دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)0%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

مؤلف: محمد مهدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 248
مشاہدے: 64976
ڈاؤنلوڈ: 3664


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 64976 / ڈاؤنلوڈ: 3664
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد 2

مؤلف:
اردو

کے حادث ہو نے کا تقاضا کرتی ہے تو خداوند عالم اس کے اسباب فراہم کردیتا ہے اور جو کچه کائنات اورمعاشرہ ميں ہو تا ہے اس کو مڻا دیتا ہے اگر الله تعالیٰ کی مشيت، اسباب اور مسببات کے نظام کی باعث نہ ہو ۔یہ نظام “محو ”اور “اثبات ”کی حالت ميں الله تعالیٰ کے امر کا خاضع ہے ،الله تعالیٰ کی بادشاہت اس پر نافذ ہے ۔جب خدا وند عالم اپنے اذن اور امر سے اس کا اثبات چاہتا ہے تو وہ ثابت رہتا ہے اور جب الله اس ميں تغير تبدل اور اس کو مڻانا چاہتا ہے تو وہ اس کے حکم اور بادشاہت سے بدل جاتے ہيں ۔

“بداء ”پر ایمان کی تردید

ہميت کے اعتبار سے بداء پر ایمان رکهنا خداوند عالم پر ایمان رکهنے کے بعد آتا ہے ؛ بداء کے انکار کرنے کا مطلب کائنات اور معاشرہ کی حرکت اور اس کی دیکه بهال کرنے سے خداوندعالم کے ارادہ کو معزول کرنا اور نظام عليت و سببيت ميں الله کے ارادہ کو محکوم کرنا ہے جيسا کہ یہود کہتے ہيں :

( یَدُالله مَغلُْولَْةٌ ) ( ١)

“خدا کے ہاته بندهے ہو ئے ہيں ”

بلکہ ہمارا قول یہ ہے :

( بَل یَدَاهُ مَبسُْوطَْتَانِ ) ( ٢)

“بلکہ خدا کے دونوں ہاته کهلے ہو ئے ہيں ”

خداوند عالم کی بادشاہت کی کو ئی انتہا نہيں ہے اس کا ہاته پوری کائنات اور معاشرہ پر پهيلاہوا ہے ۔

الله تبارک و تعالیٰ پر مسلمان انسان کے عقيدہ رکهنے کی یہ پہلی پناہ گاہ ہے اور دوسری پناہ گاہ

____________________

١) سورئہ مائد ہ آیت ۶۴ ۔ )

٢) سورئہ مائد ہ آیت ۶۴ ۔ )

۲۰۱

الله تعالیٰ سے رابطہ رکهنا ہے ۔بيشک الله تعالیٰ پر ایمان نظام ميں اسباب و مسببات ميں ہر حال ميں جو تغير و تبدل ہوتا ہے وہ اس کی دسترس ميں ہے بندہ اپنی تمام حاجتوں ميں اسی سے پناہ چاہتا ہے اور اکثر انسان کو جو چيز الله سے متمسک کرتی ہے وہ حاجتوں اور رنج و غم کے وقت خداوند عالم سے دعا کرنے کا وقت ہے ۔

جب انسان الله تعالیٰ کے قضا اور قدر ميں تغير و تبدل کی کو ئی سبيل نظر نہيں آتی اور وہ حادثوں کے واقع ہونے کے وقت دعا کرنے ميں کو ئی فائدہ نہيں دیکهتا تو انسان اپنی حاجت اور اہم کام کے وقت خداوند عالم سے پناہ نہيں مانگتا ہے ۔الله کی پناہ تو وہ لوگ مانگتے ہيں جن کا یہ عقيدہ ہے کہ الله تعالیٰ کی دو قضا ہيں خداوندعالم کی ایک قضا وہ ہے جو ام الکتاب ميں لکهی گئی ہے جس ميں تغير و تبدل کا کو ئی امکان ہی نہيں ہے ۔دوسری قضا وہ ہے جس ميں جب الله چا ہتا ہے تو تغير و تبدل واقع ہو جاتا ہے تو اس وقت بندے اپنی حاجتوں اور دعاوں کے قبول ہو نے کے لئے اس کی پناہ ماگتے ہيں ۔

دعا اور بداء

جوامور اسباب و حوادث کی رفتاربدلنے ميں خداوند عالم کے ارادہ کے دخل انداز ہو نے کا سبب ہوتے ہيں وہ بہت زیادہ ہيں جيسے ایمان اور تقویٰ، خداوند عالم ارشاد فر ماتا ہے :

( وَلَواَْنَّ اَهلَْ القُْر یٰ آمَنُواْوَاتَّقُواْلَفَتَحنَْاعَلَيهِْم بَرَکَات مِنَ السَّمَاء ) ( ١)

“اور اگراہل قریة ایمان لے آتے اور تقویٰ اختيار کرليتے تو ہم ان کےلئے زمين و آسمان کی برکتوں کے دروازے کهول دیتے ”

شکر :

( لَئِن شَکَرتُْم لَازِیدَْنَّکُم ) (٢)

____________________

١)سورئہ اعراف آیت/ ٩۶ ۔ )

٢)سورئہ ابراہيم آیت/ ٧۔ )

۲۰۲

“اگر تم ہمارا شکریہ ادا کروگے تو ہم نعمتوں ميں اضافہ کر دیں گے ” استغفارکے بارے ميں ارشاد ہوتا ہے :

( وَمَاکَانَ الله لِيُعَذِّبَهُم وَاَنتَْ فِيهِْم وَمَاکَانَ الله مُعَذِّبَهُم وَهُم یَستَْغفِْرُونَْ ) (١) “حالانکہ الله ان پر اس وقت تک عذاب نہيں نازل کرے گا جب تک “پيغمبر ”آپ ان کے درميان ہيں اور خدا ان پر عذاب کرنے والا نہيں ہے اگر یہ توبہ اور استغفار کرنے والے ہو جا ئيں’

دعا اور ندا کے سلسلہ ميں خداوند عالم فرماتا ہے :

( وَنُوحْاًاِذ اْٰند یٰ مِن قَبلُْ فَاستَْجَبنَْالَهُ فَنَجَّينَْاهُ وَاَهلَْهُ مِنَ الکَْربِْ العَْظِيمِْ ) (٢ “اور نوح کو یاد کرو جب انهوں نے پہلے ہی ہم کو آواز دی اور ہم نے ان کی گزارش قبول کر لی اور انهيں اور ان کے اہل کوبہت بڑے کرب سے نجات دلادی ”( وَاَیُّوبَْ اِذنَْاد یٰ رَبَّهُ اِنِّی مَسَّنیَْ الضُّرُّوَاَنتَْ اَرحَْمُ الرَّاحِمِينَْ فَاستَْجَبنَْالَهُ فَکَشَفنَْامَابِهِ مِن ضُرٍّوَآتَينَْاهُ اَهلَْهُ وَمِثلَْهُم مَعَهُم رَحمَْةً مِن عِندِْنَاوَذِکرْ یٰ لِلعَْابِدِینْ ) ( ٣)

