خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض0%

خاندان کےاخلا ق و فرائض مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

خاندان کےاخلا ق و فرائض

مؤلف: غلام مرتضیٰ انصاری
زمرہ جات:

مشاہدے: 16806
ڈاؤنلوڈ: 3806

تبصرے:

خاندان کےاخلا ق و فرائض
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 60 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16806 / ڈاؤنلوڈ: 3806
سائز سائز سائز
خاندان کےاخلا ق و فرائض

خاندان کےاخلا ق و فرائض

مؤلف:
اردو

دوسری فصل

اسلام میں عورت کی قدر و منزل

اسلام نے بھی بالکل مناسب موقع پر کہ جب تمام جوامع بشری مختلف قسم کے انحرافات میں گرے ہوئے تھے بعض جامعہ یا سوسایٹیزکثرت شہوت کی وجہ سے عورت کو اپنا معبود بناچکے تھے تو بعض جامعہ غفلت کی وجہ سے عورت کو فاقد ارادہ حیوان سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ عورت روح انسانی سے مبرّا ہے لہذا قابل تقدیر نہیں ہے۔ اور یہ مظلوم عورت بھی جہالت اور نادانی اور ناچاری کی وجہ سے خاموش رہتی۔

پیامبر اسلام (ص)،رحمة للعالمین بن کر خدا کی طرفسے مبعوث ہوئے اور ان تمام غلط اور نا روا رسومات اور انسان کی ناجائز تجاوزا ت کو ختم کرکے آپ نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا کہ عورت کو اپنا حق اور مرد کو اپنا حق دیکر ظلم و ستم اور بے انصافی کا خاتمہ کیا ۔

پوری کائنات میں اسلام اولین مکتب ہے جو مرد اورعورت کیلئے برابر حقوق کا قائل ہوا۔ اور عورت کو حق مالکیت اور استقلال عطا کیا کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرے۔ نہ صرف حق دیا بلکہ اس سے بھی بالا تر کہ مرد سے بھی زیادہ عورت کا احترام اور اس کی قدر و منزلت کا قائل ہوا۔ اور فرمایا: مرد کو عورت پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے خدا کے نزدیک سب برابر ہیں فضیلت ۔ اور برتری کا معیار صرف تقوی الہی قرار دیکر فرمایا:يَأَيهَُّا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكمُ مِّن ذَكَرٍ وَ أُنثىَ‏ وَ جَعَلْنَاكمُ‏ْ شُعُوبًا وَ قَبَائلَ لِتَعَارَفُواْ إِنَّ أَكْرَمَكمُ‏ْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَئكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ -(۱) انسانو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگارہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہےاس آیہ شریفہ سے اس فاسد عقیدہ کا بھی قلع قمع ہوجاتا ہے کہ بعض جامعہ قائل تھے کہ عورت قیامت کے دن بہشت میں داخل نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ وہ فاقد روح انسانی ہے اور وہی انسان کو بہشت سے نکالنے والی ہے۔ وہ شیطان کی نسل ہے جسے صرف مرد کی وجود کیلئے مقدمہ کے طور پر خدا نے خلق کیا ہے۔

دوسری آیة میں ارشاد فرمایا:( خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا )(۲) یعنی عورت بھی مرد کا ہم جنس اور بدن کا حصہ ہے۔اور فرمایا:( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَآئِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ )(۳) عورت تمھارے لئے عیوب کو چھپانے کیلئے لباس ہے جس طرح تم ان کیلئے عیوب کو چھپانے کا وسیلہ ہے۔ اس لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ جب عورت کو کسی چیز کا مالک نہیں سمجھتا تھا اس وقت فرمایا :( وَلاَ تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ اللّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْن ) ۔(۴)

کہ وہ بھی اپنے کسب کئے ہوئے اموال پر اسی طرح مالک اور مختار ہے جس طرح مرد مالک ہے۔

جب عورت کو اجتماعی امور میں شریک ہونے کا حق نہیں دیا جارہا تھا اس وقت اسلام نے عورت کو بھی مرد کے برابر ان اجتماعی امور میں شریک ٹہھراتے ہوئے فرمایا :( وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ )(۵)

