اکیسویں فصل
دو سوالوں کے جواب
دو سوال
پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی ںکی بلا فصل خلافت کا اعلان غدیر خم میں کر دیا اور ان کی اطاعت و پیروی تمام مسلمانوں پر لازم و واجب قرار دے دی ۔یہاں دو سوال سامنے آتے ہیں۔
۱۔ جب حضرت علی ںکی جانشینی کا اعلان ایسے مخصوص دن کر دیا گیاتھا تو پھر اصحاب نے آنحضر ت کی رحلت کے بعدحضرت علیںکی وصایت و ولی عھدی کو اندیکھا کرتے ہوئے کسی اور کی پیروی کیوں کی ؟
۲۔ امام علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اپنی امامت کو ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے استدلال کیوں نہیں کیا؟
پھلے سوال کا جواب :
اگرچہ اصحاب پیغمبر کے ایک گروہ نے حضرت علی ںکی جانشینی کو فراموش کرتے ہوئے غدیر کے الٰہی فرمان سے چشم پوشی کرلی اور بہت سے لاتعلق و لاپرواہ لوگوں نے -- جن کی مثالیں ہر معاشرہ میں بہت زیادہ نظر آتی ہیں-- --- --ان لوگوں کی پیروی کی ،لیکن ان کے مقابل ایسی نمایاں شخصیتیں اور اہم افراد بھی تھے جو حضرت علیںکی امامت و پیشوائی کے سلسلہ میں وفادار رہے ۔ اور انھوں نے امام علی ںکے علاوہ کسی اور کی پیروی نہیں کی ۔ یہ افراد اگر چہ تعداد میں پہلے گروہ سے کم اور اقلیت شمار ہوتے تھے ،لیکن کیفیت و شخصیت کے اعتبار سے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ممتاز اصحاب میں شمار ہوتے تھے جیسے :سلمان فارسی ،ابوذر غفاری ،مقداد بن اسود ، عمار یاسر ،ابی بن کعب ،ابو ایوب انصاری ،خزیمہ بن ثابت ،بریدہ اسلمی ، ابوہثیم بن التیھان،خالد بن سعید اور ایسے ہی بہت سے افراد کہ تاریخ اسلام نے ان کے نام اور ان کی زندگی کے خصوصیات و نیک صفات ، موجودہ خلافت پر ان کی تنقیدیں اورامیر المومنین علی ںسے ان کی وفاداریوں کو پوری باریکی کے ساتھ محفوظ کیا ہے۔
تاریخ اسلام نے دو سو پچاس صحابیوں کا ذکر کیا ہے کہ یہ سب کے سب امام کے وفادار تھے اور زندگی کے آخری لمحہ تک ان کے دامن سے وابستہ رہے ۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے امام کی محبت میں شھادت کا شرف بھی حاصل کیا۔
افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ہے کہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی وصایت و ولایت کا مسئلہ ہی نہیں ہے جس میں آنحضرت کے صریح و صاف حکم کے باوجود پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعض صحابیوں نے مخالفت اور آنحضرت کے حکم سے چشم پوشی کی ،بلکہ تاریخ کے صفحات کی گواہی کے مطابق خود پیغمبر کے زمانہ میں بھی بعض افراد نے آنحضرت کے صاف حکم کو اندیکھا کیا ، اس کی مخالفت کی اور اس کے خلاف اپنے نظریہ کا اظھار کیا ۔
دوسری لفظوں میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعض اصحاب جب آنحضرت کے حکم کو اپنے باطنی خواہشات اور سیاسی خیالات کے مخالف نہیں پاتے تھے تو دل سے اسے قبول کرلیتے تھے ۔ لیکن اگر پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تعلیمات کے کسی حصہ کو اپنے سیاسی افکار و خیالات اور اپنی جاہ پسند خواہشات کے خلاف پاتے تھے تو پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اس کام کی انجام دھی سے روکنے کی کوشش کرتے تھے اور اگر پیغمبر اپنی بات پر جمے رہتے تو آنحضرت کے حکم سے سرتابی کی کوشش کرتے تھے یا اعتراض کرنے لگتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ خود پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان کی پیروی کریں۔
ذیل میں ہم بعض اصحاب کی اس ناپسندیدہ روش کے چند نمونے بیان کرتے ہیں:
۱۔ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حکم دیا کہ میرے لئے قلم و دوات لے آؤ تاکہ میں ایک ایسی تحریر لکہ دوں جس کی روشنی میں میرے بعد میری امت کبھی گمراہ نہ ہو۔لیکن وہاں موجود بعض افراد نے اپنی مخصوص سیاسی سوجہ بوجہ سے یہ سمجھ لیا کہ اس تحریر کا مقصد اپنے بعد کے لئے جانشین کے تعین کا تحریری اعلان ہے لھٰذا پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صریحی حکم کی مخالفت کر بیٹھے اور لوگوں کو قلم و کاغذ لانے سے روک دیا!
