شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات 0%

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

مؤلف: الشیعہ ڈاٹ او آر جی
زمرہ جات:

مشاہدے: 8818
ڈاؤنلوڈ: 3340

تبصرے:

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 36 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8818 / ڈاؤنلوڈ: 3340
سائز سائز سائز
شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات

مؤلف:
اردو

حرم مطہر کے دفاتر کے فون نمبر:۔

دفتر متولی محترم : ۶ ۔ ٧٧ ۴ ١ ۴ ٣ ۴

نمابر آستانہ: ٧٧ ۴ ١ ۴ ٣ ۵

دفتر معاون محترم : ٧٧١ ۴ ٣٧

امور بين الملل : ٧٧ ۴ ١ ۴۴ ١

مدیریت حرم: ٧٧ ۴ ٣٠ ۵ ٧

دفتر انتظامات صحن حرم : ٧٧ ۴ ١ ۴ ٨٧

مسجد اعظم: ٧٧ ۵۵ ٨٨٠

دفتر مدیر نظافت: ٧٧ ۴ ١ ۴ ٣٩

ميوزیم: ٧٧ ۴ ١ ۴ ٩١

کتب خانہ: ٧٧ ۴ ١ ۴۴ ٠

پيام آستانہ: ٢٩٢ ۴۴۴ ٨

دفترمجلہ کوثر: ٧٧٣ ۵۴ ٧٨

موسسہ زائر: ٢٠ ۔ ٩٣٧٣١ ۶

کتاب فروشی: ٧٧ ۴ ٢ ۵ ١٩

ہوٹل قم: ١ ۵ ۔ ٧٧١٩٨٠٨

ادارہ املاک: ٧٧ ۴ ١ ۴ ٨٩

معاونت فرہنگی: ٧٧٣ ۵ ٢٢ ۵

بعض قابل دید اماکن کا تعارف

بيت النور:۔

ميدان مير ( ۴۵ ميتری عمار یاسر) ميں ایک عزاخانہ اور مدرسہ ستيہ نامی واقع ہے جو حضرت فاطمہ معصومہ کی حيات طيبہ ميں موسی بن خزرج کا مکان تھا ۔حضرت معصومہ نے اسی جگہ اپنی زندگی کے باقی پر برکت دن یاد خدا ميں بسر کيا۔

منزل امام خمينی:۔

یہ قابل دید جگہ محلہ یخچال قاضی خيابان معلم قم ميں واقع ہے ،یہ دو منزلہ عمارت تہہ خانہ پر مشتمل ہے عمارت کے جنوبی حصہ ميں صحن واقع ہے مکان کا نقشہ اس طرح ہے کہ وہاں واقع دو سيڑهيوں نے مکان کو دو اندرونی و بيرونی حصوں ميں تقسيم کر دیا ہے ۔ عمارت کے شرق ميں موجودہ کمرہ مراجع کرام و امام خمينی کے مخصوص جلسوں کے کام آتا تھا ۔ عمارت کی ظاہری حالت دیکھ کر اس بات کا اندازہ باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تعمير اس قرن کے اوائل ميں ہوئی تھی۔

اس گھر کو امام خمينی نے ١٣٣ ۵ ء ه ش ميں خرادا اور ١٣ ۴۵ ئه ش تک آپ کا یہ گھر تھا ليکن پہلوی حکومت نے جس وقت آپ کو در بدر کيا یہ گھر دفتر بن گيا۔

آج بهی یہ جگہ آپ کی یاد ميں باقی رکهی گئی ہے جہاں روز آنہ بہت سے لوگ دور دور سے اس کو دیکھنے کے لئے آتے ہيں ۔

مدرسہ فيضيہ :۔

مدارس کی دنيا کا ایک مشہور ترین مدرسہ ہے تيرهویں قرن کے نصف اول ميں یہ مبارک مدرسہ مدرسہ آستانہ کا جاگزیں بنا۔

معتبر متون تاریخی کے مطابق یہ مدرسہ چهٹے قرن (ہجری قمری) کے اواسط ميں موجود تھا ، دو طبقوں پر مشتمل یہ مدرسہ جس کے نيچے کے چاليس کمرے عصر قاچار سے تعلق رکهتے ہيں ۔ اوپری چاليس کمروں کی تعمير چودهویں قرن (ہجری قمری) ميں حضرت آیة الله العظمیٰ شيخ عبد الکریم حائری کی انتهک کوششوں کا نتيجہ ہے۔ مدرسہ کا سب پرانہ حصہ مدرسہ کے جنوبی ایوان ميں جو ٩٢٩ ئه ق خوبصورت کاشی کاری سے مزین تھے ۔مدرسہ حرم سے اتنا قریب ہے کہ حرم مطہر کے صحن عتيق کا دروازہ مدرسہ فيضيہ کی جانب سے ہے۔

