قم کی طرف روانگی
اہل قم ہميشہ خاندان عصمت و طہارت کے دوستدار و محب رہے ہيں ۔انهوں نے ولایت امير المومنين عليہ السلام کے ساته اسلام قبول کيا تھا اور فدک غصب کرنے والوں کی کبهی اطاعت نہيں کی تھی ۔ان لوگوں نے جب اس دل خراش فاجعہ کی خبر سنی تو وہ “ساوہ” گئے اور حضرت معصومہ (س) کو بڑے احترام کے ساته قم لے آئے ٢٣ /ربيع الاول ٢٠١ هء کو آپ قم ميں وارد ہوئيں ۔
موسیٰ بن خزرج قم ميں خاندان اشعری کے سردار ، خود ناقہ کی مہار تھامے ہوئے تھے اور بہت سے لوگ کجاوہ کے ارد گرد چل رہے تھے ۔ یہاں تک کہ آپ کی سواری اس جگہ بيٹه گئی جسے ميدان مير کہا جاتا ہے اور موسیٰ بن خزرج کو آپ کی سترہ دن کی ميزبانی کا شرف حاصل ہوا۔
قم کی عورتيں جوق در جوق آپ کی زیارت کے لئے جاتی اور آپ کو آپ کے بهائيوں کا پر سہ دیتی تھيں ۔ موسیٰ بن خزرج کے گھر کو آپ کی سترہ روزہ مہمانی کے احترام ميں مدرسہ بنا دیا گيا جو کہ “مدرسہ سيدہ ” کے نام سے موسوم ہوا ۔مدرسہ کے داخل ہونے والے دروازہ کے پاس ہی آپ کی محراب عبادت ہے جس کو آج تک بيت النور کہا جاتا ہے۔
وفات حسرت آیات
حضرت معصومہ نے غم اور بيماری کی حالت ميں موسیٰ بن خزرج کے گھرميں ١٧ روز عبادت کی اور ١٠ ربيع الثانی ٢٠ ١ هء کو بھائی کی ملاقات کی مشتاق بہن نے بھائی کی ملاقات سے اپنی آنکهوں کو ٹهنڈاکيئے بغير عالم غربت ميں وفات پائی آپ کے وفات سے قم ماتم کدہ بن گيا ۔
اہل قم نے آپ کے مقدس جنازہ کہ تشييع ميں شرکت کی اور شہر سے باہر اس جگہ کہ جہاں آج حرم ہے آپ کو سپرد خاک کرنے کے لئے لے گئے ۔جب قبر تيار ہوگئی تو لوگوں ميں اس بات پر بحث ہونے لگی کہ آپ کو قبر ميں کون اتارے ضعيف العمر اور پرہيزگار “قادر”نام کے ایک شخص پر سب متفق ہوگئے ۔کسی کو بهيجا کے ان کو بابلان سے لے آئے ۔ قادر کے پہنچنے سے قبل خدا نے دو نقاب پوش سواروں کو بهيج دیا، ان ميں سے ایک قبر ميں داخل ہوااور دوسرے نے جنازہ اٹهاکر دیا۔وہ دونوں دفن کے مراسم بعد کسی کسی سے گفتگو کئے بغير اپنے گهوڑں پر سوار ہوئے اور آنکهو ں سے اوجهل ہوگئے
سيرت ائمہ کا قاری اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ دو نقاب پوس حضرت امام علی رضا عليہ السلام اور آپ کے فرزند امام محمد تقی عليہ السلام تھے جو کہ معصومہ (س) کے کفن و دفن ميں شرکت کے لئے با عجاز خراسان سے قم تشریف لائے تھے ۔
حرم حضرت معصومہ عليہا السلام
دفن کے بعد آپ کی قبر پر موسیٰ بن خزرج نے چٹائی کا ایک سائبان ڈال دیا ۔ اس کے بعد زینب بنت امام محمد تقی عليہ السلام نے پختہ گنبد بنوادیا ۔ ۴ ١٣ هء ميں حرم مطہر پر کاشی کا نفيس رنگ کيا گيا ۔ ۵ ٢٩ هء ميں نيا گنبد بنایا ، ۵ ٩٢ هء ميں گنبد کی تجدید ہوئی ۔ ١٢١٨ هء ميں گنبد پر سونے کا غلاف چڑهایا گيا کہ جس ميں سونے کی ١٢٠٠٠ اینٹيں لگيں ۔ ١٢٧ ۵ ئه ميں چاندی کی ضریح بنائی گئی ۔ ١٢٠٣ هء ميں نيا صحن بنایا گيا۔
حضرت معصومہ قم عليہا السلام کے معجزات
١۔ رقيہ امان پور پر تين ماہ سے فالج کے مرض مبتلا تھی ۔ ڈاکٹروں نے اسے جواب دے دیا تھا کہ ہم اس کا علاج نہيں کرسکتے ۔ رقيہ کا تعلق ماکو شہر سے ہے جو کہ آذر بایجان کے مغرب ميں ترکی کی سرحد پر واقع ہے یہ نيک بخت لڑکی ٢٨ شعبان ١ ۴ ١ ۴ ء ه ميں دو مہلک امراض ميں مبتلا ہوئی ۔
