اٹھارہویں فصل
حدیث غدیر (پھلا حصہ)
اسلام کی عالمی تحریک ، ابتداء سے ہی قریش بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے عام بت پرستوں کی طرف سے جنگ اور مخالفتوں سے روبرو ہوئی ۔ جو گوناگوں سازشوں کے ذریعہ اس شمع الٰہی کو بجھانے کے در پے تھے ، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی خاص کا میابی حاصل نہ کرسکے۔ ان کی آخری خیالی امید یہ تھی کہ اس عظیم تحریک کے پائے اس کے پیشوا اور بانی کی وفات کے بعد اس طرح ڈھہ جائیں گے جس طرح پیغمبر سے پہلے بعض لوگوں کی یکتا پرستی کی دعوت
ان کی وفات کے بعد خاموش ہوگئی۔
قرآن مجید جس نے اپنی بہت سی آیات میں ان کی سازشوں اور منصوبوں سے پردہ اٹھایا تھا اس دفعہ بت پرستوں کی آخری خیالی امید یعنی وفات پیغمبر کے بارے میں درج ذیل آیت میں اشارہ فرماتا ہے :
(
امْ یَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِه رَیْبَ الْمَنُونِ قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّی مَعَکُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِینَ امْ تَامُرُهُمْ احْلَامُهُمْ بِهَذَا امْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ
)
” یا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر شاعر ہے اور ہم اس کی موت کا انتطار کررہے ہیں ۔ تو آپ کہہ دیجئے کہ بیشک تم انتظار کرو میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں! کیاان کی خام عقلیںانھیں اس بات پر آمادہ کرتی ہیںیا وہ واقعاً سرکش قوم ہیں “
مناسب ہے کہ یہا ںپر بت پرستوں کی طرف سے رسالتماب کے ساتھ چھیڑی گئی بعض خائنانہ جنگوں اور روڈے اٹکانے کی منحوس حرکتوں کی ایک فھرست بیان کی جائے اور اس کے بعد دیکھا جائے کہ خدائے تعالیٰ نے ان کی آخری امیدوں کو کیسے ناکام بنایا اور آغوش پیغمبر میں حضرت علی(ع)جیسے لائق و شائستہ شخص کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین کی حیثیت سے منتخب کرکے ان کی سازشوں کو خاک میں ملادیا ۔
۱۔ تھمت کا حربہ
کفار مکہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر شاعر ، کاہن ، دیوانہ اور جادوگر ہونے کی تھمتیں لگا کر یہ کوشش کی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات کے اثرات کم کریں ، لیکن سماج کے مختلف طبقوں میں اسلام کی نمایاں ترقی نے ثابت کردیا کہ آپ کی مقدس ذات ان تھمتوں سے بالاتر تھی ۔
۲۔ آپ کے پیروؤں کو آزار پہچانا
کفار مکہ کا ایک اور منصوبہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیرؤوں کو آزار پہنچانا اور انھیں جسمانی اذیتیں دینا اور قتل کرنا تھا تاکہ آپ کے ارشادات و ہدایت کے وسیع اثرات کو روک سکیں ۔ لیکن پیغمبر کے حامیوں کی ہر ظلم و جبر اور اذیت و آزار کے مقابلے میں استقامت و پامردی نے قریش کے سرداروں کو اپنے منحوس مقاصد تک پھنچنے میں ناکام بنادیا ۔ آنحضرت کے حامیوں کی آپ کے تئیں والھانہ عقیدت و اخلاص نے دشمنوں کو حیرت زدہ کردیا ، حتی ابو سفیان کھتا تھا، ” میں نے قیصر وکسریٰ کو دیکھا ہے لیکن ان میں سے کسی کو اپنے پیرؤوں کے درمیان محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسا با عظمت نہیں دیکھا جن کے پیرؤوں نے ان کے مقاصد کی راہ میں اس قدر جاںبازی اور فداکاری کا ثبوت دیا ہے
۳۔ عرب کے بڑے داستان گو کو دعوت