مسجد جامع:۔

شہر قم کی دو ایوانی مساجد ميں سے ایک ہے جو بشکل مربع و مستطيل تعمير ہوئی ہے اس کے گنبد خانوں کا باہم متوازن اتصال چهٹے قرن (ہجری قمری) سے تعلق رکهتا ہے۔

مسجد امام حسن عسکری کے بعد یہ مسجد قم کی سب سے قدیمی مسجد ہے متون تاریخی کے مطابق اس کے گنبد کی تعمير ۵ ٢٩ هء ق ميں ہوئی جو فتح علی شاہ کا زمانہ تھا ۔ اس بات کی تصدیق مسجد کے کتيبوں سے ہوتی ہے ۔

ليکن مسجد کا جنوبی ایوان اور گنبد کی رنگ کاری کا تعلق صفوی دور سے ہے ۔ مسجد کا شمالی ایوان اور شرق و غرب ميں واقع شبستان عصر قاچار کے شاہکار ہيں ۔

مسجد امام حسن عسکری (س):۔

مرکز شہر ميں حرم کے ابتدائی سڑک رودخانہ کے پہلو ميں واقع ہے مسجد کافی وسيع ہے یہ مسجد امام حسن عسکری عليہ السلام سے منسوب ہے ۔ تيسرے قرن ہجری ميں امام حسن عسکری (س) کے وکيل نے امام کے حکم سے اس مسجد کی تعمير کروائی ، یہ مسجد عظيم خصوصيات کی حامل ہے اس مسجد ميں آیة الله محمد تقی خوانساری کا درس بهی ہوتا تھا ، جس درس ميں امام خمينی و آیة الله اراکی جيسی شخصيت شرکت فرماتی تھيں ۔

آج بهی اس عظيم الشان مسجد ميں مستقل نماز جماعت اور مذہبی پروگرام منعقد ہوتے ہيں ۔ ١٣٧٧ ئه ش سے اس مسجد ميں پھر سے تعميری کام شروع کيا گيا ہے دوسری زمين کا بهی مسجد ميں اضافہ کيا گيا ہے ۔ جس کی وجہ سے اب ہزاروں افراد ایک وقت ميں مسجد سے شرفياب ہو سکتے ہيں ۔

حرم مطہر کا ميوزيم:۔

یہ ميوزیم روئے زمين کے عظيم خزانوں پر مشتمل ہے ميوزیم بننے سے پہلے وقف و ہدئے کی چيزوں کی خزانہ نامی جگہ پررکهی جاتی تھيں ليکن اشياء کی حفاظت نے متولی حضرات کی نظر ميوزیم کی طرف مبزول کرائی۔

اسی وجہ سے آبان ماہ (شمسی مہينہ ) ١٣١ ۴ ئه ش ميں ميوزیم بنایاگيا جو ١٣ ۴ ٣ ئه شمسی تک باقی رہا اس کے بعد ان تمام نایاب کم نظير آثارکی حرم ہی سے ملحق ایک عمارت ميں نمائش لگائی گئی یہاں تک کہ اس ١٣٧٠ ئه ش ميں ایک مخصوص عمارت ميوزیم کے لئے آمادہ کی گئی اس عمارت کے بعد ميوزیم کو ایک حيات نو حاصل ہو ئی ١٩ /تير ١٣٧٢ ئه ش سے اعلیٰ پيمانے پر ميوزیم کا آغاز ہوا اس جدید یہ عمارت کی مساحت ایک ہزار ميٹر بشکل مربع ہے دو طبقہ اس عمارت کو چند شعبوں ميں تقسيم کيا گيا ہے ایک شعبہ نمائش کا ہے ایک شعبہ کا تعلق ميوزیم کے دفتری امور سے ہے اسی عمارت ميں ایک شعبہ بنایا گيا ہے جس کا کام ميوزیم کی موجودہ اشياء کی ہر طرح سے حفاظت ہے یہ عمارت حرم مطہر سے ملحق ایک وسيع ميدان ميں واقع ہے جسے ميدان آستانہ کہا جاتا ہے۔

