چودھویں فصل
حکومت ،روحانی قیادت سے جدا نھیں
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے حاکم و فرماں روا ہونے کے ساتھ معنوی اور روحانی پیشوا بھی تھے۔ قرآنی آیات ، اسلامی متون اور معتبر تاریخ اس امر کے شاہد ہیں کہ پیغمبر اسلام نے مدینہ منورہ میں اپنے قیام کے ابتدائی لمحات سے اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈالی اور حقیقی حکمرانی کی تمام ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر اٹھائیں اور اسلامی معاشرے کے بعض سیاسی ، سماجی اور اقتصادی امور کو اپنی سرپرستی میں بعض شائستہ اور لائق افراد کو سونپا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدا کی طرف سے فرماں روا اور حاکم ہونے کی بہت سی مثالیں ہیں یہاں ہم قارئین کرام کی توجہ کے لئے ذیل میں صرف چند مثالیں پیش کرتے ہیں :
۱۔ قرآن مجید پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مسلمانوں کی جانوں سے اولیٰ قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے :
(
النَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ انْفُسِهِمْ
)
بیشک نبی تمام مؤمنین پر ان کی جانوں سے زیادہ اولیٰ ہے ۔
۲۔ قرآن مجید پیغمبر اکرم کوحاکم و قاضی قرار دیتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان الٰہی قوانین کے تحت فیصلے کرے ، چنانچہ اس سلسلے میں فرماتا ہے :
(
فَاحْکُمْ بَیْنَهُمْ بِمَا انْزَلَ اللهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اهْوَآئَهُمْ
)
” آپ ان کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق فیصلہ کریں اور خدا کی طرف سے آئے ہوئے حق سے الگ ہوکر ان کے خواہشات کا اتباع نہ کریں“
۳۔ پیغمبر اکرم لوگوں میں نہ صرف خود فرماں روائی اور حکمیت کے فرائض انجام دیتے تھے بلکہ ہر علاقے کو فتح کرنے کے بعد، وہاں پر خود ایک شائستہ شخص کو بعنوان حاکم، دوسرے کو قاضی کی حیثیت سے اور تیسرے کو قرآن و احکام الٰہی کی تعلیم دینے کےلئے دینی معلم کی حیثیت سے مقرر فرماتے تھے اور بعض اوقات یہ تینوں عھدے ایک ہی فرد کو سونپتے تھے۔
پیغمبر اکرم کے زمانے میں ہی امیر المؤمنین علی علیہ السلام عبد الله ابن مسعود، ابی ابن کعب اور زید بن ثابت وغیرہ قضاوت اور حکمیت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔
جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ اور یمن کو فتح کیا تو ” عتاب بن اسید“ کو مکہ کا گورنر اور ”بازان“ کو یمن کا حاکم منتخب فرمایا:
کتاب ”التراتیب الاداریہ“ کے مؤلف ” عبد الحی کتانی “ نے اپنی کتاب میں ان مسلمان گورنروں کی فھرست ذکر کی ہے ، جنھیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے زمانے میں مختلف علاقوں کے سماجی ، سیاسی اور اقتصادی امور کی ذمہ داری سنبھالنے کیلئے منتخب فرمایا تھا ۔ اس کتاب کے مطالعہ سے پیغمبر اسلام کے ذریعہ تشکیل دی گئی اسلامی حکومت کے طریقہ کار کا اشارہ ملتا ہے
اسلام نے جھاد کی دعوت دے کر اور دینِ الٰہی کو پھیلانے کیلئے جھاد کے خصوصی قوانین بیان کئے اور مسلمانوں میں جنگی اور دفاعی تربیت کو وسیع پیمانے پر رائج کیا۔ ساتھ ہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ۲۷ جنگوں میں بذات خود حصہ لیا اور ۵۵ ”سریہ“
