مقدمہ
اس کتاب کی تحریر کامقصد
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد امت کی قیادت ورہبری کامسئلہ اسلام کے ان اہم مسائل میں سے ہے جس کی تحقیق ہر طرح کے تعصب وغرض و مرض سے دور پر سکون ماحول میں کی جانی چاہئے۔
سب سے پہلا مسئلہ جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد زبانوںپر آیا اور بحث کا موضوع بنا اور آج بھی اس پر بحث وتحقیق جاری ہے وہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی سیاسی وسماجی قیادت ورہبری کا مسئلہ تھا کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ھر جھت سے مسلمانوں کے س رپرست ورہبر تھے ۔ قرآن کی متعدد آیتیں آنحضرت کی وسیع قیادت ورہبری کی گواہی دیتی ہیں جن میں سے بعض آیتیں ہم یہاں ذکر کرتے ہیں :
۱۔(
اطیعواالله واطیعواالرسول واولی الامر منکم
)
اللہ ،رسول اور اپنے حاکموںکی اطاعت کرو
۲۔(
النبی اولیٰ بالمومنین من انفسهم
)
پیغمبر مومنوں (کی جان ومال )پر ان سے زیادہ سزاوار ہے۔
اس وسیع وعریض قیادت ورہبری کاایک پہلو اسلامی سماج میں عدالت قائم کرنا ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلممدینہ میں اپنے قیام کے دوران خود یامدینہ سے باہر دوسروں کے ذریعہ سماج میں عدالت برقرار کرتے تھے ۔قرآن مسلمانوں کو حکم دیتاہے کہ اپنے معاملات اور اختلافات میں
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلوں کو بے چون وچرا تسلیم کریں:
(
فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینهم ثم لایجدوا فی انفسهم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما
)
تمھارے پروردگار کی قسم وہ لوگ ہرگز مومن واقعی شمار نہیں ہوں گے جب تک وہ اپنے اختلاف میں تمھیں حَکَم اور قاضی قرار نہ دیں اوراس پر ذرا بھی ملول نہ ہوں اور تمھارے فیصلہ پر مکمل تسلیم ہوں
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی سماجی رہبری کاایک پہلو اسلام کے مالی واقتصادی امور کاادارہ کرناہے کہ ٓانحضرت اپنی حیات میں ان کاموںکوانجام دیتے تھے۔قرآن مجید نے ان الفاظ میں آپ کوخطاب کیاہے:
(
خذ من اموالهم صدقة تطهرهم وتزکیهم بها
)
( ۴)
ان کے اموال میں سے زکوات لو اور اس طرح انھیں پاک کرو۔
دوسری آیات میں زکات اور ٹیکس کی مقدار اور ان کے مصارف کا بھی پوری باریکی کے ساتھ ذکر کیا گیاہے۔
ان آیات کے معانی،ان کی وضاحت کرنے والی روایات اور خود آنحضرت کاطرز عمل یہ بتاتاہے کہ آنحضرت مسلمانوں کے سرپرست ،سماج کے حاکم ،اور ملت وامت کے فرمانروا تھے۔اور جو سماج کامطلق العنان حاکم انجام دیتا ہے وہ انجام دیتے تھے ۔ فرق یہ تھا کہ یہ سرپرستی اور حکومت لطف الٰہی کی شکل میں خدا کی طرف سے آپ کو عطا ہوئی تھی۔لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس منصب کے لئے منتخب نہیں کیاتھا۔نقطہ حساس یہ ہے کہ ہم یہ جانیںکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی رحلت کے بعد امت کی باگڈور اور سرپرستی کس کے ذمہ ہے اور اسلامی سماج کی اجتماعی وسیاسی قیادت کس کے ہاتھ میں ہونی چاہئے جو سماج کو ہرج ومرج ،فساد اور پسماندگی سے محفوظ رکھے؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام جیسے عالمی وجاودانی دستور میں اس امر کو فراموش نہیں کیاگیا ہے اور اس کے لئے ایک بنیادی منصوبہ پیش کیاہے اور وہ ہے ”اولی الامر“کی پیروی واطاعت جو ہم پر واجب کی گئی ہے اور اس سلسلہ میں کوئی بحث نہیں ہے۔پس یہاں جو نکتھ قابل بحث ہے یہ ہے کہ جن حکام کی اطاعت واجب کی گئی ہے مسلمان ان کی شخصیت کو پہچانیں تاکہ خوب اطاعت کریں۔
