بسم اللہ الرحمن الرحیم
۸-زمانہ غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں
از:رضیہ صفدر
یا الہیٰ از غیب آر
تابگردو درجہاں عدل و آشکار
امام مہدی علیہ السلام سلسلہ عصمت کی چودھویں کڑی اور مسلک امامت علویہ کی بارہویں کریں ہیں آپ علیہ السلام کے والد ماجد کا نام حضرت امام حسن عسکریعلیہ السلام اور والدہ ماجدہ جناب نرجس خاتونعلیہ السلام تھیں۔ آپ علیہ السلام اپنے آباو اجداد کی طرح معصوم، اعلم زمانہ، امام منصوص اور افضل کائنات ہیں مورخین کا اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت ۵۱شعبان ۵۵۲ ہجری یوم جمعہ بوقت طلوع فجرہوئی۔
دین کی سر بلندی اور دشمنوں سے امام زمانہ علیہ السلام کی حفاظت کے لیے آپ کی غیبت ہوئی تا کہ زمین حجت خدا سے خالی نہ رہے اس زمانہ غیبت کے دو ادوار ہیں ۔
غیبت صغریٰ غیبت کبریٰ
غیبت صغریٰ کی مدت ۵۷ یا ۳۷ سال تھی اس کے بعد غیبت کبریٰ شروع ہو گئی۔
علامہ شیخ عباس قمی نے بھی دور غیبت امام زمانہ علیہ السلام میں چند فرائض کا تذکرہ کیا ہے جو احساس غیبت امام زمانہ علیہ السلام اور انتظار امام زمانہ علیہ السلام کی حقیقت کے واضح کرنے کے بہترین وسائل ہیں اور جن کے بغیر نہ ایمان بالغیب مکمل ہوتا ہے اور نہ انسان کو منتظرین امام زمانہ علیہ السلام میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
مخزون و رنجیدہ رہنا:
حقیقت امر یہ ہے کہ انسان کو غیبت امام زمانہ علیہ السلام کی حقیقت اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کا اندازہ ہو جائے تو اس کی زندگی سے مسرت و ابتیاج باپید ہو جائے زمانہ کے بد ترین حالات اہل زمانہ کے بے پناہ ظلم و ستم نظام اسلامی کی بربادی تعلیمات الہیہ کا استزاءاور اس طرح کے بے شمار معاملات ہیں جن سے غیبت امام زمانہ علیہ السلام کے نقصانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور ان کا احساس ہی انسان کے آنسو بہانے کے لیے کافی ممکن ہے پھر اگر یہ بات صحیح ہے کہ امام انسان کی زندگی کی محبوب ترین شخصیت کا نام ہے تو ایسے ممکن ہے کہ محبوب نگاہوں سے اوجھل رہے اور عاشق کے دل میں اضطراب اور بے قرار ی نہ پیدا ہو اور وہ اپنے محبوب کی طرف سے اس طرح غافل ہو جائے کہ مخصوص تاریخوں اور مواقع کے علاوہ اس کے وفود اور اس کی غیبت کا احساس بھی نہ پیدا کرے۔
دعائے ندبہ میں انہیں تمام حالات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے اور اس لیے اس دعا کو دعائے ندبہ کہا جاتا ہے کہ انسان اس کے مضامین کی طرف متوجہ ہو جائے اور غیبت امام زمانہ علیہ السلام کی مصیبت کا صحیح اندازہ کر لے تو گریہ اور ندبہ کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے اور شاید اسی لیے اس دعا کی تاکید ایام عید میں کی گئی ہے یعنی روز عید فطر، روز عید قربان، روز عید غدیر اور روز جمعہ جیسے بعض اسلامی احکام کے اعتبار سے عید سے تعبیر کیا گیا ہے۔
عید کا دن انسان کے لیے انتہائی مسرت کا دن ہوتا ہے اور اس دن ایک محب اور عاشق کا فرض ہے کہ اپنے محبوب حقیقی کے فراق کا احساس پیدا کرے تا کہ اسے فراق کی صحیح کیفیت کا اندازہ ہو سکے جیسا کہ امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب کوئی عید کا دن آتا ہے تو ہم آل محمد کا غم تازہ ہوجاتا ہے کہ ہم اپنا حق اغیار کے ہاتھوں پامال ہوتے دیکھتے ہیں اور مصلحت الہیہ کی بنیاد پر کوئی آواز بھی بلند نہیں کر سکتے۔
آئمہ معصومین علیہ السلام میں مولائے کائنات کے دور سے امام حسن عسکریعلیہ السلام تک ہر امام زمانہ علیہ السلام نے غیبت کے نقصانات اور مصائب کا تذکرہ کر کے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کائنات میں خیر صرف اس وقت نمایاں ہو گا جب ہمار قائم علیہ السلام قیام کرے گا اور اس سے پہلے دنیا سے کسی واقعی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی ہے تا کہ انسان مومن بد ترین حالات سے بھی مایوس نہ ہو جائے اور پھر انہیں حالات سے راضی اور مطمئن بھی نہو ہو جائے کہ یہ اس کے نقص یہاں کا سب سے بڑا ذریعہ ہو گا۔
اس مقام پر سدیر صیرفی کی اس روایت کا نقل کرنا نا مناسب نہ ہو گا کہ میں (سدیر) اور مفضل بن عمر اور ابوبصیر اور بان بن تغلب امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ علیہ السلام خاک پر بیٹھے ہوئے بے تحاشہ گریہ فرما رہے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں کہ اے میرے سردار! تیری غیبت نے میری مصیبت کو عظیم کر دیا ہے میری نیند کو ختم کر دیا ہے اور میری آنکھوں سے سیلاب اشک جاری کر دیا ہے میں نے حیرت زدہ ہو کر سوال کیا کہ فرزند رسول! خدا آپ علیہ السلام کو ہر بلا سے محفوظ رکھے یہ گریہ کا کونسا انداز ہے اور خوانخواستہ کون سی تازہ مصیبت آپ پر نازل ہو گئی ہے؟ تو فرمایا میں نے کتاب جفر کا مطالعہ کیا ہے جس میں قیامت تک کے حالات کا ذکر موجود ہے تو اس میں آخری وارث پیغمبر کی غیبت اور طول غیبت کے ساتھ اس کے دور میں پیدا ہونے والے بد ترین شکوک و شبہات اور ایمان و عقیدہ کے حالات اور پھر شیعوں کے مبتلائے شک و ریب ہونے اور تغافل اعمال کا مطالعہ کیا ہے اور اس امر نے مجھے اس طرح بے قرار ہو کر رونے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس غیبت میں صاحبان ایمان کا کیا حشر ہو گا اور ان کا ایمان کس طرح محفوظ رہ سکے گا۔
