امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے

امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے0%

امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 29

امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے

مؤلف: محققین کی ایک جماعت
زمرہ جات:

صفحے: 29
مشاہدے: 57451
ڈاؤنلوڈ: 4375

تبصرے:

امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57451 / ڈاؤنلوڈ: 4375
سائز سائز سائز
امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے

امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

امام زمانہ عج اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں چند مقالے

مختلف مصنفین

۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

از: حب علی مہرانی

علامہ شیخ عباس قمی علیہ الرحمہ نے دور غیبت امام علیہ السلام میں آٹھ طرح کے فرائض کا تذکرہ کیا ہے جو احساس غیبت امام علیہ السلام اور انتظار امام علیہ السلام کی حقیقت کے واضح کرنے کے بہترین وسائل ہیں اور جن کے بغیر نہ ایمان بالغیب مکمل ہو سکتا ہے اور نہ انسان کو منتظرین امام زمانہ علیہ السلام میں شمار کیا جا سکتا ہے ان آٹھ فرائض کی مختصر تفصیل یہ ہے۔

محزون و رنجیدہ رہنما:

حقیقت امر یہ ہے کہ انسان کو غیبت امام علیہ السلام کی حقیقت اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کا اندازہ ہو جائے تو اس کی زندگی سے مسرت وابنماج ناپید ہو جائے زمانے کے بد ترین حالات اہل زمانہ کے بے پناہ ظلم و ستم، نظام اسلامی کے بربادی، تعلیمات الہیہة کا استمزاءاور اس طرح کے بے شمار معاملات ہیں جن سے غیب امام زمانہ علیہ السلام کے نقصانات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور ان کا احساس ہی انسان کے آنسو بہانے کے کافی ہے پھر اگر یہ بات صحیح ہے کہ امام علیہ السلام انسان کی زندگی کی محبوب ترین شخصیت کا نام ہے تو کسے ممکن ہے کہ محبوب نگاہوں سے اوجھل رہے اورعاشق کے دل میں اضطراب اور بے قراری نہ ہو اور وہ اپنے محبوب کی طرف سے اس طرح غافل ہو جائے کہ مخصوص تاریخوں اور مواقع کے علاوہ اس کے وجود اور اس کی غیبت کا احساس بھی نہ پیدا کرے۔

زمانے ندبہ میں انہیں تمام حالات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے اور اسی لیے اس دعا کو دعائے ندبہ کہا جاتا ہے کہ انسان اس کے مضامین کی طرف متوجہ ہو جائے اور غیبت امام علیہ السلام کی مصیبت کا صحیح اندازہ کرے تو گریہ اور ندبہ کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے اور شاید اسی لیے اس دعا کی تاکید ایام عید میں کی گئی ہے یعنی بروز عید قربان، روز عید غدیر اورروز جمعہ جسے بعض اسلامی احکام کے اعتبار سے عید تعبیر کیا گیا ہے کہ عید کا دن انسان کے لیے انتہائی مسرت کا دن ہوتا ہے اور اس دن ایک محب اور عاشق کا فرض ہے کہ اپنے محبوب حقیقی کے فراق کا احساس پیدا کرے اور اس کی فرقت پر آنسو بہائے تا کہ اسے فراق کی صحیح کیفیت کا اندازہ ہو سکے جیسا کہ حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب کوئی عید کا دن آٹا ہے تو ہم آل محمد کا غم تازہ ہو جاتا ہے کہ ہم اپنا حق اغیار کے ہاتھوں پامال ہوتے دیکھتے ہیں اور مصلحت الہیة کی بنیاد پر کوئی آواز بھی بلند نہیں کر سکتے آئمہ معصومین علیہ السلام میں مولائے کائنات کے دور سے امام عسکریعلیہ السلام تک ہر امام علیہ السلام نے غیبت کے نقصانات اور مصائب کا تذکرہ کر کے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کائنات میں خیر صرف اس وقت نمایاں ہو گا جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور اس سے پہلے اس دنیا سے کسی واقعی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی ہے تا کہ انسان مومن بد ترین حالات سے بھی مایوس نہ ہو جائے اور پھر انہیں حالات سے راضی اور مطمئن بھی نہ ہو جائے کہ یہ اس کے نقص ایمان کا سبب سے بڑا ذریعہ ہو گا۔

اس مقام پر سدیر کی اس روایت کا نقل کرنا نا مناسب نہ ہو گا کہ میں (سدیر) اور مفض بن عمر اور ابو بصیر اور ابان بن تکلب امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ خاک پر بیٹھے ہوئے بے تہاشہ گریہ فرما رہے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں کہ میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبت کو عظیم کر دیا ہے میری نیند کو ختم کر دیا ہے اور میری آنکھوں سے سیلاب اشک جاری کر دیا ہے میں نے حیرت زدہ ہو کر عرض کی کہ فرزند رسول! خدا آپ کو ہر بلا سے محفوظ رکھے یہ گریہ کا کون سا انداز ہے اور خدانخواستہ کون سی تازہ مصیبت آپ پر نازل ہوگئی ہے؟ تو فرمایا کہ میں نے کتاب جعفر کا مطالعہ کیا ہے جس میں قیامت تک کے حالات کا ذکر موجود ہے تو اس میں آخری وارث پیغمبر کی غیبت اور طول غیبت کے ساتھ اس دور میں پیدا ہونے والے بد ترین شکوک و شبہات اور ایمان و عقیدہ کے تزلزل کے حالات اور پھر شیعوں کے مبتلائے شک و ریب ہونے اور تغافل اعمال کا مطالعہ کیا ہے اور اس امر نے مجھے اس طرح بے قرار ہو کر رونے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس غیبت میں صاحبان ایمان کا کیا حشر ہو گا اور ان کا ایمان کس طرح محفوظ رہ سکے گا۔

عزیزان گرامی! اگر ہمارے حالات اور ہماری بد اعمالیاں سینکڑوں سال پہلے امام صاد ق علیہ السلام کو بے قرار ہو کر رونے پر مجبور کر سکتی ہیں تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اس دور غیبت میں ان حالات اور آفات کا اندازہ کر کے کم از کم روز جمعہ خلوص دل کے ساتھ دعائے ندبہ کی تلاوت کر کے اپنے حالات پر خود آنسو بہائیں کہ شاید اسی طرح ہمارے دل میں عشق امام زمانہ علیہ السلام کا جذبہ پیدا ہو جائے اور ہم کسی آن ان کی یاد سے غافل نہ ہونے پائیں جس طرح کہ خود انہوں نے اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم کسی وقت بھی اپنے چاہنے والوں کی یاد سے غافل نہیں ہوتے ہیں اور نہ ان کی نگرانی کو نظر انداز کرتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان کا اعتبار ہمارے اوپر رہے اور ان کی حفاظت و رعایت کی ذمہ داسری بھی ہمارے ہی حوالے کی گئی ہے۔

انتظار حکومت و سکون آل محمد:

اس انتظار کو دور غیبت میں افضل اعمال قرار دیا گیا ہے اور اس میں اس امر کو واضح اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایک دن آل محمد کا اقتدار ضرور قائم ہونے والا ہے اور مومنین کرام کی ذمہ داری ہے کہ اس دن کا انتظار کریں اور اس کے لیے زمین ہموار کرنے اور فضا کو سازگار بنانے کی کوشش کرتے رہیں ۔

اب یہ دور کب آئے گا اور اس کا وقت کیا ہے؟

یہ ایک رازالہیٰ ہے جو کو تمام مخلوقات سے مخفی رکھا گیا ہے بلکہ روایات میں یہاں تک وارد ہوا ہے کہ امیر المومنینعلیہ السلام کے زخمی ہونے کے بعد آپ کے صحابی عمرو بن الحمق نے آپ کی عیادت کرتے ہوئے عرض کی کہ مولا! ان مصائب کی انتہا کیا ہے؟

تو فرمایا کہ ۷۰ ہجری تک عرض کی کہ کیا اس کے بعد راحت و آرام ہے؟ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا اورغش کھا گئے۔

اس کے بعد جب غش سے افاقہ ہوا تو دوبارہ سوال کیا فرمایا بے شک ہر بلا کے بعد سہولت اور آسانی ہے لیکن اس کا اختیار پروردگار کے ہاتھ میں ہے اس کے بعد ابوحمزہ شمالی نے امام باقرعلیہ السلام سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا کہ ۰۷ہجری تو گزر چکا ہے لیکن بلاوں کا سلسلہ جاری ہے؟ تو فرمایا کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد جب غضب پروردگار شدید ہوا تو اس نے سہولت و سکون کے دور کو آگے بڑھا دیا پھر اس کے بعد ابو حمزہ نے یہی سوال امام صادق علیہ السلام سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ بے شک غضب الہیٰ نے اس مدت کو دو گنا کر دیا تھا اس کے بعد جب لوگوں نے اس راز کو فاشق کر دیا تو پروردگار نے اس دور کو مطلق راز بنا دیا اور اب کسی کو اس امر کا علم نہیں ہو سکتا ہے کہ اور ہر شخص کا فرض ہے کہ اس دور کا انتظار کرے کہ اور انتظار ظہور کرنے والا مر بھی جائے گا تو وہ قائم آل محمد کے اصحاب میں شمار کیا جائے گا۔

امام علیہ السلام کے وجود مبارک کی حفاظت کے لیے پروردگار احدیت میں دست بدعا رہنا:

ظاہر ہے کہ دعا ہر اس مسئلہ کا علاج ہے جو انسان کے امکان سے باہر ہو اور جب دور غیبت میں امام علیہ السلام کی حفاظت کسی اعتبار سے بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور ہم خود انہیں کے رحم و کرم سے زندہ ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے وجود مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہ احدیت میں مسلسل دعائیں کرتے رہیں اور کسی وقت بھی اس فرض سے غافل نہ ہوں ”اللھم کن لولیک الحجة بن الحسنعلیہ السلام “ جسے عام طور سے اثنائے نماز قنوت یا بعد نماز وظیفہ کے طور پر پڑھا جاتا ہے امام علیہ السلام کے وجود کی حفاظت ان کے ظہور کی سہولت اور ان کی عادلانہ حکومت کے بارے میں جامع ترین دعا ہے جس سے صاحبان ایمان کو کسی وقت غافل نہیں ہونا چاہیے۔

امام علیہ السلام کی سلامتی کے لےے صدقہ دینا:

صدقہ در حقیقت خواہش سلامتی کا اظہار ہے کہ انسان جس کی سلامتی کی واقعاً تمنا رکھتا ہے اس کے حق میں صرف لفظی طور پر دعا نہیں کرتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی دفع بلا کا انتظام کرتا ہے اور یہ انتظام صدقہ سے کوئی بھی بہتر نہیں دعا ان لوگوں کے لیے بہترین شے ہے جو صدقہ دینے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے ہیں لیکن جن کے پاس یہ استطاعت پائی جاتی ہے وہ اگر صرف دعا پر اکتفا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف لفظی کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور امام علیہ السلام کی سلامتی کے لیے چند پیسے بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے ہیں جب کہ جو کچھ مالک کائنات سے لیا ہے وہ سب انہیں کے صدقہ میں لیا ہے اور جو کچھ آئندہ لینا ہے وہ بھی انہیں کے طفیل میں اور انہیں کے وسیلہ سے حاصل کرنا ہے۔

امام عصرعلیہ السلام کی طرف سے حج کرنا یا دوسروں کو حج نیابت کے لیے بھیجنا:

جو دور قدیم سے شیعوں کے درمیان مرسوم ہے کہ لوگ اپنے امام عصرعلیہ السلام ان کے اعمال کی قدردانی بھی فرمایا کرتے تھے جیسا کہ ابو محمد دعلجی کے حالات میں نقل کیا گیا ہے کہ انہیں کسی شخص نے امام عصرعلیہ السلام کی طرف سے نیابتہً حج کے لیے پیسے دیئے تو انہوں نے اپنے فاسق و فاجر اور شرابی فرزند کو حج نیابت امام علیہ السلام کے لےے اپنے ساتھ لے لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میدان عرفات میں ایک انتہائی خوبصورت نوجوان شخص کو دیکھا جو یہ فرما رہے ہیں کہ تمہیں اس بات سے حیا نہیں آتی ہے کہ لوگ تمہیں حج نیابت کے لیے رقم دیتے ہی تو تم فاسق و فاجر افراد کو یہ رقم دے دیتے ہو قریب ہے کہ تمہاری آنکھ ضائع ہو جائے کہ تم نے انتہائی اندھے پن کا ثبوت دیا ہے چنانچہ راوی کہتا ہے کہ حج سے واپسی کے چالیس روز کے بعد ان کی وہ آنکھ ضائع ہو گئی جس کی طرف اس مرد نوجوان نے اشارہ کیا تھا۔

امام عصرعلیہ السلام کا اسم گرامی آنے پر قیام کرنا:

باالخصوص اگر آپ کا ذکر لفظ قائم سے کیا جائے کہ اس میں حضرت کے قیام کا اشارہ پایا جاتا ہے اور آپ کے قیام کے تصور کے ساتھ کھڑا ہو جانا محبت، عقیدت اور غلامی کا بہترین مقتضیٰ ہے جس سے کسی وقت بھی غفلت نہیں کی جا سکتی ہے۔

دور غیبت میں حفاظت دین و ایمان کے لےے دعا کرتے رہنا:

امام صادق علیہ السلام نے زرارہ سے فرمایا تھا کہ ہمارے قائم علیہ السلام کی غیبت میں اس قدر شبہات پیدا کیے جائیں گے کہ اچھے خاصے لوگ مشکوک ہو جائیں گے لہذا اس دور میں ہر شخص کا فرض ہے کہ سلامتی ایمان کی دعا کرتا رہے اور یاد امام علیہ السلام میں مصروف رہے اور عبداللہ بن سنان کی امام صاد ق علیہ السلام سے روایت کی بناءپر کم سے کم ”یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک“ کا ورد کرتا ہے کہ سلامتی دین و ایمان کے لیے یہ بہترین اور مختصر ترین دعا ہے۔

اما زمانہ علیہ السلام سے مصائب و بلیات کے موقع پر استغاثہ کرنا:

کہ یہ بھی اعتقاد کے استحکام اور روابط و تعلقات کے دوام کے لیے بہترین طریقہ ہے اور پروردگار عالم نے آئمہ طاہرینعلیہ السلام کو یہ طاقت اور صلاحیت دی ہے کہ وہ فریاد کرنے والوں کی فریاد رسی کر سکتے ہیں جیسا کہ ابو طاہر بن بلال نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ پروردگار جب اہل زمین تک کوئی برکت نازل کرنا چاہتا ہے تو پیغمبر اکرم سے امام آخرعلیہ السلام تک سب کو وسیلہ قرار دیتا ہے اور ان کی بارگاہوں سے گزرنے کے بعد برکت بندوں تک پہنچتی ہے اور جب کسی عمل کو منزل قبولیت تک پہنچانا چاہتا ہے تو امام زمانہ علیہ السلام سے رسول اکرم تک ہر ایک کے وسیلہ سے گزار کر اپنی بارگاہ جلالت پناہ تک پہنچاتا ہے اور پھر قبولیت کا شرف عنایت کرتا ہے بلکہ خود امام عصرعلیہ السلام نے بھی شیخ مفید کے خط میں تحریر فرمایا تھا کہ تمہارے حالات ہماری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہیں اور ہم تمہارے مصائب کی مکمل اطلاع رکھتے ہیں اور برابر تمہارے حالات کی نگرانی کرتے رہتے ہیں ۔

علامہ مجلسی نے تحفة الزائر میں نقل کیا ہے کہ صاحبان حاجت کو چاہےے کہ اپنی حاکت کو کسی کاغذ پر لکھ کر آئمہ طاہرینعلیہ السلام کی قبور مبارک پر پیش کر دیں یا کسی خاک میں رکھ کر دریایا نہر وغیرہ کے حوالہ کر دیں کہ امام زمانہ علیہ السلام اس حاجت کو پورا فرما دیں گے اس عریضہ کی ترسیل میں آپ کے چاروں نواب خاص میں سے کسی کو بھی مخاطب بنایا جا سکتا ہے انشاءاللہ وہ اسی طرح امام کی بارگاہ میں پیش کریں گے جس طرح اپنی زندگی میں اس فرض کو انجام دیا کرتے تھے اور امام علیہ السلام اسی طرح مقصد کو پورا کریں گے جس طرح اس دور میں کیا کرتے تھے۔ انشاءاللہ

۴

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۲-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

از:علی عباس

ابتداءہے اس رب خدا ذوالجلال کے بابرکت نام سے کہ جس نے اس جہاں کو عدم سے وجود میں لایا اور اس وجود کو بر قرار رکھنے کے لیے کچھ ایسی ہستیاں بھیجی ہیں جو اس کی بقاءکی ضامن ہے اگر وہ ہستیاں نہ ہوتی تو یہ جہاں نہ ہوتا دین کا پتہ نہ ہوتا کعبہ کے طواف نہ ہوتے خدا کا پتہ نہ ہوتا قرآن جیسی مقدس کتاب نہ ہوتی خدا نے ان کو بھیج کر اپنا تعارف کروایا اور اگر آج امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ اس بات کی دلیل ہے کہ خدا ہے اور خدا نے اس عظیم ہستی کے قصیدے خود قرآن میں بیان کیے کبھی فرمایا کہ اگر حجت خدا نہ ہوتی تو یہ ارض ٹکڑے ٹکڑے ہوئی ہوتی اور پھر اپنے جلال میں آ کر والعصر ان الانسان یعنی خسر کے مصداق انسان کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ جس نے زمانہ وقت کے امام علیہ السلام کی معرفت حاصل نہ کیں گو یہا وہ جہات کی موت مرا اور یہ تمام کائنات خداونودی اس عظیم مصلح کی خاطر رواں دواں ہے یہ چاند کا چمکنا سورج کا گردش کرنا اور دیگر تمام اشیاءزہرا کے بعد لال کی خاطر چل رہی لیکن وہ حسین علیہ السلام کا لخت جگر فقط ہماری خاطر دعائیں مانگتے ہیں خدایا میرے دادا اور دادی کے شیعوں کو معاف فرما کاش ہم اپنی ذمہ داریاں نبھاتے تو امام علیہ السلام نہ روتے اور امام فرماتے ہوں گے کہ ہمارے ماننے والے کم از کم سجدہ ضربت علی علیہ السلام کو یاد کرتے تو آج یہ فتویٰ نہ لگتا کہ شیعہ بے نمازی اور کاش ہمارے ماننے والے کربلا کے سجدے کو یاد کرتے تو نماز جیسے عظیم فرض خداوندی سے غافل نہ ہوتے آج ہمار ی ذمہ داری ہے کہ ہم لوگوں کو دین کی طرف مائل کر کے لوگوں کو صبری زینبی علیہا السلام و سجادی سکھاتیں لوگوں کو سجدہ شبیری سکھاتیں لوگوں کو عشق آل محمد سکھاتیں آج علماءکی ذمہ داری ہے کہ وہ بکھری ہوئی قوم کو اکٹھا کریں آج امام علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں بہت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ظہور امام علیہ السلام کے لیے راہ ہموار کریں اگر اس طرح ہے تو گویا ہم نے کیا کام کیا کہ شہید دیگر ہم سے خوش ہوں گے امام علیہ السلام ہم سے راضی ہے گو یا کہ امام سے دعاکریں مولا یہ شبیہہ راہ حق چاہے کوئٹہ کی مسجدوں میں شہید ہو یا امام بارگاہوں میں مولا یہ جانیں لاکھ قربان تیرے مشن کے لےے ہم کام کریں لوگوں کو سجدہ شبیر اور اسیر امام موسیٰ کاظمعلیہ السلام بتائیں گے یقینا امام کا وہ فرمان کہ جو بغداد کے زندان میں فرمایا کہ میں ظالم سندی بن شایک کا زندان تو کاٹ سکتا ہوں لیکن اپنے کافور میں موسیقی کی آواز برداشت نہیں کر سکتا جب ایسا ہے تو آج ہمارے گھروں میں کیبل ہے ہماری ماں، بہنیں دیکھ رہی ہے آج ہمارے گھروں میں وی سی آر، ڈش انٹینا ہے تو گویا ہم امام سے وفاداری نہیں کر اگر وفاداری کرنی ہے تو اپنی ذمہ داریاں نبھائیں فحاشیت کو ختم کرنا ہو گا موسیقی کو ختم کرنا ہو گا اپنا کردار سیرت آل محمد میں ڈھالنا ہو گا تب جا کر تم وفادار غلام ہوں گے کیونکہ تم یہ نہ سمجھ کہ امام علیہ السلام ہم سے بے خبر ہیں بلکہ تمہاری ہر ہفتہ کی رپورٹ امام علیہ السلام کے ہاں پیش ہوتی ہے اور امام علیہ السلام دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے منبروں سے ذاکرین عظام و علماءکرام کیا بیان کر رہے ہیں جب اچھے اور نیک اعمال ہوتے ہیں تو امام زمانہ علیہ السلام خوش ہوتے ہیں لیکن جب برے اعمال ہوتو مولا ناراض ہو کر گریا کرتے ہیں اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم امام زمانہ علیہ السلام کو راضی رکھنے کے لیے کام کریں یا ناراض کرنے کے لیے کام کریں اگر تہیہ خلوص نیت ہے تو ابوذر جیسا کردار اپنے وجود میں ڈھالنا ہو گا آپ کو سلمان محمد کی سیرت اپنانا ہو گی آپ کو میثم تمار جیسا شاکر بنانا پڑے گا مختار ثقفی جیسا کردار اپنانا ہو گا جب ایسا ہے تو تم اپنی ذمہ داری نبھائیں اگر اس طرح نہیں ہے تو آئیں مل کر گریبانوں میں جھانکیں کہ کیا وقت کے امام علیہ السلام سے غداری تو نہیں کر رہے کیا وہ خارجی تو نہیں بن گئے کیونکہ عصر ظہور کا وقت قریب سے قریب تر ہے یہ سوچنے کا وقت اب ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ امام علیہ السلام کا ظہور ہو جائے تو اس وقت بہ ہوشی کی انگلیاں اپنے منہ میں ڈال کر کہے کہ کاش ہم امام علیہ السلام کے ظہور کے لیے کچھ کام کرتے اب سوچیں اور دیکھیں مشاہدہ کریں کہ کیا گھر میں علم عباس کے بجائے گھر میں ڈش انٹینا تو نہیں ، اذان کے بجائے ہمارے کانوں میں موسیقی کی آواز تو نہیں مجلسوں اور عزاداری کی بجائے شراب و سرود کی محفلیں تو نہیں تو سوچیں کہ امام علیہ السلام وقت کو یہ جواب دیں گے آیا جواب دینے کے لیے وہ پاک لسان جو غیبتوں اور کذب و افتراءسے پاک ہو وہ زبان جو ہر دم قرآن و آل محمد کے ذکر سے مزین ہو کیا وہ لب لہجہ وہ گفتار آپ کے وجود میں ہے کیا امام کے نورانی چہرے کو دیکھنے کے لیے وہ نورانی آنکھیں جو نا محرم نے پاک ہو وہ تیار کی کیونکہ تمہارے پاس آل محمد کے غلاموں کی سیرت ہے کہ ابوذر کی اتنی تو فضیلت بڑھ گئی کہ پیغمبر کائنات جس کو فرمانا پڑا کہ زمین و آسمان میں ابوذر جیسا سچا کوئی نہیں کیوں اس نے سیرت آل محمد اپنائی اس کا اتنا عشق آل محمد سے تھا کہ جو ظلم تو برداشت کرتا رہا لیکن آل محمد کا عشق دامن سے نہ چھوڑا اس عظیم ہستی نے ربذہ کی گرم تپش تو برداشت کی لیکن علی علیہ السلام کا عشق نہیں چھوڑا یقینا وہ عظیم ہستی ربذہ کی گرم تپش کو اپنے خشک ہونٹوں سے لگا کر کہا ہو گا کہ عشق علی علیہ السلام اور مودت آل محمد کا مزا تو اب آ رہا ہے واقعا سلام ہو شہنشاہ ربذہ کی عظیم و جواں ارادوں کو جو ظلم و ستم تو برداشت کر سکتا تھا لیکن غلام آل محمد سے جدا نہیں رہ سکتا تھا اس کے علاوہ سوچیں کہ میثم تمار کی سیرت کیا تھیں کہ شام کے بادشاہ نے سولی پر لٹکوایا اور پھر پوچھا کہ علی علیہ السلام علی علیہ السلام کہنا چھوڑ دوں گے تو کیا عظیم جواب دیا کہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتے تو برداشت کر سکتا ہوں لیکن علی علیہ السلام علی علیہ السلام کہنا نہیں چھوڑ سکتا آج وہی شیطانین طاقتیں تمہیں بس عشق آل محمد میں مودت آل عمران میں مار رہی ہے لیکن آو ان عظیم ماوں کو سلام کریں کہ جنہوں نے راہ حق میں اپنے بچے کے گلے کٹوا دیئے ان عظیم بہنوں کو سلام کریں جنہوں نے اپنے کڑیل جوان جیسے ان عظیم بزرگوں کو سلام کریں جنہوں نے صبر زبینی کو اپنایا لیکن پھر بھی امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں وہ ہدیہ پیش کیا کہ وہ وہی وقت تھا کہ مسجد میں اوپر سے موت کی گولیاں برس رہی تھی مومنوں کی زبان پر علی علیہ السلام علی علیہ السلام کا ذکر بلند تھا آئیں امام وقت کے ظہور کے لیے کام کریں سیرت آئمہ اور ان کے نقش قدم پر چلیں بزرگوں کو سیرت حبیب ابن مظاہر کی سیرت دیکھائیں جوانوں کو بتائیں کہ سیرت قاسمعلیہ السلام و علی اکبرعلیہ السلام یہ تھیں تم کن کی سیرت پر چل رہے ہو بہنوں کو ان کی آئیڈیل شخصیت فاطمہ و ثانی فاطمہعلیہ السلام کی سیرت دیکھاتیں اور بچیوں کو جناب سکینہ کی سیرت دیکھاتیں جب یہ تمام چیزیں اپنے وجود میں سمالی تو سمجھو تم نے اپنی ذمہ داری نبھالی امام زمانہ علیہ السلام کی تعجیل ظہور کی دعا رہبر معظم و قائد ملت کی عمر درازی دعا کے ساتھ۔والسلام

۵

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۳-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

از:سید ریاض حسین اختر ولد سید سلیم اختر حسین شاہ

امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے دور میں ہماری ذمہ داریاں، کتاب عصر ظہور کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال اُبھرنا ایک یقینی امر ہے کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں اگرچہ اس سوال کا جواب کتاب مذکوربحثوں میں اجمال طور پر آچکا ہے لیکن اس مسئلہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنا انتہائی مفید تھا، اس حوالہ سے ہم حضرت آیت اللہ حاجی میرزا محمد تقی مولوی اصفہانی کے کتابچہ سے استفادہ کیا ہے اور قارئین کے لیے یہ سہولت فراہم کر دی ہے کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں ہم اس جگہ بحث کو زیادہ تفصیلی بیان نہیں کریں گے بلکہ ذمہ داریاں کی فہرست اور ذمہ داری کے بارے میں ایک آدھ حدیث بیان کریں گے۔

۱۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مظلومیت اور اپنی رعیت سے دور ہونے پر غمگین اور افسردہ خاطر رہنا۔

اکمال الدین و اتمام النعمہ شیخ صدوق ج۲ص۷۷۳ میں حدیث ہے جو شخص ہمارے لیے غمناک ہو اور ہماری مظلومیت پر ٹھنڈے سانس لے افسردہ خاطر ہو اس کے سانس لینے کا ثواب تسبیح کا ثواب رکھتا ہے۔

۲۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور اور آپ کی فرج و فتح کی انتظار کرنا بلکہ یہ افضل اعمال سے ہے امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں ہمارا قائم مہدی علیہ السلام ہے ان کے غائب ہونے کے دوران کا انتظار کرنا واجب ہے اور میری اولاد کے تیرے ہیں بحوالہ محیف القول، صحفہ ۱۵۲ حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں تمام عبادتوں سے افضل انتظار فرج امام مہدی علیہ السلام کی آمد کا منتظر رہنا ہے۔(بحارالانوار ج۲۵ ص۵۲۱)

۳۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے رعیت سے دور رہنے اور آپ کی مظلومیت کو یاد کر کے گریہ کرنا امام جعفر صادق علیہ السلام خد اکی قسم آپ کا امام ایک زمانہ میں آپ سے غائب ہو گا اور آزمائش ہو گی یہاں تک کہ لوگ کہیں گے کہ وہ یا تومر گیا یا پھر وہ کیسی وادی میں چلا گیا ہے تحقیق مومنین کی آنکھیں اس پر گریاں ہوں گی۔(بحوالہ اکمال الدین ج۲ص۱۷۴۳)

۴۔ امام مہدی علیہ السلام کے معاملہ میں تسلیم ہو ان کے بارے میں جلدی نہ کر کے یعنی یہ نہ کہنا ہو کہ ان کا ظہور کیوں نہیں ہو رہا اب تو ظہور ہو جانا چاہےے تھا یہ تو زیادتی ہے ظلم ہے بلکہ خداوندی کی حکمت اور مصلحت کے تحت وہ غائب ہیں اس پر رضائیت اور سر تسلیم خم کرنا چاہےے اعتراض کے طور پر زبان شکوہ نہ کھولی جائے۔ امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں میرے بعد امام میرا بیٹا علی علیہ السلام ہے اس کا حکم میرا حکم ہے اس کی بات میری بات ہے اس کی اطاعت میری اطاعت ہے۔

اس کے بعد امام علیہ السلام اس کا بیٹا حسن ہے اس کا حکم اس کے والد کی اطاعت ہے اس کے بعد آپ خاموش ہو گئے راوی کہتا ہے میں نے کہا یا بن رسول حسنعلیہ السلام کے بعد امام علیہ السلام کون ہے؟ حضرت نے بہت زیادہ گریہ فرمانے کے بعد کہا امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد امام ان کے بیٹے قائم منتظر ہیں راوی نے عرض کیا کہ یابن رسول اللہ ان کو قائم کیوں کہتے ہیں تو آپ نے فرمایا اس لیے ان کو قائم کہتے ہیں کہ جب اس کا ذکر ختم ہو جائے گا آپ کی امامت کے بہت سے قائل اپنے عقیدہ سے پھر جائیں گے تو اس وقت آپ قائم ہوں گے قیام کریں گے۔

دوبارہ آپ کا نام زندہ ہو گا خاموشی کے بعد قیام کی وجہ سے قائم کہا گیا، راوی نے سوال کیا آپ کو منتظر کیوں کہا جاتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا اس کی وجہ ہے کہ آپ نے غائب ہونا ہے آپ کے غائب ہونے کا زمانہ طولانی ہو گا آپ کے جو مخلصین ہوں گے وہ آپ کا انتظار کریں گے شک کرنے والے آپ کا انکار کریں گے وہ جھوٹے ہوں گے اور جو جلدی کریں گے وہ ہلاک ہوں گے جو آپ کے امر و معاملے میں تسلیم ہوں گے وہ نجات پائیں گے۔(اکمال الدین ج۲ص۸۷۳)

۵۔ مال کے ذریعہ حضرت علیہ السلام کے ساتھ اپنے تعلق کا اظہار کریں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک امام کے لیے مال خرچ کرنے سے زیادہ محبوب چیز اور کوئی نہیں ہے تحقیق جو مومن اپنے مال سے ایک درہم امام علیہ السلام کی خاطر خرچ کرے خداوند بہشت میں احد پہاڑ کے برابر سے اس کا بدلہ دے گا۔(اُصول الکافی ج۱ص۷۳۵)

مقصد یہ ہے کہ امام کی نیابت میں آپ کے دوستوں اور چاہنے والوں پر اور آپ کے مشن کی تقویت کے لیے مال خرچ کرے۔

۶۔ حضرت کی سلامتی کی نیت سے صدقہ دینا جیسا کہ نجم الثاقب ص۲۴۴ میں روایت ہے۔

۷۔ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا کہ آنحضرت کی معرفت نصیب کرے اس کے لیے درج ذیل دعا کافی اکمال الدین وغیرہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے۔

اللهم عرفنی نفسک فالک ان لم تعرفنی نفسک لم اعرف نبیک اللهم عرفنی رسولک انک ان تعرفنی رسولک لم اعرف حجتک اللهم عرفنی حجتک ضللت عن دینی ۔

ترجمہ: خداوند! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کر کیونکہ اگر تو مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ کرے تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا خداوند! مجھے اپنے رسول کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو مجھے اپنے رسول کی معرفت عطا نہ کرے تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکتا۔ خداوند! مجھے اپنی حضت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر میں تیری حجت کی معرفت حاصل نہ کروں تو اپنے دےن سے گمراہ ہو جاوں گا بھٹک جاوں گا۔(بحوالہ اکمال الدین ج۲ص۲۴۳)

۸۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی صفات کو جاننا ہر حالت میں حضرت علیہ السلام نصرت اور مدد کرنے پر آمادہ رہنا آپ کے فراق پر گریہ کناں ہوں۔(بحوالہ نجم الثاقب)

۹۔ درج ذیل دعا کو ورد رکھنا امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ کلمات روایت ہوئے ہیں ۔

یاالله یا رحمن یا رحیم یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک (کمال الدین)

ترجمہ: اے اللہ اے رحمن، اے رحیم اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دینی پر ثابت رکھ۔

۱۰۔ اگر استطاعت رکھتا ہو تو عید قربان کے موقع پر امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں قربانی کرے۔(بحوالہ نجم الثاقب)

۱۱۔ حضرت کا جو اصلی نام ہے وہ رسول اللہ کا نام ہے احترام کے لیے حضرت کا نام نہ پکارے بلکہ آپ کے جو القاب ہیں ان میں سے کسی لقب کے ذریعے آپ کو پکارے قائم منتظر، حجت، مہدی، امام غائب، بعض روایات میں تو حضرت کے نام کو عام طور پر ذکر کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔(بحوالہ کمال الدین ج۲ص۲۵۳)

۱۲۔ جب حضرت کا نام لیا جائے تو آپ کے احترام کے لیے کھڑا ہو جانا چاہیے خاص کر جب آپ کے القاب میں سے قائم کا لقب پکارا جائے تو استقبال کے لیے کھڑے ہو جائیں یہ سن آئمہ علیہم السلام (نجم الثاقب ص۴۴۴)

۱۳۔ حضرت کی ہمراہی میں دشمنان خدا سے مقابلہ کرنے کے لےے اسلحہ وغیرہ آمادہ کرنا بحارالانوار میں غیبت نمانی سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیت بیان کی گئی ہے۔

ضروری ہے کہ آپ میں سے ہر ایک حضرت قائم علیہ السلام کے ظہور کے لیے جنگی آلات مہیا کر کے رکھے اگرچہ ایک تیر ہی کیوں نہ ہو امید ہے کہ جس کی یہ نیت ہو اللہ تعالیٰ اسے حضرت قائم علیہ السلام کے اصحاب میں سے قرار دے گا۔(بحارالانوار ج۴۹ ص۱۹۲)

اسلحہ لینے کا مطلب یہ ہوا کہ جنگی مہینوں کی تربیت بھی اس نیت سے حاصل کرے کہ حضرت قائم علیہ السلام کے دشمنوں سے مقابلہ کرے اور اسلام کو پوری دنیا میں پھیلانے کے لیے اسلام دشمن طاقتوں کی نابودی کا سامان مہیا کرے۔

۱۴۔ مشکلات میں حضرت علیہ السلام کو وسیلہ قرار دے کر آپ کی خدمت میں اپنی حاجات پر مشتمل عریضہ ارسال کرے۔(بحارالانوار ج۲۵ص ۹۸۱) عریضہ یا تو آئمہ اطہار علیہم السلام اور حضرت نبی کی ضریحوں میں ڈالا جائے یا دریا، سمندر، کنووں میں ڈالا جائے حضرت خضرت علیہ السلام کو اس عریضہ کے پہچانے کا وسیلہ بنایا جائے بہرحال یہ عمل یا اسی طرح کے باقی اعمال جو ہیں یہ سب امت مسلمہ کے ذہن میں یہ بات بٹھانے کے لےے ہیں کہ حضرت مہدی علیہ السلام موجود ہیں وہ اصل ہمارے رہبر ہیں ان کے ذریعہ تمام مشکلات اور مسلمانوں کے مسائل حل ہوں گے ان کی نصرت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ (بحارالانوار ج۴۹ص۹۲)

۱۵۔ خدا سے سوال کرتے وقت خداوند کو امام زمانہ علیہ السلام کے حق کی قسم دی جائے اور حضرت علیہ السلام کو اپنا شفیع اور سفارشی بنائے (بحوالہ اکمال الدین)قدم رہیں گے کم ترین ثواب اور بدلہ جو اللہ ان کو دے گا وہ یہ ہو گا کہ خداوند کی طرف سے ان کو آواز آئے گی اے میرے بندو اور اے میری کنیزو تم میرے سرو راز پر ایمان لے آئے ہو اور میری غائب حجت کی تم نے تصدیق کی ہے تم کو بدلہ اور ثواب کی بشارت ہو میں تمہارے اچھے اعمال کو قبول کروں گا اور تمہارے برے اعمال سے عفو در گزر کرو ں گا تمہارے گناہوں کو بخش دوں گا اور تمہاری برکتوں سے اپنے بندوں پر بارش برساوں گا اور ان کی مصیبتوں کو ٹالوں گا اگر تم لوگ نہ ہوتے تو میں ان پر اپنا عذاب بھیجتا۔ راوی نے سوال کیا کہ اس زمانہ میں کو سا عمل تمام اعمال سے بہتر ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اپنی زبان کو کنٹروں میں رکھو اور گھروں میں رہو۔(اکمال الدین ص۵۳۳)

کہ ضرورت اور اسلام کے مفاد کے لیے تو دوسرے افراد سے رابطہ اور تعلق رکھو اس کے علاوہ تمہارا دنیا والوں سے میل جول نہیں ہونا چاہیے اسی میں تیری اور خیر ہے۔

۱۶۔ حضرت مہدی علیہ السلام پر درود و سلام زیادہ بھیجا جائے ہر نماز کے بعد آپ پر سلام پڑھا جائے اس کے لیے مفاتیح الجنان اور دوسری دعاوں کی کتابوں کی طرف آپ رسول کر کے کسی زیارت نامہ کا انتخاب کر سکتے ہیں ۔

۱۷۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے فضائل و کمالات کو بہت بیان کیا جائے کیونکہ آپ اس دور میں ولی نعمت میں اور خداوند کی تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں میں آپ ہی واسطہ ہیں یعنی آپ فیض رسائی کا وسیلہ ہیں ۔ (بحوالہ مکارم الاخلاق طبرسی ص۲۲۴)

۱۸۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے جمال مبارک کی زیارت کا اشتیاق رکھنا اور اس شوق کا اظہار کرنا امیر المومنین علیہ السلام اپنے سینہ کی طرف اشارہ فرما کر شوق کا اظہار فرماتے تھے۔(کمال الدین ج۱ص۱۹۲)

۱۹۔ لوگوں کو حضرت مہدی علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنے پر آمادہ کرنا کافی ہے سلیمان بن خالد سے مروی ہے کہ وہ کہتا ہے میں نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ میرے رشتہ دار ہیں خاندان والے ہیں اور میری بات کو سنتے ہیں کیا میں اس کو اس امر کی دعوت دوں تو آپ نے فرمایا جی ہاں! خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا! اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اپنی جانوں کو اور اپنے گھروالوں ”خاندان“ کو اس آگ سے بچاو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں ۔(سورہ تحریم آیت۶)

۲۰۔ دشمنوں کی طرف جو مصائب آئیں ان کو برداشت کیا جائے مصائب اور مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں جو مومن بارہویں امام کی غیبت کے زمانہ میں دشمنوں کی اذیت اور ان کے حقائق کو جھٹلانے پر صبر کرے، برداشت سے کام لے، گھبرائے نہ وہ ایسے ہے جس طرح اس نے حضرت رسول کی ہمراہی میں جہاد کیا ہو یعنی رسول اللہ کی رقاب میں جہاد کرنے کا ثواب اسے ملے گا۔(اکمال الدین ج۱ص۷۱۳)۔

۲۱۔ مومنین انپے نیک اعمال کو امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کریں جیسی قرآن پاک کی تلاوت نوافل نبی اکرم اور آئمہ اطہار علیہم السلام کی زیارت حج، عمرہ، مجلس عزا ماتم عزاداری وغیرہ۔

۲۲۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے لیے آپ کے ظہور میں تعجیل کے لیے آپ کی سلامتی کے لیے آپ کے مصائب دور ہونے کے لیے دعائیں مانگنا روایات میں ہے کہ آپ لوگ حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کی تعجیل کے لیے بہت دعا کریں کیونکہ آپ لوگوں کی فتح و کشادگی فتح و نصرت اسی میں ہو گی۔

(بحوالہ الاحتجاج ج۲ص۰۸۲) امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایت ہے یہ دعا کرنا جو ہے یعنی امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے تعجیل کے لیے دعا مانگنا ایمان پر ثابت قدم رہنے کا سبب ہے۔(بحوالہ اکمال الدین ج۲ص۴۸۳)

مفاتیح الجنان میں امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی تعجیل آپ کی سلامتی آپ کے ساتھ روزانہ تجدید بیعت کرنے کے لیے متعدد دعائیں موجود ہیں آپ کچھ دعاوں کا انتجاب کرکے ان کا ورد رکھا کریں خاص کر دعائےاللهم کن لولیک الحجة الحسن صلواتک علیه وعلی آبائه فی هذه الساعة و فی کل ساعة ولیا و حافظا و قائداو و دلیلا و ناصرا و عینا حتی تسکنه و عرضک طوعا و تمعه و فیها طویلا اللهم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجهم ۔

اور صبح کے وقت تجدید کی دعا،اللهم بلغ مولای صاحب الزمان صلوات علیه عن جمیع المومنین والمومنات ۔

حضرت کے ظہور کی خاطر دعا مانگنے کے بعد زیادہ فائدے ہیں ان میں چندایک یہ ہیں ۔

۱۔ عمر کی طولانی ہونے کا سبب ہے۔ (مکارم الاخلاق ص۴۸۲)

۲۔ دعا مانگنا ایک قسم کا امام زمانہ علیہ السلام کا جو ہم پر حق بنتا ہے اسے ادا کرنا ہے۔(کافی ص۰۷۱)

۳۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے لےے دعا کرنے والے کو رسول اکرم کی شفاعت نصیب ہو گی۔(اطفال ص۶۹۱)

۴۔ دعا کرنے والے کی خدا مدد فرمائے گا۔

۵۔ دعا کرنے سے امام زمانہ علیہ السلام خوش ہوتے ہیں اور امام علیہ السلام کے دل کو خوش کرنے کا بہت ثواب ہے۔

۶۔ جو شخص امام علیہ السلام کے لیے دعا مانگتا ہے تو امام علیہ السلام اس کے لیے دعا مانگتے ہیں ۔

۷۔ اس دعا کا ثواب اتنا ملے گا جس طرح کسی نے تمام مومنین و مومنات کے لیے دعا مانگی اور خدا کے فرشتے اس شخص کے لیے دعا مانگتے ہیں ۔

۸۔ دعا کرنا امام مہدی علیہ السلام سے محبت اور دوستی کا اظہار ہے اور یہ اجر رسالت ہے۔

۹۔ غیب کے زمانہ میں امام علیہ السلام کے لیے دعا کرنے سے مصائب دور ہوتے ہیں ۔

۱۰ ۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام ظہور کی تعجیل کے لیے دعا کرنا در حقیقت خدا کے لیے پیغمبر اکرم کے لیے کتاب خدا کے لیے دین خدا کے لیے اور مسلمانوں کے لےے خیر خواہی ہے کیونکہ اس دعا کا ثمر یہی ملتا ہے حضرت کے ظہور کی دعاو کا مطلب خدا کے نام کی سر بلندی، پیغمبر اکرم کے مشن کے غالب آنے، دین کے غلبہ مسلمانوں کی شر کفار سے نجات اور کتاب خدا کے نفاذ کی خواہش ہے جس کے اندر یہ پانچ وصف پائے جائیں رسول فرماتے ہیں میں اس کی بہشت کا ضامن ہوں۔(اطفال ج۱ ص۱۴۱)

۱۱۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے لےے دعا کرنے والے کو مظلوم کی مدد کرنے کا ثواب ملتا ہے۔

۱۲ ۔ نبی کریم اور علی علیہ السلام کی ہمراہی میں جہاد کرنے کا ثواب ہے۔

۱۳ ۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کی دعا سے آپ ایک ایسے عمل میں شریک ہو جاتے ہیں کہ جس عمل کا ثواب تمام اعمال سے زیادہ ہے اور وہ ہے امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ چکانا۔

۱۴ ۔ دعا کے معنوی فوائد کے علاوہ بہت سارے ظاہری فائدے بھی ہیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ دعا کرنے والا اپنے اندر آمادگی محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ ایک بہت بڑے انقلاب کے لیے تیاری بھی کرتا ہے۔

خداوند کریم ہم سب کو توفیق دے کہ ہم حضرت مہدی علیہ السلام کی آمد اور آپ کے ظہور کے لےے سچے دل سے دعا کرنے والے ہوں اور آپ کے ظہور کے مقدمات مہیا کرنے میں اپنا کردارادا کر سکیں فقط دعا کے کلمات کو زبان پر ادا کرنے کی حد تک نہ رکھیں۔

۱۵ ۔ آئمہ اطہار علیہم السلام سے جو دعائیں منقول ہیں ان کے مفاہیم پر توجہ دینے میں حضرت مہدی علیہ السلام کی عالمی حکومت کا خاکہ آپ کی پالیسیاں آپ کے انصار اور معاونین کی ذمہ داریوں کا بھی اوراک ہوتا ہے اور یہ بہت بڑا فائدہ ہے اس لیے روایات میں ہے کہ آئمہ اطہار علیہم السلام سے اس بات میں جو دعائیں منقول ہیں ان کو پڑھا جائے ویسے تو اپنی زبان میں بھی دعا مانگ سکتے ہیں لیکن جو انداز دعا آئمہ علیہم السلام کارہا ہے اس سے جو فوائد مقصود ہیں ان سے ہم بے بہرہ ہوں گے۔

۱۶ ۔ علماءاپنے علم کو ظاہر کریں جو جاہل اور نا واقف ہیں ان کو سکھائیں کہ وہ کسی طرح اپنے مخالفین کو جواب دیںاگر وہ حیران و پریشان ہوں تو ان کی حیرانگی اور پریشانی کو دور کریں یہ مطلب بہت اہمیت رکھتا ہے علماءکی ذمہ داری ہے کہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے زمانہ میں لوگوں کو گمراہی سے بچائیں اور بھٹکے ہووں کو راستہ دکھائیں دشمنان اسلام کے علمی حملوں کا جواب دیں لوگوں کو امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے لیے تیار کریں ظلم اور ظالموں کا صفایا کرنے کے بکھرے ہووں کو منظم کر کے ان کو مقابلہ کے لےے تیار کریں حدیث میں ہے جو شخص ہمارے شیعوں کے دلوں کو مضبوط کرے (یعنی ان سے شکوک و شبہات کو دور کرے) وہ ایک ہزار عبادت گزاروں سے بہتر ہے اور حدیث سے رسول اللہ کا فرمان ہے جب میری امت میں بدعتیں ظاہر ہو جائیں تو عالم پر واجب ہے کہ وہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور اگر ایسا نہ کرے گا تو اس پر خدا کی لعنت ہے۔(الکافی ج۱ص ۳۳۔۴۵) اس حدیث کی روشنی میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا عالم دین کی اہم ذمہ داری قرار پائی ہے اور اس کے لیے سیاسی عمل میں جانا ضروری ہے اسلامی حکومت کا قیام ہی بدعتوں کے خاتمے کا سبب ہو گا، بعض علمائے کرام انفرادی بدعتوں کے خاتمے کے لیے تو اقدامات کرتے ہیں لیکن اسلامی معاشروں میں جو اجتماعی بدعتیں ہیں سوسائٹی میں جو خرابیاں اور فسادات ہیں اجرائم ہیں ان کے خاتمہ کے لیے جدوجہد نہیں کرتے حالانکہ اجتماعی مفاسد اور بدعتوں کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کرنا انفرادی مفاسد کے خاتمہ کی جدوجہد سے زیادہ اہم ہیں کیونکہ اگر اجتماع درست ہو گا ایک سوسائٹی میں اجتماعی بدعتوں کے خاتمہ کے لیے اقدامات کیے جائیں گے تو ان کے ضمن میں انفرادی برائیوں کا خاتمہ بھی ساتھ ساتھ ہوتا جائے گا یعنی اس عمل سے دونوں مقاصد حاصل ہوتے ہیں جب کہ افراد کی شخصی برائیوں کے خلاف بات کرنے پر اکتفا کرنا معاشرہ کی اجتماعی بیماریوں کو دور نہیں کر سکتا دیکھنے میں آیا ہے کہ مومنین اپنے انفرادی اعمال میں نیک اور پارسا ہوتے ہیں لیکن اجتماعی کاموں میں وہ دشمنان خدا کے آلہ کا ر بنتے ہیں اور اپنے اجتماعی فرائض انجام دہی پر بالکل توجہ ہی نہیں کرتے یہ علماءکی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے بھی کام کریں۔

۱۷ ۔ امام زمانہ علیہ السلام کے اپنی رعیت پر جو حقوق بنتے ہیں ان کی ادائیگی کے لیے زبردست کوشش کی جائے ہر شخص اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق ان حقوق کو ادا کرے امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت کرنے کوتاہی نہ کریں امام صادق علیہ السلام نے اس وقت فرمایا جب حضرت قائم علیہ السلام کی ولادت بھی نہ ہوئی تھی کہ اگر میں آپ کے زمانہ میں ہوتا تو جب تک زندہ رہتا امام کی خدمت کرتا۔(بحارالانوار ج۱۵ ص۸۴۱)

دیکھیے امام صادق علیہ السلام اتنی عظمت و جلالت کے باوجود کسی طرح حضرت قائم علیہ السلام کی خدمت کرنے کے متعلق اظہار فرما رہے ہیں امام علیہ السلام کی خدمت کرنے کا مطلب آپ کے مشن کی خدمت کرنا اگر ہم امام علیہ السلام کے مشن کے لیے کام کر کے امام کے دل کو خوش نہیں کر سکتے تو آپ کے مشن کی مخالفت میں اقدامات کر کے امام علیہ السلام کے دل کو غمگین و مخزون تو نہ کریں۔

۱۸ ۔ امام مہدی علیہ السلام سے محبت کا اظہار کرے حدیث معراجیہ میں ہے رسول پاک فرماتے ہیں معراج کی رات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ خطاب ہوا کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو آپ کے اوصیاءکا دیدار کراوں میں نے کہا جی ہاں تو اللہ نے فرمایا اپنے سامنے دیکھو جب میں نے دیکھا تو میں نے اپنے بارہ اوصیاءکی درخشاں تصویروں کو دیکھا اور میں نے دیکھا کہ حضرت قائم علیہ السلام ان بارہ میں سے روشن ستارے کی مانند چمک رہے ہیں پس میں نے عرض کیا خدایا یہ کون ہیں ؟ (ان کا اپنی زبان سے تعارف کروا دے) تو خطاب ہوا یہ بر حق آئمہ ہیں اور یہ جو ان کے درمیان سب سے زیادہ چمک رہا ہے یہ میرے حلال کو حلال اور میرے حرام کو حرام کرے گا اور میرے دشمنوں سے بدلہ لے گا۔

اے محمد! اس سے محبت کرو اور اسے دوست رکھو کیونکہ میں اسے پسند کرتاہوں اور اسے چاہتا ہوں جو اسے دوست رکھے میں اسے دوست رکھتا ہوں جب کہ تمام آئمہ سے محبت کرنا واجب ہے خصوصیات کے ساتھ حضرت قائم علیہ السلام سے محبت کرنے کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے محبت کرنے کو خاص اہمیت حاصل ہے یعنی عمومی حکم کے علاوہ خصوصی حکم آپ سے محبت اور دوستی کرنے کا دیا گیا ہے۔

۱۹ ۔ امام مہدی علیہ السلام کے انصار اور مددگاروں اور آپ کے مشن کے لیے کام کرنے والوں کی کامیابی ان کی صحت و سلامتی کے لیے دعا مانگنا۔

۲۰ ۔ امام مہدی علیہ السلام کے دشمنوں آپ کے مشن و پروگرام کے مخالفین پر نفرین کرنا۔(بحوالہ الاحتجاج ص۶۱۳)

۲۱ ۔ اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کرنا کہ خداوندا! ہمیں امام مہدی علیہ السلام کے انصار اور معاونین سے قرار دے اور اپنے اندر وہ صفات پیدا کرنا جو امام مہدی علیہ السلام کے انصار کی صفات ہیں ۔

۲ ۲ ۔ جب امام مہدی علیہ السلام کے لیے مجالس و محافل میں دعا مانگی جائے تو بلند آواز سے دعا مانگی جائے کیونکہ یہ عمل تعظیم شعائر اللہ سے ہے۔

۲۳ ۔ امام مہدی علیہ السلام کے انصار اور معاونین پر صلوات بھیجنا جیسا کہ صحیفہ سجادیہ کی دعائے عرفہ میں ہے اور بعض دوسری دعاوں سے بھی یہ مطلب واضح ہے۔

۲۴ ۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی نیابت میں خانہ کعبہ کا طواف کرنا یا کسی کو بھیجنا کہ وہ امام علیہ السلام کی نیابت میںطواف کر آئے۔

۲۵ ۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی نیابت میں حج کرنا۔

۲۶ ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا، نیابت میں عمرہ بجالانا یا کسی کو نائب بنا کر بھیجنا۔

۲۷ ۔ ہر وقت یا جب بھی موقع ملے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ تجدید بیعت کرے عہد و قرار داد باندھے بیعت کی نیت سے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر کہے اے امام زمانہ علیہ السلام میں آپکا مومن ہوں، آپ کا حامل ہوں آپ کے پروگرام کا حامل ہوں میری اس سے جنگ ہے جس سے آپ کی جنگ ہو گی آپ کے انصار اور آپ کے مشن کے لےے وقف ہے میرا یہ عہد قیامت تک کے لیے ہے بہر حال امام زمانہ علیہ السلام سے بیعت اور عہد کرنے کے بارے میں بھی مخصوص دعائیں مفاتیح الجنان میں موجود ہیں وہاں سے دیکھ کر پڑھ سکتے ہیں روزانہ صبح کی نماز کے بعد اگر یہ عہد نامہ پڑھا جائے تو بہتر ہے جیسا کہ روایات میں ہے۔

۲۸ ۔ امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے علاوہ باقی آئمہ معصومین علیہ السلام کے مزاروں ر جا کر زیارت پڑھانا کسی کو نائب بنا کر بھیجنا۔

۲۹ ۔ مفصل کہتا ہے کہ میں نے امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا تذکرہ فرما رہے تھے کہ ہم غیبت کے زمانہ میں کیا کریں تو آپ نے فرمایا اگر کوئی شخص دوران صاحب الامر ہونے کا دعویٰ کرے تو اس سے ایسی چیزوں کا سوال کرو جن تک عام لوگوں کے علم کی رسائی نہیں ہے جیسے حیوانات سے بات کرنا، نباتات و جمادات سے بات کروانات وغیرہ۔

۳۰ ۔ اگر کوئی شخص غیبت کبریٰ کے زمانہ میں دعویٰ کرے کہ وہ امام زمانہ علیہ السلام کا خصوصی نائب ہے تو اسے جھٹلایا جائے۔

۳۱ ۔ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا وقت معین نہ کریں اگر کوئی شخص ایساکرے تو اسے جھٹلایا جائے جو کچھ روایامت میں حتمی علامات کے حوالے سے ذکر ہے اسی کے بیان کرنے پر اکتفا کیا جائے امام صادق علیہ السلام سے روایات ہے جو شخص آپ کے لیے (ظہور) کا وقت معین کرے اس سے ڈرو مت اور اسے جھٹلا دو کیونکہ ہم نے کسی ایک کے لیے وقت معین نہیں کیا ہے۔(بحوالہ بقیة شیخ طوسی ص۲۶۲)

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں جو لوگ (ظہورکا وقت معین کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں )۔

(بحوالہ البقیة شیخ طوسی ص۲۶۲)

ظہور کے وقت کو معین نہ کرنے میں مصلحت اور فائدہ ہے جس کا علم امام علیہ السلام کے ظہور کے بعد ہو گا یہ خدا کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔

۳۲ ۔ دشمنوں سے چوکنے رہو اپنی حفاظت کا خیال کرودشمن کے چنگل میں آجاو تو اسے اپنا راز بیان نہ کرو مقصد یہ ہے کہ عالمی اسلامی انقلاب کے قیام کے لیے جب کام شروع کرو گے تو اپنے معاملات سے دشمن کو مخفی رکھو اور اپنے پروگراموں میں محتاط رہو۔

۳۳ ۔ گناہوں سے توبہ کرنا اسلامی احکام پر سختی سے کار بند رہنا کیونکہ امام علیہ السلام کی غیبت کا سبب یہ تھا کہ امت راہ حق سے پھر چکی تھی امت کے اندر اسلامی احکام کو نافذ کرنے کے لیے آمادگی نہ تھی لوگ خدا کے نافرمان تھے اب جب کہ ہم امام زمانہ علیہ السلام کی انتظار میں ہیں تو ہمیں گناہوں کو ترک کرنا ہو گا اسلامی احکام کا نفاظ میں سے پہلے اپنے اوپر کرنا ہو گا اور اسی طرح خود کو عالمی اسلامی حکومت کے لیے آمادہ کرنا ہو گا جو لوگ خدا کے نا فرمان ہیں اسلامی احکام پر عمل نہیں کرتے چاہتے اسلام کے سیاسی اجتماعی احکام ہوں یا انفرادی یا غیر سیاسی احکام ہوں، سب پر عمل نہیں کرتے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم امام زمانہ علیہ السلام کے منتظر ہیں وہ جھوٹے ہیں اور اپنے اس جھوٹ سے امام زمانہ علیہ السلام کو تکلیف دیتے ہیں ۔

۳۴ ۔ خداوند سے یہ دعا مانگی جائے کہ خدایا مجھے ایمان کی حالت میں حضرت قائم علیہ السلام بن کر آئیں گے۔(بحوالہ روضہ کافی ص۴۳۲)

۳۵ ۔ امام مہدی علیہ السلام کے فضائل بیان کر کے مومن کو چاہیے کہ وہ دوسرے لوگوں کو حضرت کا حامی اور دوست بنائے۔

۳۶ ۔ امام زمانہ علیہ السلام کے مشن کی ترویج کرنے کے لیے کچھ افراد اپنے کو وقف کریں اسلام کی مکمل معلومات حاصل کریں یعنی عالم دین بنیں تا کہ لوگوں کو شیعیان آل محمد کو شیعیان امام زمانہ علیہ السلام کو گمراہی اور بے راہ روی سے بچا سکیں۔

۳۷ ۔ امام زمانہ علیہ السلام کا جو مالی حق ہے یعنی خمس و زکوٰة اور خمس کا جو حصہ مال امام ہے اسے ادا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں اور کوشش کریں کہ امام زمانہ علیہ السلام کے مشن کی ترویج کرنے پر اسے خرچ کریں خاص کر ان افراد پر جو علم دین حاصل کر رہے ہیں کل عالم دین بن کر معاشرہ کی اصلاح کا بیڑا انہوں نے اُٹھانا ہے اور امام زمانہ علیہ السلام کے پروگرام کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے لوگوں کو تیار کرنا ہے۔

۳۸ ۔ غیبت کے طولانی ہونے پر مایوسی اپنے نزدیک نہ آنے دو۔

۳۹ ۔ امام زمانہ علیہ السلام کو ہر وقت یاد رکھنے کے لیے بچوں، اپنی کمپنیوں، اداروں، جماعتوں، مساجد اور اجتماعات کی جگہوں کے ناموں میں امام مہدی علیہ السلام کے القاب میں سے کسی نہ کسی لقب کو لے آو۔

۴۰ ۔ مرابطہ کے عمل کو انجام دو، مرابطہ دو قسم کا ہوتا ہے۔

۱۔ انسان اسلامی زمین کی حفاظت کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کرے کافروں کے حملہ سے اپنی سر زمین کی سرحدوں پر ڈیوٹی ادا کرے اس کا بہت ثواب یہ عمل ہر دور میں ہو سکتا ہے اس کے لیے بھی عسکری ترتیب حاصل کرنا لازم ہے اور حکومتوں پر بھی لازم ہے اسلام میں یہ عمل بہت بڑی عبادت ہے۔

۴۱ ۔ دشمن اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے اسلحہ اور سواری کو ہر وقت تیار رکھے یہ علم جو ہے امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے دوران بالخصوص کرنے کو کہا گیا ہے اس کے لیے نہ تو جگہ معین ہے اور نہ ہی وقت معین ہے بلکہ ہر وقت شخص مومن آمادہ باش کی حالت میں رہے اس ضمن آتا ہے کہ انسان ورزش کے ذریعہ اپنے بدن کو متوازن رکھے اپنی صحت کا خیال رکھے جنگی فنون سے آگاہی حاصل کرے دشمنوں کامقابلہ کرنے کے لیے جو امور درکار ہیں ان کو حاصل کرے جہاں پر دشمنان کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے خود کو آمادہ رکھے وہاں پر فکری اور نظریاتی میدانوں میں ٹیکنیکل میدانوں میں بھی مخالفین اسلام کو شکست دےنے کے لیے تیار کرے اس کام کے لیے دینی جماعتیں تنظیمیں، دینی مدارس اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور اگر کہیں پر اسلامی حکومت قائم ہو جائے تو اس کے لیے ان امور کو انجام دینا بہت ہی آسان کام ہے جیسا کہ اس وقت سر زمین ایران پر ہو رہا ہے۔

اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم پاکستان میں رہتے ہیں پاکستان اسلامی سر زمین ہے اس کی حفاظت کرنا تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے دشمن کے حملوں سے بچاو کے لیے ہمارے نوجوانوں کو شہری دفاع کی تربیت حاصل کرنا چاہیے اس طرح کیونکہ ہم سب لوگ پوری دنیا میں اسلامی حکومت کے قیام کے خواہاں ہیں اور امام مہدی منتظرعلیہ السلام ہیں اس حوالے سے ایک عالمی اسلامی حکومت قائم کرنے کے جو تقاضے ہیں ان کو پورا کرنے کے لیے بھی ہم اپنے آپ کو ہر پہلو اور حوالے سے آمادہ تیار کریں یہ ہماری اسلامی ذمہ داری ہے۔

خداوند تبارک و تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ وہ ہمیں امام زمانہ علیہ السلام کے انصار اور معاونین سے بنائے ہمیں صفات حمیدہ اور اخلاق حسنہ کے زیور سے آراستہ ہونے کی توفیق دے دشمنان اسلام کی سازشوں کو سمجھنے اور ان کا توڑ کرنے کی توفیق دے خدایا ہماری اس کوشش فرمااور بصدق محمد و آل محمد اس کتاب کو منتظرین امام زمانہ علیہ السلام کے لیے مفید قرار دے۔

آپ علیہ السلام کے معاملہ میں تسلیم ہو ان کے بارے میں جلدی نہ کرے یعنی یہ نہ کہنا ہو کہ ان کا ظہور کیوں نہیں ہورہا اب تو ظہور ہو جانا چاہیے تھا یہ تو زیادتی ہے ظلم ہے بلکہ خداوند کی حکمت اور مصلحت کے تحت وہ غائب ہیں اس پر رضائیت اور سر تسلیم خم کرنا چاہےے اعتراض کے طور پر زبان شکوہ نہ کھولی جائے۔

امام زمانہ علیہ السلام کی سلامتی کی نیت سے صدقہ دینا۔

حضرت امام زمانہ علیہ السلام زیارت پڑھنا۔

۶

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۴-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

از:سید عمران عباس نقوی ولد سید عابد حسین نقوی

رسول اکرم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کے اعمال میں سب سے بہتر عمل اللہ کی طرف سے فرج و کشادگی کا انتظار کرنا ہے۔(عیون الاخبار)

رسول اکرم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کے عطا کردہ کم رزق پر راضی رہے گا اللہ یہ اس کے قلیل عمل پر راضی ہو جائے گا اور انتظار کشادگی بھی عبادت ہے۔

تمام امتوں یعنی تمام لوگوں سے ظہور امام علیہ السلام کے منتظر سب سے افضل ہیں حضرت علی بن الحسین علیہ السلام سے روایت کہ آپ نے فرمایا رسول اللہ کے اوصیاءمیں بارہویں وصی اور ولی خدا کی غیبت طویل ہوگی ان کی غیبت کے زمانے میں جو لوگ ان کی امامت کے قائل ہوں گے ان کے ظہور کے منتظر ہوں گے وہ ہر زمانے کے لوگوں سے افضل ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کو ایسی عقل و فہم اور معرفت عطا فرمائے گا کہ ان کے نزدیک غیبت بھی بمنزلہ شہود ہو گی اور اللہ تعالیٰ انہیں بھی وہی درجہ عطا فرمائے گا جو درجہ رسول کائنات کی مصیت میں رہ کر تلوار سے جہاد کرنے والوں کو حاصل ہے وہ لوگ واقعی مخلص اور ہمارے سچے شیعہ ہوں گے وہ لوگ در پردہ اور علانیہ دونوں طرح اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے والے ہوں گے اور پھر فرمایا انتظار فرج و کشادگی تو از خود سب سے بڑی فرج و کشادگی ہے۔(احتجاج طبری)

جابر کہتے ہیں کہ ہم لوگ مناسک حج ادا کرنے کے بعد رخصت ہونے کے لیے حضرت امام ابو جعفر محمد باقرعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا فرزند رسول ہمیں کچھ نصیحتیں فرمائیے تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تم لوگوں میں جو قوی ہے وہ ضعیف و کمزور کی مدد کرے تم میں جو دولتمند ہے وہ اپنے فقیروں پر توجہ دے۔

تم میں سے ایک شخص جو کچھ اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی دوسروں کے لیے چاہیے تم لوگ ہمارے اسرار کو پوشیدہ ہی رکھنا اور لوگوں کو اپنی گردنوں پر مت سوار کرنا ہمارے ظہور امر کا انتظار کرنا اور جو روایت ہماری نسبت سے تم لوگوں تک پہنچے اگر وہ قرآن کے مطابق ہو تو اسے قبول کر لینا اور اگر قرآن کے مخالف ہو تو اسے رد کر دینا اور اگر مشتبہ ہو پتہ نہ چلے کہ موافق ہے یا مخالف ہے تو توقف کرنا اور ہم سے دریافت کرنا تا کہ ہم اس کی تشریح کر دیں۔

اگر تم لوگ ہمار ی نصیحتوں پر عمل کرتے رہے تو ہمارے قائم کے ظہور سے قبل تک جو بھی تم میں سے ان نصیحتوں پر عمل کرتا ہوا مرے گا وہ شہید ہو گا اور جس نے امام علیہ السلام قائم کا زمانہ پا لیا اور ان کی معیت میں قتل ہو گیا اس کو دو شہیدوں کا اجر ملے گا اور جس نے ان کی معیت میں ہمارے ایک بھی دشمن کو قتل کیا اس کو بیس شہیدوں کا اجر ملے گا۔(امالی شیخ)

امام زمانہ علیہ السلام کا انتظار جہاد فی سبیل اللہ ہے ان مومنین کے لیے جو حقیقی مومن ہیں کتاب خصال پر مرقوم ہے حضرت امیر المومنینعلیہ السلام نے ارشاد فرمایا ظہور امام علیہ السلام کا انتظار کرو اور رحمت الہیٰ سے مایوس نہ ہو جاو کیونکہ اللہ بزرگ و بر تر کے نزدیک بہترین عمل ظہور صاحب امر کا انتظار کرنا ہے۔

پھر فرمایا: پہاڑ کھودنے کا کام زیادہ آسان ہے اس سلطنت کے لیے کوشش کرنے سے جس کا ایک وقت معین ہے اور اللہ سے مدد کی درخواست کرو اور صبر کرو یہ زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جن کو چاہے اس کا مالک بنائے اور عاقبت متقین کے لیے صاحب امر کے آنے سے پہلے ان کے لیے جلدی نہ کرو ورنہ ندامت و پیشمانی کا شکار ہو جاو گے اور اس مدت (وقت ظہور امر) کو طویل نہ سمجھو ورنہ تمہارے دل سخت ہو جائیں گے۔

پھر فرمایا ہمارے صاحب امر کو ماننے والا ہمارے ساتھ حظیرہ (حباغ) قدس میں ہو گا اور ہمارے صاحب امر کا انتظار کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص راہ خدا میں جہاد کر کے اپنے خون میں لت پت ہو کر لوٹ رہا ہو۔

ابن معروف نے حماد بن عیسیٰ سے انہوں نے ابو جارود سے انہوں نے ابو بصیر سے اور ابو بصیر نے حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ایک دن حضرت رسول اکرم کی خدمت میں آپ کے اصحاب کا ایک گروہ حاضر تھا آنحضرت نے دو مرتبہ ارشاد فرمایا۔

اللهم یقینی اخوانی اللهم یقینی اخوانی

اے اللہ مجھے میرے بھائیوں سے ملادے اے اللہ مجھے میرے بھائیوں سے ملا دے یہ سن کر حاضرین نے عرض کیا یارسول اللہ کیا ہم لوگ آپ کے بھائی نہیں ہیں ۔

آپ نے ارشاد فرمایا نہیں تم لوگ تو میرے اصحاب ہو میرے بھائی تو وہ لوگ ہوں گے جو آخر زمانہ میں پیدا ہوں گے وہ بغیر مجھ کو دیکھے ہوئے مجھ پر ایمان لائیں گے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے نام اور ان کے آباءکے صلبوں اور اپنی ماوں کے شکموں سے نکلے بھی نہیں ہیں اور ان بیچاروں کے لیے اپنے دین پر قائم رہنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہو گا جتنا اندھیری رات میں کانٹوں پر چلنا یاآگ کے انگارے ہاتھ سے اُٹھانا اور وہی لوگ تو درحقیقت اندھیری رات کے چراغ ہوں گے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہر قسم کے گبھیر(تاریک) فتنوں سے نجات دے گا۔(بصائر الدرجات)

سب سے بڑے صاحب یقین غیب پر ایمان لانے والے ہیں ۔

محمد بن علی بن شاہ نے احمد بن محمد بن حسن سے انہوں نے احمد بن خالد خالدی سے انہوں نے محمد بن احمد بن صالح تمیمی سے انہوں نے محمد بن خاتم قطان سے انہوں نے حماد بن عمرو سے حمد نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اور آپ علیہ السلام نے اپنے آبائے کرام سے روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت رسول اکرم نے ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرمایا یاعلی علیه السلام ! و اعلم ان اعظم الناس قومن یکونون فی آخر الزمان لم یلحقو النبی و حجب عنهم الحجة فامنوا بسواد فی بیاض ۔

فرمایا: اے علی علیہ السلام : تمہیں معلوم ہو کہ لوگوں میں سب سے بڑا صاحب یقین ایک گروہ ہو گا جو آخری زمانہ میں پیدا ہو گا انہوں نے اپنے نبی کو نہ دیکھا ہو گا اور حجت امام بھی پردہ غیبت میں ہو گا مگر اس کے باوجود ہر سیادہ و سفید پر ایمان رکھتے ہوں گے جو انتظار میں مر گیا وہ شہید ہو گا۔

ابن فضلا نے علی بن عقبہ سے انہوں نے عمر بن ابان کلبی سے انہوں نے عبدالحمید واسطی سے روایت کی ہے ان کا بیان ہے کہ میں امام ابو جعفر صادق علیہ السلام امام محمد باقرعلیہ السلام سے عرض کیا کہ مولا خدا آپ کا بھلا کرے ہم لوگوں نے تو حضرت صاحب امر کے انتظار میں اپنے بازاروں میں جانا ترک کر دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اس سلسلے میں سوال کر بیٹھے! آپ نے ارشاد فرمایا۔

اے عبدالحمید! کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ جو شخص اللہ پر بھروسہ کر کے ضبط سے کام لے گا اللہ اس کے لیے کوئی راستہ نہ پیدا کرے گا نہیں خدا کی قسم بلکہ وہ ضرور اس کے لیے راستہ پیدا کرے گا اللہ اس بندے پر رحم فرمائے جو ہمار ی محبت پر ثابت قدم رہے اللہ رحم کرے اس بندے پر جو ہمارے امر کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔

میں نے عرض کیا مولا اگر میں امام قائم علیہ السلام کا دور آنے سے پہلے ہی مرجاوں! آپ نے ارشاد فرمایا اگر تم میں سے کوئی اس کا قائل ہو کہ اگر میں قائم آل محمد کا زمانہ پاوں گا تو میں ان کی مدد کروں گا تو وہ بھی اسی شخص کے مانند ہو گا جو ان کی معیت میں رہ کر تلوار چلائے اور شہید ہو جائے تو اس کے لیے دو شہادتیں ہیں ۔

حضرت سلمان فارسی کا وارد کوفہ ہونا۔

احمد بن ادریس نے علی بن محمد سے انہوں نے فضل بن شاذان سے انہوں نے ابن ابو عمیر سے انہوں نے حسین بن ابو علاءسے انہوں نے ابوبصیر سے ابو بصیر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب حضرت سلمان فارسی وارد کوفہ ہوئے تو آپ نے اس پر ایک نظر ڈالی اور اس پر جو کچھ بلائیں اور حوادث رو نماز ہونے والے تھے ان کا ذکر کیا یہاں تک کہ سلاطین بنی امیہ اور ان کے بعد آنے والے ادوار کا بھی تذکرہ کیا اس کے بعد کہا کہ جب یہ سب کچھ ہو چکے تو تم لوگ اپنے گھروں میں گوشہ نشین ہو جانا یہاں تک کہ حضرت صاحب امر امام قائم علیہ السلام طاہر ابن طاہر و مطہر صاحب غیبت ظہور فرمائیں۔(غیبت طوسی)

دور غیبت کے مومنین کا عمل زمانہ ظہور کے مومنین کے عمل سے افضل اور بہتر ہے مظفر علوی نے ابن عیاشی اور حیدر بن محمد سے انہوں نے عیاشی سے انہوں نے قاسم بن ہشام نوادی سے انہوں نے ابن محبوب سے انہوں نے ہشام بن سالم سے انہوں نے عمار سا باطی سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ مولا ان باطل حکومتوں کے دور میں آپ امام علیہ السلام غائب کے دامن سے متمسک رہتے ہوئے چھپا چھپا کر عبادت کرنا افضل ہے یا ظہور امام علیہ السلام کے بعد آنجناب کے عہد حکومت میں آنجناب کے ساتھ علانیہ عبادت کرنآپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اے عمار پوشیدہ خیرات خدا کی قسم علانیہ خیرات سے افضل و بہتر ہے اسی طرح باطل حکومتوں کے دور میں اپنے اما وقت کے دامن سے وابستہ رہتے ہوئے چھپا چھپا کر عبادت کرنا جس میں دشمنوں کا خوف بھی لا حق ہو، ان لوگوں کی عبادتوں سے افضل ہے جو امام قائم علیہ السلام کے عہد حکومت میں ان کے ساتھ رہ کر بے خوف و خطر عبادت کریں گے کیونکہ خوف کے عالم میں عبادت اور بے خوفی کے ساتھ عبادت میں بڑا فرق ہے۔

تمہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ آج کل اسی دور میں بھی اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے دشمنوں سے پوشیدہ طور پر فرادیٰ ایک نماز فریضہ بھی اس کے وقت پر ادا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے پچیس فرادیٰ نماز فریضہ کا ثواب لکھ دے گا اور جو شخص اس حال میں ایک نیکی بجا لائیے گا اللہ بزرگ و برتر اس کے لیے بیس نیکیوں کا ثواب لکھ دے گا اور جو شخص قربةً الی اللہ اپنے دین اپنے امام علیہ السلام اور اپنے نفس کے تحفظ کے لیے تقیہ پر عمل پیرا ہو گا اور اپنی زبان بند رکھے گا تو اللہ عزت و بزرگی والا اس کے حسنات میں کئی گنا اضافہ فرما دے گا۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ عزت و جلال والا بڑا کریم ہے۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا اے فرزند رسول میں آپ پر قربان یہ فرما کر تو آپ نے میرے جذبہ عمل میں اور اضافہ فرما دیا مگر یہ بھی ارشاد فرمائیے کہ اس زمانہ ہم لوگوں کا عمل امام قائم علیہ السلام کے عہد حکومت میں ان کے ساتھ رہنے والوں کے عمل سے افضل کیسے ہو سکتا ہے۔

جب کہ ہمارا اور ان کا دین ایک ہے یعنی دین الہیٰ۔

آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: بات یہ ہے کہ تم لوگوں کو ان پر سبقت حاصل ہے تم لوگ ان سے پہلے دین خدا میں داخل ہوئے نماز و روزہ و حج سے فرائض بجا لائے مسائل فقہ پر عمل کیا کارخیر انجام دیئے اپنے دشمنوں کے خوف سے چھپا چھپا کر اللہ کی عبادت کی اپنے امام علیہ السلام کے دامن سے وابستہ رہے ان کی اطاعت کرتے رہے ان کے ساتھ صبر کیا ان کے ساتھ حکومت حقہ کے منتظر رہے تمہیں سلاطین وقت سے اپنے امام علیہ السلام کے متعلق اور اپنے بارے میں ہمیشہ خطرہ لا حق رہا ا ور دیکھتے رہے کہ تمہارے امام علیہ السلام کا حق اور تمہارا حق ظالموںکے ہاتھوں میں ہے تمہیں تمہارا حق نہیں دیا گیا اور مجبور کر دیا گیا کہ تم لوگ اپنے دین پر صبر کے ساتھ قائم رہتے ہوئے اللہ کی عبادت اور اطاعت کرتے ہوئے اپنے دشمنوں سے ڈرتے ہوئے حصول دنیا اور کسب معاش کرتے رہے لہذا یہ فضیلت تمہیں مبارک اور بہت مبارک ہو میں نے عرض کیا میں آپ علیہ السلام پر قربان یہ بھی فرمائیے کہ پھر ہم لوگ اسی امر کی تمنا کیوں کرتے ہیں کہ کاش امام قائم علیہ السلام کے ظہور کے وقت ہم لوگ ان کے ساتھ ہوتے جب کہ آج عمل سے افضل ہے جو امام قائم علیہ السلام کے عہد میں ان کے ہوں گے؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا سبحان اللہ کیا تم لوگ یہ نہیں چاہتے کہ اللہ عزت و جلال والا دنیا میں حق اور عدل ظاہر فرمائے عامة الناس کو خوشحال نصیب ہو سب لوگ این دین پر جمع ہو جائیں مختلف قلوب آپس میں متحد ہو جائیں روئے زمین پر اللہ کی نا فرمانی نہ ہو دنیا میں قانون الہیٰ نافذ ہو۔

اور حقداروں کو ان کے حقوق ملیں اور وہ اس حق کو ظاہر کریں انہیں دنیا میں کسی شخص کا خوف نہ ہو۔

اے عمار! تمہیں بشارت ہو، خدا کی قسم جس حال میں تم لوگ اس وقت اپنی زندگی گزار رہے ہو اگر اسی حال میں تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اللہ جل جلالہ کے نزدیک وہ شخص بد رو احد کے اکثر شہیدوں سے افضل ہو گا۔(اکمال الدین)

اس کے بعد کشادگی آتی ہے انہی اسناد کے ساتھ عیاشی سے انہوں نے خلف بن حامد سے انہوں نے سہل بن زیاد سے انہوں نے محمد بن حسن سے انہوں نے بزنطی سے روایت کی ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا صبر اور انتظار فرج کتنی اچھی چیز ہے کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا اور تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ ہی منتظر ہوں نیز اللہ تعالیٰ کا یہ قول اور تم انتظار کرتے رہو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں لہذا تم لوگوں کو لازم ہے کہ صبر سے کام لو اس لیے کہ اسی کے ذریعے سے یاس کے بعد فرج و کشادگی آتی ہے اور وہ لوگ جو تم سے پہلے گزر گئے ہیں وہ تو تم سے بھی زیادہ صابر تھے۔(اکمال الدین)

امام قائم علیہ السلام کا انتظار کرنے والوں کے فضائل:

علی بن احمد نے اسدی سے انہوں نے نخعی سے انہوں نے نوافلی سے نوافلی نے ابو ابراہیم کوفی سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا کچھ دیر کے بعد حضرت ابو الحسنعلیہ السلام امام موسیٰ بن جعفر جو ابھی کم سن تھے وہاں تشریف لے آئے میں نے اُٹھ کر آپ علیہ السلام کی پیشانی کو بوسی دیا اور پھر بیٹھ گیا تو حضرت ابو عبداللہعلیہ السلام نے فرمایا اے ابو ابراہیم میرے بعد یہی تمہارے امام ہوں گے مگر ان کے بارے میں ایک گروہ (ان کا منکر) گمراہ و ہلاک ہو گا اور ایک گروہ ہدایت پائے اور سعادت حاصل کرے گا اللہ تعالیٰ اس فرزند کے قاتل پر لعنت کرے گا اور اس پر کئی گنا عذاب بڑھا دے گا اور یہ سن لو ان ہی کے صلب سے وہ بھی پیدا ہو گا جو روئے زمین پر اپنے زمانے میں سب سے بہتر ہو گا خواہ مشرکین کتنا ہی نا پسند کریں اللہ تعالیٰ اپنے امر کو پورا کرے گا۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ میرے اس فرزند کے صلب سے ایسے متعدد لوگوں کو پیدا کرے گا جو آئمہ علیہم السلام کی تعداد بارہ کو پورا کریں گے جو سب کے سب ہادی ہوں گے اللہ تعالیٰ کو اپنی کرامت سے مخصوص فرماتے اور انہیں پاکیزہ مقام پر جگہ عنایت فرمائے اور وہ لوگ جو بارہویں امام علیہ السلام کا انتظار کریں گے وہ ایسے ہی ہوں گے جیسے کوئی شخص حضرت رسول اللہ کی معیت میں جہاد کریں اور تلوار چلائیں ابھی آپ یہ فرما ہی رہے تھے بات نا مکمل تھی کہ ایک شخص موالیان بنی امیہ میں سے آگیا اور سلسلہ کلام منقطع ہو گیا پھر میں آپ کی خدمت میں پندرہ مرتبہ حاضر ہوا اور ہر مرتبہ یہی چاہتا رہا کہ مولا اپنے کلام کی تکمیل فرما دیں لیکن اس کا موقع ہی نہ مل سکا پھر جب میں ایک روز آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ علیہ السلام تنہا تشریف فرما ہیں تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا اے ابو ابراہیم وہ بارہواں امام اپنے شیعوں کے تمام آلام و مصائب دور کر دے گا خوش قسمت ہو گا وہ جو بارہویں کا زمانہ پائے گا اے ابو ابراہیم پس تمہارے لیے انتا ہی کافی ہے۔ (اکمال الدین)

امام قائم علیہ السلام کے ماننے والوں کا مقام آنحضرت کی نظر میں بہت بلند ہو گا فضل نے اسماعیل بن مہران سے انہوں نے ایمن بن محزر سے انہوں نے رفاعہ بن موسیٰ سے اور معاویہ بن وہب سے انہوں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے روایت کی ہے ان کا بیان ہے کہ حضرت رسول اللہ نے ارشاد فرمایا خوش نصیب ہے وہ شخص جو میرے اہلبیتعلیہ السلام کے امام قائم علیہ السلام کا زمانہ پائے گا اور ان کے قیام و ظہور سے پہلے ان کی حکومت و اقتدار میں ہو گا ان کے دوستوں کو دوست رکھے گا اور ان کے دشمنوں سے برات کا اظہار کرے گا ان سے پہلے گزرے ہوئے آئمہ ہدایت سے تولا رکھے گا یہی لوگ میرے رفیق میرے دوست میرے محب ہیں اورمیرے نزدیک میری امت کے سب سے زیادہ مکرم ہیں ۔

اور رفاعہ کہتے ہیں کہ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ وہ لوگ میرے اللہ کی مخلوق میں میرے نزدیک سب سے زیادہ مکرم ہیں ۔ (غیبت طوسی)

امام قائم علیہ السلام کے ماننے والوں کا مرتبہ فضل نے ابن محبوب سے انہوں نے عبداللہ بن سنان سے انہوں نے حضرت امام ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت رسول نے ارشاد فرمایا تم لوگوں کے بعد ایک قوم عنقریب پیدا ہو گی جس میں سے ایک شخص کو تم لوگوں کے پچاس اشخاص کے برابر ثواب ملے گا۔

لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم لوگ تو آپ کے ہمراہ بدر اور حنین کی جنگوں میں حصہ لیتے رہے ہیں اور ہمارے ہی زمانے میں آپ پر قرآن مجید بھی نازل ہواہے۔

آپ نے ارشاد فرمایا جتنی مصیبتیں وہ لوگ برداشت کریں گے اگر وہ مصائب تم پر پڑیں تو تم برداشت نہیں کر سکو گے۔(غیبت طوسی)

رشید ہجری کی روایت عثمان بن عیسیٰ نے ابو جارود سے انہوں نے قنوہ بنت رشید ہجری سے روایت کی ہے کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ اتنی سخت جدوجہد کیوں کر رہے رہےں کیا وجہ ہے؟

انہوں نے کہا بیٹی ہم لوگوں کے بعد ایک قوم آئے گی جن دینی بصیرت اگلے لوگوں کی جدوجہد سے افضل ہو گی فضل نے ابن ابو نجران سے انہوں نے محمد بن سنان سے انہوں نے خالد عاقولی سے روایت بیان کی ہے عاقولی نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے ایک حدیث کو نقل کیا ہے جس میں یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ۔

تم لوگ کیوں نگاہیں لڑائے ہوئے ہو؟ تمہیں اس قدر عجلت کی کیا ضرورت ہے؟ کیا تم لوگ امن و امان میں نہیں ہو؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنی ضرورت کے لیے نکلے تو پھر گھر واپس آجائے گا اسے راستے میں کوئی اچک لے گا جب کہ اس سے پہلے تو یہ حال تھا کہ تمہارے مذہب میں کوئی شخص گھر سے نکلتے ہی پکڑ لیا گیا پھر اس کے دونوں ہاتھ قطع کر دیئے جاتے دونوں پاوں کاٹ دیئے جاتے کھجور کے درخت پر اسے سولی دی جاتی اسے آری سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیئے جاتے اور اس غریب کو یہ بھی نہ بتایا جاتا کہ آخر اس کا جرم کیا ہے؟ پھر آپ علیہ السلام نے قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت فرمائی۔

ترجمہ: کیا تم گمان کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہو جاو گے حالانکہ تم پر وہ آزمائش نہیں آئیں جیسی کہ تم سے پہلے لوگوں پر وارد ہوئیں ان پر سختیاں اور تکالیف آئیں (جیسی کہ تم سے پہلے لوگوں پر وارد ہوئیں) اور وہ یہاں تک متزلزل ہوئے کہ رسول اور ان لوگوں نے جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کب آئے گی؟ آگاہ ہو جاو کہ اللہ کی مدد قریب ہے۔(غیبت طوسی)

معرفت امام زمانہ علیہ السلام ضروری ہے فضل نے ابن فضال سے انہوں نے ثعلبہ بن میمون سے روایت کی ہے انہوں نے کہا اپنے امام کی معرفت حاصل کرو اگر تم نے ان کی معرفت حاصل کر ل؛ی تو پھر ان دور حکومت پہلے آئے یا کچھ عرصے کے بعد اس میں کوئی ہرج نہیں واقع ہوتا اگر کسی نے اپنے امام کی معرفت حاصل کر لی اور امام کا عہد اقتدار دیکھنے سے پہلے ہی مر گیا اور اس کے بعد امام قائم علیہ السلام کا ظہور ہوا تو اس کو بھی اس شخص کے برابر ثواب ملے گا جو امام علیہ السلام کے ساتھ امام علیہ السلام کے خیمے میں رہتا ہے۔(غیبت طوسی)

معرفت امام علیہ السلام زمانہ کیوں ضروری ہے:

فضل نے ابن فضال سے انہوں نے مثنی حناط سے انہوں نے عبداللہ بن عجلان سے انہوں نے حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جس شخص نے امام قائم علیہ السلام کے امر کو پہچان لیا تو اگر وہ امام قائم علیہ السلام کے ظہور سے قبل ہی مر گیا تو اسے بھی ان کے ساتھ قتل ہونے والے شہداءکا درجہ ثواب ملے گا۔

جنگ نہروان میں امیر المومنینعلیہ السلام نے فرمایا:

محمد بن حسن بن شمون نے عبداللہ بن عمرو بن اشعث سے انہوں نے عبداللہ بن حماد انصاری سے انہوں نے صباح مزنی سے انہوں نے حارث بن حصیرہ سے انہوں نے حکم بن عینیہ سے روایت کی ہے ان کا بیان ہے کہ جب حضرت امیر المومنینعلیہ السلام نے یوم نہروان خوارج کو قتل کیا تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا یا امیر المومنینعلیہ السلام ! خوش نصیب ہیں ہم لوگ جو اس جنگ میں آپ علیہ السلام کے ساتھ رہے اور ہم نے آپ کی معیت میں ان خوارج کو قتل کیا امیر المومنینعلیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔

اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ہر زی حیات کو پیدا کیا ہم نے اس جنگ میں ایسے لوگوں کو بھی شریک ہوتے ہوئے دیکھا ہے کہ جن کے آباو و اجداد کو ابھی تک اللہ نے پیدا ہی نہیں کیا ہے اس شخص نے کہا وہ کیسے شریک معرکہ ہو سکتے ہیں جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں ؟

آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں ہاں وہ ایک قوم ہے جو آخری زمانے میں آئے گی اور ہماری اس جنگ میں شریک ہو گی ہمارے موقف کو تسلیم کرے گی اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس میں حقیقتاً وہ ہماری شریک ہو گی۔

ظہور میں تاخیر کا سبب تم لوگ ہو فضل بن ابی قرہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا آپ علیہ السلام نے فرمایا اللہ نے حضرت ابراہیمعلیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ تمہارے یہاں لڑکا پیدا ہو گا یہ بات انہوں نے اپنی زوجہ حضرت سارا کو بتائی تو انہوں نے کہا میں تو بوڑھی ہو چکی ہوں کیا اب میرا بچہ پیدا ہو گا تو اللہ تعالیٰ نے پھر وحی فرمائی کہ ہاں تمہارے یہاں لڑکا پیدا ہو گا اور اس کی اولاد چونکہ میرے کلام کو مسترد کر دے گی اس لیے چار سو سال تک معذب رہے گی۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا چنانچہ جب بنی اسرائیل پر عذاب ایک طویل عرصے تک ہو چکا تو وہ لوگ چالیس روز تک مسلسل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آہ و زاری کرتے اور روتے رہے اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰعلیہ السلام اور حضرت ہارون کی طرف وحی فرمائی کہ اچھا اب ان لوگوں کو فرعون کے عذاب سے نجات دلادو اور ان لوگوں کی آہ و زاری کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے عذاب کی موت میں ایک سو ستر سال کی کمی کر دی۔

پس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

بس ایسے ہی تم لوگ ہو اگر تم بھی ایسا ہی کرتے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرج اور کشادگی آجاتی مگر لوگوں نے ایسا نہیں کیا اس لیے وہ موت تو پوری ہو کر رہے گی۔(تفسیر عیاشی)

ایک آیت کی تفسیر محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

ترجمہ: کیا تم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے کہ جب ان سے کہا گیا کہ قتال سے ہاتھ روک لو اور نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو۔ اس میں امام علیہ السلام کی اطاعت ہے تو انہوں نے امام سے قتال و جدال کا مطالبہ کیا مگر جب حضرت امام حسین علیہ السلام کی معیت میں قتال کو ان پر فرض کیا گیا تو۔

(سورة النسائ)

ترجمہ: انہوں نے کہا اے ہمارے پروردگار! ہمارے لیے قتال و جدال کو ایک مدت قریب کے لیے موخر کر دے تو اس وقت ہم تیرے اس حکم قتال پر عمل کریں گے اور رسولوں کا اتباع کریں گے۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا: ان لوگوں کا مطلب یہ تھا کہ اس حکم کو امام قائم علیہ السلام کے عہلد تک کے لیے موخر کر دے۔(تفسیر عیاشی)

دور غیبت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے:

ابن عقدہ نے قاسم بن محمد بن الحسین بن حازم سے انہوں نے عباس ابن ہشام سے انہوں نے عبداللہ بن جبلہ سے انہوں نے علی بن حارث بن مغیرہ سے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے ان کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا فرزند رسول کیا کوئی ایسا دور فرت بظاہر خالی زمانہ از حجت الہیٰ بھی آئے گا کہ جس میں اہل اسلام اپنے امام کو نہ پہچان سکیں گے؟

آپ علیہ السلام نے فرمایا! ہاں یہ کہا جا سکتا ہے۔

میں نے عرض کیا پھر ایسے وقت میں ہم لوگ کیا کریں؟ جب ایسا ہو تو تم لوگ پہلے ہی آئمہ سے متمسک رہو جب تک کہ واضح نہ ہو جائے کہ ان کے بعد اب امام کون ہے محمد بن ہمام نے حمیری سے انہوں نے محمد بن عیسیٰ اور حسین بن طریق نے حماد بن عیسیٰ سے انہوں نے عبداللہ بن سنان سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور میرے والد دونوں حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:

تم لوگ اس وقت کیا کرو گے جب تم اس حال میں ہو گے کہ جب نہ ہدایت کرنے والا کوئی امام ہو گا اور نہ کوئی علم ہی ہو گا اور نہ تمہیں نجات کی کوئی راہ نظر آئے گی اور تم حیرت میں پڑے ہوئے ہو گے۔

۷

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۵-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

از:سید احمد علی شاہ رضوی

الحمد لله کما هو اهله والصلوٰة والسلام علیٰ خاتم النبیین ابی القاسم محمد واٰله الطاهرین ۔

امابعد!

وہ سعادت مند افراد جنہوں نے اپنی جبین نیاز اللہ کی آخری حجت کے آستانہ کی چوکھٹ پر خم کر دی ہے، جو آپ کے دستر خوان احسان کے خوشہ چین ہیں ، جو حضرت ولی العصرعلیہ السلام کے مبارک وجود کو تمام تر نعمات الہیہ اور فیوضات لا متناہیہ کا منبع سمجھتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں آپ علیہ السلام کی ذات با برکت کو وسیلہ قرار دیتے ہیں ان پر آپ علیہ السلام کی ذات گرامی کے حوالے سے کچھ فرائض بجا آوری لازم ہو جاتی ہے۔

اگر ہم اپنے آپ کو ان خوش قسمتوں کے دائرہ میں شامل گردانتے ہیں جنہوں نے اطاعت امام عصرعلیہ السلام کا جوا اپنی گردن میں ڈالا ہوا ہے تو ہمیں ان ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا لازم ہے جو آپ کی اطاعت و احترام کے حوالے سے ہم پر عائد ہوتی ہیں یہ ذمہ داریاں کتاب نجم الثاقب باب نمبر۰۱ سے اخذ کی گئی ہے جو کہ کل تعداد میں آٹھ ہیں ان کا مقصد بھی دینی و دنیاوی سرخوتی اور بارگاہ امام علیہ السلام میں قربت و باریابی اور آپ کی رضا و دعا حاصل کرنا ہے ساتھ ہی ساتھ دنیاوی مصائب و آفات سے آپ کے دامن میں پناہ حاصل کرنا ہے یہ دنیاوی آفات کچھ تو قلبی ہیں اور کچھ جسمانی، کچھ زبانی ہیں اور کچھ مالی پہلو رکھتی ہیں ان میں سے چند ایک آپ کے سامنے بیان کرنے کی سعادت حاصل کی جاتی ہے۔

پہلی ذمہ داری:

سب سے پہلی ذمہ داری ہے غیبت امام زمانہ علیہ السلام میں مغموم و محزون رہنا اور ہم کیوں نہ غمگین ہوں جب ہماری آنکھیں اس آفتاب عدالت اور نور ولایت کو دیکھنے سے قاصر ہوں کان ان کی شیریں آواز سننے کو ترس رہے ہوں دل ان کی جدائی و دوری سے بے تاب ہو اور آنجناب کے دیدار کا کوئی وسیلہ ہاتھ نہ آتا ہو ہمارے دل سوز جدائی سے تپاں ہوں جیسے محب اپنے محبوب کی جدائی میں گریاں ہوتا ہے کیونکہ رسول اکرم کا فرمان ہے جسے شیخ صدوق نے اور شیخ طوسی نے اپنی کتاب امالی میں نقل کیا ہے فرمایا کوئی شخص ایمان نہیں لایا جب تک میں اس کے جان سے زیادہ عزیز نہ ہو جاو اور میرے گھر والے اس کے گھر والے سے زیادہ عزیز نہ ہوں میری عترت اس کی عترت (یعنی اولاد) سے زیادہ محبوب نہ ہو اور میری ذات اس کی ذات سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے یہی بات امام حاضرعلیہ السلام پر بھی صادق آتی ہے ہر معرفت حق رکھنے والا شخص اس سلسلہ معظمہ علیہم السلام کے علاوہ کسی اور کو دنیا میں قابل محبت و ستائش نہ جانے گا اور کسی کو جانے تو وہ بھی اتنی معظم ہستیوں کی نسب کے حوالے سے۔

اگر کسی شخص نے حقیقتاً اپنے امام علیہ السلام کی محبت کا جام شیریں نوش کیا ہو اور دل سے رشد محبت کو آپ علیہ السلام کے ساتھ استوار کیا ہو تو اس قدر آپ علیہ السلام کی فرقت میں غمگین ہو گا کہ آنکھوں سے نیند دل سے قرار اور خورد نوش سے لذت جاتی رہے گی اس غم کا کیا بیان ہو کہ وہ با جلالت و عظمت ہستی جو منبع ہے تمام تر رافت و لطف و احسان کا مگر حجاب الہیٰ میں اس طرح پوشیدہ ہے کہ نہیں جانتے کہ دست طلب ان تک کیسے پہنچے؟ یہ آنکھیں ان کے جمال سے کیسے سیراب ہوں؟ نہ ان کے پایہ تخت ولایت کا کوئی پناہ نہ ان کے مسکن با شرافت کی کوئی خبر ہر کس و ناکس کو یہ آنکھیں دیکھتی ہیں سوائے اس ہستی کے جس کے سوا کسی کو دیکھنا نہیں چاہتیں ہر لغو و نا پسندیدہ بات کو کان سنتے ہیں سوائے اس کی آواز کے جس کے سوا کچھ سننا نہیں چاہتے۔

غمزدہ ہونے کے لیے یہ کیا کم ہے کہ وہ خلعت خلافت و ولایت و سلطنت جو آپ علیہ السلام کے قامت زیبا کے لیے تیار کی گئی تھی آپ علیہ السلام ہی کو اس سے محروم رکھا گیا ہے اور وہ لوگ اس کو پہنتے ہیں جو ظالم و جابر فاسق و گنہگار حدود سے تجاوز کرنے والے اور ہر طرح کی معصیت میں گرفتار ہیں یہ غم بھی کمر توڑ دینے والا ہے کہ راہ مستقیم کی طرف ہدایت نا ممکن و مشکل ہو چکی ہے آپ علیہ السلام کے حد تک پہنچنے والی تاریک راہوں میں چور کمین گاہوں میں چھپے بیٹھے ہیں اور مسلسل شکوک و شبہات کو لوگوں کے دلوں میں پیدا کر رہے ہیں اور شیعیان اہلبیتعلیہ السلام کی جو مختصر جماعت رہ گئی وہ ایک دوسرے کے درپئے آزار ہے لوگ مسلسل دین خدا کو چھوڑ کر جا رہے ہیں اور علمائے حق بے بس دیکھ رہے ہیں اور اپنے علم کے اظہار سے عاجز ہیں ۔

امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت پر امام جعفر صادق علیہ السلام بھی محزون و غمگین ہیں :

کتاب ینابیع المودة میں ص۴۵۴ پر شیخ سلیمان قندوزی حنفی رقمطراز ہے کہ سدیر الصیرفی کا بیان ہے میں مفضل بن عمر ابوبصیر اور ابان بن تقلب حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا حضرتعلیہ السلام زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں اور بہت رو رہے ہیں اور فرما رہے ہیں میرے سردار! آپ کی غیبت نے میری نیند اُڑادی ہے اور دل کا چین چھین لیا ہے۔

فضل بن روز بیان شافعی نے اپنی کتاب وسیلة النحارم الی المخدوم فارسی کی آخر فصل ص۴۹۲ پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کی طویل غیبت پر رنج و غم بھرے اشعار لکھتے ہیں جو واقعاً پڑھنے اور سننے کے قابل ہیں ہم یہاں اختصاراً دو شعر کا ذکر کرتے ہیں ۔(تفصیل کے لیے کتاب ھذا کی طرف رجوع کریں)۔

۱۔ می فزاید مہر اوھر روز در خاطر را

گرچہ من کاھیدہ ام از دردمی کا ھم ھنوز

۲۔ انتظار شاہ مہدی علیہ السلام می کشد عمری این

رفت عمر و در امید طلعت شاہم حنوز

ترجمہ: ۱۔ہر روز میرے دل میں اس کی محبت بڑھتی ہی جاتی ہے

اگرچہ درد جدائی نے مجھے مضمعل اور توڑ دیا ہے

۲۔ شاہ مہدی علیہ السلام کا انتظار زندگی بھر کیا عمر

عمر گزر گئی لیکن اب بھی اپنے بادشاہ کو جلوہ افروز ہونے کا منتظر ہوں۔

دوسری ذمہ داری:

غیبت امام علیہ السلام میں ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ جو قلبی ہے یعنی انتظار فرج آل محمد جو ہر لمحہ، ہر پل پر محیط ہے امام علیہ السلام کے ظہور کا انتظار ان کے خلافت سلطنت پر متمکن ہونے کا انتظار زمین میں عدل و انصاف قائم ہونے کا انتظار دین الہیٰ کے کل ادیان پر غالب ہونے کا انتظار جس کی خبر خود اللہ سبحانہ نے نبی اکرم کو دی اور یہ وعدہ فرمایا کہ ایک روز آئے گا جب اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے گی اور دین میں سے کوئی چیز پردہ میں نہ رہے گی اور حق کے پروانوں سے رنج و الم و بلا دور کر دی جائے گی۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ”جو شخص چاہے کہ حجت آخرعلیہ السلام کے اصحاب میں شامل ہو اسے چاہیے کہ ہر لمحہ انتظار کرے اور تقویٰ اور حسن اخلاق کے ساتھ عمل کرتا رہے اسی انتظار کی حالت میں اگر مر جائے اور ہماری حجت قائم علیہ السلام اس کے مرنے کے بعد ظہورکریں تو اس شخص کے لیے ویسا ہی اجر ہے جیسا اس شخص کے جو امام علیہ السلام آخر کو پا لے “۔

حضرت امام رضعلیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ ”میری امت کے لیے بہتر عمل انتظار فرج ہے“۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ”ہمارے امر کا انتظار اس طرح ہے جو راہ خدا میں خون میں غلطان ہو“۔

شیخ صدوق کمال الدین میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ دین آئمہ علیہم السلام تقویٰ، عفت و پاکدامنی، نیک عمل اور فرج آل محمد کا انتظار کرنا ہے۔

کتاب السنن ترمذی باب نمبر ۶۱۱ میں جناب عبداللہ بن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت رسول خدا نے فرمایا خدا سے اس کے کرم کا سوال کرو، خدا چاہتا ہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور سب سے برتر عبادت ظہور کا انتظار ہے۔

ابو بصیر کا بیان ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا اے ابو بصیر! جنت کی بشارت ہے ہمارے قائم علیہ السلام کے چاہنے والوں، غیبت میں ان کے ظہور کا انتظار کرنے والوں اور ظہور کے وقت ان کی اطاعت کرنے والوں کے لیے۔(ینابیع المودة ج۳ ص۶۶)

تیسری ذمہ داری:

غیبت امام زمانہ علیہ السلام میں ہماری تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم یوسف زہراء علیہا السلام امام زمانہ علیہ السلام کے لیے دعا کریں امام علیہ السلام کی سلامتی کی دعا کریں امام علیہ السلام کی سلامتی کی دعا، ہر شر سے نجات کی دعا، تمام شیاطین جن و انس سے حفاظت کی دعا اور سب سے بڑھ کر جناب کی نصرت و اعداءپر غلبہ کی تعجیل فرج کی دعا ہے دعا تو ہمارا اپنے رب کے ساتھ اہم ترین رابطہ ہے خصوصاً اپنے دینی بھائیوں کے لیے دعا کی بہت تاکید کی گئی ہے اس کی ترغیب اور تشویق دلائی گئی ہے جب اپنے دینی برادران کے لیے دعا کی اتنی فضیلت ہے تو پھر زمین پر اس حجت خدا اور سبب ہدایت و وجہ تخلیق کائنات کے لیے دعا کرنا جس فضیلت کا حامل ہو سکتا ہے اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے امام عالی مقامعلیہ السلام کے لیے دعا آپ کی بزرگی اور جلالت کے بموجب ہم پر آپ کا ایک حق ہے جس کی ادائیگی ہماری آپ سے محبت و عقیدت کا ثبوت ہے۔

جب ہم دعا کرتے ہیں تو اپنے پیاروں اور عزیزوں کے لیے دعا کرتے ہیں اسی طرح چاہیے کہ آنحضرت کے لیے دعا کو مقدم کریں اور پہلے آنجناب کی سلامتی اور فوج کے لیے دعا کریں اور پھر آپ کے وسیلے سے اپنی حاجات پیش کریں ایک طرف تو اس سے بندگی اور محبت کا حق ادا ہو گا آپ کے جو عظیم احسان ہم پر ہیں ان کا شکر ادا ہو اور امید ہے کہ قبول دعا کے لیے وہ دروازے جو ہم اپنے گناہوں کے سبب بند کر چکے ہیں اپنے مولا علیہ السلام کے لیے دعا کرنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ ان دروازوں کو ہم پر کھول دے اور آپ کے وجد پر نور کی برکت سے ہمار دعائیں مستجاب ہو جائیں۔

یہ بات نہیں کہ ہمارے آقا و مولا علیہ السلام ہماری دعاوں کے حاجتمند ہیں بلکہ یہ ہماری عقیدت اور محبت کا تقاضا ہے اور ہماری دعاوں کی قبولیت کا باعث بھی ہے۔

پس چاہیے کہ آپ علیہ السلام کی ذات بابرکت کو اپنے نفس پر مقدم کریں اور پہلے آنجناب اور پھر اپنی ذات اور حاجات کے لےے دعا کریں آپ علیہ السلام ذات اور ظہور با برکت کے لیے بہت سی دعائیں وارد ہوئی ہیں وقتاً فوقتاً انہیں بھی پڑھتے رہنا چاہیے جو بہت زیادہ عظیم معنوی و دنیاوی فیوض و برکات کی حامل ہیں ۔

چوتھی ذمہ داری:

ہماری چوتھی ذمہ داری یہ ہے کہ امام علیہ السلام کے لیے صدقہ دیں آپ علیہ السلام کی حفاظت و سلامتی کی خاطر روزانہ جو کچھ میسر ہو اس میں صدقہ نکالنا بھی ہماری محبت و عقیدت کا تقاضا ہے صدقہ کئی ایک مقاصد سے نکالا جاتا ہے اپنے عزیزوں کی سلامتی و حفاظت کے لیے اپنی ذات کی سلامتی کے لیے اس کے علاوہ سفر میں یا مرض میں سلامتی کے لیے غرض جو جتنا بھی عزیز ہو تو وہ ہستی جو ہر چیز سے زیادہ محبوب و عزیز ہے زیادہ حقدار ہے کہ اس کی سلامتی و حفاظت کے لیے صدقہ دیں چاہے کم ہو یا زیادہ۔

اس میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ہمارے مولا علیہ السلام و آقا علیہ السلام ہمارے صدقہ (ان کی ذات کے لیے) دینے کے حاجت مند نہیں ہی مگر یہ خیال ہمیں اس عمل نیک سے باز نہ رکھے ہم خود حاجتمند ہیں کہ آپ کی حفظ و سلامتی کو اپنے اور اپنے عزیزوں کی سلامتی پر مقدم کریں تا کہ اللہ سبحانہ آنجناب کو ہر شر جن و انس اور مصائب ارضی و سماوی سے محفوظ رکھے۔

روایات میں آیا ہے حضرت رسولخدا اور آئمہ طاہرینعلیہ السلام اپنے وجود مقدس کو آفات ارضی و سماوی سے اور جن و انس بلات سے محفوظ رکھنے کے لیے اور دنیا و اخروی نفع کے لیے صبح و شام، آدھی رات اور سفر سے پہلے اور ان کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر صدقہ دیاکرتے تھے اور اس کا خاص اہتمام کرتے تھے چنانچہ کلمہ طیبہ میں ذکر ہوا ہے کہ تمام آئمہ معصومین علیہ السلام حوادث و واقعات وبلایا کے لےے ایک دوسرے کے لیے صدقہ دیا کرتے تھے چنانچہ اس میں کوئی فرق نہیں کہ آپ حضراتعلیہ السلام خود صدقہ دیں یا آپ علیہ السلام کی امت اور پیروکاروں میں سے کوئی بلاوں اور آفات کو ان کے وجود اقدس سے دور کرنے کے لیے صدقہ دیں بلکہ یہ ہمارے دلوں میں ان کے لیے موجود محبت و عقیدت اور عزت و احترام کا ثبوت ہے اور ان حضرات کے ہم پر احسان و اکرام اور لطف و عنایت کا شکر نہ ہے بالکل جیسا کہ دعا کے بارے میں ہے۔

پانچویں ذمہ داری:

پانچویں ذمہ داری بہت اہم ہے ہمیں چاہےے کہ زمانہ غیبت کے ان اندھیروں میں خدائے تعالیٰ کے حضور تضرع اور زاری اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے دعا کریں جو کفارہ زناد دیق ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور یہ طویل ترین غیبت بعض مومنوں کے دل میں شک و شبہ کا بیج بو رہی ہے اس صورتحال میں خدا سے ہر وقت ایمان پر برقرار رہنے کی اور دین پر ثابت قدم رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہیے اس مقصد کے لیے بہت سی دعائیں روایات میں آئمہ معصومین علیہ السلام سے وارد ہوئی ہیں شیخ نعمانی نے غیبت میں اور کلینی نے کافی میں مختلف اسناد سے زرارہ سے روایت کی ہے اس نے کہا کہ میں ابوعبداللہ علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا خلاصہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا غیبت ہمارے منتظر کی طولانی ہوگی یہاں تک کہ لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کے شبہات میں پڑ جائیں گے اور اس کے ذریعے سے خدا ہمارے شیعوں کے قلوب کی آزمائش کرے گا۔

زرارہ کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا میں آپ علیہ السلام پر قربان ہو جاوں اگر میں اس زمانے کو پالوں تو کیا عمل کروں آپ علیہ السلام نے فرمایا اے زرارہ اگر تو اس زمانے کو پالے تو اس دعا کو پڑھا کرو۔

اللهم عرفنی نفسک........ضللت عن دینی ۔

شیخ صدوق نے کمال الدین میں عبداللہ بن سنان سے روایت کی ہے کہ ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا جلد ہی تم لوگ شبہہ میں پڑ جاو گے بغیر کسی رہنما و پیشوا اور مقصد کی طرف ہدایت کرنے والے کے ار اس شبہہ سے نجات صرف وہی پا سکے گا جو دعائے غریق کو پڑھتا رہے میں نے عرض کیا کہ یہ دعائے غریق کس طرح ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:

یاالله یارحمن یا رحیم یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک ۔

چھٹی ذمہ داری:

چھٹی ذمہ داری یہ ہے کہ امام علیہ السلام کی نیابت میں حج کرنا اور حج کروانا ہے چنانچہ پرانے زمانے میں شیعیان اہلبیتعلیہ السلام کے درمیان رائج تھا خود بھی امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں حج کرتے تھے اور قسم دے کر دوسروں سے حج کرواتے تھے۔

ساتویں ذمہ داری:

ساتویں ذمہ داری یہ ہے کہ آنحضرت کا مخصوص نام مبارک ”قائم علیہ السلام “ مہدی علیہ السلام ، حجتعلیہ السلام سنیں تو تعظیم کے لےے کھڑے ہو جائیں روایت میں ہے ایک روز امام جعفر صادق علیہ السلام تشریف فرما تھے کہ آپ علیہ السلام کی مجلس میں یہ نام مبارک ذکر کیا گیا پس آپ علیہ السلام اس کے احترام و تعظیم میں کھڑے ہو گئے۔

اسی ذمہ داری کا ایک فرع ہے کہ امام عالی مقام کا نام نہیں لینا چاہیے جیسا کہ کتاب وسیلة النجاة (مطبوعہ لکھنو) کے ص۶۱۴ پر مولوی محمد حسین نے امام رضعلیہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے امام رضعلیہ السلام سے دریافت کیا کہ آپ علیہ السلام کے قائم علیہ السلام کا نام کیا ہے؟ امام علیہ السلام نے جواب فرمایا: ان کی ولادت پہلے نام لینے کی اجازت نہیں ۔

