اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط25%

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط مؤلف:
زمرہ جات: اصول فقہ مقارن
صفحے: 152

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 152 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 88269 / ڈاؤنلوڈ: 4734
سائز سائز سائز
اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

اسلامی مذاہب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

ترجمه از کتاب “منابع استنباط فقهی از نظر مذاہب اسلامی ”

مؤلف آیۀ الله مکارم شیرازی

استادراہنما

مولانا اخلاق حسین پکھناروی

دانش پژوه

سید نسیم رضا

زمستان ۱۳۸۸

۳

اہداء

اس ناچیز کوشش کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے بھائی ، داماد ، وصی اور حقیقی جانشین امیر المومنین علیہ السلام ، حضرت زہرا علیہا السلام اور ان کی گیارہ اولاد پاک جنہوں نے اپنے لہو سے اسلام کو سینچا

اور

علمائے اسلام ، شہداء ، صلحا ، ذوی الحقوق کو ہدیہ کرتا ہوں

اور

خدا سے دعا کرتا ہوں کہ روز قیامت ائمہ ہدیٰ کو میرا ، میرے والدین کا شفیع قرار دے

اور اس اسلامی ملک کی ہر طرح سے حفاظت فرما ۔

۴

اظہار تشکر

اس خالق کائنات کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے ہمیں لامتناہی نعمتوں سے نوازا اور ہماری ہدایت کے لئے انبیاء و رسل بھیجے اور ان کی راہ کو باقی رکھنے کے لئے ائمہ کو منتخب کیا ۔

اس کریمۂ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا شکریہ جنہوں نے مجھے اس قابل سمجھا کہ اپنے دستر خوان علم پر مدعو کیا اور مجھے خوشہ چینی کا موقع دیا ، استاد محترم مولانا اخلاق حسین پکھناروی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اپنی راہنمائی سے کتاب کو مزید مفید بنا دیا ۔ نیز ہمسر محترمہ سکینہ خاتون صاحبہ نے بھی اس کتاب کی تکمیل میں کافی تعاون کیا ۔

آخر میں ان تمام اہل علم کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ جنہوں نے ہر طرح سے میری مدد کی خصوصاً جامعۃ العلوم کے مسؤلین اور اساتید خصوصاً آقای مرادی جنہوں نے واقعاً ہر طرح سے بندۂ ناچیز کی مدد کی اورمیرے علمی مقام کو یہاں تک پہونچایا کہ میں اس قابل بن سکوں ایک فارسی کتاب کو اپنی مادری زبا ن میں منتقل کر کے طلباء و مومنین کے حوالے کرسکوں جو میرے لئے روز آخرت کام آئے ۔

" گر قبول افتدزہ عز و شرف "

۵

عرض مترجم

خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس نے منابع استنباط فقہی از نظر مذاہب اسلامی مولف آیۃ اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی دام ظلہ العالی کی کتاب کے ترجمہ کی توفیق دی یقیناً اردو سماج میں ان موضوعات جيسي کتابوں کے ترجمہ کی ضرورت ہے جہاں اہل سنت کے فرقہ اپنے پورے وجود سے اسلام کے صحیح اور حقیقی چہروں کو مخدوش کر رهے ہيں اور ائمہ علیہم السلام کی ان صحیح السند احادیث کو چاہے وہ احکام یا اصول و عقائد کے بارے میں ہو یا کسی او رموضوع کے تحت ہوں ۔ مخدوش کر کے لوگوں کے سامنے پیش کررہےہیں لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کا جواب دینے کے لئے بہترین طریقہ اور راستہ ان جیسی کتابوں کی نشر و اشاعت ہے ۔

آخر میں خداوند متعال سے ہم دعا گو ہيں کہ ہمیں ان جیسی کتابوں کے ترجمہ کی توفیق عنایت فرمائے تاکہ زیادہ سے زیادہ مذہب حقہ کی خدمت کرسکيں ۔

سید نسیم رضا زیدی

۶

چكيده :

اس رساله ميں سب سے پهلے مقدمه پيش كيا گيا ہے جس ميں استنباط اصطلاحي اور لغوي تعريف مقدمات استنباط ، تاثير زمان و مكان استنباط خطرات استنباط ، افراط و تفريط استنباط كو پيش كيا گيا ہے اسي طرح اس رساله ميں مورد اتفاق منابع اور مورد اختلافي استنباط سے بحث كي گئي ہے مورد اتفاق منابع استنباط ۔

۱ـ قرآن :

عدم تحريف قرآن كي بحث نيز نصوص اور ظواہر كي حجيت اسي طرح حجيت ظواہر پر قائم ہونے والي دليليں اس مبحث ميں بيان كي گئي هيں ۔

۲ـ سنت :

سنت رسول(ص)كي حجيت اور سنت معصوميں عليهم السلام كي حجيت اور حجيت پر ہونے والے اعترضات و شبهات اور اس كے جوابات پيش كئے گئے هيں ۔ اسي طرح سے سنت صحابه اور اقسام سنت كو بيان كيا گياہے۔

۳ـ اجماع :

تعريف اجماع ، اجماع كي حجيت اہل سنت كي نظر ميں حجيت اجماع اماميه كي نظر ميں اجماع پر ہونے والي قرآني دليليں حجيت اجماع پر قائم ہونے والي روائي دليليں نيز اقسام اجماع كو بيان كيا گيا ہے مزيد مخالفيں اجماع كا جواب بھي مطرح كيا گياہے۔

۴ـ عقل :

عقل كے سلسلے ميں تقريبا ً اكثر فقهي مباحث جس ميں دو گروه هيں اصحاب حديث اور اصحاب راي نيز تشيع كا مسلك عقل كے سلسلے ميں بيان كياگيا ہے عقل كي حجيت اور اس پر ہونے والے اعتراضات كا جواب ديا گيا ہے۔

۷

منابع مورد اختلاف :

قياس :

قياس كي تعريف اس كي حجيت كے سلسلے ميں بحث كي گئي ہے مزيد اس كي جو بھي قسم كے دلايل پر نقد و اعتراض كيا گيا ہے اور قياس كے اقسام كي تحليل كي گئي ہے جيسے قياس منصوص العلة قياس اولويت ، قياس تنقيح المناط ۔

استحسان :

تعريف استحسان اس كے اقسام مزيد اس كي حجيت پر ہونے والي بحث مطرح كي گئي ہے اسي طرح استحسان كے اقسام كا جزئي جايزه ليا گيا جيسے مصالح معتبر ،مصالح ملغي اور مصالح مرسله كے سلسلے ميں مكمل بحث كي گئي ہے۔

