خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض0%

خاندان کےاخلا ق و فرائض مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

خاندان کےاخلا ق و فرائض

مؤلف: غلام مرتضیٰ انصاری
زمرہ جات:

مشاہدے: 16826
ڈاؤنلوڈ: 3825

تبصرے:

خاندان کےاخلا ق و فرائض
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 60 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16826 / ڈاؤنلوڈ: 3825
سائز سائز سائز
خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض

مؤلف:
اردو

چوتھی فصل

خاندان کے متعلق معصومین کی سفارش

خاندان پر خرچ کریں

امام سجاد(ع) نے فرمایا: خدا تعالی سب سے زیادہ اس شخص پر راضی ہوگا جو اپنے اہل وعیال پر سب سے زیادہ خرچ کرتاہے

عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا ع قَالَ الَّذِي يَطْلُبُ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مَا يَكُفُّ بِهِ عِيَالَهُ أَعْظَمُ أَجْراً مِنَ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ -(۱) ۔

امام رضا سے منقول ہے کہ جو شخص اپنے اہل وعیال کے خاطر خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے کسب کرتا ہے تو اس کے لئے اس مجاہد سے زیادہ ثواب ملے گا ،جو راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں۔آپ ہی سے منقول ہے :

أَبِي الْحَسَنِ ع قَالَ يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى عِيَالِهِ كَيْلَا يَتَمَنَّوْا مَوْتَه -(۲) یعنی جس کو بھی خدا تعالی کی نعمتوں پر دست رسی حاصل ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے، تاکہ اس کی موت کی تمنا نہ کریں۔ امام صادق(ع) نے فرمایا: مؤمن خدا تعالی کے آداب پر عمل کرتا ہے جب بھی خدا تعالی اسے نعمت اور رزق میں وسعت عطا کرتاہے تو وہ بھی اپنے زیردست افراد پر زیادہ خرچ کرتاہے۔اور جب خدا وند نعمت کو روکتا ہے تو وہ بھی روکتا ہے-(۳) اور فرمایا: جو میانہ روی اختیار کرے گا اس کی میں ضمانت دونگا کہ وہ کبھی بھی مفلس نہیں ہوگا۔

پہلے گھر والے پھر دوسرے

ایک شخص نے امامباقر (ع) سے عرض کیا ، مولا !میرا ایک باغ ہے جس کی سالانہ آمدنی تین ہزار دینار ہے۔ جس میں سے دو ہزار دینار اہل و عیال پر خرچ کرتا ہوں ایک ہزار فقراء میں صدقہ دیتا ہوں۔ تو امام نے فرمایا: اگر دوہزاردینار سے اہل و عیال کا خرچہ پورا ہوتا ہے تو بہت اچھا ہے۔ کیونکہ تو اپنی آخرت کیلئے وہی کام کر رہے ہو جو تیرے مرنے اور وصیت کرنے کے بعد وارثوں نے کرنا تھا۔ تو اپنی زندگی میں اس سے نفع حاصل کر رہے ہو(۴)

اسراف نہ کرو

امام زین العبدین (ع)نے فرمایا: مرد کو چاہئے کہ اندازے سے خرچ کرے اور زیادہ تر اپنی آخرت کیلئے بھیجا کرے۔ یہ نعمتوں کا دوام اور زیادتی کیلئے زیادہ مفید ہے اور روز قیامت کیلئے زیادہ سود مند ہے۔

امام صادق(ع) نے فرمایا؛ میانہ روی ایسی چیز ہے جسے خدا تعالی بہت دوست رکھتا ہے۔ اور اسراف ایسی چیز ہے جس سے خدا تعالی نفرت کرتا ہے ، اسراف ایک دانہ کھجورہو یا بچا ہوا پانی کیوں نہ ہو۔(۵)

روز جمعہ کا پھل

قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع أَطْرِفُوا أَهَالِيَكُمْ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ بِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْفَاكِهَةِ كَيْ يَفْرَحُوا بِالْجُمُعَةِ(۶) المؤمنین (ع) نے فرمایا: اپنے اہل و عیال کیلئے ہر جمعہ کوئی نہ کوئی تازہ پھل کھلایا کرو تاکہ روز جمعہ سے خوش ہوں۔

خاندان کیساتھ نیکی اورلمبی عمر

امامصادق (ع)نے فرمایا: من حسن برّ ہ باھلہ زاداللہ فی عمرہ ۔جو بھی اپنے خاندان کیساتھ نیکی کرے گا خدا تعالی اس کی زندگی میں برکت عطا کریگا۔اس کے مقابلے میں پیامبر اکرم(ص) نے فرمایاوَ قَالَ ع مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَنْ ضَيَّعَ مَنْ يَعُولُ(۷) لعنتی ہے لعنتی ہے وہ شخص جو اپنے زیر دست افراد کے حقوق دینے میں کوتاہی کرتا ہے۔

