بائیسویں فصل
حدیث”ثقلین “اورحدیث ” سفینہ"قرآن و عترت کا باہم اٹوٹ رشتہ
حدیث ثقلین
اسلام کی ان قطعی و متواتر احادیث میں سے ہے جسے علمائے اسلام نے پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے نقل کیا ہے ۔مختلف زمانوں اور صدیوں میں اس حدیث کے متعدد اور قابل اعتماد اسناد پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حدیث کو قطعی ثابت کرتے ہیں اور کوئی بھی صحیح فکر اور صحیح مزاج والا شخص اس کی صحت و استواری میں شک نہیں کر سکتا ۔
علمائے اہل سنت کے نقطہ نظرسے اس حدیث کا جائزہ لینے سے پہلے ہم ان سے بعض افراد کی گواہی یہاں نقل کرتے ہیں:
”منادی“ کے بقول:یہ حدیث ایک سو بیس
سے زیادہ صحابیوں نے
پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے نقل کی ہے ۔
ابن حجر عسقلانی کے بقول : حدیْث ثقلین بیس
سے زیادہ طریقوں سے نقل ہوئی ہے
عظیم شیعہ عالم علامہ میر حامد حسین مرحوم ،جن کا انتقال ۱۳۰۶ء ہ میں ہوا ہے ،انھوں نے مذکورہ حدیث کو علمائے اہل سنت کی ۵۰۲ کتابوں سے نقل کیا ہے ۔ حدیث کی سند اور دلالت سے متعلق ان کی تحقیق چہ جلدوں میں اصفھان سے شائع ہو چکی ہے ، شائقین اس کتاب کے ذریعہ اس حدیث کی عظمت سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔
اگر ہم اہل سنت کے مذکورہ راویوں پر شیعہ راویوں کا اضافہ کردیں تو حدیث ثقلین معتبر اور متواتر ہونے کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ پر نظر آتی ہے ،جس کے اعتبار کا مقابلہ حدیث غدیر کے علاوہ کسی اور حدیث سے نہیں کیا جا سکتا ۔حدیث ثقلین کا متن یہ ہے
”انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بیتی ماان تمسکتم بهما لن تضلوا ابدا ولن یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض
“
”میں تمھارے درمیان دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں ،ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری عترت و اہل بیت(ع) ہیں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے ،یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پہ پھنچ جائیں“
البتہ یہ حدیث اس سے بھی وسیع انداز میں نقل ہوئی ہے ۔حتی ابن حجر نے لکھا ہے کہ
پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس حدیث کے آخر میں اضافہ فرمایا:
”هٰذا علی من القرآن و القرآن مع علی لا یفترقان
“
”یعنی یہ علی ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ہمراہ ہے۔یہ دونوںایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے“
مذکورہ بالا روایت حدیث کی وہ مختصر صورت ہے جسے اسلامی محدثوں نے نقل کیا ہے اور اس کی صحت پر گواہی دی ہے ۔ لیکن حدیث کی صورت میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مختلف موقعوں پر الگ الگ تعبیروں میں لوگوں کو قرآن و اہل بیت(ع) کے اٹوٹ رشتہ سے آگاہ کیا ہے ۔ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ان دونوں حجتوں کے ربط کو حجة الوداع کے موقع پر غدیر خم
میں۔منبرپر
، اور بستر بیماری پر
جب کہ آپ کا حجرہ اصحاب سے بھرا ہو ا تھا ،بیان کیا تھا ۔اور اجمال و تفصیل کے لحاظ سے حدیث کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت نے اسے مختلف تعبیروں سے بیان کیا ہے
اگر چہ حدیث مختلف صورتوں سے نقل ہوئی ہے اور پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی دو یادگاروں کو کبھی ”ثقلین “ کبھی ”خلیفتین“ اور کبھی ” امرین“ کے الفاظ سے یاد کیا ہے ، اس کے باوجود سب کا مقصد ایک ہے اور وہ ہے قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اہل بیت (ع)کے درمیان اٹوٹ رابطہ کا ذکر۔
حدیث ثقلین کا مفاد
حدیث ثقلین کے مفاد پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اہل بیت (ع)گناہ تو گناہ خطا ولغزش سے بھی محفوظ و معصوم ہیں ،کیوں کہ جو چیز صبح قیامت تک قرآن کریم سے اٹوٹ رشتہ و رابطہ رکھتی ہے وہ قرآن کی ہی طرح ( جسے خدا وند عالم نے ہر طرح کی
تحریف سے محفوظ رکھا ہے) ہر خطا و لغزش سے محفوظ ہے۔