سد و فتح ذرايع:

تعريف سد و فتح ذرايع اور اس كے اقسام و حجيت كے سلسلے ميں بحث كي گئي ہے۔

عرف :

عرف كي تعريف اس كے اقسام اور اس كے متعلق ہونے والي بحث كو بيان كيا گياہے۔

۸

مقدمه:

استنباط:

استخراج احکام کے لئے استعمال ہونے والے الفاظ میں ایک لفظ استباط ہے استنباط کے لغوی اور اصطلاحی معنیٰ و مفهوم کی وضاحت کے لئے لغت اور فقه و اصول کی کتابوں سے مدد لی جائے گی

استنباط کے لغوی معنی :

راغب اصفهانی اپنی کتاب المفردات غریب القرآن میں لکھتے ہیں :نبط لفظ قرآن مجید میں بھی استعمال ہوا ہے چنانچه ارشاد خداوندی ہے :

( وَإِذَا جَاءهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُوْلِي الأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلاَّ قَلِيلاً )

حالانکہ اگر رسول اور صاحبانِ امر کی طرف پلٹا دیتے تو ان سے استفادہ کرنے والے حقیقت حال کا علم پیدا کرلیتے ، یهاں( يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ) -(۱) سے مرادیستخرجونه منهم (یعنی وه اپنےعلم سے حقیقت کا پته لگالتے ہیں )

اور استنباط باب استفعال سے ہےجو جس ریشه نبط ہے اور نبط وه پانی ہے جو نکلا ہوا ہے اور فرس نبط اس گھوڑے کو کهتے ہیں جس کے بغل اور پیٹ پر سفیدی نمودار ہو-(۲)

صاحب منجدالطلاب اس کلمه کے بارے میں لکھتے ہیں :نبط نبطًا و نبوطاً الماء ؛ پانی جاری ہو ناشروع ہوگیا

نبط و نبط و انبطُ تنبط و استنبط البئر یعنی اس نے کیویں کا پانی نکالااستنبط الشئ یعنی مخفی چیزکو آشکار کیا استنبطه یعنی اس نے اختراع اور ایجاد کیااستنبط من فلان خیرا یعنی اس نے فلاں شخص سے کیا خوب چیزنکالی استنبط الفقیه یعنی فقیه نے اپنے استنباط سے احکام کو کشف کیا –(۲)

____________________

۱ نساء ، آیه ، ۸۳

۲ .راغب المفردادات فی غریب القرآن ، ص ۴۸۱.

۳ منجد الطلاب ترجمه محمد بندریگی ، ص۵۵۹

۹

المعجم العربی الحدیث ( فرهنگ لاروس ) میں آیا ہے :

نبط البئر یعنی کنویں سے پانی نکالانبط العلم یعنی علم کو آشکار کیا اور پھیلایاانّبط یعنی گھوڑے کے بغل اور پیٹ پر سفیدی کا ابھرنا یا بھیڑکے پهلو اسی سفیدی کا نشان اسی طرح سب سے پهلا پانی جوکنویں کی ته میں دکھائی دے(۲)

ابن منظور نے لسان العرب میں لکھا :انبط :

الماء الذی بنبطُ من قعر البئر اذا حفرت : نبط ایسا پانی جوکنواں کھودتے وقت ظاہر ہو

نبط الماء نبع : یعنی پانی ابلااستنبطه و استنبط منه علماً و خیراً و مالا استخرجه : اس کو استنباط کیا یعنی اس سے علم خیر اور مال کو کشف کیا یعنی اس سے نکالا.

الاستنباط : الاستخراج کرنا استباط یعنی استخراج ،استنبط الفقیه یعنی فقیه نے باطن کو اپنے اجتهاد اور دانائی کے ذریعه استخراج کیا.

قال الزجاج معنیٰ َ ا سْتَنبِطُونَك فی اللغة یستخرجونک ، لغت میں اس کو استنباط کیا یعنی اس سے استخراج کرنا اور استنباط کاریشه نبط ہے اور نبط وه پهلا پانی ہے جو کنویں کی تیه سے نکلے.

استباط کے اصطلاحی معنی :

دراسات فی ولایةالفقیه و فقه الدولة الاسلامیه کےمؤلف لسان العرب کی عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں میں کهتاہوں : خداوند متعال کا حکم آپ حیات یا ایک نفیس اور قمتی شئ ہے جو مصادرو منابع کے سینے میں دفن ہے جسے فقیه کشف کرتا ہے(۲)

____________________

۱ خلیل اجر فرهنگ لاروس ، ج ۲ ، ص۲۰۲۱

۲ منطور دراسات فی ولایۀ الققیه وفقه الدولۀ الاسلامیه ، ج ۲ ٌ۷۲

۱۰

استاد شهیدمرتضیٰ مطهری فرماتے ہیں :

(فقها نے فقهی جستجو کے لئے) جو دوسرا لفظ استعما ل کیا ہے وه کلمه استنباط ہے یه لفظ اس بات کی حکایت کرتاہے که علماء اسلام احکام کے سلسلے میں ایک خاص احسا س کے حامل ہیں.

لفظ استنباط زمین کے نچلے حصه سے پانی نکالنے کے معنیٰ میں ہے علماء اسلام نے اس بات کی جانب توجه کی که الفاظ کے سینے میں معانی کا صاف و شفاف پانی رواں دواں ہے جس کو کشف کرنے کے لئے خاص فن اور جهاد کی ضرورت ہے عربی زبان اور اس کے قواعد کو جاننے و الاعصر آدمی سے واقف آدمی اس بات کا دعوی نهیں کرسکتا که میں قرآن وسنت کی مدد سے اسلامی دستورات و قوانین کو کشف کرسکتا ہوں استنباط کا هنر زمین کے نچلے حصه سے پانی کا نکالناہے غزالی نے اپنی کتاب المستصفی میں ایک لطیف تعبیر کا استعمال کیا ہے وه ادله شرعی کو درخت احکام کو اس کاپھل اور عمل استنباط جوکه ادله شرعی سے استخراج احکام کا نام ہے کو استثمار یعنی (پته) سے تعبیر کرتے ہیں(۱)

شهید مطهر ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :

کلمه استنباط معنا کے اعتبار سے (فقه وفقیه) سے مشابه ہے یه کلمه ماده نبط سے مشتق ہے اور زمین سے پانی نکالنے کے معنیٰ میں ہے گویا فقهاء نے استخراج احکام میں اپنی تلاش و کوشش کو زمین سے پانی نکالنے سے تشبیه دی کیونکه وه بھی گهرائی سے احکام کے صاف و شفاف پانی کو استخراج کرتے ہیں(۲)