١۔ پيروں پر فالج گرا اور چلنے اور کهڑے ہونے سے معذور ہوگئی ۔ ٢۔ کهانسی کا شدید حملہ ہوا جس سے سانس لينا بهی دشوار ہو گيا۔ والدین خوئی شہر کے اسپيشلسٹ ڈاکٹروں کے پاس لے گئے ۔ بہت سے ٹسٹ ہوئے ميں مبتلا ہے ۔ مگرہم M.I.A ہوا اور ڈاکٹروں نے یہ تشخيص دیا کہ لڑکی C.T.SCAN تبریز ميں علاج سے قاصر ہيں شوط شہر کے ایک مولانا حجة الاسلام شيخ احمد اسد نژاد ، جو کہ حوزہ علميہ قم ميں مقيم تھے ، ان کے بھتيجے بهی ایسی ہی بيماری ميں مبتلا ہوچکے تھے جنهيں تہران کے ڈاکٹروں اور اطباء کے پاس لے جایا گيا تھا اور ڈاکٹروں نے ایک حد تک مرض کی تشخيص کر دی تھی ۔
انهوں نے رقيہ کے چچا سے رابطہ قائم کيا اور کہا کہ رقيہ کو قم لے آو وہاں سے ڈاکٹر سمعی کے پاس تہران لے جائيں گے ۔ اس زمانے ميں رقيہ کے والدین فریضہ حج کی ادائےگی کے سلسلے ميں مکہ معظمہ گئے ہوئے تھے ۔
قم کی روانگی کے لئے ٢/ ذی الحجہ روز جمعہ مقرر ہوا تا کہ سنيچر کی صبح کو تہران پہنچ جائيں ۔ شب جمعہ ميں رقيہ نے ایک سعادت آفرین خواب دیکھا کہ : “ سفر کا راستہ بدل دو ۔ ” اس خواب نے ہميشہ کے لئے اسے ڈاکٹر سے بے نياز کردیا ۔خواب کا مختصر قصہ خود رقيہ اس طرح بيان کرتی ہے ۔
جس جمعہ کی صبح کو قم کی طرف سفر کرنے کا پروگرام تھا اسی شب ميں نے خواب ميں سفيد گهوڑوں پر چند سفيد پوش خواتين کو اپنے گھر کی طرف سے گزر تے ہوئے دیکھا ان ميں سے ایک خاتون ميری جانب متوجہ ہوئيں اور فرمایا: ”بيٹی ميں معصومہ ہوں ،تمهارے مرض کا علاج ميرے پاس ہے ضروری نہيں ہے کہ تم ڈاکٹر کے پاس جاؤ ۔ کل تم قم آؤ گی ۔ميرے پاس آجانا ۔شفایاب ہو جاؤگی ۔ اگر ڈاکٹر کے پاس ہی جانا چاہتی ہو تو بعد ميں چلی جانا۔
جب رقيہ خواب سے بيدار ہوئی تو اس کی آنکهوں ميں اميد کی کرن صاف عيان تھی خوشی سے سفر کے لئے تيار ہوگئی اس نے اپنے چچا و چچی سے خواب بيان کيا اور قم پہنچنے کے لئے لمحے شمار کرنے لگی ۔ دوسری ذی الحجہ کی شب جمعہ رات ساڑهے تين بجے وہ اپنے چچا اور چچی اور مولانا اسد نژاد کے بھائی کے ہمراہ --“شوط” سے قم کی طرف روانہ ہوئی اور ساڑهے سات بجے شام کو قم پہنچ گئی۔ محلہ نيروگاہ ميں جناب اسد نژاد کے گھر اپنے پہنچنے کی اطلاع کرادی اور اپنی پهوپهی ، ہاشم نژاد کے گھر چلی گئی ۔ نماز ظہر و عصر پهوپهی کے گھر پر پڑهی ۔ مختصر عصرانہ کرنے کے بعد چچا چچی کے ساته ،حرم مطہر ( روضہ حضرت معصومہ) کی زیارت کے لئے گھر سے نکلنے سے قبل پهوپهی نے یہ کہاتھا کہ اس کی بيساکهيوں کو حرم ميں نہ لے جانا لہٰذا بيساکهيوں کو کار ہی ميں چھوڑ دیا اور چچا ،چچی کے کندهوں پر سہارا دے کر رقيہ حرم ميں وارد ہوئی ۔ رقيہ زیارت پڑهنے لگی اور پوری توجہ سے زیارت پڑهتی رہی چچا اور چچی اس کے ہمراہ رہے ۔ زیارت پڑهنے کے دوران رقيہ کو ایک جانی پہچانی آوازسنائی دی --- یہ معصومہ قم کی آواز تھی جو کہ اس نے خواب ميں سنی تھی ---- رقيہ کہتی ہے : ابهی ميں نے آدها زیارت نامہ ہی ختم کيا تھا کہ ميرے کان ميں وہی آواز آئی جو کہ ميں نے گزشتہ شب سنی تھی ۔ مجه سے کہا : “ اٹهو ! ميں نے تمهيں شفاء دی ۔
