دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد ۲

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)0%

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 248

دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

مؤلف: محمد مهدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 248
مشاہدے: 64986
ڈاؤنلوڈ: 3664


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 248 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 64986 / ڈاؤنلوڈ: 3664
سائز سائز سائز
دعا عند اهل بيت( جلد دوم)

دعا عند اهل بيت( جلد دوم) جلد 2

مؤلف:
اردو

“پروردگار ہم سے عذاب جہنم کو پهيردے کہ اس کا عذاب بہت سخت اور پائيدار ہے ”( رَبَّنَااَتمِْم لَنَانُورَْنَا وَاغفِْرلَْنَااِنَّکَ عَل یٰ کُلِّ شَیءٍْ قَدِیرٌْ ) ( ١)

“خدایا ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل کردے اور ہميں بخش دے کہ تو یقينا ہر شے پر قدرت رکهنے والا ہے ”

دعا کے تيسر ے طریقہ کی تشریح وتفسير

دونوں قسموں ميں مومنين کےلئے دعا کی گئی ہے مگر دعا کی دوسری قسم ميں ایک فرد کا تمام انسانوں کےلئے دعا کر نا بيان کيا گيا ہے اور تيسر ی قسم ميں اجتماعی اعتبارسے دعا کرنے کو بيان کيا ہے اور ہم دعا کے اسی تيسرے طریقہ کے سلسلہ ميں بحث کرتے ہيں :

١۔جميع (تمام )افراد کےلئے دعا کرنا یعنی انسان صرف اپنے لئے دعا نہيںکرتا بلکہ وہ سب کےلئے دعا کرتا ہے اور کبهی کبهی تنہا انسان کی دعا اس کےلئے مفيد نہيں ہوتی جيسا کہ اگر کسی امت پر بلاومصيبت نازل ہو تو یہ فرد بهی انهےں ميں شامل ہو تا ہے یہاں تک کہ دوسرے افراد جو ظلم ميں کسی کے شریک نہيں ہو تے ان پر بهی بلا نازل ہو جاتی ہے :

( وَاتَّقُواْفِتنَْةً لَاتُصِيبَْنَّ الَّذِینَْ ظَلَمُواْ مِنکُْم خَاصَّةً ) (٢)

“اور اس فتنہ سے بچو جو صرف ظالمين کو پہنچنے والا نہيں ہے ” ایسے موقع پر انسان کو سب کےلئے دعا اور استغفار کرنا چاہئے ۔لہٰذا جب پروردگار عالم سب سے عذاب اڻها ئے گا تو اس انسان سے بهی اڻها ئے گا ۔( رَبَّنَااکشِْف عَنَّاالعَْذَابَ اِنَّامُومِْنُونَْ ) (٣)

____________________

١)سورئہ تحریم آیت/ ٨۔ )

٢)سورئہ انفال آیت/ ٢۵ ۔ )

٣)سورئہ دخان آیت/ ١٢ )

۲۱

“تب سب کہيں گے کہ پروردگار اس عذاب کو ہم سے دور کردے ہم ایمان لے آنے والے ہيں ”

٢۔کبهی کبهی دعا کر نے والا تمام مو منين کا قائم مقام بن کر دعا کرتا ہے اور جب اس طرح کی دعا کی جاتی ہے تو اکثر کلمہ “ربنا”استعما ل کرتا ہے گویا دعا کرنے والے کا قائم مقام بن کرسب کےلئے دعا کرتا ہے اور جن کےلئے دعا کرتاہے ان سے اپنے نفس کو الگ نہيں کرتا جس طرح دعا کی دوسری قسم ميں ہے ،وہ(دعا کرنے والا )سب کا قائم مقام بن کران سب کےلئے دعا کرتا ہے، اپنے نفس کو خود انهيں لو گوں ميں شامل کرتا ہے جن کےلئے وہ دعا کر رہاہے یہی دعا بارگاہ خداوندميں قبوليت کے زیادہ نزدیک ہوتی ہے ۔

خداوند عالم یا تو سب کی دعا کو رد کردے گا یا بعض انسانوں کےلئے قبول کرے گا اور بعض انسانوں کےلئے قبول نہيں کرے گا یا سب کےلئے دعا قبول کر ے گا ۔

خداوندعالم سب سے زیادہ کریم ہے وہ کہاں سب کی دعاؤں کو رد کرے۔ بعض کےلئے اس کی دعا قبول کر لينا یہ اس کی شان کریمی نہيں ہے ۔ یہيں سے یہ تيسرا فرضيہ کہ خداوندعالم سب کے حق ميں دعا مستجاب کرتا ہے معين ہوجاتا ہے۔

دعا کی اس قسم ميں انسان سب کی طرف سے الله تک پيغام پہنچا تاہے الله کو سب کی طرف سے مخاطب کر کے کہتا ہے (ربنا )سب کا قائم مقام بنتا ہے اور سب کا پيغام الله تک پہنچاتاہے۔

عمدہ بات یہ ہے کہ ہم ميں سے ہر ایک انسان دوسروں کا نمائندہ بن کر سب کا پيغام خداتک پہنچا نے کےلئے اپنے نفس کو پيش کرتا ہے لہٰذا ہم ميں سے ہر ایک لوگوں کا پيغام دعا کے ذریعہ پہنچاتاہے جس طرح پروردگار عالم اپنا پيغام لوگوں تک پہنچاتاہے اسی طرح لوگ اپنی حاجتوں کو خداوندعالم کی بارگاہ ميں پہنچاتے ہيں۔

