شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات 0%

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

مؤلف: الشیعہ ڈاٹ او آر جی
زمرہ جات:

مشاہدے: 8820
ڈاؤنلوڈ: 3340

تبصرے:

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 36 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8820 / ڈاؤنلوڈ: 3340
سائز سائز سائز
شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

مؤلف:
اردو

۴ ( صحن عتيق کے منارے )

) ١٧ / صحن عتيق ميں بر فراز ایوان طلا دو رفيع و بلند منارے ہيں جن کی بلندی ۴ ٠ ١ ہے ۔ منارے کی کاشی پيچ و خم کے ساته مزین ہے / چهت کی سطح سے ) اور قطر ۵ ٠ جس کے در ميان اسماء مبارک “ الله ” “ محمد ” “ علی ” بخوبی پهڑے جاسکتے ہيں منارے کے بالائی حصے کو تين ردیف ميں رکها گيا ہے جس کے نيچے بخط سفيد کتبہ ہے جس پر آیہ شریفہ “ ان اللّٰہ و ملائکتہ یصلون علی النبی ” ( غربی منارے ميں ) “ یا ایها الذین آمنو صلوا عليہ و سلمو تسليما ” ( شرقی منارے ميں ) مرقوم ہے ۔

یہ منارہ محمد حسين خان شاہسون شہاب ملک حاکم قم کے حکم سے ١٢٨ ۵ ء ه ميں بنایا گيا ہے جس کا قبہ ١٣٠١ ء ہجری ميں طلا کاری کيا گيا ہے ۔

ايوان آئينہ کے منارے

بر فراز پایہ ایوان دو منارے ہيں جن ميں سے ہر ایک چهت کی سطح سے ٢٨ ، ميٹر اور ٣ ميٹر ہے یہ آستانے کی بلند ترین عمارت ہے ۔ یہ منارہ سطح بام سے تين ميٹر / گھرائی ٣٠ ٢ ميٹر تک / اور آٹه متساوی الاضلاع پھر آدها ميٹر تزئين پھر ایک ميٹر لمبا ہے ۔ اس کے بعد ۵ بارہ برجستہ گوشے ہيں اور تمام کے بعد ( لکڑی کے منارے کے نيچے ) ایک استوانہ ہے جس پر ایک کتبہ ہے اس کی چوڑائی تقریباً ایک ميٹر ہے ان مناروں ميں سے ایک کے کتبے کا متن یہ ہے : “ لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظيم ” ۔ اور دوسری طرف : “ سبحان الله و الحمد لله و لا الہ الا الله و الله اکبر ” ہے ۔ پھر ایک بلند عمارت ہے جس کی چوڑائی تقریبا ایک ميٹر ہے اس کے اوپر ایک چوبی منارہ ہے جس کا قبہ موجود ہے دونوں منارے اوپر سے نيچے تک گرہی کاشی سے مزین ہيں جن کے در ميان خداوند عالم کے نام دیکھے جاسکتے ہيں ۔(١)

____________________

١ ۔ آیة الله العظمیٰ فاضل لنکرانی

۶ ( حرم مطہر کی مسجدیں (

مسجد بالاسر

مسجد بالا سر حرم مطہر کے وسيعترین علاقوں ميں شمار ہوتی ہے ۔ جہاں عمومی مجلسيں ، نماز جماعت بر قرار ہوتی ہے صفوی دور ميں یہ علاقہ چوڑائی ميں ۶ ، اور لمبائی ميں ٣ ۵ ، ميٹر آستانہ کے مہمانسرا ميں شمار ہوتا تھا ۔ قاجاری دور ميں تقی خان حسام الملک فرزند فتح شاہ کی طرف سے اس عمارت کی نو سازی ہوئی اور بصورت مسجد اس ميں دو گنبد بنائے گئے جس کا شمار آستانے کے بزرگترین علاقوں ميں ہوا ۔

١٣٣٨ ء ه ميں جو مسجد کے غربی حصے ميں زمين تھی اس کو ملانے سے اس کی مساحت ١ ۴ در ۴ ٨ ميٹر ہوگئی جو تين محکم اینٹوں کے ٣ در ٢ ميٹر ستون پر استوار ہے ۔

