دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)0%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

مؤلف: محمد مهدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 248
مشاہدے: 64994
ڈاؤنلوڈ: 3664


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 64994 / ڈاؤنلوڈ: 3664
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد 2

مؤلف:
اردو

اَلحَْمدُْ لِلهِّٰ الَّذِی لَایُهتَْکُ حِجَابُهُ وَلَایُغلَْقُ بَابُهُ (١) “ساری حمداس خدا کے لئے جس کا حجاب نور اڻهایا نہيں جاسکتا ہے اور اس کا دروازہ کرم بند نہيں ہوسکتا ہے ”

حجاب کی بهی دو قسميں ہيں :حجاب ظلمت اور حجاب نور ۔کبهی انسان گهپ اندهيرے کی وجہ سے کچه دیکه نہيں پاتا یعنی گهڻا ڻوپ اندهيرا اس کے دیکهنے ميں مانع ہو تا ہے اس کو حجاب ظلمت اور تاریکی کہا جاتا ہے ۔ کبهی انسان انتہا ئی رو شنی اور نورکی وجہ سے کچه دیکه نہيں پاتا ہے جس طرح انسان وسط ميںکسی رکا وٹ و حائل ہو نے والی چيز کے بغير سورج کی طرف نہيں دیکه سکتا ہے یہ سورج کی انتہا ئی روشنی کی وجہ سے ہے اسی کو حجاب نور کہا جا تا ہے ۔

“دنيا سے محبت ”،برائيوں کی مقار نت اور “مَا یُرین القلب ”انسان کے الله سے لو لگا نے ميں حجاب ظلمت شمار ہو تے ہيں ۔

انسان کے الله سے لو لگا نے کےلئے حجاب نور دو سری چيز ہے، حجاب نور وہ حجاب ہے جو کبهی نہيں چهڻتا ہے ۔جيسا کہ حضرت مہدی عجل الله تعا لیٰ فر جہ الشریف نے اس دعا ميں فر مایا ہے ۔

یہ وہ حجاب ہے جو بندوں کے دلوں ميں شوق و اشتياق زیادہ کرتا ہے حضرت امام زین العا بدین اپنی منا جات ميں الله سے لو لگا نے کے شوق و اشتياق کو یوں بيان فر ما تے ہيں :

وَغُلَّتِي لَایُبَرِّدُهَااِلَّاوَصلُْکَ وَلَوعَْتي لَایُطفِْيهَْا اِلَّالِقَاوکَ وَشَوقِْي اِلَيکَْ لَایَبُلُّهُ اِلَّاالنَّظَرُ اِل یٰ وَجهِْکَ وَقَرَارِي لَایُقِرُّدُونَْ دُنُوِّي مِنکَْ وَلَهفَْتِي لَایَرُدُّهَا اِلَّارَوحُْکَ وَسُقمِْي لَایَشفِْيهِْ اِلَّاطِبُّکَ وَغَمِّي لَایُزِیلُْهُ اِلَّاقُربُْکَ وَجُرحِي

____________________

١)مفا تيح الجنان دعا ئے افتتاح ۔ )

۱۰۱

لَایُبرِْئُهُ اِلَّاصَفحُْکَ وَرینَْ قَلبِْی لَایَجلُْوهُْ اِلَّاعَفوُْکَ فَيَامُنتَْه یٰ اَمَلِ الآمِلِينَْ، وَیَاغَایَةَ سُولِْ السَّائِلِينَْ وَیَااَقصْ یٰ طَلَبَةِ الطَّالِبِينَْ وَیَااَعلْ یٰ رَغبَْة الرَّاغِبِينَْ وَیَاوَلِیَّ الصَّالِحِينَْ وَیَااَمَانَ الخَْائِفِينَْ،وَیَامُجِيبَْ دَعوَْةِ المُْضطَْرِّینَْ وَیَاذُخرَْالمُْعدِْمِينَْ وَیَاکَنزَْالبَْائِسِينَْ ( ١)

“اور ميرے اشتياق کی حرارت کو تيرے وصال کے علا وہ کو ئی اورچيزڻھنڈا نہيں کر سکتی اور ميرے شعلہ شوق کو تيری ملاقات کے علاوہ کو ئی چيز بجها نہيں سکتی اور ميرے شوق کو تر نہيں کرسکتا ہے مگر تيری طرف نظر کر نا ميرا دل تيرے قرب کے علا وہ قرار نہيں پاتا ہے اور ميری حسرت کو تيری رحمت کے سوا کو ئی زائل نہيں کر تا اور ميرے درد کو تيرے علا ج کے سوا کو ئی شفا نہيں دیتا ہے اور ميرے غم کو تيرے قرب کے سوا کو ئی زا ئل نہيں کرتا اور ميرے زخم کو تيری چشم پو شی کے علا وہ کو ئی ڻهيک نہيں کرتا اور ميرے دل کے زنگ کو تيری معا فی کی علا وہ کو ئی جِلا نہيں دیتا ۔۔۔اے اميد واروں کی اميد کی انتہا اے سوال کرنے والوں کے منتہاء مقصود ،اے طلب کرنے والوں کے بلند ترین مطلوب اے رغبت رکهنے والوں کی بلند ترین آرزو ،اے نيکوں کے ولی اے خوف رکهنے والوں کے امان دینے والے اور اے مضطر کی دعا قبول کرنے والے اور اے بينواوں کے ہمنوا اور اے بيچا روں کے لئے اميدکا خزانہ ”

اس تجلی کے با لمقابل تجلی کا ایک اور طریقہ ہے اور وہ اپنے اور بندوں کے درميان دروازہ بند کئے ہو ئے بغير تجلی کرنا ہے وہ ان کی مناجات کو سنتا ہے ،وہ ان کی شہ رگ گردن سے بهی زیادہ ان سے قریب ہے ، یحول بين المرء و قلبہ ، اس سے بندوں کے دلوں ميں آنے والی کو ئی بهی چيز مخفی نہيں ہے ،بندہ خود کو اپنے آقا کی بارگاہ ميں حاضر پاتا ہے وہ اپنے آقا کی کو ئی بهی مخالفت اور معصيت کرنے سے ڈر تا ہے ،اس کے ذکر و یاد سے مانوس ہو تا ہے ،اپنی مناجات اور دعا ميں ثابت

____________________

١)بحا رالانوار جلد ٩۴ صفحہ ۵٠ ا۔ )

۱۰۲

قدم رہتا ہے ،منا جات کوطول دیتا ہے ،خدا کا ذکر اور اس کو یاد کرتا ہے اور اس کے سامنے ڻهہر تا ہے ۔

حدیث قد سی ميں آیا ہے کہ پر ور دگار عالم رات کی تاریکی ميں اپنی بارگاہ ميں اپنے بعض انبيا ء کور کو ع وسجو د سے متصف کرتا ہے جبکہ لوگ گہری نيند ميں سوئے ہو ئے ہوتے ہيں :

ولوتراهم وهم یقيمون لي في الدجیٰ ،وقد مثلت نفسی بين اعنيهم یخاطبوني،وقد جللت عن المشاهدة ویکلّموني وقد عززت عن الحضور (١) “اگرتم ان کو رات کی تاریکی ميں دیکهو گے تو وہ حالت قيام ميں ہونگے وہ ميرے وجود کا مشاہدہ کرتے ہيں اور مجه سے مخاطب ہوتے ہيں اور گفتگو کر تے ہيں درحاليکہ ميں ان سے غائب ہوں’ ’