۲۲

یہاں پر ہر انسان تمام انسانوں کا پيغام پہنچا نے والا ہے اور تمام انسانوں کا قائم مقام بنتا ہے ۔یہ بڑی تعجب خيز بات ہے کہ جب ہم اس دنيا ميں زندگی بسر کرتے ہيں تو بازاروں اور سڑکوں ميں ہم ميں سے ہر ایک، ایک دوسرے کےلئے رکا وڻيں کهڑی کرتے ہيں اور بعض کو بعض سے جدا کرتے ہيں اور ہم ميں سے ہر ایک پر ایک دو سرے کے کچه حقوق ہو تے ہيںجو نہ تو واپس کئے جا سکتے ہيں اور نہ ہی ان کو چهوڑا جا سکتا ہے ،انسان اپنی ذات کو ہی سب کے سامنے مثالی کردار بنا کر پيش کرتا ہے ،وہ بذات خود دوسروں کا قائم مقام بننا چا ہتا ہے ،وہ دو سروں کا قائم مقام بهی اسی وقت بنتا ہے جب تک دو سرا اس کو صاف طور پر سب کے سامنے اپنا قائم مقام نہ بنا ئے ليکن جب ہم نماز اور دعا کر تے ہيں تو یہ سب باتيں ختم ہو جا تی ہيں ، ہم ميں سے کو ئی بهی اپنے نفس کو دو سروں سے جدا نہيں سمجهتا ،گویا کہ ہم ميں سے ہر ایک سب کا قائم مقام بن جاتا ہے اور یہ تمثيل کاطریقہ سب سے بہترین اور عمدہ طریقہ ہے (یعنی تمام انسانوں کا تمام انسانوں کا قائم مقام بننا اور سب کی نطق ،ندا اور دعا ميں رب العالمين کی بارگاہ ميں سب کی نيابت کرنا )۔

اس سے بهی اچهی وبہتر بات یہ ہے کہ خداوندعالم سب کی طرف سے سب کی اس تمثيل نيابت اور رسالت کو قبول کر تا ہے ،وہ اس کو رد نہيں کرتا اور نہ ہی انکار کر تا ہے ،وہ دعا کر نے والے کو اس حالت ميں سب کا قائم مقام بننے کےلئے قوت عطا کرتا ہے ،جب ہم ميں سے کوئی اپنی نماز ميں( اِهدِْنَاالصِّرَاطَ المُْستَْقِيمَْ ) “ہم کو سيدهے راستہ پر گا مزن رکه”( ۱ ) کہتا ہے توگویا سب نے مل کر سب کےلئے دعا کی اور الله سے ہدایت طلب کی ہے ۔

اور اس حالت ميں دعا کی قدرو قيمت معلوم ہو جا تی ہے ۔

بيشک ہم ميں سے ہر نماز ميں ہرایک کی دعا سب کےلئے سب کی دعا کی طاقت رکهتی ہے۔ ایسی حالت ميں دعا کرنا خداوندعالم کی بارگاہ ميں رحم کی درخواست کرنا بہت بلند طاقت کاحامل ہے۔

____________________

١) سورئہ حمد آیت ۶۔ )

۲۳

اس سے بهی اہم اوردلچسپ بات یہ ہے کہ ان دعاؤں ميں مسلمان ہر دن الله سے متعدد مرتبہ یہ درخواست کر تا ہے :

( اِهدِْنَاالصِّرَاطَ المُْستَْقِيمَْ ) ( ١)

“ہم کو سيدهے راستہ پر گا مزن رکه” بيشک تمام افراد مل کر تمام انسانو ں کے قائم مقام بنتے ہيں ، ریا ضی کے حساب سے یہ دعا کے عجائب وغرائب ميں شمار ہو تا ہے ، دعا ميں سب ،سب کےلئے مجسم شکل ميں بن کر سب کے قائم مقام ہو جا تے ہيں ،ہم دو بارہ پھر دعا کی قدر وقيمت کے سلسلہ ميں غور وفکر کر تے ہيں ۔ اس اعتبار سے کہ تمام مو منين کيلئے دعا کی جارہی ہے لہٰذا دعا کی بڑی اہميت ہے یہ عام مومنين کيلئے دعا کرنا خداوند عالم کے نزدیک بڑی اہميت بڑها دیتا ہے ۔

دعا کر نے والا شخص (ذاتی )طور پر پروردگار عالم سے دعانہيں کر تا بلکہ وہ تو تمام لو گوںکی دعاؤں کو خدا کی بارگاہ ميں پيش کرتا ہے وہ سب کا قائم مقام بنتاہے اورخداوندعالم اس بندے سے اس کے سب کا قائم مقام ہو نے کی نيابت قبول کرتا ہے ،وہ ان کو الله کی بارگاہ ميں مجسم بنا کر پيش کرتا ہے اور خداوند عالم اس بندہ سے اِس تمثيل اور دو سروں کی نيابت کو قبول کرتا ہے ۔

مومنين بعض افراد کے دو سرے بعض افراد سے تمثيل و تشبيہ دینے کو قبول کرتے ہيں اور یہاں پر تمثيل و تشبيہ سے مراد فرد کا الله کی بارگاہ ميں دعویٰ پيش کرنا نہيں ہے بلکہ یہ حقيقی تشبيہ ہے جس کو پروردگار عالم قبول کرتا ہے اور جو افراد الله کی بارگاہ ميںکسی دو سرے فر د کی نيابت کرتے ہيں یہ تمثيل و تشبيہ شرعی ہے اور خدا وند عالم کی بارگاہ ميں مقبول ہے ۔

اس صورت ميں دعا سب کی دعاؤں کی طاقت رکهتی ہے جب ہم ميں سے کو ئی شخص الله کی

____________________

١)سورئہ حمد آیت/ ۶۔ )

۲۴

بارگاہ ميں دعا کر تے ہوئے کہتا ہے :( اِهدِْنَاالصِّرَاطَ المُْستَْقِيمَْ ) (١ ) “ہم کو سيدهے راستہ پر گا مزن رکه”