اگر ہمارے حالات اور ہماری بد اعمالیاں سینکڑوں سال پہلے امام صادق علیہ السلام کو بے قرار ہو کر رونے پر مجبور کر سکتی ہےں تو کیا ہمارا فرض نہیں ہے کہ ہم اس دور غیبت میں ان حالات اور واقعات و آفات کا اندازہ کر کے کم از کم روز جمعہ خلوص دل کے ساتھ دعائے ندبہ کی تلاوت کر کے اپنے حالات پر خود آنسو بہائیں کہ شاید اس طرح ہمارے دل میںعشق امام زمانہ علیہ السلام کا جذبہ پیدا ہو جائے اور ہم کسی آن کی یاد سے غافل نہ ہونے پائیں جس طرح انہوں نے خود اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم کسی وقت بھی اپنے چاہنے والوں کی یاد سے غافل نہیں ہوتے ہیں اور نہ ان کی نگرانی کو نظر انداز کرتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان کا اعتماد ہمارے اوپر رہے اور ان کی حفاظت و رعایت کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی حوالے کی گئی ہے۔
انتظار حکومت آل محمد
دل دریا پہ دمکتا ہے تیرے نام کا نقش
ہوائے صبح میں بھیگی ہوئی دعا کی طرح
تیرے وجود کے قائل بھی ہم سائل بھی
شب سیہ میں ستاروں کے ہمنوا کی طرح
اس انتظار کو دور غیبت میں افضل اعمال قرار دیا گیا ہے اور اس میں اس امر کا واضح اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایک دن آل محمد کا اقتدار ضرور قائم ہونے والا ہے اور مومنین کرام کی ذمہ داری ہے کہ اس دن کا انتظار کریں اور اس کے لیے زمین ہموار کرنے اور فضا کو سازگار بنانے کی کوشش کرتے رہیں ۔
اب یہ دور کب آئے گا اور اس کا وقت کیا ہے؟ یہ ایک راز الہیٰ ہے جس کو تمام مخلوقات سے مخفی رکھا گیا ہے بلکہ روایات میں یہاں تک وارد ہوا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کے زخمی ہونے کے بعد آپ کے صحابی عمرو بن الحمق نے آپ کی عیادت کرتے ہوئے عرض کی کہ مولا! ان مصائب کی انتہا کیا ہے؟ تو فرمایا کہ ۰۷ ہجری تک عرض کی کہ کیا اس کے بعد راحت و آرام ہے؟ آپ نے کوئی جواب نہ دیا غش کھا گئے۔
اس کے بعد جب غش سے افاقہ ہوا تو وہ بارہ سوال کیا فرمایا بے شک ہر بلائے بعد سہولت اور آسانی ہے لیکن اس کا اختیار پروردگار کے پاس ہے۔
اس کے بعد ابو حمزہ شمالی نے امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت کے بارے میں دریافت کیا کہ ۰۷ ہجری تو گزر چکا ہے لیکن بلاوں کا سلسلہ جاری ہے؟ تو فرمایا کہ شہادت حسین علیہ السلام کے بعد جب غضب پروردگار ہوا تو اس نے سہولت و سکون کے دور کو آگے بڑھایا۔
پھر اس کے بعد ابو حمزہ نے بیس سوال امام جعفر صادق علیہ السلام سے کیے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ بے شک غضب الہیٰ نے اس مدت کو دو گنا کر دیا تھا اس کے بعد جب لوگوں نے اس راز کو فاش کر دیا تو پروردگار نے اس دور کو مطلق راز بنا دیا اور اب کس کو اس امر کا علم نہیں ہو سکتا اور ہر شخص کا فرض ہے کہ اس دور کا انتظار کرے کہ انتظار ظہور کرنے والا مر بھی جائے گا تو قائم آل محمد کے اصحاب میں شمار کیا جائے گا۔
بعد احترام نام کی بجائے لقب سے پکارا جائے:
آپ کا نام نامی اور اسم گرامی ”محمد“ اور مشہور لقب ”مہدی علیہ السلام “ ہے علماءکا کہنا ہے کہ آپ کا نام زبان پر جاری کرنا منع ہے اور اس کی ممانعت فرمائی ہے مجسلی اس کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”حکمت آن مخفی است“ اس کی وجہ پوشیدہ اور غیر معلوم ہے نیز علماءکا بیان ہے کہ آپ کا یہ نام خود حضرت محمد نے رکھا تھا۔
شکوک و شبہات کا اظہار کرنا مکروہ ہے:
علامہ شیخ سلیمان قندوزی بلخی حنفی رقم طراز ہیں کہ سدیر صیرفی کا بیان ہے کہ ہم اور مفضل بن عمر ابو بصیر امان بن تغلب ایک دن صادق آل محمد کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ علیہ السلام زمین پر بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے محمد تمہاری غیبت کی خبر نے میرا دل بے چین کر دیا ہے میں نے عرض کی کہ حضور خدا آپ کی آنکھوں کو کبھی نہ روائے بات کیا ہے اس لیے حضور گریہ کنان ہیں فرمایا اے سیدیر! میں نے آج کتاب جفر جامع بوقت صبح امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کا مطالعہ کیا ہے اے سدیر یہ وہ کتاب ہے جس میں علم ما کان و یکون کا اندراج ہے اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے وہ سب اس میں لکھا ہے اے سدیر میں نے اس کتاب میں یہ دیکھا ہے کہ ہماری نسل سے امام مہدی علیہ السلام ہوں گے پھر وہ غائب ہو جائیں گے اور ان کی غیبت نیز عمر بہت طویل ہو گی ان کی غیبت کے زمانہ میں مومنین مصائب میں مبتلا ہوں گے اور ان کے امتحانات ہوتے رہیں گے اور غیبت میں تاخیر کی وجہ سے ان کے دلوں میں شکوک پیدا ہوتے ہوں گے پھر فرمایا اے سدیر سنو ان کی ولادت حضرت موسیٰ کی ولادت کی طرح ہو گی اور ان کی غیبت حضرت عیسیٰعلیہ السلام کی مانند ہو گی اور ان کے ظہور کا حال حضرت نوحعلیہ السلام کے مانند ہو گا اور ان کی عمر حضرت خضرعلیہ السلام کی عمر جیسی ہو گی اور چونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے لہذا اس سے پردہ پوشی و شک کا اظہار کرنا مکروہ ہے۔