بندہ خدا کی بارگاہ ميں حاضر ہو نے سے نہيں اکتا تا اور نہ ہی وقت گذرنے کا احساس کرتا ہے ۔کياآپ نے یہ مشاہدہ نہيں کيا کہ جب انسان اپنے کسی ایسے دوست کے پاس جاتا ہے جس سے اس کو بہت زیادہ محبت ہو تی ہے تو وہ نہ اس کے پاس جانے سے اکتاتا ہے اور نہ ہی اس کو اپنے وقت گذرنے کا احساس ہوتا ہے ؟

تو پھر انسان، الله کی بارگاہ ميں حاضر ہو نے سے کيسے اکتا ئے گا ؟ جبکہ پر وردگار عالم اس کی بات سنتا ہے ،اس کو دیکهتا ہے اس کے خطاب اور کلام کو سنتا ہے اور وہ اس کے ساته ہے۔

وَهُوَمَعَکُم اَینَْ مَاکُنتُْم (٢) “تم جہاں کہيں ہو وہ تمہارے ساته ہے ”

الله کے ذکر سے اس کو اطمينان وسکون حاصل ہو تا ہے :( الابذکرالله تطمئنُّ القلوبُ ) (٣)

____________________

١) لقا ء الله صفحہ / ١٠١ ۔ )

٢)سورئہ حدید آیت/ ۴۔ )

٣)سورہ رعدآیت/ ٢٨ ۔ )

۱۰۳

“اور آگاہ ہو جا ؤ کہ اطمينان یاد خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے ” امام مہدی عجل الله تعا لیٰ فر جہ الشریف مشہو رو معروف دعا ئے افتتاح ميں فر ما تے ہيں :

فصرت ادعوک آمناواسالک مستانساً،لاخائفاًولاوجلا،مدّلاعليک فيماقصدت فيه اليک ( ١)

“تو اب ميں بڑے اطمينان کے ساته تجهے پکاررہاہوں اوربڑے انس کے ساته تجه سے سوال کررہا ہوںنہ خوفزدہ ہوں نہ لرزاں ہوں اپنے ارادوں ميںتجه سے اصرارکررہاہوں ”

بيشک یہ حالت الله سے اُنس اور اس سے اطمينان کی وجہ سے پيداہوتی ہے، الله سے مدد اور امن کا احساس ایسی کيفيت ہے جو الله کی بارگاہ ميں حاضری ،اس کی قُربت اور معيت سے وجودميں آتی ہے اوریہ بندہ کی الله سے لولگا نے کی سب سے افضل حالت ہے ليکن ہر چيز کی الله سے لولگا نے کی مثال نہيں دی جاسکتی ہے بلکہ اس سے حالت شوق کا ملاہوا ہونا ضرور ی ہے یہاں تک کہ اس حالت کوکامل متوازن اور منظم ہونا چاہئے ۔

اولياء الله اور اس کے نيک بندوں کی عبادت اور ان کے الله سے لو لگا نے کے سلسلہ ميں یہ دو اہم حالتيں ہيں کبهی ان کی عبادت اور الله سے لو لگا نے ميں شوق اور ہم و غم غالب رہتا ہے اور کبهی ان کی عبادت اور الله سے لولگا نے ميں اُنس ،سکون واطمينان غالب رہتا ہے کبهی ایسا ہوتا ہے اور کبهی ویسا ہوتا ہے یہی سب سے افضل حالتيں ہيں اور الله سے لولگا نے ميں نظم وانس کی حالت سے بہت قریب ہيں ۔

حما دبن حبيب عطار کوفی سے مروی ہے :ہم حا جيوں کا قافلہ اپنا رخت سفر بانده کر نکلا تو ہم رات کے وقت “زبالہ ”(عراق سے حا جيوں کے راستہ ميں آنے والا مقام)نامی جگہ پر پہنچے تو کا لی

____________________

١)مفا تيح الجنان دعاء افتتاح ۔ )

۱۰۴

آندهی آئی اور ميں قافلہ سے بچهڑگيا اور بقيہ رات اسی جنگل و بيابان ميں گذری جب ميں ایک چڻيل ميدان پر پہنچا جب رات آئی تو ميں نے ایک درخت کے نيچے قيام کيا اور جب گهپ اندهيرا چها گيا تو ميرے پاس ایک نوجوان آیا جو سفيد لباس پہنے ہوئے تھا ، اس کے منه سے مسک کی خو شبو آرہی تهی ميں نے سوچا:یہ کو ئی الله کا ولی ہے ۔

ميںکچه ڈرا کہ یہ شخص کيا چا ہتا ہے ،وہ ایک جگہ پر پہنچا اور نماز کےلئے تياری کرنے لگا ،پهر جب وہ نماز کےلئے کهڑا ہو نے لگا تو اس کی زبان پر یہ کلمات جا ری تھے :

یامَن احازکل شيءٍ ملکوتاوقهرکل شيءٍ جبروتا،اولِج قلبي فرح الاقبال عليک والحقني بميدان المطيعين لک

“اے وہ کہ جو ہر چيز پر محيط ہے اور غالب ہے ميرے دل ميں ہر مناجات کی خوشی ڈالدے اور اپنے اطاعت گذار بندوں ميں شمار فرما ” اس کے بعد وہ نماز ميں مشغول ہوگيا ۔۔۔

جب اندهيرا چهٹ گيا تو اس کی زبان پر یہ کلمات جا ری تھے :

یامَن قصد ه الطالبون فاصابوه مرشدا،وامّه الخائفون فوجوده متفضّلا و لجااليه العابدون فوجدوه نوالا متیٰ وجد راحة مَن نصب لغيرک بدنه ومتیٰ فرح مَن قصد سواک بنيته الهي قد تقشع الظلام ولم اقض من خد متک وطراً، ولامن حاضّ مناجاتک مدراً،صلِّ الله علیٰ محمّد وآله،وافعل بي اولی الامرین بک یاارحم الراحمين

“اے وہ ذات جس کا حقيقت کے طالبوں نے قصد کيا تو اس کو رہنما پایا اور خائفين نے اس کو اپنا پيشوا قرار دیا تو اس کو سخی پایا ،عابدین نے اس کو اپنی پناہ گاہ قرار دیا تو اس کو آسان پناہ گاہ پایا وہ شخص کيسے آرام پاسکتا ہے جو تيرے علاوہ کسی اور کےلئے خود کو خستہ کرے اوروہ کب خوش ہو سکتا ہے جو اپنے باطن ميں تيرے علا وہ کسی اور کا قصد کرے۔ خدایا! تا ریکياں چهٹ گئيں ليکن ميں تيری ذرہ برابر خدمت نہ کر سکا اور نہ ذرہ برابر تجه سے مناجات کرسکا ،محمد وآل محمد پر درور بهيج اور دو سروں کے ساته وہ سلوک کر جو تيرے لئے زیادہ سزاوار ہے اے ارحم الراحمين ”

۱۰۵

ميں نے خيال کيا کہ کہيں یہ شخص دنيا سے نہ گذر جا ئے اور اس کا اثر مجه تک پہنچے تو ميں نے اس سے کہا :آپ سے رنج و تعب کيسے دور ہوا اور آپ کو ایسا شوق شدید اور لذت و رغبت کس نے عطا کی ہے ۔۔۔آپ کون ہيں ؟تو انهوں نے مجه سے فرمایا :ميں علی بن الحسين بن علی بن ابو طالب ہوں ۔(ا) اصمعی سے مروی ہے :ميں رات ميں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا تو ميں نے دیکها ایک خوبصورت جوان کعبہ کے پر دے کو ہا تهوں ميں تھا مے ہوئے کہہ رہا ہے :