نام لینے کی ممانعت غیبت کے ابتدائی دنوں سے متعلق ہے اس کی وجہ وہ زبرت خطرات تھے جو حضرت کے چاروں طرف منڈلا رہے تھے اس بناءپر ممانعت کا تعلق اگرچہ بظاہر اس زمانے سے نہیں ہے لیکن پھر بھی نام نہ لینا بہتر ہے اور القاب سے یاد کرنا زیادہ بہتر ہے اور حضرتعلیہ السلام کا نام وہی ہے جو حضرت رسول خدا کا اسم گرامی ہے۔

آٹھویں ذمہ داری:

امام زمانہ علیہ السلام کے شیعہ و پیروکار ہونے کے حوالے سے یہ بھی ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان سے استمداد و استعانت طلب کریں مصائب و آلام و شدائد، بیماریوں اور شک و شبہات کے فتنہ سے حفاظت کے لیے آپ کی بارگاہ میں استفات کریں ضروری ہے کہ ہم اعتقاد رکھیں کہ آپ علیہ السلام ہمارے لیے ہر طرح کی خیر و برکت کا وسیلہ ہےں ہماری حاجات برلانے اور مشکل کشائی کے لیے اللہ کی طرف سے مامور ہیں لہذا آپ علیہ السلام سے حاجت و مشکل کشائی طلب کریں روایات بتاتی ہیں کہ قدیم زمانے سے لوگ آپ علیہ السلام کے وجود اقدس سے طلب استمداد کرتے رہے ہیں اور آپ کے وجود پر نور سے رہنمائی پاتے رہے ہیں اور آپ علیہ السلام کے فیوض و برکات کا چشمہ آج تک جاری و ساری ہے اس لیے روایات میں آپ علیہ السلام کے وجود کو سوچ سے تشبیہہ دی گئی ہے جو بادلوں میں چھپا ہوا ہو مگر اس کے باوجود خلق خدا اس سوچ سے فائدہ اُٹھاتی ہے اور اس کے فیوض و برکات جاری رہتے ہیں ۔خلاصہ کلام (یہاں تک جو کچھ میں نے تحریر کیا)

یہ ہے کہ ہم شیعہ حیدر کرارعلیہ السلام ہونے کے حوالے سے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم امام علیہ السلام کی غیبت میں محزون و مغموم ہوں اپنے دین کی اور ایمان کی حفاظت کے لیے خدا کے حضور دعاگو ہوں امام کی نیابت میں حج کریں یا حج کرائیں امام کے لیے صدقہ دیں امام علیہ السلام کی سلامتی کے لیے دعا کریں، امام علیہ السلام کے نام مبارک نہ لیں اور اس سنیں تو تعظیما کھڑے ہوں کا انتظار کریں انتظار بھی وہ انتظار جس کے لیے کہا گیا ہے ”الانتظار اشد من الاحتضار

آخر میں دعاگو ہوں کہ خدایا! ہم سب کو ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما۔

اللهم عجل فرجه الشریف و سهل فخرجه الشریف

اللهم کن لولیک الحجة بن الحسنعلیه السلام صلوٰتک علیه و علیٰ آبائه فی هذا الساعة و فی کل ساعة ولیا و حافظاً و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتیٰ تسکنه و ارضک طوعا و تمتعه فیها طویلا

۸

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۶-امام زمانہ علیہ السلام کے زمانہ غیبت کبریٰ میں ہماری ذمہ داریاں

از: ملک غلام حسنین مونڈ پپلاں

دور حاضر جو کہ غیبت امام زمانہ علیہ السلام کا دور ہے اس میں جہاں ہم منتظر امام زمانہ علیہ السلام ہیں وہاں ہماری کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں ۔

۱۔ صاحب الامرعلیہ السلام کی مظلومیت اور ان سے دوری پر گریہ و زاری کرنا۔

۲۔ صاحب الامرعلیہ السلام کے ظہور اور آپ کی فرج و فتح کا انتظار کرنا ایک بہترین عمل ہے۔

۳۔ صاحب الامرعلیہ السلام کے بارے میں یہ کہنا کہ ابھی تک ظہور کیوں نہیں ہوا اب ہو جانا چاہیے تھا یہ تو زیادتی ہے وغیرہ اس قسم کے پر شکوہ جملے زبان پر نہیں لانے چاہیں ۔

۴۔ صاحب الامرعلیہ السلام کی غیبت کے دور میں اپنے مال سے مولا علیہ السلام کی طرف سے اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرتے رہنا حضرت اما جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جو شخص ہمارے قائم علیہ السلام کے لیے ایک درہم خرچ کرے گا خداوند تعالیٰ بہشت میں احد کے پہاڑ کے برابر بدلہ دے گا۔

۵۔ آپ علیہ السلام کی سلامتی کے لیے صدقہ ظہور کی دعا آپ علیہ السلام کی صفات کو جاننا ہر حالت میں امام زمانہ علیہ السلام کی نصرت و مدد کرنا اپنے گناہوں پر پیشمان ہونا دین حق پر ثابت رہنے کی دعا کرنا۔

۶۔ اگر صاحب استطاعت ہوتو عید قربان کے موقع پر امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے قربانی کرنا۔

۷۔ امام زمانہ علیہ السلام کا نام اور کنیت جناب رسول خدا کے مطابق ہے اس سے احتراماً نام نہیں بلکہ القاب سے یاد کرنا چاہیے مثلا حجت خدعلیہ السلام یا قائم آل محمد یا مہدی علیہ السلام یا صاحب الزمانعلیہ السلام ۔

۸۔ جب حضرتعلیہ السلام کا نام لیا جائے تو احتراماً کھڑا ہو جانا چاہےے خاص طور پر جب یا قائم کا لقب پکارا جائے تو استقبال کھڑے ہو کر یہ سنت آئمہ اطہارعلیہ السلام ہے۔

۹۔ حضرتعلیہ السلام کی مدد و نصرت کے لیے ہمہ وقت تیار رہے اور سامان جنگ موجود رکھے اگرچہ ایک تیر ہی کیوں نہ ہو اگر اسی انتظار میں جو شخص مر جائے اللہ تعالیٰ اسے امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھیوں میں شمار کرے گا۔

۱۰۔ مشکلات میں اپنی دعاوں میں وسیلہ جناب قائم آل محمد کو قرار دیں۔

۱۱۔ دین آل محمد پر مضبوطی سے ثابت قدم رہیں کافروں کے پروپیگنڈوں کا شکار نہ ہوں جب تک سفیانی کا خروج نہ ہو گا اور آسمانی آواز نہیں آئے گی مول علیہ السلام کا ظہور نہیں ہو گا اس لیے اطمینان کے ساتھ انتظار کریں۔

۱۲۔ دنیاداروں سے میل جول بہت کم رکھے اور زبان کو لغویات سے بچائے۔

۱۳۔ صاحب الامرعلیہ السلام کی ذات با برکت پر درود و سلام ہمہ وقت بھیجے۔

۱۴۔ صاحب الامرعلیہ السلام کی خدمت میں نیک اعمال بطور ہدیہ پیش کرنا مثلاً تلاوت کلام پاک نبی اکرم اور آئمہ اطہارعلیہ السلام کی زیارت، حج و عمرہ کرنا، مجلس برپا کرنا سب اعمال خوشنودی امام زمانہ علیہ السلام باعث ہیں ۔

۱۵۔ امام زمانہ علیہ السلام کی تعجیل کی دعا ہر وقت مانگنا خصوصاً دعا فرج۔

۱۶۔ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی راہنمائی کریں انہیں گمراہی سے بچائیں حدیث میں ہے جو شخص ہمارے ماننے والوں کے دلوں کو مضبوط کرے گا۔(یعنی ان کے شکوک و شبہات کو دور کرے گا) وہ ایک ہزار عبادت گزاروں سے بہتر ہے۔

۱۷۔ امام زمانہ علیہ السلام کی خاطر دوستی یا دشمنی رکھنا۔

۱۸۔ بارگاہ رب العزت میں دعا کرنا کہ مجھے انصار و معاونین امام زمانہ علیہ السلام میں قرار دے اپنے اندر وہ صفات پیدا کرنا۔

۱۹۔ امام زمانہ علیہ السلام سے تجدید عہد کرنا جب بھی تنہائی میں موقعہ ملے اپنے آپ کو امام زمانہ علیہ السلام کے حضور پیش کرے اور بیعت کی نیت سے ایک ہاتھ دوسرے کے اوپر رکھ کر امام زمانہ علیہ السلام کی مخصوص دعائیں جو مفاتیح الجنان میں پڑھے صبح کی نماز کے بعد اگر یہ عہد نامہ پڑھا جائے تو بہتر ہو گا۔

۲۰۔ جناب امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں اگر کوئی ہمارے قائم کی غیبت میں (امامت کا) دعویٰ کرے تو اس سے ایسے سوال کرو جن کا تعلق امام زمانہ علیہ السلام سے ہو مثلاً حیوانات سے بات کرنا، نباتات و جمادات سے بات کرنا وغیرہ۔

۲۱۔ اگر کوئی شخص غیبت کبریٰ میں امام زمانہ علیہ السلام کا نائب خصوصی کہلائے تو اسے جھٹلا دو۔

۲۲۔ جو شخص ظہور کے وقت کا تعین کرے اسے جھٹلا دو۔

۲۳۔ دشمن سے آگاہ رہو خصوصاً جب انقلاب امام زمانہ علیہ السلام کے لیے کام کرو تو اپنے معاملات کو مخفی رکھو۔

۲۴۔ گناہوں سے توبہ کرنا اور اسلام احکام پر سختی سے کاربند رہے۔

۲۵۔ ہمیشہ خالق اکبر سے دعا گو رہنا کہ خدایا مجھے ایمان کی حالت میں حضرت قائم علیہ السلام کی ملاقات نصیب فرما کیونکہ جب ظہور فرمائیں گے تو خدا کا غضب بن کر آئیں گے۔

۲۶۔ امام زمانہ علیہ السلام کا جو مالی حق ہے خمس و زکوٰة ادا کرتے رہنا۔

۲۷۔ اپنی اولاد اپنی گفتگو دوست احباب میں زیادہ سے زیادہ ذکر امام صاحب الزمانعلیہ السلام کا کیا جائے۔(ماخوذ طلوع شمس امامت)

دعائے ندبہ پڑھی جائے یہ امام زمانہ علیہ السلام کے فراق میں تڑپنے والے دلوں کا نوحہ ہے صبح جمعہ اس کی تلاوت با ترجمہ کی جائے چند جملے پیش خدمت ہیں ۔

کیا عجب انداز ہے عاشقان امام زمانہ علیہ السلام کا۔

کہاں ہے خاندان عترتعلیہ السلام کا ذخیرہ الہیٰ کہ جس سے زمین کبھی خالی نہیں رہتی؟ کہا ہے وہ بزرگوار کہ جو آکر کجیوں اور نقائص کی اصلاح کریں۔

کہاں ہے وہ کہ جو ملت و شریعت کو پلٹانے کے لیے انتخاب کیا گیا ہے؟ اور کہاں ہے ظالموں اور جابروں کی شان و شوکت کو درہم برہم کر دینے والا؟ کہاں ہے وہ فاسقوں باغیوں اور گناہگاروں کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے والا؟ کہاں ہے وہ سر کشوں اور جباروں کو بالود کر دینے والا؟ کہاں ہے وہ زمین و آسمان کے درمیان موجود نہ ٹوٹنے والا بندھن؟ کہاں ہے وہ انبیاءو فرزندان انبیاءکے خون کا بدلہ لینے والا اور کہاں ہے وہ مقتول کربلا کے خون کا انتقام لینے والا؟

اور کہاں ہے وہ فرزند نبی مصطفی کہاں ہے وہ دل بند علی مرتضیٰ علیہ السلام کہاں ہے وہ جگر گوشہ خدیجة الکبریٰعلیہ السلام کہاں ہے وہ نور عین فاطمہ کبریٰعلیہ السلام اے نجیب و بزرگوار ہستیوں کی یادگار اے طیبینعلیہ السلام و طاہرینعلیہ السلام کے فرزند اے کاش جان سکتا کہ کس مقام پر آپ کے دیدار سے مضطرب دل قرار پاتے ہیں ؟ وہ کون سی سر زمین ہے جو آپ کے وجود سے سر فراز ہے؟

کس قدرگراں ہے مجھ پر کہ یہ بد قسمت آنکھیں ساری خلقت کا تو مشاہدہ کریں لیکن تیرے دیدار سے محروم رہیں میری جان آپ پر قربان آپ وہ غائب ہیں کہ جس سے ہمارا وجود خالی نہیں اے میرے مولا علیہ السلام کب تک آپ کے فراق میں تڑپتے رہیں ؟ کس قدر گراں ہے مجھ پر کہ تیرے غیر سے ضواب سنوں اور تیری گفتار سے محروم رہوں کس قدر سخت ہے میرے لیے یہ برداشت کرنا کہ سارے مصائب تجھ پر نازل ہوں اور دوسرے محفوظ ہوں مولا علیہ السلام وہ وقت کب آئے گا کہ جب تیری ہدایت کے سر چشموں سے سیراب ہو سکیں؟ آیا کوئی ہے تیری یاد میں آہ و زاری کرنے والا کہ جس کے ساتھ مل کر آہ و زاری کر سکوں آیا کوئی ایسی چشم اشک بار ہے کہ میری آنکھوں کا ساتھ دے سکے؟ مولا علیہ السلام کب اور کس وقت آپ کے چشمہ شیریں سے سیراب ہو سکیں گے پیاس تو بہت طولانی ہو چکی ہے۔

وہ صبح و شام کب ہو گی؟ کہ جب ہماری آنکھیں آپ کے جمال سے ٹھنڈک پا سکیں اور ہم آپ کے ارد گرد حلقہ بگوش ہوں گے جب کہ آپ زمین کو عدل و انصاف سے پر ہوں گے اور اپنے دشمنوں کو عذاب کا مزا چکھا چکے ہوں گے۔

پھر خداوندکریم سے یوں التجا کرنا چاہیے۔

اے عظیم قدرت کے مالک اس بندہ کو اس کے مولا علیہ السلام کا دیدار کرا دے اور اس کے قلب میں موجود سوز فراق کو طراوت و اطمینان میں تبدیل کر دے۔

بارالہٰا: ہم تیرے ناچیز بندے تیرے اس ولی کی زیارت کے مشتاق ہیں کہ جو تیری و تیرے رسول کی یاد تازہ کرتا ہے جسے تو نے ہم پر اور دوسرے مومنین پر امام علیہ السلام اور رہبر بنایا ہے۔

۹

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۷-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

از:سید محمد عباس نقوی

مشہور حدیث کی روسے وقت کے امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت از حد لازم ہے فقط حسب و نسب سے واقفیت اور انہیں امام بر حق تسلیم کرنا ہی معرفت امام زمانہ علیہ السلام نہیں ہے ہم جو امام زمانہ علیہ السلام کے پیروکار ہیں اور خود کو منتظر امام زمانہ علیہ السلام کہتے ہیں ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں کیا ہمیں امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت حاصل ہے۔

زمانہ غیبت میں ہماری چند ذمہ داریاں:

صاحب الامرعلیہ السلام کی مظلومیت اور ان سے دوری پر گری و زاری کرنا۔

صاحب الامرعلیہ السلام کے ظہور کی فرج و فتح کا انتظار کرنا ایک بہترین عمل ہے۔

صاحب الامرعلیہ السلام کے بارے یہ کہنا کہ ابھی تک ظہور کیوں نہیں ہوا یا اب ہوجانا چاہیے تھا یہ تو زیادتی ہے وغیرہ اس قسم کے پر شکوہ جملے زبان پر نہیں لانے چاہیں ۔

صاحب الامرعلیہ السلام کی غیبت کے دور میں اپنے مال سے مولا علیہ السلام کی طرف سے اللہ کی راہ میں زیادہ صدقہ و خیرات کرتے رہنا حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا جو شخص ہمارے قائم علیہ السلام کے لیے ایک درہم خرچ کرے گا خداوند تعالیٰ بہشت میں احد کے پہاڑ کے برابر بدلہ دے گا۔

آپ علیہ السلام کی سلامتی کے لیے صدقہ ظہور کی دعا آپ علیہ السلام کی صفات کا ماننا ہر حالت میں امام زمانہ علیہ السلام کی نصرت ومدد کرنا اپنے گناہوں پر پیشمان ہونا دین حق پر ثابت رہنے کی دعا کرنا۔

اگر صاحب استطاعت ہو ت عید قربان کے موقع پر امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے قربانی کرنا۔

امام زمانہ علیہ السلام کا نام اور کنیت رسول خدا کے مطابق ہے اس لیے احتراماً نام نہیں بلکہ القاب سے یاد کرنا چاہےے مثلاً حجت خدا یا قائم آل محمد یا منتظر یا مہدی علیہ السلام یا صاحب الزمانعلیہ السلام ۔

جب حضرت کا نام لیا جائے تو احتراماً کھڑا ہو جانا چاہیے خاص طور پر جب ی قائم علیہ السلام کا لقب پکارا جائے تو استقبال کھڑے ہو کر کرے یہ سنت آئمہ اطہارعلیہ السلام ہے۔

حضرت کی مدد نصرت کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے اور سامان جنگ موجود رکھے اگرچہ ایک تیر ہی کیوں نہ ہو اگر اسی انتظار میں جو شخص مر جائے گا اللہ تعالیٰ اسے امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھیوں میں شمار کرے گا۔

مشکلات اپنی دعاوں میں وسیلہ جناب قائم آل محمد کو قرار دیں۔

دین آل محمد پر مضبوطی سے ثابت قدم رہیں کافروں کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں جب تک سفیانی کا خروج نہیں ہو گا اور آسمانی آواز نہیں آئے گی مولا علیہ السلام کا ظہور نہیں ہو گا اس لیے کہ اطمینان کے ساتھ انتظار کریں۔

دنیاداروں سے میل جول بہت کم رکھے اور زبان کو لغویات سے بچائے۔

صاحب الامرعلیہ السلام کی ذات با برکت پر درود و سلام ہمہ وقت بھیجے۔

صاحب الامرعلیہ السلام کی خدمت میں نیک اعمال بطور ہدیہ پیش کرنا مثلاً تلاوت کلام پاک نوافل نبی اکرم اور آئمہ اطہارعلیہ السلام کی زیارت، حج و عمرہ کرنا مجلس عزا برپا کرنا سب اعمال جو خوشنودی امام زمانہ علیہ السلام کا باعث ہیں ۔

امام زمانہ علیہ السلام کی تعجیل کی دعاہر وقت مانگنا خصوصاً، دعا فرج۔

علماءکرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی راہنمائی کریں انہیں گمراہی سے بچائیں حدیث میں ہے جو شخص ہمارے ماننے والوں کے دلوں کو مضبوط کرے گا (یعنی ان کے شکوک و شبہات کو دور کرے گا) وہ ایک ہزار عبادت گزاروں سے بہتر ہے۔

امام زمانہ علیہ السلام کی خاطر دوستی یا دشمنی رکھنا۔

بارگاہ رب العزت میں دعا کرنا مجھے انصار و معاونین امام زمانہ علیہ السلام میں قرار دے اپنے اندر وہ صفات پیدا کرنا۔

امام زمانہ علیہ السلام سے تجدید عہد کرنا جب بھی تنہائی میں موقعہ ملے اپنے آپ کو امام زمانہ علیہ السلام کے حضور پیش کرے اور بیعت کی نیت سے ایک ہاتھ دوسرے کے اوپر رکھ کر امام زمانہ علیہ السلام کی مخصوص دعائیں جو مفاتیح الجنان میں موجود ہےں پڑھے صبح کی نماز کے بعد اگر عہد نامہ پڑھا جائے تو بہتر ہو گا۔

جناب امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں اگر کوئی ہمارے قائم کی غیبت میں (امامت کا)دعویٰ کرے تو اس سے ایسے سوال کرو جن کا تعلق امام زمانہ علیہ السلام سے ہو۔

مثلاً حیوانات سے بات کرنا، نباتات، جمادات سے بات کرنا وغیرہ۔

اگر کوئی شخص غیبت کبریٰ میں امام زمانہ علیہ السلام کا نائب خصوصی کہلائے تو اسے جھٹلا دو۔

جو شخص ظہور کے وقت کا تعین کرے اسے جھٹلا دو۔

دشمن سے آگاہ رہو خصوصاً جب انقلاب امام زمانہ علیہ السلام کے لیے کام کرو تو اپنے معاملات کو مخفی رکھو۔

گناہوں سے توبہ کرنا اور اسلامی احکام پر سختی سے کاربند رہنا۔

ہمیشہ خالق اکبر سے دعا گو رہنا کہ خدایا مجھے ایمان کی حالت میں حضرت قائم علیہ السلام کی ملاقات نصیب فرما۔کیونکہ جب ظہور فرمائیں گے تو خدا کا غضب بن کر آئیں گے۔

امام زمانہ علیہ السلام کا جو مالی حق ہے خمس، زکوٰة ادا کرتے رہنا۔

اپنی اولاد اپنی گفتگو دوست احباب میں زیادہ سے زیادہ ذکر صاحب الزمانعلیہ السلام کا کیا جائے۔

میں تمہیں اور مہدی علیہ السلام کی بشارت دیتا ہوں جب لوگوں میں شدید اختلاف ہو گا اور سخت مشکلوں میں گرے ہوں گے اور زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی اس وقت وہ ظہور کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے اور اپنے پیروکاروں کے دلوں کو عبادت اور عدل گستری کے جذبہ سے بھر دیں گے۔

اس وقت تک قیامت برپا نہ ہو گی جب تک ہمارا بر حق قائم علیہ السلام آل محمد قیام نہ کرے گا جب خدا حکم دے گا تو وہ ظہور کرے گا جو شخص ان کی پیروی کرے گا نجات پائے گا اور جو روگردانی کرے گا وہ ہلاک ہو جائے گا خدا کے بندو خدا پر نظر رکھو جب بھی مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو تو فورا ان کی طرف دوڑو اگرچہ تمہیں برف کے اوپر ہی سے چل کر جانا پڑے کیونکہ وہ خلیفة اللہ ہیں جو میرے بیٹے قائم کا انکار کرے گا گویا اس نے میرا انکار کیا ہے

امام زمانہ علیہ السلام کے لیے دعا کرنا ان کی صحت و سلامتی کی دعا کرنا ان کی حکومت قائم ہونے کی دعا کرنا ان کے دشمن پر غالب آنے کی دعا ان کے ناصروں کے لیے دعا ان کے حکومت کے طویل ہونے کی دعا ان کے دشمنوں کی تباہی اور ان کی زیارت کرنے کی دعا کرنا۔

ان کے لیے درود و سلام پڑھنا، ان کی زیارت پڑھنا، ان کے لیے سلام عقیدت پیش کرنا۔

امام زمانہ علیہ السلام کو ہر وقت یاد کرنا انکا ذکر کرنا یعنی ہم اس یقین پر ہوں کہ ہمارے امام زمانہ علیہ السلام اسی زمین پر کسی انسانی جسم کے ساتھ موجود ہیں ہمارے اعمال کو وہ دیکھتے ہیں ہمارے اعمال لکھے ہوئے ان کے گھر میں موجود ہیں اور برے اعمال سے ناراض ہوتے ہیں اور اچھے اعمال سے وہ خوش ہوتے ہیں ہم ان کے مال سے کھارہے ہیں جس پرامام زمانہ علیہ السلام راضی ہوں ان کے لیے دعا کرنا اور ذکر ہی میں یہ بھی شامل ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے ناموں کا ورد کریں مثلاً۔

یاہادی علیہ السلام ، یا مہدی علیہ السلام ۔

پردے سے نکل آ مشتاق زمانہ ہے

تم کتنے حسین ہو کہ دنیا کو دکھانا ہے

آئے گا میرا ساقی رات ابھی باقی ہے

ہم تو پی کے اُٹھیں گے جائیں جسے جانا ہے

۱۰

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۸-زمانہ غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

از:رضیہ صفدر

یا الہیٰ از غیب آر

تابگردو درجہاں عدل و آشکار

امام مہدی علیہ السلام سلسلہ عصمت کی چودھویں کڑی اور مسلک امامت علویہ کی بارہویں کریں ہیں آپ علیہ السلام کے والد ماجد کا نام حضرت امام حسن عسکریعلیہ السلام اور والدہ ماجدہ جناب نرجس خاتونعلیہ السلام تھیں۔ آپ علیہ السلام اپنے آباو اجداد کی طرح معصوم، اعلم زمانہ، امام منصوص اور افضل کائنات ہیں مورخین کا اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت ۵۱شعبان ۵۵۲ ہجری یوم جمعہ بوقت طلوع فجرہوئی۔

دین کی سر بلندی اور دشمنوں سے امام زمانہ علیہ السلام کی حفاظت کے لیے آپ کی غیبت ہوئی تا کہ زمین حجت خدا سے خالی نہ رہے اس زمانہ غیبت کے دو ادوار ہیں ۔

غیبت صغریٰ غیبت کبریٰ

غیبت صغریٰ کی مدت ۵۷ یا ۳۷ سال تھی اس کے بعد غیبت کبریٰ شروع ہو گئی۔

علامہ شیخ عباس قمی نے بھی دور غیبت امام زمانہ علیہ السلام میں چند فرائض کا تذکرہ کیا ہے جو احساس غیبت امام زمانہ علیہ السلام اور انتظار امام زمانہ علیہ السلام کی حقیقت کے واضح کرنے کے بہترین وسائل ہیں اور جن کے بغیر نہ ایمان بالغیب مکمل ہوتا ہے اور نہ انسان کو منتظرین امام زمانہ علیہ السلام میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔

مخزون و رنجیدہ رہنا:

حقیقت امر یہ ہے کہ انسان کو غیبت امام زمانہ علیہ السلام کی حقیقت اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کا اندازہ ہو جائے تو اس کی زندگی سے مسرت و ابتیاج باپید ہو جائے زمانہ کے بد ترین حالات اہل زمانہ کے بے پناہ ظلم و ستم نظام اسلامی کی بربادی تعلیمات الہیہ کا استزاءاور اس طرح کے بے شمار معاملات ہیں جن سے غیبت امام زمانہ علیہ السلام کے نقصانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور ان کا احساس ہی انسان کے آنسو بہانے کے لیے کافی ممکن ہے پھر اگر یہ بات صحیح ہے کہ امام انسان کی زندگی کی محبوب ترین شخصیت کا نام ہے تو ایسے ممکن ہے کہ محبوب نگاہوں سے اوجھل رہے اور عاشق کے دل میں اضطراب اور بے قرار ی نہ پیدا ہو اور وہ اپنے محبوب کی طرف سے اس طرح غافل ہو جائے کہ مخصوص تاریخوں اور مواقع کے علاوہ اس کے وفود اور اس کی غیبت کا احساس بھی نہ پیدا کرے۔

دعائے ندبہ میں انہیں تمام حالات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے اور اس لیے اس دعا کو دعائے ندبہ کہا جاتا ہے کہ انسان اس کے مضامین کی طرف متوجہ ہو جائے اور غیبت امام زمانہ علیہ السلام کی مصیبت کا صحیح اندازہ کر لے تو گریہ اور ندبہ کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے اور شاید اسی لیے اس دعا کی تاکید ایام عید میں کی گئی ہے یعنی روز عید فطر، روز عید قربان، روز عید غدیر اور روز جمعہ جیسے بعض اسلامی احکام کے اعتبار سے عید سے تعبیر کیا گیا ہے۔

عید کا دن انسان کے لیے انتہائی مسرت کا دن ہوتا ہے اور اس دن ایک محب اور عاشق کا فرض ہے کہ اپنے محبوب حقیقی کے فراق کا احساس پیدا کرے تا کہ اسے فراق کی صحیح کیفیت کا اندازہ ہو سکے جیسا کہ امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب کوئی عید کا دن آتا ہے تو ہم آل محمد کا غم تازہ ہوجاتا ہے کہ ہم اپنا حق اغیار کے ہاتھوں پامال ہوتے دیکھتے ہیں اور مصلحت الہیہ کی بنیاد پر کوئی آواز بھی بلند نہیں کر سکتے۔

آئمہ معصومین علیہ السلام میں مولائے کائنات کے دور سے امام حسن عسکریعلیہ السلام تک ہر امام زمانہ علیہ السلام نے غیبت کے نقصانات اور مصائب کا تذکرہ کر کے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کائنات میں خیر صرف اس وقت نمایاں ہو گا جب ہمار قائم علیہ السلام قیام کرے گا اور اس سے پہلے دنیا سے کسی واقعی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی ہے تا کہ انسان مومن بد ترین حالات سے بھی مایوس نہ ہو جائے اور پھر انہیں حالات سے راضی اور مطمئن بھی نہو ہو جائے کہ یہ اس کے نقص یہاں کا سب سے بڑا ذریعہ ہو گا۔

اس مقام پر سدیر صیرفی کی اس روایت کا نقل کرنا نا مناسب نہ ہو گا کہ میں (سدیر) اور مفضل بن عمر اور ابوبصیر اور بان بن تغلب امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ علیہ السلام خاک پر بیٹھے ہوئے بے تحاشہ گریہ فرما رہے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں کہ اے میرے سردار! تیری غیبت نے میری مصیبت کو عظیم کر دیا ہے میری نیند کو ختم کر دیا ہے اور میری آنکھوں سے سیلاب اشک جاری کر دیا ہے میں نے حیرت زدہ ہو کر سوال کیا کہ فرزند رسول! خدا آپ علیہ السلام کو ہر بلا سے محفوظ رکھے یہ گریہ کا کونسا انداز ہے اور خوانخواستہ کون سی تازہ مصیبت آپ پر نازل ہو گئی ہے؟ تو فرمایا میں نے کتاب جفر کا مطالعہ کیا ہے جس میں قیامت تک کے حالات کا ذکر موجود ہے تو اس میں آخری وارث پیغمبر کی غیبت اور طول غیبت کے ساتھ اس کے دور میں پیدا ہونے والے بد ترین شکوک و شبہات اور ایمان و عقیدہ کے حالات اور پھر شیعوں کے مبتلائے شک و ریب ہونے اور تغافل اعمال کا مطالعہ کیا ہے اور اس امر نے مجھے اس طرح بے قرار ہو کر رونے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس غیبت میں صاحبان ایمان کا کیا حشر ہو گا اور ان کا ایمان کس طرح محفوظ رہ سکے گا۔

اگر ہمارے حالات اور ہماری بد اعمالیاں سینکڑوں سال پہلے امام صادق علیہ السلام کو بے قرار ہو کر رونے پر مجبور کر سکتی ہےں تو کیا ہمارا فرض نہیں ہے کہ ہم اس دور غیبت میں ان حالات اور واقعات و آفات کا اندازہ کر کے کم از کم روز جمعہ خلوص دل کے ساتھ دعائے ندبہ کی تلاوت کر کے اپنے حالات پر خود آنسو بہائیں کہ شاید اس طرح ہمارے دل میںعشق امام زمانہ علیہ السلام کا جذبہ پیدا ہو جائے اور ہم کسی آن کی یاد سے غافل نہ ہونے پائیں جس طرح انہوں نے خود اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم کسی وقت بھی اپنے چاہنے والوں کی یاد سے غافل نہیں ہوتے ہیں اور نہ ان کی نگرانی کو نظر انداز کرتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان کا اعتماد ہمارے اوپر رہے اور ان کی حفاظت و رعایت کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی حوالے کی گئی ہے۔

انتظار حکومت آل محمد

دل دریا پہ دمکتا ہے تیرے نام کا نقش

ہوائے صبح میں بھیگی ہوئی دعا کی طرح

تیرے وجود کے قائل بھی ہم سائل بھی

شب سیہ میں ستاروں کے ہمنوا کی طرح

اس انتظار کو دور غیبت میں افضل اعمال قرار دیا گیا ہے اور اس میں اس امر کا واضح اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایک دن آل محمد کا اقتدار ضرور قائم ہونے والا ہے اور مومنین کرام کی ذمہ داری ہے کہ اس دن کا انتظار کریں اور اس کے لیے زمین ہموار کرنے اور فضا کو سازگار بنانے کی کوشش کرتے رہیں ۔

اب یہ دور کب آئے گا اور اس کا وقت کیا ہے؟ یہ ایک راز الہیٰ ہے جس کو تمام مخلوقات سے مخفی رکھا گیا ہے بلکہ روایات میں یہاں تک وارد ہوا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کے زخمی ہونے کے بعد آپ کے صحابی عمرو بن الحمق نے آپ کی عیادت کرتے ہوئے عرض کی کہ مولا! ان مصائب کی انتہا کیا ہے؟ تو فرمایا کہ ۰۷ ہجری تک عرض کی کہ کیا اس کے بعد راحت و آرام ہے؟ آپ نے کوئی جواب نہ دیا غش کھا گئے۔

اس کے بعد جب غش سے افاقہ ہوا تو وہ بارہ سوال کیا فرمایا بے شک ہر بلائے بعد سہولت اور آسانی ہے لیکن اس کا اختیار پروردگار کے پاس ہے۔

اس کے بعد ابو حمزہ شمالی نے امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت کے بارے میں دریافت کیا کہ ۰۷ ہجری تو گزر چکا ہے لیکن بلاوں کا سلسلہ جاری ہے؟ تو فرمایا کہ شہادت حسین علیہ السلام کے بعد جب غضب پروردگار ہوا تو اس نے سہولت و سکون کے دور کو آگے بڑھایا۔

پھر اس کے بعد ابو حمزہ نے بیس سوال امام جعفر صادق علیہ السلام سے کیے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ بے شک غضب الہیٰ نے اس مدت کو دو گنا کر دیا تھا اس کے بعد جب لوگوں نے اس راز کو فاش کر دیا تو پروردگار نے اس دور کو مطلق راز بنا دیا اور اب کس کو اس امر کا علم نہیں ہو سکتا اور ہر شخص کا فرض ہے کہ اس دور کا انتظار کرے کہ انتظار ظہور کرنے والا مر بھی جائے گا تو قائم آل محمد کے اصحاب میں شمار کیا جائے گا۔

بعد احترام نام کی بجائے لقب سے پکارا جائے:

آپ کا نام نامی اور اسم گرامی ”محمد“ اور مشہور لقب ”مہدی علیہ السلام “ ہے علماءکا کہنا ہے کہ آپ کا نام زبان پر جاری کرنا منع ہے اور اس کی ممانعت فرمائی ہے مجسلی اس کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”حکمت آن مخفی است“ اس کی وجہ پوشیدہ اور غیر معلوم ہے نیز علماءکا بیان ہے کہ آپ کا یہ نام خود حضرت محمد نے رکھا تھا۔

شکوک و شبہات کا اظہار کرنا مکروہ ہے:

علامہ شیخ سلیمان قندوزی بلخی حنفی رقم طراز ہیں کہ سدیر صیرفی کا بیان ہے کہ ہم اور مفضل بن عمر ابو بصیر امان بن تغلب ایک دن صادق آل محمد کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ علیہ السلام زمین پر بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے محمد تمہاری غیبت کی خبر نے میرا دل بے چین کر دیا ہے میں نے عرض کی کہ حضور خدا آپ کی آنکھوں کو کبھی نہ روائے بات کیا ہے اس لیے حضور گریہ کنان ہیں فرمایا اے سیدیر! میں نے آج کتاب جفر جامع بوقت صبح امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کا مطالعہ کیا ہے اے سدیر یہ وہ کتاب ہے جس میں علم ما کان و یکون کا اندراج ہے اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے وہ سب اس میں لکھا ہے اے سدیر میں نے اس کتاب میں یہ دیکھا ہے کہ ہماری نسل سے امام مہدی علیہ السلام ہوں گے پھر وہ غائب ہو جائیں گے اور ان کی غیبت نیز عمر بہت طویل ہو گی ان کی غیبت کے زمانہ میں مومنین مصائب میں مبتلا ہوں گے اور ان کے امتحانات ہوتے رہیں گے اور غیبت میں تاخیر کی وجہ سے ان کے دلوں میں شکوک پیدا ہوتے ہوں گے پھر فرمایا اے سدیر سنو ان کی ولادت حضرت موسیٰ کی ولادت کی طرح ہو گی اور ان کی غیبت حضرت عیسیٰعلیہ السلام کی مانند ہو گی اور ان کے ظہور کا حال حضرت نوحعلیہ السلام کے مانند ہو گا اور ان کی عمر حضرت خضرعلیہ السلام کی عمر جیسی ہو گی اور چونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے لہذا اس سے پردہ پوشی و شک کا اظہار کرنا مکروہ ہے۔

امام عصرعلیہ السلام کا اسم گرامی آنے پر قیام کرنا:

ہم ایسے سادہ دلوں سے صجاب کیسا ہے

کہ ہم تو یوں بھی ہیں سننے کو نقش پاکی طرح

اگر آپ علیہ السلام کا ذکر لفظ قائم علیہ السلام سے کیا جائے کہ اس میں حضرت کے قیام کرنے کا اشارہ پایا جاتا ہے اور آپ علیہ السلام کے قیام کے تصور کے ساتھ کھڑا ہو جانا محبت عقیدت اور غلامی کا بہترین حقیقی ہے جس سے کسی وقت بھی غفلت نہیں کی جا سکتی ہے۔

حضور اکرم نے امام زمانہ علیہ السلام کے لقب قائم علیہ السلام کے بارے میں بہت وضاحت فرمائی تھی بلکہ فرمایا تھا کہ ظلم و تشدد کا دور ختم ہو گا اس وقت جب ہمارا قائم آئے گا چنانچہ اکثر و بیشتر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ ظلم و جور سے تنگ رہتے تو امام وقت کی خدمت میں عرض کرتے کہ کیا حضرت ہی قائم علیہ السلام ہیں یعنی امت کے ذہن میں قائم علیہ السلام کے بارے میں یہ تصور راسخ تھا کہ دنیا میں بہتری ان کی وجہ سے ہو گی اورجوں کے مرسل اعظم نے فرمایا تھا کہ قائم علیہ السلام میری نسل و خاندان سے ہو گا لہذا لوگ اسی خاندان میں تلاش کرنے لگے اور اسے آخری امید سمجھ کر لفظ قائم سے یاد کرنے لگے جو حضرت کا خوبصورت لقب ہے۔

آئمہ معصومین علیہ السلام نے یہ بھی اہتمام برقرار رکھا کہ ایک طرف قائم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ابھی ان کے ظہور کا وقت نہیں آیا تو دوسری طرف جہاں بھی لفظ قائم آیا وہیں سرو قد کھڑے ہو گئے اور گویا کہ ایک طرح کا فرض تعظیم بجا لائے جس کا ظاہری تصور یہی تھا کہ ”قائم علیہ السلام “ ایسی با عظمت شخصیت کا نام ہے جس کے تذکرہ پر اس کے آباو اجداد بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اور تعظیم و تکریم کا انداز اختیار کر لیتے ہیں جس طرح عظمت زہراء علیہا السلام کے اطہار کے لیے مرسل اعظم قدم فرماتے تھے لیکن حقیقی اعتبار سے اس کا ایک دقیق ترین نکتہ یہ تھا کہ اس طرح آئمہ معصومین علیہ السلام اپنے طرز عمل سے قوم کے ذہنوں میں یہ تصور راسخ کرانا چاہتے تھے کہ قائم علیہ السلام کا کام تنہا قیام کرنا میں ہے کہ وہ اپنے قیام و جہاد کے ذریعہ سارے عالم کی اصلاح کر دے اور امت خاموش بیٹھی رہے قوم موسیٰ بن عمران کی مانند کہ میں نے کہا تھا کہ آپ علیہ السلام اور ہارونعلیہ السلام جا کر اصلاح فرض ادا کریں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں لہذا آئمہ معصومین علیہ السلام اس کے بالکل بر عکس نئے زاویوں پر اپنی قوم کی تربیت کر رہے تھے کہ وہاں نبی خدا قیام کے لیے آمادہ تھا اور قوم بیٹھی تھی اور یہاں قیام کی یہ شان ہے کہ ابھی صرف اس کے نام قائم علیہ السلام کا تذکرہ ہوا اور ہم اُٹھ کھڑے ہو جاتے ہیں یہ تصور تمہارے ذہن میں راسخ رہے کہ جب وہ ظاہر تمہارے سامنے آ جائے اور قیام کا ارادہ کرے بلکہ آمادہ ہو جائے تو خبردار تم خاموش نہ بیٹھے رہنا اور یہ نہ ہو کہ تمہاری حیثیت خاموش تماشائی جیسی ہو جائے بلکہ عین فرض ہے کہ جیسے ہی وہ قیام کا ارادہ کرے تم بھی اس کے ساتھ کھڑے ہو جاو اور قیام اصلاح عالم کی مہم میں اس کے ساتھ شریک ہو جائے۔

لہذا ایسی شخصیت کہ جس کا نام آنے پر ہی اس کے آباو اجداد بھی کھڑے ہو جائیں اس کے ساتھ شریک قیام و جہاد ہونا اسلامی فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے۔

علماءاعلام کی تعلیم اور ان کا طریقہ کار آج بھی یہی ہے کہ جب وارث پیغمبر اکرم کا ذکر اس لقب کے ساتھ ہوتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں اور حضرت کی خدمت میں زبان حال سے عرض کرتے ہیں کہ ہم حضور کے ساتھ قیام کے لیے تیار ہیں بس ظہور کی دیر ہے اس کے بعد ہم آپ کی خدمت میں رہیں گے اور اصلاح عالم کی ہم میں آپ کی ہر امکانی مدد کریں گے۔

لہذا لازمی امر ہے کہ جب حضرت کا لقب آجائے یعنی آپ کا ذکر قائم علیہ السلام پکارا جائے تو فورا کھڑے ہو کر جانب مشرق منہ پھیر کر سلام عرض کریں اور امام زمانہ علیہ السلام کے سااتھ قیام کے عید کی تجدید کریں۔

دشمنوں کی طرف سے مصائب آنے پر بغیر گھبرائے ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور امام زمانہ علیہ السلام کی عظمت کو اجاگر کرنا:

چونکہ مذہب شیعہ کو ابتدائے اسلام سے ہی سخت تکالیف و صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا گیا اس کے مقابل دوسرے مذاہب کو سرکاری سر پرستی دی گئی اور ان کے پھیلنے کے لیے فضا سازگار کی گئی لہذا اس موقع سے دشمنان دین نے خوب فائدہ اُٹھایا اور لوگوں کو تو ستم کا نشانہ بنایا مگر ساتھ ساتھ خاندان رسالت کو بھی تضحیک کا نشانہ بنایا۔

حضور کی حدیث پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ ظالم و جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا بھی صدقہ ہے نیز ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہی اصل بہادری ہے۔

ظلم کی کئی شکلیں ہیں ضروری نہیں کہ لوگوں پر ظلم و ستم کرنا ہی اصل میں بڑا ظلم ہے بلکہ ظلم تو یہ بھی ہے کہ کسی بھی طرح یا مذہب کو بغیر تحقیق کے تذلیل کا اضافہ نہ بنایا جائے اور اس کے لےے رسول و خاندان رسالت کو بھی نہ بخشا جائے۔

جہاں تک سوال ہے امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا تو یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور ضرور ہو گا اس کے بارے میں حضور اور مختلف ادوار میں آئمہ معصومین علیہ السلام واضح اشارات دے چکے ہیں ۔

لیکن کچھ نا اندیش عاقبت نا شناس لوگ جانتے بوچھتے اس امر پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ کوئی امام مہدی علیہ السلام نام کا آخری امام زمانہ علیہ السلام ہے جس کا ظہور ہونا ہے یہ لوگ خالص بنی امیہ اور بنی اعباس کے پروردہ ہیں اب امت کا فرض عین ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں لوگوں کو بتائے۔

یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے اگرچہ قرآن و حدیث سے یہ ثابت ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام پیدا ہو کر غائب ہو چکے ہیں اور مدت مقررہ کہ جس کا علم صرف تمام جہانوں کے پالن ہار کے پاس ہے کہ بعد ظہور پذیر ہوں گے کیونکہ خدا کی زمین کسی بھی صورت میں حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی اور عقل بھی یہی کہتی ہے کہ آپ زندہ باقی ہیں اور علماءکا اتفاق بھی ہے۔

لیکن کچھ نا اندیش لوگ اس کی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے مخالفت میں انتہائی درجہ کا مبالغہ آرائی تک پہنچ جاتے ہیں ۔

لہذا امت کی ذمہ داری ہے کی ان مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرے جس طرح ہو سکے انہیں بتایا جائے ان کے اذہان صاف کیے جائیں بحث و مباحثہ و مناظرہ سے کام لیا جائے اور ڈٹ کر مصائب کا مقابلہ کیا جائے چاہے وہ مخالفت کسی بھی صورت میں ہو مثلاً لوگوں کو تنگ کیا جائے ان پر شب و ستم روا رکھا جائے جیسا کہ زمانہ قدیم سے آج تک ہوتا آرہا ہے یا پھر نا اندیش لوگ امام زمانہ علیہ السلام کے خلاف لکھیں اور بولیں تو یہ سب ذہنی پریشانی کا باعث بنتا ہے لہذا ان مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا بہترین ذمہ داری ادا کرنے کے مترادف ہے۔

جہاں تک امام زمانہ علیہ السلام کی مخالفت کا سوال ہے تو اس کے ضمن میں ہم مولوی محمد امین مصری کے رسالہ ”طلوع اسلام“ کراچی جلد نمبر۴۱ ص۵۴ اور ۴۹ کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ موصوف کے دماغ میں کس حد تک باغیانہ و باطل عقائد راسخ ہیں ۔

شیعوں کو ابتدا روئے زمین پر کوئی ظاہری مملکت قائم کرنے میں کامیابی نہ ہو سکی ان کو تکلیفیں دی گئیں اور پراگندہ اور منتشر کر دیا گیا تو انہوں نے ہمارے خیال کے مطابق امام منتظرعلیہ السلام اور مہدی علیہ السلام وغیرہ کے پر امید عقائد ایجاد کر لیے تا کہ عوام کی ذہارس بندھی رہے۔

اگر قوم پڑھے لکھے اور عالم فاضل لوگوں کا یہ حال ہو گا تو باقی افراد کا تو خدا حافظ ہے اس کے علاوہ وہ ملا اخوند درویزہ اپنی کتاب ارشاد الطالبین صفحہ نمبر۶۹۲ میں فرماتے ہیں ۔

”ہندوستان میں ایک شخص عبداللہ نامی پیدا ہو گا جس کی بیوی آمنہ(اعینہ) ہو گی اس کا ایک لڑکا پیدا ہو گا جس کا نام محمد ہو گا وہی کوفہ جا کر حکومت کرے گا لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں کہ امام مہدی علیہ السلام وہی ہیں جو امام حسن عسکریعلیہ السلام کے فرزند ہیں “

اس طرح کے بیانات ذہنی پسماندگی کی نشانی ہیں اور حقائق سے پردہ پوشی کی جا رہی ہے جب کہ حضور اور قرآن پاک اس جانب اشارات کر چکے ہیں ۔

لہذا ان لوگوں اور ان جیسے دوسروں کی جانب سے کیے گئے مظالم کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور حق کا دفاع کرنا بہت ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بتایا جائے قرآن و حدیث کے حوالے سے تا کہ وہ ان باتوں سے اور عقائد سے باہر نکل کر سوچیں اور امام زمانہ علیہ السلام کے لیے فضا سازگار ہو جائے۔

یہ اس امت کی سب سے اہم ذمہ داری ہے۔

دور غیبت میں ایمان کی حفاظت کیلئے دعا کرتے رہنا:

ہر شویزیدیت کی کدورت ہے ان دنوں

مولا تیری شدید ضرورت ہے ان دنوں

امام صادق علیہ السلام نے زرارہ سے فرمایا تھا کہ ہمارے قائم علیہ السلام کی غیبت میں اس قدر شبہات پیدا کیے جائیں گے کہ اچھے خاصے لوگ مشکوک ہو جائیں گے لہذا اس دور میں ہر شخص کا فرض ہے کہ ایمان کی سلامتی کی دعا کرتا رہے اور یاد امام زمانہ علیہ السلام میں مصروف رہے۔

اور عبداللہ بن سنان نے روایت کی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ کم سے کم”یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک“

کا ورد کرتا رہے کہ سلامتی دین و ایمان کے لیے یہ بہترین اور مختصر ترین دعا ہے۔

حضرت کی سلامتی کی نیت سے صدقہ نکالنا:

ہمارے دل میں مودت گلاب جیسی ہے

سنوارتا ہے جسے عقیدہ صبا کی طرح!

ہر ایک نماز میں ہم مانگتے ہیں خیر تیری!

خمارِ صدق سے لبریز مدعا کی طرح!

صدقہ در حقیقت خواہش سلامتی کا عملی اظہار ہے کہ انسانی جس کی سلامتی کی واقعاً تمنا رکھتا ہے اس کے حق میں صرف لفظی طور پر دعا نہیں کرتا بلکہ عملی طور پر بھی دفع بلا کا انتظام کرتا ہے اور یہ انتظام صدقہ سے بہتر کوئی شے نہیں ہے دعا ان لوگوں لیے بہترین شے ہے جو صدقہ دینے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے ہیں لیکن جس کے پاس یہ استطاعت پائی جاتی ہے وہ اگر صرف دعا پر اکتفا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف لفظی کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور امام زمانہ علیہ السلام کی سلامتی کے لیے چند پیسے بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے جب کہ مالک کائنات سے جو کچھ لیا ہے وہ سب انہی کے صدقہ میں لیا ہے اور جو کچھ آئندہ لینا ہے وہ بھی انہی کے طفیل میں اور انہی کے وسیلہ سے حاصل کرنا ہے۔

لہذا امام زمانہ علیہ السلام کی سلامتی کی دعا کرتے رہنا اور صدقہ دینا احسن فعل ہے۔

امام زمانہ علیہ السلام سے مصائب کے موقع پر فریاد کرنا:

اس کے علاوہ یہ بھی اعتقاد کے استحکام اور روابط و تعلقات کے دوام کے لیے بہترین ہے اور پروردگار عالم نے آئمہ طاہرینعلیہ السلام کو یہ طاقت عطا کی ہے اور صلاحیت بخشی ہے کہ وہ فریاد کرنے والوں کی فریاد رسی کر سکتے ہیں جیسا کہ ابو طاہرین بلال نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ پروردگار جب اہل زمین تک کوئی برکت نازل کرنا چاہتا ہے تو پیغمبر اکرم سے امام آخر تک سب کو وسیلہ قرار دیتا ہے اور ان کی بارگاہوں سے گزرنے کے بعد برکت بندوں تک پہنچتی ہے اور جب کسی عمل کو منزل قبولیت تک پہچانا چاہتا ہے تو امام زمانہ علیہ السلام سے رسول اکرم تک ہر ایک کے وسیلہ سے گزار کر اپنی بارگاہ جلالت پناہ تک پہچاتا ہے اور پھر قبولیت کا شرف عنایت کرتا ہے بلکہ خود امام عصرعلیہ السلام نے بھی شیخ مفید کے خط میں تحریر فرمایا تھا۔

تمہارے حالات ہماری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔

اور ہم تمہارے مصائب کی مکمل اطلاع رکھتے ہیں اور برابر تمہارے حالات کی نگرانی کرتے رہتے ہیں علامہ مجلسی نے تحفة الزار میں نقل کیا ہے کہ صاحبان حاجت کو چاہےے کہ اپنی حاجت کو کسی کاغذ پر لکھ کر آئمہ طاہرینعلیہ السلام کی قبور مبارک پر پیش کر دیں یا کسی خاک میں رکھ کر دریا یا نہر کے حوالے کر دیں کہ امام زمانہ علیہ السلام اس حاجت کو پورا فرمائیں گے۔

اس عریضہ کی ترسیل میں آپ کے چاروں نواب خاص میں سے کسی کو بھی مخاطب بنایا جا سکتا ہے انشاءاللہ وہ اسی طرح امام کی بارگاہ میں پیش کریں گے جس طرح اپنی زندگی میں اس فرض کو ادار کرتے تھے اور امام زمانہ علیہ السلام اسی طرح مقصد کو پورا کریں گے جس طرح اس دور میں کرتے تھے۔

مومنین اپنے نیک اعمال امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کریں:

دور قدیم سے شیعوں کے درمیان موسوم ہے کہ لوگ اپنے امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے نیابتہً اعمال انجام دیا کرتے تھے اور امام عصرعلیہ السلام ان کے ان اعمال کی قدردانی بھی فرمایا کرتے تھے جیسا کہ ابومحمدوعلجی کے حالات مں نقل کیا گیا ہے کہ انہیں کسی شخص نے امام عصرعلیہ السلام کی طرف سے نبابةً حج کے لیے پیسہ دیتے تو انہوں نے اپنے فاسق و فاجر اورشرابی فرزند کو حج نیابت امام زمانہ علیہ السلام کے لیے اپنے ساتھ لے لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میدان عرفات میں ایک انتہائی نوجوان شخص کو دیکھا جو یہ فرما رہے ہیں کہ تمہیں اس بات سے حیا نہیں آتی کہ لوگ تمہیں حج نیابت کے لیے رقم دیتے ہیں تو تم فاسق و فاجر افراد کو یہ رقم دے دیتے ہو قریب ہے کہ تمہاری آنکھ ضائع ہو جائے کہ تم نے انتہائی اندھے پن کا ثبوت دیا ہے۔

چنانچہ راوی کہتا ہے کہ حج سے واپسی کے چالیس روز کے بعد ان کی وہ آنکھ ضائع ہو گئی جس کی طرح اس مرد نوجوان نے اشارہ کیا تھا۔

امام زمانہ علیہ السلام کے وجود مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہ احدیت میں دست بدعا رہنا:

ظاہر ہے کہ دعا ہر مسئلے کا علاج ہے جو انسان کے امکان سے باہر ہو اور جب دور غیبت میں امام زمانہ علیہ السلام کی حفاظت کسی اعتبار سے بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور ہم خود انہیں کے رحم و کرم سے زندہ ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے وجود مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہ احدیت ہی مسلسل دعائیں کرتے رہیں اور کسی بھی وقت اس فرض سے غافل نہ ہوں۔

اللهم کن لولیک الحجة بن الحسن علیة السلام

جسے عام طور پر اثنائے نماز قنوت یا بعد نماز وظیفہ کے طورپر پڑھا جاتا ہے امام زمانہ علیہ السلام کے وجود کی حفاظت، ان کے ظہور کی سہولت اور ان کی عادلانہ حکومت کے بارے میں جامع ترین دعا ہے جس سے صاحبان ایمان کو کسی بھی وقت غافل نہیں ہونا چاہیے۔

امام زمانہ علیہ السلام پر زیادہ سے زیادہ سلام و درود پڑھا جائے:

حضور اور آپ کی آل پاک پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھنے کی تاکید قرآن و حدیث میں متعدد بار آئی ہے اور قرآن پاک سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ اور ان کے فرشتے بھی حضور اور آپ کی آل پاک پر درود و سلام پڑھتے ہیں ۔

لہذا امام مہدی علیہ السلام پر زیادہ سے زیادہ سلام بھیجا جائے تو یہ ایک بہتر اور خوبصورت عمل ہے امام زمانہ علیہ السلام ہمارے اس سلام کا جواب دیتے ہیں لہذا محافل و مجالس میں امام زمانہ علیہ السلام پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھا جائے واضح ہو کہ اگر ایم بیل نے ٹیلی فون ایجاد کرنے سے پہلے جو بنیادی کلیات بنائے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ جب ہم کسی کی جانب انگلی سے اشارہ کر کے کوئی بات کریں تو چاہے وہ ہم سے کچھ دور ہی کیوں نہ ہو قدرتی عمل سے انگلی سے لہریں نکلتی ہیں جو اس بندے تک پہنچ جاتی ہیں ۔

تو جب انگلی سے اشارہ کر کے امام زمانہ علیہ السلام کی زیارت و سلام پڑھتے ہیں تو انہیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ کوئی سلام پڑھ رہا ہے اور اس کا جواب مزحمت فرماتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا کہ حضرتعلیہ السلام کی معرفت نصیب ہو:

دنیا نہ مال و زر نہ وزارت کے واسطے!

ہم جی رہے تیری زیارت کے واسطے!

