امت کی رہبری

امت کی رہبری0%

امت کی رہبری مؤلف:
زمرہ جات: امامت

امت کی رہبری

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 20254
ڈاؤنلوڈ: 4333

تبصرے:

امت کی رہبری
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 38 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20254 / ڈاؤنلوڈ: 4333
سائز سائز سائز
امت کی رہبری

امت کی رہبری

مؤلف:
اردو

نویں فصل

اسلام میں مشورہ

اس میں کسی بحث کی ضرورت نہیں کہ مشورہ کے ذریعہ بہت سی انفرادی و اجتماعی مشکلات حل ہوتی ہیں۔دو فکروں کا ٹکراو گویا بجلی کے دو مثبت ومنفی تاروں کے ٹکرانے کے مانند ہے جس سے روشنی پیدا ہوتی ہے اور انسان کی زندگی کی راہ روشن ہوجاتی ہے۔

مشورہ مشکلات کے حل کے لئے اس قدر اہم ہے کہ قرآن کریم پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کوحکم دیتاہے کہ زندگی کے مختلف امور میں مشورہ کرو۔چنانچہ فرماتاہے:

( وشاورهم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی الله ان الله يحب المتوکلین ) (۳۰)

یعنی اپنے فیصلوں میں ان سے مشورہ کرو اور جب فیصلہ کرلو توخدا پر بھروسہ کرو۔بلا شبھہ خدا توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔

خداوند عالم ایک دوسری آیت میں صاحبان ایمان کی یوں تعریف کرتاہے:

( والذین استجابوالربهم واقامواالصلوٰةوامرهم شوریٰ بینهم ومما رزقناهم ینفقون ) (۳۱)

یعنی جو لوگ اپنے خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہیںاورنمازقائم کرتے ہیںاوران کے فیصلوںاور کاموںکی بنیادان کاآپسی مشورہ ہے اورجوکچہ خداانھیںرزق دیتاہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں۔

لھٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور نقل دونوں نے مشورہ کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور کیا اچھا ہو کہ مسلمان اسلام کے اس عظیم دستور کی پیروی کریں جس میں ان کی سعادت وخوشبختی اور سماج کی ترقی پوشیدہ ہے۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نہ صرف لوگوں کو یہ روش اپنانے کاحکم دیتے تھے بلکہ آپ نے اپنی زندگی میں خود بھی خدا کے اس فرمان پر عمل کیاہے ۔جنگ میں جبکہ ابھی دشمن کاسامنا نہیں ہواتھا ،بدر کے صحرا میں آگے بڑھنے اور دشمن سے مقابلہ کے سلسلہ میں آپ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور ان سے فرمایا :”اشیروا الیّ ایھا الناس“قریش سے جنگ کے سلسلہ میں تم لوگ اپنا نظریہ بیان کروکہ ہم لوگ آگے بڑھکر دشمن سے جنگ کریں یا یہی ں سے واپس ہوجائےں ؟مھاجرین وانصار کی اہم شخصیتوں نے دو الگ الگ اور متضاد مشورے دیئے لیکن آخر کار پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے انصار کا مشورہ قبول کیا۔(۳۲)

اُحد کی جنگ میں بڑے بوڑھے لوگ قلعہ بندی اور مدینہ میں ہی ٹھھرنے کے طرفدار تھے تاکہ برجوں اور مکانوں کی چھتوں سے دشمن پر تیر اندازی اور پھتروں کی بارش کرکے شھر کا دفاع کریں،جبکہ جوان اس بات کے طرفدار تھے کہ شھر سے باہر نکل کر جنگ کریں اور بوڑھوں کے نظریہ کو زنانہ روش سے تعبیر کرتے تھے ۔یہاں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے دوسرے نظریہ کو اپنایا ۔(۳۳) جنگ خندق میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک فوجی کمیٹی تشکیل دی اور مدینہ کے حساس علاقوں کے گرد خندق کھودنے کا جناب سلمان کا مشورہ قبول کیا اور اس پر عمل کیا ۔(۳۴)

طائف کی جنگ میں لشکر کے بعض سرداروں کے مشورہ پرفوج کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا۔(۳۵)

