پانچویں فصل
اسلامی قوانین اور کتاب خدامعصوم کی تفسیر سے بے نیاز نھیں
اسلامی قوانین چاہے جتنے بھی روشن و واضح ہوں پھر بھی ان کی توضیح و تفسیر ضروری ہے بالکل یوں ہی جیسے آج ملکوں کے قوانین چاہے جس قدر روز مرہ کی زبان میں تنظیم کئے جائیں پھر بھی ان کی وضاحت کے لئے زبر دست قسم کے ماہروں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے اہم پہلوؤں کو واضح کر سکیں ۔ اور اسلامی قوانین بھی حتیٰ وہ بھی جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی زبان سے نقل ہوئے ہیں توضیح و تفسیر سے مستثنٰی اور بے نیاز نہیں ہیں ۔اس کے گواہ مسلمانوں کے درمیان وہ سیکڑوں اختلافات ہیں جو قرآنی آیات اور اسلامی احادیث کے سلسلہ میں نظر آتے ہیں۔
کیا اسلام کے ابدی و جاودانی قوانین کو ایسے کسی پیشوا کی ضرورت نہیں ہے جوپیغمبر اکرم کے علوم کا وارث ہو اور اختلاف کے موارد میں سب کے لئے حجت ہو ؟اور کیا اختلافات دور کرنے فاصلوں کو کم کرنے اور اسلامی اتحاد بر قرار کرنے کے لئے ایسے جانشین کا تعین لازم و ضروری نہیں تھا؟
حضرت عمر کی خلافت کے دوران ایک شخص نے اسلامی عدالت میں شکایت کی کہ میری بیوی کے یہاں چہ ہی مھینہ میں بچہ پیدا ہو گیا ہے ۔ قاضی نے حکم دے دیا کہ لے جاؤ اس عورت کو سنگسار کر دو ۔راستہ میں اس عورت کی نگاہ حضرت علی علیہ السلام پر پڑی اس نے چیخ کر کھا :اے ابو الحسن میری فریاد کو پھنچئے ۔ میں ایک پاک دامن عورت ہوں اور میں نے اپنے شوہر کے علاوہ کسی سے قربت نہیں کی ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام جب واقعہ سے آگاہ ہوئے تو انھیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ قاضی نے فیصلہ کرنے میں غلطی کی ہے ۔ آپ(ۡع) نے ماموروں سے مسجد واپس چلنے کو کھا اور مسجد میں جا کر خلیفہ سے پوچھا کہ تم نے یہ کیسا فیصلہ کیا ہے ؟خلیفہ نے کھا کہ شوہر سے اس عورت کی قربت کو صرف چہ ماہ گزرے ہیں ۔ کیا کہیں چہ مھینے میں بچہ پیدا ہوتا ہے ؟ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا جس میں آیا ہے(
وحمله و فصاله ثلاثون شهرا
)
یعنی اس کا حمل اور دودہ پلانے کا زمانہ تیس ماہ ہے۔خلیفہ نے جواب دیا درست ہے ۔ پھر حضرت علی ںنے فرمایا: کیا قرآن نے دودہ پلانے کا زمانہ دو سال نہیں معین کیا ہے کہ ارشاد ہوتا ہے:(
والولدات یرضعن اولادهن حولین کاملین
)
یعنی مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودہ پلائیں ۔خلیفہ نے جواب دیا :سچ فرمایا: اس پر حضرت علی ںنے فرمایا : کہ اگر دودہ پلانے کے چوبیس مھینوں کو تیس مھینوں سے کم کرو توچہ ہی ماہ باقی رہتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حاملگی کی کم سے کم مدت چہ ماہ ہے اور عورت اس مدت میں سالم بچہ پیدا کر سکتی ہے۔
حضرت امیر المومنین علی ںنے دو آیتوں کو باہم ضمیمہ کرکے ایسا قرآنی حکم استنباط کیا جس سے اصحاب واقف نہیں تھے اب کیا یہ کھا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس الٰہی کتاب قرآن مجید کی وضاحت کے لئے جو ایک جاوید رہنما اور ابدی قانون کی حیثیت رکھتی ہے اپنے بعد کوئی اقدام نہیں فرمایا ہے؟