مسجد جمکران:۔

حسن بن مثلہ بيان کرتے ہيں : سہ شنبہ بتاریخ ١٧ /رمضان المبارک ٢٩٣ هء آدهی رات گزر چکی تھی ميں اپنے غریب خانہ ميں محو خواب تھا اسی اثنا مجهے ایک جماعت نے یہ کہہ کر اٹهایا کہ تمهيں امام زمانہ نے یاد کيا ہے۔ ميں خو کو آمادہ کرکے دروازہ پر پہنچا اور ان نورانی ہستيوں کو سلام کيا ان لوگوں نے ميرے سلام کا جواب دیا پھر ميں ان کے ہمراہ اس جگہ پر پہنچا جہاں آج مسجد جمکران واقع ہے۔

ميری نظر ایک تخت پر پہنچی جس پر نہایت نفيس قالين بچها ہوا تھا اور اس پر دو نورانی شخصيت تشریف فرما تھيں ۔ جن ميں ایک کی عمر مبارک تيس سال رہی ہوگی تکيہ سے ٹيک لگائے بيٹهے ہوئے تھے ، اسی پرنور شخصيت کے قریب ہی ایک سن رسيدہ نورانی شخصيت بهی تشریف فرما تھی جن کا سن مبارک تقریبا ۶ ٠ /سال رہا ہوگا ان بزرگ کے ہاتھوں ميں ایک کتاب تھی جسے وہ اس جوان کے سامنے پڑه رہے تھے۔ تخت کے اطراف ميں پروانوں کی طرح لوگوں کی ایک جماعت تھی جن کی تعداد ساٹه کے قریب رہی ہوگی۔ان ميں سے بعض سفيد اور بعض سبز لباس ميں یاد خدا ميں مصروف تھے۔

ان نورانی شخصيتوں ميں سے جن کا سن زیادہ تھا یعنی حضرت خضر (س) نے مجهے بيٹهنے کے لئے کہا اور پھر امام وقت نے مجهے ميرے نام سے مخاطب کيا اور فرمایا: جاؤ اور حسن مسلم سے کہو کہ تم اس زمين پر جو بهی کام کرتے ہو وہ صحيح نہيں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمين پر کسی طرح کا کام کرنے کی اجازت نہيں ہے کيوں کہ اس زمين کو خدا وند عالم نے دوسری زمينوں پر فضيلت دی ہے۔

اس جگہ پر ایک مسجد بنائی جائے،حسن مسلم سے کہو کہ اگر ہمارے حکم کی تعميل نہ کی تو جس طرح دو جوان بيٹوں کا غم دیکھا ہے اسی طرح پھر مشکلات کے ذریعہ خدا وند عالم انهيں آگاہ کرے گا۔

حسن بن مثلہ کہتے ہيں : ميں نے عرض کيا مولا کتنا اچھا ہوتا اگر ميری بات پر آپ کی جانب سے کوئی تائيد ہوتی تاکہ اسے سچ ہونے کا یقين ہو جائے ۔ امام عليہ السلام نے فرمایا: تم سيد ابو الحسن الرضا ( یہ شہر قم کی بزرگ شخصيت ميں سے تھے ) کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ وہ تمهارے ہمراہ جائيں ۔ حسن مسلم سے ہمارا حق لے کر ایک مسجد بناؤ ۔پهر امام نے فرمایا: لوگوں سے کہو اس جگہ کا احترام کریں اور جب یہاں آئيں تو چار رکعت نماز مذکورہ طریقہ پر پڑهيں ۔ دو رکعت نماز احترام مسجد مثل نماز صبح بجا لائيں جس کی ہر دو رکعت ميں سورہ “حمد” کے بعد سات مرتبہ سورہ “قل هوالله احد ” پڑهيں اور رکوع و سجود ميں ذکر رکوع اور سجود بهی سات مرتبہ پڑهيں اس کے نماز تمام کریں ۔

پهر دو رکعت نماز صاحب الزمان (س) پڑهےں ،او رجب سورئہ حمد پڑه رہے ہوں اور“اِیَّاکَ نَعبُْدُ وَ اِیَّاکَ نَستَْعِينُْ ” پر پہنچےں تو اسے ١٠٠ /مرتبہ پڑهيں اس کے بعد سورئہ حمد مکمل کرےں اور اس کے بعدسورہ “قل هو اللّٰه احد ” پڑهيں ۔ دوسری رکعت بهی اسی طرح پڑهےں اور ہر رکوع و سجدہ ميں اس کا ذکر سا ت مرتبہ پڑهےں اور جب نماز تمام ہو جائے حمد پروردگار کرےں اور حضرت فاطمہ زہرا (س)کی تسبيح پڑهےں اور تسبيح پڑهنے کے بعد سر سجدہ ميں رکهےں اور ١٠٠ /مرتبہ محمد وآل محمد پر صلوات بهيجیں ۔