میں لشکر کے سردار معین کئے۔ اس طرح سے اسلامی حکومت کا چھرہ لوگوں کے سامنے نمایاں فرمایا اور یہ ثابت کردیا کہ آپ(ع)کی دعوت حضرت عیسی علیہ السلام کی دعوت کے مانند فقط روحانی ، معنوی دعوت نہیں ہے آپ کی رہبری احکام بیان کرنے اور تبلیغ دین کے لئے صرف وعظ و نصیحت تک محدود نہیں ہے بلکہ آپ کی دعوت و معنوی رہنمائی ایک طاقتور حکومت کی تشکیل کے ہمراہ تھی تا کہ اپنے پیروؤں کو دشمنوں کے گزند سے محفوظ رکہ سکیں ، کتاب خدا اور دین اسلام کو ان سے بچا سکیں اور یہ حکومت انسانی سماج میں الٰہی قوانین کے نفاذ کی ضامن بن سکے۔
اسلام کا اقتصادی نظام ، حکومتی آمدنی ، جیسے انفال وغیرہ اور عوامی آمدنی جیسے زکات و خمس وغیرہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ اسلام ایک جامع و کامل نظام ہے جس نے انسانو ں کی سماجی زندگی کے تمام پہلوؤں میں ایک مکمل اور ہمہ گیر نظریہ پیش کیا ہے اور صرف محدود پیمانے پر خشک مذہبی مراسم ، وہ بھی ھفتہ میں ایک روز کی عبادت پر اکتفاء نہیں کیا ہے ۔
لیکن اس جملے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ حقیقی عیسائی دین کی بنیاد یہی تھی ، بلکہ مسیحیت کے خود غرض مدعیوں نے قیصر و پاپ کے روپ میں دین مسحیت کو رفتہ رفتہ اس صورت میں تبدیل کیا ہے اور حضرت عیسی(ع)کے دین کو سماجی میدان سے خارج کرکے رکہ دیا ہے جب کہ بہت سے پیغمبر اس مقام و منصب کے مالک تھے۔
قرآن مجید بالکل واضح طور پر حضرت لوط اور حضرت یوسف علیہما السلام کے بارے میں کھتا ہے :
” کہ ہم نے انھیں حکومت اور فرمان روائی دی “
خود حضرت یوسف بارگاہ الٰہی میں حمد و ثنا کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
(
رَبِّ ءَ اتَیْتَنِی مِنَ الْمُلْکِ
)
پروردگارا ! تو نے مجھے ملک عطا کیا
قرآن مجید نے حضرت داؤد کی قضاوت اور ان کی حکومت ، اور حضرت سلیمان و طالوت کی فرمان روائی اور حکومت کےلئے ان کی امتیازی حیثیتوںکا ذکر کیا ہے ۔ اس طرح پیغمبروں کو الٰہی حکومت کے بانی اور حکم الٰہی نافذ کرنے والوں کی حیثیت سے پھچنوایا ہے ۔
امر بالمعروف و نھی عن المنکر کے وسیع ابواب جو حکومت اسلامی کے نفاذ کی عملی بنیادوں میں سے ایک ہیں اور اسی طرح معاملات ، حدود ، دیات اور فقہ کے دیگر ابواب کے تمام قوانین کے مطالعہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے قائم کی گئی حکومت کا طریقہ کار ہر شخص کےلئے واضح و روشن ہوتا ہے ۔
یہ مسئلہ اس قدر واضح ہے اور خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی اور خلفاء کی حکومت ، خصوصاً امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی الٰہی حکومت کے دور اس امر کے اتنے نمایاں گواہ ہیں کہ ہم اس سلسلے میں مزید وضاحت سے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتے ہیں ۔
بیان احکام اور لوگوں کی رہنمائی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حکومت اور سیاسی فرمان روائی کے علاوہ احکام الٰہی کو بیان کرنے والے الٰہی قوانین کے مفسر اور قرآن مجید کی آیات کے اغراض و مقاصد بیان کرنے کے عھدہ دار بھی تھے۔
قرآن مجید آپ کو مندرجہ ذیل آیہ شریفہ میں کتابِ خدا کے عالی مفاہیم بیان کرنے والے کی حیثیت سے پھچنوایا ہے :