ممکن ہے یہ کھا جائے کہ ایسے نادر مسئلہ میں اختلاف سے جو انسانی زندگی میں بہت کم پیش آتا ہے پورے اسلامی معاشرہ کے اتحاد کو خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا ،تو اس کے جواب میں یہ کھا جائے گا کہ اختلاف اس طرح کے نادر مسائل سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ اختلاف مسلمانوں کے روز مرہ اور بنیادی فرائض و وظائف سے بھی تعلق رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر روز کے مسائل میں مسلمانوں کے اختلاف و تفرقہ سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں اور یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ اتنے سارے مسائل میں اختلافات سے مسلمانوں کے اتحاد و یکجھتی پر کوئی ضرب نہیں پڑتی ہے۔
قرآن مجید نے اپنے سورہ مائدہ آیت /۶ میں وضو کرنے کی کیفیت مسلمانوں سے بیان کی ہے اور صدر اسلام میں مسلمان ہر روز اپنی آنکھوں سے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو وضو کرتے ہوئے دیکھتے تھے ، لیکن پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد قرآن مجید دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں پھیلا اور علماء کے اوپر قرآنی آیات میں اجتھاد و تفکر کا دروازہ کھلا اور فقھی احکام سے متعلق آیات پر رفتھ رفتھ بحث و تحقیق ہوئی لیکن سر انجام کیفیت وضو سے متعلق آیت کو سمجھنے میں اختلاف پیدا ہوگیا اور آج یہ اختلاف باقی اور رائج ہے کیوں کہ شیعہ علماء اپنے ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوتے ہیں اور پیروں کا مسح کرتے ہیں لیکن علمائے اہل سنت ان کے بالکل بر خلاف عمل کرتے ہیں۔
اگر امت کے درمیان ایک ایسا معصوم اور تمام اصول و فروع سے آگاہ رہبر موجود ہو کہ سب کے سب اس کی بات تسلیم اور اس کی پیروی کرتے ہوں تو ہر گز ایسا اختلاف جو مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دے پیش نہیں آئے گا اور پورا اسلامی معاشرہ اپنے روز مرہ کے فرائض کی انجام دھی میں یک رنگ و یک شکل ہوگا۔
قرآن کی تفسیر میں اختلاف
اسلام کے جزا و سزا کے قوانین میں ایک چور کے ہاتھ کاٹنے کا قانون ہے جو اپنے شرائط و خصوصیات کے ساتھ فقھی کتابوں میں درج ہے ابھی ابھی دو تین صدی پہلے تک جبکہ اسلام ایک طاقت کی شکل میں حاکم تھا اسلامی حکومتیں اپنے قوانین قرآن سے حاصل کرتی تھیں اور جبکہ مغربی قوانین ابھی اسلامی سرزمینوں تک نہیں پھنچے تھے چور کی تنھا سزا اس کاہاتھ کاٹنا تھی ۔لیکن افسوس کہ یہ ایک چھوٹا سا اور تقریبا روز مرہ کا مورد بھی ان موارد میں سے ہے کہ اسلام کی چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کی حد معین کرنے کے سلسلہ میں ایک نقطہ پر متحد نہیں ہو سکے
معتصم عباسی کے زمانہ میں جبکہ ھجرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دو سو سال سے زیادہ گزر چکے تھے ،علماء نے اسلام کے درمیان ہاتھ کاٹنے سے متعلق آیت کی تفسیرمیں اختلاف پیدا ہوگیا ۔وہ لوگ یہ طے نہیں کر پارہے تھے کہ چور کا ہاتھ کہاں سے کاٹنا چاہئے ۔ایک کھتا تھا :ھاتھ کلائی سے کاٹا جائے گا۔ دوسرا کھتا تھا : ہاتھ کھنی سے کاٹا جائے گا ۔تیسرا کھتا تھا : ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ آخر کار خلیفہ وقت نے شیعوں کے نویں امام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے بھی دریافت کیا۔ آپ(ۡع) نے فرمایا: چور کے ہاتھ کی صرف چار انگلیاں کاٹی جائیں گی ۔ جب آپ(ع) سے پوچھا گیا کہ اس کی دلیل کیا ہے تو آپ(ۡع)نے فرمایاکہ خدا وند عالم قرآن مجید میں فرمایا ہے:” و ان المساجد اللہ “ سجدہ کی جگھیں خدا کے لئے ہیں اور اس سے متعلق ہیں ۔ آپ(ۡع) نے فرمایا: ان میں سے ایک ہتھیلی بھی ہے جسے سجدہ کے وقت زمین پر ٹکانا ضروری ہے اور جو چیز خدا سے متعلق ہو اسے کاٹا نہیں جا سکتا ۔