اور اس وقت حضرت نے اس طرح فرمایا : “فَمَن صَلاّ هٰا فَکَا نَّما صَلیّٰ فِی البَْيتِْ العَْتِيق “َ جس نے بهی یہ دو رکعت نماز پڑهی گویا اس نے خانہ کعبہ ميں نماز پڑهی ہے۔ حسن بن مثلہ کہتے ہيں : جب امام کا بيان ختم ہو اتو مجه سے فرمایا: اب جاؤ ابهی ميں آپ کی خدمت سے رخصت ہو رہا تھا کہ مجهے پھر صدا دی اور کہا: ایک بکری جس کی نشانياں یہ ہيں اسے جعفر کاشانی کے گلہ سے خرید نا اور کل شب جو ١٨ /رمضان ہے اسے اسی مکان پر لاکر ذبح کرنا ۔ اس کا گوشت بيماروں کے درميان تقسيم کرنا تاکہ خدا وند عالم انهيں شفا عطا فرمائے۔

امام (س) کا بيان سننے کے بعد جيوں ہی ميں چلا امام نے پھر فرمایا:ميں سات ( یا ستّردن) اسی جگہ ہوں ۔

گهر لوٹنے کے بعد صبح کے انتظار نے مجهے سونے نہ دیا ، صبح کے پہلے ہی پہر ميں اپنے دوست “ علی المنذر ” کے گھر پہنچا اور اسے پورے واقعہ سے آگاہ کيا پھر اپنے دوست کے ہمراہ اسی جگہ پر پہنچا جہاں کل رات مجهے لے جایا گيا تھا ۔ خدا کی قسم جس طرح سے امام نے گزشتہ رات فرمایا تھا ، اس زمين کے چاروں طرف زنجير اور کيلوں لگا ہوا دیکھا۔

ميں بہت تيزی کے ساته شہر قم سيد ابو الحسن الرضا کے گھر کی طرف چل پڑا ان کے دولت کدے پر پہنچ کر دروازے پر موجود افراد سے ميں نے اپنا تعارف کرایا تو ان لوگوں نے کہا تمهارا انتظار تو سيد ابو الحسن الرضا صبح سے کر رہے ہيں ۔ گھر ميں داخل ہونے کے بعد ميں نے سلام کيا ۔ سيد ابو الحسن الرضا نے ميرا والہانہ استقبال کيا اور اس سے پہلے کہ ميں کچه عرض کروں وہ گویا ہوئے حسن مثلہ ميں نے کل رات ميں خواب ميں دیکھا کہ کوئی مجه سے کہہ رہا ہے حسن بن مثلہ نامی ایک شخص جمکران سے تمهارے پاس آئے گا اس کی بات پر بهروسہ کرنا کيوں کہ وہ جو کچه کہے گا وہ ميری بات ہے اس کی باتوں کو نظر انداز نہ کرنا۔

بتاؤ بات کيا ہے ۔ حسن بن مثلہ کہتے ہيں ميں نے پورا واقعہ تفصيل کے ساته ان کی خدمت ميں بيان کيا واقعہ تمام ہونے کے بعد بلافاصلہ گهوڑے آمادہ کئے گئے اور ہم دونوں جمکران کی طرف نکل پڑے وہاں پہنچے تو جعفر کاشانی نامی گلہ بان پہلے ہی سے موجود تھا ہم اس بکری کی طرف لپکے جس کی نشاندہی امام (س) نے کی تھی اسے پکڑنے کے بعد جعفر کاشانی کے پاس آئے اس نے بکری دیکھ کر کہا کہ اس سے پہلے ميں نے اس بکری کو کبهی نہيں دیکھا صبح سے ميں اسے پکڑنا چاہ رہا تھا ليکن یہ ميری گرفت ميں نہ آسکی جب کہ آپ حضرات نے اسے بآسانی پکڑ ليا۔

حسن بن مثلہ کہتے ہيں کہ بکری لے کر ميں اسی جگہ پر پہنچے جہاں کل رات بتایا گيا تھا اسے اسی جگہ ذبح کيا اور اس کے گوشت کو مریضوں کے درميان تقسيم کيا پھر اس جگہ پر لکڑی کی ایک مسجد بنائی ۔ سيد ابو الحسن الرضا نے زنجيروں کو جمع کيا اور اسے اپنے گھر لے جا کر ایک صندوق ميں بند کر دیا ۔ جس کسی مریض نے اپنے کو اس زنجير سے مس کيا خدا وند عالم نے اسے شفا عطا فرمائی ۔ سيد ابو الحسن الرضا کی وفات کے بعد جب اس صندوق کا قفل کهولا گيا تو وہاں کيلوں اور زنجيروں کا نشان تک نہ ملا۔( نجم الثاقب( اس عظيم الشان مسجد ميں آج ہزاروں عقيدت مند سر نياز خم کرکے کاسہ گدائی پر کرتے ہيں ۔

