امت کی رہبری

امت کی رہبری0%

امت کی رہبری مؤلف:
زمرہ جات: امامت

امت کی رہبری

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 20246
ڈاؤنلوڈ: 4333

تبصرے:

امت کی رہبری
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 38 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20246 / ڈاؤنلوڈ: 4333
سائز سائز سائز
امت کی رہبری

امت کی رہبری

مؤلف:
اردو

انیسویں فصل

حدیث غدیر(دوسراحصہ)

غدیر کا تاریخی واقعہ ایک ابدی حقیقت

۱۸ ذی الحجة کی دوپھر کا وقت تھا ، سورج کی تمازت نے غدیر خم کی سرزمین کو جھلسا رکھا تھا ۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد__جس کے بارے میں ۷۰ ھزار سے ۱۲۰ ھزار تک لکھا گیا__ پیغمبر کے حکم سے وہاں پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھی اور یہ لوگ اس دن رونما ہونے والے تاریخی واقعہ کا انتظار کررہے تھے۔ گرمی کی شدت کا یہ عالم تھا کہ ، لوگوں نے اپنی ردائیں تہ کرکے آدھی سر پر اور آدھی پاؤں کے نیچے رکھی تھیں ۔

ان حساس لمحات میں اذان ظھر کی آواز سے تمام صحرا گونج اٹھا ، اور لوگ نماز ظھر کےلئے آمادہ ہوئے ، پیغمبر اکرم نے اس عظیم اور پرشکوہ اجتماع __ کہ سرزمین غدیر پہ ایسا عظیم نہیں ہوا تھا__کے ساتھ نماز ظھر ادا کی ۔ اس کے بعد آپ لوگوں کے درمیان تشریف لائے اور اونٹوں کے پالان سے بنے ایک بلند منبر پرجلوہ افروز ہوکر بلند آواز سے خطبہ دینا شروع کیا اور فرمایا:

” حمد و ستائش تنھا خدا کے لئے ہے ، ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں ، اور اسی پر توکل کرتے ہیں ، اور اپنے نفس امارہ اور برائی کے شر سے محفوظ رہنے کےلئے اس خدا کی پناہ لیتے ہیں ، جس کے سوا گمراہوں کی ہدایت و راہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ جس کی خداوند کریم ہدایت کرے کوئی اسے گمراہ نہیں کرسکتا ہم اس خدا کی گواہی دیتے ہیں جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے ۔

اے لوگو! خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ ہر پیغمبر کی رسالت کی مدت اس سے پہلے کی رسالت کی آدھی ہوتی ہے ، اور میں جلدی ہی دعوت حق کو لبیک کھنے والا اور تم سے رخصت ہونے والا ہوں ، میں ذمہ دار ہوں اور تم لوگ بھی ذمہ دار ہو ، میرے بارے میں کیا سوچتے ہو؟

اصحاب رسول نے کھا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے دین خدا کی تبلیغ کی ، ہمارے بارے میں خیر خواہی کی اور ہماری نصیحت فرمائی اور اس راہ میں سعی و کوشش کی ، خدائے تعالی آپ کو جزائے خیر عطا کرے ۔

مجمع پر خاموشی چھاگئی تو پیغمبر نے فرمایا: کیا تم لوگ گواہی نہیں دیتے ہو کہ خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے ، جنت ، جھنم اور موت حق ہے ۔ بے شک قیامت آئے گی اور خدائے تعالیٰ زمین میں دفن لوگوں کوپھر سے زندہ کرے گا ؟

اصحاب رسول : جی ہاں ! جی ہاں ! ہم گواہی دیتے ہیں ۔

پیغمبر : میں تم لوگوں کے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں تم لوگ ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرو گے؟

ایک شخص : یہ دو گراں قدر چیزیں کیا ہیں ؟

پیغمبر : ثقل اکبر خدا کی کتاب ہے کہ اس کا ایک سرا خدا سے وابستہ اور دوسرا سرا تمھارے ہاتہ میں ہے ، خدا کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ ے رہو تا کہ گمراہ نہ ہواور ” ثقل اصغر“ میری عترت اور اہل بیت(ع)ھیں ۔ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ میری یہ دو یادگاریں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی۔

خبردار، اے لوگو: خدا کی کتاب اور میری عترت سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا اور نہ ان سے پیچھے رہنا تا کہ نابودی سے بچے رہو۔