“اور ایوب کو یاد کرو جب انهوں نے اپنے پرور دگار کو پکارا کہ مجھے بيماری نے چهو ليا ہے اور تو بہترین رحم کر نے والا ہے تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرليا اور ان کی بيماری کو دور کر دیا اور انهيں ان کے اہل و عيال دیدئے کہ یہ ہماری طرف سے خاص مہربانی تهی اور یہ عبادت گزار بندوں کے لئے ایک یاد دہا نی ہے ”

____________________

١)سورئہ انفال آیت/ ٣٣ ۔ )

٢)سورئہ انبياء آیت/ ٧۶ ۔ )

٣)سورئہ انبياء آیت / ٨٣ ۔ ٨۴ ۔ )

۲۰۳

( وَذَاالنُّونِْ اِذذَْهَبَ مُغَاضِبًافَظَنَّ اَن لَن نَقدِْرَعَلَيهِْ فَنَاد یٰ فِی الظُّلُمَاتِ اَن لَا اِ هٰلَ اَلَّااَنتَْ سُبحَْانَکَ اِنِّی کُنتُْ مِنَ الظَّالِمِينَْ فَاستَْجَبنَْالَهُ وَنَجَّينَْاهُ مِنَ الغَْمِّ وَکَ لٰ ذِکَ نُنجِْی المُومِْنِينَْ ) ( ١)

“اور یونس کو یاد کرو کہ جب وہ غصہ ميں آکر چلے اور یہ خيال کيا کہ ہم ان پر روزی تنگ نہيں کریں گے اور پھر تاریکيوں ميں جا کر آواز دی کہ پرور دگار تيرے علا وہ کو ئی خدا نہيں ہے تو پاک و بے نياز ہے اور ميں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں ميں سے تھا ،تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کر ليا اور انهيں غم سے نجات دلادی اور ہم اسی طرح صاحبان ایمان کو نجات دلا تے رہتے ہيں ”

مطلق طور پرپوری کائنات کا نظام خدا وند عالم کے قبضہ قدرت ميں ہے کائنات ميں کو ئی ایسی چيز نہيں ہے جو اس کی سلطنت کو محدود کرے اور اس کو عاجز کردے ۔یہ بادشاہت اس کے ذاتی اسباب کے ذریعہ جاری رہتی ہے اور اس کا مطلب اسباب و مسببات کو معطل کرنا نہيں ہے خدا وند عالم اس نظام کائنات ميں اپنی بادشاہت ،حکم اور امر سے جس چيز کو چاہتا ہے مڻا دیتا ہے اور اپنے اذن سے جس چيز کو چاہتا ہے برقرار رکهتا ہے یہ محو اور اثبات فقط کتاب تکوین ميں جاری ہوتا ہے اور “ اُم الکتاب’ ميں ایسا نہيں ہے ۔ خداوند عالم تکوین ميں اپنی حکمت اور رحمت سے کسی چيز کو محو کرتا ہے اور اس محو کرنے کو ہی بداء کہا جاتا ہے جواہل بيت عليہم السلام سے مروی متعدد روایات ميں ایا ہے اور خداوند عالم متعدد اسباب کے ذریعہ بداء کو جا ری کرتا ہے، جيسے استغفار ،تقویٰ ،ایمان ،شکر اور دعا وغير ہ

دعا بداء کے اہم اسباب ميں سے ہے :( اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) (٢ ) “اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجه سے دعا کروميں قبول کرونگا ”

____________________

١)سورئہ ا نبياء آیت/ ٨٨ ۔ )

٢)سورئہ مومن آیت/ ۶٠ ۔ )

۲۰۴

زیارت کے توحيدی اور سياسی پہلو

تاریخ ميں خاندان توحيد

قرآن کریم ميں ایک ہی خاندان توحيد کا تذکرہ ہوا ہے اس خاندان کے رائد(چلانے والے)اور پدر ابراہيم خليل الرحمن عليہ السلام تھے خدا فرماتا ہے :

( هُوَاجتَْ اٰبکُم وَمَاجَعَلَ عَلَيکُْم فِی الدِّینِْ مِن حَرَجٍ مِلَّةَ اَبِيکُْم اِبرَْاهِيمَْ هُوَ سَمَّاکُم المُْسلِْمِينَْ مِن قَبلُْ وَفِی هٰذَالِيَکُونَْ الرَّسُولُْ شَهِيدْاًعَلَيکُْم وَتَکُونُْواْشُهدَْاءَ عَلیَ النَّاسِ ) ( ١)

“۔۔۔اس نے تم کو منتخب کيا ہے اور دین ميں کو ئی زحمت نہيں قرار دی ہے ۔یہی تمہارے بابا ابراهيم کا دین ہے اس نے تمہارا نام پہلے بهی اور اس قرآن ميں بهی مسلم اور اطاعت گذار رکها ہے تا کہ رسول تمہارے اوپر گواہ رہے اور تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو ۔۔۔”

اس خاندان کی آخری کڑی حضرت رسول الله خاتم الانبياء تھے ،آپ ہی پر رسالت کا خاتمہ ہوا،یہی خاندان شجرہ طيبہ ہے ،اسکی شاخيں پهيلی ہوئی ہيں ۔اسکی شاخيں مبارک ،پهل پاک وپاکيزہ ہيں تاریخ ميں مستمر ہيں اورقرآن کریم کے بيان کے مطابق ایک ہيں :

____________________

١)سورئہ حج آیت / ٧٨ ۔ )

۲۰۵

( اِنَّ هٰذِهِ اُمَّتُکُم اُمَّةًوَاحِدَةً وَاَنَارَبُّکُم فَاعبُْدُونَْ ) ( ١)

“بيشک یہ تمہارا دین ایک ہی دین اسلام ہے اور ميں تم سب کا پروردگار ہوں لہٰذا ميری ہی عبادت کرو ”

( وَاِنَّ هٰذِهِ اُمَّتُکُم اُمَّةًوَاحِدَةً وَاَنَارَبُّکُم فَاتَّقُونَْ ) ( ٢)

“اور تمہارا سب کا دین ایک دین ہے اور ميں ہی سب کا پرور دگار ہوں لہٰذا بس مجه سے ڈرو”

قرآن کریم نے اس خاندان کی وحدت ویکپارچگی کے گوشت وپوست اور اجزاء کے مابين علاقہ وتعلق کو محکم ومضبوط کيا ہے اور اس خاندان کے درميان گہرا تعلق پيدا کيا ہے ۔

یہ اہتمام اسلامی تربيت کی راہ اس خاندان کے اتحاد نيز اس خاندان کی طرف منسوب وحی کی گہرائی کے تعلق کوبيان کر نے کے لئے ہے اور اس خاندان کے رموز اور صالح افرادکو منظر عام پرلانا لوگوں کی زندگی کےلئے نمونہ ہيں ۔