اس طرح متعدد آیات اور روایات میں عورت کی قدر ومنزلت کو کبھی بیٹی کی حیثیت سے تو کبھی ماں کی ، کبھی بیوی کی حیثیت سے تو کبھی ناموس اسلام کی ، دنیا پر واضح کردیا ہے ۔ کیونکہ ہر انسان کیلئے ناموس کی زندگی میں یہ تین یا چار مرحلہ ضرور آتا ہے۔ یعنی ایک خاتون کسی کی ماں ہے تو کسی کی بیٹی۔اور کسی کی بہن ہے تو کسی کی بیوی ہوا کرتی ہے۔ اسلام نے بھی ان تمام مراحل کا خا ص خیال رکھتے ہوئے عورت کی شخصیت کو اجاگر کیا ہے۔ ہم ان مراحل کو سلسلہ وار بیان کریں گے، تاکہ عورتوں کے حقوق کو بہتر طریقے سے سمجھ سکے اور اس میں کوتاہی نہ ہونے پائے۔

اسلام میں عورت کا مقام

پیامبر اسلام (ص) ہمیشہ عورتوں کیساتھ مہر و محبت اور پیار کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:حُبِّبَتْ إِلَيَّ النِّسَاءُ وَ الطِّيبُ وَ جُعِلَتْ فِي الصَّلَاةِ قُرَّةُ عَيْنِي ‏-(۶) میں دنیا میں تین چیزوں سے زیادہ محبت کرتا ہوں : عطر ،عورت اور نماز کہ جو میری آنکھوں کی روشنائی ہے-(۷)

یاد رہے آپ (ص) کا یہ فرمانا شہوت وغرائز جنسی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ آپ (ص) ایسے فرامیں کے ذریعے عورت کی قدر و منزلت اور شخصیت کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اس عرب جاہلیت کے دور میں عورتوں کی کوئی قدر وقیمت نہیں تھی۔ ہر قسم کے حقوق سے محروم تھی ۔ ان کی کسی اچھے عمل کو بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے ۔ لیکن جب اسلام کا ظہور ہوا جس نے نیکی میں مرد اور عورت کو برابر مقام عطا کیا ۔مؤمنہ عورت کے بارے میں امامصادق (ع)فرماتے ہیں:المرأة الصالحة خیر من الف رجل غیر صالحٍ(۸) ایک پاک دامن عورت ہزار غیر پاک دامن مرد سے بہتر ہے۔اسی طرح ان سے محبت کرنے کو ایمان کی نشانی بتاتے ہوئے فرمایا:عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ مَا أَظُنُّ رَجُلًا يَزْدَادُ فِي الْإِيمَانِ خَيْراً إِلَّا ازْدَادَ حُبّاً لِلنِّسَاءِ(۹) جب بھی ایمان میں اضافہ ہوتا ہے تو عورت سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔

اسلام کی نگاہ میں ماں کا مقام

اسلام کی نگاہ میں ماں کا مقام بہت بلند ہے خدا تعالی کے بعد دوسرا مقام ماں کو حاصل ہے۔چنانچہ رسولخدا (ص)سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں: بہر بن حکیم نے اپنے دادا سے نقل کیا ہے :جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ص فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَبَرُّ قَالَ أُمَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أَبَاكَ(۱۰) ۔

راوی کہتا ہے کہ تین مرتبہ میں نے سوال کیا کس کیساتھ نیکی کروں ؟ تو آپ نے فرمایا: ماں کیساتھ نیکی کر، اور چوتھی بار جب پوچھا تو فرمایا : باپ کیساتھ۔یعنی جب سوال ہوا کہ سارے خلائق میں کون سب سے زیادہ نیکی اور حسن معاشرت کا مستحق ہے؟ تو فرمایا: ماں ماں ماں اور چوتھی مرتبہ فرمایا: باپ۔ اور مزید فرمایا :الجنّة تحت اقدام الامّهات ۔ ماؤں کے قدموں تلے جنت ہے۔اور فرمایا: اذا دعاک ابواک ، فاجب امّک۔-(۱۱) اور جب ماں باپ دونوں ایک ساتھ تمھیں بلائیں تو ماں کو مقدّم رکھو۔