خاندان اور آخرت کی بربادی

قال علی (ع) : لِبَعْضِ أَصْحَابِهِ لَا تَجْعَلَنَّ أَكْثَرَ شُغُلِكَ بِأَهْلِكَ وَ وُلْدِكَ فَإِنْ يَكُنْ أَهْلُكَ وَ وُلْدُكَ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَوْلِيَاءَهُ وَ إِنْ يَكُونُوا أَعْدَاءَ اللَّهِ فَمَا هَمُّكَ وَ شُغُلُكَ بِأَعْدَاءِ اللَّهِ(۸)

آپ نے اپنے بعض اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا: اپنے بیوی بچوں کے خاطر اپنے آپ کو زیادہ زحمت میں نہ ڈالو ، اگر وہ لوگ خدا کے صالح بندوں میں سے ہوں تو خدا تعالی اپنے نیک بندوں کو ضائع نہیں کرتا اور اگر وہ خدا کے دشمنوں میں سے ہوں تو کیوں خدا کے دشمنوں کے خاطر خود کو ہلاکت میں ڈالتے ہو۔ پس ایسا نہ ہو کہ ان کی خاطر ہم خدا اور دین خدا کو فراموش کر بیٹھیں اور حلال حرام کی رعایت کئے بغیر ان کو کھلائیں اور پلائیں۔

محبت خاندان کی کامیابی کا راز

خاندان کی بنیاد ،عشق و محبت پر رکھنا چاہئے کیونکہ محبت کا اظہار میاں بیوی کے درمیان آرام و سکون کا باعث بنتا ہے۔ جس کا نتیجہ دونوں کی سعادت اور خوش بختی کی صورت میں پیدا ہوتاہے۔ اورمحبت کی پہلی شرط ایک دوسرے کی روش اور سوچ کی شناخت ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو پہچان لیں کہ کن چیزوں سے خوش ہوتے ہیں اور کن چیزوں سے ناراض۔بیوی کومعلوم ہو کہ اس کا شوہرکس وقت تھکا ہوتا ہے اور کس وقت اس کے ساتھ گفتگو کرنا ہے۔اور یہ ایسے امور ہیں کہ ہر فرد میں مختلف ہیں ۔ معیار محبت یہ نہیں ہے کہ کسی بھی وقت غصہ میں نہ آئے بلکہ اگر گھر کا کوئی فرد غیر اخلاقی کام کربیٹھتا ہے تو سربراہ کو چاہئے کہ اپنی ناراضگی کا احساس دلائے اور نصیحت کرے۔ ہاں جب محبت زیادہ ہوجاتی ہے جسے عشق سے تعبیر کیا جاتا ہے غصّہ کرنے میں مانع بنتا ہے۔ لیکن کبھی بھی میاں بیوی ایک دوسرے سے ایسی گہری اور عمیق محبت کا انتظارنہ رکھے۔ میاں بیوی کے درمیان حد اعتدال میں محبت ہو تو کافی ہے۔ بہر حال جس قدر یہ محبت ارزشمند ہے اسی قدر اس کی حفاظت کرنا بھی ارزشمند ہے۔پس ہمیشہ میاں بیوی کو اس محبت کی مراقبت اور پاسداری کرنی چاہئے ، ایسا نہ ہو کہ گھر کی اندرونی اور بیرونی مشکلات ہمیں اس قدر مشغول کردے کہ صفا اور وفا سے دور ہوجائیں ۔ لذا دونوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے درمیان پیار و محبت ، صلح و صفا اور مہرووفا کاسماں پیداکرے۔

کلام معصوم میں محبت کے عوامل

ایمان محبت کا محور

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَ أَبْغَضَ لِلَّهِ وَ أَعْطَى لِلَّهِ فَهُوَ مِمَّنْ كَمَلَ إِيمَانُهُ -(۹) امام صادق(ع) فرماتے ہیں جو بھی خدا کے خاطر کسی سے محبت کرے یا دشمنی کرے اور خدا ہی کے خاطرکسی کو کچھ دیدے تو وہ ان افراد میں سے ہوگا جن کا ایمان کامل ہوگیا ہو۔ امام باقر (ع)نے فرمایا: اگر تو جاننا چاہتا ہے کہ تیرے اندر کوئی خوبی موجود ہے یا نہیں تو اپنے دل کی طرف نگاہ کرو ، اگر اہل اطاعت اور خدا کے فرمان بردار وں سے محبت اور اہل معصیت سے نفرت موجودہے تو سمجھ لینا کہ تو اہل خیر ہو اور تجھ میں خوبی موجود ہے۔