ابن عباس نے اپنی آنکھوں سے اشک بھاتے ہوئے کھا : مسلمانوں کی مصیبت اور بدبختی اسی روز سے شروع ہوئی جب پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیمار تھے اور آپ نے اس وقت قلم کا غذ لانے کا حکم دیا تاکہ ایسی چیز لکہ دیں کہ ان کے بعد امت اسلام گمراہ نہ ہو ۔لیکن اس موقع پر بعض حاضرین نے جھگڑا اور اختلاف شروع کردیا ۔بعض لوگوں نے کھا: قلم ،کا غذ لے آؤ بعض نے کھا نہ لاؤ ۔ آخر کار پیغمبر نے جب یہ جھگڑا اور اختلاف دیکھا تو جو کام انجام دینا چاہتے تھے نہ کر سکے۔
۲۔ مسلمانوں کے لشکر کے سردار ”زید بن حارثہ"رومیوں کے ساتھ ،جنگ موتہ میں قتل ہوگئے
اس واقعہ کے بعد پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک فوج تشکیل دی اور مھاجرین وانصار کی تمام شخصیتوں کو اس میں شرکت کاحکم دیا اور لشکر کاعلم اپنے ہاتھوں سے ”اسامہ ابن زید“کے حوالے کیا۔ناگہاں اسی روز آنحضرت کو شدید بخار آیاجس نے آنحضرت کو سخت مریض کردیا۔اس دوران پیغمبر کے بعض اصحاب کی جانب سے اختلاف ،جھگڑے اور پیغمبر خدا کے صاف حکم سے سرتابی کاآغاز ہوا۔بعض لوگوں نے ”اسامہ"جیسے جوان کی سرداری پر اعتراض کرتے ہوئے اپنے غصہ کااظھار کیا اور آنحضرت سے اس کی معزولی کامطالبہ کیا۔ ایک گروہ جن کے لئے آنحضرت کی موت قطعی ہوچکی تھی،جھاد میں جانے سے ٹال مٹول کرنے لگا کہ ایسے حساس موقع پر مدینہ سے باہر جانا اسلام اور مسلمانوں کے حق میں اچھا نہیں ۔
پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب بھی اپنے اصحاب کی اس ٹال مٹول اور لشکر کی روانگی میں تاخیر سے آگاہ ہوتے تھے تو آپ کی پیشانی اور چھرہ سے غصہ کے آثار ظاہر ہونے لگتے تھے اور اصحاب کو آمادہ کرنے کے لئے دوبارہ تاکید کے ساتھ حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے :جلد ازجلد مدینہ ترک کرو اور روم کی طرف روانہ ہوجاو۔لیکن اس قدر تاکیدات کے باوجود ان ہی اسباب کے پیش نظر جو اوپر بیان ہوچکے ہیں،ان افراد نے آنحضرت کے صاف وصریح حکم کو ان سنا کردیا اور اپنی ذاتی مرضی آگے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیھم تاکیدات کو ٹھکرادیا۔
۳۔ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے فرمان سے بعض اصحاب کی مخالفت کے یہی دو مذکورہ نمونے نہیں ہیں۔ اس قسم کے افراد نے سرزمین ”حدیبیہ" پر بھی،جب آنحضرت قریش سے صلح کی قرار داد باندہ رہے تھے،سختی کے ساتھ آنحضرت کی مخالفت کی اور ان پر اعتراض اور تنقیدیں کیں۔
پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد ان لوگوں کی آنحضرت کے دستورات سے مخالفت اس سے زیادہ ہے۔کیونکہ ان ہی افراد نے بعض اسباب کے تحت نماز اور اذان کی کیفیت میں تبدیلی
کردی ”ازدواج موقت“کی آیت کو ان دیکھا کردیا ماہ رمضان مبارک کی شبوں کے نوافل کوجنھیں فرادیٰ پڑھنا چاہئے ایک خاص کیفیت کے ساتھ جماعت میں تبدیل کردیا اور میراث کے احکام میں بھی تبدیلیاں کیں۔
ان میں سے ہر ایک تبدیلیوں اور تحریفوں اور آنحضرت کے حکم سے ان سرتا بیوں کے اسباب و علل اور اصطلاحی طور سے ”نص کے مقابلہ میں اجتھاد“کی تشریح اس کتاب میں ممکن نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں کتاب ”المراجعات“کے صفحات ۲۱۸۔۲۸۲تک اور ایک دوسری کتاب ”النص و الاجتھاد “ کا مطالعہ مفید ہوگا ،جو اسی موضوع سے متعلق لکھی گئی ہے۔
اصحاب پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مخالفت اور شرارت اس قدربڑہ گئی تھی کہ قرآن مجید نے انھیں سخت انداز میں رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے دستورات سے مخالفت اور ان پر سبقت کرنے سے منع کیا چنانچہ فرماتا ہے:
(
فلیحذر الذین یخالفون عن امره ان تصیبهم فتنة او یصیبهم عذاب الیم