اگر امت کے درمیان ایک ایسا قرآن شناس موجود ہو جو قرآن کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاہی رکھتا ہو اور فکری اعتبار سے مسلمانوں کا ملجاو مرکز قرار پائے اور تمام مسلمان اس کی طرف رجوع کریں تو ظاہر ہے کہ بہت سے اختلافات آسانی سے دور ہو جائیں گے اور امت ایک ہی سمت میں ایک ہی مقصد کے ساتھ قدم بڑھائے گی۔نہ مسلمانوں کاقیمتی وقت ضائع ہوگا اور نہ ان میں خطرناک اور خونریزاختلاف ٹکراؤ پایاجائے گا۔
قرآن مجید ہر طرح کے استنباط اور صحیح اسلام کو سمجھنے کے لئے اساسی و بنیادی ماخذ ہے اور کوئی چیز اس عظیم کتاب کی برابری نہیں کر سکتی ۔اگر دوسرے ماخذ میں باہم اختلاف نظر آئے مثلا اگر پیغمبر اکرم کی دو حدیثیں باہم ٹکراو رکھتی ہوں تو ہم اس حدیث کو اپنائیں گے جو قرآن کے مطابق ہوگی۔
لیکن کیا دلالت اور بیان کے اعتبار سے قرآن کی تمام آئتیں ایک جیسی ہیں اور کیا قرآن میں سرے سے کوئی ایسی آیت ہے ہی نہیں جس کے لئے کسی معصوم مفسر کی ضرورت ہو ؟ یہ دعویٰ وہی کر سکتا ہے جو قرآن سے زیادہ لگاؤ نہیں رکھتا اور اس کی روح و فکر قرآن سے ہم آھنگ نہیں ہے ۔صحیح ہے کہ قرآن کی بہت سی آیتیں دلالت کے اعتبار سے روشن و واضح ہیں اور اس کی محکم آیات میں شمار ہوتی ہیںاور وہ قرآنی آیات بھی جومبھم ہیں دوسری آیتوں کے ذریعہ روشن و واضح ہو جاتی ہیں ۔
اس کے باوجود قرآن میں ایسی آیتیں موجود ہیں جو یا نزول کے وقت سے ہی مبھم ہیں یا زمانہ وحی سے دوری کی وجہ سے مبھم ہوگئی ہیں۔ اس قسم کی آیات چاہے ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو کیسے حل کی جا سکتی ہیں؟
کیا امت کے درمیان کوئی ایسی مرکز ی شخصیت موجود نہیں ہونی چاہئے جو اس قسم کی آیات کا ابھام دور کرکے ان کی صحیح تفسیر کر سکے جن میں سے بعض کے نمونے آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ہیں؟
حضرت علی علیہ السلام نے جب ابن عباس کو خوارج سے مناظرہ کے لئے روانہ کیا تو انھیں یہ حکم دیا تھا کہ :”لاتخا صمھم بالقرآن فان القرآن حمال ذو وجوہ تقول و یقولون“ یعنی ان سے ہرگز قرآن سے بحث و مباحثہ نہ کرنا ،کیوں کہ قرآن کی آیاتیں کئی احتمالات اور کئی معانی رکھتی ہیں ۔تم ان سے بعض آیات سے استدلال کروگے اور وہ تمھیں بعض دوسری آیات سے جواب دیں گے۔
یہ مسلم ہے کہ امام کی یہ گفتگو قرآن کی تمام آیات سے متعلق نہیں تھی بلکہ آپ کی گفتگو ان آیات سے متعلق تھی جو دو پہلووالی ہیں ،بظاہرروشن و واضح نہیں ہیں اور ان کا مفھوم و مفاد قطعی نہیں ہے۔
اس اعتبار سے امت کے درمیان ایک امام معصوم کا وجود جو اسلام کے اصول و فروع سے پوری طرح آگاہ ہو ،قرآن کریم کے علوم پر کامل تسلط رکھتا ہو اور امت کے درمیان ایک علمی و فکری پناہگاہ ہو۔ اختلافات دور کرے اور اس کی بات فیصلہ کن ہو، لازم و ضروری ہے ورنہ دوسری صورت میں اختلافات بڑھتے جائیں گے بلکہ بعض احکام اور قرآنی آیات کی تفسیرغلط کی جائے گی جو مسلمانوں کے قرآنی حقائق سے دور ہو جانے کا باعث ہوگی۔