اسی طرح یہ اہتمام نسل در نسل اس خاندان ميں توحيد کی وراثت اس کی ارزش کو باقی رہنے اور اس خاندان کی تمام نسلوں اور اس خاندان کی کڑیوں کے مابين رابطہ کو مضبوط کرنے کے لئے ہے ۔

اس خاندان کی نسلوں کے در ميان رابطہ اور تسلسل

قرآن کریم نے اس خاندان کی نسلوں کے درميان رابطہ اور تعلق کو کتنی اہميت دی ہے اس سلسلہ ميں ہم مندرجہ ذیل آیات ذکر کررہے ہيں : ا۔اس خاندان کے درميان ایک دو سرے کی شناخت ،اس خاندان کے نيک ارکان کا

____________________

١)سورئہ انبياء آیت/ ٩٢ ۔ )

٢)سورئہ مومنون آیت ۵٢ ۔ )

۲۰۶

تذکرہ، ان کے اسماء کی تعظيم ،ان کا تذکرہ کرکے ان کو مشہور کرنا قرآن کریم ميں اس امرکا بڑا اہتمام کيا گيا ہے ہم اس اہتمام کے شواہد ذیل ميں پيش کررہے ہيں :

( وَاذکُْرفِْی الکِْتَابِ مَریَْمَ اِذِانتَْبَذَت مِن اَهلِْهَامَکَانًاشَرقِْيا ) (١) “اوراے

پيغمبر اپنی کتاب ميں مریم کویاد کرو کہ جب وہ اپنے گهر والوں سے الگ مشرقی سمت کی طرف چلی گئيں”

( وَاذکُْرفِْی الکِْتَابِ اِبرَْاهِيمَْ اِنَّهُ کَانَ صِدِّیقْاً نَبِيا ) ( ٢)

“اور کتاب خدا ميں ابراہيم کا تذکرہ کرو کہ وہ ایک صدیق پيغمبر تھے ”

( وَاذکُْرفِْی الکِْتَابِ مُو سْٰی اِنَّهُ کَانَ مُخلِْصاًوَکَانَ رَسُولْاًنَبِيا ) ( ٣)

“اور اپنی کتاب ميں مو سیٰ کا تذکرہ کرو کہ وہ ميرے مخلص بندے اور رسول و نبی تھے ”

( وَاذکُْرفِْی الکِْتَابِ اِسمَْاعِيلَْ اِنَّهُ کَانَ صَادِقَ الوَْعدِْ ) ( ۴)

“اور اپنی کتاب ميں اسماعيل کا تذکرہ کرو کہ وہ وعدے کے سچے تھے ”

( و اذکُْرفِْی الکِْتَاب اِدرِْیسَْ اِنَّهُ کَانَ صِدِّیقْاً نَبِيا ) ( ۵)

“اور اپنی کتاب ميں ادریس کا بهی تذکرہ کروکہ وہ بہت زیادہ سچے پيغمبر تھے ”

( وَاذکُْرعَْبدَْنَادَاوُدَذَاالاَْیدِْ ) ( ۶)

“اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کریں جو صاحب طاقت بهی تھے ”

____________________

١)سورئہ مریم آیت/ ١۶ ۔ )

٢)سورئہ مریم آیت۔ ۴١ ۔ )

٣)سورئہ مریم آیت/ ۵١ ۔ )

۴)سورئہ مریم آیت/ ۵۴ ۔ )

۵)سورئہ مریم آیت/ ۵۶ ۔ )

۶)سورئہ ص آیت/ ١٧ ۔ )

۲۰۷

( وَاذکُْر عَبدَْنَااَیُّوبَْ اِذنَْاد یٰ رَبَّهُ اِنِّی مَسَّنیِْ الشَّيطَْانُ بِنُصبٍْ وَعَذابٍ ) ( ١)

“اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو جب انهوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ شيطان نے مجھے بڑی تکليف اور اذیت پہنچائی ہے ”

( وَاذکُْرعِْبَادَنَااِبرَْاهِيمَْ وَاِسحَْاقَ وَیَعقُْوبَْ اُولِْی الاَیدِْی وَالاَبصَْارِاِنَّا اَخلَْصنَْاهُم بِخَالِصَةٍ ذِکرَْی الدَّارِ ) ( ٢)

“اور پيغمبرہمارے بندے ابراہيم ،اسحاق ،اور یعقوب کا ذکر کيجئے جو صاحبان قوت اور صاحبان بصيرت تھے ۔ہم نے ان کو آخرت کی یاد کی صفت سے ممتاز قرار دیا تھا ”

( وَاذکُْراِْسمَْاعِيلَْ وَاليَْسَعَ وَذَاالکِْفلِْ وَکُلُّ مِنَ الاَْخيَْارِ ) ( ٣)

“اور اسماعيل اور اليسع اور ذوالکفل کو بهی یاد کيجئے اور یہ سب نيک بندے تھے ”

٢۔صلح و سلامتی کی بنياد پر اس خاندان کی کڑیوں کے مابين رابطہ ایجاد کرنا ،اس خاندان کی نسلوں سے حسد اور کينہ دور کرنا زمانہ حال کو ما ضی سے مربوط کرنا اولاد کو باپ داداؤں سے ملحق کرنا خلف کو صلح کی بنياد پر اسی خاندان کے سلف صالح سے ملحق کرنا اور صلح وسلامتی کا رابطہ اس خاندان کے درميان سب سے بہترین اور بر جستہ رابطہ ہے ۔خداوند عالم فرماتا ہے :

( وَتَرَکنَْاعَلَيهِْ فِی الآخِرِینَْ سَلاَمٌ عَ لٰی نُوحٍْ فِی العَْالَمِينَْ اِنَّاکَذَلِکَ نَجزِْی المُْحسِْنِينَْ اِنَّهُ مِن عِبَادِنَاالمُْومِْنِينَْ ) (۴)

____________________

١)سورئہ ص آیت/ ۴١ ۔ )

٢)سورئہ ص آیت ۴۵ ۔ ۴۶ ۔ )

٣)سورئہ ص آیت / ۴٨ ۔ )

۴)سورئہ الصافات آیت/ ٧٨ ۔ ٨١ ۔ )

۲۰۸

“اور ان کے تذکرے کو آنے والی نسلوں ميں برقرار رکها ۔ساری خدائی ميں نوح پر ہمارا سلام ،ہم اسی طرح نيک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہيں وہ ہمارے ایماندار بندوں ميں سے تھے ”

( وَتَرَکنَْاعَلَيهِْ فِی الآخِرِینَْ سَلاَمٌ عَل یٰ اِبرَْاهِيمَْ ) ( ١)

“اور اس کا تذکرہ آخری دور تک باقی رکها ہے ۔سلام ہو ابراہيم پر ”

