خزانہ دار ہيں ہماری وجہ سے درخت پهل لاتے ہيں ہماری وجہ سے پهل پکتے ہيں اور نہریں جاری ہوتی ہيں ہماری وجہ سے بادل برستے ہيں اور زمين پر گهاس اُگتی ہے۔ ہماری عبادت کی وجہ سے خدا کی عبادت ہوئی، اگر ہم نہ ہوتے تو الله کی عبادت نہ ہوتی۔ ١٧٠ ۔ “وفی کمال الدین مسنَداً عَن عَلیِّ بن مُوسیٰ الرّضا عليہ السلام عَن اَبيہِ مُوسیٰ بن جَعفرٍ عَن ابِی جَعفَر بن محمّدٍ عَن اَبيہِ محمَّد بن عَلیٍّ عَن اَبيہِ عَلی بن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ١٩٣ ۔ التوحيد، شيخ صدوق، ص ١۵٢ ۔ (
الحسينِ عَن ابيہ الحُسينِ بن عَلیٍ عَن اَبيہِ عَلی بن ابی طالبٍ عليہم السلام قالَ قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) ما خَلَقَ اللّٰہ خَلقاً افضَلَ منّی ولا اکرَمَ عَليہِ مِنّی ، قالَ عَلی عليہ السلام فقلت : یا رَسول اللّٰہ فَاَنت افضَل اَم جَبرئيل ؟ فقالَ عليہ السلام : انَّ اللّٰہ تَبارک وتعالیٰ فَضَّلَ انبيائہ المُرسَلين عَل یٰ ملائِکتہ المُقربينَ وَفَضَّلَنی عَلی جَميع النبيينَ والمرسَلينَ وَالفَضلُْ بَعدی لَکَ یا عَلی عليہ السلام وللائِمَّةَ مِن بعدی، فانَّ الملائِکة لَخُدّامنا وخدّامُ محبيّنا یا عَلیّ ؛ الذَّین یحملون العَرشَ وَمَن حولَہُ یسبّحونَ بِحمدِ رَبّهم ویستَغفِرونَ للَّذین آمَنوا بِولایتِنا یا عَلیّ ، لولانحن ما حَلق اللّٰہ آدَمَ وَلاحوّاء وَلاَ الجنَّةَ وَلا النَّار وَلا السَّمآء وَلاالاٴرضَ وَکَيفَ لانکونُ افَضل مِنَ الملائکة وَقَد سَبَقناهُم الَی التّوحيدِ وَمَعرِفَةِ رَبِّنا عَزَّوَجَلَّ و تَسبيحِہِ وَ تَقدیسِہِ وَتهليلہ ، لاٴنَّ اوّلَ ما خَلَقَ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ ارواحُنا فانطقنا بِتوحيدِہِ وَ تمجيدِہِ ثمَّ خَلَقَ الملائِکة فلمّا شاهَدُوا وارواحَنا نُوراًَ واحِداً استَعظَْمُوا اُمُورنا فَسَبّحنا لِتعلَمَ الملائِکة اٴنّا خَلقٌْ مَخلُوقُونَ وَاَنَّہُ منَزّہ عَن صَفاتِنا فَسَبِّحتِ الملائکة لتسبيحنا وَنَزَّهَتْہُ عَن صِفاتِنا ، فَلَمّا شاهَدوا عِظَم شاٴننا هَلَّلنا لتعلم الملائکةُ ان لا اِلہ الا اللّٰہ، فلمّا شاهَدُوا کِبَرَ مَحَلِّنا کبّرنا اللّٰہ لتعلَمَ الملائِکةُ اَنَّ اللّٰہ اکبرَ مِن ان ینال وَاَنہ عظيم المَحَلِّ ، فَلَمّا شاهَدُوا ما جَعَلَہُ اللّٰہ لنا مِنَ القدرَة والقوةِ قُلنا : لا حولَ ولا قُوةُ الاَّ بِاللّٰہ العَلِیِ العظيم ، لِتعلم الملائکة ان لا حَولَ وَلا قوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰہِ ، فقالَتُ الملائِکة : لا حولَ وَلا قوَّةَ الاَّ بِاللّٰہِ ، فَلَمّا شاهَدُوا وما انعَمَ اللہّٰ بِہِ عَلَينا وَاَوجَبَہ ، مِن فَرضِ الطّاعہ فلقنا : الحمد للهِ لتعلم الملائِکة ما یحق اللّٰہ تعالیٰ ذِکرُہُ عَلَينا مِنَ الحَمدِ عَل یٰ نِعَم ، فقالَتِ الملائکة الحمد للہِّٰ ، فَبِنا اِهتَدَوا اِل یٰ مَعرِفَة اللہّٰ تعال یٰ وَ تَسبيحِہِ وَتَهليلہ وَتحميدہ ، ثمَّ اِنَّ اللہّٰ تعال یٰ خَلَقَ آدمَ عليہ السلام وَاَ ودَعنا صُلبہ وَاَمَرا الملائِکة بِالسُّجُودِ لہ تعظيماً لَنا وَاِکراماً وَکانَ سجودُهُم للہّٰ عَزوجَلَ عُبودیةً وَلآدَمَ اکراماً وَطاعَةً ، لِکوننا فی صُلبہِ ، فَکَيف لا نکُونُ افضَلَ مِنَ الملائِکة وَقَد سَجَدَ لآدمَ کلهُم اجمَعُونَ ،وَانّہ لمّا عَرَج بی الی السَّمآء اذَّنَ جبرئيل مَثنی مَثنی ثُمَّ قالَ : تَقَدَّم یا محمَّد ، فَقلت : یا جبرئيل اٴتقَدّمُ عَلَيک؟ فقالَ نَعَم ، لا نَّ اللّٰہ تبارک و تعالیٰ اسمُہُ ، فَضَّلَ اٴنبيآئہ عَلیٰ مَلائِکَتہ اجمعينَ ، وَفضَّلَک خاصّةً فتقدَّمتُ وَصَلَّيتُ بِهِم ولا فَخر ، فَلَّما انتهينا الیٰ حجب النُّورِ ، قالَ لی جبرئيل : تقدَّم یا محمَّد وتَخَلّفَ عَنّی ، فَقُلت: یا جَبرئيل فی مثلِ هذا المَوضِع تُفارقُنی ؟ فقال یا محمدّ اِنَّ هذا اِنِتهاء حَدّی الَّذی وَضَعَہ اللّٰہ لی فی هذا المکانِ ، فانْ تجاوزْتُہُ احترقَتْ اجنحتی لِتعدَّی حُدُودَ رَبّی جَلَّ جَلالُہُ ، فَزَجَّ بی رَبّی زَجَّةً فی النّور حتّیٰ انتهيت لی حَيثُ ما شآء اللّٰہ عزَوَجَلَّ مِن مَلکوتِہِ ، فنودیت : یا محمَّد ، فقلت: لبيّکَ رَبی وَسَعَدَیکَ ، تبارکتَ وَتعالَيتَ ، فَنودیتُ: یا محمَّد اَنتَ عَبدی وَاَنَا رَبُّک ، فَایایَ فاعبُدْ، وَعَلَیَّ فتوکَّل فانَّکَ نُوری فی عِبادی وَرَسُولی الی خَلقی وَحجَّتی فی بَریَّتی ، لِمَن تبعَکَ خَلَقتُ جَنَّتِی ، ولِمَن عَصاکَ وَخالفَک خَلقتُ ناری ، وَلاٴ وصيآئِکَ اٴوجَبتُ کرامَتی وَلشِيعتِکَ اٴوجَبتُ ثوابی ، فَقُلْتُ : یا رَبِّ وَمَن اوصيائی ؟ فَنُودیتُ یا محمَّد اِنَّ اوْصِيآئَکَ المکتُوبُونَ عَلی ساقِ العَرشِ ، فنظرتُ وَاٴنَا بَينَ یَدَی رَبّی الی ساقِ العَرش ، فراٴیتُ اِثنی عَشَرَ نُوراً ، فی کُلِ نورٍ سَطراً اخضَر مَکتوبٌ عَلَيہ اسم کلّ وَصیٍ مِن اٴوصِيائی اوَّلُهُم عَلِیُّ بنُ ابی طالبٍ و آخِرُهُم مَهدیِ امَّتی ، فَقُلتُ یا رَبِّ هٰوٴلاءِ اٴوْصِيائی مِن بعدی ؟ فَنودیتُ : یا محمَّدَ هٰوٴلاءِ اوليآئی وَاَحِبّائی وَاَصفيآئی بَعدَک عَل یٰ بَریَّتی وَهُم اَوصيآئُکَ وَخُلَفآئکَ وَخيرُ خَلقی بَعدَکَ وَعزَّتی وَجَلالی لاُطهِْرَنَّ وَحُجَجی بِهِم دینی ولاُعلينَّ لَهم کلِمَتی وَلاُطَهِّرَنَّ الارضَ بآخِرِهِمِ مِن اٴعدائی وَلاُمَلِّکنَّہ مَشارِق الارضِ وَمَ اٰ غرِبَ هٰا ولاَ سخِّرنّ لَہُ الرّیاحَ وَلاُ ذِلَّلَنَّ لَہُ الرِّقابَ الصِّعابَ وَلاُرقينَّہ فی الاَسبابِ وَلاُنصُْرَنَّہ بجندی حَت یٰ یَعلُوَ دَعوَتی ، وَیَجمَعَ الخَلقُْ عَل یٰ توحيدی ، ثُمّ لاُدیَمَنَّ مُلکَہ وَلاُ اٰ دوِلنَّ وَلاُمِدَّنّہ بملائِکَتی الامامَ بَينَ اَوليآئی اِل یٰ یَومِ القِ يٰمةِ ، وَالحمد للہّٰ رَبِّ العالمينَ وَالصَّ لاٰة عَل یٰ نَبيِّنا محمَّدٍ وَآلہ الطّيّبينَ ) الطاهِرینَ وَسَلَّمَ تَسليماً”’ ( ١ ہماری بزرگوار ہستی شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے کمال الدین ميں اپنی سند کے ساته حضرت امام علی رضا - سے انہوں نے اپنے آباء و اجداد کرام سے انہوں نے رسول اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: الله نے کوئی مخلوق مجه سے افضل اور زیادہ مکرم اپنے نزدیک پيدا نہيں کی اور حضرت علی - کہتے ہيں کہ ميں نے عرض کيا: یا رسول الله! آپ افضل ہيں یا جبرئيل؟ آنحضرت نے فرمایا: اے علی ! الله تعالیٰ نے اپنے انبياء و مرسلين کو اپنے ملائکہ مقربين پر فضيلت دی اور مجهے تمام انبياء اور مرسلين پر فضيلت عطا فرمائی اور یہ فضيلت ميرے بعد تم کو اور تمہارے بعد ائمہ کو عطا فرمائی کيوں کہ ملائکہ تو ہم لوگوں کے خادم ہيں بلکہ ہمارے دوستوں کے بهی خادم ہيں۔ اے علی ! وہ فرشتے جو کہ عرش کو اڻهائے ہوئے ہيں اور جو عرش کے گرد و پيش ہيں وہ الله کے نام کی تسبيح پڑهتے ہيں اور اپنے رب کی حمد کرتے ہيں اور ان لوگوں کے ليے مغفرت کی دعا کرتے ہيں جو ہم لوگوں کی ولایت و دوستی پر ایمان لاتے ہيں۔ اے علی ! اگر ہم لوگ نہ ہوتے تو الله تعالیٰ نہ آدم کو پيدا کرتا نہ حوا کو نہ جنت کو نہ جہنم کو نہ آسمان کو نہ زمين کو پهر ہم لوگ ملائکہ سے کس طرح افضل نہيں ہوئے جب کہ ہم لوگ اپنے رب کی معرفت اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ١، ص ٢۵۴ ۔ (
اس کی تسبيح و تہليل و تقدیس ميں ان ملائکہ سے سابق تهے۔ اس ليے کہ سب سے پہلے الله تعالیٰ نے جس چيز کو پيدا کيا وہ ہماری روحيں تهيں اور ہم لوگوں کو اپنی توحيد و تمجيد کے ساته گویا کيا اس کے بعد ملائکہ کو پيدا کيا۔ جب ان ملائکہ نے ہماری ارواح کو نوری شکل ميں دیکها تو ہم لوگوں کو ہی سب سے عظيم تر سمجهنے لگے تو ہم لوگوں نے الله کی تسبيح شروع کردی تاکہ ملائکہ سمجه ليں کہ ہم لوگ مخلوق ہيں اور الله ہم لوگوں کی صفات سے کہيں بالا تر ہے۔ پس ہم لوگوں کی تسبيح سن کر ملائکہ بهی تسبيح پڑهنے لگے اور الله کو ہم لوگوں کی صفات سے بالاتر سمجهنے لگے اور جب ان لوگوں نے مشاہدہ کيا اور ہم لوگوں کی شان ہی کو عظيم سمجهنے لگے پس ہم لوگوں نے لا الہ الا الله کہنا شروع کيا تاکہ ملائکہ یہ سمجهيں کہ یہ الله کے سوا کوئی دوسرا الله نہيں۔ ہم لوگ اس کے بندے ہيں۔ ہم لوگ الله نہيں ہيں ہم پر بهی واجب ہے کہ اس الله کی عبادت کریں یہ سن کر ملائکہ نے بهی لا الہ الا الله کہنا شروع کيا پهر مشاہدہ کيا تو ہم لوگوں کے محل و مقام کو بہت بڑا سمجهنے لگے ہم لوگوں نے فوراً کہا: الله اکبر تاکہ ملائکہ یہ سمجهيں کہ الله سب سے بڑا ہے اس کی بارگاہ سے بلند مقام عطا ہوتا ہے۔ پهر جب ملائکہ نے ہم لوگوں کی عزت و قوت دیکهی جو الله نے ہم لوگوں کو عطا فرمائی تو ہم لوگوں نے فوراً کہا: لا حول ولا قوة الّا بالله العلی العظيم تاکہ ملائکہ سمجه ليں کہ ہم لوگوں کے پاس نہيں ہے کوئی قوت اور طاقت مگر صرف الله کی دی ہوئی۔پهر جو نعمتيں الله نے ہم لوگوں کو دی ہيں اور جو فریضہ اطاعت ہم لوگوں پر واجب کيا ہے جب فرشتوں کی ان پر نظر پڑی تو ہم لوگوں نے فوراً کہا: الحمد لله تاکہ فرشتے یہ سمجه ليں کہ الله تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا کرنے کا ہم لوگوں کے اوپر کس قدر حق ہے۔ یہ سن کر ملائکہ بهی کہنے لگے: الحمد لله۔ پس اس طرح ہم لوگوں کے ذریعے ملائکہ نے الله کی توحيد کی معرفت اس کی تسبيح اس کی تہليل اور اس کی تمجيد کی طرف ہدایت پائی۔ پهر الله تعالیٰ نے آدم - کو خلق کيا اور ہم لوگوں کو ان کے صلب ميں ودیعت کردیا اور صرف ہم لوگوں کی تعظيم و تکریم کے پيش نظر ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو اور ملائکہ کا یہ سجدہ الله کے ليے عبودیت کا تها نيز حضرت آدم - کی تعظيم و تکریم کے ليے تها۔ اس ليے کہ ہم لوگ ان کے صلب ميں تهے پهر کيسے ہم لوگ ملائکہ سے افضل نہ ہوں گے جب کہ تمام ملائکہ نے حضرت آدم - کو سجدہ کيا۔ اور جب مجهے آسمانوں کی طرف لے جایا گيا تو جبرئيل نے وہاں اذان کہی ہر فقرے کو دو دو مرتبہ کرکے اور اقامت کہی ہر فقرے کو دو دو مرتبہ کر کے مجه سے کہا: اے محمد! آگے بڑهيے ميں نے کہا: اے جبرئيل! ميں تمہارے ہوتے ہوئے آگے بڑهوں؟ انہوں نے کہا: ہاں اس ليے کہ الله تبارک و تعالیٰ نے اپنے انبياء کو اپنے تمام ملائکہ پر فضيلت دی ہے اور آپ کا فضل و شرف تو خاص ہے۔ چنانچہ ميں آگے بڑها اور ان سب کو نماز پڑهائی مگر ميں اس پر فخر نہيں کرتا پهر جب ميں نور کے حجابوں تک پہنچا تو جبرئيل نے کہا: اے محمد (ص)! اب آپ آگے بڑهيں اور انہوں نے ميرا ساته چهوڑا تو ميں نے کہا: اے جبرئيل ! تم نے ایسے مقام پر ميرا ساته چهوڑ دیا؟ تو انہوں نے کہا: اے محمد (ص)! الله تعالیٰ نے جو حد ميرے ليے مقرر کی یہاں پر ختم ہوتی ہے اگر ميں نے اس حد سے تجاوز کيا تو حدود الٰہی سے تجاوز کرنے پر ميرے بال و پر جل جائيں گے۔ پهر انہوں نے مجهے اس نور ميں غوطہ دے دیا اور اب ميں وہاں پہنچ گيا جہاں الله اپنے ملک کی بلندی پرمجهے پہچانا چاہتا تها۔ پهر مجهے ندا دی گئی تو ميں نے عرض کيا: لبيک و سعدیک اے خدائے تبارک و تعالیٰ! پهر ندا آئی: اے محمد! تو ميرا بندہ ہے ميں تيرا رب ہوں لہٰذا تم ميری ہی عبادت کرنا اور مجه ہی پر توکل کرنا اور تم ہی تو ميرے بندوں ميں ميرے نور اور ميری مخلوقات کی طرف ميرے رسول اور ميری تمام مخلوق پر ميری حجّت ہو۔ تمہارے ليے اور تمہاری پيروی کرنے والوں کے ليے ميں نے جنت خلق کی ہے اور جو تمہاری مخالفت کرے گا اس کے ليے ميں نے جہنم خلق کی ہے۔ تمہارے اوصياء کے ليے ميں نے اپنے کرم کو لازم کردیا ہے اور ان کے شيعوں کے ليے ميں نے اپنی طرف سے ثواب دینا واجب کرليا ہے۔ ميں نے عرض کيا : پروردگارا ! ميرے اوصيا کون ہيں؟ تو آواز آئی: اے محمد ! تمہارے ا وصيا کے نام تو ستون پر لکهے ہوئے ہيں اور اگرچہ ميں اپنے رب کے سامنے تها مگر ميں نے وہيں سے نظر کی تو ساق عرش پر بارہ نور ہيں اور ہر نور ایک سبز رنگ کی سطر ميں ہے اور ہر سطر ميں اوصياء ميں سے ہر وصی کا نام مرقوم ہے جن کے اندر پہلے علی ابن ابی طالب - تهے اور آخر ميں ميری امت کے مہدی - ہيں۔ ميں نے عرض کيا: پروردگار! ميرے بعد یہ سب اوصياء ہوں گے؟ تو آواز آئی: اے محمد! ہاں اے محمد! تمہارے بعد یہی ميرے اوليا ميرے احبا ميرے اصفيا اور ميری حجّتيں ہيں ميری مخلوق پر اور یہی تمہارے بعد تمہارے اوصيا اور تمہارے خلفا ہيں جو مخلوق ميں تمہارے بعد سب سے بہتر ہيں۔ مجهے اپنے عزت و جلال کی قسم! ميں ان ہی لوگوں کے ذریعے اپنے دین کو غالب کروں گا۔ ان ہی کے ذریعے اپنے کلمہٴ لا الہ الا الله کو بلند کروں گا ان کے آخری فرد کے ذریعے زمين کو اپنے دشمنوں سے پاک کروں گا اسے زمين کے تمام مشرق و مغرب پر تمکن اور قابو دوں گا۔ اس کے ليے ہوا کو مسخر کروں گا بڑے بڑے بادلوں کو اس کا مطيع بناؤں گا۔ اس کے اسباب ميں اضافہ کروں گا، اپنی فوج سے اس کی مدد کروں گا۔ اپنے ملائکہ سے اس کی نصرت کروں گا یہاں تک ہماری دعوت بلند ہوجائے اور ساری مخلوقات ہماری توحيد پر جمع ہوجائے پهر ميں اس کے ملک و سلطنت کو دوام بخشوں گا اور روز قيامت تک اس سلطنت کو دوام بخشوں گا اور روز قيامت تک اس سلطنت کا سلسلہ اپنے اولياء ميں چلاؤں گا۔ اور تمام تعریفيں عالمين کے پروردگار کے ليے ہيں اور ہمارے نبی محمد (ص) اور ان کی پاک و پاکيزہ آل پر درود و سلام ہو۔ آمين۔
٢۔ یاور / ٣٢ ٣٢ ۔ وَ عُذرْاً لِمَنَ انتَحَلہُ (نسبت حاصل کرنے والوں کے ليے حجّت ہے( شاید اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن مجيد ایسا عذر ہے جو روز قيامت کے عذاب سے ان لوگوں کو نجات دلانے والا ہے کہ جنہوں نے اسے اپنا پيشوا قرار دیا اور اس کے احکام و قوانين کا پابند ہوا نيز اپنے اقدار کا معيار بنایا۔ یہ بهی کہا گيا ہے کہ اس کے عذر ہونے سے مراد یہ ہو کہ جو شخص بهی خود کو اس سے منسوب کرے یعنی خود کو اہل قرآن جانے اور اس پر فخر کرے قرآن بهی خود کو اس کے ليے عذر قرار دیتا ہے اس ليے کہ قرآن کی خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک عالی شان و شوکت ہے۔ جس طرح قرآن مجيد ان لوگوں کے ليے جو خود کو اس سے منسوب جانتے ہيں اور اس کے احکام و قوانين کو اپنا دستور العمل قرار دیتے ہيں نجات دینے والا اور عذر ہے، اسی طرح حضرات ائمہٴ اطہار اور خاندان عصمت و طہارت کا مقدس وجود بهی ہے۔ ان لوگوں کے ليے خوش خبری ہے جنہوں نے اپنے صحيح اعتقاد اور کامل ایمان کو ان کی ولایت عظمیٰ کے ماتحت قرار دیا ہے ان عظيم ہستيوں سے منسوب شيعوں اور محبوں کے بارے ميں اعتقاد رکهتے ہوں اور عملی طور پر اس پر ناز اور فخر محسوس کرتے ہوں، وہ لوگ جو ان سے توسل اختيار کرکے ان کی عنایتوں اور مہربانيوں سے اپنی تمام دنيا کی مادی و معنوی مشکلات سے نجات پاکر عزت و سربلندی تک پہنچے ہوں اور آخرت ميں ان کی شفاعت سے سرفراز ہوکر رو سفيد ہوں۔ بہت سے انبياء وغيرہ نے مختلف امتحانات اور مشکلات کے پيش نظر جو محمد و آل محمد سے متوسل ہوئے ہيں نجات حاصل کی ہے۔ ان ميں سے ہم چند مقامات کو بہ عنوان شاہد تبرک کے طور پر ذکر کر رہے ہيں جيسے حضرت آدم - کا کلمات کے ذریعہ امتحان ليا گيا حضرت ابراہيم - نمرودیوں کی آگ ميں ڈالے گئے۔ اور اس سے نجات حاصل کی،حضرت یعقوب - اپنے فرزند ارجمند حضرت یوسف - کے فراق ميں مبتلا ہوئے جب وہ متوسل ہوئے تو جبرئيل آئے اور عرض کيا: کيا ميں آپ کو ایسی دعا نہ بتاؤں کہ الله تعالیٰ آپ کی آنکهوں کو شفا عنایت کرے اور یوسف و بنيامن کو آپ کی طرف واپس بهيج دے؟ فرمایا: ہاں، عرض کيا: وہ دعا پڑهيں جو آپ کے پدر بزرگوار حضرت آدم - نے پڑهی اور ان کی توبہ قبول ہوئی اور حضرت نوح - نے پڑهی تو غرق ہونے سے نجات پائی، ابراہيم - نے پڑهی تو آگ ان کے ليے سلامتی کے ساته سرد ہوئی حضرت نے دریافت فرمایا: وہ کون سی دعا ہے ؟ عرض کيا: یہ دعا پڑهو: ”اللّهُمَ اِنّی اسئَلُکَ بِحَقّ محمَّدٍ وَعَلیٍ وَفاطِمَةَ والحَسَنِ والحُسينِ عليہم السلام اَن ترُدَّ عَلیَّ ابنایَ ( یوسُف وابن یامين ) وَ تَشفِیَ عَينَْی“َّ اے خدا ! ميں تجه سے محمد، علی، فاطمہ، حسن، حسين کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ مجه تک ميرے دونوں بيڻے (یوسف اور ابن یامين) کو واپس دے اور ميری آنکهوں کو شفا عنایت فرما۔ حضرت نے یہ دعا پڑهی اور ان اسماءِ مقدسہ کی برکت سے انہيں آسائش ملی نيز ان کی آنکهوں کو بهی شفا مل گئی حضرت یوسف - نے بهی خدا سے سوال کيا، محمد و آل محمد کے حق کا واسطہ دے کر توسل اختيار کيا اور زندان سے آزاد ہوگئے۔ حضرت موسیٰ - نے جب عصا کو ڈالا اور امت کے ليے اشتباہ ميں پڑنے سے خوف زدہ ہوئے تو کہا: اے خدا ! تجه سے محمد و آل محمد کے حق کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کہ مجهے اپنے امن و امان ميں رکه تو خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا: < لاٰ تَخَف اِنَّکَ اٴَنتَْ الاٴَعلْ یٰ> )١) اور جب عصا کو دریا پر مارا تو الله تعالیٰ کو انہيں کے حق کا واسطہ دے کر پکارا، تو خدا نے دریا کو پهاڑا اور اسے بنی اسرائيل کو عبور کرنے کے ليے خشک کردیا (یہاں تک کہ فرماتا ہے:) جب موسیٰ بنی اسرائيل کے ساته دریاپر پہنچے اور فرعون اور اس کے تابعين کے غرق آب ہونے کا وقت ہوا تو خدائے عزوجل نے موسیٰ کو وحی کی کہ بنی اسرائيل سے کہو ميری وحدانيت اور ميرے رسول کی رسالت ميرے آقا و مولا حضرت امير المومنين - اور اولاد علی عليہ السلام کے اعتقاد کا دوبارہ اقرار کریں۔ اور کہيں: اے خدا! ان کی عظمت و جلالت کا واسطہ ہميں پانی پر سے گزار دے تاکہ دریا کا پانی زمين کی طرح ہوجائے پهر حضرت موسیٰ - نے ان لوگوں سے فرمایا ان لوگوں نے قبول نہيں کيا۔ ليکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ طہ، آیت ۶٨ ۔ (
کالب ابن یوحنا نے قبول کرکے ان کے دستور کے مطابق عمل کيا اور اپنے گهوڑے کے ساته دریا کے اوپر گيا اور آبِ دریا زمين کی طرح ہوگيا، دریا کی دوسری جگہ جاکر واپس آکر کہا: اے قوم بنی اسرائيل! موسیٰ - کی اطاعت کرو کہ یہ دعا جنت کے دروازوں کی کنجی اور جہنم کے دروازوں کے بند ہونے کے منجملہ اسباب ميں سے ہے اور روزی نازل کرنے والی نيز الله تعالیٰ کے بندوں کے ليے حق تعالیٰ کی رضایت حاصل کرنے والی ہے، ليکن ان لوگوں نے قبول نہيں کيا اور کہا: ہم زمين کے علاوہ جاہی نہيں سکتے تو الله نے موسیٰ - کے ليے وحی نازل کی کہ اپنے عصا کو دریا پر مارو اور کہو: اے خدا! محمد و آل محمد کی عظمت و جلالت کا واسطہ ہمارے ليے دریا کو پهاڑ دے تو انہوں نے وحی کے مطابق عمل کيا اور آب دریا پهٹ گيا۔ حضرت موسیٰ - نے فرمایا: اب چلو کہنے لگے: زمين نم ہے ہميں اس ميں اندر چلے جانے کا خوف ہے تو خدا نے فرمایا: کہو: اے موسیٰ! اے خدا! تجهے محمد و آل محمد کے جاہ و جلال کا واسطہ کہ زمين کو بهی خشک کردے، پهر یہ کہا! اور وہ خشک ہوگئی فرمایا: اب چلو عرض کيا: ہم بارہ قبيلے ہيں آگے پيچهے چلنے ميں ہميں فتنہ و فساد کا خطرہ ہے تو الله تعالیٰ نے موسیٰ کو حکم دیا: اپنے عصا کو بارہ مرتبہ دریا کے بارہ مقامات پر ماریں اور کہيں: اے خدا! تجهے محمد و آل محمد کی عظمت و جلالت کا واسطہ بارہ جگہ بنادے، کہا اور ویسا ہوگيا۔ پهر کہا: راستہ ایسا ہو کہ عبور کے وقت ہم ایک دوسرے کو دیکه سکيں اور ایک دوسرے کی حالت سے باخبر رہيں، تو الله تعالیٰ نے موسیٰ - کو وحی بهيجی کہ عصا کو تمام پانی کے اطراف ميں مارو اور کہو: اے خدا! محمد و آل محمد کے جاہ و جلال کا واسطہ کہ اس پانی کے درميان طاق بنادے تاکہ ایک دوسرے کو دیکه سکيں، چنانچہ موسیٰ - نے کہا اور ہوگيا ۔ لوگوں نے عبور کيا، پهر فرعون والے افراد وارد ہوئے اور سب غرق ہوگئے۔ اور جب صحرائے تيہ ميں بنی اسرائيل پياسے ہوئے گریہ و نالہ کيا تو حضرت موسیٰ نے عرض کيا: اے خدا! بحق محمد سيد الانبياء، بحق علی سيد الاوصياء، بحق فاطمہ سيدة النساء، بحق حسن سيد الاولياء، بحق حسين افضل الشہداء بحق عترت اور ان کے خلفاء کا واسطہ جو دنيا ميں پاکيزہ اور نيک لوگوں کے آقا و مولا ہيں، اپنے بندوں کو سيراب کردیں تو الله تعالیٰ نے وحی بهيجی اے موسیٰ ! اپنے عصا کو پتهر پر مارو تو مارا اور بارہ چشمے جاری ہوئے لوگوں نے پانی پيا اور سيراب ہوئے۔ مولف کہتے ہيں: بنی اسرائيل کے ساته حضرت موسیٰ - کا واقعہ تفصيل کے ساته قرآن مجيد کے سورئہ بقرہ یا اور بهی دوسرے دوسروں ميں اسی طرح کتاب بحار الانوار ، وسائل الشيعہ اور مستدرک وسائل الشيعہ ميں ذکر ہوا ہے، قارئين کرام مذکورہ مآخذکی طرف رجوع کریں۔ ١٧١ ۔ “وَفی الخصال وَالاٴمالی بِاسنادِهِما عَن جابِرٍ عَن اَبی جَعفَرٍ الباقِرِ عليہ السلام قالَ: انَّ عَبد اً مَکَثَ فی النَّارِ سبَعين خَریفاً وَالخریف سَبعُونَ سَنَةً ، قالَ ثُمَّ اِنَّہ سَاٴلَ اللہّٰ عزّوجلّ بحَقِّ محمَّد وَاَهل بَيتہ لمّا رحمتنی ، قالَ فَاٴَوحَی اللّٰہ جَلَّ جَلالُہُ الی جَبرَئيل عليہ السلام اَن اِهبط اِلیٰ عَبدی فاخرجہُ قال یا رَبِّ وَکيف لی بالهبوط فی النّارِ ، قالَ اِنّی قد اَمَرتُها انْ تکونَ عَلَيکَ بَرداً وَسَلاماً ، قالَ یا رَبِّ فَما عِلمی بموضِعِہِ ؟ قالَ اِنَّہ فی جُبٍّ مِن سجّينَ قالَ فَهَبِطَ فی النّار فَوَجَدَہُ فهُو مَعقُولٌ عَل یٰ وَجهِہِ فَاَخرَجہ ، فقال عزّوجلّ : یا عَبدی کمْ لَبِثتَ تُناشِدُنی فی النّارِ ؟ قالَ ما اُحصی ( احصيتُہُ ) یا رَبِّ ، قالَ: اَما وَعِزَّتی لولا ما سَاٴلتنَی بِہِ اَطَلتُ هُو انَکَ فی النّار وَلٰکنَّہ حتمٌ عَلی نَفسی اٴنْ لا یَساٴلَنی عَبدٌ بِحَقِّ محمَّدٍ وَاَهل بَيتہ ، صَلَوات اللّٰہ عليہم اجمعَينَ ، اِلاَّ غَفَرتُ ) لَہُ ما کانَ بَينی وَبَينَہ وَقَد غَفَرتُ لَکَ اليومَ ” ( ١ محدث جليل القدر غواص بحار اہل بيت عصمت و طہارت علامہ مجلسی رحمة الله عليہ نے ہمارے شيخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بزرگوار علامہ صدوق عليہ الرحمہ کی کتاب خصال اور امالی سے اپنی سند کے ساته جابر سے انہوں نے امام محمد باقر - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: بے شک (بندگان خدا ميں سے) ایک بندہ ستر خریف جہنم ميں رکها جائے گا اور ایک خریف (کی مدت) ستّر سال کی ہے پهر وہ خداوند عالم سے محمد و آل محمد کے واسطے سے سوال کرے گا کہ اپنی رحمت اس کے شامل حال کرے، تو خدائے بزرگ و برتر جبرئيل کو وحی فرمائے گا کہ ميرے بندے کے پاس جاؤ اور اسے آگ سے باہر نکال دو تو جبرئيل کہيں گے کہ اے ميرے پروردگار! ميں کيسے آگ ميں جاؤں، خطاب ہوگا اس نے آگ کو حکم دیا ہے کہ تمہارے ليے سرد اور سلامتی کا باعث بن جائے پهر جبرئيل عرض کریں گے: اے خدا! مجهے اس کی جگہ کا علم نہيں ہے تو الله تعالیٰ فرمائے گا: وہ سجّين کے ایک کنویں ميں ہے امام محمد باقر - فرماتے ہيں: پهر جبرئيل امين اس حالت ميں آئيں گے کہ اپنے دونوں پر سميڻے ہوں گے اور اس بندہ کو اس سے باہر نکاليں گے ، پهر خدائے بزرگ و برتر فرمائے گا: ميرا بندہ کتنے دن آتش دوزخ ميں جلتا رہا ؟ ميری پناہ حاصل کرنا چاہ رہا ہے اور مجهے قسم دے رہا ہے ؟ وہ عرض کرے گا: اے ميرے پروردگار ميں نے شمار نہيں کيا ہے تو الله فرمائے گا: ميری عزت کی قسم! اگر تونے ان (ہستيوں کے ذریعہ سوال نہ کيا ہوتا تو ميں آتش جہنم ميں تيرے قيام کو اور طولانی کردیتا ليکن ميں نے اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے کہ کوئی بندہ محمد و اہل بيت محمد کے واسطے سے سوال نہيں کرے گا مگر یہ کہ ميں وہ تمام گناہ جو ميرے اور اس کے درميان حائل و مانع ہيں بخش دوں گا۔ اور یقينا (ان ہستيوں کی برکت سے) آج ميں نے تجهے بخش دیا۔ پيغمبر اکرم (ص) کے اجداد ميں سے ایک عبد المطلب تهے کہ جن کا نام شبية الحمد تها ان کے چچا مطلب شيبہ کو مکہ معظمہ ميں لے کر آئے اور یہ اظہار نہيں کيا کہ یہ شيبہ ميرے بهائی کے لڑکے ہيں اور کہا: یہ ميرا بندہ ہے لہٰذا عبد المطلب کے نام سے مشہور ہوئے، جب حرم ميں داخل ہوئے تو شيبہ یا عبد المطلب کی دونوں آنکهوں کے درميان ایک نور ظاہر تها قریش اس سے متبرک ہوتے تهے جس زمانہ ميں بهی ان پر مصيبت آتی تهی یا کوئی بلا نازل ہوتی تهی یا کوئی قحط ان پر آ پڑتا تها تو پيغمبر اکرم (ص) کے مقدس نور سے توسل اختيار کرتے تهے اور خداوند متعال ان سے اس بلا و مصيبت کو برطرف کردیتا تها۔ ان کے ليے سب سے اہم واقعہ جو رونما ہوا وہ اصحاب فيل کا واقعہ تها کہ عبد المطلب ایک جماعت کے ساته دعا کرتے تهے اور کہتے تهے: اے خدا! اس نور کی برکت سے ہميں معاف کردے ہميں اس ہمّ و غم سے نجات بخش دے اور ہمارے دشمن کو دور کردے، لہٰذا اس مقدس نور کی برکت سے تمام اصحاب فيل ہلاک ہوئے ابا بيليں ان کے سروں پر کنکریاں مار رہی تهيں جو ان کے سر کے مغز سے داخل ہوتی تهيں اور ان کے نيچے سے نکل جاتی تهيں یہ واقعہ بحار ميں مفصل طور پر بيان ہوا ہے قرآن مجيد ميں ایک خاص سورہ (فيل) اس موضوع کے بارے ميں نازل ہوا ہے۔ کفار مکہ نے پيغمبر اکرم (ص) سے عرض کياکہ: ہبل نامی بت ہميں شفا دیتا ہے اور ہمارے امراض، درد و آلام اور ہماری بدبختياں ہم سے برطرف کرتا ہے، پيغمبر اسلام نے فرمایا: تم جهوٹ کہتے ہو خدا شفا دیتا ہے، عرض کيا: اگر اس پروردگار کے علاوہ کوئی دوسرا پروردگار تمہارے پاس موجود ہو تو اس سے سوال کرو کہ مجهے اس درد و آلام ميں مبتلا کرے بعد ميں ہم ہبل سے سوال کریں گے وہ ہميں شفا دے۔ لہٰذا جبرئيل نازل ہوئے،عرض کيا: تم ميں سے کچه لوگ ان پر لعنت وملامت کریں اور علی - دوسرے لوگوں پر، پهر خدا (ص) نے ان ميں سے بيس افراد پر لعنت و ملامت کی اور حضرت امير المومنين - نے ان کے دس لوگوں پر لعنت و ملامت کی اپنے مقام سے ابهی حرکت نہيں کی تهی یہاں تک کہ برص و فالج، جذام ، لقوہ اور نابينائی ميں مبتلا ہوئے پهر ان لوگوں کوہبل کے پاس لائے اور دعا کی کہ ہبل ان لوگوں کو شفا دے، نا گہاں ہبل نے انہيں بلند آواز سے ندا دی اے دشمنان خدا! ميرے ليے کون سی طاقت ہوسکتی ہے، اس خدا کی قسم! کہ جس نے محمد کو حق کے ساته بهيجا اور انہيں افضل الانبياء و المرسلين قرار دیا، اگر پيغمبر اکرم (ص) مجه پر نفرین و ملامت کریں تو یقينی طور پر ميرے اجزائے بدن پراکندہ اور جدا ہوجائيں گے اور ميرے وجود کا کوئی اثر باقی نہيں رہے گا، جب یہ سنا تو پيغمبر (ص) کی طرف رخ کرکے نالہ و فریاد بلند کی تو پيغمبر رحمت (ص) نے فرمایا: ان ميں سے بيس افراد ميرے پاس آئيں اور ان ميں سے دس لوگوں کو حضرت علی - کے پاس لے جاؤ، ان لوگوں کو رسول خدا (ص) کے پاس لے کر آئے تو آنحضرت نے ان بيس افراد سے فرمایا کہ: اپنی آنکهوں کو ایک دوسرے پر رکه کر کہو: اے خدا ! اس کی عظمت و جلالت کا واسطہ کہ جس کی وجہ سے ہميں اس ميں مبتلا کيا ہميں صحت و عافيت عطا فرما؛ بحق محمد و علی و آل علی ، اس طرح حضرت امير المومنين - نے ان دس لوگوں سے فرمایا تو (سب نے کہا) اور فوراً شفا یاب ہوئے اور وہ تيس لوگ اپنے اہل خانہ کے ساته ایمان لائے۔ بحار الانوار ميں عمار ابن یاسر کا یہود کے ساته مکالمے اور ان کے احتجاج کو آیہٴ کریمہ ْ ( ١) (بہت سے اہل کتاب یہ چاہتے ہيں کہ تمہيں بهی ایمان کے بعد کافر بنادیں وہ تم سے حسد رکهتے ہيں)۔ کے ذیل ميں مفصل طور پر نقل کيا گيا ہے اس ميں سے بعض ہم خلاصةً نقل کر رہے ہيں: جب مسلمان لوگ جنگ احد ميں بہت زیادہ مصيبتوں ميں مبتلا ہوئے تو چند دن بعد قوم یہود کے کچه لوگ عمار ابن یاسر اور حذیفہ ابن یمان کے پاس آئے اور کہا: کيا تم لوگوں نے نہيں دیکها کہ احد کے دن کيسی مصيبت تم پر آئی ان کے دین سے پلٹ جاؤ، حذیفہ نے یہ سنتے ہی ان پر لعنت کی اور کہا: اب نہ ہم تمہارے ساته بيڻهيں گے اور نہ ہی تمہاری باتيں سنيں گے،ہم اپنے دین اور جان کی حفاظت کے ليے تم سے فرار کریں گے۔ ليکن عمار ابن یاسر نے تمام استقامت کے ساته ان کے ساته مکالمہ کيا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٩١ ، ص ١۶ ۔ (
اور کہا: “یا معَاشِر اليَهُودِ اِنَّ محمّداً (ص) وَعَدَ اصحابَہُ الظَّفر یَومَ بَدرٍ ان یَصبِرُوا فَصَبَرُوا وَظَفَروا وَوَعَدَهُم الظَفَرَ یَومَ احدٍ ایضاً اِن صَبَروا فَفَشَلُوا وَخالفَوا فِل لٰ ذِکَ اصابَهُم ما اَصابَهُم وَلَو اَنَّهُم اطاعُوا فَصَبَرُوا وَلَم یخالِفو غلبو اے گروہ یہود! یقينا محمد نے اپنے اصحاب کو بدر کے دن فتح و ظفر کا وعدہ کيا تها کہ اگر وہ صبر کریں گے تو کامياب ہوں گے چنانچہ انہوں نے صبر کيا تو فلاح و نجات پاگئے اور انہيں احد کے دن بهی فتح و ظفر کا وعدہ کيا تها کہ اگر وہ صبر کریں گے تو کامياب ہوں گے مگر انہوں نے صبر نہيں کيا تو شکست کها گئے اور ان کی بات تسليم نہيں کی لہٰذا ان پر وہ مصيبتيں آئيں جو آچکی ہيں اگر وہ ان کی اطاعت کرتے اور صبر کرتے اور مخالفت نہ کرتے تو غالب اور کامياب ہوتے، یہاں تک نقل کرتے ہيں کہ یہود رسول خدا کے پاس آئے اور عرض کيا: اے محمد! عمار کا دعویٰ ہے کہ اگر انہيں حکم دیں کہ وہ آسمان کو زمين پر لے آئيں اور زمين کو آسمان پر لے جائيں تو وہ ایسا کر دکهائيں گے سچ ہے تو ان سے کہيں کہ اس پتهر کو جو یہاں پڑا ہوا ہے جسے دو سو افراد بهی حرکت نہيں دے سکتے عمار اسے ہلا دیں۔ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے عمار! ميری اطاعت کا اعتقاد رکهو اور کہو: “ اللهُّٰمَّ بِجاہِ محمَّدٍ وَآلہِ الطَّيبينَ قوّنی ليُسهِّلَ اللہّٰ عَلَيکَ ما اَمَرَکَ بہ کَما سَهّلَ عَلی کالِبِ بن یُوحَنّا عُبُورَ البَحر عَل یٰ متنِ المآء” یعنی اے خدا! محمد و آل محمد (ص) کی عظمت و جلالت کا واسطہ مجهے طاقت عطا کر کہ اس پتهر کا اڻهانا الله ميرے ليے آسان کردے جس طرح کالب بن یوحنا کے ليے دریا کے پانی سے عبور کرنا آسان کيا تها ہمارے اس توسل کے ذریعہ اس نے پتهر کو اپنے سر پر بلند کرکے عرض کيا: اے رسول خدا (ص)! ميرے ماں باپ آپ پر قربان! یہ ميرے ليے اس خلال سے زیادہ ہلکا ہے جو ميں اپنے ہاته ميں اڻهائے رہوں۔ الخ بہت سے مقامات پر خود حضرت ولی عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے مقدس نفس سے توسل اختيار کيا ان کو بارگاہ خداوندی ميں شفيع قرار دیا اور اپنی تمام حاجتوں کو حضرت کے ذریعہ حاصل کيا، انشاء الله مناسب موقع پر اس کے متعلق چند مقام کی طرف ہم اشارہ کریں گے۔
۱۱
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
٢۔ برہان / ٣٣ ٣٣ ۔ وَبُرهْاناً لِمَن تَکَلَّمَ بِہِ (بولنے والوں کے ليے برہان ہے( عزیز ترین کتاب الٰہی ان لوگوں کے ليے جو اس سے احتجاج و استدلال پيش کریں بالخصوص خلافت اور ائمہٴ ہدی کی ولایت عظمیٰ کے باب ميں۔ الله تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ( ١ و قال عزّ من قائل: ( ٢ پہلی آیت کا ترجمہ: پيغمبر اکرم (ص) سے خطاب ہے کہ آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت (ایسی دليل و برہان کے ساته جو حق کو ثابت کرے) اور اچهی نصيحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے کہ آپ کا پروردگار بہتر جانتا ہے کون اس کے راستے سے (جو اسلام ہے) بہک گيا اور کون لوگ راہ ہدایت پانے والے ہيں۔ دوسری آیت کا ترجمہ: اور اہل کتاب سے مناظرہ نہ کرو مگر اس انداز سے جو بہترین انداز ہے علاوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے جو ان ميں سے ظالم ہيں اور یہ کہو کہ ہم اس پر ایمان لائے ہيں جو ہماری اور تمہاری دونوں کی طرف نازل ہوا ہے اور ہمارا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم سب اسی کے اطاعت گزار ہيں۔ مفسر عظيم فيض کاشانی عليہ الرحمہ نے اپنی تفسير (صافی) ميں آیہٴ کریمہ (لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دو) سے تين قسم کا استفادہ کيا اور ہر ایک کو ایک مخصوص گروہ کے ليے بيان فرمایا ہے: ١۔ : ایسی باتوں اور منشوروں اور محکم و صحيح باتوں کے ذریعہ خدا کی طرف دعوت دو جو حق کو واضح اور روشن کرنے والی ہوں اور شبہات کو ختم کرنے والی ہوں، اس قسم کی دعوت لوگوں ميں سے خاص لوگوں سے مخصوص ہے اور وہ علماء اور دانشور افراد ہيں۔ ٢۔ ایسے خطابات کے ذریعہ خدا کی طرف دعوت دو جو قانع کرنے والے اور نفع بخش عبارتيں ہوں جو تمام لوگوں کے ليے مشکل نامانوس اور غير قابل فہم نہ ہو، اس صورت ميں نصيحت کو لوگ قبول کریں گے اور معنویت سے پُر ہوں گے۔ یہ بهی عوام الناس سے مخصوص ہے۔ ٣۔ مناظرہ اور جدال احسن کے ذریعہ یہ بهی ان لوگوں کے ليے ہے جو انکار کرنے والے اور دشمن ہيں، دوسری واضح تعبيریں یہ تينوں مذکورہ طریقے حق کو قبول کرنے کے ليے لوگوں کی صلاحيتوں اور فہم و ادراک پر مترتب ہيں: خواص، عوام اور صاحبان عناد اور ہٹ دهرمی کرنے والے افراد۔ ليکن خواص: وہ لوگ صاحبان نفوس نورانی اور عقلی حقائق کو درک کرنے کے ليے اور قوی صلاحيتوں کے حامل ہيں نيز عالی اصولوں تک پہنچنے اور علم و یقين کے انس و محبت رکهنے ميں دوسروں سے زیادہ ہيں انہيں حکمت یعنی دليل و برہان کے ساته دعوت دینی چاہيے۔ ليکن عوام الناس: ان لوگوں کے نفوس کثيف اور وہمی صلاحيتوں کے مالک ہيں اور ان کی انسيت و محبت زیادہ تر محسوسات سے ہے اور ان کے تعلقات اور رسوم و آداب کی قدرت دليل و برہان قبول کرنے سے قاصر ہے اس کے باوجود وہ حق کے منکر بهی نہيں ہيں یہ ایسے لوگ ہيں کہ انہيں موعظہٴ حسنہ کے ساته دعوت دینی چاہيے۔ ليکن تيسرا گروہ: یہ صاحبان عناد اور ہٹ دهرمی کرنے والوں کا ہے جو ہميشہ باطل سے بحث و گفتگو کرتے ہيں تاکہ حق کو ختم کردیں اور ان کی سعی و کوشش یہ ہوتی ہے کہ خدا کے نور کو اپنی زبانوں اور نيتوں سے خاموش کردیں کہ ان کے نفوس ميں باطل آراء نے غلبہ پيدا کرليا ہے اور ان کے خرافاتی مفاہيم ميں گزشتہ لوگوں کی تقليد رسوخ کرچکی ہے، لہٰذا انہيں موعظہ و نصيحت فائدہ نہيں بخشتی اور ادّلہ و براہين کی رہنمائياں ان پر اثر انداز نہيں ہوتيں یہ ایسے گروہ والے ہيں کہ جن کے ساته جدال احسن کا حکم دیا گيا ہے۔ مولف کہتے ہيں: باوجودیکہ یہ مطلب دقت سے خالی نہيں ہے ليکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کليت نہيں رکهتا کہ صرف ان تينوں گروہوں کو ان کے فہم و ادراک کی حالت کی مناسبت سے انہيں دعوت دینی چاہيے، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خواص بهی موعظہ اور مجادلہ کی راہ سے فائدہ اڻهاتے ہيں اور کبهی عوام الناس جو اکثر و بيشتر عادات و رسوم سے مانوس ہوتے ہيں وہ جدال احسن سے بہرہ مند ہوتے ہيں۔ ١٧٢ ۔ “وَفی الدر المنثور : اخرج اِبنُ مرَدَویہ عَن اَبی لَيلی الاَشعری اَنَّ رَسُولَ اللّٰہ (ص) قالَ تمسّکوا بِطاعَةِ ائمَّتِکم وَلا تُخالِفُوهُم فاِنَّ طاعَتهم طاعَة اللہِّٰ وَمَعصيَتُهُم مَعصية اللہِّٰ فَاِنَّ اللہّٰ اِنَّما بعَثَنی ادعوا الی سَبيلہ بِالحِکمِة وَالموَعظة الحَسَنَةِ ، فَمَن خالَفَنی فی لٰذِک فَهوَ مِنَ الهالِکينَ وَقَد بَرئت منہ ذِمَّةُ اللہّٰ وَ ذِمَّةُ رَسُولِہِ وَمَن وَلّی مِن اٴمرِکُم شَيئاً فَعمِلَ بغير لٰذک فَعليہِْ ) لَعنة اللہِّٰ وَالملائِکةِ وَالنَّاسِ اجمَعينَ ” ( ١ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الدر المنثور، ج ۴، ص ١٣۵ ۔ (
علامہ سيوطی نے اپنی تفسير ميں نقل کيا ہے کہ ابن مردویہ نے ابو ليلی اشعری سے روایت کی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: اپنے ائمہ اور پيشواؤں کی اطاعت سے تمسک اختيار کرو اور ان کی خلاف ورزی نہ کرو کيونکہ ان کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے ان کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے، یقينا الله تعالیٰ نے مجه کو مبعوث کيا تاکہ الله تعالیٰ کے بندوں کو اس کے راستے کی طرف حکمت اور موعظہٴ حسنہ کے ساته دعوت دوں لہٰذا جو شخص بهی ميری اس امر ميں مخالفت کرے تو وہ ہلاک ہونے والوں ميں سے ہے یقينا خدا اور اس کا رسول ایسے شخص سے بری الذمہ ہے اور جو شخص بهی تمہارے امور ميں سے کسی چيز کو انجام دے تو وہ اس کے علاوہ عمل کرے ایسی صورت ميں خدا، ملائکہ اور تمام لوگوں کی اس پر لعنت ہو۔ ١٧٣ ۔ “وفی تفسير القمی : فی قولہ تعالیٰ ( ١) قالَ : قالَ ) عليہ السلام بِالقرآنِ ” ( ٢ تفسير قمی ميں حضرت نے فرمایا: مخالفين سے مجادلہ سے مراد یہ ہے کہ اچهے مطالب کے ساته جدال ہو یعنی وہی قرآن کے ذریعے سے گفتگو کرنا ہے۔ ١٧۴ ۔ “ فی الکافی عنہ باسنادہ عن ابی عمرو الزبيری عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فی ( قولہ تعالیٰ : ( ٣ ) قال بِالقرآنِ ” ( ۴ کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته امام جعفر صادق - سے نقل کيا ہے کہ حضرت - ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نے فرمایا: اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچهی نصيحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقے سے بحث کریں جو بہترین طریقہ وہ قرآن کریم ہے۔ کيونکہ قرآن مجيد کی سنت اور روش خدائے سبحان کا ادب ہے۔ ١٧۵ ۔ “وفی الاحتجاج للطبرسی : قال ابو محمّد الحسن علی بن العکسری عليہما السلام ذکر عند الصّادق عليہ السلام الجدال فی الدّین وانّ رسول اللّٰہ (ص) والائمة عليہم السلام قد نهوا عنہ فقال الصّادق عليہ السلام لم ینہَ عنہ مطلقاً ولکنّہ نهی عن الجدال بغير التّی هی احسن اما تسمعون قول اللّٰہ تعالیٰ ( ١)وقولہ تعالیٰ فلجدال بالتّی هی احسن قد قرنہ العلماء بالدین ( قد امربہ العلماء بالدّین ) والجدال بغير الّتی هی احسن محرّم حرّمہ اللّٰہ علی شيعتنا وکيف یحرّم اللّٰہ الجدال جملة وهو یقول:( ٢) فجعل علم الصّدق والایمان بالبرهان وهل یوٴتی بالبرهان الا بالجدال بالتّی هی احسن الیٰ قولہ عليہ السلام واٴمّا الجدال با لتی هی احسن وهو ما امر اللّٰہ بہ نبيّہ ان یجادل بہ من جحد البعث بعد الموت واحياوٴہ لہ فقال اللّٰہ لہ حاکياً عنہ < وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَنَسِیَ خَلقَْہُ قَالَ مَن یُحیِْ العِْظَامَ وَہِیَ رَمِيمٌ >وقال اللّٰہ فی الردّ عليہ < قُلْ(یا محمّد ) یُحيِْيہَا الَّذِی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٴَنشَاٴَہَا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلقٍْ عَلِيمٌ الَّذِی جَعَلَ لَکُم مِن الشَّجَرِ الاْٴَخضَْرِ نَارًا > ( ١) الیٰ آخر السورة فاراد اللّٰہ من نبيہ (ص) ان یجادل المبطل الذی قال کيف یجوز ان یبعث هذہ العظام وهی رميم ، فقال اللّٰہ < یُحيِْيہَا الَّذِی اٴَنشَاٴَہَا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ> افيعجز من ابتداٴہ لا من شیء ان یعيدہ بعد ان یبلی بل ابتدائہ بہ اصعب عندکم من اعادتہ ، ثمّ قال ( ٢) ای اِذا کمن النّار الحارة فی الشّجر الاخضر الرّطب ثمّ یستخرجها فعرفکم انّہ علیٰ اعادة ما بلی اقدر ثمّ قال < اٴَوَلَيسَْ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضَْ بِقَادِرٍ عَلَی اٴَن یَخلُْقَ مِثلَْہُم بَلَی وَہُوَ الخَْلاَّقُ العَْلِيمُ >( ٣) ای اذاکان خلق السّموات والارض اعظم وابعد فی اوهامکم وقدرکم ان تقدروا عليہ من اعادة البالی فکيف جوّزتم من اللّٰہ خلق اللّٰہ هذا الاعجب عندکم والاصعب لدیکم ولم تجوّزوا منہ ما هو سهل عندکم من اعادة البالی قال الصّادق عليہ السلام فهذا الجدال بالّتی هی احسن لانّ فيها قطع عذر الکافرین لا زالة شبههم وامّا الجدال بغير التّی هی احسن فان تجحد حقّاً لا یمکنک ان تفرّق بينہ وبين باطل من تجادلہ وانمّا تدفعہ عن باطلہ بان تجحد الحقّ ، فهذا هو المحرّم لاٴنّک مثلہ ، جحد هو حقّاً ) وجحدت انت حقّاً ” ( ۴ احتجاج ميں طبرسی رحمة الله عليہ نے نقل کيا ہے کہ حضرت امام حسن عسکری - نے فرمایا: حضرت امام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ یس، آیت ٧٨ ۔ ( ٢(۔ سورئہ یس، آیت ٧٩ ۔ ( ٣(۔ سورئہ یس، آیت ٨١ ۔ ( ۴(۔ احتجاج، ج ١، ص ١۴ ۔ تفسير نور الثقلين، ج ۴، ص ١۶٢ ۔ تفسير امام حسن عسکری -، ص ( ۵٢٧ ۔