ادوار استنباط از دیدگاہ مذاہب اسلامی نامی کتاب میں آیا ہے :

کلمه استنباط ماده نبط سے ماخوز ہے اور لغت میں زمین کی گهرائی سے پانی نکالنے کے معنیٰ میں ہے اور اصطلاح میں احکام شرعی کو استخراج کرنے کے معنیٰ میں ہے یعنی ادله معتبر اور خاص عنصر سے جدید مسائل اور ہونے والے محادثوں کا استخراج کرنا اسی بناپر استنباط اجتهاد کا مترادف ہے مجتهد عرف متشرعه میں اس پراطلاق ہوتاہے جو احکام شرعیه کو عناصر خاصه اور عناصر مشترک سے اسنتباط اور استخراج کرے تو اس پر مستبط اور مفتی کابھی اطلاق ہوتاہے.(۳)

____________________

۱ علی دوانی ، عصندالله، شیخ طوسی ، مقاله ( النهامی ، از شیخ طائفه ، از مرتضی مطهری ، ص۳۴۳

۲ مطهری ، علوم و اصول سے شناخت ، اصول فقه ، و فقیه ،ص۱۰

۳ جناتی ، اورد لااحتیاط ، ص ۲۴

۱۱

عمید زنجانی کهتے ہیں :

استنباط ریشه نبط سے ماخوذ ہے اور لغت میں زمین کی گهرائیوں سے پانی نکالنے کے معنی میں آیا ہے اور اصطلاح میں الفاط کے باطنی معنی کو نکالنے کے لئے استعمال ہوتاہے(۱)

ابوالحسن محمدی بھی کهتے ہیں :

استنباط استخراج کے معنیٰ میں ہے اور حقوق کی اصطلاح میں اجتهاد کا مترادف ہے اور اس سے مراد یه ہے که قواعد کلی کو مصادیق فرعی پر منطبق کرنا اور احکام فرعی کو اصول سے اور قواعد کلی سے استخراج کرنا.

استنباط کا تاریخچه:

اس سے پهلے که استنباط کے معنی و مفهوم بیان ہو ، مناسب ہے که ابتدائی اجتهاد و استنباط کی مختصر تاریخ بیان کریں تا که معلوم ہو که طول تاریخ میں اجتهاد کن ادوار سے گذرا اور کن مراحل کو پشت سر گذارکر یهاں تک پهنچا

اجتهاد تاریخ میں مختلف مراحل و ادوار سے گذراہے جیسا که محمد علی انصاری تاریخ حصر الاجتهاد نامی کتاب کے مقدمه میں لکھتے ہیں :

بهت مشکل ہے که اجتهاد کے تمام ادوار کو بطور کامل بیان کیا جائے لیکن کلی طور پر سنی اور شیعه مکتب فقه میں اس کی جستجو کی جاسکتی ہے

سنی مکتب :

حقیقت میں سنی مدرسه فقه تین تاریخی مراحل سے گذرا ہے

۱- رسول خد(ص)کا دور

۲- صحابه و تابعیں کا دور.

۳- ائمه اربعه کا دور

۴- باب اجتهاد کے انسداد کا دور ( تقلید کا دور ).

ان تمام مراحل کی تفصیل اس رساله کی قدرت سے باہر ہے

____________________

۱ عباس علی ، زنجانی ، اصول فقه کی بحث سے ، ص۱۰

۱۲

مقدمات استنباط :

فقهای شیعه کے نظریات:

شهید ثانی ، علم فقه کو باره علوم پر استورا جانتے ہیں : تصریف لغت ، اشتقاق ،معانی بیان، بدیع، اصول فقه،منطق، رجال ،حدیث ،تفسیر آیات الاحکام

صاحب معالم استنباط مطلق کو نو چیز پر متوقف جانتے ہیں

۱- ادبیات عرب اعم از لغت و صرف و نحو سے آشنائی.

۲- آیات الاحکام کا علم چاہیے وه مراجعه کتاب کے ذریعه ہی کیوں نه ہو

۳- سنت معصومین اور کتب حدیث کی جا کناری اور ہر موضوع سے مربوط احادیث کو ڈھونڈنے اور مراجعه کرنے کی قدرت و صلاحیت.

۴- علم رجال اور راویان کے حالات کی جانکاری.

۵- اصول فقه کا علم او رمسائل اصول میں استنباط کی قدرت کیونکه استنباط احکام اسی علم پر متوقف ہیں اور ایک مجتهد کے لئے یه علم تمام علوم سے مهم ترهے

۶- انعقاد اجماع کے موارد کی آشنائی.

۷- علم منطق کی واقفیت کیونکه اقامه برهان اور صحت استدلال اسی پر متوقف ہے

۸- فروع مسائل کو اصول کی جانب لوٹانے اورتعارض ادله کی صورت میں راجح کو مرجوح پر تشخیص دینے اور نتیجه گیری کی صورت

۹- دیگر امور کے علاوه فروع فقهی کا جاننا اس دور میں لازم ہے.(۱)

فاضل نے کتاب الوافیه کے تقریبا چالس صفحه اسی بحث سے مخصوص کیے ہیں. وه بھی مجتهد کے لئے مذکوره علوم میں نو علوم کو لازم جانتے ہیں ، لغت ،صرف ،نحو، اصول ، کلام اورعلوم عقلی ، تفسیر آیات الاحکام اور علوم نقلی میں احکام کی احادیث اور رجال کا علم

____________________

۱ معالم الاصول ، المطالب التاسع فی الاجتهاد و التقلید.

۱۳

پھر وه علم کلام کے سلسله میں فرماتے ہیں :

بعض مسائل کلامی استنباط میں دخیل ہیں جیسے تکلیف میں قدرت کی شرط کا ہونا اور اسی طرح متکلم حکیم کے کلام میں خلاف ظاہر اراده کا قبیح ہونا اور بعض دوسرے مسائل جیسے “خدا و رسول کا صدق گفتار صحت اعتقادیں دخیل ہے نه که استنباط احکام” ان کی نظر میں احادیث احکام میں معتبر کتابوں کا ہونا بھی کافی ہے ان کی نظر میں دس علوم ایسے بھی ہیں جن کی دخالت استنباط میں جزئی ہے اور ان علوم کو استنباط کے تکمیل شرط میں قرار دیا جاسکتا ہے که عبارت ہیں:

۱- معانی

۲- بیان.