اسلام کی نظر میں بیٹی کا مقام

بغیر مقدمہ کے احادیث اور ان کا ترجمہ بیان کرتا چلوں جنہیں پڑھ کر ہر مسلمان اپنے اندر خوشی اور مسرت کا احساس کرنے لگتا ہے کہ واقعا ہم ایسے رہبر اسلام کے پیروکار ہیں جہاں سے فقط مہر ومحبت ،شفقت، احسان اور نیکی کا درس ملتا ہے۔ بیٹی کی شأن میں فرماتے ہیں :خیر اولادکم البنات و یمن المرأة ان یکون بکرها جاریة -(۱۲) یعنی بہترین اولاد بیٹی ہے اور عورت کی خوش قدمی کی علامت یہ ہے کہ پہلا فرزند بیٹی ہو۔اسی طرح امام صادق نے فرمایا:عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ الْبَنَاتُ حَسَنَاتٌ وَ الْبَنُونَ نِعْمَةٌ فَالْحَسَنَاتُ يُثَابُ عَلَيْهَا وَ النِّعْمَةُ يُسْأَلُ عَنْهَا -(۱۳) ۔

بیٹیاں حسنہ ہیں اور بیٹے نعمت ہیں، اور حسنات پر ثواب دیاجاتا ہے اور نعمتوں پر حساب لیا جاتا ہے۔ابن عباس پیامبر اسلام (ص)سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا؛ وہ شخص جس کے ہاں لڑکی ہو اورکبھی اس کی اہانت نہ کی ہو اور بچّے کو اس بچی پر ترجیح نہ دی ہو تو خداوند اسے بہشت میں جگہ عطا کریگا۔ اور فرمایا : کوئی شخص بازار سے بچوں کیلئے کوئی چیز خریدے اور گھر پر آئے تو سب سے پہلے بچی کو دیدو بعد میں بچے کو۔ جس باپ نے بچیوں کو خوش کیا تو اسے خوف خدا میں رونے کا ثواب عطا کریگا ، یعنی قرب الہی حاصل ہوگا-(۱۴)

رسول گرامی اسلام (ص)نے فرمایا: جس شخص نے بھی تین بیٹیوں یا تین بہنوں کا خرچہ برداشت کیا تو اس پر بہشت واجب ہے-۱۵

جب امیرالمؤمنین (ع)حضرت فاطمہ(س) کی خواستگاری کیلئے تشریف لائے توباوجود اس کے کہ قرآن مجید نے صریحت پیامبر(ص) کو مؤمنین کی جان ومال میں تصرف کرنے کی مکمل طور پر اجازت دی ہے ،فاطمہ(س) کی عظمت کی خاطر آپ سے مشورہ کیلئے تشریف لاتے ہیں۔جب رضایت طلب کرنے کے بعد ہی علی (ع) کو ہاں میں جواب دیتے ہیں ۔جس سے دور جاہلیت میں زندگی گذارنے والوں پر واضح ہوگیا کہ عورتوں کو ان کا حق کس طرح دیا جاتا ہے۔اور یہ بھی بتا دیا کہ مشترک زندگی کا آغاز اور ازدواج کیلئے اولین شرط لڑکی کی رضایت ہے۔ جس کے بغیر والدین اپنی بیٹی کو شوہر کے ہاں نہیں بھیج سکتے ۔