( وَتَرَکنَْاعَلَيهِْ فِی الآخِرِینَْ سَلاَمٌ عَ لٰی مُوسْ یٰ وَهَارُونَْ ) ( ٢)

“اور اس کا تذکرہ آخری دور تک باقی رکها ہے ۔سلام ہوموسیٰ اور ہارون پر ”

( وَتَرَکنَْاعَلَيهِْ فِی الآخِرِینَْ سَلاَمٌ عَل یٰ ال اٰیسِينَْ ) ( ٣)

“اور اس کا تذکرہ آخری دور تک باقی رکها ہے ۔سلام ہوآل یاسين پر ”

( وَسَلاَمٌ عَلیَ المُْرسَْلِينَْ وَالحَْمدُْللهِرَبِّ ال اْٰ علَمِينَْ ) ( ۴)

“اور ہمارا سلام تمام مرسلين پر ہے اور ساری تعریف اس الله کےلئے ہے جو عالمين کا پروردگار ہے ’

اور صلح وسلا متی کے رابطہ کا تقاضا، رہنما کا ایک ہونا ،مقصد کا ایک ہونا، راستہ کا ایک ہونا ،اس غرض و مقصد تک پہنچنے کے سلسلہ ميں وسيلہ کا ایک ہونا، روش کا ایک ہونا نيز رفتار اور نظریہ کا ایک ہونا ہے ۔

ا ور اس مجموعی وحدت کے علاوہ صلح و دو ستی کے اورکوئی معنی نہيں ہيں ۔

٣۔اس خاندان کی نسل در نسل ميں ميراث کا رابطہ ہے خلف صالح اپنے سلف سے توحيدکی ارزشوں اورتوحيد کی طرف دعوت دینے کو ميراث ميں پاتاہے ۔

____________________

١)سورئہ الصافات آیت/ ١٠٨ ۔ ١٠٩ ۔ )

٢)سورئہ الصافات آیت/ ١١٩ ۔ ١٢٠ )

٣)سورئہ الصافات آیت/ ١٣٠ ۔ )

۴)سورئہ الصافات آیت/ ١٨١ ۔ ١٨٢ )

۲۰۹

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :

( ثُمَّ اَورَْثنَْاالکِْتَابَ الَّذِینَْ اصطَْفَينَْامِن عِبَادِنَا ) ( ١)

“پهر ہم نے اس کتاب کا وارث ان لوگوں کو قرار دیا جنهيں اپنے بندوں ميں سے چُن ليا”

( وَلَقَدآْتَينَْامُوسْ یٰ الهُْد یٰ وَاَورَْثنَْا بَنِی اِسرَْائِيلَْ الکِْتَابَ ) ( ٢)

“اور یقينا ہم نے مو سیٰ کو ہدایت عطا کی اور بنی اسرائيل کو کتاب کا وارث بنایا ہے ”

( وَالَّذِینَْ عَل یٰ صَلاَتِهِم یُحَافِظُونَْ اُو ئِٰلکَ هُمُ الوَْارِثُونَْ ) ( ٣)

“اور جو اپنی نمازوں کی پابندی کرنے والے ہيں در حقيقت یہ وہی وارثان جنت ہيں ”

( وَالَّذِینَْ یُمَسِّکُونَْ بِالکِْتَابِ وَاَقَامُواالصَّلاَةَ اِنَّالاَنُضِيعُْ اَجرَْ المُْصلِْحِينَْ ) ( ۴)

“اور جو لوگ کتاب سے تمسک کر تے ہيں اور انهوں نے نماز قائم کی ہے تو ہم صالح اور نيک کردار لوگوں کے اجر کو ضائع نہيں کرتے ہيں ” اسی رابطہ کی وجہ سے خلف(فرزند)سلف سے توحيد کی ارزشوں کوحاصل کرتا ہے ،تا کہ ان ارزشوں کواپنے بعد والی نسلوں تک منتقل کر سکے۔ ۴ ۔اس خاندان کا اسلام سے گہرا رابطہ ہے خداوند عالم نے ہر موحد کےلئے اس خاندان کے رائد(قائد)حضرت ابراہيم عليہ السلام کو باپ کہا ہے اور ان کو جناب ابراہيم کے فرزند قرار دیاہے ۔

( هُوَاجتَْ اٰبکُم وَمَاجَعَلَ عَلَيکُْم فِی الدِّینِْ مِن حَرَجٍ مِلَّةَ اَبِيکُْم اِبرَْاهِيمَْ هُوَ )

____________________

١)سورئہ فاطر آیت/ ٣٢ ۔ )

٢)سورئہ غافر آیت/ ۵٣ ۔ )

٣)سورئہ مومنون آیت/ ٩۔ ١٠ ۔ )

۴)سورئہ اعراف آیت/ ١٧٠ ۔ )

۲۱۰

( سَمَّاکُم المُْسلِْمِينَْ مِن قَبلُْ وَفِی هٰذَالِيَکُونَْ الرَّسُولُْ شَهِيدْاً عَلَيکُْم وَتَکُونُْواْشُهدَْاءَ عَلیَ النَّاسِ ) ( ١)

“۔۔۔اس نے تم کو منتخب کيا ہے اور دین ميں کو ئی زحمت نہيں قرار دی ہے ۔یہی تمہارے باپ ابراہيم کا دین ہے اس نے تمہارا نام پہلے بهی اور اس قرآن ميں بهی مسلم اور اطاعت گذار رکها ہے تا کہ رسول تمہارے اوپر گواہ رہے اور تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو ۔۔۔”

۵ ۔خداوند عالم نے اس خاندان کی تمام نسلوں کو اسی خاندان کے گذشتہ اور موجودہ انبياء ، مرسلين صالحين اور صدیقين کی اقتداء کرنے کا حکم دیا ہے ۔ ارشاد خداوند قدوس ہے :

( وَلَقَدکَْانَ لَکُم فِی رَسُولِْ الله اُسوَْةٌ حَسَنَةٌ ) ( ٢)

“مسلمانو!تمہارے واسطے تو خودرسول الله کا(خندق ميں بيڻھنا)ایک اچها نمونہ تھا ”

( قَدکَْانَت لَکُم اُسوَْةٌ حَسَنَةٌ فِی اِبرَْاهِيمَْ وَالَّذِینَْ مَعَهُ ) ( ٣)

“تمہارے لئے بہترین نمونہ عمل ابراہيم اور ان کے ساتهيوں ميں ہے ”

( لَقَدکَْانَ لَکُم فِيهِْم اُسوَْةٌ حَسَنَةٌ لِمَن کَانَ یَرجُْواْالله ٰ ) ( ۴)

“مسلمانو!ان لوگوں (کے افعال )تمہارے واسطے جو خدااور روز آخرت کی اميد رکهتا ہے اچها نمونہ ہے ”