۳- بدیع ،که بعض موارد میں دلیل لفظی سے استفاده کے لئے ان تین علوم کی ضرورت ہے

۴- ریاضیات کا علم،ریاضیات مالی اور اقتصادی مباحث بالخصوص ارث دین ارو وصیت کی بحث میں کام آتاہے

۵- علم ہی ئت، یه علم وقت اور قبله کی بحث میں بهت ضروری ہے

۶- هندسه کا علم ، یه علم اندازه گیری کے کام آتا ہے مثلا آب کرکی اندازه گیری کے لئے یه علم مددگار ہے.

۷- علم طب ، خاص طور پر نکاح کی بحث میں جهاں عورت اور مرد کے جسمانی عیوب کے مسائل پیش آتے ہیں

۸- فروع فقهی کا علم یعنی مسائل فقهی اور اس سلسلے میں پیش کئے سوالات کی آشنائی ، حقیقت میں اس کام کے لئے قواعد کے مواقع ،موادر خلاف اور اقوال وفتاوا سے آشنائی

۹- فروع جزئی کو قواعد اور اصول کلی کی جانب لوٹانے کی قدرت لیکن فقهای معاصر کے نزدیک استنباط کے لئے صرف یه علم کافی ہیں :

۱- ادبیات عرب.

۲- علم رجال

۳- اصول فقه

اور مجتهد کے لئے ضروری نهیں که وه ادبیات عرب میں صاحب نظر ہو پس اس اعتبار سے استنباط کے لئے صرف رجال اور اصول فقه کافی ہیں

۱۴

مقدمات استنباط اہل سنت کی نظر میں :

اہل سنت کی نظر میں استنباط کے عمومی شرائط کچھ اس طرح ہیں

۱- بلوغ

۲- عقل

۳- نظافت

۴- ایمان

اور استنباط کے اساسی شرائط میں وه علوم ہیں که جن سے آگاہهی لازم ہے

۱- ادبیات عرب.

۲- قرآن کریم

۳- سنت نبوی

۴- اصول فقه

۵- قواعد فقهی

۶- استعداد فطری

استنباط کے تکمیلی شرائط :

۱- مورد استنباط دلیل قطعی سے فاقد ہو

۲- فقها ءکے موارد اختلاف امور سے آگاہی

۳- عرف سے واقفیت (عرف در زمان حاضر).

۴- اصل برائت سے آشنا ئی.

۵- عدالت اور صلاحیت

۶- ورع اور تقوا

۷- درگاہ رب العزت میں الهام صواب کے لئے نیازی مندی احساس

۸- اعتماد به نفس

۹- عمل اور علم و گفتار میں موافقت

۱۵

ضرورت استنباط:

وه موضوعات که جس پر گفتگو ہوجانی چاہیئے ان میں سے ایک بحث اہمیت و ضرورت استباط ہے مکتب اسلام استنباط پذیر مکتب ہے اور استنباط اسلام میں ایک لازم عمل ہے فقه شیعه میں صدر اسلام ہی سے استنباط کا دروازه کھلا تھا اور آج بھی کھلا ہے اور ہمیشه زنده مجتهد کی تقلید واجب ہے اسی بناپر فقه تشیع زنده اور کامل فقه ہے اور ہر زمانے میں تمام مشکلات کا جواب دینے والی ہے مسلمانوں نے قرن اول ہی سے استنباط کرنا شروع کردیا تھا استنباط اپنے صحیح مفهوم کے ساتھ اسلام کے لازمی امور میں سے ایک ہے اس کے کلیات کچھ اس طرح تنظیم ہوئے ہیں که یه کلیات استنباط پذیر ہیں استنباط یعنی اصول کلی اور اصول ثابت کا کشف کرنا اور انهیں جزئی اورمتغیر موارد پر تطبیق دینا ہے استنباط پذیر کلیات کے علاوه عقل کا منابع اسلامی قرار پانے سے استنباط آسان ہوگیاہے ،(۱)

اسلام میں استنباط کی ضرورت کے اثبات کے لئے کافی دلائل موجود ہیں جس میں سے ہم اس حصه میں صرف پانچ دلیلوں کو پیش کریں گے

الف : خاتمیت؛

ب: احکام اسلام اور ان کے اہداف کا کلی ہونا؛

ج: ابدی ہونا؛

د: جهان شمول ہونا ؛

ھ: جامعیت.

____________________

۱ مرتضی مطهری ، مقدمه چستی اسلام،۳ و حی نبوت ، ص۱۵۰

۱۶

خاتمیت :

ہر مسلمان جوپیغمبر(ص)کی رسالت اور خاتمیت کا مقصد ہے اسے شرع وعقل کی روشنی میں استنباط کو بھی ماننا پڑے گا قراں مجید میں ختم نبوت کے سلسله میں آیا ہے

( مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا )

” محمد تمہارے مُردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن و ہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء علیھم السّلام کے خاتم ہیں.(۱)

آیت کا تیور بتارها ہے که اس آیت کے نزول سے پهلے بھی پیغمبر اسلام کے ذریعه نبوت کا اختتام مسلمانوں کےدرمیان ایک شناخته شده بات تھی ، مسلمان جس طرح آپ کو رسول خدا جانتے تھے اسی طرح آپ کے خاتم الانبیاء ہونے سےبھی واقف تھے یه آیت فقط اس بات کی یاد آوردی کرادتی ہےت که پیغمبر کو فلاں شخص کے منه بولےباپ سے مت پکارو بلکه اسے اسی حقیقی عنوان یعنی رسول الله اور خاتم النبین سے خطاب کرو.(۲)

احکام اسلامی اور اس کے اہداف کا کلی ہونا:

رسول اکرم (ص)نے اپنے اور اپنے کلام کے بارےمیں فرمایا:أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَ أُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ مجھے جامع اور کلی کلام عطا کیا گیا(۳)

عبدالله ا بن عباس کهتے ہیں :میں نے رسول خدا سے سناکه آپ نے فرمایا:

و أَعْطَانِي اللَّهُ خَمْساً وَ أَعْطَى عَلِيّاً خَمْساً أَعْطَانِي جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَ أَعْطَى عَلِيّاً جَوَامِعَ الْعِلْمِ .(۴) . آیات قرآن سے استفاده ہوتا ہے که قرآن میں اصول احکام اور کلی قواعد بیان کئے گئے ہیں اور مجتهد خاتم النبین کے دور میں اصول احکام اور قواعد کلی کی مدد سے استنباط کرتے ہوئے احکام جزئی کو کشف کرسکتے ہیں(۵)

____________________

۱ .احزاب ، ۴۰

۲ مرتضیٰ مطهری ختم نبوت ، ص۱۰

۳ مجلسی ، بحارالانوار ،ج۱۶، ص ۳۲۳

۴ .مجلسی ، گذشته،ص۳۱۷

۵ .محمد ابراہیم جناتی ، منابع استناط از دیدگاہ اسلامی ، ص ۲۸۸.

