سولھویں فصل
پیغمبر کے صحابی ، گناہ و خطا سے معصوم نھیں
شاید مھاجرین و انصارکے ایک گروہ پرہماری تنقید سُنی برادری کے بعض افراد کیلئے تعجب کا سبب بنے اور یہ سوچیں کہ یہ کیسے ممکن ہے ان حضرات کے قول و فعل کی عیب جوئی کرکے ان کو خطاکار قرار دیاجائے جبکہ قرآن مجید نے دو موقعوں پر ان کی ستائش کی ہے :
(
وَالَسَّابِقُونَ الاوَّلُونَ مِنَ المُهٰاجِرِینَ وَ الْانْصَارِ وَ الَّذِینَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَٰنٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْه وَ اعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَهَا الانْهَارُ خٰلِدِینَ فِیهٰآ ابَداً ذٰلِکَ الْفَوزُ الْعَظِیمُ
)
” اور مھاجرین و انصار میں سے سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ہے ، ان سب سے خدا راضی ہوگیا ہے اور یہ سب خدا سے راضی ہیں اور خدا نے ان کےلئے وہ باغات مھیّا کئے ہیں جن کے نیچے نھریں جاری ہیں اور یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے“
۲۔ ایک دوسر ے سورہ میں ان افراد کے بارے میں ، جنھوں نے سرزمین ” حدیبیہ پر ایک درخت کے سایہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیعت کی تھی ، یوں فرمایا ہے :
(لَقَدْ رَضِیَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبٰایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِهِمْ فَانْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْهِمْ وَ اثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِیباً
)
” یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکہ لیا جو ان کے دلوں میں تھا تو ان سب پر سکون نازل کردیا اور انھیں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی“
خلاصہ : پہلی آیہ کریمہ میں خدائے تعالیٰ مھاجرین و انصار میں سے ان افراد کی ستائش کرتا ہے جو دوسرے لوگوں سے پہلے اسلام لائے اس کے بعد ان افراد کی بھی تعریف کرتا ہے جنھوں نے ان میں سے کسی ایک کی پیروی کی ہو۔
دوسری آیہ شریفہ میں ، خداوند کریم ان افراد کے بارے میں رضا مندی اور خوشنودی کا اظھار کرکے انھیں آرام و سکون اور فتح مکہ کی بشارت دیتا ہے ، جنھوں نے ساتویں ہجری کو سرزمین ” حدیبیہ“ پر پیغمبر کی بیعت کی تھی۔
خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس ستائش اور اظھار خوشنودی کے ہوتے ہوئے کس طرح ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد رسول کے اصحاب اپنے فیصلوں میں خطا یا گناہ کے مرتکب ہوتے ہوں ؟!