نامت العيون وعلت النجوم وانت الملک الحي القيوم،غلّقت الملوک ابوابها،واقامت عليهاحرّاسها،وبابک مفتوح للسائلين ،جئتک لتنظر اليَّ برحمتک یاارحم الراحمينَ

“آنکهيں محو خواب ہيں ستارے نکل آئے ہيں اور تو حی و قيوم بادشاہ ہے ،بادشاہوں کے دروازے بند ہيں اور ان پر پہرے دار کهڑے ہيں جبکہ حاجتمندوں کےلئے تيرا دروازہ کهلا ہوا ہے ميں تيرے پاس اس لئے آیا ہوں کہ تو مجه پر اپنی نظر رحمت ڈال دے ”

پهر اس کے بعد زبان پر یہ اشعارجاری کئے :یامَن یُجيب دعاالمضطرّفي الظلم یاکاشف الضرّوالبلویٰ مع السقم

____________________

١)بحار الانوار جلد ۴۶ صفحہ ٧٧ ۔ ٧٨ ۔ )

۱۰۶

“اے وہ ہستی جو تاریکيوں ميں مجبور شخص کی دعا قبول کرتی ہے اے وہ ہستی جو ہماری پریشانی اور بلا کو دور کرنے والی ہے ”

قد نام وفدک حول البيت قاطبة وانت وحد ک یاقيوم لم تنم “خا نہ کعبہ کے ارد گرد تيری تمام مخلوق سو گئی جبکہ اے قيوم !تو نہيں سویا”

ادعوک ربّ دعاءً قد امرت بها فارحم بکائي بحقِّ البيت والحرم “پرور دگارا !تيرے حکم کے مطابق ميں تجهے پکاررہا ہوں لہٰذا خا نہ کعبہ اور حرم کے واسطے ميرے گریہ پر لطف نازل فرما ”

ان کان عفوک لایرجوه ذوسرف فمن یجودعلی العاصين بالنعم “اگر چہ زیادہ روی کرنے والا تيری معافی کا اميدوار نہ ہو تو گنا ہگاروں پر نعمتوں کی بارش کون کرے گا ”

جب ميں نے تحقيقات کی تو، معلوم ہوا کہ آپ امام زین العا بدین عليہ السلام ہيں ۔( ١)

طاؤو س فقيہ سے مروی ہے :

رایته یطوف من العشاء الیٰ السحرویتعبّدفلمالم یراحداًرمق السماء بطرفه وقال:الهي غارت نجوم سماواتک ،وهجعت عيون انامک،وابوابک مفتحات للسائلين،جئتک لتغفرلي وترحمني وتریني وجه جدی محمّد (ص)فی عرصات القيامة”

“ميں نے آپ کو عشاء کے وقت سے ليکر سحر تک خانہ کعبہ کا طواف اور عبادت کر تے دیکها

____________________

١)بحارالانوار جلد ۴۶ صفحہ ٨٠ ۔ ٨١ ۔ )

۱۰۷

جب وهاں پر کوئی دکها ئی نه دیا تو آپ نے آسمان کی طرف دیکه کر فرمایا : ثم بکیٰ وقالوعزّتک وجلالک مااردت بمعصيتي مخالفتک، وما عصيتک اذ عصيتک وانا بک شاک ولابنکالک جاهل،ولالعقوبتک متعرض،ولکن سوّلت لي نفسي واعانني علیٰ ذالک سترک المرخیٰ به علیَّ،فالآن من عذابک من یستنقذني ؟وبحبل من اعتصم ان قطعت حبلک عني؟فواسواتاه غداًمن الوقوف بين یدیک ،اذاقيل للمخفّيْنَ جُوزوا،وللمثقلين حطّوا،امع المخفين،اجوز ؟ام مع المثقلين احط؟ویلي کلما طال عمري کثرت خطایاي ولم اتب،اماآن لی ان استحيي من ربّي”؟

ثم بکیٰ وانشایقول:

اتحرقني بالناریاغایة المنیٰ فاین رجا ئي ثم این محبّتي اتيت باعمال قباح رزیّة ومافي الوریٰ خلق جنیٰ کجنایتي ثم بکیٰ وقال:

سبحانک تُعصي کانّک لاتریٰ،وتحلم کانّک لم تُعصَ تتودّدالیٰ خلقک بحسن الصنيع کانّ بک الحاجة اليهم،وانت یاسيدي الغنی عنهم

ثمَّ خرَّالی الارض ساجداً قال:فدنوت منه وشِلت براسه ووضعته علیٰ رکبتي وبکيت حتّیٰ جرت دموعي علیٰ خدِّه،فاستویٰ جالساًوقال:من الّذي اشغلني عن ذکرربّی؟فقلت:اناطاووس یابن رسول الله ماهذاالجزع والفزع؟ونحن یلزمناان نفعل مثل هذاونحن عاصون جانون ابوک الحسين بن عليّ وامّک فاطمةالزهراء،وجدُّک رسول الله (ص) قال:فالتقت اليَّ و قال:هيهات هيهات یاطاووس دع عنّی حدیث ابي واُمّي وجدِّي خلق الله الجنّة لمن اطاعه واحسن،ولوکان عبداًحبشيّاً،وخلق النارلمن عصاه ولوکان ولداً قرشيّاً اماسمعت قوله تعالیٰ:

۱۰۸

( فّاِ اٰ ذنُفِخَ فِی الصُّورِفّ اٰ لان سْٰابَ بَينَْهُم یَومَْئِذٍوَ لاٰ ( یَتَ سٰاءَ لُونَ ) (١) والله لاینفعک غداًالّاتَقْدِمَةٌتقدِّمهامن عمل صالح( ٢)

“معبود تيرے آسمان کے ستارے غروب کرچکے ہيں تيری مخلوق کی آنکهيں بند ہيں جبکہ حا جتمندوں کےلئے تيرے دروازے کهلے ہيں ميں تجه سے رحمت اور مغفرت کا خواہاں اور عر صہ قيامت ميں اپنے جد محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے دیدار کی آرزو ليکر آیا ہوں ”

پهر آپ نے گریہ کرتے ہوئے فر مایا :

“تجه کو اپنی عزت و جلال کی قسم، ميں نے گناہ کے ذریعہ تيری مخالفت کا ارادہ نہيں کيا اور ميں نے جو تيری مخالفت کی ہے وہ اس حالت ميں مخالفت نہيں کی ہے کہ مجه کو تيری ذات ميں شک رہا ہو اور ميں تيرے عذاب سے نا واقف رہا ہوں نيز تيری سزا کی طرف بڑهنے والا ہوں بلکہ ميرے نفس نے ميرے لئے امور کو مزین کردیا اور سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ تو نے ميری پردہ پوشی کی تو اب مجه کو تيرے عذاب سے کون بچا ئے گا ؟نيز اگر تو مجه سے اپنی ریسمان کو تو ڑلے تو ميں کس کی رسی کو مضبوطی سے پکڑوں ؟کل تيرے سامنے کهڑاہونا ميرے لئے کتنا رسوا ئی کا سبب ہوگا جب ہلکے بوجه والوں سے آگے بڑه جا نے کيلئے کہا جائيگا اور زیادہ بوجه والوں سے کہا جائيگا کہ اتر جا ؤ ؟کيا ميں ہلکے بوجه والوں کے ساته گذر جا ؤنگا یا زیادہ بوجه والوں کے ساته گر جا ؤنگا ؟کتنا افسوس ہے کہ جتنی ميری عمر بڑه رہی ہے مجه سے غلطياں زیادہ سرزدہو رہی ہيںجبکہ ميں نے ابهی تو بہ بهی نہيں کی ہے ؟کيا ابهی تک وہ وقت نہيں آیا کہ ميں اپنے پروردگار سے تو بہ کروں؟