خوش آمدید کہنا اور استقبال کرنا

ایک دوسرے کو ہاتھ ملانا ، مصافحہ کرنا اور خوش آمدید کہنا محبت میں اضافے کا سبب ہے۔قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص:تَصَافَحُوا فَإِنَّ الْمُصَافَحَةَ تَزِيدُ فِي الْمَوَدَّةِ -(۱۰)

چنانچہ رسولخدا (ص)نے فرمایا : لوگو!ایک دوسرے کیساتھ مصافحہ کروکیونکہ مصافحہ محبت میں اضافہ کرتا ہے۔

حسن ظن رکھنا

امیر المؤمنین (ع)نے فرمایا:من حسن ظنّه بالناس حازمنهم المحبة -(۱۱)

جو بھی لوگوں پر حسن ظن رکھتا ہے ان کی محبت کو اپنے لئے مخصوص کرتا ہے۔یعنی دوسروں کا دل جیت لیتا ہے۔

بے نیاز ی کا اظہار کرنا

امیرالمؤمنین (ع)نے فرمایا: لوگوں کے ہاتھوں میں موجود مال و متاع سے بے رغبت ہو کر اپنے کو ہر دل عزیز بناؤ(۱۲)

جب ایک شخص پیامبر اسلام (ص) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ (ص)! کیا کروں کہ لوگ مجھ سے محبت کریں؟ آپنے فرمایا: لوگوں کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے مال و متا ع پر نظر نہ جماؤ۔ اور طمع ولالچ نہ کر،تو تم ہر دل عزیز ہو جاؤ گے(۱۳)

سخاوت کرنا

حضرت علی (ع) نے فرمایا:لسخاء يكسب المحبة و يزين الأخلاق يمحص الذنوب و يجلب محبة القلوب -(۱۴) ۔ یعنی سخاوت محبت پیدا کرتی ہےاوراخلاق کی زینت ہے، اورگناہوں کو پاک کرتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں محبت ڈالتی ہے۔

رُوِيَ أَنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَى مُوسَى ع أَنْ لَا تَقْتُلِ السَّامِرِيَّ فَإِنَّهُ سَخِيٌّ (۱۵)

خدا تعالی نے حضرتموسی(ع) پر وحی نازل کی کہ سامری کو قتل نہ کرو،کیونکہ وہ سخاوت مند ہے۔ اور اگر یہی سخاوت مندی ایک مسلمان یا مؤمن میں ہوتو کتنی بڑی فضیلت ہے۔

امام صادق(ع) نے فرمایا:اے معلّی اپنے بھائیوں کی خدمت کرکے ان کی محبت اور دوستی حاصل کر،کیونکہ خدا تعالی نے محبت کو بخشش میں اور دشمنی کو عدم بخشش میں رکھا ہے۔(۱۶)

____________________

۱ ۔ الکافی ،ج۵، ص۸۸۔۲ ۔ الکافی ، ج۴ ، ص۱۱۔۳ ۔ ھمان، ص ٢٥٩۔۴ ۔ ہمان،ص٢٥٧۔۵ ۔ ہمان،ج٢٥، ص٢٤٩ ۔ ۲۵۰۔

۶ ۔ بحار، ج١٠١،ص ٧٣۔۷ ۔ من لایحضرہ ،ج۳، ص ۵۵۵۔۸ ۔ بحار ج ۱۰۱، ص ۷۳۔ ۹ ۔ الکافی،ج۲، ص۱۲۴۔

۱۰ ۔ مستدرک الوسائل،ج۹، ص۵۷۱۱ ۔ غرر الحکم،ص۲۵۳ ۔۱۲ ۔ دار السلام ،ص٤١٣۔۱۳ ۔ سفینة البحار،باب سجد۔