اس موقع پر پیغمبر نے علی(ع)کا ہاتہ پکڑ کر انھیں اس قدر بلند کیا کہ آپ کے بغل کے نیچے کی سفیدی نمایاں ہوگئی اور تمام لوگوں نے علی(ع)کو پیغمبر کے پہلومیں دیکھا اور انھیں اچھی طرح سے پہچان لیا۔ سب سمجھ گئے کہ اس اجتماع کا مقصد، علی(ع)سے مربوط کوئی اعلان ہے ۔ سب شوق و بے تابی کے ساتھ پیغمبر کی بات سننے کے منتظر تھے۔

پیغمبر : اے لوگو! مؤمنوں پر ، خود ان سے زیادہ سزاوار کون ہے ؟

اصحاب پیغمبر : خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ہیں ۔

پیغمبر : ” خدا میرا مولا اور میں مؤمنوں کا مولا اور ان پر ، خود ان سے زیادہ اولی و سزاوار ہوں ۔ اے لوگو ! ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ'' یعنی جس جس کا میں مولا ---__ خود اس سے زیادہ اس پر سزاوار __ ہوں اس کے علی(ع)بھی مولا ہیں “ اور پیغمبر نے اس جملہ کو تین بار فرمایا(۱۴۰)

اس کے بعد فرمایا: پروردگارا! اس کو دوست رکہ ، جو علی (ع)کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکہ جو علی(ع)سے دشمنی کرے۔ خدایا ! علی(ع)کے دوستوں کی مدد فرما اور اس کے دشمنوں کو ذلیل و خوار فرما ۔ خداوندا ! علی کو مرکز حق قرار دے “

اس کے بعد پیغمبر نے فرمایا: ضروری ہے کہ اس جلسہ میں حاضر لوگ اس خبر کو غیر حاضروں تک پہنچادیں اور دوسروں کو بھی اس واقعہ سے باخبر کریں۔

ابھی غدیر کا اجتماع برقرار تھا کہ فرشتہ وحی تشریف لایا اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو بشارت دی کہ خداوند کریم فرماتا ہے : میں نے آج اپنے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردیں اور اس پر راضی ہو اکہ یہ کامل شدہ اسلام تمھارا دین ہو(۱۴۱)

یہاں پر پیغمبر اسلام نے تکبیر کی آواز بلند کرتے ہوئے فرمایا: میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ اس نے اپنے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تمام کردی اور میری رسالت اور میرے بعد علی(ع)کی ولایت پر خوشنود ہوا۔

اس کے بعد پیغمبر اپنی جگہ سے نیچے تشریف لائے ، آپ کے اصحاب گروہ گروہ آگے بڑھے اور علی (ع)کو مبارکباددی اور انھیں اپنے اور تمام مومنین و مومنات کا مولا کھا۔

اس موقع پر رسول خدا کا شاعر ” حسان بن ثابت “ اٹھا اور اس نے اس تاریخی روداد کو شعر کی صورت میں بیان کرکے اسے ابدی رنگ دیدیا۔ اس کے اس قصیدہ سے صرف دو ابیات کا ترجمہ یہاں پر ذکر کرتے ہیں :

” پیغمبر نے علی(ع)سے فرمایا : کھڑے ہوجاؤ! میںنے تمھیں اپنے بعد لوگوں کی قیادت اور راہنمائی کےلئے منتخب کیا ہے ۔(۱۴۲) جس کا میں مولا ہوں ، اس کے علی(ع)بھی مولا ہیں ۔

لوگو! تم لوگوں پر لازم ہے کہ علی(ع)کے سچے اور حقیقی دوست رہو ۔

اوپر بیان شدہ روداد غدیر کے واقعہ کا خلاصہ ہے جو اہل سنت علماء کے اسناد و مآخذمیں ذکر ہوا ہے ۔ شیعوں کی کتابوں میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔

مرحوم طبرسی نے اپنی کتاب ” احتجاج“ میں پیغمبر خدا سے ایک مفصل خطبہ نقل کیا ہے ، شائقین اس کتاب میں اس خطبہ کا مطالعہ کرسکتے ہیں(۱۴۳)

غدیر کا واقعہ لافانی و جاویدانی ہے

خدائے تعالیٰ کا حکیمانہ ارادہ یہی تھا کہ غدیر کا تاریخی واقعہ تمام زمانوں اور صدیوں میں ایک زندہ تاریخ کی صورت میں باقی رہے تا کہ ہر زمانے کے لوگ اس کی طرف جذب ہوں اور ہر زمانے میں اسلام کے اہل قلم تفسیر ، حدیث ، کلام اور تاریخ پر قلم اٹھاتے وقت اس موضوع پر لکھیں اور مذہبی مقررین ، وعظ و سخن کی مجلسوں میں اسے بیان کرتے ہوئے اس کو امام (ع)کے ناقابل انکار فضائل میں شمار کریں ۔ ادباء و شعراء بھی اس واقعہ سے الھام حاصل کرکے اپنے ادبی ذوق و شوق کو اس واقعہ سے مزین کرکے مولا کے تئیں اپنے جذبات مختلف زبانوں میں بھترین ادبی نمونوں کی صورت میں پیش کریں۔