اللہ تعالیٰ سے ہر لمحہ دعا مانگتے رہنا چاہےے کہ اللہ تعالیٰ حضرت امام عصرعلیہ السلام کی معرفت نصیب فرمائے آئمہ طاہرینعلیہ السلام کا ارشاد پاک ہے کہ جو شخص امام عصرعلیہ السلام کی غیبت کے دور میں ہو اور وہ دعا مانگتا رہے کہ مجھے حضرت کی معرفت نصیب ہو اور میں امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھ دشمنان دین و دشمنان اہل بیتعلیہ السلام سے جہاد کروں تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے اور اس کو امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھ شمار کیا جائے گا وہ زندہ ہو گا اور امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھ دشمنوں سے جہاد کرے گا جیسا کہ دعائے عہد میں وارد ہوا ہے۔

لہذا ہر لمحہ اس امر کی دعا مانگنی چاہیے کہ پروردگار امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت نصیب کرے اور ان کے اصحاب میں شمار ہو اور دین سلامت رہے۔

امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں تسلیم ہو ان کے بارے میں جلدی نہ کرے اور نہ یہ کہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور کیوں نہیں ہوتا ہے، اعتراض و شکوہ زبان پر نہ لائے:

امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے بارے میں مکمل معلومات کو خدا تعالیٰ نے پوشیدہ رکھا ہے یعنی ایک امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور ہو گا اور کب وہ آئیں گے یہ سب خدا تعالیٰ کی مصلحت ہے لہذا اس بارے میں شکوہ و شکایات یا کسی قسم کا اعتراض کرنا بالکل بھی جائز و درست نہیں ہے جب خدا تعالیٰ کی مصلحت ہو گی امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور ہو گا۔

اس سلسلے میں جب اسحاق بن یعقوب نے امام زمانہ علیہ السلام سے ایک خط کے ذریعے سوال کیا تو فرمایا کہ تمہارا یہ سوال کہ میری غیبت کیوں ہوئی ہے تو یہ بات خدائی مصلحت سے متعلقہ ہے اس کے متعلق تم سوال نہ کرو یہ بے کار ہے میرے آباو اجداد دنیا والوں کے شکنجہ میں ہمیشہ رہے ہیں لیکن خدا نے مجھے اس شکنجہ سے بچالیا ہے جب میں ظہور کروں گا بالکل آزاد ہوں گا زمانہ غیبت کے متعلقہ ایک سوال کے جواب میں فرمایاکہ اس کے متعلق تم یہ سمجھ لو کہ میری مثال غیبت میں ویسی ہے جسے ابر میں چھپے ہوئے آفتاب کی میں ستاروں کی مانند اہل ارض کے لیے امان ہوں تم لوگ غیبت اور ظہور سے متعلق سوال بند کرو اور میرے ظہور کے لیے خدا سے دعا کرو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہور و غیبت کے متعلق کسی بھی قسم کے سوال و شکوک کا اظہار منع ہے اس کے متعلق صرف دعا کرنی چاہیے کہ امام زمانہ علیہ السلام کا بخیر و خوبی جلد از جلد ظہور ہو نہ کہ بے جا شک و سوال کےے جائیں۔

آپ علیہ السلام کے ظہور اور فرج و فتح کا انتظار کرنا افضل ترین اعمال ہے:

امام مہدی علیہ السلام جس وقت ظہور فرمائیں گے وہ وقت ایسا ہو گا کہ نیک لوگ انتہائی کم تعداد میں دنیا میں موجود ہوں گے نیکی کی قدر نہ ہو گی اور بدی کو افضلیت دی جائے گی اس وقت سے پناہ مانگنی چاہےے جس میں نیکی ذرہ بھر نہ رہے گی اور بدی کو اولیت حاصل ہو گی ایسے وقت میں امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور ہو گا۔

امام زمانہ علیہ السلام اس وقت دشمنان دین سے جنگ کریں گے اور انہیں شکست فاش دیں گے دنیا سے بدی کا وجود ختم ہو جائے گا۔

لہذا مومنین کو ہمہ وقت پر امید رہنا چاہیے نہ کہ اس برے وقت پر قناعت کرے بیٹھ جائیں اور بدی کو قبول کر لیں بلکہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ ایمان کے ضعیف کی نشانی ہو گی بلکہ مومنین کو چاہیے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور اور بدی کے خلاف جنگ میں ان کی عظیم فتح کا انتظار کریں۔

وہ روشن اور عظیم دور کہ آئمہ طاہرینعلیہ السلام کے مطابق بدی کا وجود نہ ہو گا اور نیکی شروع ہی اس وقت ہو گی یعنی دنیا سے بھلائی کی امید نہ رکھی جائے ہاں مگر ظہور قائم علیہ السلام کے بعد تو اس دور کا انتظار کرنا اور امام زمانہ علیہ السلام کی فتح کا انتظار کرنا اور دعا مانگنا افضل من العمال ہے۔

آپ علیہ السلام کی صفات کو جاننا اور ہر حال میں امام زمانہ علیہ السلام کی نصرت اور مدد کرنے پر آمادہ رہنا آپ علیہ السلام کے فراق پر گریہ کناں ہوں۔

میں کیوں نہ تیرا شکر کروں بات بات میں

ہر سانس تیرے در سے ملی ہے زکوة میں

امام زمانہ علیہ السلام کی صفات کو جاننا ہر مومن کا فرض ہے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا مامعلیہ السلام کن صفات و خصوصیات کا حامل ہے۔

امام زمانہ علیہ السلام مومنین کے خال و اقوال سے ہمہ وقت واقف رہتے ہیں اور بوقت ضرورت ان کی رہنمائی بھی کرتے ہیں اور مدد بھی فرماتے ہیں امام زمانہ علیہ السلام کے دربار سے اور ان کے آباءکے درباروں سے ہی رزق کی تقسیم اہل دنیا کو ہوتی ہے امام زمانہ علیہ السلام ضرورت کے وقت علماءکی مدد بھی فرماتے ہیں ۔

شیخ مفید نے ایک مرتبہ ایک فوت شدہ حاملہ عورت کے بارے میں فتویٰ دیا کہ اسے بچے کے ساتھ ہی دفنا دیا جائے مگر امام زمانہ علیہ السلام نے آ کر فوراً ان کی تصحیح کی اور فرمایا کہ بچے کو دفن نہ کیا جائے گا بعد میں شیخ مفید سے فرمایا فتویٰ دینا تمہارا کام ہے اور اصلاح کرنا ہمارا کام۔

اسی طرح امام زمانہ علیہ السلام بیماریوں میں شفا دیتے ہیں اور کئی امراض کا علاج بھی بتایا متعدد بار دشمنان دین کے حملوں سے دین کو بچانے کے لیے اور لوگوں کے اذہان کو صاف کرنے بھی آتے ان کی مدد فرماتے۔

ظہور اور غیبت کے بارے میں کسی قسم کا سوال کرنا یا شک و اعتراض کرنا منع کیا گیا ہے۔

مومنین کو چاہیے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی نصرت پر ہمہ وقت آمادہ رہیں ہم لمحہ دعا کرتے رہیں کہ جب امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور ہو تو وہ امام زمانہ علیہ السلام کے صف اول کے ساتھی بن سکیں۔

دعائے عہد میں ہے۔

پروردگار! اگر مجھے ظہور سے پہلے موت بھی آجائے تو وقت ظہور اس عالم میں قبر سے اُٹھانا کہ کفن دوش پر ہو برینہ تلوار ہاتھ میں ہو نیزہ چمک رہا ہو اور زبان پر لبیک لبیک ہو۔

یعنی خلاصہ یہ ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی صفات کو جاننا چاہے ان کے متعلق پورا علم ہو نیز ہر مومن کو امام زمانہ علیہ السلام کی نصرت و مدد کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہنا چاہےے۔

انسان جس سے محبت کرتا ہے اگر وہ نظروں سے دور ہو جائے تو بے قراری ایک فطری عمل ہے مومنین جو امام زمانہ علیہ السلام کی محبت کا دم بھرتے ہیں جن کے دل میں سچی عقیدت ہے وہ امام زمانہ علیہ السلام کے لیے ہمہ وقت بے چین رہتے ہیں ۔

امام زمانہ علیہ السلام ہم سے دور اور غیبت میں ہیں جس کے دل میں محبوب کی سچی عقیدت و محبت ہو وہ اس کے فراق میں گریہ کناں رہتا ہے اور مومنین کا یہی حال ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی دوری نے ان کے دلوں کو بے چین کیا اور راتوں کو ان کی نیند اُڑا دی ہے سچا مومن ایسا ہی ہے جو امام زمانہ علیہ السلام اپنے امام زمانہ علیہ السلام سے سچی عقیدت رکھے ان کے ظہور کے بخیر و خوبی ہونے کی دعاکرے اور اس امر کی کہ خدا تعالیٰ انہیں ہر بلا سے محفوظ رکھے اور ظہور کا انتظار کرے۔

نہ پوچھ کتنے زمانوں سے تجھ کو ڈھونڈتے ہیں

کبھی چراغ کی صورت کبھی ہوا کی طرح!

آپ علیہ السلام کے فضائل و کمالات اور صفات کو جہاں جاننا بہت ضروری ہے وہاں بیاں کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ آپ علیہ السلام اس دور کے ولی امت ہیں اور خداوند کی تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں میں آپ ہی وسیلہ ہیں ۔

امام زمانہ علیہ السلام کے جمال مبارک کی زیارت کا اشتیاق رکھنا اور شوق کا اظہار کرنا:

جب مومنین امام زمانہ علیہ السلام کی محبت دل میں رکھتے ہیں تو ضروری ہے تو کہ ان کے دل میں خیال زیارت پیدا ہو امام زمانہ علیہ السلام کی زیارت بہت سے افراد کو نصیب ہوئی ان میں سے بعض کو غیبت صغریٰ میں اور بعض کو غیبت کبریٰ میں زیارت نصیب ہو ئی۔

لیکن تمام سچی عقیدت رکھنے والے مومن حضرات کے دل میں امام زمانہ علیہ السلام کی زیارت کا خیال آتا ہے۔

اور اس کا شوق پیدا ہوتا ہے۔

ایک روایت کے مطابق اگر ۰۴ جمعرات امام حسین علیہ السلام کے مرقد مقدس پر حاضری دی جائے تو امام زمانہ علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوتی ہے ایک صاحب نے یہی عمل کیا تو جب وہ چالیسویں جمعرات واپسی پر انہیں راہ میں مرد عرب ملا جس نے لبنانی لباس زیب تن کر رکھا تھا اس نے اس شخص کی پریشانی دریافت کی اور کہا کہ تمہارا امام زمانہ علیہ السلام تمہارے حال سے بے خبر نہیں ہے یہ کہہ کر غائب ہو گئے یعنی معلوم ہوا کہ سید کی زیارت کا دل میں شوق اور جذبہ ہو تو ضرور زیارت ہو گی۔

ممکن ہے اپنی موت نہایت قریب ہو!

اک شب تو خواب سہی میں زیارت نصیب ہو!

لہذا مومنین کو اپنے دل میں امام زمانہ علیہ السلام کی زیارت کا شوق پیدا کرنا چاہیے اور اس کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ اگر ہم ان کی محبت کا دم بھرتے ہیں اور دل میں سچی محبت کرتے ہیں تو یہ فطری بات ہے کہ ہمارے دل میں شوق زیارت پیدا ہو جس قدر شوق زیادہ ہو گا اسی قدر اس کا اظہار زبان سے اور ہر عمل سے ظاہر ہو گا۔

امام زمانہ علیہ السلام ہمارے زمانے کے امام زمانہ علیہ السلام ہیں ہمارے ہادی برحق ہیں ہم ان سے سچی محبت کرتے ہیں تو اس کا اظہار وقتاً فوقتاً سہی ہونا چاہےے اس کے لیے دعا بھی مانگتے رہنا چاہیے جب آپ علیہ السلام کا ظہور ہو گا تو آپ کا جمال ساری دنیا دیکھے گی بعض خوش نصیب افراد اس رخ روشن کی زیارت کر چکے ہیں اور بعض شاید بعد از ظہور کریں بہر حال بات جو بھی ہو زیارت کا اشتیاق اور اس کا اظہار کرنا بہتر اور ضروری ہے ممکن ہے امام عصرعلیہ السلام کی زیارت نصیب ہو جائے۔

اگر استطاعت رکھتا ہو تو عید قربان کے موقع پر امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں قربانی کرے:

جس طرح امام زمانہ علیہ السلام کے لیے صدقہ کرنا خوش کن عمل ہے کہ ان کی بلائیں دور ہوں اور ان کا ظہور جلد اور بخیر و خوبی ہو اسی طرح اگر ایک مرد مومن اس بات کی استطاعت رکھتا ہے کہ عید قربان کے موقع پر وہ فرض قربانی جو اس کے ذمہ ہے کہ علاوہ امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں قربانی کرے تو اس کو ایسا ضرور کرنا چاہیے۔

ہمارا مال جو ہمیں دیا گیا ہے جو ہم نے محنت سے کمایا ہے وہ سب بھی معصومین علیہ السلام کے صدقہ میں ملا ہے لہذا مال کے ذریعے امام زمانہ علیہ السلام سے اظہار محبت کرنا اچھا فعل ہے اگر کوئی شخص صرف دعا پڑھتا رہا ہے باوجود اس کے وہ صاحب مال ہے تو یہ علامت ہے اس کے نفاق کی یعنی اس کی محبت میں سخت کمی کی نشانی ہے۔

کیونکہ جو رزق اسے امام زمانہ علیہ السلام کے طفیل ملا وہ اسے ان کی خاطر ذرا سا ہی خرچ کرنا گوارا نہیں کرتا تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے لہذا ہر کوئی اس کی استطاعت رکھتا ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں قربانی کرے تو اسے یہ فعل ضرور سر انجام دینا چاہیے۔

یہ ایک احسن عمل ہے۔

تمام محافل و مجالس میں ذاکرین امام زمانہ علیہ السلام کا ذکر ضرور کریں:

اب تک بات ہوئی ہے کہ تمام امت کی زمانہ غیبت کبریٰ میں کیا ذمہ داریاں ہیں وہ حضرات جن کی لوگ زیادہ تر غور سے بات سنتے اور عمل کرتے ہیں مثلاً علماءو ذاکرین حضرات انہیں چاہیے کہ وہ تمام محافل و مجالس میں امام زمانہ علیہ السلام کا ذکر ضرور کریں چاہے ایک حدیث ان کی فضیلت میں پڑھی جائے یا کوئی قصیدہ و رباعی وغیرہ لیکن اس طرح کرنا ضروری ہے یہ صدی کہ جس کے متعلق مشہور ہے کہ ظہور امام زمانہ علیہ السلام کی صدی ہے اوراس میں برائی بھی بہت پھیل چکی ہے اور پھیل رہی ہے تمام لوگوں خصوصاً نوجوانوں کے اذہان میں امام زمانہ علیہ السلام کا ذکر ہر قت ہونا چاہیے۔

نوجوان طبقہ کسی بھی معاشرے کی شہ رگ ہوتا ہے لہذا نوجوانوں کو امام زمانہ علیہ السلام کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات ملنی چاہیں تا کہ ان کے دل میں زیادہ سے زیادہ محبت پیدا ہو وہ ماحول کو سازگار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

لہذا ذاکرین و علماءحضرات کو چاہیے کہ وہ محافل و مجالس میں امام زمانہ علیہ السلام کا ذکر ضرور کریں اور ان پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام پڑھا جائے۔

امام زمانہ علیہ السلام کے متعلق زیادہ سے زیادہ کتب و رسائل کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے:

آج کل نفسا نفسی کا دور ہے لوگ ایک دوسرے سے بغیر فائدے کے بات کرنا گوارہ نہیں کرتے مومنین کے لیے ضروری ہے کہ اپنے امام زمانہ علیہ السلام کی خاطر اور لوگوں کی زیادہ سے زیادہ آگہی کے لیے کثیر تعداد میں کتب کی اشاعت کا اہتمام کریں اور مخیر حضرات کی مدد سے امام زمانہ علیہ السلام پر لٹریچر شائع کروا کے اس کو مفت تقسیم کرنے کا اہتمام کریں تا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس بارے میں جان سکیں اور ان کی آگاہی ہو۔

طلبہ مدرسوں میں امام زمانہ علیہ السلام سے متعلقہ محافل منعقد کرنے کا اہتمام کریں:

طلبہ کو چاہیے کہ وہ مدرسوں میں امام زمانہ علیہ السلام سے متعلقہ محافل کے منعقد کرنے کا اہتمام کریں خصوصاً شعبان المعظم میں اگر ہو سکے تو امام زمانہ علیہ السلام کے جشن ولادت کے موقع پر چراغاں کریں تا کہ لوگ اس امر سے آگاہ ہو سکیں۔

مدرسوں میں سیمناروں، کانفرنس وغیرہ کا اہتمام کیا جائے امام زمانہ علیہ السلام سے متعلقہ سوالوں کے مقابلے کیے جائیں یعنی طلبہ میں اس طرح کا مقابلہ رکھا جائے کہ وہ امام زمانہ علیہ السلام سے متعلق سوالوں کے جواب دیں اس سے ان کی معلومات میں قابل قدر اضافہ ہو گا۔

اس طرح کی محفلوں میں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنایا جائے تو یہ ایک اچھا فعل ہو گا۔

یہ تمام ذمہ داریاں اس امت پر غیبت کبریٰ میں عائد ہوتی ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی بے شمار ایسی ذمہ داریاں ہیں جو فرداً فرداً ہر شخص ہیں امت کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ہر لمحہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کریں امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے فضا سازگار کریں اور دعا کریں کہ امام زمانہ علیہ السلام بخیر و خوبی اور جلد از جلد ظہور کریں۔

اللهم عجل فرجه و سهل مخرجه واجعلنا من انصاره و اعوانه

۱۱

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۹-زمانہ غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

از:تسنیم جہان

علامہ شیخ عباس قمی نے دور غیبت امام زمانہ علیہ السلام میں آٹھ طرح کے فرائض کا تذکرہ کیا ہے جو احساس غیبت امام زمانہ علیہ السلام اور انتظار امام زمانہ علیہ السلام کی حقیقت کے واضح کرنے کے بہترین وسائل ہیں اور جن کے بغیر نہ ایمان بالغیب مکمل ہو سکتا ہے اور نہ انسان کو منتظرین امام زمانہ علیہ السلام میں شمار کیا جا سکتا ہے اگر ہم اپنے آپ کو ان خوش قسمتوں کے دائرے میں شامل کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے اطاعت امام عصرعلیہ السلام کا جو اپنی گردن میں ڈالا ہوا ہے تو ہمیں ان ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا لازمی امر ہے جو آپ کی اطاعت و احترام کے حوالے سے ہم پہ عائد ہوتی ہے ان کا مقاصد بھی دینی اور دنیاوی سرخوئی اور بارگاہ قائم آل محمد میں قرب اور باریالی حاصل کرنا ہے ساتھ ہی دنیاوی مصائب مشکلات اور آفات سے آپ کے دامن میں پناہ حاصل کرنا ہے یہ دنیاوی آفات کچھ تو قلبی ہے کچھ جسمانی کچھ زبانی ہے اور کچھ مالی پہلو رکھتی ہے ان آٹھ فرائض کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

پہلی ذمہ داری:

مخزون و رنجیدہ رہنا:

ہم کیوں نہ غمگین ہو جب کہ ہماری آنکھیں اس آفتاب عدالت اور نور ولایت کو دیکھنے سے قاصر ہے ہمارا دل سوز و جدائی سے بے قرار ہے جیسے محب اپنے محبوب کی جدائی میں گریاں ہوتے ہیں کیونکہ رسول اکرم کا فرمان ہے جسے شیخ صدوق اور شیخ طوسی نے اپنی کتاب (امالی) میں لکھا ہے فرمایا کوئی شخص ایمان نہیں لایا جب تک کہ میں اس کی جان سے زیادہ عزیز نہ ہو جاوں اور میرے گھر والے ان کے گھر والوں سے زیادہ عزیز نہ ہوں میری عترت اس کی عترت (اولاد) سے زیادہ محبوب نہ ہو اور میری ذات اس کی ذات سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے یہی بات امام عصرعلیہ السلام پر صدق آتے ہیں امام زمانہ علیہ السلام انسان کی زندگی کی محبوب ترین شخصیت کا نام ہے تو یہ کیسے ملتا ہے کہ محبوب نگاہوں سے اوجھل رہے اور عاشق کے دل میں اضطراب اور بے قراری نہ پیدا ہو اور وہ اپنے محبوب کی طرف سے اس طرح غافل ہو جائے کہ مخصوص تاریخوں اور مواقع کے علاوہ اس کے وجود اور اس کی غیبت کا احساس بھی پیدا نہ کرے دعائے ندبہ میں انہیں تمام حالات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے اور اس لیے اس دعا کو دعائے ندبہ کہا جاتا ہے کہ انسان اس کے مضامین کی طرف متوجہ ہو جائے اور غیبت امام زمانہ علیہ السلام کی مصیبت کا صحیح اندازہ کرے تو گریہ اور ندبہ کیے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ہے اور شاید اس لیے اس دعا کی تاکید ایام عید میں کی گئی ہے یعنی روز عید فطر، روزعید قربان، روز عید غدیر اور روز جمعہ جیسے بعض اسلام احکام کے اعتبار سے عید سے تعبیر کیا گیا ہے کہ عید کا دن انسان کے لیے انتہائی مسرت کا دن ہوتا ہے اور اس دن ایک محب اور عاشق کا فرض ہے کہ اپنے محبوب حقیقی کے فراق کا احساس پیدا کرے اور اس کے فراق پر آنسو بہائے تا کہ اسے فراق کی صحیح کیفیت کا اندازہ ہو سکے جیسا کہ امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب کوئی عید کا دن آتا ہے تو ہم آل محمد کا غم تازہ ہو جاتا ہے کہ ہم اپنا حق اغیار کے ہاتھوں پامال ہوتے دیکھتے ہیں اور مصلحت الہیہ کی بنیاد یہ کوئی آواز بھی بلند کر کستے آئمہ معصومین علیہ السلام میں مولائے کائنات امیر المومنینعلیہ السلام کے دور سے امام حسن عسکریعلیہ السلام تک ہر امام زمانہ علیہ السلام نے غیبت کے نقصانات اور مصائب کا تذکرہ کر کے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کائنات میں غیر صرف اس وقت نمایاں ہو گا جب ہمار قائم علیہ السلام قیام کرے گا اور اس سے پہلے اس دنیا سے کسی واقعی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی ہے تا کہ انسان مومن بد ترین حالات سے بھی مایوس نہ ہو جائے اور پھر انہیں حالات سے راضی اور مطمئن بھی نہ ہو جائے کہ یہ اس کے نقص ایمان کا سب سے بڑا ذریعہ ہوگا اس مقام پر صیرفی کی اس روایت کو نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں سدیر کہتے ہیں کہ میں اور مفضل بن عمر اور ابوبصیر اور امان بن تغلب امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ خاک پر بیٹھے ہوئے بے تحاشہ گریہ فرما رہے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں کہ میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبت کو عظیم کر دیا ہے میری نیند کو ختم کر دیا ہے اور میری آنکھوں سے سیلاب اشک جاری کر دیا ہے میں نے حیرت زدہ ہو کر عرض کی کہ فرزند رسول! خدا آپ کو ہربلا سے محفوظ رکھے یہ گریہ کا کون سا انداز ہے اور خدانخواستہ کون سی تازہ مصیبت آپ پر نازل ہو گئی ہے تو فرمایا کہ میں نے کتاب جفر کا مطالعہ کیا ہے جس میں قیامت تک کے حالات کا ذکر موجود ہے تو اس میں آخری وارث پیغمبر کی غیبت اور طول غیبت کے ساتھ اس دور میں پیدا ہونے والے بد ترین شکوک و شبہات اور ایمان و عقیدہ کے تزلزل کے حالات اور پھر شیعوں کے مبتلائے شک و ریب ہونے اور تفائل اعمال کا مطالعہ کیا ہے اور اس امر نے مجھے اس طرح بے قرار ہو کر رونے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس غیبت میں صاحبان امام زمانہ علیہ السلام کا کیا حشر ہو گا اور ان کا ایمان کس طرح محفوظ رہ سکے گا اگر ہمارے حالات اور ہمار ی بد اعمالیاں سینکڑوں سال پہلے امام صادق علیہ السلام کو بے قرار ہو کر رونے پر مجبور کر سکتی ہیں تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اس دور غیبت میں ان حالات اور آفات کا اندازہ کر کے کم از کم روز جمعہ خلوص دل کے ساتھ دعائے ندبہ کی تلاوت کر کے اپنے حالات پر خود آنسو بہائے کہ شاید اسی طرح ہمارے دل میں عشق امام زمانہ علیہ السلام کا جذبہ پیدا ہو جائے ہم کسی آن ان کی یاد سے غافل نہ ہونے پائیں جس طرح انہوں نے خود اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم کسی وقت بھی اپنے چاہنے والوں کی یاد سے غافل نہیں ہوتے ہیں اور نہ ان کی نگرانی کو نظر انداز کرتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان کا اعتماد ہمارے اوپر رہے اور ان کی حفاظت و رعایت کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی حوالے کی گئی ہے اگر کسی شخص نے حقیقتاً اپنے امام زمانہ علیہ السلام کی محبت کا جام شیریں نوش کیا اور دل سے رشتہ محبت کو آپ کے ساتھ استوار کیا ہو تو اس قدر آپ کی فرقت اور جدائی میں غمگین ہو گا کہ آنکھوں سے نیند دل سے قرار اور خورد نوش سے لذت جاتی رہے گی اس غم کا بیان ہو کہ وہ جلالت و عظمت ہستی جو منبع ہے تمام تر رافت و لطف احسان کا مگر حجاب الہیٰ میں اس طرح پوشیدہ ہے کہ نہیں جانتے دست طلب ان تک کیسے پہنچے ان کے جمال سے کیسے سراب ہوں گے یہ آنکھیں ہر کس اور ناکس کو یہ آنکھیں دیکھتی ہے سوائے اس ہستی کے جس کے سوا کسی کو دیکھنا چاہیے ہر لغو اور نا پسندیدہ بات کو کان سنتے ہیں اس کی آواز کے جس کے سوا کچھ سننا نہیں چاہیے۔

دوسری ذمہ داری:

غیبت امام زمانہ علیہ السلام میں ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے انتظار حکومت و سکون آل محمد اس انتظار کو دور غیبت میں افضل قرار دیا گیا ہے اور اس میں اس امر کا واضح اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایک دن آل محمد کا اقتدار ضرور قائم ہونے والا ہے اور اہل ایمان کی ذمہ داری ہے کہ اس دن کا انتظار کرے اور اس کے لیے زمین ہموار کرنے اور فضا کو سازگار بنانے کی کوش کرتے رہیں اب یہ دور کب آئے گا اور اس کا وقت کیا ہیں یہ ایک راز ہے جس کو تمام مخلوقات سے مخفی رکھا گیا ہے بلکہ روایات میں یہاں تک وارد ہوا ہے کہ امیر المومنینعلیہ السلام کے زخمی ہونے کے بعد آپ کے صحابی عمرو بن الحمق نے آپ کی عیادت کرتے ہوئے عرض کی مولا ان مصائب کے انتہا کیا ہے تو فرمایا کہ ۰۷ ہجری تک عرض کی کیا اس کے بعد راحت و آرام ہے آپ نے کوئی جواب نہیں دیا اور غش کھا گئے اس کے بعد جب غش سے افاقہ ہوا تو دوبارہ سوال کیا فرمایا ہر بلا کے بعد سہولت اور آسانی ہے لیکن اس کا اختیار پروردگار کے ہاتھ میں ہے اس کے بعد ابو حمزہ ثمالی نے امام محمد باقرعلیہ السلام سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا کہ ۰۷ ہجری تو گزر چکا ہے لیکن بلاوں کا سلسلہ جاری ہے تو فرمایا شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد جب غضب پروردگار شدید ہوا تو اس نے سہولت و سکون کے دور کو آگے بڑھا دیا پھر اس کے بعد ابوحمزہ نے یہی سوال امام صادق علیہ السلام سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ بے شک غضب الہیٰ نے اس مدت کو دو گنا کر دیا تھا اس کے بعد جب لوگوں نے اس راز کو فاش کر دیا تو پروردگار نے اس دور کو مطلق طور پر راز بنا دیا اور اب کسی کو اس امر کا علم نہیں ہو سکتا ہے اور ہر شخص کا فرض ہے کہ اس دور کا انتظار کرے کہ انتظار ظہور کرنے والا مر بھی جائے گا تو وہ قائم علیہ السلام آل محمد کے اصحاب میں شمار کیا جائے گا امام رضعلیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا نے فرمایا میری امت کے لیے بہترین عمل انتظار فرج ہے شیخ صدوق کتاب(کمال الدین) میں صادق آل محمد سے روایت کرتے ہیں کہ آئمہ کا دین تقویٰ، عفت اور پاک دامنی نیک عمل اور فرج قائم علیہ السلام آل محمد کا انتظار کرنا ہے۔

تیسری ذمہ داری:

غیبت امام زمانہ علیہ السلام میں ہماری تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم یوسف زہراءزمام زمانہعلیہ السلام کے لیے بارگاہ احدیت میں دست بدعا رہنا امام زمانہ علیہ السلام کی سلامتی کی دعا ہر شے سے نجات کی دعا تمام شیاطین جن و انس سے حفاظت کی دعا اور سب سے بڑھ کر جناب کی نصرت و اعدا پر غلبہ کی اور تعجیل فرج کی دعا ہے دعا تو ہمارے اپنے رب کے ساتھ اہم ترین رابطہ ہے خصوصاً اپنے دینی بھائیں کے لیے دعا کی بہت تاکید گئی ہے اس کی ترغیب اور تشویق دلائی گئی ہے جب برادران ایمانی کے لیے دعا کی اتنی فضیلت ہے تو پھر زمین پر حجت خدا اور سب ہدایت اور وجہ تخلیق کائنات کے لیے دعا کرنا جس فضیلت کا حامل ہو سکتاہے اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے امام زمانہ علیہ السلام کے لیے دعا آپ کی بندگی اور جلالت کے موجب ہم پر آپ کا ایک حق ہے جس کی ادائیگی ہماری آپ سے محبت و عقیدت کا ثبوت ہے جب ہم دعا کرتے ہیں تو اپنے پیاروں اور عزیزوں کے لیے دعا کرتے ہیں اسی طرح چاہیے کہ آنحضرت کے لیے دعا کو مقدم کریں اور پہلے آپ کی سلامتی اور فرج کے لیے دعا کریں اور پھر آپ کے وسیلے سے اپنی حجت پیش کریں ایک طرف تو اس سے بندگی اور محبت کا حق ادا ہو گا آپ کے جو احسان عظیم ہم پر ہیں ان کا شکر ادا ہو اور امید ہے کہ دعا کے لیے وہ دروازوں کو ہم پر کھول دے اور آپ کے وجود پر نور کی برکت سے ہماری دعائیں مستجاب ہوجائیں یہ بات نہیں کہ ہمارے آقا ہماری دعاوں کے حاجت مند ہیں بلکہ یہ ہماری عقیدت و محبت کا تقاضا ہے اور ہماری دعاوں کی قبولیت کا باعث بھی ہے پس ہمیں چاہیے کہ آپ کی ذات اور حاجات کو اپنے نفس پر یعنی اپنی ذات پر مقدم کریں اور پہلے آنجناب اور پھر اپنی ذات اور حاجات کے لیے دعا کریں ظاہر ہے کہ دعا ہر اس مسئلہ کا علاج ہے جو انسان کے امکان سے باہر ہو اور جب دور غیبت میں امام زمانہ علیہ السلام کی حفاظت کسی اعتبار سے بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور ہم خود انہیں کہ رحم و کرم سے زندہ ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے وجود مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہ اقدس میں مسلسل دعائیں کرتے رہیں اور کسی وقت بھی اس فرض سے غافل نہ ہوں دعائے اللھم کن لولیک الحجة بن الحسنعلیہ السلام جسے عام طور سے اثنائے نماز، قنوت یا بعد نماز وظیفہ کے طور پر پڑھا جاتا ہے امام زمانہ علیہ السلام کے وجود کی حفاظت ان کی ظہور کی سہولت اور ان کی عادلانہ حکومت کے بارے میں جامع ترین دعا ہے جس سے صاحبان ایمان کو کسی وقت بھی غافل نہیں ہونا چاہیے انہیں دعاوں میں سے ایک دعائے عہد ہے جس کے بارے میں اما جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جو شخص اس عہد نامے کو قربة الی اللہ لگا تار چالیس روز تک نماز صبح کے بعد باوضو رو بقبلہ پڑھے گا تو وہ ہمارے قائم علیہ السلام (آل محمد) کے یار و انصار میں ہوگا اور اگر امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور پر نور سے قبل وہ مر جائے گا تو خداوندعالم اس کو سر سے اُٹھائے گا اور امام زمانہ علیہ السلام کے انصار میں شامل کرے گا اور اسے پھر کلمہ اور لفظ عوض میں ہزار نیکیاں اور حسنات عطا فرمائے گا اور اس کے نامہ اعمال سے ہزار برائیاں محو فرمائے گا نیز زرارہ بن اعین امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں عصر غیبت کے لوگوں کو یہ دعا ضرور پڑھنا چاہیےاللهم عرفنی نفسک فانک ان لم تعرفنی نفسک ........

چوتھی ذمہ داری:

ہم شیعیان علی علیہ السلام پر دوران غیبت چوتھی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی سلامتی کے لیے صدقہ نکالنا آپ علیہ السلام کی سلامتی اور حفاظت کی خاطر روزانہ جو کچھ سیر ہو اس میں صدقہ نکالنابھی ہماری محبت اور عقیدت کا تقاضا ہے صدقہ کئی ایک مقاصد سے نکالا جاتا ہے اپنے عزیزوں کی سلامتی اور حفاظت کے لیے اپنی ذات کی سلامتی و محبت کے لیے اس کے علاوہ سفر میں یا مرض میں سلامتی کے لیے غرض جو جتنا بھی عزیز ہو تو وہ ہستی جو ہر چیز سے زیادہ محبوب ہے زیادہ حق دار ہے اس کی سلامتی اور حفاظت کے لیے صدقہ دینا چاہےے کم ہو یا زیادہ اس میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ہمارے مولا جان ہمارے صدقہ دینے کے حاجت مند نہیں ہیں مگر یہ خیال ہمیں اس نیک عمل سے باز نہ رکھیں ہم خود حاجت مند ہیں کہ آپ کی حفظ و سلامتی کو اپنے اور اپنے عزیزوں کی سلامتی پر مقدم رکھیں تا کہ اللہ تعالیٰ قائم آل محمد کو ہر شر جن و انس اور مصائب ارضی و سماوی سے محفوظ رکھیں حدیث میں آیا ہے کہ حضرت رسول خدا اور آئمہ طاہرینعلیہ السلام اپنے وجود مقدس کو آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے اور دنیا و آخرت کی نفع کے لیے صبح و شام آدھی رات کو اور سفر سے پہلے اور ان کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر صدقہ دیا کرتے تھے اور اس کا خاص اہتمام کرتے تھے چنانچہ کلمہ طیبہ میں ذکر ہوا ہے تمام آئمہ معصومین علیہ السلام حوادث اور واقعات و بلایا کے لیے ایک دوسرے کے لیے صدقہ دیا کرتے تھے چنانچہ اس میں کوئی فرق نہیں کہ آپ حضراتعلیہ السلام خود صدقہ دیں یا آپ علیہ السلام کی امت اور پیروکاروں میں سے کوئی بھی بلاوں اور آفات کو ان کے وجود اقدس سے دور کرنے کے لیے صدقہ دے بلکہ یہ ہمارے دلوں میں ان کےلئے موجود محبت و عقیدت اور عزت و احترام کا ثبوت ہے اور ان حضرات کے ہم پر احسان و اکرام لطف عنایت کا ایک شکرانہ ہے امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک امام زمانہ علیہ السلام کے لیے مال خڑچ کرنے سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں ہے جو مومن اپنے مال سے ایک درہم امام زمانہ علیہ السلام کے نام پہ خرچ کرے خداوند بہشت میں احد پہاڑ کے برابر اسے اس کا بدلہ دے گا۔(اُصول کافی ج۱ص۷۳۵)

صدقہ در حقیقت خواہش سلامتی کا عملی اظہار ہے کہ انسان جس کی سلامتی کی تمنا رکھتا ہے اس کے حق میں صرف لفظی طور پر دعا نہیں کرتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی دفع بلا کا انتظام کرتا ہے اور یہ انتظام صدقہ سے بہتر کوئی شے نہیں ہے دعا ان لوگوں کے لیے بہترین شے ہے جو صدقہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں لیکن جن کے پاس یہ استطاعت پائی جاتی ہے وہ اگر صرف دعا پہ اکتفا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف لفظی کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور امام زمانہ علیہ السلام کی سلامتی کے لیے چند پیسے بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے ہیں جب کہ جو کچھ مالک کائنات سے لیا ہے وہ سب انہی کے صدقہ میں لیا ہے اور جو کچھ آمذہ لینا ہے وہ بھی انہی کے طفیل میں اور انہی کے وسیلے سے حاصل کرنا ہے۔

پانچویں ذمہ داری:

منتظرین امام زمانہ علیہ السلام کی پانچویں ذمہ داری بہت اہم ہے ہمیں چاہیے کہ زمانہ غیبت کہ ان اندھیروں میں خداوندعالم کے حضور اور گریہ و زاری اور اپنے دین ایمان کی حفاظت کے لیے بہت ہی دعائیں کریں کہ وہ ہمیں شیاطین کی گمراہی سے محفوظ رکھیں اور اسلام کے دائرے میں رکھے جو کفار اور زندیق ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور یہ طویل ترین غیبت باز مومنوں کے دل میں شک و شبے کا بیج بو رہی ہے اس صورت میں خدا سے ہر وقت ایمان پر بر قرار رہنے کی اور دین پر ثابت قدم رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہیے اس قصد کے لیے بہت سی دعائیں روایت میں آئمہ معصومین علیہ السلام سے وارد ہوئی ہیں امام صادق علیہ السلام نے زرارہ سے فرمایا تھا کہ ہمارے قائم علیہ السلام کی غیبت میں اس دور میں شبہات پیدا کیے جائیں گے کہ اچھے خاصے لوگ مشکوک ہو جائیں گے لہذا اس دور میں ہر شخص کا فرض ہے کہ سلامتی ایمان کی دعا کرتا رہے اور یاد امام زمانہ علیہ السلام میں مصروف رہے اور عبداللہ بن سنان کی امام صادق علیہ السلام سے روایت کی بناءپر کم از کمیا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک کا ورد کرتا رہے کہ سلامتی دین و ایمان کے لیے یہ بہترین اور مختصر ترین دعا ہے۔

چھٹی ذمہ داری:

غیبت امام زمانہ علیہ السلام میں ہماری چھٹی ذمہ داری آپ علیہ السلام کی نیابت میں حج کرنا اور حج کروانا جو دور قدیم سے شیعوں کے درمیان مرسوم تھا کہ لوگ اپنے امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے نیابت اعمال انجام دیا کرتے تھے اور امام عصرعلیہ السلام ان کے ان اعمال کی قدر دانی بھی فرمایا کرتے تھے جیسا کہ قطب راوندی نے کتاب خرائج میں روایت کی ہے کہ ابو محمدو علجی کے دو بیٹے تھے ان میں سے ایک نیک و صالح تھا کہ جیسے ابوالحسن کہتے تھے اور وہ مردوں کو غسل دیا کرتا تھا اور اس کا دوسرا بیٹا محرکات کا ارتکاب کرتا تھا شیعوں میں سے ایک شخص نے ابومحمد مذکور کو کچھ رقم دی کہ وہ آنحضرت کی نیابت میں حج کرے جیسا کہ اس زمانے کے شیعوں کی یہ عادت تھی اور ابو محمد نے اس رقم سے کچھ اپنے اس فاسد لڑکے کو دی اور اسے اپنے ساتھ لے گیا تا کہ وہ آنحضرتعلیہ السلام کی طرف سے حج کرے جب وہ حج سے واپس آیا تو اس نے نقل کیا کہ موقف عرفات میں میں نے ایک جوان گندم گون اچھی ہیئت کو دیکھا جو تضرعوابتیال و دعائیں میں مشغول تھا اور جب میں اس کے قریب پہنچا تو میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اے شیخ تجھے شرم و حیا نہیں آتی میں نے عرض کیا اے میرے سید و سردارکس چیز سے حیا کروں فرمایا تجھے (نیابتی) حج دیتے ہیں اس شخص کے لیے کہ جسے تم جانتے ہو اور جسے تم ایک فاسق کو دے دیتے ہو جو کہ شراب پیتا ہے قریب ہے کہ تیری آنکھ اندھی ہو جائے اس کے واپس آنے کے چالیس دن نہیں گزرے تھے کہ اس آنکھ کہ جس کو طرف اشارہ ہوا تھا ایک زخم پھوٹا اور اس زخم سے وہ آنکھ ضائع ہو گئی۔

ساتویں ذمہ داری:

منتظرین امام زمانہ علیہ السلام کی ساتویں ذمہ داری یہ ہے کہ جب قائم آل محمد کا مخصوص نام مبارک (قائم علیہ السلام) سنے تو تعظیم کے لیے کھڑے ہو جائیں روایت میں ہے کہ ایک روز امام جعفر صادق علیہ السلام تشریف فرما تھے کہ آپ کی مجلس میں یہ نام مبارک ذکر کیا گیا پس آپ اس کے احترام و تعظیم میں کھڑے ہوگئے جب ہم احترام کر کے کھڑے ہو جاتے ہیں تو اس میں حضرت کے قیام کا اشارہ پایا جاتا ہے اور آپ کے قیام کے تصور کے ساتھ کھڑا ہو جانا محبت عقیدت اور غلامی کا بہترین مقتضیٰ ہے جس سے کسی وقت بھی غفلت نہیں کی جا سکتی ہے جیسا کہ تمام افراد امامیہ بھی اسی امر پر اتفاق نظر رکھتے ہیں اس عمل کے ماخذ و اصل کے وجود پر اگرچہ اب تک نظر سے نہیں گزرا بعض علماءنے نقل کیا ہے کہ عالم جلیل قدر سید عبداللہ سبط محمدی جزائری سے سوال کیا گیا تو وہ محروم حضرت کی تعظیم و احترام میں کھڑے ہو گئے لیکن عالم محدث آقا سید حسن موسوی نے (تکملہ امل الآمل) میں فرمایا ہے ک علماءامامیہ میں سے ایک شخص عبدالرضا بن محمد نے جو متوکل کی اولاد میں سے ہے ایک کتاب حضرت امام رضعلیہ السلام کی وفات پر لکھی ہے جس کا نام (ناجیج میزان الاحزان فی وفات خراسان) ہے ایک کتاب میں ایک روایت ہے کہ دعبل خزاعی نے جب قصیدہ تائید اپنا امام رضعلیہ السلام کے لیے پڑھا تو جب اس پر پہنچا کہ (خروج امام الامعالة قائم علیہ السلام ) یقوم علی اسم اللہ بابرکات اور خروج کرنا امام زمانہ علیہ السلام کا جو لامحالہ متروج کرے گا جو اللہ کے نام پر برکتوں کے ساتھ کھڑا ہو گا تو حضرت امام رضعلیہ السلام کھڑے ہو گئے اور اپنے پاوں پر کھڑے ہو کر اپنا سر زمین کی طرف جھکا لیا بعد اس کے کہ آپ نے اپنے ہاتھ کی دائیں ہتھیلی اپنے سر پر رکھی ہوئی تھی اور فرمایا اللھم عجل فرجہ و مخرجہ وانصرنا بہ نصرا عزیزا۔ خدا اس کی فرج و خروج کی جلدی قرار دے اور اس کے ذریعے ہماری با عزت طور پر مدد و نصرت فرما تو ہمیں چاہےے کہ جب بھی مولا کا مخصوص اسم مبارک سنے تو احترام کے لیے خلوص دل سے کھڑے ہو جائے۔

آٹھویں ذمہ داری:

امام زمانہ علیہ السلام کے شیعہ وپیروکار ہونے کے حوالے سے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان سے استعانت طلب کریں مصائب و آلام و شدائد بیماریوں اور شک و شبہات کے فتنے سے حفاظت کے لیے آپ کی بارگاہ میں استغاثہ کریںضروری ہے کہ ہم اعتقاد رکھیں کہ آپ ہمارے لیے ہر طرح کے خیر و برکت کا وسیلہ ہیں ہماری حاجات بر لانے اور مشکل کشی کے لیے اللہ کی طرف سے معمور ہیں چنانچہ آپ سے حاجت مشکل کشائی طلب کریں روایت بتاتی ہے کہ قدیم زمانے سے لوگ آپ کے وجود اقدس سے طلب حاجت کرتے رہے ہیں اور آپ کے وجود پر نور سے رہنمائی پاتے رہے ہیں اور آپ کے فیوض و بارکات کا چشمہ آج تک جاری ہو ساری ہے اس لےے روایت میں آپ کے وجود مبارک کو سورج سے تشبیہ دی گئی ہے جو بادلوں میں چھپا ہوا مگر اس کے باوجود خلق خدا اس سورج سے فائدہ اُٹھائی ہے اور اس کے فیوض برکات چشمہ کی طرح جاری رہتے ہیں ۔کیونکہ آنجناب بحسب قدرت الہیہ و علوم لدنیہ ربانیہ ہر شخص کے ہر جگہ کے حالات سے دانا ہے اور اس کے مسول کی اجابت پر توانا ہے اور آپ کا فیض عام ہے اور اپنی رعایا کے امور کی دیکھ بال سے نہ غفلت کی ہے اور نہ کریں گے اور خود آنجناب نے اس توضیح میں جو شیخ مفیدکو بھی حق تحریر فرمایا کہ ہمارا علم تمہارے اخبار و حالات پر محیط ہے اور تمہاری خبروں میں سے کسی چیز کا علم اور تمہاری مصیبتوںاور مبتلات کی معرفت ہم سے غائب نہیں رہتی شیخ طوسی نے کتاب غیبت میں سند معتبر کے ساتھ روایت کی ہے جناب ابوالقاسم حسین بن روح تیرے نائب سے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب نے تفویض وغیرہ میں اختلاف کیا تو میں اس کے استقامت کے زمانہ میں ابوطاہرین بلال کے پاس گیا یعنی اس سے پہلے کہ وہ بعض مذاہب باطلہ کو اختیار کرتا پس میں نے وہ اختلاف اس کو بتایا تو وہ مجھ سے کہنے لگا کہ مجھے کچھ مہلت دو پس میں نے اسے چند دن کی مہلت دی پھر میں دوبارہ اس کے پاس گیا تو اس نے ایک حدیث اپنی اسناد کے ساتھ حضرت صادق علیہ السلام سے نکالی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جس وقت خداوندعالم کسی امر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے رسول کے سامنے پیش کرتا ہے اور اس کے بعد امیر المومنینعلیہ السلام اور ایک ایک امام زمانہ علیہ السلام پر یہاں تک کہ یہ سلسلہ معرفت صاحب الزمانعلیہ السلام تک پہنچتا ہے اور پھر وہ دنیا کی طرف آتا ہے اور جب ملائکہ ارادہ کرتے ہیں کہ کس عمل کو اوپر لے جائیں خداوندعالم کی بارگاہ میں تو وہ امام زمانہ علیہ السلام کے سامنے پیش ہوتا ہے یہاں تک کہ رسول خدا کی خدمت میں پیش ہوتا ہے اس کے بعد بارگاہ الہیٰ میں پیش ہوتا ہے پس جو کچھ خداوندعالم کی طرف سے اترتا ہے وہ ان کے ہاتھ پر آتا ہے اور جو کچھ خدا کی طرف جاتا ہے تو وہ ان کی طرف سے ہے اور یہ حضرات خداوندعالم سے چشم زون کی مقدار بے نیاز نہیں ہیں ابوالوفائے شیرازی کی روایت میں ہے کہ رسول خدا نے اس سے فرمایا جب تو درماندہ، بیچارہ و گرفتار مصیبت ہو جائے تو حجة ابن الحسنعلیہ السلام سے استغاثہ کر کیونکہ وہ تیری مدد کو پہنچیں گے اور وہ جناب فریاد رس ہیں اور پناہ ہے اس شخص کے لےے جو ان سے استغاثہ کریں تو ہمیں چاہیے کہ جب بھی کوئی مشکلات یا پریشانی پیش آئے تو اپنے مولا حقیقی کی دامن کو تھام لیں اور خدا کی درگاہ میں دعا کریں اور استعانت کرے۔ انشاءاللہ خدا خود مدد کرے گا۔

استغاثہ برای امام زمانہ علیہ السلام:

یابن زہرا اے کہ رمز بود بنودی

یابن طحہٰ ای کہ دل از کفم رہ بودی

مولا مولا من بنودم اگر بنودی

کنم کجا نگار خود دامن پیدا

الی متیٰ احار فیک یا مولا

گلاب عصریٰ، امید نصری، ولی عصری، ولی عصری تو

من کہ گرتا دریہ خانہ گروزدہ ام

ہمة عمرم رمز غم ہجری عزیز زدہ ام

من کجا دید نہ آن ساقی گل چہرہ کجا

خبھم فران کہ فقد لاف کینزی زدہ ام

کنیز اگر بودم، تعدامی دیدم، چین دورہ گناہ نہ می

چرخیرن، چین دورہ گناہ نمی چرخیرن

سر وصل تو دارم من بے چشم انتظار من

بے پایانہ می رسد عمدم دیگر فرصت نہ دارم من دیگر فرصت نہ دارم من

ترسم عمرم سر آید مہدی، از در نہ آید مہدی

پرچم فاطمیہ را تو بیا برپا کن مہدی

ماجر ای ندکش تو بیا افشاکن مہدی

قبر مخفی شد است تو بیا پیرا کن مہدی

دشمن فاطمہ را تو بیا رسوا کن مہدی

اے دلا از نگار خود گلہ مفی ندارد بے معشوق و عاشق فاصلہ من ندارد

فاصلہ رو سیاہ ما است پردہ غیبت گناہ ماہ است۔ یان زہرائ

آخر میں میری دعا ہے کہ خداوند اس مختصراً مگر پر خلوص زحمت کو آپ کے درگاہ میں قبول فرما اور امام زمانہ علیہ السلام ہم سے خوش فرما ہمیں امام زمانہ علیہ السلام کے حقیقی طلاب میں قرار دےں۔

اور آئندہ بھی اسی طرح کے کاموں میں شرکت کرنے کی توفیق عنایت فرما۔

۱۲

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۰-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

از:سیماب بتول ولد حاجی شاہد اقبال

النجم الثاقب میں اسے صالح تقی سید ہاشم موسوی نے یہ حدیث بیان کی ہے جو ایک تاجر تھے اور شہر رشت میں ان کا قیام تھا وہ اس پرہیزگار شخصیت کے طور پر بے حد مشہور تھا جو مذہب حقہ کے تمام قوانین پر پابندی سے عمل پیرا ہو جو بڑی توجہ اور باقاعدگی سے تمام نمازیں پڑھتا اور خمس اورع زکوة ادا کرتا تھا اس طرح وہ پابندی سے زیارت پڑھتا وہ لکھتا ہے کہ ۰۸۲۱ ہجری میں وہ مکہ برائے حج روانہ ہوا جب تبریز پہنچا تو حاجی صفر علی کے ہاں مہمان ٹھہرا جو تبریر میں تجارت کرتا تھا کہتا ہے کہ چونکہ تبریز میں اسے کوئی کاروان حج نہیں ملا وہ بے حد پریشان تھا اسی اثناءمیں کہ اسے معلوم ہوا کہ حاجی جبار صفہانی شہر تارالوزن سامان لے کے جا رہا ہے تو اس نے فیصلہ کیا کہ ایک گھوڑا کرائے پر لے کر ان کے ساتھ روانہ ہو جائے جب ہم پہلے پڑاو پر پہنچے تو حاجی صفر علی کے اصرار پر تین اور ساتھی بھی ہمارے ساتھ آن ملے وہ حاجی ملا باقر تبریزی سید حسین تبریزی اور حاجی علی تھے ہم سب اکٹھے اگلی منزل کی طرف چل پڑے اور مقام رافناة الروم پہنچ گئے وہاں سے ہم تارالوزن کی طرف روانہ ہوئے ان دو شہروں کے درمیان حاجی جبار نے ہمیں خبر دار کہا کہ آگے سفر خطر ناک ہے ہم سب کو بر وقت تیار رہنا چاہےے اور ہم سب کو ساتھ ساتھ چلنا چاہےے یہاں تک کہ خطرے کے مقام سے آگے نکل جائیں حسب معمول ہم نے سارے قافلے کے ہمارے پاس سے گزر جانے کے بعد گھوڑوں پر سوار ہونا تھا لیکن اس دن ہم سب ساتھی ایک گروپ بنا کر صبح صادق سے کوشش کرتے رہے۔

کہ راستے میں ہمارا گروپ ایک ساتھ رہے ہم ابھی نصف میل یا تین چوتھائی میل چلے ہوں گے کہ اچانک گھپ اندھیرا چھا گیا۔

جس کہ بعد تیز ہوا چلی اور پھر شدید طوفان آیا قافلے کے سب ساتھیوں نے اچھی طرح سے اپنے سروں کو ڈھانپا اور اپنی رفتار تیز کر دی میں نے بھی اپنا گھوڑا تیز دوڑایا تا کہ ان تک جا پہنچوں لیکن میرے اور ان کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ میرے ساتھی مجھ سے آگے نکل گئے چاروں طرف دھند چھا گئی جس کے سبب میرے ساتھی میری نظروں سے اوجھل ہو گئے اس وقت میں اپنے ساتھیوں سے بالکل جدا ہو چکا تھا اور تن تنہا پیچھے رہ گیا تھا میں نے فیصلہ کیا کہ گھوڑے سے اتر کر صبح تک سڑک کے کنارے رات گزاروں۔

میری جیب میں تو ۰۰۶ تومان تھے جن کی وجہ سے بے حد فکر مند رہا۔

میں نے فیصلہ کیا کہ صبح تک یہاں ٹھہروں صبح ہونے تک نماز پڑھ کر واپس اسی جگہ پہنچوں جہاں سے روانہ ہوا تھا۔

وہاں سے چند راہبر اجرت دے کر اپنے ساتھ لوں تا کہ وہ راستے میں میری رہنمائی کے ساتھ میری حفاظت کریں یہاں تک کہ اپنے قافلے سے آن ملوں اچانکل میری آنکھ کے بالکل سامنے مجھے ایک باغ نظر آیا وہاں پر ایک مالی کو دیکھا جو بوٹوں سے برف بنا رہا تھا پھر میں نے دیکھا کہ وہ مالی میری طرف آرہا ہے میرے قریب آتے ہی اس نے مجھ سے فارسی زبان میں سوال کیا آپ کون ہیں میں نے جواب دیا میرے قافلے کے ساتھی مجھ سے بہت دور آگے نکل گئے ہیں میں ان سے جدا ہو کر تنہا رہ گیا ہوں اور مجھے آگے راستے کا بالکل علم نہیں میں نے محسوس کیا کہ جو شخص مجھ سے مخاطب ہے وہ بڑے نورانی چہرے کا مالک ہے انہوں نے مجھے کہا تم نماز تہجد کیوں نہیں پڑھ لیتے جس کو عام طور پر نماز شب کہا جاتا ہے تا کہ تمہیں راستہ نظر آجائے جس کے فوراً بعد میں نے اپنے آپ کو نماز تہجد پڑھتے دیکھا اور وہ شخصیت چلی گئی جونہی میں نماز تہجد ختم کی وہی شخصیت میرے پاس دوبارہ آئی اور مجھ سے پوچھنے لگی کہ تم ابھی تک یہاں کیوں ہو۔

جواب دیا جناب مجھے ابھی تک راستے کا پتہ نہیں چل سکا۔

میں نہیں جانتا کس طرف اپنا سفر شروع کروں یہ سن کر اس شخصیت نے مجھے کہا۔

زیارت جامعہ پڑھو مجھے زیارت جامعہ یاد نہیں تھا۔

اگرچہ میں کئی با زیارات پر گیا ہوں اور وہاں پر کئی بار زیارت جامعہ زبانی نہیں جانتا لیکن اس دن جب وہ شخصیت وہاں سے چلی گئی تو میں اُٹھا اور میں نے زیارت جامعہ پڑھنی شروع کر دی یہاں تک کہ میں نے ساری زیارت جامعہ زبانی پڑھ ڈالی دیکھ کر میں خود بے حد حیران رہ گیا اس شخصیت کے رعب و جلال نے مجھے زیارت جامعہ پڑھنے پر مجبور کر دیا اور پھر میں نے دیکھا کہ زیارت کا ایک ایک جملہ پوری ترتیب سے خود بخود میری زبان پر آ رہا ہے۔

اور میں اسے پڑھ رہا ہوں جونہی میں نے زیارت جامعہ پڑھ لی تو وہ شخصیت میرے پاس آئی مجھ سے پوچھنے لگے تم ابھی یہاں ہو۔