لیکن اس بات پر توجہ ہونی چاہئے کہ کیا صرف مشور ہ اور تبادلہ خیالات ہی مشکلات کاحل ہے یا یہ کہ پہلے عقل وفکر کے اعتبار سے بانفوذ مرکزی شخصیت جلسہ تشکیل دے اور تمام آراء کے در میان سے ایک ایسی رائے منتخب کرے اور اس پر عمل کرے جو اس کی نظر میںبھی حقیقت سےقریب ہو۔

معمولاً مشوروں کے جلسوں میں مختلف افکارونظریات پیش کئے جاتے ہیں اور ہرشخص اپنے نظریہ کا دفاع کرتے ہوئے دوسروں کی آرا ء کو ناقص بتاتا ہے ۔ایسے جلسہ میں ایک مسلم الثبوت رئیس و مرکزی شخص کا وجود ضروری ہے ،جو تمام لوگوں کی رائے سنے اور ان میں سے ایک قطعی رائے منتخب کرے۔ورنہ دوسری صورت میں مشورہ کا جلسہ کسی نتیجہ کے بغیر ہی ختم ہو جائے گا۔

اتفاق سے وہ پہلی ہی آیت جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کا حکم دیتی ہے مشورہ کے بعد سے یوں خطاب کرتی ہے :”فاذا عزمت فتوکل علی الله “ پس جب تم فیصلہ کر لو تو خداپر بھروسہ کرو ۔اس خطاب سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے یہ بات کھی جا رہی ہے کہ مشورہ کے بعد فیصلہ کرنے والی مرکز ی شخصیت خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ذات ہے لھٰذا پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ہی فیصلہ کرنا اور خدا پر بھروسہ کرنا چاہئے۔

جمعیت کا پیشوا و رہبر ،جس کے حکم سے مشورہ کاجلسہ تشکیل پایا ہے ممکن ہے کہ لوگوں کے درمیان کسی تیسرے نظریہ کو اپنائے جو اس کی نظر میں ”اصلح “ یعنی زیادہ بہتر ہو۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ کے موقع پر اپنے اصحاب کے عمومی خیالات کی مخالفت کی اور مسلمانوں اور قریش کے بت پرستوں کے درمیان صلح کی قرار داد باندھی اور خود صلح یا صلح نامہ کے بعض پہلووں سے متعلق اپنے اصحاب کے اعتراضات پر کان نہیں دیئے اور زمانہ نے یہ بات ثابت کردی کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں مفید تھا ۔

اسلام میں مشورہ اور جمھوری حکومتوں کے مشورہ جس میں ملکی قوانین پاس کرنا پارلمینٹ اور سینٹ دونوں مجلسوں کے اختیار میں ہے اور حکومت کا صدر صرف ان دو مجلسوں کے تصویب شدہ قوانین کا اجرا کرنے والا ہے - میںزمین آسمان کا فرق ہے۔یہاں حکومت کارئیس وحاکم جوخود پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہیں، اقلیت یا اکثریت کی آراء کے مطابق عمل کرنے پر مجبور نہیں ہے ۔بلکہ آخری رائے یا آخری فیصلہ کا اظھار ،چاہے وہ اہل مجلس کی رائے کے ،موافق ہو یا مخالف ،خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اوپر ہے۔اور یہ پہلے عرض کیا جاچکا کہ مشورہ کے بعد قرآن کریم پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو حکم دیتاہے کہ اب آپ خدا پر توکل کریں ،فیصلہ کریںاور آگے بڑھیں۔

دوسری آیت کا مطلب بھی یہی ہے۔دوسری آیت تبادلہ خیال کو بایمان معاشرہ کی ایک بھترین خوبی شمار کرتی ہے ۔لیکن یہ باایمان معاشرہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں ہرگز ایک نافذ اور مطلق العنان رئیس سے خالی نہیں تھا اور عقل یہ کھتی ہے کہ آنحضرت کی رحلت کے بعد بھی بایمان معاشرہ کو ایسی شخصیت سے خالی نہیں رہنا چاہئے ۔یہ آیت ایسے معاشروں کی طرف اشارہ کررہی ہے جنھوں نے حاکم ورہبر کے تعین کامرحلہ طے کرلیا ہے اور اب دوسرے مسائل میں مشورہ یا تبادلہ خیال کرتے ہیں ۔