صادق - کے سامنے گفتگو ہو رہی تهی کہ رسول خدا (ص) نے دین ميں بحث و گفتگو اور مناظرہ سے منع فرمایا ہے تو حضرت امام صادق - نے فرمایا: ایسا نہيں ہے بالکل نہيں منع کيا گيا ہے بلکہ اس سے جو بہتر نہ ہو مگر کيا تم نے الله تعالیٰ کا کلام نہيں سنا ہے کہ وہ فرماتا ہے: اہل کتاب سے مجادلہ و مناظرہ نہ کرو مگر احسن اور بہتر طریقہ سے مزید (اپنے پيغمبر سے) فرمایا: لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچهی نصيحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقے سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے، بحث و گفتگو اور عمدہ طریقہ سے مناظرہ کو الله تعالیٰ نے علمائے دین کے ساته متصل کيا ہے (یا الله تعالیٰ نے بہترین بحث و گفتگو کا علمائے دین کو حکم دیا ہے) اور وہ بحث و گفتگو جو اس کے علاوہ اچهے بيانات کے ذریعہ انجام نہ دی جائے اسے حرام قرار دیا ہے، الله تعالیٰ نے اسے ہمارے شيعوں کے ليے حرام فرمایا ہے کيسے ممکن ہے کہ مطلقاً بحث و گفتگو حرام ہو جب کہ الله یہود و نصاریٰ کے قول کے بارے ميں فرماتا ہے: وہ کہتے ہيں کہ سوائے یہود و نصاریٰ کے کوئی جنت ميں داخل نہيں ہوسکتا پهر الله تعالیٰ نے فرمایا: یہ ان کی اميدیں ہيں اے پيغمبر! ان سے کہہ دیں اگر وہ اپنے قول ميں سچے ہيں تو اپنے دعویٰ کی دليل پيش کریں۔ لہٰذا الله تعالیٰ سے ان کے ایمان اور بات کی سچائی اور صحيح ہونے کا معيار جو وہ یہ کہتے ہيں کہ یہود و نصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت ميں نہيں جاسکتا وہ برہان و دليل کو قرار دیا ہے (یعنی اگر تم بات کے سچی ہونے پر یقين اور ثابت ایمان رکهتے ہو کہ بہشت یہود و نصاریٰ کے ليے منحصر ہے تو اپنی دليل لے آؤ) متقن و محکم برہان ودليل صرف بحث و گفتگو اور اچهی طرح مناظرہ کے ساته ہی ممکن ہے اور اس کے علاوہ قابل قبول نہيں ہے۔ یہ روایت مفصل ہے ہم صرف اپنی بحث سے مربوط موضوع کو یعنی یہ کہ قرآن مجيد اس شخص کے ليے جو اس کے ذریعہ کلام کرے برہان قاطع ہے اس کی طرف اشارہ کر رہے ہيں۔ حضرت امام حسن عسکری - اپنے اس قول کے بعد مزید یہاں تک فرماتے ہيں (اما الجدال بالتی هی احسن) ليکن بحث و گفتگو اور مناظرہ جو ایک راستہ سے ہو وہ وہی ہے جسے خداوند متعال نے پيغمبر اکرم (ص) کو حکم دیا ہے کہ جو لوگ مرنے کے بعد بعث و نشور اور دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کرتے ہيں ان سے اس راہ و روش سے بحث و گفتگو کریں خدائے سبحان نے خود ان کے قول کی حکایت بيان کی ہے۔ اور ہمارے ليے مَثل بيان کرتا ہے اور اپنی خلقت کو بهول گيا ہے کہتا ہے کہ ان بوسيدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے تو خداوند متعال نے ان کے قول کی تردید کی اور کہا: اے محمد! کہو کہ جس نے پہلی مرتبہ پيدا کيا ہے وہی زندہ بهی کرے گا اور وہ ہر مخلوق کو بہتر جاننے والا ہے وہ خدا جس نے تمہارے ليے سرسبز و شاداب درخت سے آگ پيدا کردی ہے تو تم اس سے ساری آگ روشن کرتے رہے ہو ) (آخر سورہ تک) ( ١ پهر الله تعالیٰ نے اپنے پيغمبر کے ليے ارادہ کيا کہ اس باطل پر رہنے والے (جو ابی ابن حضف ہے) سے بحث و گفتگو کریں کہ جس نے یہ کہا کہ یہ کيسے ممکن ہے کہ ان ہڈیوں کو ان کے بوسيدہ ہونے پر دوبارہ زندہ اور مبعوث کرے تو الله تعالیٰ نے فرمایا: (اے محمد!) کہو کہ: جس نے پہلی مرتبہ (جب وہ کچه نہ تها) پيدا کيا ہے وہی زندہ بهی کرے گا لہٰذا کيا وہ عاجزہے کہ جس نے ابتدا ميں ناچيز شے سے انہيں خلق کيا ان کے بوسيدہ اور خاک ہوجانے کے بعد دوبارہ ان کے پہلی حالت پر دوبارہ زندہ واپس کردے؟ بلکہ ابتدا ميں تو وہ کچه نہيں تهے اور ان کا خلق کرنا اور واپس کرنا تمہارے نزدیک زیادہ مشکل اور دشوار تها۔ پهر فرمایا: وہ خدا جس نے تمہارے ليے سرسبز و شاداب درخت سے آگ پيدا کردی ہے تو تم اس سے ساری آگ روشن کرتے رہو؟ یعنی جب گرم آگ کو سرسبز و شاداب درخت کے اندر مخفی رکها پهر اسے باہر لایا اس سے تم لوگ استفادہ کرتے ہو (حقيقت ميں) تمہيں پہچنوایا کہ وہ اس بوسيدہ شے کو پلڻانے پر زیادہ قدرت رکهتا ہے۔ پهر فرمایا کہ: کيا وہ پروردگار جس نے زمين و آسمان کو پيدا کيا ہے اس جيسا پيدا کرنے پر قدرت نہيں رکهتا یقينا قدرت رکهتا ہے وہ بہت زیادہ پيدا کرنے والا اور جاننے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورہ یٰس۔ (
والا ہے۔ یعنی جب آسمانوں اور زمينوں کا خلق کرنا تمہارے وہم و گمان ميں زیادہ بڑی شے اور بہت دور کی بات ہے اور تمہاری قدرت ميں یہ نہيں ہے کہ بوسيدہ چيز کو پلڻا دو تو پهر تم کيسے الله تعالیٰ سے اپنے نزدیک اس سے زیادہ عجيب اور سخت شے کا امکان رکهتے ہو ليکن تم لوگ اس سے اس بات کے واقع ہونے کا امکان نہيں رکهتے کہ جن بوسيدہ چيزوں کا پلڻانا تمہارے لےے آسان ہے؟ حضرت امام صادق - نے فرمایا: لہٰذا یہ بہترین بحث و گفتگو اور مناظرہ ہے یعنی یہ بحث و گفتگو کی روش بہترین اور خوبصورت ہے کيونکہ اس طرح کسی مناظرہ سے کافروں کے عذر کی راہ ختم نہيں ہوجاتی ہے اور ان کے اعتراضات بهی ختم ہوجاتے ہيں۔ ليکن غير بہترین بحث و گفتگو ، یعنی وہ بحث و گفتگو جو اچهی طرح نہ ہو وہ یہ ہے کہ تم حق کا انکار کرو کہ تمہارے ليے حق و باطل کے درميان فرق پيدا کرنا ممکن ہو جس سے تم بحث و گفتگو کر رہے ہو سوائے اس کے کہ تم صرف چاہتے ہو کہ مدّ مقابل کے باطل کو دفع کرو، تو ایسی صورت ميں حق کے منکر ہوجاؤ گے لہٰذا یہ وہی حرام بحث و گفتگو ہے، کيونکہ تم بهی اس جيسے ہوگئے چونکہ اس نے ایک حق کا انکار کيا اور تم نے بهی ایک دوسرے حق کا انکار کيا ہے۔ مولف کہتے ہيں: ائمہٴ اطہار کی خلافت و امامت اور ولایت کبریٰ کے اثبات اور احتجاج کے متعلق دو واقعہ کی طرف اشارہ کيا جا رہا ہے : ١۔ حضرت رسول اکرم (ص) کا نصارائے نجران کے ساته مباہلہ کرنے کا واقعہ ٢۔ حضرت رسول اکرم (ص) کا حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - کی ولایت و امامت کے بارے ميں لوگوں سے درخواست اور احتجاج کرنا۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ١ حضرت عيسیٰ کی ولادت باپ کے واسطہ کے بغير ہوئی کيونکہ عيسائيوں کے زعم ناقص ميں یہ بات طبيعت کے برخلاف تهی لہٰذا کہنے لگے مسيح الله کے بيڻے ہيں، تو الله ۶٠ ميں فرماتا ہے: ، تعالیٰ ان کی بات کی تردید کرتے ہوئے سورئہ آل عمران کی آیت نمبر ۵٩ عيسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم جيسی ہے کہ (اس بات ميں کہ دونوں بغير باپ کے پيدا ہوئے) انہيں مڻی سے پيدا کيا اور پهر کہا: (ایک زندہ بشر ) ہوجا اور وہ ہوگيا حق (کلی طور پر) تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے لہٰذا خبردار اب تمہارا شمار شک کرنے الوں ميں نہيں ہونا چاہيے۔ لہٰذا جو شخص (ترسایان) نصاریٰ سے عيسیٰ کے بارے ميں علم و یقين آجانے کے بعد کہ عيسیٰ بندہ اور رسول ہے بحث و گفتگو کرے تو ان سے کہہ دیجيے کہ آؤ ہم لوگ اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو (اپنے نزدیک والوں کو جو آپ کے قائم مقام ہوں) اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائيں اور خدا کی بارگاہ ميں دعا کریں اور پهر مباہلہ کریں یعنی خدا کی بارگاہ ميں دعا کریں اور جهوڻوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ ١٧۶ ۔ “وفی تفسير القمی عن الصّادق عليہ السلام انّ نصاری نجران لمّا وفدوا علیٰ رسول اللّٰہ (ص) وکان سيّدهم الاهتم والعاقب والسّيّد وحضرت صلواتهم فاقبلوا یضربون بالنّاقوس وصلّوا فقال اصحاب رسول اللّٰہ (ص) یا رسول اللّٰہ (ص) هذا فی مسجدک فقال - صلوات اللّٰہ عليہ وآلہ -: دعوهم ، فلمّا فرغوا دنوا من رسول اللّٰہ (ص) فقالوا الی ماتدعوا ؟ فقال الی شہادة ان لا الہ الاَّ اللّٰہ وانّی رسول اللّٰہ وانّ عيسیٰ عبد مخلوق یاٴکل ویشرب یحدث قالوا فمن ابوہ نزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ آل عمران، آیت ۶١ ۔ (
الوحی علی رسول اللّٰہ (ص) فقال : قل لهم ما یقولون فی آدم اٴکان عبداً مخلوقاً یاٴکل ویشرب ویحدث وینکح؟ فساٴلهم النّبی (ص) فقالوا نعم ، قال فمن ابوہ فبُهتوا ، فانزل اللّٰہ الآیہ وقولہ فمن :فقال رسول اللّٰہ (ص) فباهلونی ان کنت صادقاً انزلت اللعنة عليکم وان کنت کاذباً انزلتْ علیّ ، فقالوا:ا نصفت، فتواعدوا للمباهلة ، فلمّا رجعوا لی منازلهم قال روٴساء هم السّيد العاقب والاهتم ان باهلنا بقومہ باهلناہ فانّہ ليس نبياً وان باهلنا باٴهل بيتہ خاصّة ، فلا نباهلہ فانّہ لا یقدم الی اهل بيتة الاّ وهو صادق ، فلمّا اصحبوا جآوٴ ا الیٰ رسول اللّٰہ ومعہ اميرا لموٴمنين وفاطمة والحسن والحسين ، فقال النصاریٰ من هٰوٴلاء فقيل لهم انّ هذا ابن عمّہ ووصيہ وختنہ علیّ بن ابی طالب عليہ السلام وهذہ ابنتہ فاطمة عليہا السلام ، وهذان ابنا ہ الحسن والحسين عليہما السلام ففرّقوا وقالوا لرسول اللّٰہ (ص) نعطيک ) الرضا فاعفنا من المباهلة فصالحهم رسول اللّٰہ (ص) علی الجزیة ”’ ( ١ تفسير قمی ميں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ نصارائے نجران ميں سے عيسائيوں کا ایک وفد رسول اکرم (ص) کے پاس مدینہ آیا یا جس کی قيادت، اہتم، عاتب، اور سيد کر رہے تهے۔ نبی اکرم (ص) سے مذہبی مسائل پر بحث کے دوران ان کی نماز کا وقت آیا تو انہوں نے مسجد نبوی ميں ہی اپنا ناقوس بجایا اور اپنے طریقہ سے نماز پڑهی۔ کچه صحابہ نے رسول اکرم (ص) سے کہا: یا رسول الله! ان لوگوں کا یہ کام آپ کی مسجد ميں (صحيح نہيں ہے) تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: انہيں اپنی حالت پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير قمی، ج ١، ص ١٠٣ ، تفسير صافی، ج ١، ص ٣۴٣ ، تفسير الميزان، ج ٣، ص ٢٢٩ ۔ (
چهوڑ دو جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے نبی اکرم (ص) سے کہا کہ: آپ کس بات کی دعوت دیتے ہيں؟ آپ نے فرمایا: ميں خدا کی توحيد اور اپنی نبوت کی دعوت دیتا ہوں اور یہ بهی کہتا ہوں کہ عيسیٰ ابن مریم خدا کے ایک بندے تهے وہ بهی دنيا ميں رہ کر کهانا کهاتے ، پانی پيتے اور بول و براز کرتے تهے۔ عيسائی علماء نے دریافت کيا: آپ یہ بيان فرمائيں کہ حضرت عيسیٰ کے والد کون تهے؟ اس وقت الله نے یہ آیہٴ کریمہ نازل فرمائی: خدا کے ہاں عيسیٰ کی وہی مثال ہے جو آدم کی ہے خدا نے اسے مڻی سے پيدا کيا۔ پهر اس سے کہا کہ ہوجا وہ ہوگيا۔ آنحضرت نے عيسائی علماء سے کہاکہ: کيا تم لوگ حضرت آدم - کو خدا کی مخلوق تسليم کرتے ہو اور اس کے ساته یہ بهی قبول کرتے ہو کہ وہ کهانا کهاتے ، پانی پيتے اور بول و براز کيا کرتے تهے؟ عيسائی علماء نے کہا: جی ہاں، وہ ایسے ہی تهے۔ آنحضرت نے فرمایا: پهر بتاؤ آدم کے باپ کا کيا نام ہے؟ آپ کا یہ سوال سن کر وہ مبہوت اور حيرت زدہ ہوگئے اور ان سے اس کا کوئی جواب نہ بن سکا۔ آخر ميں الله تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت نازل فرمائی: اب علم وبرہان آجانے کے بعد بهی اگر کوئی آپ سے عيسیٰ کے بارے ميں مباحثہ کرے تو آپ کہہ دیں کہ آؤ ہم اپنے بيڻوں کو بلائيں تم اپنے بيڻوں کو بلاؤ ہم اپنی عورتوں کو بلائيں اور تم اپنی عورتوں کو بلاؤ ہم اپنے نفسوں کو بلائيں تم اپنے نفسوں کو بلاؤ پهر مباہلہ کریں اور جهوڻوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ عيسائی علماء نے کہا: ہميں مباہلہ منظو رہے۔ پهر نبی اکرم (ص) نے انہيں مباہلہ کا وقت بتایا۔ عيسائی علماء مسجد سے اڻه کر وہاں آئے جہاں ان کی رہائش کا انتظام کيا گيا تها اور وہاں پہنچ کر ان کے قافلہ سالار “سيد” “عاتب” اور “اہتم” نے کہا: اگر محمد اپنی قوم کو لے کر آئے تو ہم اس سے مباہلہ کریں گے اور اس کی بددعا ہميں کوئی نقصان نہ دے گی اور اگر وہ اپنے مخصوص اہل خانہ کو لے کر آئے تو پهر ہم ان سے مباہلہ (کے ليے اپنا عذر پيش کریں گے) نہيں کریں گے کيونکہ جب تک کسی شخص کو اپنی صداقت کا یقين نہ ہو اس وقت تک اپنے قریبی عزیز لے کر (اس اہم امر کا اقدام) مباہلہ نہيں کرتا۔ صبح ہوئی رسول اکرم (ص) اپنے ہمراہ امير المومنين ، حضرت فاطمہ اور حسن و حسين صلوات الله عليہم کو لے کر برآمد ہوئے جب نصاریٰ کی نگاہيں ان لوگوں پر پڑیں تو لوگوں سے دریافت کيا کہ: یہ کون لوگ ہيں جنہيں محمد اپنے ہمراہ لا رہے ہيں؟ لوگوں نے جواب دیاکہ: ایک ان کی بيڻی ایک ان کا داماد ہے اور یہ دونوں بچے ان کے بيڻے ہيں۔ یہ سن کر وہ کانپ اڻهے اور وہ دوڑتے ہوئے آنحضرت (ص) کے پاس آئے اور کہا کہ: یا رسول الله (ص) ! ہم آپ سے معافی مانگتے ہيں آپ ہميں بد دعا نہ دیں۔ آپ جس طرح سے راضی ہوں ہم اسی طرح سے آپ کو راضی کریں گے ہميں مباہلہ کرنے سے معاف فرمائيں تو رسول خدا (ص) نے جزیہ کی شرطوں پر ان سے مصالحت کرلی اس کے بعد وہ اپنے گهروں کی طرف چلے گئے۔ ليکن آنحضرت کا قسم دے کر الٰہی ولایت کبریٰ کے بارے ميں سوال اور بحث و گفتگو کرنے کا ہم ذکر کرتے ہيں تاکہ شيعوں اور محبان علی - کے قلوب کو جلا و روشنی عطا ہو انشاء الله۔ ١٧٧ ۔ “ ذکر سليم بن قيس هلالی فی کتابہ قال راٴیت علياً - صلوات اللّٰہ عليہ - فی مسجد رسول اللّٰہ (ص) فی خلافة عثمان وجماعة یتحدّثون ویتذاکرون العلم والفقہ ، فذکروا قریشاً وفضلها وسوابقها وہجرتها وما قال رسول اللّٰہ (ص) فيها من الفضل مثل : (الاٴئمة من قریش )وامثال ذٰلک وذکروا الاٴنصار وفضلها و سوابقها ونصرتها واما اثنی اللّٰہ عليهم فی کتابہ وما قال رسول اللّٰہ (ص) فيهم من الفضل وذکروا ما قال صلوات اللّٰہ (ص) فی سعد بن معاذ وغسيل الملائکة وغيرهم لم یدعوا شيئاً من فضلهم الی قولہ فاٴکثر القوم ، وذٰلک من بکرة الی حين الزّوال وعثمان فی دارہ لا یعلم شيئاً ممّاهم فيہ وعلیّ بن ابی طالب - صلوات اللّٰہ عليہ - ساکت لا ینطق والا حد من اهل بيت فاقبل القوم عليہ فقالوا یا ابا الحسن ما یمنعک ان تتکلّم ، فقال ما من الحيّين الاّ وقد ذکر فضلاً وقال حقاً ، فاٴنا اسئلکم یا معشر قریش والاٴنصار بما اَعطاکم اللّٰہ هذا الفضل بانفسکم وعشائرکم واهل بيوتاتکم ام بغيرکم ؟ قالوا بل اعطانا اللّٰہ ومنّ بہ علينا بمحمد (ص) و عشيرتہ لاٰ بانفسنا وعشائرنا ولا باهل بيوتاتن قال عليہ السلام صدقتم یا معشر قریش والاٴنصار ، اٴلستم تعلمون انّ الذی نلتم من خير الدّنيا والآخرة منّا اهل البيت خاصّة دون غيرهم وانّ ابن عمّی رسول اللّٰہ (ص) قال انّی واهل بيتی کنّا نوراً یسعی بين یدی اللّٰہ تعالیٰ قبل ان یخلق اللّٰہ عزوجلّ آدم عليہ السلام باربعة عشر الف سنة فلمّا خلق اللّٰہ تعالیٰ آدم عليہ السلام وضع ذلک النّور فی صلبہ واهبطہ الی الارض ثم حملہ فی السّفينة فی صلب نوح عليہ السلام ثمّ قذف بہ فی النّار فی صُلب ابراہيم عليہ السلام ثمّ لم یزل اللّٰہ عزوجل نقلنا من الاصلاب الکریمة الی الارحام الطّاہرة ومن الارحام الطّاهرة الیٰ الاصلاب الکر یمة من الآباء والامهات لم یلق واحد منهم عن سفاح قط فقال اهل السّابقة والقدمة واهل بدر واهل احد : نعم قد سمعنا من رسول اللّٰہ (ص) ثمّ قال انشدکم اللّٰہ اٴتعلمون انّ اللّٰہ عزوجلّ فضل فی کتابہ السّابق علی المسبوق فی غير آیة وانّی لم یسبقنی الی اللّٰہ عزوجلّ والی رسول اللّٰہ (ص) احد من اهل الامّة ؟ قالوا اللّهمّ ( نعم قال فانشدکم اللّٰہ اتعلمون حيث نزلت > وَالسَّابِقُونَ الاْٴَوَّلُونَ مِن المُْہَاجِرِینَ وَالاْٴَنصَارِ>( ١ ( ٢) سئل عنها رسول اللّٰہ (ص) فقال انزلها اللّٰہ تعالیٰ ذکرہ فی الانبيآء واوصيآئهم فانا افضل انبيآء اللّٰہ ورسلہ وعلی بن ابی طالب وصی افضل الاوصيآء ، قالوا اللهمّ نعم قال فانشدکم اللّٰہ اٴتعلمون حيث نزلت ( ٣) حيث نزلت ( ۴) وحيث نزلت ( ۵ قال النّاس یا رسول اللّٰہ اٴخاصة فی بعض الموٴمنين اٴم عامة لجميعهم؟ فامر اللّٰہ عزوجلّ نبيّہ (ص) ان یعلمهم ولاة امرهم ان یفسر لهم من الولایة مافسّر لهم من صلاتهم وزکاتهم وحجهم وینصبنی للنّاس بغدیر خم، خطب (ص) فقال ایها الناس انّ اللّٰہ ارسلنی برسالة ضاق بها صدری وظننت ان النّاس مکذّ بی فاوعدنی لابّلغها او ليعذبنی ، ثمّ امر فنودی بالصّلاة جامعة ثم خطب فقال ایّها الناس اتعلمون ان اللّٰہ عزوجل مولای وانا مولی الموٴمنين وانا اولیٰ بهم من انفسهم قالوا: بلی یارسول اللّٰہ ، قال - صلوات اللّٰہ عليہ وآلہ - :قم یا علی فقمت فقال (ص) من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللهم وال من والاہ وعاد من عاداہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقام سلمان فقال یا رسول اللّٰہ ولاء کماذا ؟ فقال (ص) ولاء کولائی ، من کنت اولیٰ بی من نفسہ فعلیٌّ اولیٰ بہ من نفسہ فاٴنزل تعالیٰ ذکرہ ( ١)فکبّر رسول اللّٰہ (ص) وقال اللّٰہ اکبر تمام نبوتی وتمام دین اللّٰہ ولایة علی بعدی ، فقام ابو بکر و عمر فقالا : یا رسول اللّٰہ هذہ الآیات خاصة فی علی؟ قال (ص) بلی فيہ وفی اوصيآئی الیٰ یوم القيٰمة ، قالا یا رسول اللّٰہ اتمم لنا قال - صلوات اللّٰہ عليہ وآلہ -: علی اخی ووزیری ووارثی ووصيی وخليفتی فی امّتی وولیّ کلّ موٴمن بعدی ثمّ ابنی الحسن ثمّ الحسين ثمّ تسعة من ولد ابنی الحسين واحد بعد واحد ، القرآن معهم وهم مع القرآن ، لا یفارقونہ ولا یفارقهم حتیّٰ یردوا علیّ الحوض فقالوا کلّهم اللهمّ نعم قد سمعنا ذٰلک وشهدنا کما قلت سواء ، وقال بعضهم قد حفظنا جلّ ما قلت ولم یحفظ کلّہ وهوٴلآء الذین حفظوا اخيارنا وافاضلنا فقال علی - صلوات اللّٰہ عليہ - صدقتم ليس کلّ الناّس یستوون فی الحفظ انشدکم اللّٰہ عزّوجلّ من حفظ ذٰلک من رسول اللّٰہ (ص) لمّا قام فاخبر بہ ، فقام زید بن ارقم والبراء بن عازب وسلمان وابوذرّ والمقداد وعمّار فقالوا: لقد حفظنا قول رسول اللّٰہ (ص) وهو قائم علی المنبر وانت الی جنبہ وهو یقول ایّها النّاس ان اللّٰہ عزوجلّ امرنی ان انصب لکم والقائم فيکم بعدی ووصيی وخلفيتی والّذی فرض اللّٰہ عزوجلّ علی الموٴمنين فی کتابہ طاعتہ فقرنہ بطاعتہ وطاعتی وامرکم بولایتہ وانّی راجعت ربی خشية طعن اهل النّفاق وتکذیبهم فاوعدنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انعام، آیہ ٣۔ (
لتبليغها اوليعذّبنی، یا ایّها النّاس انّ اللّٰہ امرکم فی کتابہ بالصّلاة فقد بيّنتها لکم ، والزکاة والصّوم والحج فبيّنتها لکم و فسّرتها واٴمرکم بالولایة وانی اشهدکم انها لهذا خاصة ، ووضع یدہ علی علیّ بن ابی طالب - صلوات اللّٰہ عليہ وآلہ - ( قال) ولاٴبنيہ بعدہ ثمّ للا وصيآء من بعدهم من ولدهم ، لا یفارقون القرآن ولایفارقهم القرآن حتّی یردوا علی حوضی ایّها الناس قد بيّنت لکم مفزعکم بعدی وامامکم ووليّکم وهادیکم وهو اخی علیّ بن ابی طالب وهو فيکم بمنزلتی فيکم فقلدوہ دینکم واطيعوہ فی جميع امورکم فانّ عندہ جميع ما علّمنی اللّٰہ من علمہ وحکمة فسلوہ وتعلموا منہ ومن اوصيآئہ بعدہ ولا تعلّموهم ولا تقدّموهم ولا تخلفوا عنهم فانّهم مع الحقّ والحق معهم لا یزایلونہ ولایزایلهم ثمّ جلسو )قال سليم ) ثمّ قال علی عليہ السلام ایها الناس اتعلمون ان اللّٰہ انزل فی کتابہ < إِنَّمَا ) یُرِیدُ اللهُ لِيُذہِْبَ عَنکُْم الرِّجسَْ اٴَہلَْ البَْيتِْ وَیُطَہِّرَکُم تَطہِْيرًا> ( ١ فجمعنی وفاطمة وابنی حسناً والحسين ثمّ القی علينا کسآء وقال اللهمّ هولآء اهل بيتی ولحمتی یوٴلمنی ما یوٴلمهم ویجرحنی ما یجرحهم ، فاذهب عنهم الرّجس وطهرهم تطهيراً ، فقالت امّ سلمة وانا یا رسول اللّٰہ ؟ فقال - صلوات اللّٰہ عليہ وآلہ - انت علیٰ خير ، انّما نزلت فیّ وفی اخی علی بن ابی طالب وفی ابنی وفی تسعة من ولد ابنی الحسين خاصة ، ليس معنا فيها احد غيرهم ، فقالوکلّهم نشهد انّ امّ سلمة حدّثتنا بذلک فساٴلنا رسول اللّٰہ (ص) فحدّثتنا امّ سلمة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ احزاب، آیہ ٣٣ ۔ (
ثم قال علی - صلوات اللّٰہ عليہ - انشدکم اللّٰہ اٴتعلمون ان اللّٰہ انزل < یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ>( ١) فقال سلمان یا رسول اللّٰہ عامّة هذہ ام خاصة ؟ قال (ص) امّا الماٴمور فعامة الموٴمنين امروا بذلک وامّا الصّادقون فخاصة لاٴخی علی واوصيآئی من بعدہ الی یوم القيٰمة قالوا اللهم نعم ، قال عليہ السلام اٴنشدکم اللّٰہ اٴتعلمون انی قلت لرسول اللّٰہ (ص) فی غزوة تبوک لم خلفتنی ؟ فقال اناٴ المدینة لا یصلح الاّبی اوبک وانت منّی بمنزلة ہارون من موسیٰ الاّ انہ لا نبیّ بعدی ، قالوا اللهمّ نعم ، فقال عليہ السلام انشدکم اللّٰہ اتعلمون انّ اللّٰہ انزل فی سورة الحّج ( ٢)الیٰ اخر السّورة فقام سلمان فقال یا رسول اللّٰہ من هوٴلاء الذین انعمت عليهم شهيدهم شهدآء علی النّاس الذین اجتباهم اللّٰہ ولم یجعل عليهم فی الدین من حرج ملّة ابراہيم ؟ قال - صلوات اللّٰہ عليہ وآلہ -: عنی بذلک ثلاثة عشر رجلاً خاصة دون هذہ الاٴمة ، قال سلمان بينهم لنا یا رسول اللّٰہ، فقال (ص) : اٴنا واخی علی واحد عشر من ولدی ، قالوا اللهمّ نعم ، فقال عليہ السلام انشدکم اللّٰہ اتعلمون انّ رسول اللّٰہ (ص) قام خطيباً ولم یخطب بعد ذلک ، فقال ایّها النّاس انّی تارک فيکم الثقلين کتاب اللّٰہ وعترتی اهل بيتی فتمسّکوا بهما لن تضلّوا ، فانّ اللّطيف اٴخبرنی وعهد الیّ انّهما لن یفترقا حتّی یردا علیّ الحوض ، فقام عمر بن الخطاب شبہ المغضب فقال یا رسول اللّٰہ اٴکلّ اهل بيتک؟ فقال لا ولٰکن اوصيٰآئی منهم ، اوّلهم اخی ووزیری ووارثی وخليفتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فی امّتی وولیّ کلّ موٴمن بعدی ، هو اوّلهم ثم ابنی الحسن ثمّ ابنی الحسين ثمّ تسعة من ولدی الحسين ، واحد بعد واحد، حتی یردوا علیّ الحوض ، شهدآء اللّٰہ فی ارضہ وحجتہ علیٰ خلقہ وخزّان علمہ ومعادن حکمتہ ، من اطاعهم فقد اطاع اللّٰہ من عصاهم فقد عصی اللّٰہ فقالوا کلّهم نشهد انّ رسول اللّٰہ (ص) قال ذٰلک ثمّ تمادی بعلی عليہ السلام السئوال ، فما ترک شيئاً الاّ ناشدهم اللّٰہ فيہ وساٴلهم عنہ حتّی اٴتی علیٰ آخر منا قبہ وما قال لہ رسول اللّٰہ (ص) ) کثيراً ، کلّ ذلک یصدّقونہ و یشهدون انّہ الحقّ ”’ ( ١ سليم ابن قيس ہلالی اپنی کتاب ميں نقل کرتے ہيں کہ ميں نے (حضرت)علی - کو حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ ميں مسجد رسول الله (ص) ميں دیکها مہاجرین اور انصار کے ایک گروہ کے افراد ایک دوسرے سے علم و فقہ کے بارے ميں مذاکرہ کر رہے تهے پهر ان کی گفتگو کے دوران قریش کی ہجرت و فضيلت اور ان کے سابقے کے بارے ميں بهی بات نکل آئی اور جو کچه رسول خدا (ص) نے ان کے فضائل و مناقب کے بارے ميں فرمایا تها جيسے یہ کہ: تمام ائمہ قریش سے ہيں اور اسی جيسے دوسرے فضائل۔ پهر انصار کے فضائل و مناقب ان کے سابقے اور نصرت و مدد کے بارے ميں گفتگو ہوئی نيز جو کچه الله تعالیٰ نے اپنی کتاب ميں ان کی تعریف ميں بيان فرمایا اسی طرح جو کچه رسول خدا (ص) نے ان کی فضيلت و منقبت کے بارے ميں ذکر کيا تها گفتگو ہوئی اسی طرح پيغمبر اکرم (ص) کے اقوال سعد ابن معاذ کے حق ميں جو غسيل ملائکہ (حنظلہ ابن ابو عامر) تهے اور ان کے علاوہ بهی دوسرے لوگوں کے فضائل ہيں سب کو بيان کيا پهر لوگوں کی تعداد ميں اضافہ ہوا (یا زیادہ گفتگو ہوئی) اور یہ سلسلہ صبح کی ابتدا سے زوال تک چلتا رہا اور عثمان اپنے گهر ميں تهے انہيں یہاں کے حالات سے کچه ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کتاب سليم ابن قيس، ص ٢٠١ ۔ بحار الانوار، ج ٣١ ، ص ۴١۵ ۔ (
خبر نہيں تهی اور (حضرت) علی ابن ابی طالب - خاموش بيڻهے ہوئے تهے نہ خود گفتگو کر رہے تهے اور نہ ہی اہل بيت ميں سے کوئی دوسرا شخص گفتگو کر رہا تها۔ تو وہ لوگ حضرت علی - کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کيا: اے ابو الحسن! آپ کے ليے کون سی چيز مانع ہے جو گفتگو نہيں فرماتے؟ تو فرمایا: دونوں قبيلے والوں نے فضيلت و منقبت ميں سے سب ہی کچه بيان کيا اور حق بات کہی؛ لہٰذا اب اے گروہ قریش و انصار! ميں تم سے سوال کرتا ہوں کہ تمہيں یہ فضيلت کہاں سے الله تعالیٰ نے عطا کی ہے۔ یہ فضيلت تمہيں خودبخود حاصل ہوگئی ہے یا تمہارے قبيلہ و خاندان کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے یا دوسروں کی وجہ سے ؟ سب نے کہا: بلکہ یہ فضيلت ہميں الله نے عطا کی ہے حضرت محمد (ص) کے مقدس وجود اور ان کے قبيلہ کی برکت سے ہم پر احسان و کرم فرمایا ہے، نہ کہ ہمارے قبيلہ اور خاندان کی وجہ سے۔ حضرت نے فرمایا: اے گروہ قریش و انصار تم لوگ سچ کہتے ہو، کيا تم اس بات کو نہيں جانتے کہ جو کچه تمہيںدنيا و آخرت کی بهلائی نصيب ہوئی ہے وہ صرف ہم اہل بيت کی وجہ سے تهی نہ دوسروں کی وجہ سے اور یہ کہ ميرے پسر عم رسول خدا (ص) نے فرمایا: یقينا ميں اور ميرے اہل بيت ایک نور کی شکل ميں بارگاہ ایزدی کے سامنے رواں دواں تهے۔ الله تعالیٰ کو حضرت آدم - نے پيدا کرنے سے چودہ ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ پهر اس وقت الله تعالیٰ نے آدم - کو پيدا کيا اور اس نور کو آدم کی صلب ميں ودیعت کردیا آدم کو زمين پر اتارا پهر الله تعالیٰ نے اس نور کو نوح - کی صلب ميں رکه کر کشتی پر سوار کيا پهر اس نور کو ابراہيم کی صلب ميں ڈال کر آگ ميں پهينکا، الله تعالیٰ مسلسل اس نور کو اصلاب کریمہ سے ارحام مطہرہ کی طرف لایا اور امہات کے ذریعہ منتقل کرتا رہا ان ميں سے کسی بهی شخص کا دامن سفاح و زنا سے کبهی بهی مس نہيں ہوا تها، پهر تمام سابقين (اصحاب) اور اہل بدر وغيرہ نے کہا: ہاں ہم لوگوں نے اس حدیث کو رسول خدا (ص) سے سنا تها۔ پهر فرمایا: ميں تمہيں الله تعالیٰ کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کيا تم جانتے ہو کہ الله تعالیٰ اپنی کتاب کی اکثر و بيشتر آیات ميں ان لوگوں کی فضيلت و برتری کا قائل ہوا ہے جنہوں نے اسلام قبول کرنے ميں سبقت حاصل کی بہ نسبت ان لوگوں کے جو بعد ميں اسلام لائے اور یہ کہ اس امت ميں الله تعالیٰ پر ایمان اور اس کے رسول کی تصدیق کرنے ميں مجه سے کسی شخص نے سبقت نہيں کی۔ ان لوگوں نے عرض کيا:ہاں خدا جانتا ہے۔ پهر فرمایا: ميں تمہيں خدا کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ جب آیہٴ (والسابقون الا وّلون) نازل ہوئی تو رسول خدا (ص) سے اس کے بارے ميں سوال کيا گيا تها کہ کس کے بارے ميں نازل ہوئی تو آنحضرت (ص) نے فرمایا تها کہ : الله نے اس آیت کو انبياء اور ان کے اوصيا کے حق ميں نازل کيا ہے لہٰذا ميں الله کے تمام انبياء اور رسولوں سے افضل ہوں اور علی ابن ابی طالب - ميرے وصی ہيں اور تمام اوصياء سے افضل ہيں؟ لوگوں نے کہا: ہاں خدا جانتا ہے۔ فرمایا: ميں تمہيں الله تعالیٰ کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ کيا تم اس بات کو جانتے ہو کہ جب آیہٴ اور آیہٴ اور جب آیہٴ نازل ہوئی تو لوگوںنے کہا: اے رسول خدا (ص) کيا یہ بعض مومنين سے مخصوص ہے یا عام ہے اور تمام مومنين شامل ہيں؟ تو الله تعالیٰ نے اپنے پيغمبر کو حکم دیا تاکہ انہيں ان کے ولاة امر یعنی صاحبان امر جو اولی بالنفس ہيں ان کا تعارف کرائيں لوگوں کے ليے ان کی تفسير ووضاحت کریں ان کی ولایت اور امور کی حقيقت کی تفسير کریں جس طرح ان لوگوں کو ان کی نماز زکوٰة اور حج کی کيفيت و شرائط سے آگاہ کيا تها اور مجهے اپنی جانشينی کے ليے غدیر خم ميں منصوب کيا تها پهر رسول خدا (ص) نے خطبہ پڑها اور فرمایا: اے لوگو! الله تعالیٰ نے مجهے ایک پيغام بهيجا ہے جس کی وجہ سے ميرا سينہ تنگ ہوگيا ہے اور ميں یہ گمان کرتا ہوں کہ لوگ ميری تکذیب کریں گے اور یقين نہيں کریں گے لہٰذا مجهے نصيحت اور تہدید کی کہ اس رسالت کو پہنچا دوں اور اگر انجام نہ دوں تو مجه پر عذاب نازل کرے گا۔ پهر حکم دیا لوگوں کو نماز جمعہ کے ليے آوازیں دیں اس کے بعد خطبہ پڑها اور فرمایا: اے لوگو! کيا تم اس بات کو جانتے ہو کہ الله تعالیٰ ميرا مولا ہے اور ميں مومنين کا مولا ہوں ميں ان ميں سے ان کی جان سے بهی زیادہ بہتر ہوں لوگوں نے عرض کيا تها:ہاں اے رسول خدا (ْص) ! پهر رسول خدا نے فرمایا: اے علی ( - )کهڑے ہوجاؤ تو ميں کهڑا ہوگيا پهر لوگوں سے فرمایا: جس جس کا ميں مولا ہوں اس اس کے علی مولا ہيں اے خدا! تو اس کو دوست رکه جو علی کو دوست رکهے تو اس سے دشمنی رکه جو علی سے دشمنی رکهے۔ پهر حضرت سلمان رضوان الله عليہ اپنی جگہ کهڑے ہوئے اور عرض کيا: یا رسول الله! یہ کيسی ولایت ہے یعنی اس کا مقصد کيا ہے؟ تو آنحضرت نے فرمایا: علی کی ولایت ميری ولایت کی طرح ہے جس کی جان سے ميں افضل ہوں اس کی جان سے علی افضل ہيں پهر الله تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا، پهر حضرت رسول اکرم (ص) نے تکبير کہی اور فرمایا: اس نے دین مکمل کردیا ہے اور نعمت کو تمام کردیا اور ميری رسالت اور ميرے بعد علی کی ولایت پر راضی ہوگيا اس وقت ابو بکر اور عمر دونوں اپنی جگہ کهڑے ہوئے اور کہا: یا رسول الله (ص)! یہ آیت خاص طور سے علی کے حق ميں نازل ہوئی ہے؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: ہاں علی کے حق ميں اور قيامت تک ہونے والے ميرے اوصياء کے حق ميں نازل ہوئی ہے حاضر ین نے عرض کيا: اے الله کے رسول! ان حضرات کو ہم سے بيان کردیجيے یعنی مزید وضاحت فرمائيں تو حضرت نے فرمایا: علی ميرے بهائی ميرے وارث ميرے وصی اور ميرے خليفہ ہيں اور ميرے بعد ميری امت ميں ہر مومن کے ولی اور اولیٰ بالنفس ہيں پهر ميرا بيڻا حسن - پهر حسين - ہوگا پهر حسين - کے نو فرزند ہوں گے قرآن ان حضرات کے ساته ہوگا اور وہ حضرات قرآن کے ساته ہوں گے نہ قرآن ان سے جدا ہوگا اور نہ یہ قرآن سے جدا ہوں گے آخر کار ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔ پهر سب نے کہا: ہاں خدا جانتا ہے کہ ہم سب نے ان کلمات کو سنا اور اس بات پر شاہد ہيں جيسا کہ آپ نے بغير کسی کمی بيشی کے فرمایا: بعض نے کہا: (اے علی -!) جو کچه آپ نے فرمایا اس کا بيشتر حصہ ہميں یاد ہے ليکن تمام واقعہ یاد نہيں ہے ليکن ان حضرات ميں سے جنہوں نے مکمل واقعہ یاد کر رکها ہے ہمارے درميان بہترین اور بزرگ افراد ہيں۔ پهر حضرت علی - نے فرمایا کہ تم نے سچ کہا کہ تمام لوگوں کا حافظہ برابر نہيں ہے۔ ميں تمہيں الله تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ جس شخص نے رسول خدا (ص) سے جو کچه سنا ہے اور اسے یاد ہے اڻهے اور خبر دے پهر زید ابن ارقم، براء ابن عازب، سلمان، ابوذر، مقداد اور عمار (رضوان الله عليہم) اپنی جگہ کهڑے ہوئے اور کہا کہ: ہم گواہی دیتے ہيں کہ رسول خدا (ص) کی باتوں کو سنا اور ہميں یاد ہے ہم گواہی دیتے ہيں کہ آنحضرت (ص) منبر کے اوپر کهڑے ہوئے تهے اور آپ (اے علی) ان کے پہلو ميں تهے کہ جب وہ فرما رہے تهے کہ اے لوگو! یقينا الله تعالیٰ نے مجهے حکم دیا ہے تاکہ آپ کو امام اور رہنما منصوب کروں اور یہ کہ ميرے بعد ميرے امور کو تم انجام دو گے اور ميرے وصی و خليفہ اور جانشين ہو اور جو کچه خدائے بزرگ و برتر نے اپنی کتاب ميں تمام مومنين پر واجب و لازم جانا ہے اپنی اطاعت و فرماں برداری کو ميری اطاعت و فرماں برداری کے ساته متصل کيا ہے اور تمہيں اس کی ولایت کا حکم دیا ہے۔ اور ميں نے پروردگار کی طرف رجوع کيا اس خوف سے کہ اہل نفاق اور منافقين مجهے طعنہ دیں اور ميری تکذیب کریں پهر مجهے اس نے تاکيد کی اور مجهے ڈرایا کہ ميں ضرور تبليغ کروں اور اگر نہيں کروں تو مجه پر عذاب کرے گا۔ اے لوگو! الله تعالیٰ نے تمہيں اپنی کتاب ميں نماز پڑهنے کا حکم دیا ہے اور اس کی کيفيت و شرائط کو تم سے بيان فرمایا، اور زکوٰة ، روزہ اور حج کا حکم دیا تو اس کی شرائط اور خصوصيات کی تم سے وضاحت کی اور تمہيں ولایت (علی) کا حکم دیا ميں بهی تم کو اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ ولایت مخصوص ہے اور اپنے دست مبارک کو علی ابن ابی طالب - کے (شانہ) پر رکها اور اس کے بعد ان کے دونوں فرزند (حسن - و حسين -) اور پهر ان کے ان کے اوصياء جو ان کی اولاد سے ہوں گے اور وہ قرآن سے جدا نہيں ہوں گے اور قرآن بهی ان سے جدا نہ ہوگا یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں۔ اے لوگو! یقينا ميں نے تم سے اپنے بعد تمہاری پناہ گاہ کو بيان کيا ہے اور تمہارے امام ولی اور ہادی کو اور وہ ميرے بهائی علی ابن ابی طالب - ہيں اور وہ تمہارے درميان ميری ہی طرح ہيں۔ لہٰذا اپنے دین کو ان سے یاد کرنا اور اپنے تمام کاموں ميں ان کی اطاعت کرنا کيونکہ اس کے پاس وہ سب کچه ہے جو الله تعالیٰ نے مجهے اپنا علم و حکمت تعليم فرمائی، لہٰذا اس سے سوال کرو اور اس سے یاد کرو اور اس کے بعد اس کے اوصياء سے یاد کرو اور انہيں تعليم نہيں دینا اور نہ ہی ان سے آگے چلنا اور ان سے پيچهے بهی نہ رہنا کيونکہ وہ سب حق کے ساته ہيں اور حق بهی ان کے ساته ہے نہ وہ لوگ حق سے کنارہ کش ہوں گے اور نہ ہی حق ان سے کنارہ کشی اختيار کرے گا اس کے بعد سب بيڻه گئے (سليم (راوی) کا بيان ہے(: پهر حضرت علی - نے فرمایا: اے لوگو! کيا تمہيں معلوم ہے کہ الله تعالیٰ نے جب یہ آیت اپنی کتاب ميں نازل فرمائی تو اس وقت مجهے فاطمہ اور ميرے دونوں فرزندوں حسن و حسين کو جمع کيا تها اور ہم پر اپنی چادر ڈال کر فرمایا تها: اے خدا ! یہ ميرے اہل بيت اور ميرے بدن کا ڻکڑا ہيں جس نے مجهے تکليف دی اس نے انہيں بهی تکليف پہنچائی اور جس نے مجهے مجروح کيا اس نے انہيں بهی مجروح کيا لہٰذا ان سے رجس اور ہر گندگی کو برطرف کر اور ان کو پاک و پاکيزہ رکه۔ پهر ام سلمہ نے عرض کيا: اے الله کے رسول! ميں (ان ميں داخل ہوں) تو رسول خدا (ص) نے فرمایا: تم خير پر ہو۔ یہ آیت صرف ميرے اور ميرے بهائی علی ابن ابی طالب ( -) اور ميرے دونوں فرزند حسن و حسين اور ميرے فرزند حسين کی اولاد ميں سے نو افراد کے حق ميں نازل ہوئی اور انہيں سے مخصوص ہے اس جہت سے کوئی بهی شخص ہمارے ساته شریک نہيں ہے، سب نے کہا: آپ گواہی دیتے ہيں کہ ام سلمہ نے ہم سب سے حدیث بيان کی اور ہم نے رسول خدا (ص) سے سوال کيا اور آنحضرت (ص) نے ہم سے وہ حدیث بيان فرمائی جس طرح ام سلمہ نے حدیث بيان کی تهی۔ پهر حضرت علی - نے فرمایا: ميں تمہيں اور الله تعالیٰ کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ تم اس بات کو جانتے ہو کہ جب الله تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا تها تو حضرت سلمان نے عرض کيا تها: اے الله کے رسول! یہ آیت خاص ہے یا عام تو رسول خدا (ص) نے فرمایا تها: جن کو حکم دیا گيا ہے وہ عام مومنين ہيں ليکن صادقين خاص لوگ ہيں (ان ميں) ميرے بهائی اور آپ کے بعد ميرے قيامت تک ہونے والے اوصياء مراد ہيں ، تمام حاضر ین نے کہا: ہاں خدا جانتا ہے۔ حضرت علی - نے فرمایا: ميں تمہيں الله تعالیٰ کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ تم اس بات کو جانتے ہو کہ جب الله تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا تها تو حضرت سلمان نے عرض کيا تها: اے الله کے رسول ! یہ آیت خاص ہے یا عام تو ؟ تو رسول خدا (ص) نے فرمایا تها: جن کو حکم دیا گيا ہے وہ عام مومنين ہيں ليکن صادقين خاص لوگ ہيں (ان ميں) ميرے بهائی اور آپ کے بعد ميرے قيامت تک ہونے والے اوصياء مراد ہيں، تمام حاضرین نے کہا: ہاں خدا جانتا ہے۔ حضرت علی - نے فرمایا: ميں تمہيں خدا کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ کيا تم اس بات کو جانتے ہو کہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب رسول خدا نے مجهے اپنا خليفہ مقرر فرمایا تها تو ميں نے رسول خدا (ص) کی خدمت ميں عرض کيا تها کہ آپ مجهے عورتوں اور بچوں پر خليفہ مقرر کرتے ہيں تو رسول خدا نے فرمایا تها: (اے علی !) مدینہ کی حالت ميری وجہ سے درست رہ سکتی ہے یا تمہاری وجہ سے اور تمہيں مجه سے وہ منزلت حاصل ہے جو ہارون کو موسی سے تهی ليکن ميرے بعد کوئی نبی نہيں ہوگا (یعنی ميرے اور تمہارے درميان صرف نبوت کا فرق ہے) لوگوں نے عرض کيا: خدا کی قسم ! ہم جانتے ہيں۔ حضرت علی - نے فرمایا: ميں تمہيں الله تعالیٰ کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ کيا تم اس بات کو جانتے ہو کہ: سورئہ حج کی آیت آخر تک نازل فرمائی تو حضرت سلمان اڻهے اور عرض کيا: اے رسول خدا ! وہ لوگ کون ہيں جن پر آپ گواہ ہيںاور وہ لوگوں پر گواہ ہيں جس طرح الله تعالیٰ نے ان لوگوں کو چن ليا ہے اور ان پر دین کے معاملے ميں کوئی حرج مقرر نہيں کيا کہ لوگ حضرت ابراہيم - کی ملت ہيں؟ تو رسول خدا (ص) نے فرمایا: الله تعالیٰ نے اس سے تيرہ آدميوں کو خاص طور سے مراد ليا ہے حضرت سلمان نے عرض کيا: اے الله کے رسول! ان آدميوں کو ہم سے بيان فرما دیجيے، تو آنحضرت نے فرمایا: ایک ميں ہوں اور ميرے بعد علی ہيں اور ميرے گيارہ فرزند ہيں۔ تمام حاضرین نے کہا: ہاں خدا کی قسم ! ہم سب کو معلوم ہے۔ حضرت علی - نے فرمایا: ميں تمہيں الله کی قسم دے کر تم سے دریافت کرتا ہوں کيا تم اس بات کو جانتے ہو کہ رسول خدا (ص) کهڑے ہوئے اور خطبہ پڑها اور ان کا آخری خطبہ کہ جس کے بعد دوسرا خطبہ نہيں پڑها اور فرمایا: اے لوگو! ميں تم ميں دو گراں قدر چيزیں بطور امانت چهوڑ رہا ہوں ایک کتاب خدا (قرآن مجيد) اور دوسری ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں ان دونوں کا دامن پکڑو تاکہ کبهی بهی گمراہ نہ ہو کيونکہ مجهے خدائے لطيف و خبير (جو امور کے دقائق سے باخبر ہے) نے مجهے خبر دی ہے اور مجه سے وعدہ کيا ہے کہ وہ دونوں (امانت) کبهی بهی ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر پہنچيں۔ پهر عمر ابن خطاب غضب ناک حالت ميں کهڑے ہوئے اور کہا: اے رسول خدا (ص)! کيا سب کے سب آپ کے اہل بيت ہيں؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: نہيں ان ميں ميرے اوصياء بهی ہيں، ان ميں سے پہلے ميرے بهائی علی ابن ابی طالب جو ميری امت ميں ميرے وزیر و وارث اور خليفہ و جانشين ہيں اور ميرے بعد ہر مومن کے ولی ہيں وہ (علی -) ان اوصياء ميں سے پہلے ان کے بعد ميرا فرزند حسن ہے، ان کے بعد ميرا فرزند حسين ہے اور پهر اولاد حسين سے نو افراد یکے بعد دیگرے ہيں یہاں تک ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں یہ لوگ تمام مخلوقات پر خدا کی زمين پر الله تعالیٰ کے شاہد اور حجّت ہيں اور علم حکمت الٰہی کے خزانہ دار ہيں جو شخص بهی ان کی اطاعت کرے اس نے خدا کی اطاعت کی اور جو شخص ان کی نافرمانی کرے اس نے خدا کی نافرمانی کی، پهر سب نے کہا: ہم گواہی دیتے ہيں کہ رسول خدا (ص) نے ان سب باتوں کو فرمایا تها۔ پهر حضرت علی - نے اپنے سوالات کو مسلسل بيان کيا اور کوئی چيز باقی نہيں گزاری مگر یہ کہ ان سے خدا کی قسم دے کر سوال کيا یہاں تک کہ اپنے آخری فضائل و مناقب تک پہنچے جو کچه رسول خدا (ص) نے ان سے بيان کيا تها بہت زیادہ ہے ان سب کی تصدیق کی اور تمام حاضرین نے گواہی دی کہ یہ سب کچه برحق ہے۔ یہی دو مبارک حدیث قرآن مجيد سے گفتگو اور احتجاج کے ذریعہ مناظرہ اور دشمن سے بحث و گفتگو کے باب ميں محکم ترین حجّت اور روشن ترین دليل و برہان کے اثبات کے ليے کافی ہے۔ جس طرح قرآن اپنے ذریعے گفتگو کرنے والوں کے ليے قوی دليل و برہان کی حيثيت رکهتا ہے۔ اسی طرح حضرت حجّت امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف عدل و انصاف کے ساته قائم ہيں۔ کذلک الحجة القائم بالقسط والعدل امام زمان چونکہ ان کا کلام ، کلامِ الٰہی سے کمتر اور انسانوں کے کلام سے بالاتر ہے بلکہ آیہٴ کریمہ ( ١) ان کے کلام کا منتہی کلام الٰہی ہے کی صراحت کی بنا پر پيغمبر اکرم (ص) ہویٰ و ہوس کی وجہ سے کلام نہيں کرتے مگر یہ کہ الله تعالیٰ کی جانب سے وحی ہوچکی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نجم، آیت ٣۔ (
یعنی پيغمبر اکرم (ص) کا کلام، کلامِ الٰہی سے نشاٴة پاتا ہے اور آنحضرت (ص) کے اوصياء و جانشين تمام انبياء کے علوم کے وارث ہيں بالخصوص آنحضرت کے علوم کے وارث ہيں لہٰذا ان کا کلام خواہ احتجاجات کے مقامات ميں ہو خواہ اور دوسرے موضوعات کے سلسلے ميں ہو آنحضرت (ص) کے کلام پر ختم ہوتا ہے اور آنحضرت (ص) کا کلام، وحی الٰہی پر منتہی ہوتا ہے۔ مولف کہتے ہيں: ائمہٴ اطہار عليہم السلام کے احتجاجات کے بارے ميں دو حدیث کو ذکر کرکے اپنی بحث ختم کرتے ہيں کيونکہ ان کے کلمات دشمنوں کی ہدایت اور ان کے جواب کے ليے ادلّہ و براہين قاطعہ کی حيثيت رکهتے ہيں۔ ”وفی الکافی مسنداً عن علی بن منصور قال قال لی ہشام بن الحکم کان بمصر زندیق تبلغہ عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام اشيآء فخرج الی المدینة ليناظرہ فلم یصادفہ بها ، وقيل لہ : انّہ خارج بمکّة ، فخرج الیٰ مکة ونحن مع ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فصادفنا ونحن مع ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فی الطّواف وکان اسمہ عبد الملک وکنيتہ ابو عبد اللّٰہ فضرب کتفہ کتف ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام، فقال لہ ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام ما اسمک ؟ فقال اسمی عبد الملک قال فما کنيتک ؟ قال کنيتی ابو عبد اللّٰہ ، فقال لہ ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام فمن هذا الملک الذی انت عبدہ ، امن ملوک الارض ام من ملوک السمآء ؟ واخبرنی عن ابنک عبد الہ السمآء ام عبد الہ الاٴرض ؟ قل ما شئت تخصم قال ہشام بن الحکم فقلت للزندیق اما ترد عليہ ؟ قال فقبّح قولی ، فقال ابوعبد اللّٰہ عليہ السلام اذا فرغت من الطّواف فاٴتنا فلمّا فرغ ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام اتاہ الزّندیق فقعّد بين یدی ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام ونحن مجتمعون عندہ فقال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام للزندیق اٴتعلم انّ للارض تحتاً وفوقاً؟ قال نعم ؛ قال فدخلت تحتها ؟ قال لا ، قال فما یدریک ما تحتها؟ قال لا ادری الّا انی اظنّ ان ليس تحتها شی ، فقال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام فالظّنّ عجز لما لا تستيقن ، ثمّ قال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام افصعدت السّمآء ؟ قال لا ، قال اٴفتدری ما فيها ؟قال لا، قال عجباً لک لم تبلغ المشرق ولم تبلغ المغرب ولم تنزل الارض ولم تصعد السّمآء ولم تجز هناک فتعرف ما خلفهن وانت جاحد بما فيهنّ وهل یجحد عاقل ما لا یعرف ؟ قال الزّندیق ما کلّمنی بهذا احد غيرک ، فقال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام : فانت من ذلک فی شکّ ، فعلہ هو ولعلّہ ليس هو ؟ فقال الزندیق ولعلّ ذلک ، فقال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام : ایّها الرّجل ، ليس لمن لا یعلم ، حجة علیٰ من یعلم ولا حجّة للجاهل یا اخا اهل مصر تفهّم عنّی فانّا لا نشک فی اللّٰہ ابداً ، اما تری الشمس والقمر والليل والنّهار یلجان فلا یشتهان ویرجعان ؟ قد اضطرّا ليس لهما مکان الّا مکانهما فان کانا یقدران علیٰ ان یذهبا فلم یرجعان؟ وان کانا غير مضطرین فلم لا یصير الليل نهاراً والنهار ليلاً ؟ اضطرّا واللّٰہ یا اخا اهل مصر الیٰ دوامهما والّذی اضطرّهما احکم منهما واکبر ، فقال الزّندیق صدقت ، ثم قال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام : یا اخا اهل مصر، ان الذی تذهبون اليہ وتظنون انّہ الدّهر ان کان الدهر یذهب بهم لهم لا یردهم وان کان یردهم لم لا یذهب بهم ؟ القوم مضطرّون یا اخا اهل مصر ، لم السّمآء مرفوفة والارض موضوعة ؟ لم لا یسقط السّمآء علی الارض ؟ لم لاینحدر الارض فوق طباقها ؟ ولا یتماسکان ولا یتماسک من عليها ؟ قال الزّندیق امسکهما اللّٰہ ربّهما وسيدهما ، قال فآمن الزندیق علی یدی ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام، فقال لہ حمران: جلعت فداک ان آمنت الزّنادقة علیٰ یدک فقد آمن الکفّار علی یدی ابيک ، فقال الموٴمن الّذی آمن علی یدی ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام : اجعلنی من تلامذتک ، فقال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام یا ہشام بن الحکم خذہ اليک وعلّمہ فعلّمہ ہشام ، فکان معلم اهل الشّام واهل مصر ) الایمان وحسنت طهارتہ حتّیٰ رضی بها ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام ” ( ١ کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته علی ابن منصور سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ مجه سے ہشام ابن حکم نے نقل کيا کہ: مصر ميں ایک زندیق (دہریہ) تها کہ جس نے امام جعفر صادق - کی کچه احادیث سنيں تهيں وہ حضرت - سے مناظرہ کرنے مدینہ آیا ليکن ملاقات نہ ہوئی لوگوں نے اس سے کہا کہ حضرت مکہ تشریف لے گئے ہيں وہ مکہ آیا ہم طواف ميں حضرت کے ساته تهے اس زندیق کا نام عبد الملک تها اور کنيت ابو عبدالله تهی اس نے طواف کی حالت ميں اپنے شانہ کو حضرت کے شانہ سے رگڑا تو حضرت - نے اس سے دریافت فرمایا:تمہارا کيا نام ہے؟ جواب دیا: ميرا نام عبد الملک (بادشاہ کا بندہ ) ہے۔ فرمایا: تمہاری کنيت کيا ہے؟ جواب دیا: ابو عبدالله۔ حضرت نے فرمایا: یہ کون بادشاہ ہے کہ جس کا تو بندہ ہے یہ زمين کے بادشاہوں ميں سے ہے یا آسمان کے؟ اور مجهے اپنے بيڻے کے بارے ميں بهی بتا کہ وہ آسمان کے الله کا بندہ ہے یا زمين کے الله کا؟ ان دونوں ميں سے جو بهی تو جواب دے گا ملزم قرار پائے گا (وہ خاموش رہا) ہشام کا بيان ہے کہ ميں نے اس دہریہ سے کہا: تو حضرت کی بات کا جواب کيوں نہيں دیتا؟ اس کو ميرا یہ قول بر امعلوم ہوا۔ امام صادق - نے فرمایا: جب ميں طواف سے فارغ ہوجاؤں تو ميرے پاس آنا۔ چنانچہ جب امام - طواف سے فارغ ہوئے تو دہریہ آیا اور آپ کے سامنے بيڻه گيا ہم سب حضرت کے پاس جمع تهے حضرت نے دہریہ سے دریافت فرمایا: کيا تم جانتے ہو کہ زمين کے ليے تحت و فوق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٧٣ ۔بحار الانوار، ج ٣، ص ۵٢ ۔ (
ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں ، حضرت نے فرمایا: کيا تم زمين کے نيچے گئے ہو اس نے جواب دیا: نہيں، تو حضرت نے فرمایا: پهر تمہيں کيا معلوم کہ زمين کے نيچے کيا ہے؟ اس نے کہا: جانتا تو نہيں ہوں ليکن ميں گمان کرتا ہوں کہ زمين کے نيچے کوئی چيز نہيں ہے۔ امام - نے فرمایا: گمان اس چيز کے بارے ميں عاجزی اور درماندگی ہے کہ جس کے بارے ميں تمہيں یقين نہ ہو، پهر دریافت فرمایا: کيا تم آسمان کے اوپر گئے ہو؟ جواب دیا: نہيں ، دریافت کيا: کيا تم جانتے ہو اس ميں کيا ہے؟ جواب دیا: نہيں ، تو فرمایا: کيسی عجيب بات ہے کہ تم نہ مشرق ميں گئے ہو نہ مغرب ميں، نہ زمين کے اندر گئے نہ آسمان کے اوپر اور جب تم وہاں سے نہيں گزرے اور تم کو پتہ نہيں کہ کيا کيا وہاں پيدا کيا گيا ہے (وہ نظم و تدبير جو صانع حکيم پر دلالت کرتی ہے) تو اس صورت ميں ان چيزوں سے تمہارا انکار کيسا، کيا عقل مند انسان کے ليے جائز ہے کہ جس چيز کو نہيں جانتا اس سے انکار کردے۔ دہریہ نے کہا: آپ کے علاوہ کسی اور نے مجه سے ایسا کلام نہيں کيا، امام - نے فرمایاکہ اس معاملہ ميں تمہيں شک ہے کہ شاید آسمان و زمين ميں کچه ہو یا نہ ہو؟ زندیق نے جواب دیا: شاید ہاں ایسا ہی ہے ، تو امام - نے فرمایا: اے شخص! جو کوئی نہيں جانتا وہ جاننے والے پر حجّت تمام نہيں کرتا جاہل کے ليے تو حجّت ہی نہيں، اے مصری بهائی! مجه سے سنو اور سمجهو ہم کبهی بهی الله کے بارے ميں شک نہيں کرتے۔ کيا تم سورج ، چاند اور رات و دن کو نہيں دیکهتے کہ وہ آتے جاتے ہيں۔ ان کی مقررہ حالت ميں کوئی خطا نہيں ہوتی۔ وہ جاتے ہيں اور پهر پلٹ آتے یہی یہ ان کی اضطراری حالت ہے جو ان کی معين جگہ ہے اس سے ہٹ نہيں سکتے۔ انہيں اس پرقدرت نہيں کہ جاکر واپس نہ آئيں۔ اگر غير مضطر ہوتے تو رات دن نہ بنتی اور دن رات ميں نہ بدلتا؟ اے مصری بهائی! خدا کی قسم! یہ دونوں ہميشہ سے اپنی حالت ميں مضطر ہيں اور جس نے انہيں مضطر بنایا ہے وہ ان سے زیادہ طاقت ور اور بڑا حاکم ہے۔ زندیق نے کہا: آپ نے سچ فرمایا: پهر امام - نے فرمایا: اے مصری بهائی ! لوگ جس طرف جا رہے ہيں اور گمان کرتے ہيں کہ وہ دہر ہے اگر دہر ان لوگوں کو لے جاتا ہے تو پهر ان کو لوڻاتا کيوں نہيں؟ اور اگر لوڻاتا ہے تو پهر وہ ان کی طرف لے کيوں نہيں جاتا؟ اے مصری بهائی! لوگ مضطر ہيں کيوں آسمان کو بلند کيا اور زمين کو بچهایا؟ آسمان زمين پر کيوں نہيں گر پڑتا؟ اور زمين اپنے طبقات کو لے کر دهنس کيوں نہيں جاتی اورآسمان سے بهی متصل ہوتی اور جو لوگ اس کے اوپر ہےں آپس ميں متصل نہيں ہوتے؟ وہ دہریہ امام - کے ذریعہ ایمان لایا اور کہا: وہ خدا جو زمين و آسمان کا پروردگار اور سرپرست ہے اس کو سنبهالے ہوئے ہے، حمران جو مجلس ميں موجود تهے کہا: ميں آپ پر فدا ہوں زنادقہ و دہریے آپ کے ذریعے ایمان لائے اور کفار آپ کے پدر بزرگوار کے وسيلہ سے۔ پهر اس نئے مومن نے عرض کيا: مجهے آپ اپنے شاگردوں ميں سے قرار دیں، امام - نے ہشام سے فرمایا: ان کو اپنے ساته رکهو اور انہيں تعليم دو، ہشام جنہوں نے اہل شام اور مصر کو ایمان کی تعليم دی اسے بهی تعليم دی تاکہ اس کا عقيدہ پاکيزہ ہوجائے اور امام صادق - خوش حال ہوئے۔ مولف کہتے ہيں: “کان” کی ضمير شاید نئے مومن کی طرف پلڻے گی، یعنی امام جعفر صادق - کے ذریعہ ایمان لانے کے بعد اپنے مکان پر گيا اور اہل شام و مصر کا معلم ہوا اور ان لوگوں کو ایمان کی تلقين و تعليم دی۔ مولف کہتے ہيں: حضرت امام جعفر صادق - نے ایک دہریہ اور خدا کی معرفت نہ رکهنے والے کے ساته مناظرہ کی روش ميں ابتدا ہی سے اسے کيسے ملزم قرار دیا اور اسے توحيد اور ایمان کی طرف لائے اس ميں چند نکات معلوم ہوتے ہيں جو قابل ذکر ہيں: ١۔ امام جعفر صادق - کے جذّاب مطالب کی طاقت جو پہلے سے اس تک پہنچ چکی تهی اس کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ ان کے اثر کی وجہ سے جو ولایت کی کرن اس کے ضمير پر چمکی تهی جو اس بات کا سبب ہوئی کہ اسے حضرت - کے ساته مناظرہ کرنے کے ليے مدینہ تک کهينچ کر لائی۔ ٢۔ امام - کا حلم اور بردباری نيز ان کی الٰہی سياست جو طواف کے وقت اس نے اپنے شانہ کو حضرت کے شانہ سے ملایا تو حضرت - نے کسی چوں چرا اور عکس العمل کے بغير اس کا نام اور کنيت دریافت فرمائی اور اس نے جواب دیا: ميرا نام عبد الملک (باد شاہ کا بندہ) ہے ميری کنيت ابو عبد الله (بندہٴ خدا کا باپ) ہے حضرت نے فرمایا: یہ کون بادشاہ ہے جس کا تو بندہ ہے یہ زمين کے بادشاہوں ميں سے ہے یا آسمان کے؟ اور مجهے اپنے بيڻے کے بارے ميں بهی بتا کہ وہ آسمان کے الله کا بندہ ہے یا زمين کے الله کا؟ امام صادق - اس طرح بحث ميں وارد ہوئے کہ اس کو چاروں طرف سے اپنی گفتگو کے حصار ميں لے ليا تو پهر حضرت نے فرمایا: تم جو بهی جواب دو ملزم قرار پاؤ گے۔ ٣۔ حضر ت کا طریقہ و طرز استدلال بہت سبق آموز روشن اور متعين و لطيف ہے۔ اور ہر دانشور کے ليے جو چاہتا ہے کہ اصول و اعتقادات یا ہرموضوع ميں اپنے دشمن سے بحث و گفتگو اور مناظرہ کرے قابل تعریف ہے، کيوں کہ مصداق ( ١) کو بہ نحو اتم و اکمل اپنے پُر مغز اور دل نشين کلمات سے مجسم فرمایا اور معاشرتی آداب کی رعایت کے ساته ایک دہریہ اور خدا کی معرفت نہ رکهنے والے اور خدا پرستوں سے بيزار انسان کی دلجوئی کرتے ہوئے اپنے استدلال کے ہر جملے ميں اس کو مصری بهائی سے خطاب کرتے ہيں اور کبهی بهی اپنی زبان پر نازیبا اور سخت بات نہيں لاتے، لہٰذا حضرت کے دست پُر برکت پر اسلام و ایمان کے درجہ پر فائز ہوا اور امام کے حکم سے ہشام ابن حکم کے زیر تعليم قرار پایا اور خود اہل شام و مصر کا استاد بن گيا اور انہيں ایمان کی تعليم دی۔ ١٧٨ ۔ “وفيہ عن عبد الاعلیٰ مولی آل سام عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال: انّ یهودیاً یقال لہ سبخت جآء الیٰ رسول اللّٰہ (ص) ، فقال : یا رسول اللّٰہ جئت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نمل، آیت ١٢۵ ۔ (
اساٴلک عن ربّک فان انت اجبتنی عمّا اسئلک عنہ والاّ رجعت قال (ص) : سل عمّا شئت قال: این ربّک ؟ قال: هو فی کلّ مکان ليس فی شیء من المکان المحدود قال: وکيف هو ؟ قال (ص) : وکيف اصف ربّی بالکيف والکيف مخلوق واللّٰہ لا یوصف بخلقہ قال : فمن این یعلم انک نبی اللّٰہ؟ قال: فما بقی حولہ حجر ولا غير ذلک الا تکلم بلسان عربی مبين : یا سبخت انہ رسول اللّٰہ فقال سبخت : ما راٴیت کاليوم امراً ابين من هذا، ) ثم قال : اشهد ان لا الہ الاّ اللّٰہ انت وانّک رسول اللّٰہ ” ( ١ کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته عبد الاعلی مولائے آل سام سے نقل کيا ہے کہ اس کا بيان ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: ایک یہودی سبخت نامی حضرت رسول خدا (ص) کی خدمت ميں آیا اور عرض کيا: اے رسول خدا (ص)! ميں اس ليے حاضر ہوا تاکہ آپ سے آپ کے پروردگار کے بارے ميں سوال کروں اگر آپ نے ميرے سوال کا جواب دیا تو قبول کروں گا ورنہ واپس چلا جاؤں گا آنحضرت (ص) نے فرمایا: جو چاہو پوچه لو، اس نے دریافت کيا: ميں اپنے رب کی کيفيت کيوں کر بتاؤں کيفيت تو اس کی مخلوق ہے اور مخلوق کے وصف سے اس کی تعریف و توصيف نہيں ہوسکتی (کيوں کہ ہر چيز کی تعریف و توصيف خود اسی سے مخصوص ہے اور دوسری شے جو اس وصف کی حامل نہيں ہے اس ليے اس کی تعریف و توصيف نہيں کی جاسکتی) اس نے دریافت کيا: پهر کيسے معلوم ہوگا کہ آپ الله کے نبی ہيں؟ جيسے ہی یہ کہا توکوئی پتهر یا اور بهی دوسری چيزیں ان کے اطراف ميں ایسی نہيں تهيں جس نے صاف اور فصيح عربی ميں یہ نہ کہا ہو: اے سبخت! یہ الله کے رسول ہيں۔ یہ سن کر سبخت نے کہا: ميں نے آج سے زیادہ اس معاملہ ميں واضح مطلب نہيں دیکها پهر کہا: ميں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٨۴ ۔ (
گواہی دیتا ہوں کہ الله کے علاوہ کوئی معبود نہيں ہے اور آپ الله کے رسول ہيں۔ ١٧٩ ۔ “وفی الاحتجاج : انّ بعض الاٴحبار جاء الیٰ ابی بکر ، فقال لہ: انت خليفة نبی هذہ الامّة ؟ فقال: نعم قال:فانّا نجد فی التوراة انّ خلفاء الانبياء اعلم اممهم فخبّرنی عن اللّٰہ این هو اٴفی السّماء هو ام فی الاٴرض ؟ فقال لہ ابو بکر: فی السّمآء علی العرش قال اليهودیّ : فاٴری الارض خالية منہ واراہ علی هذا القول فی مکان دون مکان ، فقال ابو بکر : هذا الکلام الزّنادقة اعزب عنّی والا قتلتک فولّی الرجل متعجباً یستهزی بالاسلام فاستقبلہ امير المومنين عليہ السلام فقال لہ : یا یهودی قد عرفت ما سئلت عنہ وما اجبت بہ وانّا نقول انّ اللّٰہ عزّوجلّ این الاٴین فلا این لہ وجلّ ان یحویہ مکان وهو فی کلّ مکان بغير مماسّة ولا مجاورة یحيط بها علماً بما فيها ولا یخلو شی من تدبيرہ تعالیٰ وانّی مخبرک بما جآء فی کتاب من کتبکم یصدّق ما ذکرتة لک فان عرفتہ اٴتومن بہ قال اليهودی : نعم قال: الستم تجدون فی بعض کتبکم انّ موسیٰ بن عمران کان ذات یوم جالساً اذ جائہ ملک من المشرق ، فقال لہ : من این جئت ؟ قال : من عند اللّٰہ وجآئہ ملک آخر من المغرب ، فقال لہ : من این جئت فقال من عند اللّٰہ ثم جآئہ ملک، فقال : من این جئت فقال : قد جئتک من السّمآء السّابعة من عند اللّٰہ عزّوجلّ وجآء ملک آخر، قال : قد جئتک من الارض السّابعة السّفلی من عند اللّٰہ عزّوجلّ فقال موسیٰ عليہ السلام سبحان من لا یخلو منہ مکان ولایکون الیٰ مکان اقرب من مکان فقال اليهودی : اشهد انّ هذا هو الحقّ المبين وانّک احقّ بمقام نبيّک ممّن استولیٰ عليہ )١) ” علامہ طبرسی رحمة الله عليہ نے اپنی کتاب احتجاج ميں نقل کيا ہے کہ: یہودیوں کے علماء ميں سے ایک عالم ابوبکر کے پاس آیا اور کہنے لگا: کيا آپ اس امت کے نبی کے خليفہ ہيں؟ جواب دیا: جی ہاں ، تو وہ کہنے لگا کہ ہم نے توریت ميں یہ لکها ہوا دیکها ہے کہ انبياء کے خلفاء ان کی امتوں سے زیادہ عالم ہوتے ہيں تو مجهے الله کے بارے ميں خبر دیں کہ وہ کہاں ہے وہ آسمان ميں ہے یا زمين ميں؟ ابوبکر نے جواب دیا: وہ آسمان ميں عرش پر ہے تو یہودی نے کہا: تو ميں سمجهتا ہوں کہ پهر زمين تو اس سے خالی ہے اور اس قول کی بنا پر ميں سمجهتا ہوں کہ وہ ایک مکان ميں ہے نہ کہ دوسرے ميں تو ابوبکر اس سے کہنے لگے کہ: یہ زندیقوں (دہریوں) کی گفتگو ہے مجه سے دور ہوجاؤ ورنہ ميں تجهے قتل کردوں گا۔ پهر وہ عالم تعجب کرتے ہوئے واپس ہوا اور اسلام (خليفہ کے علم و کردار) کا مذاق اڑاتے ہوئے واپس ہو ہی رہا تهاکہ اسی اثنا ميں امير المومنين - اس تک پہنچے اور فرمایا: اے یہودی! مجهے معلوم ہوا ہے جو تونے سوال کيا اور جو تجهے جواب ملا اور ہم تو کہتے ہيں کہ خدا نے این کو این کيا ہے (یعنی کہاں کو کہاں کيا ہے) اس ليے کوئی این نہيں ہے اور وہ اس سے بلند و برتر ہے کہ کوئی مکان اس کو گهيرلے اور وہ ہر مکان ميں ہے بغير اس سے مس ہونے اور بغير اس ميں پناہ لينے کے اس کا علم محيط ہے اس کو جو اس ميں ہے جگہوں ميں سے کوئی جگہ اس کی تدبير سے خالی نہيں اور ميں تجه کو اس چيز کی خبر دیتا ہوں جو تمہاری کتابوں ميں سے ایک کتاب ميں ذکر ہوئی ہے اور وہ ميری اس بات کی تصدیق کرتی ہے جو ميں نے تجه سے بيان کی ہے اگر تم اس کو جان لو تو کيا تم اس پر ایمان لے آؤ گے؟ جواب دیا: جی ہاں! حضرت نے فرمایا: تم اپنی بعض کتابوں ميں نہيں پاتے کہ موسی ابن عمرا ن - ایک دن بيڻهے ہوئے تهے کہ اچانک ان کے پاس مشرق کی طرف سے ایک فرشتہ آیا تو جناب موسیٰ نے اس سے دریافت کيا : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ احتجاج، ج ١، ص ٢١٣ ۔ بحار الانوار، ج ٣، ص ٣٠٩ ۔ (
کہاں سے آرہے ہو؟ تو اس نے جواب دیا: الله کے پاس سے، پهر آپ کے پاس مغرب سے ایک فرشتہ آیا، تو آپ نے پوچها: کہاں سے آرہے ہو؟ اس نے بهی یہی جواب دیا کہ الله کے پاس سے، پهر ان کے پاس ایک اور فرشتہ آیا تو آپ نے دریافت کيا: کہاں سے آنا ہوا؟ اس نے بهی یہی جواب دیا کہ الله کے پاس سے، پهر ان کے پاس ایک اور فرشتہ آیا تو اس نے جواب دیا: ساتویں آسمان سے خدائے بزرگ و برتر کے پاس سے آرہا ہوں ، پهر ان کے پاس ایک اور فرشتہ آیا تو اس نے کہا کہ ميں زمين کے ساتویں طبقے سے الله کے پاس سے آرہا ہوں تو جناب موسیٰ نے عرض کيا: وہ ذات منزہ ہے کہ جس سے کوئی مکان خالی نہيں اور جو ایک مکان کی بہ نسبت دوسرے مکان سے زیادہ قریب نہيں ہے یہ سن کر یہودی کہنے لگا: ميں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ یہ حق واضح وآشکار ہے اور آپ مقام منصب نيابت نبی کے زیادہ حق دار ہيں بہ نسبت اس کے جو اس پر غلبہ کرکے بيڻها ہوا ہے۔ مولف کہتے ہيں: جس طرح قرآن مجيد کی آیات حجّت قاطعہ ہيں ائمہٴ ہدی کے گُہر بار کلمات بهی حجّت قاطعہ اور براہين واضحہ ہيں جو راہ حق سے گمراہ ہوجانے والوں کو شاہراہِ ہدایت پر گامزن کرکے نجات بخشتے ہيں۔
۱۲
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
٢۔ شاہد / ٣۴ ٣۴ ۔ و شاهدا لمن خاصم بہ (اور مناظرہ کرنے والوں کے ليے شاہد ہے( قرآن کریم شاہد، دليل و رہنما اور رہ گشا ہے ان لوگوں کے ليے محکم ہے جو اس سے استدلال کرتے ہيں اور دشمن سے مناظرہ کرنے والوں کے ليے گواہ ہے۔ ”و فی ثوا ب الاعمٰال : باسنادہ عن منهال القصاب عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال : من قرء القرآن وهو شاب موٴمن اختلط القرآن بلحمہ ودمہ وجعلہ اللّٰہ مع السّفرة الکرام البررة وکان القرآن حجيزاً عنہ یوم القيٰمة ویقول : یا ربّ انّ کلّ عامل قد اصاب اجر عملہ غير عامل فبلّغ بہ کریم عطایاک فيکسرہ اللّٰہ عزّوجلّ حلّتين من حلل الجنّة ، ویوضع علی راسہ تاج الکرامة ، ثمّ یقال : هل ارضيناک فيہ ؟ فيقول القرآن : یا ربّ قدکنت ارغب لہ فيما هو افضل من هذا، قال فيعطی: الاٴمن بيمينہ والخلد بيسارہ ، ثمّ یدخل الجنّة ، فيقال : لہ اقرء آیة واصعد درجة، ثمّ یقال لہ : بَلغنا بہ وارضيناک فيہ فيقول : اللهمّ نعم قال من قراٴہ کثيراً وتعاهدہ مشقة من شدّة حفظہ ) اعطاہ اللّٰہ اجر هذا مرّتين ” ( ١ محدث جليل القدر شيخ صدوق عليہ الرحمہ کتاب ثواب الاعمال ميں اپنی سند کے ساته منهال قصاب سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: جو مومن جوانی کی حالت ميں قرآن پڑهے گا قرآن اس کے گوشت و خون ميں داخل ہوجائے گا اور خدا اس کو اپنے برگزیدہ پيغمبروں کے ساته رکهے گا نيز قرآن اس کو روز قيامت (آتش جہنم کے) عذاب سے روکنے والا بن جائے گا اور کہے گا: اے ميرے پروردگار! ہر عمل کرنے والا اجر تک پہنچ گيا سوائے مجه پر عمل کرنے والے کے لہٰذا اس کو بہترین بخشش عطا کر امام - نے فرمایا: الله تعالیٰ اس کو جنت کے دو حلّے پہنائے گا اور اس کے سر پر تاج کرامت رکهے گا کيا ہم نے تجهے راضی کردیا ، قرآن جواب دے گا: اے ميرے پروردگار ! ميں تو اس کے ليے اس سے زیادہ چاہتا ہوں ، لہٰذا خدا اس کو اس کے داہنے ہاته ميں دے گا اور خلد کو بائيں ہاته ميں پهر وہ جنت ميں داخل ہوگا اس سے کہا جائے گا: قرآن پڑهو اور بلند درجہ حاصل کرو۔ پهر (قرآن سے) کہا جائے گا: ہم نے تجه پر عمل کرنے والوں کا حق پورا کردیا اور تجهے راضی کردیا؟ قرآن کہے گا: اے ميرے پروردگار! مجهے ان سے اس سے زیادہ بہتر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ثواب الاعمال، ص ١٠٠ ۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٣ ۔ بحار الانوار، ج ٧، ص ٣٠۵ ۔ (
اميدیں وابستہ تهی، راوی کا بيان ہے کہ: امام - نے فرمایا: امان نامہ کو داہنے ہاته ميں اور بہشت کا دائمی پروانہ بائيں ہاته ميں دیا جائے گا پهر وہ بہشت ميں داخل ہوگا اور اس ے کہا جائے گا کہ ایک آیت پڑهو اور ایک درجہ اوپر جاؤ پهر قرآن کو خطاب کيا جائے گا: اس کی جزا ہم نے عطا کردی ہے اور تمہيں راضی کردیا ہے۔ وہ عرض کرے گا: ہاں ميرے پروردگار۔ امام - نے فرمایا: جو قرآن کو زیادہ پڑهے گا اور اس کو یاد کرنے ميں زیادہ زحمت و مشقت اڻهائے گا تو خداوند متعال اس کو دوگنا اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔ مولف کہتے ہيں: پيغمبر اکرم (ص) کا مقدس وجود قرآن کی صریحی نص اور محکم الٰہی خطاب سے شاہد اور مبشر و نذیر ہے جيسا کہ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ١) (اے پيغمبر! ہم نے آپ کو گواہ ، بشارت دینے والا، عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اور خدا کی طرف اس کی اجازت سے دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بهيجا ہے)۔ اور اسی طرح پيغمبر عظيم الشان کے مخصوص اوصيائے گرامی کے حقيقی وارث ہيں اور ہر جہت سے ان افراد پر شاہد و ناظر ہيں جو ان کے ساته باہمی خصومت و عداوت رکهے۔ ١٨٠ ۔ زیارت جامعہٴ کبيرہ ميں ہم پڑهتے ہيں: “انتم الصّراط الاٴقوم وشهدآء دارالفناءِ وشفعآء دار البقاء ” آپ ہی صراط مستقيم کے گواہ اور دار بقا کے شفيع ہيں۔ ١٨١ ۔ حضرت امير المومنين کی چهڻی زیارت مطلقہ ميں وارد ہوا ہے: “اللّهم صلّ علی امير الموٴمنين عبدک المرتضی الیٰ قولہ: اٴخی نبيّک ووصیّ رسولک البائت علیٰ فراشہ والمواسی لہ بنفسہ وکاشف الکرب عن وجهہ الذی جعلتہ سيفاً لنبوتہ وآیة لرسالتہ وشاهداً ) علیٰ امتہ الخ ” ( ٢ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١٨٢ ۔ “ وفی بصائر الدّرجات :باسنادہ عن ابی بصير عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فی قول اللّٰہ تبارک وتعالیٰ ( ١) قال نحن ) الشهداء علی النّاس بما عندهم من الحلال والحرام وما ضيّعوا منہ ” ( ٢ محدّث جليل شيخ القميين، ابو جعفر محمد ابن حسن صفّار نے بصائر ميں اپنی سند کے ساته ابو بصير سے روایت نقل کی ہے کہ امام جعفر صادق - نے الله تعالیٰ کے اس قول (اور بخوبی قبلہ کی طرف تم کو درميانی امت قرار دیا تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو) کے بارے ميں فرمایا: ہم تمام لوگوں پر گواہ ہيں جو کچه ان کے پاس حلال و حرام ہے اور جو کچه ان لوگوں نے اس (حلال و حرام) سے ضائع کردیا ہے۔ ١٨٣ ۔ “ وفيہ باسنادہ عن ابی بصير عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام < وَکَذَلِکَ جَعَلنَْاکُم اٴُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَيکُْم شَہِيدًا> قال نحن الامة الوسط ونحن ) شهدائہ علی خلقہ وحجّتہ فی ارضہ ” ( ٣ پهر اسی کتاب ميں اپنی سند کے ساته امام جعفر صادق - سے مذکورہ آیہٴ کریمہ کے بارے ميں نقل کيا ہے کہ حضرت - نے فرمایا: ہم امت وسط ہيں ہم الله کی طرف سے اس کی مخلوق پر گواہ ہيں اور اس کی زمين پر اس کی برحق حجّت ہيں۔ ١٨۴ ۔ “وفيہ باسنادہ عن سليم بن قيس الهلالی عن امير الموٴمنين - صلوات اللّٰہ عليہ - قال انّ اللّٰہ طهّرنا وعصمنا جعلنا شهدآء علیٰ خلقہ وحجتہ فی ارضہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
) وجعلنا مع القرآن وجعل القرآن معنا لا نفارقہ ولا یفارقنا ” ( ١ نيز صاحب بصائر نے اپنی سند کے ساته سليم ابن قيس ہلالی سے انہوں نے امير المومنين علی - سے نقل کيا ہے کہ حضرت - نے فرمایا: الله تعالیٰ نے ہم کو تمام آلودگيوں سے پاک کيا ہے اور معصوم بنایا ہے اپنی مخلوق پر گواہ قرار دیا ہے نيز زمين پر اپنی حجّت بنایا ہے اور قرآن کو ہمارے ساته کيا ہے اور ہميں قرآن کے ہمراہ ، نہ ہم اس سے جدا ہوں گے نہ وہ ہم سے۔ اور الله تعالیٰ کے اس قول : ( ٢) کيا جو شخص اپنے رب کی طرف سے کهلی دليل رکهتا ہے اور اس کے پيچهے اس کا گواہ بهی ہے۔ ١٨۵ ۔ “ فی الکافی باسنادہ عن احمد بن عمر الخلاّٰل قال: ساٴلت ابا الحسن عليہ السلام عن قول اللّٰہ عزوجلّ فقال : امير ) الموٴمنين عليہ السلام هو الشاهد من رسول اللّٰہ (ص) و رسول اللّٰہ علیٰ بينة من ربّہ ” ( ٣ صاحب کافی نے اپنی سند کے ساته احمد بن عمر خلال سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتے ہيں : ميں نے ابو الحسن امام رضا - سے الله تعالیٰ کے اس قول کے بارے ميں دریافت کيا تو فرمایا: امير المومنين - رسول الله (ص) کی رسالت کے گواہ ہيں اور رسول الله کی طرف سے بيّنہ ہيں۔ ١٨۶ ۔ “وفی امالی الشيخ باسنادہ عن عبد الرّحمٰن بن کثير عن جعفر بن محمّد بن علی ابيہ عن جدّہ علی بن الحسين عن الحسن ( عليہم السلام ) فی خطبة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طویلة خطبها بمحضر معاویة : فاٴدّت الامور وافضت الدهور الیٰ ان بعث اللّٰہ محمداً (ص) للنبوة واختارہ للرّسالة وانزل عليہ کتابہ ثمّ امرہ بالدّعا الیٰ اللّٰہ عزّوجلّ ولرسولہ واوّل من آمن و صدق اللّٰہ و رسولہ وقد قال اللّٰہ عزوجلّ فی کتابہ المنزل علی نبيّہ المرسل فرسول اللّٰہ الذی علی بينّة من ربہ وابی الذّی یتلوہ وهو شاہد منہ ” ( ١ کتاب امالی ميں ہمارے بزرگوار شيخ جليل علامہ طوسی رحمة الله عليہ نے اپنی سند کے ساته حضرت امام جعفر صادق - سے انہوں نے اپنے پدر گرامی سے انہوں نے اپنے جد بزرگوار علی ابن الحسين سے انہوں نے امام حسن مجتبیٰ سے معاویہ سے صلح کے متعلق طولانی خطبہ ميں نقل کيا ہے کہ حضرت - نے فرمایا: امور یہاں تک پہنچ گئے اور زمانہ گزر گيا یہاں تک کہ الله تعالیٰ نے حضرت محمد (ص) کو نبوت کے ليے مبعوث کيا اور رسالت کے ليے اختيار کيا آپ پر اپنی کتاب نازل کی۔ پهر حکم دیا تاکہ (لوگوں کو) خدا اور اس کے رسول کی طرف دعوت دیں وہ سب سے پہلے فرد تهے جو ایمان لائے خدا اور اس کے رسول کی تصدیق کی خدائے بزرگ و برتر نے اپنے پيغمبر مرسل پر نازل کی ہوئی کتاب (قرآن) ميں فرمایا “کيا جو شخص اپنے رب کی طرف سے کهلی دليل رکهتا ہے اور اس کے پيچهے اس کا گواہ بهی ہے ” لہٰذا رسول اسلام کی ذات وہ ہے جو الله تعالیٰ کی طرف سے بيّنہ کی حامل ہے اور ميرے والد گرا می وہ ہيں جو ان کے پيچهے ان کے شاہد ہيں۔ ١٨٧ ۔ “وفی الدّر المنثور : اخرج ابن ابی حاتم وابن مردویہ وابو نعيم فی المعرفة عن علیّ بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ قال: ما من رجل من قریش الاّ نزل فيہ طائفة من القرآن فقال لہ رجل ما نزل فيک ؟ قال : اٴما تقرء سورة هود رسول اللّٰہ (ص) علیٰ بينة من ربّہ وانا شاهد منہ” ( ١ سيوطی نے اپنی تفسير الدر المنثور ميں تحریر کيا ہے کہ ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور ابو نعيم نے علی ابن ابی طالب (رضی الله عنہ) کی شناخت و معرفت کے بارے ميں نقل کيا ہے کہ فرمایا: قریش ميں سے کوئی شخص نہيں پيدا کيا جاسکتامگر یہ کہ اس کے حق ميں بعض قرآنی آیات اس کے حق ميں نازل ہوئی ہوں۔ ایک شخص نے ان (علی -) سے عرض کيا: آپ کی شان ميں کيا نازل ہوا ہے؟ فرمایا: کيا تم نے سورئہ ہود نہيں پڑهی ہے کہ الله فرماتا ہے: رسول خدا الله تعالیٰ کی طرف سے بيّنہ و برہان ہيں اور ميں شاہد ہوں۔ ١٨٨ ۔ “وفی الشواهد التنزیل عن ابن المغازلی باسنادہ عن علیّ بن عابس قال : دخلت انا وابو مریم علیٰ عبد اللّٰہ بن عطآء قال ابو مریم : حدّث علينا الحدیث الذی حدثتنی بہ عن ابی جعفر قال: کنت عند ابی جعفر جالساً اذمرّ علينا عبد اللّٰہ بن سلام قلت: جعلت فداک هذا ابن الذی عندہ علم الکتاب قال: لا ولٰکنّہ صاحبکم علیّ بن ابيطالب الّذی نزلت فيہ آیات من کتاب اللّٰہ تعالیٰ ( ٢ شواہد التنزیل ميں حاکم حسکانی نے ابن مغازلی سے اپنی سند کے ساته علی ابن عابس سے نقل کيا ہے کہ انہوںنے کہا: ميں اور ابو مریم عبد الله ابن عطاء کے پاس گئے تو ابو مریم نے (عبد الله ابن عطاء) سے عرض کيا: وہ حدیث جو ابو جعفر سے ميرے ليے نقل کی تهی اسے بيان کریں۔ عبدالله نے کہا : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الدّر المنثور، ج ٣، ص ٣٢۴ ۔ ( ٢(۔ شواہد التنریل، ج ١، ص ۴٠٣ ۔ تفسير الميزان، ج ١١ ، ص ٢٨٩ ۔ (
ميں ابو جعفر کے پاس بيڻها ہوا تها تو اچانک عبد الله ابن سلام کا ہماری طرف سے گزر ہوا ميں نے عرض کيا: ميں آپ پر قربان جاؤں کيا یہ اس شخص کا فرزند ہے کہ جس کے پاس علم الکتاب ہے؟ فرمایا: نہيں ليکن وہ (شخص) تمہارا مولا علی ابن ابی طالب - ہے کہ اس کی شان ميں کتاب خدا (قرآن مجيد) کی متعدد آیات نازل ہوئی ہيں من جملہ ان ميں سے یہ کہ اس کے پاس تمام کتاب کا علم ہے اور آیہٴ < اٴَفَمَن کَانَ عَلَی بَيِّنَةٍ مِن رَبِّہِ وَیَتلُْوہُ شَاہِدٌ مِنہُْ ( ١ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ توبہ، آیت ١٠۵ ۔ (
اور پيغمبر کہہ دیجيے (جو کچه نيک و بدکردار ميں سے ) تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمہارے عمل کو الله ، رسول اور صاحبان ایمان سب کچه دیکه رہے ہيں اور عنقریب تم اس خدائے عالم الغيب و الشهادہ کی طرف پلڻائے جاؤ گے اور وہ تمہيں تمہارے اعمال سے باخبر کرے گا۔ ١٩٢ ۔ “ قال الصادق عليہ السلام لداوٴد الرقّی لقد عرضت اعمالکم علی یوم الخميس ) فراٴیت فيما عرض من عملک لابن عمّک فلان فسّرنی ذلک ” ( ١ امام صادق - نے داؤد رقّی سے فرمایا: تمہارے اعمال ہر جمعرات کے دن ہمارے پاس پيش کيے جاتے ہيں تمہارے اعمال کے درميان تمہارے چچا کے فرزند کی مدد بهی تهی لہٰذا مجهے اسی طرح خوش حال کيا۔ ١٩٣ ۔ “والرضوی عليہ السلام : انا معشر الائمّة تعرض علينا اعمال شيعتنا صباحاً ومساء ” )٢) حضرت امام رضا - نے فرمایا: اے لوگو! تمہارے اعمال روزانہ صبح و شام ہمارے سامنے پيش کيے جاتے ہيں۔ ١٩۴ ۔ “ وفی کنز الکراجکی عن رسول اللّٰہ (ص) قال تعرض اعمال الناس فی کل جمعة مرتين یوم الاثنين ویوم الخميس فيغفر لکل عبد موٴمن الامن کانت بينہ وبين اخيہ شحناء فيقال ) اترکوا هذین حتٰی یصطلحا ” ( ٣ صاحب کنز الکراجکی نے رسول خدا (ص) سے نقل کيا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: ہر ہفتہ دو مرتبہ دو شنبہ اور جمعرات کے دن تمہارے اعمال پيش کے جاتے ہيں تو ہر مومن کے ليے استغفار کيا جاتا ہے مگر یہ کہ اس کے اور اس کے بهائی کے درميان عداوت و دشمنی ہو۔ پس کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں کو چهوڑ دو یہاں تک کہ دونوں کے درميان صلح و مصالحت ہوجائے۔ اعمال پيش ہونے کی روایات مختلف اوقات کے شب و روز ميں، ہر ہفتہ مہينہ اور سال ميں ائمہٴ اطہار کی خدمت اقدس ميں پيش کيے جانے کے متعلق بہت زیادہ ہيں ہم نے تبرکاً چند روایت کی طرف اشارہ کيا اور ان سب کے مضمون و مطالب سے اس طرح استفادہ ہوتا ہے کہ وہ عظيم ہستياں ہمارے نيک اعمال سے مسرور اور خوش حال ہوتی ہيں اور ہمارے ناشائستہ کردار سے ناراض اور غمگين ہوکر طلب مغفرت کرتی ہيں۔ وفّقنا اللّٰہ وجميع الموٴمنين لکل عمل یسرّ محمداً وآل محمّد عليہم السلام آمين“ الله تعالیٰ ہميں اور تمام مومنين کو ہراس عمل کی توفيق کرامت فرمائے جو محمد و آل محمد کے ليے خوش حال ہونے کا باعث ہو۔ آمين ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امالی طوسی، ص ۴١٣ ۔ الخرائج و الجرائح، ج ٢، ص ۶١٢ ۔ ( ، ٢(۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج ٣، ص ۴۵٣ ۔ مستدرک الوسائل، ج ١٢ ، ص ١۶۴ ۔ سفينة البحار، ج ٢ ( ص ١٧٧ ۔ ٣(۔ کنز الفوائد، ص ١۴١ ۔ مستدرک الوسائل، ج ١٢ ، ص ١۶۵ ۔ (
٢۔ فتح و ظفر / ٣۵ ٣۵ ۔ و فلجاً لمن حاجّ بہ (بحث کرنے والوں کی کاميابی کا ذریعہ( قرآن مجيد نجات اور دشمن پر فتح و ظفر کا باعث ہے یعنی جو شخص بهی قرآن اور اس کی آیات و براہين کے ساته ہے گفتگو و احتجاج کرے تو وہ اپنے ہدف و مقصد تک پہنچے گا اور اپنے مخالف پر غالب آئے گا۔ ١٩۵ ۔ “روی فی البحار من کنز الفواید باسنادہ عن ابی جعفر عليہ السلام قال یا معشر الشيعة خاصموا بسورة < انّا انزلناہ فی ليلة القدر >تفلحوا فوالله انّها لحجة اللّٰہ تبارک و تعالیٰ علی الخلق بعد رسول اللّٰہ (ص) وانّها لسيّدة دینکم انّها لغایة علمنا یا معشر الشيعة خاصموا ) فانّها لو لاة الامر خاصّة بعد رسول اللّٰہ (ص) ” ( ١ محدّث بزرگوار علامہ مجلسی رحمة الله عليہ نے کنز الفوائد سے اپنی سند کے ساته امام محمد باقر - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: اے گروہ شيعہ! سورئہ انا انزلنا کے ذریعہ تم اپنے مخاطبين سے مناظرہ کرو تاکہ اپنے مدّ مقابل پر غالب اور کامياب ہوجاؤ۔ خدا کی قسم ! یہ مبارک سورہ رسول خدا کے بعد الله تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اس کی حجّت ہے اس کی مخلوق پر اور یہ تمہارے دین کا سردار ہے اور ہمارے علم کی انتہا ہے۔ اے گروہ شيعہ! تم سورہ دخان (حمٓ و الکتاب المبين) کے ذریعہ مخالفين سے بحث کرو کيونکہ یہ سورئہ مبارکہ رسول خدا (ص) کے بعد واليان امر کے بارے ميں مخصوص ہے۔ حضرت امام محمد باقر - نے مذکورہ روایت ميں شيعہ گروہ کو جو راسخ اعتقاد و ایمان کے حامل ہيں حضرت علی ابن ابی طالب - کی بلافصل امامت و خلافت اور ان کے گيارہ فرزند گرامی جو سب کے سب آسمان ولایت کے درخشان ستارے ہيں مخاطب قرار دیا ہے اور اپنے مخالف سے احتجاج کے طریقے کو ان دونوں سورہ کے ذریعے انہيں تعليم دیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٢۵ ، ص ٧٢ ۔ تفسير نور الثقلين، ج ۴، ص ٣۵٨ ۔ (
٢۔ حافظ / ٣۶ ٣۶ ۔ و حاملا لمن حملہ (اڻهانے والوں کے ليے بوجه بڻانے والا( قرآن حمل کرنے سے مراد اس کے مطالب و مضامين اور اوامر و نواہی اور احکام و قوانين پر عمل کرنا ہے، جو شخص ان معانی کا حامل اور اس کے احکام کی پيروی کرے تو قرآن مجيد بهی اس کو حمل کرے گا یعنی اس کو مقدس منازل اور بہشتی کمروں کی طرف جو مومنين کا آخری ملجا و مآوی ہے لے جائے گا۔ ١٩۶ ۔ “رویٰ فی الکافی باسنادہ عن جابر عن ابی جعفر عليہ السلام قال: قال رسول اللّٰہ (ص) یا معشر قرّاء القرآن اتّقوا اللّٰہ عزّوجلّ فيما حملکم من کتابہ فانّی مسئول وانکم مسئولون ) انّی مسئول عن تبليغ الرّسالة وامّا انتم فتساٴلون عمّا حملتم من کتاب اللّٰہ وسنتی ” ( ١ شيخ بزرگوار کلينی رحمة الله عليہ نے کافی ميں اپنی سند کے ساته جابر جعفی سے انہوں نے امام محمد باقر سے انہوں نے حضرت رسول اکرم (ص) سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: اے قاریوں کی جماعت! یعنی قرآن کی قرائت و تلاوت کرنے والو! الله تعالیٰ سے ان چيزوں ميں ڈرو جو تم نے الله تعالیٰ کی کتاب سے یاد کيا ہے اسے مدّنظر قرار دو کيوں کہ مجه سے سوال کيا جائے گا اور تم سے بهی سوال کيا جائے گا مجه سے تبليغ رسالت کے بارے ميں سوال ہوگا (اگر ميں اس عظيم وخطير ذمہ داری کو تم تک نہ پہنچاؤں تو قہر و غضب الٰہی ميرے شامل حال ہوگا) اور تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ کيوں تم نے قرآنی دستورات اور وہ احکام و قوانين پر جن کے تم حامل تهے اسی طرح پيغمبر اسلام (ص) کی سنت جو اس کی تفسير و وضاحت کرنے والی ہے عمل نہيں کيا ہے۔ ١٩٧ ۔ مزید رسول اکرم (ص) سے روایت نقل ہوئی ہے کہ انحضرت (ص) نے فرمایا: “ ) اشراف امّتی حملة القرآن ” ( ٢ ميری امت کے اشراف وہ لوگ ہيں جو قرآن کو حمل (اس پر عمل) کرتے ہيں۔ ١٩٨ ۔ “ وفی الکافی عن السّکونی عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال قال رسول اللّٰہ (ص) حملة القرآن عرفاء اهل الجنّة والمجتهدون قوّاد اهل الجنّة والرّسل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ٢٠۶ ۔ ( ٢(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ٢٠۶ ۔ (
) سادات اهل الجنّة” ( ١ اسی کتاب ميں صاحب کافی نے سکونی سے انہوں نے امام جعفر صادق - سے نقل کيا ہے کہ آپ نے حضرت رسول اکرم (ص) سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: قرآن کے پڑهنے والے اہل جنت کے عارفين اور شناختہ شدہ افراد ميں سے ہيں اور مجتہد لوگ (جن لوگوں نے اپنی عزیز ترین عمر علوم دینيہ قرآن و سنت رسول خدا (ص) ائمہٴ ہدیٰ عليہم السلام کی روایات کی تحصيل ميں صرف کی ہے) اہل بہشت کے پيشوا رہبر اور انبياء و مرسلين اہل بہشت کے سردار اور عظيم ہستياں ہيں۔ ١٩٩ ۔ “ عن عمرو بن جميع عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال قال رسول اللّٰہ (ص)انّ احقّ النّاس بالتخشع فی السرّ والعلانية لحامل القرآن وانا احق النّاس فی السّر والعلانية بالصّلاة والصوم لحامل القرآن نادی باعلی صوتہ یا حامل القرآن تواضع بہ یرفعک اللّٰہ ولا تغّزز بہ فی ذلک اللّٰہ یا حامل القرآن تزیّن بہ اللّٰہ یزنيک اللّٰہ بہ ولا تزین بہ للنّاس فيشينک اللّٰہ بہ من ختم القرآن فکانما ادرجت النبوّة بين جنبيہ ولٰکنة لا یوحی اليہ ومن جمع القرآن فنولّہ لایجهل مع من یجهل عليہ ولا یغضب فيمن یغضب عليہ ولا یحدّ فيمن یحدّ عليہ وَلٰکنہ یعفو ویصفح وَیغفر ویحلم لتعظيم القرآن ومن اوتی القرآن فظنّ انّی احداً من النّاس اوتی افضل ممّا اوتی فقد عظم ما حقّر اللّٰہ ) وحقّر ما عظّم اللّٰہ ” ( ٢ عمرو ابن جميع نے امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: یقينا ظاہر و باطن ميں مخفی اور آشکارا طور پر خشوع کے ليے زیادہ حق دار حامل قرآن ہے اور یقينا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الخصال، ص ٧۔ ( ٢(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶٠۶ ۔ (
سب سے زیادہ مستحق ظاہر و باطن ميں ممتاز اور روزہ کے ليے حامل قرآن ہی ہے پهر بلند آواز سے کہا جائے گا: اے حامل قرآن! (قرآن کی تلاوت کرنے والے اور احکام و علوم قرآن کے حامل) قرآن کے ذریعہ تواضع اور منکسر المزاجی اختيار کرو تاکہ الله تعالیٰ تمہيں عالی درجہ تک پہنچائے اور اس کو اپنی عزت کا ذریعہ قرار نہ دے تاکہ خدائے بزرگ و برتر تمہيں ذليل و رسوا نہ کرے۔ اے حامل قرآن ! رضائے الٰہی کے ليے اپنی آرائش قرآن سے کرو الله تعالیٰ اس کے ذریعہ بہترین زینت کرے گا لوگوں کے ليے اس کے ذریعہ زینت کے خواست گار نہ بنو تاکہ خدائے بزرگ و برتر اس وجہ سے تمہيں ذليل و خوار نہ کرے پهر فرمایا: جو شخص قرآن کو اول سے آخر تک پڑهے اور اسے ختم کرے تو وہ ایسا ہے کہ گویا نبوت کے درجے پر فائز ہوا ہو ليکن اس پر وحی نازل نہيں ہوتی اور جو شخص قرآن کو جمع کرے اور دوسروں کو عطا کرے تو وہ جاہلوں کے زمرے ميں نہ ہوگا اور غضب قرآن اس کے شامل حال نہ ہوگا نيز ان لوگوں کے ساته محشور نہيں کيا جائے گا کہ جنہوں نے قرآن کے احترام کی رعایت نہ کی ہو اور انہيں سزا دی جائے گی۔ بلکہ قرآن مجيد کی تعظيم و تکریم کی بنا پر عفو و بخشش اور مغفرت کا حکم دیا جائے گا۔ پهر فرمایا: جس شخص کو علم قرآن اور قرآن کی عظمت کا احساس عطا کيا جائے اور وہ یہ وہم و گمان کرے کہ دوسروں کو اس سے زیادہ اور بہتر دیا گيا ہے تو اس نے اس چيز کو حقير اور ناچيز بنایا اور بقدر معمولی شمار کيا کہ جس چيز کے ليے خدائے سبحان بہت زیادہ عظمت کا قائل ہے۔ قرآن مجيد اور اس کے گراں قدر مطالب و علوم اور اس کا احترام نيز عظمت و منزلت کا درک کرنا ایک نعمت ہے جو تمام الٰہی نعمتوں سے بالاتر ہے، اگر کوئی شخص مادی نعمتوں ميں سے کمال کی حد تک پہنچا ہوا ہو ليکن قرآن اور اس کے علوم سے بے بہرہ ہو اس کے مقابل ميں کہ وہ قرآن کا حامل ہے مگر اس کے پاس کچه نہيں ہے تو وہ نعمتيں بہت ناچيز ہوں گی۔ جيسا کہ قرآن کریم کا حامل اور اس کے مطالب پر عمل کرنے والا دنيا و آخرت ميں بلند درجات تک پہنچتا ہے جنت کے عارفوں ( ١) اور بزرگ ترین الٰہی نعمتوں کا حامل ہوجاتا ہے اور اس کے حاملين اور قارئين کو کہا جاتا ہے- :“اقراء و ارقہ” (پڑهو اور اوپر جاؤ )( ٢) اور فرمایا: جس شخص کو قرآن کا علم دیا جائے اسے حقير و ناچيز شمار نہ کرو، کيونکہ حقيقت ميں اس نے ان چيزوں کو حقير و ناچيز شمار کيا کہ جن کا الله تعالیٰ نے بہت عظمت و رفعت کے ساته ذکر فرمایا ہے۔ اسی طرح پيغمبر اکرم (ص) اور ان کے اوصيائے کرام کے عالی مقام کے احترام کا پاس و لحاظ رکهنا ان کی بلافصل ولایت و خلافت اور امامت کا راسخ عقيدہ رکهنے کے مترادف ہے۔ قرآن ایک امانت ہے کہ جس کا بار عظيم آسمانوں، زمينوں اور تمام پہاڑ اپنی تمام قدرت کے بعد نہ اڻها سکے ليکن وہ انسان جو بہت زیادہ ظلم کرنے والا اور بہت زیادہ نادان ہے اس کو اڻها ليا ( ٣) اگرچہ اس امانت کے ليے معتبر (تفسيروں ميں مختلف معانی ذکر ہوئے ہيں ليکن بہت سی وہ روایات جو معادن وحی و تنزیل سے صادر ہوئی ہيں ان سے واضح و روشن ہوجاتا ہے کہ وہ امانت وہی ولایت کبری ہے جو اب بهی ائمہٴ ہدی کے بعد مولائے دو جہاں حضرت مہدی قائم آل محمد عجل الله تعالی فرجہ الشریف کے دست مبارک کے پر قدرت ہاتهوں ميں سپرد کی گئی ہے اور وہ صاحب العصر اور امام زمانہ - ہيں کہ آنکهيں ان کے ظہور کی منتظر اور قلوب ان بزرگوار کے شوق دیدار کے ليے تڑپ رہے ہيں۔ اس بقية الله الاعظم ، نور چشم حضرت فاطمہ زہرا صدیقہ کبریٰ کے تمام محبين و عاشقين پر واجب ہے کہ تمام اوقات ميں بالخصوص نمازوں ، مجالس اور جہاں بهی دعا کی قبوليت کا گمان پایا جاتا ہے حضرت - کے تعجيل فرج کے ليے دعا کریں جيسا کہ خود حضرت نے بارہا اس بات کی نصيحت اور تاکيد فرمائی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی کی روایت ج ٢، ص ۶٠۶ ميں سکونی نے امام جعفر صادق - سے نقل کيا ہے کہ ( پيغمبر (ص) نے فرمایا: حملة القرآن عرفاء اهل الجنة۔ ٢(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶٠٣ ۔ ( ٣(۔ امّا عَرَضنَْا عَلَی السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضِْ وَالجِْبَالِ ۔۔۔ ظلوماً جهولا ۔۔۔ احزاب ٧٢ ۔ (
کہ تعجيل فرج کی دعا کے ليے بہت زیادہ اہميت دی جائے۔ ٢٠٠ ۔ کمال الدین ميں شيخ صدوق رحمة الله عليہ نے اس توقيع مبارک ميں جو اسحاق ابن یعقوب نے محمد ابن عثمان عمری ۻ حضرت کے خاص نائب کے ذریعہ اس ميں مشکل مسائل دریافت کيے تهے ان بزرگوار نے انہيں مبارک تحریر سے بيان فرمایا، من جملہ ان سوالات ميں سے ایک سوال زمانہٴ غيبت ميں لوگوں کے استفادہ اور نفع حاصل کرنے کی کيفيت کے بارے ميں دریافت کيا تها تو حضرت حجّت عليہ السلام نے مرقوم فرمایا: “وامّا وجہ الانتفاع بی فی غيبتی فکالانتفاع بالشّمس اذا غيبتها عن الابصار السحاب وانّی لاٴمان لاهل الارض کما انّ النجوم امان لا هل السّماء ، فاغلقوا باب السّؤال عمّا لا یعنيکم ولا تتکلفوا علم ما قد کفيتم واکثر والدّعاء بتعجيل الفرج ، فانّ ذلک فرجکم والسّلام عليک یا اسحاق بن یعقوب وعلیٰ من اتبع الهدیٰ ” ( ١) ليکن مجه سے ميری غيبت کے زمانہ ميں نفع و فائدہ کی صورت حال ویسی ہی ہے جيسے آفتاب بادلوں ميں لوگوں کی نظروں سے مخفی ہوتا ہے اور لوگ اس سے نفع و فائدہ اڻهاتے ہيں۔ یقينا ميں اہل زمين کے ليے اسی طرح امن و امان کا باعث ہوں جس طرح ستارے اہل آسمان کے لےے امن و امان کا سبب ہيں لہٰذا ان چيزوں کے متعلق جس ميں تمہارے ليے کوئی فائدہ نہيں پایا جاتا باب سوال بند کردو اور خود کو ان چيزوں کے جاننے کے ليے تکليف اور سختی ميں نہ ڈالو کہ جس ميں یقينا تمہارے ليے کفایت کی گئی ہے (اور جس مقدار ميں تمہارے ليے ضروری تها بيان کردیا گيا ہے ليکن غيبت کے زمانے ميں جو تمہارے ليے فرض ہے وہ یہ ہے کہ) تعجيل فرج کے ليے زیادہ سے زیادہ دعائيں کرو، کيونکہ اسی ميں خود تمہارے ليے آسائش ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۴٨۵ ۔ (