ہشام ابن حکم
ہشام ،امام جعفر صادق کے زبردست شاگرد اور دوسری صدی ہجری میں علم مناظرہ اور علم کلام کے استاد تھے انھوں نے امت کے درمیان اختلاف دور کرنے اور صحیح فیصلہ کے لئے امام کے وجود کی ضرورت پر روشنی ڈالی ہے کہ آپ نے ایک روز فرقہ معتزلہ کے سردار اور بصرہ کے پیشوا عمر وبن عبید سے امت کے درمیان امام معصوم کے وجود کی ضرورت پر بحث کی شروع اور اس سے درخواست کی کہ میرے سوالوں کے جواب دو ۔ عمر و بن عبید نے بھی قبول کیا۔ ہشام نے پوچھا:
تمھارے آنکھ ہے ؟
ہاں
اس سے کیا کام لیتے ہو ؟
اس سے لوگوں اور چیزوں کو دیکھتاہوں اور رنگوں کی تشخیص دیتا ہوں۔
تمھارے کان ہے؟
ہاں؟
اس سے کیا کام لیتے ہو؟
اس سے آواز سنتا ہوں ۔
تمھارے ناک ہے ؟
ہاں۔
اس سے کیا کام لیتے ہو؟
اس سے بو سونگھتا ہوں۔
اس کے بعد ہشام نے دوسرے حواس یعنی قوت ذائقہ و لامسہ اور بدن کے دوسرے اعضاء مثلا انسان کے جسم میں ہاتھ اور پاؤں وغیرہ کے بارے میں سوال کیا اور عمر وبن عبید نے ان سب کا صحیح جواب دیا۔ پھر ہشام نے پوچھا : تمھارے دل ہے ؟ ہاں ۔انسان کے بدن میں اس کا کیا کام ہے ؟ عمرو نے جواب دیا کہ جو کچہ بدن کے تمام اعضاء و جوارح انجام دیتے ہیں قلب کے ذریعہ انھیں تشخیص دیتا ہوں ۔ اور جب بھی انسانی حواس میں سے کوئی خطا کرتا ہے یا بدن کا کوئی حصہ شک میں مبتلا ہوتا ہے تو قلب و دل کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنے شک کو دور کردیتا ہے۔
اس وقت ہشام نے اس بحث سے نتیجہ حاصل کرتے ہوئے کھا کہ جس خدا نے جسم کے حواس اور اعضا ء کی شک و تردید دور کرنے کے لئے بدن میں ایک ایسی پناہگاہ اور مرکزی چیز پیدا کی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ انسانی معاشرہ کو یوں ہی اس کے حال پر جھوڑ دے اور اس کے لئے کوئی پیشوا و رہبر معین نہ کرے کہ انسانی معاشرہ اپنے شک ،حیرانی اور خطا کو اس کے ذریعہ دور کرے اور صحیح راہ اختیار کر سکے !
امام جعفر صادق(ع)،جانشین پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مرتبہ اور اس کی حیثیت کو یوں بیان فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد ایسے امام کا وجود لازم و ضروری ہے جو الٰہی احکام کو ہر طرح کی گزند اور کمی و زیادتی سے محفوظ رکھے اور ان کی حفاظت کرے ۔ (۱ ۸) ہشام ابن حکم نے ایک روز حضرت امام جعفر صادق ںکی موجودگی میں شام کے ایک عالم سے مناظرہ کیا اور اس تفصیلی مناظرہ کے دوران اس سے پوچھا کہ کیا خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان ہر طرح کے اختلافات دور کرنے کے لئے کوئی دلیل و حجت ان کے حوالے کی ہے ؟ اس نے کھا: ہاں اور وہ دلیل و حجت قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سنت یعنی ان کی احادیث ہیں ۔ ہشام نے پوچھا : کیا قرآن و احادیث اختلافات دور کرنے کے لئے کافی ہیں ۔اس نے جواب دیا ہاں ۔تو ہشام نے کھا اگر کافی ہیں تو پھر ہم دونوں جو ایک مذہب رکھتے ہیں اور ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں آپس میں اختلاف کیوں رکھتے ہیں؟ اور ہم میں سے ہر ایک نے ایسی راہ کیوں اختیار کر رکھی ہے جو دوسرے کے خلاف ہے ؟! اس پر اس شامی عالم کو خاموشی اختیار کرنے اور حقانیت کا اعتراف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔
____________________