مسجد کی عمارت گزشتہ کئی صدیوں سے بدلتی رہی اور آج اس مسجد کا شمار ایران کی بڑی مساجد ميں ہوتا ہے ۔ شمع ولایت کے پروانے ہر ہفتہ جمع ہو کر شمع حيات کے ظہور کی دعا مانگتے ہيں ۔

مسجد جمکران دو بہاڑیوں کے درميان قم و کاشان کے راستے ميں واقع ہے ۔ ١٣٧٩ ئه ش ميں آیة الله وافی، رہبر معظم انقلاب اسلامی کے حکم سے مسجد کے اولين متولی اور نگراں بنائے گئے۔

شہر قم ميں مشہو ر امام زادہ

شہر قم یوں تو ہميشہ سے شيعوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے ليکن حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی وفات کے بعد ائمہ طاہرین عليہم السلام کے چاہنے ولوں کا وطن بن گيا ۔ ائمہ کی اولاد اور بزرگان دین کے حضور نے اس آسمان ولایت پر چار چاند لگا دیا ہے اس بات کا اندازہ ائمہ کی کثير تعداد اولاد جو چار سو چوليس تک پہنچتی ہے بہتر طور پر لگایا جا سکتا ہے۔

اس مقام پر ہم بہتر سمجهتے ہيں کہ ان ميں سے بعض مشہور ہستيوں کی زیارت گاہوں کا ایک اجمالی خاکہ قارئين کی خدمت ميں پيش کریں ۔ ١۔ امام زادہ احمد بن محمد حنفيہ کا مقبرہ ،بلوار ١ ۵ / خرداد پر واقع ہے۔

٢۔ امام زادہ شاہ سيد علی کی زیارت گاہ ،بلوار ١ ۵ / خرداد،ميدان شہيد صادقی پر واقع ہے۔

٣۔ چارامام زا دوں کا مقبرہ ( حسين اور ان کے فرزند حسن ، محمد اور محسن ) ایک ساته

بلوار ١ ۵ / خرداد ٢٠ /متری حائری پر واقع ہے۔

۴ ۔ امام زادہ شاہ احمد بن قاسم کی زیارت گاہ، خيابان سميہ ميدان معلم پر واقع ہے۔

۵ ۔ امام زادہ حمزہ کا مقبرہ، خيابان آیة الله طالقانی ميدان کہنہ کے روبرو واقع ہے۔

۶ ۔ امام زادگان چہل اختران ، خيابان آیة الله طالقانی پر واقع ہے۔

٧۔ امام زادہ موسیٰ مبرقع کا مقبرہ ، خيابان طالقانی ،چہل اختران ہی ميں واقع ہے۔

٨۔ امام زادہ علی موسیٰ الرضا کی زیارت گاہ نکوئی ہسپتال کے سامنے خيابان آیہ الله طالقانی پر واقع ہے۔

٩۔ امام زادہ سيد سر بخش (اسماعيل) کی زیارت گاہ خيابان آیة الله طالقانی پر واقع ہے۔

١٠ ۔ امام زادہ ناصر الدین کا مقبرہ ،چہار راہ بازار،مسجد امام حسن عسکری کے سامنے واقع ہے۔

١١ ۔ امام زادہ جمال و جعفر غریب کے مقبرے ،کاشان روڈ پر قبرستان بقيع سے پہلے واقع ہے۔

١٢ ۔ امام زادہ سلطان محمد شریف کی زیارت گاہ خيابان انقلاب مسجد چہار مرداں کے سامنے واقع ہے۔

١٣ ۔ امام زادہ علی ابن جعفر کا مقبرہ خيابان انقلاب ميدان امام حسين (س)،گلزار شہدا پر واقع ہے۔

١ ۴ ۔ امام زادہ ابراہيم اور ان کے والد محترم محمد کا مقبرہ خيابان نيروی ہوائی(شاہ ابراہيم) پر واقع ہے ۔

١ ۵ ۔ امام زادہ شاہ جعفر کی زیارت گاہ خيابان نيروی ہوائی (شاہ ابراہيم ) پر واقع ہے۔

١ ۶ ۔ امام زادہ سيد معصوم کی زیارت گاہ نيروگاہ کے آخر ميں پٹرول پمپ سے پہلے واقع ہے۔