یہ بنائے مقدس اپنی جگہ اسی طرح برقرار تھی ليکن جب مسجد اعظم ایک خاص وسعت و زیبائی کے ساته بنائی گئی تو چونکہ مسجد بالا سر کی قدیمی عمارت مسجد اعظم اور حرم مطہر کے درميان خوشنما نہيں تھی لہٰذا متولی وقت آقائے سيد ابو الفضل توليت نے اس کے نو سازی کا اقدام کيا ۔ قدیم عمارت کو زمين کی سطح سے ہٹا دیا گيا اور اس کی جگہ پر ایک بلند و بالا عمارت ١ ۴ در ۴ ٨ ميٹر ( بدون ستون ) معماری کی بے شمار خصوصيات کے ساته بنائی گئی جو آج حرم مطہر کی خوبصورت و عمدہ عمارت ميں شمار ہوتی ہے ۔

مسجد طباطبائی

مسجد طباطبائی کی گنبد پچاس ستونی ہے جو قدیم زمانے ميں صحن کی جگہ روضہ مطہر کے جنوبی حصے ميں بنائی گئی ہے یہ گنبد بيچ ميں چوڑائی کے اعتبار سے ١٧ ، اور بلندی کے لحاظ سے ١٧ ميٹر ہے ۔ جس کی مساحت ميں اضافہ ہونے کی وجہ سے اس کے ٢ ۴ ميٹر ہے ۔ اس مسجد ميں بشکل مثلث رواق ہيں جس کے نچلے / ٢ ۴ در ٢٠ / اطراف ٨٠ ٣ کی / حصے ١ ۵ / ميٹر ہےں ۔ اس کے گنبد کو اینٹوں کی بنياد پر ٢ در ٢ ، ميٹر کے قطر ٣٠ بلندی ميں بنایا گيا ہے ۔ پھر تمام بنيادوں کو نيچے سے تراشا گيا اور ستونوں کے چاروں گوشے سے ایک ستون ( بہت اچھے مسالے کی مدد سے جس ميں سيمنٹ ، چهڑ ، لوہا و غيرہ مخلوط تھا ) اوپر لایا گيا پھر اندر سے ان چاروں ستونوں کو یکجا کر دیا گيا ۔ اور اس طرح یہ عظيم گنبد ٣٢ سے ۴ ٠ ۔ ستونوں پر بر قرار ہوا ان ستونوں کے اوپر جن پر سيمنٹ تھی مشينوں سے تراشے ہوئے سنگ مر مر چوڑائی ميں دس اور بلندی ميں پچاس سينٹی ميٹر تک مزین کئے گئے ۔ اس طرح سب کے سب ستون سنگ مر مر کے لباس سے مزین ہو گئے اور اس گنبد کے ستونوں کے نيچے مدرجی شکل ميں بُرُنز ( ایک فلز جو سونے کی طرح ہوتا ہے ) سے صيقل کرکے اس کی زیبائی ميں ایسا اضافہ کيا گيا کہ اس ميں چار چاند لگ گئے ۔ اس بلند گنبد کے ستونوں کی تعداد رواق اور اطراف کے ستونوں کو ملا کر پچاس ستونوں تک پہنچتی ہے ۔ اس بلند و بالا اور با عظمت مسجد کے بانی حجة الاسلام جناب محمد طباطبائی فرزند آیة الله حسين قمی ہيں ۔ اس عمارت ميں تقریباً ١٠ سال صرف ہوئے ۔ (

١٣ ۶ ٠ ء ه سے لے کر ١٣٧٠ ء ه تک ( اس مکان مقدس کے شمال غربی علاقے ميں بزرگ علماء و شہدا کی قبریں ہيں مثلا آیة الله ربانی شيرازی ، شہيد ربانی املشی ، شہيد محمد منتظری ، شہيد آیة الله قدوسی ، شہيد محلاتی جس نے اس مکان مقدس کی معنویات ميں اور اضافہ کردیا ۔

مسجد اعظم

لمسجد اسس علی التقوی من اول یوم احق ان تقوم فيه “ با عظمت دینی آثار ميں سے ایک عظيم اثر مسجد اعظم ہے جو عالم تشيع علی الاطلاق مرجع تقليد آیة الله العظمیٰ بروجردی قدس سرہ کی بلند ہمتی کا ثمرہ ہے ۔ یہ مسجد حضرت فاطمہ معصومہ سلام الله عليہا کے حرم کے نزدیک زائروں کی آسانی کے لئے بنائی گئی ہے ۔ یہ بلند و بالا عمارت آستانہ رفيع فاطمی کے کنارے ایک فرد فرید مسجد ہے ۔

____________________

١ ۔ آیة الله العظمیٰ فاضل لنکرانی

١١ / ذیقعدہ ١٣٧٣ ء ہجری روز ولادت با سعادت حضرت علی بن موسیٰ الرضا عليہما السلام کو ایک خاص جاہ و حشم کے ساته اس مسجد کی بنياد رکهی گئی ۔

