بیسویں فصل
حدیث غدیر(تیسرا حصہ)
غدیر کے با شکوہ اجتماع کا مقصد ؟
گزشتہ بحثوں سے اچھی طرح واضح اور ثابت ہوگیا کہ غدیر کا واقعہ قطعی اور یقینی طور پر ایک تاریخی واقعہ ہے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبھہ کرنا بدیہی امور میں شک کرنے کے مترادف ہے ۔ اسلامی احادیث میں شاید ہی کوئی ایسی حدیث ہو جو متواتر اور قطعی ہونے کے لحاظ سے اس حدیث کی برابری کر سکے ۔
اس لئے ہم اس کی سند کے بارے میں مزید بحث و گفتگو نہیں کریں گے بلکہ اب اس کے مفاد و مفھوم کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس حدیث کو سمجھنے کی کنجی یہ ہے کہ جملہ ”من کنت مولاه فعلی مولاه''
میں وارد شدہ لفظ ”مولیٰ“ کو سمجھ لیں اس لفظ کے معنی کو سمجھنے کے بعد قدرتی طور پر حدیث کا مفھوم بھی واضح ہوجائے گا ۔
سب سے پہلے یہ امر قابل غور ہے کہ قرآن مجید میں لفظ ”مولیٰ“ ، اولی“ اور ” ولی“ کے معنی میں استعمال ہو ا ہے ، جیسے:
۱۔(
فاَلْیَومَ لاَ یُؤْخَذُ مِنْکُمْ فِدْیَةٌ وَ لاَ مِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مَاوَاکُمُ النّارُ هِیَ مَولَ-ٰک-ُمْ وَ بِئْسَ الْمَصِیرُ
)
تو آج ( قیامت کے دن) نہ تم سے کوئی فدیہ یا عوض لیا جائے گا اور نہ کفار سے ، تم سب کا ٹھکانا جھنم ہے وہی تم سب کا صاحب اختیار (مولا) ہے اور تمھارا بدترین انجام ہے۔
اسلام کے بڑے اور نامور مفسرین اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں کہتے ہیں : اس آیت میں ”مولیٰ“ کا لفظ ” اولی“ کے معنی میں ہے ، کیونکہ یہ افراد ، جو ناشائستہ اور برے اعمال کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کےلئے ان اعمال کے عوض جھنم کی آگ کے سوا کوئی اور چیز سزاوار نہیں ہے
۲۔(
یَدْعُوا لَمَنْ ضَرَّه اقْرَبُ مِنْ نَّفْعِه لَبِئْسَ الْمَولٰی وَ لَبِئْسَ الْعَشِیرُ
)
”یہ اس بت کو پکارتا ہے جس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ قریب تر ہے وہ اس کا بدترین سرپرست ( ولی ) اور بدترین ساتھی ہے “۔
یہ آیہ شریفہ اپنے مضمون اور گزشتہ آیات کے قرینہ کی روشنی میں مشرکوں اور بت پرستوں کے عمل سے متعلق ہے کہ وہ بتوں کو اپنا صاحب اختیار ( ولی) جانتے تھے اور اسے اپنے سرپرست ( ولی) کی حیثیت سے مانتے تھے اور ” ولی“ کی حیثیت سے ہی ان کو پکارتے تھے۔
ان دو آیتوں اور اسی طرح دوسری آیات _ جن کے ذکر سے ہم صرف نظر کرتے ہیں _ سے اجمالی طور سے ثابت ہوتا ہے کہ ”مولیٰ“ کے معنی وہی ” اولیٰ“ اور ” ولی“ کے ہیں ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جملہ ”من کنت مولاه فهذا علی مولاه''
کا مقصد کیا ہے ؟ کیا اس کا مقصد وہی نفوس پر تصرف رکھنے میں اولیٰ ہونا ہے جس کا لازمہ کسی شخص کا انسان پر ولایت مطلقہ رکھنا ہے یا حدیث کا مفھوم کچھ اور ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے تصور کیا ہے کہ حدیث غدیر میں ”مولیٰ“ دوست اور ناصر کے معنی میں ہے۔
بے شمار قرائن اس کے گواہ ہیں کہ ” مولیٰ“ سے مراد وہی پہلا معنی ہے جسے علماء اور دانشوروں نے ولایت مطلقہ سے تعبیر کیا ہے اور قرآن مجید نے خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں فرمایا ہے:
(
اَلنَّبِیُّ اَوْلَٰی بِالْمُؤْمِنِینَ مَنْ انْفُسِهِمْ
)
بیشک نبی تمام مؤمنین سے ان کے نفوس کی نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔
اگر کوئی شخص ( تسلط اور تصرف کے لحاظ سے ) کسی کی جان پر خود اس سے زیادہ شائستہ و سزاوار ہو تو وہ قدرتی طور پر اس کے مال پر بھی یہی اختیار رکھتا ہوگا۔ اور جو شخص کسی انسان کی جان و مال پر اولی بالتصرف ہو ، وہ اس کے بارے میں ولایت مطلقہ رکھتا ہے۔
اس بنا پر انسان کو اس( ولی) اس کے تمام احکام کی موبمو اطاعت کرنی چاہئے اور جس چیز سے وہ منع کرے اس سے با ز رہنا چاہئے۔