____________________

۱ ۔ الحجرات١٣۔

۲ ۔ الزمر ۶۔

۳ ۔ البقرہ ۱۸۷۔

۴ ۔ نساء ۳۲۔

۵ ۔ توبہ ۷۱۔

۶ ۔ وسائل الشیعہ، ج۸، ص۱۱۶

۷ ۔ سیری کوتاہ در زندگانی حضرت فاطمہ،ص٣٥۔

۸ ۔ وسائل الشیعہ،ج١٤،١٢٣۔

۹ الکافی،ج۵، ص۳۲۰۔

۱۰ ۔ الکافی،ج۲، ص ۱۵۹۔

۱۱ ۔ ہمان۔

۱۲ ۔ مستدرک الوسائل،ج٢،ص ٦١٥۔٦١٤۔

۱۳ ۔ وسائل الشیعہ،جج١٥،ص١٠٤، من لایحضر،ج۳، ص۴۸۱۔

۱۴ ۔ محمد خاتم پیامبران،ج١،ص١٨٣۔

۱۵ ۔ آئین ہمسر داری،ص٥٠٤ ۔

اسلام میں بیوی کا مقام

جس قدر قدیم دور میں حتی موجودہ دور میں بھی زیادہ تر ظلم وستم بیویوں پر ہوتا تھا اور ہوتا ہے اسی قدر اسلام نے بھی ان سے متعلق شدید ترین دستورات اور مجازات بھی وضع کیا ہے۔ جو دین مقدس اسلام کی طرفسے بیویوں پر خاص عنایت ہے۔چنانچہ قرآن مجید نے حکم دیا:( وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ) -(۱) ،( هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ )(۲) ۔ یعنی عورتوں کیساتھ نیکی او مہربانی کیا کرو ، وہ تمھارے لئے لباس ہیں اور تم ان کیلئے لباس ہوں۔پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا: اقربکم منّی مجلساً یوم القیامة.۔.خیرکم لاھلہ-(۳) ۔

قیامت کے دن میرے نزدیک تم میں سے سب سے قریب وہ ہو گا جو اپنی عیال پر زیادہ مہربان ہوگا۔اور فرمایا:من اخلاق الانبیاء حبّ النساء -(۴) یعنی عورت سے محبت اخلاق انبیا میں سے ہے۔احسن الناس ایماناً ...الطفهم باهله وانا الطفکم باهلی ۔یعنی ایمان کے لحاظ سے بہترین شخص وہی ہے جو اپنی اہلیہ کی نسبت زیادہ مہربان ہو۔ امام صادق(ع)-(۵) بیوی سے محبت کرنے کو ایمان میں اضافے کا سبب قرار دیتے ہیں :العبد کلما ازداد للنسا ء حبّا ازداد فی الایمان فضلاً

میمونہ ہمسر پیامبر اسلام (ص) فرماتی ہیں : میں نے رسولخدا (ص)سے سنا کہ آپ فرماتے تھے میری امّت میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کیساتھ بہترین سلوک کرے اور بہترین عورت وہ ہے جو اپنے شوہر کیساتھ بہترین گفتار و کردار ادا کرے اور جب بھی کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے تو اسے ہر دن اور رات ہزار شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ اور جو شخص اپنی بیوی کیساتھ نیک سلوک کرے تو اسے بھی ہر دن سو شہیدوں کا ثواب ملتاہے۔

عمر نے سوال کیا : یا رسول اللہ (ص)مرد اور عورت میں اتنا فرق کیوں؟ تو آپنے فرمایا: جان لو خدا کے نزدیک عورتوں کا اجر مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ خدا کی قسم شوہر کا اپنی بیوی پر ستم کرنا گناہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔ اے لوگو! دو ضعیفوں کی نسبت خدا کا خوف کرو: ایک یتیم دوسرا بیوی۔خدا تعالی روز قیامت تم سے پوچھے گا۔ جو بھی ان دونوں کیساتھ نیکی کریگا رحمت الہی اسے نصیب ہوگی اور جو بھی ان دونوں کیساتھ برائی کریگا خدا کا خشم و غضب اس پر نازل ہوگا-(۶)

آگے فرماتے ہیں :ما اکرم النساء الاّ کریم وما اهانهنّ الّالئیم ۔ یعنی کریم النفس ہے وہ انسان جو عورت کا احترام کرے اور پست فطرت ہے وہ انسان جو ان کی اہانت کرے۔

پیامبر اسلام (ص)بستر احتضار پر آرام کررہے ہیں اور اہم ترین اور حساس ترین مطالب کو مختصر اور سلیس الفاظ میں اپنی امت کیلئے بیان کررہے ہیں: من جملہ عورتوں کے بارے میں ان کے شوہروں سے مخاطب ہوکر فرما رہے ہیں:

الله الله فی النساء انّهن عوان بین ایدیکم اخذتموهن بامانة الله قال ها حتی تلجلج لسانه وانقطع کلامه -(۷)

عورتوں کے بارے میں خدا کو فراموش نہیں کرنا ان کیساتھ نیکی کرو ،ان کے حقوق کو ادا کرو ،ظلم نہ کرو یہ لوگ تمھارے گھروں میں زندگی کررہی ہیں اور تمھاری ہی کفالت میں ہیں ۔اور خدا کیساتھ تو نے وعدہ کیا ہے کہ ان کیساتھ نیکی ،عدالت ، مہرومحبت سے پیش آئیں گے ۔ کیونکہ فرمان خداوندی بھی ہے کہ ان وعدوں کو نہ بھلاؤ۔ یہ کلمات زبان مبارک پر جاری رکھتے ہوئے آپ کی روح مبارک بدن عنصری سے پرواز کر گئی اور ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئے۔انا لله وانا الیه راجعون ۔

امیر المؤمنین (ع)نے بھی پیامبر اسلام کی پیروی کرتے ہوئے اپنی آخری وصیت میں عورت کے بارے میں سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ْقَالَ ع اللَّهَ اللَّهَ فِي النِّسَاءِ وَ فِيمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَإِنَّ آخِرَ مَا تَكَلَّمَ بِهِ نَبِيُّكُمْ أَنْ قَالَ أُوصِيكُمْ بِالضَّعِيفَيْنِ النِّسَاءِ وَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ(۸) فرمایا: اللہ اللہ عورتوں اور کنیزوں اور غلاموں کے بارے میں خدا کو فراموش نہ کرو۔ان کے ساتھ نیکی کرنا ۔ کیونکہ تمھارے نبی پاک نے اپنی آخری وصیت میں یہی تاکید کی تھی کہ دوضعیفوں (عورت اور غلام ) کا خیال رکھا جائے ۔ آپ ہی دوسری جگہ فرماتے ہیں: المرأة ریحانة لیست بقھرمانة-(۹) ۔

عورت پھول کی مانند ہے نہ پہلوان،بس اس کیساتھ پھولوں کی سی رفتار کیا کرو۔

جہاں خواتین کیلئے کام کرنا مناسب نہیں

اگرچہ اسلام نے عورت کو مکمل آزادی دی ہے وہ کمانا چاہے تو کما سکتی ہے،یا تجارت کرنا چاہے تو تجارت کر سکتی ہے ۔ لیکن انہی کی مصلحت کے پیش نظر خواتین کو چند موارد میں کام کرنے سے منع کیا گیا ہے:

جہاں کام اور اشتغال کی وجہ سے خواتین کی شرافت اور کرامت زیر سؤال چلاجائے۔

جہاں کام اور اشتغال کی وجہ سے خواتین کی سرپرستی اور سب سے بڑی مسؤلیت مادری پر آنچ پڑے۔

شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں ۔

کام اور اشتغال کا ماحول اور محیط خواتین کیلئے صالح اور مفید نہ ہو۔

ایسا بھاری کام جو ان کی جسمانی سلامتی کیلئے خطرہ ہو۔

اگر خود عورت کیلئے مالی ضرورت نہ ہو تو ایسی جہگوں پر کام کرنا مناسب نہیں۔

امام خمینی R نے فرمایا: البتہ دفتروں میں کام کرنا ممنوع نہیں اس شرط کیساتھ کہ حجاب اسلامی کی رعایت کی جائے۔

اجتماعی روابط کے حدود

دین مقدس اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان اجتماعی روابط کیلئے شرط قرار دیا ہے کہ کسی قسم کی ہیجان انگیزی پیدا نہ ہو۔ اگر وہ ہر قسم کی جنسی میلانات سے دور ہو کر اپنی عفت و کرامت اور تقوی کی حفاظت کرتے ہوئے اجتماع میں فعالیت کرسکتی ہے تو دین اسلام مانع نہیں بن سکتا۔