(
وَانْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ
)
اور آپ کی طرف ذکر ( قرآن ) کو نازل کیا ہے تا کہ لوگوں کےلئے ان احکام کو واضح کردیں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں ۔
آیہ شریفہ میں کلمہ ” لِتُبَیِّنَ“ تا کہ آپ بیان کریں ) سے واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کے علاوہ اس امر پر بھی مامور تھے کہ ان آیات کے مفاہیم اور مضامین کی وضاحت فرمائیں ۔ اگر آپ کا فریضہ صرف آیات الٰہی کو پڑھنا ہوتا تو کلمہ ” لِتُبَیّنَ “ کے بجائے ”لِتُقْرَا“ یا ”لِتُتْلٰی“ ہوتا ۔
بیشک قرآن مجید کے حکم کے مطابق آنحضرت کتابِ خدا اوراس کے حکیمانہ احکام کے معلّم ہیں ، جیسا کہ فرماتا ہے :
(
هُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الاُمِیِّینَ رَسُولاً مِنْهُمْ یَتْلُوا عَلَیهِمْ آیَاتِه وََ یُزَکِّیهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَةَ
)
” اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا جو انھیں میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ، ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے“
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی زندگی کے دوران ان دو عھدوں ( حاکمیت اور الٰہی احکام کے نفاذ) نیز احکام کی رہنمائی و تبلیغ پر فائز تھے اور یقینا آپ کی رحلت کے بعد بھی ، اسلامی معاشرے کو ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو ان دو منصبوں کا حامل ہو۔
اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ان خصوصی شرائط کا حامل کون شخص ہے جو ان دو امور میں معاشرے کی باگ ڈور سنبھال سکے؟
واضح ہے کہ احکام بیان کرنا اور لوگوں کو حلال و حرام بتانا، اخلاقی فضائل اور ان کی فطری خوبیوں کی راہنمائی کرنا یعنی ایک جملہ میں یوں کھا جائے کہ : دینی رہبری اور معنوی امور کی قیادت کےلئے عصمت اور خطا و گناہ سے پاک ہونے اور وسیع علم کا مالک ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ لوگوں پر مکمل قیادت ، جس میں پیشوا کا قول و فعل لوگوں کے لئے ہادی و رہنما ہو ، اس کی مکمل پرہیزگاری (جسے عصمت کہتے ہیں ) اور وسیع علم پر منحصر ہے ۔
دوسرے الفاظ میں : اسلامی معاشرے کے قائد کو احکام اور اصول و فروع دین پر مکمل دسترس ہونی چاہئے ، اس کے بغیروہ لوگوں کےلئے مکمل راہنما اور الٰہی رہبر نہیں بن سکتا ، اگلے صفحات میں ہم ثابت کریں گے کہ ہمہ گیر رہبری و رہنمائی عصمت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
قرآن مجید خدائے تعالیٰ کی طرف سے طالوت کو فرمان روائی کے عھدے کیلئے منتخب کرنے کا سبب دو چیزیں بیان فرماتا ہے:
۱۔ علم و دانش میں برتری
۲۔ جسمانی لحاظ سے طاقتور ہونا ، جس کی وجہ سے دن رات ، وقت بے وقت قوم کےلئے کام کرسکے اور قیادت کی ذمہ داری سنبھال سکے (حکام کے لئے دوسری شرط زمانہ قدیم سے تجربہ کے ذریعہ ثابت ہوچکی ہے ، حتی یہ بات ضرب المثل بن گئی ہے کہ : صحیح عقل و فکر صحت مند بدن میں ہوتی ہے)اب یہ آیہ شریفہ ملاحظہ ہو :
(
اِنَّ اللهَ اصْطَفَٰ-ه عَلَیْکُمْ وَ زَادَه بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ
)