گو یا سب نے مل کر خدا سے دعا کی ،اس درجہ اور طاقت وقوت کی حامل دعا کو ہر مسلمان ہر روز نماز ميں خداوندعالم سے کرتاہے اور سب کا قائم مقام بن کر سب کيلئے دعا کرتا ہے ۔

ہر دن لوگ الله کی بارگاہ ميں ہميشہ اسی طرح گڑگڑا تے ہيں اور دسيوں مرتبہ اس سے رحم وعطو فت کی درخواست کيا کرتے ہيں۔

سب سے زیادہ تعجب خيز بات یہ ہے کہ جس پر وردگار کو ہم روزانہ دسيوں مرتبہ پکار تے ہيں اسی نے ہم کو ہدایت کی تعليم دی ہے اور یہ بهی سکهایا ہے کہ ہم اس سے تمام لوگوں کی ہدایت طلب کریں اسی نے ہم کو یہ تعليم دی ہے کہ اس دعا ميں سب کی نيابت کریں اور وہ ہماری نيابت کو قبول کرتا ہے ۔

کيا ان تمام باتوں کے باوجود بهی خداوندعالم کا ہماری دعا کے قبول نہ کر نے کا امکان ہے؟ ہر گز نہيں۔

____________________

١)سورئہ فا تحہ آیت ۶۔ )

۲۵

ب۔صرف مومنين کيلئے دعا

جس طرح اسلامی روایات ميں عام مومنين کيلئے دعا کرنا وارد ہوا ہے اسی طرح مخصوص مومنين کا نام ليکران کيلئے دعا کرنا وارد ہوا ہے ۔

دعاکے اس رنگ ميں الگ ہی نکهار ہے اوردعا کرنے والے کے نفس ميں اس نکہت اور اثر کے علاوہ بهی ایک اثرہے جو عموميت کےلئے تھا کيونکہ دعا کا یہ رنگ ان منفی اثرات کو ختم کر دیتا ہے جو کبهی دو طرفہ اور افراد کے اجتماعی تعلّقات پر سایہ فگن ہو جاتے ہيں اور کبهی مو منين کی جماعتوں پر اثرانداز ہو جاتے ہيں کيونکہ جب مو من خداوند عالم سے اپنے مو من بهائيوں کا نام ليکر رحمت ومغفر ت کی

دعا کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو دوست رکهتا ہے اور اس کے ذریعہ وہ حسد اور نفرت وغيرہ دور ہوجاتے ہيں جن کو وہ ان کی طرف سے کبهی اپنے اندر محسوس کرتا ہے ۔

اس وقت دعا کی تين حالتيں ہوتی ہيں ؟

١۔دعا کرنے والا الله سے لو لگا تا ہے ۔

٢۔ دعا کرنے والا روئے زمين پر بسنے والی امت مسلمہ اور طول تاریخ کا جائزہ ليتے ہو ئے دونوں سے رابطہ رکهتا ہے ۔

٣۔وہ اپنے برادران اوررشتہ داروں سے رابطہ پيدا کرتا ہے اور یہ اس کی زندگی کابہت ہی وسيع ميدان ہے ۔

۲۶

سلامی روایات ميں نام ليکر دعا کر نے کو بڑی ا ہميت دی گئی ہے ۔ ہم ذیل ميں ان عناوین کے متعلق واردہونے والی روایات کے نمونے بيان کر رہے ہيں :

ا۔غائب مومنين کيلئے دعا

حضرت امام محمدباقر عليہ السلام سے مروی ہے :( دعاء المرء لاخيه بظهرالغيب یدرالرزق،و یدفع المکروه ) ( ١)

“انسان کے غائب مومنين کيلئے دعا کرنے سے رزق ميں کشاد گی ہو تی ہے اور بلائيں مشکليں دورہوتی ہيں ”

حضرت امام محمدباقر عليہ السلام سے مروی ہے:( اوشک دعوة واسرع اجابة دعاء المرء لاخيه بظهر الغيب ) (٢)

____________________

۴،حدیث / ٨٨۶٧ ۔ / ١)اصول کا فی / ۴٣۵ ،وسا ئل الشيعہ جلد ١١۴۵ )

٢)اصول کا فی / ۴٣۵ ۔ )

۲۷

“ انسان کی غائب شخص کيلئے کی جانے والی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے ”

ابو خالد قما ط سے مروی ہے کہ امام محمد باقرعليہ السلام نے فرما یاہے :اسرع الدعاء نجحاللاجابة دعاء الاخ لاخيه بظهرالغيب یبدا بالدعاء لاخيه فيقول له ملک موکّل به:آمين ولک مثلاه ( ١)

“غائب شخص کيلئے کی جانے والی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے جب انسان اپنے غائب بهائی کيلئے دعا کرنا شروع کرتاہے تو دعا کر نے والے کا موکل فرشتہ اس کی دعا کے بعد آمين کہتا ہے اور کہتا ہے تمہارے لئے بهی ایسا ہی ہوگا” سکونی نے حضرت امام جعفر صادق سے اور آپ نے حضرت رسول خدا (ص)سے نقل کيا ہے:

ليس شی ء اسرع اجابة من دعوة غائب لغائب ( ٢)

“غائب شخص کی غائب شخص کيلئے دعا جتنی جلدی قبول ہوتی ہے کو ئی چيز اُتنی جلدی قبول نہيں ہوتی ہے ”

جعفر بن محمد الصادق عليہ السلام نے اپنے آباؤاجداد سے اور انهوں نے نبی صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے نقل کيا ہے :

یاعلی اربعة لاتردلهم دعوة :امام عادل،والوالد لولده ،والرجل یدعو لاخيه بظهرالغيب،والمظلوم یقول اللّٰه عزّوجلّ:وعزّتی وجلالی لانتصرنّ لک ولو بعد حين ( ٣)