قرآن کریم انبيائے الٰہی اور اس کے اوليائے صالحين کی کچه تعداد بيان کرنے کے بعد ان

____________________

١)سورئہ حج آیت / ٧٨ ۔ )

٢)سورئہ احزاب آیت/ ٢١ ۔ )

٣)سورئہ ممتحنہ آیت / ۶۔ )

۴)سورئہ ممتحنہ آیت/ ۶ )

۲۱۱

کی اقتداکرنے کا حکم دیتا ہے۔خداوند عالم نے ان کو جو نورکا رزق عطا کيا ہے اس سے ہدایت اور اقتباس کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( وَتِلکَْ حُجَّتُنَاآتَينَْاهَااِبرَْاهِيمَْ عَ لٰی قَومِْهِ نَرفَْعُ دَرَجَاتٍ مَن نَّشَاءُ اِنَّ رَبَّکَ حَکِيمٌْ عَلِيمٌْ وَوَهَبنَْالَهُ اِسحَْاقَ وَیَعقُْوبَْ کُلاهَدَینَْاوَنُوحْاًهَدَینَْامِن قَبلُْ وَمِن ذُرِّیَّتِهِ دَاوُدَوَسُلَيمَْانَ وَاَیُّوبَْ وَیُوسُْفَ وَمُوسْ یٰ وَ هٰارُونَْ وَکَ لٰ ذِکَ نَجزِْی المُْحسِْنِينَْ وَزَکَرِیاٰوَّیَحيْ یٰ وَعِيسْ یٰ وَاِل اْٰيسَ کُلٌّ مِنَ الصَّالِحِينَْ وَاِس مْٰاعِيلَْ وَاليَْسَعَ وَیُونُْسَ وَلُوطْاًوَکُلا فَضَّلنَْاعَلَی ال اْٰ علَمِينَْ وَمِن آبَائِهِم وَذُرِیَّاتِهِم وَاِخوَْانِهِم وَاجتَْبَينَْاهُم وَهَدَینَْاهُم اِ لٰ ی صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍْ اُو ئِْٰلکَ الَّذِینَْ هَدَی الله فَبِهُدَاهُمُ اقتَْدِهِ ) ( ١)

“یہ ہما ری دليل ہے جسے ہم نے ابراہيم کو ان کی قوم کے مقابلہ ميں عطا کيا اور ہم جس کو چا ہتے ہيں اس کے درجات کو بلند کردیتے ہيں ۔بيشک تمہارا پروردگار صاحب حکمت بهی ہے اور با خبر بهی ہے اور ہم نے ابراہيم کواسحاق و یعقوب دئے اور سب کو ہدایت بهی دی اور اس کے پہلے نوح کو ہدایت دی اور پھر ابراہيم کی اولاد ميں داؤد ،سليمان،ایوب،یوسف،موسیٰ اور ہارون قرار دئے اور ہم اسی طرح نيک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہيں ۔اور زکریا یحيیٰ ،عيسیٰ اور الياس کو بهی رکها جو سب کے سب نيک کرداروں ميں تھے ۔اور اسماعيل ،اليسع ،یونس اور لوط بهی بنا ئے اور سب کو عالمين سے بہتر اور افضل بنایا ۔اور پھر ان کے باپ دادا ،اولاد اور برادری ميں سے اور خود انهيں بهی منتخب کيا اور سب کو سيدهے راستہ کی ہدایت کردی ہے۔۔۔یہی وہ لوگ ہيں جنهيں الله نے ہدایت دی ہے لہٰذا آپ بهی اسی ہدایت کے راستہ پر چليں ”

____________________

١)سورئہ انعام آیت / ٨٣ ۔ ٩٠ ۔ )

۲۱۲

۶ ۔دعا کا رابطہ: آنے والی نسل کا گذشتہ نسل کےلئے دعا کرنا، خلف اور سلف کے درميان سب سے بہتر اور محکم رابطہ ہے ۔ موجودہ نسل کا گذشتہ افراد کی سابق الایمان ہونے کی گواہی دینا ہے اور الله سے ان کی مغفرت اور رحمت کےلئے دعا کرنا ہے :

( وَالَّذِینَْ جَاوومِْن بَعدِْهِم،ْیَقُولُْونَْ رَبَّنَااغفِْرلَْنَاوَلِاِخوَْانِنَاالَّذِینَْ سَبَقُونَْا بِالاِْیمَْانِ،وَلاَتَجعَْل فِی قُلُوبِْنَاغِلا لِلَّذِینَْ آمَنُواْ رَبَّنَااِنَّکَ رَوفٌ رَحِيمٌْ ) ( ١)

“اور جو لوگ ان کے بعد آئے اور ان کا کہنا یہ ہے کہ خدایا ہميں معاف کردے اور ہمارے ان بها ئيوں کو بهی جنهوں نے ایمان ميں ہم پر سبقت کی ہے اور ہمارے دلوں ميں صاحبان ایمان کے لئے کسی طرح کا کينہ نہ قرار دینا کہ تو بڑا مہربا ن اور رحم کرنے والا ہے ”

معلوم ہوا سلف صالح سے رابطہ برقرار ر

کهنا تربيت کے لحاظ سے اس دین کے راستہ کا اصل جزء ہے ۔ نسلوںکے درميان با ہمی رابطہ کے سلسلہ ميں قرآن کریم کی ایسی ممتاز ثقافت مو جود ہے جس کے ذریعہ قر آن کریم مو منين کو ایسے مسلمان خاندان کے درميان نسليں گذرجا نے کے با وجود ارتباط کی دعوت دیتا ہے یہ رابطہ عہد ابراہيم سے بلکہ حضرت نوح کے زمانہ سے ليکر آج تک برقرار ہے ۔ جبکہ انبيائے عظام ميں اولواالعزم پيغمبر بهی ہيں جيسے موسیٰ بن عمران ،عيسیٰ بن مریم عليہما السلام اورانهيں ميں آخری نبی پيغمبر خدا ہيں ۔ یہ با ہمی رابطہ اس خاندان توحيد کی سب سے اہم خصوصيت ہے ۔

____________________

١)سورئہ حشر آیت / ١٠ ۔ )

۲۱۳

زیارت

اس بات سے واقفيت کے بعدکہ تمام نسلوں ميں ميراث، تسالم، محبت اورملاقات کا رابطہ

اس دین کی خصوصيات ميں سے ہے ۔۔ ہم کویہ بهی معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ وسائل کيا ہيں جن کی وجہ سے یہ رابطہ پيدا ہوتا ہے اور گذشتہ نسلوں کے لئے مو جودہ نسل کے احساسات کا پتہ چلتا ہے ۔۔۔یہ وسائل اس مقصد تک پہنچنے کےلئے اسلامی تربيتی پہلوکی راہ ہموارکرنے ميں موثر شمار ہوتے ہيں ۔