اس بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بعض علمائے اہل سنت کا ان آیات سے مشورہ کے ذریعہ خلیفہ کے انتخاب کو صحیح قرار دینا درست نہیں ہے ۔کیونکہ جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں مذکورہ آیات ان معاشروں سے متعلق ہےں جن میں حاکم کے تعین کی شکل پہلے سے حل ہوچکی ہے اور مشورتی جلسے اس کے حکم سے تشکیل پاتے ہیں تا کہ مسلمان اپنے دوسرے امور میں تبادلہ خیال کریں ، خاص طور سے پہلی آیت جو صاف طورسے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے جومسلمانوں کے رہبر ہیں۔خطاب کرتی ہے کہ مشورہ کے بعد فیصلہ کرلو اور اس کے مطابق عمل کرو۔

اس کے علاوہ عمومی افکار و خیالات کی طرف رجوع اس سلسلہ میں ہے جس میں خداوند عالم کی طرف سے مسلمانوں کے لئے کوئی فریضہ معین نہ کیا گیا ہو۔ایسے میں مسلمان تبادلہ خیال کے ذریعہ اپنا فریضہ معلوم کرسکتے ہیں،لیکن جس امر میں نص کے ذریعہ سب کا فریضہ معین کیا جاچکا ہے اس میں مشورہ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب ”حباب منذر“پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس آئے اور فوج کے مرکز کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی درخواست کی تو پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے خطاب کرکے عرض کیا ”فان کان عن امر سلّمنا و ان کا عن الرای فالتاخر عن حصنھم“(۳۶) یعنی اگر اس سلسلہ میں کوئی الٰہی حکم ہے تو ہم تسلیم ہیں اور اگر ایسی بات ہے کہ ہم اس میں اپنی رائے دے سکتے ہیں تو لشکر اسلام کی مرکزی کمان کو دشمن کے قلعہ سے دورمیں ہی بھلائی ہے۔

حضرت علی ںکی خلافت و جانشینی کا موضوع ایسا مسئلہ ہے جسے بہت سے نقلی دلائل نے ثابت اور واضح کردیا ہے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خدا کے حکم سے بہت سے موقعوں پر مثلاً یوم الدار ،غدیر خم، اوربیماری کے ایام میں ان کی خلافت و جانشینی کو صراحت سے بیان کردیاہے۔پھر اب مشورہ کے ذریعہ آنحضرت کی جانشینی کی تعیین کا مسئلہ حل کیا جانا ہے کیا معنی رکھتا ہے۔کیا یہ عمل نص کے مقابلہ میں اجتھاد اور خدا کے قطعی حکم یا دلیل کے مقابل اپنے نظریہ کا اظھار نہیں ہے؟

قرآن مجید ایک آیت کے ضمن میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتاہے : جب پیغمبر اکرم کے منہ بولے بیٹے زید نے اپنی بیوی جناب زینب کو طلاق دے دی اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خدا کے حکم سے جناب زینب سے شادی کرلی تو یہ بات مسلمانوں کو بہت بری لگی کیونکہ جاہلیت کے زمانہ میں منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا اور جس طرح نسبی بیٹے کی بیوی سے شادی نا پسندیدہ اور حرام تھی اسی طرح منہ بولے بیٹے کی بیوی سے بھی شادی نا روا اور قبیح سمجھی جاتی تھی۔

مسلمانوں کو یہ توقع تھی کہ آنحضرت ہمارے نظریات کے پیرو ہوں گے اور ہمارے خیالات کا احترام کریں گے ۔جبکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے یہ عمل خدا وند عالم کے حکم سے اور جاہلیت کے رسم و رواج کو غلط قرار دینے کے لئے انجام دیا تھا ۔ اور ظاہر ہے کہ خدا کے حکم کے ہوتے ہوئے عام لوگوں کے افکار و خیالات کی طرف توجہ دینا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے مندرجہ ذیل آیت کے ذریعہ ان موارد میں اپنی مداخلت اور اپنے خیالات کے اظھار کو شدت سے محکوم کیا ہے ، جن میں اللہ کے حکم نے مسلمانوں کے لئے کوئی خاص فریضہ معین کر دیا ہو ۔قرآن فرماتا ہے :