۱۷

جاودانگی اسلام :

خاتم النبین کی رسالت کی ایک خصوصیت یه ہے که ان کی حکومت ان کی شریعت ان کے لائے گئے احکام ہمیشه باقی رهنے والے ہیں-(۱)

قرآن میں صریحًا یه بات آئی ہے که خدا کی ذات وه ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور آئین حق کے ساتھ بھیجا تاکه ، آئین محمد(ص)کو تمام آئین پر غالب قراردے چاہے یه بات مشرکین پر گران کیوں نه گذرے.(۲)

دین اسلام کلی بھی ہےاور دائمی بھی ، اسلام ایک ابدی مکتب ہے جو کره زمین کے تمام انسانوں کے لئے نازل ہوا ہے جو روز قیامت تک اس دنیا میں آتے رهیں گے فقه میں استنباط شریعت کی بقا اور اس کی ترقی کی ضامن ہے استنباط اسلام کے جاویدانی ہونے کی ایک شرط ہے اس لئے که ہر موضوع اور ہر نئے مسئله میں قرآن و سنت کی مدد سے استنباط کرکے نئے احکام کشف اور استخراج کئے جا سکتے ہیں اور اس طرح دوسرے قوانین سے بے نیاز ہو سکتے ہیں اور صحیح استنباط ہر زمانے میں اور قیامت تک آنے والے سوالوں کا جوا دینے کی صلاحیت رکھتاہے

اسلام کا جهانی ہونا :

پیامبر اسلام تمام انسانوں کے پیامبر ہیں اس کی رسالت کا دایره اتنا وسیع ہے جس میں ساری دنیا سمیٹ جاتی ہے قرآن نے بھی اس حقانیت کی تصریح کردی ہے خدانے پیغمبر (ص)کو حکم دیا که اپنی رسالت کے جهانی ہونے کا اعلان کردیجئے ، کهه دیجئے ای لوگو میں تم سب کی جانب خدا کا فرستاده پیغمبر ہوں.(۳)

اسلام ایسا دین ہے که جو انسان کی زندگی تا قیام قیامت استوار نے کے لئے آیا ہے. اسلام کے قوانین میں اتنی قدرت ہے که ہمیشه ہر ملیت کی راہنمائی اور ان کے امور کو اداره کرسکتا ہے اسلام اس عتبار سے ایک جهانی نظام ہے اور کسی خاص جماعت یا معین مکان سے مخصوص نهیں ہے اسلام میں صحیح استنباط کی روشنی تمام ضرورتوں کا کامل جواب ہے

____________________

۱ مجلسی ، بحارلانوار ، ج۱۶ ،ص۳۳۲

۲ .سوره توبه ، آیه ، ۳۳ ،سوره فتح ، آیه ،۲۸ ، سوره صف آیه ، ۹،سوره اعراف آیه،۱۵۸

۳ سباء ، ۲۸

۱۸

جامعیت:

اسلام ایک جامع مذهب جس میں انسانی زندگی کےتمام ابعاد کو مورد توجه قرار دیا گیاہے ، اسلام انسان کی فردی اور اجتماعی مادی اور معنوی ضرورتوں کو پورا کرتاہے قرآن بھی اس بات کی تصریح کرتے ہوئے سوره نحل کی ایک آیت میں فرماتاہے :

( وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ )

اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گزاروں کے لئے ہدایت ،رحمت اور بشارت ہے-(۱)

اسی بناپر ہمارا عقیده ہے که اسلام ایک کامل اور جامع دین ہے جو تمام ابعاد فردی، اجتماعی اقتصادی سیاسی اور ثقافتی اور تمام امور میں منظم نظام کا حامل ہے اسلام میں انسان کی زندگی کا کوئی عمل حکم سے خالی نهیں ہے

صاحب کشف القناع کهتے ہیں :تکلیف شرعی اور استقرار شریعت کے عقلی او رنقلی دالائل سے ثابت ہوجانے کے بعد ہمارے لئے مسلم ہے که زندگی کا کوئی ایسا مسئله نهیں ہے جس میں خدا کا حکم اولی نه ہو که اس میں اختلاف نهیں ہے(۲)

البته واضح ہے که اسلام میں ان تمام نیازمندیوں کا جواب صرف استنباط کی روشنی میں ممکن ہے مجتهد یں کرام جو اس فن کے ماہر ہیں وه ہمیشه لوگوں کے فکری اور اجتماعی مشکلات کا جواب دیتے ہیں اس لئےمر جعیت اور استنباط مکتب اسلام کے لازمی امور میں شمار ہوتے ہیں

____________________

۱ نحل ، ۸۹

۲ اسدالله تستری ، معروف به محقق کاظمی ، کشف القناع عن وجوه حجیۀ االاجماع ، ص ۶۰

۱۹

استنباط اصحاب کو استنباط کی تعلیم :

مکتب اہل بیت کی روایات میں صاف نظر آتاہے که خود پیغمبرگرامی اسلام(ص)اور ائمه معصومیں علیهم السلام نے اپنے صحابیوں کو استنباط اور اس کی روشوں کی تعلیم دی ہے وه روایات جن میں آیاہے که خود ائمه علیهم السلام نے بنفس نفیس استنباط کے راستے کو انتخاب کیا اور استنباط کی صحیح راہ اور فقه اسلامی کی روشنی کے ذریعه قرآن وسنت سے استنباط کیا اور اس شیوه پر اپنے اصحاب کو بھی تعلیم دی یه روایات اس حقیقت سے پرده اٹھاتی ہیں که ائمه اطهار علیهم السلام کے زمانے میں اصحاب امام کے درمیان استنباط رائج اور معمول تھا اور ائمه اپنے اصحاب کو اس کام کی دعوت کرتے اور بعض موارد میں امام سے سوال کے بجائے خود استنباط کرنے کا حکم دیتے تھے .اور کبھی کسی سوال کے جواب میں ان کویاد دلاتے تھے که یه حکم استدلال اور استنباط کے ذریعے قابل استخراج ہے اس دلیل کی وجه سے ہمارا اعتقاد ہے که اسلام ایک کامل اور جامع دین ہے جس کے پاس اجتماعی ، ثقافتی اقتصادی اور سیاسی پروگرام ہیں حکم شرعی زندگی کی تمام آنے والی ضرورتوں کو پورا کرتاہے اور انسان کی زندگی میں کوئی حادثه بھی حکم سے خالی نهیں ہے(۱)