انبياء عليہم السلام اور ان کے خلفاء ،اوليائے الٰہی اور الله کے صالح بندوں کی قبروں کی زیارت کرنا ،ان پر سلام بهيجنا، ان کےلئے دعاکر نا ،ان کےلئے نماز قائم کرنا، زکواة ادا کرنااور امر بالمعروف کر نے کی گواہی دینا مو منين کی نسلوں کے درميان اس ملاقات اوررابطہ کے اہم اسباب ہيں ۔

ان زیارتوں ميںجن سے مومنين اولياء الله اور مومنين کی قبروں کی زیارت نيز اس سے متصل سلام و دعا و شہادت کے ذریعہ مانوس ہو تے ہيں مو منين کی اس جماعت کے سلسلہ ميں اپنے احساسات بيان کرتے ہيں جو ان سے پہلے ایمان لا چکے ،نمازیں قائم کرچکے ،امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کرچکے ،ان سے پہلے تو حيد کی جانب دعوت کے پيغام کيلئے قيام کرچکے خداکی جانب ان کےلئے راستہ ہموار کرچکے لوگوں کو خداوند عالم کا عبادت گذار بنا چکے ان سے پہلے لوگوں کے درميان کلمہ تو حيد کو بلند کرچکے ہيں ۔

اس احسان کےلئے زیارت کو وفا سے تعبير کيا گياہے یعنی اولاد کا اپنے آبا واجداد سے وفاداری کا اظہار کرنااس دوررائدميں توحيد ،نماز قائم کرنے اور زکات ادا کرنے کی جانب دعوت دینے کيلئے گواہی کی ضرورت ہے اور زیارت کا مطلب ہی فرزندوں کاآباو واجداد کے سلسلہ ميں اور مو جودہ نسل کا گذشتگان کےلئے گواہی دینا ہے۔

زیارت ميں صلح وسلامتی اور محبت سے مراد گذشتہ نسلوں سے رابطہ برقرار رکهنا ہے اور حقيقت ميں ملاقات، رابطہ اور ایک دوسرے پر رحم ،صالحين کی پيروی ان کی یاد سے متعلق ذکر الٰہی کو مجسم کرتا ہے ۔

۲۱۴

مومنين اپنی زندگی ميں فطری طور پر انبياء صالحين بلکہ تمام مومنين کی قبروں سے مانوس ہو تے ہيں اور رسول خدا (ص)کے اصحاب، اُحد کے شہيدوں اور حمزہ عليہ السلام کی قبر کی زیارت کيا کر تے تھے جيسا کہ صحيح روایات ميں وارد ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا رسول الله (ص) جناب حمزہ عليہ السلام کی قبر کی زیارت کر نا ضروری سمجهتی تهيں اور یہ زیارتيں اکثر نماز، دعا، ذکر اور الله کی بارگاہ ميں حاضر ی کے ساته انجام پاتی ہيں اور ماثور ہ زیارات ميں یہ تمام باتيں ذکر ہوئی ہيں ۔

تعجب ہے بعض اسلامی مذا ہب مسلمانوں کو انبياء ائمہ المسلمين اور صالحين کی قبروں کی زیارت کر نے اور ان کی قبروں کے نزدیک دعا اور نماز پڑهنے سے منع کر تے ہيں اور اسلام کی اس عمومی روش سے اپنے کو الگ قرار دیتے ہيں جو صالحين کی قبروں کی زیارت کر نے جاتے ہيں ان کو قبروں کے نزدیک دعا نماز اور ذکر کر نے سے منع کر تے ہيں اور اس فعل کو الله کے با رے ميں شرک سے تعبير کرتے ہيں ۔

ہم اس کاسبب تو نہيں جا نتے ہيں البتہ یہ کہہ سکتے ہيں کہ انهوں نے اسلام کے ظا ہری امر اور مفاہيم نيز ان اقدار کو اچهی طرح نہيں سمجها ہے جو زیارات کے سلسلہ ميں بيان کی گئی ہيں ۔

اور ہم یہ بهی نہيں جانتے کہ یہ برائی کس طرح کی برا ئی ہے جس سے مسلمانوں نے نہيںروکا جبکہ نصف صدی سے بڑی شدت کے ساته مسلمانوںکو اس چيز سے منع کياجارہا ہے ۔

یا تو ہم نصف صدی سے سختی سے روکنے والوں کو غلطی سے متہم کریں۔

یا ہم ان پر توحيد اور شرک کو صحيح نہ سمجهنے کا الزام لگائيں یعنی ان دونوں باتوں کو صحيح طریقہ سے درک نہيں کرپائيں ہيں ۔

خداوند عالم سب کو راہ راست کی ہدایت فر مائے اور اپنے صراط مستقيم پر اپنی خوشنودی کی جانب ہماری دستگيری فر مائے ۔

۲۱۵

زیارتوں کی عبارات ميں آنے والے معانی و مفاہيم کا جا ئزہ

رسول خدا اور ائمہ معصو مين عليہم السلام کی زیارت کے سلسلہ ميں اہل بيت سے وارد ہونے والی روایات ميں ہم افکار کے مختلف نہج پاتے ہيں ہم ان ميں سے ذیل ميں دونمونے ذکر کر رہے ہيں :

پہلا نہج :وہ افکار جن کا امام اور امت کے درميان سياسی تعلق ہوتا ہے ۔ دوسرا نہج :وہ افکار جن کا زائر اور امام کے درميان ذاتی تعلق ہوتا ہے ۔ ہم عنقریب ان دونوں طریقوں کے سلسلہ ميں زیارتوں ميں واردہونے والے مضامين بيان کریں گے ۔

زیارتوں ميں سياسی اور انقلابی پہلو

١۔زیارت کا عام سياسی دائرہ سے رابطہ

اہل بيت عليہم السلام سے زیارتوں کے سلسلہ ميں وارد ہونے والی روایات ميں عقيدتی اور سياسی قضيہ کا بہت وسيع ميدان ہے اور سياسی قضيہ سے ہماری مراد رسول اسلام (ص) کے بعد امامت اور ولایت کا مسئلہ ہے اور یہ وہ معتبر وسيلہ ہے جو بنی اميہ اوربنی عباس کے دور ميںنيزاس کے بعدبهی سياست دور ميں ا سلام کے اصل راستہ سے منحرف ہوجانے کے بعدجاری وساری رہا ہے۔ اسلامی حکومتوں پر ایسے افراد نے بهی حکومت کی ہے جواسلام اور عالم اسلام کی نظر ميں قابل اطمينان نہيں تھے انهوں نے اسلام اور مسلما نوں کو بہت نقصان پہنچایا اہل بيت عليہم السلام نے اپنے دورکی اس طرح کی حکومتوں کا مقابلہ کيا ۔