مذکورہ بالا آیات کے مقاصد کی وضاحت کرنے سے پہلے ایک مطلب کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اہل سنت کے علماء نہ فقط ان دو گروہوں ( مھاجرین و انصار اور تابعین) کو __جن کے بارے میں ان دو آیتوں میں اشارہ ہوا ہے__عادل اور پاک دامن جانتے ہیں بلکہ ان کی اکثریت کا اعتقاد یہ ہے کہ تمام اصحابِ رسول عادل ، منصف ، متقی اورپرہیزگار تھے ۔ مگر یہ کہ کسی ایک کے بارے میں کسی واقعہ میں فسق و انحراف ثابت ہوجائے ۔
مختصر یہ کہ جس کسی نے پیغمبر اسلام کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ہے اسے عادل اورپاک دامن جاننا چاہئے ، مگر یہ کہ اس کے برخلاف کچھ ثابت ہوجائے۔
اس جملہ کا مفھوم یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابیوں جن کی تعدا د ایک لاکہ سے زیادہ ہے ، کے تانے بانے ہی جدا ہیں ، یعنی جوں ہی کوئی فرد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور مشرف ہوتا تھا ، ایک روحانی انقلاب پیدا کرکے اس لمحہ کے بعد اپنی پوری زندگی میں صحیح ، عادل اور پاک دامن ہونے کی سند حاصل کرلیتا تھا۔
صحابیوں کے بارے میں ایسی بات کھنا ، ان میں سے ایک گروہ کی بد کرداری پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے ، کیونکہ ایسے افراد کا ضعیف عمل اور بعض مواقع ، جیسے ، جنگ احد و جنگ حنین میں ان کا فرار کرنا ان کے ایمان میں کمزوری خود رسالت مآب اور آپ کے عالی مقاصد کے تئیں ان کی بے توجھی کی واضح دلیل ہے قارئین کرام جنگ ” احد“ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کی بے وفائی کے بارے میں نازل شدہ آیات کی تحقیق کرکے حقیقت کو بخوبی محسوس کرسکتے ہیں ۔
یہ کس طرح کھا جاسکتا ہے کہ تمام صحابی عادل اورپاک دامن تھے ، جبکہ قرآن مجید ان کے ایک گروہ کے حلقہ منافقین میں ہونے کے بارے میں یوں فرماتا ہے :
(
وَ اِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَ الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللهُ وَ رَسُولُه إلَّا غُرُوراً
)
” اور جب منافقین اور جن کے دلوں میں مرض تھا ، یہ کہہ رہے تھے کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سراسر دھوکہ ہے “
کیا ایسی بات کھنے والوں کو عادل و منصف کھا جاسکتا ہے ؟ جبکہ ایسا کھنے والے کو حقیقی مسلمان بھی نہیں کھا جاسکتا ہے۔
قرآن مجید صحابہ کے ایک گروہ کا تعارف ” سمّاعون“ کی حیثیت سے کراتا ہے ۔
اس لفظ سے مراد و ہ افراد تھے جو منافقین کی باتوں کو فوراً قبول کرلیا کرتے تھے ، فرماتا ہے :
(
لَوْ خَرَجُوا فِیکُمْ مٰا زَادُوکُمْ إِلَّا خَبَالاً وَلاََوْضَعُوا خِلَٰ-لَکُمْ یبْغُونَکُمُ الْفِتْنَةَ وَ فِیکُمْ سَمَّٰعُونَ لَهُمْ وَ اللهُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ
)
اگر یہ ( منافقین ) تمھارے ساتھ نکل بھی پڑتے تو تمھاری وحشت میں اضافہ ہی کرتے اور تمھارے درمیان فتنہ کی تلاش میں گھوڑے دوڈاتے پھرتے اور تم میں ایسے لوگ بھی تھے جو ان کی باتوں کو خوب سننے والے تھے اور الله تو ظالمین کو اچھی طرح جانتا ہے ۔