امام عصرعلیہ السلام کا اسم گرامی آنے پر قیام کرنا:
ہم ایسے سادہ دلوں سے صجاب کیسا ہے
کہ ہم تو یوں بھی ہیں سننے کو نقش پاکی طرح
اگر آپ علیہ السلام کا ذکر لفظ قائم علیہ السلام سے کیا جائے کہ اس میں حضرت کے قیام کرنے کا اشارہ پایا جاتا ہے اور آپ علیہ السلام کے قیام کے تصور کے ساتھ کھڑا ہو جانا محبت عقیدت اور غلامی کا بہترین حقیقی ہے جس سے کسی وقت بھی غفلت نہیں کی جا سکتی ہے۔
حضور اکرم نے امام زمانہ علیہ السلام کے لقب قائم علیہ السلام کے بارے میں بہت وضاحت فرمائی تھی بلکہ فرمایا تھا کہ ظلم و تشدد کا دور ختم ہو گا اس وقت جب ہمارا قائم آئے گا چنانچہ اکثر و بیشتر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ ظلم و جور سے تنگ رہتے تو امام وقت کی خدمت میں عرض کرتے کہ کیا حضرت ہی قائم علیہ السلام ہیں یعنی امت کے ذہن میں قائم علیہ السلام کے بارے میں یہ تصور راسخ تھا کہ دنیا میں بہتری ان کی وجہ سے ہو گی اورجوں کے مرسل اعظم نے فرمایا تھا کہ قائم علیہ السلام میری نسل و خاندان سے ہو گا لہذا لوگ اسی خاندان میں تلاش کرنے لگے اور اسے آخری امید سمجھ کر لفظ قائم سے یاد کرنے لگے جو حضرت کا خوبصورت لقب ہے۔
آئمہ معصومین علیہ السلام نے یہ بھی اہتمام برقرار رکھا کہ ایک طرف قائم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ابھی ان کے ظہور کا وقت نہیں آیا تو دوسری طرف جہاں بھی لفظ قائم آیا وہیں سرو قد کھڑے ہو گئے اور گویا کہ ایک طرح کا فرض تعظیم بجا لائے جس کا ظاہری تصور یہی تھا کہ ”قائم علیہ السلام “ ایسی با عظمت شخصیت کا نام ہے جس کے تذکرہ پر اس کے آباو اجداد بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اور تعظیم و تکریم کا انداز اختیار کر لیتے ہیں جس طرح عظمت زہراء علیہا السلام کے اطہار کے لیے مرسل اعظم قدم فرماتے تھے لیکن حقیقی اعتبار سے اس کا ایک دقیق ترین نکتہ یہ تھا کہ اس طرح آئمہ معصومین علیہ السلام اپنے طرز عمل سے قوم کے ذہنوں میں یہ تصور راسخ کرانا چاہتے تھے کہ قائم علیہ السلام کا کام تنہا قیام کرنا میں ہے کہ وہ اپنے قیام و جہاد کے ذریعہ سارے عالم کی اصلاح کر دے اور امت خاموش بیٹھی رہے قوم موسیٰ بن عمران کی مانند کہ میں نے کہا تھا کہ آپ علیہ السلام اور ہارونعلیہ السلام جا کر اصلاح فرض ادا کریں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں لہذا آئمہ معصومین علیہ السلام اس کے بالکل بر عکس نئے زاویوں پر اپنی قوم کی تربیت کر رہے تھے کہ وہاں نبی خدا قیام کے لیے آمادہ تھا اور قوم بیٹھی تھی اور یہاں قیام کی یہ شان ہے کہ ابھی صرف اس کے نام قائم علیہ السلام کا تذکرہ ہوا اور ہم اُٹھ کھڑے ہو جاتے ہیں یہ تصور تمہارے ذہن میں راسخ رہے کہ جب وہ ظاہر تمہارے سامنے آ جائے اور قیام کا ارادہ کرے بلکہ آمادہ ہو جائے تو خبردار تم خاموش نہ بیٹھے رہنا اور یہ نہ ہو کہ تمہاری حیثیت خاموش تماشائی جیسی ہو جائے بلکہ عین فرض ہے کہ جیسے ہی وہ قیام کا ارادہ کرے تم بھی اس کے ساتھ کھڑے ہو جاو اور قیام اصلاح عالم کی مہم میں اس کے ساتھ شریک ہو جائے۔
لہذا ایسی شخصیت کہ جس کا نام آنے پر ہی اس کے آباو اجداد بھی کھڑے ہو جائیں اس کے ساتھ شریک قیام و جہاد ہونا اسلامی فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے۔
علماءاعلام کی تعلیم اور ان کا طریقہ کار آج بھی یہی ہے کہ جب وارث پیغمبر اکرم کا ذکر اس لقب کے ساتھ ہوتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں اور حضرت کی خدمت میں زبان حال سے عرض کرتے ہیں کہ ہم حضور کے ساتھ قیام کے لیے تیار ہیں بس ظہور کی دیر ہے اس کے بعد ہم آپ کی خدمت میں رہیں گے اور اصلاح عالم کی ہم میں آپ کی ہر امکانی مدد کریں گے۔
لہذا لازمی امر ہے کہ جب حضرت کا لقب آجائے یعنی آپ کا ذکر قائم علیہ السلام پکارا جائے تو فورا کھڑے ہو کر جانب مشرق منہ پھیر کر سلام عرض کریں اور امام زمانہ علیہ السلام کے سااتھ قیام کے عید کی تجدید کریں۔
دشمنوں کی طرف سے مصائب آنے پر بغیر گھبرائے ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور امام زمانہ علیہ السلام کی عظمت کو اجاگر کرنا:
چونکہ مذہب شیعہ کو ابتدائے اسلام سے ہی سخت تکالیف و صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا گیا اس کے مقابل دوسرے مذاہب کو سرکاری سر پرستی دی گئی اور ان کے پھیلنے کے لیے فضا سازگار کی گئی لہذا اس موقع سے دشمنان دین نے خوب فائدہ اُٹھایا اور لوگوں کو تو ستم کا نشانہ بنایا مگر ساتھ ساتھ خاندان رسالت کو بھی تضحیک کا نشانہ بنایا۔
حضور کی حدیث پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ ظالم و جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا بھی صدقہ ہے نیز ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہی اصل بہادری ہے۔