۱۴ ۔ غرر الحکم،ص۳۷۸۔۱۵ ۔ وسائل الشیعہ،ج۹، ص۱۸۔۱۶ ۔ ہمان، ص ٤٢١۔

پانچویں فصل

خاندانی اختلافات اور اس کا عل

خاندانی اختلافات

جس طرح مختلف معاشرے اورممالک ایک جیسے نہیں ہوتے اسی طرح سب خاندان کے افراد بھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ بعض اوقات اختلافات اور مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔اور دونوں میاں بیوی ایک دوسرے پر غم و غصہ نکالنا شروع کرتے ہیں۔اس طرح گلے شکوے سے اپنے سینوں کو خالی کرکے اپنے کو ہلکا کرتے ہیں۔کبھی کبھی یہ گلے شکوے بھی مفید ثابت ہوتے ہیں۔اگر اظہار کا موقع نہ ملے تو شعلے کی مانند انسان کو اندر سے جلاتے ہیں ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جب میاں بیوی ایک دوسرے کی کمزوریوں اور خامیوںکو درک کرلیتے ہیں تو ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہذا گلے شکوے کو چھپانا مسئلہ کا حل نہیں ہے ،بلکہ ان پر پردہ ڈالنا مشکلات میں مزید اضافے کاباعث بنتا ہے۔۔لیکن دونوں کو احتیاط کرنا چاہئے کہ ان اعتراضات اور گلے شکوے کو انتقام جوئی اور جھگڑا فساد کی بنیاد قرار نہ دیں۔بلکہ ان کو باہمی تفاہم اور عشق و محبت کی ایجاد کیلئے زمینہ قرار دیں۔ کیونکہ زندگی کی لطافت اور خوشی ،صلح و صفا میں ہے نہ جنگ و جدل اور فسادمیں۔یہاں دونوں کو جان لینا چاہئے کہ ازدواجی زندگی کی بنیاد پیار و محبت اور ایثار و قربانی کا جذبہ ہے۔

خواتین کو جاننا چاہئے کہ اگر مردوں کا جہاد محاذوں پر لڑنا اور دشمن پر حملہ آور ہونا اوردشمن کے تیروں کو اپنے سینوں پر لینا ہے تو خواتین کا جہاد جتنا ممکن ہو سکے اپنے شوہر کی خدمت کرنا اور بچوں کی تربیت کرنا ہے ۔ امام موسی کاظم(ع)نے فرمایا:جِهَادُ الْمَرْأَةِ حُسْنُ التَّبَعُّل‏ -(۱) عورت کا جہاد اچھی شوہر داری ہے ۔

جب اسماء بنت یزید کو مدینہ کی عورتوں نے اپنا نمائندہ بنا کرپیامبر اسلام (ص)کے پاس بھیجا اور اس نے عرض کی : یا نبی اللہ ! خدا نے آپ کو مقام نبوت پر فائز کیا ہم آپ پر ایمان لے آئیں، اور ہم گھروں میں بیٹھ کر اپنے شوہروں کی خدمت اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں جبکہ مرد لوگ نماز جماعت میں شریک ہوتے ہیں، بیماروں کی عیادت کیلئے جاتے ہیں ،تشییع جنازہ میں شرکت کرتے ہیں،جھاد میں حصہ لیتے ہیں، مراسم حج کی ادائیگی کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر ثواب کماتے ہیں اور ہم بیچاری عورتیں مردوں کی غیر موجودگی میں ان کے اموال کی حفاظت ،بچوں کی تربیت، گھر کی صفائی اور کپڑے دھونے میں مصروف رہتی ہیں،کیا ہم بھی ان کے ثواب میں برابر کی شریک ہیں ؟ پیامبر اسلام (ص)نے اپنے اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا :کیاتم لوگوں نے کبھی دینی مسائل اور مشکلات میں کسی خاتون کی زبان سے اس سے بہتر کوئی گفتگوسنی ہے؟

اصحاب نے عرص کیا یا نبی اللہ! اس قدر فصیح و بلیغ گفتگو آج تک کسی خاتون سے نہیں سنی تھی۔ اس کے بعد پیامبر(ص)نے فرمایا: جاؤ خواتین سے کہہ دو ، کہ اگر تم اپنے شوہروں کے ساتھ حسن سلوک کروگی اور اپنی ذمہ داری اچھی طرح انجام دوگی اور اپنے شوہروں کو خوش رکھنے کی کوشش کریں گی تو ان کے تمام اجر اور ثواب میں تم بھی برابر کی شریک ہونگی۔

یہ سن کر اسماء بنت یزید اللہ اکبر اور لاالہ الا اللہ کا نعرہ بلند کرتی ہوئی پیامبر اسلام (ص) کی خدمت سے اٹھی اور مدینہ کی عورتوں کو یہ خوش خبری سنادی-(۲)

اس حقیقت کی طرف مرد اور عورت دونوں کو توجہ کرنی چاہئے کہ عورتوں کے وجود میں جنگی ، سیاسی ، اور ورزشی میدانوں میں بہادری نہیں پائی جاتی بلکہ انہیں اسلام نے ریحانۂ زندگی یعنی زندگی کی خوشبو کا لقب دیا ہے۔ جس میں خوبصورت پھولوں کی طرح لطافت اور طراوت پائی جاتی ہے۔ اور اس لطافت اور طراوت کو ظالم ہاتھوں میں نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ پھول کی جگہ گلدستہ ،گلدان اور انس و محبت والی محفلیں ہواکرتی ہیں۔