یہ عھدہ اور منصب ، خدا کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیا گیا تھا ۔ آپ خود ذاتی طور پر ہرگز اس منصب و مقام کے حامل نہیں تھے۔
واضح تر الفاظ میں یوں کھا جائے گا کہ یہ خدائے تعالیٰ ہے جس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو لوگوںکی جان و مال پر مسلط فرمایا ہے ۔ آپ کو ہر قسم کے امر و نھی کے اختیارات دئے ہیں اور آپ کے احکام و اوامر کی مخالفت کو خدا کے احکام کی مخالفت جانا ہے ۔
چونکہ قطعی اور یقینی دلائل سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس حدیث میں ”مولیٰ“ کے معنی وہی ہیں جو آیہ شریفہ میں ” اولیٰ“ کے ہیں ، لھذا قدرتی طور پر امیر المؤمنین حضرت علی(ع)اسی منصب و مقام کے حامل ہوئے جس کے آیہ شریفہ کی نص کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے ، یعنی اپنے
زمانے میں امت کے پیشوا اور معاشرے کے رہبر اور لوگوں کی جان و مال پر اولی وبالتصرف کا اختیار رکھنے والے اور امامت کا یہی وہ عظیم اور بلند مرتبہ ہے جسے ولایت الھیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے ( یعنی وہ ولایت جو خدا کی طرف سے بعض خاص افراد کو وسیع پیمانے پر عطا ہوتی ہے )
اب ہم وہ قرائن و شواہد بیان کرتے ہیں جن سے پوری طرح ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث میں لفظ ” مولیٰ“ کے معنی تمام امور میں ( اولی بالتصرف) اور صاحب اختیار ہونے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔
ذیل میں ایسے چند شواہد ملاحظہ ہوں:
۱۔ غدیر کے تاریخی واقعہ کے دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شاعر حسّان بن ثابت حضور اکرم سے اجازت حاصل کرکے کھڑے ہوئے اورپیغمبر اکرم کے بیانات کے مضمون کو اشعار کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا ۔ یہاں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس فصیح ، بلیغ ، اور عربی زبان کے رموز سے واقف شخص نے لفظ ”مولیٰ“ کی جگہ پر امام و ہادی کا لفظ استعمال کیا ہے ، ملاحظہ ہو:
فقال له قم یا علی فاننی
رضیتک من بعدی اماماً و هادیا
یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی (ع)کی طرف رخ کرکے ان سے فرمایا: اٹھو کہ میں نے تمھیں اپنے بعد لوگوں کا امام و ہادی مقرر کردیا ہے “
واضح رہے کہ حسّان نے پیغمبر کے کلام میں موجود لفظ ” مولیٰ“ سے امت کی امامت ، پیشوائی اور ہدایت کے علاوہ کوئی اور معنی نہیں لئے ہیں
صرف حسّان ہی لفظ” مولیٰ“ سے یہ نہیں سمجھے ، بلکہ اس کے بعد بھی اسلام کے عظیم شعرا __جن میں سے اکثراعلیٰ درجے کے شعرا اور بعض عربی زبان کے استاد شمار ہوتے تھے__ نے بھی اس لفظ سے وہی معنی لئے ہیں جو حسان نے سمجھے تھے ، یعنی امت کی امامت و پیشوائی۔
۲۔ امیر المؤمنین(ع)نے معاویہ کو لکھے گئے اپنے چند اشعار میں حدیث غدیر کے بارے میں یوں فرمایا ہے:
و اوجب لی ولایتہ علیکم
رسول الله یوم غدیر خم
” رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میری ولایت کو تم لوگوں پر غدیر کے دن واجب فرمایا ہے “
علی(ع)سے بہتر کون ہوسکتا ہے جو ہمارے لئے حدیث کے حقیقی مفھوم کو واضح کر سکے ؟ جبکہ شیعہ و سنی آپ(ع)کے علم ،امانتداری اور تقویٰ کے سلسلے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت (ع)حدیث غدیر سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
” پیغمبر خدا نے غدیر کے دن میری ولایت کو تم لوگوں پر واجب فرمایا“
کیا اس وضاحت سے یہ مطلب نہیں نکلتا ہے کہ غدیر کے دن حاضر تمام لوگوں نے آنحضرت (ع)کے بیانات سے دینی سرپرستی اور معاشرے کی رہبری کے علاوہ کوئی اورمفھوم نہیں سمجھا تھا؟