١٧ ۔ امام زادہ سيد عبد الله ابيض ( قلعہ صدری ) کا مقبرہ خيابان نيروی ہوائی “ہائی وے روڈ

کے بعد” واقع ہے۔

١٨ ۔ امام زادہ سيد جمال الدین (شاہ جمال) کا مقبرہ خيابان اراک پر چيک پوسٹ سے پہلے واقع ہے۔

١٩ ۔ امام زادہ احمد اور ان کے فرزند کا مقبرہ خيابان امام موسیٰ صدر ميدان الہادی پر واقع ہے۔

٢٠ ۔ امام زادہ صفورا کی زیارت گاہ خيابان خاکفرج فلکہ الہادی پر واقع ہے۔

حوزہ علميہ کا اجمالی تعارف

گزشتہ کئی سالوں سے شہر قم دنيائے شيعيت کا علمی و ادبی مرکز بنا ہوا ہے ،قم کی یہ مرکزی حيثيت مراجع تقليد و علماء دین و سطوع عاليہ کی طالب علموں کی وجہ سے ہے۔

یہ طلاب ، طالب علمی کے زمانے سے ہی سے تاليف و تحقيق ميں مشغول رہتے ہيں ۔

یہی چيزیں سبب بنی کی سطح کے طلاب دین کا اس شہر ميں ہجوم ہے۔ اس عظيم الشان حوزہ علميہ کے سلسلے ميں ائمہ (س) کے نورانی کلام ملتے ہيں ،مصحف ناطق حضرت امام صادق (س) فرماتے ہيں : ایک زمانہ آئے گا جب قم سے علوم و ادب کی کرنيں پهوٹيں گی جو مشرق ومغرب کو شامل ہوں گی ۔یہاں تک کہ دوسرے شہروں کے لئے ایک نمونہ بن جائے گا اور اس روئے زمين پر ایسا کوئی نہ ہوگا جس تک قم کے علمی و دینی فيوض نہ پہنچ سکے وہ وقت خدا کی حجت اور ہمارے قائم کے ظہور کا ہوگا۔ (بحار الانوار ) ،ج/ ۶ ٠ ص/ ٢١٣

معصوم کے قول ميں حوزہ علميہ قم کا ذکر سبب بنا کہ ہم اپنی اس کتاب ميں اس حوزہ کی تاریخ کا اجمالی خاکہ قارئين کی خدمت ميں پيش کریں ۔ شہر مقدس قم کی مذہبی و علمی کاوش اشعریوں کے زمانے کی طرف پلٹتا ہے یہ ستم دیدہ افراد عراق کی ظالم و جابر حکومت سے پریشان ہو کر عش آل محمد ميں آگئے ۔

اس شہر ميں ہجرت کے بعد ان افراد نے یہاں تعميری کام کے علاوہ مذہب حقہ کی ترویج ميں بهی پيش قدم رہے مذہبی کارواں کے مير کارواں عالم ، محدث عبد الله بن سعد اشعری تھے جنهوں نے اس شہر کو آباد کرنے کے علاوہ اس زمين پر علمی و مذہبی مسائل کے پودا بهی لگایا۔ اس کے آنے والے افراد جيسے زکریا بن آدم ، احمد بن اسحق قمی ، ابراہيم بن ہاشم ، علی بن بابویہ (شيخ صدوق) وغيرہ نے اس پودے کے رشد و نمو کے لئے انتهک سعی و کوشش کيں یہاں تک کہ یہ ننہا سا پودا توانا درخت ہو گيا ۔ اب نقل روایات کا سلسلہ چل نکلا اس خلوص کے ساته یہ کام شروع کيا گيا تھا کہ یہ بات مشہور ہو گئی کہ شہر قم کے رجال حدیث مورد اطمينان ہيں ۔

نقل حدیث کوئی آسان کام نہيں ہے اسی لئے علماء قم نے اس وادی ميں احتياط کا دامن نہيں چھوڑا بغير فحص و جستجو کے کسی کی تائيد نہيں فرماتے تھے یہ لوگ اس سلسلے ميں اس قدر سخت تھے کہ جو لوگ اس مورد ميں سادہ لوح یا سست عقيدہ تھے انهيں اس شہر سے باہر کر دیا کرتے تھے ۔ دوسری طرف مرحوم ملاصدرا جيسے نادر الزمن فلسفی اور حکيم کی اصفہان سے قم کی طرف ہجرت کی ۔ قم کی علم و حکمت کا یہ دوسرا صفحہ ہے ۔ ان ولایت کے پروانوں کا اس شہر ميں یکے بعد دیگرے جمع ہونا جيسے حکيم فيض کاشانی کا آنا اس شہر کے حسن کو دوبالا کرتا ہے۔