اس گروہ کے تمام افراد کو کیسے عادل و پاک دامن جانا جاسکتا ہے ،جبکہ خالد بن ولید ( بعض اہل سنت مصنفین کے عقیدہ کے مطابق اس نے پیغمبر سے ” سیف اللہ “ کا لقب حاصل کیا تھا ) فتح مکہ کے سال ایک خطر ناک جرم کا مرتکب ہوا اور قبیلہ ” بنی خزیمہ'' کی ایک جماعت کو ضمانت اور عھد وپیمان کے بعد دھوکہ و فریب سے قتل عام کرڈالا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اس مجرمانہ حرکت کی خبر سنی تو قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے ”استغاثہ'' کی حالت میں فرمایا :
”اللهم انّی ابرءُ الیک ممّا صنع خالد بن ولید
“
خدا ! جو کچھ خالد بن ولید نے انجام دیا ہے ، میں اس سے بیزار ہوں ۔
اس نام نھاد ” سیف اللہ “ کے کارناموں کی سیاہ فائل یہی ں پر بند نہیں ہوتی بلکہ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد مالک بن نویرہ اور اس کے قبیلہ کے ساتھ کئے گئے اس کے بھیمانہ جرائم تاریخ کے صفحات میں ضبط ہوچکے ہیں ۔ اس نے مالک کو__جو ایک مسلمان تھا__قتل کرڈالا اور اس کی بیوی کے ساتھ اسی شب اپنا منہ کالا کیا۔
حق و باطل پہچاننے کا راستہ
اصولی طور پر یہ سب سے بڑی غلطی ہے کہ ہم حق و باطل کو افراد کے ذریعہ پہچانیں اور ان کی رفتار و گفتار کی حقانیت کےلئے ان کی شخصیت کو معیار قرار دیں ، جبکہ ایک شخص کا عقیدہ اور قول و فعل اس کی حقانیت کی علامت ہوتا ہے ، نہ کہ بر عکس۔
” بریٹنڈرسل “ علم ریاضی کا ایک بڑا دانشور ہے اور ریاضیات میں اس کے نظریے نمایاں اور علماء کے لئے قابل قبول ہیں ، لیکن اس کے باوجود وہ ایک ملحد ہے اور خدا و الھی مقدسات کا منکر شمار ہوتا ہے ، وہ اپنی کتاب ” میں کیوں عیسائی نہیں ہوں“ میں خدا پرستوں کے دلائل سے ناواقفیت کے سبب صراحت کے ساتھ لکھتا ہے :
” میں ایک زمانے میں خدا پرست تھا اور اس کی بھترین دلیل ” علة العلل“ جانتا تھا لیکن بعد میں اس عقیدہ سے پھر گیا ۔ کیونکہ میں نے سوچا اگر ہر چیز کےلئے ایک علت اور خالق کی ضرورت ہے تو خدا کےلئے بھی ایک خالق ہونا چاہئے “
کیا عقل ہمیں اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ” رسل“ کی شخصیت کو خدا کے بارے میں اس کے فاسد فلسفی نظریہ__جبکہ کائنات کے تمام ذرات خدا کے وجود کی گواہی دیتے ہیں__ کے صحیح ہونے کی بنیاد قرار دیں ؟ واضح ہے کہ ہمیں اپنے فیصلوں میں افراد کی علمی و سیاسی شخصیت سے متاثر نہیں ہونا چاہئے اور ان کے افکار و اعتقادا اور قول و فعل کو ہر طرح کے حب و بغض سے اوپر اٹھ کر صرف عقل و منطق کے معیار پر تولنا چاہئے۔
یہاں مناسب ہے کہ ہم اس موضوع کے بارے میں امیر المؤمنین علیہ السلام کے پائیدار اور مستحکم نظریہ کی طرف بھی اشارہ کردیں۔
جنگِ جمل میں کچھ لوگ حضرت علی(ع)کے طرفدار اور کچھ لوگ طلحہ، زبیر اور ام المؤمنین عائشہ کے طرفدار تھے ۔ اس حالت میں دو دلی کا شکار ایک آدمی جو حضرت علی(ع)کی عظیم شخصیت سے بھی آگاہ تھا، آگے بڑھا اور بولا :
کیسے ممکن ہے کہ یہ لوگ باطل پر ہوں ، جبکہ ان کے درمیان طلحہ ، زبیر اور ام المؤمنین عائشہ جیسی شخصیتیں موجود ہیں ، کیا یہ کھا جاسکتا ہے کہ ان افراد نے باطل کا راستہ اختیار کیا ہوگا ؟!