دوسرے لفظوں میںیہ جو پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا کہ اسلامی امت صبح قیامت تک (جب یہ دونوں یادگاریں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ملاقات کریں گی) ان دونوں سے وابستہ رہے اور ان دونوں کی اطاعت و پیروی کرے ،اس سے یہ بات اچھی سمجھی جا سکتی ہے کہ یہ دونوں الٰہی حجتیں اور پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی یادگاریں ،ہمیشہ خطا و غلطی سے محفوظ اور ہر طرح کی کجی و انحراف سے دور ہیں ۔ کیوں کہ یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ خدا وند عالم کسی عاصی و گناہگار انسان کی اطاعت ہم پر واجب کرے یا قرآن مجید جیسی خطا سے پاک کتاب کا کسی خطا کار گروہ سے اٹوٹ رشتہ قرار دےدے ۔قرآن کا ہمسر اور اس کے برابر تنھا وہی گروہ ہو سکتا ہے جو ہر گناہ اور ہر خطا و لغزش سے پاک ہو۔
جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں ،امامت کے لئے سب سے اہم شرط عصمت یعنی گناہ و خطا سے اس کامحفوظ رہنا ہے ۔آگے بھی ہم عقل کی روشنی میں الٰہی پیشواؤںاور رہبروں کے لئے اس کی ضرورت پر ثبوت فراہم کریں گے حدیث ثقلین بخوبی اس بات کی گواہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عترت و اہل بیت (ع)قرآن کی طرح ہر عیب و نقص ،خطا و گناہ سے پاک ہیں اور چونکہ ان کی پیروی واجب کی گئی ہے لھٰذا انھیں بھر حال گناہ و معصیت سے پاک ہونا چاہئے۔
امیر المومنین (ع)کا حدیث ثقلین سے استدلال
کتاب ”احتجاج “ کے مولف احمد بن علی ابن ابیطالب کتاب ”سلیم بن قیس “ سے (جوتابعین میں ہیں اور حضرت امیر المومنینں کے عظیم شاگرد ہیں)نقل کرتے ہیں کہ عثمان کی خلافت کے دور میں مسجد النبی میں مھاجرین و انصار کا ایک جلسہ ہو اجس میں ہر شخص اپنے فضائل و کمالات بیان کر رہا تھا ۔ اس جلسہ میں امام علیں بھی موجود تھے لیکن خاموش بیٹھے ہوئے سب کی باتیں سن رہے تھے ۔ آخر کا ر لوگوں نے امام (ع)سے درخواست کی کہ آپ (ع)بھی اپنے بارہ میں کچھ بیان کریں ،امام نے ایک تفصیلی خطبہ ارشاد فرمایاجس میں چند آیات کی تلاوت بھی فرمائی جو آپ کے حق میں نازل ہوئی تھی اس کے ساتھ ہی آپ نے ارشاد فرمایا: میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا نے اپنی زند گی کے آخری ایام میں خطبہ دیا تھا اور اس میں فرمایا تھا:
”یا ایها الناس انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بیتی فتمسکوا بهما لاتضلوا
“
” اے لوگو! میں تمھارے درمیان دو گرانقدر میراث چھوڑے جا رہا ہوں ۔ اللہ کی کتاب اور میرے اہل بیت (ع)پس ان دونوں سے وابستہ رہو کہ ہر گز گمراہ نہ ہوگے ۔
مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اہل بیت (ع)سے مراد ان سے وابستہ تمام افراد نہیں ہیں کیوں کہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ تمام وابستہ افراد لغزش و گناہ سے پاک و مبرا نہیں تھے بلکہ اس سے مراد وہ معین تعداد ہے جن کی امامت پر شیعہ راسخ عقیدہ رکھتے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں اگر ہم حدیث ثقلین کے مفاد کو قبول کر لیں تو عترت و اہل بیت کے افراد اور ان کے مصداق مخفی نہیں رہ جائیں گے کیوں کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے فرزندوں یا ان سے وابستہ افراد کے درمیان صرف وہی لوگ اس حدیث کے مصداق ہو سکتے ہیں جو ہر طرح کی لغزش و خطا سے مبرا و پاک ہیں اور امت کے درمیان طہارت ،پاکیزگی ،اخلاقی فضائل اور وسیع و بیکراں علم کے ذریعہ مسلمانوں میں مشھور ہیں اور لوگ انھیں نام و نشان کے ساتھ پہچانتے ہیں۔
ایک نکتہ کی یاد دھانی
اس مشھوراور متفق علیہ حدیث یعنی حدیث ثقلین کا متن بیان ہو چکا اور ہم نے دیکھا کہ
پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ہر جگہ" کتاب و عترت “ کو اپنی دو یاد گار کے عنوان سے یاد کیا ہے اور ان دو الٰہی حجتوں کے باہم اٹوٹ رشتہ کو ذکر کیا ہے لیکن سنت کی بعض کتابوں میں کہیں کھیں ندرت کے ساتھ ”کتاب اللہ و عترتی “ کے بجائے ”کتاب اللہ و سنتی “ ذکر ہو اہے اور ایک غیر معتبر روایت کی شکل میں نقل ہوا ہے ۔
ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب میں حدیث کی دوسری صورت بھی نقل کی ہے اور اس کی توجیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : در حقیقت سنت پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)جو قرآنی آیات کی مفسر ہے اس کی بازگشت خود کتاب خدا کی طرف ہے اور دونوں کی پیروی لازم وواجب ہے ۔
ہمیں اس وقت اس سے سرو کار نہیں کہ یہ توجیہ درست ہے یا نہیں ۔جو بات اہم ہے یہ ہے کہ حدیث ثقلین جسے عام طور سے اسلامی محدثوں نے نقل کیا ہے وہ وہی ” کتاب اللہ و عترتی “ھے اور اگر جملہ ”کتاب اللہ و سنتی “ بھی پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے صحیح و معتبر سند کے ساتھ نقل ہوئی ہوگی تو وہ ایک دوسری حدیث ہوگی ۔ جو حدیث ثقلین سے کوئی ٹکراؤ نہ رکھے گی ۔جبکہ یہ تعبیر احادیث کی کتابوں میں کسی قابل اعتماد سند کے ساتھ نقل نہیں ہوئی ہے ۔اور جو شھرت و تواتر پہلی بایوں کھا جائے کہ اصل حدیث ثقلین کو حاصل ہے وہ اسے حاصل نہیں ہے۔
عترت پیغمبر سفینہ نوح کے مانند
اگر حدیث سفینہ کو حدیث ثقلین کے ساتھ ضم کردیا جائے تو ان دونوں حدیثوں کا مفاد
پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اہل بیت (ع)کے لئے فضائل و کمالات کی ایک دنیا کو نمایاں کرتاہے۔
سلیم ابن قیس نے لکھا ہے کہ : میں حج کے زمانہ میں مکہ میںموجود تھا.میں نے دیکھا کہ جناب ابوذر غفاری کعبہ کے حلقہ کو پکڑے ہوئے بلند آواز میں کہہ رہے ہیں:
اے لوگو! جو مجھے پہچانتا ہے وہ پہچانتاہے اور جو نہیں پہچانتا میں اسے اپنا تعارف کراتا ہوں۔ میں جندب بن جنادہ ”ابوذر“ھوں.اے لوگو! میں نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سنا ہے کہ"
”ان مثل اہل بیتی فی امتی کمثل سفینة نوح فی قومہ من رکبھا نجیٰ ومن ترکھا غرق“
میرے اہل بیت کی مثال میری امت میں جناب نوح کی قوم میں ان کی کشتی کے مانند ہے کہ جو شخص اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے اسے ترک کردیا وہ غرق ہوگیا.
حدیث سفینہ ،حدیث غدیر اور حدیث ثقلین کے بعد اسلام کی متواتر حدیثوں میں سے ہے اور محدثین کے درمیان عظیم شھرت رکھتی ہے
کتاب عبقات الانوار
کے مولف علامہ میر حامد حسین مرحوم نے اس حدیث کو اہل سنت کے نوے /۹۰ مشھور علماء و محدثین سے نقل کیا ہے.
حدیث سفینہ کا مفاد
حدیث سفینہ جس میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عترت کو نوح کی کشتی سے تعبیر کیا گیا ہے.اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بیت (ع)کی پیروی نجات کا سبب اور ان کی مخالفت نابودی کا سبب ہے ۔
اب یہ دیکھنا چاہیئے کہ کیا صرف حلال و حرام میں ان کی پیروی کرنا چاہیئے اور سیاسی و اجتماعی مسائل میں ان کے ارشاد و ہدایت پر عمل کرنا واجب نہیں ہے یا یہ کہ تمام موارد میں ان کی پیروی واجب ہے اور ان کے اقوال اور حکم کو بلا استثناء جان و دل سے قبول کرنا ضروری ہے ؟
جولوگ کہتے ہیں کہ اہل بیت (ع)پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی پیروی صرف دین کے احکام اور حلال و حرام سے مربوط ہے وہ کسی دلیل کے بغیر پیروی کے موضوع کو محدود کرتے ہیں اور اس کی وسعت کو سمجھنے کی کوشش نھیںکرتے جب کہ حدیث میں اس طرح کی کوئی قید و شرط نہیں ہے۔
لھٰذا حدیث سفینہ بھی اس سلسلہ میں وارد ہونے والی دوسری احادیث کی طرح اسلامی
قیادت و سرپرستی کے لئے اہل بیت (ع)کی لیاقت و شائستگی کو ثابت کرتی ہے۔
اس کے علاوہ مذکورہ حدیث اہل بیت (ع)کی عصمت و طہارت اور ان کے گناہ و لغزش سے پاک ہونے کی بھترین گواہ ہے،کیونکہ ایک گناہگار و خطا کار بھلا کس طرح دوسروں کو نجات اور گمراہوں کی ہدایت کرسکتا ہے ؟!
حضرت امیر المومنین ںاور ان کے جانشینوں کی ولایت اور امت اسلام کی پیشوائی و رہبری کے لئے ان کی لیاقت و شائستگی کے دلائل اس سے کہیں زیادہ ہیں اور اس مختصر کتاب میں سمیٹے نہیں جاسکتے لھٰذا ہم اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں اور اپنی گفتگو کاآغاز عصمت کے موضوع سے کرتے ہیں جو الٰہی رہبروں کے لئے بنیادی شرط ہے ۔
____________________