خود حدیث میں ایسے قرائن موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کے اس جملہ کا وہی مطلب ، یعنی حضرت علی(ع)کا ” اولی بالتصرف“ و صاحب اختیار ہوناہے ۔ کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جملہ ” من کنت مولاہ “ فرمانے سے پہلے یوں فرمایا تھا :
”الست اولیٰ بکم من انفسکم“
کیا میں تم لوگوں پر تمھارے نفوس سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا ہوں ؟
اس جملہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ” اولی بکم من انفسکم “ سے استفادہ فرمایا ہے اور اپنے آپ کو تمام لوگوں پر ان کے نفوس سے زیادہ صاحب اختیار بتایا ہے ۔
اس کے فوراً بعد فرماتے ہیں : ” من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ“
ان دو جملوں کی ترتیب سے ذکر کئے جانے کا مقصد کیا ہے ؟ کیا اس سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصد یہ نہیں ہے کہ علی(ع)بھی میر ی طرح لوگوں کے نفوس پر صاحب اختیار ہےں جسے آپ نے پہلے اپنے لئے ثابت فرمایا اور یہ جو آپ نے فرمایا کہ : ” اے لوگو! وہی منصب و مقام جس کا میں حامل ہوں ، علی(ع)بھی اسی منصب کے حامل ہیں “ اگر پیغمبر کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ہوتا تو اپنی اولویت کے بارے میں پہلے لوگوں سے اقرار لینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
۴۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی تقریر کی ابتدا ء میں لوگوں سے اسلام کے تین اہم اصول ( توحید، نبوت ، معاد) کے بارے میں اقرار لیتے ہوئے فرمایا:
(
الَسْتمُْ تَشْهُدُون َ انَّ لاإِله إِلَّا اللهَ و َ انَّ مُحمّداً عَبْدُه وَ رَسُولُه وَ انَّ الْجَنَّةَ حَقٌ وَ النَّارَ حَقٌ
)
یعنی ، کیا تم لوگ گواہی نہیں دیتے ہو کہ خدا کے سوا کوئی پروردگار نہیں ہے ، محمد اس کا بندہ اور رسول ہے اور بھشت و جھنم حق ہیں۔
یہ اقرار لینے کا مقصد کیا ہے ؟ کیا اس کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ہے کہ پیغمبر اسلام لوگوں کے ذہنوں کو اس پر آمادہ کرنا چاہتے تھے کہ علی کے بارے میں جس منصب کا اعلان کرنے والے ہیں وہ انھی اصولوں کے مانند اہم ہے ، اور لوگ جان لیں کہ آپ کی ولایت و خلافت کا اقرار اسلام کے مذکورہ تین اصول کے مانند ہے جس کا سب نے اقرار و اعتراف کیا ہے ؟ اگر ”مولیٰ“ کا مقصد دوست اور مددگار لیا جائے تو اس صورت میں جملوں کا سلسلہ ہی ٹوٹ جاتا ہے اور پیغمبر کے کلام کی بلاغت و پائداری ختم ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ منصب ولایت سے الگ ھٹ کر حضرت علی (ع)خودایسے عظیم مسلمان تھے جنھوں نے ایسے معاشرہ میں پرورش پائی تھی جہاں پر تمام مؤمنوں سے دوستی کی ضرورت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی چہ جائیکہ علی (ع)جیسے مؤمن سے دوستی جسے پیغمبر اس اہتمام و شان کے ساتھ ایک بڑے اجتماع میں اعلان فرماتے ! اور اس صورت میں یہ امر اتنا اہم بھی نہیں تھا کہ اسلام کے تین بنیادی اصولوں کے برابر قرار پاتا ۔
۵۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے خطبہ کے آغاز میں اپنی رحلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
”انه یوشک ان ادعی فاجیب
“
” قریب ہے کہ میں دعوت حق کو لبیک کھوں“
یہ جملہ اس امر کی حکایت کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی رحلت کے بعد کےلئے کوئی اہتمام و اقدام کرنا چاہتے تھے تا کہ اپنے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پر کریں۔
اور بلاشبہ واضح ہے کہ جو چیز اس خلا کو پر کرسکتی تھی وہ صرف حضرت علی(ع)کی خلافت و امامت تھی کہ رسول خدا کی رحلت کے بعد امور کی باگ ڈور حضرت علی(ع)اپنے ہاتہ میںلے لیں ، نہ کہ علی(ع)کی محبت و دوستی یا ان کی نصرت و مدد !