امیر المؤمنین(ع)نے اس کے جواب میں ایک ایسی بات بیان فرمائی کہ مصر کا مشھور دانشور ڈاکٹر طہٓ حسین اس کے بارے میں کھتا ہے :
” وحی کا سلسلہ بند ہونے کے بعد انسان کے کانوں نے اب تک ایسی با عظمت بات نہیں سنی ہے “
امام(ع)نے فرمایا:
”انک لملبوس علیک، ان الحق و الباطل لا یعرفان باقدار الرجال ، اعرف الحق تعرف اهله ، اعرف الباطل تعرف اهله
“
یعنی ، تم نے حق و باطل کو پہچاننے کے معیار میں غلطی کی ہے ۔ حق و باطل ہرگز افراد کے ذریعہ نہیں پہچانے جاتے ، بلکہ پہلے حق کو پہچاننا چاہئے پھر اہل حق کو پہچانا جاسکتا ہے ، پہلے باطل کو پہچاننا چاہئے پھر اہل باطل کی تمیز دی جاسکتی ہے ۔
امیر المؤمنین کی یہ عظیم فرمائش __ کہ بقول ڈاکٹر طھٓ حسین ، وحی الٰہی کے بعد انسان کے کانوں نے ایسا کلام نہیں سنا ہے__ بعض سنی علماء کے اس اصول کو پوری طرح بے بنیاد ثابت کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام کے تمام اصحاب عادل ہیں ۔
اب ہم یہاں پر قرآن مجید کی مذکورہ بالا دو آیتوں کے سلسلہ میں بحث کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی آیت اس امر کی حکایت کرتی ہے کہ خدائے تعالیٰ دو گروہوں سے راضی ہوا ہے اور اس نے اپنی بھشت کو ان کےلئے آمادہ کیا ہے ۔ یہ دو گروہ حسب ذیل ہیں :
۱۔ مھاجریں و انصار کا ایک گروہ ، جنھوں نے ایمان اور اسلام لانے میں دوسرے لوگوں پر سبقت حاصل کی ہے اور نازک لمحات میں دین کی راہ میں قربانیاں دی ہیں ۔
۲۔ وہ لوگ جنھوں نے شائستہ طورپر مھاجریں و انصار کی پیروی کی ہے ۔
قرآن مجید نے پہلے گروہ کے بارے میں(
السَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ
)
اور دوسرے گروہ کے بارے میں (وَ الَّذِینَ اتَّبَعُوہمْ بِاِحْسان ) کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔
لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ کیا ، جو چیز ان سے خدا کی خوشنودی و رضا مندی کا سبب بنی صرف ان کی اسلام اور پیغمبر پر ایمان لانے میں سبقت تھی ، اور کیا اس خوشنودی و رضا مندی کی بقاء و دوام بلا قید و شرط ہے ؟
واضح تر الفاظ میں : کیا اگر یہ افراد بعد والے زمانوں میں فکری یا اختلافی انحراف کا شکار ہوکر ظلم و جبر کے مرتکب ہوجائیں ، تو کیا پھر بھی وہ خدا کی رضا مندی اور خوشنودی کے حقدار ہوں گے اور قھر و غضب ان کے شامل حال نہیں ہوگا؟ یا یہ کہ اسلام لانے میں ان کی سبقت کےلئے خدا کی رضا مندی اور خوشنودی کا باقی رہنا اس امر پر مشروط ہے کہ ان کا ایمان و عمل صالح ان کی زندگی کے تمام ادوار میں باقی رہے ، اور اگر ان دو شرائط ،،میں ان کی زندگی میں کبھی خلل پیدا ہوجائے تو ان کی اسلام میں سبقت اور مھاجر و انصار کے عنوان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا؟
قرآن مجید کی دیگر آیات کی تحقیق سے قطعی طور پر دوسرے نظریہ کی تائید ہوتی ہے کہ خدا کی طرف سے اپنے بندوں کےلئے کامیابی اور خوشنودی کی بقا اسی شرط پر ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی میں ایمان اور عمل صالح پر قائم و دائم رہیں ۔ ملاحظہ ہوں اس قسم کی چند آیات کے نمونے :
قرآن مجید سورہ حشر