ميں نے زیارت پڑهنے کا سلسلہ جاری رکها کہ دو بارہ وہی آواز سنائی دی رقيہ نے پورا زیارت نامہ ختم کيا ۔تيسری بار پھر وہی دلنواز آواز ميرے کانوں ميں آئی ۔اٹهو! ميں نے تمهيں شفا دے دی ہے ۔ رقيہ کی چچی نماز ميں مشغول تھيں ۔لہٰذا اپنی پهوپهی سے کہا: ميں کهڑی ہونا چاہتی ہوں ۔ نہ بيٹی !گر پڑو گی تمهاری چچی نماز سے فارغ ہو جائيں تاکہ ہم دونوں کے سہارے کهڑی ہو۔رقيہ اٹهتی ہے اور اپنے پيروں پر گهڑے ہوکر تيز ی سے ضریح مقدس کی طرف بڑهتی ہے اور اشک مسرت کے ساته خاتون دوسرا کا شکریہ ادا کرتی ہے ۔ جن زائرین نے رقيہ کو تھوڑی دیر پہلے معذور دیکھا تھا انهوں نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو اس کے چاروں طرف حلقہ کر ليا ایک ازدحام ہو گياچنانچہ رقيہ کی پهوپهی اور چچا و چچی نے بڑی جانفشانی سے اسے ازدحام سے رہائی دلائی اور مسجد بالا سر ميں لے گئے ۔
یہ پر مسرت واقعہ حرم معصومہ ميں رات کے ساٹهے نوبجے رو نما ہوا ۔ چنانچہ زائروں اور باشندوں نے اپنی آنکهوں سے دیکھا کہ اب اس سعادت مند و نيک بخت کو بيساکهيوں کی ضرورت نہيں رہی اب وہ اپنے پيروں پر کهڑی ہے ۔ اس وقت حرم کے نقارہ بجانے والے موجود نہيں تھے لہٰذا نقارہ کی کيسٹ لاؤڈاسپيکر پر لگا دیا گياپهر دوسرے روز رسمی طور پر نقارے بجائے گئے ۔
جب رقيہ کو ان کی پهوپهی کے گھر لے گئے اور عطر و گلاب اس کے چہرے پر ملا تو معلوم ہوا کہ وہ کهانسی بهی ختم ہو گئی ہے ،۔ رقيہ کو پہلے نسخوں کے ساته تہران ميں ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو اس نے بتایا کہ اب رقيہ کو علاج کی ضرورت نہيں ہے ۔ ٢۔ پروین محمدی ،تشنج اعصاب کے مرض ميں مبتلا ہوئی ۔بہت سے ڈاکٹروں سے علاج کرایا ليکن فائدہ نہ ہوا ۔اہل خانہ کی زندگی بهی دوبهر ہو گئی ۔ ڈاکٹروں کے علاج سے مایوس ہو کر ،کرمانشاہ سے امام رضا عليہ السلام کی زیارت کومشہد مقدس کی جانب روانہ ہوئے جب رات دو بجے کے بعد قم پہنچے ایک مسافر خانہ ميں رات بسر کی صبح کو ٩بجے حرم معصومہ کی زیارت سے شرف یاب ہوئے ۔ اس کی چادر کے ایک گوشے کو ضریح سے بانده دیا اوردعائے توسل پڑهنے لگے ضریح کے کنارے اس مریضہ کو نيندآگئی ۔ چوں کہ پروین کو ایک مدت سے نيند نہيں آئی تھی ، اس لئے اس کی ماں نے بيٹی کو سوتے ہوئے دیکھا تو بہت خوش ہوئی اور اشک مسرت و خلوص کے ساته دعا کرنے لگيں دل کی گہرائی سے کریمہ اہل بيت سے توسل کيا ۔
اچانک پروین کی ماں نے محسوس کيا کہ پورا حرم ایک غير معمولی عطر کی بو سے معطر ہو گيا ہے اور پروین کی چادر کا ضریح سے بندها ہوا گوشہ کهل گيا ہے اس عطر آگين فضا ميں پروین نے آنکهيں کهول دیں اور اپنی ماں سے کہا: اماں ! ميں بهوکی ہوں ۔ اس کی ماں حيرت زدہ ضریح مقدس سے لپٹ گئی اور کریمہ اہل بيت کا شکریہ ادا کرنے کے بعد حرم مطہر سے شادمان باہر نکلی ۔
٣۔ ابو فضل امير کوہی صوبہ صوبہ ساری مازندران کے باشندے ہيں انهوں نے حضرت معصومہ کے ذریعہ اپنی شفا یابی کا معجزہ اس طرح بيان کيا ہے ۔ ميں تين سال قبل کمر درد اور فالج ميں مبتلا ہوگيا تھا ۔ اپنے علاج ميں تمام پونجی خرچ کردی تھی ليکن کوئی فائدہ نہيں ہوا تھا ۔ بالکل زمين گير ہوگيا تھا ۔ قم مشہد اور تہران کے ہسپتالوں ميں مہينوں ایڈمٹ رہا مگر کوئی نتيجہ حاصل نہ ہوا ۔ ہر جگہ سے مایوس ہوگيا تو ثامن الحجج حضرت امام رضا عليہ السلام کے روضہ ميں پناہ لی اور امام سے شفا مانگی ليکن نصيب نہ ہوئی ۔