“اے علی ،چار آدميوں کی دعا کبهی ردنہيں ہوتی ہے :امام عادل ،باپ کا اپنے بيڻے کيلئے دعا

____________________

١)اصول کا فی / ۴٣۵ ۔ )

۴،حدیث / ٨٨٧ ۔ / ٢)وسا ئل الشيعہ جلد ١١۴۶ )

٣)خصال صدوق جلد ١صفحہ/ ٩٢ اور فقيہ جلد ۵ صفحہ/ ۵٢ ۔ )

۲۸

کرنا ،انسان کا اپنے غائب بهائی ،اور مظلوم کيلئے دعاکرنا ،الله عزوجل فرماتا ہے ميری عزت وجلال کی قسم ميں تمہاری مدد ضرور کرو نگا اگرچہ کچه مدت کے بعد ہی کيوں نہ کروں ”

رسول خدا (ص)سے مروی ہے:

مَنْ دعا لمومن بظهرالغيب قال الملک :فلک بمثل ذلک ( ١)

“جو انسان کسی غائب مومن شخص کيلئے دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے تمہارے لئے بهی ایسا ہی ہوگا ”

حمران بن اعين سے مروی ہے :

ميں نے حضرت امام محمد باقر عليہ السلام کی خدمت بابرکت ميں عرض کيا :مجھے کچه نصيحت فرمایئے تو آپ نے فرمایا :

اوصيک بتقوی اللّٰه وایاک والمزاح فانه یذهب بهيبة الرجل وماء وجهه،وعليک بالدعا لاخوانک بظهر الغيب؛فانّه یهيل الرزق یقولهاثلاثاً ( ٢)

“الله کا تقویٰ اختيار کرو ،مذاق کر نے سے پر ہيزکرو اس لئے کہ اس سے انسان کی ہيبت اور اس کے چہر ے کی رونق ختم ہوجاتی ہے اور تم اپنے غائب بهائی کيلئے دعا کرو چو نکہ اس طرح رزق ميں وسعت ہوتی ہے ”آپ نے ان جملوں کوتين مرتبہ دُہرایا ”

معاو یہ بن عمار نے امام جعفرصادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے:الدعاء لاخيه بظهرالغيب یسوق الیٰ الداعي الرزق،ویصرف عنه البلاء،ویقول الملک:ولک مثل ذلک (٣)

____________________

۔ ١)امالی طوسی جلد ٢ صفحہ / ٩۵ ۔بحار الانوار جلد ٩٣ ۔صفحہ/ ٣٨۴ ۔ )

٢)السر ائر صفحہ/ ۴٨۴ ۔بحار الانوار جلد ٩٣ صفحہ / ٣٨٧ ۔ )

٣)امالی طوسی ج ٢ص ٢٩٠ ،بحار الانوار ج ٩٣ ص ٣٢٧ )

۲۹

“اپنے کسی غير حاضر بهائی کيلئے دعا کرنا رزق کی طرف دعوت دیناہے ،اس سے بلائيں دور ہوتی ہيں اور فرشتہ کہتا ہے :تمہار ے لئے بهی ایسا ہی ہے ”

ب:چاليس مومنوں کيلئے دعا

اسلامی روایات ميں نام بنام چاليس مومنوں کيلئے اورانهيں اپنے نفس پر مقدم کر کے دعا کر نے پر بہت زیادہ زور دیاگيا ہے ۔

علی بن ابراہيم نے اپنے پدر بزگوار سے اور انهوں نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے:مَنْ قدّم في دعائه اربعين من المومنين،ثم دعا لنفسه استجيب له ( ١)

“جو انسان اپنے لئے دعا کرنے سے پہلے چاليس مومنوں کےلئے دعا کرتا ہے اسکی دعا مستجاب ہوتی ہے”

عمر بن یزید سے مروی ہے کہ ميں نے امام جعفرصادق عليہ السلام کو یہ فرماتے سنا ہے:

مَنْ قدّم اربعين رجلا من إخوانه قبل انْ یدعولنفسه استجيب له فيهم و فی نفسه ( ٢)

“جس نے اپنے لئے دعا کرنے سے پہلے اپنے چاليس بهائيوں کےلئے دعا کی تو پروردگار عالم اس کی دعا ان کے اور خود اس کے حق ميں قبول کرتا ہے”

ج:دعاميں دوسروں کوترجيح دینا

ابو عبيدہ نے ثویر سے نقل کيا ہے کہ ميں نے علی بن الحسين عليہ السلام کو یہ فرماتے سنا ہے: انّ الملائکة اذاسمعواالمومن یدعولاخيہ المومن بظہرالغيب،او

____________________

۴،حدیث / ٨٨٩٨ ۔ / ٩٣ ؛وسا ئل الشيعہ جلد ١١۵۴ / ١)المجالس صفحہ ٢٧٣ ؛بحا رالانوار جلد ٣٨۴ )

۴،حدیث / ٨٨٩٨ ۔ / ٢)المجالس صفحہ ٢٧٣ ؛الامالی صفحہ ٢٧٣ ؛وسا ئل الشيعہ جلد ١١۵۴ )

۳۰

یذکره بخير،قالوا:نعم الاخ انت لاخيک،تدعوله بالخير،وهوغائب عنک وتذکره بخير،قد اعطاک اللّٰه عزّوجلّ مثلَي ماسالت له،واثنیٰ عليک مثلي ما اثنيت عليه،ولک الفضل عليه ( ١)