۶۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جملہ ”من کنت مولا ه
''کے بعد یوں فرمایا:
الله اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة و رضی الرب برسالتی و الولایة لعلی بن ابی طالب
میں خدا کی طرف سے تکمیل دین ، اتمام نعمت ، اپنی رسالت اور علی(ع)ابن ابیطالب کی ولایت پر تکبیر کھتا ہوں۔
۷۔ اس سے واضح اور بہتر کیا گواہی ہوسکتی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منبر سے نیچے تشریف لانے کے بعد شیخین اور اصحاب رسول کی ایک بڑی جماعت نے حضرت علی(ع)کی خدمت میں مبارک باد پیش کی اور مبارک بادی کا یہ سلسلہ سورج ڈوبنے تک جاری رہا؟
مزے کی بات یہ ہے کہ شیخین پہلے افراد تھے جنھوں نے امام(ع)سے کھا:
”هنیئاً لک یا علی بن ابی طالب اصبت و امسیت مولی کل مؤمن و مومنة
“
” مبارک ہو آپ کو یہ منصب ، اے علی (ع)! کہ آپ ہر مومن زن و مرد کے مولیٰ ہوگئے“
حقیقت میں حضرت علی(ع)اس روز امت کی سرپرستی و رہبری کے علاوہ کسی اور منصب کے مالک نہیں بنے تھے جبھی وہ اس قسم کی مبارکباد کے مستحق قرار پائے اور اسی وجہ سے اس دن ایسے کی بے مثال تقریب اور ایسے عظیم اجتماع کا اہتمام کیا گیا ۔
۸۔ اگر مقصد صرف علی(ع)کی دوستی کا اعلان تھا تو یہ ضروری نہیں تھا کہ پیغمبر اسلام ایسے موسم گرما میں حجاج کے ایک لاکہ کے مجمع کو رکوا کر اور لوگوں کو تپتی ریت پر بٹھا کر مفصل خطبہ بیان کرتے اور اس کے بعد ا س مسئلہ کو پیش کرتے ۔
کیا قرآن مجید نے مؤمن افراد کو ایک دوسرے کا بھائی نہیں پکارا ہے ؟ جیسا کہ فرمایا ہے :
(
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ
)
)
” با ایمان لوگ آپس میں ایک دوسر کے بھائی ہیں“
کیا قرآن مجید نے مؤمنوں کا تعارف ایک دوست کے دوسرے کی حیثیت سے نہیں کرایا ہے جیسا کہ فرماتا ہے :
(
و َ المُؤمِنُونَ وَ المُؤْمِنَٰتُ بَعْضُهُمْ اوْلِیاءُ بَعْضٍ
)
”با ایمان لوگ ایک دوسرے کے دوست ہیں “
علی(ع)بھی تو اسی با ایمان معاشرے کی ایک فرد تھے ، اس لئے اس کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الگ سے اور وہ بھی اس اہتمام کے ساتھ علی(ع)کی دوستی اور محبت کا اعلان فرماتے !!
جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ، کہ حدیث غدیر کا مقصد علی(ع)کی دوستی یا ان کی نصرت و مدد کو ضروری قرار دینا تھا اور پیغمبر کے خطبہ میں لفظ ”مولیٰ“ دوست یا ناصر کے معنی میں ہے ، در حقیقت تعصب پر مبنی ایک قسم کی غیر منصفانہ تفسیر اور بہت بچگانہ باتیں ہیں ۔ گزشتہ قرائن اور اس خطبہ کے اول سے آخر تک بغور مطالعہ کے بعد یہ ناقابل انکار حقیقت معلوم ہوجاتی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خطبہ میں ”مولیٰ“ کا ایک ہی معنی ہے ، یعنی ” صاحب اختیار“ (اولی بالتصرف) ہونا۔ اور اگر یہ کھا جائے کہ اس کا مقصد سیادت اور آقائی ہے اور مولیٰ ” سید “ کے معنی میں ہے تو اس سیادت کا مقصد وہ دینی والٰہی سیادت ہے جو امام کی اطاعت کو لوگوں پر واجب اور ضروری قرار دیتی ہے۔
____________________