امیر المؤمنین (ع)نے فرمایا:فَإِنَّ الْمَرْأَةَ رَيْحَانَةٌ وَ لَيْسَتْ بِقَهْرَمَانَةٍ -(۳) ۔

بیشک عورت گلزار زندگی کا پھول ہے نہ پہلوان۔لیکن یاد رکھو کہ مرد حضرات اپنی جسمانی قدرت اور طاقت کے زور پر کبھی بھی اس گلستان خلقت کے پھولوں کوجنہیں ما ں،بہن،بیٹی اور شریک حیات کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں، جو طراوت اور شادابی کیساتھ کھلا کرتی ہیں ؛اپنے مکہ، طمانچہ اور ٹھوکر کا نشانہ نہ بنائیں ۔دین مقدس اسلام مردوں کو اپنی ناموس خصوصاً شریک حیات کے بارے میں خبردار کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو اس لطیف اور نازک بیوی کو جوتیری زندگی کی خوشی ،سکون اور آرام کا باعث ہے ، ضائع کرے ۔:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص إِنَّمَا الْمَرْأَةُ لُعْبَةٌ مَنِ اتَّخَذَهَا فَلَا يُضَيِّعْهَا(۴) پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا عورت گھر میں خوشی کا سبب ہے ایسا نہ ہو کہ کوئی اسے اپنے تحویل میں لے لے اور اسے ضائع کردے۔

خاندانی اختلافات کا علاج

گھریلو اختلافات کا طولانی ہونا ایک سخت بیماری ہے جو خاندان کے جسم پر لاحق ہوتی ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا اور علاج کرنا بہت ضروری ہے۔

۱. پہلا علاج تو یہ ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے وضائف کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں ۔

۲. دوسرا علاج توقّعات کو کم کرنا ہے حقیقی اکسیر اوردوایہی ہے اور یہ شرطیہ علاج ہے۔ صرف ایک دفعہ آزمانا شرط ہے۔

۳. تیسرا علاج اپنی خواہشات نفسانی ، خودخواہی اور غرور و خودپسندی کے خلاف قیام کرنا ہے۔ جس سے نہ صرف اختلافات ختم ہوسکتی ہے بلکہ موجودہ اختلافات صلح و صفائی میں بدل سکتی ہے۔

۴. چوتھا علاج ایک دوسرے کے اعتراضات اور اشکالات کو سننا اور موافقت اور مفاہمت کیلئے قدم اٹھانا ۔چنانچہ قرآن مجید مردوں کو نصیحت کرتا ہے کہ طبیب اور حکیم کی طر ح علاج اور معالجہ کریں۔ اور گھریلو ماحول میں جزّابیت ، طراوت اور شادابی کو برقرار رکھیں۔

قرآن مجید کہہ رہا ہے کہ اگر بیوی نے نافرمانی شروع کی تو فوراً مارنا پیٹنا شروع نہ کریں بلکہ پہلے مرحلے میں وعظ و نصیحت کرکے اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کریں اور اگر پھر بھی نہ مانے تو دوسرا راستہ اختیار کریں۔یعنی ایک ساتھ سونا چھوڑدیں۔ اور پھر بھی بات نہ مانے تو مار کر اسے مہار کرلو۔ لیکن گھریلو اور خاندانی زندگی میں بہترین قاعدہ یہ ہے کہ شوہر مظہر احسان ہو ۔ بہترین انسان وہ ہے کہ اگر عورت خطا اور نافرمانی کا مرتکب ہو جائے تو اسے معاف کرتے ہوئے اس کی اصلاح شروع کرے۔اور راہ اصلاح اس سے دوری اختیار کرنا نہیں جو محبت اور آشتی کی راہوں کو بند کرتا ہوبلکہ صحیح راستہ وہی ہے جو محبت اور آشتی کی راہوں کو کھول دے۔قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع مَا حَقُّ الْمَرْأَةِ عَلَى زَوْجِهَا الَّذِي إِذَا فَعَلَهُ كَانَ مُحْسِناً قَالَ يُشْبِعُهَا وَ يَكْسُوهَا وَ إِنْ جَهِلَتْ غَفَرَ لَهَا -(۵) ۔ کسی نے امام صادق(ع) سے سوال کیا کہ بیوی کا مرد پر کیا حق ہے جسے اگر وہ ادا کرے تو مظہر احسان بن جائے؟ امام نے فرمایا : اسے کھانا دے بدن ڈھانپنے کیلئے کپڑا دے اور اگر کوئی جہالت یا نافرمانی کرے تو اسے معاف کردے۔