قرآن مجید کے روحانی اور جذباتی اثرات سے کفار قریش حیرت زدہ تھے اور تصور کرتے تھے کہ قرآن مجید کی آیات کو سننے کےلئے لوگوں کا پروانہ وار دوڑنا اس سبب سے ہے کہ قرآن مجید میں گذشتہ اقوام کی داستانیں اورکھانیاں بیان ہوئی ہیں ۔ اس لئے کفار مکہ نے دنیائے عرب کے سب سے مشھور داستان گو ” نصر بن حارث “ کو دعوت دی کہ وہ خاص موقعوں پر مکہ کی گلی کوچوں میں ’ ایران “ اور ” عراق“ کے بادشاہوں کے قصے سنائے تا کہ اس طرح لوگوں کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف مائل ہونے سے روک سکیں ! یہ منصوبہ اس قدر احمقانہ تھا کہ خود قریش یہ داستانیں سننے سے تنگ آچکے تھے اور اس سے دور بھاگتے تھے۔
۴۔ قرآن مجید سننے پر پابندی
قریش کا ایک اور منحوس منصوبہ قرآن مجید سننے پر پابندی عائد کرنا تھا اس شمع الٰہی کے پروانوں کی استقامت سے ان کا یہ منصوبہ بھی خاک میں مل گیا۔ قرآن مجید کی زبر دست شیرینی اور دلکشی نے مکہ کے لوگوں کو اس قدر فریفتہ بنا دیا تھا کہ وہ رات کے اندھیرے میں گھروں سے نکل کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر کے اطراف میں چھپ جاتے تھے تا کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز شب اور تلاوت قرآن مجید کےلئے اٹھیں تو وہ قرآن کی تلاوت سن سکیں ۔ قریش کے کفار صرف لوگوں کو قرآن سننے سے ہی منع نہیں کرتے تھے بلکہ لوگوں کو پیغمبر سے ملنے جلنے سے منع کرتے تھے ۔ جب عرب کی بعض بزرگ شخصیتیں جیسے ، اعشی و طفیل بن عمر پیغمبر سے ملنے کےلئے مکہ میں آئے تو قریش نے مختلف ذرایع سے ان کو پیغمبر تک پھنچنے سے روک دیا
۵۔اقتصادی پابندی
کفار قریش نے ایک دستور کے ذریعہ لوگوں میں یہ اعلان کیا کہ کسی کو بنی ہاشم یا محمد کے طرفداروں کے ساتھ لین دین کرنے کا حق نہیں ہے ۔ جس کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ساتھیوں اور اعزّہ کے ساتھ ” شعب ابی طالب (ع)“ میں پورے تین سال تک انتھائی سخت اور قابل رحم زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ۔ لیکن قریش کے بعض سرداروں کے اقدام اور بعض معجزات کے رونما ہونے کی وجہ سے یہ بائیکاٹ ختم ہوگیا۔
۶۔ پیغمبر اکرم کو قتل کرنے کی سازش
قریش کے سرداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے قریش کے چالیس جوان رات کے اندھیرے میں پیغمبر کے گھر پر حملہ آور ہوں اور آپ کو آپ کے بسترہ پر ہی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں ۔ لیکن خداوند کریم (جو ہر وقت آپ کا حافظ و نگھبان تھا )نے پیغمبر کو دشمنوں کی اس سازش سے آگاہ کردیا اور پیغمبر خدا نے خدا کے حکم سے حضرت علی(ع)کو اپنے بسترہ پر سلا کر خود مکہ سے مدینہ کی طرف ھجرت کی ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کی طرف ھجرت اور اوس و خزرج جیسے قبیلوں کا اسلام کی طرف مائل ہونا اس کاباعث ہوا کہ مسلمانوں کو ایک امن کی جگہ مل گئی اور پراکندہ مسلمان ایک پر امن جگہ پر جمع ہوکر دین کا دفاع کرنے کے لائق ہوگئے۔
۷۔ خونین جنگیں
مسلمانوں کے مدینہ منورہ میں اکٹھا ہونے اور حکومت اسلامی کی تشکیل کو دیکھتے ہوئے جزیرہ نمائے عرب کے بت پرست خوفزدہ ہوگئے اور اس دفعہ یہ فیصلہ کیا کہ ہدایت کی شمع فروزاں کو جنگ اور قتل و غارت کے ذریعہ ہمیشہ کےلئے بجھادیں ۔ اسی غرض سے کفار نے مسلمانوں سے بدر، احد ، خندق اور حنین کی خونین جنگیں لڑیں ۔ لیکن خدا کے فضل و کرم سے یہ جنگیں مسلمانوں کی فوجی طاقت میں اضافہ کا باعث بنیں اور انھوں نے بت پرستوں کو عرب میں ذلیل و خوار کرکے رکھدیا۔
۸۔پیغمبر اسلام کی وفات