ظلم کی کئی شکلیں ہیں ضروری نہیں کہ لوگوں پر ظلم و ستم کرنا ہی اصل میں بڑا ظلم ہے بلکہ ظلم تو یہ بھی ہے کہ کسی بھی طرح یا مذہب کو بغیر تحقیق کے تذلیل کا اضافہ نہ بنایا جائے اور اس کے لےے رسول و خاندان رسالت کو بھی نہ بخشا جائے۔
جہاں تک سوال ہے امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا تو یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور ضرور ہو گا اس کے بارے میں حضور اور مختلف ادوار میں آئمہ معصومین علیہ السلام واضح اشارات دے چکے ہیں ۔
لیکن کچھ نا اندیش عاقبت نا شناس لوگ جانتے بوچھتے اس امر پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ کوئی امام مہدی علیہ السلام نام کا آخری امام زمانہ علیہ السلام ہے جس کا ظہور ہونا ہے یہ لوگ خالص بنی امیہ اور بنی اعباس کے پروردہ ہیں اب امت کا فرض عین ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں لوگوں کو بتائے۔
یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے اگرچہ قرآن و حدیث سے یہ ثابت ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام پیدا ہو کر غائب ہو چکے ہیں اور مدت مقررہ کہ جس کا علم صرف تمام جہانوں کے پالن ہار کے پاس ہے کہ بعد ظہور پذیر ہوں گے کیونکہ خدا کی زمین کسی بھی صورت میں حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی اور عقل بھی یہی کہتی ہے کہ آپ زندہ باقی ہیں اور علماءکا اتفاق بھی ہے۔
لیکن کچھ نا اندیش لوگ اس کی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے مخالفت میں انتہائی درجہ کا مبالغہ آرائی تک پہنچ جاتے ہیں ۔
لہذا امت کی ذمہ داری ہے کی ان مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرے جس طرح ہو سکے انہیں بتایا جائے ان کے اذہان صاف کیے جائیں بحث و مباحثہ و مناظرہ سے کام لیا جائے اور ڈٹ کر مصائب کا مقابلہ کیا جائے چاہے وہ مخالفت کسی بھی صورت میں ہو مثلاً لوگوں کو تنگ کیا جائے ان پر شب و ستم روا رکھا جائے جیسا کہ زمانہ قدیم سے آج تک ہوتا آرہا ہے یا پھر نا اندیش لوگ امام زمانہ علیہ السلام کے خلاف لکھیں اور بولیں تو یہ سب ذہنی پریشانی کا باعث بنتا ہے لہذا ان مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا بہترین ذمہ داری ادا کرنے کے مترادف ہے۔
جہاں تک امام زمانہ علیہ السلام کی مخالفت کا سوال ہے تو اس کے ضمن میں ہم مولوی محمد امین مصری کے رسالہ ”طلوع اسلام“ کراچی جلد نمبر۴۱ ص۵۴ اور ۴۹ کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ موصوف کے دماغ میں کس حد تک باغیانہ و باطل عقائد راسخ ہیں ۔
شیعوں کو ابتدا روئے زمین پر کوئی ظاہری مملکت قائم کرنے میں کامیابی نہ ہو سکی ان کو تکلیفیں دی گئیں اور پراگندہ اور منتشر کر دیا گیا تو انہوں نے ہمارے خیال کے مطابق امام منتظرعلیہ السلام اور مہدی علیہ السلام وغیرہ کے پر امید عقائد ایجاد کر لیے تا کہ عوام کی ذہارس بندھی رہے۔
اگر قوم پڑھے لکھے اور عالم فاضل لوگوں کا یہ حال ہو گا تو باقی افراد کا تو خدا حافظ ہے اس کے علاوہ وہ ملا اخوند درویزہ اپنی کتاب ارشاد الطالبین صفحہ نمبر۶۹۲ میں فرماتے ہیں ۔
”ہندوستان میں ایک شخص عبداللہ نامی پیدا ہو گا جس کی بیوی آمنہ(اعینہ) ہو گی اس کا ایک لڑکا پیدا ہو گا جس کا نام محمد ہو گا وہی کوفہ جا کر حکومت کرے گا لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں کہ امام مہدی علیہ السلام وہی ہیں جو امام حسن عسکریعلیہ السلام کے فرزند ہیں “
اس طرح کے بیانات ذہنی پسماندگی کی نشانی ہیں اور حقائق سے پردہ پوشی کی جا رہی ہے جب کہ حضور اور قرآن پاک اس جانب اشارات کر چکے ہیں ۔
لہذا ان لوگوں اور ان جیسے دوسروں کی جانب سے کیے گئے مظالم کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور حق کا دفاع کرنا بہت ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بتایا جائے قرآن و حدیث کے حوالے سے تا کہ وہ ان باتوں سے اور عقائد سے باہر نکل کر سوچیں اور امام زمانہ علیہ السلام کے لیے فضا سازگار ہو جائے۔
یہ اس امت کی سب سے اہم ذمہ داری ہے۔
دور غیبت میں ایمان کی حفاظت کیلئے دعا کرتے رہنا:
ہر شویزیدیت کی کدورت ہے ان دنوں
مولا تیری شدید ضرورت ہے ان دنوں
امام صادق علیہ السلام نے زرارہ سے فرمایا تھا کہ ہمارے قائم علیہ السلام کی غیبت میں اس قدر شبہات پیدا کیے جائیں گے کہ اچھے خاصے لوگ مشکوک ہو جائیں گے لہذا اس دور میں ہر شخص کا فرض ہے کہ ایمان کی سلامتی کی دعا کرتا رہے اور یاد امام زمانہ علیہ السلام میں مصروف رہے۔
اور عبداللہ بن سنان نے روایت کی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ کم سے کم”یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک“
کا ورد کرتا رہے کہ سلامتی دین و ایمان کے لیے یہ بہترین اور مختصر ترین دعا ہے۔
حضرت کی سلامتی کی نیت سے صدقہ نکالنا:
ہمارے دل میں مودت گلاب جیسی ہے
سنوارتا ہے جسے عقیدہ صبا کی طرح!
ہر ایک نماز میں ہم مانگتے ہیں خیر تیری!
خمارِ صدق سے لبریز مدعا کی طرح!