” انھیں ( طالوت کو ) الله نے تمھارے لئے منتخب کیا ہے اور ان کے علم و جسم میں وسعت فرمائی ہے “
امیر المؤمنین علیہ السلام جب اپنے سپاہیوں اور افسروں کو خطاب فرماتے تھے اور انھیں خدا کی راہ میں جھاد کرنے کی ترغیب و دعوت دیتے تھے تو اسلامی معاشرے کو ہر جھت سے ادارہ کرنے کی اپنی صلاحیت اور شائستگی بیان کرنے کےلئے اسی آیہ شریفہ سے استدلال کرتے تھے اور فرماتے تھے :
لوگو! اس قرآن مجید کی پیروی کرو اور اس سے نصیحت حاصل کرو جسے خدائے تعالیٰ نے اپنے پیغمبر پر نازل کیا ہے ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے حضرت موسیٰ (ع)کی وفات کے بعد اپنے پیغمبر سے درخواست کی کہ خداوند عالم ان کےلئے ایک حاکم و فرماں روا منتخب کرے جس کی رہبری میں وہ خدا کی راہ میں جھاد کریں ۔ خدائے تعالیٰ نے حضرت طالوت کو ان کی فرماں روائی کیلئے منتخب فرمایا، لیکن بنی اسرائیل نے ان کی اطاعت نہیں کی ، اور اس کام کےلئے ان کی صلاحیت اور شائستگی میں شک کرنے لگے ۔ خدائے تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ ان لوگوں سے کھدو کہ اس منصب کےلئے طالوت کے انتخاب کا سبب علمی لحاظ سے ان کی برتری اور جسمی توانائی ہے۔
لوگوا ! ان قرآنی آیات میں تم لوگوں کےلئے پند و عبرت پوشیدہ ہے ۔ خدا ئے تعالی نے اس لئے طالوت کو ان کےلئے حاکم اور فرمانروا قرار دیا تھا کہ وہ علم و جسمی توانائی میں ان سے برتر تھے اور وہ ان خصوصیات کی بنا پر جھاد و جد و جھد کرسکتے تھے
حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع)بھی اہل بیت رسول کی خلافت و امامت کےلئے شائستگی ثابت کرنے
کے لئے تمام الھٰی احکام اور امت کی تمام ضرورتوں کے بارے میںان کے علم پر تکیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
لوگو! امت کے پیشوا ہمارے خاندان سے ہیں اور پیغمبر کی جانشینی کی صلاحیت ہمارے علاوہ کوئی نہیں رکھتا ، خدا ئے تعالی ٰ نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر کے ذریعہ ہمیں اس منصب کےلئے شائستہ قرار دیا ہے ، کیونکہ علم و دانش ہمارے پاس ہے ، اور ہم قیامت تک رونما ہونے والے ہر حکم ، حتی بدن پر لگی ایک معمولی خراش کے حکم سے بھی آگاہ ہیں
دو منصبوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا صحیح نہیں
حاکمیت کو معنوی قیادت کے منصب سے جدا کرنا ایسی چیز نہیں ہے جو اہل سنت علماء کی تازہ فکری پیداوار ہو بلکہ یہ بہت پرانی تاریخ ہے۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ سقیفہ کا ماجرا ختم ہوا اور حضرت ابو بکر نے امور اپنے ہاتہ میں لئے اور ظاہراً حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابیوں میں ایک گروہ ایسا تھا ، جو امیر المؤمنین کو خلافت کے عھدے سے محروم کرنے پر سخت ناراض تھا ، کیونکہ جنگ تبوک
کےلئے مدینہ سے باہر نکلتے وقت ، غدیر
کے دن اور اپنی بیماری
کے ایام میں پیغمبر اسلام کے ارشادات بھی ان کے کانوں میں گونج رہے تھے۔
اس لئے کچھ حق پسند افراد اس ڈرامائی اندازمیں خلافت کے غصب کرنے پر سخت غصے میں آئے ، یہ لوگ کسی فریق کی طرفداری کئے بغیر خلیفہ کے پاس جاکر علی(ع)کے بارے میں سوال کرتے تھے ، خلیفہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں تھا کہ دو منصبوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ضروری ہے وہ کہتے تھے کہ ” منصب حکومت اور معنوی قیادت ہرگز ایک ساتھ ایک خاندان میں جمع نہیں ہوسکتے “