جہاں مرد و عورت پر رعایت واجب

روابط اجتماعی میں حجاب کی رعایت واجب ہے۔

نامحرموں پر نگاہ کرنا حرام ہے۔ قرآن مجید نے بھی سختی سے منع کرتے

ہوئے فرمایا:( قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ )(۱۰) ۔

آپ مؤمنین سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچا کر رکھیں یہ ان کیلئے پاکیزگی کا باعث ہے اللہ کو ان کے اعمال کا یقیناً خوب علم ہے اور مؤمنہ عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں ۔

پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا:النّظرة سهم مسموم من سهام ابلیس (۱۱)

حرام نگاہ شیطانی تیروں میں سے زہر آلود تیر ہے۔کیونکہ یہی نگاہ جنسی غریزہ کو بیدار کرنے کا سبب بنتی ہے۔ چنانچہ اس کی مثال سورہ یوسف میں ملتی ہے:

( فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلاَّ مَلَكٌ كَرِيمٌ. ) -(۱۲)

جب زلیخا نے مصر کی عورتوں کی ملامت اور مذمت سنی تو انہیں دعوت دی اور ایک عظیم محفل سجھائی ، ہر ایک کیلئے ایک ایک تکیہ گاہ بھی فراہم کیا ۔ ساتھ ہی ہر ایک کے ہاتھوں میں چھری بھی تھما دی اور پھل بھی۔ اس کے بعد حضرت یوسف کو سجھا کر اس مجلس میں آنے کا حکم دیا ۔جب مصری عورتوں نے یوسف A کو دیکھا تو آپ کاحسن وجمال دیکھ کر حیرانگی کے عالم میں تکبیر کہنے لگیں اور ترنج (پھل) کے بجائے اپنے ہاتھوں کو زخمی کردئے اور کہنے لگیں : تبارک اللہ ! یہ انسان نہیں بلکہ یہ حسین وجمیل فرشتہ ہے۔

جو چیز اس آیہ شریفہ میں حیران کن ہے وہ مصری عورتوں کا حضرت یوسف A کو دیکھ کر اپنے ہاتھوں کو زخمی کرناہے۔

غنی روز سیاہ پیر کنعان را تماشا کن کہ نو رو دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را گرش بہ بینی ودست از ترنج بشناسی روا بود کہ ملامت کنی زلیخا را ؟!!

اور ایک ہی نظر سے اپنے کنٹرول سے باہر ہوکر انسانی روح وروانی سلامت سے ہاتھ دھو بیٹھیں ۔ اس وقت زلیخا بھی فاتحانہ انداز میں مصری خواتین سے کہنے لگی:فذالکن الّذی لمتننی فیه ... یہ ہے وہ غلام جس کی محبت میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں۔

خواتین اپنی زینتوں کو روابط اجتماعی میں نامحرموں سے چھپائے رکھیں

:ولاتبدین زینتهن الّا ما ظهر منها -(۱۳) کیونکہ یہ زینتیں اور زیورات بھی نامحرموں کو عورت کی طرف جلب کرنے کا سبب بنتی ہیں ۔ اور تلذذ ایجاد کرتی ہیں ۔ اس لئے حرام قراردیا گیا۔ اسی لئے فقہاء و مجتہدین کا فتوی ہے کہ عورت کا چہرہ اور ہتھیلیوں کے علاوہ سارا بدن زینت ہے جس کا نامحرموں کے سامنے ظاہر کرنا حرام ہے۔

بات کرنے کا آہنگ ہیجان انگیز نہ ہو چنانچہ قرآن کا حکم ہے:فلاتخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبه مرض -(۱۴)

آگاہ ہوجاؤ مردوں کے ساتھ نرم اور نازک لہجے میں بات نہ کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیمار دل والے تیری طمع میں نہ پڑجائے۔

نامحرموں کیساتھ ہنسی مذاق نہ کرو ۔پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا؛من فاکه امرأة لایملکها حبسه الله بکل کلمة کلّمها فی الدنیا الف عام ۔جس نے نامحرم عورت کیساتھ مذاق کیا خداوند اسے ہر ایک کلمے کے مقابلے میں ہزار سال جہنم میں قید کریگا۔