صدقہ در حقیقت خواہش سلامتی کا عملی اظہار ہے کہ انسانی جس کی سلامتی کی واقعاً تمنا رکھتا ہے اس کے حق میں صرف لفظی طور پر دعا نہیں کرتا بلکہ عملی طور پر بھی دفع بلا کا انتظام کرتا ہے اور یہ انتظام صدقہ سے بہتر کوئی شے نہیں ہے دعا ان لوگوں لیے بہترین شے ہے جو صدقہ دینے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے ہیں لیکن جس کے پاس یہ استطاعت پائی جاتی ہے وہ اگر صرف دعا پر اکتفا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف لفظی کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور امام زمانہ علیہ السلام کی سلامتی کے لیے چند پیسے بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے جب کہ مالک کائنات سے جو کچھ لیا ہے وہ سب انہی کے صدقہ میں لیا ہے اور جو کچھ آئندہ لینا ہے وہ بھی انہی کے طفیل میں اور انہی کے وسیلہ سے حاصل کرنا ہے۔
لہذا امام زمانہ علیہ السلام کی سلامتی کی دعا کرتے رہنا اور صدقہ دینا احسن فعل ہے۔
امام زمانہ علیہ السلام سے مصائب کے موقع پر فریاد کرنا:
اس کے علاوہ یہ بھی اعتقاد کے استحکام اور روابط و تعلقات کے دوام کے لیے بہترین ہے اور پروردگار عالم نے آئمہ طاہرینعلیہ السلام کو یہ طاقت عطا کی ہے اور صلاحیت بخشی ہے کہ وہ فریاد کرنے والوں کی فریاد رسی کر سکتے ہیں جیسا کہ ابو طاہرین بلال نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ پروردگار جب اہل زمین تک کوئی برکت نازل کرنا چاہتا ہے تو پیغمبر اکرم سے امام آخر تک سب کو وسیلہ قرار دیتا ہے اور ان کی بارگاہوں سے گزرنے کے بعد برکت بندوں تک پہنچتی ہے اور جب کسی عمل کو منزل قبولیت تک پہچانا چاہتا ہے تو امام زمانہ علیہ السلام سے رسول اکرم تک ہر ایک کے وسیلہ سے گزار کر اپنی بارگاہ جلالت پناہ تک پہچاتا ہے اور پھر قبولیت کا شرف عنایت کرتا ہے بلکہ خود امام عصرعلیہ السلام نے بھی شیخ مفید کے خط میں تحریر فرمایا تھا۔
تمہارے حالات ہماری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔
اور ہم تمہارے مصائب کی مکمل اطلاع رکھتے ہیں اور برابر تمہارے حالات کی نگرانی کرتے رہتے ہیں علامہ مجلسی نے تحفة الزار میں نقل کیا ہے کہ صاحبان حاجت کو چاہےے کہ اپنی حاجت کو کسی کاغذ پر لکھ کر آئمہ طاہرینعلیہ السلام کی قبور مبارک پر پیش کر دیں یا کسی خاک میں رکھ کر دریا یا نہر کے حوالے کر دیں کہ امام زمانہ علیہ السلام اس حاجت کو پورا فرمائیں گے۔
اس عریضہ کی ترسیل میں آپ کے چاروں نواب خاص میں سے کسی کو بھی مخاطب بنایا جا سکتا ہے انشاءاللہ وہ اسی طرح امام کی بارگاہ میں پیش کریں گے جس طرح اپنی زندگی میں اس فرض کو ادار کرتے تھے اور امام زمانہ علیہ السلام اسی طرح مقصد کو پورا کریں گے جس طرح اس دور میں کرتے تھے۔
مومنین اپنے نیک اعمال امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کریں:
دور قدیم سے شیعوں کے درمیان موسوم ہے کہ لوگ اپنے امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے نیابتہً اعمال انجام دیا کرتے تھے اور امام عصرعلیہ السلام ان کے ان اعمال کی قدردانی بھی فرمایا کرتے تھے جیسا کہ ابومحمدوعلجی کے حالات مں نقل کیا گیا ہے کہ انہیں کسی شخص نے امام عصرعلیہ السلام کی طرف سے نبابةً حج کے لیے پیسہ دیتے تو انہوں نے اپنے فاسق و فاجر اورشرابی فرزند کو حج نیابت امام زمانہ علیہ السلام کے لیے اپنے ساتھ لے لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میدان عرفات میں ایک انتہائی نوجوان شخص کو دیکھا جو یہ فرما رہے ہیں کہ تمہیں اس بات سے حیا نہیں آتی کہ لوگ تمہیں حج نیابت کے لیے رقم دیتے ہیں تو تم فاسق و فاجر افراد کو یہ رقم دے دیتے ہو قریب ہے کہ تمہاری آنکھ ضائع ہو جائے کہ تم نے انتہائی اندھے پن کا ثبوت دیا ہے۔
چنانچہ راوی کہتا ہے کہ حج سے واپسی کے چالیس روز کے بعد ان کی وہ آنکھ ضائع ہو گئی جس کی طرح اس مرد نوجوان نے اشارہ کیا تھا۔
امام زمانہ علیہ السلام کے وجود مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہ احدیت میں دست بدعا رہنا:
ظاہر ہے کہ دعا ہر مسئلے کا علاج ہے جو انسان کے امکان سے باہر ہو اور جب دور غیبت میں امام زمانہ علیہ السلام کی حفاظت کسی اعتبار سے بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور ہم خود انہیں کے رحم و کرم سے زندہ ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے وجود مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہ احدیت ہی مسلسل دعائیں کرتے رہیں اور کسی بھی وقت اس فرض سے غافل نہ ہوں۔
”اللهم کن لولیک الحجة بن الحسن علیة السلام
“
جسے عام طور پر اثنائے نماز قنوت یا بعد نماز وظیفہ کے طورپر پڑھا جاتا ہے امام زمانہ علیہ السلام کے وجود کی حفاظت، ان کے ظہور کی سہولت اور ان کی عادلانہ حکومت کے بارے میں جامع ترین دعا ہے جس سے صاحبان ایمان کو کسی بھی وقت غافل نہیں ہونا چاہیے۔
امام زمانہ علیہ السلام پر زیادہ سے زیادہ سلام و درود پڑھا جائے:
حضور اور آپ کی آل پاک پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھنے کی تاکید قرآن و حدیث میں متعدد بار آئی ہے اور قرآن پاک سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ اور ان کے فرشتے بھی حضور اور آپ کی آل پاک پر درود و سلام پڑھتے ہیں ۔
لہذا امام مہدی علیہ السلام پر زیادہ سے زیادہ سلام بھیجا جائے تو یہ ایک بہتر اور خوبصورت عمل ہے امام زمانہ علیہ السلام ہمارے اس سلام کا جواب دیتے ہیں لہذا محافل و مجالس میں امام زمانہ علیہ السلام پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھا جائے واضح ہو کہ اگر ایم بیل نے ٹیلی فون ایجاد کرنے سے پہلے جو بنیادی کلیات بنائے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ جب ہم کسی کی جانب انگلی سے اشارہ کر کے کوئی بات کریں تو چاہے وہ ہم سے کچھ دور ہی کیوں نہ ہو قدرتی عمل سے انگلی سے لہریں نکلتی ہیں جو اس بندے تک پہنچ جاتی ہیں ۔
تو جب انگلی سے اشارہ کر کے امام زمانہ علیہ السلام کی زیارت و سلام پڑھتے ہیں تو انہیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ کوئی سلام پڑھ رہا ہے اور اس کا جواب مزحمت فرماتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا کہ حضرتعلیہ السلام کی معرفت نصیب ہو:
دنیا نہ مال و زر نہ وزارت کے واسطے!
