نویں فصل
اسلام میں مشورہ
اس میں کسی بحث کی ضرورت نہیں کہ مشورہ کے ذریعہ بہت سی انفرادی و اجتماعی مشکلات حل ہوتی ہیں۔دو فکروں کا ٹکراو گویا بجلی کے دو مثبت ومنفی تاروں کے ٹکرانے کے مانند ہے جس سے روشنی پیدا ہوتی ہے اور انسان کی زندگی کی راہ روشن ہوجاتی ہے۔
مشورہ مشکلات کے حل کے لئے اس قدر اہم ہے کہ قرآن کریم پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کوحکم دیتاہے کہ زندگی کے مختلف امور میں مشورہ کرو۔چنانچہ فرماتاہے:
(
وشاورهم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی الله ان الله يحب المتوکلین
)
یعنی اپنے فیصلوں میں ان سے مشورہ کرو اور جب فیصلہ کرلو توخدا پر بھروسہ کرو۔بلا شبھہ خدا توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔
خداوند عالم ایک دوسری آیت میں صاحبان ایمان کی یوں تعریف کرتاہے:
(
والذین استجابوالربهم واقامواالصلوٰةوامرهم شوریٰ بینهم ومما رزقناهم ینفقون
)
یعنی جو لوگ اپنے خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہیںاورنمازقائم کرتے ہیںاوران کے فیصلوںاور کاموںکی بنیادان کاآپسی مشورہ ہے اورجوکچہ خداانھیںرزق دیتاہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں۔
لھٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور نقل دونوں نے مشورہ کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور کیا اچھا ہو کہ مسلمان اسلام کے اس عظیم دستور کی پیروی کریں جس میں ان کی سعادت وخوشبختی اور سماج کی ترقی پوشیدہ ہے۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نہ صرف لوگوں کو یہ روش اپنانے کاحکم دیتے تھے بلکہ آپ نے اپنی زندگی میں خود بھی خدا کے اس فرمان پر عمل کیاہے ۔جنگ میں جبکہ ابھی دشمن کاسامنا نہیں ہواتھا ،بدر کے صحرا میں آگے بڑھنے اور دشمن سے مقابلہ کے سلسلہ میں آپ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور ان سے فرمایا :”اشیروا الیّ ایھا الناس“قریش سے جنگ کے سلسلہ میں تم لوگ اپنا نظریہ بیان کروکہ ہم لوگ آگے بڑھکر دشمن سے جنگ کریں یا یہی ں سے واپس ہوجائےں ؟مھاجرین وانصار کی اہم شخصیتوں نے دو الگ الگ اور متضاد مشورے دیئے لیکن آخر کار پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے انصار کا مشورہ قبول کیا۔
اُحد کی جنگ میں بڑے بوڑھے لوگ قلعہ بندی اور مدینہ میں ہی ٹھھرنے کے طرفدار تھے تاکہ برجوں اور مکانوں کی چھتوں سے دشمن پر تیر اندازی اور پھتروں کی بارش کرکے شھر کا دفاع کریں،جبکہ جوان اس بات کے طرفدار تھے کہ شھر سے باہر نکل کر جنگ کریں اور بوڑھوں کے نظریہ کو زنانہ روش سے تعبیر کرتے تھے ۔یہاں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے دوسرے نظریہ کو اپنایا ۔
جنگ خندق میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک فوجی کمیٹی تشکیل دی اور مدینہ کے حساس علاقوں کے گرد خندق کھودنے کا جناب سلمان کا مشورہ قبول کیا اور اس پر عمل کیا ۔
طائف کی جنگ میں لشکر کے بعض سرداروں کے مشورہ پرفوج کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا۔
لیکن اس بات پر توجہ ہونی چاہئے کہ کیا صرف مشور ہ اور تبادلہ خیالات ہی مشکلات کاحل ہے یا یہ کہ پہلے عقل وفکر کے اعتبار سے بانفوذ مرکزی شخصیت جلسہ تشکیل دے اور تمام آراء کے در میان سے ایک ایسی رائے منتخب کرے اور اس پر عمل کرے جو اس کی نظر میںبھی حقیقت سےقریب ہو۔