رسول خدا کا ایک صحابی بریدہ بن خصیب ، پیغمبر کی رحلت کے وقت مدینہ سے باہر ماموریت پر گیا تھا ۔ وہ پیغمبر کی رحلت کے بعد واپس مدینہ آیا اور اس نے حالات کو دگرگوں پایا، تو ایک پرچم حضرت علی(ع)کے دروازے پر نصب کرکے غصہ کی حالت میں مسجد میں داخل ہوا اور خلیفہ اور ان کے ہمفکروں کے ساتھ بحث کرتے ہوئے کھنے لگا :
’ ’ کیا تم لوگوں کو یاد نہیں ہے کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سب کو حکم دیا تھا کہ حاکم اور امیر المؤمنین کی حیثیت سے حضرت علی علیہ السلام کو سلام کرو اور کھو:” السلام علیک یا امیر المؤمنین
اب کیا ہوا ہے کہ تم لوگ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت اور سفارش کو فراموش کر بیٹھے ؟
خلیفہ نے ”بریدہ“ کے سوال کے جواب میں دونوں منصبوں کو جدا کرنے کا اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے کھا: خدائے تعالیٰ ہر دن ایک کام کے بعد دوسرا کام انجام دیتا ہے اور ایک خاندان میں نبوت (معنوی قیادت ) اور حکمرانی کو جمع نہیں کرتا ۔
یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت(ع)یا امت کے معنوی پیشوا ہوں گے تا کہ احکام و شریعت الٰہی کو بیان کریں یا حکمراں ، یہ دونوں منصب ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ،
خلیفہ کی بات پر ذرا دقت سے غور کریں ان کا مقصد یہ نظر نہیں آتا کہ یہ دو منصب ہر گز کبھی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ، کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں منصبوں کے مالک تھے۔ آپ مسلمانوں کے حاکم بھی تھے اور معنوی قائد بھی ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ حضرت سلیمان (ع)جیسے دوسرے پیغمبر بھی ان دونوں عھدوں پر فائز تھے ۔
یقینا ان کا مقصد یہ تھا کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد یہ دو مقام اور منصب آنحضرت کے خاندان میں جمع نہیں ہوں گے ، لیکن یہ نظریہ بھی گزشتہ نظریہ کی طرح باطل اور بے بنیاد ہے ۔ لھذا جب حضرت امام باقر علیہ السلام اصحاب سقیفہ کے اس نظریہ ”جدائی“ کونقل کرتے تھے تو فوراً مندرجہ ذیل آیہ شریفہ ،__جو فرزندان ابراہیم میں ان دونوں منصبوں کے جمع ہونے کی حکایت کرتی ہے__ سے اس نظریہ کو باطل قرار دیتے تھے۔
(
امْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلٰی مَا ءَ اتَ-ٰ-هُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِه فَقَدْ آتَیْنٰا ءَ الَ إِبْرَاهِیمَ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ آتَیْنَا هُمْ مُلکاً عَظِیماً
)
یا وہ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جنھیں خدا نے اپنے فضل و کرم سے بہت کچھ عطا کیا ہے تو پھر ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور ملک عظیم ( بڑی فرمانروائی ) سب کچھ عطا کیا ہے “
امام باقر علیہ السلام نے مذکور آیہ شریفہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
” فکیف یقرّون فی آل ابراہیم و ینکرونہ من آل محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم“