)
یعنی جو لوگ رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے فرمان کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس بات سے ڈریں کہ کہیں کسی بلا یا درد ناک عذاب میں مبتلا نہ ہوں۔
اور فرماتاہے :
(
یا ایها الذین آمنوا لا تقدموا بین یدی الله و رسوله واتقوا اللّٰه ان الله سمیع علیم
)
اے ایمان لانے والو!خدا اور اس کے رسول پر سبقت نہ کرو اور اللہ سے ڈرو کہ بلا شبہ اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔
جولوگ یہ اصرار کرتے تھے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)ان کے نظریات و خیالات کی پیروی کریں خداوند عالم انھیں بھی وارننگ دیتا ہے:
(
واعلموا ان فیکم رسول الله لو یطیعکم فی کثیر من الامر لعنتم
)
اور جان لو کہ تمھارے درمیان رسول خدا جیسی شخصیت موجود ہے۔اگر بہت سے امور میں وہ تمھارے نظریات کی پیروی کریں گے تو تم زحمت میں پڑجاوگے۔
یہ حادثات اور یہ آیات اس بات کی صاف حکایت کرتی ہےں کہ اصحاب پیغمبر میں ایک گروہ تھا جو آنحضرت کی مخالفت کرتا تھا اور جیسی ان کی اطاعت کرنا چاہئے اطاعت نہیں کرتا تھا ۔بلکہ یہ لوگ کوشش کرتے تھے کہ جو احکام الٰہی ان کے افکار اور سلیقہ سے سازگار نہیں تھے،ان کی پیروی نہ کریں۔حتیٰ یہ کوشش کرتے تھے کہ خود رسول خدا کو اپنے نظریات کا پیرو بنائیں۔
افسوس رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد سیاسی میدان میں دوڑنے والے اور سقیفہ نیز فرمائشی شوریٰ کی تشکیل دینے والے یہی لوگ جنھوں نے غدیر خم میں پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صاف حکم اور نص الٰہی کو اپنی باطنی خواہشات کے مخالف پایا لھٰذابھت تیزی سے اسے بھلادیا۔
دوسرے سوال کاجواب:
جیسا کہ اس سوال میں در پردہ ادعا کیا گیا ہے ،یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ حضرت علی ں نے اپنی زندگی میں متعدد موقعوں پر حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی حقانیت اور اپنی خلافت پر استدلال کیا ہے۔حضرت امیرالمومنین جب بھی موقع مناسب دیکھتے تھے مخالفوں کو حدیث غدیر یاد دلاتے تھے ۔ اس طرح سے اپنی حیثیت لوگوں کے دلوں میں محکم فرماتے تھے اور حقیقت کے طالب افراد پر حق کو آشکار کردیتے تھے ۔
نہ صرف حضرت امام علی (ع) بلکہ بنت رسول خدا حضرت فاطمہ زھرا(ع) اور ان کے دونوں صاحب زادوں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام اور اسلام کی بہت سی عظیم شخصیتوں مثلاً عبداللہ بن جعفر،عمار یاسر،اصبغ بن نباتہ،قیس بن سعد، حتیٰ کچھ اموی اور عباسی خلفاء مثلاً عمر بن عبد العزیز اور مامون الرشید اور ان سے بھی بالاتر حضرت(ع) کے مشھور مخالفوں مثلا عمروبن عاص اور.... نے حدیث غدیر سے احتجاج واستدلال کیاہے۔
حدیث غدیر سے استدلال حضرت علی (ع) کے زمانہ سے آج تک جاری ہے اور ہر زمانہ وہر صدی میں حضرت (ع) کے دوست داروں نے حدیث غدیر کو حضرت کی امامت وولایت کے دلائل میں شمار کیاہے۔ھم یہاں ان احتجاجات اور استدلالوںکے صرف چند نمونے پیش کرتے ہیں:
۱۔سب جانتے ہیں کہ خلیفہ دوم کے حکم سے بعد کے خلیفہ کے انتخاب کے لئے چہ رکنی کمیٹی تشکیل پائی تھی کمیٹی کے افراد کی ترکیب ایسی تھی کہ سبھی جانتے تھے کہ خلافت حضرت علی (ع)تک نہیں پھنچے گی کیونکہ عمر نے اس وقت کے سب سے بڑے سرمایہ دار عبدالرحمان بن عوف (جو عثمان کے قریبی رشتہ دار تھے)کو ویٹو پاور دے رکھا تھا۔ان کا حضرت علی (ع) کے مخالف گروہ سے جو رابطہ تھا اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ حضرت علی (ع) کو اس حق سے محروم کردیں گے ۔