____________________

۱ یاد نامه علامه امینی ، ص۲۷۳و ۲۷۲

۲۰

خثعمیه کا رسول خد(ص)سےسوال اور اس کاجواب :

ایک خاتون که جس کا نام خثعمیه تھا اس نے رسول خد(ص)سے سوال کیا که میرے والدکا حج واجب ره گیاہے اگر میں ان کی نیابت میں اس حج کو قضا کروں تو یه کام ان کے لئے فائده مند ہے؟

پیغمبر(ص)نے فرمایا:اگرتمهارے والد کسی کے قرضدار تھے کیا اس قرضه کا اداکرنا تمهارے والد کے لئے فائده مند ہے ؟ خثعمیه نے کها جی ضرورفائده مندهے رسول خد(ص)نے فرمایا:پس خدا کا دین قضا کو بجالانے کے لئے زیاده سزاوار ہے-(۱)

رسول خد(ص)نےاس روایات میں صغری اور جز کو کبری اور کلی پر تطبیق دی ہے اور کلمه دین کی عمومیت سے دین کے ہر قضا کو بجالانے کے وجوب کو بیان کیا ہے.مرحوم مظفر(رح) نے اس روایت کو بیان کرنے کے بعد ان دلائل کے سلسلے میں جسے اہل سنت سنت پیامبر سے قیاس کو ثابت کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں کهتے ہیں:

یه بات که پیغمبرنے قضای حج کے حکم میں قیاس کا سهارا لیاہےمعنی نهیں رکھتی اس لئے که پیغمبرخود صاحب شریعت ہیں اور احکام کو بذریعه وحی خدا سے دریافت کرتے ہیں کیا پیغمبر(ص)قضای حج کے حکم سے آگاہ نهیں تھے که انهیں اس حکم تک پهنچنے کے لئے قیاس کا سهارا لیناپڑا؟

ای برادران اہل سنت مالکم کیف تحکمون تمهیں کیاہواہے یه کسے حکم لگارهے ہوحدیث کے صحیح ہونے کی صورت میں اس حدیث کا مقصد خثعمیه کو تطبیق علم سے آگاہ کرناہے اس چیز کو جس کے بارے میں اس نے پیغمبر سے سوال کیا ہے اور وه عام وجوب قضا ہے یعنی دین کے ہر عمل کو ادا کرنا واجب ہے اس لئے که خثعمیه پر یه بات مخفی تھی که حج ایسادینی قرض ہے جس کا میت کی جانب سے قضا کرنا واجب ہے اور جبکه خداکا دین اس قضا کا سب سے زیاده سزاوار ہے.(۲)

____________________

۱ جناتی ، منابع احتیاط از دیدگاہ ، مذاہب اسلامی ، ص ۲۸۲ ؛ سید جعفر شهیدی و محمد رضا حکمی

۲ محمد رضا ، مظفر(رح)، اصول الفقه، ج۲،ص ۱۷۱

۲۱

حضرت علی کے کلام میں استنباط کی تعلیم:

فضل ابن شاذان نے الایضاح میں لکھا:اہل سنت کی روایت کے اعتبارسے قدامه بن مظعون نے شراب پی اور اجرای حدکا فرمان اس پر جاری ہوا اس نے سوره مائده کی آیت سے استنادکیا

( لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُواْ إِذَا مَا اتَّقَواْ وَّآمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَواْ وَّآمَنُواْ ثُمَّ اتَّقَواْ وَّأَحْسَنُواْ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ )

“جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ان کے لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے جو کچھ کھا پی چکے ہیں جب کہ وہ متقی بن گئے اور ایمان لے آئے اور نیک اعمال کئے اور پرہیز کیااور ایمان لے آئے اور پھر پرہیز کیا اور نیک عمل کیا اور نیک اعمال کرنے والوں ہی کو دوست رکھتا ہے-(۱)

اورکها :مجھ پر حد جاری نهیں ہوسکتی کیونکه میں اس آیت کا مصداق ہوں ، عمرنے اس پر حد جاری نه کرنے کا فیصله کیا لیکن امام علینے عمر سے کها : اس آیت کے مصداق نه کھاتے ہیں اور نه پیتے ہیں سوائے اس چیز کے جوان پر خداکی جانب سے حلال ہو ...اگرقدامه بن مظعون شراب کے حلال ہونے کا دعوی کرے تو اسے قتل کردو اور اگر اقرار کرے که شراب حرام ہے تو پھر شرب خمر کے جرم پر تازیانه لگاؤ عمرنے کها کتنے تازیانه لگاؤں؟ امام نےفرمایا:شرابخوار جب شراب پیتاہے تو هذیان بکتاہے اور جب هذیان بکتاہے تو تهمت لگاتاہے پس اس پر افترا اور تهمت کی حد جاری کرو، چنانچه اس کو اسی تازیانے لگائے گئے-(۲) .

اس روایت سے واضح ہوتاہے که قدامه نے سادگی سے آیت کے ذریعه استناد کرکےعمرکو فریب دے دیا اور وه حدجاری کرنےکے فیصله کو ترک کربیٹھے اور جس کی طرح حضرت علی نے عمر کو ان کی غلطی سے آگاہ کیا اور کس طرح شرب خمر کی حد کو بیان کیا ہے اور اس طرح عمر کو استنباط کا طریقه سکھایا

____________________

۱ سوره مائده ، آیه ،۹۳

۲ .فضل بن شاذان ، الایضاح ، ص ۱۰۱و۱۰۲

۲۲

فضل بن شاذان ایک اور روایت نقل کرتے ہیں که:

جس میں امام علی نے قرآن کی روشنی میں عمر کو حمل کی حد اقل مدت کو کشف کرنے کا طریقه سکھایا فضل بن شاذان لکھتے ہیں :

ان روایات میں جوتم نے ذکر کیں ہیں کوئی بھی مخالف و موافق اس کا انکار نهیں کرسکتا انهی میں ایک روایت جریربن مغیره کی ہے جو ابراہیم نخعی سے نقل ہے که عمربن خطاب نے کسی عورت کے سنگساری کا حکم دیاجو شادی کے چھ مهنیے بعد ہی صاحب اولاد ہوئی اور شوهر نے اس بچه کو اپنانے سے انکار کیا.امام علی بھی وهیں موجود تھے آپ نے اس حکم پر اعتراض کیا اور فرمایا: اس عورت کا حکم قرآن میں موجود ہے ، عمر نے کها کهاں ہے اور کیاہے ؟امام نے فرمایا: قرآن میں آیاہے که “وحمله وفصاله ثلاثون شهرا” دوران حمل اور دودھ چھوڑنے کی مدت تیس مهینےهے –(۱)