پهر آپ نے روکر اس مفہوم کے یہ اشعار کہنا شروع کئے :

____________________

١)سورئہ آل عمران آیت / ١٩٠ ۔ )

٢)بحارالانوار جلد ۴۶ صفحہ ا ٨ ۔ ٨٢ ۔ )

۱۰۹

اتحرقنی بالناریاغایة المنیٰ فاین رجا ئی ثم این محبتی “اے آرزؤوں کی انتہا کيا تو مجه کو آگ ميں جلا ئيگا توميری اميد اور محبت کہاں گئی ؟

اتيت باعمال قباح رزیّة ومافی الوریٰ خلق جنیٰ کجنایتی “ميں برے کام کرکے آیا ہوں اور ميری طرح کسی نے جرم نہيں کيا ہے ” پھر آپ نے روکر فرمایا :

تو پاک و منزہ ہے تيری نا فرمانی کی جا تی ہے گویا تو نہيں دیکهتا اور تو برداشت کرتا ہے گو یا تيری نا فرما نی نہيں کی گئی ہے ،تو اپنی مخلوقات سے اچهے کام کے ذریعہ محبت کرتا ہے گویا تجه کو ان کی ضرورت ہے جبکہ اے ميرے آقا تو اس سے بے نياز ہے ۔

پهر آپ سجدے ميں گر پڑے ۔طاؤس فقيہ کا کہنا ہے کہ ميں ان کے نزدیک گيا اور ان کا سر اڻها کر اپنے زانوپر رکها اور اتنا رویا کہ ميرے آنسو ان کے رخسار پر بہنے لگے ۔امام عليہ السلام اڻه کر بيڻه گئے اور فرمایا :کس نے مجه کو ميرے رب کی یاد سے روک دیا ؟ميں نے عرض کيا اے فرزند رسول (ص) ميں طاؤس ہوں یہ بيتابی کس لئے ہے ؟ایسا تو ہميں کر نا چا ہئے درانحاليکہ ہم گنا ہگار اور مجرم ہيں۔آپ کے پدر بزرگوار حضرت امام حسين عليہ السلام ہيں ،مادر گرامی حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا ہيں جد بزرگوار پيغمبر خدا (ص) ہيں ۔طاؤس کہتے ہيں کہ پھر ميری طرف متوجہ ہوتے ہو ئے فرمایا: اے طاؤس ہر گز ہر گز مجه سے ميرے والدین اور جد بزرگوار کی گفتگو مت کرو خدا وند عالم نے بہشت اطاعت گذار اور نيک افراد کےلئے خلق کی ہے چا ہے وہ حبشی غلام ہی کيوں نہ ہو ،اور دوزخ گناہگار کيلئے خلق کی ہے چا ہے وہ قریشی ہی کيوں نہ ہو ؟کيا تم نے خداوند عالم کا یہ فرمان نہيں سنا ہے :( فَاِذَانُفِخَ فِی الصُّورِْفَلَااَنسَْابَ بَينَْهُم یَومَْئِذٍوَلَایَتَسَاءَ لُونَْ ) (١)

____________________

١)سورئہ مومنون آیت/ ١٠١ ۔ )

۱۱۰

“پهر جب صور پهونکا جائيگا تو نہ رشتہ داریاں ہوں گی اور نہ آپس ميں کو ئی ایک دو سرے کے حالات پو چهے گا ”

خدا کی قسم کل تمهيں وہی نيک عمل فا ئدہ پہنچا ئے گاجس کو تم پہلے سے بجالا چکے ہوگے ”

حبہّ عرنی سے مروی ہے :

“بينااناو“نوف”نائمين فی رحبةالقصر،اذنحن بامرالمومنين فی بقيةمن الليل،واضعاًیده علیٰ الحائط شبه الواله،وهویقول: اِنَّ فی خَلقِْ السَّ مٰا اٰوتِ وَ الْارضِ ثم جعل یقراهذه الآیات،ویمرشبه الطائرعقله فقال:اراقد یاحبةام رامق؟ قلت:رامق،هذاانت تعمل هذاالعمل فکيف نحن؟!

فارخیٰ عينه فبکی،ثم قال لي:یاحبةانّ للهموقفاًولنابين یدیه موقف،فلا یخفیٰ عليه شیء من اعمالنا،یاحبةانّ الله اقرب اليک واليَّ من حبل الورید،یاحبة انّه لن یحجبني ولاایاک عن الله شیء ثم قال:اراقدانت یانوف؟ قال:لایااميرالمومنين ماانابراقد،ولقداطلت بکائی هذه الليلة ثم وعظهماوذکرهما،وقال في اواخره:فکونوامن الله علیٰ حذرفقدانذرتکماثم جعل یمرّوهویقول:

ليت شعري في غفلاتی امعرض انت عني ام ناظراليَّ وليت شعری فی طول منامي وقلةشکري في نعمک عليّ ماحالي؟

قال:فوالله مازال فی هذه الحالةحتّیٰ طلع الفجر”(ا)

____________________

١)فلاح السائل لابن طاؤس صفحہ ٢۶۶ ۔ )

۱۱۱

ميں اور نوف قصر کی کشادہ زمين پر سورہے تھے کہ اتنے ميں مو لا ئے کا ئنات رات کے آخری حصہ ميں حيران شخص کی طرح دیوار پر ہاته رکه کر کہہ رہے تھے :

( اِ نَّ فِی خَلقِْ السَّ مٰا اٰوتِ وَالاَْرضِْ ) “بيشک زمين و آسمان کی خلقت ۔۔۔”اور ایک حيران و پریشان پرندہ کی طرح چلے جارہے تھے ؟پهر آپ نے فرمایا :اے نوف سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو ؟ ميں نے عرض کيا :جاگ رہا ہوں ۔جب آپ ایسا کہہ رہے ہيں تو ہمارا کيا حال ہو گا ؟!

پهر آپ نے آنکهيں نيچی کرکے گریہ فرمایا اس کے بعد مجه سے فرمایا :بيشک خدا کاایک مو قف ہے اور ہمارا ایک مو قف ہے لہٰذا ہمارا اس پر کو ئی عمل مخفی نہيں رہتا ۔اے حبہ! خداوند عالم ہم سے اور تم سے شہ رگ گردن سے بهی زیادہ قریب ہے ۔اے حبہ مجه کواور تم کو خداوند عالم سے کو ئی چيز نہيں رو ک سکتی ہے ۔پهر آپ نے فرمایا :اے نوف سو رہے ہو ؟ ميں نے عرض کيا :نہيں امير المو منين ميں بيدار ہوں ،کيونکہ اس شب ميں آپ نے بہت زیادہ گریہ فر مایا ۔پهر آپ نے نوف اور حبہ کو نصيحت فر مائی اور یاد دہانی کرائی ،اور آخر ميں فرمایا :خدا سے ڈرتے رہو ميں نے تم کو ڈرادیا ۔پهر آپ یہ کہہ کر گذرنے لگے :

“کاش مجه کو اپنی غفلتوں کی حالتوں ميں معلوم ہوتا کہ اے خدا تو مجه سے بے تو جہی کر رہا ہے یا ميری طرف نظر کرم کئے ہوئے ہے ،کاش مجه کو اپنی طولا نی نيند کی حالت ميں نيز نعمتوں کے سلسلہ ميں کم شکری کے وقت معلوم ہوتا کہ ميری کيا حالت ہے ۔