بھر حال جب خلافت عبد الرحمان بن عوف کے ذریعہ عثمان کو بخش دی گئی تو حضرت علی (ع)نے شوریٰ کے اس فیصلہ کو باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا:میں تم سے ایک ایسی بات کے ذریعہ احتجاج کرتاہوں جس سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا یہاں تک کہ فرمایا :میں تم لوگوں کو تمھارے خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس کے بارہ میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا ہو ”من کنت مولاه فهذا علیّ مولاه، اللّٰهم وال من والاه وانصر من نصره لیبلغ الشاهد الغائب
“ یعنی میں جس جس کا مولاہوں یہ علی (ع)بھی اس کے مولا ہیں۔خدا یاتواسے دوست رکہ اور اس کی مدد فرما جو علی (ع)کی مدد کرے۔حاضرین ہر بات غائب لوگوں تک پہنچائیں۔
اس موقع پر شوریٰ کے تمام ارکان نے حضرت علی (ع)کی تصدیق کرتے ہوئے کھا: خدا کی قسم یہ فضیلت آپ کے علاوہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی ۔
امام علی (ع)کا احتجاج و استدلال اس حدیث سے صرف اسی ایک موقع پر نہیں تھا بلکہ امام نے حدیث غدیر سے دوسرے مقامات پر بھی استدلال فرمایا ہے۔
۲۔ ایک روز حضرت علی ں کوفہ میں خطبہ دے رہے تھے۔تقریر کے دوران آپ نے مجمع سے خطاب کرکے فرمایا: میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں ،جوشخص بھی غدیر خم میں موجود تھا اور جس نے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مجھے اپنی جانشینی کے لئے منتخب کیا ہے وہ کھڑے ہو کر گواہی دے۔لیکن صرف وہی لوگ کھڑے ہوں جنھوں نے خود اپنے کانوں سے پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے یہ بات سنی ہے۔وہ نہ اٹھیںجنھوں نے دوسروںسے سنا ہے۔اس وقت تیس افراد اپنی جگہ پر کھڑے ہوئے اور انھوں نے حدیث غدیر کی گواہی دی۔
یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ جب یہ بات ہوئی تو غدیر کے واقعہ کو گزرے ہوئے پچیس سال ہوچکے تھے۔اور پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بہت سے اصحاب کوفہ میں نہیں تھے،یا اس سے پہلے انتقال کرچکے تھے اور کچھ لوگوں نے بعض اسباب کے تحت گواہی دینے سے کوتاہی کی تھی۔
”علامہ امینی“ مرحوم نے اس احتجاج وا ستدلال کے بہت سے حوالے اپنی گرانقدر کتاب ”الغدیر“ میں نقل کئے ہیں۔شائقین اس کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
۳۔حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں مھاجرین و انصار کی دوسو بڑی شخصیتیں مسجد نبی میں جمع ہوئیں۔ان لوگوں نے مختلف موضوعات پر گفتگو شروع کی۔یہاں تک کہ بات قریش کے فضائل ان کے کارناموں اور ان کی ھجرت کی آئی اور قریش کا ہر خاندان اپنی نمایاں شخصیتوں کی تعریف کرنے لگا۔جلسہ صبح سے ظھر تک چلتا رہا اور لوگ باتیں کرتے رہے حضرت امیر المومنین (ع) پورے جلسہ میں صرف لوگوں کی باتیں سنتے رہے۔اچانک مجمع آپ (ع)کی طرف متوجہ ہوا اور درخواست کرنے لگا کہ آپ بھی کچھ فرمائیے۔امام علیہ السلام لوگوں کے اصرار پر اٹھے اور خاندان پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اپنے رابطہ اور اپنے درخشاںماضی سے متعلق تفصیل سے تقریر فرمائی۔یہاں تک کہ فرمایا:
کیا تم لوگوں کو یاد ہے کہ غدیر کے دن خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو یہ حکم دیا تھا کہ جس طرح تم نے لوگوں کو نماز ،زکات اور حج کی تعلیم دی یوں ہی لوگوں کے سامنے علی (ع)کی پیشوائی کا بھی اعلان کردو۔اسی کام کے لئے پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا: خداوند عالم نے ایک فریضہ میرے اوپر عائد کیاہے۔میں اس بات سے ڈرتا تھا کہ کہیں اس الٰہی پیغام کو پہنچانے میں لوگ میری تکذیب نہ کریں،لیکن خدواند عالم نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ کام انجام دوں اور یہ خوش خبری دی کہ اللہ مجھے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