ان بزرگ ہستيوں کے آنے کے بعد اس شہر ميں باب العلم کی بيٹی کی چوکهٹ پر فيضيہ نامی ایک مدرسہ کی سنگ بنياد رکهی گئی جس کے سبب قم کے شہریوں ميں فکری رشد و نمو ہوا شمع علم کے روشن ہونے کے بعدظاہر ہے کہ علم کے پروانوں کو کون روک سکتا ہے ہر طرف سے علم کے دوست افراد پروانہ وار اس شہر کی طرف بڑهنے لگے۔ انصاف نہ ہوگا اگر ہم اس جگہ ميرزا قمی جيسے نادرالرمن کا ذکر نہ کریں آپ کی انتهک کوششوں نے علمی مناروں کو کافی بلند کيا۔

قاچاریہ حکومت کی بهی اس شہر پر خاص توجہ رہی ہے ۔( یہ ایک ترک قبيلہ کا نام ہے جس نے ایران ميں قاچاری حکومت قائم کی تھی) قاچاریہ حکومت کے آخری دور اور پہلوی حکومت کے ابتدائی دور ميں حوزہ علميہ نجف اشرف اپنی دیرینہ اور طولانی تاریخ کے ساته علم دین کے عاشقوں کے اجتماعی کا مرکز بن گيا۔اب علم دوست حضرات کی تمام توجہ اس مقدس شہر کی جانب مبذول ہو گئی ۔ حوزہ علميہ قم ميں ایک خاموشی سی چها گئی تھی ۔ ليکن اس شہر ميں مقيم علماء طلاب وطلاب کرام مرکز علم سے کافی دور ہونے کے بعد بهی بزرگوں کی اس یاد کو مٹنے نہ دیا درس و تدریس کے جلسوں سے علم و فضيلت کے چراغوں کو روشن رکها۔یہ ادا خالق اکبر کو اس قدر پسند آئی کہ اس نے اراک سے طلوع ہونے والے ایک آفتاب علم یعنی آیة الله العظمیٰ حاج شيخ عبد الکریم حائری کو ١٣٠٠ ئه ميں بهيج دیا ۔ آپ کے علمی جلسوں نے شہر قم کو ایک بار پھر چراغاں کر دیا طالب علموں اور دانش مندوں کے جسموں ميں ایک تازہ روح بهونگ دی۔

آپ نے ایک اساسی قدم اٹهایا اور یہ کہ مدرسہ فيضيہ کے بالکل بغل ميں مدرسہ دارالشفا کی بنياد رکهی یہ اس دور کے جوان طلاب کرام کی خوش نصيبی کی ایک واضح نشانی ہے۔ انهيں چند سالوں ميں حوزہ علميہ قم کا نام حوزہ علميہ نجف اشرف کے برابر لکها جانے لگا۔

آیة الله العظمیٰ شيخ عبد الکریم حائری کی وفات کے بعد اس حوزہ کا دور زرین ختم ہوتا نظر آنے لگا کيوں کہ ظلم و جور کے بادل پہلوی حکومت کی شکل ميں اس حوزہ کے سر پر منڈلانے لگے ليکن بہت جلد حضرت معصومہ کے طفيل علماء ثلاث مرحوم آیة الله حجت ،مرحوم آیة الله سيد محمد تقی خوانساری اور مرحوم آیة الله صدرکی شکل ميں ایک تيز آندهی نے ان بادلوں کو چهانٹ دیا۔

١٣٢٢ ئه ميں حضرت آیة الله حاج آقای حسين طباطبائی بروجردی کی ہجرت اور آپ کے عميق دروس اور اس دور کے فضلا کے تمدن و تہذیب کے سلسلے ميں کئے جانے والے اساسی کام قم حوزہ کی طاقت ميں اضافہ تھا ، دوسری طرف مرحوم آیة الله العظمیٰ حاج سيد ابوالحسن اصفہانی کی وفات ( شہر نجف اشرف ميں ) کے بعد عالم تشيع کا مرجع قم بن گيا کيوں کہ آیة الله بروجردی قم ہی ميں مقيم تھے لہٰذا اب طلاب علوم دینيہ کا رخ نجف سے قم کی جانب ہوا آپ کے بابرکت نے حوزہ علميہ قم کو حوزہ نجف اشرف کے ہم ردیف کر دیا ، گرچہ آپ کی وفات کے بعد حوزہ علميہ قم ميں کافی نشيب و فراز آئے اور طلاب دین ایک مرتبہ پھر نجف اشرف کی جانب ہجرت کرنے لگے مگر اب حوزہ علميہ قم کی جڑ یں کافی مضبوط ہو چکی تھيں لہٰذا کوئی خاص اثر نہ پڑا۔