میں مھاجرین کی ایک جماعت کی اس بات پر ستائش کرتا ہے کہ انھوں نے اپنا سب مال و منال چھوڑ کر مدینہ ھجرت کی تھی ، اس کے بعد ان کی ستائش کا سبب مندرجہ ذیل عبارتوں میں بیان فرمایا ہے ۔
(
یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللهِ وَ رِضْوَاناً وَ یَنْصُرُونَ اللهَ وَ رَسُولَه
)
وہ لوگ ہمیشہ خدا کے فضل و کرم اور اس کی مرضی کے طلبگار رہتے ہیں اور خدا و رسول کی مدد کرنے والے ہیں ۔
یہ آیہ شریفہ اس بات کی حکایت کرتی ہے کہ انسان کی نجات کےلئے ھجرت کرنا گھر بار اور مال و منال کو چھوڑنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ خدا کی خوشنودی کے اسباب فراہم کرنے کی مسلسل کوشش کرنا اور اپنے نیک اعمال کے ذریعہ خدا اور اس کے رسول کی مدد کرنا بھی ضروری ہے ۔
قرآن مجید فرماتا ہے : فرشتے ، جو عرش کے اطراف میں خدائے تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں ، با ایمان افراد کےلئے اس طرح دعائے مغفرت کرتے ہیں :
(
فَاغْفِر لِلَّذِین تٰابُو وَ اتَّبَعُوا سَبِیلَک
)
” خدایا ! جو تیری طرف لوٹ آئے ہیں اور تیرے دین کی پیروی کرتے ہیں ، انھیں بخش دے “
قرآن مجید اصحاب پیغمبر میں سے ان افراد کی ستائش کرتا ہے جو کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں اور آپس میں مھربان ہیں ، رکوع و سجود بجالاتے ہیں ، خدا کے کرم و خوشنودی کے طالب ہیں اور ان کے چھروں پر سجدوں کی نشانیاں نمایاں ہیں
اس کے علاوہ قرآن عفو و بخشش اور عظیم اجر کا حقدار ان اصحاب رسول کو جانتا ہے جو خدا پر ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیتے ہیں
مذکورہ آیات او ران کے علاوہ دیگر آیات اس بات کی گواہ ہیں کہ مھاجرین و انصاریا سابقین و تابعین کے عنوان ، سعادت مند و نجات یافتہ ہونے کے لئے کافی شرط نہیں ہیں بلکہ اس فضیلت کے ضمن میں دیگر فضائل ، جیسے نیک اعمال کی انجام دھی اور بُرے کاموں سے پرہیز کی شرط بھی ضروری ہے ، ورنہ یہ لوگ درج ذیل آیات کے زمرے میں شامل ہوں گے :
۱۔(
فَإِنَّ اللهَ لاَ یَرْضیٰ عَنِ القَوْمِ الفَاسِقینَ
)
خدائے تعالیٰ فاسقوں کے گروہ سے راضی نہیں ہوتا ۔
۲۔(
وَ اللهُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمینَ
)
خدائے تعالیٰ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایمان کے بلند ترین مقام پرفائز اور فضیلت و اخلاق کا نمونہ تھے ، لیکن پھر بھی خدائے تعالیٰ واضح الفاظ میں آپ(ع)کو خبردار کرتے ہوئے فرماتا ہے :
(
لِئِنْ اشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُونَنَّ مِنَ الخَاسِرِینَ
)
اگر تم شرک اختیار کرو گے تو تمھارے تمام اعمال برباد ہو جائیں گے اور تمھارا شمار گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوگا “
بیشک پیغمبر اکرم کا قوی ایمان اور آپ کی عصمت ایک لمحہ کےلئے بھی آپ کو شرک کی طرف مائل نہیں کرسکتی ، لیکن یہاں پر قرآن مجید آپ سے مخاطب ہوکر در حقیقت دوسروں کو خبردار کرتا ہے کہ چند نیک اعمال کے دھوکے میں نہ رہیں بلکہ کوشش کریں کہ زندگی کی آخری سانس تک اسی نیک حالت پر باقی رہیں ۔
اس بنا پر ہمیں ہرگز یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ پیغمبر کا صحابی ہونا اور سابقین و تابعین کے زمرے میں شمار ہونا کسی کو ایسا تحفظ بخش دے گا کہ اگر وہ بعد میں کوئی غلط قدم بھی اٹھائے ، پھر بھی خدا کی خوشنودی کا مستحق قرار پائے گا۔