یہ بات بلا سبب نہیں کہ انسانی تاریخ میں بہت کم ایسے واقعات گزرے ہیں جو واقعہ غدیر کی طرح علماء ، محدثین ، مفسرین ، متکلمین ، فلاسفہ ، مقررین ، شعراء ، مؤرخین و سیرت نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے ہیں ان سب نے اس واقعہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں ۔

بیشک اس واقعہ کے لافانی اور جاویدانی ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس واقعہ سے مربوط قرآن مجید میں دو آیتیں(۱۴۴) نازل ہوئی ہیں ۔چونکہ قرآن لافانی اور ابدی ہے اس لئے یہ واقعہ بھی لافانی ہوگیا ہے اور ہر گز ختم ہونے والا نہیں ہے۔

اس کے علاوہ چونکہ گزشتہ زمانہ میں اسلامی معاشرہ اور آج کا شیعہ معاشرہ اس روز کو مذہبی عیدوں میں ایک عظیم عید شمار کرتا ہے اور اس مناسبت سے ہر سا ل با شکوہ تقریبات منعقد کرتا ہے لھذا قدرتی طور پر غدیر کے تاریخی واقعہ نے ابدیت کا رنگ اختیار کرلیا ہے اور کبھی فراموش ہونے والا نہیں ہے۔

تاریخ کا مطالعہ کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ۱۸ ذی الجة الحرام کا دن مسلمانوں کے درمیان عید غدیر کے طور پر معروف تھا ، یہاں تک کہ ” ابن خلکان “ فاطمی خلیفہ مستعلی بن المستنصر کے بارے میں لکھتا ہے :

” سن ۴۸۷ء ہ عید غدیر کے دن ، کہ ۱۸ ذی الحجة الحرام ہے ، لوگوں نے اس کی بیعت کی(۱۴۵) المستنصر بالله کے بارے میں ” العبیدی“ لکھتا ہے:

” وہ سن ۴۸۷ ھء میں جب ماہ ذی الحجة میں ۱۲ شبیں باقی بچی تھیں ، فوت ہوا ، یہ شب وہی ۸ اویں ذی الحجة کی شب ہے ، اور شب عید غدیر ہے“(۱۴۶)

ابن خلکان نے ہی اس شب کو عید غدیر کی شب کا نام نہیں دیا ہے بلکہ ” مسعودی“(۱۴۷) # اور ”ثعالبی“(۱۴۸) نے بھی اس شب کوامت اسلامیہ کی مشھور و معروف شبوں میں شمار کیا ہے۔

عید غدیر کے دن جشن و سرور کی تقریبات کا سلسلہ اس دن خود پیغمبر کے عمل سے شروع ہوا ہے۔ کیونکہ اس دن پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے مھاجرین و انصار بلکہ اپنی بیویوں کو بھی حکم دیا تھا کہ علی(ع)کے پاس جاکر انھیں اس عظیم فضیلت کی مبارکباد دیں۔

زید بن ارقم کہتے ہیں : مھاجرین میں سے سب سے پہلے جن افراد نے علی(ع)کے ہاتہ پر بیعت کی ، ابو بکر ، عمر ، عثمان ، طلحہ اور زبیر تھے اور مبارکبادکی یہ تقریب اس دن سورج ڈوبنے تک جاری رہی۔

واقعہ کی لافانیت کے دیگر دلائل

اس تاریخی واقعہ کی اہمیت کےلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ۱۱۰ صحابیوں نے اسے نقل کیا ہے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اتنی بڑی جمعیت میں سے صرف ان ہی افراد نے غدیر کے واقعہ کو نقل کیا ہے، بلکہ سنی علماء کی کتابوں میں اس واقعہ کے صرف ۱۱۰ راوی ذکر ہوئے ہیں ۔ یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم نے ایک لاکہ کے مجمع میں تقریر فرمائی، لیکن ان میں بہت سے لوگ حجاز سے دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے تھے ، جن سے کوئی حدیث نقل نہیں ہوئی ہے ، یا اگر نقل ہوئی بھی ہو تو ہم تک نہیں پھنچی ہے۔ ان میں سے اگر کسی جماعت نے اس واقعہ کو نقل بھی کیا ہے تو تاریخ ان کے نام درج کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