ہم جی رہے تیری زیارت کے واسطے!
اللہ تعالیٰ سے ہر لمحہ دعا مانگتے رہنا چاہےے کہ اللہ تعالیٰ حضرت امام عصرعلیہ السلام کی معرفت نصیب فرمائے آئمہ طاہرینعلیہ السلام کا ارشاد پاک ہے کہ جو شخص امام عصرعلیہ السلام کی غیبت کے دور میں ہو اور وہ دعا مانگتا رہے کہ مجھے حضرت کی معرفت نصیب ہو اور میں امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھ دشمنان دین و دشمنان اہل بیتعلیہ السلام سے جہاد کروں تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے اور اس کو امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھ شمار کیا جائے گا وہ زندہ ہو گا اور امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھ دشمنوں سے جہاد کرے گا جیسا کہ دعائے عہد میں وارد ہوا ہے۔
لہذا ہر لمحہ اس امر کی دعا مانگنی چاہیے کہ پروردگار امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت نصیب کرے اور ان کے اصحاب میں شمار ہو اور دین سلامت رہے۔
امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں تسلیم ہو ان کے بارے میں جلدی نہ کرے اور نہ یہ کہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور کیوں نہیں ہوتا ہے، اعتراض و شکوہ زبان پر نہ لائے:
امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے بارے میں مکمل معلومات کو خدا تعالیٰ نے پوشیدہ رکھا ہے یعنی ایک امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور ہو گا اور کب وہ آئیں گے یہ سب خدا تعالیٰ کی مصلحت ہے لہذا اس بارے میں شکوہ و شکایات یا کسی قسم کا اعتراض کرنا بالکل بھی جائز و درست نہیں ہے جب خدا تعالیٰ کی مصلحت ہو گی امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور ہو گا۔
اس سلسلے میں جب اسحاق بن یعقوب نے امام زمانہ علیہ السلام سے ایک خط کے ذریعے سوال کیا تو فرمایا کہ تمہارا یہ سوال کہ میری غیبت کیوں ہوئی ہے تو یہ بات خدائی مصلحت سے متعلقہ ہے اس کے متعلق تم سوال نہ کرو یہ بے کار ہے میرے آباو اجداد دنیا والوں کے شکنجہ میں ہمیشہ رہے ہیں لیکن خدا نے مجھے اس شکنجہ سے بچالیا ہے جب میں ظہور کروں گا بالکل آزاد ہوں گا زمانہ غیبت کے متعلقہ ایک سوال کے جواب میں فرمایاکہ اس کے متعلق تم یہ سمجھ لو کہ میری مثال غیبت میں ویسی ہے جسے ابر میں چھپے ہوئے آفتاب کی میں ستاروں کی مانند اہل ارض کے لیے امان ہوں تم لوگ غیبت اور ظہور سے متعلق سوال بند کرو اور میرے ظہور کے لیے خدا سے دعا کرو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہور و غیبت کے متعلق کسی بھی قسم کے سوال و شکوک کا اظہار منع ہے اس کے متعلق صرف دعا کرنی چاہیے کہ امام زمانہ علیہ السلام کا بخیر و خوبی جلد از جلد ظہور ہو نہ کہ بے جا شک و سوال کےے جائیں۔
آپ علیہ السلام کے ظہور اور فرج و فتح کا انتظار کرنا افضل ترین اعمال ہے:
امام مہدی علیہ السلام جس وقت ظہور فرمائیں گے وہ وقت ایسا ہو گا کہ نیک لوگ انتہائی کم تعداد میں دنیا میں موجود ہوں گے نیکی کی قدر نہ ہو گی اور بدی کو افضلیت دی جائے گی اس وقت سے پناہ مانگنی چاہےے جس میں نیکی ذرہ بھر نہ رہے گی اور بدی کو اولیت حاصل ہو گی ایسے وقت میں امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور ہو گا۔
امام زمانہ علیہ السلام اس وقت دشمنان دین سے جنگ کریں گے اور انہیں شکست فاش دیں گے دنیا سے بدی کا وجود ختم ہو جائے گا۔
لہذا مومنین کو ہمہ وقت پر امید رہنا چاہیے نہ کہ اس برے وقت پر قناعت کرے بیٹھ جائیں اور بدی کو قبول کر لیں بلکہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ ایمان کے ضعیف کی نشانی ہو گی بلکہ مومنین کو چاہیے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور اور بدی کے خلاف جنگ میں ان کی عظیم فتح کا انتظار کریں۔
وہ روشن اور عظیم دور کہ آئمہ طاہرینعلیہ السلام کے مطابق بدی کا وجود نہ ہو گا اور نیکی شروع ہی اس وقت ہو گی یعنی دنیا سے بھلائی کی امید نہ رکھی جائے ہاں مگر ظہور قائم علیہ السلام کے بعد تو اس دور کا انتظار کرنا اور امام زمانہ علیہ السلام کی فتح کا انتظار کرنا اور دعا مانگنا افضل من العمال ہے۔
آپ علیہ السلام کی صفات کو جاننا اور ہر حال میں امام زمانہ علیہ السلام کی نصرت اور مدد کرنے پر آمادہ رہنا آپ علیہ السلام کے فراق پر گریہ کناں ہوں۔
میں کیوں نہ تیرا شکر کروں بات بات میں
ہر سانس تیرے در سے ملی ہے زکوة میں