( وما کان لمومن ولا مومنة اذا قضی الله و رسوله امرا ان یکون لهم الخیرة من امرهم ومن یعص الله و رسوله فقد ضل ضلالا مبینا ) (۳۷)

”یعنی جب خدا اور اس کا رسول کسی سلسلہ میں حکم دے دیں پھر کسی مومن یا مومنہ کو اپنے امور میں کوئی اختیار نہیں ہے (انھیں بھر حال خدا کے حکم کی پیروی کرنا ہوگی) اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کے فرمان سے سرتابی کرے گا وہ کھلا ہوا گمراہ ہے“

____________________

(۳۰) آل عمران /۱۵۹

(۳۱) شوریٰ /۳۸

(۳۲) سیرہ ابن ہشام ، ج/۱ص/۶۱۵ ،مغازی واقدی ص/۴۸

(۳۳) سیرہ ابن ہشام ، ج/۲،ص/۶۳ ،مغازی واقدی،ج / ،۱ ص/۲۰۹

(۳۴) تاریخ کامل ،ج/۲ص/۱۲۲

(۳۵) مغازی واقدی ،ج/۳ص/۹۲۵

(۳۶)مغازی ،واخدی،ج/۳ ص/۹۲۵

(۳۷) احزاب /۳۶

دسویں فصل

یکطرفہ فیصلہ نہ کریں

اسلام میں وہ تنھا خلیفہ، جو مھاجر و انصار کی قریب با اتفاق اکثریت سے منتخب ہوا ، امیر المؤمنین علی علیہ السلام تھے ۔ اسلامی خلافت کی تاریخ میں یہ امر بالکل بے نظیر تھا اور اس کے بعد بھی اس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی ۔

اس دوران جب معاویہ ( جس نے مدتوں پہلے شام میں اپنی بادشاہت اور مطلق العنانیت کی داغ بیل ڈالی تھی اور خاندان رسالت کے ساتھ دیرینہ اور عمیق بغض و عداوت رکھتا تھا ) اس امر سے آگاہ ہوا کہ مھاجرین و انصار نے حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہ منتخب کرلیا ہے ،تو سخت برہم ہوا اور امام(ع)سے بیعت کرنے کےلئے تیار نہ ہوا ۔ اس نے نہ صرف امام(ع)کی بیعت کرنے سے انکار کیا بلکہ حضرت(ع)پر حضرت عثمان کے قتل اور اس کے قاتلوں کی حمایت کی تھمت بھی لگادی!

امام (ع)، معاویہ کو خاموش کرنے اور اس کےلئے ہر قسم کے عذر کے راستوں کو مسدود کرنے کےلئے اپنے ایک خط میں اسے تحریر فرماتے ہیں کہ :

”وہی لوگ جنھوں نے ابو بکر ، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی، میری بھی بیعت کرچکے ہیں، اگر ان کی خلافت کو اس لحاظ سے قابل احترام سمجھتے ہو کہ مھاجرین و انصار نے ان کی بیعت کی تھی تو یہ شرط میری خلافت میں بھی موجود ہے“۔

امام(ع) کے خط کا متن :

”انه بایعنی القوم الّذین بایعوا ابابکر و عمر و عثمان علی ما بایعوهم علیه فلم یکن للشاهد ان یختار و لا للغائب ان یرد و إنّما الشوریٰ للمهاجرین و الانصار اجتمعوا علی رجل و سموه إماماً کان ذلک ( لله ) رضا“ (نھج البلاغہ ، خط نمبر/۶)