“جب فرشتے کسی مومن کواپنے غير حاضر بهائی کےلئے دعا کرتے ہوئے یا اسکو اچهائی سے یاد کرتے ہوئے دیکهتے ہيں تو وہ کہتے ہيں:ہاں وہ تمہارا بهائی ہے تم اس کيلئے خير کی دعا کرو ،وہ تمہارے پاس نہيں ہے تم اسکو خير کے ساته یاد کرو خداوند عالم تم کو اسی کے مثل عطا کرے گا جو تم نے اس کيلئے خدا سے مانگا ہے ویسی ہی تعریف تمہاری ہے جو تعریف تم نے اس کےلئے کی ہے اور تمہارے لئے فضل ہے۔

یونس بن عبدالرحمن نے عبدالله بن جندب سے نقل کيا ہے:الداعی لاخيه المومن بظهرالغيب ینادیٰ من عنان السماء:لک بکل واحدة مائةالف ( ٢)

“ ميں نے ابو الحسن موسی عليہ السلام کو یہ فرماتے سناہے:غير حاضر مومن کےلئے دعا کرنے والے کو عنانِ سماء سے آوازآتی ہے:تمہارے لئے ایک دعا کے عوض ایک لاکه دعائيں ہيں ”

ابن ابو عميس نے زید نرسی سے نقل کيا ہے: “کنت مع معاویة بن وهب فی الموقف وهویدعو،فتفقدت دعاء ه فما رایته یدعو لنفسه بحرف،ورایته یدعولرجل رجل من الآفاق ویُسمّيهم،ویُسمّي آباء هم حتّی افاض الناس ۔

____________________

۴،حدیث / ١)اصول کا فی / ۵٣۵ ،بحا رالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٣٨٧ ،وسا ئل الشيعہ جلد ١١۴٩ ) ٨٨٨٢ ۔ /

٢)رجال کشی صفحہ ٣۶١ ۔ )

۳۱

فقلت له :یاعمّ لقدرایت عجباً ! قال:وماالذي اعجبک ممارایت؟

قلت:ایثارک اخوانک علی نفسک فی مثل هذاالموضع،وتفقدک رجلاّرجلاً

فقال لي:لاتعجب من هٰذایابن اخي،فاني سمعت مولي وهویقول من دعالاخيه بظهرالغيب ناداه ملک من السماء الدنيا:یاعبد اللّٰه ،لک مائة الف وضعف ممّادعوت ”الخ ( ١)

“ميں موقف(حج)ميں معاویہ بن وہب کے ساته تھا وہ اپنے علاوہ سب کےلئے دعا کر رہے تھے اپنے لئے دعاکاایک بهی فقرہ نہيں کہہ رہے تھے اورآفاق ميں سے ایک ایک شخص اور ان کے آباؤ اجداد کا نام لے لے کر ان کےلئے دعا کر رہے تھے یہاں تک کہ سب کوچ کر گئے ۔

ميں نے ان کی خدمت عرض کيا:اے چچا ميں نے بڑی عجيب چيز دیکهی انهوں نے کہا: تم نے کيا عجيب چيز دیکهی؟

ميں نے عرض کيا :اس طرح کے مقام پر آپ کا اپنے نفس کو چهوڑکر دوسرے برادران کے لئے دعا کرنا یہاں تک کہ ان ميں سے ایک ایک کرکے سب چلے گئے۔ انهوں نے مجه سے کہا:اے برادرزادہ اس بات سے متعجب نہ ہوميں نے اپنے مولاکو یہ فرماتے سنا ہے:۔۔۔جس نے اپنے غير حاضر بهائی کيلئے دعا کی تو آسمان کے فرشتے اس کو آواز دیتے ہيں جو کچه تم نے اس کيلئے دعا کی ہے تمہارے لئے اس کے ایک لاکه برابر ہے ”

حضرت امام حسين بن علی عليہ السلام نے اپنے بهائی حضرت امام حسن سے نقل کيا ہے :

رایت امي فاطمة قامت فی محرابها ليلة جمعتها،فلم تزل راکعة،ساجدة

____________________

١)عدة الداعی صفحہ / ١٢٩ ،بحا رالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٣٨٧ ،وسا ئل الشيعہ جلد ) ۴،حدیث / ٨٨٨۵ ۔ /١١۴٩

۳۲

حتیّٰ اتضح عمود الصبح،وسمعتها تدعوللمومنين والمومنات،وتسمّيهم وتُکثرالدعاء لهم ولاتدعولنفسهابشيٴ فقلت لها:یااُماه:لم لاتدعين لنفسک،کما تدعين لغيرک ؟ فقالت:یابُنّي،الجارثم الدار ( ١)

“ميں نے اپنی مادر گرامی کو شب جمعہ ساری رات محراب عبادت ميں رکوع وسجود کرتے دیکها یہاں تک کہ صبح نمودار ہو جا تی تهی اور آپ مومنين اور مو منات کا نام لے ليکر بہت زیادہ دعا ئيں کيا کر تی تهيں اور اپنے لئے کوئی دعا نہيں کر تی تهيں ۔ميں نے آپ کی خد مت مبارک ميں عرض کيا :اے مادر گرامی آپ اپنے لئے ایسی دعا کيوں نہيں کرتيں جيسی دوسروں کيلئے کر تی ہيں ؟

تو آپ نے فرمایا :اے ميرے فرزند ،پہلے ہمسایہ اور پھر گهروالے ہيں’ ’ ابو ناتانہ نے حضرت علی عليہ السلام سے اور انهوں نے اپنے پدربزگوار سے نقل کيا ہے:

رایت عبد اللّٰه بن جندب فی الموقف فلم ارموقفاً احسن من موقفه،ما زال مادّاً یدیه الی السماء ودموعه تسيل علی خدیه حتّیٰ تبلغ الارض فلماصدر الناس قلت له:یاابامحمّد،مارایت موقفاً احسن من موقفک !قال:واللّٰه مادعوت الّا لاخواني،وذلک انّ اباالحسن مو سیٰ بن جعفر اخبرنيانّه مَن دعالاخيه بظهرالغيب نُودي من العرش:ولک مائة الف ضعف فکرهت ان ادع مائة الف ضعف مضمونة لواحدة لاادري تستجاب ام لا( ٢)