مسجد کا معماری خاکہ :

مسجد کی مجموعی مساحت تقریبا ١٢٠٠ مربع ميٹر ہے ۔ پوری عمارت محکم مسالوں ( جس ميں سيمنٹ چھوٹے چھوٹے پتهر ، لوہے کے چهڑ و غيرہ استعمال کئے گئے ہيں ) سے بنائی گئی لہٰذایہ مسجد از نظر استحکام اسلامی عمارتوں ميں کم نظير شمار ہوتی ہے ۔ مسجد ميں چار شبستان ( حال ) ہيں جس ميں گنبد کے نيچے والے شبستان کی مساحت ۴ ٠ مربع ميٹر اور اس کے دونوں طرف ہر شبستان کی مساحت ٩٠ مربع ميٹر ہے ۔ نيز مسجد کے شمالی حصے ميں گهڑی کے نيچے ایک شبستان ہے جس کی مساحت ٣٠٠ مربع ميٹر ہے ۔ تمام شبستانوں کی چهتوں کی بلندی اس کی سطح سے تقریبا ١٠ ميٹر ہے ۔ مسجد کے غربی حصے ميں بيت الخلاء اور مسجد کا وضو خانہ ہے نيز خادموں کے لئے ایک حال بنام “ آسائشگاہ ” ہے ۔ اسی طرح مسجد کے غربی حصے ميں ایک لائبریری بنائی گئی ہے ۔ جس ميں دو حال ہيں ۔ ایک مطالعہ کے لئے اور دوسرا حال کتابوں کا مخزن ہے ۔ لائبریری ميں داخل ہونے کا راستہ مسجد اعظم ميں داخل ہونے والی راہرو سے ہے ۔

اس مسجد ميں ایک بڑا سا صحن ہے جس ميں وارد ہو نے کے متعدد دروازے ہيں ۔ صحن ميں ایک خوبصورت حوض ہے جس نے اس مکان مقدس کو خوش منظر بنا دیا ہے ۔ مسجد اسلامی معماری کی روش پر بنی ہے ۔

اس مسجد ميں ایک بڑا سا گنبد ہے جس کا قطر ٣٠ مربع ميٹر اور بلندی سطح بام سے ١ ۵ مربع ميٹر ہے اور شبستان سے اس کی بلندی ٣ ۵ مربع ميٹر ہے اس کے بلند وبالا گلدستے سطح بام سے ٢ ۵ مربع ميٹر اور سطح زمين سے ۴۵ مربع ميٹر ہيں اسی طرح گهنٹی بجنے والی خوبصورت گهڑی پر ایک چھوٹا سے گنبد ہے جو چاروں طرف سے دکهائی دیتا ہے یہ مسجد تزین اور کاشی کاری کے اعتبار سے آخری صدی ميں اسلامی ہنر کا ایک عظيم نمونہ شمار ہوتی ہے۔

اب یہ مقدس مکان محققين کی تحصيل کے لئے ایک مناسب ترین مکان ہوگيا ہے کيونکہ ایام تحصيلی ميں اکثر و بيشتر مراجع تقليد اسی مقدس مکان ميں درس دیتے ہيں اور طلاب و فضلاء کی کثير تعداد ان کے علمی فيوض سے بہرہ مند ہوتی ہيں ۔ اسی طرح مختلف مذہبی پروگرام جو مسجد کی شان ہے بڑی شان و شوکت کے ساته برپا ہوتے ہيں ۔

٧ ( حرم مطہر کے صحن نو ( اتابکی ))

صحن نو ایک وسيع و خوش منظر و قابل دید بنا ہے جس نے اپنی خاص معنویت کے ذریعہ بارگاہ فاطمی کی جلالت و عظمت ميں اضافہ کردیا ہے یہ خوبصورت صحن چار ایوانوں شمالی جنوبی شرقی غربی پر مشتمل ہے ۔ اس کا شمالی ایوان آستانے کے ميدان کی طرف سے وارد ہونے کا راستہ ہے ۔ اور جنوبی ایوان خيابان موزہ ( ميوزیم روڈ ) سے وارد ہونے کا راستہ ہے ۔ اور شرقی ایوان خيابان ارم ( ارم روڈ ) سے وارد ہونے کا راستہ ہے ۔ ان تمام ایوانوں ميں ہنری و معماری کے ظریف آثار ہر فنکار وہنر شناس کی نگاہوں کو اپنی طرف کهينچ ليتے ہيں ۔