” جن افراد نے ابوبکر ، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی ، وہ میرے ساتھ بھی بیعت کرچکے ہیں اس صورت میں مدینہ میں حاضر شخص کو کسی اور کو امام منتخب کرنے اور مرکزِ شوریٰ سے دور کسی فرد کو ان کا نظریہ مسترد کرنے کا حق نہیں ہے ۔ شوریٰ کی رکنیت صرف مھاجر و انصار کا حق ہے۔ اگر انھوں نے کسی شخص کی قیادت و امامت پر اتفاق نظر کیا اور اسے امام کھا ، تو یہ کام خدا کی رضا مندی کا باعث ہوگا۔

امام علیہ السلام کے اس خط کا مقصد ، معاویہ کو خاموش کرنے ، اس کی ہر قسم کی بھانہ تراشی اور خود غرضی کا راستہ بند کرنے اور قرآن مجید کی اصطلاح میں”مجادلہ احسن“ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ کیونکہ معاویہ شام میں حضرت عمر اور اس کے بعد حضرت عثمان کی طرف سے مدتوں گورنر رہ چکا تھا اور انھیں خلیفہ رسول اور اپنے آپ کو ان کا نمائندہ جانتا تھا ۔ ان حضرات کی خلافت کا احترام اسی جھت سے تھا کہ وہ مھاجر و انصار کی طرف سے منتخب ہوئے تھے ، اور بالکل یہی انتخاب واضح اور مکمل صورت میں امام علیہ السلام کے حق میں بھی انجام پایا تھا س لئے کوئی وجہ نہیں تھی کہ ایک کو قبول اور دوسرے کو مسترد کیا جائے۔

امام علیہ السلام نے قرآن مجید میں حکم شدہ مجادلہ کے ذریعہ(۳۸) اپنی خلافت کے بارے میں معاویہ کی مخالفت کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا :

”جنھوں نے ابو بکر اور عمرو عثمان کی بیعت کی تھی ، وہی میری بیعت بھی کرچکے ہیں، لھذا اب تم میری خلافت کو جائز کیوں نہیں سمجھتے ہو؟“

مجادلہ کی حقیقت اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے کہ جس چیز کو مخالف مقدس اور محترم جانتا ہو اسے استدلال کی بنیاد قرار دیکر مخالف کو اسی کے اعتقاد کے ذریعہ شکست دی جائے۔ اس لحاظ سے ، یہ خط ہرگز اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ امام علیہ السلام مھاجرین و انصار کی شوریٰ کے ذریعہ خلیفہ کے انتخاب کو سو فیصد صحیح جانتے تھے اور امام(ع)کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ خلیفہ کا انتخاب مھاجرین و انصار کی مشورت کے ذریعہ ہی انجام پانا چاہئے اور مسئلہ امامت ہرگز ایک انتصابیمسئلہ نہیں بلکہ انتخابی مسئلہ ہے۔

اگر امام علیہ السلام کا مقصد یہی ہوتا ، تو انھیں اپنے خط کو گذشتہ تین خلفاء کی بیعت کی گفتگو سے شروع نہیں کرنا چاہئے تھا ، بلکہ انھیں ان خلفاء کی خلافت کی طرف اشارہ کئے بغیر اپنی بات کویوں شروع کرنا چاہئے تھا :

”مھاجرین و انصار نے میری بیعت کی ہے اور جس شخص کی وہ بیعت کرلیں وہ لوگوں کا امام و پیشوا ہوگا “

یہ جو امام بعد والے جملوں میں فرماتے ہیں :”فان اجتمعوا علی رجل و سموه اماماً، کان ذلک ( لله ) رضا “ تو یہ احتجاج بھی مخالف کے عقیدہ کی روشنی میں ہے اور کلمہ ”الله“ نھج البلاغہ کے صحیح نسخوں میں موجود نہیں ہے بلکہ مصر میں چھپے نسخوں میں بریکٹ کے اندر پایا جاتا ہے (اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امام(ع)کے خط میں اس کلمہ (الله) کے ہونے میں شک پا یا جاتا ہے ) حقیقت میں امام(ع)فرماتے ہیں کہ : اگر مسلمان اپنے پیشوا کے انتخاب میں ایک فرد پر اتفاق کریں ، تو ایسا کا م پسندیدہ ہے ، یعنی تم لوگوں کے عقیدہ کے مطابق یہ کام پسندیدہ اور رضا مندی کا باعث ہے اور یہی کام تو میرے بارے میں انجام پایا ہے ، اب کیوں میری بیعت کرنے میں مخالفت کرتے ہو؟