“ميں نے عبد الله بن حندب کو موقف حج ميں دیکها اور اس سے بہترميں نے کسی کا موقف

____________________

١)علل الشر ائع صفحہ / ٧١ ۔ )

٢)امالی صدوق صفحہ ٢٧٣ ؛بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٨۴ ۔ )

۳۳

نہيں دیکها آپ مسلسل اپنے ہاتهوں کو آسمان کی طرف اڻها ئے ہوئے تھے اور آپ کی آنکهوں سے آنسوں آپ کے رخساوں سے بہہ کر زمين پر ڻپک رہے تھے ،جب سب ہٹ گئے تو ميںنے ان سے عرض کيا: اے ابو محمد ،ميں نے آپ کے موقف سے بہتر کوئی موقف نہيں دیکها!انهوں نے کہا :ميں صرف اپنے بهائيوں کےلئے دعا کر رہا تھا اسی وقت ابوالحسن مو سیٰ بن جعفر نے مجهکو خبردی ہے کہ جو اپنے غير حاضر بهائی کيلئے دعا کرتا ہے تو اس کوعرش سے ندادی جاتی ہے: تمہارے لئے اس کے ایک لا که برابر ہے :لہٰذا مجه کو یہ نا گوار گذرا کہ اس ایک نيکی کی خاطر ایک لاکه ضما نت شدہ نيکيو ں کو ترک کردوں جس کے بارے ميں مجھے نہيں معلوم کہ وہ قبول بهی ہو گی یا نہيں ”

عبد الله بن سنان سے مروی ہے :ميں عبد الله بن جندب کے پاس سے گزرا تو ميں نے آپ کو صفا (پہاڑی کے نام )پر کهڑے دیکها اور دوسرے ایک سن رسيدہ آدمی کو دعا ميں یہ کہتے سنا: کہ خداےافلاںفلاں کوبخش دے جن کی تعداد کو ميں شمار نہ کر سکا ۔

جب وہ نماز کا سلام تمام کرچکے تو ميں نے ان سے عرض کيا :ميں نے آپ سے بہتر کسی کا موقف نہيں دیکها ليکن ميں نے آپ ميں ایک قابل اعتراض بات دیکهی ہے۔انهوں نے کہا کيا دیکها ؟ميں نے ان سے کہا :آپ اپنے بہت سے برادران کےلئے دعا کرتے ہيں ليکن ميں نے آپ کواپنے لئے دعا کرتے نہيں دیکها تو عبد الله بن جندب نے کہا :اے عبدالله ميں نے امام جعفر صادق کو یہ فرماتے سنا ہے:مَن دعالاخيه المومن بظهرالغيب نودي من عنان السماء:لک یاهذا مثل ماسالت في اخيک مائة الف ضعف فلم احبّ ان اترُک مائه الف ضفع مضمونة بواحدة لاادری اتستجاب ام لا (١)

____________________

١)فلاح السائل صفحہ/ ۴٣ ،بحا رالانوار جلد ٩٣ صفحہ/ ٣٩٠ ۔ ٣٩١ ۔ )

۳۴

“جس نے اپنے غير حاضر مو من بهائی کےلئے دعاکی تو اس کو آسمان سے ندا دی جاتی ہے ، جو کچه تم نے اپنے مومن بهائی کےلئے سوال کيا ہے تمہارے لئے اس کے ایک لاکه برابر ہے لہٰذا مجه کو یہ نا گوار گذرا کہ اس ایک نيکی کی خاطر ایک لاکه ضما نت شدہ نيکيو ں کو ترک کردوں جس کے بارے ميں مجھے نہيں معلوم کہ وہ قبول بهی ہو گی یا نہيں ”

ابن عمير نے اپنے بعض اصحاب سے نقل کيا ہے کہ :“کان عيسیٰ بن اعين اذاحجّ فصارالی الموقف اقبل علیٰ الدعاء لاخوانه حتّیٰ یفيض الناس،فقيل له:تنفق مالک،وتتعب بدنک،حتّیٰ اذاصرت الی الموضع الذي تبث فيه الحوائج الی الله اقبلت علی الدعاء لاخوانک،وتترک نفسک فقال:انني علیٰ یقين من دعاء الملک لي وشک من ا لدعاء لنفسي( ١)

“ جب عيسیٰ بن اعين حج کرتے وقت موقف پر پہنچے تو انهوں نے اپنے برادران کےلئے دعا کرنا شروع کيا یہاں تک کہ سب لو گ چلے گئے۔ ان سے سوال کيا گيا :آپ نے مال خرچ کيا ، مشقتيں برداشت کيں اور آپ نے دوسرے برادران کےلئے دعا ئيںکيں اور اپنے لئے کو ئی دعا نہيں کی تو انهوں نے کہا :مجه کو یقين ہے کہ فرشتہ ميرے لئے دعا کرتا ہے اور مجھے خود اپنے نفس کےلئے دعا کرنے ميں شک ہے ”

ابراہيم بن ابی البلاد (یا عبدالله بن جندب )سے مروی ہے : “قال کنت في الموقف فلماافضت لقيت ابراهيم بن شعيب،فسلّمت

____________________

١)الاختصاص صفحہ ۶٨ ، بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٩٢ ۔ )

۳۵

عليه،وکان مصاباً باحدیٰ عينيه واذاعينه الصحيحة حمراء کانّهاعلقة دم ،فقلتله:قد اصيت باحدیٰ عينيک ،وانامشفق لک علی الاخریٰ فلوقصرت عن البکاء قليلاً قال :لاوالله یاابامحمّد ،مادعوت لنفسي اليوم بدعوة ؟