امام زمانہ علیہ السلام کی صفات کو جاننا ہر مومن کا فرض ہے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا مامعلیہ السلام کن صفات و خصوصیات کا حامل ہے۔
امام زمانہ علیہ السلام مومنین کے خال و اقوال سے ہمہ وقت واقف رہتے ہیں اور بوقت ضرورت ان کی رہنمائی بھی کرتے ہیں اور مدد بھی فرماتے ہیں امام زمانہ علیہ السلام کے دربار سے اور ان کے آباءکے درباروں سے ہی رزق کی تقسیم اہل دنیا کو ہوتی ہے امام زمانہ علیہ السلام ضرورت کے وقت علماءکی مدد بھی فرماتے ہیں ۔
شیخ مفید نے ایک مرتبہ ایک فوت شدہ حاملہ عورت کے بارے میں فتویٰ دیا کہ اسے بچے کے ساتھ ہی دفنا دیا جائے مگر امام زمانہ علیہ السلام نے آ کر فوراً ان کی تصحیح کی اور فرمایا کہ بچے کو دفن نہ کیا جائے گا بعد میں شیخ مفید سے فرمایا فتویٰ دینا تمہارا کام ہے اور اصلاح کرنا ہمارا کام۔
اسی طرح امام زمانہ علیہ السلام بیماریوں میں شفا دیتے ہیں اور کئی امراض کا علاج بھی بتایا متعدد بار دشمنان دین کے حملوں سے دین کو بچانے کے لیے اور لوگوں کے اذہان کو صاف کرنے بھی آتے ان کی مدد فرماتے۔
ظہور اور غیبت کے بارے میں کسی قسم کا سوال کرنا یا شک و اعتراض کرنا منع کیا گیا ہے۔
مومنین کو چاہیے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی نصرت پر ہمہ وقت آمادہ رہیں ہم لمحہ دعا کرتے رہیں کہ جب امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور ہو تو وہ امام زمانہ علیہ السلام کے صف اول کے ساتھی بن سکیں۔
دعائے عہد میں ہے۔
پروردگار! اگر مجھے ظہور سے پہلے موت بھی آجائے تو وقت ظہور اس عالم میں قبر سے اُٹھانا کہ کفن دوش پر ہو برینہ تلوار ہاتھ میں ہو نیزہ چمک رہا ہو اور زبان پر لبیک لبیک ہو۔
یعنی خلاصہ یہ ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی صفات کو جاننا چاہے ان کے متعلق پورا علم ہو نیز ہر مومن کو امام زمانہ علیہ السلام کی نصرت و مدد کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہنا چاہےے۔
انسان جس سے محبت کرتا ہے اگر وہ نظروں سے دور ہو جائے تو بے قراری ایک فطری عمل ہے مومنین جو امام زمانہ علیہ السلام کی محبت کا دم بھرتے ہیں جن کے دل میں سچی عقیدت ہے وہ امام زمانہ علیہ السلام کے لیے ہمہ وقت بے چین رہتے ہیں ۔
امام زمانہ علیہ السلام ہم سے دور اور غیبت میں ہیں جس کے دل میں محبوب کی سچی عقیدت و محبت ہو وہ اس کے فراق میں گریہ کناں رہتا ہے اور مومنین کا یہی حال ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی دوری نے ان کے دلوں کو بے چین کیا اور راتوں کو ان کی نیند اُڑا دی ہے سچا مومن ایسا ہی ہے جو امام زمانہ علیہ السلام اپنے امام زمانہ علیہ السلام سے سچی عقیدت رکھے ان کے ظہور کے بخیر و خوبی ہونے کی دعاکرے اور اس امر کی کہ خدا تعالیٰ انہیں ہر بلا سے محفوظ رکھے اور ظہور کا انتظار کرے۔
نہ پوچھ کتنے زمانوں سے تجھ کو ڈھونڈتے ہیں
کبھی چراغ کی صورت کبھی ہوا کی طرح!
آپ علیہ السلام کے فضائل و کمالات اور صفات کو جہاں جاننا بہت ضروری ہے وہاں بیاں کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ آپ علیہ السلام اس دور کے ولی امت ہیں اور خداوند کی تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں میں آپ ہی وسیلہ ہیں ۔
امام زمانہ علیہ السلام کے جمال مبارک کی زیارت کا اشتیاق رکھنا اور شوق کا اظہار کرنا:
جب مومنین امام زمانہ علیہ السلام کی محبت دل میں رکھتے ہیں تو ضروری ہے تو کہ ان کے دل میں خیال زیارت پیدا ہو امام زمانہ علیہ السلام کی زیارت بہت سے افراد کو نصیب ہوئی ان میں سے بعض کو غیبت صغریٰ میں اور بعض کو غیبت کبریٰ میں زیارت نصیب ہو ئی۔
لیکن تمام سچی عقیدت رکھنے والے مومن حضرات کے دل میں امام زمانہ علیہ السلام کی زیارت کا خیال آتا ہے۔
اور اس کا شوق پیدا ہوتا ہے۔
ایک روایت کے مطابق اگر ۰۴ جمعرات امام حسین علیہ السلام کے مرقد مقدس پر حاضری دی جائے تو امام زمانہ علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوتی ہے ایک صاحب نے یہی عمل کیا تو جب وہ چالیسویں جمعرات واپسی پر انہیں راہ میں مرد عرب ملا جس نے لبنانی لباس زیب تن کر رکھا تھا اس نے اس شخص کی پریشانی دریافت کی اور کہا کہ تمہارا امام زمانہ علیہ السلام تمہارے حال سے بے خبر نہیں ہے یہ کہہ کر غائب ہو گئے یعنی معلوم ہوا کہ سید کی زیارت کا دل میں شوق اور جذبہ ہو تو ضرور زیارت ہو گی۔
ممکن ہے اپنی موت نہایت قریب ہو!
اک شب تو خواب سہی میں زیارت نصیب ہو!