خدا کی قسم آپ طلوع فجر تک اسی حالت ميں رہے ”

اہل بيت عليہم السلام سے وارد ہو نے والی دعا ئيں اور مناجات ميں خاص طور سے وہ پندرہ مناجات جن کو علامہ مجلسی نے بحارالا نوار ميں حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام سے نقل فرمایا ہے اُنس اور شوق کی حامل ہيں ۔ ہمارے لئے اہل بيت عليہم السلام کی ميراث (دعاؤں )ميں ان صورتوں اور معانی کا لازوال خزانہ موجود ہے جبکہ اہل بيت عليہم السلام کے علاوہ کسی اور کے پاس اس طرح کا ذخيرہ بہت کم پایا جاتا ہے ہم اس محبت کو ختم کرنے سے پہلے بعض صورتوں کو ذیل ميں بيان کر رہے ہيں :

الٰهي من ذاالذي ذاق حلاوة محبتک فرام منک بدلاومن ذالذي انس بقربک فا بتغیٰ عنک حولا ؟

الهي فاجعلناممن اصطفيته لقربک وولایتک واخلصته لودک و محبّتک،وشوقته الیٰ لقائک،ورضّيته بقضائک،ومنحته النظرالیٰ وجهک،و حبوته برضاک،واعذ ته من حُجرک وقلا ک،وبوّاته مقعد الصدق في جوارک،وخصصته بمعرفتک،واهّلته لعبادتک،وهيّمت قلبه لارادتک واجتبيته لمشاهدتک،واخليت وجهه لک،وفرّغت فئواده لحبک،ورغّبته فيما عندک،والهمته ذکرک،واوزعته شکرک،وشغلته بطاعتک،وصيّرته من صالحی بریتک،واخترته لمناجاتک،وقطعت عنه کل شئی یقطعه عنک

۱۱۲

اللهم اجعلناممّن دابهم الارتياح اليک والحنين ودهرهم الزفرة والانين،جباههم ساجدة لعظمتک،وعيونهم ساهرة لخدمتک،ودموعهم سائلة من خشيتک وقلوبهم متعلقة بمحبتک،وافئدتهم منخلعة من مهابتک یامن انوارقد سه لابصارمحبيه رائقة وسبحات وجهه لقلوب عارفيه شائقة،ویامنیٰ قلوب المشتاقين،ویاغایة آمال المحبّين اسالک حبّک وحبّ من یحبّک،وحبّ کلّ عمل یوصلني الی قربک،وان تجعلک احبّ الیَّّّ مماسواک وان تجعل حبی ایاّک قائداًالی رضوانک وشوقي اليک ذائداًعن عصيانک،وامنن بالنظراليک عليّ وانظربعين الودوالعطف اليََّ،ولاتصرف عني وجهک (ا)

“خدایا! وہ کون ہے جس کو تيری محبت کا مزہ مل گياہے ہو اوراس کے بعدبهی تيرا بدل تلاش کر رہا ہے اور وہ کون ہے جو تيرے انس سے مانوس ہوگيا اور اس کے بعد تجه سے ہڻناچاہتاہے ؟

خدایا !ہميں ان لوگوں ميں قراردے جن کو قرب اوراپنی محبت کےلئے منتخب کيا ہے اور دوستی کےلئے خالص قراردیا ہے اپنی ملاقات کا مشتاق بنایا ہے اپنے فيصلہ سے راضی کيا ہے اور اپنی طرف نظرکرنے کی توفيق عنایت کی ہے اپنی رضاکاتحفہ دیا ہے اپنے فراق اور ناراضگی سے بچایاہے اور اپنے ہمسایہ ميں بہترین جگہ عنایت کی ہے اپنی معرفت سے مخصوص کيا ہے اور اپنی عبادت کا اہل بنایا ہے اپنی چاہت کے لئے ان کے دلوں کو گرویدہ کر لياہے اور اپنے مشاہدہ کےلئے انهيںچُن ليا ہے اپنی طرف توجہ کی یکسوئی عنایت کی ہے اور اپنی محبت کےلئے ان کے دلوںکو خالی کر ليا ہے اپنے ثواب کے لئے راغب بنایا ہے اور اپنے ذکر کا الہام کيا ہے اپنے شکر کی توفيق دی ہے اور اپنی اطاعت کے لئے مشغول کيا ہے اپنے نيک بندوں ميں قرار دیا ہے اور اپنی منا جات کےلئے چُن ليا ہے اور ہراس چيز سے الگ کر دیا ہے جو بندے کو تجه سے الگ کرسکے۔ خدا یا !مجھے ان لوگوں ميں قرار دے جن کا طریقہ تيری طرف توجہ اور اشتياق ہے اور ان کی زندگی عاشقانہ نا لہ وآہ سے پُر ہيں اور پيشانياں تيرے سجدہ ميںجهکی ہوئی ہيں اور آنکهيں تيری خدمت ميں بيدار ہيں ان کے آنسو تيرے خوف سے رواں ہيں اوران کے دل تيری محبت سے وابستہ ہيں۔ ان کے قلوب تيرے خوف سے دنيا سے الگ ہوگئے ہيں اے وہ کہ جس کے انوار قدسيہ چاہنے والوں کی نگاہوں کےلئے روشن ہيں اور اس کی ذات کی تجلّياں عارفين کے دلوں کےلئے نمایاں ہيں اے مشتاقين کے دلوں کی آرزو اوراے چاہنے والوں کی آرزو کی انتہا ميں تجه سے تيری اورتيرے چاہنے

____________________

١)بحارالانوار جلد ۶۴ صفحہ/ ۴٨ ا ۔ )

۱۱۳

والوںکی،اور ہر نيک عمل کی محبت چاہتا ہوں جو مجه کو تيرے قرب تک پہونچادے اور تجهے ساری کائنات سے محبوب بنادے اور اس کے بعد تواسی رضا کو اپنی رضا تک پہنچانے کا ذریعہ ہے اور اسی شوق کو اپنی معصيت سے بچنے کاوسيلہ بنا دینا، مجه پریہ احسان کر کہ ميری نگاہ تيری طرف رہے اور توخودمجھے عطوفت کی نگاہ سے دیکهتارہے اور اپنے منه کو مجه سے موڑنہ لينا”

دعا ء کے یہ فقرے محبت ، شوق اور اُنس کا بيکراں خزانہ ہيں ہم دعاکے ان فقروں پر کو ئی حاشيہ نہيں لگانا چا ہتے اور ہر گز ہمارے اندر اتنی استطاعت بهی نہيں ہے جوان دعاؤں کے فقروں کو اور خوبصورت بناکر بيان کریں اور ہم اتنی صلاحيت واستعداد کے مالک بهی نہيں ہيں کہ الله سے دعا محبت اور ادب پر کو ئی حاشيہ لگا سکيں ۔

سب سے پہلے ہماری نظر دعا کے ان فقروں پر مرکوز ہو جاتی ہے جن کے ذریعہ امام نے اپنے رب کو پکارا ہے :