تم گئے کیوں نہیں اس بار میری حالت یہ ہو چکی تھی کہ مجھ میں طاقت باقی نہیں رہی کہ ان کے سوال کو سن سکوں اور اس کا جواب دے سکوں میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور خوب رویا اب اس شخصیت نے پھر مجھ سے پوچھا آپ کیوں رو رہے ہیں میں نے جواب دیا جناب مجھے ابھی تک جانے کا راستہ نہیں ملا اس شخصیت نے کہا زیارت عاشورہ پڑھو اگرچہ میں کئی موقع پر اس سے پہلے زیارت عاشورہ پڑھ چکا تھا۔

لیکن مجھے زیانی یاد نہیں تھا لیکن اس شخصیت کی ہیت ایسی تھی کہ میں نے اچانک زیارت عاشورہ پڑھنا شروع کیا اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میں نے ساری زیارت عاشورہ زبانی پڑھ ڈالا۔

پوری ترتیب سے یکے بعد دیگرے ہر فقرہ زیارت کا بہت صحیح پڑھا پھر میں نے سلام پڑھا اور اس کے بعد طولانی دعا نے علقمہ بھی زبانی پڑھ ڈالی جس وقت میں نے دعا مکمل دمقایہ شخصیت دوبارہ نمودار ہوئی اور مجھ سے پوچھا کیا تم ابھی تک گئے نہیں اس بارے میں نے اپنی وکالت پہ کہہ کر کی کہ جناب میں صبح تک یہیں رہوں گا۔

اس شخصیت نے کہا آو میں تمہیں قافلے سے ملا لوں یہ کہہ کر وہ اپنا کدال اُٹھا کر خچر پر سوار ہوئے اور مجھے کہا کہ آو میرے پیچھے بیٹھ جاو۔

میں شکریہ کہہ کر ان کے پیچھے سوار ہو گیا ساتھ ہی اپنے گھوڑے کے بھاگ اپنے ہاتھ میں رکھے میں نے کوشش کی کہ انہیں کھینچوں لیکن انہوں نے منع کیا گھوڑے نے میرے ساتھ ساتھ آگے چلنے سے انکار کر دیا۔

نتیجتاً انہوں نے خود گھوڑے کہ بھاگ سنبھالے اپنا کدال بائیں ہاتھ میں سنبھال کر گھوڑے کو بھی خود ساتھ لے جانے لگے اب گھوڑا خچر کے پیچھے بڑے آرام سے چلنے لگا انہوں نے اپنا دست مبارک میری ران پر رکھا اور مجھ سے پوچھا تم کیوں نماز تہجد نہیں پڑھتے۔

انہوں نے نافلہ، نافلہ تین بار انہوں نے یہ لفظ دہرایا پھر انہوں نے پوچھا تم زیارت عاشورہ کیوں نہیں پڑھتے اسی طرح پھر انہوں نے یہ لفظ تین بار دہرائے عاشورہ، عاشورہ، عاشورہ پھر کہنے لگے آپ زیارت جامعہ کیوں نہیں پڑھتے جامعہ، جامعہ، جامعہ انہوں نے تین بار دہرایا جب وہ مجھے اس طریقے سے ہدایت دے رہے تھے۔

تو اچانک فرمایا:

وہ دیکھو تمہارا قافلہ ابھی ابھی یہاں پہنچا ہے اور گھوڑوں سے اتر رہا ہے تا کہ صبح کی نماز کے لیے وضو کر لیں ساتھ ہی انہوں نے مجھے اترنے میں مدد دی اور یہ کہ انہوں نے مجھے اپنے ساتھیوں سے اس قدر جلد ملوایا۔

جونہی میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کونسی شخصیت ہو سکتی ہے جونہی یہ خیالات میرے دماغ سے گزر رہے تھے کہ میں مڑا تا کہ ان کا شکریہ ادا کروں میں نے دیکھا کہ وہاں پر کوئی بھی موجود نہیں ایسے واقعات جن میں اکثر مومنین اچانک شدید مشکلات میں مبتلا ہو گئے سرکار نے وہاں خود ظاہر ہو کر ان پر بڑی مہربانی کی اور انہیں تمام تر مشکلات سے باہر نکالا اور سرکار نے بڑی فراخدانی سے ان کی مدد کی ایسی فراخدلی کے واقعات عام طور پر بڑی فراخدلی سے ان کی مدد کی۔

ایسی فراخدلی کے واقعات سرکار حجت علیہ السلام وجود ذی جود سے ظاہر ہوتے رہے ہیں ۔

ہم یوں کئی اہم دعاوں اور زیارات کا ذکر کر چکے ہیں اب ہم نماز شب زیارت جامعہ اور زیارت عاشورہ کے بارے حضرت حجت علیہ السلام کے فرمان نقل کرتے ہیں ایسی عظیم ہستی کے یہ فرمان کتنی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور اسی لیے مفاتیح الجنان میں زیارت جامعہ اور زیارت عاشورہ کی اہمیت و ثواب کا تفصیلی ذکر موجود ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زیارت جامعہ اور زیارت عاشورہ پورے سال بھر میں صرف ایک بار نہیں پڑھنی۔بلکہ اگر ہو سکے تو زیارت عاشورہ دس محرم الحرام کے علاوہ ہر شب جمعہ پڑھ لیا کریں اور اسی طرح زیارت جامعہ بھی سال بھر میں کثرت سے پڑھ لیا کریںاور کئی دعائیں مفاتیح الجنان میں موجود ہیں جن اہمیت اپنی جگہ پر مسلم ہے اور جن کے پڑھنے کی سفارش بڑی اہم ہستیوں نے کی ہے لیکن یہاں پر ان تمام دعاوں کا ذکر تفصیل سے کرنا ممکن نہیں اور جس کے پڑھنے کی سفارش انتہائی اہم ہستیوں نے کی ہے وہ دعا یہ ہے۔

اللهم صل علی محمد و عجل فرجهم

سرکار امام جعفر صادق علیہ السلام سے مستند روایت ہے کہ جو شخص یہ درود نماز فجر اور نماز ظہر کے بعد باقاعدگی سے پڑھے گا وہ اپنی زندگی میں مرنے سے پہلے سرکار رحمت علیہ السلام کی زیارت کا شرف ضرور پائے گا۔

جناب امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک دوسری روایت یوں بیان کی گئی ہے کہ جو شخص نماز عصر کے بعد ایک تسبیح سو بار یہی درود۔

اللهم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجهم

پڑھے گا اس کی تمام مصیبتیں اس پر آنے سے پہلے دفع ہو جائیں گی۔

نیز ہم شیخ طوسی کی اس دعا اللھم عرفنی نفسک اور یہ دعائے ندبہ کی اہمیت کا تفصیلی ذکر پہلے ہی کر چکے ہیں لیکن روز جمعہ عصر کی نماز کے بعد جن مومنین کے پاس ان طولانی دعاوں کے پڑھنے کے لیے وقت نہیں ہوتا انہی کم از کم یہ چھوٹی سی دعا۔

اللهم عرفنی نفسک ضرور پڑھنی چاہیے۔

اس سلسلے میں یہ دعا ئے احد اہم ہے کہ جو کوئی یہ دعا اس نیت کے ساتھ زندگی بھر میں ایک سو بار پڑھے گا حضرت حجت کا ظہور پر نور بہت جلد ہو پس تمام دعاوں کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے ہم نے خود اچھی طرح دیکھ لیا ہے کہ ہمارے امام پاک ہم پر کس قدر زیادہ مہربان ہیں ۔

اسی لیے بنیادی طور پر ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم روزانہ سرکار کی صحت و سلامتی اور ظہور پر نور کی دعا بڑی باقاعدگی سے مانگ لیا کریں اس لیے ہنس کے انہیں ہماری دعاوں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ رب جلیل نے خود ان کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے بلکہ ہماری یہ دعائیں اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ ہم اپنے امام زمانہ علیہ السلام کو پہچانتے ہیں اور ہم ان کی بے حد وفادار ہیں روایتوں میں یہ بات موجود ہے کہ جب ہم دعائے ندبہ۔

اللهم عرفنی نفسک اللهم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجهم ۔

پڑھتے ہیں تو پاک امام زمانہ علیہ السلام وہ سن کر ہمارے لیے بھی مسلسل دعا کرتے ہیں جسے جان کر ہمیں اور زیادہ پاک امام کا شکر اور وفادار بن جانا چاہیے۔

اس بارے میں کتاب انس العابدین میں یہ روایت موجود ہے کہ ابن طاوس ایک دن سامرہ میں تشریف فرما تھے وہ مقام پاکیزہ سرداب پر گئے وہاں پر انہوں نے حضرت صاحب الامرعلیہ السلام کو بچشم خود نماز پڑھتے دیکھا شیخ ابن طاوس کی آرزو ان دعاوں کے جاننے کے لیے بے حد مشہور ہے جو نماز کے بعد حضرت حجت علیہ السلام پڑھ رہے تھے چنانچہ وہ سرکار کے قریب جا کر بیٹھ گئے تا کہ وہ سرکار کی دعا سن سکے پھر انہوں نے سنا سرکار یہ دعا مانگ رہے تھے۔

یااللہ ہمارے شیعہ اور ہمارے چاہنے والے ہمارے نور اور ہماری تخلیق کے باقیات سے پیدا کیے گئے ہیں انہوں نے ہمارے اوپر اعتماد کر لیا ہے وہ ہم سے محبت کرتے ہیں اور انہیں اس بات کا یقین ہے کہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ان کی شفاعت کریں گے وہ ایمان لائے کہ باوجود کئی گناہ کر چکے ہیں ان کے گناہ ہمارے اوپر بوجھ ہیں وہ ہمارے ساتھی اور قرابتدار ہیں وہ ہمارے ساتھ وابستہ ہیں ہم ان کے ضامن ہیں ہم ان کے مرکزی ستون ہیں اور ہماری خوشی اسی میں ہے کہ یااللہ آپ ان کے تمام گناہ معاف کر دیں یااللہ ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعلقات و معاملات میں ان کی غلطیاں درست کیجئے اور اس خمس کے لیے جو یہ ہر سال ادا کرتے ہیں انہیں اس کے بدلے جنت انعام دی جائے اور انہیں نار جہنم کی سزا سے دور اور محفوظ رکھےے یہ ہے سرکار امام زمانہ علیہ السلام کی اپنے چاہنے والوں کے لیے دعا جس سے ہمارے ساتھ ان کی گہری محبت کا پتہ چلتا ہے بس ہمیں بھی ان کا اس تہہ دل سے شکر گزار ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں جو کچھ ہم کم سے کم کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد ان کی سلامتی اور کامیابی کی دعا مانگیں مذکورہ دعاوں کے ساتھ ساتھ ہمیں مندرجہ ذیل چھ فرائض بھی بحسن و خوبی بجا لانا چاہیے پہلی بات یہ ہمیں حقیقت ہر وقت یاد رکھنی چاہیے کہ اس دنیا کا صحیح حقدار حاکم ہمارے مولا حجتعلیہ السلام ہیں اور پوری دنیا کے عارضی حکمرانوں اور بادشاہوں نے انہیں دنیا میں ان کے مقام سے محروم کیا ہے زیارت جامعہ میں یہ حقیقت بہت اچھی طرح یاد دلاتی ہے ہم یہانپر زیارت جامعہ کے تمام حصوں کا ذکر نہیں کر سکتے۔ لیکن کم از کم ایک حصے کا ذکر یہاں ضرور کریں گے وہ حصہ یہ ہے۔

وہ جو آپ سے یا حضرتعلیہ السلام سے دور بھاگے ہیں وہ صحیح راستے سے بھٹک گئے ہیں اور جنہوں نے آپ کا ساتھ دیا ہے وہ آپ کے ساتھ مل کر ایک ہو گئے ہیں اور وہ لوگ جنہیں آپ کے حقوق پہچاننے میں نا کامی ہوئی ہے وہ اپنی منزل کھو چکے ہیں کیونکہ حق اور سچائی آپ کا ہے اور حق ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے حق آپ کی طرف سے بالکل ظاہر ہے پس ان جملوں سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ حق ہمیشہ چہاردہ معصومین علیہ السلام کا احاطہ کیے ہوئے ہےں۔ حق کا رخ پاک ہمیشہ ان کی طرف ہے ہمیں اس بات کا علم ضرور رکھنا چاہیے کہ حضرت حجت علیہ السلام سد ہمارے ساتھ ہیں ہر وقت ہمیں ان کے ظہور کی توقع رکھنی چاہیے۔

ہمیں ان پر ہمیشہ سلام بھیجنے چاہیں اور اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ ہمیں سرکار کے خادموں میں شامل فرما۔

یہ وہ دعا ہے جو ہمیں حضرت حجتعلیہ السلام نے پڑھائی اور سکھائی ہے اس دعا کے آخری حصے میں سرکار فرماتے ہیں ۔

یااللہ ہم تجھ سے شکوہ کرتے ہیں کہ پاک پیغمبر رحلت کے بعد ہم سے جدا ہو چکے ہیں اور ہمارے امام زمانہ علیہ السلام غائب ہیں ہمارے دشمنوں کی تعداد بڑھ چکی ہے اور ہماری تعداد گھٹ چکی ہے اور ایسا وقت آچکا ہے بس یہی دعا ہے کہ خدا ہمیں حضرت حجت علیہ السلام کے قدموں میں جگہ دے۔

۱۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۱-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

از:سیدہ فہمیدہ زیدی

معرفت:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امت کا سب سے اہم فریضہ معرفت امام زمانہ علیہ السلام کا حصول ہے اور یہ اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاہلیة چنانچہ امت کو چاہیے کہ امام علیہ السلام کی معرفت کی راہ میں جدوجہد کرے خصوصا ان دعاوں کی کثرت سے تلاوت کی جائے جو راہ میں معاون ہیں جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہےاللهم عرفنی نفسک فانک ان لم تعرفنی نفسک لم اعرف نبیک اللهم عرفنی نبیک فانک ان لم تعرفنی نبیک لم اعرف حجتک اللهم عرفنی حجتک فانک ان لم تعرفنی حجتک ضللت عن دینی ۔

ترجمہ : خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ کرے تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ کرے تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکتا خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو مجھے اپنی حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ کرے تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاوں گا۔

عن الی عبدالله علیه السلام فی قول الله عزوجل من یوت الحکمه فقد اوتی خیرا کثیرا فقال طاعة الله و معرفة الامام فرمایاامام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیت کے متعلق جس کو حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دی گئی اس حکمت مراد اللہ کی اطاعت اور معرفت امام علیہ السلام ہے۔

(اُصول کافی ج۱کتاب الحجت ص۲۱۲)

اطاعت:

قرآن و حدیث کی رو سے امام علیہ السلام کی اطاعت کو مطلقاً واجب قرار دیا گیا ہے لیکن غیبت کبریٰ کے زمانے میں یہ ذمہ داری اور بھی سنگین ہو جاتی ہےعن الی جعفر علیه السلام فی قول الله عزوجل واٰتمنا هم ملکا عظیما قال الطاعة المفروضة ۔

آیت مبارکہ اور ہم نے ان کو ملک عظیم دیا کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ اس سے مراد ہماری وہ اطاعت ہے جو لوگوں پر فرض کی گئی ہے۔

(اُصول کافی ج۱کتاب الحجت ص۴۱۲)

تعجیل ظہور کی دعا:

حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور میں جلدی کی کثرت سے دعائیں مانگیں کیونکہ خود وارث زمانہ علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ اکثر و الدعاءبتعجیل الفرج فان ذلک فرجکم ظہور میں تعجیل کے لیے بہت زیادہ دعا کرو کیونکہ تمہارے امور کی کشائش اسی میں ہے علاوہ ازیں دعا فرج کی تلاوت کی تاکید کی گئی ہے جو اکثر دعاوں کی کتابوں میں درج ہے۔

الهیٰ عظم البلاءو برح الخفائ ۔

انتظار:

امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا انتظار افضل ترین عبادت ہے امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں ہمارا قائم مہدی علیہ السلام ہے ان کے غائب ہونے کے دوران ان کا انتظار کرنا واجب ہے اور اس کا اجرو ثواب آئمہ علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص ہمارے امر (حکومت) کا منتظر ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو راہ خدا میں اپنے خون میں غلطان ہوتا ہے بس یہ انتظار اس طور ہونا چاہیے کہ کسی لمحہ بھی غافل نہ ہوا جائے صادق علیہ السلام آل محمد ارشاد فرماتے ہیں کہ وانتظرو الفرج صباحاً و مساءتم لوگ صبح و شام ظہور کا انتظار کرو۔

اشتیاق زیارت:

شیعان اہلبیت علیہ السلام کا امام علیہ السلام کی غیبت میں ایک خاص فریضہ آپ کے جمال مبارک کا اشتیاق رکھنا اور اس شوق کا اظہار کرنا بھی ہے ہر وقت دل میں ان کے دیدار کی تڑپ رہنی چاہیے اپنے آقا سے محو گفتگو ہونے کے لیے ہر جمعہ کی صبح بعد نماز فجر دعائے ندبہ (جو امام علیہ السلام کے فراق میں تڑپنے والوں کا نوحہ ہے) کی تلاوت کرے جس کے کلمات ہیں بارالہاٰ! ہم تیرے نا چیز بندے تیرے اس ولی کی زیارت کے مشتاق ہیں کہ جو تیری و تیرے رسول کی یاد تازہ کرتا ہے۔

دعا برائے سلامتی امام زمانہ علیہ السلام:

ایک سچے مومن اور شیعہ کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی دعاوں میں اپنے ہادی اور آقا کی سلامتی کا خواہاں رہے خاص طور سے سلامتی امام زمانہ علیہ السلام کے لیے کثرت ہے جس دعا کی تلاوت کا حکم دیا گیا ہے وہ یہ ہےاللهم کن لولیک الحجة ابن الحسن علیه السلام صلواتک علیه و علی آبائه فی هذة الساعة و فی کل ساعة ولیا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتی تسکنه ارضک طوعا و تمتعه فیها طویلا ۔

صدقہ برائے سلامتی امام زمانہ علیہ السلام:

ایک اور پسندیدہ فریضہ جس کی تاکید ہمارے پیشوایان دین نے کی ہے وہ ہے امام علیہ السلام کی سلامتی کی نیت سے صدقہ دینا ہے صدقہ بذات خود ایک محبوب عمل ہے اور سلامتی امام علیہ السلام کی نیت سے اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ اللہ کے نزدیک امام علیہ السلام کے لیے مال خرچ کرنے سے زیادہ محبوب چیز اور کوئی نہیں ہے تحقیق جو مومن اپنے مال سے ایک درہم امام علیہ السلام کی خاطر خرچ کرے خداوند بہشت میں اُحد کے پہاڑ کے برابر اسے اس کا بدلہ دے گا۔(اُصول کافی ج۱ص۷۳۵)

اتباع نائبین امام علیہ السلام:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام کا کوئی شخص بھی نائب خاص نہیں بلکہ فقہاءجامع الشرائط ہی حضرت علیہ السلام کے عام نمائندے ہیں چنانچہ ان کی اتباع واجب ہے (جسے فقہی اصطلاح میں تقلید کا نام دیا جاتا ہے) خود وارث زمانہ علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے ہماری غیبت کبریٰ میں پیش آنے والے حالات و مسائل کے سلسلہ میں ہماری حدیثوں کو بیان کرنے والے علماء(فقہائ) کی طرف رجوع کرو اس لیے کہ وہ اس ہماری طرف سے آپ پر حجت ہیں اور ہم اللہ کی طرف سے ان پر حجت ہیں ۔

امام علیہ السلام کا نام لینے کی ممانعت:

امام آخر الزمان علیہ السلام کا خاتم الانبیا کے نام پر ہے لیکن احادیث میں حضرت کا نام پکارنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ آپ کے جو القاب ہیں ان میں سے کسی لقب کے ذریعے آپ کو پکارے حجت العصر علیہ السلام، مہدی علیہ السلام، قائم علیہ السلام، منتظر علیہ السلام، امام غائب علیہ السلام وغیرھم۔

احتراماً کھڑے ہونا:

جب صاحب الزمان علیہ السلام کا تذکرہ آئے خصوصاً جب آپ کے القابات میں سے قائم علیہ السلام کا لقب پکارا جائے تو استقبال کے لیے کھڑے ہو جانا سنت آئمہ علیہ السلام ہے کیونکہ جب دعبل خزاعی نے آٹھویں امام علیہ السلام کی خدمت میں اپنا قصیدہ پیش کیا تھا تو جیسے ہی آخری امام علیہ السلام کا نام آیا تو آٹھویں امام علیہ السلام احتراماً کھڑے ہو گئے تھے۔

مشکلات میں امام زمانہ علیہ السلام کو وسیلہ بنانا:

خدا سے سوال کرتے وقت خصوصاً پریشانیوں میں امام علیہ السلام کے حق کی قسم دے کر حاجات طلب کرنا یا امام علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ کی صورت میں حاجات پیش کرنا خود وارث زمانہ علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے وبی یدفع اللہ عزوجل البلاءعن اھل و شیعتی اور خدائے عزوجل میرے ذریعے ہی میرے اہل و عیال اور میرے شیعوں سے مصائب کو دور کرتا ہے۔

امام علیہ السلام پر کثرت سے درود بھیجنا:

حضرت مہدی علیہ السلام پر درودو سلام زیادہ بھیجا جائے خاتم الانبیاءسے ابن حجر مکی نقل کرتے ہیں کہ حضرت نے ارشاد فرمایا لاتصلو اعلی الصلاة البترا فقالوا وبا الصلوة البترا قال تقولون اللهم صل علی محمد بل قولا اللهم صل علی محمد وآل محمد ۔ مجھ پر ناقص اور دم بریدہ صلوات نہ بھیجا کرو اصحاب نے عرض کی وہ ناقص صلوات کیا ہے؟ فرمایا فقط اللھم صل علی محمد کہو اس سے آگے نہ پڑھو اور رک جاو بلکہ یوں کہو اللھم صل علی محمد و آل محمد۔

(صواعق محرقہ ص۴۴۱) اور چونکہ یہ آخری امام علیہ السلام کا دور ہے تو خاص طورپر ہر نماز کے بعد آپ علیہ السلام پر درود و سلام پڑھا جائے۔

غیبت میں کثرت سے امام مہدی علیہ السلام کا ذکر کرنا:

غیبت کبریٰ میں امام علیہ السلام کے فضائل و کمالات کو بہت بیان کیا جائے کیونکہ آپ اس دور میں ولی نعمت ہیں اپنی مجالس اجتماعات، محافل اور عبادات میں آپ علیہ السلام کے ذکر سے لوگوں کے دلوں کو تازہ کریں اور حضرت علیہ السلام کا حامی اور دوست بنائیں امام علیہ السلام کی نصرت کے لیے ہر مومن خود بھی تیار رہے اور دوسروں کو بھی آمادہ کرے۔

امام رضا علیہ السلام جمعہ کے دن نماز ظہر کے قنوت میں یہ دعا پڑھتے تھے۔

اللهم اصلح عندک و خلیفتک بما اصلحت به انبیائک و رسلک و حقه بملائکتک و ایده بروح القدس من عندک واسلکته من بین یدیه و من خلفه رصدا یحفظونه من کل سوءو ایدته من بعد خوفه امنا بعدک لا یشرک بک شیا ولا یجعل لا حد من خلقک علی ولیک سلطانا و اذن له فی جهاد عدوک وعدوه واجعلنی من انصاره ان علی کل شی قدیر ۔

ترجمہ: پروردگارا! جن وسائل سے تو نے اپنے انبیاءاور مرسلین کے حالات کی اصلاح فرمائی ہے اپنے عہد خاص اور جانشین کے حالات کی بھی اصلاح فرما ملائکہ اس کے گرد رہیں اور روح القدس اس کی تائید کرے اس کے سامنے اور بس پشت ایسے محافظ رہیں جو اسے ہر مصیبت اور آفت سے بچاتے رہیں اس کا خوف امن سے تبدیل کر دے وہ تیرے عبادت میں سر گرم رہے اور شرک کاکوئی شائبہ نہ رہے کسی شخص کو تیرے ولی علیہ السلام پر اقتدار حاصل نہ ہو اور اسے اپنے اور اس کے دشمن سے جہاد کی اجازت دے دے اور ہمیں اس کے اعوان و انصار میں قرار دے تو کائنات کی ہر شئے پر قادر ہے۔

دشمنوں سے مقابلے کے لیے مسلح رہنا:

امام مہدی علیہ السلام جب ظہور فرمائیں گے تو دشمنوں سے جنگ کرنا پڑے گی ایک سچے منتظر کو چاہیے کہ انتظار کے ساتھ ساتھ جنگی آلات مہیا کر کے رکھے اگرچہ ایک تیر ہی کیوں نہ ہو۔(بحارالانوار ج۴۹ ص۹۲)

امام علیہ السلام کی نیابت میں مستحبات کی انجام دہی:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امت کا ایک فریضہ یہ بھی ہے جسے ہمارے اسلاف اور علماءانجام دینے میں بہت ہی اہتمام کیا کرتے تھے کہ شیعہ ہر مستحب عمل امام مہدی علیہ السلام کی نیابت کی نیت سے ادا کرے تلاوت قرآن پاک، نوافل نبی اکرم اور آئمہ علیہم السلام کی زیارت آپ علیہ السلام کی نیابت میں حج و عمرہ بجالانا یا کسی کو نائب بنا کر بھیجنا خانہ کعبہ کا طواف کرنا اور اگر استطاعت رکھتا ہو تو عیدالاضحی کے موقع پر امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں قربانی کرے۔

حضرت مہدی علیہ السلام کی زیارت پڑھنا:

مومن کو چاہیے کہ ہر روز صبح نماز کے بعد امام صاحب العصر علیہ السلام کی یاد میں زیارت پڑھے۔(مفاتیح الجنان ص۱۴۵)

زیارت جامعہ کبیرہ پڑھنے کی بھی تاکید کی گئی ہے جسے شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں نقل کیا ہے اور مفاتیح اور زیارات کی دیگر کتب میں بھی موجود ہے۔ (مفاتیح الجنان ص۷۴۵)

تجدید بیعت:

مومن کو چاہےے کہ ہر وقت یا جب بھی موقع ملے امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ تجدید بیعت کرے بیعت کی نیت سے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھے اور کہے اے امام علیہ السلام میں آپ کا مومن ہوں آپ کے پروگرام کا حامل ہوں میری اس سے جنگ ہے جس سے آپ کی جنگ ہے آپ کے انصار اور آپ کے مشن کی خاطر کام کرنے والوں کی حمایت کا اعلان کرتا ہوں یا ہر روز نماز صبح کے بعد دعائے عہد پڑھ کر امام علیہ السلام کے ہاتھ پر اپنی بیعت کو مضبوط بنائیں۔(دعائے عہد مفاتیح الجنان ص۲۴۵)

توبہ کے پروگرام:

امت کے اعمال ہر روز یا ہر شب جمعہ امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے کہ اعملو فسیری اللہ عملکم و رسولہ والمومنون راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ آیہ اعملوا.... الخ میں مومنوں سے کون مراد ہیں فرمایا وہ آئمہ ہیں ۔(اُصول کافی ج۱ص۲۵۲)

انسان چونکہ غیر معصوم ہیں دن میں کئی گناہ انسان سے سر زد ہو جاتے ہیں تو ہر رات سونے سے پہلے اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے گناہوں پر توبہ کرے تا کہ اس سے پہلے کہ ہمارے اعمالنامے امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوں ان سے گناہ مٹ جائیں بلکہ غیبت کبریٰ میں توبہ کے اجتماعی پروگرام منعقد کرنے چاہیے کیونکہ اجتماعی عبادت قبولیت کے بھی زیادہ قریب ہوتی ہے اور اس کا اجر و ثواب بھی کئی گنا ہوتا ہے مثلاً ہر شب جمعہ کوئی مومن دعائے کمیل کا اہتمام کرے۔

علماءاپنے علم کو ظاہر کریں:

علماءاپنے علم کو ظاہر کریں جو جاہل اور نا واقف ہیں ان کو سکھائیں کہ وہ کس طرح اپنے مخالفین کو جواب دیں علماءکی ذمہ داری ہے کہ غیبت کبریٰ کے زمانے میں لوگوں کو گمراہی سے بچائیں اور بھٹکے ہووں کو راستہ دکھائیں دشمنان اسلام کے علمی حملوں کا جواب دیں لوگوں کو امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے لیے تیار کریں ظلم اور ظالموں کو نابود کرنے کے لیے افراد امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں تا کہ منظم ہو کر دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں حدیث میں ہے کہ جو شخص ہمارے شیعوں کے دلوں کو مضبوط کرے وہ ایک ہزار عبادت گزاروں سے بہتر ہے اور فرمان رسول ہے جب میری امت میں بدعتیں ظاہر ہو جائیں تو عالم پر واجب ہے کہ وہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور اگر ایسا نہ کرے گا تو اس پر خدا کی لعنت ہے۔(اُصول کافی ج۱ص۶۳،۸۵)

جھوٹے دعویداروں کو جھٹلانا:

اگر کوئی غیبت کبریٰ کے زمانے میں دعویٰ کرے کہ وہ امام زمانہ علیہ السلام کا خصوصی نائب ہے تو اسے جھٹلایا جائے اسی طرح جامع الشرائط فقیہ کے علاوہ کوئی شخص کسی کام کا حکم دے اور امام علیہ السلام سے منسوب کرے کہ امام علیہ السلام نے مجھے کہا ہے کہ میں لوگوں کو اس کا حکم دوں تو اسے بھی جھٹلایا جائے۔

ظہور کا وقت معین نہ کرنا:

روایات میں امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا وقت معین نہیں کیا گیا پس اگر کوئی شخص ایسا کرے تو اسے جھٹلایا جائے۔

مال امام علیہ السلام کی ادائیگی:

غیبت کبریٰ میں امام زمانہ علیہ السلام کا جو مالی حق ہے یعنی خمس کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے خصوصاً خمس کا جو حصہ مال امام علیہ السلام ہے اسے امام زمانہ علیہ السلام کے مشن کی ترویج کرنے پر خرچ کرےں۔(یہ حکم علماءکے لیے ہے عوام پر خمس کا نائب امام علیہ السلام یعنی مجتہد تک پہنچا دینا ہی کافی ہے)

امام العصر علیہ السلام سے محبت کا اظہار کرنا:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام سے محبت کا اظہار کرے جیسا کہ حدیث معراجیہ میں ہے اور یہ اظہار صرف زبان سے ہی نہ ہو بلکہ اعضاءو جوارح سے بھی ہو جیسا کہ خود امام مہدی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ فلیعمل کل امری منکم ما یقرب بہ من محبنا پس تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ ایسے کام کرے جو تمہیں ہماری محبت سے قریب تر کریں۔

آپ علیہ السلام کے فراق میں غمگین رہنا:

سچا مومن امام علیہ السلام کی جدائی اور فراق پر نہ صرف یہ کہ غمگین رہتا ہے بلکہ گریہ کناں رہتا ہے دعائے ندبہ کے کلمات ہیں کس قدر گراں ہے مجھ پر کہ یہ بد قسمت آنکھیں ساری خلقت کا تو مشاہدہ کریں لیکن تیرے دیدار سے محروم رہیں ۔

کس قدر گراں ہے مجھ پر کہ تیرے غیر سے جواب سنوں اور تےری گفتار سے محروم رہوں۔

کس قدر مشکل ہے میرے لیے کہ تیری یاد میں گریہ کروں اور لوگ تیری یاد سے غافل ہوں۔

آیا کوئی ہے میری مدد کرنے والا؟ جو میرے ہم گریہ و نالہ ہو سکے؟

آیا کوئی ایسی چشم اشک بار ہے کہ میری آنکھوں کا ساتھ دے سکے؟

اے فرزند احمد! کیا آپ علیہ السلام تک پہنچنے کی کوئی راہ ہے؟

آپ علیہ السلام کی غیبت پر اظہار رضایت:

مومن کو چاہیے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے معاملے میں تسلیم ہو اور یہ عقیدہ رکھے آپ علیہ السلام خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے غائب ہیں اس پر رضایت اور سر تسلیم خم کرنا چاہیے اعتراض کے طور پر زبان شکوہ نہ کھولی جائے اور نہ ہی آپ علیہ السلام کی طولانی غیبت سے مایوس ہو۔

امام علیہ السلام کی مظلومیت پر افسردہ ہونا:

شیخ صدوق نے اکمال الدین میں حدیث نقل کی ہے جو شخص ہمارے لیے غمناک ہو اورہماری مظلومیت پر ٹھنڈے سانس لے افسردہ ہو اس کے سانس لینے کا ثواب تسبیح کا ثواب رکھتا ہے۔

ایمان پر ثابت قدم رہنا:

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امت کی ذمہ داری ہے کہ دین پر مستحکم رہے ایمان کی بقاءکے لیے کوشش کرتا رہے باطل کی رنگینیوں پر نہ جائے۔ ایک مرتبہ خاتم الانبیائ نے اصحاب سے سوال کیا سب سے قابل تعجب ایمان کس کا ہے اصحاب نے کہا انبیاءکا آپ نے فرمایا انبیاءتو خدا کے برگزیدہ بندے ہیں ان کا ایمان جتنا بھی زیادہ ہو ان کے لیے مناسب ہے اس میں تعجب کی کیا بات؟ پھر اصحاب نے عرض کیا ملائکہ کا ایمان آپ نے فرمایا ملائکہ تو معصوم مخلوق ہیں ان کے ایمان میں تعجب کیسا؟ پھر اصحاب نے عرض کی یا رسول ہمارا ایمان قابل تعجب ہے کہ ہم نے آپ سے دین کو حاصل آپ نے فرمایا تمہارے ایمان میں تعجب کی کیا بات ہے میں تمہارے درمیان موجود ہوں تم مجھے دیکھ رہے ہو مجھ سے کسب فیض کر رہے ہو پھر اصحاب نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ ہی ارشاد فرمائیے کہ کس کا ایمان قابل تعجب ہے آپ نے فرمایا میری امت کے وہ افراد جو میرے آخری فرزند کے زمانے میں ہوں گے ان کا ایمان قابل تعجب ہے اس لیے کہ زمانہ اتنا نازک آجائے گا کہ ہاتھ پر انگارہ رکھنا آسان ہو گا لیکن ایک دن اپنے ایمان کی حفاظت کرنا مشکل ہو جائے گا۔

(نوٹ: مندرجہ بالا واقع میں مفہوم حدیث بیان کیا گیا ہے بعینہ الفاظ نہیں )

مصائب کو برداشت کرنا:

امت کا فریضہ ہے کہ دشمنوں کی طرف سے جو مصائب آئیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرے امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو مومن بارہویں امام علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں دشمنوں کی اذیت اور ان کے حقائق کے جھٹلانے پر صبر کرے برداشت سے کام لے اور نہ گھبرائے وہ ایسے ہے جس طرح اس نے حضرت رسول خدا کی ہمراہی میں جہاد کیا ہو۔(اکمال الدین ج۱ص۷۱۳)

امام زمانہ علیہ السلام کے مشن کے لیے کام کرنے والوں کی مدد کرنا اور ان کی صحت و سلامتی کے لیے دعا مانگنا۔

امام مہدی علیہ السلام کے مشن و پروگرام کے مخالفین پر نفرین کرنا۔

امام علیہ السلام کے اعوان و انصار میں سے ہونے کی دعا مانگنا۔

مجالس میں یا اجتماعات میں امام علیہ السلام کے لیے جب دعا مانگی جائے تو بلند آواز میں مانگی جائے۔

خدا سے یہ دعا مانگی جائے کہ خدایا! مجھے ایمان کی حالت میں حضرت قائم آل محمد کی ملاقات و زیارت نصیب فرما۔

امام علیہ السلام کے مشن کی ترویج کے لیے کچھ افراد اپنے کو وقف کریں اسلام کی مکمل معلومات حاصل کریں یعنی عالم دین بنیں تا کہ علوم محمد و آل محمد کی نشرو اشاعت کے ذریعے لوگوں کے اذہان میں صحیح عقائد کو راسخ کیا جائے اور گمراہی و بے راہ روی سے بچایا جائے۔

استعمار اور طاغوتی طاقتوں سے مرعوب نہ ہو اور نہ ہی اسلام دشمن عناصر کے پروپیگنڈے کا اثر قبول کرے بلکہ فحاشی اور عریانی کا مقابلہ کرنے کے نیٹ پر ایسے چینلز دکھائے جائیں جن پر ایسا اسلامی مواد نشر کیا جاتا ہو جو نوجوانان ملت کے فکر کو بھٹکنے سے بچائے خصوصاً موجودہ دور جو ترقی کا دور ہے میڈیا کے ذریعے افراد کو مقصد حیات سے غافل کیا جا رہا ہے تو یقینا امراءاور علماءکے تعاون سے میڈیا ہی کے ذریعے ایسے پروگرامز کی نشرواشاعت کی ضرورت ہے جو ملت کو اپنی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتے رہیں ۔

غیبت کبریٰ کے زمانے میں امت کی ایک ذمہ داری اہم ذمہ داری منجد ہو کر رہنا ہے اگر ملت خود ہی ٹکڑوں میں بٹ جائے گی یا تعصبات کی نظر ہو جائے گی تو پھر کامیابی نا ممکن ہے امت کا شرعی فریضہ یہ ہے کہ یہ اختلافات سے بالاتر ہو کر امام علیہ السلام کے مشن کے لیے کام کریں اور دشمن کو خود پر غالب نہ آنے دیں اس قدر منظم اور منجد ہو جائیں دشمن ٹکرا کر خود ہی تباہ و برباد ہو جائے۔

امام علیہ السلام کو ہر وقت یاد رکھنے کے لیے اپنے بچوں، اداروں اور مساجد وغیرہ کے نام امام زمانہ علیہ السلام کے القابات پر رکھیں بلکہ کوشش کریں کہ اپنے علاقوں، گلیوں اور چوک وغیرہ کے نام بھی امام زمانہ علیہ السلام کے القابات پر رکھے۔

اور انشاءاللہ یہ عمل ہمارے مصلح اور ہادی کی محبت و عنایت ہماری جانب ملتفت کرنے کا سبب بن جائے گا۔

دنیاداروں کے ساتھ زیادہ میل جول اور آمد و رفت نہ رکھے بلکہ ایسے لوگوں سے میل ملاپ رکھے جو امام علیہ السلام کا کثرت سے ذکر کرنے والے ہوں۔

مندرجہ ذیل دعا کا ورد کرے امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ کلمات وارد ہوئے ہیں ۔

یاالله یا رحمن یا رحیم یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک بحرمة محمد و آله الاطهار ۔

۱۴

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۲-امام زمانہ کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

از: سیدہ تعزین فاطمہ موسوی

اس وقت جب کہ ظلم و ستم کی سیاہ گھٹائیں پوری دنیا کے آسمان پر چھائی ہوئی ہیں سامعراجی طاقتیں اور عالمی غنڈے اپنے خونخوار دانتوں سے مستفیض جہاں کو جھنجھوڑ رہے ہیں اور اپنے خونخوار پنجوں سے دنیا کے ستم رسیدہ عوام کا گلا گھونٹ رہے ہیں نامہربانیوں، زیادتیوں، تنگ نظریوں، نفرتوں اور تفرقوں نے ایک ایسی نفسا نفسی کا عالم بنا رکھا ہے اسی نفسا نفسی کے عالم میں اکثر امت یہ آرزو کرتی ہے کہ کاش وہ آج سے چند صدی قبل پیدا ہوئے ہوتے تو بہتر تھا جب امن کا دور تھا اور جب اخلاقی قدروں کا وجود موجود تھا۔

اسی طرح بہت سے شیعہ یہ آرزو کرتے ہیں کہ کاش وہ میدان کربلا میں ہوتے اور امام حسین علیہ السلام کے ساتھ داد شجاعت دیتے ہوئے اسلام پر قربان ہو جاتے یا اکثر انسان سوچتا ہے کہ کاش وہ آئمہ طاہرین علیہ السلام کے دور میں پیدا ہوتا لیکن یہ سوچتے ہوئے ہم ایک نہایت اہم نکتہ بھول جاتے ہیں اسی پر شاید کبھی غور سمجھا ہی نہیں یا پھر اسے لائق غور سمجھا ہی نہیں وہ حقیقت یہ ہے کہ پہلے امام علیہ السلام دوسرے امام علیہ السلام یا تیسرے امام علیہ السلام کی امامت کا دور ختم ہو چکا ہے اسی وقت ہم جس امام علیہ السلام کی امامت میں زندگی گزار رہے ہیں ان کا دور امامت سن ۰۲۲ ہجری ۸ ربیع الاول سے شروع ہو چکا ہے اور یہ دور امامت کب ختم ہو گا کوئی اس وقت معین نہیں کر سکتا۔

ہم اپنی بد قسمتی سمجھتے ہیں کہ ہم پہلے امام علیہ السلام دوسرے امام علیہ السلام یا تیسرے امام علیہ السلام یہاں تک کہ گیارہویں امام علیہ السلام کی زندگی میں پیدا نہیں ہوئے اور یہ سوچتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم بارہویں امام علیہ السلام کو امامت میں زندگی گزار رہے ہیں جب کہ ہمارے بارہویں امام علیہ السلام کی امامت جس دن سے شروع ہوئی ہے اسی دن سے لیکن آج تک ہمارے امام علیہ السلام نے ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑا جب آپ علیہ السلام غائب نہ ہوئے تھے تو دنیا کی رہنمائی کے لیے ہمیشہ حاضر رہے۔

جب حکم الہیٰ سے غیبت صغریٰ کا وقت آیا تو چار خاص نائب مقرر کر دیئے اور یہ چار نائب ۸۶ سال تک دنیا کی رہنمائی کرتے رہے اس کے بعد سے غیبت کبریٰ شروع ہو چکا ہے اللہ اسی وقت سے لے کر آج تک ایک لحظہ کے لیے آپ کے نائبین سے دنیا خالی نہیں رہی اور وہ دنیا کی رہنمائی کر رہے تھے اور کر رہے ہیں ۔

آپ علیہ السلام غائب ضرور ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ آپ کسی تنہا گوشے میں ہم سب کے نامہ اعمال پر روز آپ کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں تمام دنیاوی امور آپ کے توسط سے انجام پاتے ہیں شرف قبولیت دعا آپ کے توسط سے انجام پاتی ہے لہذا یہ ایک حقیقت ہے کہ آج جو ہم زندگی گزار رہے ہیں یہ کسی زندگی گزار رہے ہیں کیا جو ذمہ داریاں ہمارے اوپر ہیں انہیں ہم نبھا رہے رہیں یا نہیں اور کیا اپنا کردار اسی آخری زمانہ کو تاریخ میں ادا کر رہے ہیں ؟

کیا ہم رضائے امام علیہ السلام کے مطابق زندگی کے دن گزار رہے ہیں ؟ کیا ہم وہی تو نہیں ہیں جو امام حسین علیہ السلام کی امامت کے دور میں پیدا ہونا چاہتے تھے لیکن آخری امام علیہ السلام کے دور امامت میں بھی زندگی گزارتے ہوئے بھی حقیقتاً اسی امر کو تسلیم نہیں کرتے اور عصلاً ہم کسی نہ کسی طرح سے مخالفین امام زمانہ علیہ السلام میں شامل ہیں کیا ہم اسی طرح سے بیگانہ رہیں گے اور امام علیہ السلام تشریف لے آئیں گے؟

کیا ہمارے امام علیہ السلام کا ظہور ہونے میں قلیل عرصہ نہیں رہ گیا اور ہم نے اسی عظیم انقلاب امام علیہ السلام کی تیاریوں کے لیے کچھ نہیں کیا؟ کیا ہم نے انہیں اپنی ذمہ داریاں محسوس کیں اور انہیں نبھانے کی کوشش کی کیا ہماوری ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ روز ولادت جشن منا لیا جائے اور بس۔

جب سے دنیا وجود میں آئی ہے دو گروہوں میں بٹ رہے ہیں ایک حق پرستوں کا گروہ اور دوسرا باطل پرستوں کا گروہ اور یہ دونوں گروہ ساتھ جاتے ہیں ۔

آئیں اسی دور کو یاد کریں جب ایک طرف امام حسین علیہ السلام کا گروہ تھا اور دوسری طرف یزید اور اس کے ساتھیوں کا گروہ جن چیزوں کا وہ دلدادہ تھا وہ جھوٹ بولتا، غیبت کرنا، دھوکہ دیتا، گانا بجاتا، رقص و سرور کی محفلیں سجاتا، شراب پیتا، مکرو فریب، حکمران کی بے جاءمدح و ثنا چاپلوسی، دینی قوانین اور احکام میں اپنی مرضی سے تبدیل کرنا حلال و حرام کا فرق مٹا دیتا یعنی حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیتا خوف خدا سے دوری اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے دوری وغیرہ وغیرہ۔

جو برائیاں بیان کی گئی اور جن کے خاتمہ کے لیے امام حسین علیہ السلام نے نذرانہ شہادت پیش کیا وہ کسی نہ کسی صورت ہم میں بھی موجود ہیں ساری نہ سہی کچھ ہی سہی لیکن ہیں تو سہی جھوٹ بولنا ہمارے لیے عام سی بات ہے

غیبت کرتے ہوئے ہم نہیں ڈرتے دھوکہ دینا ہمارا معمول نہیں لیکن کسی نہ کسی شکل میں کبھی نہ کبھی یہ بھی کر جاتے ہیں گانا بجانا اور گانا سننا معمول کی بات ہے رقص و سرور کی محفلیں صبح و شام گھر کی زینت ہیں ٹی وی اور وی سی آر کی شکل میں حکمران یا بڑے افسر کی بے جا مدح و ثناءیا چاپلوسی کوئی بات نہیں خوف خدا ایک لفظ کی حد تک موجود ہے اس سے آگے نہیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے کتنا دور ہیں سب کو معلوم ہے ظلم ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور خاموش تماشائی بن کر ظلم کی حمایت کرتے ہیں اور یہ سب کرتے ہوئے بھی اس پر راضی ہیں یہ معمولات ہمارے ہیں اور ان سب خدافات کے ساتھ دعویٰ دار بھی ہیں کہ کاش کربلا میں ہوتے یا کاش ہم ظہور امام علیہ السلام کے وقت موجود ہوں اگر کوئی کہے کہ ہم نماز بھی پڑھتے ہیں اور روزہ بھی رکھتے ہیں تو یہ سب لشکر یزید بھی کرتا تھا دیکھنا تو یہ ہے حقیقتاً ہم کسی گروہ کے ساتھ ہیں اور ہماری ذمہ داری کیا ہے ہمیں کس راستے کا تعین کرنا ہے ہمارے آخری امام علیہ السلام ہم سے کیا چاہتے ہیں اسی زمانہ میں ہم کس طرح سے زندگی کے دن گزار رہے ہیں کہ کل ہمیں سیدہ کونین حضرت فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہا کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے ہم کیا کریں کہ امام علیہ السلام ہم سے راضی ہو جائیں؟

اب بھی ہم خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے تو کب ہوں گے کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم انقلاب امام علیہ السلام کے لیے تیار ہو جائیں عصلاً ہمیں کیا کرنا چاہیے اور وہ کون سے عوامل ہیں جن پر عمل کر کے کے ہم لشکر امام زمانہ علیہ السلام میں شامل ہو سکتے ہیں اور ہمارا شمار بھی حقیقتاً حق پرستوں کے گروہ میں ہو؟

پیروکار محمد و آل محمد بننا بہت مشکل کام ہے ہر گز ہر گز ایسا نہیں ہے کہ دوچار چیزیں تو سیرت آل محمد سے لے لی جائیں اور باقی خرافات یزید سے اور یوں مخلوط زندگی گزارتے رہیں اور خوش فہمی مں مبتلا رہیں کہ ۰۳ فیصد محمد و آل محمد کی سیرت پر عمل پیرا ہیں اور ۰۷ فیصد یزید کی اور پھر بھی شیعان علی علیہ السلام میں ہونے کا دعویٰ شیعان علی علیہ السلام میں سے اگر ہونا ہے تو پھر لازم ہے کہ ہم جو بھی زندگی گزاریں وہ سیرت محمد و آل محمد کے تابع ہو اور جو برائیاں یزید میں یا اس کے گروہ میں تھیں ان سے لازماً بچا جائے اور ایسا کرنے کے لیے ہم جس امام علیہ السلام کی امامت میں زندگی گزار رہے ہیں ان سے مربوط ہونا بہت ضروری ہے۔

روایات میں کثرت سے آیا ہے کہ کوئی اس وقت تک صحیح معنوں میں آپ کا چاہنے والا نہیں بن ہی نہیں سکتا جب تک کم از کم سات امور بجا نہ لائے جو کہ یہ ہیں ۔

غمگین کرانا، صدقہ حج کرنا، دعا مانگنا، عریضہ انتظار امام، علیہ السلام دعائے ظہور امام علیہ السلام غمگین رہنا:

امام علیہ السلام کے چاہنے والوں کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں آپ کے غم میں آپ کے ہجر میں گزارے یہ کتنے غم اور دکھ کی بات ہے کہ امام علیہ السلام موجود ہیں لیکن ان کی زبارت نہیں کر سکتے عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی کا عزیز کوئی عالم لیڈر اگر غائب ہو جائے یا غائب کر دیا جائے تو کتنا غم ہوتا ہے اور جس سے جتنی محبت ہو گی اماموں کے دور میں تو پیدا نہ ہوئے محروم رہے ان کی زیارت سے مگر بارہویں امام علیہ السلام کی امامت میں تو زندہ ہیں لیکن امام علیہ السلام ہم میں ہوتے ہوئے بھی ہم سے کتنا دور ہیں اس پر جتنا بھی دکھ محسوس کیا جائے کم ہے ذرا چند لمحوں کے لیے تصور تو کریں؟ بخدا دل کی رگیں ٹوٹتی ہوئی لگیں گی اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان سارا سال غم سناتا رہے اور ایک گوشے میں پڑا رہے کہ امام علیہ السلام غائب ہیں بلکہ ہر شخص کو چاہیے کہ دن میں ایک مرتبہ ضرور سوچے کہ اس کے امام علیہ السلام امامت میں زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں ۔

صدقہ:

ہر مومن کو چاہیے کہ اپنے امام زمانہ علیہ السلام کے نام پر صدقہ دیا کرے حکم یہ ہے کہ ہفتے میں ایک دفعہ یا مہینے میں ایک دفعہ صدقہ دیا جائے اور نیت کی جائے کہ میں صدقہ دیتا ہوں حفاظت امام زمانہ علیہ السلام کے لیے اور یہ نہ سوچا جائے کہ ہمارے صدقے کی امام علیہ السلام کو کیا ضرورت ہے دیکھنا تو یہ ہے کہ رسول اکرم نے کیا فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے کہ کوئی اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک مجھے اور میرے اہل بیت علیہ السلام کو اپنے جان و مال سے زیادہ عزیز نہ رکھے تو جہاں بھی اپنی جان اور اپنے عزیزوں کی جان و مال بہت عزیز ہے وہاں امام علیہ السلام کی حفاظت کے لیے صدقہ دینا چاہیے ویسے بھی امام علیہ السلام کے ان گنت دشمن ہیں ذرا تصور تو کریں کہ اگر آج آپ علیہ السلام کا ظہور ہو جائے تو آپ کے دوست کتنے ہوں اور دشمن کتنے؟

حج کرنا:

اگر کسی نے اپنا واجب حج کر لیا ہے اور وہ حج کرنے کی استدعا رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے نام پر حج کرے یا کسی کو بھیجے یہ سب اہتمام اپنے امام علیہ السلام سے تعلق قائم کرنے کا ہے۔

دعا مانگنا:

یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کوئی مصیبت پڑتی ہے یا کوئی حاجت ہوتی ہے تو خدا کے آگے وسیلے سے دعا کرتے ہیں ہر امام علیہ السلام کو پکارتے ہیں پکارنا بھی چاہےے لیکن کبھی بھول کر بھی امام زمانہ علیہ السلام کے توسط سے دعا نہیں مانگتے سچ تو یہ ہے کہ ہم نے ہر مقام پر ہر جگہ اپنے امام علیہ السلام کو چھوڑ رکھا ہیے تو جو صاحب امر ہے جس کے توسط سے تمام دعائیں قبول ہوتی ہیں اس کو بھی یاد رکھنا چاہیے ہر مومن کو چاہیے کہ اپنے ہر امام علیہ السلام کو پکارے اور امام زمانہ علیہ السلام کو کبھی نہ بھولے لہذا جب بھی دعا مانگتے جائیں ہر نماز میں یا اس کے علاوہ تو امام علیہ السلام کے توسطہ سے بھی دعا مانگی جائے۔

عریضہ:

عریضہ کے بارے میں یہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ صرف پندرہ شعبان کے لیے مخصوص ہے عام طور پر اس مبارک شب کو لوگ عریضہ لکھتے ہیں اور پانی میں بہا دیتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ امام علیہ السلام صرف پندرہ شعبان ہی کو آپ کی درخواستوں پر غور فرماتے ہیں بلکہ ہر وقت آپ عریضہ لکھتے ہیں جب بھی آپ گرفتار بلاہوں اور کوئی راہ نظر نہ آئے تو اپنے امام علیہ السلام کو پکاریں اور عریضہ لکھیں اور پانی میں بہا دیں یا زمین میں دفن کر دیں آپ کے امام علیہ السلام تک پہنچ جائے گی۔

انتظار امام علیہ السلام:

یہ سب سے اہم بات ہے اور اس پر زیادہ سے زیادہ غور و فکر اورعمل کرنا چاہیے ہر شخص کو چاہیے کہ انتظار امام علیہ السلام میں اپنی زندگی گزارے یہ اتنا آسان کام نہیں ہے بلکہ ہر قسم کے لوازمات کے کچھ لوازمات ہوتے ہیں مثلاً اگر مہمانوں کا انتظار ہو تو ظاہر ہے کہ کچھ انتظام کرنے ہوتے ہیں تو اپنے امام علیہ السلام کے لیے بھی اہتمام کرنا ہو گا اور زندگی کے ایام انتظار میں گزارنا بے حد ثواب کا باعث بھی ہے ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ جو شخص آئمہ طاہرین علیہ السلام کی ولایت کا قائل ہو اور حکومت حق کا انتظار بھی کرتے کرتے چل بسے تو اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا ایسا شخص اس آدمی کے مانند ہے جو اس انقلاب کے رہبر کے ساتھ ساتھ اس کے خیمہ میں ہو پھر امام علیہ السلام نے تھوڑی دیر سکوت فرمایا اور پھر ارشاد کیا وہ اس شخص کی مانند ہے جو رسول خدا کے ہمراہ جنگ میں شریک رہا ہو۔

روایات میں ہے کہ جو شخص آپ کے انتظار میں زندگی گزارے اور اس دنیا سے کوچ کر جائے تو یقینا وقت ظہور اس کو پھر اُٹھایا جائے گا البتہ یہاں ایک نقطہ بہت قابل غور ہے اگر یہی خود بدکارو گنہگار اور بد اخلاق ہو گا تو کیوں کر ایسے شخص کا انتظار کر سکتا ہے جس کے شعلوں کی لپیٹ میں سب سے پہلے گناہگاروں کا دامن آئے گا اگر میں خود ہی ظالم ہوں تو کیسے اس شخص کا انتظار کر سکتی ہوں جو ظالموں سے جنگ کرے گا لہذا انتظار امام علیہ السلام کریں لیکن تزکیہ نفس کے ساتھ۔

ہر شخص کو چاہیے کہ کم از کم دن میں ایک مرتبہ ضرور اس بارے میں سوچے اور عملاً انتظار امام زمانہ علیہ السلام کرے انتظار امام علیہ السلام ہم کیا جائے انتظار امام علیہ السلام تو کوئی اہل نجف و کربلا سے پوچھے جہاں سسکیاں ابھی سسک رہی ہوں گی۔

دعائے ظہور امام زمانہ علیہ السلام:

امام زمانہ علیہ السلام کی سلامتی کے واسطے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ دعائے ظہور امام زمانہ علیہ السلام کم از کم دن میں ایک بار ضرور پڑھے اور اپنے امام علیہ السلام کو پکارے اس طرح سے دعائے سلامتی امام زمانہ علیہ السلام بھی کم از کم ہر روز ایک مرتبہ ضرور پڑھی جائے جس کا ترجمہ درج ذیل ہے۔

پروردگار اپنے ولی حضرت حجت ابن الحسن العسکری علیہ السلام ان پر اور ان کے آباو اجداد پر صلوٰة و رحمت کے لیے اس وقت اور ہمیشہ کے لیے ولی و محافظ و قائد و مددگار و رہنما و نگران بن جاتا کہ انہیں تیری زمین پر سکونت حاصل ہو اور تو انہیں طویل مدت تک بہرہ مند و اندوز فرماتا ہے۔