پس یہ لوگ کس طرح ان دونوں منصبوں کے خاندان ابراہیم(ع)میں جمع ہونے کا اعتراف کرتے ہیں ، لیکن اسی چیز کے خاندان محمد میں جمع ہونے کا انکار کرتے ہیں “
عیسائی تفکر
حقیقت میں ان دونوں منصبوں کا ایک دوسرے سے جدا ہونا ، ایک قسم کا عیسائی تفکر ہے جو اس نظریہ کے ہمفکروں کی زبان پر جاری ہوا ہے ۔ کیونکہ یہ موجودہ تحریف شدہ عیسائی دین ہے جو یہ کھتا ہے کہ میں اس امر پر مامور ہوں کہ امور قیصر کو خود قیصر کو سونپ دوں ، لیکن دین اسلام کے تمام قوانین ایک مکمل مادی و معنوی ضابطہ حیات کی حکایت کرتے ہیں کہ جو بشر کی تمام سماجی ، اخلاقی ، سیاسی اور اقتصادی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے ۔
دین اسلام ، جس کی بنیاد اور احکام و قوانین کے تانے بانے انسانی سیاست یعنی اسلامی سماج کے امور کی تدبیر کو تشکیل دیتے ہیں اس میں معنوی رہبری کو حکومت اور فرماں روائی سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے۔
بیشک اسلام میں لوگوں پر حکومت و فرماں روائی بذات خود مقصد نہیں ہے بلکہ اسلامی حاکم اس لحاظ سے اس منصب کو قبول کرتا ہے کہ اس کے سائے میں حق کو زندہ کرسکے اور باطل کو نابود کرے۔
امیر المؤمنین علیہ السلام حکومت کو احیائے حق کا وسیلہ جاننے کے بجائے خود حکومت کو مقصد قرار دئےے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
”و انّ دنیاکم هذه ازهد عندی من عفطة عنز
“
یعنی تم لوگوں کی دنیا اور یہ حکومت جس کےلئے ہاتہ پاؤں ماررہے ہو ، میری نظر میں بکری کی ناک سے بھنے والے پانی کے برابر بھی قدر و قیمت نہیں رکھتے ۔
ماضی اور حال کے کچھ روشن خیال افراد یہ سوچتے ہیں کہ شیعہ و سنی کے درمیان اتحاد کا طریقہ یہ ہے کہ ان دو منصبوں کو خلفاء اور اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تقسیم کردیا جائے ، حکومت اور فرماں روائی کو خلفاء کا حق اور معنوی قیادت کو اہل بیت علیھم السلام کا حق جان لیں ۔ اس طرح اس چودہ سو سالہ جھگڑے کو ختم کردیں اور مسلمانوں کو مشرق و مغرب کی دو سامراجی طاقتوں کے خلاف متحد و طاقتور بنائیں۔
لیکن یہ نظریہ بھی غلط ہے کیونکہ اس طرح اس اتحاد کی بنیاد ایک غلط نظریہ پر قائم ہوگی جس سے ایک قسم کی عیسائیت اور سیکولرزم کی بو آتی ہے ۔ ہم قرآن مجید کے واضح حکم کے خلاف ان دو منسبوں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے اسے قربانی کے گوشت کی طرح کیوں تقسیم کریں ؟!
مسلمانوں کے درمیاں اتحاد و یکجھتی کےلئے دوسرا راستہ موجود ہے اوروہ ایسے مشترکات ہیں جو دونوں فرقوں میں پائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ سب ایک کتاب ، ایک پیغمبر اور ایک قبلہ کی پیروی کرتے ہیں اور بہت سے اصول و فروع میں اتفاق نظر رکھتے ہیں ، لھذا دوسرے مسائل میں اختلاف آپس میں ٹکراؤ اور خوں ریزی کا سبب نہیں ہونا چاہیے ۔لیکن سیاسی اتحاد و یکجھتی کے تحفظ کے ساتھ ہر فرقہ کو اپنے عقائد کے صحیح اور منطقی دفاع کا پورا پورا حق ہونا چاہئے اور اپنے عقائد کے دفاع کے ساتھ ساتھ اپنے مشترک دشمن ( سامراج اور صیھونزم) کے خلاف دیگر مسلمانوں کے ساتھ اتحاد و یکجھتی کی ضرورت کو فراموش نہ کرنا چاہئے ۔
____________________