عمرنے کها یه کیا آیت ہے ؟ امامنے فرمایا: خداوند عالم فرماتاہے :

( وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ) ” اور مائیں اپنی اولاد کو دو برس کامل دودھ پلائیں گی.(۲)

یه حکم ان خواتین کے لئے ہے جو دو ھدینے کی مدت کو تکمیل کرنا چاہتی ہیں اگر دودھ دینے کی مدت ۲۴مهینے ہوتو حمل اور بارداری کی مدت چھ مهینے سے کم نهیں ہوگی عمر نےکها اگر علی نه ہوتے تو عمر هلاک ہوجاتاہے، پھر حکم دیا که اس عورت کو آزاد کیاجائے.(۳)

اس روایت میں بھی امام علینے ظاہر قرآن سے استنتاد کے ذریعے بارداری کی حد اقل مدت کو بیان کیا اور قرآن سے استنباط کا طریقه تفسیر قرآن بالقرآن کی روشنی میں سکھایا : اور عمرکو احکام دینی میں اشتباہی فتوی دینے سے روکا.

____________________

۱ احقاق ، آیه۱۵

۲ سوره بقره ، آیه ۲۳۳

۳ فضل بن شاذان الایضاح،ص۹۸

۲۳

امام صادق نے استنباط کے شیوه کو بیان کیا ہے :

موسی بن بکرکهتے ہیں:

میں نے امام صادق سے عرض کیا که ایک شخص غشی اور بهوشی کی حالت میں ا یک ،دو یا تین دن تک پڑارهے ایسے شخص کو اپنی کتنی نمازوں کی قضاکرنا چاہیئے؟ امامنے فرمایا: کیا میں تمهیں بتلاؤں که یه مسئله اور اس کے اشتباہ کو نظر میں لے آؤں ؟

پھر امامنے فرمایا: ہر وه چیزجو خدا انسان پر مسلط کرے لهذا خدا اپنے بندوں کے عذرکوماننے کا زیاده سزوارهے اور یه بات ایسے در سے ہے جس کے ہر ایک درسے هزار در کھلتے ہیں-(۱) .

امام صادق نےاس روایت میں اپنے صحابی کو استنباط احکام شرعی کی دعوت اور ایک کلی قاعده کی تعلیم دی ہے تاکه وه خود دوسرے فروعات کو اس کلی حکم کے ذریعے کشف کرے اسی لئے فرمایا:یه بات ایسے در سے ہے جس سے هزار باب کھلتے ہیں

شبهات :

استنباط کے شبهات :

۱- استنباط کے ذریعے اصلا حکم کشف نهیں کیا جاسکتا او ریه ایک نا ممکن بات ہے کیونکه خود شریعت خاموش ہے جو کچھ ہم کتاب و سنت سے استخراج کرتے ہیں در حقیقت یه ہمارے ذهن کی انچ اور ہمارے اپنے نظریات ہیں جسے ہم قرآن و سنت کا ما حصل بناکر پیش کرتے ہیں

۲- جو افراد منابع استنباط سے احکام حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کا غیر کی تقلید کرنا جایز نهیں (اور اسی طرح جو افراد دوسروں سے تقلید کروانے کے لئے استنباط کرتے ہیں ایسے گروه کی تقلید جایز نهیں ).

۳- استنباط کی ضرورت اور کاربرد وهاں ہے جهاںهم قوانیں شریعت کو ثابت جانتے ہیں اور احکام اسلامی کو ناقابل تغیر مانتے ہیں .لیکن یه بات بھی واضح ہے که ہر روز انسان کی ضروریات بدلتی جارهی ہیں انسان کی زمان و مکان کے اعتبار سے بدلتی ضرورتوں اور در پیش مسائل میں استنباط بی معنی ہیں پس ان امور اور مسائل استنباط کے علاوه دوسرے مسائل کی ضرورت ہے جس سے ان نیازمندیوں کا جواب دیاجاسکتا جیسے قیاس استحسان وغیره..

____________________

۱ کلینی ، اکافی ،ج ۳ ، و فروع کافی ، ج ۱ ص۸۳و۸۸

۲۴

استنباط میں افراط و تفریط :

افراط و تفریط صرف غیر دینی امور میں ہی رائج نهیں ہے بلکه امور دینی جیسے استنباط احکام بھی اس سے مستثنیٰ نهیں ، استنباط احکام میں بھی بعض علماء اسلام اعم از شیعه و سنی نے افراط و تفریط کا راسته اپنایا اگرچه اہل سنت استنباط حکام میں افراط و تفریط کے راستے پر پیغمبر اکرم(ص)کی وفاتت کے بعد ہی چل پڑے او رانهوں نے اس بهانے کے ساتھ دین میں ایسی ایسی بدعتیں رائج کردیں که عالم اسلام آج اس کا خمیازه بھگت رها ہے

احادیث پیغمبر سے دوری اور قرآن سے صحیح استفاده نه کرنے کی بناپر وه ایسے راستوں پر چل نکلے جو افراط و تفریط تک پهونچتے تھے

بعض احادیث گرا ہوگئے اور اسے ظاہر بن گئے که صرف ظواہر احادیث و قرآن پر اکتفار کیا عقل و تفکر، تدبر و تفحص کے صحیح طریقوں کو چھوڑ بیٹھے صرف اپنی ظاہری عقلوں کو معیار بنا بیٹھے ، بعض نے احادیث پیغمبر(ص)پر پابندی لگاکے صرف قرآن سے اپنی ناقص عقلوں کے ذریعه دین کی تفسیر کرنا چاہی، تفسیر پیغمبر(ص)اور تفسیر اہل بیت علیهم السلام کا راسته چھوڑ کر کون اپنی ناقص عقل کی تفسیر کے ذریعه صحیح دین تک پهونچے سکتا ہے نتیجه وهی ہوا جو ہونا تھا کوئی افراطی بن بیٹھا کو ئی تفریطی

سنی علماء نے کبھی تو قیاس کو جایز بنایا اور کبھی سدذرایع ، مصالح مرسله کا راسته اپنایا اور کبھی دوسرے استقرائی طریقوں پر گامزن ہوئے او راسی طرح ایک مختصر مدت تک بعض شیعه علماء بھی استنباط احکام میں صرف قرآن و روایات کو منبع مانتے ہوئے عقل کی حجیت پر معترض ہوئے اور انهوں نے عقل کو بعنوان منبع استنباط ماننے سے انکا رکردیا اگرچه سبھی علماء شیعه عقل کے استقرائی اور ظنی طریقوں مثلا قیاس و مصالح مرسله و کو بعنوان مبنع استنباط نهیں مانتے لیکن تقریبا سبھی علماء شیعه عقل برهان و عقل قطعی کی منبعیت کے قائل ہیں صر ف بعض شیعه علماء جوکه اخباری ہیں عقل قطعی و برهانی کو بھی عقل ظنی و استقرائی کی طرح حجت نهیں مانتے اور اس کے منبع استنباط ہونے سے انکار کرتے ہیں.