اے ابن اسحاق ! تم پر خدا کا سلام ہو اور ان لوگوں پر جو ہدایت کی پيروی کرتے ہيں۔ اس جيسی روایت شيخ جليل القدر طبرسی عليہ الرحمہ نے اپنی کتاب احتجاج ميں الفاظ کے مختصر فرق کے ساته توقيعات کی فصل ميں ذکر کی ہے۔ دعاؤں کی کتابوں ميں پهر دعاؤں کے جملوں کے ضمن ميں امام زمانہ - کے تعجيل فرج کے بارے ميں بہت زیادہ اشارات پائے جاتے ہيں۔ قابل ذکر ہے کہ حضرت کے فرمان کی وجہ ميں کہ: تعجيل فرج کے ليے بہت زیادہ دعا کرو، اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے چونکہ حضرت کا ظہور بداٴ کے امور ميں سے ہے لہٰذا ممکن ہے کہ مومنين کی بہت زیادہ دعا اور گریہ و زاری کرنا اس امر ظہور کے مقدم اور جلدی ہونے کا سبب ہوجائے،کيوں کہ بعض دعاؤں کے فقرات ميں ذکر ہوا ہے: الله تعالیٰ بہت سے حتمی اور یقينی امور قضا و قدر الٰہی کی بنا پر اس سے صرف نظر کرتا ہے یہاں تک کہ وہ یقينی امور کو دعا کی وجہ سے بدل دیتا ہے۔ اس بنا پر ہم پر لازم ہے کہ تمام حالات ميں تعجيل فرج کو مدّنظر قرار دیں اور کہيں: اللّهم عجّل مولانا صاحب الزمان بحق محمد وآلہ الطاهرین صلواتک عليهم اجمعين۔
۱۳
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
٢۔ پر پرواز / ٣٧ ٣٧ ۔ و مطيّة لمن عملہ (عمل کرنے والوں کے ليے بہترین سواری( قرآن مجيد ایک کافی تيزی سے چلنے والی سواری ہے الله ان افراد کے ليے جو اس کے مضامين عاليہ پر عمل کرتے ہيں اور وہ انہيں جلد از جلد اور صحيح و سالم ان کی منزل مقصود تک پہنچاتا ہے، البتہ قرآن کریم کے حامل و عامل کے منزل مقصود سے سوائے اہل کمال حضرات کے اس کی مجالس سے انس نہيں رکهتے ہوں گے۔ ٢٠١ ۔ “روی فی الکافی باسنادہ عن ابن ابی یعفور قال: سمعت ابا عبد اللّٰہ عليہ السلام یقول : انّ الرّجل اذا کان یعلم السورة ثم نسيها و ترکها ودخل الجنة ، اشرفت عليہ من فوق فی احسن صورة فتقول : تعرفنی ؟ فيقول : لا فتقول : انا سورة کذا وکذا لم تعمل بی و ترکتنی ؟ امٰا ) والله لو عملت لی لبلغت بک هذہ الدرجة واشارت بيدها الیٰ فوقها ” ( ١ شيخ جليل القدر علامہ کلينی رحمة الله عليہ نے کتاب کافی ميں اپنی سند کے ساته ابن ابی یعقوب سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے : ميں نے امام جعفر صادق - کو یہ فرماتے سنا ہے کہ: اگر کوئی شخص قرآن کے سوروں ميں سے ایک سورہ کو پڑهے اور سمجهے اور پهر اسے بهول جائے یا ترک کرے تو جب وہ جنت ميں داخل ہوگا تو اس کے سر پر قرآن کریم ایک خوب صورت پيکر ميں یہ کہتا ہوا نظر آئے گا: کيا تم مجهے پہچانتے ہو؟ وہ کہے گا: نہيں پهر قرآن کہے گا: ميں وہی سورہ ہوں کہ جس پر تم نے عمل نہيں کيا اور مجهے پڑهنا ترک کردیا، اب جان لو اور آگاہ ہوجاؤ خدائے بزرگ و برتر کی قسم! اگر عمل کيے ہوتے (جو کچه تم نے پڑها اور جانا) تو یقينا تمہيں بهی اسی درجہ تک پہنچاتا کہ جہاں مجهے دیکه رہے ہو اور اپنے ہاته کے اشارے سے اوپر کی منزل کی طرف اشارہ کرے گا۔ ٢٠٢ ۔ “وعن یعقوب الاحمر قال:قلت لا بی عبد اللّٰہ عليہ السلام: انّ علیّ دین کثيراً وقد دخلنی شی ما کاد القرآن یتفلّت منّی ، فقال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام : القرآن القرآن انّ الآیة من القرآن والسّورة لتجیء یوم القيٰمة حتّیٰ تصعد الف درجة ، یعنی فی الجنة فتقول : لو ) حفظتنی لبلغت بک هٰهنا ” ( ٢ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ٢٠٨ ۔ الوسائل الشيعہ، ج ۴، ص ۴٨۶ ۔ ( ٢(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ٢٠٨ ۔ الوسائل الشيعہ، ج ۶، ص ١٩۴ ۔ (
یعقوب احمر سے روایت نقل ہوئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ميں نے امام جعفر صادق - سے عرض کيا:ميرے ذمہ قرضہ بہت زیادہ ہے( اور مجهے ایسی مشکل ميں ڈال دیا ہے کہ) کبهی ایسی چيزیں ميرے دل ميں خطور کرتی ہيں کہ قرآن مکمل طور پر ميرے ذہن سے نکل جائے، تو امام - نے فرمایا: قرآن کو فراموش نہ کرو اور اس بات کی تکرار کی اور بہت زیادہ نصيحت کی کہ قرآن مجيد کی ایک آیت یا اس کا ایک سورہ یقينا قيامت کے دن آئے گا اور جن کے درجات ميں ہزار درجہ تک بلند ہوگا اورپهر کہے گا: اگر تم نے ميری حفاظت کی ہوتی تو یقينا ميں تمہيں بهی یہاں تک پہنچا دیتا۔ ٢٠٣ ۔ “وعن ابی بصير قال : قال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام : من نسی سورة من القرآن مثّلت لہ فی صورة حسنة ودرجة رفيعة فی الجنّة فاذا راٴها قال: ما انت ؟ ما احسنک لتيک لی ) فيقول : اما تعرفنی ؟ انا سورة کذا وکذا ولو لم تنسنی لرفعتک الیٰ هذا ” ( ١ ابو بصير سے روایت نقل ہوئی ہے کہ ان کا بيان ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: جو شخص قرآن کریم کا وہ سورہ جسے یاد کيا تها پهر فراموش کردیا تو وہی سورہ جنت ميں ایک بلند درجہ ميں حسين صورت ميں آئے گا جب وہ اسے دیکهے گا تو اس سے دریافت کرے گا ۔ تم کون ہو؟ تم کتنے خوبصورت اور دل کش ہو اے کاش تم ميرے ليے ہوتے! تو وہ کہے گا: کيا تم مجهے نہيں پہچانتے ہو؟ ميں قرآن کا فلاں سورہ ہوں کہ مجهے فراموش کردیا) اگر ميری حفاظت کرتے اور مجهے فراموش نہ کرتے تو ميں تجهے بهی اس بلند مرتبہ پر فائز کرتا۔ مولف کہتے ہيں: حضرت بقية الله الاعظم امام زمانہ - اور ان کے اجداد طاہرین نجات کی کشتی ہيں جو شخص بهی اس کشتی نجات پر سوار ہوگيا یعنی ان کا معتقد اور ان کی رحمت کے رشتہ سے متمسک ہوگيا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو وہ کفر و شرک اور ضلالت و گمراہی کے خوف ناک طوفانوں سے نجات پاگيا اور جہالت و نادانی کے گرداب (بهنور) سے نکل کر ہدایت و سعادت اور علم و دانش کے ساحل تک پہنچ جائے گا نيز حقيقی اقدار کو پالے گا۔ ٢٠۴ ۔ “ قال امير الموٴمنين عليہ السلام فی وصيتہ لکميل : یا کميل قال رسول اللّٰہ (ص) قولًا۔ اعلنہ المهاجرون والانصار ،متوافرون یوماً بعد العصر ، یوم النّصف من شهر رمضان ، قآئم علیٰ قدميہ من فوق منبرہ: علی منّی وابنای منہ والطّيبّون منی ومنهم وهم الطّيبّون بعد امّهم وهم سفينة نوح من ) رکبها نجی ومن تخلّف عنها غویٰ ، النّاجی فی الجنہ والهاوی فی لظی”( ١ جناب کميل سے مولا امير المومنين - کی وصيت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت - نے فرمایا: اے کميل! رسول خدا (ص) نے ایک قول ارشاد فرمایا اسے مہاجرین اور انصار تک پہنچادو کہ ایک دن نصف رمضان کے بعد سب جمع تهے اور آنحضرت اپنے دونوں قدم پر منبر کے اوپر کهڑے ہوئے تهے اور فرمایا: علی مجه سے ہے اور ان کے بيڻے اس سے ہيں اور طيب و طاہر لوگ مجه سے اور ان لوگوں سے ہيں اور وہ لوگ اپنی ماؤوں کے بعد طيب و طاہر ہيں وہی کشتیِ نوح ہيں جو شخص اس پر سوار ہوا نجات پاگيا اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ گمراہ ہوگيا، نجات پانے والا جنت ميں ہے اور روگردانی کرنے والا آتشِ جہنم ميں ہے۔ ٢٠۵ ۔ شيخ بزرگوار شہيد رحمة الله عليہ نے اپنے اجازہ ميں ابن خازن حائری سے انہوں نے فخر المحققين سے اور بہت سے دوسرے افراد نے داؤد ابن سليمان غازی سے انہوں نے امام ابو الحسن علی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن موسی الرضا - سے انہوں نے اپنے آبائے کرام سے انہوں نے حضرت امير المومنين سے انہوں نے نبی اکرم (ص) سے نقل کيا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: مثل اهل بيتی کمثل سفينة نوح من رکبها نجی و من تخلّف عنها زحّ فی النار: ميرے اہل بيت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے جو شخص بهی اس کشتی ميں سوار ہوگيا وہ نجات پاگيا اور جس نے بهی اس سے پشت پهيری اور مخالفت کی تو وہ آتش جہنم ميں ڈال دیا ) جائے گا۔ ( ١
٢۔ روشنی کی علامت / ٣٨ ٣٨ ۔ و آیة لمن توسّم() عزیز تين آسمانی کتاب (قرآن مجيد) ان لوگوں کے ليے دليل و علامت اور ہدایات ہے جو اس کے عالی متون و مضمون اور بطون ميں تدبر اور عميق غور و فکر کرتے ہيں اور گزشتہ انبياء اور امتوں کے واقعات نيز ظالمين و جابرین کی تاریخ سے عبرت و نصيحت حاصل کرتے ہيں مزید صاحبان عقل اور ذہين افراد کے ليے دقّت و تامّل کے ساته اپنے اہداف و مقاصد تک پہنچنے کے ليے علامت و نشانی پائی جاتی ہے۔ اصل “توسم” سے مراد دقّتِ نظر ہے، “سمہ” ميں جس کے معنی علامت کے ہيں ) جيسا کہ الله تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ( ٢ ٢٠٣ ۔ شيخ جليل القدر علامہ طبرسی عليہ الرحمہ نے تفسير مجمع البيان ميں ذکر کيا ہے کہ یہ صحيح ہے کہ نبی اکرم (ص) نے فرمایا: “ اتّقوا من فراسة الموٴمن وانّہ ینظر بنور اللّٰہ” ، مومن کی فراست و ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
، ١(۔ الطرائف، سيد ابن طاؤوس، ص ١٣٢ ۔بحار الانوار ، ج ٢٣ ، ص ١٢٢ ۔ خلاصہ عبقات الانوار، ج ۴ ( ص ۶١ ۔ ٢(۔ سورئہ حجر، آیت ٧۵ ۔ (
ذہانت سے بچو کيوں کہ وہ نور الٰہی کے ذریعہ نظر کرتا ہے۔ ) نيز فرمایا: “ انّ لل-ٰہّ عباداً یعرفون الناس بالتوسّم ، ثم قرء هٰذہ الآیة ” ( ١ یقينا الله تعالیٰ کے ایسے بندے ہيں جنہيں لوگ علامت کے ذریعہ پہچانتے ہيں پهر اس آیت کی تلاوت کی۔ نيز فرمایا: خدا کے بندوں ميں سے بعض ایسے ہيں کہ جنہيں لوگ علامتوں اور نشانيوں سے پہچانتے ہيں کيوں کہ وہ لوگ تمام اندرونی واقعيت کو بيان کرتے ہيں پهر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ مولف کہتے ہيں: متموسمين سے مراد-: پيغمبر اکرم (ص) ، امير المومنين - اور ان کی قائم آل محمد تک ذریت طيبہ ہے جو الله کی زندہ حجّت صاحب العصر و الزمان عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف ہيں۔ ٢٠٧ ۔ “وفی الکافی عن الباقر عليہ السلام قال: قال امير الموٴمنين عليہ السلام فی قولہ تعالیٰ کان رسول اللّٰہ المتوسم وانا من بعدہ والائمّة من ذریّتی ) المتوسمّون ” ( ٢ کافی ميں امام محمد باقر - سے روایت نقل کی گئی ہے کہ حضرت نے فرمایا: حضرت امير المومنين - نے کے بارے ميں فرمایا: رسول خدا (ص) متوسم (صاحب فراست) تهے اور ان کے بعد ميں ہوں اور ميری ذریت ميں سے ائمہ ہيں۔
٢۔بہترین سپر / ٣٩ ٣٩ ۔ و جنّة لمن لستلا (اسلحہ سجنے والوں کے ليے بہترین سپر ہے( ”جنة” سپر ڈهال اور کسی چيز کی حفاظت کرنے کے معنی ميں سے، یعنی قرآن مجيد ان لوگوں کے ليے ایک سپر اور بہت محکم و مستحکم اسلحہ ہے جو دین و قرآن اور یکتا پرستی کے مخالفين کے مدّ مقابل مسلح رہنا چاہتے ہيں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير مجمع البيان، ج ۶، ص ١٢۶ ۔ ( ٢(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٢١٩ ۔ اختصاص، ص ٣٠٣ ۔ الخرائج و الجرائح، ج ٢، ص ٧۴٨ ۔ بحار الانوار، ( ج ٢۴ ، ص ١٢٧ ۔
ممکن ہے یہاں ان قاریوں اور حافظوں کے ليے دنيا و آخرت کی سختيوں کے مقابل ميں روکنے والی شے مراد ہو۔ اس کا آخرت کی سختيوں اور دشواریوں سے سپر اور ڈهال ہونا بہت زیادہ واضح و روشن ہے کيوں کہ وہ آتش جہنم سے خلاصی کا باعث اور خدائے بزرگ و برتر کے غضب سے نجات کا سبب ہے۔ ليکن دنيا کی سختيوں سے حجاب اور سپر بننے کے متعلق آیہٴ کریمہ ميں الله تعالیٰ فرماتا ہے: ( ١) اور جب تم قرآن پڑهتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان رکهنے والوں کے درميان حجاب قائم کردیتے ہيں تاکہ تم اس سے مخفی اور پوشيدہ رہو۔ شيخ طبرسی رحمة الله عليہ رقم طراز ہيں: کلبی کا قول ہے اس سے ابو سفيان ، نضر ابن حارث، ابوجہل اور ام جميل ابو لہب کی زوجہ مراد ہيں کہ الله تعالیٰ نے اپنے پيغمبر اکرم (ص) کو ان کی آنکهوں سے مخفی اورپوشيدہ قرار دیا جو آنحضرت (ص) کی خدمت ميں آئے مگر اس عظيم ہستی کو نہ دیکه سکے۔ ٢٠٨ ۔ “ فی الصافی من قرب الاٴسناد عن الکاظم عليہ السلام انّ ام جميل امراٴة ابی لهب اٴتتہ (ص) حين نزلت سورة تبّت ومن النّبی (ص) ابو بکر بن ابی قحافة، فقال : یا رسول اللّٰہ هذہ امّ جميل محفظة او مغضبة تریدک ومعها حجر ترید ان ترميک بہ فقال (ص) : انّها لاترانی فقالت لابی بکر: این صاحبک ؟ قال: حيث شآء اللّٰہ قالت : لقد جئتہ ولو اراہ لرمتيہ فانّہ هجانی واللّات والعزّیٰ انّی لشاعرة فقال ابوبکر : یا رسول اللّٰہ لم ترک ؟ قال (ص) : لا ضرب ) اللّٰہ بينی وبينها حجاباً مستوراً ” ( ٢ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اسراء، آیت ۴۵ ۔ ( ٢(۔ قرب الاسناد، ص ٣٢٩ ۔ تفسير صافی، ج ۵، ص ٣٨٩ ۔ بحار الانوار، ج ١٧ ، ص ٢٣۵ ۔ (
٢٠٩ ۔ “فی الکافی باسنادہ عن الاصبغ بن نباتة عن امير الموٴمنين عليہ السلام انّہ قال : والّذی بعث محمداً بالحقّ واکرم اهل بيتہ ما من شیء تطلبونہ من حرز ممّن حرق او غرق او سرق او اتلاف دابّة من صاحبها او آبق الاّ وهو فی القرآن ، فمن اراد ذٰلک فليسالنی عنہ قال: فقام اليہ رجل فقال: یا امير الموٴمنين اخبرنی عمّا یوٴمن من الحرق والغرق؟ فقال عليہ السلام اقرء هذہ الآیات >اللهُ الَّذِی نَزَّلَ الکِْتَابَ وَہُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِينَ>( ١)( ٢) فمن قراٴها فقد امن من الحرق والغرق قال فقراٴها رجل واضطر مت النّار فی بيوت جيرانہ وبيتہ وسطها فلم یصبہ شیء ثم قام اليہ رجل آخر فقال : یا امير الموٴمنين انّ دابّتی استصعبت علیّ وانا منها علیٰ وجل فقال عليہ السلام : اقرء فی اذنها اليمنیٰ < وَلَہُ اٴَسلَْمَ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضِْ طَوعًْا وَکَرہًْا وَإِلَيہِْ یُرجَْعُونَ>( ٣) فقراٴها فذلّت دابتہ وقام اليہ آخر فقال : یا امير الموٴمنين ان ارضی ارض مسبعة انّ السباع تغشیٰ منزلی ولا تجوز حتی تاٴخذ فریستها فقال عليہ السلام : اقراء ( ۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقراهما الرّجل فاجتنبتہ السّباع ثم قام اليہ آخر فقال : یا امير الموٴمنين انّ فی بطنی مآء اصفر فهل من شفآء ؟ فقال نعم بلادرهم ولا دینار ولکن اکتب علی بطنک آیة الکرسی وتغسلها و تشربها و تجلعها ذخيرة فی بطنک فتبرء باٴذن اللّٰہ عزّوجلّ ففعل الرجل فبرء باذن اللّٰہ ثم قام اليہ آخر فقال یا امير الموٴمنين اٴخبرنی عن الضّالّة ؟ فقال عليہ السلام : اقرء یسٓ فی رکعتين و قل یا هادی الضالّة رد علیّ ضالّتی ، ففعل فردّ اللّٰہ عليہ ضالّتہ ثم قام اليہ آخر فقال یا امير الموٴمنين اٴخبرنی عن الاٴبق ؟ فقال عليہ السلام : اقرء ( ١) فقالها الرجل فرجع اليہ الآبق ثم قام اليہ آخر فقال : یا امير الموٴمنين اٴخبرنی عن السّرق فانّ لایزال قد یسرق لی الشیء بعد الشیء ليلاً فقال لہ : اقرء اذا ویت الی فراشک ( ٢ ثم قال امير الموٴمنين عليہ السلام : من بات بارض قفر فقراٴ هذہ الآیة ( ٣) حرستہ الملائکة وتباعدت عنہ الشياطين ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قال: فمضی الرجل فاذا هو بقریة خراب فيها لم یقرء هٰذہ الآیة فغشاہ الشياطين واذا هو آخذ بخطمہ ، فقال لہ صاحبہ : انظرہ واستيقظ الرجل فقراء الآیة فقال الشيطان لصاحبہ ارغم اللّٰہ اٴنفک احرسہ الاٴن حتیٰ یصبح فلما اصبح رجع الیٰ امير الموٴمنين عليہ السلام فاٴخبرہ فقال لہ راٴیت فی کلامک الشفاء ) والصّدق ومضی بعد طلوع الشمس فاذا هو باثر شعر الشياطين مجتمعاً فی الارض ” ( ١ علامہ کلينی رحمة الله عليہ کتاب کافی ميں اپنی سند کے ساته اصبغ ابن نباتہ سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے مولا امير المومنين - سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی! جس نے محمد مصطفی (ص) کو حق کے ساته بهيجا اور ان کے اہل بيت کو صاحب عزت و کرامت قرار دیا کوئی چيز (تمہاری دنيا ميں ایسی) نہيں ہے کہ جس سے تم پناہ حاصل کرنا چاہو جلنے سے ڈوبنے سے چوری سے یا چوپایہ کا اپنے مالک سے بهاگ جانے یا انسان یا چوپایہ کا گم ہوجانا یا آقا کے غلام کا بهاگ جانا تو ان سب کی حفاظت کے اسباب و وسائل قرآن مجيد ميں پائے جاتے ہيں جو شخص بهی ان امور ميں سے یا ان جيسی چيزوں ميں مبتلا ہے مجه سے سوال کرے تاکہ اسے ميں اس کی تدبير بيان کروں۔ راوی کا بيان ہے: ایک شخص نے بلند ہو کر کہا: اے امير المومنين! مجهے وہ چيز بتائيے جس سے جلنے اور ڈوبنے سے نجات ملے؟ تو امام - نے فرمایا: ان آیات کو پڑهو لہٰذا جو شخص ان آیات کو پڑهے وہ جلنے اور غرق ہونے سے امن و امان ميں ہوگا۔ راوی کا بيان ہے: اس شخص نے جب ان آیات کو اپنے ہمسائے کے گهروں ميں آگ لگنے کے موقع پر پڑها جب کہ اس شخص کا گهر ان کے درميان تها تو کسی بهی قسم کا کوئی ضرر اسے نہيں پہنچا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶٢۴ ۔ (
پهر ایک دوسرا شخص اپنی جگہ سے بلند ہوا اور کہا: یا امير المومنين! ميرا دابہ (گهوڑا یا دوسری سواری کا حيوان) سرکش ہوگيا ہے رکاب پر نہيں بيڻهنے دیتا ميں اس سے نزدیک ہونے سے ڈرتا ہوں تو حضرت- نے فرمایا: اس کے داہنے کان ميں اس آیت کو پڑهو جب اس نے پڑها تو اس کا گهوڑا سرکشی سے باز آیا اور اس مرد کے ليے قابل استفادہ قرار پایا۔ تيسرا شخص بلند ہوا اور کہا: یا اميرا لمومنين -! ميرے پاس ایک زمين ہے اس ميں درندے حيوانات بہت زیادہ ہيں۔ ناگہاں ميرے گهر آتے ہيں تو واپس نہيں جاتے مگر یہ کہ اپنے کهانے کا حصہ گوسفند وغيرہ اڻها کر لے جاتے ہيں تو امام - نے فرمایا: اس آیہٴ کریمہ کو پڑهو اس شخص نے ان دونوں آیتوں کو پڑها تو پهر دوبارہ وحشی حيوانات اس کے گهر کے اطراف نہيں گئے۔ پهر ایک اور شخص اپنی جگہ بلند ہوا اور کہا : یا امير المومنين -! ميرے شکم ميں زرد پانی ہوگيا ہے کيا اس درد اور مشکل سے شفا پانے کا ميرے ليے کوئی امکان پایا جاتا ہے؟ تو امام - نے فرمایا: ہاں بغير ایک درہم یا دینار خرچ کيے تم اپنے شکم پر آیت الکرسی لکهو اس کو پانی سے دهو کر پی لو تاکہ تمہارے شکم کے اندر ذخيرہ ہوجائے اذن خدا سے تم صحت یاب اور شفا پاجاؤ گے اس شخص نے حضرت - کے دستور کے مطابق عمل کيا اور اپنی صحت و سلامتی حاصل کرلی۔ ایک دوسرا شخص بلند ہوا اور کہا: یا امير المومنين -! مجهے ميرے گم شدہ کی تلاش کے ليے راہ تدبير بتائيں؟ تو حضرت - نے فرمایا: دو رکعت نماز پڑهو اور دونوں رکعتوں ميں سورئہ یٰسين پڑهو اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد کہو : یا هادی الضالة ردّ علیّ ضالتی۔ اس شخص نے حضرت - کے قول پر عمل کيا نماز پڑهی اور الله تعالیٰ نے اس کے گم شدہ کو واپس کردیا۔ پهر کوئی دوسرا شخص بلند ہوا اور کہا: یا امير المومنين -! مجهے اس غلام کے بارے ميں خبر دیجيے جو اپنے مولا کے ہاته سے فرار کر جائے؟ تو امام نے فرمایا: مکمل آیہٴ کریمہ پڑهو ، اس شخص نے اس آیت کی تلاوت کی اس کا جو غلام فرار کر گيا تها اپنے مولا کے پاس واپس آگيا۔ پهر ایک اور شخص بلند ہوا اور کہا: یا امير المومنين! مجهے ان چيزوں کے بارے ميں بتائيں جو چوروں نے چوری کی ہيں کيونکہ کوئی رات ایسی نہيں گزرتی جس ميں ميری کوئی چيز چوری نہ ہوتی ہو۔ تو اس عظيم ہستی نے فرمایا: تم اپنے بستر پر جاؤ تو اس آیہٴ کریمہ کو پڑهو۔ پهر حضرت امير المومنين - نے فرمایا: جو شخص بے آب و گياہ صحرا ميں سوئے اور ان آیات کو پڑهے تو ملائکہ اس کی حفاظت کریں گے اور شياطين اس سے دور رہيں گے۔ راوی کا بيان ہے: ایک شخص ایک خرابہ ميں پہنچا رات وہاں بسر کی ليکن مذکورہ آیات کو نہيں پڑها تو شياطين آئے اور اس کا احاطہ کرليا حالانکہ وہ اپنے دماغ کو پکڑے ہوئے تها۔ ایک شيطان نے دوسرے سے کہا: اس کی طرف دیکهو اسی وقت وہ شخص بيدار ہوا اور آیت پڑهی تو شيطان نے اپنے ساتهی سے کہا: خدا نے تمہاری ناگ رگڑ دی اب اس کی طلوع فجر تک حفاظت کر جب صبح ہوئی تو وہ شخص حضرت امير المومنين - کے پاس آیا اور تمام واقعہ کی انہيں اطلاع دی اور عرض کيا کہ آپ کے کلام ميں شفا اور سچائی کا ميں نے اپنی آنکهوں سے مشاہدہ کيا جب سورج نکلا اور تمام سطح زمين کو روشن کر دیا تو وہ شخص پهر خرابہ ميں گيا وہاں اس کو شيطان کے بال زمين پر کهڑے ہوئے ایک جگہ نظر آئے۔ مولف کہتے ہيں: ولایت عظمیٰ حجّت حق خاتم الاوصياء امام عصر ناموس دهر مہدی آل محمد -اور ان کے اجداد کرام بهی مومنين اور خاندان عصمت و طہارت کے چاہنے والوں کے ليے عذاب الٰہی اور آتش جہنم سے بچانے کے ليے سپر اور مانع ہيں۔ ٢١٠ ۔ “ وفی البحار عن الصدوق رضوان اللّٰہ تعالیٰ فی جملة من کتبہ عن القطّان عن عبد الرّحمٰن بن محمّد الحسينی عن محمّد بن ابراہيم الفزاری عن عبد اللّٰہ بن بحر الاهوازی عن علیّ بن عمر وعَن الحَسَن بن محمّد بن جمهور عَن عَلیّ بن بلال عَن عَلی بن موسیٰ الرّضا عَن موسیٰ بن جعفر عن جعفر بن محمّد بن محمّد بن علی عن علیّ بن الحسين عن الحسين بن علی عن علی بن ابی طالب عليہم السلام عن النّبی (ص) عن جبرئيل عن ميکائيل عن اسرافيل عن اللّوح عن القلم قال یقول اللّٰہ عزوجلّ ولایة علی بن ابی طالب حصنی فمن دخل ) حصنی امن من عذابی ” ( ١ ہمارے شيخ بزرگوار علامہ مجلسی رحمة الله عليہ نے شيخ جليل القدر علامہ صدوق رحمة الله عليہ سے کہ جنہوں نے اپنی متعدد حدیث کی کتابوں ميں نقل کيا ہے اس کی سند کو حضرت علی ابن موسی الرضا - سے انہوں نے اپنے آبائے کرام اور رسول خدا (ص) سے انہوں نے جبرئيل، ميکائيل اور اسرافيل سے انہوں نے لوح و قلم سے نقل کيا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر فرماتا ہے: علی ابن ابی طالب کی ولایت و محبت ميرا محکم قلعہ اور حصار ہے،لہٰذا جو شخص بهی اس قلعہ اور حصار ميں داخل ہوگيا وہ ميرے عذاب سے امن و امان پا گيا ہے۔ ٢١١ ۔ “وفی اماليہ باسنادہ عن ابان بن تغلب عن عکرمة عن ابن عبّاس قال قال رسول اللّٰہ (ص) قال اللّٰہ جلّ جلالہ لو اجتمع النّاس کلّهم علیٰ ولایة علي عليہ السلام ما خلقت النار ٢١٢ ۔ اسی جيسی روایت کو الفاظ کے مختصر معانی کے ساته خطيب خوارزمی نے اپنی کتاب مناقب ميں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت رسول خدا (ص) سے نقل کيا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: “قال : قال رسول اللّٰہ (ص) : لو اجتمع النّاس علیٰ حبّ علیّ بن ابی طالب عليہ السلام لما خلق اللّٰہ عزّوجلّ النّار“ اگر تمام لوگ علی ابن ابی طالب کی ولایت و محبت کو قبول کرتے اور ہر ایک کے اتفاق اور ہم آہنگی سے اس کو مرکزی نقطہ قرار دے کر اس کے اطراف ميں جمع ہوتے تو الله تعالیٰ کبهی بهی آتش جہنم کو خلق نہ کرتا۔ ائمہٴ اطہار کی ولایت و محبت بہت ہی قوی اور مستحکم قلعہ نيز مومنين اور حضرات معصومين کے دوستوں کے ليے آتش جہنم سے محفوظ رہنے کے ليے مستحکم حجاب ہے اس کے علاوہ منجملہ اسلام اور ایمان کے ثابت اور پا برجا ستونوں ميں سے ایک ستون ہے۔ ٢١٣ ۔ “فی الکافی عن زرارة عن ابی جعفر الباقر عليہ السلام قال بنی الاسلام علیٰ خمسة اٴشيآء علیٰ الصّلٰوة والزّکٰوة والصٴوم والحجٴ وَالولایَة قال زرارَة فقلت وَایّ شَیء من ذٰلِک افضل قال الولایة افضل لانها مفتاحهنّ والوالی هو الدّليل عليهنّ قلت ثمّ الذی یلی ذٰلک فی الفضل فقال الصّلٰوة انّ رسول اللّٰہ (ص) قالَ الصّلٰوةَ عَمُودُ الدین دینکُم قالَ قُلتُ ثَمَّ الذی یَليها فی الفَضِل قالَ الزّ کٰوةُ لاٴنّها قَرَنَها بِها وَبَدَء بِالصَّلاة قَبلهَا وَ قالَ رَسولُ اللہّٰ (ص) الزّکوة تذهب الذّنوب قلت والذی یليها فی الفضل قال الحجّ قال اللّٰہ عزّوجلّ وللّٰہ علی الناس حجّ البيت لآیة الیٰ ان قال ثمّ قال عليہ السالم ذروة الاٴمر وسنامہ ومفتاحہ وباب الاٴشيآء ورضا الرّحمن الطّاعة للامام بعد معرفتہ انی اللّٰہ عزّوجلّ یقول من یطع الرّسول فقد اطاع اللّٰہ ومن تولّی فما ارسلناک عليهم حفيظاً ، امٰا لو انّ رجلاً قام ليلہ وصام نهار ہ وتصدّق بجميع مالہ وحجّ جميع دهرہ ولم یعرف ولایة ولیّ اللّٰہ فيواليہ ویکون جميع اعمالہ بدلالتہ اليہ ماکان لہ علی اللّٰہ حق فی ثوابہ ولا کان من اهل ) الایمان ثمّ قال اولئک المحسن منهم یدخلہ اللّٰہ الجنّة بفضل رحمة ” ( ١ شيخ جليل القدر علامہ کلينی عليہ الرحمہ نے کتاب کافی ميں زرارہ سے انہوں نے امام محمد باقر - سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: اسلام کی اساس و بنياد پانچ چيزوں پر استوار ہے اور وہ پانچوں ستون سے مراد نماز، زکوٰة، روزہ، حج بيت الله اور ائمہٴ اطہار کی ولایت ہے۔ زرارہ نے عرض کيا: ان پانچ چيزوں ميں سے کون سے چيز سب سے افضل ہے؟ فرمایا: ولایت افضل ہے، اس ليے کہ ولایت ان سب کی کنجی ہے اور ان سب چيزوں کا والی اور دليل و رہنما ہے۔ ميں نے عرض کيا: ولایت کے بعد کون سی شے افضل ہے؟ فرمایا: نماز ، یقينا رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ نماز تمہارے دین کا ستون ہے ميں نے عرض کيا: نماز کے بعد کون سی شے افضل ہے؟ فرمایا: زکوٰة کيوں کہ الله نے نماز کے بعد اس کا ذکر فرمایا ہے، رسول خدا نے فرمایا: زکوٰة گناہوں کو دور کرتی ہے، ميں نے عرض کيا: زکوٰة کے بعد کون سی شے افضل ہے؟ فرمایا: حج بيت الله کيوں کہ خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا: خدا کے ليے ان لوگوں پر امکانی صورت ميں خانہٴ کعبہ کی طرف حج کا سفر فرض قرار دیا گيا ہے جو وہاں پہنچنے اور مخصوص اعمال بجالانے کی قدرت رکهتے ہيں یہاں تک کہ فرمایا: عالی ترین اور با ارزش ترین امور اور ان کی کنجی تمام چيزوں ميں خدائے غفور و رحيم کی رضایت اور خوشنودی ہے اور اس کی معرفت کے بعد امام معصوم کی اطاعت و فرماں برداری ہے جيسا کہ الله تعالیٰ آیہٴ کریمہ ميں فرما رہا ہے: جو شخص الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے یقينا اس نے الله کی اطاعت کی اور جو شخص تجه سے گریز کرے اور تيری اطاعت نہ کرے تو ميں نے تم کو اس کا حفاظت کرنے والا نہيں بنا کر بهيجا ہے۔ پهر امام - نے ائمہٴ طاہرین کی عظيم ولایت کی عظمت ومنزلت کی اہميت کو لوگوں سے تاکيد اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ١٩ ۔ (
وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: اور یہ کہ تمام مذکورہ اشياء کی کنجی پروردگار متعال کی رضایت و خوشنودی کا حاصل کرنا وہی ولایت ہے اپنے تہدید آميز اور بيدار کرنے والے جملوں ميں فرمایا: یہ جان لو اور آگاہ ہوجاؤ کہ! اگر تم ميں سے کوئی شخص تمام رات و دن کو نماز و روزہ ميں بسر کرے اور اپنے تمام مال و دولت کو راہِ خدا ميں صدقہ دے اور اپنی تمام عمر کو زیارت خانہ ٴخدا اور حج بيت الله ميں صرف کرے ليکن ولی امر کی ولایت کی معرفت نہ رکهتا ہو تاکہ اس کا چاہنے والا اور فرماں بردار نيز اپنے تمام اعمال اس کی رہنمائيوں کے مطابق انجام دے تو الله تعالیٰ کی طرف سے اس کے ليے نہ اس کے اعمال کا کوئی ثواب ہوگا اور اس کا شمار اہل ایمان ميں بهی نہيں ہوگا۔ اس کے بعد امام - نے فرمایا: جو لوگ ہماری ولایت کی شناخت و معرفت رکهتے ہيں اور خدا کے مطلوبہ نيک اعمال انجام دیتے ہيں تو خدائے غفور رحيم اپنے فضل و رحمت سے بہشت ميں داخل کرے گا اور اس کی لامتناہی نعمتوں سے اسے نوازے گا۔
۱۴
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
٢۔ علم و دانش / ۴٠ ۴٠ ۔ و علما لمن وعیٰ (اور فکر کرنے والوں کے ليے علم ہے( قرآن مجيد کو خدائے بزرگ و برتر نے مبداٴو معاد کا کامل علم قرار دیا ان لوگوں کے ليے جو اس کو محفوظ رکهنے اور غور وفکر کرنے کے ليے اپنے قلب کی طرح اسے اس ظرف کی طرح قرار دیتے ہيں جس ميں گراں قدر گوہروں کی حفاظت کی جاتی ہے۔ ٢١۴ ۔ طریحی رحمة الله عليہ نے فرمایا: (ائمہ کی ) حدیث ميں ذکر ہوا ہے : “لایعذّب ) اللّٰہ قلباً وعی القرآن ” ( ١ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ وسائل الشيعہ، ج ۶، ص ١۶٧ ۔ امالی طوسی، ص ٧۔ مجمع البحرین، ج ۴، ص ۵٢۴ ۔ (
خداوند متعال اس قلب پر عذاب نہيں کرے گا جو قرآن کا حافظ اور محافظت کرنے والا ہے یعنی اگر قرآن کو ایمان و اعتقاد اور غور وفکر کرنے کے بعد درک کيا اور اس پر عمل کيا تو الله تعالیٰ اس کو عذاب نہيں کرے گا ليکن اگر کسی نے صرف ظاہری الفاظ کو حفظ کيا اور اس کے حدود و احکام کو ضائع کيا تو اس شخص پر حافظ اور اس کی محافظت کرنے والے کا اطلاق نہيں ہوگا۔ ٢١۵ ۔ “وفی ثواب الاعمال عن الصادق عليہ السلام الحافظ للقرآن العامل بہ مع السّفرة ) الکرام البررة ” ( ١ ثواب الاعمال ميں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ حضرت - نے فرمایا: حافظ قرآن جو اس پر عمل کرنے والا بهی ہو خدا کے صاحب کرامت اور نيکو کار پيغمبروں کے ساته ہوگا۔ ٢١۶ ۔ دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہيں: خير القلوب او عاها ( ٢) بہترین قلوب سے مراد وہ قلب ہے کہ جس کی قرآن حفظ کرنے کی ظرفيت و صلاحيت زیادہ ہو۔ جو یقينا زیادہ علم قرآن جمع اور حفظ کرے اتنی ہی اس قلب کی ارزش ہوگی اور معيار بلند ہوگا۔ خدائے بزرگ و برتر نے مومنين کو ظرف اور قائم آل محمد امام زمانہ - اور تمام ائمہٴ اطہار کی ولایت و محبت کے استقرار کی جگہ قرار دی ہے وہ قلب و جگر جو اِن عظيم ہستيوں کی ولاء و محبت کا حامل ہو تو اس ميزان کے پلہ کا معيار اس کے دوسرے پلہ کے مقابل ميں یہاں تک کہ اگر تمام وہ چيزیں جن پر آفتاب کی روشنی پڑتی ہے رکه دیں تو وہی پہلا پلہ سنگين ہوگا ۔ ٢١٧ ۔ “ فی الاختصاص باسنادہ عن محمّد بن اسماعيل بن عبد الرّحمٰن الجعفی قال دخلت انا وعمّی الحصين بن عبد الرّحمٰن علی ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فاٴدناہ وقال ابن من هذا معک ؟ قال ابن اخی اسماعيل فقال رحم اللّٰہ اسماعيل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ثواب الاعمال، ص ١٠١ ۔ ( ٢(۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج ٢٠ ، ص ٢٧١ ۔ (
وتجاوز عنہ صیّ عملہ کيف خلّفتموة قال بخير ما آتاہ اللّٰہ لنا من موّدتکم فقال یا حصين لا تستصغر وا مودّتنا فانّها من الباقيات الصالحات قال یابن رسول اللّٰہ ما استصغرتها ولٰکن احمد اللّٰہ ) عليها ” ( ١ شيخ مفيد نے کتاب اختصاص ميں اپنی سند کے ساته محمد ابن اسماعيل ابن عبد الرحمن جعفی سے روایت کی ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں اپنے چچا حصين ابن عبد الرحمن کے ہمراہ امام جعفر صادق - کی خدمت اقدس ميں شرف یاب ہوا تو امام - نے ميرے چچا کو اپنے پاس نہيں بڻهایا اور دریافت کيا: یہ جو تمہارے ساته ہے وہ کس کا فرزند ہے؟ ميرے چچا نے جواب دیا: وہ ميرے بهائی اسماعيل کا بيڻا ہے۔ تو امام - نے فرمایا: الله تعالیٰ اسماعيل کی مغفرت اور اس کی کوتاہيوں سے درگزر فرمائے، ان سے کس حالت ميں جدا ہوئے؟ ميرے چچا نے جواب دیا: اس سے بہترین حالت ميں کہ الله تعالیٰ نے آپ کی ولایت اس کو عطا کی تهی ہم نے انہيں ترک کيا۔ فرمایا: اے حصين! ہماری مودت و محبت ناچيز اور معمولی نہ شمار کرو کيوں کہ وہ باقيات الصالحات ميں سے ہے۔ ميرے چچا نے کہا: اے فرزند رسول (ص)!ميں نے اسے ناچيز اور معمولی نہيں شمار کيا ہے بلکہ ميں نے الله تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے ليے زبان سے یہ جملہ کہا ہے۔ ائمہ - کی مودت و محبت بهی باقيات الصالحات اور آخرت کی ہلاکتوں سے نجات دلانے والی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اختصاص، ص ٨۶ ۔مناقب ابن شہر آشوب، ج ٣، ص ٣۴٣ ۔ بحار الانوار، ج ٢٧ ، ص ٧۵ ۔ (
۴١ ۔ بہترین کلام /٢ ۴١ ۔ و حدیثاً لمن رویٰ (اور روایت کرنے والوں کے ليے بہترین حدیث ہے( خدائے بزرگ و برتر نے قرآن کریم کو جو اس کی روایت کرتے ہيں بہترین حدیث قرار دیا ہے۔ شيخ بزرگوار امين الاسلام علامہ طبرسي نے اپنی تفسير ميں آیہٴ کریمہ ( ١) الله نے بہترین کلام اس کتاب کی شکل ميں نازل کيا ہے جس کی آیتيں آپس ميں ملتی جلتی ہيں اور بار بار دہرائی گئی ہيں کہ ان سے خوف خدا رکهنے والوں کے رونگڻے کهڑے ہوجاتے ہيں۔ کے ذیل ميں فرماتے ہيں: یعنی الله تعالیٰ نے قرآن کا حدیث نام رکها وہ اس ليے ہے کہ کلام خدا ہے اور کلام کو حدیث کہا جاتا ہے جيسا کہ پيغمبر (ص) کا بهی حدیث نام رکها گيا ہے۔ اور یہ کہ احسن حدیث کہا گيا ہے تو وہ اس ليے کہ اس ميں بہت زیادہ اعجاز اور فصاحت پائی جاتی ہے نيز ان تمام چيزوں پر مشتمل ہے کہ جس کے تمام مکلفين محتاج ہيں جيسے توحيد و عدل کی دليلوں کی یاد دہانی، احکام شرائع کا بيان وغيرہ موعظے ، انبياء کے قصے اور بشارت و نذارت۔ اور یہ کہ کتاب کو متشابہ کہا گيا تو وہ اس وجہ سے ہے کہ بعض آیات دوسری آیتوں سے مشابہت رکهتی ہيں اور ان ميں سے بعض آیات ، بعض دوسری آیات کی تصدیق کرتی ہيں بغير اس کے کہ اس ميں کوئی اختلاف یا تضاد پایا جاتا ہو۔ معادن و حی و تنزیل اور آسمان ولایت و امامت کے درخشاں ستاروں سے وارد شدہ حدیثيں خواہ موعظے، خطبات ، کلمات قصار وغيرہ ہوں یا فصاحت و بلاغت اور اعجاز کی حيثيت سے ہوں یا بشار ت نذارت اور احکام شرائع کی تفسير وضاحت کے نقطہٴ نظر سے یا فضائل و مناقب وغيرہ کے لحاظ سے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ زمر، آیہ ٢٣ ۔ (
خوبصورت اور ایسی بہترین حدیث ہے کہ ہر بيان کرنے والے ،لکهنے اور سننے والے کے قلب کی پاکيزگی نيز ضمير کو روشن کرنے اور تزکيہ نفس کے ليے آمادہ کرتی ہے۔ مزید یہ کہ انسان کے دل سے تمام قسم کی آلودگيوں کو ختم کرتی ہےں بالخصوص وہ احادیث جو حضرت خاتم الاوصياء قائم آل محمد بقية الله الاعظم امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کی ولادت اور غيبت صغریٰ و کبریٰ کو بيان کرتی ہيں اسی طرح وہ روایات جو حضرت کے ظہور کی علامتوں پر مشتمل ہيں نيز امت کے نيک بخت بعض وہ افراد کہ جنہيں اس عزیز محمد اور یوسف فاطمی روحی و ارواح العالمين لہ الفداء سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا خواہ ان کے پدر بزرگوار حضرت امام حسن عسکری - کی زندگی ميں یا خواہ غيبت صغریٰ کے دوران یا خواہ غيبت کبریٰ کے زمانے ميں جو تمام افسردہ دلوں اور پژمردہ روحوں کے مخفی تمام درد کا بہترین اور عالی ترین درمان و علاج ہے۔ ان افراد کے واقعات کو پڑهنا یا سننا جو اس عظيم فيض پر فائز اور حضرت کا شرف حضور حاصل کيا ہے ایسا ولولہ انگيز اور دل افزا ہے کہ فطری طور پر شرف یابی کا ہيجان اور شوق پيدا کرتا ہے اور نتيجہ ميں نفس کی پاکيزگی اور تہذیب و اخلاق کا سبب ہوتا ہے۔ اب ہم تبرکاً ان ميں سے چند مورد کی طرف اشارہ کرتے ہيں۔ ١۔ اس سلسلہ ميں کہ ائمہٴ اطہار کی احادیث انسانی قلوب کو تمام پليدگيوں اور آلودگيوں سے جو خطاؤں اور گناہوں سے نشاٴة پاتی ہيں صاف کرتی اور جلا بخشتی ہيں ہم ان ميں سے دو روایت بيان کرنے پر اکتفا کرتے ہيں۔ ٢١٨ ۔ “فی الکافی باسنادہ عن عبد اللّٰہ بن محمّد الحجّال عن بعض اصحابہ رفعہ قال قال رسول اللّٰہ (ص) تذاکروا وتلاقوا وتحدّثوا فانّ الحدیث جلآء للقلوب انّ القلوب لترین کما یرین السّيف ) جلآوٴهٰا ” ( ١ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص، ۴١ ۔ بحار الانوار، ج ١، ص ٢٠٢ ، ج ٢ ، ص ١۵٢ ۔ (
شيخ بزرگور علامہ کلينی رحمة الله عليہ نے کافی ميں حضرت رسول خدا (ص) سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: علم دین کا آپس ميں ذکر کيا کرو اور ایک دوسرے سے ملاقات کرو اور آپس ميں ہماری حدیثوں کے بارے ميں گفتگو کيا کرو کيوں کہ ہماری حدیثوں کا ذکر کرنا اور سننا قلوب کو جلا بخشتا ہے، کيونکہ قلوب نافرمانی کی وجہ سے کثيف اور زنگ آلود ہوجاتے ہيں جس طرح تلوار، اگر اپنے مخصوص تيل سے روغن مالی نہ کی جائے تو زنگ آلود اور خراب ہوجاتی ہے اس بنا پر شمشير کو اسلحہ کے تيل سے صيقل کرنے سے جلا ملتی ہے اسی طرح دلوں کو بهی ائمہٴ ہدی کی حدیثوں سے جلا ملتی ہے۔ ٢١٩ ۔ “ وفی نہج البلاغہ من کلام امير الموٴمنين علیّ بن ابی طالب عليہ السلام قال ) عليہ السلام انّ هذہ القلوب تملّ کما تملّ الاٴبدان فابتغوا لها طرائف الحکم” ( ١ مولی الموحدین حضرت امير المومنين - کے من جملہ گُہر بار اقوال ميں سے ہے کہ آپ نے نہج البلاغہ ميں فرمایا: یہ دل اسی طرح ملول و خستہ اور اُکتا جاتے ہيں جس طرح بدن بہت سے کام زحمت سے ملول و خستہ اور اکتا جاتے ہيں جس طرح انسان کے بدن آرام اور شرعی رفع خستگی سے آرام و سکون حاصل کرتے ہيں اسی طرح دلوں کی ملالت و افسردگی دور کرنے کے ليے بهی بيش بہا حکمتيں تلاش کرو اور فطری بات ہے کہ کوئی بهی حکمت قرآنی آیات اور حضرات معصومين جو علم الٰہی کے خزانہ دار ہيں کی حدیثوں سے زیادہ ارزش مند اور پختہ مطالب پر مشتمل نہيں ہے۔ وہ افراد جو عالمی مصلح امام منتظر قائم آل محمد عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کی ملاقات کا شرف حاصل کرچکے ہيں اور جو عالمی حکومت کے بهی حامل ہيں عالم طفلی اور غيبت صغریٰ کے زمانہ سے پہلے غيبت کبریٰ کے دوران تک نيز اپنے زمانہ کے چند واقعات کی طرف چاہنے والے منتظرین کے افسردہ و رنجيدہ دلوں کی روشنی کے ليے ہم اشارہ کر رہے ہيں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نہج البلاغہ، حکمت ٩١ ۔ (
٢٢٠ ۔ “عن احمد بن اسحاق بن سعد الاشعری قال دخلت علیٰ ابی محمّد الحسن بن علی وانا ارید ان اساٴلہ عن الخلف من بعدہ فقال لی مبتدئاً یا احمد بن اسحاق انّ اللّٰہ تبارک و تعالیٰ لم یخل الاٴرض منذ خلق آدم ولا یخليها الیٰ ان تقوم السّاعة من حجة اللّٰہ علیٰ خلقہ بہ یدفع البلآء عن اهل الارض وبہ ینزّل الغيث وبہ یخرج برکات الارض قال فقلت لہ یابن رسول اللّٰہ فمن الاٴمام والخليفة بعدک فنهض عليہ السلام مسرعاً فدخل البيت ثم خرج وعلیٰ عاتقة غلام کان وجهہ القمر ليلة البدر من ابناء ثلاث سنين فقال یا احمد بن اسحاق لو لا کرامتک علی اللّٰہ عزّوجلّ وعلیٰ حجہ ما عرضت عليک ابنی هذا انّہ سمّی رَسول اللّٰہ (ص) وَکنيہ الّذی یملاء الارض قسطاً وَ عَدَلاً کَما ملئت جوراً وظلماً یا احمد بن اسحاق مثلہ فی هٰذہ الامّة مثل الخضر ومثلہ مثل ذی القرنين والله ليغيبنّ غيبة لا ینجوا من الهلکة فيها الّامن ثبّة اللّٰہ عزّوجلّ علی القول بامامة ووفّقہ فيها الدّعآء بتعجيل فرجہ فقال احمد بن اسحاق فقلت یا مولای فهل من علامة یطمئنّ اليها قلبی فنطق الغلام عليہ السلام بلسان عربیّ فصيح فقال انا بقية اللّٰہ فی ارضہ والمنتقم من اعدائہ فلا تطلب اثراً بعد حين یا احمد بن اسحاق قال احمد بن اسحاق فخرجت مسروراً فرحاً فلما کان من الغد عدت اليہ فقلت یابن رسول اللّٰہ لقد عظم سروری بما مننت بہ علیّ فما السّنة الجاریة فيہ منالخضر وذی القرنين قال عليہ السلام طول الغيبة یا احمد قلت یابن رسول اللّٰہ وانّ غيبة لتطول قال ای وربّی حتّیٰ یرجع عن هذ الامر اکثر القائلين بہ ولا یبقی الاّ من اخذ اللّٰہ عزّوجلّ عهدہ لولایتنا وکتب فی قلبہ الایمان وایّدہ بروح منہ یا احمد بن اسحاق هذا امر من امر اللّٰہ وسر من سرّ اللّٰہ وغيب من غيب اللّٰہ فخذما آتيتک واکتمہ وکن من الشاکرین تکن ) معنا غداً فی علييّن” ( ١ احمد ابن اسحاق اشعری کا بيان ہے: حضرت امام حسن عسکری - کی خدمت ميں اس ارادہ سے حاضر ہوا کہ دریافت کروں کہ آپ نے اپنے بعد اپنا جانشين (حجّت خدا) کس کو مقرر فرمایا ہے تو حضرت نے ابتدا ہی ميں (ميرے سوال کرنے سے پہلے) فرمایا: اے احمد ابن اسحاق! خدائے بزرگ و برتر نے آدم (ابو البشر) کی خلقت سے روز قيات تک زمين کو اپنی حجّت سے کبهی خالی نہيں چهوڑا اور صبح قيامت تک خالی نہيں چهوڑے گا اس کی وجہ سے اہل زمين کی بلائيں دور کرتا ہے اس کی وجہ سے پانی برساتا ہے زمين کی برکتيں اس کے ذریعہ باہر نکالتا ہے۔ احمد ابن اسحا ق کہتے ہيں: ميں نے عرض کيا: اے فرزند رسول (ص) !آپ کے بعد امام اور خليفہ کون ہوگا؟ تو حضرت تيزی سے اڻهے اور گهر ميں داخل ہوئے اور (کچه دیر نہيں گزری تهی کہ) جب واپس آئے تو آپ کے دوشِ مبارک پر تقریباً تين سال کا بچہ تها جس کا چہرہ چودهویں کے چاند کی طرح چمک رہا تها۔ آپ نے فرمایا: اے فرزند اسحاق! اگر الله اور الله کی حجّتوں کی نظر ميں تمہاری کوئی وقعت نہ ہوتی تو ميں اپنے اس بچے کو تمہارے سامنے نہ لاتا۔ جان لو کہ ! ميرا یہ بچہ وہ ہے کہ جس کا نام اور کنيت خود رسول خدا (ص) کے ہم نام اور ہم کنيت ہے ميرا یہی وہ بيڻا ہے جو زمين کو عدل و انصاف سے پُر کر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بهر چکی ہوگی۔ اے احمد ابن اسحاق! ميری امت ميں ميرے اس بچے کی شان خضر اور ذو القرنين کی طرح ہے۔ خدا کی قسم! یقينا اس کی ایسی (بہت طولانی) غيبت ہوگی کہ اس زمانہ ميں ہلاکت سے صرف وہی نجات پائے گا کہ جس کو الله تعالیٰ اس کی امامت کے اعتراف و اعتقاد پر ثابت قدم رکهے گا اور اس امر کی توفيق دے گا کہ وہ اس کی غيبت ميںتعجيل ظہور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المعاجز، ص ١٧۵ ۔ کشف الغمہ، ج ٣، ص ٣٣۴ ۔ (