وہيں غربی ایوان طلا ہے جو صحن نو سے روضہ مقدسہ ميں داخل ہونے کا راستہ ہے ۔ ان با جلالت ایوانوں ( خصوصا ایوان آئينہ ) کے وجود اور صحن مطہر کے وسط ميں بيضوی شکل کے حوض ( جس کی اپنی خاص خصوصيت ہے ) نے اس مقدس مکان کی زیبائی ميں چار چاند لگا دیا ۔

یہ صحن مرزا علی اصغر خان صدر اعظم کے آثار ميں ہے ۔ جس کا تعميری کام ٨/ سال کے طویل عرصے تک چلا۔ ( ١٢٩ ۵ ه سے ١٣٠٣ ه ) اس صحن ميں بہت سارے علماء کی قبریں ہيں ۔ مثلا مشروطيت کے زمانے ميں شہيد ہونے والے بزرگوار آیة الله شيخ فضل الله نور شہيد آیة الله مفتح ، بزرگ عالم شيعہ قطب الدین راوندی ۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام الله عليہا کے زائروں کے لئے سزاوار ہے کہ ان راہ امامت و ولایت کے فداکاروں کی زیارت سے مشرف ہوں اوران کی زیارت سے کبهی غافل نہ ہوں ۔

صحن عتيق ( صحن قديم)

صحن عتيق جو روضہ مبارکہ کے شمال ميں واقع ہے وہ ایک سب سے پہلی عمارت ہے جو قبہ مبارکہ پر بنائی گئی ہے۔

اس صحن کو تين خوبصورت ایوان اپنے گهيرے ميں لئے ہوئے ہيں ایک وہ با عظمت ایوان جو جنوب ميں واقع ہے جو وہی ایوان طلا ہے جو روضہ مطہر سے صحن ميں وارد ہونے کا راستہ ہے ۔ ایوان غربی جو صحن سے مسجد اعظم ميں وارد ہونے کا راستہ ہے ۔ مشرقی دالان صحن عتيق سے صحن نو ميں وارد ہونے کا راستہ ہے ، یہ صحن چھوٹا ہونے کے باوجود باجلالت ایوانوں اور متعدد حجروں کی وجہ سے ایک خاص خوبصورتی کا حامل ہے ۔ اس صحن اور اس کے اطراف کے ایوانوں کو شاہ بيگی بيگم دختر شاہ اسماعيل صفوی نے ٩٢ ۵ هء ميں بنوایا تھا۔

یہ آستانہ مقدسہ حضرت معصومہ عليہا السلام کے ہنری و معماری آثار کا ایک مختصر خاکہ تھا ۔ اسلامی ہنری مندوں کے لئے مناسب ہے کہ اس بلند و بالا عمارت کو جس ميں ہنرکے خزانے پوشيدہ ہيں نزدیک سے دیکھيں اور اس کے موجد وں کو داد وتحسين سے نوازیں ۔

حرم کے ستارے

بعض مشہور شخصيتيں جو حرم مطہر ميں دفن ہيں :