ان ہی مھاجرین اور انصار یا سابقین و تابعین میں سے بعض افراد خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں ہی مرتد ہوگئے تھے اور پیغمبر خدا کی جانب سے انھیں سخت ترین سزا کا حکم سنا دیا گیا ، اس وقت کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا کہ : اے پیغمبر ! خدا وند کریم ان سے راضی ہوگیا ہے ، آپ انھیں کیوں یہ سخت سزا سنارہے ہیں ؟
اس سیاہ فھرست کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
۱۔ عبد الله بن سعد بن ابی سرح : وہ مھاجرین میں سے تھا اور کاتب وحی تھا اس کے بعد مرتد ہوگیا اور اس نے کھا:
(
سَانْزِلُ مِثْلَ مٰا اَنْزَ لَ اللهُ
)
میں بھی خدا کی طرح کی باتیں نازل کرسکتا ہوں!
فتح مکہ میں پیغمبر اسلام نے چند افراد کے قتل کا حکم دیدیا اور فرمایا: جہاں کھیںوہ ملیں انھیں فوراًقتل کردیا جائے ، ان میں سے ایک یہی ” عبدالله“ تھا ، لیکن فتح مکہ کے بعد اس نے حضرت عثمان کے وہاں پناہ لے لی ، کیونکہ وہ حضرت عثمان کا رضاعی بھائی تھا حضرت عثمان کی سفارش اور اصرار کے سبب پیغمبرا کرم نے اسے چھوڑدیا ۔
پیغمبر اس شخص سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ اس کو معاف کرنے کے بعد آنحضرت نے اپنے اصحاب سے فرمایا : جب تم لوگوں نے دیکھا کہ میں اسے معاف کرنے سے انکار کررہا ہوں اس وقت تم لوگوں نے اسے قتل کیو ں نہیں کرڈالا؟
۲۔ عبید اللہ بن جحش : وہ اسلام کے سابقین اور مھاجرین حبشہ میں سے تھا ، لیکن حبشہ ھجرت کرنے کے بعد اسلام چھوڑ کراس نے عیسائی دین قبول کر لیا ۔
۳۔ حکم بن عاص : وہ ان لوگوں میں سے تھا جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے ، لیکن پیغمبر اسلام نے چند وجوہات کی بنا پر اسے طائف جلا وطن کردیا۔
۴۔ حرقوص بن زھیر : اس نے بیعت رضوان میں شرکت کی تھی ، لیکن غنائم کی تقسیم پر اس نے پیغمبر اسلام سے تند کلامی کی اس پر رحمة للعالمین پیغمبر برہم ہوگئے اور فرمایا: وائے ہو تم پر ، اگر میں انصاف و عدالت کی رعایت نہ کروں گا تو کون انصاف کرے گا ؟! اس کے بعد اس کے خطر ناک مستقبل کے بارے میںفرمایا : حرقوص ایک ایسے گروہ کا سردار بنے گا جو دین اسلام سے اسی طرح دور ہوجائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل کر دور جاتا ہے“
پیغمبر اسلام کی یہ پیشین گوئی آپ کی رحلت کے سالھا بعد حقیقت ثابت ہوئی ۔ یہ شخص خوارج کا سردار بنا اور جنگ نھروان میں حضرت علی(ع)کی تلوار سے قتل ہوا ۔
یہ اس سیاہ فھرست کے چند نمونے تھے جس میں بہت سے اصحاب پیغمبر (مھاجر و انصار ) موجود ہیں ۔ پیغمبر اسلام کے صحابیوں کی تحقیق کے دوران ہمیں چند دوسرے افراد بھی نظر آتے ہیں : جیسے :حاطب بن ابی بلتعہ ، جو اسلام کے خلاف جاسوسی کرتا تھا یا ولید بن عقبہ ، جسے قرآن مجید نے سورہ حجرات
میں فاسق کھا ہے یا خالد بن ولید ، جس کا نامہ اعمال اس کے کالے کرتوتوں سے بھرا پڑا ہے
کیا صحابیوں میں ایسے افراد کی موجودگی کے باوجود بھی یہ کھا جاسکتا ہے کہ خدائے تعالیٰ سابقین اور تابعین سے راضی ہوچکا ہے اب کسی کو بھی ان کی طرف ٹیڑھی نگاہ سے دیکھنے کا حق نہیں ہے ؟!