کے ليے دعا کرتا رہے گا۔ احمد ابن اسحاق کا بيان ہے: ميں نے عرض کيا: اے ميرے مولا! کيا کوئی ایسی علامت بهی ہے جس سے ميرا قلب مطمئن ہوجائے؟ یہ سن کر اس بچے (بقية الله الاعظم امام زمانہ -) نے فصيح عربی زبان ميں فرمایا: سنو! ميں الله کی زمين پر الله کی طرف سے باقی رہنے والا ہوں ميں الله کے دشمنوں سے انتقام لينے والا ہوں اور اسے احمد ابن اسحاق ! اب اپنی آنکهوں سے دیکه لينے کے بعد کوئی علامت تلاش نہ کرو ۔ احمد ابن اسحاق کا بيان ہے کہ: پهر ميں وہاں سے خوش حال ہوکر نکلا اور دوسرے دن پهر حاضرِ خدمت ہوا اور عرض کيا: اے فرزند رسول! آپ نے (اپنے جانشين کی زیارت سے) مجه پر احسان فرمایا ہے اس سے مجهے بے حد خوشی ہے مگر یہ تو فرمائيے کہ ان ميں حضرت خضر - اور حضرت ذوالقرنين - کی کون سی صفات ہوں گی؟ تو آپ نے فرمایا: ان کی طویل غيبت ہے ، ميں نے عرض کيا: کيا ان کی غيبت یقينا بہت طویل ہوگی؟ فرمایا: خدائے بزرگ و برتر کی قسم! اس قدر طویل ہوگی کہ اکثر لوگ جو ان کی امامت کے قائل ہوں گے وہ بهی اپنے قول سے (شک ميں پڑنے کی وجہ سے) پهر جائيں گے اور صرف وہی لوگ رہ جائيں گے کہ جن سے الله تعالیٰ نے ہماری ولایت کا عہد و پيمان لے ليا ہوگا جن کے دلوں پر الله نے ایمان کو نقش کردیا ہوگا اور جن کی مدد روح القدس کے ذریعے فرمائی ہوگی۔ اے فرزند اسحاق! یہ قدرت کے کرشموں ميں سے ایک کرشمہ، الله کے اسرار ميں سے ایک راز اور خدا کے غيوب ميں سے ایک غيبت ہے لہٰذا ميں نے جو کچه اس عظيم نعمت کے بارے ميں تمہيں بتایا ہے اسے یاد رکهنا، دل ميں پوشيدہ رکهنا اور خدا کا شکر ادا کرتے رہنا تاکہ تم جنت ميں ميرے ساته رہو۔ ٢٢١ ۔ “وفی اکمال الدین للصّدوق عليہ الرحمة : باسنادہ عن طریف ابو نصر قال قال: دخلت علیٰ صاحب الزّمان عليہ السلام فقال علیّ بالصّندل الاٴحمر فاتيتہ بہ ، ثم قال: اتعرفنی ؟ قلت نعم فقال من انا؟ فقلت انت سيدی وابن سيّدی فقال: ليس هذا سالتک قال طریف فقلت : جعلنی اللّٰہ فداک فبيّن لی قال انا خاتم الاوصيآء وبی یدفع اللّٰہ عزوجل البلآء عن اهلی وشيعتی )١) ” شيخ صدوق رحمة الله عليہ نے کمال الدین ميں طریق ابو نصر سے نقل کيا ہے کہ اس کا بيان ہے : ميں حضرت صاحب الزمان کی خدمت ميں شرف یاب ہوا تو فرمایا: اس سرخ صندل کو لے آؤ تو ميں اسے لے آیا، پهردریافت فرمایا: کيا مجهے پہچانتے ہو؟ ميں نے عرض کيا: ہاں ، دریافت فرمایا: ميں کون ہوں؟ ميں نے عرض کی: آپ ميرے مولا اور ميرے مولا کے فرزند ہيں تو فرمایا: ميں نے تم سے یہ نہيں دریافت کيا تها، ميں نے عرض کيا: ميں آپ پر قربان جاؤں آپ اپنے منشا و ارادہ سے مجهے آگاہ فرمائيں؟ فرمایا: ميں خاتم الاوصياء ہوں، خدائے بزرگ و برتر ميرے ہی ذریعے ميرے خاندان اور شيعوں سے بلا کو دور کرے گا۔ ٢٢٢ ۔ “وفيہ باسنادہ عن عبد اللّٰہ بن جعفر الحميری قال: ساٴلت محمّد بن عثمان العمروی رضی اللّٰہ عنہ فقلت لہ : اٴراٴیت صاحب هذا الامر؟ فقال: نعم وآخر عہدی بہ عند بيت ) اللّٰہ الحرام وهو یقول : اللّهم انجزلی ما وعدتنی ” ( ٢ نيز اسی کتاب ميں اپنی سند کے ساته عبد الله ابن جعفر حميری سے روایت نقل کی ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے محمد ابن عثمان عمری سے دریافت کيا: کيا اس امر کے صاحب (امام زمانہ -) کو آپ نے دیکها ہے؟ جواب دیا: ہاں یہ آخری مرحلہ (غيبت کبریٰ کے بعد) ميں اتفاق ہوا تها بيت الله الحرام کے پاس تها اور وہ خدا سے درخواست کر رہے تهے کہ ان کے آبائے کرام کے خون کا انتقام اور نصرت کا وعدہ عملی کرے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۴۴١ ۔ تبصرة الولی، حدیث ۵۶٣ ۔ ( ٢(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۴٢٨ ۔ وسائل الشيعہ، ج ٩، ص ٣۶٠ ۔ احتجاج، ج ٢، ص ٢٨٢ ۔ (
٢٢٣ ۔ “وفيہ باسنادہ عن عبد اللّٰہ بن جعفر الحميری قال سمعت محمّد بن عثمان العمری ( رضی اللّٰہ عنہ) یقول رایتہ - صلوات اللّٰہ عليہ - متعلقاً باستار الکبعة فی المستجار وهو یقول ) اللّهم انتقم لی من اعدائی ” ( ١ مزید اسی کتاب ميں اپنی سند کے ساته عبد الله ابن جعفر حميری سے روایت نقل کی ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے محمد ابن عثمان عمری حضرت کے پہلے نائب کو کہتے سنا ہے کہ ميں نے حضرت (بقية الله الاعظم) کو باب مستجار ميں خانہٴ کعبہ کا پردہ پکڑے ہوئے دیکها کہ الله تعالیٰ سے دعا و مناجات فرما رہے تهے: اے ميرے پروردگار! ميرے دشمنوں سے ميرا انتقام لے۔ ٢٢۴ ۔ شيخ بزرگوار علامہ صدوق رحمة الله عليہ نے کتاب کمال الدین ميں اپنی سند کے ساته ابو محمد حسن ابن وجناء نصيبی سے روایت نقل کی ہے کہ ان کا بيان ہے : “کنت ساجداً تحت الميزاب فی رابع اربع وخسمين حجة بعد العتمة ، وانا اتضرّع فی الدّعاء اذ حرّکنی محرّک فقال: قم یا حسن بن وجناء ، قال فقمت فاذاً جاریة صفرآء نحيفة البدن اقول: انّها من ابناء اربعين فما فوقها فمشت بين یدی وانا لا اسئلها عن شیء حتّیٰ اتت بی الیٰ دار خدیجة سلام الله عليہا وفيها بيت بابہ فی وسط الحایط ولہ درج ساج یرتقی فصعدت الجاریة وجآء نی النداء: اصعد یا حسن فصعدت فوقفت بالباب ، فقال لی صاحب الزّمان عليہ السلام یاحسن اٴتراک خفيت علیّ واللّٰہ ما من وقت فی حجّک الاّ وانا معک فيہ ثمّ جعل یعدّ علیّ اوثاتی فوقعت مغشياً علیٰ وجهی فحسست بيد قد وقعت علیّ فقمت ، فقال لی یا حسن الزم دار جعفر بن محمّد عليهما السلام ولا یهمنّک طعامک ولا شرابک ولا مایسر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۴۴٠ ۔ وسائل الشيعہ، ج ١٢ ، ص ٢۵٩ ۔ غيبت طوسی، ص ٣٢۵١ ۔ معجم ( احادیث الامام المہدی -،ج ۴، ص ٢٩٣ ۔
عورتک ، ثم دفع الی دفتراً فيہ دعآء الفرج وصلاة عليہ فقال بهذا فادع، وهکذا صلّ علیّ ، ولا تعطہ الا محقّی اوليائی فانّ اللّٰہ جلّ جلالہ موفّقک فقلت یا مولای لا اراک بعدها ؟ فقال یا حسن اذا شآء اللّٰہ ، قال فانصرفت من حجّتی ولزمت دار جعفر بن محمّد ( علهيما السلام ) فانا اخرج منها فلا ادعو اليهاالا لثلاث خصال : لتجدید وضوء او لنوم اولوقت الاٴفطار ، وادخل بيتی وقت الاٴفطار فاصيب رباعياً مملوٴاً ماء ورغيفاً علیٰ راٴسہ وعليہ ما تشتهی بالنّهار فاٴکل ذٰلک فهو کفایة لی ، وکسوة الشّتآء فی وقت الشتاء وکسوة الصّيف فی وقت الصّيف وانّی لاٴدخل المآء بالنّهار فاٴرشّ البيت وداع الکوز فارغاً فاٴوتی بالطعام ولا حاجة لی اليہ فاصاٴدق بہ ليلاً کيلا یعلم بی من معی ” )١) شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے ابو محمد حسن وجناء نصيبی سے روایت نقل کی ہے کہ ان کا بيان ہے: ميرا چوّنواں سفر حج تها، نماز عشاء کے بعد طواف کے چوتهے چکر ميں تحتِ ميزاب سجدے کے عالم ميں گریہ و زاری کے ساته دعا ميں مشغول تها کہ ناگاہ کسی نے ميرا شانہ ہلایا اور کہا: اے حسن ابن وجناء اڻهو! جب ميں اڻها تو دیکها کہ ایک نحيف و لاغر گورے رنگ کی کنيز ہے جس کا سن چاليس سال یا کچه زیادہ ہے وہ مجهے لے کر چلی اور ميں بهی اسی کے پيچهے چلنے لگا ميں نے اس سے کچه نہ پوچها کہ کہاں لے جارہی ہے یہاں تک کہ وہ مجهے حضرت خدیجہ - کے گهر پر لے آئی اس ميں ایک کمرہ تها جس کا دروازہ دیوار کے درميان تها، وہيں سے اوپر جانے کے ليے ایک لکڑی کا زینہ تها وہ کنيز اوپر چلی گئی اور مجه تک ایک آواز آئی: اے حسن! اوپر آجاؤ، لہٰذا ميں اوپر گيا اور دروازہ کے پاس کهڑا ہوگيا (کہ ناگہاں) حضرت صاحب الزمان کو دیکها انہوں نے مجه سے فرمایا: اے حسن! کيا تمہارا خيال ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
، ١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۴۴۴ ۔ بحار الانوار، ج ۵٢ ، ص ٣٢ ۔ معجم الاحادیث الامام المہدی -، ج ۴ ( ص ۴٣ ۔
)تمہارے اعمال) مجه سے مخفی ہيں؟ خدا کی قسم! ميں تمہارے تمام حج ميں ہر وقت تمہارے ساته ساته تها پهر آپ ہر یک موقعِ حج (اور ميرے اعمال کی کيفيت) کی نشان دہی فرمانے لگے، یہ سن کر مجه پر غش کی حالت طاری ہوگئی اور ميں وہيں زمين پر گر پڑا، اور یہ بهی محسوس کرتا رہا کہ حضرت اپنے دست مبارک ميرے جسم پر پهير رہے ہيں پهر ميں کهڑا ہوا تو حضرت نے مجه سے فرمایا: اے حسن ! تم مدینہ ميں حضرت جعفر ابن محمد کے مکان ميں رہا کرو تمہيں کهانے پينے اور پہننے اوڑهنے کی فکر کی ضرورت نہيں ہے پهر آپ نے مجهے ایک کتابچہ عطا کيا جس ميں دعائے فرج اور آپ پر صلوات کا طریقہ مرقوم تها اور فرمایا: تم اس طرح دعا کيا کرو اور اسی طرح مجه پر درود و صلوات بهيجا کرو یہ دعائے فرج اور طریقہٴ صلوات ہمارے حقيقی دوستوں کے علاوہ کسی اور کو نہ تعليم دینا الله تعالیٰ تمہيں اس کی توفيق عطا کرنے والا ہے۔ ميں نے عرض کيا: اے ميرے مولا! کيا اس کے بعد مجهے آپ کی دوبارہ زیارت نصيب نہ ہوگی؟ تو فرمایا: اے حسن! جب خدا چاہے۔ راوی کا بيان ہے کہ پهر حج سے واپس ہوا اور مدینہ ميں حضرت جعفر ابن محمد - کے مکان ميں رہنے لگا ميں وہاں سے باہر آتا تها اور دوبارہ واپس نہيں جاتا تها مگر صرف تين چيزوں کے ليے، دوبارہ وضو کرنے یا سونے اور آرام کرنے کے ليے یا جب افطار کا وقت ہوتا تها تو اپنے کمرے ميں داخل ہوتا تها تو ميں دیکهتا تها کہ ایک ظرف پانی روڻی اور ہر وہ غذا جو ميرا دل چاہتا تها موجود رہتی تهی، ان کو ميں کهاتا تها اور سردی کا لباس سردی ميں اور گرمی کا لباس گرمی ميں فراہم رہتا تها ميں روزانہ پانی ميں داخل ہوتا تها اور کمرے ميں پانی چهڑکتا تها اور پانی کے کوزہ کو خالی رکهتا تها ليکن رات ميں سب کو کهانے سے بهرا ہوا پاتا تها اور وہ غذائيں جو دوسرے افراد مجهے دیتے تهے اسے رات ميں صدقہ دے دیتا تها تاکہ دوسرے لوگ اس واقعہ کو نہ سمجه سکيں۔ مولف کہتے ہيں: صاحبان نعمت کو وہ نعمتيں گوارا ہوں ہميں اور ان کے شرف دیدار کے تمام مشتاق اور منتظر افراد کو زیارت کی توفيق عطا فرمائے اور دنيا ميں صحت و عافيت عنایت کرے، ان کی اور ان کے اجداد طاہرین کی آخرت ميں شفاعت نصيب فرمائے اور ان کے ظہور سے ہمارے ليے فرج و کشائش عطا کرے اور ان کی بہترین آرزؤوں کو ان تک پہنچا دے بحمد وآلہ الطاہرین۔
٢۔ بہترین / ۴٢ ۴٢ ۔ و حکماً لمن قضیٰ (اور قضاوت کرنے والوں کے ليے قطعی حکم اور فيصلہ ہے( قرآن مجيد ہر اس شخص کے ليے جو لوگوں کے درميان فيصلہ کرنا چاہتا ہے اس کے حکم کی سند اور مرجع ہے کيوں کہ اس کا حکم محکم اور حق ہے اور اس کے علاوہ باطل، خدائے بزرگ و برتر نے متعدد مقامات پر ان افراد کو جو قرآن کے علاوہ حکم اور قضاوت کرتے ہيں انہيں شدید الفاظ ميں ظالم و فاسق اور کافر سے یاد کيا ہے: ( ١ اور جو بهی خدا کے نازل کردہ حکم کے خلاف فيصلہ کرے گا وہ ظالموں ميں شمار ہوگا۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ٢ بے شک ہم نے توریت کو نازل کيا ہے جس ميں ہدایت اور نور ہے اور اس کے ذریعہ اطاعت گزار انبياء یہودیوں کے ليے فيصلہ کرتے ہيں اور الله والے اور علمائے یہود اس چيز سے فيصلہ کرتے ہيں جس کا کتاب خدا ميں ان کو محافظ بنایا گيا ہے اور جس کے یہ گواہ بهی ہيں لہٰذا تم ان لوگوں سے نہ ڈرو صرف ہم سے ڈرو اور خبردار تهوڑی سی قيمت کے ليے ہماری آیات کا کاروبار نہ کرنا اور جو بهی ہمارے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نازل کيے ہوئے قانون کے مطابق فيصلہ نہ کرے گا وہ سب کافر شمار ہوں گے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ١ اہل انجيل کو چاہيے کہ خدا نے جو حکم نازل کيا ہے اس کے مطابق فيصلہ کریں کہ جو بهی تنزیل خدا کے مطابق فيصلہ نہ کرے گا وہ فاسقوں ميں شمار ہوگا۔ قرآن مجيد جو تمام قاضيوں کے ليے مرجع اور سند ہے اور حق کو باطل سے جدا اور بيان کرنے والی کتاب ہے، پيغمبر اکرم (ص) کی وصيت کے مطابق قاعدہٴ تلازم کے اعتبار سے قرآن اور اہل بيت عصمت و طہارت جب تک حوض کوثر پر وارد نہ ہوجائيں ایک دوسرے سے جدا ہونے والے نہيںہيں اس کے علاوہ قرآن اس عظيم ہستی پر نازل ہوا ہے “ و اهل البيت ادریٰ بما فی البيت” یعنی گهر کی باتوں سے گهر والے زیادہ واقف ہوتے ہيں۔ اور تمام قرآنی علوم پيغمبر اکرم (ص) اور ان کے اوصياء کے پاس موجود ہيں ( ٢) اور ہم نے ہر شے کو ایک روشن امام ميں جمع کردیا ہے۔ نيز الله تعالیٰ کا یہ قول: ( ٣) کوئی خشک و تر ایسا نہيں ہے جو کتاب مبين کے اندر محفوظ نہ ہو۔ تفسير صافی ميں امام مبين سے مراد “اللوح المحفوظ” ( ۴) لوح محفوظ ہے۔ تفسير قمی ميں ذکر ہوا ہے “فی کتاب مبين و هو محکم” ( ۵) کتاب مبين سے مراد وہی محکم ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ مائدہ، آیت ۴٧ ۔ ( ٢(۔ سورئہ یسين، آیت ١٢ ۔ ( ٣(۔ سورئہ انعام، آیت ۵٩ ۔ ( ۴(۔ تفسير صافی، ج ۴، ص ٢۴٧ ۔ ( ۵(۔ تفسير قمی، ج ٢، ص ٢١٢ ۔ (
٢٢۵ ۔ تفسير الميزان ميں ابن عباس سے انہوں نے امير المومنين سے نقل کيا ہے کہ حضرت - نے فرمایا: “ وانا واللّٰہ الامام المبين ابيّن الحق من الباطل ورثتہ من رسول اللّٰہ (ص) ” )١) امام علی - نے فرمایا: خدا کی قسم ! ميں امام مبين ہوں حق کو باطل سے جدا اور بيان کرتا ہوں یہ علم ميں نے پيغمبر سے ورثہ ميں حاصل کيا ہے۔ ٢٢۶ ۔ “وفی تاویل الآیات لمولفہ الفقيہ المفسر السيد الشرف الدین علی الحسنی الاٴ سترابادی النجفی باسنادہ عن صالح بن سهل قال سمعت ابا عبد اللّٰہ عليہ السلام یقرء قال: فی امير الموٴمنين عليہ السلام ” ( ٢ تاویل الآیات جو مفسر فقيہ سيد شرف الدین علی الحسينی استر آبادی نجفی کی تاليف ہے انہوں نے اپنی سند کے ساته صالح ابن سہل سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے امام جعفر صادق - کو یوں پڑهتے ہوئے سنا: “ ” امير المومنين کی ذات ميں ہم نے ہر شے کا احصاء کردیا ہے۔ ٢٢٧ ۔ “ وفيہ باسنادہ الیٰ ابی الجارود عن محمّد بن علی الباقر صلوات اللّٰہ عليهما - قال لمّا نزلت هذہ الآیة علی رسول اللّٰہ (ص) قال رجلان ( ابو بکر وعمر ) کما فی المعانی من مجلسها فقالا یا رسول اللّٰہ هو التوراة ؟ قال لا قالا هو الانجيل ؟ قال لا قالا هو القرآن؟ قال لا قال فاقبل امير الموٴمنين عليہ السلام فقال رسول اللّٰہ (ص) هو هذا ، انّہ الامام الذی احصی اللّٰہ تبارک و تعالیٰ فيہ علم کلّشیء یعنی علم ماکان وما یکون الیٰ یوم ) القيٰمة”’ ( ٣ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير الميزان، ج ١٧ ، ص ٧٠ ۔ ( ٢(۔ تاویل الآیات، ج ٢، ص ۴٨٧ ۔ ) ( ٣(۔ گزشتہ حوالہ۔
صاحب کتاب تاویل الآیات نے اپنی سند کے ساته ابو الجارود سے نقل کيا ہے کہ امام محمد باقر - نے فرمایا: جب یہ آیت رسول خدا (ص) پر نازل ہوئی (یعنی ابوبکر اور عمر) اپنی جگہ کهڑے ہوئے اور کہا: یا رسول الله (ص)! کيا امام مبين سے مراد توریت ہے؟فرمایا: نہيں، عرض کيا: کيا انجيل مراد ہے؟ فرمایا: نہيں ، پهر دریافت کيا قرآن مراد ہے؟ فرمایا: نہيں، اسی اثنا ميں امير المومنين علی - تشریف لائے تو رسول الله نے فرمایا: وہ امام یہ ہيں۔ یہ وہ امام ہےں کہ خدائے بزرگ و برتر نے انہيں ہر شے کا علم عطا فرمایا ہے یعنی ماضی اور مستقبل کا روز قيامت تک کا علم ودیعت کيا ہے۔ ٢٢٨ ۔ “ ویوید هذ التاویل قول النبی (ص) فی خطبة یوم الغدیر : معاشر النّاس ما من علم الّا وقد احصٰاہ اللّٰہ فیّ وکلّ علم علّمت فقد احصيتہ فی امام المتقين وما من علم الّا وقد علّمتہ ) عليّاً وهو الامام المبين ” ( ١ نبی اکرم (ص) کے اس قول کی تائيد ميں وہ فقرہ ہے جو آپ نے غدیر کے دن ایک مفصل خطبہ ميں حاجيوں کے کثير مجمع ميں کہ جن کی تعداد دو لاکه تک بتائی گئی ہے فرمایا: اے لوگو! کوئی علم ایسا نہيں ہے مگر یہ کہ خدائے بزرگ و برتر نے اسے مجهے عطا کيا ہو اور ہر وہ علم جسے ميں نے الله تعالیٰ سے اخذ کيا ہے ان سب کو امام المتقين کو عطا کيا اور کوئی علم ایسا نہيں ہے کہ جس کو ميں نے علی - کو تعليم نہ کيا ہو اور وہ وہی امام مبين ہے کہ جس کا آیت ميں ذکر ہوا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ احتجاج ، ج ١، ص ٧۴ ۔ (
۱۵
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
٣۔ نزول آسمانی ٣۔ “ القرآن منزّل من السّمآء : والحجّة منزّل نورہ قبل الخلق السّموات والارض“ قرآن آسمان سے نازل ہوا ہے اور حجّت کا نور بهی تمام آسمان اور زمين کی خلقت سے پہلے نازل کيا گيا۔ وہ آیات جو قرآن کو آسمان سے نازل ہونے کو بيان کرتی ہيں بہت ہيں ہم ان ميں سے چند آیات کے ذکر پر اکتفا کرتے ہيں: الله تعالیٰ نے فرمایا: یہاں تک کہ فرمایا: ( ١ الم یہ وہ کتاب ہے جس ميں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہيں ہے یہ صاحبان تقویٰ اور پرہيز گار لوگوں کے ليے مجسمہٴ ہدایت ہے۔ اگر تمہيں اس کلام کے بارے ميں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کيا ہے تو اس کا جيسا ایک ہی سورہ لے آؤ اور الله کے علاوہ جتنے تمہارے مددگار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ٢٣ ۔ (
ہيں سب کو بلاؤ اگر تم اپنے دعوے اور خيال ميں سچے ہو۔ ) اور فرمایا: ( ١ حم۔ ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات ميں نازل کيا ہے ہم بے شک عذاب سے ڈرانے والے تهے۔ ) مزید الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ٢ بے شک ہم نے اسے شب قدر ميں نازل کيا ہے۔ ) الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ٣ حقيقت ميں ہم نے آپ پر قرآن تدریجی طور پر نازل کيا ہے۔ ) الله تعالیٰ کا یہ قول: ( ۴ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کيا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہيں۔ خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا: ( ۵ اور قيامت کے دن ہم ہر گروہ کے خلاف انہيں ميں کا ایک گواہ اڻهائيں گے اور پيغمبر آپ کو ان سب کا گواہ بناکر لے آئيں گے اور ہم نے آپ پرکتاب نازل کی ہے جس ميں ہر شے کی وضاحت موجود ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
) الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ١ بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے بر فرقان نازل کيا ہے تاکہ وہ سارے عالمين کے ليے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا بن جائے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ٢ طہ، ہم نے آپ پر قرآن اس ليے نہيں نازل کيا ہے کہ آپ اپنے کو زحمت ميں ڈال دیں یہ تو ان لوگوں کی یاد دہانی کے ليے ہے کہ جن کے دلوں ميں خوف خدا ہے۔ یہ اس خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جس نے زمين اور بلند ترین آسمانوں کو پيدا کيا ہے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ٣ یقينا یہ بڑا محترم قرآن ہے جسے ایک پوشيدہ کتاب ميں رکها گيا ہے اسے پاک و پاکيزہ افراد کے علاوہ کوئی چهو بهی نہيں سکتا ہے یہ رب العالمين کی طرف سے نازل کيا گيا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا: ( ۴ حم، خدائے رحمان و رحيم کی تنزیل ہے اس کتاب کی آیتيں تفصيل کے ساته بيان کی گئی ہيں عربی زبان کا قرآن ہے اس قوم کے ليے جو سمجهنے والی ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
) نيز الله تعالیٰ کا قول ہے: ( ١ تو آپ کہہ دیجيے کہ اس قرآن کو روح القدس جبرئيل نے تمہارے پروردگار کی طرف حق کے ساته نازل کيا ہے تاکہ صاحبان ایمان کو ثبات و استقلال عطا کرے۔ ) الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ٢ ہم نے آپ کی طرف یہ برحق کتاب نازل کی ہے کہ لوگوں کے درميان حکم خدا کے مطابق فيصلہ کریں۔ اس کے علاوہ اور وہ آیات جو کلی طور پر قرآن کے آسمان سے نازل ہونے پر دلالت کرتی ہيں، ليکن اس کے نزول کی تاریخ اور کيفيت ذکر ہوگی۔ قرآن کے نزول کے آغاز کے بارے ميں محققين علماء اور مفسرین کے مختلف نظریات پائے جاتے ہيں، بعض مفسرین اس بات کا عقيدہ رکهتے ہيں کہ نزول قرآن کا آغاز نيمہٴ شعبان (حضرت بقية الله مہدی آل محمد - کی ولادت باسعادت کے موقع) پر ہوا اور سورئہ دخان کی آیات ميں مبارک شب سے مراد وہی نيمہٴ شعبان کی رات ہے۔ ليکن اکثر مفسرین اور محدثين کا عقيدہ یہ ہے کہ نزول قرآن کا آغاز ماہ رمضان ميں ہوا تها، یہاں تک کہ بعض نے اس کی رات اور دن کو بهی مشخص کيا ہے اور بعض دوسروں نے وقت معين کيے بغير ذکر کيا ہے۔ آیہٴ کریمہ کی صراحت کی طرف توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بطور مسلم بغير کسی شک وشبہ کے قرآن کے نزول کا آغازشب قدر ميں ہوا ہے اگرچہ خود شب قدر کے تعين ميں مختلف آراء و نظریات پائے جاتے ہيں۔ جيسا کہ ان ميں سے ایک شب نيمہٴ شعبان، پہلی، سترہویں، انيسویں، اکيسویں، تيئيسویں، چوبيسویں، پچيسویں، ستائيسویں ماہ رمضان کی شب ميں احتمال دیا ہے، ليکن سورہ قدر ، دخان اور بقرہ کی آیات کی جمع بندی کے ساته ظن قوی حاصل ہوتا ہے کہ شب قدر ماہ مبارک رمضان کی دس آخری راتوں ميں سے ایک ہے۔ سورئہ مبارکہ قدر ميں ہم پڑهتے ہيں بے شک ہم نے اسے شب قدر ميں نازل کيا ہے اس آیہٴ کریمہ ميں صرف علت ذکر نہ ہونے کی وجہ سے مرجع ضمير سے یہ استفادہ نہيں ہوتا کہ جو کچه شب قدر ميں نازل ہوا وہ قرآن ہے اور ، سورئہ دخان ميں ہم پڑهتے ہيں کتاب مبين کی قسم ! کہ ہم نے اس کو مبارک رات ميں نازل کيا ہے ہم بے شک عذاب سے ڈرانے والے تهے اس رات ميں تمام حکمت و مصلحت کے امور کا فيصلہ کيا جاتا ہے۔ اس آیت ميں “انزلناہ” کی ضمير کتاب مبين جو قرآن ہے اس کی طرف پلڻتی ہے اور مبارک شب سے مراد وہی شب قدر ہے اس ليے کہ آیہٴ کریمہ فرماتی ہے: ماہ رمضان وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن نازل کيا گيا ہے جو لوگوں کے ليے ہدایت ہے او اس ميں ہدایت اور حق و باطل کے امتياز کی واضح نشانياں موجود ہيں، روایات بهی اسی معنی کی تائيد کرتی ہيں۔ ٢٢٩ ۔ “ وفی الخصال باسنادہ عن حسّان بن مهران قال ساٴلت ابا عبد اللّٰہ عليہ السلام ) عن ليلة القدر فقال التمسها ليلة احدی و عشرین وليلة ثلث وعشرین” ( ١ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الخصال، ص ۵١٩ ۔ (
خصال ميں صدوق عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته حسان مہران سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے امام جعفر صادق سے شب قدر کے بارے ميں دریافت کيا: تو فرمایا: اسے اکيسویں اور تيئيسویں شب ميں تلاش کرو۔ ٢٣٠ ۔ بعض معصومين سے مروی روایات ميں لوگوں نے سوال کيا کہ ان دونوں شب ميں سے کوئی ایک شب قدر معين فرمائيں؟ تو حضرت - نے معين نہيں کيا بلکہ فرمایا: “ مٰا ایسر ليلتين فيما تطلب ” ( ١) کتنا آسان ہے کہ اپنے مطلوب کو ان دو راتوں ميں تلاش کرو۔ ٢٣١ ۔ یا یہ قول فرمایا: “ما عليک ان تفعل خيراً فی ليلتين ” ( ٢) تمہيں کيا ہوجائے گا کہ ان دو راتوں ميں اعمال خير انجام دو؟ بہت سی حدیثوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ شب قدر تيئيسویں شب ہے اور خود حضرات معصومين کے اعمال بهی اسی معنی کی نشان دہی کرتے ہيں: دعائم الاسلام ميں روایت نقل ہوئی ہے کہ حضرت رسول اکرم (ص) ماہ رمضان کی آخری دس راتوں ميں اپنے بستر جمع کرليتے اور عبادت کے ليے اپنی کمر ہمت کو محکم طور پر بانده ليتے تهے اور تيئيسویں کی شب اپنے اہل خانہ کو بيدار رکهتے تهے اور جنہيں نيند آنے لگتی تهی تو ان کے چہروں پر آب پاشی کرتے تهے۔ اور حضرت فاطمہ زہرا # اس رات اپنے اہل خانہ ميں سے کسی کو سونے نہيں دیتی تهيں ان کے نہ سونے کا علاج غذا کم کهلانے سے کيا کرتی تهيں اور انہيں تيئيسویں کی شب بيدار رہنے کے ليے آمادہ کرتی تهيں نيز فرماتی تهيں:محروم وہ شخص ہے جو آج کی رات کی خير و خوبی سے محروم ہوجائے اور روایت ميں وارد ہوا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق سخت مریض ہوگئے تهے جب تيئيسویں کی شب آئی تو اپنے چاہنے والوں کو حکم دیا کہ انہيں اڻها کر مسجد لے جائيں اور اس رات صبح تک مسجد ميں تهے اور ملائکہ و روح جو اعظمِ ملائکہ کہلاتے ہيں اسی شب قدر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ فروع کافی، ج ١، ص ٢٠۶ ۔ ( ٢(۔ تہذیب الاحکام، ج ٣، ص ۵٨ ۔ (
ميں اذن پروردگار سے زمين پر نازل ہوتے ہيں اور امام زمانہ - کی خدمت بابرکت ميں مشرف ہوتے ہيں اور تمام مخلوقات کی تقدیروں کو امام کے سامنے پيش کرتے ہيں نزول کی کيفيت کو “فلجا لمن حاج بہ” کے فقرہ ميں ذکر کيا ہے وہاں رجوع کریں۔ مصلح جہانی امام زمانہ - کا یگانہ مقدس نو آور اور ان کے آباء و اجداد کرام کے انوار مقدسہ بهی قرآن کی طرح عالم بالا سے نازل ہوئے ہيں۔ ٢٣٢ ۔ “وفيہ باسنادہ عن محمّد بن الفضيل عن ابی الحسن عليہ السلام : قال ساٴلتہ عن قول اللّٰہ تبارک وتعالیٰ قال یریدون ليطفوٴوا ولایة اميرالموٴمنين عليہ السلام باٴفواههم ، قلت قولہ قال یقول : والله متمّ الامامة والامامة هی النّور وذٰلک قولہ تعالیٰ عزوجلّ قال : النّور ) هو الامام ” ( ١
اسی کتاب ميں اپنی سند کے ساته محمد ابن فضيل سے انہوں نے حضرت ابو الحسن - سے نقل کيا ہے کہ راوی کا بيان ہے: ميں نے آیہٴ کریمہ ْ ٢) یہ لوگ چاہتے ہيں کہ نور خدا کو اپنے منه سے بجها دیں۔ کا معنی دریافت کيا تو حضرت نے ) فرمایا: چاہتے ہيں کہ امير المومنين - کی ولایت کو اپنی ناروا اور ننگين پروپيگنڈوں سے خاموش کردیں، ميں نے عرض کيا: کلام الٰہی “و اللّٰہ متم نورہ” اور الله اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے، سے کيا مراد ہے؟ فرمایا: خدائے بزرگ و برتر امامت کو پایہٴ تکميل تک پہنچانے والا ہے اور امامت وہی نور ہے اور برہان و بيان ہے جيسا کہ الله تعالیٰ کا قول ہے: ( ٣) لہٰذا خدا اور رسول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس نور پر ایمان لے آؤ جسے ہم نے نازل کيا ہے، فرمایا: نور سے مراد وہی امام ہے۔ ٢٣٣ ۔ “ وفيہ : علیّ بن ابراہيم باسنادہ عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فی قول اللّٰہ تعالیٰ الی قولہ ( ١) قال: النّور فی هذا الموضع (علی ) امير الموٴمنين )“ والائمّة عليہم السلام ( ٢ نيز اسی کتاب ميں علی ابن ابراہيم قمی نے اپنی سند کے ساته امام جعفر صادق - سے نقل کيا ہے کہ حضرت - نے فرمایا: آیہٴ کریمہ ميں جو لوگ رسول امّی کا اتباع کرتے ہيں جس کا ذکر اپنے پاس توریت اور انجيل ميں (جو آسمان سے نازل ہوئی ہے) لکها ہوا پاتے ہيں کہ وہ نيکيوں کا حکم دیتا ہے اور برائيوں سے روکتا ہے اور پاکيزہ چيزوں کو حلال قرار دیتا ہے اور خبيث چيزوں کو حرام قرار دیتا ہے یہاں تک کہ فرمایا: اتباع کرو اس نور کا جو اس پيغمبر کے ہمراہ نازل کيا گيا ہے وہی لوگ فلاح پانے والے ہيں، فرمایا: یہاں نور سے مراد امير المومنين اور ائمہ کا نور ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۔ جاوداں ۴۔القرآن باقية ما دامت السّموات والارض: والحجّة باقية الیٰ ان یشآء اللّٰہ ان یبقيہ قرآن کریم جاودانی اور دائمی ہے جب تک کہ تمام آسمان اور زمين ثابت اور اپنی جگہ باقی ہيں اور کبهی بهی زوال پذیر نہيں ہوں گے اسی طرح حجّت خدا امام زمانہ - بهی ہميشہ زندہ و پائندہ ہيں کہ جب تک خدا چاہے۔ ) الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ١ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کيا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہيں۔ ) نيز الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ٢ بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کيا ہے تاکہ وہ سارے عالمين کے ليے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا بن جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا - ( ١ اور تم سب الله کی رسی کو پکڑے رہو اور آپس ميں تفرقہ نہ پيدا کرو اور الله کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس ميں دشمن تهے اس نے تمہارے دلوں ميں الفت پيدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بهائی بهائی بن گئے اور تم جہنم کے کنارے پر تهے تو اس نے تمہيں نکال ليا اور الله اسی طرح اپنی آیتيں بيان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ٢ حم، اس روشن کتاب کی قسم بے شک ہم نے اسے عربی قرآن قرار دیا ہے تاکہ سمجه سکو اور یہ ہمارے پاس لوح محفوظ ہے نہایت درجہ بلند اور پُر از حکمت کتاب ہے۔ اس کے علاوہ دوسری آیات بهی ہيں جو تينوں منطقی دلالت (مطابقی، تضمنی اور التزامی) کے مطابق اس بات پر دلالت کرتی ہيں کہ قرآن مجيد الله تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا اور اس کتاب کی حفاظت ذات اقدس الٰہی پر ہی منحصر ہے۔ ليکن احادیث بہت زیادہ ہيں من جملہ ان ميں سے ایک حدیث ثقلين ہے۔ ٢٣۵ ۔ “ وفی البصائر عن ابی جعفر عليہ السلام قال : قال رسول اللّٰہ (ص) : یا ایّها النّاس انّی تارک فيکم الثّقلين الثّقل الاکبر والثّقل الاٴصغر ان تمسّکتم بهما لن تضلّوا ولا تتبدّلوا ، وانّی سئلت اللّطيف الخبير ان لا یفترقا حتّیٰ یردا علیّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحوض فاعطيت ذلک ، قالوا وما الثّقل الاکبر وما الثّقل الاصغر ؟ قال عليہ السلام : الثّقل الاکبر ) کتاب اللّٰہ سبب طرفہ بيداللّٰہ وسبب طرفہ بایدیکم والثّقل الاصغر عترتی واهل بيتی ” ( ١ بصائر الدرجات ميں امام محمد باقر - سے منقول ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے لوگو! ميں تمہارے درميان دو عظيم (گراں قدر) چيزیں چهوڑ رہا ہوں ان ميں سے ایک بڑی اور دوسری چهوڻی ہے اگر ان دونوں سے متمسک رہو گے تو ہرگز ہر گز گمراہ نہ ہو گے اور اسے کسی چيز ميں تبدیل نہ کرنا ميں نے خدائے لطيف و خبير سے درخواست کی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے ميرے پاس وارد ہوں اور الله تعالیٰ نے ميری درخواست قبول کی اور مجهے عطا فرمایا ہے، لوگوں نے دریافت کيا: یا رسول الله! وہ بڑی گراں قدر چيز کيا ہے؟ اور ان ميں چهوڑی کون سی شے ہے؟ فرمایا: بڑی گراں قدر شے وہی کتاب خدا ہے کہ جس کا ایک سرا خدا کے قبضہٴ قدرت ميں ہے اور اس کا دوسرا سرا تمہارے ہاته ميں ہے، اور چهوڻی گراں قدر شے ميری عترت ہے جو ميرے اہل بيت ہيں۔ ٢٣۶ ۔ “عن ابی ثابت مولی ابی ذرّ قال : سمعت ام سلمة تقول : سمعت رسول اللّٰہ (ص) فی مرضہ الّذی قبض فيہ یقول وقد امتلئت الحجرة من اصحابہ : ایّها النّاس یوشک ان اقبض سریعاً فينطلق بی وقد قدمت اليکم الا انّی مخلّف فيکم کتاب اللّٰہ ربّی عزّوجلّ وعترتی اهل بيتی ، ثم اخذ بيد علی عليہ السلام فرفعها فقال: هذا علی مع القرآن والقرآن مع علیٍّ خليفتان ) نصيران لا یفترقان حتی یردا علیّ الحوض فاسئلهما ماذا خلّفت فيهما ” ( ٢ ابو ثابت غلام ابوذر رضوان الله تعالیٰ عليہ سے روایت منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے ام سلمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ: ميں نے رسول خدا (ص) سے اس مرض الموت کی حالت ميں جب انہوں نے دنيا سے رحلت فرمائی سنا کہ اس موقع پر آپ کا حجرئہ مبارک اصحاب سے بهرا ہوا تها تو وہ فرما رہے تهے: اے لوگو! ميرے دنيا سے جانے کا وقت نزدیک آچکا ہے ميں تمہارے سامنے آیا ہوں جان لو ، آگاہ ہوجاؤ یقينا ميں تمہارے درميان (دو چيزیں بطور امانت چهوڑ رہا ہوں) اپنے پروردگار کی کتاب اور اپنی عترت جو ميرے اہل بيت ہيں، پهر حضرت علی - کا دست مبارک پکڑا اور بلند کرکے فرمایا: یہ علی قرآن کے ساته ہيں اور قرآن علی کے ساته ہے۔ یہ دونوں ميرے خليفہ اور ایک دوسرے کے ناصر و مددگار ہيں ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے ميرے پاس وارد ہوں گے پهر ميں ان دونوں سے سوال کروں گا کہ تمہارے ساته کيا سلوک کيا گيا؟ حدیث ثقلين ان روایات ميں سے ہے جو رسول خدا (ص) سے شيعہ سنی طرق سے تواتر کے ساته نقل ہوئی ہے اور اس کے ذریعے استقلال اور اثبات کيا ہے کہ حضرت امير المومنين - پيغمبر (ص) کے بعد ولایت و خلافت کے زیادہ حق دار تهے۔ یہ مبارک حدیث شيعہ طرق سے مشہور بلکہ اس کا متواتر ہونا غير قابل انکار ہے، یہاں تک کہ طرق اہل سنت سے بهی کتب صحاح ستہ ميں مع معتبر اسانيد اور تواتر کے ساته نقل ہوئی ہے۔ ٢٣٧ ۔ “ففی مسند احمد بن حنبل بالاٴسناد عن ابی سعيد الخدری قال! قال رسول اللّٰہ (ص) انّی قد ترکت فيکم الثقلين ما ان تمسّکتم بهما لن تضلّوا بعدی واحدهما اکبر من الاٴخر کتاب اللّٰہ حبل ممدود من السّمآء الی الاٴرض وعترتی واهل بيتی الا وانّهما لن یفترقا حتیٰ یردا ) علی الحوض ( ١) وقد روی عن ابی بکر انہ قال عترة النّبی (ص) علی عليہ السلام ” ( ٢ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مسند احمد ابن حنبل، ج ٣، ص ٢٧ ۔ ( ٢(۔ بحار الانوار، ج ٢٣ ، ص ١٠۶ ۔ (
احمد ابن حنبل نے اپنی کتاب مسند ميں ابو سعيد خدری سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول خدا نے فرمایا: یقينا ميں تمہارے درميان دوعمدہ گراں قدر چيزیں چهوڑنے والا ہوں ميرے بعد جب تک ان دونوں سے متمسک رہو گے اور مضبوطی سے تهامے رہو گے ہر گز ہرگز گمراہ نہ ہوگے ان ميں سے ایک دوسری سے زیادہ بڑی ہے ایک کتاب خدا ہے جو آسمان سے لے کر زمين تک کهنچی ہوئی ہے اور دوسری ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں جان لو کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر ميرے پاس وارد ہوں۔ اور ابوبکر سے روایت ہوئی ہے کہ انہوں نے کہا: نبی اکرم (ص) کی عترت علی - ہيں۔ ٢٣٨ ۔ “ وفی صحيح مسلم عنہ (ص) ، انّہ قام خطيباً فينا بمآء یدعیٰ خماً بين مکة والمدینة فحمد اللّٰہ واثنیٰ عليہ ووعظ وذکّر ثمّ قال (ص) ایّها النّاس انّما انا بشر یوشک ان یاٴتينی رسول ربّی فاجيب ، وانّی تارک فيکم الثقلين احدهما کتاب اللّٰہ فيہ الهدیٰ والنّور فخذوا بکتاب اللّٰہ واستمسکوا بہ فحثّ علیٰ کتاب اللّٰہ تعالیٰ ورغّب فيہ ثمّ قال عليہ السلام واهل بيتی اذکّر کم ) اللّٰہ فی اهل بيتی اذکّرکم اللّٰہ فی اهل بيتی اذکّرکم اللّٰہ فی اهل بيتی” ( ١ صحيح مسلم ميں پيغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے کہ : رسول خدا (ص) ہمارے درميان ایک پانی کے جمع ہونے کی جگہ جسے “خم” کہتے ہيں جو مکہ اور مدینہ کے درميان ہے کهڑے ہوئے اور خطبہ پڑها حمد وثنائے الٰہی کی موعظہ و نصيحت فرمائی پهر فرمایا: اے لوگو! ميں بهی صرف تمہاری طرح ایک انسان ہوں قریب ہے خدا کا فرستادہ (عزرائيل) ميرے پاس آئے اور ميں لبيک کہوں اب ميں تمہارے درميان دو گراں قدر چيزیں چهوڑے جا رہا ہوں ان ميں سے ایک الله کی کتاب ہے کہ جس ميں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ صحيح مسلم، ج ٧، ص ١٢٢ ، ط محمد علی صبيح۔ (
ہدایت اور نور ہے لہٰذا کتاب خدا سے متمسک رہو اسے مضبوطی سے پکڑے رہو پهر کتاب خدا کی بہت زیادہ ترغيب و توصيف بيان کی پهر فرمایا: دوسری چيز ميرے اہل بيت ہيں ميں خدا کے واسطے سے تمہيں اپنے اہل بيت کے بارے ميں یاد دہانی کراتا ہوں ، تمہيں اپنے اہل بيت کے بارے ميں یاد دہانی کراتا ہوں ، تمہيں اپنے اہل بيت کے بارے ميں یاد دہانی کراتا ہوں ، (خدا کے ليے ميرے اہل بيت کو مدّنظر قرار دینا) اس کلام کی تين مرتبہ تاکيد فرمائی۔ ٢٣٩ ۔ “وعن کتاب المجمع بين الصّحاح الستة عن سنن ابی داوٴد وعن صحيح الترمذی باسنادهما عن رسول اللّٰہ (ص) قال: انّی تارک فيکم الثقلين ما ان تمسّکتم بهما لن تضلّوا بعدی احدهما اعظم من الاٴخر وهو کتاب اللّٰہ الممدود من السّمآء الی الاٴرض وعترتی اهل بيتی لن ) یفترقا حتّیٰ یردا علیّ الحوض فانظروا کيف تخلفونی فی عترتی ” ( ١ کتاب مجمع اور سنن ابو داؤد ميں صحيح ترمذی سے کہ ان دونوں نے اپنے اسناد کے ساته رسول خدا (ص) سے نقل کيا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: یقينا ميں تمہارے درميان عمدہ گراں قدر چيزیں چهوڑ رہا ہوں ميرے بعد جب تک ان دونوں سے متمسک رہو گے اور مضبوطی سے تهامے رہو گے ہرگز ضلالت و گمراہی ميں نہيں پڑو گے ان ميں سے ایک دوسرے سے زیادہ بڑی ہے اور وہ کتاب خدا ہے جو آسمان سے لے کر زمين تک کهنچی ہوئی رسی ہے اور دوسرے ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں اور یہ قرآن و اہل بيت ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے، دقت سے غور کرو کہ ميری عترت کے ساته تم کيسا سلوک کرتے ہو۔ ٢۴٠ ۔ “ < واعتصموا بحبل اللّٰہ جميعاً > باسانيد قال: قال رسول اللّٰہ (ص) : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کنز العمال، ج ١، ص ٣٨١ ۔ (
ایّها النّاس انّی قد ترکت فيکم الثقلين ان اخذتم بهما لن تضلّوا بعدی احدهما اکبر من الآخر کتاب اللّٰہ حبل ممدود ما بين السماء والارض او قال الی الاٴرض وعترتی اهل بيتی الا وانهما لن یفترقا ) حتّی یردا علیّ الحوض ” ( ١ ثعلبی نے اپنی تفسير ميں آیہٴ کریمہ کی تفسير ميں اپنے متعدد اسناد کے ساته ذکر کيا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا: اے لوگو! یقينا ميں تمہارے درميان دو گراں قدر چيزیں چهوڑے جا رہا ہوں۔ دونوں ميرے خليفہ اور نمائندے ہيں جب تک ان دونوں کو باہم ليے رہو گے (اور عمل کرو گے) تو ہرگز ہرگز ميرے بعد گمراہ نہ ہوگے ان ميں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اور وہ کتاب الله ہے جو آسمان سے لے کر زمين تک کهنچی ہوئی رسی ہے اور دوسری چيز ميرے اہل بيت ہيں جان لو یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مير ے پاس وارد ہوں گے۔ ٢۴١ ۔ “ وعن ابی الحسن الفقيہ فی ماٴة منقبة عن زید بن ثابت قال : قال رسول اللّٰہ (ص) انی تارک فيکم الثقلين کتاب اللّٰہ وعلیّ بن ابی طالب افضل لکم من کتاب اللّٰہ لاٴنّہ مترجم ) لکم کتاب اللّٰہ” ( ٢ ابو الحسن فقير سے ابن شاذان نے کتاب مائة منقبة ميں زید ابن ثابت سے روایت نقل کی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: ميں تمہارے درميان دو عمدہ گراں قدر چيزیں چهوڑے جارہا ہوں ایک الله کی کتاب اور دوسرے علی بن ابی طالب - اور وہ تمہارے ليے کتاب سے افضل ہيں کيوں کہ وہ کتاب الله کی تمہارے ليے ترجمانی کرنے والے ہيں۔ ٢۴٢ ۔ “ وعن موفّق بن احمد ابو الموٴیّد اخطب خوارزمی بالاٴسناد عن مجاهد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٢٣ ، ص ١٠٧ ۔ ( ٢(۔ مائة منقبة، ص ١۴٧ ، بہ نقل مقتل الحسين خوارزمی، ص ٣٢ ۔ ارشاد القلوب، ص ٣٧٨ ۔ (
قال قيل لابن عبّاس ما تقول فی علیٍّ کرّم اللّٰہ وجهہ ؟ فقال: ذکرت والله احد الثقلين سبقنا بالشّهادتين وصلّی بالقبلتين وبایع البيعتين ( ١) وهو ابو السّبطين الحسن والحسين وردّت عليہ الشمس مرّتين ”( ٢) بعد ما غاب عن الثقلين وجرّد السّيف تارتين ( ٣) وهو صاحب الکونين فمثلہ ) “ فی الامة مثل ذی القرنين ، ذاک مولای علی بن ابی طالب عليہ السلام ( ۴ ابو الموٴید اخطب خوارزمی نے اپنی سند کے ساته مجاہد سے روایت کی ہے کہ ابن عباس سے روایت نقل کی گئی ہے کہ ان سے کہا گيا کہ آپ علی کرّم الله وجہ کی شان ميں کيا کہتے ہيں؟ کہا: خدا کی قسم !اس شخص کی گفتگو ہمارے درميان کی ہے جو ثقلين ميں سے ایک ہے اور کلمہٴ شہادتين یعنی وحدانيت خدا اور رسول خدا (ص) کی رسالت کی گواہی ميں سبقت کی ہے دو قبلوں (بيت المقدس اور بيت الله الحرام) کی طرف نماز پڑهی ہے دو دفعہ بيعت (بيعت رضوان اور بيعت ذو العشيرہ) کی ہے آپ دو فرزندوں حسن و حسين کے باپ ہيں، آپ کی خاطر دو مرتبہ سورج واپس لوڻا۔ جب وہ دونوں قبلہ سے غائب اور غروب ہوچکا تها اور دو مرتبہ تلوار کهينچی اور وہی صاحب کونين (دنيا و آخرت ہيں آپ کی مثل ائمہ ميں ذو القرنين کی مانند ہے اور وہ ہمارے آقا و مولا علی بن ابی طالب - ہيں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ البيعتين:دو بيعت یعنی بيعت عشيرہ یہ وہی بيعت ہے جو حضرت امير المومنين نے رسول ( خدا (ص) کے ليے کی تهی جب انہوں نے کہا: کون ہے جو ميرے امر ميں ميرا شریک ہو اس وقت جب الله تعالیٰ نے آیت اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ نازل ہوئی۔ اور بيعت غدیر (بيعت عشيرہ ابتدا ميں اور بيعت غدیر انتہا ميں) اور علی ان دونوں فضيلت ميں فرد فرید کی حيثيت رکهتے ہيں اور دونوں طرف کی فضيلت آپ کے حصر ميں آئی ہے۔ ٢(۔ ردّ الشمس۔ ایک مرتبہ سورج کا پيغمبر (ص) کی دعا سے مقام صهباء سے پلڻنا اور ( دوسری مرتبہ سرزمين بابل ميں۔ ٣(۔ و جرّد السيف۔ ایک مرتبہ جنگ خيبر ميں مرحب کے مقابل ميں تلوار کهينچی اور دوسری ( مرتبہ جنگ خندق ميں عمرو بن عبدود کے مقابل ميں۔ ۴(۔ مناقب خوارزمی، ص ٣٣ ۔ (
۱۶
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
۵۔ دائمی حيات ۵۔ “ القرآن حیٌّ لا یموت والحجّة حیٌّ لایموت الیٰ یوم القيٰمة“ قرآن مجيد زندہ و پائندہ ہے اور کبهی بهی فنا پذیر نہيں ہوگا حجّت الٰہی امام زمانہ - بهی زندہ و پائندہ ہيں جب تک خدا چاہے۔ ٢۴٣ ۔ “روی العيّاشی باسنادہ عن ابی جعفر عليہ السلام فی قولہ تعالیٰ انّہ قال: (علی) الهادی ومنّا الهادی ، فقلت فانت جعلت فداک الهادی قال صدقت انّ القرآن حیٌّ لا یموت والآیة حيّة لا تموت فلو کانت الآیة اذا نزلت فی الاٴقوام وماتوا مات الآیة لمات القرآن ، ) ولکن هی جاریة فی الباقين کما جرت فی الماضين ” ( ١ عياشی نے اپنی تفسير ميں اپنی سند کے ساته امام محمد باقر - سے آیہٴ کریمہ (اور ہر قوم کے ليے ایک ہادی ہوتا ہے) کی تفسير ميں نقل کيا ہے کہ حضرت نے فرمایا: علی - ہدایت کرنے والے ہيں اور وہ ہم ميں سے ہادی ہيں۔ ميں نے عرض کيا: ميں آپ پر قربان! آپ بهی ہادی ہيں؟ فرمایا: تم نے سچ کہا یقينا قرآن زندہ ہے اور اسے موت نہيں آئے گی یہاں تک کہ اس کی آیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير عياشی، ج ٢، ص ٢٠٣ ۔ (