مسجد اعظم

آیت الله العظمیٰ سيد حسين طبا طبائی بروجردی

مسجد بالا سر

آیت الله العظمیٰ شيخ عبد الکریم حائری یزدی حجة الاسلام حکيم

آیت الله العظمیٰ سيد محمد تقی خوانساری علامہ طباطبائی

آیت الله العظمیٰ سيد صدر الدین صدر آیت الله ميرزا ہاشم آملی

آیت الله العظمیٰ سيد محمد رضا گلپائگانی آیت الله محمد تقی بافقی

آیت الله العظمیٰ شيخ محمد علی اراکی آیت الله شہيد مطہری

آیت الله العظمیٰ سيد محمد علی بہاء الدینی آیت الله عبد النبی عراقی

آیت الله العظمیٰ سيد احمد خوانساری آیت الله پسندیدہ

آیت الله مرتضیٰ حائری آیت الله شيخ ابوالقاسم قمی

آیت الله سيد مصطفی خوانساری آیت الله سيد محمد انگجی

آیت الله حاج آقا روح الله کمالوند آیت الله سيد عباس مہری

حجة الاسلام و المسلمين اشراقی

مسجد طباطبائی

حجة الاسلام مولائی ( سابق متولی حرم ) شہيد آیت الله ربانی شيرازی

شہيد آیت الله ربانی املشی شہيد حجة الاسلام محمد منتظری

شہيد حجة الاسلام فضل الله محلاتی آیت الله وجدانی

شہيد حجة الاسلام موسوی دامغانی شہيد آیت الله قدسی

شہيد حجة الاسلام عباس شيرازی

صحن بزرگ ( اتابکی(

) آیت الله شيخ فضل الله نوری ( حجرہ ، ۴ ١ ) آیت الله محقق داماد ( حجرہ ، ۴ ١

) شہيد حاج مہدی عراقی )حجرہ ، ۴ ٣ ) حجة الاسلام کوثری ( حجرہ ، ۴ ٣

) شہيد سر لشکر قرنی ( حجرہ ، ٣٧ ) آیت الله سيد رضا صدر ( حجرہ ، ٣١

) آیت الله سيد احمد زنجانی )حجرہ ، ٣١ ) شہيد آیت الله مفتح ( حجرہ ، ٢ ۴

شہيد محمد جواد یالمہ ( حجرہ ، ٢ ۴ ) قطب راوندی( صحن اتابکی(

) حجة الاسلام شيخ حسن نوری( حجرہ ، ٣) شاعر پروین اعتصامی( حجرہ ، ١

) حجة الاسلام سيد عزیز طباطبائی ( حجرہ ، ١ ۴

صحن عتيق

) آیت الله فيض قمی( ایوان طلا) مقبرہ خدام آستانہ مقدس ( حجرہ ، ١و ١١

) عارف فرزانہ حاج اسماعيل دولابی( حجرہ ، ٢

نوٹ: جن بزرگوں کے نام یہاں پر ذکر کئے گئے ہيں ان کے علاوہ اور بهی شخصيتيں ہيں

جو حرم مطہر حضرت معصومہ عليہا السلام ميں دفن ہيں ۔

حرم مطہر ميں منعقد ہونے والے پروگرام

نماز جماعت:

نماز صبح :۔ پہلی جماعت ۔ آیة الله صلواتی دامت برکاتہ کی اقتدا ميں

دوسری جماعت ۔ آیة الله شبيری زنجانی دامت برکاتہ کی اقتدا ميں

نماز ظہر و عصر:۔

حرم مطہرم ميں آیة الله اشتہاردی کی اقتدا ميں

مسجد اعظم ميں آیة الله سبحانی دامت برکاتہ کی اقتدا ميں

مغرب عشاء:۔

حرم مطہرميں آیة الله شبيری زنجانی دامت برکاتہ کی اقتدا ميں

مسجد اعظم ميں آیة الله امينی دامت برکاتہ کی اقتدا ميں

دوسرے پروگرام

احکام شرعی کا بيان:۔ہر روز آدها گهنٹہ نماز مغرب سے پہلے

ختم قرآن :۔ہر روز نماز ظہر و عصر کے بعد

پيام حرم :۔ہر پنجشنبہ و جمعہ کو شعراء سے شروع ہو کر خطبا ء پر ختم ہو تا ہے ۔

دعائے توسل:۔ہر چہار شنبہ کی شب ميں نماز مغرب و عشاء کے فوراًبعد۔

شبی با قرآن :۔ہر چہار شنبہ ميں مختلف قرّا کی موجودگی ميں نماز مغربين کے فوراًبعد ۔

دعائے کميل :۔ہر شب جمعہ بعد از نماز مغربين۔

دعائے ندبہ :۔ہر روز جمعہ ہنگام طلوع آفتاب

زیارت جامعہ کبيرہ :۔ہر شب جمعہ دس بجے

ان کے علاوہ حرم مطہر کے خدّام کا ہرروز صبح ساڑهے سات بجے وشام ٧/بجے اپنا

مخصوص پروگرام ضریح مطہر کے سامنے منعقد ہوتا ہے ۔

حرم مطہر کے دفتری امور

حضرت فاطمہ معصومہ “سلام الله عليہا”کی ملکوتی بارگاہ آپ کے دفن ہونے کے دن (دس ربيع الثانی ٢٠١ هء)سے آج تک ائمہ اطہار و بزرگان دین و تمام مواليان اہلبيت (س) کے لئے مرکز احترام ٹهہری ہے ،اس بارگاہ کی ہر طرح کی خدمت خدام کے لئے ایک فخر کی بات ہے ۔ حرم مطہر کے دفتری امور ہر زمانے ميں اسی وقت کے متولی کی مصلحت اندیشی کے مطابق مختلف رہے ہيں ۔

ليکن ان امور ميں جس قدر ترقی حضرت آیة الله حاج شيخ علی اکبر مسعودی خمينی کے متولی ہو نے کے بعد جنهيں رہبر معظم نے اس عہدہ کے لئے انتخاب کيا دیکھنے ميں آئيں وہ واقعاًقابل داد و تحسين ہيں ۔

لہٰذا اس مقام پر ہم چاہتے ہيں کہ قارئين کی خدمت ميں ان دفتری امور کا ایک مختصر خاکہ پيش کریں ۔