دوسری صدی ہجری میں -- __جو عصر تابعین کے نام سے مشھور ہے __ نواسی افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔

بعد والی صدیوں میں حدیث کے بہت سے راوی سنی علماء تھے ان میں سے تین سو ساٹہ راویوں نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور ان میںسے بہت سے لوگوں نے اس حدیث کے صحیح اور محکم ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔

تیسری صدی ہجری میں ۹۲ (بانبے) سنی علماء نے ، چوتھی صدی میں تینتالیس( ۴۳) ، پانچویں صدی میں جوبیس(۲۴) ، چھٹی صدی میں بیس(۲۰) ، ساتویں صدی میں اکیس(۲۱) ، آٹھویں صدی میں اٹھارہ(۱۸) ، نویں صدی میں سولہ(۱۶) ، دسویں صدی میں(۱۴) چودہ ، گیارہوں صدی میں بارہ(۱۲) ، بارہویں صدی میں تیرہ(۱۳) ، تیرہویں صدی میں بارہ(۱۲) اور چودھویں صدی میں بیس(۲۰) سنی علماء نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔

مذکورہ علماء کی ایک جماعت نے اس حدیث کی نقل پر ہی اکتفاء نہیں کی ہے بلکہ اس کے اسناد اور مفھوم پر مخصوص کتابیں لکھی ہےں۔

عالم اسلام کے عظیم اور نامور تاریخ دان ، طبری نے ” الولایة فی طرق حدیث الغدیر “ کے موضوع پر کتاب لکھی ہے اور اس میں اس حدیث کو ستر(۷۰) سے زیادہ طریقوں سے ، پیغمبر اکرم صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے۔

ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ” ولایت“ میں اس حدیث کو ایک سو پچاس(۱۴۹) افرادسے نقل کیا ہے۔

جن افراد نے اس تاریخی واقعہ کی خصوصیات کے بارے میں مخصوص کتابیں لکھی ہیں ، ان کی تعداد چھبیس(۲۶) ہے ۔ ممکن ہے اس سے زیادہ افراد ہوں جنھوں نے اس موضوع پر کتابیں یا مقالات لکھے ہیں لیکن تاریخ میں ان کا نام درج نہیں ہوا ہے یا ہماری رسائی ان تک نہیں ہے۔

شیعہ علماء نے بھی اس تاریخی واقعہ پر گراں بھا کتابیں لکھی ہیں کہ ان تمام کتابوں میں جامع ترین اور تاریخی کتاب علامہ مجاہد مرحوم آیت اللہ امینی کی کتاب ” الغدیر“ ہے ۔

ھم نے امام (ع)کی زندگی کے اس پہلوکے بارے میں ان کی اس کتاب سے کافی استفادہ کیا ہے۔

____________________

۱۴۰۔ احمد بن حنبل کا کھنا ے کہ پیغمبر نے اس جملہ کو چار بار فرمایا

۱۴۱۔ (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَ اتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلاَمَ دِینًا )(مائدہ/ ۳)

۱۴۲فقال له قم یا علی فاننی

رضیتک من بعدی اماماً و هادیا

فمن کنت مولاه فهذا ولیه

فکونو له اتباع صدق موالیا

۱۴۳۔ احتجاج طبرسی ، ج ۱ ص ۷۱ تا ۷۴ طبع ، نجف ۔

۱۴۴۔ آیہ ، (یَا ایُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا انْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّک ") (مائدہ / ۶۷ )، اور آیہ شریفہ (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَ اتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی ") (مائدہ /۳)

۱۴۵۔ وفیات الاعیان ، ج۱، ص ۶۰ ۔

۱۴۶۔ وفیا ت الاعیان ، ج۱، ص ۲۲۳۔

۱۴۷۔ التنبیہ و الاشراف ، ص ۲۲ ۔

۱۴۸۔ ثمارة القلوب ، ص ۵۱۱۔

۱۴۹۔حدید/ ۱۵

بیسویں فصل

حدیث غدیر(تیسرا حصہ)

غدیر کے با شکوہ اجتماع کا مقصد ؟

گزشتہ بحثوں سے اچھی طرح واضح اور ثابت ہوگیا کہ غدیر کا واقعہ قطعی اور یقینی طور پر ایک تاریخی واقعہ ہے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبھہ کرنا بدیہی امور میں شک کرنے کے مترادف ہے ۔ اسلامی احادیث میں شاید ہی کوئی ایسی حدیث ہو جو متواتر اور قطعی ہونے کے لحاظ سے اس حدیث کی برابری کر سکے ۔