حضرت امام حسين عليہ السلام کی ولادت باسعادت کے موقع پر یعنی ٣/ شعبان کو سارے شيعہ خوشياں منا رہے تھے اور ميرے خاندان والے رنجيدہ و محزون تھے ، ميں بهی اپنے اہل خانہ کے ساته روضہ امام رضا عليہ السلام ميں داخل ہوا مگر صابر امام نے صبر سے کام ليا ۔ جب حرم سے باہر نکلا تو مولا کو مخاطب کر کے عرض کی مولا آپ تو غير مسلموں کو بهی محروم نہيں کرتے ہيں ۔ مجه رو سياہ پر کيوں لطف نہيں فرماتے ؟ ميں تو آپ کا شيعہ اور آپ کا ہمسایہ ہوں ۔ تہی دست اپنے گھر پلٹ آیا اور حضرت معصومہ سلام الله عليہا کی خدمت ميں شرفيابی کا قصد کيا ۔ چنانچہ ۴/ شعبان المعظم شب ولادت حضرت ابولفضل عليہ السلام ميں ۔ ميں نے حضرت معصومہ سلام الله عليہا کو خواب ميں دیکھا کہ ہمارے غریب خانہ پر تشریف لائی ہيں ۔ ميں نے شفا مانگی تو فرمایا “ قم آجاو ميں تمهيں شفا دونگی ” بيدار ہونے کے بعد ميں نے اپنے خاندان والوں سے خواب بيان کيا ، ليکن کمزوری اور ناداری کی وجہ سے قم جانا آسان نہيں تھا اسی طرح کئی دن گزر گئے تو پھر ایک مرتبہ حضرت معصومہ سلام الله عليہا کو خواب ميں دیکھا کہ فرماتی ہيں : “ قم کيوں نہيں آتے ” ميں نے عرض کی اس حالت ميں کيوں کر قم پہنچوں ؟ مجهے یہيں شفا عطا کردیجئے ۔ فرمایا : “ تم آو ” بيدار ہونے کے بعد ميں نے یہ طے کيا جس طرح بهی ہوگا قم جاوں گا اگر چہ تين سال کی طویل علالت کے سلسلے ميں گھر کا سارا اثاثہ بک چکا تھا اب قابل فروخت کوئی چيز باقی نہ تھی۔ کوکاکولا کی کچه شيشياں تھيں انهيں فروخت کرکے بيٹے نے اسباب سفر فراہم کئے اپنے خسر معظم کی معيت ميں ١ ۴ / شعبان ١ ۴ ١ ۵ ء ه ق کو دوشنبہ کی صبح ميں قم پہنچ کر حرم معصومہ سلام الله عليہا ميں شرف یاب ہوا ۔
ضریح مقدس کے کنارے مجهے جگہ دی گئی اور ضریح سے بانده دیا گيا تضرع و زاری ، راز و نياز ، اور کمزوری کی وجہ سے مجهے نيند آگئی تو سبز نقاب اور سياہ چادر ميں ملبوس حضرت معصومہ سلام الله عليہا کو خواب ميں دیکھا کہ آپ (س) نے مجهے ایک پيالی چائے عنایت کی ہے اور فرماتی ہيں اسے پيو اور اٹهو تم بيمار نہيں ہو ۔ بيدار ہونے کے بعد ميں نے محسوس کيا کہ اب ميں بيمار نہيں ہوں ۔ ميں ضریح مقدس سے لپٹ گيا اور بہ آواز بلند کہا : “ معصومہ (س) نے مجهے شفا عطا کی ہے “
۴ ۔ روس ميں کميونزم کی شکست و ریخت کے بعد روس کے علاقہ آذربائيجان کے باشندوں کے لئے ایران کا راستہ کهول دیا گيا ۔ اسلامی علوم کے فروغ اور اس کی نشر و اشاعت کے پيش نظر حوزہ علميہ قم کے کچه ذمہ دار آذربائيجان گئے تا کہ وہاں سے مستعد جوانوں کو منتخب کر کے حوزہ علميہ قم لائيں اور انهيں معارف اسلامی کی مناسب تعليم دے کر ان کے وطن واپس کردیں تا کہ وہ شيعہ تذہيب و ثقافت کے اس خلاء کو پر کر سکيں جو کميونسٹ کے تسلط کے زمانہ ميں واقع ہوگيا تھا۔