بهی زندہ ٴ جاوید ہے، اگر ایک آیت اقوام و ملل کے حق ميں نازل ہوئی ہو اور ان کی وفات اور مرنے کے بعداگر آیت کو موت آجاتی تو یقينا قرآن بهی فنا ہوجاتا ليکن وہ آیت دوسروں کے حق ميں جاری و ساری ہوتی ہے جس طرح دوسروں کے حق ميں جاری و ساری تهی۔ ٢۴۴ ۔ “وعن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام : انّ القرآن حیٌّ لم یمت وانّہ یجری کما یجری الليل ) والنهار ، وکما یجری الشّمس القمر ، ویجری علیٰ آخرنا کما یجری علیٰ اوّلنا” ( ١ امام جعفر صادق - سے روایت کی گئی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: قرآن زندہ ہے اور اسے موت نہيں آتی ہے اور وہ جاری و ساری ہے جس طرح کہ شب و روز جاری و ساری ہيں اور اسی طرح کہ جيسے آفتاب و ماہتاب سير اور حرکت کرتے ہيں قرآن بهی اس طرح ہمارے آخر پر جاری ہے جس طرح ہمارے اول پر جاری ہے۔ ٢۴۵ ۔ “ ولو انّ الآیة اذا نزلت فی قوم ثمّ مات اولئٓک مات الآیة لمابقی من القرآن شی ولٰکنّ القرآن یجری اوّلہ علیٰ آخرہ ما دامت السّموات والاٴرض ، ولکلّ قوم آیة یتلوها هم منها من ) خير و شرٍّ” ( ٢ تفسير قمی ميں ذکر ہوا ہے: اگر ایک آیت کسی قوم کے درميان نازل ہوئی ہو اور ایک مدت کے بعد اس قوم کے افراد مرجائيں تو ان کے مرنے کے بعد آیت کو بهی موت آجائے اور وہ ختم ہوجائے تو پهر قرآن ميں سے کوئی چيز باقی نہيں رہے گی ليکن قرآن کی اول سے لے کر آخر تک سير اور حرکت دائمی ہے جب تک تمام آسمان اور زمين جاری و ساری ہيں اور ہر ایک قوم و ملت کے ليے آیت ہے کہ جس کی وہ لوگ تلاوت کرتے ہيں وہ لوگ اسی آیت سے یا خير ميں سے یا شر ميں ہيں۔ یعنی ہر بات اس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٣۵ ، ص ۴٠۴ ۔ ( ٢(۔ تفسير قمی، ج ١، ص ٢١ ۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ١٠ ۔ (
قوم کا اس آیت سے استفادہ کرنے پر موقوف اور وابستہ ہے یہ اگر اس طریقہ سے ہو جس طرح الله تعالیٰ نے اسے نازل کيا اور اس کے ارادہ کے مطابق عمل کيا تو وہ خير ميں ہيں اور اگر اپنی خواہشات نفسانی کے تحت تاویل و توجيہ کی اور اس پر عمل کيا تو وہ شر ميں ہيں۔ جيسا کہ اشارہ کيا جاچکا ہے کہ حضرت بقية الله الاعظم - صاحب العصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف بهی صبح قيامت تک زندہٴ جاوید ہيں جہاں تک الله تعالیٰ چاہے اپنی لازوال قدرت سے انہيں زندہ و باقی رکهے گا۔ آیات اور روایات اس معنی کی طرف صریحاً گویا ہيں اور ہم تيمناً و تبرکاً ان ميں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہيں۔ ٢۴۶ ۔ الله تبارک و تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب ميں فرمایا: ( ١ خداوند سبحان مخلوقات کی خلقت شروع کرنے سے پہلے خليفہ معين کر رہا ہے، یہ خود مخلوقات کے درميان خليفہ کی موقعيت و اہميت کے ليے بہت ہی واضح و روشن دليل ہے۔ ،( ٢۴٧ ۔ امام جعفر صادق - نے بهی فرمایا: الحجة قبل الخلق ومع الخلق وبعد الخلق ( ٢ حجّت الٰہی کو (بدیہی طور پر چاہيے کہ) مخلوقات کی خلقت سے پہلے تخليق کے وقت اور مخلوقات کی خلقت کے بعد موجود ہونا چاہيے اس ليے کہ الله تعالیٰ حکيم ہے جب کبهی اپنی مخلوقات کو خليفہ اور اپنی حجّت سے پہلے خلق کرتا تو اسے مورد تلف قرار دیتا کہ یہ حکمت پروردگار کے تقاضے کے برخلاف ہے۔ الله تعالیٰ کا یہ قول ہے: ( ٣)کيا جو شخص اپنے رب کی طرف سے کهلی دليل رکهتا ہے اور اس کے پيچهے اس کا گواہ بهی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٢۴٨ ۔ “ وفی کمال الدّین للصدوق عليہ الرحمة باسنادہ عن ابی بصير ، عن ابی جعفر عليہ السلام فی قول اللّٰہ عزّوجل قال: الائمة من ولد علی وفاطمة عليہما السلام الیٰ ان تقوم السّاعة ” ( ١ شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے کمال الدین ميں ابو بصير سے انہوں نے امام محمد باقر - سے نقل کيا ہے کہ حضرت - نے آیہٴ کریمہ کے معنی ميں فرمایا: وہ ائمہٴ اطہار ہيں جو اولاد علی و فاطمہ سے (ابتدائے خلقت سے) قيام قيامت تک ہيں۔ ٢۴٩ ۔ “ وفيہ باسنادہ عن عبد الرّحمن بن سليمان عن ابيہ عن ابی جعفر عليہ السلام عن الحارث بن نوفل قال: قال علی عليہ السلام لرسول اللّٰہ (ص) یا رسول اللّٰہ اٴمنّا الهداة اٴم من غيرنا ؟ قال : بل منّا الهداة ( الی اللّٰہ ) الیٰ یوم القيٰمة ، بنا استنقذهم اللّٰہ عزّوجل من ضلالة الشّرک ، وبنا یستنقذهم من ضلالہ الفتنة ، وبنا یصبحون اخواناً بعد ضلالة الفتنة کما بنا اصبحوا ) اخواناً بعد ضلالة الشّرک وبنا یختم اللّٰہ کما بنا فتح اللّٰہ ” ( ١ اس کتاب ميں عبد الرحمن ابن سليمان سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے امام محمد باقر - سے انہوں نے حارث ابن نوفل سے روایت کی ہے کہ ان کا بيان ہے: حضرت علی - نے حضرت رسول خدا سے عرض کيا: یا رسول الله! ہدایت کرنے والے ہم ميں سے ہيں یا ہمارے علاوہ دوسرے افراد ہيں؟ فرمایا: ہدایت کرنے والے ہم ميں سے ہيں ابتدائے خلقت سے لے کرروز قيامت تک ، ہمارے وسيلہ سے الله تعالیٰ لوگوں کو گمراہی و شرک سے نجات دے گا اور ہمارے ہی ذریعہ آزمائشوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ٢٨٨ ۔ بحار الانوار، ج ٢٣ ، ص ٢٨٨ ۔ ( ٢(۔ کمال الدین، ج ١، ص ٢٣٠ ۔ (
ميں ضلالت کے بعد بهی، ہمارے ہی ذریعہ شرک و ضلالت کے بعد ایک دوسرے کے بهائی ہوئے اور ہمارے ہی وسيلہ سے الله تعالیٰ ختم کرے گا جس طرح ہمارے ہی وسيلہ سے آغاز کيا تها۔ ٢۵٠ ۔ “عن عبد اللّٰہ بن سليمان العامری ، عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال: ما زالت الارض الّا وللّٰہ تعالیٰ ذکرہ فيها حجّة یعرف الحلال والحرام یدعوا الی سبيل اللّٰہ جلّ وعزّ ولا ینقطع الحجّة من الاٴرض الا اربعين یوماً قبل یوم القيٰمة ، فاذا رفعت الحجة اغلق باب التوبة ولن ینفع نفساً ایمانها لم تکن آمنت من قبل ان ترفع الحجّة اولئک شرار من خلق اللّٰہ وهم الّذین تقوم ) عليہم القيامة ” ( ١ عبد الله ابن عامری نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: جب تک زمين اپنی جگہ ثابت و برقرار رہے گی اس ميں الله تعالیٰ کے ليے ایک حجّت ہے جو حلال و حرام کو پہچانتا ہے اور لوگوں کو الله کی طرف اور خدا کے راستے کی سمت دعوت دیتا ہے اور زمين پر حجّت کا سلسلہ ختم نہيں ہوگا مگر قيامت واقع ہونے سے چاليس دن پہلے، اور جب زمينِ خدا سے حجّت اڻهالی جائے گی تو توبہ کے دروازے بند ہوجائيں گ اور اس ایمان لانے والے کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہيں ہوگا جو حجّت الٰہی کے دفع ہونے کے بعد ہو۔ وہ لوگ مخلوقات خدا کے اشرار افراد ہيں اور قيامت انہيں لوگوں کے ضرر ميں قائم ہوگی۔ ليکن وہ روایات جو دلالت کرتی ہيں کہ زمين بغير حجّت کے باقی نہيں رہے گی دلالتِ التزامی بلکہ تضمنی طورپر دلالت کرتی ہيں کہ وہ لوگ قيام قيامت تک باقی رہيں گے۔ ٢۵١ ۔ “وفی کمال الدین : باسنادہ عن ابی حمزة الثمالی عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال قلت لہ اتبقی الاٴرض بغير امام ؟ قال: لو بقيت الاٴرض بغير امام ساعة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے اپنی کتاب کمال الدین ميں ابو حمزہ ثمالی سے انہوں نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ ميں نے حضرت سے عرض کيا: کيا زمين بغير امام کے باقی رہے گی؟ فرمایا: اگر زمين ایک ساعت بهی بغير امام کے ہو تو وہ اپنے اندر نگل لے گی۔ ٢۵٢ ۔ “وفيہ باسنادہ عن ابراہيم بن ابی محمود قال: قال الرّضا عليہ السلام : نحن حجج اللّٰہ فی خلقة وخلفائہ فی عبادہ ، وامنآوٴہ علیٰ سرّہ ، ونحن کلمة التقویٰ ، والعروة الوثقیٰ ، ونحن شهدآء اللّٰہ واعلامہ فی بریّتہ ، بنا یمسک اللّٰہ السّموات الاٴرض ان تزولا ، بنا ینزل الغيث وینشر الرّحمة ، ولا تخلو الاٴرض من قائم منّا ظاہر اوخاف ، لو خلت یوماً بغير حجة لما جت باهلها ) کما یموج البحر باٴهلہ ” ( ٢ نيز اسی کتاب ميں ابراہيم ابن ابو محمود سے منقول ہے کہ حضرت امام رضا - نے فرمایا: ہم خدا کی مخلوق کے درميان حجج اور خلفاء ہيں اور اس کے بندوں کے درميان نمائندے ہيں اور اس کے راز کے امانت دار ہيں، ہم کلمہٴ تقویٰ ہيں اور (ایمان کا) محکم دستہ ہيں ہم الله کے شہداء اور اس کی مخلوق ميں نشانياں ہيں، ہمارے وسيلے سے الله تعالیٰ آسمانوں اور زمين کو زوال اور فنا پذیر ہونے سے محفوظ رکهتا ہے اور ہماری وجہ سے رحمت کی بارش نازل ہوتی ہے اور وہ ہر جگہ پہنچتی ہے اور روئے زمين ہمارے قائم (آل محمد (ص)) سے خالی نہيں ہوگی خواہ وہ ظاہر ہو یا مخفی اور پس پردہ ہو اگر زمين ایک دن بهی بغير حجّت کے باقی رہ جائے تو دریا کی موج کی طرح اپنے ساکنوں کو اپنی گرفت ميں لے لے گی اور غرق کردے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ١، ص ٢٠١ ۔ غيبت نعمانی، ص ١٣٨ ۔ غيبت طوسی، ص ٢٢٠ ۔ ( ٢(۔ کافی، ج ١، ص ١٧٩ ۔ کمال الدین، ج ١، ص ٢٠٢ ۔ معجم احادیث الامام المہدی -، ج ۵، ص ( ٣۶۵ ۔
٢۵٣ ۔ بصائر الدرجات ميں ابو حمزہ ثمالی سے منقول ہے کہ امام محمد باقر - نے فرمایا: خدا کی قسم ! جس وقت حضرت آدم - کی روح قبض ہوئی، زمين کبهی خالی نہيں رہی، مگر یہ کہ اس ميں ایک امام موجود تها کہ جس کے ذریعہ لوگ خدا کی طرف ہدایت پاتے ہيں اور وہ روئے زمين ميں اپنی مخلوقات پر حجّت خدا ہے زمين کبهی بهی امام جو خدا کے بندوں پر حجّت الٰہی ہوتا ہے اس سے خالی نہيں رہتی۔ ٢۵۴ ۔ “وفيہ باسنادہ عن الحسين بن ابی العلا قال: قلت لابی عبد اللّٰہ عليہ السلام اتترک الاٴرض بغير امام ؟ قال: لا فقلنالہ : تکون الارض وفيها امامان قال لا الّا امام صامت لا یتکلم ) ویتکلم الذی قبلہ ” ( ١ مزید اسی کتاب ميں حسين ابن ابو العلا سے منقول ہے ان کا بيان ہے کہ ميں نے امام جعفر صادق سے عرض کيا: کيا زمين بغير امام کے باقی رہ سکتی ہے؟ فرمایا: نہيں، ميں نے عرض کيا: کيا روئے زمين پر دو امام رہ سکتے ہيں؟ فرمایا: نہيں مگر یہ کہ ایک صامت ہو او ر امام کے عنوان سے گفتگو نہ کرے اور دوسرے کا تابع ہو اور وہ امام جو اس سے پہلے ہے بہ عنوان امام گفتگو کرے گا۔ ٢۵۵ ۔ “وفيہ ایضاً باسنادہ عن یعقوب السراج قال قلت لابی عبد اللّٰہ عليہ السلام تخلو الارض من عالم منکم حیٌّ ظاہر تفرع اليہ النّاس فی حلالهم وحرامهم فقال: یا ابا یوسف لا انّ ذٰلک لبيّن فی کتاب اللّٰہ تعالیٰ فقال : امامکم واتقوا اللّٰہ فيما یاٴمرکم وفرض عليکم ” ( ٢ نيز اسی کتاب ميں یعقوب ابن سراج سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے امام جعفر صادق سے عرض کيا: کيا زمين قائم آل محمد سے خالی رہ سکتی ہے جو زندہ اور ظاہر ہو اور لوگ اپنے حلال و ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرام دریافت کرنے کے ليے اس کی طرف رجوع کریں؟ تو حضرت نے فرمایا: نہيں، اے ابو یوسف! کيوں کہ یہ معنی قرآن ميں واضح طور پر بيان ہوا ہے کہ: اے ایمان والو! دشمنوں اور مخالفين سے جو کچه تم تک پہنچے صبر کرو اور اپنے امام کے ساته رابطہ رکهے رہو اور جو کچه تمہيں حکم دے الله سے ڈرواور فرماں برداری کرو۔ ٢۵۶ ۔ “فی الکافی باسنادہ عن حمزة بن الطّيّار عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال لو بقی ) اثنان لکان احدهما الحجّة علی صاحبہ ” ( ١ کافی ميں کلينی نے حمزہ ابن طيار سے انہوں نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: اگر روئے زمين پر مخلوقاتِ خدا ميں سے جب کبهی صرف دو افراد باقی رہيں تو ان ميں سے ایک دوسرے پر خدا کی حجّت ہوگا۔ ٢۵٧ ۔ “وفيہ باسنادہ عن الحسن بن موسیٰ الخشاب ، عن جعفر بن محمد عن کرام قال: قال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام :لو کان النّاس رجلين لکان احدهما الاٴمام وقال: آخر من یموت الامام ) لئّلا یحتج احد علی اللّٰہ عزّوجلّ انہ ترکہ بغير حجّة اللّٰہ عليہ ” ( ٢ نيز اسی کتاب ميں حسن ابن موسی خشاب سے جعفر ابن محمد سے انہوں نے آبائے کرام سے نقل کيا ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: اگر تمام لوگوں ميں سے صرف دو افراد باقی ہوں تو ان ميں سے ایک امام ہوگا اور فرمایا: آخر ميں جس کا انتقال ہوگا وہ امام ہوگا تاکہ کسی بندہ کو خدائے بزرگ و برتر پر اعتراض اور احتجاج کی مجال باقی نہ رہے کہ الله تعالیٰ نے انہيں بغير حجّت کے کيوں چهوڑ دیا تها۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١٧٩ ۔ ( ٢(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١٨٠ ۔ (
۶۔ خاتم ۶۔ القرآن آخر کتب السّماویة : والحجّة خاتم الاوصيآء وآخر السّفرآء قرآن مجيد آسمانی کتابوں ميں سے آخری کتاب ہے اور حضرت حجّت - عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف خاتم الاوصياء اور الٰہی پيغمبروں ميں سے آخری سفير ہيں۔ مسلمانوں کا عقيدہ یہ ہے کہ وہ آسمانی کتابيں جو الله تبارک و تعالیٰ کی طرف سے پيغمبروں پر نازل ہوئيں وہ ایک سو چودہ کتابيں ہيں۔ پچاس کتاب حضرت آدم اور شيث # پر، تيس کتاب حضرت نوح - پر، بيس کتاب حضرت ابراہيم خليل الله - پر اور دس کتاب بقيہ تمام انبياء پر۔ کتاب زبور حضرت داؤد - پر نازل ہوئی۔ کتاب توریت حضرت موسیٰ - پر نازل ہوئی۔ کتاب انجيل حضرت عيسیٰ ابن مریم - پر نازل ہوئی۔ ) اور کتاب قرآن حضرت خاتم الانبياء حضرت محمد ابن عبد الله - پر نازل ہوئی۔ ( ١ ليکن نازل شدہ صحيفے مندرجہ ذیل ہيں: حضرت آدم - کے صحيفے ميں اکيس صحيفے، حضرت ابراہيم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ لغت نامہ دهخدا، بہ نقل تاریخ بلعمی بہ نقل فرہنگ فارسی، ڈاکڻر محمد معين۔ (
کے صحيفے ميں دس صحيفے، حضرت شيث - کے صحيفے ميں انتيس صحيفے اور حضرت ) موسیٰ -کے صحيفے ميں دس صحيفے نازل ہوئے تهے۔ ( ١
حضرت موسیٰ - کی ولادت اور نزولِ توریت تين ہزار آڻه سو بيس سال پہلے جو ایک ہزار آڻه سو سينتيس سال حضرت عيسیٰ - کی ولادت سے پہلے اور دو ہزار چار سو پينسڻه سال حضرت خاتم الانبياء - کی ہجرت سے پہلے وليد ابن مصعب (وہی مشہور فرعون) کی سلطنت و حکومت بلکہ خدا کے زمانہ ميں جو ایران کے قدرت مند بادشاہ ضحاک تازی کا ہم عصر تها حضرت موسیٰ بن عمران - کی مصر ميں ولادت ہوئی ( ٢)۔ حضرت کے ہاتهوں قبطی کے قتل ہونے کے بعد (جو ایک اسرائيلی مظلوم کو چاہتا تها کہ بے گاری کے ليے جائے تو وہ حضرت موسیٰ - کے پاس پناہ گزیں ہوا) ناچار ہوکرفرار کرکے شہر مدین گئے اور دس سال حضرت شعيب - پيغمبر کی خدمت ميں زندگی بسر کی اور جب آپ کی عمر مبارک کے تينتاليس سال اور سينتيس دن گزر گئے تو وادی ایمن ميں نبوت کے بلند درجہ پر فائز ہوئے۔ اور ایک سو چهبيس سال عمر گزارنے کے بعد بهی حضرت یوشع ابن نون کو اپنا جانشين معين کرنے کے بعد کوہ تيہ ميں رمضان المبارک کے مہينے ميں رحمت الٰہی سے جاملے۔ تراسی سال کی مدت نبوت ميں بنی اسرائيل کی بہت عظيم خدمات انجام دیں: ظلم اور ظالمين (فرعون اور قبطيوں) کی بنيادوں کو اکهاڑ پهينکا، شرک و کفر کو برطرف کيا لوگوں کو شرک و کفر سے صراط مستقيم اور توحيد کے راہ راست پر لے آئے اور اپنا عظيم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ لغت نامہ دهخدا، بہ نقل الفہرست ابن ندیم۔ ( ٢(۔ علامہ سلطان الواعظين عليہ الرحمہ کی مکمل تحقيق کے مطابق، انہوں نے اپنی کتاب ( صد مقالہ کے مقالہ سوم ، ص ۴ ميں تحریر کيا ہے۔
ترین قيمتی گوہر بطور یادگار چهوڑا جو بنی اسرائيل کے ليے باعث سرفرازی اور اسباب سعادت قرار پایا اور وہ مقدس کتاب توریت اور عظيم الواح و صحيفے تهے جو طور سينا ميں چاليس دن کی ریاضت کے بعد عالمِ غيبت سے ان پر نازل ہوئے اور اس کو ایک صندوق (عہد نامی صندوق) ميں مخفی رکهنے کا حکم دیا اور یہ کہ ہر سات سال ميں ایک مرتبہ مقدس عہد کے دن باہر لائيں اور بنی اسرائيل کے ليے قرائت کریں اور اس صندوق کو بيت المقدس ميں قرار دیں تاکہ دشمنوں کی دست رس سے محفوظ رہے ، ليکن افسوس یہ ہے کہ حضرت موسیٰ -نے اس مقدس توریت کی حفاظت کے بارے ميں اس قدر تاکيد کی مگر آج اس کا کوئی نام و نشان باقی نہيں ہے۔ اور یہودیوں کے ہاتهوں ميں یہ موجودہ توریت اس بنا پر جو کچه خود وہ لوگ معتقد ہيں اور اپنی کتابوں ميں تحریر کی ہيں وہ الواح و صحيفے اور توریت کے اسفار خمسہ جو حضرت موسیٰ - پر نازل ہوئے ہرگز موجود نہيں ہيں اور اس توریت کی حضرت موسیٰ - سے متصل سند کلی طور پر منقطع ہے یقينی طور پر نہيں سمجها جاسکتا کہ کس زمانہ سے صندوق عہد ميں موجودہ نسخہ غائب ہوا ليکن قدر مسلم یہ ہے کہ حضرت سليمان سے پہلے اس توریت کا نسخہ غائب ہوا اس ليے کہ سفر ملوک کے آڻهویں باب کی نویں آیت ميں درج ہے کہ جب حضرت سليمان نے صندوق کو کهولا تو دو سنگی لوح کے علاوہ کہ جس پر احکام عشرہ درج تهے اس کے علاوہ ) کوئی دوسری چيز نہيں پائی۔ ( ١
حضرت عيسیٰ علی نبينا و آلہ و عليہ السلام کی ولادت اور صليب دو ہزار چه سال پہلے حضرت عيسیٰ روح الله فلسطين (بيت المقدس) ميں اپنی ماں مریم بنت عمران سے بطور اعجاز اور خارق العادت ( ٢) طریقے سے پيدا ہوئے اور تيس سال کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ صد مقالہ سلطانی، ص ١۶ ۔ ( ٢(۔ (آل عمران، ۵٩ )۔ ( عيسی کی مثال الله کے نزدیک آدم جيسی ہے کہ انہيں مڻی سے پيدا کيا اور پهر کہا ہوجا اور وہ ہوگيا۔
بعد مبعوث بہ رسالت ہوئے او لوالعزم کے درجہ پر فائز ہوئے اور ایک کتاب بہ نام انجيل حق تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائيل کے معاشرہ توریت کی تکميل اور ان کی ہدات کے ليے لائے۔ آپ کے زمانہٴ رسالت کے تين سال گزرنے کے بعد گروہ یہود اپنی انتہائی شقاوت و عناد کے درجہ پر پہنچ کر حضرت کے قتل کے درپے ہوئے،لہٰذا حواریوں (یعنی وہ خاص اصحاب جو بارہ افراد تهے) ایک غار ميں مخفی ہوئے ليکن تلاش و جستجو کرنے والے افراد مسلسل ان کے تعاقب ميں تهے اور انجام کار ميں حضرت کے شاگردوں اور حواریوں ميں سے اسخر یوٴطی نامی یہودی شخص نے یہودیوں سے تيس درہم چاندی ليا اور حضرت کے مکان کی نشان دہی کی۔ عجيب و غریب اچانک حملہ کے ساته حضرت کو گرفتار کيا اور بہت زیادہ آزار اور اذیت پہنچائی اور ایک معين جگہ مقيد کيا اور انہيں اپنے زیرِ نظر قرار دیا تاکہ کل عام لوگوں اور خود باشاہ کے سامنے انہيں قتل کردیں۔
حضرت عيسیٰ - کے مصلوب ہونے کے متعلق عيسائيوں کا عقيدہ عيسائيوں کا عقيدہ اخبار اناجيل اور موجودہ رسائل کے مطابق یہ ہے کہ حضرت کو صليب دی گئی اور شقاوت اور شدید سختی کے ساته دار پر لڻکایا اور مصلوب اور دفن ہونے کے بعد زندہ ہوئے اور آسمان پر پہنچ گئے۔ ليکن قرآن مجيد کی آیات کی صراحت کے مطابق مسلمانوں کا عقيدہ یہ ہے کہ حضرت عيسیٰ - کو نہ قتل کيا گيا اور نہ سولی دی گئی ہے بلکہ دوسرے کو ان کی شبيہ بنا دیا گيا اس ليے کہ وہ شخص جو دقيق طور پر حضرت عيسیٰ - کی شبيہ تها اسے دار پر لڻکایا جيسا کہ آیہٴ کریمہ بهی اس معنی کی صراحت کرتی ہے: الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ١ نہ انہيں قتل کيا ہے اور نہ سولی دی ہے بلکہ دوسرے کو ان کی شبيہ بنا دیا گيا تها اور جن لوگوں نے عيسیٰ کے بارے ميں اختلاف کيا ہے وہ سب منزل شک ميں ہيں اور کسی کو گمان کی پيروی کے علاوہ کوئی علم نہيں ہے اور انہوں نے یقينا انہيں قتل نہيں کيا ہے بلکہ خدا نے اپنی طرف اڻهاليا ہے۔ حضرت عيسیٰ - کا زندان سے آسمان پر جانے کے بعد گروہ یہود جو ان کا اتباع کرنے والے تهے حد سے زیادہ غالب ہوگئے اور ایسے سخت حملے اور شدید صدمے پہنچائے کہ تمام عيسائی فرار اور مخفی ہوئے صحراؤں اور پہاڑوں ميں پوشيدہ ہوگئے اور یہودیوں نے اس مدّت ميں جو کچه انجيل کے نسخے حاصل کيے اسے نيست و نابود کردیا۔ خود عيسائيوں کے قول کے مطابق بغير کتاب کے تهے، بغير کتاب ہونے کی مدت اتنی طویل ہوئی کہ ان ميں سے ایک گروہ کلی طور پر اصل انجيل کا انکار کر بيڻها اور کہا کہ حضرت عيسیٰ - بالکل انجيل نامی کوئی کتاب نہيں لائے ہيں! چنانچہ عيسائيوں کے اکابر علماء کا ایک گروہ جيسے جيروم وارجن مشہور عيسائی مفسرین نيز کنٹ ڻولسڻوی روسی نے اپنی کتاب کے مقدمہ ميں جو انجيل ڻو لسڻوی کے نام سے مشہور ہے کہتا ہے-: انجيل حضرت عيسیٰ کے زمانہ ميں نہيں تهی بلکہ زمانہٴ عيسیٰ کے برسوں بعدحواریوں پر الہام کی گئی اور ان کے ذریعے تصنيف کی گئی نيز اپنی کتاب کے مقدمہ ميں کہتا ہے: ہمارے زمانہ کی موجودہ اناجيل کی حضرت عيسیٰ - سے متصل سند نہيں پائی جاتی بلکہ حضرت عيسیٰ کے چار سو سال بعد تحریر کی گئی ہے۔ ڻو لسڻوی مشہور روسی رائڻر اپنی تفسير کی چودہویں جلد ميں اناجيل اربعہ (متی، مرقس، لوقا اور یوحنا) کو ہر ایک کی تاریخ تاليف جو سب کی سب حضرت عيسیٰ - کے زمانہ کے مدتوں بعد تحریر کی گئی ہيں ذکر کيا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نساء، آیت ١۵۶ ۔ (
ہے قارئين کرام کتاب صد مقالہ سلطان الواعظين شيرازی رحمة الله عليہ ميں ص ۴۶ کی طرف رجوع کریں۔ ليکن قرآن مجيد کے نزول کی تاریخ کے بارے ميں کہ وہ کس دن اور کس مہينہ ميں منصہ شہود پر آیا اسلامی دانشوروں کے درميان مختلف نظریات پائے جاتے ہيں جيسا کہ حضرت رسول اکرم (ص) کی مبعث کی تاریخ ميں بهی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ليکن چونکہ مسلّم طور پر قرآن مجيد آخری آسمانی کتاب ہے لہٰذا مختلف نظریات کی وضاحت سے ہم صرف نظر کرتے ہيں۔ ٢۵٨ ۔ اکثر شيعہ روایات کے مطابق شب قدر ماہ رمضان کے آخری دس دنوں ميں قرار پائی ہے کہ ظنِّ قوی اور روایات کی شہادت کے مطالب ماہ رمضان کی تيئيسویں شب کو شب قدر جاننا چاہيے اور قرآن مجيد کے نزول کا آغاز بهی اسی دس رات ميں ہے۔ سيوطی نے در منثور ميں اس سلسلہ ميں ایک قابل توجہ روایت نقل کی ہے وہ رقم طراز ہيں: واثلہ ابن اسقع سے روایت نقل ہوئی ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: توریت ماہ رمضان کے چه دن بعد ، انجيل ماہ رمضان کی تيرہویں تاریخ سے پہلے، زبور اڻهارہویں ماہ رمضان سے پہلے اور قرآن جوبيسویں ماہ رمضان سے پہلے نازل ہوا ہے اور یہ احادیث آیات قرآنی ( ١) (ماہ رمضان یہ وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن نازل کيا گيا ہے) اور آیہٴ کریمہ (بے شک ہم نے اسے شب قدر ميں نازل کيا) سے تطبيق کرتی ہيں۔ اسی جيسی حدیث کو ہم عصر دوستوں ميں سے ایک دوست نے کتاب جامع الاخبار و الآثار ج ١، ص ٧، ص ٨، حدیث نمبر ٢ اپنی تاليفات ميں حفص ابن غياث سے اور انہوں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١٨۵ ۔ (
امام جعفر صاد ق - سے نقل کيا ہے: ٢۵٩ ۔ “ قال: ساٴلتة عن قول اللّٰہ تعالیٰ انَّما انزل فی عشرین سنة بين اولہ وآخرہ فقال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام نزل القرآن جملة واحدة فی شہر رمضان الٰی بيت المعمور ثمّ نزل فی طول عشرین سنة ثم قال: قال النّبی (ص) : نزلت صحف ابراہيم عليہ السلام فی اول ليلة من شهر رمضان وانزلت التّوراة لستٍّ مضمين من شهر رمضان وانزل الانجيل لثلاث عشر ليلة خلت من شهر رمضان وانزل الزّبور لثمان عشر خلون من شهر رمضان وانزل القرآن فی ثلاث و ) عشرین من شهر رمضان” ( ١ حفص ابن غياث نے امام جعفر صادق - سے ماہ رمضان ميں نزول قرآن کے بارے ميں دریافت کيا تو حضرت - نے فرمایا: قرآن صرف بيس برس کے عرصہ ميں اول سے آخر تک نازل ہوا ہے پهر امام صادق - نے فرمایا: مکمل قرآن تو ماہ رمضان ميں بيت المعمور ميں نازل ہوا تها پهر بيس سال کے عرصہ ميں حضرت رسول خدا (ص) پر نازل ہوتا رہا۔ پهر فرمایا کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: حضرت ابراہيم - پر صحيفے ماہ رمضان کی پہلی رات ميں نازل ہوئے اور توریت چه رمضان کو نازل ہوئی اور انجيل شبِ تيرہ ماہ رمضان کو، زبور اڻهارہ ماہ رمضان کو اور قرآن تيئيس ماہ رمضان کو نازل ہوا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
قرآن مجيد کے نزول کی کيفيت قرآن ایک مرتبہ شب قدر ميں مجموعی طور پر منظم شکل ميں نازل ہوا اور دوسری مرتبہ تيئيس سال ميں تدریجی طور پر لوگوں تک پہنچایا گيا۔ قرآن مجيد کے تمام آسمانی کتابوں پر من جملہ نمایاں امتيازات ميں سے ایک یہ ہے کہ وہ صرف ایک مرتبہ مجموعی طور پر منظم شک ميں گزشتہ انبياء پر نازل ہوتی تهيں اور عام لوگوں کے اختيار ميں قرار پاتی تهيں۔ ليکن قرآن مجيد ایک مرتبہ مجموعی، مرتب اور کامل طور پر بين الدفتين شب قدر ميں لوح محفوظ سے بيت المعمور کی طرف جو چوتهے آسمان ميں ہے یا بيت العزت جو دنيا کے آسمان ميں ہے نازل ہوا ہے جيسا کہ قرآن مجيد فرماتا ہے: (بے شک ہم نے اسے شب قدر ميں نازل کيا ہے) ظاہرا بيت المعمور یا بيت العزت وغيرہ ميں نازل ہوتا ليکن حقيقت ميں رسول خدا (ص) کے ہر دل عزیز مبارک قلب پر نازل ہوا جيسا کہ سورئہ بقرہ سورئہ نمبر ٢ کی انيسویں آیت ميں فرماتا ہے: (یقينا اسے الله کی اجازت سے آپ کے قلب پر نازل کيا) سورہ شعراء، سورہ نمبر ٢۶ کی ایک سو چورانویں آیت ميں فرماتا ہے: (اسے جبرئيل امين آپ کے قلب پر لے کر نازل ہوئے)۔ لہٰذا حضرت رسول خدا (ص) چاليس سال کی مدت ميں قرآن مجيد کے دستورات پر عمل کرتے رہے ليکن اسے ابلاغ کرنے پر مامور نہيں ہوئے تهے مگر جب مبعوث بہ رسالت اور اسے ابلاغ پر مامور ہوئے تو تيئيس سال کی مدت ميں پارہ پارہ اور آیت آیت کی شکل ميں حالات کے تقاضے کے مطابق پيغمبر خاتم (ص) کے قلب پر نازل اور آنحضرت (ص) کی زبان مبارک پر جاری ہوا۔ ٢۶٠ ۔ جيسا کہ کتاب کافی اور عظيم تفسيروں نے مفضل ابن عمر کی حدیث کو نقل کيا ہے کہ جب برحق امام ناطق، اسرار حقائق کو کشف کرنے والے حضرت جعفر ابن محمد الصادق - نے قرآن مجيد کی چند آیات کی تلاوت فرمائی جيسے آیہٴ کریمہ ( ١) (وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن نازل کيا گيا ہے) ( ٢) ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات ميں نازل کيا ہے۔ ( ٣ اور یہ کافر بهی کہتے ہيں کہ آخر ان پر یہ قرآن ایک دفعہ کامل کيوں نازل ہوگيا۔ ہم اسی طرح تدریجاً نازل کرتے ہيں تاکہ تمہارے دل کو مطمئن کرسکيں اور ہم نے اسے ڻهہر ڻهہر کر نازل کيا ہے۔ مفضل ابن عمر نے عرض کيا: یہ آیات تنزیل قرآن ميں ہيں “فکيف ظهر الوحی” پس کيسے وحی بيس سال کی مدت ميں ظاہر ہوئی؟ تو حضرت - نے فرمایا: “یا مفضل اعطاہ اللّٰہ القرآن فی شهر رمضان وکان لا یبلغہ الا فی وقت استحقاق الخطاب ولا یوٴدّیہ الّا فی وقت امر ونهی فهبط جبرئيل بالوحی فتبلغ ما یوٴمر بہ قولہ تعالیٰ لا تحرّک بہ لسانک لتعجل بہ انتهی“ اے مفصل! الله تعالیٰ نے قرآن پيغمبر (ص) کو ماہ رمضان ميں عطا فرمایا اور آنحضرت نے لوگوں کو وہ قرآن ابلاغ نہيں فرمایا مگر خطاب کے استحقاق کے موقع پر (یعنی جب مقتضی موجود تها)اور اسے ادا نہيں کيا مگر اس وقت جب آنحضرت (ص) کو وحی ہوتی تهی تو اس وقت اس شے کو ابلاغ فرماتے تهے جس کے ليے انہيں مامور کيا گيا تها جيسا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: آپ وحی کے تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے ميں عجلت سے کام نہ ليا کریں اس بات کی یہ آیہٴ کریمہ تائيد کرتی ہے کہ جس ميں الله تعالیٰ فرماتا ہے : ( ۴ اور آپ وحی کے تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے ميں عجلت سے کام نہ ليا کریں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٧۔ وسيع عبادت ٧۔ القرآن : النظر اليہ واستماعہ وکتابة وقرائة کلّها مستحبّ وعبادة قرآن مجيد کی طرف نگاہ کرنا، سننا ، لکهنا اور اس کا پڑهنا مستحب اور عبادت ہے۔ اسی طرح معصوم کے چہرے پر نظر کرنا، انتظار ، ان کا ذکر کرنا ان کے فضائل مناقب کا لکهنا اور سننا بهی مستحب اور عبادت ہے۔ ”والحجّة - صلوات اللّٰہ عليہ - وعلیٰ آبائہ واجدادہ الطّيبين الطّاہرین - صلوات اللّٰہ عليہم اجمعين - النّظر والی وجوههم وانتظار فرجهم وذکر منا قبهم وفضائلهم وکتابتها واستماعها کلّها مستحب وعبادة“ حضرت حجّت - اور ان کے آباء واجداد طيبين و طاہرین عليہم الصلاة و السلام اجمعين کے چہرے پر نظر کرنا اور ان کے ظہور کا انتظار کرنا ان کے فضائل و مناقب کا ذکر کرنا اس کا لکهنا اور سننا سب کچه مستحب اور عبادت ہے۔ ٢۶١ ۔ “ وفی الکافی باسنادہ عن بشربن غالب الاٴسدی عن الحسين بن علیّ عليہ السلام قال: من قراٴ آیة من کتاب اللّٰہ عزّوجلّ فی صلاتہ قائماً یکتب لہ بکلّ حرف ماٴة حسنة فاذا قراٴها فی غير صلاة کتب اللّٰہ لہ بکلّ حرف عشر حسنات ، وان استمع القرآن کتب اللّٰہ لہ بکلّ حرف حسنة ، ان ختم القرآن ليلاً صلّت عليہ الملائکة حتیٰ یصبح ، وان ختمہ نهاراً صلّت عليہ الحفظة حتیٰ یمسی وکانت لہ دعوة مجابة وکان خيراً لہ مما بين السّمآء الی الاٴرض قلت: هذا لمن قراٴ القرآن فمن لم یقراٴ ؟ قال: یا اخا بنی اسد انّ اللّٰہ جواد ماجد کریم اذا قراٴ ما معہ اعطاہ ) اللّٰہ ذٰلِک ” ( ١ کتاب کافی ميں کلينی نے بشير ابن غالب اسدی سے انہوں نے سيد الشہداء حسين ابن علی - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: جو شخص کتاب الله کی ایک آیت کهڑے ہوکر پڑهے اس کے ليے ہر حرف کے بدلے سو نيکياں (اس کے نامہٴ اعمال ميں) لکهی جائيں گی اور جب نماز کے علاوہ پڑهے تو الله اس کے ليے ہر حرف کے بدلے دس نيکياں تحریر کرے گا اور جو قرآن کو سنے تو الله تعالیٰ ہرحرف کے بدلے دس نيکياں لکهے گا اگر رات کو ختم قرآن کرے گا تو ملائکہ اس پر صبح تک درود بهيجيں گے اور اگر دن ميں ختم کرے گا تو شام تک فرشتے اس کی حفاظت کریں گے اور اس کی دعا قبول ہوگی (یہی قرائت قرآن یا دعا مقبول ہوگی) وہی اس کے ليے زمين سے آسمان تک جو کچه ہے بہتر ہے، ميں نے عرض کيا: قرآن پڑهنے والے کے ليے اتنا ثواب ہے اور نہ پڑهنے والے کے ليے کيا ہے؟ (یعنی جسے معلوم نہ ہو اور صرف مختصر قرآن حفظ ہو) فرمایا: اے بهائی بنی اسد! الله تعالیٰ صاحب جود و کرم ہے اگر کوئی اتنا پڑهے جتنا اس کو یاد ہے الله اس کو بهی اپنے کرم سے اتنا ہی ثواب عطا فرمائے گا۔ ٢۶٢ ۔ “ وفيہ بالاسناد عن محمّد بن بشير عن علیّ بن الحسين عليہما السلام قال وقد روی هذا الحدیث عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال : من استمع حرفاً من کتاب اللّٰہ عزّوجلّ من غير قرائة کتب اللّٰہ لہ حسنة ومحی عنہ سيّئة ورفع لہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶١١ ۔ بحار الانوار، ج ٨٩ ، ص ٢٠١ ۔ (
درجة من قراٴ نظراً من غير صوت کتب اللّٰہ لہ بکلّ حرف حسنة ومحا عنہ عشر سيّئة ورفع لہ عشر درجة ومن تعلّم منہ حرفاً ظاہراً کتب اللّٰہ لہ عشر حسنات ومحی عنہ عشر سيئات ورفع لہ عشر درجات قال: لا اقول بکل آیة ولکن بکلّ حرف: باء او تاء او شبههما قال: ومن قراٴ حرفاً ظاہراً وهو جالس فی صلاتہ کتب اللّٰہ لہ بہ خمسين حسنة ومحا عنہ خمسين سيئة ورفع لہ خمسين درجة ومن قراٴ حرفاً وهو قائم فی صلاتہ کتب اللّٰہ لہ بکلّ حرف ماٴة حسنة ومحی عنہ ماٴة سيئة و رفع لہ ماٴة درجة ومن ختمہ کانت لہ دعوة مستجابة موٴخّرة او معجّلة قال: قلت : ) جعلت فداک ختمہ کلہ ؟ قال ختمہ کلّہ ” ( ١ نيز اس کتاب ميں کليني نے محمد ابن بشير سے اپنی سند کے ساته نقل کيا ہے کہ حضرت امام سجاد - نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: جو کتاب کے ایک حرف کو بغير قرائت کيے کان لگا کر سنے تو الله اس کے نام ایک نيکی تحریر کرتا ہے اور ایک گناہ محو کرتا ہے اور ایک درجہ بلند کرتا ہے اور جو بغير آواز سے پڑهے صرف (قرآن کے نقوش پر) نگاہ کرے تو الله ہر حرف کے بدلے ایک نيکی لکهتا ہے اور ایک گناہ محو کرتا ہے اور ایک درجہ بلند کرتا ہے جو شخص کسی کو قرآن کا ایک حرف پڑهائے تو الله اس کے نام پر دس نيکياں تحریر کرتا ہے اور دس درجہ بلند کرتا ہے پهر فرمایا: تمہيں یہ نہيں کہتا کہ ہر آیت کے بدلے ميں (اس فضيلت کو اسے عطا کرے گا) بلکہ ہر حرف ب یا ت کے بدلے ميں اور یہ بهی فرمایا: جو شخص ایک حرف کو بيڻه کر نماز ميں پرهے تو الله اس کے ليے پچاس حسنہ لکهتا ہے ، پچاس گناہ محو کرتا ہے اور سو درجہ بلند کرتا ہے اور جو ایک حرف کهڑے ہو کر نماز ميں پڑهے تو الله تعالیٰ ہر حرف کے بدلے سو حسنہ تحریر کرتا ہے ، سو گناہ مڻا دیتا ہے اور سو درجہ بلند کرتا ہے اور جو قرآن ختم کرے تو اس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶١٣ ۔ تفسير صافی، ج ١، ص ۶٩ ۔ (
کے ليے جلد یا تاخير سے اس کی دعائيں (مصلحت کے باعث) مقبول ہوتی ہيں۔ راوی کا بيان ہے: ميں نے عرض کيا: ميں آپ پر فدا ہوں مکمل قرآن ختم کرے؟ فرمایا: ہاں مکمل قرآن ختم کرے۔ ٢۶٣ ۔ “وفيہ بالاٴسناد عن اسحاق بن عمّار عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال: قلت لہ : جعلت فداک انّی احفظ القرآن علی ظهر قلبی فاقراہ علیٰ ظهر قلبی افضل اوانظر فی المصحف ؟ قال فقال لی بل اقراٴہ وانظر فی المصحف فهو افضل ، اما علمت انّ النظر فی المصحف عبادة ” ) ١) نيز اسی کتاب ميں کلينی نے اپنی سند کے ساته اسحاق ابن عمار سے نقل کيا ہے کہ انہوں نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ ميں نے حضرت - سے عرض کيا: ميں آپ پر قربان جاؤں ميں قرآن کا حافظ ہوں ( ميں حفظ کے ساته قرآن پڑه سکتا ہوں) کيا حفظ سے پڑهوں یہ بہتر ہے یا قرآن کو دیکه کر؟ حضرت نے فرمایا: قرآن دیکه کر پڑهنا افضل ہے کيا تمہيں نہيں معلوم کہ قرآن پر نظر کرنا عبادت ہے۔ ٢۶۴ ۔ “وفيہ عن الحسن بن راشد عن جدّہ عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال قرائة القرآن ) فی المصحف تخفّف العذاب عن الوالدین ولو کانا کافرین ” ( ٢ اسی کتاب ميں حسن ابن راشد سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنے جد سے انہوں نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: قرآن کو دیکه کر پڑهنا والدین کے عذاب ميں تخفيف کا باعث ہے اگر وہ کافر ہی کيوں نہ ہوں۔ ٢۶۵ ۔ “وفی روایة عن یعقوب بن یزید رفعہ الی ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال من قراٴ القرآن فی المصحف متّع ببصرہ وخفّف عن والدیہ وان کانا کافرین وفی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ٢١۴ ۔ ( ٢(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶١٣ ۔ (
) روایة وان کانا مشرکين ” ( ١ یعقوب ابن یزید نے مرفوعاً امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: جو شخص قرآن کو دیکه کر پڑهے اس کی آنکهوں کو فائدہ پہنچے گا اور اس کے والدین پر عذاب کی تخفيف ہوگی اگرچہ وہ کافر ہی ہوں۔ مولف کہتے ہيں: حضرت بقية الله الاعظم عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف اور آپ کے آباء و اجداد طاہرین ائمہٴ اطہار کی طرف نگاہ کرنا ان کی قبروں کی زیارت کرنا ان کے فضائل و مناقب اور مصائب ذکر کرنا خواہ لکهنے سے یا سننے سے مربوط ہو نيز ان کے ظہور کا انتظار کرنا عبادت او مستحب ہے مزید ثواب اور حقائق وغيرہ کشف کرنے ميں بہت سے آثار و برکات پائے جاتے ہيں۔ ٢۶۶ ۔ “وفی فرحة الغری : فی حدیث عن النّبی (ص) انّہ قال لعلی عليہ السلام ومن زار قبورکم عدل ثواب ذلک سبعين حجّة بعد حجة الاسلام وخرج من ذنوبہ حتّیٰ یرجع من زیارتکم کيوم ولدة امّہ فابشروبشّر اوليائک ومحبيّک من النّعيم قرة العين بما لا عين راٴت ولا اذن سمعت ولا خطر علیٰ قلب بشر ولٰکن حثالة من النّاس یعيّرون زوّار قبورکم کما تعيّر الزّانية بزنائها اولئک ) شرار امّتی لا امالهم اللّٰہ شفاعتی ولا یردون حوضی ” ( ٢ کتاب فرحة الغری ميں سيد ابن طاؤوس رضوان الله عليہ نے پيغمبر اکرم (ص) کی ایک حدیث کے ضمن ميں نقل کيا ہے کہ آنحضرت (ص) نے حضرت علی - سے فرمایا: جو شخص آپ کی قبروں کی زیارت کرے تو اس کا ثواب حجة الاسلام کے بعد ستّر حج کے ثواب کے برابر ہے اور وہ اپنے گناہوں سے بری ہوجاتا ہے یہاں تک کہ آپ کی زیارت سے واپس ہوتا ہے تو اس دن کی طرح ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ جس دن وہ شکم مادر سے پيدا ہوا ہو لہٰذا تمہيں بشارت ہو اور اپنے دوستوں اور چاہنے والوں کو نعمتوں (لامتناہی نعمتوں) کی بشارت دو اور ایسی آنکهوں کی روشنی کی کہ جسے نہ کسی آنکه نے دیکها اور نہ ہی کسی کان نے سنا ، نہ ہی کسی قلب بشر ميں خطور کيا ہو۔ ليکن بہت سے پست نظر افراد آپ کی قبروں کے زائرین کو یوں طعنہ دیتے ہيں جيسے بدکار عورت کو اسے اس کی بدکاری کی بنا پر طعنہ دیا جاتا ہے، وہ لوگ ميری امت کے شریر ترین لوگ ہيں نہ انہيں ميری شفاعت نصيب ہوگی اور نہ ہی ميرے حوض کوثر پر وارد ہوں گے (یعنی الله تعالیٰ انہيں ميری شفاعت سے محروم رکهے گا( مولف کہتے ہيں: پيغمبر اکرم (ص) کی زیارت کے بارے ميں ائمہٴ اطہار ميں ہر ایک سے بہت فضيلت اور نامحدود ثواب معادن وحی و تنزیل سے نقل ہوا ہے کہ اختصار کے ساته ہم چند مقام کی طرف اشارہ کرتے ہيں قارئين کرام مفصل کتابوں جيسے بحار الانوار علامہ مجلسی ، کامل الزیارات علامہ ابن قولویہ اور وسائل الشيعہ شيخ حر عاملی کی طرف رجوع کریں۔ ٢۶٧ ۔ “وفی علل الشرایع للصدوق عن الصادق عليہ السلام اذا حجّ احدکم فليختم ) حجہ بزیارتنا فانّ ذلک من تمام الحجّ ” ( ١ شيخ صدوق رحمة الله عليہ نے کتاب علل الشرائع ميں امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: جب تم ميں سے کوئی شخص حج پر جائے تو اسے چاہيے کہ اپنے حج کو ہماری زیارت پر ختم کرے کيوں کہ ہماری زیارت کے ليے آنا ہی حج کو حد کمال تک پہنچاتا ہے۔ ٢۶٨ ۔ “وفيہ عنہ عليہ السلام : قال قال الحسن بن علی عليہ السلام لرسول اللّٰہ یا ابتاہ ما جزآء من زارک فقال رسول اللّٰہ (ص) یا بنیّ من زارنی حيّاً اوميّتاً او زار اباک او اخاک او زارک ) کان حقّاً علیّ ان ازورہ یوم القيٰمة فاخلّصہ من ذنوبہ ” ( ٢ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ علل الشرایع، ج ٢، ص ۴۵٩ ۔ عيون الاخبار الرضا - ، ج ١، ص ٢٩٣ ۔ ( ٢(۔ علل الشرایع، ج ٢، ص ۴۶٠ ۔ کامل الزیارات، ص ٩١ ۔ بحار الانوار، ج ٩۶ ، ص ٣٧٣ ۔ (
شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے اپنی کتاب علل الشرائع ميں امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: امام حسن مجتبیٰ نے حضرت رسول خدا (ص) کی خدمت ميں عرض کيا: اے ميرے پدر گرامی! جو آپ کی زیارت کرے اس کا کيا اجر و ثواب ہے؟ فرمایا: اے بيڻے! جو ميری زندگی ميں یا مرنے کے بعد ميری زیارت کرے یا تمہارے والد گرامی یا تمہارے عزیز بهائی یا خود تمہاری زیارت کرے تو یہ ميرے ليے اس کے زائد حق ميں واجب ہے کہ اس کی قيامت کے دن زیارت کروں اور اسے گناہوں کی قيد سے نجات اور چهڻکارا دلاؤں۔ ٢۶٩ ۔ “وفی کامل الزیارة لابن قولویہ قدس سرہ: قال رسول اللّٰہ (ص) من زار قبری بعد ) موتی کان کمن هاجر الیّ فی حيٰوتی فان لم تستطيعوا فابعثوا الیّ بالسلام فانّہ یبلغنی ” ( ١ کامل الزیارات ميں ابن قولویہ رحمة الله عليہ نے رسول خدا (ص) سے نقل کيا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: جو شخص ميرے بعد ميری قبر کی زیارت کرے وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے تيری زندگی ميں ميری طرف ہجرت کی اگر تمہارے اس عمل کا امکان نہ پایا جاتا ہو تو جہاں کہيں رہو مجهے سلام بهيجو وہ مجهے پہنچ جائے گا۔ ٢٧٠ ۔ “ وفی فرحة الغری عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال من زار امير الموٴمنين عليہ السلام ما شياً کتب اللّٰہ لہ بکلّ خطوة حجة وعمرة فان رجع ماشياً کتب اللّٰہ بکلّ خطوة حجة ) وعمرة فان رجع ماشياً کتب اللّٰہ بکل خطوة حجتان وعمرتان” ( ٢ فرحة الغری ميں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا: جو شخص ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کامل الزیارات، ص ۴٧ ۔ تہذیب الاحکام ، ج ۶، ص ٣۔ وسائل الشيعہ، ج ١۴ ، ص ٣٣٧ ۔ ( ٢(۔ فرحة الغری، ص ١٠٣ ۔ مزار شيخ مفيد، ص ٣٠ ۔ بحار الانوار، ج ٩٧ ، ص ٢۶٠ ۔ (
حضرت امير المومنين علی - کی پا پيادہ زیارت کرے تو الله تعالیٰ اس کے نامہٴ اعمال ميں ہر قدم پر ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب لکهتا ہے اور اگر پا پيادہ واپس جائے تو ہر ایک قدم پر دو حج اور دو عمرہ کا ثواب تحریر کرتا ہے۔ ٢٧١ ۔ “ وعنہ عليہ السلام وقد ذکر امير الموٴمنين عليہ السلام فقال یابن مارد من زار جدّی عارفاً بحقہ کتب اللّٰہ لہ بکلّ خطوة حجة مقبولة وعمرة مبرورة یابن مارد والله ما یطعم النار قدماً تغبرت فی زیارة امير الموٴمنين عليہ السلام ماشياً کان او راکباً، یابن مارد اکتب هذا الحدیث ) بماء الذّهب ” ( ١ سيد جليل القدر جناب ابن طاووس رضوان الله تعالیٰ عليہ نے اپنی کتاب فرحة الغری ميں امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ گویا ان کے جدّ بزرگوار کے بارے ميں گفتگو ہوئی (ابن مارد کے ذریعہ یا کسی دوسرے کے ذریعہ) تو حضرت نے ابن مارد کو خطاب کرکے فرمایا: اے فرزند مارد! جو شخص ميرے جد بزرگوار کی حقيقی معرفت کے ساته زیارت کرے (ان کی ولایت و خلافت بلا فصل کا عقيدہ رکهتا ہو) تو خدائے عزوجل اس کے ہر ایک قدم پر قبول شدہ حج اور عمرہ اس کے نامہٴ اعمال ميں تحریر کرتا ہے، اے فرزند مارد! خدا کی قسم ! آتش جہنم اس قدم کو اپنی غذا نہيں بناتی جو حضرت امير المومنين - کی زیارت کی راہ ميں اڻهایا جائے ، خواہ وہ پيادہ گيا ہو یا سواری کے ساته اے فرزند مارد! اس حدیث کو سونے کے پانی سے تحریر کرو۔ مولف کہتے ہيں: کتنی زیادہ روایات حضرت سيد الشہداء حسين ابن علی عليہما السلام کی زیارت کی فضيلت اور ثواب کے بارے ميں وارد ہوئی ہيں جو مستفيض بلکہ تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہيں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ فرحة الغریٰ، ص ١٠٣ ۔ بحار الانوار، ج ٢، ص ١۴٧ ، ج ٩٧ ، ص ٢۶٠ ۔ (