اس لئے ہم اس کی سند کے بارے میں مزید بحث و گفتگو نہیں کریں گے بلکہ اب اس کے مفاد و مفھوم کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس حدیث کو سمجھنے کی کنجی یہ ہے کہ جملہ ”من کنت مولاه فعلی مولاه'' میں وارد شدہ لفظ ”مولیٰ“ کو سمجھ لیں اس لفظ کے معنی کو سمجھنے کے بعد قدرتی طور پر حدیث کا مفھوم بھی واضح ہوجائے گا ۔

سب سے پہلے یہ امر قابل غور ہے کہ قرآن مجید میں لفظ ”مولیٰ“ ، اولی“ اور ” ولی“ کے معنی میں استعمال ہو ا ہے ، جیسے:

۱۔( فاَلْیَومَ لاَ یُؤْخَذُ مِنْکُمْ فِدْیَةٌ وَ لاَ مِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مَاوَاکُمُ النّارُ هِیَ مَولَ-ٰک-ُمْ وَ بِئْسَ الْمَصِیرُ )

تو آج ( قیامت کے دن) نہ تم سے کوئی فدیہ یا عوض لیا جائے گا اور نہ کفار سے ، تم سب کا ٹھکانا جھنم ہے وہی تم سب کا صاحب اختیار (مولا) ہے اور تمھارا بدترین انجام ہے۔(۱۵۰)

اسلام کے بڑے اور نامور مفسرین اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں کہتے ہیں : اس آیت میں ”مولیٰ“ کا لفظ ” اولی“ کے معنی میں ہے ، کیونکہ یہ افراد ، جو ناشائستہ اور برے اعمال کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کےلئے ان اعمال کے عوض جھنم کی آگ کے سوا کوئی اور چیز سزاوار نہیں ہے(۱۵۰)

۲۔( یَدْعُوا لَمَنْ ضَرَّه اقْرَبُ مِنْ نَّفْعِه لَبِئْسَ الْمَولٰی وَ لَبِئْسَ الْعَشِیرُ )

”یہ اس بت کو پکارتا ہے جس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ قریب تر ہے وہ اس کا بدترین سرپرست ( ولی ) اور بدترین ساتھی ہے “۔(۱۵۱)

یہ آیہ شریفہ اپنے مضمون اور گزشتہ آیات کے قرینہ کی روشنی میں مشرکوں اور بت پرستوں کے عمل سے متعلق ہے کہ وہ بتوں کو اپنا صاحب اختیار ( ولی) جانتے تھے اور اسے اپنے سرپرست ( ولی) کی حیثیت سے مانتے تھے اور ” ولی“ کی حیثیت سے ہی ان کو پکارتے تھے۔

ان دو آیتوں اور اسی طرح دوسری آیات _ جن کے ذکر سے ہم صرف نظر کرتے ہیں _ سے اجمالی طور سے ثابت ہوتا ہے کہ ”مولیٰ“ کے معنی وہی ” اولیٰ“ اور ” ولی“ کے ہیں ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ جملہ ”من کنت مولاه فهذا علی مولاه'' کا مقصد کیا ہے ؟ کیا اس کا مقصد وہی نفوس پر تصرف رکھنے میں اولیٰ ہونا ہے جس کا لازمہ کسی شخص کا انسان پر ولایت مطلقہ رکھنا ہے یا حدیث کا مفھوم کچھ اور ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے تصور کیا ہے کہ حدیث غدیر میں ”مولیٰ“ دوست اور ناصر کے معنی میں ہے۔

بے شمار قرائن اس کے گواہ ہیں کہ ” مولیٰ“ سے مراد وہی پہلا معنی ہے جسے علماء اور دانشوروں نے ولایت مطلقہ سے تعبیر کیا ہے اور قرآن مجید نے خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں فرمایا ہے:

( اَلنَّبِیُّ اَوْلَٰی بِالْمُؤْمِنِینَ مَنْ انْفُسِهِمْ ) (۱۵۲)

بیشک نبی تمام مؤمنین سے ان کے نفوس کی نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔

اگر کوئی شخص ( تسلط اور تصرف کے لحاظ سے ) کسی کی جان پر خود اس سے زیادہ شائستہ و سزاوار ہو تو وہ قدرتی طور پر اس کے مال پر بھی یہی اختیار رکھتا ہوگا۔ اور جو شخص کسی انسان کی جان و مال پر اولی بالتصرف ہو ، وہ اس کے بارے میں ولایت مطلقہ رکھتا ہے۔