مال و متاع سے متعلق دفتر:۔

اس ادارے کی ذمہ داریاں کا فی اہم ہيں ہر طرح کے مالی امور کے فرائض اسی دفتر ميں انجام دیئے جاتے ہيں ۔

حساب و کتاب کا دفتر:۔

اس ادارے کا کام چار حصوں پر مشتمل ہے ۔

١) دستاویز کا جاری کرنا

٢)دستا ویز کے تحقيقی امور کا انجام دینا

٣) انهيں رکارڈ ميں رکهنا

۴) انهيں ایک خاص روش پر منظم کرنا اور انهيں نئے حساب وکتاب کے آلات سے منظم کرنا،

جمع اور خرچ کا دفتر:۔

یہ ادارہ چار شعبوں پر مشتمل ہے جن کے اسماء اس طرح ہيں ۔

١(ہدایا ونذورات

٢) دایرہ وصول

٣) واحد بودجہ و اعتبارات

۴) واحد در آمد۔

سرمايہ کی حفاظت کا دفتر:۔

اس ادارہ پر تمام اموال کی حفاظت کی ذمہ داری ہے جيسے حرم سے متعلق تمام عمارتوں اور اسٹور ميں رکهی تمام اشياء پر دقيق نظارت ۔ حرم کے تمام متاع کو آئين نامہ کے مطابق تدوین کرنا اور ان اشيا ء سے مربوط دفاتر ميں رجسٹر ڈ کرانا ۔اشياء پر ان کا کوڈ لکه کر حرم مطہر کے دفتر اموال کے سپرد کرنا۔

خادموں سے متعلق دفتر:۔

یہ ادارہ حر م مطہرکی ایک خاص خدمت کرتا ہے جيسے حرم کی مخصوص ضرورتوں کو مہيا کرنا خدّام کی تنخواہ مقرر کرنا انہيں انعامات سے نوازنا۔ ان سے متعلق امور کی چهان بين کرنا خدام کی مشکلات کو حل کرنا ،تمام چيزوں کو حرم کے مخصوص قانون اور ملک کے عمومی قانون کے مطابق کرنا ۔

تعميری امور سے متعلق ادارہ :۔

یہ ادارہ حرم کے اندر تمام چھوٹے بڑے تعميری کام کو انجام دیتا ہے ۔

بعض وہ امور جنهيں ادارے نے گزشتہ قریب ميں انجام دیا ہے مندرجہ ذیل ہيں : صحن بزرگ کے تعميری کام ،تمام ایوانوں کی مرمت خاص کر ایوان آئينہ ،صحن عتيق،حجروں کے اندرونی حصوں اور چهتوں کی مرمت ،مقبروں کی مرمت ۔

اسی طرح ضریح بنوانا روشن دانوں کی مرمت ،گنبد کے سونے کی تبدیلی اس ادارے کی نا قابل فراموش کار کردگياں ہيں ۔

مشينری دفتر :۔

یہ ادارہ مختلف شعبوں پر مشتمل ہے حرم کے تمام برقی امور کی ذمہ داریاں اسی ادارے کے سپرد ہيں حرم کے تمام سردی و گرمی کے سيسٹم اسی ادارے کے سپرد ہيں صاف پانی کا تہيہ کرنا اور اس طرح کے تمام امور اس ادارے کے ذمّہ ہيں ،برق چلے جانے کے بعد جنليٹر کے ذریعے بجلی کی سپلائی اسی ادارے کی ذمہ داری ہے ۔

سکريٹری:۔

یہ ادارہ حرم کے تمام دفتری مکتوباب اور دستاویز کو ضبط و ثبت کرتا ہے اور انهيں نئے آلات ميں ریکارڈ کرتا ہے۔

حرم کے وسائل سے متعلق ادارہ:۔

اس ادارہ کی ذمہ داریاں ہر ان چيزوں کو مہيہ کرنا جن کی ضرورت حرم کے مہمان سرا اور دوسرے شعبوں کو ہے ، حرم مطہر ميں خدمت کرنے والے افراد کی مشکلات کا حل بهی یہی ادارہ کرتا ہے مخصوص افراد کو تحائف سے نوازنا قرض الحسنہ دینا اور اسی طرح کی دوسری امداد اور کهانے کے ٹوکن کی تقيم کرنا۔

تمام املاک کی نظارت کا دفتر:۔

یہ ادارہ مختلف شعبوں پر تقسيم ہوتا ہے موقافات کے سلسلے کے ضروری امور کی انجام دہی شہری ملکيت ،زراعتی ملکيت ميں ضروری اقدامات اٹهانا۔