سب سے پہلا شخص ، جس نے اس خطبہ سے اہل سنت کے نظریہ کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں استدلال کیا ہے ، شارح نھج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، ہے ۔ اس نے اس خط میں اور نھج البلاغہ کے دیگر خطبوں میں موجود قرائن کے سلسلہ میں غفلت کے سبب اس سے اہل سنت کے نظریہ کی حقانیت پر استدلال کیا ہے اور امام(ع)کے فرمائشات کو ایک سنجیدہ امر سمجھتے ہوئے اسے آپ(ع)کا عقیدہ تصور کیا ہے(۳۹) ۔ شیعہ علما ء جب بھی اس خطبہ کی شرح پر پھنچتے ہیں تو انھوں نے وہی مطلب بیان کیا ہے جس کا ہم اوپر اشار کرچکے ۔

تعجب ہے کہ احمد کسروی نے اپنی بعض تحریروں میں اس خطبہ کو بنیاد بنا کر اسے شیعوں کے عقیدہ کے بے بنیاد ہونے کی دلیل قرار دیا ہے اور اس سے بڑہ کر تعجب ان لوگوں پر ہے جو ان دو افراد کی باتوں کو نیا روپ دیگر اسے دھوکہ کھانے والوں کے بازار میں ایک نئی چیز کے طور پر پیش کرتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ ہر زمانے میں مذہب تشیع کے ایسے محافظ موجود ہوتے ہیں جو خودغرضوں کی سازشوں کا پردہ چاک کردیتے ہیں ۔

یک طرفہ فیصلہ نہ کریں !

کسی فیصلہ کےلئے خود سری سے کام نہیں لینا چاہئے اور ” نھج البلاغہ “ میں موجود امام (ع)کے دوسرے ارشادات سے چشم پوشی نہیں کرنا چاہئے ، بلکہ امام علیہ السلام کے تمام بیانات سے استفادہ کرکے ایک نتیجہ اخذ کرناچاہئے ۔

یہی امام جو اس خط میں لکھتے ہیں :

” جن لوگوں نے گذشتہ تین خلفا کی بیعت کی تھی ، انھوں نے میری بھی بیعت کی ہے اور جب کبھی مھاجر و انصار کسی کی امامت کے بارے میں اتفاق رائے کا اظھار کریں ، تو وہ لوگوں کا پیشوا ہوگا اور کسی کو اس کی مخالفت کرنے کا حق نہیں ہے“۔

خلافت خلفاء کے بارے میں خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ہیں :

” خدا کی قسم ! فرزند ابو قحافہ نے پیراہن خلافت کو کھینچ تان کر پھن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا خلافت کی چکی میرے وجود کے گرد گردش کرتی ہے اور میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے ۔ میں وہ (کوہ بلند ) ہوں جس سے علوم و معارف کا سیلاب نیچے کی طرف جاری ہے اور کسی کے وہم و خیال کا پرندہ بھی مجھ تک نھیںپھنچ سکتا ۔ لیکن میں نے جامہ خلافت کو چھوڑ دیا اور اس سے پہلو تھی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں (کسی ناصر و مددگار کے بغیر ) سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں ، جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہوجاتا ہے اور مؤمن اس میں رنجیدہ ہو تا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے پروردگارکے پاس پھنچ جاتا ہے مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرین عقل نظر آیا۔ لھذا میں نے صبر کیا حالانکہ آنکھوں میں ( غم و اندوہ کے تنکے کی) خلش تھی اور حلق میں ( غم و رنج کی ) ھڈی پھنسی ہوئی تھی ۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکہ رہا تھا ، یہاں تک کہ پہلے ( ابو بکر ) نے اپنی راہ لی اور وہ اپنے بعد خلافت ابن خطاب کو دے گیا ۔ تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا ۔ لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کےلئے استوار کرتا گیا۔ ان دونوں نے خلافت کو دو پستانوں کے مانند آپس میں بانٹ لیا اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت جگہ قرار دے دیا ۔