نخجوان سے ایک نوجواں ، حمزہ قم آتا ہے ليکن حوزہ علميہ کے ذمہ داروں نے اس کا داخلہ لينے سے اس لئے عذر خواہی کی کہ اس کی ایک آنکه خراب تھی ۔ ظاہر ہے کہ ایسے مقرر و خطيب کی بات موثر ثابت نہيں ہوتی ہے ۔ حمزہ نے اصرار کيا کہ استعداد و لياقت کے باوجود مجهے اس سعادت سے کيوں محروم کيا جارہا ہے ؟ ذمہ داران نے انسانی عواطف کی بنا پر داخلہ کے شرائط کے بر خلاف سيکڑوں طلبہ کے ساته اس کا بهی انتخاب کر ليا ۔ تہران ميں ان آذربائيجانی طلبہ کا پرتپاک استقبال کيا گيا ۔ اس پروگرام ميں ٹی وی کے افراد اس منظر کو فلمانے کے لئے آئے تھے ۔ تصویر لينے والے نے کيمرہ کا رخ زیادہ تر حمزہ کی حد سے زیادہ ابهری ہوئی آنکه کی طرف رکها ۔ جب حوزہ علميہ قم ميں ان آذربائيجانی طلبہ کو ایک مدرسہ ميں جگہ دے دی گئی تو س پروگرام کی کيسٹ مدرسہ کے سرپرست کو دے دی گئی وہ محفوظ رکهے ۔ مدرسہ کے سرپرست نے ایک دن وہ کيسٹ مدرسہ ميں دکهائی کہ جس ميں حمزہ کی ابهری ہوئی ایک آنکه کا مضحکہ خيز منظر دیکھ کر طلبہ کو بے ساختہ ہنسی آگئی ۔
اس ویدؤ کيسٹ کے دیکھنے کے بعد حمزہ کو اپنے کمتروری کامزید احساس ہوا زندگی تلخ ہوگئی ۔حوزہ علميہ چھوڑ نے اور وطن لوٹنے کا عزم بالجزم کر ليا ، شکستہ دل اور اشکبار آنکهوں سے معصومہ قم سے رخصت ہونے اور حرم کی آخری زیارت کے لئے گيا ۔ عرض کی : “ اے باب الحوائج کی بيٹی : ميں سيکڑوں فرسخ کی مسافت طے کرکے اس لئے یہاں آیا تھا کہ آپ کے زیر سایہ تعليم حاصل کروں اور مذہبی مبلغ بنوں ليکن ميں اس حقارت کو برداشت نہيں کرسکتا لہٰذا ميرا وطن پلٹنا اور آپ کا ہمسائيگی سے محروم ہونا نا گزیر ہے ” ۔ حمزہ نے اپنادرد دل حضرت معصومہ سلام الله عليہا کی خدمت ميں بيان کيا اور ہميشہ کے لئے خدا حافظ کہہ کر چل دیا ۔ جب حرم سے باہر نکلا تو اس کی ملاقات اپنے ایک ہم کلاس سے ہوئی ۔ حمزہ نے اسے سلام کيا ۔ اس نے اجنبی کی طرح سلام کا جواب دیا ۔ حمزہ نے جب اس طالب علم کا نام لے کر آواز دی تو واپس آیا اور تعجب سے کہنے لگا حمزہ آپ ہيں !!!؟
حمزہ کہتا ہے : جی ہاں ميں ہوں ! طالب علم کہتا ہے : تمهاری آنکه کا کيا ہو ا؟! اب حمزہ متوجہ ہوا کہ معصومہ کے لطف سے اس کی آنکه صحيح ہو گئی ہے ۔ جب وہ آذر بائيجان جائے گا تو اس کے ساته معصومہ کا معجزہ بهی ساته ہوگا ۔ فی الحال حمزہ حوزہ علميہ کا طالب علم ہے اور فراخ دلی سے محافل و مجالس ميں شریک ہوتا ہے معيوب آنکه کے ثبوت کے لئے اس کے ہم کلاس طلبہ کے پاس ویڈیو کيسٹ اب بهی موجود ہے ۔
۵ ۔ چاليس سال قبل احمد شيریں کلام نے حرم معصومہ ميں شفا پائی تھی ۔ احمد شيریں کلام نے اپنے بھائی عباس شيریں کلام کو نظم و نثر ميں اپنی بيماری کی اطلاع دی تھی جس کا خلاصہ یہ ہے ، عباس کہتا ہے :
١ ٣٣٢ ء ه ش ميں ميرے بھائی احمد شيریں کلام بيمار ہوگئے ۔ دوسرے دن ميں تہران پہنچا تو دیکھا کہ اس کی حا لت بہت نازک ہے ۔ عزیز و اقارب جمع ہيں ایک سيد دعا کر رہے ہيں ۔ چمچے سے پانی پلایا جا رہا ہے دوماہ کی مدت ميں ایک سے ایک ڈاکٹر و طبيب کا علاج کرایا ليکن حالت روز بروز بگڑتی گئی ۔ اعزاو اقارب اس سے نا اميد ہوگئے اور تجہيز و تدفين کے اسباب فراہم کرنے لگے ۔ ميں نے انهيں قم لے جانے کا ارادہ کرليا کار ميں لٹا کر کریمہ اہل بيت کی بارگاہ کی طرف چل دئيے ۔ تقریباً نماز مغرب کے وقت قم پہنچے او راس شب توسل کيا ۔
شفائے کامل پائی ۔ ١٨ روز تک ہم نے انهيں قم ہی ميں رکها جشن مسرت منعقد کيا اور شاعران مودت نے قصيدہ خوانی کی ١٨ روز بعد اپنے پيروں سے چل کر وہ صحيح و سالم تہران گئے ۔
چونکہ وہ خود کو معصومہ کا ر ہين منت سمجهتے تھے اس لئے انهوں نے تہران ميں قيام مناسب نہ سمجها اور قم ميں اقامت گزیں ہوگئے ۔