ہيلته سينٹر:۔

اس ادارے کے تحت نظر مختلف ہسپتال ہيں جن ميں ایک ہسپتال شہر جعفریہ ميں واقع ہے اور ایک کلينک حضرت معصومہ کے نام سے منصوب ہے جو حرم ہی سے متصل ہے۔صحت و سلامتی کے ضروری دستورات بهی اسی ادارے کی ذمہ داریاں ہيں ۔

نشر و اشاعت کا دفترة۔

تمام تبليغی اور تحقيقی امور اسی ادارے کی ذمہ داری ہے کتب خانوں کی تاسيس اور کتابوں کی نشر و اشاعت بهی اسی ادارے کی ذمہ داری ہے ۔حرم کے زائرین کے لئے ہرطرح کی شہولت فراہم کرتا ہے۔

١٣٨ ۴ ئه ش سے شورای فرہنگی نامی ادارہ قائم ہوا ہے اس کے بعد ١٣٨ ۵ ئه ش ميں معاونت فرہنگی نامی ادارہ کی تاسيس ہوئی ۔

آرٹ سے متعلق دفتر:۔

ان تمام امور کی نگہداری اور انهيں ان کی اور انهيں اپنی حالت پر باقی رکهنا اس ادارے کی ذمہ داریاں ہيں ۔

ميوزیم:۔

اس ميوزیم ميں تمام آثار قدیمہ کی حفاظت کی جاتی ہے جو چند شعبوں پر مشتمل ہے ۔

خطی قرآن ، ظروف سفال (مٹی کا ایک قسم کا برتن) کاشی کاری ، قيمتی اشياء کی حفظ و نگہداری ۔

بين المللی دفتر۔

دور دراز سے آئے ہوئے زائرین کا استقبال ان کی رہنمائی کرنا اس ادارے کی ذمہ داری ۔ تمام مکتوباتی اور ارتبابات ، ملک سے باہر کتاب کا بهيجنا اور حرم سے مخصوص سائٹ کی تنظيم کرنا اس ادارے کی اہم ذمہ داریوں ميں سے ایک ہے ۔ : (( www.masoumeh.com سائٹ کا ایڈریس

حرم مطہر کا مرکزی دفتر:۔

اس ادارے کی مختلف ذمہ داریاں ہيں ہر طرح کا نظم برقرار کرنا ۔ کفش داریوں ( جوتا چپل رکهنے کی جگہ) کے سلسلے ميں ضروری اقدامات اٹهانا ، امانت کے طور پر رکهے گئے سامان کے رکهنے کی جگہ کے سلسلے ميں کوشاں رہنا ۔اسی حرم کے تمام دفاتر سے مربوط رہنا اس ادارے کی ذمہ داریاں ہيں ۔

اقتصاديات کا دفتر:۔

یہ ادارہ اقتصادی امور کا نگراں ہے جو مجموعا پانچ شعبوں پر مشتمل ہے: زراعت کے امور، بنجر زمينوں کے سلسلے ميں خصوصی اقدامات اٹهانا۔ نشر و اشاعت کے امور اسی طرح کے تعميری امور اس ادارے کے ذمہ ہيں ۔جن کا مختصر خاکہ قارئين کی خدمت ميں پيش کرتے ہيں :

کهيتی باڑی اور جانوروں نگہداری کا شعبہ۔

کهيتی باڑی کے مخصوص اصول اور اس فن کے ماہرین سے بنجر زمينوں کے احياء کے لئے مدد حاصل کرنا اسی طرح فصل کی زیادتی کے سلسلے ميں ضروری اقدامات اٹهانا جو ملکيت جعفر آباد ، مزرعہ عصمتيہ ، واليجرد، شریف آباد ، علی آبادسراجہ اور چہار دانگہ سيرو ميں واقع ہے۔

جعفر آباد کی زمين :۔

یہ ملکيت موسسہ زائر کے تحت نظر زمينوں ميں ایک وسيع زمين ہے ،جگہ کے لحاظ سے بہت ہی ممتاز ہے کيونکہ کهيتی باڑی اور جانوروں کی نگہداری کے لئے کا فی مناسب ہے۔

ادارہ ہر طرح سے نظارت کے فرائض انجام دیتا ہے چاہے وہاں کام کرنے والے ۵ ٢ /کسا ئی کی کار کردگی ہو یا وہاں ضرورت کی چيزوں کو وقت پر مہيہ کرنا ہو ۔

اس کے علاوہ بهی ادارہ کی کار کردگی نا قابل فراموش ہے جيسے پستہ انگور وانار کے باغات لگانا اور ان کی بہتری کے لئے ہر طرح کی جدید معلومات حاصل کرنا ۔