٢٧٢ ۔ “ فی الامالی باسنادہ عن محمّد بن مسلم عن ابی جعفر عليہ السلام قال مروا شيعتنا بزیارة الحسين بن علی عليہما السلام فانّ زیارتہ تدفع الهدم و الغرق والحرق ) واکل السّبع وزیارتہ مفترضة علی من اقرّ للحسين عليہما السلام بالامامة من اللّٰہ عزّوجلّ ” ( ١ امالی شيخ صدوق ميں بطور مسند محمد ابن مسلم نے امام محمد باقر - سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: ہمارے شيعوں کو حسين ابن علی عليہما السلام کی زیارت کے ليے جانے کا حکم دو کيوں کہ ان کی زیارت (کی برکت) سے گهر ویران ہونے، غرق ہونے ، جلنے اور درندوں کے پهاڑ کهانے کے خطرات سے محفوظ رہتا ہے اور الله تعالیٰ کی طرف سے ہر اس شخص پر حضرت - کی زیارت فرض ہے جو اِن کی امامت (و خلافت) کا اعتراف کرچکے ہيں۔ ٢٧٣ ۔ “وقال الصادق عليہ السلام لاٴبان بن تغلب متیٰ عهدک بقبر الحسين عليہ السلام قال مالی بہ عهد منذ حين قال سبحان ربیّ العظيم وبحمدہ وانت من روٴسائی الشيعة تترک الحسين لا تزورہ من زار الحسين عليہ السلام کتب اللّٰہ لہ بکلّ خطوة حسنة ومحی عنہ بکلّ ) خطوة سيّئة وغفرہ ما تقدّم من ذنبہ وما تاٴخّر الخ ” ( ٢ حضرت امام صادق - آل محمد عليہم السلام نے ابان ابن تغلب سے فرمایا: تم کس وقت امام حسين - کی قبر کی زیارت کے ليے گئے تهے؟ عرض کيا: ایک مدت ہوگئی ہے کہ حضرت امام حسين - کی قبر کی زیارت کے ليے نہيں گيا ہوں (تو تعجب سے) فرمایا: “سبحان ربی العظيم و بحمدہ” پاک و پاکيزہ ہے ميرا پروردگار اور اسی کی حمد وثناء ہے حالانکہ تم ہمارے شيعوں کے بزرگوں ميں سے ہو اور امام حسين کی زیارت نہيں کرتے! (کيا تم نہيں جانتے یا اس بات سے غافل ہو کہ) جو شخص امام حسين ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امالی صدوق، ص ٢٠۶ ۔ من لا یحضرہ الفقيہ، ج ٢، ص ۵٨٣ ۔ ( ٢(۔ کامل الزیارات ص، ٣٣١ ۔ بحار الانوار، ج ٩٨ ، ص ٧۔ (
کی زیارت کرے تو خداوند متعال اس کے نامہٴ اعمال ميں ہر قدم پر ایک نيکی تحریر کرے گا اور ہر قدم پر ایک گناہ مڻا دے گا نيز اس کے گزشتہ اور آئندہ کے گناہ کو بخش دے گا۔ حدیث کے آخر تک۔ ٢٧۴ ۔ “وروی ابن قولویہ باسناد کثيرہ وغيرہ من المشایخ عن معاویة بن وهب قال دخلت علیٰ ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام وهو فی مصلاہ فجسلت وحتّیٰ قضیٰ صلاتہ فسمعتہ وهو یناجی ربّہ یقول یا من خصّنا بالکرامة ووعدنا الشّفاعة وحملنا الرّسالة وجعلنا ورثة الانبيآء وختم بنا الامم السّالفة وخصنا بالوصيّة واعطانا علم مامضی وعلم ما بقی وجعل افئدة من النّاس تهوی الينا اغفرلی ولاٴخوانی وزوّار قبر ابی الحسين بن علی عليہ السلام الذین انفقوا اموالهم واشخصوا ابدانهم رغبة فی برّنا ورجآء لما عندک فی صلتنا الیٰ ان قال عليہ السلام فارحم تلک الوجوہ التی غيرتها الشمس وارحم تلک الخدود التی تقلبت علیٰ قبر ابی عبد الله عليہ السلام وارحم تلک الاعين التی جرت دموعها رحمة لنا وارحم تلک القلوب التی جزعت واحترقت لنا وارحم تلک الصخة التی کانت لنا اللهم انّی استودعک تلک الاٴنفس وتلک الاٴبدان حتیٰ ترویهم من ) الحوض یوم العطش فما زال عليہ السلام یدعوا بهذا الدّعا وهو ساجد الخ” ( ١ ابن قولویہ نے ابن کثير سے اپنے اسنا دکے ساته اور ان کے علاوہ مشائخ (روایات) نے معاویہ ابن وہب سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں حضرت امام جعفر صادق - کی خدمت اقدس ميں اس وقت حاضر ہوا جب آپ اپنے مصلی پر بيڻهے ہوئے نماز ميں مشغول تهے تو ميں بيڻها تاکہ حضرت اپنی نماز تمام کریں اور ميں نے اسی حالت ميں سنا کہ اپنے پروردگار سے دعاء و مناجات کر رہے تهے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کامل الزیارات، ص ٢٢٩ ۔ کافی، ج ۴، ص ۵٨٢ ۔ ثواب الاعمال، ص ٩۵ ۔ بحار الانوار، ج ٩٨ ، ص ٨۔ (
اور فرماتے تهے: اے وہ (خدا) کہ جس نے ہم کو اپنی کرامت سے مخصوص کيا اور ہم سے شفاعت کا وعدہ کيا اور ہميں رسالت انبياء کا ورثہ دار قرار دیا اور گزشتہ امتوں کو ہمارے ذریعہ اختتام پذیر کيا اور وصایت (امامت و خلافت) کو ہم سے مخصوص کيا گزشتہ اور آئندہ کا ہميں علم عطا فرمایا اور بعض لوگوں کے دلوں کو ہمارا عاشق و حامی قرا دیا اپنی بخشش و مغرفت کو ميرے بهائيوں اور ميرے جد بزرگوار حسين بن علی عليہما السلام کے زائرین کے شامل حال فرما۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے اموال کو خرچ کيا اپنی بدن کو غم و اندوہ اور خستگی ميں ڈالا ہماری راہ ميں جو تيرے پاس اجر و ثواب کی (ہم سے نزدیک ہونے کے ليے) اميد پائی جاتی ہے نيکی انجام دی ۔ اے خدا! پنی رحمت ان چہروں پر نازل فرما جو تيری زیارت کے راستے ميں آفتاب کی گرمی سے تبدیل ہوگئے اے خد! ان رخساروں پر اپنی رحمت نازل فرما جو حضرت ابا عبد الله الحسين - کی قبر پر رکهے گئے، اے خدا! ان آنکهوں پر اپنی رحمت نازل فرما کہ جن کے اشک ہماری عطوفت و محبت ميں جاری ہوئے، اے خدا ! ان قلوب پر اپنی رحمت نازل فرما کہ جنہوں نے ہمارے مصائب کی وجہ سے (ہماری مظلوميت کی بنا پر نالہ و فریادیں بلند کيں۔ اے خدا! ميں تيرے پاس ان نفوس او ر ابدان کو (کہ جنہوں نے ہماری زیارت کی بجا آوری کے ليے خود کو زحمت ومشقت ميں ڈالا) بطورامانت چهوڑ رہا ہوں تاکہ تو پياس کے دن (قيامت) انہيں حوض کوثر سے سيراب فرما۔ راوی کا بيان ہے: حضرت امام جعفر صادق - مسلسل حضرت سيد الشہداء کے زائروں اور عاشقوں کے ليے سجدہ کی حالت ميں اس دعا کی تکرار کر رہے تهے۔ ”النظر الی وجہ علی عبادة ” چہرہٴ علی پر نظر کرناعبادت ہے ٢٧۵ ۔ “ وفی مستدرک الصحيحين روی بسندہ عن ابی سعيد الخدری عن عمران بن ) حصين قال: قال رسول اللّٰہ (ص) : النظر الیٰ علی عبادة ” ( ١ ”قال الحاکم هذا حدیث صحيح الاٴسناد ، ثم قال ؟ و شواهدہ عن عبد اللّٰہ بن مسعود صحيحة“ حاکم نے مستدرک صحيحين ميں اپنی سند کے ساته ابو سعيد خدری سے انہوں نے عمران ابن حصين سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: حضرت علی - کے چہرہ پر نظر کرنا عبادت ہے۔ حاکم نے اس حدیث کے اسناد کے صحيح ہونے کی تائيد کی ہے، پهر کہا: اس کے شواہد عبد الله ابن مسعود سے صحيح ہيں۔ مولف کہتے ہيں: اہل سنت کی معتبر کتابوں سے متعدد روایات ميں ذکر ہوا ہے کہ حضرت علی - کے چہرہ پر نظر کرنا عبادت ہے اب مولف اختصار کے ساته سند کو حذف کرکے کتاب فضائل الخمسہ ( ٢) وغيرہ سے تبرکاً کتاب کے اس مختصر حصہ کو زینت بخش قرار دیتے ہيں قارئين کرام تفصيل کے ليے گزشتہ حوالہ کی طرف رجوع کریں۔ ٢٧۶ ۔ “وفی حلية الاولياء لابی نعيم : عن عایشہ قالت: قال رسول اللّٰہ (ص) النّظر الیٰ ) علی عبادة ” ( ٣ حافظ ابو نعيم نے حلية الاولياء ميں عائشہ سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے کہ رسول خدا (ص) نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مستدرک الصحيحين ، ج ٣، ص ١۴١ ۔ ( ٢(۔ آیت الله الحاج سيد مرتضیٰ حسين فيروز آبادی رحمة الله عليہ۔ ( ٣(۔ اس سلسلہ ميں رجوع کریں: الغدیر، ج ۴، ص ٢٨ ۔ (
فرمایا: حضرت علی - کی طرف دیکهنا عبادت ہے۔ ٢٧٧ ۔ “تاریخ بغداد: عن ابی ہریرة قال: راٴیت معاذ بن جبل مدیم النّظر الیٰ علیّ بن ابی طالب عليہ السلام فقلت : مالک تدیم النّظر الیٰ علیٍّ کانک لم ترہ؟ فقال: سمعت رسول اللّٰہ ) (ص) یقول : النظر وجہ علی عبادة ” ( ١ تاریخ بغداد ميں ابو ہریرہ سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے معاذ ابن جبل کو دیکها کہ مسلسل حضرت علی ابن ابی طالب - کی طرف نگاہ کر رہے ہيں تو ميں نے عرض کيا کہ آپ کو کيا ہوگيا ہے کہ مسلسل حضرت علی - کی طرف دیکه رہے ہيں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہيں نہ دیکها ہو؟ کہا: ميں نے رسول خدا (ص) کو یہ کہتے سنا ہے: علی - کے چہرہ پر نظر کرنا عبادت ہے۔ ٢٧٨ ۔ “کنز العمال والمناوی فی فيض القدیر : قالا: النظر الیٰ وجہ علی عبادة قال المناوی فی الشّرح : قال الزّمخشری عن ابن الاعرابی اذا برز ( یعنی علياً عليہ السلام ) قال النّاس: لا الہ الاّ اللّٰہ ما اشرق هذا الفتی مااعلمہ ما اکرمہ ما احلمہ ما اشجعہ فکانت روٴیتہ تحمل علی ) النّطق بالعبادة فيالها من سعادة ” ( ٢ صاحب کنز العمال نے اپنی کتاب ميں اور مناوی نے فيض القدیر ميں دونوں نے کہا ہے کہ: علی - کے چہرہ پر نظر کرنا عبادت ہے۔ مناوی نے شرح ميں نقل کيا ہے کہ:زمخشری نے ابن اعرابی سے کہا: جس وقت علی - (سماج ميں ظاہر ہوں گے) تو لوگ تعجب سے کہيں گے لا الہ الا الله کيا نورانيت کے حامل ہيں اس جواں کا علم و کرامت اور شجاعت قابل توصيف نہيں لہٰذا ان کا دیدار لوگوں کو عبادت کے ليے برانگيختہ کرتا ہے اور وہ کہتے ہيں کہ علی - کے چہرہٴ مبارک پر نظر کرنا عبادت ہے ان کی کيا خوش نصيبی ہے۔ ٢٧٩ ۔ المحبّ الطبری فی الریاض النظرہ قال وعن معاذة الغفّاریّة قالت: کان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تاریخ بغدادی، ج ٢، ص ۴٩ ۔ ( ٢(۔ نہایہ ابن اثير، ج ۵، ص ٧٧ ۔اختيارلمعرفة الرجال، ج ٢، ص ۶١٢ ۔ (
لی اٴنس بالنبی (ص) اخرج معہ فی الاسفار ، واٴقوم علی المرضیٰ ومداوی لجرحیٰ ، فدخلت الیٰ رسول اللّٰہ (ص) فی بيت عایشة وعلی عليہ السلام خارج من عندہ فسمعتہ یقول : یا عایشة ان هذا احب الرّجال الیّ واکرمهم علیّ فاعرفی لہ حقّہ ، واکرمی مثواہ، فلما ان جری بينها وبين علی عليہ السلام بالبصرة ماجریٰ رجعت عایشة الیٰ المدینة فدخلت عليها فقلت لها: یا امّ الموٴمنين کيف قلبک اليوم بعد ما سمعت رسول اللّٰہ (ص) یقول لک فيہ ما قال؟ قالت : یا معاذة کيف یکون قلبی لرجل کان اذ دخل علیّ وابی عندنا لایملّ من النّظر اليہ ، فقلت لہ : یا ابة انّک لتدیمنّ النظر الیٰ علی ، فقال: یا بنيّة سمعت رسول اللّٰہ یقول : النظر الی وجہ علی عبادة۔ محب الدین طبری نے ریاض النضرہ ميں نقل کيا ہے کہ معاذہٴ غفاریہ نے کہا: مجهے نبی اکرم (ص) سے انس و محبت تهی ميں ان کے ہمراہ ان کے سفر ميں جاتی تهی اور مریضوں اور مجروحين کا مداوا و علاج کرتی تهی (ایک دن) ميں عائشہ کے گهر رسول خدا (ص) کی خدمت ميں اس وقت حاضر ہوئی جب حضرت علی - رسول خدا (ص) کے پاس باہر آرہے تهے پهر ميں نے سنا کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: اے عائشہ! یہ علی - ميرے نزدیک مردوں ميں سب سے زیادہ محبوب ہيں اور وہ ميرے نزدیک زیادہ عزیز اور محترم ہيں لہٰذا ان کی معرفت حاصل کرو اور ان کے حق کو پہچانو اور ان کی موقعيت و منصب کا اکرام و احترام کرو، جب عائشہ اور حضرت علی - کے درميان بصرہ کا واقعہ رونما ہوا ( ١) اور عائشہ مدینہ واپس آئی تو ميں اس کے پاس گئی اور اس سے کہا: اے امّ المومنين! آج آپ کے دل کی کيا کيفيت ہے جب کہ آپ کے ليے رسول خدا (ص) کو حضرت علی - کے حق ميں جو کچه کہنا تها کہہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ جنگ جمل کی طرف اشارہ ہے جو حضرت عائشہ (ام المومنين) کے منصوبہ کے تحت ( عثمان کی خوں خواہی اور ان سے دفاع کے بارے ميں رونما ہوئی اور جو کچه کرنا تها کيا۔
چکے؟ جواب دیا: اے معاذہ! ميرے دل کی کيفيت اس شخص کے بارے ميں کيسی ہوگی کہ جب وہ ميرے اور ميرے پدر گرامی کے پاس آتا تها تو ہم اس کو دیکهنے سے ملول اور رنجيدہ خاطر نہيں ہوتے تهے، پهر ميں نے اپنے والد گرامی سے عرض کيا: اے بابا! آپ حضرت علی - کی طرف مسلسل دقّت سے دیکه رہے ہيں اور نگاہ کرنے سے احساس خستگی نہيں کرتے؟ کہا: اے بيڻی! ميں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: علی کے (مبارک) چہرہ پر نگاہ کرنا عبادت ہے۔ ٢٨٠ ۔ “الریاض النضرة : عن عایشة قالت: راٴیت ابابکر یکثر النّظر الیٰ وجہ علیٍّ ، فقلت : یا اٴبة راٴیتک تکثر النظر الیٰ وجہ علیٍّ ، فقال : یا بنيّة سمعت رسول اللّٰہ (ص) یقول النّظر الیٰ ) وجہ علی عبادة ” ( ١ ریاض النضرة ميں عائشہ سے منقول ہے کہ اس کا بيان ہے: ميں نے ابوبکر کو حضرت علی - کے چہرہ پر کثرت سے نظر کرتے ہوئے دیکها تو ميں نے عرض کيا: اے بابا جان! ميں نے آپ کو علی کے چہرہ کی طرف بہت زیادہ نگاہ کرتا ہوا پایا؟ تو کہا: اے ميری بيڻی! ميں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی کے چہرہ پر نظر کرنا عبادت ہے۔ ٢٨١ ۔ “ وفيہ ایضاً : عن جابر قال: قال رسول اللّٰہ (ص) لعلی عليہ السلام عد عمران بن الحصين فانّہ مریض ، فاتاہ وعندہ معاذ وابو ہریرة، فاقبل عمران یحدّ النظر الیٰ علیٍّ عليہ السلام ، فقال لہ معاذ : لم تحدّ النّظر اليہ ؟ فقال : سمعت رسول اللّٰہ (ص) یقول النظر الی علی عبادة ، ) قال معاذ : وانا سمعتہ من رسول اللّٰہ قال ابو ہریرة : اوانا سمعتہ من رسول اللّٰہ (ص) ” ( ٢ نيز ریاض النضرة ميں جابر (انصاری) سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: رسول خدا (ص) نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت علی - سے فرمایا کہ: عمران ابن حصين مریض ہےں لہٰذا ان کی عيادت کرو تو حضرت علی - عيادت کے ليے اس وقت ان کے پاس گئے کہ جب معاذ اور ابوہریرہ بهی ان کے پاس موجود تهے عمران پوری دقّت کے ساته حضرت علی - کی طرف دیکه رہے تهے تو معاذ بن عمران سے عرض کيا: کيوں علی - کی طرف اس شدّت و حدّت کے ساته دیکه رہے ہيں؟ تو جواب دیا: ميں نے رسول خدا کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی کی طرف دیکهنا عبادت ہے، معاذ نے کہا: ميں نے رسول خدا (ص) سے یہ سنا ہے۔ اور ابو ہریرہ نے بهی کہا کہ: ميں نے بهی رسول خدا (ص) سے یہی بات سنی ہے۔ ٢٨٢ ۔ بحار الانوار ميں : عمار، معاذ اور عائشہ کی روایت ميں ذکر ہوا ہے کہ رسول خدا (ص) سے منقول ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب - کی طرف نظر کرنا عبادت ہے ان کا نام اور فضائل ذکر کرنا بهی عبادت ہے اور کسی بندہ کا ایمان قابل قبول نہيں ہوتا مگر ان کی ولایت و محبت کی وجہ سے اور ان کے دشمنوں سے برائت و بيزاری اختيار کرنے سے۔ ٢٨٣ ۔ “وفيہ نقلاً عن بشارة المصطفیٰ لشيعة المرتضیٰ باسنادہ عن جابر بن عبد اللّٰہ ) قال: قال رسول اللّٰہ (ص) زیّنوا مجالسکم بذکر علیّ بن ابی طالب عليہ السلام ” ( ١ علامہ مجلسی نے بحار ميں بشارة المصطفیٰ سے اپنی سند کے ساته جابر ابن عبد الله انصاری سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: اپنی مجلسوں کو علی ابن ابی طالب - کے ذکر سے زینت دو، یعنی حضرت علی - کے نام فضائل و مصائب اور ان کی مظلوميت کو ذکر کرنا ہر حالت ميں مجالس کی زینت ہے۔ مولف کہتے ہيں: نہ صرف یہ کہ علی ابن ابی طالب - کا ذکر عبادت ہے بلکہ پيغمبر اکرم محمد و آل محمد بالخصوص حضرت بقية الله الاعظم حضرت حجة ابن الحسن العسکری عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا ذکر جو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٣٨ ، ص ٧٨ ۔ (
اہل بيت عصمت و طہارت کے ہر دل عزیز پهول ہيں بالا ترین عبادت ہے۔ ٢٨۴ ۔ “وفی البحا ر نقلًا عن روضة والفضایل بالاسناد یرفعہ عن ام الموٴمنين امّ سلمة رضی اللّٰہ عنها انّها قالت سمعت رسول اللّٰہ (ص) یقول : ما قوم اجتمعوا یذکرون فضل علی بن ابی طالب عليہ السلام الا هبطت عليهم ملائکة السماء حتیٰ تحفّ بهم فاذا تفرّقوا عرجت الملائکة الیٰ السّماء فيقول لهم الملائکة انّا نشمّ من رایحتکم مالا نشمّة من الملائکة فلم نرا رائحة اطيبت منها فيقولون کنّا عند قوم یذکرون محمّداً واهل بيتہ فعلق فينا من ریحهم فتعطّرنٰا فيقولن اهبطوا بنا اليهم فيقولون تفرقوا ومضی کل واحد منهم الی منزلة فيقولون اهبطوا بنا حتیٰ ) نتعطر بذٰلک المکان ” ( ١ بحارميں روضہ اور فضائل سے اپنے اسناد کے ساته مرفوعاً ام المومنين حضرت ام سلمہ سلام الله عليہا سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: کوئی بهی قوم آپس ميں جمع ہو اور حضرت علی ابن ابی طالب - کی فضيلت و منقبت کا ذکر کرے تو ان کے پاس آسمان کے فرشتے نازل ہوتے ہيں یہاں تک کہ ان کے اطراف کو اپنے احاطہ ميں لے ليتے ہيں اور جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہيں تو فرشتے آسمان کی طرف جاتے ہيں اور وہاں کے موجودہ فرشتے ان سے عرض کرتے ہيں کہ :ہم آپ لوگوں سے ایسی خوشبو محسوس کر رہے ہيں جو دوسرے ملائکہ ميں نہيں پائی جاتی اور ہم نے اتنی پاک و پاکيزہ خوشبو اب تک نہيں دیکهی تهی تو فرشتے جواب دیں گے: ہم ایک قوم کے پاس تهے جو محمد اور ان کے اہل بيت کے ذکر ميں مشغول تهی ہم ان کی خوشبو اور عطر سے معطّر ہوئے ہيں تو وہ فرشتے کہيں گے: ہمارے ساته آؤ اور ان کے پاس چليں ، تو وہ کہيں گے : ہر ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٣٩ ، ص ١٩٩ ۔ (
دوسرے سے جدا ہوجائے او ر ان ميں سے ہر ایک جب اپنے گهر کی طرف واپس جائے گا تو اہل خانہ اس سے کہيں گے: ميرے ساته چلو تاکہ ہم بهی اس جگہ کی خوشبو اور عطر سے معطّر ہوجائيں۔ ٢٨۵ ۔ موٴلف کہتے ہيں: ہم زیارت جامعہٴ کبيرہ ميں بهی پڑهتے ہيں “ باٴبی انتم وامّی ونفسی واهلی ذکرکم فی الذّاکرین واسمآئکم فی الاسمآء واجسادکم فی الاٴجساد وارواحکم فی الاٴرواح وانفسکم فی النّفوس وآثارکم فی الآثار وقبورکم فی القبور فما احلی اسمآئکم ) واکرم انفسکم واعظم شاٴنکم الخ” ( ١ ميرے ماں باپ ، ميری جان و مال اور ميرے اہل سب آپ پر قربان ۔ آپ کا ذکر ذاکرین ميں ہے۔ آپ کا نام ناموس ميں نمایاں ہے آپ کے اجساد، جسموں ميں، آپ کی روحيں، ارواح ميں، آپ کے نفس، نفوس ميں۔ آپ کے آثار، آثار ميں ۔ آپ کی قبریں، قبروں ميں نمایاں ہيں کيا شيریں آپ کے نام ہيں کيا کریم آپ کا نفس ہے اور کيا عظيم آپ کی شان ہے۔ خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ حضرت ائمہٴ اطہار کا مقدس وجود صفاتِ جميلہ اور انسانی کمالات عاليہ اور خداوند سبحان کے منتخب افراد کے اوصاف کا حامل ہے اور ان کے فضائل و مناقب بے شمار ہيں کيوں کہ وہ عظيم ہستياں خود جن کی تعبير ميں وہ کلمات الٰہی ہيں اور کلمات الٰہی بهی جيسا کہ ذکر ہوا کہ تمام دریا اور سمندر کے پانی روشنائی اور دنيا بهر کے درخت قلم بن جائيں اور تمام جس و انس لکهنے والے بن جائيں تو دریا اورسمندر خشک ہوجائيں گے ليکن ان کے فضائل و مناقب ختم نہيں ہوں گے۔ کتاب فضل ترا آب بحر کافی نيست کہ تر کنی سر انگشت و صفحہ بشماری آپ کے فضائل و مناقب کی کتاب لکهنے کے ليے سمندر کا پانی بهی ناکافی ہے ، تاکہ تم سرِ انگشت کو تر کرو اور صفحات کو شمار کرو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مزار ابن مشہدی، ص ۵٣٠ ۔ (
۱۸
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
٨۔ درجات تک پرواز ٨۔ القرآن قرائة لکلّ حرف ماٴة درجة و الاٴئمّة - صلوات اللّٰہ عليہم اجمعين - زیارتهم لکلّ خطوة حجة وعمرة بل حجتان وعمرتان جس طرح کہ خداوند متعال قرآن مجيد کے ہر حرف کی قرائت کے ليے سو درجہ عطا فرماتا ہے ائمہٴ معصومين کی زیارت کی راہ ميں جو قدم اڻهایا جاتا ہے ہر قدم پر ایک حج اور ایک عمرہ کا بلکہ دو حج اور دو عمرہ کا ثواب عنایت فرماتا ہے۔ ٢٨۶ ۔ ليکن آیات: الله تعالیٰ کا قول ہے : ( ١ اے ميری چادر لپيڻنے والے، رات کو اڻهو مگر ذرا کم ، آدهی رات یا اس سے بهی کچه کم کردو یا کچه زیادہ کردو اور قرآن کو ڻهہر ڻهہر کر باقاعدہ پڑهو۔ ) او ر الله تعالیٰ کا یہ قول: ( ٢ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جس قدر قرآن ممکن ہو اتنا پڑهو۔ اور اس کے علاوہ دوسری آیات بهی۔ ٢٨٧ ۔ “ واماالاٴخبار ففی جامع الاخبار للصدوق عليہ الرحمة عن النّبی الاٴکرم (ص) قال (ص): القرآن ماٴدبة اللّٰہ فتعلموا ماٴدبة ما استطعتم انّ هذا القرآن هو حبل اللّٰہ وهو المنذر المبين والشفاء النّافع فاٴقرٴوہ فانّ اللّٰہ عزّوجلّ یاٴجرکم علیٰ تلاوتہ بکلّ حرف عشر حسنات امٰا انّی لا ) اقول حرف واحد ولٰکن الف ولام وميم ثلثون حسنة ” ( ١ جامع الاخبار ميں منقول ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: قرآن مجيد مرکز اور تربيت و ادب الٰہی سکهانے کا وسيلہ ہے جتنا تعليم حاصل کرنے کا امکان اور قدرت رکهتے ہو یاد کرو کيوں کہ یہ قرآن ریسمان الٰہی ہے اور وہی واضح و آشکار طور پر ڈرانے والا اور پُر منفعت (بغير ضرر و نقصان کے) شفا ہے لہٰذا اسے پڑهو اس ليے کہ یقينا الله تعالیٰ اس کے ایک حرف کی تلاوت پر تمہيں دس نيکيوں کا اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔ ليکن یہ بهی جان لو کہ یہ نہيں کہتا کہ (الم) ایک حرف ہے ليکن صرف الف دس نيکی، لام دس نيکی اور ميم دس نيکی ہے کہ مجموعی طور پر (الم) کے ذریعہ تيس نيکی عطا فرمائے گا۔ ٢٨٨ ۔ “وفی المجمع عنہ (ص) : افضل العبادة قرائة القرآن ” ( ٢) آنحضرت سے مجمع البيان ميں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: بہترین عبادت قرائت قرآن ہے۔ ٢٨٩ ۔ “وفيہ عنہ (ص) قال انّ هذا القرآن ماٴدبة اللّٰہ تعالیٰ فتعلّموا من ماٴدبتہ ما ستطعتم انّ هذا القرآن حبل اللّٰہ هو النّور المبين والشّفآء النّافع عصمة لمن تمسّک بہ ، و نجاة لمن تبعہ لا یعوّج فيقوّم ، ولا یزیغ فسيتعتب ، ولا تنقضی عجآئبہ ، ولا یخلق علیٰ کثرة الرّد ، فاتلوہ فان اللّٰہ یاٴجرکم علیٰ تلاوتہ بکلّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ وسائل الشيعہ، ج ۴، ص ٨٢۶ ۔ امالی سيد مرتضیٰ، ج ٢، ص ٢٧ ۔ بحار الانوار، ج ٨٩ ، ص ١٩ ۔ ( ٢(۔ مجمع البيان، ج ١، ص ۴۴ ۔ (
حرف عشر حسنات ، اما انّی لا اقول عشر ولکن اقول الف عشر ولام عشر وميم عشر ” ) ١) اسی کتاب ميں منقول ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: یقينا یہ قرآن، الله تعالیٰ کا ادب و تربيت کے ليے مصدر و منشا اور وسيلہ ہے لہٰذا جتنا آداب حاصل کرنا ممکن ہو اسے یاد کرو یہ قرآن رسی ہے واضح و روشن نور اور پُر منفعت شفا دینے والا ہے اور اپنے متمسکين کی حفاظت کرنے والا ہے نيز اس کی پيروی کرنے والوں کے ليے باعث نجات ہے، کبهی بهی اس ميں کجی نہيں ہوگی کہ اسے سيدها کيا جائے نہ ہی خود منحرف ہوگا نہ کسی دوسرے کو منحرف کرے گا تاکہ اس کے انحراف کی تلافی کی جائے اس کے عجائب وغرائب ختم ہونے والے نہيں ہيں اس کا زیادہ مرور اور مطالعہ اس کے کہنہ پن یا ختم ہونے کا سبب نہيں بنتا لہٰذا اسے بہت زیادہ پڑهو کيوں کہ الله تعالیٰ اس کے ایک حرف کی تلاوت پر تمہيں دس نيکيوں کا اجر و ثواب عطا فرمائے گا ليکن یہ بهی جان لو کہ ميں یہ نہيں کہتا کہ (الم ) ایک حرف ہے ليکن صرف الف دس نيکی، لام دس نيکی اور ميم دس نيکی ہے کہ مجموعی طور پر (الم) کے ذریعہ تيس نيکی عطا فرمائے گا۔ ٢٩٠ ۔ “وفی الکافی عن موليٰنا الصادق عليہ السلام : ما من عبد من شيعتنا یتلوا القرآن فی صلوتہ قائماً الا ولہ بکلّ حرف ماٴة حسنة ، ولاقرء فی صلاتہ جالساً الاّ ولہ بکلّ حرف خمسون ) حسنة ولا فی غير صلوٰاتہ الّا ولہ بکلّ حرف عشر حسنات ” ( ٢ اصول کافی ميں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا: جو ہمارے شيعوں ميں سے کوئی ایک بندہ جو قرآن مجيد کی ایک آیت کهڑے ہوکر نماز ميں پڑهتا ہے تو اس کے ليے ہر حرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مجمع البيان، ج ١، ص ۴۴ ۔ ( ٢(۔ کافی، ج ٢، ص ۶١١ ۔ (
کے بدلے سو نيکيوں کا ثواب دیا جاتا ہے اور اگر بيڻه کر اپنی نماز ميں پڑهے تو ہر حرف کے عوض اسے پچاس نيکيوں کا ثواب دیا جاتا ہے اور اگر نماز کے علاوہ عادی طور پر اس کی تلاوت کرے تو ہر حرف کے بدلے الله تعالیٰ دس نيکيوں کا ثواب عطا فرماتا ہے۔
٩۔ تمام حقائق کا بيان کرنے والا ٩۔ القرآن فيہ تبيان کل شیء والحجّة عندہ علم ما کان ومایکون وما هو کائن الیٰ یوم القيٰمة جس طرح قرآن کریم نے کائنات کے تمام حقائق کو بيان فرمایا ہے امام زمانہ - تمام کائنات کے حقائق کو جاننے والے ہيں۔ الله تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ( ١ اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس ميں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گزاروں کے ليے ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔ ) الله تعالیٰ کا یہ قول: < وَمَا مِن غَائِبَةٍ فِی السَّمَاءِ وَالاْٴَرضِْ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِينٍ > ( ٢ اور آسمان و زمين ميں کوئی پوشيدہ چيز ایسی نہيں ہے جس کا ذکر کتاب مبين ميں نہ ہو۔ اور الله تعالیٰ کا یہ قول : وَمَا مِن دَابَّةٍ فِی الاْٴَرضِْ وَلاَطَائِرٍ یَطِيرُ بِجَنَاحَيہِْ إِلاَّ اٴُمَمٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
) اٴَمثَْالُکُم مَا فَرَّطنَْا فِی الکِْتَابِ مِن شَیءٍْ> ( ١ اور زمين ميں کوئی بهی رینگنے والا یا دونوں پروں سے پرواز کرنے والا طائر ایسا نہيں ہے۔جو اپنی جگہ پر تمہاری طرح کی جماعت نہ رکهتا ہو۔ ہم نے کتاب ميں کسی شے کے بيان ميں کوئی کمی نہيں کی ہے۔ اور الله تعالیٰ کا یہ قول: ( ٢ اور اس کے پاس غيبت کے خزانے ہيں جنہيں اس کے علاوہ کوئی نہيں جانتا ہے اور وہ خشک و تر سب کا جاننے والا ہے کوئی پتہ بهی گرتا ہے تو اسے اس کا علم ہے زمين کی تاریکيوں ميں کوئی دانہ یا کوئی خشک و تر ایسا نہيں ہے جو کتاب مبين کے اندر محفوظ نہ ہو۔ ) اور خدائے عزیز کا یہ قول: ( ٣ اور ہم نے ہر شے کو ایک روشن امام ميں جمع کر دیا ہے۔ اس بنا پر کہ امام سے مراد اس آیت ميں کتاب ہو۔ ٢٩١ ۔ “ واما الاخبار : ففی الکافی عن الصادق عليہ السلام : انّ اللّٰہ انزل فی القرآن تبيان کل شیء حتّیٰ واللّٰہ ما ترک شيئاً یحتاج اليہ العباد حتیٰ لا یستطيع عبد ان یقول لوکان هذا انزل ) فی القرآن الا وقد انزلہ اللّٰہ فيہ ” ( ۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصول کافی ميں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا: الله تعالیٰ نے قرآن ميں ہر شے کو بيان فرمایا ہے یہاں تک کہ خدا کی قسم ! جس چيز کے اس کے بندے محتاج تهے ان ميں سے ایک کو بهی نہ ترک کيا یہاں تک کہ کسی شخص کے پاس یہ کہنے کی طاقت نہيں پائی جاتی کہ یہ فلاں چيز بهی (جو اس کے ذہن ميں آتی ہے) قرآن ميں نازل کی جاتی آگاہ ہوجاؤ کہ الله تعالیٰ نے قرآن ميں اس کو نازل کيا ہے۔ ٢٩٢ ۔ “وفيہ باسنادہ عن عمر بن قيس عن ابی جعفر عليہ السلام قال سمعتہ یقول : ان اللّٰہ تبارک وتعالیٰ لم یدع شيئاً یحتاج اليہ الاٴمّة الّا نزلہ فی کتابہ وبيّنہ لرسولہ (ص) وجعل لکلّ ) شیء حدّاً وجعل عليہ دليلاً یدلّ عليہ وجعل علی من تعدّی ذلک الحدّ حدّاً ” ( ١ نيز اسی کتاب ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته نقل کيا ہے کہ عمر ابن قيس کا بيان ہے کہ ميں نے امام باقر - کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: خداوند تبارک و تعالیٰ نے کسی ایسی چيز کو قرآن ميں ترک نہيں کيا ہے۔ امت جس کی ضرورت مند تهی اس کو اپنی کتاب ميں نازل اور اسے اپنے رسول (ص) سے بيان فرمایا اور ہر شے کے ليے حدو مرز قرار دی اور اس پر ایک دليل و رہنما بهی قائم کردیا جو امت کی اس کی رہبری کرے اور اس شخص کے ليے حد (عذاب) بهی معين کردی جو اسی حد و مرز سے تجاوز کرے۔ ٢٩٣ ۔ “وفيہ عن الصادق عليہ السلام : ما من امر یختلف فيہ اثنان الّا ولہ اصل فی کتاب ) اللّٰہ ولکن لا تبلغہ عقول الرّجال ” ( ٢ کافی ميں منقول ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: کوئی امر ایسا نہيں ہے کہ جس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ۵٩ ۔ ( ٢(۔ کافی، ج ١، ص ۶٠ ۔ (
ميں دو شخص اختلاف رکهتے ہو مگر یہ کہ وہ کتاب خدا ميں موجود ہے ليکن لوگوں کی عقليں ان تک نہيں پہنچتيں۔ مولف کہتے ہيں: جيسا کہ گزشتہ آیات ميں صراحت سے ذکر ہوا ہے کہ قرآن مجيد ميں ہر خشک و تر کا علم پایا جاتا ہے۔ اور ہر شے کی وضاحت موجود ہے البتہ اس کا علم اور وضاحت ان لوگوں کے پاس ہے کہ جن کے گهر ميں قرآن نازل ہوا ہے اس سے مراد راسخون فی العلم جو اہل بيت عصمت و طہارت ہيں کہ ہم ان ميں سے تبرکاً چند مورد کی طرف اشارہ کرتے ہيں۔ ٢٩۴ ۔ “ روی العياشی فی تفسيرہ عن موليٰنا الصادق عليہ السلام قال: نحن والله نعلم ما فی السّموات وما فی الاٴرض وما فی الجنة وما فی النّار وما بين ذلک ثم قال: انّ ذلک فی کتاب اللّٰہ ثمّ تلا هذہ الآیة ( ١) ونزّلنا عليک الکتاب تبياناً لکلّ شیء وهدی ورحمة وبشری للمسلمين )“٢) عياشی نے اپنی تفسير ميں امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: خدا کی قسم! ہميں ان چيزوں کا علم ہے جو آسمان و زمين ميں ہے جو کچه جنت و جہنم ميں ہے اور جو کچه اس کے درميان ہے (ہم سب کچه جانتے ہيں) پهر فرمایا: یقينا یہ سب کتاب الله ميں ہے پهر اس آیت کی تلاوت فرمائی: “اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جس ميں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گزاروں کے ليے ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔ ٢٩۵ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن سماعة بن مهران قال: قال ابوعبد اللّٰہ عليہ السلام ، ان العزیز الجبّار انزل عليکم کتابہ وهو الصّادق البارّ ، فيہ خبرکم وخبر من قبلکم وخبر من بعدکم و خبر السّمآء والاٴرض ولو اتاکم من یخبرکم عن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير عياشی، ج ٢، ص ٢۶۶ ۔ ( ٢(۔ سورئہ انعام، آیت ٣٨ ۔ (
) ذلک لتعجّبتم ” ( ١ کلينی نے کافی ميں اپنی سند کے ساته سماء ابن مہران سے نقل کيا ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: یقينا خدا ئے عزیز و جبار نے تم پر اپنی کتاب نازل کی اور وہ سچا اور خير پسند (راست باز اور نيکو کار) ہے اور اس ميں تمہاری (سرگزشت اور تقدیر کے بارے ميں) خبر دی گئی ہے اور تم سے پہلے والوں کے بارے ميں بهی اور تم سے بعد ميں آنے والوں کے بارے ميں بهی خبر دی گئی ہے اور اگر کوئی تم سے ان حوادث کی خبریں آکر بيان کرتا تو تم یقينا حيرت و تعجب کرتے۔ ٢٩۶ ۔ وفيہ عنہ عليہ السلام : انّی لاٴ علم ما فی السّموات ومافی الاٴرض واعلم ما فی الجنة وما فی النّار واعلم ماکان وما یکون ، ثمّ سکت هنيئة فراٴی انّ ذلک کبر علیٰ من سمعہ منہ فقال عليہ السلام علمت ذلک من کتاب اللّٰہ عزّوجلّ انّ اللّٰہ یقول ۔ نيز اسی کتب ميں منقول ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: یقينا جو کچه زمين اور آسمانوں ميں ہے اس کو جانتا ہوں اور اس کا بهی مجهے علم ہے جو جنت اور جو جہنم ميں ہے اور جو کچه ہوچکا اور جو کچه ہونے والا ہے پهر کچه دیر خاموش تهے دیکها کہ یہ بات اس شخص کو بری معلوم ہوئی جس نے حضرت سے یہ سنا (وہ تحمل نہيں کر پایا) لہٰذا حضرت نے فرمایا: یہ جو کچه مطالب ميں نے تم سے بيان کيے ہيں اسے کتاب خدا (قرآن مجيد) سے ميں نے جانا ہے الله تعالیٰ نے فرمایا ہے: اس ميں ہر شے کا بيان موجود ہے۔ ٢٩٧ ۔ “وفيہ باسنادہ عن عبد الاعلی مولیٰ آل سام قال: سمعت ابا عبد اللّٰہ عليہ السلام یقول واللّٰہ انی لاٴ علم کتاب اللّٰہ من اوّلہ الیٰ آخرہ کاٴنّہ فی کفّی فيہ خبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۵٩٩ ۔ (
) السّمآء وخبر الاٴرض وخبر ماکان وخبر ماهو کائن قال اللّٰہ عزوجلّ : فيہ تبيان کل شیء ” ( ١ نيز اسی کتاب ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته عبد الاعلی مدنی آل سام سے نقل کيا ہے ان کا بيان ہے کہ ميں نے امام جعفر صادق - کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: خدا کی قسم!یقينا ميں خدا کی کتاب کو اول سے آخر تک ایسے جانتا ہوں گویا وہ ميرے (دستِ قدرت) اختيار ميں ہو جس ميں زمين و آسمان کی خبر موجود ہے اور اس کی بهی جو کچه ہوچکا یا ہونے والا ہے الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اس ميں ہر شے کو بيان کردیا گيا ہے۔ ائمہٴ ہدی جو معادن وحی و تنزیل ہيں اور کتاب خدا ميں راسخون فی العلم کے عنوان سے متعارف ہوئے ہيں قرآن مجيد ان کے گهر ميں نازل ہوا ہے کہ ایسے نفوس قدسيہ کے ليے سزاوار ہے کہ تمام علوم اسرار قرآن اور ما کان و ما یکون کی خبروں سے آگاہ ہوں۔ ٢٩٨ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن برید بن معاویة عن احدهما عليہما السلام فی قول اللّٰہ عزّوجلّ فرسول اللّٰہ (ص) افضل الراٴاسخين فی العلم قد علّمہ اللّٰہ عزّوجلّ جميع ما انزل عليہ من التنزیل والتّاٴویل وما کان اللّٰہ لينزل عليہ شيئاً لم یعلّمہ تاٴویلہ و اوصيآئہ من بعدہ یعلمونہ کلّہ ، والذین لا یعلمون تاٴویلہ اذا قال العالم فيهم بعلم فاجابهم اللّٰہ بقولہ والقرآن خاصٌّ و عامٌّ ومحکم و متشابہ ) وناسخ ومنسوخ ، فالرّاسخون فی العلم یعلمونہ ” ( ٢ کلينی نے کافی ميں اپنی سند کے ساته برید ابن معاویہ سے نقل کيا ہے کہ انہوں نے امام محمد باقر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ٢٢٩ ۔ ( ١(۔ کافی، ج ١، ص ٢١٣ ۔ (
یا امام جعفر صادق - سے اس آیہٴ کریمہ کے بارے ميں نقل کيا ہے کہ حضرت نے فرمایا: رسول خدا (ص) راسخون فی العلم ميں افضل ہيں خدائے عزوجل نے ان کو ان تمام چيزوں کا علم عطا کيا تها جو ان پر تنزیل و تاویل (آیات) کے عنوان سے نازل کی تهيں اور الله تعالیٰ نے آنحضرت پر کوئی شے ایسی نازل نہيں کی جس کی تاویل اور اس کے باطن سے انہيں آگاہ نہ کيا ہو اور آنحضرت کے بعد ان کے اوصياء ان تمام تاویلات کے جاننے والے ہيں وہ لوگ جو متشابهات کی تاویل نہيں جانتے جب عالم آل محمد (معصوم ) ان کی وضاحت کرتا ہے (الله تعالیٰ نے ان کے حق ميں فرمایا ہے) تو وہ سب کہتے ہيں کہ ہم اس پر ایمان لائے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے قرآن کے علوم بہت زیادہ ہيں من جملہ ان ميںسے خاص و عام محکم و متشابہ ( ١) اور ناسخ و منسوخ ہے اور راسخون فی العلم ان سب کا علم رکهتے ہيں۔ ٢٩٩ ۔ “وفيہ بالاسناد عن ابی بصير عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال: نحن الرّاسخون فی ) العلم ونحن نعلم تاٴویلہ ” ( ٢ نيز اسی کتاب ميں ابو بصير سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: راسخون فی العلم ہم ہيں اور ہم ان کی تاویل جانتے ہيں۔ ٣٠٠ ۔ “وفيہ باسنادہ عن عبد الرحمن بن کثير عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال: ) الرّاسخون فی العلم امير الموٴمنين عليہ السلام والائمّة من بعدی عليهم السّلام ” ( ٣ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ محکمات قرآن سے مراد وہ آیات ہيں کہ جن کے معانی عربی زبان جاننے والوں کو معلوم ( ہےں اور اس سے ایک معنی سے زیادہ مراد نہيں ہے جيسے “ان اللّٰہ ليس بظلّام للعبيد” (اور خدا اپنے بندوں پر ظلم نہيں کرتا ہے) متشابہ وہ ہے کہ جس کے معانی متعدد و مختلف ہيں اور اس کے متکلم کا مقصود و مطلوب سمجهنے کے ليے متکلم ہی کی طرف سے تفسير اور وضاحت کی ضرورت درکار ہوتی ہے مختلف معانی کی تفصيل معتبر تفسيروں ميں ذکر ہوئی ہے جيسے (بے شک الله عرش پر اختيار و اقتدار رکهنے والا ہے( ٢(۔ کافی، ج ١، ص ٢١٣ ۔ ( ٣(۔ گزشتہ حوالہ۔ (
نيز اسی کتاب ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته عبد الرحمن ابن کثير سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: راسخون فی العلم حضرت امير المومنين اور ان کے بعد تمام ائمہٴ ہدی عليہم السلام ہيں۔ ٣٠١ ۔ “ وفی الاٴختصاص للمفيد ( رضوان اللّٰہ تعالیٰ) باسنادہ عن الاصبغ بن نباتہ عن امير الموٴمنين عليہ السلام قال: سمعتہ یقول انّ رسول اللّٰہ (ص) علّمنی الف باب من الحلال والحرام ممّا کان وممّا هو کائن الیٰ یوم القيمة کلّ باب منها یفتح الف باب فذلک الف الف باب حتّیٰ علمت ) علم المنایا والبلایا و فصل الخطاب” ( ١ علامہٴ جليل القدر شيخ مفيد عليہ الرحمہ نے کتاب اختصاص ميں اپنی سند کے ساته اصبغ ابن نباتہ سے نقل کيا ہے کہ انہوں نے مولا امير المومنين - سے روایت کی ہے کہ ميں نے حضرت کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ہر باب ميں سے ہزار باب کهلتے ہيں جو مجموعی طور پر (مختلف علوم کے ایک ملين (دس لاکه) باب کهلتے ہيں یہاں تک کہ مجهے تمام منایا و بلایا اور فصل الخطاب کا علم حاصل ہوا۔ حضرت رسول اکرم (ص) کا حلال وحرام کے ہزار باب تعليم دینے کے بارے ميں متعدد روایات اسی باب کے عنوان سے ذکر ہوئی ہيں اور بعض دوسری روایت ميں ہزار حدیث یا ہزار کلمہ اور بعض ميں ہزار حرف کہ ان ميں ہر ایک سے ایک ہزار حدیث اور ہزار کلمے اور ہزار حرف کهلتے ہيں کہ جس کی تفصيلات بحار الانوار ميں اختصاص اور بصائر الدرجات سے نقل ہوئی ہے۔ ٣٠٢ ۔ “ وفی الاختصاص باسنادہ عن الاصبغ بن نباتہ : قال :امرنا امير الموٴمنين عليہ السلام بالمسير الی المدائن من الکوفة فسرنا یوم الاٴحد وتخلّف عمرو بن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اختصاص، ص ٢٨٣ ۔ (
) حریث فی سبعة نفر ( ١ فخرجوا الیٰ مکان بالحيرة یسمّی الخورنق فقالوا نتنزّہ فاذا کان یوم الاربعاء خرجنا فلحقنا عليّاً عليہ السلام قبل ان یجمع ، فبيناهم یتغدّون اذ خرج عليهم ضبٌّ فصادرہ فاٴخذہ عمرو بن حریث فنصب کفّہ فقال : بایعوا هذا امير الموٴمنين فبایعہ السّبعة وعمرو ثامنهم وارتحلوا ليلة الاربعآء فقدموا المدائن یوم الجمعة وامير الموٴمنين عليہ السلام یخطب ولم یفارق بعضهم بعضاً ، کانوا جميعاً حتیٰ نزلوا علیٰ باب المسجد فلمّا دخلونظر اليهم امير الموٴمنين عليہ السلام فقال: ایها النّاس ان رسول اللّٰہ (ص) اسرّ الیّ الف حدیث فی کلّ حدیث الف باب لکلّ باب الف مفتاح وانّی سمعت اللّٰہ یقول : وانّی اقسم لکم بالله ليبعثن یوم القيمة ثمٰنية نفر بامامهم وهو ضب ولوشئت ان اسمّيهم فقلت ، قال: فلو راٴیت عمرو بن حریث سقط ) کما تسقط التعفة وجيباً ” ( ٢ اختصاص مفيد عليہ الرحمہ ميں منقول ہے کہ اصبغ ابن نباتہ کا بيان ہے کہ: حضرت امير المومنين علی - نے ہميں حکم دیا کہ ہم کوفہ سے مدائن کی طرف حرکت کریں تو ہم لوگوں نے اتوار کے دن وہاں سے حرکت کی عمرو ابن حریث نے سات دوسرے افراد کے ساته مخالفت کی اور مقام حيرہ کی طرف گئے جسے خورنق کہا جاتا ہے تو وہاں پہنچ کر کہنے لگے کہ یہاں آرام کریں پهر سير و سياحت کریں گے اور بده کے دن چليں گے اور حضرت علی - سے ملحق ہوجائيں گے قبل اس کے کہ وہ لوگ وہاںجمع ہوں وہ لوگ اس اثنا ميں ناشتہ تناول کرنے ميں مشغول تهے تو ایک سوسمار (گوہ) ظاہر ہوا اور اسے شکار کيا عمرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ راوندی نے اپنی کتاب خرائج ميں ان کے اسماء نقل کيے ہيں من جملہ ان ميں سے شبث (
ابن ربعی، اشعث ابن قيس اور جریر ابن عبد الله تهے۔ ٢(۔ بصائر الدرجات، ص ٣٢۶ ۔ اختصاص، ص ٢٨٣ ۔ ( ابن حریث نے اسے پکڑا اپنے ہاته سے اسے مار کر کہا: اس کی بيعت کرو کہ یہ امير المومنين ہے تو ان سات لوگوں نے اس سوسمار کی بيعت کے ليے دست دراز کيا اور عمرو بهی ان ميں سے آڻهواں شخص تها۔ شبِ بده وہاں سے سفر کيا اور جمعہ کے دن مدائن ميں اس وقت داخل ہوئے جب (مولا) امير المومنين - خطبہ دینے ميں مشغول تهے ان ميں سے کوئی ایک بهی ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوا اور سب کے سب مسجد کے دروازہ کے پاس اترے اور جب مسجد ميں وارد ہوئے تو حضرت امير المومنين نے ان لوگوں پر ایک نگاہ کی اور فرمایا: اے لوگو! یقينا رسول خدا (ص) نے مجه سے ہزار مخفی حدیث بيان فرمائی کہ ہر حدیث ميں ہزار دروازے اور ہر دروازے ميں علم کی ہزار کنجی ہے ميں نے باليقين سنا ہے کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: (ہم قيامت کے دن ہر شخص کو اس کے امام وپيشوا کے ساته بلائيں گے) اور ميں تمہيں خدا کی قسم کها کر کہتا ہوں کہ: یقينا آڻه لوگ قيامت کے دن محشور ہوں گے کہ جس کا امام و پيشوا سوسمار (گوہ) ہے کہ جس کی ان لوگوں نے بيعت کی تهی اگر ميں چاہوں تو ميں تمہيں ان لوگوں کا تعارف ان کے نام سے کراؤں ۔ راوی نے عرض کيا: اگر عمرو ابن حریث کو دیکهتے کہ وہ اس طرح لرز کر گرا جيسے کهجور کی شاخ مضطرب ہوکر گر پڑتی ہے۔ مولف کہتے ہيں: وہ چار افراد یہ تهے شبث ابن ربعی، عمرو ابن حریث، اشعث بن قيس اور جریر ابن عبدالله (خدا انہيں ذليل فرمائے)۔ ٣٠٣ ۔ روایت ميں ذکر ہوا ہے: “ انّ شبث بن ربعی وعمرو بن حریث والاشعث بن قيس ) وجریر بن عبد اللّٰہ بایعوا ضبّاً فيبعثون یوم القيمة وامامهم الضبّ وهو یسوقهم الی النّار” ( ١ یعنی شبث ابن ربعی، عمرو ابن حریث، اشعث ابن قيس اور جریر ابن عبد الله نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سفينة البحار، ج ٢، ص ٧٠ ۔ (