اوپر آیہ شریفہ میں تیسرے مرحلہ پر مارنے کا حکم آیا ہے ،لیکن مارنے کی کوئی حد بھی مقرر کی ہے یا نہیں؟یہ تو آپ جانتے ہیں کہ جس چیز کی اطاعت کرنا عورت پر واجب ہے وہ فقط مباشرت اور ہمبستری کیلئے تیار رہنا ہے کہ شوہر جب بھی اس چیز کا تقاضا کرے عورت تیار رہے اور انکار نہ کرے۔باقی کوئی کام بھی اس کے ذمہ نہیں ہے یہاں تک کہ بچے کو دودھ پلانا بھی۔ اور شوہر کو حق نہیں پہنچتا کہ اسے جھاڑو لگانے ، کپڑے دہلانے اور کھانا پکانے پر مجبور کرے بلکہ یہ وہ کام ہیں جو باہمی تفاہم اور رضامندی سے انجام دیے جائیں۔ورنہ شوہر کو ان کاموں میں مار پیٹ کرکے اپنی بات منوانا تو دور کی بات ،مواخذہ تک کرنا جائز نہیں ہے۔مرد کو یہ بھی جان لینا چاہئے کہ بیوی کو کنیز اور نوکرانی کی حیثیت سے گھر نہیں لائی گئی ہے بلکہ بحیثیت ہمسراور یار و مددگارلائی گئی ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ مار پیٹ کی حد کیا ہے ؟جواب یہ ہے کہ یہاں بھی مرد مارپیٹ کے حدود کو معین نہیں کرسکتا بلکہ اسلام نے اس کی مقدار اور حدود کو معین کیا ہے ۔اس قسم کی مار پیٹ کو ہم تنبیہ بدنی کے بجائے نوا زش اور پیار سے تشبیہ دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔

اس سلسلے میں قرآن مجید میں ایک بہت دلچسپ اور سبق آموز داستان موجودہے جوحضرت ایوب اور ا ن کی زوجہ محترمہ کا قصہ ہے: حضرت ایوب A طویل عرصے تک بیمار رہے آپ کا اللہ اور اپنی زوجہ کے سوا کوئی اور سہارا نہ رہا۔وہ خادمہ سخت پریشان تھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطان ملعون نے آکر کہا: اگر ایوب مجھ سے شفاء طلب کرے تو میں کوئی ایسا کام کروں گا کہ ایوب ٹھیک ہوجائے۔ جب یہ کنیز خدا اپنے شوہر کے پاس آئی اور اس بات کا اظہار کیا تو حضرت ایوب A(۶) سخت ناراض ہوئے اور قسم کھائی کہ اگر میں ٹھیک ہوجاؤں تو تجھے سو کوڑے ماروں گا۔درحالیکہ آپ کی مہربان بیوی کے علاوہ کوئی اور دیکھ بھال کرنے والا نہ تھا۔ اور جب آپ بیماری سے شفایاب ہوگئے تو خدا نے انھیں دستور دیا:وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ

اور ایوب A تم اپنے ہاتھوں میں سینکوں کا مٹھا لے کر اس سے مار و اور قسم کی خلاف ورزی نہ کرو - ہم نے ایوب A کو صابر پایا ہے - وہ بہترین بندہ اور ہماری طرف رجوع کرنے والا ہے ۔ صبر ایوب دنیا میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے اور روایات کی بنا پر انہوں نے واقعاً صبر کیا ہے ۔ اموال سب ضائع ہوگئے اولاد سب تلف ہوگئی ۔ اپنے جسم میں بھی طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوگئیں لیکن مسلسل صبر کرتے رہے ۔ ا ور کبھی فریاد نہ کی۔ ۔

اس واقعہ سے ہمیں جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی ایسا موقع آئے تو ہاتھ اٹھانے سے پہلے یہ سوچ کراسے درگذر کرے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن ہمیں معاف کریگا۔

جہنمی مرد

رسول اللہ(ص)نے فرمایا :مَنْ أَضَرَّ بِامْرَأَةٍ حَتَّى تَفْتَدِيَ مِنْهُ نَفْسَهَا لَمْ يَرْضَ اللَّهُ لَهُ بِعُقُوبَةٍ دُونَ النَّارِ لِأَنَّ اللَّهَ يَغْضَبُ لِلْمَرْأَةِ كَمَا يَغْضَبُ لِلْيَتِيم‏ -(۷)