اے لوگو! تم جانتے ہو کہ خدا میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان کے حق میں ان سے زیادہ اولیٰ بالتصرف ہوں؟سب نے کھا ہاں۔اس وقت پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: علی ! اٹھو ۔میں اٹہ کھڑا ہوا۔ آنحضرت نے مجمع کی طرف رُخ کرکے فرمایا:”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ اللّٰھم وال من والاہ و عاد من عاداہ “ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی (ع)مولا ہیں ۔خدایا! تو اسے دوست رکہ جو علی (ع)کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکہ جو علی (ع)سے دشمنی کرے۔
اس موقع پر سلمان فارسی نے رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے دریافت کیا : علی (ع)ھم پر کیسی ولایت رکھتے ہیں ؟پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا:”ولائہ کولائی ،من کنت اولی بہ من نفسہ ،فعلیّ اولی بہ من نفسہ “ یعنی تم پر علی (ع)کی ولایت میری ولایت کے مانندھے ۔میں جس جس کی جان اور نفس پر اولویت رکھتا ہوں علی (ع)بھی اس کی جان اور اس کے نفس پر اولویت رکھتے ہیں۔
۴۔ صرف حضرت علی ںنے ہی حدیث غدیر سے اپنے مخالفوں کے خلاف احتجاج و استدلال نہیں کیا ہے بلکہ پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی پارہ جگر حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے ایک تاریخی دن جب آپ اپنے حق کو ثابت کرنے کے لئے مسجد میں خطبہ دے رہی تھیں، تو
پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا:
کیا تم لوگوں نے غدیر کے دن کو فراموش کردیا جس دن پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی (ع) کے بارے میں فرمایا تھا :
”من کنت مولاه فهٰذ ا علی مولاه
" جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کے مولا ہیں.
۵۔ جس وقت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کی قرار داد باندھنے کا فیصلہ کیا تو مجمع میں کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا:
”خدا وندعالم نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اہل بیت (ع)کو اسلام کے ذریعہ مکرم اور گرامی قرار دیا ہمیں منتخب کیا اور ہر طرح کی رجس و کثافت کو ہم سے دور رکھا یہاں تک کہ فرمایا: پوری امت نے سنا کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی ںسے فرمایا: تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسی (ع) سے تھی“
تمام لوگوں نے دیکھا اور سناکہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے غدیر خم میں حضرت علیں کا ہاتہ تھام کرلوگوں سے فرمایا:
”من کنت مولاه فعلی مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه
"
۶۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی سرزمین مکہ پر حاجیوں کے مجمع میں جس
میں اصحاب پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ---خطبہ دیتے ہوئے
فرمایا:
”میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ پیغمبر اسلام نے غدیر کے دن حضرت علی ںکو اپنی خلافت و ولایت کے لئے منتخب کیا اور فرمایا کہ : حاضرین یہ بات غائب لوگوں تک پہنچا دیں “ ؟ پورے مجمع نے کھا : ہم گواہی دیتے ہیں ۔
۷۔ ان کے علاوہ جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں ، پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے کئی اصحاب مثلا عماریاسر ،زید بن ارقم ،عبداللہ بن جعفر ،اصبغ بن نباتہ اور دوسرے افراد نے بھی حدیث غدیر کے ذریعہ حضرت علی ںکی خلافت و امامت پر استدلال کیا ہے ۔
____________________