اموی اور عباسی، مضبوط حکومتوں سے ڻکراتے رہنے کی بنا پرشيعہ ادب اور ثقافت ميں واضح آثار رونما ہوئے اور اسی وقت سے اہل بيت عليہم السلام کی اتباع کر نے والے شيعوں کو رافضہ کے نام سے پہچا نا جانے لگا چونکہ انهوں نے بنی اميہ اور بنی عباس کے خلفا کی ولایت کا انکار کيا تھا ۔

۲۱۶

شيعی سياسی فکر اور شيعی سياسی ادب کواس وقت سے رفض کا رنگ دیا گيا جب معاویہ نے حضرت امام حسن عليہ السلام سے مختلف بہانوں اور مکاریوں سے حکومت لی اور یہ رنگ بنی عباس کی حکومت کے اختتام تک باقی رہا۔ اس سياسی جنگ اور سياسی معارضہ کی اہل بيت عليہم السلام سے وارد ہونے والی دعاؤں ميں واضح طور پر عکاسی کی گئی ہے خاص طورسے امام اميرالمومنين علی بن ابی طالب عليہ السلام اور حضرت امام حسين عليہ السلام کی زیارت ميں چو نکہ ان دونوں اماموں کا دور تاریخ اسلام ميں مقابلہ اور ڻکراؤ کاسب سے سخت دور تھا ۔

اور شاید اسی سبب کو حضرت امير المو منين علی بن ابی طالب عليہ السلام اور آپ کے فر زند ارجمند حضرت امام حسين عليہ السلام سے مروی زیارتوں ميں کثرت کے ساته ذکر کيا گيا ہے ۔

اور ان دونوں اماموں سے واردہونے والی زیارتوں کادوسرے تمام ائمہ سے وارد ہو نے والی زیارتوں سے مقدار اور کيفيت ميں فرق ہے ۔

اس سياسی قضيہ کاخلاصہ زیا رتوں ميں بيان ہواہے جيسا کہ ہم نے اس کا شہادت اور مو قف کے عنوان ميںتذکرہ کيا ہے جن ميں پہلاشہادت کے بارے ميں ہے اور دوسرا سياست کے متعلق ہے۔ ہم موقف کو شہادت کے بعد بيان کریں گے ۔

بيشک سياسی موقف ہر جنگ اور اختلاف کے مو قع پر قضاوت کے دا ئرہ کا خلاصہ ہوتا ہے قضاوت حق دو جهگڑاکرنے وا لو ں کے در ميان قا طع حکم کانام ہے، اس وقت اس حکم کی رو شنی ميں جس کو قضاوت معين کرتی ہے اس سے سياسی موقف معين ہو تا ہے ۔

ایسے ميں سب سے انصاف کرنے والاخود انسان کا ضمير ہوتا ہے وہ انصاف جس کو خدا نے انسان کی فطرت ميں ودیعت کيا ہے ۔

اسی طرح اس الٰہی محکمہ ميں اہل بيت عليہم السلام کے زائرکو یہ گوا ہی دینی پڑے گی کہ حق اہل بيت عليہم السلام کاحصہ ہے اور انهيں کے ساته ہے ،اور اہل بيت عليہم السلام کے دشمنوں کے خلاف یہ گواہی دے کہ وہ حق سے منحرف اور باطل کی طرف رجحان رکهنے والے تھے ۔ پھر اس گوا ہی کے راستہ پر ولایت ، برا ئت ،رو گردانی و سلام و لعنت کا موقف معين ہوتا ہے اب ہم ذیل ميں شہا دت اور مو قف ميں سے ہر ایک کے سلسلہ ميں اہل بيت عليہم السلام سے منقولہ زیارات کی چند عبارتوں کاتذکرہ کرتے ہيں :

۲۱۷

الف:شہادت

مقابلہ کے پہلے مرحلہ ميں رسالت کی گواہی

جناب عمار کی زبانی جنگ کی دو قسميں ہيں ،ایک جنگ جو تنزیل قرآن پر ہوئی جو بدر اور احد ميں ہو ئی تهی اور دوسری جنگ تا ویل قرآن پر ہو ئی جو جمل،صفين اور کربلا ميں ہو ئی تهی یہ دو نوں جنگيں آج تک قا ئم ہيں اور یہ آ خر تک قائم رہيں گی ۔ہم پہلی جنگ کے سلسلہ ميں حضرت رسول خدا (ص) کی زیارت ميں پڑهتے ہيں :

اشهدیارسول الله مع کل شاهدواتحمّلهاعن کلّ جاد:انک قد بلّغت رسالات ربّک،ونصحت لامتک،وجاهدت فی سبيل ربّک،واحتملت الاذیٰ في جنبہ،ودعوت الیٰ سبيلہ بالحکمة والموعظة الحسنة الجميلة،وادّیت الحقّ الذي کان عليک ،وانّک قد روفت بالمومنين وغلظت علیٰ الکافرین، وعبدت اللّٰہ مخلصاًحتیّٰ اتاک اليقين،فبلغ اللّٰہُ بک اشرف محل المکرمين،واعلیٰ منازل المقرّبين،وارفع درجات المسلمين حيث لایلحقک لاحق،ولایفوقک فائق،ولایسبقکَ سابق،ولایطمع فی ادراکک طامع۔” “ميں شہادت دیتاہوں اے خدا کے رسول تمام شاہدوں کے ساته اورتمام منکروں کے مقابلہ ميں کہ آپ نے اپنے پرور دگار کے پيغامات کو پہنچا یا ،اپنی امت کو نصيحت کی، راہ خدا ميں جہاد کيا، اس کی راہ ميں ہر زحمت کو برداشت کيا ،لوگوں کو راہ خدا کی دعوت دی حکمت اور مو عظہ حسنہ کے ساته اوروہ سب کچه ادا کردیا جو آپ کے ذمہ تها، آپ نے مو منين پر مہربانی کی اور کافروںپر سختی کی اور خلوص سے الله کی عبادت کی یہاں تک کہ زندگانی کا خاتمہ ہوگيا خدا آپ کو بزرگ بندوںکی عظيم ترین منزل تک پہونچائے اورآپ کو مقربين کے بلند ترین مرتبہ پرفائزکرے اور مرسلين کے عظيم ترین درجہ تک پہنچادے جہاں تک کو ئی پہونچنے والا نہ پہنچ سکے اور کو ئی اس سے بالاتر نہ جاسکے اور کو ئی اس سے آگے نہ نکل سکے اورکسی ميں اس منزل کوحاصل کرنے کی طمع بهی نہ ہو سکے”

احد کے شہيدوں کی قبروں کی زیارت کے سلسلہ ميں پڑهتے ہيں :

واشهدکم انکم قدجاهدتم فی اللّٰه حقّ جهاده وذببتم عن دین اللّٰه وعن نبيه،وجدتم بانفسکم دونه،واشهد انکم قُتِلْتُمْ علیٰ منهاج رسول اللٰه، فجزاکم اللّٰه عن نبيه وعن الاسلام واهله افضل الجزاء،وعرفناوجوهکم في رضوانه مع النبيين والصدیقين والشهداء والصالحين وحسن اولٰئِکَ رفيقاً