اس وقت میں یہ چاہتی ہوں کہ جب مسلمانوں کے تقریباً تمام فرقے آپ علیہ السلام کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کو ہی اپنا نجات دہندہ سے جانتے ہیں تو پھر کیوں نہ آپ سے ایسا ربط قائم کیا جائے جو ہمیں عملی طور پر فکری طور پر اور روحانی طور پر آپ علیہ السلام کے قریب کر دے اور ہم صحیح معنوں میں آپ کے چاہنے والے بن جائیں۔

۱۵

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۳-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

از:بی بی آسیہ حیدری

سلسلہ گفتگو امام علیہ السلام کے زمانے میں ہماری ذمہ داریاں کے بارے میں ہے یہ بہت ہی اہم وسیع ترین اور گہرائی طلب موضوع ہے میں یہ کوشش کروں گا کہ اس حوالے سے ہمارے ذمہ داریوں پر مفصل روشنی ڈالوں اسی موضوع پر گفتگو کروں گی آج بہت ضروری ہے اور یہ ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے بالخصوص ہم مولوی صاحبان جنہوں نے امام زمانہ علیہ السلام کا مال کھایا ہے اور ان کے مال سے ہمارا گوشت پوست بنا ہے تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ جو ہمارے ولی نعمت ہےں اور جن کے صدقے میں ہم ہیں جن کے صدقے میں ہمارا سارا عنوان ہے ہم اپنی مضمون میں کچھ ان کے بارے میں بھی بیان کریں جو کہ عام طور پر بیان نہیں کیا جاتا یہ افسوس کا مقام ہے کہ جس چیز کو ہم سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہم اسے سب سے کم اہمیت دیتے ہیں اور اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے سب کو معلوم ہے کہ ہم کتنا اپنے امام علیہ السلام کو یاد کرتے ہیں اور اپنی امر میں علماءغیر علماءسب ہی ذمہ دار ہیں اور انشاءاللہ جب ذمہ داریاں بیان ہو گی تو ہم سب دیکھیں گے کہ ہم میں سے کون سی ذمہ داری ادا کر رہا ہے امام علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنا ہماری ذمہ داری بنتی ہے ہماری تکلیف شرعی یہ ہے کہ ہمیں پتہ ہو کہ ہمارے امام علیہ السلام کا نسب کیا ہے؟ وہ پیدا کب ہوئے ہیں ؟ ہمارے امام علیہ السلام کے نام کیا ہیں ان کے اوصاف کیا ہیں ؟ اب ہمارے امام علیہ السلام کہاں ہیں ان کی ذمہ داری کیا ہے؟ اور پھر ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ اس کا ہمیں مکمل پتہ ہونا چاہیے اگر ہمیں ان کا ہمیں پتہ نہیں ےہ تو ہم مجرم ہیں یہ وہ چیز ہے جس کو مکمل معرفت کہتے ہیں ایک روایت میں ہے مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اے مسلمانو! تمہاری ذمہ داری ہے کہ تم اپنے امام زمانہ علیہ السلام کی اطاعت کرو اس کی بیعت کرو اس کے پیچھے چلو اسی میں تمہاری کامیابی ہے روایت میں ہے کہ جیسے جیسے زمانہ ظہور قریب آتا جائے گا اتنا ہی یہ نام عام ہوتا جائے گا کہ دوست دشمن سب کی زبان پر ہو گا دشمن ڈر کی وجہ سے اس نام کو یاد رکھے گا اور اس نام کو لے کر کہے گا کہ اسے نہیں آنا اور مومن اسی نام مبارک کو اپنے دل کو ٹھنڈک پہنچائیں گے اپنے دل کو تسکین، سکون اور راحت پہنچائیں گے معرفت کی دو اقسام ہیں ایک اجمالی و ابتدائی معرفت اور وہ یہ ہے کہ انسان میں امام علیہ السلام کے بارے میں یہ جانتا ہوں کہ ان کا خاندان کیا ہے؟ ان کی ولادت کب ہوئی؟ ان کے فضائل کیا ہیں ؟ ان کے اسمائے مبارکہ کیا ہیں ؟ معرفت کی دوسری قسم جو کہ انتہائی اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری ذمہ داریاں اس امام علیہ السلام کے حوالے سے کیا ہےں؟ کیونکہ فقط یہ جان لینا کافی نہیں ہے کہ امام علیہ السلام کا حسب و نسب کیا ہے؟ یا ان کے فضائل کونسے ہیں ؟ کونکہ وہ معرفت جو انسان کو ہلاکت سے بچائے گی وہ کونسی معرفت ہے یہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے مثلاً ہم کہتے ہیں کہ جو اس حالت میں مر جائے اور اپنے زمانے کی امام علیہ السلام کی معرفت نہ رکھتا ہو وہ جہالت اور کفر کی موت مرا یعنی اگر حجت خدا کی پہچان نہیں رکھتا اور اس پہچان کے بغیر مر گیا وہ کفر کی موت مرا کیا اس معرفت سے مراد یہ ہے کہ وہ کس خاندان کا بیٹا ہے؟ ان کی جائے ولادت کہاں ہے؟ ان کے فضائل کا پتہ ہو وہ جو اعمال سر انجام دیتا ہے ان کا پتہ ہو اگر یہی معرفت ہے تو پھر میں کہتا ہو کہ حضور پاک مکہ میں پیدا ہوئے مکہ والے ان کو جانتے تھے آپ نے چالیس سال تک اپنے اخلاق کی عظمت ان سے منوائی وہ آپ کو اچھی صفات کے لحاظ سے بھی پہچانتے تھے وہ آپ علیہ السلام کی مشکل و صورت سے بھی واقف تھے اور خاندان کے لحاظ سے بھی آپ کو پہچانتے تھے انہوں نے دیکھا کہ آپ علیہ السلام کے ہاتھ پر سنگ ریزے کلمہ پڑھ رہے ہیں انہوں نے دیکھا کہ آپ کے ہاتھ کے اشارے سے چاند دو نیم ہو رہا ہے انہوں نے دیکھا آپ چل رہے ہیں اور بادل آپ کے سر پر سایہ کر رہا ہے کون سی چیز ہے جو انہوں نے نہیں دیکھی ہو؟ تو مکہ والے رسول کو پہچانتے تھے اگر معرفت سے یہی مراد ہے تو یہ معرفت تو وہ رکھتے تھے تو کیا اس معرفت نے ان کو بچا لیا یا کفر سے بچایا اس سے پہلے کی بات کریں حضرت عبدالمطلب بھی حجت خدا تھے اپنے زمانے میں ان کے دور میں ابرہہ ہمن سے ہاتھیوں کا ایک غول لے کر کعبة اللہ کو ڈھانے کے لیے آیا اس دور میں ہاتھ اور ان کے فوجی حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کے اونٹ اور اونٹیناں چوری کر کے لے گئے حضرت عبدالمطلب علیہ السلام جو مکہ کے بھی سب سے بڑے سردار ہیں اور بنی ہاشم علیہ السلام کے بھی بڑے ہیں کعبہ کی تولیت بھی ان کے ذمہ ہے زمزم کے بھی آپ علیہ السلام انچارج ہیں حاجیوں کے لیے انتظامات آپ علیہ السلام کے ذمے ہیں یعنی اس علاقے کے سربراہ آپ علیہ السلام ہیں آپ علیہ السلام ابرہہ کے پاس جاتے ہیں اس کے فوجیوں نے ابرہہ کے پاس جا کر اطلاع دی کہ مکہ کے سردار آئے ہیں اس نے بڑا احترام کیا اور پوچھا کیسے تشریف لائے ہیں ؟ کہا آپ کے سپاہی ہماری اونٹنیاں اور اونٹ چوری کر لائے ہیں وہ ہمیں واپس کر دیں تو اس نے یہ کر کہا ہم تو آئے ہیں آپ کا کعبہ گرانے آپ علیہ السلام آئے ہیں اپنی اونٹنیاں واپس کرانے چھوٹا سوال کیا ہے تو حضرت عبدالمطلب علیہ السلام نے اطمینان سے فرمایا کہ میں اونٹ اور اونٹنیوں کا مالک ہوں اور کعبہ کا مالک و رب موجود ہے میرے اونٹ مجھے واپس کر دو اس کعبہ کا ایک مالک ہے جب جاو گے تو وہ خود ہی اپنے گھر کو بچائے گا اسی وقت تو ان کو یہ بات سمجھ نہ آئی میں کہتا ہوں کہ اے مسلمانوں تم آج رسول پاک کے آباو اجداد کے ایمان میں شک کرتے ہو اور کہتے ہو کہ وہ مسلمان نہیں تھے آو دیکھو اور حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کی بات سنو کس قدر خدا پر اعتماد ہے ظاہر ہے یہ کسی ابوجہل نے تو یہ بات نہیں بولی اور نہ کوئی اور ہیں بلکہ رسول پاک جو علی علیہ السلام کی زبان سے یہ جملے نکلے ہوئے ہیں کہ کعبہ کا رب موجود ہے تاریخ گواہ ہے کہ ابرہہ کے لشکریوں کے ساتھ کیا ہوا؟ ایک ایک ہاتھ کو تباہ کر نے کے لیے ابابیل کا لشکر خدا کی طرف سے آیا اور ہر ایک ابابیل تین بم اپنے ہمراہ لے آیا ہاں چھوٹا سا دانہ چنے سے کم اور سور کی دال سے تھوڑا سا زیادہ۔

سجیل جہنم کا نچلا طبقہ ہے سجیل اس کی کنکریاں ہیں وہ ایسے مخصوص قسم کے بم تھے کہ ایک ایک ابابیل نے تین تین کوفی النار کیا اور ایسا کیا کہ بھسم ہو گئے سورہ الفیل گواہی دے رہی ہے میں کہتا ہوں کہ حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کو سب مانتے تھے ان کا اتنا بڑا معجزہ بھی دیکھا تھا بلکہ یہ مسلمانوں کی بد بختی ہے کہ سورہ الفیل گواہی ہی دے رہی ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں تھے کیسے مسلمان ہیں ؟ عجب ہے حضرت ابوطالب علیہ السلام کے بارے میں دیکھو ان کے متعلق کیسی باتیں کرتے ہیں تاریخ میں لکھا ہے بارش نہیں آرہی تھی پانی ختم ہو گیا حیوان مر رہے تھے خشک سالی بہت تھی حضرت ابو طالب علیہ السلام کے پاس آئے حضرت علیہ السلام کی دعا سے بارش ہوئی اور قحط دور ہوا اس کا مطلب یہ ہوا کہ مکہ والوں کو پتہ تھا اس لےے تو انہوں نے دعا کا کہا چاہیے تو یہ تھا کہ وہ دعا کے لیے عتبہ کو کہتے ولید کے دادا کو کہتے یزید کے پردادا کو کہتے اور عتبہ کے دادا پردادا کو کہتے وہ سب اپنے زمانے کے بڑے بنے ہوئے تھے مکے والے کسی دادا کو کہہ دیتے جو بعد میں مسلمان ہو گئے ان کے دادا کو کہتے پھر حضرت ابوطالب علیہ السلام بھی آپ علیہ السلام کے نو بھائی تھے حضرت حمزہ علیہ السلام کو کہہ دیتے حضرت عباس کو کہہ دیتے بنی ہاشم کے اور تھوڑے افراد تھے کسی اور کو کہہ دیتے اب سارے مکہ والے کس کے پاس آئے حضرت ابو طالب علیہ السلام کے پاس آتے ہیں کہ بارش نہیں ہو رہی دعا مانگو اب دیکھو یہ واقعات ہے جو تاریخ کے حقائق ہیں جو لکھے ہوئے ہیں اور تاریخ میں حضرت ابوطالب علیہ السلام کی دعا بھی لکھی ہوئی ہے تاریخ میں ہے حضرت ابوطالب علیہ السلام کوہ ابو قبیس پر گئے ساروں کو ساتھ لے کر گئے اور دعا کی دعا میں آپ علیہ السلام یہ جملے فرماتے ہیں کہ الہیٰ بحق محمد و آل محمد و علی علیہ السلام و فاطمہ علیہ السلام یعنی ان تین ذوات مقدسہ کا نام لیتے ہیں حضرت علی علیہ السلام و بی بی فاطمہ علیہ السلام کا نام لیتے ہیں جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے اور کہتے ہیں کہ اے اللہ اس وادی کو بارش سے مالا مال کر دے ابھی یہ جملہ بولا ہی تھا دعا کے جملے ختم ہی ہوئے تھے کہ ہر طرف سے بادل امڈ آئے اور بارش شروع ہو گئی ساری وادی جلاتھل ہو گئی اب میں کہتا ہوں کہ وہ سارے لوگ حضرت ابوطالب علیہ السلام کے اس اعجاز کو دیکھتے ہیں اس کی خوبیوں سے واقف ہیں جانتے ہیں ان کے بارے میں اعتراض نہیں کرنا یعنی وہ جو مکہ والے بدو ہیں ابو طالب علیہ السلام کے بارے میں وہ کوئی بات نہیں کرتے جو بھی مشکل پڑے ابوطالب علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں لیکن ان کا یہ جاننا اور ان کا اسی طرح واقف ہونا اس بات نے کیا ان کو بچانا ظاہر ہے اس بات نے ان کو کفر سے نہیں بچایا بات یہ ہو رہی ہے کہ معرفت سے کیا مراد ہے؟ کیا معرفت سے یہی مراد ہے؟ کہ ہمارے امام علیہ السلام کا خاندان کونسا اور کیسا ہے؟ ہمارے امام علیہ السلام کے فضائل کیا ہیں ؟ ہمارے امام علیہ السلام کے اوصاف کیا ہیں یہ ہمیں پتہ چل گیا تو ہم نے معرفت حاصل کر لی بس یہی معرفت ہے یہ ایک سوال ہے معاف رکھنا شیعوں کی آج کل بات ہے کہ وہ اس میں کوئی شک نہیں کہ علی علیہ السلام کا ذکر عبادت ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت علی علیہ السلام کے فضائل سن لیں گے ان پر خوشی کا اظہار کر لیں گے اور نعرہ لگا دیں گے اور جنت بھی حاصل کر لیں گے اور میں کہتا ہوں اگر جنت اتنی سستی ہے تو ہم کتنے نعرے لگائیں گے اور خوشی کا اظہار کریں گے ذرا غدیر خم کی میدان کی طرف دیکھو کہ ایک لاکھ چالیس ہزار حاجیوں کا مجمع ہے سخت کڑکتی دھوپ سے ظہر کا وقت ہے حضور نے حکم خدا سے سب کو بٹھایا ہے سب بیٹھے ہوئے ہوں گے میں کہتا ہوں کہ ایسے سر جھکا کے بیٹھے ہوں گے کوئی اپنے سر پر سایہ کر رہا ہو گا سخت دھوپ ہے اور ایک لاکھ چالیس ہزار کا مجمع ہے اور بعض نے دو لاکھ سے زیادہ بھی لکھا ہے تو ایک لاکھ چالیس ہزار خود سوچیں کتنا مجع ہو گا یہ سب حج کر کے آ رہے ہیں اور بڑے بڑے صحابی رسول کے ساتھ بیٹھے ہیں اور رسول پاک نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا اور اتنا بلند کیا کہ ایک نور جب دوسرے نور کے ہاتھ میں پہنچا تو زمین و آسمان کے فاصلے ختم ہو گئے اور ایک ایسی روشنی ظاہر ہوئی اس وقت ٹیلی ویژن تو نہیں تھے لیکن خدائی نظام تھا کہ ان دونوں نوروں کے ملنے سے ایسی روشنی ظاہر ہوئی کہ آخری کونے میں بیٹھے ہووں کو بھی علی علیہ السلام نظر آیا اور علی علیہ السلام کا آقا محمد بھی نظر آیا اور یہاں تک کہ دونوں ذروں کی نورانیت کا بھی سب نے مشاہدہ کیا وہ دیکھو علی علیہ السلام مجھے بتاو کہ جب ایک لاکھ چالیس ہزار کہہ رہے ہوں گے کہ علی علیہ السلام تو ہر طرف علی علیہ السلام علی علیہ السلام نہیں ہو گا جب رسول نے فرمایا من کنت مولاہ فھذا علی علیہ السلام مولاہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علی علیہ السلام مولا ہےں اے اس کو دوست رکھے جو علی علیہ السلام کو دوست رکھے اس کی مدد کرو جو علی علیہ السلام کی مدد کرے اسی سے دشمن رکھ جو علی علیہ السلام سے دشمنی رکھے اسی کو رسوا کرو جو علی علیہ السلام کو چھوڑ دے اس وقت بڑے بڑے اصحاب سب سے پہلے آئے اور مبارک باد دیتے ہیں اور بعض نے با آواز بلند کیا کہ مبارک ہو اے ابوالحسن مبارک ہو آپ علیہ السلام پر بھی مول علیہ السلام بن گئے ہیں اور ہر مومن مرد کے بھی مولا بن گئے ہیں اور میرے مولا ہوئے اور ہر مومن عورت کے بھی مولا ہوئے وہاں پر پڑاو لگا دیا خیمے لگے رہے اور رات دن بیعت ہوتی رہی۔

مردوں نے بھی عورتوں نے بھی بیعت کی اور عورتیں جو ہیں وہ پانی میں آ کر ہاتھ ڈالتی تھیں ہاں یہ تو اسی وقت سب نے مولا علی علیہ السلام کے فضائل دیکھے یا نہیں کیا خیال ہے ہم سے زیادہ وہ مولا علی علیہ السلام کو جانتے تھے اور ہم تو محروم دیدار ہیں وہ تو دیدار بھی کر رہے تھے کیا اس معرفت نے انہیں فائدہ دیا مدح تو وہ مولا علی علیہ السلام کی کر رہے تھے تو گویا جنہوں نے رسول خدا کی مدح کی اور بعد میں گڑ بڑ ہو گئی تو کیا مدح والے شعران کو جنت میں لے جائیں گے وہ کیوں نہیں جائیں گے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حقیقی معرفت نہیں رکھتے ہیں ہم اس قسم کی معرفت کو ابتدائی معرفت کہتے ہیں یہ معرفت کافی نہیں ہے بلکہ یہ مقدمہ ہے اگلی معرفت کا اصل معرفت یہ ہے کہ آپ کو پتہ ہو کہ جو حجت خدا پہنچا وہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟ میرے ذمے کیا کام ہے؟ یعنی پہلے معرفت ہو اور پھر اس پر عمل ہو اگر وہ جانتا ہی نہیں ہو گا کہ مول علیہ السلام کیلئے کیا کرنا ہے؟ مول علیہ السلام کی اطاعت کیسے کرنی ہے تو وہ کفر کی موت مرے گا یہی مرحلہ کافی سخت ہے اسی پر آکر سب بھٹک جاتے ہی اگلے بھی یہیں آکر بھٹک گئے اور آج بھی یہاں بھی معاملہ اسی جگہ پر گڑ بڑ ہے پس ہر دور میں امام علیہ السلام رہے ہیں اس دور کے لوگ آئمہ علیہ السلام کے بارے میں ابتدائی معرفت رکھتے تھے بلکہ اس دور کے اکثر لوگ اور اسی زمانے کے جابر اور ظالم حکمران تھے البتہ حکمران کو یہ پتہ تھا کہ یہ جو ہستیاں ہیں ان کو کائنات پر تصرف حاصل ہے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر کاربند ہے اور فضل کی اپنی منزل پر فائز ہیں کہ اس وقت انتقام پر نہیں آئیں گے اسی لیے تو وہ ان پر ظلم و زیادتی کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے پاس جو تصرف کائناتی ہے اسے وہ استعمال نہیں کریں گے اور کئی دفعہ ایسا ہوا مثلاً منصوردوانقی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو بڑھاپے کے عالم میں بلایا وہ ملعون بہت غصہ میں ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ جیسے ہی امام علیہ السلام آئیں گے میں ان کو قتل کر دوں گا مگر جیسے ہی مول علیہ السلام اندر داخل ہو جاتے ہیں یہ تخت سے اُتر جاتا ہے اور ہاتھ نیچے کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یا سیدی یا مولای اے میرے سید حکم کرو اے میرے مولا حکم کرو نوکر ہوں اور اپنی جگہ پر بٹھاتا ہے اور وہ آپ کی ڈاڑھی کو خوشبو لگاتا ہے۔

ہتھیار دے کر اور بڑے احترام سے مول علیہ السلام کو دروازے پر رخصت کرنے کے لیے آتا ہے جب مول علیہ السلام چلے جاتے ہیں تو وزراءنے کہا تم تو آج کہہ رہے تھے کہ میں آج امام علیہ السلام کا کام تمام کرتا ہوں اور غصے میں بھرے ہوئے تھے پھر تمہیں کیا ہوا تو اس نے کہا بھئی دیکھتے نہیں ہو جیسے ہی وہ اندر آئے سامنے سے ایک اژدھا آگیا اور مجھے کھانے لگا میں نے بھاگ کر جان بچائی بادشاہ وقت ہے منصور دوانقی لیکن اس خاندان کے اعجازات کو جانتا ہے یہ چند مثالیں بیان کی ہیں کہ یہ کیا ہی یہ سب باتیں معرفت میں تو آتی ہیں لیکن یہ معرفت بخشش کا تو وسیلہ نہیں ہے یہ معرفت کی ابتدائی معلومات ہیں یہ ہر کوئی لے سکتا ہے ہندو بھی لے سکتا ہے کافر بھی لے سکتا ہے عیسائی بھی لے سکتا ہے ایک مسلمان بھی لے سکتا ہے یہ معلومات تو غیر رشتہ دار کو بھی ہیں جس دن معرفت امام زمانہ علیہ السلام ہمارے دل میں آگئی جس دن معرفت کا نور ہمارے دل میں آگیا اور ہمارا دل اور ہمیں یقین ہو گیا کہ میرا امام علیہ السلام موجود ہے تو پھر بات کچھ اور ہو گی لیکن حقیقت میں ہمیں اس کا یقین نہیں ہے اگر مجھے امام علیہ السلام کا یقین ہے تو مجھے بتاو دیکھیں اگر ایک بچہ دیکھ رہا ہے کہ مجھے میرا بابا دیکھ رہا ہے تو کیا وہ غلط کام کرے گا؟ ظاہر ہے وہ بابا کے ڈر سے یا اس کے حیاءسے غلط کام نہ کرے گا آپ کے دوستے ہیں سب چاہتے ہیں کہ دوستوں میں ان کی عزت ہو اور پتہ چلتا ہے کہ یہ کام میں نے کیا تو میرے دوستوں تک اطلاع پہنچ جائے گی دوستوں میں شرمندہ نہ ہو جاوں اس وجہ سے میں وہ کام نہیں کرتا کتنا افسوس ہے ہم کتنے بے حیاءاور بے شرم ہو گئے ہیں کہ سارے اعمال میرے امام علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں میرا امام علیہ السلام میرے اعمال پر گواہ ہیں میرے امام علیہ السلام میرے اعمال پر ناظر ہیں پھر کیسے کیسے کہ دیا تھا کہ میں امام علیہ السلام کی معرفت رکھتا ہوں تو معرفت کی بات ہے جب حاصل ہو جائے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے تو پھر ایک عارف امام علیہ السلام کہتا ہے میں دکان پر بیٹھا چیزیں دیا کرتا تھا میرے تصور میں یہ بات بیٹھ گئی کہ لینے والے کسی دن خود امام علیہ السلام نہ آجائیں میں یہ چیزیں دے رہا ہوں کسی دن سودا لینے والے امام علیہ السلام نہ ہوں اسی بات پر میں نے طے کیا کہ کسی قسم کا سودا دینے میں خیانت نہیں کروں گا اصل تو تصور کی بات ہے دل میں ایمان ہو، یقین کی منزل پر انسان فائز ہو، لیکن ہم یقین کی منزل پر فائز نہیں ہےں لہذا یقین حاصل کرنے کے لیے کچھ کریں امام خمینی نے اس بارے میں بڑی علمی بحث کی ہے اور انہوں نے بتایا ہے کہ ہم مسلمان ہی مومنین نہیں ہیں ایمان ہم میں نہیں ایمان ہم میں آجائے لہذا ایمان لانے کے لیے انہوں نے ایک نسخہ بتایا ہے کہ اگر یہ انسان اپنا لے تو کوئی حرج نہیں ہے یعنی اپنے اندر تبدیلی محسوس کرو تو دوسرا کام پھر شروع کرنا اور وہ نسخہ سورہ.... کی آیت نمبر اٹھارہ سے آخر تک ہے ان آیات کو پڑھو پڑھنے تو ہم قرآن اتنا پڑھا ہمارے اوپر کچھ اثر ہی نہیں ہوتا جب کہ قرآن کہہ رہا ہے کہ اگر قرآن پڑھا جائے تو پہاڑ اپنی جگہ سے چل پڑیں گے قرآن پڑھیں تو شفاءمل جائے گی قرآن پڑھو تو غائب کی چیزیں ملیں گی قرآن پڑھو تو یہ نور ہے آپ کو روشنی دے آپ کے لیے بند دروازے کھولے ہمارے لیے تو نہیں کھلے روز ہی پڑھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اسے زبان سے پڑھتے ہیں دل سے نہیں پڑھتے کوئی آیت ہمارے دل میں نہیں اترتی۔

امام خمینی فرماتے ہیں کہ دن کا آخری حصہ انتخاب کر لو طلوع فجر اور طلوع آفتاب کے درمیان کا وقت ہو تو بہتر ہے فقط آدھ گھنٹہ ان آیات کو دیکھتے رہو اور ان کے معنی کو پڑھو آخر قبر میں بھی تو جانا ہے سب ادھر ہی جا رہے ہیں ہمیں بھی تو جانا ہے تو کل کے لیے کچھ کر لو لیکن قرآن ہمارے دل میں نہیں ہے دل میں تو اتارنا ہے اس کے لیے پریکٹس کر لو جس طرح ماں ایک بچے کو بولنا سکھاو تا کہ دل کی زبان حرکت پر آئے اس کی زبان چلے خود دل بولے جب دل میں ایمان کا نور آگیا تو پھر سب راستے کھلتے جائیں گے اور گناہ سے بھی بچتے جائیں گے خوف بھی آتا جائے گا پھر نور ایمان بھی ہمارے دلوں میں آجائے گا خدا ہمارے دلوں کو معرفت کے نور اور ایمان سے بھر دے بحث سے بحث نکلتی ہے کوشش کرتا ہوں کہ بحث کو سمیٹیں مگر باتیں درمیان سے نکل آتی ہیں معرفت کے بارے میں عرض کر رہا تھا کہ اصل معرفت کیا ہے تو ہم نے جان لیا کہ معرفت کیا ہے سنیں اس کے بارے میں اپنے بچوں کو بھی سنائیں شاید ہمیں اپنی گمشدہ میراث مل جائے مومن تلاش میں رہتا ہے مومن کی نشانی ہی یہی ہے حکمت مومن کی گمشدہ چیز ہے وہ اسے جہاں بھی ملے لے لیتا ہے چاہے بدکار فاجر اور فاسق کے پاس ہی کیوں نہ ہو۔

روایت میں ہے اس بات کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں کہ ایک زرگر کو اگر پتہ چلے کہ وہاں گند میں کوہ نور کا ایک ہیرا پڑا ہے تو وہ اپنے سفید لباس کی پرواہ کیے بغیر وہاں سے جائے گا اپنے آپ کو اس گند اور کثافت سے گندہ کرے گا اور ہیرا حاصل کرے گا اسی طرح حکمت بھی مومن کی گمشدہ میراث ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ اچھی بات ہے اگرچہ وہ ایک یہودی کے پاس ہی کیوں نہ پڑی ہو وہ اسے وہاں سے نکال کر لے آتا ہے مومن مومن کے لیے ہمدرد ہوتا ہے جب اسے پتہ چلتا ہے کہ ایک اچھی بات اس کے پاس ہے تو وہ چاہتا ہے کہ دوسروں تک اسے پہنچائیں تو آپ بھی یہ کوشش کریں کہ ان باتوں سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوں اور یہ فرض چند افراد تک محدود نہ رہے اور ہمیں بھی اپنی دعاوں میں یاد رکھیں بہر حال ہمیں یہ بتاو کہ ہمارے امام علیہ السلام ہم سے کیا چاہتے ہیں ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ ہمیں اس دور میں کیا کرنا چاہیے اور ہم کہاں کھڑے ہیں کیا ان ذمہ داریوں میں سے کوئی ایک ذمہ داری ہم ادا کر رہے ہیں امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جاہل کہہ اُٹھیں گے کہ اللہ کو آل محمد کی ضرورت ہی نہیں ہے اگر ہوتی تو ان کے کچھ حالات ٹھیک کر دیتا اس قدر مایوسی اور بغاوت کے اندر لوگ چلے جائیں گے۔

پھر امام علیہ السلام نے فرمایا کہ فرج تو ہو گی لیکن لمبی غیبت کے بعد تا کہ اللہ کے علم میں آجائے یعنی اللہ کو علم ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ وہ جان لے کون ہے جو اطاعت کرتا ہے غیبت میں اور کون ہے جو غائب پر ایمان رکھتا ہے سورہ الملک کی آیت ستر ہے امام زمانہ علیہ السلام کے حوالے سے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب تمہارا خوشگوار اور لذیز حیات بخش پانی جو ہے وہ غائب ہیں پس وہ کون ہے جو سامعین کو رائے دے دیکھی پانی جو ہے وہ حیات کا ذریعہ ہے ظاہری حیات کا اور امام علیہ السلام حقیقی زندگی کا وسیلہ ہیں اس لیے یہ روایت میں ہے کہ ہر آیت امام علیہ السلام کے بارے میں اتری ہے اور یہ آیت تمہارے امام علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ جب تمہارا امام علیہ السلام غائب ہو گئے تو کون ہے جو تمہارے امام علیہ السلام کو لائے گا جو آسمان اور زمین کی خبریں دیں گے حلال و حرام کی باتیں گے پھر مول علیہ السلام نے فرمایا کہ ایسی آیت کی تاویل ابھی نہیں آئی کب آئیں گے جب حضرت حجت علیہ السلام کا لقب ہے (مائ) معین، خوشگوار پانی خوشگوار، ہمیشہ علم کا چشمہ، ہدایت کا چشمہ، نورانیت کا چشمہ اور اس چشمہ نے ضرور ظاہر ہونا ہے اور وہ موجود ہیں لیکن ہمارا ہاتھ ان تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ ہم خود کثیف ہیں گندے ہیں اور جب کوئی کثیف آدمی ہو تو کثافت کو صاف کرنے کے لیے کہاں جاتا ہے صاف چشمے کی طرف جاتا ہے پانی تو موجود ہے لیکن ہم اپنے آپ کو پاکیزہ بنانے کے لیے اس کی طرف جاتے نہیں ہیں اس طرح امام علیہ السلام کے القاب میں ہے البئر المعطلہ ایسا شاداب اور خوشگوار کنواں، جس کو لوگوں نے چھوڑ دیا ہے اس سے پانی بھرنا اس سے فیض لینا چھوڑ دیا ہے وہ موجود ہیں لیکن ہم اس سے فیض لینا نہیں چاہتے اپنے دل کی بیماریوں کی شفا طلب کرنے اس کی خدمت میں نہیں جاتے اس کی خدمت میں حاضر ہونا چاہےے لیکن ایسا ہم نہیں کر رہے امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں ہمارا شیعہ نہیں بنتا مگر وہ جو اللہ کی اطاعت کرے اللہ کی اطاعت کے راستے سے ہمارے پاس آو جس نے اللہ کی اطاعت کی وہ ہمارا دوست اور ولی ہے اور جس نے اللہ کی نافرمانی کی وہ ہمارا دشمن ہے اور وہ ہمارے ساتھ بغض رکھنے والا ہے۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں فرج اور کشادگی اور حضرت حق کی آمد اور عدل و انصاف کے قیام کی انتظار کرو اور مایوسی نہ ہو پھر فرماتے ہیں جو ہمارے امر کو لیتا ہے ہم سے آڈر لیتا ہے ابلیس سے نہیں لیتا ہمارے وجود پر ہمارے امام علیہ السلام کی حکومت نہیں ہے ہمارے نفس کی حکومت ہے کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا ہے جس نے اپنا معبود اپنے خواہشات کو بنا لیا ہے یعنی اس کا نفس اس پر حکومت کر رہا ہے اس پر ابلیس کی حکومت ہے جب امام علیہ السلام کی حکومت ہو گی تو بات بھی امام علیہ السلام کی ہی چلے گی مول علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو ہمارا اثر لیتا ہے وہ قیامت کے دن ہمارے ساتھ ہو گا حظیرہ القدس میں ہو گا یہ جنت میں ایک جگہ ہے جو آئمہ علیہ السلام سے منصوب ہے پھر فرماتے ہیں کہ اللہ علیہ السلام کے نزدیک ہمارا بہترین عمل انتظار فرج ہے اللہ کے نزدیک ہمارا محبوب ترین ہمارا سب سے پسندیدہ اور محبوب ترین عمل کونساہے ؟ انتظار فرج، اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کا قیام اللہ کی زمین پر عدل و انصاف کی حکومت اللہ کی زمین پر ظلم و ستم کا خاتمہ پھر فرماتے ہیں اور جو اس دن کے انتظار میں ہے اور حضرت حق علیہ السلام تشریف لائیں گے اور ہر طرف امن اور سلامتی کا دور ہو گا جو اس کی انتظار میں ہے اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے وہ راہ خدا میں اپنے خون سے لت پت ہو اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں بیداری دے ہمیں خواب غفلت سے جگائے۔

امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت کے بغیر نہ اعمال قبول ہیں اور ہی اسلام قبول ہے جو شخص اس حالت میں مرتا ہے کہ وہ امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت نہیں رکھتا تو وہ جہالت کی موت مرتا ہے ہماری اب گفتگو ہو رہی ہے کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں سب سے اہم ذمہ داری اور بنیادی ذمہ داری یہ علم ہونے کے بعد کہ زمانے کے امام علیہ السلام موجود ہیں وہ حضور پاک کے بارہویں جانشین ہیں ان کے یہ القاب ہیں ، یہ اسماءمبارک ہیں اور زندہ ہیں اسی جہاں میں موجود ہے اسی زمین پر موجود ہے وہ ہمارے پروگراموں میں تشریف لاتے ہیں وہ برحق مومنین کے نماز جنازے میں شریک ہوتے ہیں وہ قبرستانوں میں تشریف لاتے ہیں وہ حج کے موسم میں حج پر تشریف لے جاتے ہیں ہر شب جمعہ کربلا میں تشریف لے جاتے ہیں آئمہ علیہ السلام کے مزاروں پر پہنچتے ہیں اس طرح امام علیہ السلام زادگاہوں کے مزاروں پر پہنچتے ہیں یہ سب علم ہو گیا اس کے بعد یہ اہم فریضہ ہے یہ فریضہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور یہ واجب سمجھیں جو ہماری ذمہ داری بنتی ہے وہ یہ ہے کہ جو ہمارا علم ہے جو ہماری واقفیت ہے اور جو معلومات ہیں ہم اس علم کو اور ان معلومات کو یقین میں تبدیل کریں اس علم کو ہم ایمان میں تبدیل کریں کیونکہ کسی بات کا علم ہونا اور ہے اور اس پر ایمان لانا اور ہے دونوں میں فرق ہے بعض اوقات انسان کو کسی چیز کا علم ہوتا ہے مگر اس پر اس کا ایمان نہیں ہوتا ایمان کا تعلق دل سے ہے رسول پاک کے پاس کچھ بدو آئے اور ان بدووں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں رسول پاک کی طرف اللہ کا حکم ہوا اے رسول ان سے کہہ دو کہ یہ کہیں ہم اسلام لے آئے ہیں ابھی تک ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا یعنی ایمان کا دل سے تعلق ہے اور اسلام کا تعلق زبان سے ہے جو بھی آپ زبان سے اقرار کریں گے وہ اسلام ہے اسلام کیا ہے؟ زبان سے اقرار ہے توحیدکا، رسولوں کا، فرشتوں کا، کتابوں کا، قیامت کا، قبر میں سوال و جواب کا یہ سب عقائد ہیں ان کا اقرار کرنا اسلام ہے اور یہی جو ہم اقرار کرتے ہیں اور اگر یہی اقرار دل تک پہنچ جائے جن کو یہ زبان ادا کر رہی ہے اس کو دل کی زبان بھی ادا کرے تو وہ ایمان ہےالایمان هوا الا یقان فی القلب یعنی دل سے یقین پھر جب اس بات پر یقین ہو جائے تو اس پر عمل کیا جاتا ہے میں آپ کو ایک مثال دوں کہ آپ جانتے ہیں کہ خود کشی کرنا حرام ہے مشرعاً جرم ہے یہ گناہ کبیرہ ہے ہم یہ جانتے بھی ہیں اور اس پر ہمارا یقین بھی ہے کوئی ایسا کرے گا کہ چالیسویں منزل سے نیچے چھلانگ لگائے گا اس لیے نہیں لگائے گا کہ اس کا یقین ہے اگر میں نے چھلانگ لگائی تو میں مر جاو گا اور مشرعا بھی خود کشی حرام ہے کوئی اپنے سینے پر پسٹل رکھ کر نہیں چلائے گا کیونکہ اس کو یقین ہے کہ گولی سیدھی میرے سینے سے گزر جائے گی کیونکہ اس اقدام کا نتیجہ ہے اس پر یقین ہے اب آیت قرآن ہے قرآن کہہ رہا ہے کہ تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کریں کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے کہتے ہیں کہ مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند نہیں کرتے جب تم مردہ بھائی کا گوشت پسند نہیں کرتے ہو تو غیبت بھی تو مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف ہے اور امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جہنمی کتوں کی غذا ہے یعنی باتوں کے سچ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ قرآن میں ہے جو صریح طور پر فرما رہے ہیں اور آئمہ علیہ السلام کے فرامین ہیں اور پھر جو کچھ قرآن مجید میں غیبت کے بارے ہے اس پر یقین نہیں ہے چونکہ یقین نہیں ہے لیکن ہم کرتے ہیں غیبت کے مزے لے کر کرتے ہیں غیبت کیا ہوتی ہے کہ ایک مومن میں ایک عیب موجود ہے اور وہ عیب جو موجود ہے اس کا تذکرہ نہیں کرنا فرض کیا غلام حیدر میں ہوں ایک عیب ہے اور جعفر کو علم نہیں ہے غلام حیدر اُٹھے اور انہوں نے جا کر جعفر کو بتا دیا غلام حیدر نے اس سے کہا یہ کیا کہہ رہے ہو تو اس نے کہا میں سچ بول رہا ہوں یہ واقعاً ایسا ہے۔

خدا کہتا ہے کہ میں اسی سچ سے روکا ہے اس سچ کو نہیں بولنا، کیوں نہیں بولنا؟ یہ تو خدا کو پتہ ہے وہی مالک ہے مالک کہتا ہے کہ میرے بندے کا عیب جو ہے جس پر میں نے پردہ ڈالا ہو اسے اگر کسی وجہ سے آپ کو پتہ چل جائے تو حرام ہے کہ آپ میرے بندے کے عیب کو دوسروں کو جا کر بتائیں یہ حرام ہے ایسا کرو گے تو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاو گے جہنمی کتوں کی غذا بنو گے اور بہت ساری روایات ہیں مثلاً رسول خدا کی خدمت میں کوئی آیا تو رسول خدا نے فرمایا کہ اس کو کھانا دو اس نے کہا میں تو روزے سے ہوں رسول خدا نے فرمایا تمہارے منہ سے گوشت کھانے کی بو آرہی ہے اس نے کہا میں نے تو گوشت نہیں کھایا کہا ابھی ایک مومن بھائی کی غیبت کر کے آئے ہو یہ تو اللہ نے پردہ رکھا ہوا ہے جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کا فرمان ہے اور غیبت کے بارے میں تو فرمایا گیا کہ زنا سے بھی زیادہ سخت جرم ہے لیکن ہم میں کہ ساری روایتیں جانتے ہیں مولوی سے سنتے ہیں قرآن میں پڑھتے ہیں کتابوں میں دیکھتے ہیں لیکن کیا بات ہے پھر بھی اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس پر یقین نہیں ہے اپنے سینے پر پسٹل کی گولی نہیں چلاوں گا کیونکہ خود کشی حرام ہے بھئی اس کا یقین ہے لیکن یہاں مجھے غیبت والے نظر آنے لگے منہ میرا مردہ بھائی ہے اور میں اس کا گوشت نوچ رہا ہوں یعنی یہ یقین مجھے نہیں ہے اب امام زمانہ علیہ السلام کا وجود حتمی اور یقینی ہے یہ سب معلومات ہیں اب اس کو یقین کی طرف بدلنا ہے۔

مومنین کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے وہ اللہ پر توکل کرتا ہے یعنی توکل کرنے کا مطلب کسی کو وکیل کرنا یعنی وہ اللہ کو وکیل کرتا ہے اچھا ذرا سوچیں یہ وکیل بنانا کیا ہوتا ہے کسی کو وکیل کب بنایا جاتا ہے جب اس میں چار شرائط ہوتی ہیں جب کہ آپ کے کاروباری جھگڑے ہوتے ہیں اور اس میں آپ کسی کو وکیل بناتے ہیں تو اس میں چار خصوصیات دیکھتے ہیں پہلی بات تو یہ دیکھتے ہیں کہ یہ جو وکیل رکھنا ہے اس کے مسائل سے آگاہ ہے یعنی وہ مہارت رکھتا ہے دوسری بات یہ ہے کہ یہ جو علم رکھتا ہے اس کے استعمال کے بھی قدرت رکھتا ہے کہ اس کیس کو ثابت کر سکے دلائل دینے کی اس میں طاقت ہو اور تیسری بات یہ ہے کہ جو قدرت اس کے پاس ہے عدالت میں جا کر وہ اسے استعمال کرے گا یا کوئی چیز رکاوٹ بن جائے گی یا وہ اس قدرت اور صلاحیت کو استعمال نہیں کر سکے گا ایسا وکیل آپ نہیں کریں گے جو جج کے سامنے اپنی صلاحیت استعمال نہ کر سکے چوتھی بات یہ ہے کہ وکیل جو آپ کر رہے ہیں دیکھیں گے وہ کنجوس تو نہیں ہے یعنی اپنی صلاحیت کے استعمال کرنے میں کنجوسی تو نہیں کرے گا بلکہ بھر پور تیاری کر کے جائے گا جب یہ چار شرائط پوری ہوں گی تو پھر آپ ایسے شخص کو وکیل کریں گے یعنی جب ہم دنیاوی کاموں کا وکیل بناتے ہیں تو اس میں چار شرائط کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔

لیکن جب کسی کو وکیل بنا لیا جاتا ہے تو پھر اس پر کیسا بھروسہ کرتے ہیں پورا پورا بھروسہ کرتے ہیں سب کچھ اسے دے دیتے ہیں پورا اختیار اسے دیتے ہیں بھئی کتنا افسوس ہے کہ اللہ کو ہم اس عام وکیل جتنا بھی نہیں سمجھتے خدا میرا وکیل ہے خدا کو وکیل بناو جس نے اللہ کو وکیل بنا لیا اللہ اس کے لیے کافی ہے اللہ عالم ہے قادر ہے اپنی قدرت استعمال کر سکتا ہے کرتا بھی ہے اور بخیل بھی نہیں ہے وکیل بنانے والی ساری شرائط موجود ہیں شرائط تو چاروں بدرجہ اتم موجود ہیں مگر ہماری حالت یہ ہے کہ شفا لیتے ڈاکٹر سے، پیسے لیتے ہیں تاجر سے اور سیر ہونے کے لیے روٹی سے سیر ہوتے ہیں قرآن مجید میں انبیاءکی بات سنو وہ کہتے ہیں کہ اللہ مجھے کھانا کھلاتا ہے اللہ مجھے پانی پلاتا ہے اللہ مجھے روزی دیتا ہے مزدوری تو وہ خود کرتا ہے لیکن کہتا ہے روزی اللہ دیتا ہے حقیقت بھی یہی ہے قرآن مجید میں ہے کہ اللہ ہی ہے جو پھول میں خوشبو دیتا ہے اللہ ہے جو پھل کو رونق دیتا ہے ہم میں یہ توفیق نہیں ہے کہ ہم ان سب نعمتوں کی نسبت خدا کی طرف دیں یعنی یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں ہم ان کی نسبت خدا کی طرف نہیں دیتے اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم منزل یقین پر فائز نہیں جو علم ہے وہ ہمارا علم ہی ہے ایمان میں تبدیل نہیں ہوا ہم ابھی اسلام پر کھڑے ہیں ایمان کی طرف نہیں گئے امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں جتنی معلومات ہیں وہ ہمارا علم ہے اسی علم کو ہمیں یقین میں بدلنا ہے تا کہ ایمان حاصل ہو جائے جب مول علیہ السلام کے بارے میں ایمان حاصل ہو جائے گا تو پھر میںداڑھی نہیں منواوں گا کیونکہ مجھے خیال آئے گا کہیں میرا مول علیہ السلام دیکھ نہ رہے ہوں کہیں مول علیہ السلام کی پکڑ میں نہ آجاوں ناراض ہو کر مجھے بد دعا ہی نہ دے دیں کہ بد بخت میرا ہو کر کم از کم چہرے کو تو خوبصورت رکھ مرد کی داڑھی مرد کے لیے خوبصورت ہے اسی طرح پھر جھوٹ نہیں بولوں گا کسی کو اذیت نہیں دوں گا خمس کا مال نہیں کھاوں گا کہتے ہیں کہ بعض بندگان خدا ان میں سے کسی کے گھر دعا مانگ رہے تھے اور بڑے واسطے دے رہے تھے بعد میں ان دعا مانگنے والوں مین سے کسی نے دیکھا کہ مول علیہ السلام تشریف لے آئے ہیں لیکن اندر تشریف نہیں لا رہے۔

مول علیہ السلام باہر کھڑے ہیں اس نے مول علیہ السلام سے اسی گریہ کی حالت میں عرض کیا مول علیہ السلام آپ علیہ السلام اندر کیوں نہیں تشریف لاتے تو مول علیہ السلام نے فرمایا اس گھر میں نقص ہے خرابی ہے یہ غصبی مکان ہے میں اس گھر میں نہیں آ سکتا تو اس نے عرض کیا کہ پھر مول علیہ السلام ہم اُٹھ کر باہر آجائیں تو پھر مول علیہ السلام نے فرمایا آپ کو آنے کی اجازت نہیں ہے تا کہ گھر کا مالک رسوا نہ ہو جائے تو دیکھیں مول علیہ السلام تو مومنین کا استقبال کرتے ہیں اور اس سے فرماتے ہیں کہ جب محفل ختم ہو جائے تو اس کو بتا دینا مومن کہتا ہے کہ پروگرام کے بعد جب میں اس کو بتایا تو پتہ چلا کہ اس نے غیر خمس مال سے یہ مکان خریدا تھا خلاصہ یہ ہے کہ جب یقین ہو جائے کہ میرے امام علیہ السلام موجود ہیں اور میرے اعمال پر گواہ ہے تو پھر میرے اعمال یہ نہیں ہوں گے جو اس وقت ہے پس علم اور ہے اور یقین اور ہے جب یقین آجائے تو عمل اس کالازمہ ہے ایمان کے ارکان بتائے گئے الایمان فی القلب والعمل بالحوارج واقرار بالسان اور الایقان فی القب اور العمل بالجوارح اسلام کے لیے کوئی شرط نہیں ہے اس میں زبان کا اقرار کافی ہے مثلاً ہمیں پتہ ہے کہ وہاں پر آگ جل رہی ہے تو ہم اس میں پاوں نہیں رکھیں گے کیونکہ ہمیں علم ہے کہ آگ ہے اور آگ جلاتی ہے لیکن ایک شخص ہے جو وہاں پاوں رکھ دے گا کیوں جب کہ اس کو علم ہے کہ آگ جلاتی ہے لیکن اسے یقین نہیں ہے جب یقین ہو گا تو یقین کا لازمہ عمل ہے جب کسی کو آگ کا یقین ہو تو وہ آگ پر ہاتھ نہیں رکھتا اپنی انگلی تک نہیں رکھتا جب کسی کو پتہ ہو کہ تار میں بجلی ہے اور مجھے پکڑے گی اور جلا دے گی وہ بجلی کی ننگی تار کو ہاتھ نہیں لگائے گا لیکن جس کو علم نہیں ہے وہ بجلی کی تار پر اپنا ہاتھ رکھ دے گا کیونکہ وہ بجلی سے نا واقف ہے اس کے نتیجہ سے نا واقف ہے اسی طرح ہمیں یہ علم ہے کہ ہمارے امام علیہ السلام موجود ہیں آپ کا وجود عقل دلائل سے ثابت ہے نقل دلائل سے ثابت ہے قرآنی آیتوں سے ثابت ہے حدیثوں سے ثابت ہے اب یہ علم حاصل ہو گیا ہے تو اس کو یقین میں بدل دیں۔

ہم بحث کر رہے ہیں کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ قیامت کے دن ہمیں ہمارے زمانہ کے امام علیہ السلام کے ساتھ پکاراجائے گا قیامت کے دن حوض کوثر پر جب انشاءاللہ ہم جائیں گے تو گویا ہم اپنے زمانے کے امام علیہ السلام کی قیادت میں ہوں گے ہمیں انشاءاللہ امام علیہ السلام کے ہاتھ سے کوثر پیش کیا جائے گا دعائے ندبہ میں اگر آپ نے تو جہ کی ہو تو یہ جملے موجود ہیں کہ اے امام زمانہ علیہ السلام ہمیں اپنے جد امجد کے کاسہ سے کوثر پلانا اے مول علیہ السلام ہمیں اپنے ہاتھ سے حوض کوثر پر کوثر پلانا میں نے عرض کیا تھا کہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں معلوم ہے اس پر ایمان لے آئیں ایسی معلومات کو اپنے دل کی طرف منتقل کریں اور یہ سب سے اہم فریضہ ہے اس کے لیے ہم مسلسل مشق کریں پریکٹس کی ضرورت ہے اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے یہ تھی پہلی ذمہ داری۔

اب ہم دوسری ذمہ داری کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں دوسری ذمہ داری ہے صبر کرنا، صبر کا مطلب ہے جو ہم نے نظریہ بنایا ہے جو عقیدہ ہم نے بنایا ہے اس پر عمل کرنے میں مشکل کا سامنا ہو گا اور خاصر کر ایسے حالات میں جب ایک ایسا نظریہ اپنایا ہے اور اس نے اپنا ایک ایسا عقیدہ بنایا ہے کہ اس عقیدے کے مخالفین بہت زیادہ ہیں ایسے وقت میں اس نظریہ پر قائم رہنے پر بڑی مشکلات کا سامنا ہو گا آخری امام علیہ السلام کے بارے میں جو ہمارا نظریہ اور عقیدہ ہے خدا کرے یہ ہمارے دلوں میں راسخ ہو جائے اور نور ایمان ہمیں نصیب ہو جائے جو کہ ہم چاہے بد بختوں کو ابھی تک حاصل نہیں ہوا لیکن ہم کوشش کریں کہ ایسا ہو جائے اورمایوس بھی نہ ہوں اور اگر مول علیہ السلام نظر کرم فرما دیں تو مسئلہ حل ہے لیکن یہ طلب دہی چاہیے اور ہمیں اپنی بیماری کا علوم ہونا چاہیے کیونکہ بیماری ہم میں ہے اور ہم نے اس کو دور کرنا ہے دور تب کر سکیں گے جب اس کی طرف توجہ ہوں ایک اور بات میں اس جگہ کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ ہمارے تمام شیعوں کے ہاں اس امام علیہ السلام کے بارے میں اس جگہ کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ ہمارے تمام شیعہ اپنے امام علیہ السلام کے متعلق عجیب و غریب خیالات رکھتے ہیں ۔

انہیں ایسا ثواب ملے گا جس طرح انہوں نے جنگ بدر اور خندق میں رسولخدا کے پرچم تلے جہاد کیا ہو اور اس دور کی سختیاں برداشت کی ہوں ایسا اجر ملے گا جیسے رسول خدا کے ہمراہ مصائب برداشت کیے ہوں خداوندعالم ہمیں صابرین سے قرار دیں آئمہ علیہ السلام کی کوشش رہی ہے کہ لوگوں کو سمجھائیں اصل دین کیا ہے اور پھر اس پر صبر کرنا اور بڑے واضح انداز میں اس بات کو بتاتے رہے اور پہلے بھی میں نے عرض کیا ہے کہ جس مسئلے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ مسئلہ ولایت ہے کیونکہ تمام عقائد کا مرکز ولایت ہے اگر اس نکتے سے انحراف کیا جائے گا تو باقی نکات کو چھوڑ دیا جائے گا اس سلسلے میں کچھ حدیثیں ہیں تو جہ فرمائیں۔

ہم تھوڑی سی گفتگو آئمہ علیہ السلام کی ذمہ داریوں کے بارے میں کرتے ہیں ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرا دین، میرے آباو اجداد کا دین جو آپ کو اختیار کرنا چاہیے وہ یہ ہے یہ بات اپنے ایک صحابی سے آپ علیہ السلام نے کہی اور جو کچھ حضرت محمد لائے ہیں اس کا اقرار کرنا اور پھر فرماتے ہیں کہ ہمارے ولی سے ولایت رکھنا ہے یعنی جو ہمارا دوست ہے اس سے محبت کرنا اور جو ہمارا دشمن ہے اس سے بیزاری رکھنا اس کا مطلب فقط زبان سے برائت کرنا کافی نہیں کہ میرا فلاں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور سارے کام ہم اس والے کرتے رہیں ہم یزید پر لعنت بھیجتے ہیں جب مسئلہ عمل کا آتا ہے تو یزید بھی بے نماز اور ہم بھی نے نماز یزید بھی خدا کے احکام کا مذاق اُڑاتا تھا ہم بھی مذاق اُڑاتے ہیں یزید کے خاندان کی عورتیں بے پردہ بازاروں میں گھومتی تھیں ہماری عورتیں بھی بے پردہ بازاروں میں گھومتی ہیں اور یزید پر لعنت بھیجتے ہیں یزید کے نام پر لعنت بھیجنے سے کچھ ہوتا یزید کے عمل پر لعنت بھیجو۔

اس لیے ہمیں ان کے کردار سے نفرت کرنی چاہیے فرمان معصومین علیہ السلام ہے کہ حضرت حجت زمانہ علیہ السلام کے امر میں سے ایک امر ہے اس امر کو قبول کرنا اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم بھی کرنا اور آئمہ علیہ السلام سے جو احکام آتے ہیں اگر ان کی مصلحت ان کی حکمت کا علم ہو جائے تو ٹھیک ہے وگرنہ فرمان امام علیہ السلام سن کر خاموشی اختیار کریں مثلاً غیبت طولانی کیوں ہو رہی ہے؟ ظہور کیوں نہیں ہو رہا؟ تو ہمیں اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہو گا اور بولنا نہیں ہو گا اس روایت میں مول علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہماری ولایت کو فرض نہ کیا ہوتا ہماری مودت کو واجب قرار نہ دیا ہوتا خدا کی قسم جو کچھ بھی ہم کہتے ہیں جو ہم بولتے ہیں وہ وہی ہوتا ہے جو کہ خدا نے فرمایا ہوتا ہے یہی تو فرق ہے ہماری آئمہ علیہ السلام میں اور دوسروں کے آئمہ میں دوسروں کے آئمہ جو کہتے ہیں وہ اپنی رائے سے کہتے ہیں جب کہ ہمارے آئمہ علیہ السلام جو کچھ کہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہتے ہیں اس روایت سے صبر کے متعلق بیان ہوا ہے امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ جب آخری امام علیہ السلام کی امامت کا ایمان نہیں ہو گا فقط اقرار نہ ہو اس امام علیہ السلام کے وجود کا علم ہونا کافی نہیں ہے بلکہ آخری امام علیہ السلام کے وجود کا مکمل یقین ہو ایسی آخری امام علیہ السلام کی امامت پر کوئی ثابت نہیں رہے گا مگر وہ جن کا یقین مضبوط ہو گا جس کی معرفت درست ہو گی پھر مول علیہ السلام اپنے شیعوں کی حوصلہ افزائی فرماتے ہیں اور آپ کی رہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں جو بھی مشکلات آتی ہیں پہلے ہم پر آتی ہے پھر آپ پر آتی ہیں ہم بھی تمہارے ساتھ ان مشکلات میں شریک ہوتے ہیں پہلے مصائب ہم پر آتے ہیں پھر آپ پر آتے ہیں پہلے خوشی ہمیں ملے گی پھرتمہیں ملے گی یعنی ایسا نہیں ہے کہ اس میں آپ لوگ تنہا ہوں ایک ایسا پیغام ہے جس میں مول علیہ السلام فرماتے ہیں رحمت کرے اللہ اس پر جو ہمیں لوگوں کا محبوب بنائے یعنی لوگوں کے سامنے ہمارے فضائل، ہماری خوبیاں، ہماری انسانیت کے لیے، دین کے لیے اسلام کے لیے جو خدمات ہیں بیان کرو ہمارا کردار ان کے سامنے بیان کرو تا کہ وہ ہم سے پیار کرنے لگے یعنی لوگوں میں ہمیں محبوب بناو اور رحمت ہو۔