ہر وہ شخص جو اپنی بیوی کو اس قدر اذیت و آذار دے کہ وہ اپنا حق مہر سے دست بردار ہونے پر مجبور ہو جائے تو خدا تعا لی اس کیلئے آتش جہنم سے کم عذاب پر راضی نہیں ہوگاکیونکہ خداوند عورت کے خاطر اسی طرح غضبناک ہوتا ہے جس طرح یتیم کے خاطر غضبناک ہوتا ہے ۔

بس ہمیں چاہئے کہ اپنی آخرت کی فکر کرے۔ ثانیاًمرد اپنی مردانگی دکھاتے ہوئے اسے کچھ اضافی چیز دیکر آزاد کرے تاکہ اپنا وقار اور تشخّص برقرار رکھ سکے۔ چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ حضرت سلیمان A نے دیکھا کہ ایک چڑا چڑیا سے کہہ رہا ہے کہ اگرتوچاہے تو میں تخت سلیمان A کوتیرے قدموں میں نچھاور کردوں۔ جب یہ باتیں حضرت سلیمان۷ نے سنی تو فرمایا: کیا تجھ میں اتنی ہمّت ہے؟ توچڑے نے کہا یا نبی اللہ! اتنی ہمت تو کہاں ۔ لیکن مادہ کے سامنے نر کو اپنا وقار برقرار رکھنا چاہئے۔

جن ہاتھوں سے باہوں میں لیتے ہو!

پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا : َقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص أَ يَضْرِبُ أَحَدُكُمُ الْمَرْأَةَ ثُمَّ يَظَلُّ مُعَانِقَهَا ؟(۸)

یعنی کیسے بیوی کو ان ہاتھوں سے باہوں میں لیتے ہو جن سے ان پر تشدد کرتے ہو؟! اور کیا تم میں سے کوئی ہے جو بیوی کو مارے اور پھراسے گلے لگائے؟!

بہت ہی احمقانہ رویّہ ہے کہ شخص اپنے ہاتھوں کو اپنی شریک حیات کے اوپر کبھی غیض و غضب اور مار پیٹ کا ذریعہ بنائے اورکبھی انہی ہاتھوں سے اپنی جنسی خواہشات پوری کرنےکیلئے اسے باہوں میں لے!

یہ مارنا پیٹنا بڑا گناہ ہے کیونکہ مارنے کا ہمیں حق نہیں ہے، اور مارنے کی صورت میں شریعت نے دیت واجب کردیا ہے۔جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

۱. شوہر کے مارنے کی وجہ سے بیوی کے چہرے پر صرف خراش آجائے تو ایک اونٹ دیت واجب ہے۔

۲. اگر خون بھی جاری ہوا تو دو اونٹ واجب ہے۔

۳. اگر بیوی کا چہرہ مارنے کی وجہ سے کالا ہوجائے تو چھ مثقال سونا واجب ہے۔

۴. اگر چہرہ سوجھ جائے تو تین مثقال سونا واجب ہے۔

۵. اگر صرف سرخ ہوگیاتو ڈیڑھ مثقال سونا واجب ہے۔ ہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ان دیات کے ساتھ قصاص لینے کا بھی حق رکھتی ہے۔

مار نا اور گالی دینا جہالت

کس قدر نادان اور جاہل ہیں وہ لوگ جو اپنی شریک حیات کومارتے اور گالی دیتے ہیں۔ایسے شوہر پر تعجب کرتے ہوئے رسول اسلام (ص) نے فرمایا:إِنِّي أَتَعَجَّبُ مِمَّنْ يَضْرِبُ امْرَأَتَهُ وَ هُوَ بِالضَّرْبِ أَوْلَى مِنْهَا لَا تَضْرِبُوا نِسَاءَكُمْ بِالْخَشَبِ فَإِنَّ فِيهِ الْقِصَاصَ وَ لَكِنِ اضْرِبُوهُنَّ بِالْجُوعِ وَ الْعُرْيِ حَتَّى تُرِيحُوا [تَرْبَحُوا] فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَة -(۹) ۔

میں اس شخص پر تعجب کرتا ہوں جو اپنی بیوی کو مارتاہے جبکہ وہ خود زیادہ سزا کا مستحق ہے۔ہاں مسلمانو!اپنی بیویوں کو لاٹھی سے نہ مارنا اگر ان کو تنبیہ کرنے پر مجبور ہوجائے تو انہیں بھوکے اور ننگے رکھ کر تنبیہ کرو۔ یہ طریقہ دنیا اور آخرت دونوں میں تیرے فائدے میں ہے۔