لہذا مومنین کو اپنے دل میں امام زمانہ علیہ السلام کی زیارت کا شوق پیدا کرنا چاہیے اور اس کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ اگر ہم ان کی محبت کا دم بھرتے ہیں اور دل میں سچی محبت کرتے ہیں تو یہ فطری بات ہے کہ ہمارے دل میں شوق زیارت پیدا ہو جس قدر شوق زیادہ ہو گا اسی قدر اس کا اظہار زبان سے اور ہر عمل سے ظاہر ہو گا۔
امام زمانہ علیہ السلام ہمارے زمانے کے امام زمانہ علیہ السلام ہیں ہمارے ہادی برحق ہیں ہم ان سے سچی محبت کرتے ہیں تو اس کا اظہار وقتاً فوقتاً سہی ہونا چاہےے اس کے لیے دعا بھی مانگتے رہنا چاہیے جب آپ علیہ السلام کا ظہور ہو گا تو آپ کا جمال ساری دنیا دیکھے گی بعض خوش نصیب افراد اس رخ روشن کی زیارت کر چکے ہیں اور بعض شاید بعد از ظہور کریں بہر حال بات جو بھی ہو زیارت کا اشتیاق اور اس کا اظہار کرنا بہتر اور ضروری ہے ممکن ہے امام عصرعلیہ السلام کی زیارت نصیب ہو جائے۔
اگر استطاعت رکھتا ہو تو عید قربان کے موقع پر امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں قربانی کرے:
جس طرح امام زمانہ علیہ السلام کے لیے صدقہ کرنا خوش کن عمل ہے کہ ان کی بلائیں دور ہوں اور ان کا ظہور جلد اور بخیر و خوبی ہو اسی طرح اگر ایک مرد مومن اس بات کی استطاعت رکھتا ہے کہ عید قربان کے موقع پر وہ فرض قربانی جو اس کے ذمہ ہے کہ علاوہ امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں قربانی کرے تو اس کو ایسا ضرور کرنا چاہیے۔
ہمارا مال جو ہمیں دیا گیا ہے جو ہم نے محنت سے کمایا ہے وہ سب بھی معصومین علیہ السلام کے صدقہ میں ملا ہے لہذا مال کے ذریعے امام زمانہ علیہ السلام سے اظہار محبت کرنا اچھا فعل ہے اگر کوئی شخص صرف دعا پڑھتا رہا ہے باوجود اس کے وہ صاحب مال ہے تو یہ علامت ہے اس کے نفاق کی یعنی اس کی محبت میں سخت کمی کی نشانی ہے۔
کیونکہ جو رزق اسے امام زمانہ علیہ السلام کے طفیل ملا وہ اسے ان کی خاطر ذرا سا ہی خرچ کرنا گوارا نہیں کرتا تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے لہذا ہر کوئی اس کی استطاعت رکھتا ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں قربانی کرے تو اسے یہ فعل ضرور سر انجام دینا چاہیے۔
یہ ایک احسن عمل ہے۔
تمام محافل و مجالس میں ذاکرین امام زمانہ علیہ السلام کا ذکر ضرور کریں:
اب تک بات ہوئی ہے کہ تمام امت کی زمانہ غیبت کبریٰ میں کیا ذمہ داریاں ہیں وہ حضرات جن کی لوگ زیادہ تر غور سے بات سنتے اور عمل کرتے ہیں مثلاً علماءو ذاکرین حضرات انہیں چاہیے کہ وہ تمام محافل و مجالس میں امام زمانہ علیہ السلام کا ذکر ضرور کریں چاہے ایک حدیث ان کی فضیلت میں پڑھی جائے یا کوئی قصیدہ و رباعی وغیرہ لیکن اس طرح کرنا ضروری ہے یہ صدی کہ جس کے متعلق مشہور ہے کہ ظہور امام زمانہ علیہ السلام کی صدی ہے اوراس میں برائی بھی بہت پھیل چکی ہے اور پھیل رہی ہے تمام لوگوں خصوصاً نوجوانوں کے اذہان میں امام زمانہ علیہ السلام کا ذکر ہر قت ہونا چاہیے۔
نوجوان طبقہ کسی بھی معاشرے کی شہ رگ ہوتا ہے لہذا نوجوانوں کو امام زمانہ علیہ السلام کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات ملنی چاہیں تا کہ ان کے دل میں زیادہ سے زیادہ محبت پیدا ہو وہ ماحول کو سازگار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
لہذا ذاکرین و علماءحضرات کو چاہیے کہ وہ محافل و مجالس میں امام زمانہ علیہ السلام کا ذکر ضرور کریں اور ان پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام پڑھا جائے۔
امام زمانہ علیہ السلام کے متعلق زیادہ سے زیادہ کتب و رسائل کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے:
آج کل نفسا نفسی کا دور ہے لوگ ایک دوسرے سے بغیر فائدے کے بات کرنا گوارہ نہیں کرتے مومنین کے لیے ضروری ہے کہ اپنے امام زمانہ علیہ السلام کی خاطر اور لوگوں کی زیادہ سے زیادہ آگہی کے لیے کثیر تعداد میں کتب کی اشاعت کا اہتمام کریں اور مخیر حضرات کی مدد سے امام زمانہ علیہ السلام پر لٹریچر شائع کروا کے اس کو مفت تقسیم کرنے کا اہتمام کریں تا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس بارے میں جان سکیں اور ان کی آگاہی ہو۔
طلبہ مدرسوں میں امام زمانہ علیہ السلام سے متعلقہ محافل منعقد کرنے کا اہتمام کریں:
طلبہ کو چاہیے کہ وہ مدرسوں میں امام زمانہ علیہ السلام سے متعلقہ محافل کے منعقد کرنے کا اہتمام کریں خصوصاً شعبان المعظم میں اگر ہو سکے تو امام زمانہ علیہ السلام کے جشن ولادت کے موقع پر چراغاں کریں تا کہ لوگ اس امر سے آگاہ ہو سکیں۔
مدرسوں میں سیمناروں، کانفرنس وغیرہ کا اہتمام کیا جائے امام زمانہ علیہ السلام سے متعلقہ سوالوں کے مقابلے کیے جائیں یعنی طلبہ میں اس طرح کا مقابلہ رکھا جائے کہ وہ امام زمانہ علیہ السلام سے متعلق سوالوں کے جواب دیں اس سے ان کی معلومات میں قابل قدر اضافہ ہو گا۔
اس طرح کی محفلوں میں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنایا جائے تو یہ ایک اچھا فعل ہو گا۔
یہ تمام ذمہ داریاں اس امت پر غیبت کبریٰ میں عائد ہوتی ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی بے شمار ایسی ذمہ داریاں ہیں جو فرداً فرداً ہر شخص ہیں امت کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ہر لمحہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کریں امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے فضا سازگار کریں اور دعا کریں کہ امام زمانہ علیہ السلام بخیر و خوبی اور جلد از جلد ظہور کریں۔
اللهم عجل فرجه و سهل مخرجه واجعلنا من انصاره و اعوانه