اگر کوئی شخص حضرت نوح علیہ السلام کی عمر پائے اور اس پوری عمر میں دنوں میں روزے رکھے اور راتوں میں عبادت کرے اور وہ بھی رکن اور مقام کے درمیان پھر وہ خدا کے پاس جائے یعنی مر جائے اگر ہماری ولایت اس کے پاس نہیں تو وہ اس سسکے پاس کچھ بھی نہیں اور یہ ولایت اس وقت تک کامل نہیں ہے جب تک وہ آخری امام علیہ السلام کی ولایت نہ رکھے ولایت کا اقرار کافی نہیں ولایت پر ایمان ضروری ہے یقین کے حصول کے لیے کام کریں تا کہ وہ منزل یقین ہمیں مل جائے اور ہمارا اپنے امام علیہ السلام پر ایمان ہو جائے آخری امام علیہ السلام پر ہمارا اس طرح ایمان ہو جس طرح ہمیں اپنے وجود پر ایمان ہے جس طرح ہمیں اپنے بچوں کے وجود پر ایمان ہے جس طرح ہمیں اپنی گاڑی کے ہونے پر یقین ہے یہ سب آپ کے مشاہدے کی باتیں ہیں اس حد تک ہمیںیقین ہونا چاہیے اور اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہونا چاہیے کیا اپنے وجود کے بارے میں کبھی کسی کو شک ہوا ہے؟ یعنی جب اس یقین کی منزل پر پہنچ جاو اور یہ جان لو گے کہ وہ موجود ہیں اور ہمارے اعمال پر نظر رکھتے ہیں ہمارے اعمال پر گواہ ہیں تو پھر ہم خمس بھی نہیں کھائیں گے کسی کو اذیت بھی نہیں دیں گے پھر کسی کو گالی بھی نہیں دیں گے پھر نماز بھی ترک نہیں کریں گے پھر جھوٹ بھی نہیں بولیں گے کیونکہ ہم اس یقین کی منزل پر فائز نہیں ہیں یعنی ہمارا ایمان ہی نہیں ہے ہمارا علم ہے ہمیں ایمان حاصل کرنے کی ضرورت ہے ایمان آگیا تو مسئلہ بڑا آسان ہو جائے گا خدا کرے ہمیں وہ ایمان مل جائے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اسی حوالے سے فرماتے ہیں جو ہمارے قائم علیہ السلام ہیں امام علیہ السلام کو اپنے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں بہت شوق تھا آپ ان سے بہت محبت کرتے تھے آپ سے ہر امام علیہ السلام کو محبت تھی اس بارے میں کتابیں بھری پڑی ہیں ہر امام علیہ السلام نے کسی نہ کسی طرح ان کی تعریف فرمائی ہے اور اپنے بیٹے کی مدح فرمائی ہے یہی روایت آپ دیکھیں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں جو ہمارے قائم علیہ السلام کی غیبت میں ہماری ولایت پر ثابت قدم رہیں گے اور اسی راستے میں مصائب و مشکلات برداشت کریں اور اس راستہ سے مشکلات اسے نہ ہٹائیں تو اللہ اسے ستر ہزار شہیدوں کا درجہ عطا فرمائے گا اوراحد کے شہداءمیں مقام دے گا ان لوگوں کی اپنی عظمت ہے ہم سمجھ ہی نہیں سکتے کتنا اجر و ثواب ان کا ہم روک ہی نہیں سکتے ایسے لوگ سب سے افضل لوگ ہیں جو غیبت پر ایمان رکھتے ہیں ۔

اسلام کی تکمیل ولایت علی علیہ السلام ابن طالب علیہ السلام کے اعلان سے ہوئی ہے اور ہمارے آخری امام علیہ السلام اسی ولایت کی بارہویں کڑی ہیں انسان کا ایمان کامل اس وقت ہو گا جب اسے یقین ہو کہ بارہواں امام علیہ السلام موجود ہیں وہ خاتم اوصیاءہیں اسلام کے رہبر ہیں اسلام کی تاریخ ان کی ذمہ داری ہے وہ قرآن کریم کے محافظ ہیں انہوں نے اسلام کو پوری دھرتی پر نافذ کرنا ہے انہوں نے توحید کا بول بالا کرنا ہے کفر و نفاق کا خاتمہ کرنا ہے عدل و انصٓف کو رائج کرنا ہے جب یہ ہماری معلومات یقین کی صورت اختیار کرلیں اور ایمان حاصل ہو جائے نور ایمان ہمارے دلوں میں آجائے تو پھر جس بات کا ایمان ہے اس پر قائم رہنے سے جو مشکلات آئیں گی ان کو برداشت کرنا دوسری ذمہ داری تھی یعنی صبر کرنا اس عقیدے پر قائم رہنے کے لیے بہت سی مشکلات برداشت کرنا ہوں گی اس کے لیے مومنین کامل الایمان ہر وقت تیار ہے۔

اب ہم تیسری ذمہ داری کا ذکر کرتے ہیں جب ہم امام علیہ السلام موجود ہیں ہمارے رہبر موجود ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے احکام کیا ہیں ؟ ظاہر ہے کہ جب انسان کسی کو اپنا امام علیہ السلام مانتا ہے اور کسی کو اپنا بڑا تصور کراتےا ہے کسی کو اپنا رہبر سر تسلیم کرتا ہے تو پھر اسے یہ پتہ ہونا چاہیے کہ اس کی رضائیت کیا ہے اس کی طرف احکام کونسے ہیں یعنی احکام کا پتہ ہمیں ہونا چاہیے اگر ہم اس آخری امام علیہ السلام کی رعیت ہیں ہم اس امام علیہ السلام کے ساتھ اُٹھائے جائیں گے کیونکہ قیامت کے دن ہر گروہ کو ان کے اپنے امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھ پکارا جائے گا اور ہم انشاءحجت حق بقیة اللہ الاعظم علیہ السلام کی رہبری اور قیادت میں میدان حشر میں پہنچیں گے اور حوض کوثر پر انشاءاللہ اس امام علیہ السلام کی قیامت میں حاضر ہوں گے تو ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ ان کے احکام کیا ہیں ہمارے امام علیہ السلام آخری پیغمبر کے بارہویں وصی ہیں ان کے احکام پیغمبروں کے احکام ہیں ان کے احکام حضور پاک کے احکام سے مختلف نہیں ہیں وہی احکام جو رسول پاک نے دیئے ہیں ہمارے امام علیہ السلام اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے ان کی زبان ترجمان اللہ ہے ان کا بیان خدا کا بیان ہے وحی خدا جو رسول پاک پر اترتی رہی اس کے ترجمان ہوتے ہیں ظاہر کہ ان کے احکام وہی اسلام کے احکام ہیں تو ہمیں ان احکام کا پتہ ہونا چاہیے تا کہ ہم ان احکام کو بجا لا سکیں۔

محبت کا معیار جو امام علیہ السلام بتا رہے ہیں وہ اللہ کی اطاعت ہے اور اسلامی احکام کی پیروی ہے اگر اہم اسلامی احکام کی پیروی نہیں کریں گے تو آئمہ علیہ السلام ہمیں اپنی ولایت کے دائرے سے باہر نکال دیں گے اور فرمائیں گے تم ہماری حکومت کے دائرے میں نہیں ہو تم پر حکومت نہیں ہے تم پر کسی اور کی حکومت ہے کیونکہ ہماری حکومت کا جو تصور ہے ہماری حکومت کا نظام نامہ ہے وہ اسلام ہے اور وہ قرآن کی شکل ہی موجود ہے اور وہ حدیث کی شکل میں موجود ہے لہذا ہمیں ان کے احکام معلوم کرنے ہوں گے اب سوال یہ ہے کہ احکام معلوم کرنے کا طریقہ کار کیا ہے پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ براہ راست امام علیہ السلام سے معلوم کریں اوراس کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے احکام وصول کریں جس طرح باقی آئمہ علیہ السلام کے دور میں تھا اور آخری امام علیہ السلام کی غیبت صغریٰ میں بھی تقریباً یہی معاملہ تھا جتنے بھی مسائل کسی کو پیش آتے تھے وہ مسائل اپنے امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتے تھے بالخصوص نئے پیش آنے والے مسائل میں نے ایک بات کی طرف آپ کی توجہ دلائی کہ ہر امام علیہ السلام نے آ کر اسلام کی تشریح کی ہے یعنی اسلام کے وہ گوشے بیان کیے ہیں کہ جو اس سے پہلے بیان نہیں ہوئے ہوتے تھے قرآن کی اس حصے کی تفصیل بیان کی جو پہلی نہیں ہوئی یہاں تک کہ یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور آخری امام علیہ السلام کا زمانہ آگیا غیبت صغریٰ کے بعد غیبت کبریٰ کا دور آیا ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ غیبت کبریٰ کا دور اس قت شروع ہوا جب اسلام کی تشریح مکمل ہو چکی تھی قرآن کی تفسیر مکمل بیان کی جا چکی تھی کیونکہ اگر اس سے پہلے اللہ تعالیٰ شارح قرآن مفسر دین کو غائب کر دیتا اور آئندہ آنے والے سالوں میں چاہےے صدیوں بعد ہی کیوں نہ ہو گا اگر کوئی مسئلہ پیش آ جاتا جس کا جواب قرآن و حدیث سے نہ مل سکتا اور لوگ اس کے خلاف عمل کرتے اور خدا جب اس شخص کو سزا دینے لگتا تو وہ کہتا یا خدا اپنی حکم کا تو بیان ہیں نہیں آ رہا تھا میں اس پر عمل کیسے کرتا اس لیے خدا نے اس وقت تک اپنے نمائندے کو غیبت کبریٰ میں نہیں بھیجاجب تک کہ قرآن کی تشریح دین کی تفسیر مکمل نہیں ہو چکی اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ دین نام ہے احکام اور احکام قرآن میں ہیں اور قرآن جس کی تشریح احادیث کی شکل میں موجود ہے اس میں ۳۲ سالہ دور جو نبوی دور کہلاتا ہے یہ دور قرآن کے نزول کا زمانہ ہے اور قرآن کی تعلیم اور تشریح کا دور ہے۔

لہذا اب احکام ہمیں خود معلوم کرنے ہیں اس کاطریقہ کار ایک تو یہ ہے کہ خود امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں اور امام علیہ السلام سے مسائل پوچھیں جو بھی ہمیں مسائل پیش آئیں جو بھی حالات پیش آئیں فرض کریں ہمیں ایک مسئلہ در پیش ہے کہ ہم چاند پر پہنچ جائیں تو نماز کیسے پڑھیں گے؟ جہاں چھ مہینے کی رات اور چھ مہینے کا دن ہوتا ہے وہاں پہنچ گئے تو ہمارے لیے احکام کیا ہوں گے اگر تو امام علیہ السلام موجود ہوں تو ہم براہ راست امام علیہ السلام سے معلوم کریں گے اور اگر امام علیہ السلام موجود نہیں ہیں اور غائب ہیں تو ہمارا عقیدہ ہے انسان جتنی ترقی کر چکا ہے اس سے سو گنا زیادہ ترقی کر لے اور اس سے بھی زیادہ مسائل در پیش آ جائیں تو ہر مسئلے کاجواب مکتب اہل بیت علیہ السلام میں موجود ہے کوئی اپنی رائے اور اپنی مرضی سے جواب نہیں دے گا بلکہ جو قران اور حدیث کی روشنی میں جواب دےا جائے گا۔

احکام معلوم کرنے کا دوسرا طریقہ جو آئمہ علیہ السلام نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان قرآ ن اور حدیث کا ماہر بن جائے مجتہدبن جائے مجتہد کون ہوتا ہے مجتہد اس شخص کو کہتے ہیں جو عربی علوم و فنون یعنی عربی زبان سمجھنے پر قادر ہو اس طرح قرآن اور حدیث کو سمجھنے کے لیے جتنے بھی علوم درکار ہو ان سب پر اس کی دسترس ہو ان میں مکمل مہارت رکھتا ہو اور یہ تمام علوم پڑھنے کے بعد اس میں ایسی استعداد اور صلاحیت آجائے کہ جب چاہے یا جب اس سے پوچھا جائے کہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں فلاں مسئلہ کا حکم کیا ہے اس کا جواب دے سکے۔

چوتھی ذمہ داری مولا علیہ السلام کی جو رعیت ہے اس سے محبت کرنا اس کی میں ایک مثال دیتا ہوں کہ آپ ایک بڑے آدمی ہیں آپ کے ماتحت کافی سارے لوگ ہیں جن کو آپ روزگار مہیا کرتے ہیں جن کی کفالت آپ کے ذمہ ہیں غذا کی فراہمی، ان کے لباس کی فراہمی، مکان کی فراہمی یہ تمام امور آپ انجام دے رہے ہیں وہ سب آپ کے دستر خوان پر کھاتے ہیں وہ سب گویا کہ آپ کے نوکر ہیں اب ان سے آپ کو کونسا غلام اچھا لگتا ہے ظاہر ہے وہ غلام جو آپ کی رعیت سے پیار کرتا ہو گا اب دیکھیںہم سب امام زمانہ علیہ السلام کے دستر خوان سے کھا رہے ہیں کوئی کم کھا رہا ہے کوئی زیادہ کھا رہا ہے کوئی نا سمجھی میں کھا رہا ہے کوئی سمجھ کے کھا رہا ہے لیکن دستر خوان عام ہے سب کو روزی امام زمانہ علیہ السلام کی وسیلہ سے مل رہی ہے سب کے سب امام علیہ السلام کے نمک خوار ہیں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مول علیہ السلام کی رعیت سے محبت کریں ہم ہی ہیں محبت کرنے والے دین نام ہی محبت کا ہے جہاں نفرت ہے وہ دین نہیں لہذا ہمیں چاہےے کہ ہم امام علیہ السلام کی رعیت کے ساتھ محبت کریں۔

ہماری جو پانچویں ذمہ داری بنتی ہے وہ ہے انتظار یہ سب سے افضل عمل ہے یہ خدا کا پسندیدہ ترین عمل ہے حدیث میں وارد کیا گیا ہے کہ ہمارے شیعوں کا سب سے اچھا عمل یہ ہے کہا گیا ہے کہ ہمارا دین انتظار کرنا ہے۔

چھٹی ذمہ داری جو ہیں وہ امام علیہ السلام سے تعلق قائم کرنے کی ہے۔

پہلی یہ کہ صبح سویرے ہمیں روزانہ اپنے امام علیہ السلام کے ساتھ بیعت کرنی چاہیے امام علیہ السلام کی سلامتی کے لیے صدقہ دینا چاہیے اور امام علیہ السلام کی زیارت روزانہ پڑھنی چاہیے مشکلات میں امام علیہ السلام سے توسل کریں امام علیہ السلام کی نیابت میں مخصوص عبادتی اعمال کرنے چاہیے امام علیہ السلام کے مشن میں خود مبلغ ہیں اور دوسروں کو مبلغ بنائیں۔

ہم نے آخری ذمہ داریاں مختصراً بیان کی تھیں اب چاہتا ہوں کہ ان پر مفصل روشنی ڈالوں ہم ذکر کرتے ہیں چوتھی ذمہ داری کا چوتھی ذمہ داری جو ہے وہ مول علیہ السلام کی جو رعیت ہے ان سے محبت کرنا ہے میں نے پہلے بھی ایک مثال سے واضح کیا تھا اب آگے بڑھنا چاہتا ہوںہم امام علیہ السلام کے نمک خوار ہیں انہی کے دسترخوان سے ہم کھا رہے ہیں سب کو روزی امام زمانہ علیہ السلام کے وسیلہ سے ہی ملتی ہے لہذا ہمیں امام علیہ السلام کی رعیت سے محبت رکھنا چاہیے۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام حضرت امام مہدی علیہ السلام کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے جمعہ کے خطبے میں فرماتے ہیں بیمن رزق الوریٰ بیمن کا معنی برکت اور وجہ کے ہیں بمینہ بڑا ہی لطیف لفظ مول علیہ السلام نے استعمال کیا ہے مثلاً آپ فرض کریں مجھے کسی نے دعوت دی اور میرے لیے سارا اہتمام ہوا اور میرے پاس بندہ بیس حورای ہیں وہ بھی پہنچ گئے اور صاحب خانہ سے کہنے لگے کہ ماشاءاللہ آپ کی بڑی مہربانی آپ ہمارے گھر تشریف لائے ہیں وہ کہیں گے کہ بھئی ہم تو شاہ صاحب کے صدقے آئے ہیں ہم تو ان کے طفیلی ہیں یہ تو ان کی عنایت اور برکت ہے اور ان کی برکت سے سب کچھ مل رہا ہے اور ایسا کہتے بھی ہیں تو دسترخوان کائنات ہے اس میں قسم قسم کی نعمتیں ہیں ، ہوا، فضائ، یہ پانی، یہ لہلہاتے کھیت، روشن ستارے، سورج، چاند، سب کچھ جمال حیات سے ہے فقط انسان کو ان کے طفیل میں رزق نہیں مل رہا بلکہ پوری کائنات فیض یاب ہو رہی ہے اس لیے مول علیہ السلام نے لفظ وریٰ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ما سوائے اللہ کے ہے اللہ کے سوا بھی ہے وہ وریٰ ہے یعنی جو بھی مخلوق ہے وہ بمینہ رزق الوریٰ میں آ جاتی ہے وہ وریٰ ہے یعنی جو بھی اللہ کی طرف سے جو روزی دی جا رہی ہے یہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی برکت سے ہے جتنی بھی اللہ کی مخلوق ہیں حتیٰ کہ فرشتے، رضوان حورالعین ارواح ذرہ سے مسجری تک خاک سے عرش تک یہ جو جراثیم کی کائنات ہے یہ حشرات الارض کی جو کائنات ہے حیوانات کی کائنات ہے درندوں کی کائنات اور سب پہاڑ جمادات نباتات یہ ہوائیں یہ سب کہکشائیں یہ نورانیت یہ چمک دمک یہ سب بمینہ ان کی برکت سے ہے امام زمانہ علیہ السلام کے انتظام میں ہے اور ہم اس کے طفیل ہیں ۔

صحراوں کو جیسے چاہو اپنے استعمال میں لے آو حتیٰ کہ سیاروں تک جو اپنی ہمت سے جانا چاہےے جس طرح چاہےے ان سے فائدہ اُٹھائے کوئی رکاوٹ نہیں ہے سب کچھ آپ کے اختیار میں دے دیا ہے یہ سب کچھ آپ کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے تو اس میں میری قابلیت اور لیاقت نہیں ہے اور نہ ہی میں اس لائق ہوں نہ ہی میں اس شان والا ہوں یہ سب کچھ مجھے دیا جائے یہ سب کچھ اس شان والے کی وجہ سے ہے اور ہم سب ان کے طفیل ہیں اس کے صدقے میں اور اس کی برکت سے اس کے وجود کی وجہ سے کھا رہے ہیں وبوجودہ تبتت الارض والسماءیہ جملہ پہلے سے زیادہ وسعت رکھتا ہے اس میں ہے کہ یعنی آسمان کا جو ثبات ہے ستارے جو آپس میں ٹکراتے نہیں ہیں یہ نظام ایک دوسرے سے الجھتا نہیں ہے چاند اور زمین کا جتنا فاصلہ ہے اگر اس سے تھوڑا کم ہو جائے تو سب کچھ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے یہ جو نہیں ہوتا کیوں نہیں ہوتا کیونکہ حجت خدا موجود ہے حدیث ہے کہ اگر حجت خدا کائنات میں نہ ہو تو ہر چیز تباہ و برباد ہو جائے وہ ذات ہے جس کی وجہ سے ہر چیز اپنی جگہ پر ہے اگر حجت خدا نہ ہو تو سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا ریزہ ریزہ ہو جائے اس کے وجود سے کائنات میں ثبات ہے جو وہ چاہیں وہی ہوتا ہے ان کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے کائنات کا تصرف اور کنٹرول دیا ہے اور وہ جناب علیہ السلام اسی کو کنٹرول کیے ہوئے ہیں میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ رسول خدا نے انشقاق العمر کیا تھا آپ سب کا عقیدہ ہے یا نہیں ہے؟ ظاہر ہے یہ ایک اسلامی عقیدہ ہے کیونکہ رسول اللہ نے چاند کی تصویر کے دو ٹکڑے نہیں کیے تھے بلکہ اصل چاند کے دو ٹکڑے کیے تھے کوئی جادو تو نہیں تھا قرآن کہہ رہا ہے کہ انشق القمر یہ آیت کریمہ ہے ابھی سائیسندان کیا کہتے ہیں انسان کی تحقیق کیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ چاند جس جگہ پر کھڑا ہے اس کا ایک فاصلہ زمین سے ہے سورج سے ہے یہ سب ایک سسٹم ہے ہمارا چھوٹا سا نظام شمسی ہے ورنہ اس کے علاوہ اور بھی نظام ہائے شمسی موجود ہیں اور وہ اس ہمارے نظام شمسی سے کئی گنا بڑا ہے اور پتہ نہیں کتنے سورج اور ہیں ۔

اسے دو نیم کر دیا نہ زمین برباد ہو ئی نہ سورج کو کچھ ہوا نہ کہکشاوں کو کچھ ہوا حضور پاک نے اس کو وہاں سے اُٹھایا دو نیم کیا آدھا ادھر سے گزر گیا آدھا اُدھر سے گزر گیا اس سے سمجھو کہ یہ حجت خدا ہےں جن کے پاس کائنات کاسارا کنٹرول ہے نظام اپنی جگہ پر چلتا رہے وہ جس سیارے کو اپنی جگہ سے اُٹھانا چاہیں وہاں سے اُٹھالیں اب لوگ شک کرنے لگتے ہیں کہ یہ کیسے ہوا؟ مولا علی علیہ السلام کے ازدواج کے وقت ایک ستارہ جناب کے گھر اترا یہ ایسے ہوا جیسے چاند دو نیم ہوا وہ مکہ کی سر زمین پر اترا تو اس حجت امام علیہ السلام کی بیٹی کی جب شادی ہو رہی ہے تو ایک ستارہ مدینہ کی سرزمین پر اُترا میں کہتا ہوں سلامی دینے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے کہ یہ تمام نظام ان کے کنٹرول میں ہے کسی اور کے کنٹرول میں نہیں ہے بحث سے بحث نکل آتی ہے اصل بات تو ہم نے یہاں سے چلائی تھی کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم امام علیہ السلام کی رعیت سے محبت کریں ہم میں محبت کرنے والے ہیں دین نام سے محبت کا ہے جہاں نفرت ہے وہ دین نہیں ہے المومنون لمرکیون شیعتنا حلویون لفظی ترجمہ میں کرتا ہوں کہ شیعہ حلوہ کھانے والے ہیں حلوہ پوری روز کھاتے ہیں شیعہ کھجوریں کھانے والے ہیں دراصل یہ تشبیہہ دی گئی ہے یعنی شیعہ آپس میں اس طرح لشکر ہو کر رہتے ہیں کہ ان کو کھجوروں کی مٹھاس اور حلوے کی مٹھاس سے تشبیہ دی گئی ہے یعنی پیار اور محبت کے اس منزل پر فائز ہیں جب کوئی مومن مومن کی ملاقات کے لیے جاتے ہیں جب مومن ایک دوسرے کو ملیں تو مومن کو چاہےے کہ وہ دوسرے مومن کو سلام کریں آپس میں مصافحہ کریں اور پھر اللہ تعالیٰ نے لالچ بھی بڑی دی ہے تا کہ میرے بندے اس سے فائدہ اُٹھا لیں فرماتا ہے اگر سلام کرو گے تو ۹۶ نیکیاں تمہاری لکھی جائیں گی اور جواب دینے والے کو ایک نیکی ملے گی البتہ جواب دینا تم پر واجب ہے کہتے ہیں کہ جب اپنے مومن بھائی کی ملاقات کرنے کے لیے جاو تو ہر قدم پر تمہارے گناہ جھڑتے جائیں گے اور تمہاری نیکیاں بڑھتی جائیں گی ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے کہ جو تمہارے ساتھ قطع رحمی کرے تو تم اس کے ستھ رشتہ جوڑو اور پھر رشتے داروں کے ساتھ تو یہ صلہ رحمی کی بات کی اور زیادہ تاکید کی گئی ہے ہمارے ہاں کیا ہے ہمارے ہاں تو جیسے جیسے قریب زمانہ آتا جا رہا ہے رشتے داروں کا اتنا پتہ ہی نہیں ہوتا بچوں کو حالانکہ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی بہت تاکید کی گئی ہے جس کا حساب ہی نہیں روایت میں صلہ رحمی کا فائدہ بیان کیا گیا ہے۔

فرماتے ہیں صلہ رحمی سے شہر آباد ہوں گے صلہ رحمی سے دوری بڑھے گی صلہ رحمی سے عمر بڑھے گی آپس میں ایک دوسرے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آپ ایک دوسرے کو جا کر سلام کرآئیں آپ یہاں تو یہ ہے کہ باپ بوڑھا ہو گیا ہے تو بیٹا بابا کو ملنے نہیں جانتا سلام کرنے ہی نہیں یہ بھی ایک موضوع ہے کہ والدین کی اطاعت پر بچوں کو بالکل توجہ بھی نہیں ہے ماں باپ کا خیال نہیں ہے تو بات یہ تو ہو رہی تھی کہ جہاں محبت نہیں ہے وہاں پر دین نہیں ہے جنتیوں کی خصوصیات میں آیا ہے جب وہ ایک دوسرے کو ملیں گے تو سلام سلام ماشاءاللہ ماشاءاللہ ایک دوسرے خوش و خرم خوش آمدید کہیں گے ہنستے ہوئے سب سے ملیں گے کہیں لڑائی نہ ہو گی جھگڑا نہ ہو گا گالی گلوچ نہ ہو گی اور جہنمیوں کی خصوصیات سے ہے کہ جہنمی ایک دوسرے سے اس طرح لڑ رہے ہوں گے جس طرح کتنے کسی مردار گوشت پر لڑتے ہیں ایک کہے گا تو مجھے جہنم میں لے آیا وہ کہے گا تو میرا برا ساتھی تھا ایک کہہ رہا ہو گا تو مجھے سینما لے کر جاتا تھا اس نے کہا تو نے مجھے خمس نہیں نکالنے دیا اس نے کہا کہ تو نے مجھے برباد کر دیا ایسے ہی انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ لگے ہوئے ہوں گے ایک کہے گا تو مجھے فلاں کے پاس لے گیا تھا تو نے مجھے فلاں کے ایمان کے بارے میں کہا تھا ایسے لگے ہوں گے جل رہے ہیں سڑ رہے ہیں خدا ان کو بولنے کی قدرت دے گا آپ دعائے کمیل پڑھ کر دیکھیں جس میں ہے اے خدا اگر ہم جہنم میں پہنچ گئے تو مومن دل والے کہیں گے یااللہ تو ہم پر رحم فرما تو تو کریم رب ہے میں تجھ پر ایمان رکھتا ہوں تو مجھے جہنم سے نکال دے بہر حال وہاں لڑائی ہو گی جنت میں کیا ہو گا امن و سکون ہو گا پس جو جنتی ہیں وہ لڑتے نہیں اور یہیں سے پتہ چلتا ہے کہ جنتی کون ہے جہنمی کون ہے گھر میں بیوی اور شوہر ہوتے ہیں اگر قرآنی آیتوں پر عمل کریں تو سکون ہو گا عام دیکھا جاتا ہے کہ گھر میں سکون ہی نہیں ہے گھر برباد ہو گیا اس کی وجہ یہ ہوئی ہے پہلے تو ماں جا کر بیٹے کے لےے ایک لڑکی لے کر آتی ہے بیٹے کو پسند ہی نہیں کرنے دیتی ماں خود ہی جا کر پسند کر آتی ہے تھوڑے ہی دن گزرتے ہیں اب ماں دیکھتی ہے محبت تقسیم ہو گئی ہے تھوڑی سی محبت بیٹے کی بیوی کو بھی ملنے لگتی ہے تو ماں کو تکلیف ہوتا ہے لڑائی شروع ہو جاتی ہے اور گھر جہنم بن گیا حالانکہ شوہر اور بیوی کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے لیے سکون کا وسیلہ بنایا ہے گھر کو تو امن کی مثال ہونا چاہیے لیکن ایسا ہوتا جہنمی لوگ آپس میں لڑتے ہیں جنتی نہیں لڑتے۔

مومنین اگر آپس میں ناراض بھی ہو جائیں تودوسرے مومن کی ذمہ داری ہے کہ ان کے درمیان صلح کروائیں نماز کے ثواب کا تو پتہ ہے آپ کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے نماز مومن کی معراج ہے نماز خدا تک پہچانے کا وسیلہ ہے ہر نبی کی آخری وصیت نماز ہے آئمہ علیہ السلام کی شفاعت حاصل کرنے کا ذریعہ نماز ہے ایمان اور کفر کا امتیازی نشان نماز ہے دین کا ستون نماز ہے یہ قول تو سب قبول اسی طرح روزہ کی عبادت ہے روزہ آتش جہنم سے ڈھال ہے خدا کے تقرب کا وسیلہ ہے یہ دونوں کتنے بڑے عمل ہیں ان کی بزرگی انسان کے تصور میں ہے یہ دونوں سب سے زیادہ ثواب والے عمل ہیں اب ایک عمل ایسا بھی ہے جس کا ثواب نماز و روزہ کے عمل سے بھی زیادہ ہے امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں اپنی وصیت میں فرماتے ہیں فلاں شخص بڑا نمازی اور پرہیز گار ہے ہر جمعہ کو روزہ سے ہوتا ہے ہر سوموار کو بھی روزہ سے ہوتا ہے ساری رات کھڑے ہو کر عبادت کرتا ہے لیکن اس کا مومنین سے تعلق ہے نہ ہی اپنے بھائیوں سے تعلق ہے ہر مومن سے اس کی لڑائی ہے ہاں وہ بڑا نمازی ہے بڑا روزہ دار ہے لیکن مول علیہ السلام اپنی وصیت میں فرماتے ہیں کہ اگر وہ مومن آپس میں لڑ پڑیں تو باقی مومنین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان میں سے جا کر صلح کرا دیں کیونکہ مصالحت کا ثواب نماز سے بھی زیادہ ہے اور عام روزہ سے بھی زیادہ ہے روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دو مومنوں میں لڑائی ہو جائے تو مومنین کے درمیان ایک گروپ ایسا ہو نا چاہیے جو ہمیشہ اس تلاش میں رہیں کہ اگر دو مومنین میں لڑائی یا اختلاف ہو جائے تو وہ جا کر اپنی اختلاف کو ختم کریں اسی طرح تین دن سے زیادہ جائز نہیں ہے کہ ایک مومن دوسرے مومن کے ساتھ بات نہ کرے زیادہ سے زیادہ تو یہ جھگڑا تین دن سے زیادہ نہ ہو تو ہم سب کی رعیت کے ہر فرد سے محبت ہونی چاہیے حتیٰ کے غیر مسلموں سے بھی ہمدردی اسی حوالے سے ہونی چاہیے کہ ان کو ہدایت مل جائے کوشش کی جائے کہ وہ اسلام کو قبول کر لیں کیونکہ وہ بھی تو مول علیہ السلام کے دسترخوان سے کھا رہے ہیں ان سے ہمدردی ہو اسلام میں نفرت تو حیوان سے بھی نہیں ہونی چاہیے حیوان کو بھی جا کر دانہ ڈالو بعض اعمال میں ہے کہ اگر کوئی پریشان ہے اور اس کی حاجت پوری نہیں ہو رہی تو وہ تین ہزار ایک سو پچیس مرتبہ لفظ اللہ کو کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھ لے پھر ان تمام ٹکڑوں کو آٹے کی گولیاں بنا کر ہر ایک گولی میں کاغذ کا ایک ٹکڑا دے دے اور پھر آٹے کی گولیاں دریا میں ڈال دے جب دریا کی مخلوق اس آٹے کو کھائیں گے تو وہ دعا دیں گے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اسی وجہ سے اس کی روزی کا جو دروازہ بند ہے اس کو کھول دے گا لیکن دیکھیں اصل بات اس میں یہ ہے انسان کا خدا کی مخلوق سے محبت کرنا ہے خدا نے سارا نظام ہی محبت پر بنایا ہے پوری کائنات محبت کی بنیاد پر کھڑی ہے کائنات کی ہر شئے ایک دوسرے کے لیے کشش لیے کھڑے ہے اب سوال ہے کہ محبت کس سے ہوئی چاہیے ظاہر ہے عقلی فیصلہ ہے محبت اس سے ہونی چاہیے جو قطب دائرہ امکان ہے جو مرکز دائرہ امکان ہے جس کے گرد ہر شئے آ کر مجتمع ہوتی ہے اور وہ مرکز دائرہ محبت ہے حضرت حجت حق علیہ السلام امام زمانہ علیہ السلام ہم سب امام علیہ السلام کے نوکر ہیں ہم امام علیہ السلام زمانہ کے دسترخوان سے کھا رہے ہیں کوئی فرمانبردار نوکر ہے اور کوئی نافرمان نوکر ہے لیکن مول علیہ السلام کو اچھا کون لگے گا جو ان کی رعیت سے محبت کرنے گا جو نفر ت نہیں کرے گا خاص کر ان سے محبت کرے گا جو مول علیہ السلام کے فرمانبردار ہیں وہ مول علیہ السلام کو اچھا نہیں لگے گا جو مخلوق خدا سے امام زمانہ علیہ السلام کی رعیت سے نفرت کرے گا وہ مول علیہ السلام کے لیے اچھا نہیں لگے گا اس لیے بھٹکے ہوئے کی ہدایت کے لیے جاننا حکم ہے آپ کہتے ہیں کہ ایک مومن بھٹک رہا ہے تو دوسرے مومن کی ذمہ داری ہے کہ اس کو جا کر صحیح کرے اگر آپ احترام دیتے ہیں کسی کو تو اس سے مول علیہ السلام خوش ہوں گے کہ آپ نے فلاں کو احترام دیا ہے روایت میں آیا ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے معاملات میں توجہ نہ دیتا ہو وہ مسلمان نہیں ہے اسلام کا اس کے پاس جو شناخت نامہ ہے اس کی جو اسلامی شہرت ہے وہ ختم ہو جاتی ہے کیونکہ اسے ہر وقت اپنی فکر ہے مومن اسے کہتے ہیں جسے سب کی فکر ہو آپ کو فقط اپنی ہی فکر کیوں ہو مجھے فقط اپنی فکر نہیں ہونی چاہیے مجھے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ یہاں سے دور کسی افریقی ملک میں مول علیہ السلام کے ماننے والے کسی تنگی میں تو نہیں ہیں کسی فلاں ریاست میں پریشان تو نہیں ہےں میں سنتا ہوں کہ کسی پر ظلم ہو رہا ہے تو محبت کا تقاضا یہ ہے کہ مول علیہ السلام کے ایک غلام پر مول علیہ السلام کی رعیت پر مول علیہ السلام کے رعیت کے کسی غلام پر اگر ظلم اور زیادتی ہو رہی ہے میں اور کچھ نہیں کر سکتا تو ان میں اس ظلم سے نفرت تو کر سکتا ہوں اس دکھ کا اظہا تو کر سکتا ہوں کہ فلاں جگہ فلاں کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور یہ کام سب سے بڑی عبادت ہے امام علیہ السلام سے عشق اور محبت کا تقاضا یہی ہے پھر محبت کا ایک معیار ہے محبت لمبا ہوتا جا رہا ہے۔

ہمارے یہاں تو پورا دین ہی محبت کا ہے یہاں نفرت نام کی کوئی چیز نہیں نماز جماعت بھی محبت کا ایک مظہر ہے کیونکہ نماز جماعت کا بہت ثواب لکھا گیا ہے اگر نماز جماعت میں دس سے زیادہ آدمی ہو جائیں تو اس کا ثواب گنا بھی نہیں جا سکتا عزاداری بھی محبت ایجاد کرنے کا اور مرکز سے محبت اور اپنے آپ کو وصل کرنے کا ذریعہ ہے پھر اسی حوالے سے جو چیز مول علیہ السلام سے منسوب ہے ہمیں اس سے محبت ہونی چاہیے اگر ایک سید ہے جو ان سے منسوب ہے کیونکہ نسبت ادھر ہے اس لیے ہمیں اس سے محبت ہونی چاہیے ان کے نام کا ہم نے علم نکالا ہے ہمیں اس سے محبت ہونی چاہیے ان کی نام کی فرض کرو کسی جگہ تختی لگی ہوتی ہے ہمیں اس سے محبت ہونی چاہیے سب سے زیادہ محبت کس انسان سے ہونی چاہیے جو آپ کی امت کا قائل ہے جو اپنے آقا کو تسلیم کرتا ہے جو آپ کی آقائی کو تسلیم کرتا ہے اس سے محبت تو انتہا درجہی کی ہونی چاہیے اس کی تکلیف کو اپنی تکلیف کہیں اس کے بخار کو اپنا بخار کہیں اگر وہ بھوکا سوئے تو ساری رات اسے چین نہ آئے اس لیے حکم ہے اگر مومن کے پاس دو جوڑے کپڑے ہیں اور اس کے بھائی کے پاس ایک جوڑا کپڑا ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ دوسرا جوڑا اپنے بھائی تک پہنچائے ایک صحابی نے پوچھا مول علیہ السلام یہ واجب ہے یا ایثار ہے مول علیہ السلام نے فرمایا یہ ہے واجب ہے ایثار یہ ہے اپنا بھی اسے دے دے ایک جوڑا دینا اس پر کوئی احسان نہیں یہ واجب ہے اگر نہیں کرے گا تو خود ہی گناہگار ہو گا اس کے پاس ایک نوکر ہے اور گھر کا کام کرے مول علیہ السلام حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام پوچھتے ہیں کیا تم میں سے ایسا کوئی ہے جو اپنا ہاتھ دوسرے مومن کی جیب میں ڈالے اور اپنی ضرورت کے مطابق نکال لے اور تمہار وہ بھائی اس کو محسوس نہ کرے مول علیہ السلام نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے افراد سے پوچھا کہا آپ کے ہاں ایسا ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے مول علیہ السلام ایسا تو نہیں ہوتا مول علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر چیز بھی نہیں ہے جو مول علیہ السلام کے ماننے والے تھے(حبیب ابن مظاہر، میثم تمار، رشید حجری، کمیل اور قیصر، مالک اشتر، مسلم بن عوسجہ اور ابوذر غفاری اور سلیمان فارسی) ان میں ہر ایک اس منزل پر فائز تھا اس لیے ہمیں بھی ایسا بننا چاہیے ہر عمل اہم واجبات میں سے ہے کہ امام علیہ السلام کی رعیت سے محبت کی جائے تو اس لیے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں ہمارا شیعہ وہ ہے جو غیبت کبریٰ کے زمانے میں ایک دوسرے سے پیار کرے ہمارے دوست وہ ہیں جو دوسروں کو ہمارا دوست بنائیں اور پھر دوست کی تلاش میں رہیں اور خود بھی دوست بنے ایسا شخص امام زمانہ علیہ السلام کا کیوں دوست نہ بنے مجھے بتاو اگر آپ کو کسی سے پیار ہوتا ہے تو کس وجہ سے اس کی جمال کی وجہ سے اس کے حسن صورت کی و جہ سے اس کے مال کی و جہ سے کسی سے پیار ہے اس کی اچھی عادات کی وجہ سے کسی کو پیار کرنے کو دل کرتا ہے اس کی صفات کی وجہ سے تو مجھے بتاو یہ سب چیزیں یوسف زہرائ علیہ السلام میں نہیں ہیں کسی اور سے کوئی نسبت دی جا سکتی ہے تو پھر کسی اور سے عشق کیوں ہو یہاں فقط کسی سے عشق کیوں ہو فقط اس سے کیوں نہ ہو کیونکہ وہ مرکز محبت ہے روزی تو وہاں سے آئے جمال تو وہاں سے آئے اس کے سامنے دنیا کے تمام حسن ماند پڑ جاتے ہیں یوسف زہرائ علیہ السلام کے زمانے میں کسی اور سے محبت کیوں ہو کسی اور سے محبت ہو تو اس حوالے سے کہ اس کا تعلق امام زمانہ علیہ السلام سے ہے کیونکہ یار اور محبوب کی ہر شئے سے پیار ہوتا ہے اس کے لباس سے اس کے انداز سے اگر اس سے محبت ہے تو اس لیے کہ وہی حق ہے اور ہمیں حضرت حجت سے عشق ہے بقیة اللہ سے محبت ہے امام علیہ السلام سے محبت ہے کیونکہ وہ ہمارے محسن ہے وہ ہم تک رحمت خدا پہچانے کا وسیلہ ہے وہ کائنات کی بقاءہیں وہ مقصود کائنات ہیں وہ قطب کائنات ہیں وہ مظہر صفات ذات ہیں وہ خدا کا جلال و جمال ہیں وہ خلاصہ انبیاءہے وہ خاتم الاوصیاءہیں وہ محبوب انبیاءہیں محبوب اولیاءہیں وہ محبوب کبریاءہیں وہ محبوب حضورسرورکائنات ہیں تو ہمیں ان سے محبت کیوں نہیں ہونی چاہیے محبت کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ جس کو مول علیہ السلام سے پیار ہو ہمیں ان سے پیار ہونا چاہیے جو مول علیہ السلام سے منسوب ہیں ہمیں ان سے پیار ہونا چاہیے ہمارا معیار یہ ہونا چاہیے ہمارا معیار ذاتی نہیں ہونا چاہیے ہماری ذات کیا ہے کچھ بھی نہیں ہے اگر ہمیں یہ لمحہ زندگی کاملا ہوا ہے تو ان کے صدقے میں ملا ہوا ہے ہماری روزی حیات و برکت ان سے ہے اپنے مریم اور مہربان امام علیہ السلام جو فرماتے ہیں اے ہمارے شیعو! تم نے جو وعدہ کیا تھا ہمارے ساتھ اس کو نبھایا نہیں لیکن ہم تمہارے لیے دعا کرتے ہیں اگر تم نے وعدہ پورا کیا ہوتا تو تمہیں بہت برکتیں نصیب ہوتیں امام علیہ السلام صبح و شام آپ کے لیے دعا کرتے ہیں اگر ہم مول علیہ السلام کے ہو جائیں وگرنہ مول علیہ السلام تو ہماری ہر مصیبت پر فوراً تڑپ اُٹھتے ہیں ہمیں بھی ان کے شیعوں کی تکلیف سن کر تڑپنا چاہیے۔

۱۶

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱- امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ

از: رخسانہ بتول

غیبت کے لغوی معنی نظروں سے پوشیدہ ہونے کے ہیں اس لحاظ سے لفظ غیبت کوئی نیا لفظ نہیں ہے غائب خدا کی ذات سمیت اکثر اشیاءجو ہر انسان کے ساتھ ساتھ وابستہ ہیں غائب ہیں مثال کے طور پر خدا خود ہی غائب ہے جناب آدم علیہ السلام جناب ادریس علیہ السلام، جناب ابراہیم علیہ السلام، جناب موسیٰ علیہ السلام اور جناب عیسیٰ علیہ السلام خود اپنے پیغمبر محمد اپنے زمانہ نبوت میں کچھ عرصہ غیبت میں رہے تو یقینا ان کے وجود سے ان کے ماننے والوں کو فائدہ پہنچتا رہا اس کے علاوہ جنت بھی غائب ہے دوزخ بھی غائب ہے عقل غائب روح غائب ملائکہ غائب جنات غائب۔

غرض یہ کہ جس شخص کا غیب پر ایمان نہ ہو وہ مسلمان ہی نہیں جہاں تک ہمارے امام زمانہ علیہ السلام کے غیبت کا سوال ہے تو عرض یہ ہے کہ ہمارے امام علیہ السلام کی غیبت دو دور گزرے ہیں ۔

غیبت صغریٰ، غیبت کبریٰ

شعبان معظم کی ۵۱ مقدس تاریخ تھی کہ نور پھر آج محمد کا دوبارہ چمکا بارہویں برج امامت کا ستارہ چمکا آغوش نرجس علیہ السلام میں گل امامت قیامت کی خوشبو لے کر آی تابش انوار محمدی سے کون و مکاں جمگمگا اُٹھا نور ازل سے سرحد ابد سے جا ملا ڈوبتی دنیانے سکون کا سانس لیا قیام عالم کو قائم آل محمد آیا عدل آیا اورباطل گیا آخری بنٹی کا آخری جانشین وارثین کی تلاوت کرتا ہوا آیا خاتم المرسلین کا خاتم الوارثین جاءالحق زھق الباطل کی تفسیربن کر رسالت کی تصویر بن کر دین کی تقدیر بن کر رسالت کی تصویر بن کر اسلام کی توقیر بن کر آیا مشرکین و منافقین کے لیے مہلت کا پیغام لایا رحمت کا تقاضا تھا کہ ابھی ظالموں کو کچھ اور وقت دے کر انتظار لیا جائے ابھی یہ نور عمر کی پانچویں منزل ہی میں پہنچا تھا کہ اس نور کو بجھانے کی پھر کوششیں شروع ہوئیں۔

رشیق حاجت کا بیان ہے کہ ایک روز بعد شہادت امام حسن عسکری علیہ السلام معقدباللہ خلیفہ نے مجھے طلب کیا اور حکم دیا کہ دوسو سواروں کے ہمراہ ابھی جا کرخانہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا محاصرہ کرو اس میں جس بچے یا بڑے کو پاو فوراً قتل کر کے اس کا سر میرے پاس لے آو میں نے دو سو سواروں کو لے کر خانہ حسن عسکری علیہ السلام کا محاصرہ کیا اور داخل ہو کر کسی نہ پایاایک دروازے پر پردہ پڑا ہوا تھا میں اندر داخل ہوا تو ایک سراب تھا اور ایک طرف دریا نظر آیا جس پر چٹائی بچھائے ہوئے ایک بچہ مصروف عبادت تھا میرا ایک ساتھی پانی میں اترا تا کہ بچہ تک پہنچے مگر ڈوبنے لگا ہم نے بڑی مشکل سے اس کی جان بچائی دوسرا گیا تو اس کا بھی یہی حال ہوا میں نے کنارے پر کھڑے ہو کر معافی چاہی یہیں سے امام علیہ السلام کی غیبت صغریٰ کا زمانہ شروع ہوتا ہے جس میں نائبین امام علیہ السلام ہی زیارت سے مشرف ہوتے رہے آپ علیہ السلام عوام کی نظروں سے پوشیدہ ہو گئے صرف چار بزرگ جو علم و فضل زہد و تقویٰ میں بے مثل و بے نظیر تھے حضرت نے ان کو اپنا وکیل مقرر فرمایا تھا وہی لوگوں کے مسائل اپ علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتے تھے آپ علیہ السلام کسی کو زبانی اور کسی کو لکھ کر جوابات پہنچا دیتے تھے وہ بزرگ جن کو امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل تھا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں ۔

عثمان بن سعید، ابوجعفر محمد ابن عثمان، ابوالقاسم بن روح، ابوالحسن علی بن محمد سمری یہ وکلاءستر سال تک امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضری دیتے رہے۔

غیبت بارہویں امام علیہ السلام ہی کے ساتھ کیوں مخصوص ہوتی اور امام بارگاہ ہی کیوں ہوتے؟

نظام عالم کی بقا اور قیام کے لیے قدرت نے اسی بارے کے عدد ہی سے کام لیا نظام شمسی کے بقا اور قیام کے لیے گیارہ یا تیرہ نہیں بارہ برج قرار دیئے جن پر بقائے عالم کو موقوف رکھا نظام ارض کے لیے شب و روز خلق فرمائے جن کا مدار بارہ گھنٹوں پر رکھا سال کو بارہ مہینوں پر تقسیم کر کے زمانہ کی پیمائش سے روشناس کیا اور یہ عدد کس قدر قدرت کو پسند آیا کہ اپنے کلمے لا الہ الا اللہ میں بارہ ہی حرف رکھے حبیب کا نام آتا تو محمد الرسول اللہ کہہ کر بارہ ہی حرف کا مجموعہ بنا علی اعلی علیہ السلام نے جب علی علیہ السلام کو نوازا تو علی علیہ السلام خلیفة اللہ کہہ کر بارہ ہی حرف عطا کیے جب آدم علیہ السلام صفی اللہ کو وصی عطا ہوتے تو بارہ ہی وصی عطا کیے نوح نجی اللہ کو بارہ خلیفہ اور وصی عطا ہوئے ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ کو بھی بارہ ہی وصی دیئے موسیٰ کلیم اللہ کے بھی بارہ ہی وصی تھے عیسیٰ روح اللہ کو بھی بارہ ہی حوارتین عطا ہوئے پھر خاتم المرسلین علیہ السلام کو کیوں نہ بارہ وصی ملتے اس لیے کہ یہ ہے مختصر زمانہ کا بارہ ہی پر نظام بارہ ہی برج بارہ ہی گھنٹے ہیں صبح و شام ہے سال کا بھی بارہ مہینوں پہ اختتام اس پر یہ اعتراض ہے بارہ میں کیوں امام علیہ السلام۔

قدرت کو اپنے حبیب کی نبوت کو تاقیامت قائم اور باقی رکھنا تھا اس لیے ضروری تھا کہ آپ کا کوئی وصی قائم علیہ السلام آل محمد دنیا میں تا قیامت تک رہے تا کہ کوئی غلام دعویٰ نبوت نہ کر سے ختم نبوت سے یہ مطلب نہیں کہ نبوت ختم ہو گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ قیامت تک محمد کی نبوت اب ختم ہی نہیں ہو گی اور آپ کی نبوت سے قیامت تک کوئی زمانہ خالی ہی نہیں رہے گا اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا تھا جب اپ کا کوئی وصی دنیا میں موجود ہو چنانچہ حذیفہ کہتے ہیں کہ رسول خدا نے ہم سے فرمایا کہ دنیا ختم نہ ہو گی جب تک ایک شخص میرے فرزندوں سے جو میرا ہمنام ہو گا پیدا نہ ہو لے سلمان فارسیؓ نے کھڑے ہو کر سوال کیا یارسول اللہ آپ کے فرزندوں میں سے وہ کون ہو گا؟ امام حسین علیہ السلام اس وقت آغوش رسول اللہ مں تھے رسول اللہ نے اپنے نواسہ حسین علیہ السلام کے شانہ پر دست مبارک رکھ کر فرمایا میرے اس فرزند کی اولاد سے آپ ہی نے ارشاد فرمایا میرے وصی بارہ ہوں گے اول علی علیہ السلام اور آخر قائم علیہ السلام امام حسین علیہ السلام نے فرمایا نواں میری نسل میں سے وہ امام علیہ السلام ہے جو قائم علیہ السلام ہو گا جس کے ذریعہ دین حق تمام ادیان عالم پر غالب ہو گا اس کی طولانی غیبت کبریٰ کی وجہ سے لوگ گمراہ ہو جائیں گے جو ایمان پر بر قرار ہوں گے ان کو رکاب جہاد کرنے کا ثواب حاصل ہو گا کسی فرقہ نے آپ علیہ السلام کی ولادت سے انکار نہیں کیا اور کوئی قول کسی مورخ کا اور کسی فرقہ کے علماءکا ایسا نہیں جس میں آپ علیہ السلام کے انتقال کی خبر دی گئی ہو۔

لہذا جب تک کسی کا مرنا معلوم نہ ہو اس کو زندہ ماننا ضروری ہے اور امام علیہ السلام کا وجود اس لیے بھی ضروری ہے کہ وجود امام علیہ السلام پر ایمان نہ ہونے سے مسلمان مسلمان ہی نہیں رہتا اور اپنے امام علیہ السلام زمانہ کی معرفت کے بارے میں سیدالمرسلین صادق و آمین رسول کائنات کی معتبر حدیث ہے ”جو شخص مر جائے اور اپنے امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت نہ رکھتا ہو وہ کافروں کی موت مر جائے گا“

امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی جس نے اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کو نہ پہچانا وہ کفر کی موت مرا لہذا سنو میرے بعد میرا جانشین پیغمبر اسلام کا ہم نام ہے جس کی طولانی غیبت ہے ہمارے تو ایمان کی ابتداءہی غیبت سے ہے۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امام علیہ السلام کو جب ہم نے دیکھا ہی نہیں تو کیسے مان لیں ان سے کہہ دو۔

نہیں دیکھا ہم نے یہ عذر باطل امامت کا اقرارد کرنا پڑے گا اگر ضد یہی ہے کہ دیکھیں تو مانیں خدا بھی انکار کرنا پڑے گا۔

کبھی کہا جاتا ہے کہ ایک انسان کی اتنی طویل عمر کیسے ہو سکتی ہے اور اگر طویل عمر ہے بھی تو غائب کیوں ہیں حقیقت کو مخالفین بھی سمجھتے ہیں مگر بارہویں امام علیہ السلام کے وجود کو اس وقت اس لیے نہیں مانتے کہ کہیں کڑی کڑی مل کر بارہ کا سلسلہ مکمل نہ ہو جائے ان لوگوں سے اگر پوچھا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام، خضر علیہ السلام، الیاس علیہ السلام زندہ ہیں اور غائب ہیں تو فوراً جواب ملے گا کہ ہاں زندہ ہیں قرآن شاید ہے اور خدا قادر ہے جس کو چاہے اور جب تک چاہے زندہ رکھے مگر جب اس بارہویں ہادی علیہ السلام کا سوال آئے گا تو کہا جائے گا کہ اتنی عمر ایک انسان کی ہو ہی نہیں سکتی کبھی کہا جاتا ہے کہ اگر موجود ہیں اور غائب ہیں تو غائب ہدایت کیا کر سکتا ہے اور جب ہدایت نہیں تو موجود ہونے کا کیا فائدہ میں عرض کروں گی۔

بے فائدہ غیبت ہے غلط ہے گمان اللہ بھی پردہ میں ہے خود فیض رساں شیطان پہ ایمان ہے جو بہکاتا ہے مہدی علیہ السلام کی ہدایت پہ نہیں ہے ایمان شیطان اگر پردہ میں بیٹھا ہوا بہکا رہا ہے تو ہمارا ایک امام علیہ السلام بھی پردہ غیبت میں رہ کر راہ ہدایت دکھا رہا ہے خدا کا شکر ہے ہمارا امام علیہ السلام موجوود ہے قیامت ان کی ہے جن کا کوئی امام نہیں اب یہ سوال کے کب ظاہر ہوں گے تو ابھی کچھ انتظار ہے باقی حکم پروردگار ہے باقی کیسے آجائے آفتاب نظر جب فضا میں غبار ہے باقی ارشاد پروردگار عالم ہے:

مت سوال کرو ان چیزوں کا جن کا سوال نہیں کرنا چاہیے۔

۹۲۳ہجری سے حضرت کی غیبت کبریٰ کا آغاز ہوا اس کے بعد پھر کوئی آپ علیہ السلام کے پاس نہ جا سکا لہذا کوئی نہیں بتا سکتا کہ آپ علیہ السلام کہاں ہیں اور کب تک پردہ غیبت میں رہیں گے اور اس کا علم سوائے خداوندعالم کے کسی کو نہیں اور جہاں تک غیب کا سوال ہے تو اسلام کی بنیاد ہی غائب پر ایمان لانے سے شروع ہوتی ہے۔

۱۷

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۲- امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت

از: شرافت حسین شمسی

حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے بارے میں شیعہ عقیدہ پر آپ علیہ السلام کی طویل عمر کے امکان کو تسلیم کرنے کے بعد دوسرا اعتراض آپ علیہ السلام کی طویل غیبت کے بارے میں ہے کہا جاتا ہے کہ دنیا مین کافی حد تک ظلم و ستم فساد موجود ہونے کے باوجود حضرت امام مہدی علیہ السلام ظہور کیوں نہیں کرتے؟

آپ علیہ السلام انقلاب کے ذریعے دنیا کو عدل و انصاف کے راستہ پر کیوں نہیں لگاتے؟

آخر ہم کب تک بیٹھے ہوئے ظلم و ستم، خون ریز جنگوں اور مٹھی بھر خدا سے غافل ظالموں اور تباہ کاروں کے ظلم و ستم کا نظارہ کرتے رہیں ۔