آپ نے مزید فرمایا : ” یہاں تک کہ دوسرا (عمر ) بھی اپنی راہ لگا ، اور اس نے خلافت کا معاملہ ایک جماعت کے حوالے کردیا ۔ اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد قرار دیا ۔ اے الله ! میں تجہ سے اس شوریٰ کی تشکیل اور اس کے مشورہ سے پناہ مانگتا ہوں جبکہ انھوںنے مجھے بھی اس کا ہم ردیف قرار دے دیا ۔ ۔(۴۰)

امام علیہ السلام اپنے ایک خط میں اپنی مظلومیت اور آپ(ع)سے بیعت لینے کے طریقے پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے معاویہ کے ایک خط کے جواب میں__جس میں اس نے حضرت(ع)کو لکھا تھا کہ انھیں اونٹ کی ناک میں نکیل ڈال کر کھینچنے کی صورت میں ابو بکر کی بیعت کرنے کےلئے کھینچ کر لے گئے تھے__لکھتے ہیں :

” تم نے لکھا تھا کہ : مجھے اونٹ کی ناک میں نکیل ڈالکر کھینچنے کی صورت میں بیعت کرنے کےلئے کھینچ کر لئے گئے تا کہ میں بیعت کروں ۔ خدا کی قسم تم نے چاہا کہ میری ملامت کرو لیکن اس کے بجائے تم میری ستائش کر گئے ہو اور مجھے رسوا کرنا چاہتے تھے لیکن خود رسوا ہوگئے ہو ( کیونکہ تم میر ی مظلومیت کا واضح طور پر اعتراف کرگئے ہو ) کیونکہ مسلمان کےلئے__ جب تک اس کے دین میں شک اور یقین میں خلل نہ ہو __مظلومیت اور ظلم و ستم سھنے میں کوئی عار نہیں ہے “(۴۱)

کیا امام(ع)کی اپنی مظلومیت کے بارے میں اس صراحت کے باوجود کہ آپ(ع)سے زورز بردستی اور جبراً بیعت لی گئی ہے ، یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ آپ(ع) نے خلفاء کی خلافت کی تائید کی ہوگی اور ان کو امت کے امام و پیشوا کے طور پر تسلیم کیا ہوگا ؟ ہر گز نہیں ، لھذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زیرِ بحث خط میں آپ(ع)کا مقصد مجادلہ اور طرف کو لاجواب کرنا تھا ۔ امام علیہ السلام اپنے ایک اور خط میں __جسے آپ(ع)نے اپنے گورنر مالک کے ہاتہ مصر بھیجا تھا __لکھتے ہیں : ” خدا کی قسم ! میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عرب پیغمبر کے بعد خلافت کو آپ کے خاندان سے نکال کر کسی دوسرے کو سونپ دیں گے اور ہمیں اس سے محروم کردیں گے ۔ ابو بکر کی بیعت کےلئے لوگوں کی پیشقدمی نے ہمیں رنج و مصیبت میں ڈالدیا “(۴۲)

____________________

۳۸۔(وجادلهم بالتی هی احسن )(نحل/ ۱۲۵)

۳۹۔۱۔شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴، ص ۳۶

۴۰شرح نھج البلاغہ ، ج۱ ، خطبہ شقشقیہ ۔

۴۱و قلت إنّی کنت اقاد کما یقاد الجمل المخشوش لا بایع ، و لعمر الله لقد اردت ان تذم فمدحت ، و ان تفضح فافتضحت و علی المسلم من غضاضة فی ان یکون مظلوماً ما لم یکن شاکاً فی دینه و لا مرتاباً بیقینه “ ( نھج البلاغہ ، خط ۲۸)

۴۲۔”و لا یخطر ببالی انّ العرب تزعج هذا الامر من بعده صلی اللّٰه علیه وآله وسلم عن اهل بیته ولا انّهم منحوه عنی من بعده فما راعنی إلا انثیال الناس علی فلان یبایعونه. .“ (نھج البلاغہ ، خط ۶۲ )