دشمنوں نے اپنے ناپاک عزائم کے سلسلے میں آخری امید پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے باندھی تھی ۔ وہ سوچ رہے تھے کہ پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی اس تحریک کی بنیادیں اکھڑ جائیں گی اور اسلام کا بلند پایہ محل زمین بوس ہوجائے گا ۔ اس مشکل کو دور کرنے اور اس سازش کو ناکام بنانے کےلئے دو راستے موجود تھے :
۱۔ امت اسلامیہ کی فکری و عقلی نشو و نما اس حد تک پھنچ جائے کہ مسلمان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام کی اس نئی تحریک کی عھد رسالت کے مانند ہدایت و رہبری کرسکیں اور اسے ہر قسم کے انحراف سے بچاتے ہوئے ” صراط مستقیم“ پر آگے بڑھائیں ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد امت کی ہمہ جھت قیادت کی سخت ضرورت تھی کیونکہ ابھی جو بد قسمتی سے امت کے افراد میں سازگار حالات نہیں پائے جاتے تھے ۔ اس وقت یہ مناسب نہیں ہے کہ ان حالات کے ہونے یا نہ ہونے پر مفصل بحث کریں ، لیکن مختصر طور درج ذیل چند اہم نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے :
الف) ایک ملت کی مختلف میدانوں میں ترقی اور بنیادی انقلاب کا پیدا ہونا چند روز یا چند سالوں میں ممکن نہیں ہوتا اور مختصر مدت میں ایسے مقاصد تک نہیں پہنچا جاسکتا ہے بلکہ انقلاب کی بنیادوں کو استحکام بخشنے اور اسے لوگوں کے دلوں کی گھرائیوں میں اتارنے کیلئے ایسے ممتاز اور غیر معمولی فرد یا افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو اس تحریک کے بانی کی رحلت کے بعد امور کی باگ ڈور سنبھال سکیں اور انتھائی ہوشیاری اور پیھم تبلیغ کے ذریعہ سماج کو ہر قسم کے غلط رجحانات سے بچا سکیں تا کہ پرانی نسل کی جگہ ایک ایسی نئی نسل لے لے جو ابتدا ء سے ہی اسلامی آداب و اخلاق کے ماحول میں پلی ہو ۔ ورنہ دوسری صورت میں تحریک کے بانی کی وفات کے ساتھ ہی بہت سے لوگ اپنی پرانی روش کی طرف پلٹ جائیں گے ۔
اس کے علاوہ تمام الٰہی تحریکوں میں اسلام ایسی خصوصیت کا حامل تھا جس میں اس تحریک کے استحکام کےلئے ممتاز افراد کی اشد ضرورت تھی ۔ دین اسلام ایسے لوگوں کے درمیان وجود میں آیاتھا جو دنیا کی پسماندہ ترین قوم شمار ہوتے تھے اور اس معاشرہ کے لوگ سماجی و اخلاقی قواعد و ضوابط کے لحاظ سے انتھائی محرومیت کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے مذہبی آداب و رسوم کے طور پر وہ اپنے آباء و اجداد سے وراثت میں ملی ہوئی ( جو خرافات اور برائیوں سے بھری تھیں ) کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں جانتے تھے ۔ حضرت موسی (ع)اور حضرت عیسی (ع)کے دین نے ان کی سرزمین پر کوئی اثر نہیں ڈالا تھا اور حجاز کے اکثر لوگ اس سے محروم تھے اور اس کے مقابلہ میں جاہلیت کے عقائد اور رسم و رواج ان کے دلوں میں راسخ ہوکر ان کی روح میں آمیختہ ہوچکے تھے۔
ممکن ہے کہ ایسے معاشروں میں مذہبی اصلاح زیادہ مشکل نہ ہو لیکن اس کا تحفظ اور اس کی بقا، ایسے لوگوں میں جن کی روح میں منفی عوامل نفوذ کرچکے ہوں ، انتھائی مشکل کام ہوتا ہے اس کےلئے مسلسل ہوشیاری اور تدبیر کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ ہر قسم کے انحرافات اور رجعت پسندی کو روکا جاسکے ۔
” احد“ اور ” حنین“ کے دل دوز حوادث کے مناظر ، جب گرما گرم جنگ کے دوران تحریک کے حامی رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو میدان کارزار میں تنھا چھوڑ کر باگ کھڑے ہوئے تھے اس بات کے واضح گواہ ہیں کہ تحریک کے مؤمن افراد ، جو اس کی راہ میں جان و مال کی قربانی دینے پر حاضر تھے ، بہت کم تھے اور معاشرے کے زیادہ تر لوگ فکری و عقلی رشد و بلوغ کے لحاظ سے اس مقام پر نہیں پھنچے تھے کہ پیغمبر اسلام نظام کی باگ ڈور ان کے ہاتہ میں دیدیتے اور دشمن کی آخری امید یعنی پیغمبر کی رحلت کے انتظار، کو ناکام بنادیتے ۔