پہلوی حکومت کے خلاف امام خمينی کے قيام اور ١ ۵ / خرداد ، ١٣ ۴ ١ هء ش ميں طلاب اور عام لوگوں کا قتل عام حکومت کی طرف سے حوزہ پر اثر انداز ہوا۔علم دوست حضرات اس پرآشوب ماحول ميں بهی اپنے ہدف سے دور نہ ہوئے تھے بلکہ ذمہ داری بڑه گئی تھی یہاں تک کہ ١٣ ۵ ٧ ئه ش ميں امام خمينی کی عاقلانہ رہبری کے ساته انقلاب اسلامی کامياب ہو ا حوزہ علميہ کی رونق ميں بهی کافی اضافہ ہوا۔

انقلاب اسلامی کے بعد عراق کی بعثی حکومت نے ایران پر ایک دیر پا جنگ لاد دی اور حوزہ علميہ نجف پر ظلم و بربریت کا پہاڑ توڑ ا ۔ بعثی حکومت نے حوزہ علميہ نجف کے بلند مرتبہ علماء کو شہيد کيا ، قيد خانوں ميں رکهاان کو شکنجہ دیااورکچه کو شہر بدر کياگيا ۔ ایسے ماحول ميں حوزہ علميہ قم نے ان علمی ہستيوں کو اپنے جوار ميں پناہ دی جس کے نتيجہ ميں آج بهی اس ملکوتی شہر ميں علماء و فقہا کی ایک کثير تعداد موجود ہے حال حاضر ميں تقریبا ساٹه ہزار و دانشمند حضرات درس و تدریس ميں مشغول ہيں ۔ مراجع کرام کی زعامت اور ایک خاص نصاب جس ميں زیادہ تر کام خاص علوم پر ہو رہا ہے جو ایک روشن مستقبل کی نوید دے رہے ہيں ۔اس شہر مقدس ميں مدارس کی تعداد تقریبا پچاس تک پہنچتی ہے۔

ان علمی مدارس کے علاوہ آج حوزہ علميہ قم ميں بہت زیادہ تعداد ميں تحقيقی ادارہ بهی ہيں یہ ادارے خود ایک مستقل علمی دریا ہيں ۔حوزہ علميہ قم کے یہ تمام امتيازات حضرت فاطمہ معصومہ کے برکتی وجود سے ہيں ۔اور اس سلسلے ميں غير معمولی کوشش انقلاب اسلامی اس اس کے قائد امام خمينی کی ہيں اور آج اس انقلاب اسلامی کے ناخدا رہبر معظم حضرت آیة الله العظمیٰ سيد علی خامنہ ای دامت برکاتہ ہيں ۔ آخر ميں ہم موت کی آغوش ميں سونے والے بزرگان کے علو درجات اور موجودہ حضرات کی توفيقات ميں اضافہ کی دعا کرتے ہيں ۔

مرکز جہانی علوم اسلامی

انقلاب اسلامی کے بعد دنيا بهر سے علوم اسلاميہ کے دوستداران کسب علوم کی خاطر اس مقدس شہر کی جانب عازم سفر ہوئے ۔ حوزہ علميہ قم کا یہ شعبہ رہبر معظم کی نظارت ميں مرکز جہانی علوم اسلامی کے نام سے تاسيس ہوا۔ الحمد لله آج تقریبا دس ہزار طلاب دنيا کے نوے ملک سے آکر اس مرکز کے زیر نظر حصول تعليم اور تحقيق ميں مشغول ہيں ۔

جامعة الزہراء (س)

انقلاب اسلامی کے ابتدائی دور ہی سے خواتين کے اسلامی علوم و معارف کے تحصيلی اشتياق کو دیکھتے ہوئے قم کے حوزہ علميہ نے ایک شعبہ خواتين سے مخصوص “ جامعة الزہراء” کے نام سے تاسيس کيا یہ پہلا قدم تھا اس سلسلے کا ۔ مگر اس کے بعد اس جيسے بہت سے مدارس وجود ميں آئے۔

حال حاضر ميں بيس ہزار طالبات موجود ہيں جن ميں ایرانی و غير ایرانی دونوں ہيں جو اس مدارس ميں علمی مدارج طے کر رہی ہيں ۔