“اور ميں گواہی دیتا ہوں کہ آپ حضرات نے راہ خدا ميں جہاد کا حق ادا کيا اور دین خدا اور رسول خدا سے دفاع کيا اور اپنی جان قربان کردی اور ميں گو اہی دیتا ہوں کہ آپ لوگ رسول الله کے طریقہ پر دنيا سے گئے خدا آپ کو اپنے پيغمبر اور اسلام اور اہل اسلام کی طرف سے بہترین جزادے اور ہميں محل رضااور محل اکرام ميں آپ کی زیارت نصيب کرے جہاں آپ انبياء ،صدیقين ، شہداء اور صالحين کے ساته ہوں گے جوبہترین رفقاء ہيں ”

۲۱۸

مقابلہ کے دو سرے مر حلہ ميں امام عليہ السلام کی گو اہی

اس گو اہی کو زائر تا ویل قرآن پر جنگ کر کے دا ئرئہ حدود ميں ثبت کرتا ہے ہم ان فقروں کو امام امير المو منين عليہ السلام کی زیارت کے سلسلہ ميں اس طرح پڑهتے ہيں :

اللهم اِنِّیْ اَشْهَدُانّهُ قَدْبلَّغَ عن رسولک ماحمّل ورعیٰ مااستحفظ،وحفظ مااستودع،وحلل حلالک،وحرَّم حرامک،واقام احکامک،و جاهد الناکثين فی سبيلک،والقاسطين فی حکمک،والمارقين عن امرک،صابراً،محتسباًلاتاخذه فيک لومة لائمٍ ”۔

“خدایا ميں گواہی دیتا ہوں کہ امير المو منين نے تيرے رسول کی طرف سے دئے گئے بارکوپہونچا دیا اور اس کی رعایت کی جس کی حفاظت چا ہی گئی اور جو امانت رکهی گئی تهی اس کی حفاظت کی اور تيرے حلال کو حلال اور تيرے حرام کو حرام باقی رکها اور تيرے احکام کو قائم کيا اورنا کثين(طلحہ اور زبير)کے ساته تيری راہ ميں جہاد کيااور قاسطين اور مارقين کے ساته تيرے حکم سے صبر اور تحمل کے ساته جہاد کيااور تيری راہ ميں ملامت کرنے والوں کی ملامت کی کو ئی پرواہ نہيں کی ”

رسول اسلام (ص) کی بعثت کے دن سے مخصوص زیارت ميں اس طرح پڑهتے ہيں :

کنت للمومنين ابارحيماً وعلیٰ الکافرین صباوغلظة وغيظاً،وللمومنين غيثاوخصباوعلما،لم تفلل حجّتک،ولم یزغ قلبک،ولم تضعف بصيرتک ولم تجبن نفسک کنت کالجبل،لاتحرّکه العواصف،ولاتزیله القواصف،کنت کماقال رسول اللّٰه قویافی بدنک،متواضعاًفی نفسک،عظيماًعند اللّٰه،کبيراًفي الارض،جليلاًفي السماء،لم یکن لاحد فيک مهمزولالخلق فيک مطمع ولا لاحد عنک هواده،یوجد الضعيف الذليل عندک قویاعزیزاًحتیّٰ تاخذله بحقه والقوي العزیزعندک ضعيفاًحتیّٰ تاخذ منه الحقّ ”۔ “آپ مومنين کےلئے رحم دل باپ تھے ۔۔۔ آپ کافروں کے لئے سخت عذاب اور درد ناک سزا تھے اور مومنوں کےلئے باران رحمت ہریالی اور علم کی حيثيت سے تھے آپ کی حجت کند نہيں ہو ئی اور آپ کا دل کج نہيں ہوا آپ کی بصيرت کمزور نہيں ہوئی آپ کا نفس ڈرا نہيں آپ اس پہاڑ کے مانند تھے جس کو تيز ہوا ہلا نہيں

۲۱۹

سکتی اور آندهياں اس کوہڻا نہيں سکتيں آپ ویسے قوی بدن تھے جيسا کہ رسول الله صلی الله عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا اور اپنے نفس ميں متواضع تھے اور خدا کے نزدیک عظيم تھے ،زمين ميں کبير تھے اور آسمان ميں جليل تھے آپ کے با رے ميں کسی کے لئے نکتہ چينی کا مقام نہيں ہے اور نہ کسی کہنے والے کےلئے اشارہ ہے اور آپ کے با رے ميں کسی مخلوق کو غلط طمع ہے اور نہ کسی کےلئے بيجا اميد ہے اپ کے نزدیک ہر ضعيف و کمزور و ذليل قوی اور عزیز رہتا ہے یہاں تک کہ آپ اس کےلئے اس کا حق لے ليں اور قوی عزت دار آپ کے نزدیک کمزور ہوتا ہے یہاں تک کہ اپ اس سے حق لے ليں ’

دوسرے مر حلہ ميں تاویل قرآن پر جنگ کرنے کی گواہی

اس کا پہلا حصہ تاویل کے دائرئہ ميں جنگ صفين سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ کربلا سے متعلق ہے اور کربلا ميں اس سلسلہ کی جنگ واضح وآشکار طور پر واقع ہوئی اس ميں قلب سليم رکهنے والے کےلئے کوئی شک وشبہ نہيں ہے اس کا ہروہ شخص گواہ ہے جس کے پاس دل ہے یا جو قوت سماعت کا مالک ہے ۔

اس جنگ ميں امام حسين عليہ السلام اپنے ساته اپنے اہل بيت اور اصحاب ميں سے بہتّرافرادنيز ایسی مو من جماعت کے ساته کهڑے ہوئے جو ميدان کربلا ميں کسی وجہ سے یا بلا وجہ غير حاضر رہے ۔۔۔اور دوسری طرف یزید آل اميہ اور ان کی شامی اور عراقی فوج نے قيام کيا ۔

اس جنگ ميں کسی شک وشبہ کے بغير دونوں طرف کے محاذ اچهی طرح واضح ہو جاتے ہيں چنانچہ امام حسين عليہ السلام نبوت کی ہدایت کے ساته ظاہر ہوتے ہيں اور یزید سر کشوں ،جباروں اور متکبروں کی بری شکلوں ميں ظاہر ہوتا ہے ۔ کربلا ان دونوں جنگوں کے مابين حد فاصل ہے واقعہ کربلا سے ليکر آج تک کسی پر اس جنگ کا امر ومقصد مخفی نہيں رہاہے اور وہ حق وباطل کی شناخت نہ کر سکا ہو مگر الله نے جس کی آنکهوں کا نور چهين ليا اس کے دلو ں اور آنکهوں پر مہر لگادی اور ان کی آنکهوں پر پر دے ڈالدئے ہيں ۔

۲۲۰