اس بنا پر انسان کو اس( ولی) اس کے تمام احکام کی موبمو اطاعت کرنی چاہئے اور جس چیز سے وہ منع کرے اس سے با ز رہنا چاہئے۔

یہ عھدہ اور منصب ، خدا کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیا گیا تھا ۔ آپ خود ذاتی طور پر ہرگز اس منصب و مقام کے حامل نہیں تھے۔

واضح تر الفاظ میں یوں کھا جائے گا کہ یہ خدائے تعالیٰ ہے جس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو لوگوںکی جان و مال پر مسلط فرمایا ہے ۔ آپ کو ہر قسم کے امر و نھی کے اختیارات دئے ہیں اور آپ کے احکام و اوامر کی مخالفت کو خدا کے احکام کی مخالفت جانا ہے ۔

چونکہ قطعی اور یقینی دلائل سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس حدیث میں ”مولیٰ“ کے معنی وہی ہیں جو آیہ شریفہ میں ” اولیٰ“ کے ہیں ، لھذا قدرتی طور پر امیر المؤمنین حضرت علی(ع)اسی منصب و مقام کے حامل ہوئے جس کے آیہ شریفہ کی نص کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے ، یعنی اپنے

زمانے میں امت کے پیشوا اور معاشرے کے رہبر اور لوگوں کی جان و مال پر اولی وبالتصرف کا اختیار رکھنے والے اور امامت کا یہی وہ عظیم اور بلند مرتبہ ہے جسے ولایت الھیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے ( یعنی وہ ولایت جو خدا کی طرف سے بعض خاص افراد کو وسیع پیمانے پر عطا ہوتی ہے )

اب ہم وہ قرائن و شواہد بیان کرتے ہیں جن سے پوری طرح ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث میں لفظ ” مولیٰ“ کے معنی تمام امور میں ( اولی بالتصرف) اور صاحب اختیار ہونے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔

ذیل میں ایسے چند شواہد ملاحظہ ہوں:

۱۔ غدیر کے تاریخی واقعہ کے دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شاعر حسّان بن ثابت حضور اکرم سے اجازت حاصل کرکے کھڑے ہوئے اورپیغمبر اکرم کے بیانات کے مضمون کو اشعار کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا ۔ یہاں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس فصیح ، بلیغ ، اور عربی زبان کے رموز سے واقف شخص نے لفظ ”مولیٰ“ کی جگہ پر امام و ہادی کا لفظ استعمال کیا ہے ، ملاحظہ ہو:

فقال له قم یا علی فاننی

رضیتک من بعدی اماماً و هادیا

یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی (ع)کی طرف رخ کرکے ان سے فرمایا: اٹھو کہ میں نے تمھیں اپنے بعد لوگوں کا امام و ہادی مقرر کردیا ہے “

واضح رہے کہ حسّان نے پیغمبر کے کلام میں موجود لفظ ” مولیٰ“ سے امت کی امامت ، پیشوائی اور ہدایت کے علاوہ کوئی اور معنی نہیں لئے ہیں(۱۵۳)

صرف حسّان ہی لفظ” مولیٰ“ سے یہ نہیں سمجھے ، بلکہ اس کے بعد بھی اسلام کے عظیم شعرا __جن میں سے اکثراعلیٰ درجے کے شعرا اور بعض عربی زبان کے استاد شمار ہوتے تھے__ نے بھی اس لفظ سے وہی معنی لئے ہیں جو حسان نے سمجھے تھے ، یعنی امت کی امامت و پیشوائی۔

۲۔ امیر المؤمنین(ع)نے معاویہ کو لکھے گئے اپنے چند اشعار میں حدیث غدیر کے بارے میں یوں فرمایا ہے:

و اوجب لی ولایتہ علیکم

رسول الله یوم غدیر خم

” رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میری ولایت کو تم لوگوں پر غدیر کے دن واجب فرمایا ہے “

علی(ع)سے بہتر کون ہوسکتا ہے جو ہمارے لئے حدیث کے حقیقی مفھوم کو واضح کر سکے ؟ جبکہ شیعہ و سنی آپ(ع)کے علم ،امانتداری اور تقویٰ کے سلسلے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت (ع)حدیث غدیر سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

” پیغمبر خدا نے غدیر کے دن میری ولایت کو تم لوگوں پر واجب فرمایا“

کیا اس وضاحت سے یہ مطلب نہیں نکلتا ہے کہ غدیر کے دن حاضر تمام لوگوں نے آنحضرت (ع)کے بیانات سے دینی سرپرستی اور معاشرے کی رہبری کے علاوہ کوئی اورمفھوم نہیں سمجھا تھا؟