معمولاً مشوروں کے جلسوں میں مختلف افکارونظریات پیش کئے جاتے ہیں اور ہرشخص اپنے نظریہ کا دفاع کرتے ہوئے دوسروں کی آرا ء کو ناقص بتاتا ہے ۔ایسے جلسہ میں ایک مسلم الثبوت رئیس و مرکزی شخص کا وجود ضروری ہے ،جو تمام لوگوں کی رائے سنے اور ان میں سے ایک قطعی رائے منتخب کرے۔ورنہ دوسری صورت میں مشورہ کا جلسہ کسی نتیجہ کے بغیر ہی ختم ہو جائے گا۔
اتفاق سے وہ پہلی ہی آیت جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کا حکم دیتی ہے مشورہ کے بعد سے یوں خطاب کرتی ہے :”فاذا عزمت فتوکل علی الله
“ پس جب تم فیصلہ کر لو تو خداپر بھروسہ کرو ۔اس خطاب سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے یہ بات کھی جا رہی ہے کہ مشورہ کے بعد فیصلہ کرنے والی مرکز ی شخصیت خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ذات ہے لھٰذا پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ہی فیصلہ کرنا اور خدا پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
جمعیت کا پیشوا و رہبر ،جس کے حکم سے مشورہ کاجلسہ تشکیل پایا ہے ممکن ہے کہ لوگوں کے درمیان کسی تیسرے نظریہ کو اپنائے جو اس کی نظر میں ”اصلح “ یعنی زیادہ بہتر ہو۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ کے موقع پر اپنے اصحاب کے عمومی خیالات کی مخالفت کی اور مسلمانوں اور قریش کے بت پرستوں کے درمیان صلح کی قرار داد باندھی اور خود صلح یا صلح نامہ کے بعض پہلووں سے متعلق اپنے اصحاب کے اعتراضات پر کان نہیں دیئے اور زمانہ نے یہ بات ثابت کردی کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں مفید تھا ۔
اسلام میں مشورہ اور جمھوری حکومتوں کے مشورہ جس میں ملکی قوانین پاس کرنا پارلمینٹ اور سینٹ دونوں مجلسوں کے اختیار میں ہے اور حکومت کا صدر صرف ان دو مجلسوں کے تصویب شدہ قوانین کا اجرا کرنے والا ہے - میںزمین آسمان کا فرق ہے۔یہاں حکومت کارئیس وحاکم جوخود پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہیں، اقلیت یا اکثریت کی آراء کے مطابق عمل کرنے پر مجبور نہیں ہے ۔بلکہ آخری رائے یا آخری فیصلہ کا اظھار ،چاہے وہ اہل مجلس کی رائے کے ،موافق ہو یا مخالف ،خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اوپر ہے۔اور یہ پہلے عرض کیا جاچکا کہ مشورہ کے بعد قرآن کریم پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو حکم دیتاہے کہ اب آپ خدا پر توکل کریں ،فیصلہ کریںاور آگے بڑھیں۔
دوسری آیت کا مطلب بھی یہی ہے۔دوسری آیت تبادلہ خیال کو بایمان معاشرہ کی ایک بھترین خوبی شمار کرتی ہے ۔لیکن یہ باایمان معاشرہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں ہرگز ایک نافذ اور مطلق العنان رئیس سے خالی نہیں تھا اور عقل یہ کھتی ہے کہ آنحضرت کی رحلت کے بعد بھی بایمان معاشرہ کو ایسی شخصیت سے خالی نہیں رہنا چاہئے ۔یہ آیت ایسے معاشروں کی طرف اشارہ کررہی ہے جنھوں نے حاکم ورہبر کے تعین کامرحلہ طے کرلیا ہے اور اب دوسرے مسائل میں مشورہ یا تبادلہ خیال کرتے ہیں ۔
اس بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بعض علمائے اہل سنت کا ان آیات سے مشورہ کے ذریعہ خلیفہ کے انتخاب کو صحیح قرار دینا درست نہیں ہے ۔کیونکہ جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں مذکورہ آیات ان معاشروں سے متعلق ہےں جن میں حاکم کے تعین کی شکل پہلے سے حل ہوچکی ہے اور مشورتی جلسے اس کے حکم سے تشکیل پاتے ہیں تا کہ مسلمان اپنے دوسرے امور میں تبادلہ خیال کریں ، خاص طور سے پہلی آیت جو صاف طورسے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے جومسلمانوں کے رہبر ہیں۔خطاب کرتی ہے کہ مشورہ کے بعد فیصلہ کرلو اور اس کے مطابق عمل کرو۔