اگر آپ اس زمين کو غائرانہ نظر سے دیکھيں تو آپ کو بہ خوبی احساس ہو گا کہ یہاں پر ادارہ نے تمام ان چيزوں کی رعایت کی ہے جسے اس فن کی ماہرین نے بتایا ہے ۔

اس زمين پر چار گہرے کنوئيں اور ایک دوز نالی ہے جو اس ١١٠ /هيکٹر زمين کو پانی فراہم کرتے ہيں ۔

مزرعہ عصمتيہ :۔

بہترین استعداد کی حامل یہ زمين کهيتی باڑی ،جانوروں کی نگہداری اور صنعتی امور کے لئے کافی ناسب ہے ليکن پانی کی کمی کی وجہ سے اس جگہ کهيتی کرنا کافی سخت ہے ۔

ان تمام مشکلات کے باوجود قابل دادو تحسين ہيں مزرعہ عصمتيہ کے عہدیداران جن کی غير معمولی سعی وکوشش کے نتيجے ميں یہ زمين کافی نفع بخش ثابت ہوئی ۔

اہم کار کردگی :۔

١۔پستہ و انگور کے باغ لگانا ٢۔مختلف قسم کی اناج اور دوسرے اشياء کی زراعت ٣۔ ۵ ٠٠٠ /ہزار گوسفند اور ١٠٠٠ /گائے کی نگہداری

موقوفہ واليجرد :۔

اس منطقہ کا شمار قم کے قناتی علاقے ميں ہوتا تھا یہ پورا وقف ١٢٠ /هيکٹر زمين اور دو قسم کے ٹيوب ویل (جس ميں ایک اليکٹریک اور دوسرا ڈیزل سے چلتا ہے )پر مشتمل ہے: یہاں پر بهی ایک بيس هيکٹر کا باغ لگایا گيا اور مختلف اقسام کی زراعت ہو تی ہے ۔

موقوفہ شريف آباد :۔

یہ وقف کی زمين قم کے شمال ميں واقع ہے اس کی مساحت ٢ ۵ ٠ / ہيکٹر ہے۔ اس جگہ پر بهی پستہ کا ایک وسيع باغ لگایا گيا ہے جس کی مساحت ٧٢ /ہيکٹر ہے دوسرے اوقاف کی طرح یہاں پر بهی مختلف انواع و اقسام کی زراعت ہوتی ہے۔

علی آباد سراجہ

اس زمين کی مساحت ٢٧٠ /ہيکٹر ہے جس ميں تين گہرے کنویں ہيں شہر قم کے جنوب ميں پچيس کلوميٹر پر واقع ہے زمين کے زمين کے نمکذار اور بلندی کی وجہ سے یہاں کی زراعت کافی متاثر ہے اسی وجہ سے یہاں زراعت کے امور تدریجا انجام دیئے جاتے ہيں ۔ اس جگہ پر بهی ایک پستہ کا باغ لگایا ہے جس کی مساحت ١٠٠ /ہيکٹر ہے ۔ مختلف انواع کی زراعت بهی یہاں ہوتی ہے۔

چہار دانگہ سيرو

۵ ٠ /ہيکٹر پر مشتمل یہ نا ہموار زمين قم کے جنوب ميں واقع ہے یہاں پر پستہ و زرد آلو و بادام اور انگور کے باغات لگائے گئے ہيں جس کی مساحت ۵ ٠ /ہيکٹر ہے۔

بخش فنی و عمرانی

اس ادارے کی ذمہ داریاں حرم سے باہر ،حرم کی تمام ملکيت کا تعميری کام کرانا اور اس کے علاوہ وہ دوسرے تمام امور کو انجام دینا جو ضروری ہيں ۔

بخش فرہنگی و انتشاراتی

یہ شعبہ چاپ و نشر کے فرائض انجام دیتا ہے۔ اس شعبہ کی اہم کارکرگی ذیل ہيں ۔ ١۔ کتاب کی نشر و اشاعت

٢۔ صحافت

٣۔ کتابوں کے اسٹال

بخش بازرگانی

یہ شعبہ کتابوں اور دوسری اشياء جو حرم کی جانب سے ہوتی ہيں انهيں فروخت کرتا ہے ۔

امور شرکت ها

چوں کہ بعض کمپنيوں ميں حرم مطہربهی شریک (سہم رکهتا) ہے اسی وجہ سے یہ شعبہ وجود ميں آیا تاکہ اس سلسلے کے تمام امور اچھے طریقہ سے انجام پا سکے ۔