۶ ۔ جناب حاج شيخ اسماعيل سے ابطحی صاحب نے ایک داستان نقل کی ہے اور ان کی توثيق کی ہے ۔ داستان یہ ہے:
شيخ اسماعيل کہتے ہيں جنگ کے زمانے ميں وطن ميں رہنا ميرے لئے مشکل ہو گيا ، قم آیا ، آیت الله العظمیٰ گلپایگانی کی خدمت ميں پہنچا ۔ انهوں نے پوچها قيام کے قصد سے آئے ہو ؟ یا واپسی کا ارادہ ہے ؟ ميں نے عرض کی جناب معصومہ کے جوار ميں رہنے کے قصد سے آیا ہوں ليکن سر چهپانے کو گھر تو مل جائے تا کہ اہل و عيال کے لئے مشکل پيش نہ آئے دوسری طرف ميرے پاس پيسہ بهی نہيں ہے ۔ البتہ حضرت بقية الله الاعظم عجل الله تعالیٰ سے توسل کيا ہے ۔
آیت الله العظمیٰ گلپایگانی نے فرمایا :“حضرت بقية الله الاعظم ( ارواحنا فداہ ) حجت خدا ہيں ۔ سارا عالم ان کے زیر فرمان ہے ليکن یہاں حضرت معصومہ کی حکومت ہے ۔ تم کریمہ اہل بيت کی خدمت ميں آئے ہو ، حرم جاو ۔ وہی سر چهپانے کی جگہ مرحمت کریں گی ۔
جناب شيخ اسماعيل کہتے ہيں : ميں حرم مطہر گيا ۔ معصومہ سے سر چهپانے کی جگہ طلب کی ۔ حرم سے باہر نکلا تو ایک شخص سے ملاقات ہوئی جس نے مجهے مناسب گھر کا سراغ بتایا ، ایک لاکه چاليس ہزار تومان ميں گھر کی بات ہوگئی ۔
آیت الله العظمیٰ گلپایگانی کی خدمت ميں پہنچا اور واقعہ سنایا تو انهوں نے تيس ہزار تومان عنایت کئے اور کہا کہ کسی اور سے قرض لے لو ۔ ميں دوبارہ حضرت معصومہ کی خدمت ميں شرفياب ہوا اور عرض کی : بی بی ! کسی ایسے شخص کی طرف ميری راہنمائی کردیجئے جو مجهے قرض دیدے ! اس درخواست کے بعد ميں حرم سے باہر آیا تو وسط صحن ميں ميری ملاقات ایک آشنا سے ہوئی انهوں نے پوچها خيریت تو ہے ۔ نصيب دشمنان ميں آپ کو محزون دیکھ رہا ہوں ميں نے واقعہ سنایا ۔ انهوں نے کہا کہ ميں آپ کو قرض دیتا ہوں اسی دن پيسہ کا انتظام ہوگيا ۔ اس نے مجهے قرض دےدےا ۔ ميں نے گھر لے ليا ۔ جس دن ميں نے قرض ادا کرنے کا وعدہ کيا تھا وہ دن بهی آگيا اور ميری جيب ميں پيسہ نہيں تھا ۔ ميں پھر حضرت معصومہ کی خدمت ميں شرفياب ہوا اور عرض کی اے خاتون ! دوسری بار ميں یہاں خود نہيں آیا ہوں ، مجهے بهيجا گيا ہے ۔ آج قرض کی ادائےگی کا دن ہے ۔ کسی ایسے آدمی کو بهيج دیجئے جو مجهے پيسہ ہبہ کردے ۔
ميں حرم سے باہر آیا تو صحن ميں ایک جانے پہچانے آدمی سے ملاقات ہوئی اس نے بهی یہی کہا خيریت تو ہے ۔ ميں آپ کو رنجيدہ و محزون دیکھ رہا ہوں ميں نے واقعہ کی تفصيل بتائی تو انهوں نے پوچها آپ کو کتنا پيسہ چاہئے ميں نے کہا تقریباً ٩٠ ہزار تومان ۔ اس نے نوے ہزار تومان مجهے ہبہ کردیئے ۔ ميں نے وعدہ کے مطابق قرض ادا کيا اور ہميشہ کے لئے آرام ہوگيا ۔
٧۔ کریمہ اہل بيت کے مولف نے اپنے ایک معتبر و معتمد دوست سے نقل کيا ہے کہ انهوں نے کہا : ميری طالب علمی کا ابتدائی زمانہ تھا ۔ ميری چچا زاد بہن “خرم درہ ” ميں ساکن تھی خدا نے متعدد بار اسے اولاد عطا کی ليکن سب مرگئے ۔ کوئی باقی نہ بچا ۔ معصومہ قم کی زیارت کے لئے قم آئی ميں اس زمانے ميں دارالشفاء ميں رہتا تھا ۔ ميری چچا زاد بہن نے اپنی آپ بيتی مجه سے بيان کی اور بہت روئی ميں نے کہا : آپ اس وقت قم ميں ہيں ۔ یہ حرم اہل بيت ہے اور یہی کریمہ اہل بيت ہيں ۔ باب الحوائج کی لخت جگر ہيں ان ہی سے اولاد زندہ رہنے کی دعا کيجئے ۔