عورتیں تنگ اور نازک لباس نہ پہنیں ، اور مغربی تہذیب کی یلغار کیلئے زمینہ فراہم نہ کریں۔ اور حق یہ ہے کہ ایک مسلمان خاتون اپنی حقیقی اور خدائی حیثیت اور شخصیت کو ان محرمات سے دور رہ کر برقرار رکھیں ۔ اور اجتماعی و خاندانی بقا کی تلاش کرتے رہیں ۔اب ہمیں خود مطالعہ کرنا چاہئے کہ کون سی عورت جو حجاب اسلامی کی پابند ہے، بے عفتی اور ہتک عزت کا شکار ہوتی ہے یا بے پردہ عورت؟ کون سی عورت فساد جنسی میں مبتلا اور غیروں کے ہوا وہوس کا شکار ہوتی ہے؟ یقینا بے پردہ عورت ہی ان مصیبتوں میں مبتلا ہوتی ہے۔ اسی لئے اسلام نے حجاب پر زور دیکر عورتوں کی شخصیت ،حرمت اور عزت بچانے کا اہتمام کیا ہے۔

اسلام میں ضرب الامثال

گذشتہ مباحث اور آنے والے مباحث سے کلی طور پر جو نتیجہ نکالا گیاہے، ان کو ضرب الامثال کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے ۔ اور آخر میں نتیجہ نکالیں گے کہ اسلام نے جو مقام اور منزلت عورت کو دی ہے وہ کسی اور معاشرہ یا مکتب اور مذہب نے نہیں دی ہے:

عورت شوہر کے ہاتھوں خدا کی امانت ہے۔

عورت میاں کے لئے اور شوہر بیوی کے لئے لباس ہے۔

عورت ریحان ہے نہ پہلوان ۔

عورت وہ بچھو ہے جس کے کاٹنے میں بھی لذت ملتی ہے۔

عورت ایک ایسی بلا ہے جس سے فرار بھی ممکن نہیں۔

عورت ٹیڑی ہڈی کی طرح ہے جسے سیدھی کرنا چاہے تو وہ ٹوٹ جاتی ہے۔

عورت وہ اچھی ہے جومغرور، بخیل اور ڈرپوک ہو۔

فقط عقل مند عورتوں سے مشورہ کرو۔مرد کا بیجا غیرت دکھانے سے عورت برائی کی طرف جاتی ہے۔

چند نکتہ:

* ان ضرب المثالوں میں سے بعض حقائق پر مشتمل ہیں لیکن بعج بے ہودہ ہیں۔

* ان ضربالمثال میں سے بعض قابل تخصیص ہیں۔

* بعض مثالوں جیسے عورت منفور ترین مخلوق و۔۔۔ کو اس وقت کے یورپی ممالک قبول نہیں کرتے ہیں ، بلکہ یہ یورپی انقلاب سے پہلے کی بات ہے۔

* ان مثالوں میں اکثر تناقض پایا جاتا ہے۔

* اکثر مثالوں کو دین مبین اسلام قبول نہیں کرتا۔

* کوئی بھی ضرب المثل اسلامی ضرب المثل (امانت الہی) کی عظمت کو نہیں پہنچتا۔

* یہ مثالیں اس لئے نقل کی گئی ہیں تا کہ ان سے عبرت حاصل کریں۔( وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ )(۱۵)

____________________

۱ ۔ نساء،۱۹ ۲ ۔ نساء ۱۸۷۔۳ ۔ فروع کافی،ج ٥،ص٣٢٠ - ۴ ۔ فروع کافی،ج٥،ص٣٢٠۔ ۵ ۔ بحار،ج١٠٣، ص٢٢٨۔ ۶ ۔ سیری در زندگانی حضرت زہرا،٣٧۔

۷ ۔ تحف العقول،ص٣۰۔ ۸ ۔ مستدرک الوسائل ،ج۱۴، ص ۲۵۴۔۹ ۔ نہج البلاغہ نامہ ٣١۔ ۱۰ ۔ نور ۳۰۔۳۱۔۱۱ ۔ نہج الفصاحہ٣١١٥۔

۱۲ ۔ یوسف ۳۱۔۱۳ ۔ نور ۳۱۔۱۴ ۔ احزاب ۳۲۔۱۵ ۔ سورہ حشر، ۲۱۔