یامنیٰ قلوب المشتاقين ویاغایة آمال المحبّين ۔یامن انوارقدسه لابصارمحبيه رائقة وسبحات وجهه لقلوب عارفيه شائقة “ اے وہ کہ جس کے انوار قدسيہ چاہنے والوں کی نگاہوں کےلئے روشن ہيں اور اس کی ذات کی تجلّياں عارفين کے دلوں کےلئے نمایاں ہيں اے مشتاقين کے دلوں کی آرزو ” اس دعا ميں امام عليہ السلام نے تين باتيں بيان فرمائی ہيں اور بندہ اپنے پروردگار سے ان ہی تين عظيم چيزوں کو طلب کرتا ہے ۔

ا۔آپ نے سب سے پہلے الله سے دعا فرمائی کہ وہ ان نفس کا انتخاب فرمائے اُن کے نفس (قلب )کو اپنی محبت کےلئے خالص کردے ،جن چيزوں کا وہ مالک ہے ان کی طرف رغبت دلائے ،ان کے دل کو اپنی محبت ميں مشغول کردے ،جو چيزیں اس نے خود سے منقطع کی ہيں اُن سے بهی منقطع کردے اور جو چيزیں خود سے دور کی ہيں ان سے بهی دورفرما دے ۔

امام عليہ السلام نے خداوندعالم سے جو کچه طلب فرمایاہے اس پر گا مزن ہو نے کيلئے سب سے پہلے اس چيز کا ہونا ضروری ہے اور اس کے آغاز وابتداء کے بغير انسان الله سے ملاقات کر نے کےلئے اس مشکل راستہ پر گامزن نہيں ہوسکتا اور وجہ الله کاہر بنی اور صدیق بآسانی مشاہدہ کر سکتا ہے ۔

اگر چہ وجہ الله پر نظر کر نا رزق ہے اور اللهاپنے بندوں ميں سے جس کو چاہتا ہے یہ رزق عطا کرنے کےلئے منتخب کر ليتا ہے لہٰذا بندے کےلئے الله کے رزق کو حاصل کر کے اس کی کنجياں حاصل کرنا ضروری ہے جب خداوندعالم اپنے بندہ کو رزق عطا کر تا ہے تو اس کو اس رزق کے درواز ے اور کنجياں بهی عطاکر دیتا ہے اور اس کے اسباب مہيا کر دیتا ہے ۔

۱۱۴

کچه لوگ اللهتعالیٰ سے بغير درواز ے اور کنجيوں کے رزق طلب کرتے ہيں وہ الله کواس کی ان سنتوں اور قوانين کے خلاف پکارتے ہيں جن کو اس نے اپنے بندوں کو عطا کيا ہے۔

انسان کو جن دروازوں سے خداوندعالم سے ملاقات اور وجہہ کریم کا مشاہدہ کرنے کےلئے اقدام کرنا چاہئے وہ مندرجہ ذیل ہيں: ا۔دل کو ہر طرح کے گناہ رنج وغم اور دنيا سے لولگا نے سے پرہيز کرنا چاہئے جس کو علما ء تخليہ کہتے ہيں (یعنی دل کو ہر طرح کے رنج وغم اور الله کے علاوہ کسی اور سے لولگا نے سے خالی ہونا چاہئے )

امام عليہ السلام فرما تے ہيں :

واجعلناممن اخلصته لودّک ومحبّتک،واخليت وجهه لک، وفرّغت فواده لحبّک،وقطعت عنه کل شي ءٍ یقطعه عنک

“خدایا! ہم کوان لوگوں ميں سے قرار دے جن کو اپنی محبت اور مودت کےلئے خالص کيا ہے اور اپنی طرف توجہ کی یکسوئی عطاکی ہے اور اپنی محبت کےلئے ان کے دلوںکوخالی کر ليا ہے اور ہر اس چيز سے الگ کر دیا ہے جو بندہ کو تجه سے الگ کرسکے ”

منفی پہلو کے اعتبار سے ابتداء ميںيہ پہلا مرحلہ ہے۔ علماء کے قول کے مطابق ابتداء ميں دوسرا مرحلہالتحليه التخليه کے بالمقا بل ہے یہ وہ ایجابی مطلب ہے جس کو امام عليہ السلام نے مندرجہ ذیل فقروں ميں خداوندعالم سے طلب فرمایا ہے :

رضّيته بقضائک،وحبوته برضاک وخصصته بمعرفتک،واهّلته لعبادتک،ورغّبته فيما عندک ،والهمته ذکرک،واوزعته شکرک،وشغلته بطاعتک،وصيّرته من صالحي بریتک،واخترته لمناجاتک

واجعلناجباههم ساجدة لعظمتک،وعيونهم ساهرة فی خدمتک،و دموعهم سائلة من خشيتک،وافئدتهم منخلعة من رهبتک “

اپنے فيصلہ سے راضی کيا ہے اور اپنی طرف نظرکرنے کی توفيق عنایت کی ہے اپنی رضاکاتحفہ دیا ہے اپنے فراق اور ناراضگی سے بچایاہے اور اپنے ہمسایہ ميں بہترین جگہ عنایت کی ہے اپنی معرفت سے مخصوص کيا ہے اور اپنی عبادت کا اہل بنایا ہے اپنی چاہت کے لئے ان کے دلوں کو گرویدہ کر لياہے اور اپنے مشاہدہ کےلئے انهيں چُن ليا ہے”

“اور پيشانياں تيرے سجدہ ميںجهکی ہوئی ہيں اور آنکهيں تيری خدمت ميں بيدار ہيں ان کے آنسو تيرے خوف سے رواں ہيں اوران کے دل تيری محبت سے وابستہ ہيں”

۱۱۵

ان دونوں باتوں سے گفتگو کا آغاز الله سے لو لگا نے کی کنجی ہے یہ وہ راستہ ہے جس پر انسان کے گا مزن رہنے کی غرض الله سے ملاقات ،اس کے وجہہ کریم اور جمال و جلال کا مشا ہدہ کرنا ہے ۔ ٢۔دوسرا مرحلہ بهی پہلے مرحلہ پر مترتب ہے اور یہ الله سے ملاقات کر نے کا درميانی راستہ ہے ۔اور اسکے بغير انسان الله تک نہيں پہنچ سکتا اور اسکے قرب و جوار تک نہيں پہونچ سکتا ہے۔

( فِی مَقعَْدِ صِدقٍْ عِندَْمَلِيکٍْ مُقتَْدِرِ ) (۱) “اس پاکيزہ مقام پر جو صاحب اقتدار بادشاہ کی بارگاہ ميں ہے ” انسان کو اس مقصد تک پہنچا نے والی سواری جس کی ہر نبی ،ولی ،صدیق اور شہيد نے تمنّا کی ہے وہ محبت الله سے انس اور الله سے شوق ملاقات ہے محبت شوق اور انس کے بغير انسان الله کے بتا ئے ہوئے اس بلندمرتبہ تک ترقی کرنا ممکن نہيں ہے ۔

محبت شوق اور اُنس، الله کے رزق ہيں بيشک الله اپنا رزق بندوں ميں سے جس بندہ کا چاہے انتخاب کرکے عطاکر سکتاہے ليکن جن مقدمات کو امام نے ذکر کيا ہے ہم ان مقدمات کو اس مناجات کے فقروں ميں الگ الگ مشاہدہ کر تے ہيں ۔ امام عليہ السلام بڑے ہی اصرار کے ساته ان چيزوں کو خدا سے طلب کرتے ہيں اور مختلف وسيلوں اور تعبيروں سے خداسے متوسّل ہوتے ہيں آپ عمدہ جملوں سے خداوند عالم کو پکا رتے ہيں : یا منیٰ قلوب المشتا قين ویاغایة آمال المحبين