انهوں نے پوچها : ميں معصومہ سے کس طرح توسل کروں ؟ چونکہ ميری طالب علمی کا ابتدائی زمانہ تھا ، ميری سمجه ميں کوئی بات نہيں آئی ۔ ميں نے کہا آپ ایک دن روزہ رکهيں اور افطار کئے بغير حرم معصومہ ميں جا کر دعا کریں ۔ چنانچہ انهوں نے روزہ رکها اور افطار کئے بغير حرم ميں پہنچيں اور دختر باب الحوائج سے اپنی حاجت طلب کی اور رات بهر وہيں دعا اور راز و نياز ميں مشغول رہيں ۔چوں کہ روزہ رکها تھا اور گریہ و زاری کی وجہ سے تھک گئی تھيں اس لئے نيند آگئی تو خواب ميں ایک معظمہ کو دیکھا کہ تشریف لائی ہيں اور کپڑے ميں لپيٹ کر لڑکا مجهے دیا ہے ۔ خواب سے بيدار ہوئی تو خوشی خوشی گھر آئی اور وطن چلی گئی ۔ اس توسل کے بعد خدا نے انهيں تين بيٹے عطا کئے ۔ تينوں زندہ ہيں اور بڑے ہوگئے ہيں ۔ خود ميری چچا زاد بہن بهی زندہ ہيں “ خرم درہ ” ميں زندگی بسر کر رہی ہيں ۔
٨۔ ایک مداح اہل بيت بيان کرتا ہے : اہل قم ميں سے ایک دیندار حضرت معصومہ (س)کی زیارت کے لئے آرہے تھے ان کے ایک دوست نے کہا : حضرت معصومہ (س) کی خدمت ميں ميرا سلام عرض کيجئے گا اور ميری فلاں حاجت روائی کے لئے دعا کيجئے وہ مومن حرم آیا ، زیارت پڑهی ۔ اپنے دوست کی طرف سے سلام عرض کی اور خاتون دوسرا کی خدمت ميں اس کی حاجت بهی پيش کی ۔ جب یہ مومن رات کو سوگيا تو خواب ميں حضرت معصومہ کو دیکھا کہ فرما رہی ہيں : ہم نے تمهارے دوست کی حاجت پوری کردی ہے ليکن وہ چاليس دن سے ہمارے یہاں نہيں آیا ہے ۔
٩۔ حرم مطہر کے ایک معتبر خادم سيد محمد رضوی مرحوم سے متواتر سند کے ساته منقول ہے کہ : ميں نے ایک شب خواب ميں حضرت معصومہ کو دیکھا کہ آپ فرمارہی ہيں : اٹهو گلدستوں اور مناروں کے چراغ روشن کرو ۔ ميں نے گهڑی دیکھی تو دیکھا کہ صبح کی اذان ميں ۴ گهنٹے باقی ہيں ۔ ميں دوبارہ سوگيا ۔ پھر ميں نے وہی خواب دیکھا کہ آپ فرمارہی ہيں : کيا ميں نے چراغ روشن کرنے کے لئے نہيں کہا تھا؟ اٹهو ! گلدستوں کے چراغ روشن کرو ۔ ميں اپنی جگہ سے اٹها ، دیکھا کہ شدید برف باری ہوئی ہے ۔ ساری فضا سفيد پوش تھی ۔ شدید سردی ہو رہی تھی ۔ جب کہ پہلے دن مطلع بالکل صاف تھا ۔ ميں صحن حرم ميں کهڑا تھا ۔ ميں نے زائروں کی ایک جماعت دیکھی جو یہ گفتگو کررہے تھے “معصومہ کا ہم جتنا بهی شکریہ ادا کریں کم ہے ۔ اگر تھوڑی دیر اور چراغ روشن نہ ہوتے ہم سردی سے ہلاک ہوجاتے ۔ بعد ميں معلوم ہوا کہ وہ لوگ شدید برف باری کی بناء پر راستہ سے بهٹک گئے تھے اور بيابان ميں یہ نہيں سمجه پا رہے تھے کہ کيا کریں جب حرم کے چراغ روشن ہوئے تو شہر کی سمت کا علم ہوا اور وہ لوگ شہر پہنچے اور شدید سردی سے رہائی پائے ۔
١٠ ۔ شيخ حاج حسن علی تہرانی مرحوم کے سلسلے ميں رونما ہونے والا معجزہ شيخ / علی مرحوم آیت الله مروارید کے پر نا نا ہيں لہٰذا بہتر ہے کہ ان ہی کی زبانی سنا جائے ۔ ٢٣ ذیقعدہ ١ ۴ ١ ۴ ء ه کو ہم امام رضا عليہ السلام کی زیارت کے لئے شرف یاب ہوئے کچه لوگوں کے ہمراہ آیت الله مروارید کی خدمت ميں حاضر ہوئے اور داستان کو ان سے سنا ۔ داستان کچه اس طرح ہے :