مختصر یہ کہ خداکی رضا و خوشنودی ، ان کے عمل سے مربوط ہے ، یعنی خدائے تعالیٰ ان افرادسے راضی و خوشنود ہوا ہے ، جنھوں نے غربت کے زمانے میں اسلام اور رسول خدا کی حمایت و مدد کی ہے لیکن اس قسم کی خوشنودی کا اظھار اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ان کی یہ خوشنودی ان افراد کی زندگی کی آخری سانس تک باقی رہے گی ۔ بلکہ اس کی بقا کی شرط یہ ہے کہ ان کا ایمان اسی حال میں باقی رہے اور وہ ایسا کوئی کام انجام نہ دیں جو ان کے کفر ، ارتداد ، فسق اور اعمال صالح کے برباد ہوجانے کا سبب بنے۔
دوسرے الفاظ میں ، مھاجر ین وانصار کا ایمان و اخلاص ، بھی دوسرے نیک اعمال کی طرح اس پر مشروط ہے کہ بعد میں کوئی ایسا کام انجام نہ دیں جو ان کے اس عمل کو بے اثر بنا کردے ورنہ ان کا یہ نیک عمل باقی نہ رہے گا ۔ علماء کی اصطلاح میں جس پاداش کا اس آیت میں ذکر ہوا ہے ( رضا مندی و بھشت) یہ ایک ” نسبی “ پاداش ہے ۔ یعنی وہ اس لحاظ سے ایسی پاداش کے حقدار ہیں لیکن اس سے بھی انکار نہیں ہے کہ اگر یہی لوگ بعد میں خدا کی نافرمانی کے کام انجام دیں گے تو غضب الھی اور جھنم کے مستحق ہوجائیں گے ۔ اس قسم کی آیات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سابق صحابیوں کو تحفظ بخش دیں چونکہ خداوند تعالیٰ ان سے خوشنود ہوگیا ہے ، لھٰذا وہ جو چاہیںا نجام دیں یا ان میں سے اگر کوئی کسی غیر شرعی کام کا مرتکب ہوگیا ہو تو ہم اس آیت کے حکم کی تاویل و تحریف پر مجبور ہوں کیونکہ اس آیت نے ان کے سلسلے میں قطعی حکم صادر کردیا ہے !
نھیں ایسی ضمانت انبیاء اور اولیاء میں بھی کسی کو نہیں ملی ہے حتی خود رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی ایسی ضمانت نہیں ملی ہے ۔
قرآن مجید حضرت ابراہیم (ع)اور ان کے فرزند وں جیسے اسحاق (ع)، یعقوب (ع)، موسی (ع)و ہارون (ع)وغیرہ کے بارے میں فرماتا ہے :
(
وَ لَو اشْرَکُوا لَحَبِطَ عَنْهم مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ
)
اگر یہ لوگ شرک اختیار کرلیتے تو ان کے سارے اعمال برباد ہوجاتے “
____________________