“ اے مشتاقين کے دلوں کی آرزو اوراے چاہنے والوں کی آرزو کی انتہا ” پھر آپ الله کی محبت ،خدا جس کو دوست رکهتا ہے اس کی محبت اور ہر اس عمل کی محبت مانگتے ہيں جو بندہ کو الله کے قرب و جوار تک پہنچا تا ہے ۔ ہم براہ راست امام عليہ السلام کے کلمات ميں غور و فکر کرتے ہيں اس لئے کہ حاشيہ پردازی ہما رے براہ راست آفاق ميں محبت کے سلسلہ ميں غور و فکر کرنے کے لمحات واوقات کو تباہ و برباد کردے گی جس محبت کو امام عليہ السلام نے ہما رے لئے اس دعا ميں پيش کيا ہے :

____________________

١)سورئہ قمر آیت ۵۵ )

۱۱۶

اسْا لُکَ حبّکَ وَحبَ مَن یحبّکَ،وحبّ کل عمل یوصلني الیٰ قربک،وان تجعلک احبّ اليَّ مماسواک،وان تجعل حبي ایاک قائِداً الیٰ رضوانکَ،وشوقي اليک ذائدا عن عصيانک وامنن بالنظراليک عليَّ وانظر بعين الود والعطف اليولا تصرف عنِّي وجهک

اور آپ نے فرمایا :واجعلناممن شوّقته الیٰ لقائک ،واعذته من هجرک وقلاک وهيمت قلبه لارادتک

اس کے بعد آپ نے فرمایا :

اللهم اجعلناممّن دابهم الارتياج اليک والحنين ،ودهرههم الزفرة والانين قلوبهم متعلقة بمحبّتک،و افئد تهم منخلعة من مهابتکَ

ان جملوں کو مندرجہ ذیل چار چيزوں ميں اختصار کے ساته بيان کيا جاتا ہے :

ا۔ہم اس کے ہجر و فراق سے پناہ چاہتے ہيں ۔

٢۔ہم کو اپنی محبت اور مودّت کا رزق عطا کر۔

٣۔ہم کو اپنے سے مانوس ہو نے کا رزق عطا کر۔

۴ ۔ہم کو اپنی ملا قات کا شوق عطا کر۔

امام عليہ السلام نے “ا نس اور شوق ”کو اس مختصر سے جملہ ميں سمو دیا ہے :

واجعلنا ممن دابهم الارتياح اليک والحنين

الله سے خوش ہو نا اس کی طرف راغب ہو نے کے علا وہ ہے اور ان دو نوں چيزوں کو امام عليہ السلام نے الله سے طلب کيا ہے ۔ارتياح (خو ش ہو نا )وہ انسيت ہے جو ملا قات سے پيدا ہو تی ہے اور رغبت وہ شوق ہے جو انسان کو الله سے ملاقات کر نے کےلئے اُکساتا ہے ۔

٣۔اس عظيم و بزرگ دعا ميں الله سے لو لگانے کے لئے سواری، سب سے عظيم آخری مقصد جس کو انبياء عليہم السلام اور صدیقين نے بهی طلب فرمایا ہے وہ خدا وند عالم کے وجہ کا دیدار کرنا ہے ،اس مقصد تک وہی افراد پہنچ سکتے ہيں جن کو خدا وندذ عالم نے اپنے قرب و جوا ر کےلئے منتخب فرمایا ہے ۔ امام عليہ السلام فر ما تے ہيں :

۱۱۷

وَاجعَْلنَْامِمَّن مَنحَْتَهُ النَّظَرَاِل یٰ وَجهِْکَ وَبَوَّاتَهُ مَقعَْدَالصِّدقَْ فِي جَوَا رِکَ وَاجتَْبَيتَْهُ لِمُشَاهَدَتِکَ وَامنُْن بِالنَّظَرِ اِلَيکَْ عَليَّ

“اور ہم کو ان لوگوں ميں قرار دے جن کواپنی طرف نظر کرنے کی توفيق عنایت کی ہے اور اپنے ہمسایہ ميں بہترین جگہ عنایت کی ہے اور اپنے مشاہدہ کے لئے انهيں چُن لياہے ۔۔۔اور مجه پر یہ احسان کرکہ ميری نگاہ تيری طرف رہے ” انسان اپنے پروردگار کے وجہ کا دیدار اور اس کے جلا ل و جمال کا قریب سے مشا ہدہ کرنے کی آرزو رکهتا ہے ،اس کے قرب و جوار ميں بيڻھنے کی خو اہش و تمنا رکهتا ہے اور اپنے پروردگار سے شراباً طہورا سے سيراب ہو نا چا ہتا ہے ۔

دوسری صورت

حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام کی دعا ؤ ں ميں شوق اور انس و محبت کی دوسری صورت پریوں روشنی ڈالی گئی ہے :

اِ هٰلی فَاسلُْک بِنَاسُبُلُ الوَْصُولِْ اِلَيکَْ وَسَيِّرنَْافِی اَقرَْبِ الطُّرُقِ لِلوَْفُودْ عَلَيکَْ قَرِّب عَلَينَْا البَْعِيدَْ وَسَهِّل عَلَينَْاالعَْسِيرَْالشَّدِیدَْ وَاَلحِْقنَْابِعِبَادِکَ الَّذِینَْ هُم بِا لبِْدَارِاِلَيکَْ یُسَارِعُونَْ وَبَابَکَ علَی الدَّوَامِ یَطرُْقُونَْ وَ اِیَّاکَ فِی اللَّيلِْ وَالنَّهَارِیَعبُْدُونَْ وَهُم مِن هَيبَْتِکَ مُشفِْقُونَْ

الَّذِینَْ صَفَّيتَْ لَهُمُْ المَْشَارِبَ وَبَلَّغتَْهُمُ الرَّغَائِبَ وَاَنجَْحتَْ لَهُمُ المَْطَالِبَ وَقَضَيتَْ لَهُم مِن فَضلِْکَ المَْآرِبَ وَمَلَات لَهُم ضَمَائِرَهُم مِن حُبِّکَ وَرَوَّیتَْهُم مِن صَافِي شِربِْکَ فَبِکَ اِل یٰ لَذِیذِْ مُنَاجَاتِکَ وَصَلُواْوَمِنکَْ اَقصْ یٰ مَقَاصِدِهِم حَصَّلُواْفَيَامَن هُوَعَل یٰ المُْقبِْلِينَْ عَلَيهِْ مُقبِْلٌ

وَبِالعَْطفِْ عَلَيهِْم عَائِدٌ مُفضِْلٌ وَبِالغَْا فِلِينَْ عَن ذِکرِْهِ رَحِيمٌْ رَوفٌ وَبِجَذبِْهِم ال یٰ بَابِهِ وَدُودٌْعَطُوفٌْ اَسئَْلُکَ اَن تَجعَْلَنِي مِن اَوفَْرِهِم مِنکَْ حَظّاًوَ اَعلَْاهُم عِندَْکَ مَنزِْلاً وَاَجزَْلِهِم مِن وُدِّکَ قِسمْاًوَاَفضَْلِهِم فِی مَعرَْفَتِکَ نَصِيبْاً فَقَد اِنقَْطَعَت اِلَيکَْ هِمَّتِي وَانصَْرَفَت نَحوَْکَ رَغبَْتِي فَاَنتَْ لَاغَيرُْکَ مُرَادِي وَلَکَ لَاسِوَاکَ سَهرِْي وَ سُهَادِي وَلِقَاوکَ قُرَّةَ عَينِْي وَوَصلُْکَ مُن یٰ نَفسْي وَاِلَيکَْ شَوقِْي وَفِي مَحَبَّتِکَ وَلَهِي وَاِل یٰ هَوَاکَ صَبَابَتي وَرِضَاکَ بُغيَْتِي ورُئيَْتُکَ حَاجَتِي وَجَوَارُکَ طَلَبِي وَ قُربُْکَ غَایَةُ سُولِْي وَفِي مُنَاجَاتِکَ رَوحِْيوَرَاحَتي وَعِندَْکَ دَوَاءُ عِلَّتِي وَشِفَاءُ غُلَّتِي وَبَردُْلَوعَْتي وَکَشفُْ کُربَْتِي فَکُن اَنِيسِْي فِی وَحشَْتي وَمُقِيلَْ عَثرَْتِي وَغَافِر زَلَّتِي وَقَابِلَ تَوبَْتِيوَمُجِيبَْ دَعوَْتِي وَوَلِّيَ عِصمَْتي وَمُغنِْيَ