فقلت :فلمن دعوت ؟

قال:دعوت لاخوانی:سمعت اباعبدالله عليّه السلام یقول:مَن دعا لاخيه بظهرالغيب،وکّل الله به ملکاً یقول:ولک مثلاه فاردت ان اکون انماادعو لاخواني ویکون الملک یدعولي لاني في شک من دعائي لنفسي،ولست في شک من دعاء الملک لي( ١)

“جب ميں موقف ميں تھا تو ميری ابراہيم بن شعيب سے ملاقات ہوئی ميں نے ان کو سلام کيا تو ان کی ایک آنکه پر مصيبت کے آثار نمایاں تھے اور ان کی صحيح آنکه اتنی سرخ تهی گو یا خون کا ڻکڑا ہوتو ميں نے ان سے کہا :تمہاری ایک آنکه خراب ہو گئی ہے لہٰذا ميں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کم گریہ کریں اور دوسری آنکه کی خير منائيں ۔

انهوں نے کہا:اے ابو محمد خدا کی قسم آج ميں نے اپنی ذات کيلئے ایک بهی دعا نہيں کی ہے ميں نے کہا :تو آپ نے کس کيلئے دعا کی ہے ؟

انهوں نے کہا :ميں نے اپنے برادران کيلئے دعا کی ہے :کيونکہ ميں نے امام جعفر صادق کو فرماتے سنا ہے :جس نے اپنے غائب (غير حاضر )مومن بهائی کيلئے دعا کی توخداوند عالم اس پر ایک ایسے فرشتہ کو معين فرما دیتا ہے جو یہ کہتا ہے :تمہار ے لئے بهی ایسا ہی ہے ۔ميں نے اسی مقصد واراد ہ سے اپنے برادران کيلئے دعا کی ہے اور فرشتہ ميرے لئے دعا کرتا ہے مجھے اس سلسلہ ميں کوئی شک ہی نہيں ہے حالانکہ مجهکو اپنی ذات کيلئے دعا کر نے ميں شک ہے ”

____________________

١)الاختصاص صفحہ ٨۴ ، بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٩٢ ۔ )

۳۶

٣۔والدین کےلئے دعا !

والدین کے ساته نيکی کرنا ان کے حق ميں دعاکرنا ہے اور نيز ان کے ساته احسان کرنے کے بہت زیادہ مصادیق ہيں۔

انسان اُن کی طرف سے صدقہ د ے ،ان کی طرف سے حج بجا لائے ،ان کی نماز یں ادا کر ے ،ان کيلئے دعا کرے وغير ہ وغيرہ ۔

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :

مایمنع الرجل منکم ان یبرّ والدیه حيين اوميتين یصلي عنهما،و یتصدق عنهما،ویصوم عنهما ،فيکون الذي صنع لهما،وله مثل ذالک،فيزیده اللّٰه عزَّوجلَّ ببرِّه (وصلته )خيراً کثيراً

“تم ميں سے ہر انسان کو اپنے والدین کے ساته نيکی کرنا چاہئے چا ہے وہ زندہ ہوں یا مردہ ان کی نماز یں اداکر ے ،ان کی طرف سے صدقہ دے، حج بجالائے اور ان کے روز ے رکهے پس جو کچه وہ ان کيلئے کرے گا ویسا ہی اس کيلئے ہو گا الله عزوجل اس کی نيکيوں اور صلہ ميں بہت زیادہ اضافہ کرے گا ”

۳۷

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے ہی مروی ہے :

کان ابی یقول:خمس دعوات لایحجبن عن الرّب تبارک وتعالیٰ : ١ دعوة الامام المقسط

٢۔و دعوة المظلوم،یقول اللّٰه عزّوجلّ :لانتقمن لک ولوبعد حين ۴ ودعوة الوالد الصالح لولده

( ۵ ۔ودعوة المومن لاخيه بظهرالغيب،فيقول:ولک مثلاه ۔(١) “ميرے والد بزرگوار کا فرمان ہے :پانچ دعائيں ایسی ہيں جن کے مابين الله سے کوئی حجاب نہيں :

١۔عادل امام کی دعا ۔

٢۔مظلوم کی دعا ،الله عزوجل کہتا ہے :ميں تيرا انتقام ضرور لوں گا اگر چہ کچه مدت کے بعد ہی کيوں نہ لوں۔

٣۔نيک اولاد کی اپنے والدین کيلئے دعا ۔

۴ نيک باپ کا اپنے فرزند کيلئے دعا کرنا ۔

۵ ۔مومن کا اپنے غائب (غير حاضر )بهائی کيلئے دعا کرنا ،اس سے کہا جاتا ہے :تمہارے لئے بهی اس کے مثل ہے” والدین کےلئے دعا کر نے کے سلسلہ ميں صحيفہ سجادیہ ميں دعا وارد ہوئی ہے :

اللهم صَلِّ عل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَذُرِّیَّتِهِ وَاخصُْص اَبَوَيَّ بِاَفضَْلِ مَاخَصَصتَْ بِهِ آبَاءَ عِبَادِکَ المُْومِْنِينَْ وَاُمَّهَاتِهِم یَااَرحَْمَ الرَّاحِمِينَْ اللهم لَاتُنسِْنِي ذِکرَْهُمَافِي اَدبَْارِصَلَوَاتِي کلّ آن وَفِي اِناًمِن آنَاءِ لَيلِْي وَفِي کُلِّ سَاعَةٍ مِن سَاعَاتِ نَهَارِي اللهم صَلِّ عل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَاغفِْر لِي بِدُعَائِي لَهُمَاواَغفِْرلَْهُمَابِبِرِّهِمَا بِي مَغفِْرَةً حتماً وَارضَْ عَنهُْمَابِشَفَاعَتِي لَهُمَارِضیً عَزمْاًوَبَلِّغهُْمَابِالکَْرَامَةِ مَوَاطِنَ السَّلَامَةِ اللهم وَاِن سَبَقَت مَغفِْرَتِکَ لَهُمَافَشَفِّعهُْمَافِيَّ وَاِن سَبَقَت مَغفِْرَتَکَ لِي فَشَفِّعنِْي فِيهِْمَاحَتی نَجتَْمِعَ بِرَا فَتِکَ فِی دَارِ کَرَامَتِکَ وَمَحَلِّ مَغفِْرَتِکَ وَرَحمَْتِکَ