اس کے علاوہ عمومی افکار و خیالات کی طرف رجوع اس سلسلہ میں ہے جس میں خداوند عالم کی طرف سے مسلمانوں کے لئے کوئی فریضہ معین نہ کیا گیا ہو۔ایسے میں مسلمان تبادلہ خیال کے ذریعہ اپنا فریضہ معلوم کرسکتے ہیں،لیکن جس امر میں نص کے ذریعہ سب کا فریضہ معین کیا جاچکا ہے اس میں مشورہ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب ”حباب منذر“پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس آئے اور فوج کے مرکز کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی درخواست کی تو پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے خطاب کرکے عرض کیا ”فان کان عن امر سلّمنا و ان کا عن الرای فالتاخر عن حصنھم“
یعنی اگر اس سلسلہ میں کوئی الٰہی حکم ہے تو ہم تسلیم ہیں اور اگر ایسی بات ہے کہ ہم اس میں اپنی رائے دے سکتے ہیں تو لشکر اسلام کی مرکزی کمان کو دشمن کے قلعہ سے دورمیں ہی بھلائی ہے۔
حضرت علی ںکی خلافت و جانشینی کا موضوع ایسا مسئلہ ہے جسے بہت سے نقلی دلائل نے ثابت اور واضح کردیا ہے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خدا کے حکم سے بہت سے موقعوں پر مثلاً یوم الدار ،غدیر خم، اوربیماری کے ایام میں ان کی خلافت و جانشینی کو صراحت سے بیان کردیاہے۔پھر اب مشورہ کے ذریعہ آنحضرت کی جانشینی کی تعیین کا مسئلہ حل کیا جانا ہے کیا معنی رکھتا ہے۔کیا یہ عمل نص کے مقابلہ میں اجتھاد اور خدا کے قطعی حکم یا دلیل کے مقابل اپنے نظریہ کا اظھار نہیں ہے؟
قرآن مجید ایک آیت کے ضمن میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتاہے : جب پیغمبر اکرم کے منہ بولے بیٹے زید نے اپنی بیوی جناب زینب کو طلاق دے دی اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خدا کے حکم سے جناب زینب سے شادی کرلی تو یہ بات مسلمانوں کو بہت بری لگی کیونکہ جاہلیت کے زمانہ میں منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا اور جس طرح نسبی بیٹے کی بیوی سے شادی نا پسندیدہ اور حرام تھی اسی طرح منہ بولے بیٹے کی بیوی سے بھی شادی نا روا اور قبیح سمجھی جاتی تھی۔
مسلمانوں کو یہ توقع تھی کہ آنحضرت ہمارے نظریات کے پیرو ہوں گے اور ہمارے خیالات کا احترام کریں گے ۔جبکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے یہ عمل خدا وند عالم کے حکم سے اور جاہلیت کے رسم و رواج کو غلط قرار دینے کے لئے انجام دیا تھا ۔ اور ظاہر ہے کہ خدا کے حکم کے ہوتے ہوئے عام لوگوں کے افکار و خیالات کی طرف توجہ دینا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے مندرجہ ذیل آیت کے ذریعہ ان موارد میں اپنی مداخلت اور اپنے خیالات کے اظھار کو شدت سے محکوم کیا ہے ، جن میں اللہ کے حکم نے مسلمانوں کے لئے کوئی خاص فریضہ معین کر دیا ہو ۔قرآن فرماتا ہے :
(
وما کان لمومن ولا مومنة اذا قضی الله و رسوله امرا ان یکون لهم الخیرة من امرهم ومن یعص الله و رسوله فقد ضل ضلالا مبینا
)
”یعنی جب خدا اور اس کا رسول کسی سلسلہ میں حکم دے دیں پھر کسی مومن یا مومنہ کو اپنے امور میں کوئی اختیار نہیں ہے (انھیں بھر حال خدا کے حکم کی پیروی کرنا ہوگی) اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کے فرمان سے سرتابی کرے گا وہ کھلا ہوا گمراہ ہے“
____________________