۱۱۸

فَاقَتِي وَلَاتَقطَْعنِْي عَنکَْ وَلَاتُبعِْد نِي مِنکَْ یَانَعِيمِْي وَجَنَّتِي وَیَا دُنيَْايَ وَآخِرَتِي ( ١)

“خدا یا!ہم کو اپنی طرف پہنچنے کے راستوں کی ہدایت فرما دے اور ہميں اپنی بارگاہ ميں حاضری کے قریب ترین راستہ پر چلادے ،ہر دور کو قریب ، ہرسخت اور مشکل کو آسان بنا دے اور ہميں ان بندوں سے ملا دے جو تيزی کے ساته تيری طرف بڑهنے والے ہيں اورہميشہ تيرے درکرم کو کهڻکهڻانے والے ہيں اور دن رات تيری ہی عبادت کر تے ہيں اور تيری ہی ہيبت سے خوفزدہ رہتے ہيںجن کے لئے تو نے چشمے صاف کردئے ہيں اور ان کو اميدوں تک پہنچا دیاہے اور ان کے مطالب کو پورا کردیاہے اور اپنے فضل سے ان کی حا جتوں کو مکمل کردیاہے اپنی محبت سے ان کے دلوں کو بهر دیاہے اور اپنے صاف چشمہ سے انهيں سيراب کردیاہے وہ تيرے ہی ذریعہ تيری لذیذ مناجات تک پہنچے ہيں اور تيرے ہی ذریعہ انهوں نے اپنے بلندترین مقاصد کو حا صل کيا ہے اے وہ خدا جو اپنی طرف آنے والوں کااستقبال کرتا ہے اور ان پرمسلسل مہر بانی کرتاہے اپنی یاد سے غافل رہنے والوں پربهی مہربان رہتا ہے اور انهيں محبت کے ساته اپنے در وازے کی طرف کهينچ ليتا ہے خدایا ميرا سوال یہ ہے کہ ميرے اپنی بہترین نعمت کاسب سے زیادہ حصہ قرار دے اور بہترین منزل کا مالک بنا دے اور اپنی محبت کاعظيم ترین حصہ عطا فرمادے اور اپنی معرفت کا بلند ترین مرتبہ دیدے چونکہ ميری ہمت تيری ہی طرف ہے فقط تو ميری مراد ہے اور تيرے ہی لئے ميں راتوں کو جاگتاہوں کسی اور کےلئے نہيں تيری ملاقات ميری آنکهوںکی ڻھنڈک ہے اور تيرا وصال ميرے نفس کی اميد ہے اور تيری جانب ميرا شوق ہے اور تيری ہی محبت ميں ميری بے قراری ہے تيری ہی خواہش کی طرف ميری توجہ ہے اور تيری ہی رضا ميری آرزوہے تيری ہی ملاقات ميری حا جت ہے اور تيرا ہی ہمسایہ ميرا مطلوب ہے تيرا قرب ميرے سوالات کی انتہا ہے اور تيری منا جات ميں ميری راحت ا ور سکون ہے تيرے پاس ميرے مرض کی دواہے اورميری تشنگی کا علاج ہے

،غم کی بيقراری کی ڻھنڈک، رنج و غم کی دوری تيرے ہی ذمہ ہے ، تو ميری وحشت ميں ميرا انيس لغزشوں ميں کا سنبهالنے والا اور خطاؤں کومعاف کرنے والا اور ميری تو بہ کو قبول کرنے والا اورميری دعاکا قبول کرنے والا ،ميری حفاظت کا ذمہ دار فاقہ ميں غنی بنانے والاہے مجھے اپنے سے الگ نہ کرنا اپنی بارگاہ سے دور نہ کرنا اے ميری نعمت، اے ميری جنت اے ميری دنيا و آخرت ” یہ منا جات کا نہا یت ہی بزرگ ڻکڑا ہے اور دعا کے آداب ميں سے بہت ہی عمدہ طریقہ ہے ، اہل بيت عليہم السلام کے عمدہ و بہترین کلمات ميں سے ایک بہترین کلمہ ہے :دعا ،تضرع اور محبت کے سلسلہ ميں ،اور یہ بہت زیادہ غور و فکر کا مستحق ہے۔

____________________

١)بحا رالانوار جلد ٩۴ صفحہ ۴٨ ا۔ )

۱۱۹

ہم اس مناجات ميں بيان کی گئی حب الٰہی کی بعض صورتوں اور افکار پر صرصری نظر ڈالتے ہيں :

حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام مناجات کے آغاز ميں پروردگار عالم سے سہارے کی تمنا کرتے ہيں کہ اے خدا ہم کو اپنی طرف پہنچنے والے راستوں پر چلا دے ۔اس پوری دعا کا خلاصہ یہی جملے ہيں اور دعا کے سب سے اہم مطالب ہيں اس دعا ميں حضرت امام زین العابدین خدا سے دنيا اور آخرت کی دعا نہيں ما نگتے ہيں بلکہ آپ خدا سے اپنے سے شر عی محبت کا مطالبہ فر ما تے ہيں ، اس کا قرب ،اس تک رسائی اور اس کا جوار طلب کرتے ہيں اور اپنا ڻهکانا انبياء عليہم السلام ،شہدا ء اور صدیقين کے ساته طلب کرتے ہيں ۔

امام عليہ السلام فر ما تے ہيں :اِ هٰلی فَاسلُْک بِنَاسُبُلُ الوَْصُولِْ اِلَيکَْ ،آپ نے واحد صيغہ“سبيل الْوَصُوْل الَيْکَ ”نہيں فر ما یاہے بلکہ آپ نے “سُبُلُ الْوَصُوْل”جمع کا صيغہ استعمال فر ما یا ہے چو نکہ خدا وند عالم تک رسائی کا راستہ ایک ہی ہے متعدد راستے نہيں ہيں اور قرآن کریم نے بهی واحد “صراط ”راستہ کا تذکرہ کيا ہے :( اِهدِْنَاالصِّرَاطَ المُْستَْقِيمَْ صِرَاطَ الَّذِینَْ اَنعَْمتَْ عَلَيهِْم غَيرِْالمَْغضُْوبِْ عَلَيهِْم وَلَاالضَّالِينَْ ) (١) “ہميں سيدهے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتيں نازل کی ہيں ان کا راستہ نہيں جن پر عضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہيں ”

آیت:( وَالله یَهدِْی مَن یَّشَاءُ اِل یٰ صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍْ ) (٢)

____________________

١)سورئہ فا تحہ آیت/ ۶۔ ٧۔ )

٢)سورئہ بقرہ آیت/ ٣ا ٢۔ )

۱۲۰