حضرت امير المومنين علی - کی بيعت کرنے کے باجود سوسمار (گوہ) کی بيعت کی لہٰذا قيامت کے دن اس حالت ميں انہيں محشور کيا جائے گا کہ چاروں افراد کا امام سوسمار ہوگا جو انہيں جہنم کی طرف لے جائے گا۔ ٣٠۴ ۔ “قال ابن ابی الحدید : وروی یحيی البرمکی عن الاعمش انّا جریراً و الاشعث خرجاً الی الجبّان بالکوفة فمرّ بها ضبٌّ یعدو وَهما فی ذَمّ عَلیّ عليہ السلام فنادَیا یا اَبَا حسل هَلّم نبایعک بالخلافة فبلغ علی عليہ السلام قولهما فقال انّهما یحشران یوم القيٰمة وامامهما ضبٌّ ” )١) ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ کا بيان ہے: یحيیٰ برمکی نے اعمش سے روایت کی ہے کہ جریر اور اشعث، جبان کی ملاقات کے ليے کوفہ نکلے تو ایک سوسمار (گوہ) تيزی سے ان کے سامنے سے گزرا اور وہ لوگ حضرت علی - کی مذمت کر رہے تهے تو ان دونوں نے اسے آواز دی: اے ابو حسل! تم آؤ کہ ہم تمہاری بيعت کریں یہاں تک کہ دونوں افراد کی یہ بات حضرت علی - تک پہنچی تو حضرت - نے فرمایا: وہ لوگ قيامت کے دن اس حالت ميں محشور کيے جائيں گے کہ وہ سوسمار کے امام ہوں گے۔ مولف کہتے ہيں: احادیث معتبرہ اور مسلمات حدیثوں ميں سے ہے کہ فرمایا : ) ٣٠۵ ۔ “ من احبّ حجراً حشرہ اللّٰہ معہ ” ( ٢ جو شخص کسی پتهر کو دوست رکهتا ہو وہ اس کے ساته محشور کيا جائے گا۔ ليکن شبث ابن ربعی، جنگ صفين ميں حضرت علی - کے اصحاب کے درميان موجود تها معاویہ کے ساته بہت سے معاملات کے بعد نہروان کے خوارج سے ملحق ہوا داؤد اور اس کے تين دوسرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ٧۵ ۔ تہذیب المقال، ج ٣، ص ٧٣ ۔ ( ٢(۔ عيون اخبار الرضا -، ج ٣، ص ٢۶٩ ۔ امالی صدوق، ص ٢٧٨ ۔ روضة الواعظين، ص ۴١٧ ۔ وسائل ( الشيعہ، ج ١۴ ، ص ۵٠٣ ۔ بحار الانوار، ج ٧۴ ، ص ٢٨٢ ۔
دوستوں نے نہروان کے راستے ميں حضرت امير المومنين علی - کی خلاف ورزی کی اور حضرت نے خبر دی کہ ان لوگوں کا ارادہ یہ ہے کہ لشکر حق کے اطراف سے لوگوں کو منتشر کردیں ان لوگوں کا سوسمار (گوہ) کی بيعت کرنے کی بهی خبر دی اور فرمایا: ) ٣٠۶ ” :اما والله یاشبث ویابن حریث لتقاتلان اِبنی الحُسين عليہ السلام ” ( ١ حضرت امام علی - نے شبث ابن ربعی اور ابن حریث سے فرمایا: خدا کی قسم ! تم دونوں ميرے بيڻے حسين کو شہيد کرو گے۔ ليکن عمرو ابن حریث: ایک منافق عثمانی شخص تهانيز کوفہ ميں ابن زیاد کا نمائندہ تها، حضرت علی - کے بارے ميں بہت سی جسارتيں کيں اور ان کی طرف سحر، جادوگری اور کذب کی نسبت دی ہے اب اس کے باطنی خباثت کے موضوع سے متعلق شيخ مفيد رحمة الله عليہ کی کتاب اختصاص سے اشارہ کر رہے ہيں۔ ٣٠٧ ۔ “فی الاختصاص باسنادہ عن الاصبغ بن نباتہ قال: کنّا وقوفاً علیٰ امير الموٴمنين بالکوفة وهو یعطی العطآء فی المسجد از جآئت امراٴة فقالت : یا امير الموٴمنين اعطيت العطاء جميع الاٴحياء ما خلا هذا الحیّ من مراد لم تعطهم شيئاً فقال : اسکتی یا جرئية، یا بذیہ ، یا سلفع یا سلقلق یا من لا تحيض کما تحيض النّساء ، قال: فولّت فخرجت من المسجد فتبعها عمرو بن حریث فقال لها: ایّتها المراٴة قد قال علیٌّ فيک ما قال اٴیصدّق عليک ؟ فقالت والله ما کذب وانّ کل ما رمانی بی لفیّ ، واما اطّلع علیّ احد الاّ اللّٰہ الّذی خلقنی وامّی الّتی ولدتنی ، فرجع عمرو بن حریث فقال : یا امير الموٴمنين تبعت المراٴة فساٴلتها عمّا رميتها بہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الخرائج و الجرائح، ج ١، ص ٢٢۶ ۔ مدینة المعاجز، ج ٣، ص ١٩٠ ۔ بحار الانوار، ج ٣٣ ، ص ٣٨۴ ۔ (
فی بدریها فاقرّت بذلک کلّہ ، فمن این علمت ذلک ؟ فقال انّ رسول اللّٰہ (ص) علّمنی الف باب من الحلال والحرام یفتح کل باب الف باب حتّی علمت المنایا والوصایا وفصل الخطاب وحتیٰ علمت ) المذّکرات من النّساء والموٴنثّين من الرّجال ” ( ١ اصبغ ابن نباتہ کا بيان ہے: کوفہ ميں ہم حضرت علی - کی خدمت اقدس ميں کهڑے تهے اور حضرت مسجد ميں لوگوں کو عطيے بخش رہے تهے تو ناگاہ ایک عورت آئی اور عرض کيا: یا امير المومنين -! تمام حی (قبيلہ یا محلے) والوں کو عطا فرمایا سوائے ابن حی کے جو مراد کے قبيلہ سے تها اسے کوئی شے مرحمت نہيں فرمائی تو حضرت نے فرمایا: خاموش ہوجا اے جرئيہ بذیّہ! اے سلفعٴ سلقلق! اے وہ کہ جو خون حيض نہيں دیکهتی! جس طرح دوسری عورتيں دیکهتی ہيں۔ راوی کا بيان ہے: وہ عورت فوراً مسجد سے باہر گئی اور عمرو ابن حریث اس کے پيچهے گيا اور کہا: اے عورت ! حضرت علی - نے تمہارے حق ميں جو بات کہی ہے کيا تم اس کی تصدیق کرتی ہو؟ جواب دیا: خدا کی قسم! اس نے ميری بہ نسبت کہا وہ سچ کہا ہے وہ سب صفت ميرے اندر پائی جاتی ہے اور ميرے خدا کے علاوہ کہ جس نے مجهے پيدا کيا اور ميرں ماں کہ جس نے مجهے جنا ہے کسی اور کو ان موضوعات کی اطلاع نہيں ہے، عمرو ابن حریث واپس ہوا اور عرض کيا: یا امير المومنين - ! ميں اس عورت کے پيچهے گيا اور ان اوصاف کے بارے ميں جو اس کی بدن سے متعلق آپ نے نسبت دی تهی دریافت کيا اس نے سب کا اعتراف کيا، آپ کو ان باتوں کا علم کہاں سے حاصل ہوا؟ تو حضرت نے فرمایا: رسول خدا (ص) نے مجهے حلال و حرام کے ہزار دروازوں کی تعليم دی کہ جن ميں ہر ایک دروازہ سے دوسرے ہزار دروازے کهلتے ہيں یہاں تک کہ علم منایا وصایا اور فصل خطاب کا علم مجهے حاصل ہوا نہ صرف یہ بلکہ وہ عورتيں جو مردوں جيسے اوصاف کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حامل ہيں وہ مرد جو عورتوں جيسے صفات کے حامل ہيں سب کچه جانتا ہوں۔ ٣٠٨ ۔ “وفيہ باسنادہ عن الحارث الاعور قال: کنت مع امير الموٴمنين عليہ السلام فی مجلس القضاء اذا اقبلت امراٴة مستعدیة علیٰ زوجها فتکلّمت بحجّتها وتکلّم الزوج بحجّتہ فوجة القضاء عليها ، فغضبت غضباً شدیداً ثمّ قالت واللّٰہ امير الموٴمنين لقد حکمت علیّ بالجور وما بهذا امرک اللّٰہ ، فقال لها یا سلفع ، یا مهيع ، یا قردع بل حکمت عليک بالحقّ الّذی علمتہ، فلمّا سمعت منہ الکلام ولّت هاربة فلم تردّ عليہ جواباً ، فاتبعها عمرو بن حریث فقال لها: والله یا امة اللّٰہ لقد سمعت اليوم منک عجباً وسمعت امير الموٴمنين قال لک قولاً فقمت من عندہ هاربة مولّية ما رددت عليہ جواباً ، فقالت : یا عبد اللّٰہ لقد اٴخبری باٴمر یطّلع عليہ احد الاّ اللّٰہ واٴنا ، وما قمت من عندہ الاّ مخافة ان یخبرنی باعظم ممّا رمانی بی فصبری علیٰ واحدة کان اجمل من اٴن اصبر علی واحدة بعد واحدة ، قال لها عمرو: فاٴخبرنی عافاک اللّٰہ ما الّذی قال لک ؟ قالت یا عبد اللّٰہ اِنّی لا اقول ذٰلک لاٴنّہ قال ما فیّ وما اکرہ فانّہ قبيح ان یعلم الرّجال فی النّسآء من العيوب ، فقال لها : واللّٰہ ما تعریفينی ولا عرفک ولعلّک لاترینی ولا اراک بعد یومی هذا، قال عمر ، فلمّا راٴتنی قد الحمت عليها قالت : امّا قولہ : یا سلفع فواللّٰہ ما کذب علیّ انّی لا احيض من حيث تحيض النّساء ، واما قولہ : یا مهيع فاٴنی والله صاحبة نساء وما انا بصاحبة رجال ، وامّا قولہ : یا قردع فاٴنّی المخرّیة بيت زوجی وما ابقی عليہ فقال لها : ویحک وما علمہ بهذا ؟ اٴتراہ ساحراً او کاهناً او محذوماً ؟ اخبرک بما فيک وهذا علم کثير فقالت لہ : بئس ما قلت یا عبد اللّٰہ انّہ ليس بساحر ولا کاهن ولا محذوم ولکنّہ من اهل بيت النّبوة وهو وصیّ رسول اللّٰہ (ص) وارثہ وهو یخبر الناس بما القاہ رسول اللّٰہ (ص) وعلّمہ لاٴنّہ حجة اللّٰہ علیٰ هذا الخلق بعد نبيّہ (ص) ، فاقبل عمرو بن حریث الیٰ مجلسہ ، فقال لہ امير الموٴمنين : یا عمرو بما استحللت ان ترمينی بما رميتنی بہ اٴما واللّٰہ لقد کانت المراٴة احسن قولًا فی منک ولا قفنّ انا وانت من اللّٰہ موقفاً فانظر کيف تتخلص من اللّٰہ ، فقال : یا امير الموٴمنين : انا تائب الی اللّٰہ واليک ممّا کان فاغفرہ لی غفر اللّٰہ لک فقال : لا والله لا اغفرلک هذا الذّنب ابداً حتّیٰ اقف انا وانت بين یدی من لا یظلمک شيئاً )١) ” حارث اعور کا بيان ہے: ميں حضرت امير المومنين - کی خدمت اقدس ميں مجلس قضاوت ميں موجود تها تو ناگہاں ایک عورت اس حالت ميں داخل ہوئی کہ وہ اپنے شوہر کے ظلم کی شکایت کر رہی تهی اس کے ظلم و ستم کی دليلوں اور کيفيت کو بيان کيا اور اس کے شوہر نامدار نے بهی اپنی حجّت و دليل کو بيان کيا، فيصلہ کا رخ عورت کے ضرر ميں تمام ہوا تو عورت بہت زیادہ غضب ناک ہوئی پهر کہا: خدا کی قسم! اے امير المومنين! آپ نے ميرے حق ميں ایسا فيصلہ کيا ہے کہ الله تعالیٰ نے آپ کو کسی وقت بهی ایسا حکم نہيں فرمایا تو حضرت نے جواب ميں فرمایا: اے سلفع! اور اے مهيع! اور اے قردع! بلکہ ميں نے تمہارے ضرر ميں حق اور علم کی رو سے حکم کيا کہ جس کو تم نے بهی سمجه ليا، جب اس عورت نے حضرت کی اس بات کو سنا تو راہِ فرار کی طرف رخ کيا اور کوئی جواب نہيں دیا، عمرو ابن حریث جو مجلس (مجلس قضا) ميں موجود تها اس کے پيچهے گيا اور کہا: اے کنيز خدا! خدا کی قسم ! ميں نے آج تم سے عجيب و غریب چيزیں سنی ہيں اور اسی طرح ایک بات حضرت امير المومنين - نے تم سے کہی تو تم وہاں فوراً کهڑی ہوگئی ، راہ فرار اختيار کرلی اور ان کا کوئی جواب نہيں دیا، کہا: اے خدا کے بندے! یقينا انہوں نے مجهے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی شے کے بارے ميں خبر دی کہ جسے ميرے اور ميرے خدا کے علاوہ کوئی دوسرا شخص نہيں جانتا تها، اور ميں ان کے پاس سے کهڑی نہيں ہوئی سوائے اس خوف سے کہ ممکن ہے اس سے عظيم شے کے بارے ميں مجهے خبر دیں۔ لہٰذا ميں نے مناسب سمجها کہ ایک ہی بات پر صبر کرنا بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک ایک بات جو ميرے بارے ميں ہے اسے سنوں اور صبر کروں۔ عمرو نے اس سے کہا: خدا تمہيں عافيت عطا کرے انہوں نے تم سے کيا کہا: کہا: اے خدا کے بندے!ميں بيان نہيں کرسکتی کيوں کہ جو کچه ميرے اندر موجود ہے انہوں نے خبر دی اور مجهے یہ پسند نہيں ہے کہ ميں اس کا اظہار کروں اور اس کے علاوہ یہ بات بہت بری ہے کہ عورتوں کے عيوب و نقائص سے مردوں کو اطلاع حاصل ہو، عمرو نے کہا: خدا کی قسم! نہ تم مجهے پہچانتی ہو اور نہ ہی ميں تمہاری معرفت رکهتا ہوں، اور آج کے دن کے علاوہ نہ تم مجهے دیکهو گی اور نہ ميں تمہارا دیدار کروں گا، عمرو کا بيان ہے: جب ميں نے بہت اصرار کيا تو کہا: ليکن انہوںنے فرمایا: اے سلفع! خدائے بزرگ و برتر کی قسم! انہوں نے ميری بہ نسبت جهوٹ نہيں کہا کيوں کہ ميں حائض عورتوں کی طرح خون حيض نہيں دیکهتی اور جو انہوں نے فرمایا: اے مهيع! خدا کی قسم! نہ ميں صاحبِ عورت ہوں اور نہ ہی صاحب مرد ١) اور جو انہوں نے فرمایا: اے قردع! ميں خراب کار عورت ہوں اپنے شوہر کے گهر کو خراب ) کرتی ہوں اور اس کی کوئی چيز اس کے ليے باقی نہيں چهوڑتی۔ عمرو نے کہا: تمہيں ہلاکت ہو اسے ان باتوں کا علم کہاں سے ہوا، ممکن ہے وہ ساحر اور جادوگری کرنے والا اور محذوم ہو (اور تمہيں اس طریقہ سے خبر دی ہو) تو عورت نے اس سے کہا: اے بندہٴ خدا! تم نے کتنی بری بات کی ہے وہ نہ ساحر ہے نہ جادوگر اور نہ ہی محذوم ہے ليکن وہ اہل بيت نبوت و رسالت کا فرد ہے اور رسول خدا (ص) کا وصی اور ان کے علم کا وارث ہے وہ لوگوں کو ان چيزوں کی خبر دیتا ہے کہ جن کی رسول خدا (ص) نے انہيں تعليم دی ہے کيوں کہ وہ نبی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اور شاید عورت سے تعبير کرنے کا مقصد یہ ہو کہ ميں صاحب عورت ہوں نہ صاحب مرد، ( ممکن ہے در واقع مرد تها اور اس کی بيوی تهی اگرچہ لوگوں کے درميان عورتوں کی طرح رفت و آمد کرتا تها اور لوگ نہيں جانتے تهے۔
اکرم کے بعد مخلوقات پر خدا کی حجّت ہيں۔ عمرو ابن حریث نے ان باتوں کو سننے کے بعد حضرت امير المومنين- کی مجلس قضاوت کی طرف رخ کيا تو حضرت نے فرمایا: اے عمروا! کس معيار کی بنا پر تم نے ميری طرف ان باتوں کی نسبت دینا جائز جانا جو کچه تم نے نسبت دی ہے جان لو کہ خدا کی قسم! اس عورت کی بات ميرے حق ميں تمہاری بات سے زیادہ اچهی تهی، اور یقينا ہم اور تم محکمہٴ عدل الٰہی ميں کهڑے ہوں گے پهر دیکهنا کہ تم خود کو (عذاب الٰہی سے) کيسے چهڻکارا دلاؤ گے۔ عمرو نے کہا: یا امير المومنين! ميں خدا سے توبہ کرتا ہوں اور جو کچه ميں نے آپ کو کہا ہے مجهے معاف کردیں ، بخش دیں خدا آپ کو بهی معاف کرے اور بخش دے۔ توحضرت نے فرمایا: خدا کی قسم! ميں تمہارے ان گناہوں کو کبهی بهی نہيں بخشوں گا یہاں تک کہ ميں اور تم اس کی بارگاہ ميں کهڑے ہو کہ جو کبهی بهی تمہارے اوپر کسی طرح کا ظلم نہيں کرے گا۔ ليکن جریر ابن عبد الله: جریر اور اشعث دونوں ہی حضرت علی - کے دشمنوں ميں سے تهے اور حضرت علی - نے جریر کا گهر ویران کردیا۔ معاویہ نے ان چار افراد (شبث ابن ربعی، عمرو ابن حریث، اشعث ابن قيس اور جریر ابن عبد الله) سے وعدہ کيا کہ اگر حسن ابن علی عليہما السلام کو قتل کردے تو ان ميں سے ہر ایک کو بيس ہزار درہم نقد اور شام کی چاندیوں ميں سے کچه چاندی اور اپنی لڑکيوں ميں سے ایک لڑکی دے گا۔
۱۹
قرآن اور آخری حجت قرآن اور آخری حجت مشترکات قرآن اور حجت زمان
١٠ ۔ ہمراہی ١٠ ۔ القرآن مع الائمّة عليہم السلام والحجّة مع القرآن قرآن ائمہ کے ساته اور امام زمانہ - قرآن کے ساته ہيں، وہ ہمراہ ہم گام اور ایک ہی سمت ميں ہيں، ان ميں کسی کی مخالفت کرنا دوسرے کی مخالفت ہے۔ لہٰذا ہمارا درود و سلام ہو اس یکتا و یگانہ آسمانی کتاب پر جو تحریف نہيں ہوئی اور تمام کتابوں ميں خاتم الکتاب کی حيثيت رکهتی ہے۔ اور ہمارا نامحدود سلام اور بے شمار درود ہو اس آفتاب فلک عظمت و جلالت قطب گردون سيارہٴ نبوت پر جس سے عالم انسانيت محروم ہے جس پر کمال و حقيقت کا دار ومدار ہے (یعنی حضرت محمد مصطفی کی ذات پاک پر) بے انتہا درود و سلام ہو فلک امامت کے پاک سورج اور آسمان ولایت کے ماہتاب مجسم پيکر پر اور ان کے گيارہ عزیز فرزند پر جو زمانے کے درخشاں ستارے ہيں اور چمکتے سورج پروردگار کی ضياء پاشی کررہے ہيں وہ عظيم ہستياں کہ جنہيں خدائے بزرگ و برتر نے قرآن کے ساته اور قرآن کو ان کے ہمراہ قرار دیا ہے اور ایک لمحہ کے ليے بهی ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ قيامت کے دن اس سرور دوعالم کے پاس پہنچيں گے اور الله تبارک و تعالیٰ نے رسول کریم جو رؤوف و رحيم بهی ہيں ان کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کی سعادت اور رہنمائی کے ليے ان دونوں کو اپنا خليفہ و جانشين قرار دیں تاکہ لوگ ان سے متمسک ہوکر دنيا و آخرت کی سعادت حاصل کریں۔ زمانے کے تحولات، تاریخ اور تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ ہر دور اور زمانے کے ہر حصہ ميں دین و ایمان کے رہ زنوں اور چوروں کا وجود پایا جاتا رہا ہے جو متدیّن افراد کے اعتقادات ميں اپنے تمام ممکنہ ذرائع سے شک و شبہ ایجاد کرتے رہے تاکہ ضعيف الاعتقاد مومنين کو اپنے دام فریب ميں گرفتار کریں اور انہيں وحشت زدہ اور حيران و سرگردان بنادیں۔ پيغمبر اکرم (ص) نے اپنی مبارک عمر کے آخری لمحات ميں پروردگار کے حکم سے امت کے امورِ زندگی کی حفاظت کے ليے اور راہ سعادت کو دوام بخشنے کی خاطر تاکہ ان کے بعد وہ لوگ بشریت کے درندوں اور چوروں کی گرفت ميں نہ آئيں ان دو بہت سنگين اور عظيم امانت کو امت کے درميان قرار دیا اور ان سے متمسک رہنے کے ليے بہت زیادہ تاکيد کرکے ان دونوں کو ضلالت و گمراہی سے محفوظ رہنے کا عامل اور معيار قرار دیا جو حدیث ثقلين کے نام سے مشہور و معروف اور متفق بين الفریقين ہے شيعہ و سنی دونوں کے یہاں معتبر ہے۔ اسے شيعہ اور سنی حضرات کے علماء ، اکابر اور مفسرین نے اپنی متعدد اور معتبر کتابوں ميں تواتر کے ساته نقل کيا ہے۔ یہ بات بهی قابل ذکر ہے کہ جادّہ مستقيم سے منحرف ہونا اور رہ زنوں اور چوروں کے دام فریب ميں گرفتار ہونا شبہات ميں پڑنا ہے جو قرآن اور اہل بيت سے عدم تمسک اور ان کی طرف رجوع نہ کرنے کا نتيجہ ہے لہٰذا ہم چند مقام کی طرف تبرکاً اشارہ کر رہے ہيں۔ ٣٠٩ ۔ “وفی السفينة نقل عن معانی الاٴخبار فی معنی العترة عن الصادق عن آبائہ عليہم السلام قال سئل امير الموٴمنين عليہ السلام عن معنی قول رسول اللّٰہ (ص) انّی مخلف فيکم الثقلين کتاب اللّٰہ عترتی ومن العترة؟ فقال انا والحسن والحسين والائمّة التسعة من ولد الحسين تاسعهم مهدیهم وقائمهم لا یفارقون کتاب اللّٰہ ولا یفارقهم حتّیٰ یردا علی رسول اللّٰہ ) (ص) حوضہ ” ( ١ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ معانی الاخبار، ص ٩٠ ۔ مستدرک سفينة البحار، ج ٧، ص ٧٧ ۔ (
سفينة البحار ميں معانی الاخبار سے عترت کے معنی ميں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ حضرت - نے فرمایا: حضرت امير المومنين - سے رسول الله کے اس کلام کے بارے ميں دریافت کيا گيا کہ ميں تمہارے درميان دو عمدہ گراں قدر چيزیں چهوڑ رہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسری ميری عترت ، عترت کا معنی کيا ہے؟ فرمایا: ميں، حسن، حسين اور اولاد حسين ميں سے نو ائمہ کہ ان ميں سے نواں ان کا مہدی اور ان کا قائم مراد ہے نہ وہ کتاب خدا سے جدا ہوں گے اور نہ ہی کتاب خدا ان سے جدا ہوگی یہاں تک کہ حوض کوثر پر رسول الله (ص) کے پاس وارد ہوں گے۔ ٣١٠ ۔ “وقال - صلوات اللّٰہ عليہ وآلہ - انّی تارک فيکم الثقلين کتاب اللّٰہ وعترتی ما ان تمسّکتم بهما لن تضلّوا ابداً الخ ” نيز آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا: ميں تمہارے درميان دو عظيم گراں قدر چيزیں چهوڑ کر جارہا ہوں ایک الله کی کتاب اور دوسری ميری عترت ہے جب تک ان دونوں سے متمسک رہو گے ہر گز ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ اس مبارک حدیث کو علامہ مجلسی رحمة الله عليہ نے اخبار ثقلين کے باب ميں سو حدیث سے زائد شيعوں کی معتبر کتابوں اور اہل سنت کی صحاح ستہ اور ان کی دوسری ) کتابوں سے نقل کيا ہے۔ ( ١ ٣١١ ۔ رسول خدا (ص) نے جاہلوں اور غافلوں کے مجمع کثير ميں آواز دی : “ یا ایّها ) النّاس انّی ترکت فيکم ما ان اخذ تم بہ لن تضلّوا کتاب اللّٰہ وعترتی اهل بيتی ” ( ٢ اے لوگو! ميں نے تمہارے درميان دو امانت چهوڑی ہے (قرآن اور ميرے اہل بيت ) اگر تم لوگ ان سے متمسک رہو گے تو ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ ٣١٢ ۔ وقال (ص) ، انّی ترکت فيکم ما ان تمسّکتم بہ لن تضلّوا بعدی کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٢٣ ، ص ٩۵ ۔ ( ٢(۔ ترمذی اور نسائی نے جابر سے اس حدیث کو نقل کيا ہے ، متقی ہندی نے کنز العمال جزء ( اول ، ص ۴۴ ، باب الاعتصام بالکتاب و السنة کی ابتدا ميں ان دونوں کو نقل کيا ہے۔
اللّٰہ حبل ممدود من السّماء الی الارض وعترتی اهل بيتی ولن یفترقا حتیٰ یردا علیّ الحوض فانظروا کيف تخلفونی فيهم پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ميں نے تمہارے درميان دو امانت چهوڑی ہے، اگر ان سے متمسک رہو گے تو ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ قرآن جو آسمان سے لے کر زمين تک کهنچی ہوئی رسی ہے اور ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے لہٰذا غور وفکر کرو کہ ان دوستوں کے ساته کيا سلوک اختيار کرتے ہو۔ ٣١٣ ۔ “ وقال (ص) انّی تارک فيکم خليفتين : کتاب اللّٰہ حبل ممدود ما بين السّماء والارض ) اٴو ما بين السّماء الی الاٴرض وعترتی اهل بيتی وانّهما لن یفترقا حتیٰ یردا علیّ الحوض ” ( ١ پيغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) نے فرمایا: ميں تمہارے درميان دو جانشين (خليفہ) بطور امانت چهوڑ رہا ہوں ایک الله کی کتاب (قرآن) جو آسمان سے لے کر زمين تک کهنچی ہوئی ہے اور ایک ميری عترت (جو ميرے اہل بيت ہيں) اور یہ دونوں کبهی بهی ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ قيامت کے دن ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امام احمد ابن حنبل نے اس کو زید ابن ثابت سے دو صحيح طرق سے نقل کيا ہے ان ميں ( سے ایک کو ص ١٨٣ کے آغاز ميں اور دوسرے کو ص ١٨٩ کے آخر ميں کتاب مسند کے پانچویں جز ميں تحریر کيا ہے اور اسے طبری نے زید ابن ثابت سے بهی نقل کيا ہے اور وہ حدیث کنز العمال کے شمارہ حدیث ٨٧٣ جزء اول، ص ۴۴ ميں موجود ہے۔
١١ ۔ کامل اور جامع ایمان کا اعتراف ١١ ۔ القرآن من اقرّبہ اقر بجميع الکتب المنزّلة ومن لم یقرّبہ لم ینفعہ الا قرار بغيرہ من الکتب القائم عليہ السلام من اقرّبہ بجميع الائمّة ومن لم یقرّبہ لم ینفعہ الاٴقرار بغيرہ من الائمّة جس شخص نے قرآن کا اقرار کيا اس نے خدا کی جانب سے نازل شدہ تمام کتابوں کا اقرار کيا ہے اور جو شخص قرآن کا اعتراف و اقرار نہيں کرتا اور تمام نازل شدہ کتابوں کا اقرار کرتا ہے تو وہ اسے کوئی فائدہ نہيں بخشے گا۔ اسی طرح حجة ابن الحسن قائم آل محمد ہيں جو شخص ہمارے ساته ہے ان کی خلافت و امامت کا اعتقاد و اعتراف کرتا ہے تو وہ تمام ائمہٴ اطہار کا اعتقاد و اقرا رکرتا ہے اور جو شخص ان کی امامت کا اعتقاد و اعتراف نہ کرے اگرچہ وہ ان کے علاوہ تمام ائمہ کا اقرا ر کرے تو وہ اسے کوئی فائدہ نہيں بخشے گا اور وہ خسارہ ميں ہے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ١ اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے تمام انبياء سے عہد ليا کہ تم کو جو کتاب و حکمت دے رہے ہيں اس کے بعد جب وہ رسول آجائے جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے تو تم سب اس پر ایمان لے آنا اور اس کی ضرور مدد کرنا۔ اور پهر پوچها: کيا تم نے ان باتوں کا اقرار کرليا اور ہمارے عہد کو قبول کرليا تو سب نے کہا کہ : بے شک ہم نے اقرار کرليا ، ارشاد ہوا کہ اب تم سب گواہ بهی رہنا اور ميں بهی تمہارے ساته گواہوں ميں ہوں۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: ( ٢ رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکهتا ہے جو اس کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور سب مومنين بهی الله اور ملائکہ اور مرسلين پر ایمان رکهتے ہيں ان (مومنين) کا کہنا ہے کہ ہم رسولوں کے درميان تفریق نہيں کرتے ہم نے پيغام الٰہی کو سنا اور اس کی اطاعت کی۔ پروردگار اب تيری مغفرت درکار ہے اور تيری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے۔ یہ دونوں آیہٴ کریمہ اس بات کو بيان کر رہی ہے کہ تمام انبياء و اوصياء اور تمام مومنين کتاب (قرآن) و حکمت جو پيغمبر اسلام (ص) پر الله تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی اگر لوگوں نے اس کا اقرار کيا اور ایمان لائے اور اس کی نصرت و مدد سے دریغ نہيں کيا تو تمام نازل کی ہوئی کتابوں پر ایمان لائے ہيں۔ ٣١۴ ۔‘ ‘وفی غيبة النعمانی باسنادہ عن ابی حمزة الثمالی قال کنت عند ابی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جعفر محمّد الباقر عليہ السلام ذات یوم فلمّا تفرّق من کان عندہ قال لی یا ابا حمزة من المحتوم الّذی لاتبدیل لہ عند اللّٰہ قيام قائمنا فمن شک اقول لقی اللّٰہ وهو کافر لہ جاحد ثمّ قال بابی وامّی المسمّیٰ باسمی والمکنّی بکنتی السّابع من بعدی باٴبی من یملاٴ الارض عدلاً وقسطاً کما ملئت ظلماً و جوراً ثمّ قال یا ابا حمزة من ادرکہ فلم یسلّم لہ فما سلّم لمحمد و علی ) عليہما السلام وقد حرّم اللّٰہ عليہ الجنّة وما واہ النار وبئس مثوی الظّالمين ” ( ١ نعمانی نے اپنی کتاب غيبت ميں اپنی سند کے ساته ابو حمزہٴ ثمالی سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے : ایک دن ميں ابو جعفر حضرت امام محمد باقر - کی خدمت اقدس ميں موجود تها جب سب لوگ چلے گئے تو آپ نے مجه سے فرمایا:اے ابو حمزہ! وہ حتمی و یقينی امور کہ جن کو الله تعالیٰ نے حتمی اور یقينی کہا ہے جو کبهی بهی قابل تغير و تبدیل نہيں ہے ان ميں سے ایک ہمارے قائم (مہدی آل محمد ) کا قيام بهی ہے جو شخص ميرے اس قول ميں شک و شبہ کرے گا تو وہ جب مرے گا تو کافر اور منکر خدا ہوکر مرے گا،پهر فرمایا: ميرے باپ اور ماں فدا ہوں اس پر جس کا نام ميرا ہوگا اور جس کی کنيت ميری کنيت ہوگی ميرے بعد وہ ساتواں ہوگا اور وہی زمين کو عدل و انصاف سے اس طرح بهر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بهری ہوئی ہوگی۔ اے ابو حمزہ! جو شخص اس کو پائے اور اسے بهی اسی طرح تسليم کرے جس طرح اس نے محمد و علی کو تسليم کيا ہے اس پر جنت واجب ہے اور جو نہيں تسليم کرے گا یعنی اسلام نہيں قبول کرے گا اس پر یقينا جنت حرام ہے اس کی پناہ گاہ جہنم ہے اور ظالموں کی سب سے بری بازگشت کی جگہ ہے۔ ٣١۵ ۔ “وفی کمال الدّین وتمام النعمة للصدوق ( عليہ الرحمة ) باسنادہ عن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ غيبت نعمانی، ص ٨۶ ۔ (
عبد اللّٰہ بن یعفور قال قال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام من اقرّ بالاٴئمة من آبائی وولدی وجحد المهدیّ من ولدی کان کمن اقرّ بجميع الانبيآء وجحد محمّداً صلّی اللّٰہ عليہ وآلہ نبوّتہ ، فقلت یا سيّدی ومن المهدی من ولدک ؟ قال الخامس من ولد السّابع یغيب عنکم شخصہ ولا یحلّ لکم ) تسميتہ ” ( ١ علامہٴ جليل القدر شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے کمال الدین و تمام النعمة ميں اپنی سند کے ساته عبد الله ابن یعفور سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: جس شخص نے ميرے آبائے کرام اور ميری اولاد ميں سے تمام ائمہٴ کا اقرار کيا مگری ميری اولاد ميں سے جو مہدی ہوں گے ان کا انکار کيا تو وہ ایسا ہی ہے جيسے کسی نے تمام انبياء کا اقرار کيا ليکن حضرت محمد کی نبوت سے انکار کردیا۔ تو ميں نے عرض کيا: اے ميرے آقا و مولا! آپ کی اولاد ميں سے مہدی - کون ہوگا؟ فرمایا: ساتویں امام کا پانچواں فرزند جن کے ليے جسمانی غيبت ہوگی اور ان کا نام لينا تمہارے ليے جائز نہيں ہوگا۔ ٣١۶ ۔ “ وفی السّفينة نقلاً عن الخصال عن علیّ بن ابی طالب عليہ السلام قال سمعت رسول اللّٰہ (ص) یقول انّ امة موسیٰ عليہ السلام افترقت بعدہ علیٰ احدیٰ وسبعين فرقة ، فرقة ممنها ناجية وسبعون فی النّار ، وافترقت امّة عيسیٰ عليہ السلام بعدہ علیٰ اثنتين و سبعين فرقة ، فرقة منها ناجية واحدی وسبعون فی النّار و انّ امّتی ستفترق بعدی علی ثلثةٍ و ) سبعين فرقة ، فرقة ناجية واثنتان و سبعون فی النّار ” ( ٢ شيخ عباس قمی نے سفينة البحار ميں خصال صدوق عليہ الرحمہ سے تحریر کيا ہے کہ انہوں نے علی ابن ابی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ٣٣٢ ۔ کشف الغمہ، ج ٣، ص ٢٣٠ ۔ ( ٢(۔ خصال، ص ۵٨۵ ۔ بحار الانوار، ج ٢٨ ، ص ٣۴ ۔ مستدرک سفينة البحار، ج ٨، ص ١٩٠ ۔ (
طالب - سے نقل کيا ہے کہ حضرت نے فرمایا: ميں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : حضرت موسیٰ - کی امت ان کے بعد اکهتر فرقوں ميں تقسيم ہوئی ان ميں سے ایک فرقہ نجات پانے والا ہے اور ستّرفرقے جہنمی تهے حضرت عيسیٰ کے بعد ان کی امت بہتّر فرقوں ميں بٹ گئی ان ميں سے صرف ایک فرقہ نجات پانے والا ہے اور اکهتر فرقے جہنمی تهے اور یقينا عنقریب ميری امت تہتّر فرقوں ميں تقسيم ہو جائے گی ان ميں سے صرف ایک فرقہ نجات یافتہ ہوگا اور بہتّر فرقے جہنمی ہوں گے۔ ٣١٧ ۔ “وفی کتاب سليم بن قيس الکوفی عن ابان بن ابی عيّاش قال قال سليم و سمعت علیّ بن ابی طالب عليہ السلام یقول انّ الامّة ستفترق علی ثلاث وسبعين فرقة ، اثنتان وسبعون فرقةً فی النّار وفرقة فی الجنة وثلاث عشرة من الثلاث عشرة فرقة من الثلاث والسبعين تنتحل محبتنا اهل البيت واحدة منها فی الجنّة و اثنتا عشرة فی النّار و اما الفرقة الناجية المهدیة الموٴمنةُ المسلمة الموفقة المرشدة فهی الموٴمنة بی ، المسلّمة لاٴمری ، المطيعة لی ، المتبرّئة من عدوّی ، المحبة لی ، المبغضة لعدی ، الّتی قد عرفت حقّی وامامتی وفرض طاعتی من کتاب اللّٰہ وسنة نبيّہ ولم ترتد ولم تشک لما قد اقرّ اللّٰہ فی قلبها من معرفة حقنا وعرّفها من فضلها والهمها واخذ بنواصيها فادخلها فی شيعتنا حتی اطماٴنت قلوبها واستيقنت یقيناً لا یخالطہ شک انّی انا واوصيائی بعدی الی یوم القيٰمة هداة مهدیّون الذین قرَّبهم اللّٰہ بنفسہ وبيّنہ فی آیات من کتاب اللّٰہ کثيرة وطهّرنا وعصمنا وجعلنا شهدآء علیٰ خلقہ وحجّتة فی ارضہ وخزّانہ علی علمہ ومعادن حکمہ وتراجمةِ وحيہ وجعلنا مع القرآن والقرآن معنا لا نفارقہ ولا یفارقنا حتّیٰ نرد علیٰ رسول اللّٰہ (ص) حوضہ ، کما قال - صلوات اللّٰہ وسلامہ عليہ - وتلک الفرقة الواحدة من الثلاث والسبعين فرقة هی النّاجية من النّار ومن جميع الفتن والضّلالات ) والشُّبهات هم من اهل الجنة حقاً الحدیث ” ( ١ کتاب سليم ابن قيس کوفی ميں ابان ابن ابی عياش سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: سليم ناقل ہيں: ميں نے حضرت علی بن ابی طالب - کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: یقينا عنقریب امت محمدی تہتّر فرقوں ميں تقسيم ہوجائے گی ان ميں سے صرف ایک فرقہ بہشت ميں ہوگا اور بہتّر فرقے جہنمی ہوں گے اور تہتّر فرقوں ميں سے تيرہ فرقے ميری محبت کا دعویٰ کریں گے اور خود کو ہم اہل بيت سے منسوب جانيں گے ليکن ان ميں سے ایک جنتی ہوگا اور دوسرے بارہ فرقے جہنمی ہوں گے۔ ليکن وہ فرقہٴ ناجيہ جو ہدایت یافتہ با ایمان و اسلام ، کامياب اور رشد یافتہ ہو گا تو یہ وہ افراد ہوں گے جو مجه پر ایمان لائے اور ميرے فرمان اور حکم کے فرماں بردار ميرے دشمنوں سے بيزار اور دور ہيں۔ ميرے دوستوں کے دوست اور ميرے دشمنوں کے دشمن ہيں یہ وہ افراد ہوں گے جنہوں نے ہمارے حق اور امامت کی معرفت حاصل کی اور ہماری اطاعت کو کتاب خدا اور سنت پيغمبر سے پہچانا کوئی شک و شبہ (ان کے اعتقاد ميں نہيں پایا جاتا) کيوں کہ الله تعالیٰ نے ان کے دلوں ميں اپنا نور اور ہماری کما حقہ معرفت کا بيج ڈالا اور انہيں فضيلت معرفت کو پہچنوایا اور انہيں الہام کيا ان کی دست گيری کرکے انہيں شيعوں کے زمرے ميں داخل کيا یہاں تک کہ انہيں اطمينان قلب نصيب ہوا اور انہوں نے ایسا یقين حاصل کيا کہ جس ميں شک و شبہ کا شائبہ تک نہيں ہوسکتا اور وہ ميں ہوں (نبی اکرم کا وصی) یقينا ميں اور ميرے بعد ميرے اوصياء صبح قيامت تک ہدایت شدہ اور ہایت یافتہ ہيں کہ جن (ہستيوں) کو الله تعالیٰ نے خود سے اپنے رسول سے نزدیک قرار دیا اور انہيں قرآن مجيد کی بہت سی آیات ميں تمام قسم کی آلودگی سے پاک و پاکيزہ معصوم قرار دیا اور ہميں اپنی مخلوق پر شہداء قرار دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کتاب سليم ابن قيس، ص ١۶٩ ۔ بحار الانوار، ج ٢٨ ، ص ١۴ ۔ (
روئے زمين پر اپنی حجّت، مخزن علم، معدن حکم اور اپنی وحی کے کی طرف رجوع کرنے والوں کی جگہ قرار دی ہميں قرآن کے ساته اور قرآن کو ہمارے ساته قرار دیا کہ نہ ہم قرآن سے جدا ہوں گے اور نہ ہی قرآن ہم سے عليحدہ ہوگا یہاں تک کہ حوض کوثر پر رسول خدا (ص) کے پاس وارد ہوں گے جيسا کہ خود آنحضرت (ص) نے فرمایا: “ لن یفترقا حتی یردا علی الحوض ” اور ان تہتّر فرقوں ميں سے صرف ایک آتش جہنم سے نجات یافتہ ہوگا اور تمام فتنوں ، گمراہيوں اور شبہات سے بهی نجات پاچکے ہيں حقيقت ميں وہی لوگ اہل بہشت ہيں۔ حدیث کے آخر تک۔ اللهم اجعلنا وجميع الموٴمنين من الفرقة الناجية التی نوّر اللّٰہ قلوبهم بنور معرفة اوليائہ ائمة الهدی واهل بيتهم واخذ بنواصيهم وادخلهم فی زمرة شيعة علی بن ابی طالب واولادہ الطاہرین وحشرنا معهم فی الدنيا والآخرة انشاء اللّٰہ ۔ اے خدا! ہميں اور تمام مومنين کو فرقہٴ ناجيہ ميں قرار دے کہ جن کے قلوب کو اپنے اولياء و ائمہٴ ہدی اور ان کے اہل بيت کے نور کی معرفت سے روشن و منور فرمایا اور ان کو حضرت علی ابن ابی طالب اور ان کی اولاد طاہرین کے شيعوں کے زمرہ ميں داخل فرما اور ہميں ان کے ساته دنيا و آخرت ميں محشور فرما۔ انشاء الله۔
١٢۔ الٰہی و آسمانی ہدیہ ١٢ ۔ القُرآنُ اَعطاہُ اللّٰہُ النّبیَ (ص) فی قِبالِ جَميعِ ما اَعطاہُ اَهْلَ الدُّنْيا ۔ قرآن کو الله تعالیٰ نے نبی اکرم (ص) کو ان تمام چيزوں کے مقابلے ميں عطا کيا جو تمام اہل دنيا کو عطا کيا یعنی الله تعالیٰ نے اہل دنيا کو جو کچه مال و منال عطا کيا اور جن چيزوں پر آفتاب کی روشنی پڑتی ہے وہ ایک طرف اور قرآن مجيد جو پيغمبر اکرم (ص) کو عطا کيا گيا وہ ایک طرف، دنيا اور جو کچه اس ميں ہے اس گراں بہا گوہر کے مقابلے ميں کوئی ارزش نہيں رکهتی۔ ) قال الله تبارک و تعالیٰ: ( ١ الله تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: اور ہم نے آپ کو سبع مثانی (سورئہ حمد) اور قرآن عظيم عطا کيا ہے۔ ٣١٨ ۔ “ وَفی التہذیب باسنادہ عن محمّد بن مسلم قالَ سَاٴلتُ اَبا عبد اللّٰہ عليہ السلام عَنِ السَّبعِْ المَْثانی وَالقُْرآنِ العَْظيم هِیَ فاتِحَةُ الکِْتاب ؟ قالَ نَعَم قُلتُْ بِسم اللہّٰ الرَْحمنِ الرَْحيم ) مِنَ السَْبعِْ ؟ قالَ نَعَم هِیَ اَفضَْلُهُنَّ ” ( ٢ تہذیب ميں بطور مسند محمد ابن مسلم سے روایت نقل کی گئی ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے امام جعفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صادق - سے سبع مثانی اور قرآن عظيم جو فاتحة الکتاب (سورئہ حمد ) ہے اس کے متعلق دریافت کيا؟ فرمایا: ہاں، ميں نے عرض کيا:“بسم اللّٰہ الرحمن الرحيم ” بهی سبع (سات) ميں سے ہے؟ فرمایا: ہاں وہ ان آیات ميں افضل ہے ۔ یہی معنی شيعہ روایت ميں حضرت امير المومنين - اور اکثر ائمہٴ اہل بيت سے بيان کيا گيا ہے اور اہل سنت کی روایت ميں بهی حضرت علی - اور بعض اصحاب جيسے عمر ابن خطاب ، عبد الله ابن مسعود، ابن عباس، ابی ) ابن کعب اور ابو ہریرہ وغيرہ سے نقل ہوا ہے۔( ١ مولف کہتے ہيں: مفسرین کے درميان مشہور ہے کہ سبع ثانی سورئہ فاتحة الکتاب ہے۔ ٣١٩ ۔ “ وَعَن البحار : عن ابی جعفر عليہ السلام : قالَ نَحْنُ الْمَثانی اَلّتی اَعْطاها اللُّٰہ نَبيِّنا وَنَحنُْ وَجہُ اللہِّٰ نَتَقَلّبُ فی الارضِْ بَينَْ اَظهَْرِکُم عَرَفنْا مَن عَرَفنْا وَجِهلَْنَا مَن جَهِلَنا مَن عَرَفنْا فَاٴمَامُہُ ) اليَقينُ وَمَن جَهِلَنا فَامَامُہُ السَّعيرُ” ( ٢ بحار الانوار ميں امام محمد باقر - سے منقول ہے کہ حضرت - نے فرمایا: ہم وہ مثانی (دوبار نازل ہونے والی سورت حمد) ہيں جو الله نے اپنے نبی کو عطا کی اور ہم وجہ الله (یعنی جن کی طرف توجہ کی جاتی ہے) ہيں ہم تمہارے روبرو روئے زمين پر آمد و رفت رکهتے ہيں جو ہميں پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو ہم کونہيں جانتا نہيں جانتا اور جس نے ہماری معرفت حاصل کرلی اس کے سامنے یقين کی منزل ہے اور جو شخص ہماری معرفت سے جاہل ہو اس کے سامنے جہنم ہے۔ ٣٢٠ ۔ “فی الوسائل : سَبعُْ خِصالٍ اَعطَْی اللہّٰ نَبيَّہُ (ص) مِن بَينِْ النَبيِينَ وَهِیَ فاتِحَةُ الکِتابِ وَ الاذانُ وَالاقامَةُ وَالجَماعَةُ فی المَسجِْد وَیَومُْ الجُْمَعَةُ وَالاجِهارُ فی ثَلاثِ صَلواتٍ وَالرَخصُْ لامَتِہِ عِندَ المَرَضِ والسَّْفَرِ والصَلاة عَلَی الجنائِز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ علامہ طباطبائی نے بهی تفسير الميزان، ج ١٢ ، ص ٢٠٨ ميں ذکر کيا ہے۔ ( ٢(۔ بحار الانوار، ج ٢۴ ، ص ١١۴ ۔ (
) وَالشَْفاعَةُ لاصحْابِ الکبائِرِ مِن اُمَتِہِ ” ( ١ وسائل الشيعہ ميں منقول ہے کہ سات خصلتيں الله تعالیٰ نے تمام انبياء کے درميان اپنے نبی اکرم کو عطا فرمائی ہيں اور وہ یہ ہےں: سورئہ حمد، اذان، اقامت، مسجد ميںنماز جماعت ، روز جمعہ، تين نمازیں بلند آواز سے پڑهنا (نماز مغرب و عشاء کی ابتدائی دو رکعتيں اور نماز صبح) حالت مرض، سفر ميں اپنی امت پر نماز پڑهنا نماز جنازہ پڑهنا اور اس کی امت کے گناہان کبيرہ والے افراد کی شفاعت ميں رخصت عطا کی ہے۔ حضرت قائم آل محمد صلوات الله عليہ وآلہ کا مقدس وجود تمام قرآن مجيد کے علوم کا حامل ہے اور تمام انبياء اور ائمہ ہدی کے علوم کے وارث ہيں اور جو کچه ہوچکا اور ہو رہا ہے اور ہونے والا ہے اس کا بهی علم اس عظيم ہستی کے پاس ہے۔ ان کے علاوہ الٰہی وعدے جو قرآن مجيد ميں مقدس دین اسلام کی تمام ادیان پر کاميابی کی بشارت دے رہے ہيں انہيں حضرت کے قدرت مند ہاتهوں کی برکت سے محقق ہوں گے۔ کفر و شرک و نفاق کی جڑ اس امام منتطر - کی شمشير براں سے قطع ہوگی اور ہر قسم کے ظلم و جور منکرات اور بے عدالتی اپنا رخت سفر بانده کر رخصت ہوجائے گی اور عدالت و انصاف پسندی ان کی حيات طيبہ ميں اس کی قائم مقام ہوگی انشاء الله۔ قال تبارک و تعالیٰ: ( ٢ الله تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: وہ خدا وہ ہے کہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساته بهيجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنائے چاہے مشرکين کو کتنا ہی ناگوار کيوں نہ ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ وسائل الشيعہ، ج ۵، ص ٢٧٧ ۔ بحار الانوار، ج ٨١ ، ص ١١۶ ۔ ( ٢(۔ سورئہ توبہ، آیت ٣٣ ، سورئہ صف، آیت ٩۔ (
) ٣٢١ ۔ “ وَفی تَفسْير القُمی اِنَّها نَزَلَت فی القائِمِ مِن آلِ مُحَمَد (ص)” ( ١ تفسير قمی ميں نقل ہوا ہے کہ یہ مذکورہ آیہٴ کریمہ قائم آل محمد کے حق ميں نازل ہوئی ہے۔ ٣٢٢ ۔ “وفی تفسير البرهان عن الصدوق عليہ الرحمة باسنادہ عَنْ ابی بَصيرْ قالَ: قالَ اَبُو عَبدِ اللہّٰ عليہ السلام فی قَولِْہِ عَزَوَجَلّ الآیَہَ وَاللّٰہُ ما نَزَلَ تَاویلُها حَتّی یَخْرَجُ الْقائِمُ عليہ السلام ، فَاذا خَرَج القائمُ عليہ السلام لَمْ یَبقَ کافِرٌ بِاللّٰہِ وَلا مُشرِْکٌ بِالامامِ الّاکَرِہَ خُروجَہُ حَتی لَو کانَ الکافِرُ فی بَطنِْ صَخرَْةٍ قالَت یا مُوٴمِن فی بَطنی کافِرٌ ) فَاکسِرنْی وَاقتُْلُہُ” ( ٢ تفسير برہان ميں شيخ صدوق عليہ الرحمہ سے بطور مسند ابو بصير سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: امام جعفر صادق - نے فرمایا: خدائے بزرگ و برتر کا قول جس ميں فرماتا ہے “وہ وہی ہے کہ جس نے اپنے رسول محمد (ص) کو بهيجا ہدایت اور دین حق کے ساته” آیت کے آخر تک: خدا کی قسم! ابهی اس کی تفسير اور تاویل نازل نہيںہوئی ہے اور نہ نازل ہوگی مگر یہ کہ جب قائم آل محمد قيام و ظہور کریں گے تو ہر کافر اور مشرک کو آپ کا خروج و ظہور ناپسند و ناگوار ہوگا۔ اس ليے کہ کوئی کافر و مشرک پتهر کی چڻان ميں بهی گهس کر بيڻه جائے تو چڻان خود آواز دے گی کہ اے مردِ مومن! ميرے بطن ميں کافر یا مشرک پوشيدہ بيڻها ہوا ہے،لہٰذا، مجهے توڑ دو اور اس کو قتل کردو۔ ٣٢٣ ۔ “وَفی الدر المُنْثور اخرج سعيد بن منصور وابن المنذر والبيہقی فی سننہ عن جابر فی قولہ آیة قالَ لا یَکونُ ذِلکَ حَتی لا یَبْقی یَهودیٌ وَلا نَصرانیٌ صاحِبُ مِلَةٍ الاسلْامِ حتَی تاٴمَنُ نَشاْةُ الذِئبَ ، وَالبَْقَرَةُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير قمی، ج ١، ص ١۴ ۔ معجم احادیث الامام المہدی -، ج ۵، ص ٣٢ ۔ ( ٢(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۶٧٠ ۔ معجم احادیث الامام المہدی -، ج ۵، ص ١۴۵ ۔ (
الاسَدَ وَالانسْانُ الحَيَةَ حَتی لا تَفرُْضُ فاٴرةٌ جِراباً وَ حَتی یَوضَعُ الجَزیَْةُ وَیُکسَْرُ الصَليبُ وَیُقتَْلُ الخِنزْیرُ ) وَ ذلکَ اذا نَزَلَ عيسی بنُ مَرْیَمَ عليہ السلام ” ( ١ سيوطی نے اپنی تفسير الدر المنثور ميں نقل کيا ہے کہ سعيد ابن منصور، ابن منذر اور بيہقی اپنی سنن ميں جابر سے اس آیت کے ذیل ميں نقل کيا ہے یہ معنی یعنی دین اسلام کا تمام ادیان پر غالب ہونا محقق نہيں ہوگا جب تک کہ کوئی یہودی، کوئی نصرانی، یا کوئی اور مذہب والا ایسا شخص باقی نہيں رہے گا جو دین اسلام ميں داخل نہ ہوجائے بلکہ بهيڑ اور بهيڑیا، بيل اور شير انسان اور سانپ ایک دوسری کے ساته امن و سکون سے زندگی بسر کریں گے یہاں تک کہ چوہا بهی چمڑے کے تهيلے ميں سوراخ نہيں کرے گا اور بهی ختم ہوجائے گا، صليب توڑ دی جائے گی، تمام سور قتل کردی جائے گی اور یہ (Tex) جزیہ سب کچه اس وقت محقق ہوگا جب عيسیٰ ابن مریم - نازل ہوں گے۔ مولف کہتے ہيں: حضرت عيسی - کا نزول حضرت قائم آل محمد کے بابرکت ظہور کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ حضرت عيسی - نازل ہوکر حضرت قائم آل محمد کی اقتدا کرکے ان کے پيچهے نماز پڑهيں گے انشاء الله تعالیٰ۔ خلاصہ یہ کہ زمين کا کفر و شرک سے پاک ہونا، ظلم و ستم اور ائمہٴ اطہار اور ان کے اجداد طاہرین کے غصب شدہ حقوق کو مکمل طورپر اخذ کرنا، اور جو روئے زمين پر ناحق خون بہائے گئے ہيں حق کا ظہور، حق و باطل کے درميان جدائی کافروں کا قتل یہاں تک کہ آپ کی شمشير برّاں سے شيطان رجيم کا قتل حضرت کے مبارک ہاتهوں انجام پائے گا اور دنيا اور اس کے درميان رہنے والوں ميں ایک تازہ روح پهونکی جائے گی۔ لوگوں کی عقليں اس عالمی مصلح کے دستِ مبارک کی برکت سے کامل ہوجائےں گی اور ایک پاک و صاف فضا کائنات ميں ایجاد ہوگی کہ گویا کائنات بہشت بریں ہوگئی ہے، اور قابل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الدر المنثور، ج ٣، ص ٢٣١ ۔ معجم احادیث الامام المہدی -، ج ۵، ص ١۴٩ ۔ (
توجہ یہ ہے کہ یہ قدرت اور عالمی قوت اس عظيم ہستی کے علاوہ کسی اور کو نہيں عطا کی گئی ہے۔ اللهُمَّ عَجّل فَرَجَہُ وَسَهِّل مَخرَْجَہُ وَبَلِّغہُْ اَفضَْلَ ما امَّلَہُ وَاجعَْلنا مِن اَعوانِہ وَاَنصْارِہِ وَشيعتِہِ وَالراضينَ بِفَعلِْہ وَمُمتثلينَ لا وامِرِہ وَالمُستَْشهِْدینَ بَينَْ یَدَیہِ بِمُحَمَدٍ وَآلہ الطَيِبينَ الطاہریين سَلامُ اللہّٰ وَ صَلَواتُہُ عَلَيہِْمُ اَجمَْعينُ آمينَ ربَّ العالَمين ۔ خدایا! ان کے ظہور ميں تعجيل فرما ان کی گشائش کو آسان فرما اور ان کی بہترین آرزو انہيں نصيب ہو اور ہميں ان کے اعوان و انصار اور ان کے شيعوں ميں قرار دے نيز ان لوگوں ميں قرار دے جو ان کے فعل سے راضی رہنے والے اور ان کے فرامين کی اطاعت کرنے والے ہيں نيز ان کے ساته درجہٴ شہادت پر فائز ہونے والوں ميں قرار دے۔