مسلمانوںکا ایک گروہ یہ کھتاہے کہ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خداوند عالم کے حکم سے اسلامی سماج کے سیاسی واجتماعی امور کو ادارہ کرنے کے لئے اپنے بعد حاکم ےا حکام معین کئے ہیں ۔اس گروہ کے مقابل ایک دوسرا گروہ ہے جو یہ کھتا ہے کہ خداوند عالم نے لوگوں کو یہ اختیار دیاہے کہ
پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعداپنے لئے حکام کاانتخاب کریں۔شیعہ پہلے نظریہ کے اوراہل سنت دوسرے نظریہ کے طرفدار ہیں۔
اگر مسلمانوں کی امامت وپیشوائی کامسئلہ اسی حد میں ہو کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم(کی رحلت کے بعد اسلام کے اس سیاسی واجتماعی منصب پر کون فائز ہوا،اس شخص کی تعیین کس شکل میں ہوئی پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس منصب پر کسی کو معین کیا یاکوئی شخص عوام کی جانب سے اس منصب کے لئے منتخب ہوا ،تو یہ بحث صرف ایک تاریخی پہلو کی حامل ہوگی اور چودہ صدیوں کے بعد آج کی نسل کے لئے کوئی خاص سازگار اور مفید نہیں ہوگی۔(اگر چہ ان افراد کی شناخت بھی اس عھد کے لوگوں کے لئے ضروری اور اہم شمار ہوتی تھی)لیکن اگر بحث کی شکل تبدیل ہو اور یہ کھا جائے کہ بحث کا موضوع پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد اسلامی سماج کی صرف سیاسی و اجتماعی قیادت ہی نہیں ہے بلکہ پیغمبر اکر م (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اس منصب کے علاوہ ”دین کے اصول و فروع میں بھی مرجعیت ورہبری کا منصب رکھتے تھے ۔تو اب سوال یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد اس پہلو کی قیادت کس کے ذمہ ہے؟ اور کیسے اشخاص کو حلال و حرام اور امر و نھی کا منصب دار ہونا چاہئے تا کہ اسلامی حقائق کے سلسلہ میں ان کے اقوال اور نظریات صبح قیامت تک انسانوں کے لئے حجت ہوں؟اس صورت میں امام کی شناخت اور دینی امامت و پیشوائی کے سلسلہ میں بحث ہر مسلمان کی زندگی کا حصہ قرار پاتی ہے اور کوئی شخص بھی اس معرفت سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ۔اب اس مطلب کی و ضاحت پر توجہ دیں:
اسلامی معارف و احکام میں قیادت و مرجعیت:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی قیادت و رہبری صرف سیاسی و سماجی امور میں نہیں تھی بلکہ آپ قرآنی آیات کے مطابق اس الٰہی کتاب کے معلم ۱ ، قرآن کے مشکل مطالب کی تبیین و وضاحت کرنے والے ۲ ،اور الٰہی احکام و سنن کو بیان کرنے والے تھے ۳ ۔اس اعتبار
۱۔(
یعلمهم الکتاب والحکمة
)
۲۔(
و انزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما انزل الیهم
)
۳۔(
وما آتاکم الرسول فخذوه و مانهاکم عنه فانتهوا
)
(حشر/۷)
سے پورے اسلامی معاشرہ کا اس پر اتفاق ہے اور قرآنی نصوص بھی گواہی دیتی ہیں کہ اسلام کی اعلیٰ تعلیمات اور بندوں کے فرائض میں آنحضرت کا قول و عمل لوگوں کے لئے سند اور حجت ہے۔