حاج حسن علی تہرانی بن حاج محمود تاجر تبریزی اپنے زمانہ کے عالم ، ميرزا شيرازی کے شاگرد اور اس عہد کے نمایاں استاد تھے ۔ جب ميرزا نماز جماعت کے لئے نہيں آتے تھے تو وہی نماز جماعت بهی کراتے تھے اور متقی و نيکو کار و پرہيزگار لوگ ان کی اقتداء کرتے تھے ۔ ميرزا ئے شيرازی کے انتقال کے دوسال بعد وہ تہران لوٹ آئے ۔ کچه دنوں کے بعد مشہد تشریف لے گئے ۔ مسجد گوہر شاد ميں نماز جماعت پڑهانے لگے ۔ جو شخص کسی کی اقتداء ميں نماز نہيں پڑهتا تھا وہ ان کی اقتداء ميں نماز پڑهنے لگا ۔ بہت سے فضلاء آپ کے درس ميں شریک ہوتے تھے ۔ ١ ۴ / رمضان ١٣٢ ۵ ء ه کو مشہد ميں وفات پائی ۔
آپ کے بھائی ميرزا حاج حسين علی ناصر الدین شاہ کے دربار ميں تھے ۔ شاہ کے لباس ان ہی کی نگرانی ميں سلتے تھے ۔ ایک روز حاج حسين مرحوم زیارت امام رضا عليہ السلام پڑهنے ميں مشغول تھے کہ لوگوں نے آپ کو بھائی کے انتقال کی خبر دی ۔ آپ نے بہت گریہ کيا اور امام رضا عليہ السلام سے دعا کی ۔ ميرے بھائی دربار ميں تھے یقينا ان کی گردن پر بہت سے حقوق و مظالم ہوں گے آپ ان کی شفاعت فرما دیجئے ۔
تہران سے بڑی شان و شوکت کے ساته ان کا جنازہ قم لایا گيا اور ضریح معصومہ کا طواف کرانے کے بعد -صحن حرم ميں سپرد خاک کر دیا گيا۔ اسی شب ایک متقی عالم دین نے خواب ميں دیکھا کہ لوگ تہران سے قم کی طرف ایک جنازہ لا رہے ہيں اور عذاب کے فرشتے راستہ ميں اس پر عذاب کر رہے ہيں ۔جب جنازہ صحن مطہر ميں پہنچا تو عذاب کے فرشتے دروازہ حرم پر ہی ٹهہر گئے اور معصومہ کے احترام ميں صحن مطہر ميں داخل نہ ہوئے اس وقت حرم مطہر سے ایک معظمہ نکلی اور عذاب کے فرشتوں سے فرمایا: ان کے بھائی نے ميرے بھائی سے ان کی شفاعت طلب کی ہے اور بھائی نے مجهے سے ان کی شفاعت کی ہے ۔
لہٰذا تم پلٹ جاؤ ۔ اور وہ اطاعتکرتے ہوئے پلٹ گئے ۔
واضح رہے معصومہ کے اتنے ہی معجزات نہيں ہيں بلکہ ہم نے بے شمار معجزات ميں سے دس ہی منتخب کئے ہيں تاکہ کتاب کا حجم زیادہ نہ ہو جائے ۔
حضرت فاطمہ معصومہ سلام الله عليہا شعراء کی زبانی
تاریخ کی رہ گزر ميں مکتب امامت و ولایت کی ترویج اور فضائل و مناقب اہلبيت عصمت و طہارت کے نشر ميں اسلامی شاعروں کا ایک اچھا کردار رہا ہے ۔ جن کے حکمت آموز اشعار نے ہميشہ عاشقان خاندان نبوت و رسالت کے قلوب کو جلا بخشی ہے اور ایک زندہ جاوید سند کی حيثيت سے مکتب لالہ زار علوی اور بے کراں دریائے فضائل اہلبيت عليہم السلام کو اجاگر کر کے دنيا کے سامنے پيش کيا ہے ۔
اسی رہ گزر ميں کریمہ اہل بيت عليہم السلام کی عظمت نے ان منادیا ن حق شعراء کو بارگاہ ملکوتی حضرت معصومہ عليہا السلام ميں عرض ادب پيش کرنے پر مجبور کردیا اور اس طرح وہ پر معنیٰ اشعار و قصائد کہنے کے لئے آمادہ ہوگئے ۔
زبان فارسی ميں تو ان اشعار کی تعداد بے حد و حساب ہے ہے کہ اگر بطور مستقل اس پر کام کيا جائے تو ایک دیوان ہوجائے گا ۔ ليکن مولف محترم نے چند برگزیدہ اشعار کو کتاب ميں جمع فرمایا ہے اور اسے ایک فصل قرار دیا ہے ۔
واضح ہے کے اردو داں افراد کے لئے یہ شعری مجموعہ سود مند نہ ہوگا لہٰذا یہ طے پایا کہ ان اشعار کی جگہ اردو زبان کے شعراء کے اشعار پيش کئے جائيں ۔ ليکن افسوس ہے کہ اس سلسلے ميں ہميں قدیم شعراء کے اشعار دستياب نہ ہو سکے بلکہ جہاں تک حقير کی معلومات ہے ہمارے قدیم مشعراء نے اس موضوع پر طبع آزمائی نہيں فرمائی ہے ۔