خود حدیث میں ایسے قرائن موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کے اس جملہ کا وہی مطلب ، یعنی حضرت علی(ع)کا ” اولی بالتصرف“ و صاحب اختیار ہوناہے ۔ کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جملہ ” من کنت مولاہ “ فرمانے سے پہلے یوں فرمایا تھا :

”الست اولیٰ بکم من انفسکم“

کیا میں تم لوگوں پر تمھارے نفوس سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا ہوں ؟

اس جملہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ” اولی بکم من انفسکم “ سے استفادہ فرمایا ہے اور اپنے آپ کو تمام لوگوں پر ان کے نفوس سے زیادہ صاحب اختیار بتایا ہے ۔

اس کے فوراً بعد فرماتے ہیں : ” من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ“

ان دو جملوں کی ترتیب سے ذکر کئے جانے کا مقصد کیا ہے ؟ کیا اس سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصد یہ نہیں ہے کہ علی(ع)بھی میر ی طرح لوگوں کے نفوس پر صاحب اختیار ہےں جسے آپ نے پہلے اپنے لئے ثابت فرمایا اور یہ جو آپ نے فرمایا کہ : ” اے لوگو! وہی منصب و مقام جس کا میں حامل ہوں ، علی(ع)بھی اسی منصب کے حامل ہیں “ اگر پیغمبر کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ہوتا تو اپنی اولویت کے بارے میں پہلے لوگوں سے اقرار لینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔

۴۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی تقریر کی ابتدا ء میں لوگوں سے اسلام کے تین اہم اصول ( توحید، نبوت ، معاد) کے بارے میں اقرار لیتے ہوئے فرمایا:

( الَسْتمُْ تَشْهُدُون َ انَّ لاإِله إِلَّا اللهَ و َ انَّ مُحمّداً عَبْدُه وَ رَسُولُه وَ انَّ الْجَنَّةَ حَقٌ وَ النَّارَ حَقٌ )

یعنی ، کیا تم لوگ گواہی نہیں دیتے ہو کہ خدا کے سوا کوئی پروردگار نہیں ہے ، محمد اس کا بندہ اور رسول ہے اور بھشت و جھنم حق ہیں۔

یہ اقرار لینے کا مقصد کیا ہے ؟ کیا اس کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ہے کہ پیغمبر اسلام لوگوں کے ذہنوں کو اس پر آمادہ کرنا چاہتے تھے کہ علی کے بارے میں جس منصب کا اعلان کرنے والے ہیں وہ انھی اصولوں کے مانند اہم ہے ، اور لوگ جان لیں کہ آپ کی ولایت و خلافت کا اقرار اسلام کے مذکورہ تین اصول کے مانند ہے جس کا سب نے اقرار و اعتراف کیا ہے ؟ اگر ”مولیٰ“ کا مقصد دوست اور مددگار لیا جائے تو اس صورت میں جملوں کا سلسلہ ہی ٹوٹ جاتا ہے اور پیغمبر کے کلام کی بلاغت و پائداری ختم ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ منصب ولایت سے الگ ھٹ کر حضرت علی (ع)خودایسے عظیم مسلمان تھے جنھوں نے ایسے معاشرہ میں پرورش پائی تھی جہاں پر تمام مؤمنوں سے دوستی کی ضرورت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی چہ جائیکہ علی (ع)جیسے مؤمن سے دوستی جسے پیغمبر اس اہتمام و شان کے ساتھ ایک بڑے اجتماع میں اعلان فرماتے ! اور اس صورت میں یہ امر اتنا اہم بھی نہیں تھا کہ اسلام کے تین بنیادی اصولوں کے برابر قرار پاتا ۔

۵۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے خطبہ کے آغاز میں اپنی رحلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

انه یوشک ان ادعی فاجیب

” قریب ہے کہ میں دعوت حق کو لبیک کھوں“

یہ جملہ اس امر کی حکایت کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی رحلت کے بعد کےلئے کوئی اہتمام و اقدام کرنا چاہتے تھے تا کہ اپنے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پر کریں۔

اور بلاشبہ واضح ہے کہ جو چیز اس خلا کو پر کرسکتی تھی وہ صرف حضرت علی(ع)کی خلافت و امامت تھی کہ رسول خدا کی رحلت کے بعد امور کی باگ ڈور حضرت علی(ع)اپنے ہاتہ میںلے لیں ، نہ کہ علی(ع)کی محبت و دوستی یا ان کی نصرت و مدد !