یہ وہی امت ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد اختلاف و تفرقہ کا مرکز بن گئی اور رفتہ رفتہ ۷۲ فرقوں میں بٹ گئی۔
جو باتیں ہم نے اوپر بیان کیں اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر کی رحلت کے وقت فکری اور عقلی رشد کے لحاظ سے امت اسلامیہ اس حد تک نہیں پھنچی تھی کہ دشمنوں کے منصوبے ناکام ہوجاتے اسلئے کسی دوسری چارہ جوئی کی ضرورت تھی کہ ہم ذیل میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
۲۔ تحریک کو استحکام بخشنے کےلئے آسان اور سادہ طریقہ یہ ہے کہ تحریک کے اصول و فروع پر ایمان و اعتقاد کے لحاظ سے پیغمبر جیسا ایک لائق و شائستہ شخص تحریک کی قیادت و رہبری کےلئے خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے انتخاب کیا جائے اور وہ قوی ایمان ، وسیع علم اور عصمت کے سائے میں انقلاب کی قیادت کو سنبھال کر اس کو استحکام اور تحفظ بخشے۔
یہ وہی مطلب ہے جس کے صحیح اور مستحکم ہونے کا دعویٰ شیعہ مکتب فکر کرتا ہے ۔ اس سلسلے میں بہت سے تاریخی شواہد بھی موجود ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجة الوداع سے واپسی کے دوران ۱۸ ذی الحجة کو خدا کے حکم سے اس گتھی کو سلجھادیا اور خدا کی طرف سے اپنا جانشین اور ولی مقرر فرما کر اپنی رحلت کے بعد اسلام کو استحکام اور تحفظ بخشا۔اس کا واقعہ یوں ہے ، کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ۱۰ ہ ء میں حج بجالانے کےلئے مکہ کی طرف عزیمت فرمائی ، چونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حج کا یہ سفر آپ کی زندگی کا آخری سفر تھا اس لئے یہ حجة الوداع کے نام سے مشھور ہوا ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ شوق سے یاا حکام حج کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سیکھنے کےلئے جن لوگوں نے اس سفر میں آپ کا ساتھ دیا ان کی تعداد کے بارے میں مؤرخین نے ایک لاکہ بیس ھزار کا تخمینہ لگایا ہے ۔
حج کی تقریبات ختم ہوئیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم راہی مدینہ ہوئے جوق در جوق لوگ آپ کو الوداع کررہے تھے لیکن مکہ میں آپ سے ملحق ہونے والوں کے علاوہ سب آپ کے ہمسفر تھے ۔ کاروان ، جحفہ سے تین کلو میٹر کی دوری پر ” غدیر خم“ کے ایک صحرا میں پہنچا ، اچانک وحی الٰہی نازل ہوئی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رکنے کا حکم ملا۔ پیغمبر نے بھی حکم دیا کہ سب حجاج رک جائیں تا کہ پیچھے رہنے والے لوگ بھی پھنچ جائیں ۔
پیغمبر کی طرف سے ایک تپتے ریگستان میںد وپھر کو تمازتِ آفتاب میں رکنے کے حکم پر لوگ تعجب میں تھے۔ اور سرگوشیاں کررہے تھے کہ ضرور خدا کی طرف سے کوئی خاص حکم پہنچا ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ خدا کی طرف سے پیغمبر کو امر ہوا ہے کہ وہ ان نامساعد حالات میں لوگوں کو روک کر فرمان الٰہی پہنچائیں۔
پیغمبر اکرم کو یہ فرمان الٰہی درج ذیل آیہ شریفہ کے ذریعہ ملا ۔
(
یَا ایُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا انْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ
)
” اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا آپ خدا کی رسالت کو نہیں بجا لائے اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“
اس آیہ شریفہ کے مضمون پر غور کرنے سے ہمیں مندرجہ ذیل نکات کی طرف ہدایت ملتی ہے :