____________________

۴،حدیث / ٨٨٩۵ ۔ / ١)وسا ئل الشيعہ جلد ١١۵٣ )

۳۸

“خدایا محمد وآل محمد پر رحمت نا زل فرما اور ميرے والدین کو وہ بہترین نعمت عطا فرما جو تو نے اپنے بندگان مو منين ميں کسی والدین کو بهی عطا فر ما ئی ہے اے سب سے زیادہ رحم کر نے والے ، خدا یا ! مجھے ان کی یاد سے غافل نہ ہو نے دینا نہ نمازوں کے بعد اورنہ رات کے لمحات ميں اور نہ دن کی ساعات ميں ،خدایا! محمد وآل محمد پر رحمت نا زل فرما اور ميری دعا ئے خير کے سبب انهيں بخش دے اور ميرے ساته ان کی نيکيوں کے بدلہ ان کی حتمی مغفرت فرما اور ميری گذارش کی بنا پر ان سے مکمل طور پر راضی ہو جا اور اپنی کرا مت کی بنا پر انهيں بہترین سلا متی کی منزل تک پہنچا دے ،اور خدایا! اگر تو انهيں پہلے بخش چکا ہے تو اب انهيں ميرے حق ميں شفيع بنا دے اور اگر ميری بخشش پہلے ہو جا ئے تو مجھے ان کے حق ميں سفارش کا حق عطا کردینا کہ ہم سب ایک کرامت کی منزل اور مغفرت و رحمت کے محل ميں جمع ہو جا ئيں ”

۴ ۔اپنی ذات کيلئے دعا !

یہ دعا کی منزلوں ميں سے آخری منزل ہے پہلی منزل نہيں ہے ۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ اسلام انسان سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ دنياوی زند گی ميں اپنے معيشتی امو ر ميں نيز دو سروں کے ساته معا ملہ کرنے کے سلسلہ ميں ناچيز سمجھے اور دو سروں کو خود پر ترجيح دے جس طرح اسلام انسان سے یہی مطالبہ دعا کے سلسلہ ميں بهی کرتا ہے ۔

ليکن انسان کو خداوندعالم کی بارگاہ ميں دعا کرتے وقت اپنے نفس کو فراموش نہيں کرنا چاہئے۔ ہم کو اپنی ذات کيلئے الله سے کيا سوال کرنا چاہئے ؟ اور ہميں کيسے دعا کر نا چا ہئے ؟

ہم اس سلسلہ ميں انشا ء الله عنقریب بحث کریں گے ۔

۳۹

١لف۔ ہر لازم چيز کےلئے دعا !

ہم کو خدا وند عالم سے اپنی ضروریات کی وہ تمام چيزیں طلب کرنی چا ہئيںجو ہماری دنيا و آخرت کےلئے اہم ہيں۔ ہم کو اس سے ہر برائی اور شر سے اپنی دنيا و آخرت ميں دور رہنے کا سوال کرنا چا ہئے بيشک خير کی تمام کنجياں اور اس کے اسباب خدا وند عالم کے پاس ہيں کو ئی چيز اس کے ارادے کے متحقق ہو نے ميں ما نع نہيں ہو سکتی ہے ،نہ ہی کو ئی چيز اس کو عا جز کر سکتی ہے اور نہ ہی وہ اپنے بندوں پر خير اور رحمت کرنے ميں بخل کر تا ہے ۔

جب خدا وند عالم کسی چيز کے عطا کرنے اور دعا مستجاب کرنے ميں کو ئی بخل نہيں کرتا ہے تو یہ کتنی بری بات ہے کہ انسان الله سے سوال اور دعا کرنے ميں بخل سے کام لے ۔

حدیث قدسی ميں آیا ہے :

لوانّ اوّلکم وآخرکم وحيّکم وميّتکم اجتمعوا فتمنّیٰ کلّ واحد ما بلغت امنيّته فاعطيته،لم ینقص ذلک من ملکي ( ١)

“اگر تمہارے پہلے اور آخری ،مردہ اور زندہ جمع ہو کر مجه سے اپنی اپنی آرزو بيان کریں تو ميں ہر ایک کی آرزو پوری کرونگا اور ميری ملکيت ميں کو ئی کمی نہيں آئيگی ”

رسول خدا (ص) سے مروی ہے کہ حدیث قدسی ميں آیا ہے :

لوانّ اهل سبع سماوات وارضين سالوني جميعاً،واعطيت کلّ واحد منهم مسالته مانقص ذلک من ملک وکيف ینقص ملک انا قيّمه ( ٢)

“اگر سا توں زمين اور آسمان والے مل کر مجه سے سوال کریں تو ميں ہر ایک کو اس کے سوال کے مطابق عطا کرونگا اور ميری ملکيت ميں کو ئی کمی نہيں آ ئيگی اور کمی آئے بهی کيسے جب ميں نے ہی خود اس کو خلق کيا ہے ”

____________________

١)بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٢٩٣ ۔ )

٢)بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٠٣ ۔ )

۴۰