۶۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جملہ ”من کنت مولا ه ''کے بعد یوں فرمایا:

الله اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة و رضی الرب برسالتی و الولایة لعلی بن ابی طالب

میں خدا کی طرف سے تکمیل دین ، اتمام نعمت ، اپنی رسالت اور علی(ع)ابن ابیطالب کی ولایت پر تکبیر کھتا ہوں۔

۷۔ اس سے واضح اور بہتر کیا گواہی ہوسکتی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منبر سے نیچے تشریف لانے کے بعد شیخین اور اصحاب رسول کی ایک بڑی جماعت نے حضرت علی(ع)کی خدمت میں مبارک باد پیش کی اور مبارک بادی کا یہ سلسلہ سورج ڈوبنے تک جاری رہا؟

مزے کی بات یہ ہے کہ شیخین پہلے افراد تھے جنھوں نے امام(ع)سے کھا:

هنیئاً لک یا علی بن ابی طالب اصبت و امسیت مولی کل مؤمن و مومنة

” مبارک ہو آپ کو یہ منصب ، اے علی (ع)! کہ آپ ہر مومن زن و مرد کے مولیٰ ہوگئے“

حقیقت میں حضرت علی(ع)اس روز امت کی سرپرستی و رہبری کے علاوہ کسی اور منصب کے مالک نہیں بنے تھے جبھی وہ اس قسم کی مبارکباد کے مستحق قرار پائے اور اسی وجہ سے اس دن ایسے کی بے مثال تقریب اور ایسے عظیم اجتماع کا اہتمام کیا گیا ۔

۸۔ اگر مقصد صرف علی(ع)کی دوستی کا اعلان تھا تو یہ ضروری نہیں تھا کہ پیغمبر اسلام ایسے موسم گرما میں حجاج کے ایک لاکہ کے مجمع کو رکوا کر اور لوگوں کو تپتی ریت پر بٹھا کر مفصل خطبہ بیان کرتے اور اس کے بعد ا س مسئلہ کو پیش کرتے ۔

کیا قرآن مجید نے مؤمن افراد کو ایک دوسرے کا بھائی نہیں پکارا ہے ؟ جیسا کہ فرمایا ہے :

( اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ) )(۱۵۴)

” با ایمان لوگ آپس میں ایک دوسر کے بھائی ہیں“

کیا قرآن مجید نے مؤمنوں کا تعارف ایک دوست کے دوسرے کی حیثیت سے نہیں کرایا ہے جیسا کہ فرماتا ہے :

( و َ المُؤمِنُونَ وَ المُؤْمِنَٰتُ بَعْضُهُمْ اوْلِیاءُ بَعْضٍ )

”با ایمان لوگ ایک دوسرے کے دوست ہیں “(۱۵۵)

علی(ع)بھی تو اسی با ایمان معاشرے کی ایک فرد تھے ، اس لئے اس کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الگ سے اور وہ بھی اس اہتمام کے ساتھ علی(ع)کی دوستی اور محبت کا اعلان فرماتے !!

جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ، کہ حدیث غدیر کا مقصد علی(ع)کی دوستی یا ان کی نصرت و مدد کو ضروری قرار دینا تھا اور پیغمبر کے خطبہ میں لفظ ”مولیٰ“ دوست یا ناصر کے معنی میں ہے ، در حقیقت تعصب پر مبنی ایک قسم کی غیر منصفانہ تفسیر اور بہت بچگانہ باتیں ہیں ۔ گزشتہ قرائن اور اس خطبہ کے اول سے آخر تک بغور مطالعہ کے بعد یہ ناقابل انکار حقیقت معلوم ہوجاتی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خطبہ میں ”مولیٰ“ کا ایک ہی معنی ہے ، یعنی ” صاحب اختیار“ (اولی بالتصرف) ہونا۔ اور اگر یہ کھا جائے کہ اس کا مقصد سیادت اور آقائی ہے اور مولیٰ ” سید “ کے معنی میں ہے تو اس سیادت کا مقصد وہ دینی والٰہی سیادت ہے جو امام کی اطاعت کو لوگوں پر واجب اور ضروری قرار دیتی ہے۔

____________________

۱۵۰۔ای اولی لکم ما اسلفتم من الذنوب ۔

۱۵۱۔ حج / ۱۳۔

۱۵۲۔ احزاب ۶

۱۵۳۔ مناقب خوارزمی ص ۸۰ وغیرہ۔

۱۵۴۔ حجرات / ۱۵

۱۵۵۔توبہ / ۷۱