اولاً: جس حکم الھٰی کو پہنچانے کی ذمہ داری پیغمبر اسلام کو ملی تھی وہ اتنا اہم اور عظیم تھا کہ اگر پیغمبر اکرم ( بفرض محال ) اسے پہنچانے سے ڈرتے اور نہ پہنچاتے تو گویا آپ نے اپنی رسالت کا کام ہی انجام نہیں دیا ہوتا ، بلکہ -( آیندہ اس کی وضاحت کریں گے کہ ) اس ماموریت کو بجالانے سے ہی آپ(ع)کی رسالت مکمل ہوتی ہے ۔
دوسرے الفاظ میں(
مَا انْزِلَ اِلَیْکَ
)
( جو آپ پر نازل کیا گیا ہے ) کا مقصود قرآن مجید کی تمام آیات اور احکام اسلامی نہیں ہوسکتے ہیں ،کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم احکام الٰہی نہ پہنچاتے تو اپنی رسالت کو انجام ہی نہ دیا ہوتا اور اس قسم کے بدیہی امر کے بارے میںکچھ کھنے اور آیت نازل کرنے کی ضرورت ہی نھیںتھی ، بلکہ اس کا مقصد ایک خاص موضوع کو پہنچانا ہے کہ اس کا پہنچانا رسالت پہنچانے کے برابر شمار ہوتا ہے اور جب تک اسے نہ پہنچا یا جائے ، رسالت کی عظیم ذمہ داری اپنے کمال تک نہیں پھنچتی۔
اس بنا پر اس ماموریت کا مسئلہ اسلام کے اہم اصولوں میں سے ایک ہونا چاہئے جو اسلام کے دوسرے اصول و فروع سے پیوستہ ہو اور خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی طرح یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہو ۔
ثانیاً : سماجی حالات اور ان کے محاسبات کے پیش نظر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ گمان کرتے تھے کہ اس ماموریت کو انجام دینے کی صورت میں ممکن ہے لوگوں کی طرف سے آپ کو کوئی نقصان پھنچے ، اس لئے خدائے تعالیٰ نے آپ کے ارادہ کو قوت بخشنے کےلئے فرمایا:
(
و َ اللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ
)
” خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“
اب یہ دیکھنا ہے کہ مفسرین اسلام نے اس آیت کے موضوع کے بارے میں جو احتمالات
بیان کئے ہیں ان میں سے کون سا احتمال اس آیہ شریفہ کے مضمون سے قریب تر ہے ۔شیعہ محدثین کے علاوہ اہل سنت محدثین کے تیس ۱# افراد نے لکھا ہے کہ یہ آیہ شریفہ غدیر کے دن نازل ہوئی ہے ، جس دن خدا نے پیغمبر کو مامور کیا کہ علی(ع)کو ”مؤمنین کے مولا “ کے طور پر پھچنوائیں۔
امت پر پیغمبر کی جانشینی کے عنوان سے امام(ع)کی قیادت کا مسئلہ ہی اتنا ہی اہم اور سنجیدہ تھا کہ اس کا پہنچانا رسالت کی تکمیل کا باعث اور نہ پہنچانا رسالت کے نقصان اور رسول کی زحمتوں کے تباہ ہوجانے کا سبب شمار ہوتا۔
اسی طرح پیغمبر اکرم کا اجتماعی محاسبات کے پیش نظر خوف و تشویش سے دوچار ہونابجا تھا، کیونکہ حضرت علی(ع)جیسے صرف ۳۳ سالہ شخص کا جانشین اور وصی قرار پانا اس گروہ کےلئے انتھائی سخت اور دشوار تھا جو عمر کے لحاظ سے آپ(ع)سے کہیں زیادہ بڑے تھے
اس کے علاوہ ایسے افراد بھی مسلمانوں کی صفوں میں موجود تھے جن کے اسلاف مختلف جنگوں میں حضرت علی(ع)کے ہاتھوں قتل ہوچکے تھے اور قدرتی طور وہ کینہ توز ایسے شخص کی حکومت کی شدید مخالف کرتے ۔
اس کے علاوہ حضرت علی(ع)پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد بھی تھے، اور تنگ نظر لوگوں کی نظر میں ایسے شخص کو خلافت کے عھدہ پر مقرر کرنا اس کا سبب ہوتا کہ وہ اس عمل کو کنبہ پروری تصور کرتے۔
لیکن ان تمام ناسازگار حالات کے باوجود خدائے تعالی کا حکیمانہ ارادہ یہی تھا کہ رسول کا جانشین مقررفرما کر اسلامی تحریک کو تحفظ بخشے اور اپنے نبی کی عالمی رسالت کا رہبر و راہنما مقرر کرکے اسے تکمیل تک پہنچائے۔
اب اس تاریخی واقعہ کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
____________________