اس کتاب کے چوتھے حصہ میںواضح طور سے بیان کیا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے ساتھ لوگوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت پوری نہیں ہوئی تھی اور ابھی اسلام کی علمی و عملی تحریک اپنے کمال کو نہیں پھنچی تھی کہ پھر سماج کو معصوم رہبروں کی ضرورت نہ رہے۔لھٰذا ضروری ہے کہ رسول خدا کی رحلت کے بعد کوئی شخص یا جماعت اسلام کے احکام اور اس کے علمی ،فکری وتربیتی اصول کی رہبری و مرجعیت کا عھدہ اس روز تک سنبھالے جب تک اسلام کا یہ انقلاب پوری طرح سے بارور ہوجائے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس منصب و مقام کے لئے کون سے افراد شائستہ ہیں تا کہ اسلامی معاشرہ ہر عھد اور ہر زمانہ میں ان کے افکار و کردار و گفتار سے فائدہ اٹھائے۔اور ان کی ہدایات و رہنمائی میں حلال خدا کو حرام سے اور واجبات کو محرمات سے تشخیص دے سکے ۔نتیجہ میں اپنے دینی فرائض پر عمل کرسکے ۔اس گروہ کی شناخت اور ان کی تعلیمات و ہدایات سے آگاہی حاصل کرنا ہر مسلمان پر لازم و ضروری ہے۔ اس کتاب میں اسی بات کی کوشش کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرم کے شائستہ اور سچے جانشینوں کا تعارف کرایا جاسکے۔
ظاہر ہے کہ (پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد امت کی رہبری )کی بحث کو پیش کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ موجودہ حساس حالات میں مذہبی اختلافات کو بھڑ کایا جائے یا تعصب آمیز اور بے ثمر و غیر مفید بحث کو جاری رکھا جائے۔ کیونکہ ان حساس اور نازک حالات میں نہ صرف حالات کو پھیلنے سے روکا جانا ضروری ہے بلکہ انھیں کم سے کم کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اور در حقیقت انسان کی عمر اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہے کہ تعصب آمیز بحث چھیڑی جائے اور اپنی اور دوسروں کی عمر تباہ کی جائے۔بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہر طرح کے تعصب و کینہ سے دور رہ کر ایک اہم اور اساسی مسئلہ کو واضح کرنے کے لئے حقائق کی بنیاد پر اس کی محققانہ اور منطقی تحقیق کی جائے۔تا کہ اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان مزید قربت اور تفاہم پیدا ہو اور وہ زھر افشانیاں ختم ہوجائیں جو ہمارے دانا دشمن اور نادان دوست اس سلسلہ میں کیا کرتے ہیں۔امت کی رہبری سے مربوط بحثوں میں دو بنیادی اصل ہمارے پیش نظر ہیں :
۱۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جانشینی جیسے اہم مسئلہ میں حقائق و واقعیات کو پہچانا جائے۔
۲۔مسلمانوں کے درمیان مفاہمت اور قربت پیدا کرنے میں مدد کی جائے اور ان عوامل و اسباب کو بر طرف کیا جائے جو سوء ظن کا باعث ہوتے ہیں اور جن سے دشمن فائدہ اٹھا کر ہم میں اختلاف پیدا کرتا ہے۔
اس کتاب کے مطالب چند برس پہلے تھران میں یونیورسٹی کے طلبہ کے لئے (حسینیہ بنی فاطمہ(ۡع)) میں درس کے طور پر بیان کے گئے تھے جو کافی حد تک لوگوں کو مکتب اہل بیت(ۡع)سے آشنا کرنے اور آنحضرت کے شائستہ جانشینوں کی معرفت کا باعث ہوئے تھے۔جنھیں شائقین کے اصرار پر کتابی شکل میں شائع کیا جارہاہے یہ کتاب اس بحث کا پہلا حصہ ہے جو ۲۴چوبیس فصلوں پر مشتمل ہے ۔انشاءاللہ دوسرا حصہ بھی جلد شائع ہوگا۔
وماتوفیقی الا بالله علیه توکلت والیه انیب
جعفر سبحانی
حوزہ علمیہ قم المقدسہ
اسلامی جمھوریہ ایران