آپ کی غیبت اس قدر طولانی کیوں ہو گئی ہے؟ آپ کوکس چیز کا انتظار ہے اور آخر اس طویل غیبت کا فلسفہ اور حکمت کیا ہے؟ لیکن اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ اگرچہ معمولاً غیبت کے مسئلہ میں یہ سوال شیعوں سے کیا جاتا ہے لیکن ذرا سا غور و فکر کرنے کے بعد ہم پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو جائے گی کہ اس مسئلہ میں دوسرے لوگ بھی برابر کے شریک ہیں یعنی وہ تمام حضرات جو ایک عالمی عظیم مصلح کے ظہور کے سلسلے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ایک دن وہ انقلاب برپا کر کے پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے یہی سوال ایک دوسری شکل میں ان سے بھی کیا جا سکتا ہے چاہے وہ شیعوں کے عقائد کو سرے سے نہ مانتے ہوں ان سے یہ سوال یوں کیا جا سکتا ہے کہ اس عظیم مصلح کی ولادت بھی ابھی تک کیوں نہیں ہوئی ہے؟ اور اگر پیدائش ہو چکی ہے توپھر انقلاب کیوں نہیں آتا اور پیاسی دنیا کو اپنے عدل و انصاف کے جام سے سیراب کیوں نہیں کرتا اس لیے اگر اس سوال کا رک فقط شیعوں کی جانب رکھا جائے تو یہ ایک بہت بڑی غلطی ہو گی۔

دوسرے لفظوں میں اس میں شک نہیں کہ طویل عمر کا مسئلہ اور زمانہ غیبت میں امام زمانہ علیہ السلام کے وجود کے فلسفہ کے بارے میں صرف شیعوں ہی سے سوال کیا جا سکتا ہے لیکن آپ علیہ السلام کے ظہور میں تاخیر کا فلسفہ ایک ایسا مطلب ہے جس کے بارے میں ان تمام لوگوں کو غور و فکر کرنا چاہے جو اس عالمی مصلح کے ظہور پر ایمان رکھتے ہیں کہ اس انقلاب کے لیے دنیا کی مکمل آمادگی کے باوجود آپ علیہ السلام کا ظہور کیوں نہیں ہو رہا ہے۔

بہر حال اس سوال کا ایک جواب مختصر ہے اور ایک مفصل مختصر جواب یہ ہے کہ ہم گیر اور عالمگیر انقلاب کے لیے صرف ایک لائق اور شائستہ رہبر کا وجود ہی کافی نہیں ہے بلکہ ضرورت ہے کہ عوام بھی آمادہ ہوں لیکن افسوس ہے کہ دنیا ابھی اس طرح کی حکومت برداشت کرنے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتی دنیا میں آمادگی پیدا ہوتے ہی امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور اور قیام یقینی ہے اور جہاں تک مفصل جواب کا تعلق ہے تو:

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس بات کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے قیام کے منصوبہ پر تمام پیغمبروں کے قیام کے منصوبہ کی طرح صرف طبعی اور عام اسباب و ذرائع کو کام میں لاتے ہوئے عمل ہو گا اور کسی صورت میں بھی یہ کام معجزے کے ذریعے انجام نہیں پائے گا معجزہ استشنائی چیز ہوتا ہے اور چند استشنائی مقامات کے سوا آسمان پیشواوں کے اصلاحی منصوبوں میں اس کا عمل دخل نظر نہیں آتی۔

یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے اپنے مقاصد کو ترقی دینے کے لیے ہمیشہ اپنے زمانے کے اسلحہ لائق افراد کی تربیت ضروری صلاح و مشاورت موثر منصوبوں جنگ کی صحیح حکمت عملی، تدبیروں اور مختصر یہ ہے کہ اس طرح کے مادی اور معنوی ذرائع سے کام لیا ہے وہ انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھوئے بیٹھے نہیں رہے کہ ہر روز ایک نیا معجزہ ہو اوردشمن چند قدم پسپا ہو جائے یا یہ کہ مومنین ہر روز معجزے کے سہارے ترقی کے میدان میں آگے بڑھیں۔

لہذا عالمی سطح پر حق و عدل کی حکومت کے منصوبے پر یہ بھی عمل کرنے کے لیے کچھ استشنائی مقامات کے علاوہ مادی اور معنوی وسائل و ذرائع سے کام لیا جائے گا۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اپنے ساتھ کوئی نیا دین نہیں لائیں گے بلکہ خداوندعالم کے انہی انقلابی منصوبوں پر عمل کریں گے جن پر ابھی تک عمل نہیں ہوا ہے آپ علیہ السلام کی ذمہ داریاں صرف تعلیم و تربیت نصیحت و سفارش لوگوں کو ڈرانا اور پیغام پہنچا دینا ہی نہیں ہے بلکہ آپ علیہ السلام کا یہ فریضہ ہے کہ ان تمام اُصول و قوانین کو نافذ کرائیں جو علم و ایمان کی حکومت کے سایہ میں ہر طرح کے ظلم و ستم اور ناحق امتیازات کا خاتمہ کر دیں گے اور یہ بات اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ ایسے منصوبہ کا نفاذ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کے سماج اس کو قبول کرنے کے لےے تیار نہ ہو۔

مذکورہ بالا بنیادی اُصول کی روشنی میں اس قول کی وضاحت ہو جاتی ہے جس میں ہم ظہور کی تاخیر کا سبب انسانی معاشرے کی عدم آمادگی کو قرار دے دیتے ہیں کیونکہ اس قسم کے ظہور اور انقلاب کے لیے کم از کم چند قسم کی آمادگیوں کی ضرورت ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ اس دنیا کی بے سرو سامانی ظلم و ستم کا مزا خوب اچھی طرح چکھ لیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ دنیا اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ انسانی ذہن کے بنائے ہوئے قانون دنیا میں عدل و انصاف بر قرارر رکھنے کی توانائی اور صلاحیت نہیں رکھتے ہیں ۔

ضرورت ہے کہ پوری دنیا یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لے کہ صرف مادی اُصول و قوانین موجودہ قوت ناقدہ اور انسانوں کے خود ساختہ ضوابط کے زیر سایہ دنیا کی مشکلات حل نہ ہو سکیں گے بلکہ دن بدن یہ مشکلیں بڑھتی جائیں گی نیز ان کی گتھی سمجھنے کے بجائے اور بھی الجھتی جائے گی۔

ضرورت ہے کہ پوری بشریت کو اس بات کا احساس ہو جائے کہ اس دنیا کی یہ مشکلات اور بحران موجودہ نظاموں کی پیدا وار ہیں اور آخر کار یہ نظام ان مشکلات کو حل کرنے سے عاجز ہو جائیں گے۔

ضرورت ہے کہ دنیا انسانیت یہ سمجھ لے کہ اس عظیم امام علیہ السلام کو پانے کے لیے کچھ ایسے نئے اُصول اور نظام کی ضرورت ہے جو انسانی اقدار ایمان اور اخلاق پر قائم ہوں کیونکہ بے جان ناقص خشک اور مادی اُصول سے کام نہیں چل سکتا۔

ضرورت ہے کہ پوری دنیا میں عوام کا سماجی شعور اس حد تک بیدار ہو جائے کہ وہ یہ بات سمجھ سکیں کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حتماً بشریت کو بھی ارتقاءحا صل ہو جائے گی اور انسان کو خوشحالی اور سعادت نصیب ہو جائے گی جب کہ یہ ٹیکنالوجی انسان اور معنوی اُصول و قوانین کے زیر سایہ ہو ورنہ یہی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی انسانیت کی تباہی اور بربادی کا سبب بن جائے گی اور ہم اپنی زندگی میں کئی مرتبہ اس بات کا مشاہدہ کر چکے ہیں ۔

ضرورت ہے کہ ساری دنای کے انسان یہ سمجھ لیں کہ اگر یہ صنعتیںبت کی شکل اختیار کر لیں تو موجودہ مشکلات میں اور بھی اضافہ کر دیں گی جنگوں میں تباہی اور بربادی کے دائرہ کو اور بھی زیادہ وسیع کر دیں گی بلکہ ان صنعتوں کو اوزار کے طور پر لائق انسانوں کے اختیار اور کنٹرول میں ہونا چاہےے۔

خلاصہ یہ کہ ضرورت ہے کہ پوری بشریت پیاسی ہو اور جب تک اس کو پیاس نہیں لگے گی یہ پانی کے چشموں کی تلاش میں نہیں نکلے گی دوسرے الفاظ میں جب تک لوگوں میں مانگ نہ ہو کسی قسم کے اصلاحی منصوبے کو پیش کرنا مفید نہ ہو گا اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشی مسائل سے زیادہ سماجی مسائل میں رسد اور طلب کے اُصول پر توجہ دی جائے لیکن یہاں یہ سوال اُبھرتا ہے اس کہ اس پیاس اور طلب کو کیونکر ایجاد کیا جا سکتا ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ کچھ تو وقت اس کو ایجاد کر دے گا کیونکہ اس کے لیے وقت اور زمانہ بہت ضرورت ہے لیکن اس سلسلہ کی کچھ چیزیں تعلیم و تربیت سے تعلق رکھتی ہیں معاشرے کے ذمہ دار مومن اور باخبر دانشمندوں کی طرف سے جو اوصیاءفکری شروع ہوتا ہے یہ عمل اس کے ساتھ انجا پانا چاہیے۔

ان دانشمندوں کا وظیفہ ہے کہ اپنے انسان ساز منصوبوں کے ذریعہ کم از کم دنیا کے عوام کو یہ بات سمجھائیں کہ ان کی اصل مشکلات موجودہ اُصول و قوانین اور اسلوب کے ذریعے حل نہیں ہو سکیں گے اور بہر حال اس وظیفہ کو انجام دینے کے لیے بھی وقت درکار ہے۔

ایک اور بڑی ضرورت ثقافتی اور صنعتی ارتقاءکی بھی ہے کہ پوری دنیا کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع کرنے ہر جگہ پر طاقت کے نشہ چور ظالموں اور ستمگروں کے زور کو ختم کرنے نیز ہر معاشرے میں اعلیٰ پیمانے پر تعلیم و تربیت کو رائج کرنے کے لیے اور اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھانے کے لیے کہ نسل زبان اور جغرافیائی حدود کا فرق اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ پوری دنیا کے عوام آپس میں مل جل کر بھائی بھائی کی طرح سے صلح و صفائی عدل و انصاف اُخوت و برابری کے ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتے۔

اس کے علاوہ ایسے صحیح اور مفید اقتصادی نظام کو فراہم کرنے کے لیے جو تمام انسانوں کے لیے کافی ہو ضروری ہے کہ ایک طرف انسانوں کی معلومات میں اضافہ ہو ان کی علمی سطح بلند ہو اور دوسری طرف صنعت کے میدان میں ترقی ہو ایسے وسائل ایجاد کیے جائیں گے جو پوری دنیا کو آپس میں ملا کر ان کے درمیان دائمی رابطہ بر قرار کر سکیں اور ظاہر ہے کہ اس کام کے لیے بھی کافی وقت کی ضرورت ہے اگر دنیا کے گوشہ گوشہ سے فوری طور پر رابطہ برقرار نہ ہو سکتا ہو تو پھر ایک حکومت پوری دنیا کے نظم و نسق کو کیسے سنبھال سکے گی۔

پوری دنیا کی حکومت ایسے وسائل کے سہارے چلانا کیسے ممکن ہے جن کے ذریعے دور دراز مقام پر ایک پیغام بھیجنے کے لیے کئی سال درکار ہوں۔

جو روایات امام زمانہ علیہ السلام کے انقلاب کے زمانہ میں دنیا کے لوگوں کی زندگی کی کیفیت بیان کرتی ہیں ان کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس زمانہ میں صنعت و ٹیکنالوجی، خاص طور سے حمل و نقل اور مواصلاتی آلات کے میدان میں اس حد تک ترقی کر چکی ہو گی کہ دنیا کے براعظم عملی طور پر چند نزدیک نزدیک شہروں کی صورت اختیار کر لیں گے مشرق و مغرب ایک گھر کی مانند ہو جائیں گے زمان و مکان کی شکل پورے طور پر حل ہو چکی ہو گی البتہ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض چیزیں اسی زمانہ میں صنعتی انقلاب کے ذریعے انجام پذیر ہوں لیکن پھر بھی اس زمانہ کی آمد آمد پر ایک طرح کی علمی آمادگی موجود ہونا چاہیے تا کہ اس صنعتی انقلاب کے لےے زمین ہموار ہو۔

آخر میں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اس انقلاب کے لیے دنیا میں ایک ایسے گروہ کی تربیت کی جائے جو اس عظیم مصلح کی انقلابی فوج کے اصلی حصہ کو تشکیل دے سکے چاہے وہ اقلیت ہی میں کیوں نہ ہو۔

اس دیکھتے ہوئے جہنم کے درمیان کچھ پھول بھی کھلنا چاہیں تا کہ وہ گلستان کا پیش خیمہ بن سکیں اس شور زار زمین میں کچھ پودے بھی لگنا چاہیں تا کہ وہ دوسروں کو بہار کی آمد کی نوید دے سکیں۔

اس مہم کے لیے بہت ہی زیادہ شجاع فداکار با خبر ہوشیار دلسوز اورجانباز افراد کو تربیت دینے کی ضرورت ہے چاہیے اس کام میں کئی نسلیں گزر جائیں تاکہ اصلی خزانے آشکار ہو جائیں اور انقلاب کے اصلی عناصر فراہم ہو جائیں اس کام کے لےے بھی اچھا خاصا وقت درکار ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس قسم کے افراد کی تربیت کون کرے؟

اس سلسلہ میں اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ اسی عظیم رہبر کی ذمہ داری ہے کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ اس منصوبے کو شروع کرے۔

اسلامی روایات میں امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے طویل ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ مقصد یہ ہے کہ لوگوں کا امتحان ہو جائے اور ان میں جو سب سے بہتر اس کا انتخاب کر لیا جائے ممکن ہے کہ یہ احادیث انہی مطالب کی طرف اشارہ کر رہی ہوں جن کو ابھی عرض کر چکا ہوں۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ خداوندعالم انسانوں سے جو امتحان لیتا ہے وہ اس دنیاوی امتحان کی طرح لوگوں کی استعداد سے مطلع ہونے کے لےے نہیں ہے بلکہ اس امتحان کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں میں جو استعداد موجود ہے ان کو پروان چڑھایا جائے تا کہ صلاحتیں اُبھر کر سامنے آ جائیں نیز یہ کہ صالح اور نا صالح افراد کی صنعوں میں امتیاز ہو جائے۔

دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ان امتحانات کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں میں آمادگی پیدا کی جائے اور موجودہ آمادگیوں کو ترقی دی جائے پروان چڑھایا جائے کیونکہ خداوندعالم سے با خبر ہو نے کے سبب اس بات کا محتاج نہیں ہے کہ امتحان کے ذریعے لوگوں کے بارے میں معلوم حاصل کرے۔

چنانچہ مجموعی طور پر اس مختصر سے مضمون کے ذریعے امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت کسی حد تک واضح ہو سکی ہے۔

۱۸

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۳- حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت

از: حماد رضا شاہ

تعارف امام زمانہ علیہ السلام:

بارہ آئمہ معصومین علیہ السلام پر عقیدہ رکھنا ہمارے مذہب تشیع کا اُصول ہے۔

ہمارے آئمہ میں سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام ہیں اور یہی سلسلہ امامت، ہمارے آخری امام زمانہ علیہ السلام حضرت محمد مہدی علیہ السلام پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

آپ کی ولادت با سعادت ۵۵۲ہجری میں ہوئی آپ سامرہ میں پیداہوئے آپ کے والد گرامی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ہیں جو سلسلہ امامت کی گیارہویں کڑی ہیں آپ کی والدہ کا نام نرجس خاتون علیہ السلام ہے۔

بمطابق عقیدہ اہل تشیع آخری امام علیہ السلام کی ولادت ہو چکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو طولانی عمر سے نوازا اور حکمت خداوندی کے تحت امام مہدی علیہ السلام غیبت میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں ۔

احادیث میں صفات کریمہ کے اعتبار سے امام مہدی علیہ السلام کے متعدد اسمائے گرامی منقول ہیں مثلاً مہدی علیہ السلام، حجت علیہ السلام، منتظر علیہ السلام، خلف صالح علیہ السلام، صاحب الامر علیہ السلام۔

ادوار غیبت:

امام مہدی علیہ السلام کی غیبت دو ادوار پر مشتمل ہے۔

غیبت صغریٰ غیبت کبریٰ

غیبت صغریٰ:

غیبت صغریٰ کا دور ۵۵۲ہجری آپ کی ولادت سے شروع ہوتا ہے اور یہ دور ۹۲۳ ہجری تک جاری رہتا ہے۔

غیبت کبریٰ:

اس دور کی ابتداء۹۲۳ہجری میں ہوئی اور یہ دور امام علیہ السلام کے اعلان ظہور پر اختتام پذیر ہو گا۔

غیبت اسلام کے مفادات کے عین مطابق:

غیبت امام علیہ السلام بے مقصد نہیں بلکہ یہ حالات کا تقاضا ہے یہ وقت کی ضرورت ہے اور امام مہدی علیہ السلام بھی ایک مخصوص ہدف کے تحت غیبت میں اپنی حیات مبارکہ رہے ہیں غیبت امام علیہ السلام کے مفادات اور حالات کے تقاضوں کے عین مطابق واقع ہوئی اور امام علیہ السلام کی شخصیت ایک بے مثل و بے نظیر رہنماکی حیثیت سے اپنی تیز بین فکر و نظر کے ساتھ امت محمدیہ اور اپنے حامیوں پر نظر رکھتے ہیں فکری و علمی میدانوں میں امام علیہ السلام کا اپنے حامیوں سے رابطہ بر قرار رہتا ہے۔

خداوند متعال حقیقی رازدان:

بعض اوقات انسان کے ذہن میں یہ سوال بھی اُبھرتا ہے کہ آخر غیبت کی اصل اور حقیقی راز یا حکمت کیا ہے؟

اس کے جواب میں دو باتیں ممکن ہیں ۔

آپ علیہ السلام کی غیبت کی وجہ اس وقت واضح ہو گی جب آپ ظہور فرمائیں گے مثلاً جس طرح حضرت خضر علیہ السلام کے اعمال کی حکمت وقتی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بالکل معلوم نہ ہوئی مگر جب آپ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے جداہونے لگے تو تمام حکمتین جناب خضر علیہ السلام نے بیان فرما دیں۔

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

ولله غیب السموات والارض ۔(سورہ ہود ۳۲۱)

اور سارے آسمان و زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم خاص خدا ہی کو ہے۔

پس حقیقی مقصد غیبت خدا کو معلوم ہے۔

مصلحت خداوندی:

حکیم کا فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔

یہ الگ بات ہے کہ عوام اس حکیم کی حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہوں اسی طرح امام علیہ السلام کو غیبت اسی مصلحت و حکمت خداوندی کی بناءپر عمل میں آئی جیسے طواف کعبہ، رمی جمرہ وغیرہ جن کی مصلحت خدا ہی معلوم ہے ہماری محدود فکر و نظر کے مطابق اگر اس زمانے میں بھی ظہور فرمائیں تو یہ منفعت بخش اور بہتر ہے مگر خدا نے اس مقدس وجود کو لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ رکھا ہے اور کے کام بڑے استحکام کے ساتھ مصلحتوں کے مطابق اور قطعی اور واقعی حکمتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انجام پاتے ہیں لہذا صاحب الامر علیہ السلام کی غیبت کی بھی کوئی نہ کوئی علت و حکمت ہو گی اگرچہ اس تفصیل ہمیں معلوم نہیں ۔

مختلف اور متضاد نظریات کا جائزہ اور حقیقت:

جب بعض لوگ مختلف اور متضاد واقعات و نظریات کو پڑھتے ہیں تو شک میں پڑھ جاتے ہیں مثلاً آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ ظلم و جور روز افزوں ہے امن کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی ہر طرف ظلم کا پہرہ معلوم ہوتا ہے اور امام علیہ السلام اس کے باوجود غیبت میں ہیں حالانکہ امام علیہ السلام کے فرائض میں سر فہرست ظلم و ستم کا خاتمہ ہے لہذا امام مہدی علیہ السلام کو لوگوں کی نظروں سے غائب نہیں ہونا چاہیے اور پردہ غیبت سے نکل کر امن و سکون کا تمام دنیا میں نفاذ کرنا چاہیے اس طرح ظلم کا خاتمہ ہو جاتا اور فرض امام علیہ السلام ادا ہو جاتا ہے۔

مندرجہ بالا استدلال کا مطلب ہے کہ

اگر ظلم و جور ہے تو دو ہی باتیں ممکن ہیں ۔

یا تو امام علیہ السلام کا وجود (نعوذ باللہ) ہی نہیں بلکہ صرف نظریہ ہے۔

یا پھر امام علیہ السلام واقعی موجود ہیں زندہ اور غائب ہیں اور مظلومین پر ظلم و جور دیکھ رہے ہیں تو یقینا فرض پورا نہیں کر رہے۔

اسی قسم کے نظریات انسان کو گمراہی کے قریب لے جاتے ہیں مگر اگر فکر و نظر کو تھوڑی سی وسعت دی جائے تو حقیقت کا ادراک بھی ممکن ہے یعنی مندرجہ بالا استدلال کو تھوڑا سا مزید آگے بڑھایا جائے۔

غلط استدلال کا ثبوت:

استدلال کو غلط ثابت کرنے کے لیے ثبوت کی ضرورت ہے لہذا اس سلسلے میں دو واضح باتیں (ثبوت) مندرجہ ذیل ہیں ۔

امام علیہ السلام کی غیبت چونکہ معشیت ایزدی کے تحت ہوئی لہذا جب خداوندمتعال چاہے گا اسی وقت ظہور امام علیہ السلام ہو گا چاہے لوگا جتنا فریاد کریں کیونکہ امام علیہ السلام عوام کی خواہشات کے تحت نہیں کہ جب بھی لوگ ظلم سے تنگ آ کر امام علیہ السلام کو پکاریں اور امام علیہ السلام حاضر (نعوذ باللہ) ہو جائیں۔

ظلم و جور اور امام علیہ السلام دونوں اکٹھے نہیں ہو سکتے لہذا اگر امام علیہ السلام ہوتے تو ظلم نہ ہوتا۔

اس استدلال کے غلط ہونے کا ثبوت مندرجہ ذیل بھی ہے۔

کیا یہ استدلال خدا کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔

یعنی اگر خدا ہوتا تو ظلم و جور نہ ہوتا پس خدا کا وجود ہی (نعوذ باللہ) نہیں پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ غیبت بے معانی نہیں بلکہ با مقصد ہے اور غیبت حقیقت میں مشیت ایزدی ہے یہ خدا کی مرضی چاہے ایک دن غائب رکھے چاہے تو صدیوں بلکہ نامعلوم تک غائب رکھے اس کی مشیت پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔

گزشتہ حکمتیں اور غیبت امام علیہ السلام:

امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کوئی نئی بات نہیں کیونکہ غیبت امام علیہ السلام پہلے کئی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کا ایک عام شخص کو نقصان نظر آ رہا ہوتا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے مثلاً عبداللہ بن فضل نے روایت کی ہے کہ اس نے کہا میں نے جعفر بن محمد امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا ہے کہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں ۔

صاحب الامر علیہ السلام کے لیے غیبت ہے جو ضرور ہونی ہے ہر باطل پرست اس میں شک کرے گا۔

پس میں نے عرض کیا یہ غیبت حضرت علیہ السلام کے لیے کیوں قرار دی گئی؟

ایسے امر کی خاطرمیں جس کو کھولنے کی ہمیں اجازت نہیں دی گئی یعنی ہم تم کو نہیں بتا سکتے۔

میں نے عرض کیا امام علیہ السلام کی غیبت میں کیا حکمت ہے؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہی حکمت ہے جو گزشتہ حج خدا کی غیبتوں میں ہوتا رہا ہے اس میں حکمت کی وجہ ہے وہ ظاہر نہ ہو گی مگر آپ علیہ السلام کے ظہور کے بعد جس طرح جو شخص خضر علیہ السلام کے پاس آیا تھا اس کے لیے کشتی میں سوراخ کرنے لڑکے کو قتل کرنے اور بغیر اجرت کو دیوار بنانے کی حکمت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جب تک ظاہر نہ ہوئی دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے اے ابن فضل یہ اللہ کے امر میں سے ایک امر ہے اس کے رازوں میں سے ایک راز اور اس کے غیب میں سے ایک غیب ہے اور جب ہمیں علم ہے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے ہم تصدیق کرتے ہیں کہ اس کے افعال کی ایک حکمت ہے اگرچہ اس کی وجہ ہمارے لیے ظاہر و منکشف نہ ہو۔

(بحارالانوار ج۲۵ ص۱۹)

غیبت کبریٰ سے پہلے غیبت صغریٰ کیوں؟

الناس ا عرآءما جهلوا ۔

جس چیز کو لوگ نہیں جانتے اس کے دشمن ہوتے ہیں ۔(نہج البلاغہ ص۷۸۷)

عوام الناس کے امام علیہ السلام اور رہبر کا نظروں سے اوجھل ہو جانا اور وہ بھی طویل مدت کے لیے ایک ایسا معاملہ ہے جو نہایت عجیب و غریب اور غیرمانوس لگتا ہے اور اس پر لوگوں کا یقین کامل بھی مشکل تھا پس سب سے بڑی وجہ ہی تھی جس کے لیے غیبت کبریٰ امام مہدی علیہ السلام وفات امام حسن عسکری علیہ السلام کے فوراً بعد شروع نہ ہوئی اگر غیبت شہادت امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد فوراً وقوع پذیر ہوتی تو ممکن تھا کہ امام علیہ السلام زمانہ کا وجود مقدس فراموش کر دیا جاتا فرمان امیرالمومنین علیہ السلام حضرت علی علیہ السلام کے مطابق لوگ چونکہ غیبت پہلے نہیں دیکھ چکے ہوتے اور انہیں غیبت کے بارے میں علم بھی چونکہ کچھ زیادہ نہ تھا لہذا جو بھی غیبت کا نام لیتا جھٹلا دیا جاتا کیونکہ اس کے بارے میں کم علمی کیوجہ سے غیبت کی مخالفت کرتے ہیں اس مسئلے کے پیش نظر غیبت کبریٰ سے پہلے غیبت صغریٰ واقع ہوئی تا کہ شیعان بذریعہ نائبین امام علیہ السلام سے تعلق بر قرار رکھ سکیں اور امام علیہ السلام کی علامات اور کرامتوں کا مشاہدہ کر لیں تا کہ یقین کامل حاصل ہو جائے۔

امتحان و آزمائش مومنین:

وہ لوگ یا گروہ جو ایمان محکم نہیں رکھتے ان کا باطل کھل کر سامنے آجاتا ہے اور وہ جن کے دلوں کی گہرائی میں ایمان نے جڑ نہ پکڑ رکھی ہے عہد کشائش کے انتظار، مصیبتوں پر صبر اور ایمان بالغیب کی وجہ سے ان کی قدر و قیمت معلوم ہوجاتی ہے اور وہ حصول ثواب کے درجات پر فائز ہو جاتے ہیں حضرت علی علیہ السلام روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا آخر زمانہ میں فتنے برپا ہوں گے ان فتنوں سے لوگ اس طرح چھنٹ جائیں گے جس طرح سونا کان سے چھانتا جاتا ہے۔ (مجمع الزاوئد، ج۷ ص۷۱۳، المتدرک ج۴ ص۶۵۵)

(یعنی فتنوں کی کثرت و شدت کی وجہ سے مومن ہی ایمان پر ثابت قدم رہیں گے)

ایک اور مقام پر موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام نے فرمایا:

جس وقت امام ہفتم کی پانچویں نسل کا فرزند غائب ہو تو اپنے دین کی حفاظت کرنا کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دین سے خارج کر دے اے فرزند صاحب الامر علیہ السلام کی غیبت مجبوراً ہو گی اس سے کہ مومنین کا ایک گروہ اپنے عقیدے سے منحرف ہو جائے گا اور خدا غیبت کے ذریعے مومنین کا امتحان لیتا ہے۔(بحارالانوار ج۲۵ص۳۱۱)

ظالم حکمرانوں کی بیعت اور ظلم سے محفوط:

حسن ابن فضال کہتے ہیں علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام نے فرمایا:

”گویا میں اپنے شیعوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ تیری نسل کے فرزند یعنی حسن عسکری علیہ السلام کی وفات کے بعد اپنے امام علیہ السلام کی تلاش میں جگہ جگہ مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن اس کو پا نہیں رہے میں نے عرض کیا اے فرزند رسول کیوں؟ فرمانے لگے اس وجہ سے کہ ان کا امام علیہ السلام غائب ہو جائے گا میں نے عرض کیا کیوں غائب ہو جائیں گے؟ فرمانے لگے“ اس لیے کہ ایک وقت شمشیر بکف ہو کر قیام کرے گا اور کسی کی بیعت اس کی گردن پر نہیں ہو گی۔(بحارالانوار ج۱۵ ص۲۵۱)

مندرجہ بالا روایت میں ایک وجہ غیبت بیان ہوئی ہے کہ جب بھی حضرت حجت علیہ السلام ظہور فرمائیں تو کسی بھی حکمران یا بادشاہ کی بیعت ان کے لیے نہ ہو اور وہ ظلم و ستم کا نشانہ بننے سے محفوظ رہیں ۔

حیات امام علیہ السلام کی محافظت:

ایک مقصد غیبت امام زمانہ علیہ السلام جو احادیث نبویہ اور روایات آئمہ علیہ السلام سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کی زندگی خطرے میں تھی کیوکہ بنی عباس اور دیگر حکمران جنہوں نے صدیوں تک امت مسلمہ پر حکومت کی یہ لوگ ہر دور میں ہر وقت امام مہدی علیہ السلام کے در پے آزاد ہوتے خصوصاً ایسی صورت میں جب احادیث نبویہ سے انہیں یقین تھا کہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ان کی حکومتوں کے لیے جب زوال ہو گا ان کے تخت الٹ جائیں گے اور ان کی من مانیاں کافور ہو جائیں گی۔

اگر مسلم احادیث کی بیان کردہ نظریہ کی روشنی میں آئمہ اہل بیت علیہ السلام کی تاریخ حضرت امام علی علیہ السلام سے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام تک دیکھی تو یہ معلو م ہو گا کہ کوئی امام بھی اپنی طبعی موت کی وجہ سے دنیا سے رخصت نہیں ہوا بلکہ امام علیہ السلام کو تلورا یا زہر سے شہید کر دیا گیا جب کہ ان آئمہ معصومین علیہ السلام کے قاتل جانتے تھے کہ قیام عدل و انصاف کی جو بشارت حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حق میںآئی وہ کسی امام علیہ السلام کے لیے نہیں بتائی گئیں یہ بھی معلوم تھا کہ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کائنات عالم پر ہو گی گو اپنے مقام پر آئمہ علیہ السلام کو تو علم تھا کہ ہم امام مہدی علیہ السلام نہیں لیکن ان حکمرانوں کو کیسے یقین آتا کہ یہ امام مہدی علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ ممکن ہے امام حسین علیہ السلام کے قتل میں بھی یہ راز ہو کہ جب مہدی علیہ السلام اولاد حسین علیہ السلام سے ہو گا تو پھر اس کو ختم کر دیا جائے تا کہ نہ یہ رہے (نعوذ باللہ) اور نہ امام مہدی علیہ السلام آئے پھر ہمیشہ اسی فکر نے ہر حکمران کو ہر امام علیہ السلام کا دشمن بنائے رکھا اور انہیں شہید کرتے رہے پس اسی وجہ سے امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کو پوشیدہ رکھا گیا اور خداتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو لوگوں کی نظروں سے غائب کر دیا تا کہ فراعنہ وقت اس کا سراغ پہ ہی نہ سکے اور انہیں شہید نہ کر سکے۔

یہ طے شدہ ہے کہ:

من خاف علی نفسہ احستاج الی استتار۔

جسے اپنے نفس اور جان کا خوف ہو وہ پوشیدہ ہونے کو لازمی جانتا ہے۔(المرتضیٰ)

اگر امام زمانہ علیہ السلام ہوتے تو ان کے لیے کیا خطرہ تھا؟

بعض لوگ وجود امام علیہ السلام کے قائل تو ہیں لیکن غیبت نے ان ضعیف عقائد بیچاروں کو پریشان کر رکھا ہے۔

کتاب امام المہدی علیہ السلام (ولادت سے ظہور تک) متصنف السید محمد کاظم القزوینی ص ۴۶۱ تحریر فرماتے ہیں کہ:

نجف اشراف میں ایک بے نام قصیدہ آیا شاعر نے اپنا نام اور مقام نہیں لکھا اس قصیدہ میں بعض شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور بعض منابعے دیئے گئے ہیں ۔

ان میں سے غیبت کے متعلق شاعر تحریر کرتا ہے کہ ص ۷۶۱ نمبر۹۱

وان قیل من خوف الا ذاة تراختفیٰ نزلک قول من مصائب یفتعر

ترجمہ: اگر یہ کہا جائے کہ امام مہدی علیہ السلام خوف تکالیف میں چھپے بیٹھے ہیں تو یہ ناقابل قبول اور ناقص نظریہ ہو گا۔

شاعر کے شعر کا مطلب ہے کہ امام علیہ السلام کا ظہور فرما کر تکالیف برداشت کرنی چاہیے غیبت نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ بزدلی کی علامت ہے اور امام علیہ السلام بزدل نہیں ہوسکتا لہذا بہترین راستہ ظہور ہے۔

مندرجہ بالا نظریہ قبول کرنے سے عقل قاصر نہیں کیونکہ جب سرور کونین کو یقین تھا کہ میرا دین تمام مذاہب کا ناسخ ہے پھر کیا وجہ تھی کہ شب ہجرت غاز میں چھپے؟

کن وجوہات کی بناءپر آپ مدینہ سے آئے تھے اور معروف راستہ چھوڑ کر غیر موزوں راستہ اختیار کیا حالانکہ آپ بر حق پیغمبر خدا تھا۔

سورہ قصص آیت نمبر ۸۱ حضرت موسیٰ علیہ السلام مدائن میں ڈرتے ہوئے کیوں داخل ہوئے کیا آپ علیہ السلام انبیاءمیں سے نہ تھے۔

قصص آیت ۱۲ مصر سے ڈر کر کیوں نکلے کیا (نعوذ باللہ) بزدل تھے۔

کیا فقران شجاعت کے باعث تین سال اور کئی ماہ شعب ابو طالب علیہ السلام میں محصور ہو کر گزارے۔

اور بعد از بعثت زمانہ فرت میں چھپ کر تبلیغ کرتے کیا آپ علیہ السلام کو خدا پر بھروسہ نہ تھا۔

کیا خدا صحابہ کرامؓ اور نبی کی حفاظت کرنے پر قادر نہ تھا کہ ارقم کے گھر میں چھپ کر عبادت خدا کرتے تھے۔

پس شاعر کا عقیدہ درست نہیں اور مصلحت خداوندی ہے کہ امام علیہ السلام وقت نا معلوم تک غیبت میں رہیں ۔

کذاب مدعی نبوت، حقیقی امام علیہ السلام کی حفاطت:

کتاب الامام المہدی علیہ السلام میں شاعر کا ایک شہر ہے کہ جس کا مفہوم ہے کہ اگر ایک چھوٹے مدعی نبوت کو کوئی کچھ نہیں کہتا توپھر سچے حقیقی امام علیہ السلام کو کوئی کیا کہہ سکتا لہذا امام علیہ السلام کی زندگی کو کوئی خطرہ لا حق اور غیبت بے معنی ہے۔

جواب:

ظاہراً استدلال کافی مضبوط ہے لیکن حقیقتاً یہ اعتراض و استدلال سو فیصد غلط ثابت ہوا ہے کیونکہ

صرف ایک مدعی نبوت (غلام احمد قادیانی) کی مثال دی گئی ہے۔

اور مثال بھی ایسے ملک کی دی گئی ہے جہاں بیسواں (کئی) مذاہب کے معتقد بستے ہیں ۔

اگر کسی اور مدعی نبوت اور اسلامی ملک مثلاً ایران کی طرف نگاہ ڈالی جائے تو وہاں محمد علی نے بھی یہ دعویٰ کیا پہلے دعویٰ کیا کہ میں مہدی علیہ السلام تک پہنچنے کا دروازہ ہوں کچھ پختگی آگئی تو کہہ دیا کہ میں ہی مہدی علیہ السلام ہوں۔

لیکن ایران بھارت نہ تھا۔

محمد علی کو ایسی جگہ ڈال دیا گیا جہاں کتوں نے اسے بھبھوڑ ڈالا۔

لہذا شاعر کا استدلال کا ظاہر ہو گیا جھوٹے دعویٰ کرنے والے محفوظ رہ جاتے ہیں تو حقیقی مہدی علیہ السلام محفوظ کیوں نہیں رہ سکتا؟

حق و باطل میں فرق: (بحارالانوار ج۵ص۹۱۲،۲۲۲)

طوالت کے خوف سے روایت مختصر نقل کی گئی۔

سریر الصیرفی کہتا ہے میں مفضل بن ابوبصیر اور بان بن تغلب اکٹھے مولا عبداللہ جعفر علیہ السلام بن محمد کے پاس داخل ہوئے آپ فرما رہے تھے امام مہدیع کی آمد میں تاخیر حضرت نوح علیہ السلام سے اس طرح مشابہ ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام نے قوم پر عذاب کی خواہش کی تو جبرائیل علیہ السلام اللہ کی طرف سے گھٹیاں لے کر آئے اور کہا:

اللہ کے نبی! اللہ کا پیغام آپ کے لیے یہ ہے کہ یہ لوگ میری مخلوق ہیں میں انہیں آسمانی بجلی سے ختم نہیں کرنا چاہتا مگر یہ کہ اتمام حجت ہو جائے پس تم دوبارہ کوشش کرو اور ان گھٹلیوں کو زمین میں بودو جب یہ پھل دینے لگیں تو اس وقت فرج ہو گی۔

جب درخت پھل دینے لگے تونوح علیہ السلام نے پھر وعدہ یاد دلایا تو خدا نے کہا انہیں دوبارہ بودو جب یہ پھل دینے لگے تو تمہیں فتح نصیب ہو گی صبر سے کام لو اور محنت جاری رکھو۔

پس حضرت نوح علیہ السلام نے انہیں پیغام پہچایا جو ایمان لا چکے تھے ان میں سے تین مرتد ہو گئے اور کہنے لگے:

اگر نوح علیہ السلام کا وعدہ سچا ہوتا اور اس کی بات خدا کی طرف سے ہوتی تو خدا اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔

پس باقی ایمان لانے والے سے زائد رہ گئے اس وقت جی کی۔

اے نوح علیہ السلام! تیری رات گزر گئی اور صبح.... طلوع ہو گئی اور جب خالص حق آ گیا اور گدلا سے صاف جدا ہو گیا کیونکہ جتنے افراد کی طینت میں کھوٹ تھا یا ملاوٹ تھی وہ سب مرتد ہوئے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اسی طرح حضرت قائم علیہ السلام کی غیبت کے ایام طولانی ہوں گے تاکہ خالص حق رہ جائے اور ایمان گدے پن سے صاف ہو جائے تمام کھرے سکے رہ جائیں تمام کھوٹے یا خراب چلے جائیں۔

ایک اور جگہ فرماتے ہیں ۔

امام مہدی علیہ السلام کو اس لیے غائب کیا جائے گا تا کہ خداوندعالم اپنی ساری مخلوقات کا امتحان کر کے یہ جانچے کہ نیک بندے کون ہیں اورباطل پرست کون لوگ ہیں ۔ (اکمال الدین)

غلبہ دین اور وعدہ الہیٰ:

مومنین کی حکومت اور پورا عالم دین اسلام کا غلبہ قرآن میں کئی جگہ ذکر ہوا ہے۔

مثلاً سورہ روم آیت نمبر ۱ تا ۵

سورہ قصص آیت نمبر ۵ تا ۶

سورہ انبیاءآیت نمبر ۵۰۱

سورہ قصص کی آیت نمبر ۵ اور ۶ کے بارے میں بحارالانوار علامہ مجلسی ج۱۵ ص۳۶ حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے۔

قرآن کریم نے جن مجبور و بے بس لوگوں کی حکومت کا وعدہ کیا ہے اس سے مراد اہل بیت علیہ السلام ہیں ۔

زمین حجت خدا کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی:

یہ مسلمات اسلامی سے ہے کہ زمین حجت خدا (امام زمانہ علیہ السلام) سے خالی نہیں رہ سکتی۔(اُصول کافی ۳، اطبع نولکشور)

چونکہ امام علیہ السلام کے علاوہ کوئی حجت خدا نہیں ہے اور دشمن وقت ولادت اور خاص طور پر وفات پر امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد امام مہدی علیہ السلام کو قتل کرنے پر تلا ہوا تھا لہذا انہیں محفوظ دستور کر دیا گیا اور اس کے علاوہ اس لےے بھی حجت خدا کا ہونا ضروری ہے کہ بمطابق احادیث بارش برستی ہے تو اور روزی تقسیم کی جاتی ہے تو یہ بغیر حجت اللہ علیہ السلام کے نہیں ہو سکتا انہیں کی وجہ سے بارش برستی ہے۔

تقاضا عدل خدا (کلمہ یافتہ):

خداوندکریم نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:

وجعلها کلمة باقیة فی عقبه ۔

نسل ابراہیم میں کلمہ باقید کو قرار دیا گیا (چودہ ستارے نجم الحسن کراروی)

نسل ابراہیم دو فرزندوں سے چلی حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام

حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل خداوندمتعال نے جناب عیسیٰ علیہ السلام کو باقی زندہ رکھا اور آسمان پر محفوظ کر چکا تھا۔

اب یہ قضائے انصاف ضرورت تھی کہ نسل اسماعیل علیہ السلام سے بھی کسی ایک کو باقی رکھے اور وہ کبھی روئے ارض پر کیونکہ آسمان پر ایک باقی (عیسیٰ علیہ السلام) موجود تھا لہذا امام المہدی علیہ السلام کو جو نسل ابراہیم علیہ السلام میں سے ہیں کو زندہ اور باقی رکھا گیا اور دشمنوں کے شر سے محفوظ کر دیا گیا۔

نزول ملائکہ:

قرآن مجید کی پارہ نمبر ۰۳ میں سورہ قدر سے معلوم ہوتاہے کہ نزول ملائکہ شب قدر میں ہوتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ فرشتے ہمیشہ اوصیا و انبیاءمعصومین علیہ السلام پر نزول کرتے ہیں لہذا نزول ملائکہ جو شب قدر کو ہوتا ہے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی وجہ سے بر قرار ہے۔

حدیث میں ہے کہ شب قدر سال بھر کی روزی امام علیہ السلام تک پہنچا دی جاتی ہے اور اسے وہی تقسیم کرتے ہیں ۔

مظلوموں کا حقیقی سہارا:

ظلم کی چکی میں پسنے والا مظلم و بے نوا لوگوں کے دکھی دلوں کو بھی صرف اسی بات میں ایک پاکیزہ روشنی اور امید کی کرن نظر آتی ہے کہ بالآخر ایک دن ایسا آئے گا کہ جب مظلوموں کا سہارا لاکھوں افراد کی پکار، نسلوں کی دل کی دھڑکن، امتوں کی نگاہوں کا انتظار اور گروہوں کی آرزو امام مہدی علیہ السلام ظہور کرے گا اور ایک عظیم خدائی عطا کردہ قوت سے ظالموں سے مظلوموں کا حق دلائے گا اور ایک ایسا عظیم انقلاب برپا کر دے گا جس سے مستضعفین کو منکرین اور ستم گروں پر غلبہ حاصل ہو جائے گا لہذا اللہ نے اس لیے کہ امیر غربا اور محتاج لوگوں کی امید کی کرن ختم نہ ہونے پائے لوگ مایوس ہو کر خود کو بے سہارا نہ سمجھیں آخری امام علیہ السلام کے ایام امامت کو طویل اور عمر کو طوالت بخشی۔

امام علیہ السلام کے غائب کا فائدہ:

امام علیہ السلام کا وجود مقدس انسانیت کی غایت نوع اور فرد کامل ہے اور علم مادی و عالم ربوبی کے درمیان واسطہ ہے اور نوع بشر کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اسی امام صاحب الزمان علیہ السلام کی برکت کی وجہ سے ہے۔

امام مہدی علیہ السلام پر ایمان رکھنا ان کے عہد پر سکون کا انتظار اور ان کے ظہور کا انتظار کرنا پر امید رہنے کا سبب ہے اور مسلمانوں کے دلوں کو آرام بخشنے کا باعث ہے۔

اور یہ پر امید ہونا منزل کی طرف بڑھنے اور کامیابی حاصل کرنے کا سبب ہے۔

ہر وہ طبقہ جس کے دل کو مایوسی، بد حالی، نا امیدی نے تاریک کر رکھا ہے اور امید اور آرزو کا چراغ اس میں روشن نہیں وہ ہر گز کامیاب و کامران نہیں ہو گا۔

ہاں البتہ زمانے کے افسوسناک اور خراب حالات عوام اور معارف کی بے قدری کمزور اور پستہ طبقہ کی روز افزوں محرومی، استعماری طاقتوں اور ان کے حربوں کی وسعت سرد و گرم جنگیں اور شر ق و غرب کی اسلحہ کی دوڑ میں جو مقابلے ہیں اس نے دنیا کے خیر خواہ اور روشن فکر افراد کو اس طرح پریشان کر رکھا ہے کہ وہ کبھی کبھی بشر کی صلاحیت ہی سے انکار کر دیتے ہیں ۔

امید کا واحد ذریعہ اور راستہ جو انسان کے لیے موجود ہے امید کی تنہا کرن ہے جو اس تاریک جہاں میں پھوٹتی ہے اور وہ صرف امام علیہ السلام کے عہد کشائش حکومت توحید کی تابناک عہد کے پہنچ جانے اور الہیٰ حکومت کے نفوذ کا انتظار ہے۔

مہدی موعود علیہ السلامپر ایمان نے روشن مستقبل اور فرحت بخش مستقبل کو شیعوں کی نگاہوں میں مجسم کر رکھا ہے۔

اور وہ اس دن کی آمد کے خیال سے مسرور ہیں ۔

سورج سے تشبیہہ ایک پاکیزہ پہلو:

سوال: امام مہدی علیہ السلام جو غائب ہیں اور عام نگاہوں سے اوجھل ہیں ان کے وجود سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟

جواب: جواب کے لیے پیغمبر کا وہ فرمان نہایت اطمینان بخش ہے جو آنحضرت نے جابر انصاری سے فرمایا تھا جابر نے حضور سے پوچھا کہ امام علیہ السلام غائب لوگوں کی رہنمائی کے لیے کیا اثر رکھتے ہیں ؟

تو آپ نے جواب دیا:

ان کی مثال اسی طرح ہے جسے سورج کے پیچھے بادل۔

وضاحت بادل کے پیچھے رہ کر بھی سورج فائدہ بخش ہے:

ماہرین کی تحقیق کے مطابق۔

انژری کی وہ مقدار جو سورج سے اس کے لیے نظام شمسی جس میں ایک ہماری یہ زمین ہے تک پہنچ سکتی وہ سورج سے نکلنے والے انژری کا(۲/۱۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰) حصہ ہے۔ لہذا اگر کروہ ارض کے کسی ایک حصے پر اس کی روشنی براہ راست نہ پڑے بلکہ بادل کے پیچھے ہی نور افشانی جاری ہو تو کیا سورج کے دیگر بیشمار فوائد و خصوصیات کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے ہر گز نہیں ۔

اس کے علاوہ بادل کے پیچھے رہ کر سورج سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ براہ راست ملنے والی روشنی سے حاصل نہیں ہوتے اس لحاظ سے امام زمانہ علیہ السلام کے وجود مقدس کا پردہ غیبت میں رہ کر فیض رسانی کرنا بھی اسی طرح ہے کہ لوگ آنجناب کے ظاہری دیدار سے تو محروم ہیں لیکن آپ کے وجود سعود کی برکتیں انہیں حاصل ہوتی رہتیں ہیں امام مہدی علیہ السلام کے ہی وجود ذیجود سے انسان نعمات الہیہ سے بہرہ ور ہو رہا ہے آپ علیہ السلام ہی کے نور انور سے حیات عالم کا نظم قائم ہے۔

۱۹

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۴- امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت

از: مولانا محمد آصف رضا

علماءاسلام کا اعتراف ثابت و واضح ہو گیا کہ امام مہدی علیہ السلام کے متعلق جو عقائد اہل تشیع کے ہیں وہی غیر متعصب و منصف مزاج اہل سنت علماءکے بھی ہیں اور مقصد اصل کی تائید قرآن کی آیات مبارکہ سے کر دی ہے اب رہی غیبت امام علیہ السلام کی ضرورت اس کے متعلق عرض ہے کہ خداوندمتعال نے ہدایت خلق کے لیے ایک لاکھ تیئس ہزار نو سو ننانوے انبیاءکے حضور اکرم تشریف لائے یعنی کل ایک لاکھ چوبیس ہزار ہو گئی اور کثیر التعداد ان کے اوصیاءبھیجے لہذا تمام انبیاءو اوصیاءکے جملہ صفات و کمالات و معجزات حضرت محمد میں جمع کر دیئے بلکہ اللہ نے خود اپنی ذات کا مظہر بنایا اور چونکہ آپ کو بھی اس دنیائے فانی سے ظاہری طور پر جانا تھا اس لیے آپ نے اپنی زندگی ہی میں حضرت علی علیہ السلام کو ہر قسم کے کمالات بھر پور کر دیا تھا یعنی حضرت علی علیہ السلام اپنے ذاتی کمالات کے علاوہ نبوی کمالات سے بھی ممتاز ہو گئے۔

سرورکائنات کے بعد خلق عالم میں صرف ایک علی علیہ السلام کی ہستی تھی جو کمالات انبیاءکی حامل تھی آپ علیہ السلام کے بعد یہ کمالات اوصیاءمیں منتقل ہوتے ہوئے امام مہدی علیہ السلام تک پہنچے۔

بادشاہ وقت امام مہدی علیہ السلام کو قتل کرنا چاہتا تھا اگر وہ قتل ہو جاتے تو دنیا سے انبیاءو اوصیاءکا نام و نشان مٹ جاتا اور سب کی یادگار بیک ضرب شمشیر ختم ہو جاتی اور انہیں انبیاءکے ذریعہ سے خداوندعالم متعارف ہوا تھا لہذا یہ ذکر بھی ختم ہو جاتا اس لیے ضرورت تھی کہ ایسی ہستی کو محفوظ رکھا جائے جو جملہ انبیاءو اوصیاءکی یادگار اور تمام کمالات کی مظہر ہو۔

خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا وجعلھا کلمة باقیہ فی عقبہ ابراہیم علیہ السلام کی نسل اس کلمہ باقیہ قرار دے دیا ہے لہذا نسل ابراہیم علیہ السلام دو فرزندوں سے چلی ہے ایک حضرت اسحاق علیہ السلام اور دوسرے حضرت اسماعیل علیہ السلام اسحاق علیہ السلام کی نسل سے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ باقی قرار دے کر آسمان پر محفوظ کر دیا اب یہ مقتضائے انصاف ضرورت تھی کہ نسل اسماعیل علیہ السلام سے بھی کسی ایک کو باقی رکھے اور وہ بھی زمین پر کیونکر آسمان پر ایک باقی موجود تھا لہذا امام مہدی علیہ السلام جو نسل اسماعیل علیہ السلام سے ہیں زمین پر زندہ اور باقی و قائم رکھا اور انہیں بھی اسی طرح اعداد کے شر سے محفوظ فرمادیا جس طرح عیسیٰ علیہ السلام کو محفوظ کیا گیا تھا۔

یہ مسلمات اسلامی سے ہے کہ زمین حجت خدا اور امام زمانہ علیہ السلام سے خالی نہیں رہ سکتی یہ بات تقریباً منصف مزاج اہل سنت کے ہاں مسلم ہے چونکہ حجت خدا اس وقت امام مہدی علیہ السلام کے سوا کوئی اور نہ تھا اور انہیں بادشاہ وقت معتمدین متوکل عباسی جو اپنے آباءو اجداد کی طرح ظلم و ستم کا خوگر اور آل محمد کا جانی دشمن تھا اس کے کانوں میں امام مہدی علیہ السلام کی ولادت بھنک پڑ چکی تھی اس نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد تکفین و تدفین سے پہلے حضرت کے گھر پر چھاپہ ڈلوایا اور چاہا کہ امام مہدی علیہ السلام کو گرفتار کر کے قتل کر دیا جائے لیکن چونکہ وہ بحکم خدا ۳۲ رمضان ۹۵۲ہجری کو سرداب میں جا کر غائب ہو چکے تھے پھر معتمد نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی تمام بیبیوں کو گرفتار کرا لیا اور حکم دیا کہ اس امر کی تحقیق کی جائے کہ ان میں کوئی حاملہ ہے تو حمل ضائع کر دیا جائے کیونکہ سرورکونین کی پیشن گوئی سے خائف تھا کہ مہدی علیہ السلام کائنات عالم کے انقلاب کا ضامن ہو گا اس لیے معتمد آپ علیہ السلام کے قتل پر تلا ہو اتھا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ و ستور فرما دیا۔

حدیث میں ہے کہ حجت خدا کی وجہ سے بارش ہوتی ہے اور انہیں کے ذریعہ رزق تقسیم ہوتی ہے۔

یہ مسلم ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام جملہ انبیاءکے مظہر تھے اس لیے ضروری تھی کہ انہی کی طرح ان کی غیبت بھی ہوتی جس طرح بادشاہ وقت کے نظام کی وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد اپنے عہد حیات ہی مناسب مدت تک غائب رہ چکے ہیں اسی طرح یہ بھی غائب رہتے۔

قیامت کا آنا مسلم ہے اور واقعہ قیامت میں امام وقت کا ذکر بتایا ہے کہ آپ علیہ السلام کی غیبت مصلحت خداوندی کی بناءپر ہوئی ہے۔

سورہ قدر سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول ملائکہ شب قدر میں ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ نزول ملائکہ انبیاءو اوصیاءہی پر ہوا کرتا ہے اس لیے امام علیہ السلام کو باقی رکھا کہ نزول ملائکہ کی مرکزی غرض پوری ہو سکے حدیث میں ہے کہ شعب قدر میں سال بھر کی روزی وغیرہ امام مہدی علیہ السلام تک پہنچا دی جاتی ہے اور آپ علیہ السلام اسے تقسیم کرتے ہیں ۔

یہ دوسری بات ہے کہ عام لوگ اس حکمت و مصلحت سے واقف نہ ہوں غیبت امام مہدی علیہ السلام اسی طرح حکمت و فلسفہ خداوندی کی بناءپر عمل میں آتی ہے جس طرح طواف کعبہ رمی جمرہ وغیرہ۔

جس کی اصل حکمت خداوندمتعال کو معلو ہے۔

چونکہ آپ علیہ السلام کو اپنی جان کا خوف تھا اور یہ طے شدہ ہے کہ جسے آپ نے نفس و جان کا خوف ہو وہ پوشیدہ ہونے کو لازمی جانتا ہے و من خاف علی نفسہ احتاج الی الاستتار۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان پرشان ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کو اس لیے غائب کیا جائے گا تا کہ خداوندعالم اپنی ساری مخلوقات کا امتحان کر کے یہ جانچے کہ نیک بندے کون ہیں اور باطل پرست کون لوگ ہیں ۔

باقی وجوہات اور مصالح کے علاوہ یہ بھی امر خالی از حکمت و مصلحت نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام کی غیبت اس لیے واقع ہوئی ہے کہ خداوندعالم ایک وقت معین میں آل محمد پر جو مظالم ڈھائے گئے ان کا بدلہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ سے لے گا یعنی آپ علیہ السلام عہد اول سے لے کر بنی اُمیہ اور بنی عباس کے ظالموں سے بدلہ لیں اس لیے حکیم کا فعل حکمت سے خالی نہیں ہوا کرتا تقریباً یہی وجوہات تھیں جس کی وجہ سے آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت کی بناءپر پردہ غیبت میں رکھا اور غیبت ہی میں ہونے کے باوجود آپ علیہ السلام سے دنیا کے مسائل چند اصحاب خاص کی وجہ سے حل ہوتے ہیں اور آپ علیہ السلام بحکم خدا ایک وقت مقررہ پر ظہور پر نور فرما کر دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسا کہ وہ فسق و جور سے بھر چکی ہو گی اور کل کائنات میں صرف ایک ہی دین محمدی ہو گا آپ علیہ السلام کی حکومت بروایت چالیس سال تک ہو گی علی ولی اللہ کا بول بالا ہو گا اور کفر کا منہ کا ہو گا۔

لہذا دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ علیہ السلام کا جلد ظہور فرمائے۔

۲۰