اور یہ حدیث اس آیہ شریفہ کی تفسیرہے جس میں فرمایا :وَ الَّاتىِ تخََافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَ اهْجُرُوهُنَّ فىِ الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُواْ عَلَيهِْنَّ سَبِيلاً إِنَّ اللَّهَ كاَنَ عَلِيًّا كَبِيرًا .(۱۰)

اور جن عورتوں کی سرکشی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اگر باز نہ آئیں تو خواب گاہ الگ کردو(اور پھر بھی باز نہ آئیں تو )انہیں مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو ان کے خلاف بہانہ تلاش نہ کرو کہ خدا بلنداور بزرگ ہے ۔

____________________

۱ ۔ تفسیر المیزان،ج٤،ص٣٧٣۔،الکافی،ج۶، ص۹۔

۲ ۔ ہمان

۳ ۔ بحار الانوار،ج۷۴، ص۲۱۵۔

۴ ۔ ھمان

۵ ۔ وسائل الشیعہ،ج ۲۱، ص۵۱۱۔

۶ سورہ ص ۴۴۔

۷ ۔ وسائل الشیعہ،ج۲۲ ص ۲۸۲۔

۸ وسائل ،ج ۲۰ص ۱۶۷۔

۹. بحار،ج ۱۰۰، ص۲۴۹۔

۱۰ نساء ۳۴۔

شوہر میں بیوی کی پسندیدہ خصوصیات

مال و دولت

کیونکہ یہ گھریلو آرام وسکو ن اور زندگی میں رونق کا سبب بنتا ہے ، لہذا لوگوں کو چاہئے کہ معقول اور مشروع طریقے سے رزق و روزی کیلئے کوشش اور تلاش کریں۔اور گھر والوں کی ضروریات پوری کریں۔

قدرت اور توانائی

کیونکہ عورت مرد کو اپنا نگہبان اور محافظ سمجھتی ہے اور محافظ کو قوی ہونا چاہئے۔

باغیرت ہو

کیونکہ عورت چاہتی ہے کہ اس کا شوہر ہر کام میں دوسرے مردوں سے کمزور نہ رہے۔ خواہ دینی امور میں ہوں یا دنیوی امور میں ۔ اگر غیرت نہ ہو تو وہ شخص یقینا سست ہوگا۔ حدیث میں ملتا ہے کہ جس میں غیرت نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔

مستقل زندگی گزارے

یعنی بیوی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر خود مستقل زندگی کرے اور کسی پر محتاج نہ ہو ، تاکہ دوسرے کی منّت و سماجت نہ کرنا پڑے ۔

معاشرے میں معززہو

یہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے لیکن بیوی کی زیادہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شوہر معاشرے میں معزز ہو ۔ اور اس کی عزت کو اپنی عزت سمجھتی ہے۔

نرم مزاج ہو

عورت کبھی نہیں چاہتی کہ اس کا شوہر خاموش طبیعت ہو کیونکہ خاموش بیٹھنے سے عورت کو سخت تکلیف ہوتی ہے لہذا وہ چاہتی ہے کہ اس کے ساتھ نرم لہجے میں میٹھی میٹھی باتیں کرتا رہے ۔

صاف ستھرا رہے

یہ بات ہر انسان کی طبیعت میں اللہ تعالی نے ودیعت کی ہے کہ وہ صفائی کو پسند کرتا ہے اور گندگی اور غلاظت سے نفرت کرتا ہے ۔اس بارے میں بہت سی روایات موجود ہیں : النضافة من الایمان۔ صفائی نصف ایمان ہے ۔ عورت بھی اپنے شوہر کو پاک و صاف دیکھنا پسند کرتی ہے، لہذا مردوں کو چاہئے کہ اپنی داڑھی اور بالوں کی اصلاح کرتے رہیں۔خوشبو استعمال کریں ۔سیرت پیامبر (ص)میں بھی ہمیں یہی درس ملتاہے۔

خوش سلیقہ ہو

وہ چاہتی ہے کہ اگر وہ کوئی کام کرے تو اس کوشوہر سراہاکرے اور اس سے غافل نہ رہے۔اگر بچّے گھر میں بد نظمی پیداکریں تو اس کی اصلاح کرے۔ اور منظّم کرے۔

مؤمن ہو

یہ ساری صفات میں سب سے اہم ترین صفت ہے ۔ اگر ایمان ہے تو سب کچھ ہے اور اگر ایمان نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ۔کیونکہ یہی ایمان ہے جو تمام خوبیوں اور اچھائیوں کی جڑ ہے۔ لہذا خدا تعالی سے یہی دعا ہے کہ ہمیں بھی ایمان کے زیور سے آراستہ اور مزیّن فرمائے۔

آمین یا رب العالمین ۔