پس اس کا نتیجه یه ہوا که بعض روایات پر بغیر کسی تحقیق کے عتماد کربیٹھے اور بعض نے ایسا راسته اپنایا که احادیث کو کوئی وقعت ہی نهیں دی بلکه صرف اپنی ناقص عقلوں کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے تو وه افراط کے راستے پر چل پڑے اوریه تفریط کے جس سے شعیت میں اخباری گری اور سنیوں میں چار فقهی مسلک جو که آج موجود ہیں اور بقیه دیگر فرقے جوکه متعرض ہوگئے وجود میں آئے

۲۵

استنباط کو لاحق خطرسےبچانا :

تحریر کا یه حصه استنباط کو لاحق خطرات کی شناخت سے مربوط ہے که جسکا خلاصه آپ کے پیش خدمت ہے

۱- قرآن سے دوری:

علامه طباطبائی (رح) اپنی مشهور و معروف تفسیر المیزان میں اسلامی علوم کی قرآن سے دوری اور قرآن سے کناره کشی کے سلسلے میں لکھتے ہیں :

“اگر اسلامی علوم کی ماہیت پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا که یه علوم اس انداز سے ڈھالے گئے گویا ایک طالب علم بغیر قرآن کے ان تمام علوم کو سیکھ سکتاہے چنانچه ہم دیکھتے ہیں که وه صرف نحو، بیان، لغت ،حدیث،رجال، درایه، فقه و اصول تمام علوم میں اجتهاد کی حدتک مهارت حاصل کرتاہے لیکن قرآن پڑھنے کی توفیق نهیں ہوتی ، قرآن مجید تو بس ثواب کا ذریعه اور بچوں کو خطروں سے بچانے کا وسیله ہے”

قرآن سے دوری کئی خطرات کاباعث ہے :

الف : آیات الاحکام کا محدود کرنا :

فقهاء نے آیات الاحکام کی تعداد پانچ سو یا اس سے کمتر بتائی ہے اور ان میں چند آیات ہیں جو استنباط کے کام آتی ہیں کیونکه کچھ آیتں تومکرر ہونے کی وجه سے حذف ہوجاتی ہیں اور کچھ میں صرف ضروریات احکام کا بیان ہے پس فقیه جن آیات سے استنباط کرتاہے وه بهت ہی کم ہیں اسی بناپر علماء اصول جب علم رجال کی ضرورت اور فوائد پر دلیل پیش کرتے ہیں تو کهتے ہیں که اکثراحکام کا دار مدار احادیث ہیں جبکه قرآن کی ہر آیت منبع استنباط اور آیات الاحکام شمار ہوتی ہیں

ب: ظهور قرآن پر روایت کا مقدم کرنا:

قرآن کریم صریح طورپر یه حکم دیتا ہے قیام عدالت اور خدا کو گواہ پیش کیا کروچاہیے یه گواہی تمهارے یا تمهارے والدین واقرابا کے خلاف ہی کیوں نه جاتی ہو

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاء لِلّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ ) “اے ایمان والو! عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کے لئے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین اور اقربا ہی کے خلاف کیوں نہ ہو”-

۲۶

شیخ طوسی (رح) ,,خلاف،،میں اجماع اور روایات کی بنیاد پر یه فتوی دیتے ہیں باب کے خلاف بچه کی گواہی قابل قبول نهیں ہے جبکه محقق (رح) نے شرائع میں اس کی تردید کی ہے

۲- احتیاط کے سلسلے میں فردی نگاہ :

بعض فقهی فتوے جیسے ربامیں چاره اندیشی ، جهاد، وه درخت پر جو کسی کی ملکیت میں نه ہوں ان کو توڑنے کا جواز شخصی ملکیت میں ملنے والے دفینه کی ملکیت کا جواز ، اس کی دلیل ہے که فقهاء گرامی اپنے استنباط میں مسلمانوں کے فردی مشکلات کو حل کرتے ہیں اور اجتماعی مشکلات کی طرف توجه نهیں کرتے ایسی فکر شیعوں کی حاکمیت اور سیاسی قدرت سے دوری کا سبب ہوگی

آیۃ الله خمینی(رح) رساله عملیه کو منابع و نصوص دینی سے مقایسه کرتے ہوئے لکھتے ہیں :قرآن اور کتب حدیث جو که اسلامی احکام و دستورات کے منابع میں شمار ہوتے ہیں ان میں اور رساله عملیه جوکه مجتهدین کا تدوین ہو کیا ہواتاہے. ان دونوں میں جامعیت اور اجتماعی زندگی پر تاثیر گذاری کے اعتبار سے کلی طور پڑا تفاوت پایا جاتاہے

قرآن کے مقابله میں رساله کی جامعیت ایک فیصد بھی نهیں ہے

۳- فردی استنباط :

چند صدیوں سے احتیاط کو جو بلاگریبانگر کئے ہوئے ہے وه فردی استنباط ہے اس معنی میں که ایک فرد اپنی عصمت کے ذریعه علمی مشروط کئے بغیر کی استنباط اور استخراج احکام کا آغاز کرتاہے

یه عمل اس لئے ایک آفت ہے کیونکه علم فقه ایک وسیع علم ہے جس کی مختلف شاخیں اور مختلف ابعاد اور اس سے مربوط تمام علوم پر احاطه کرنا کسی ایک شخص کی قدرت سے باہر ہے اس لئے استنبا ط کرنے والے کو چاہئیے پهلے دوسرے صاحب نظر افراد کے ساتھ علمی تبادله اور مشورت کرلے پھر اپنی رائ اور فتوی کا علان کرے.تقریبا نصف صدی سے یه کام فقهاء کے درمیان شروع ہوگیا لیکن ابھی تک کامل صورت اختیار نهیں کی لیکن ایران کی اسلامی جمهوری حکومت میں شورای ٰنگهبان نامی ایک شوریٰ ہے جس میں ایران کے چند فقیه اس کی عضویت رکھتے ہیں اور مجلس میں پاس ہوئے قوانین کو شرعیت کے آئینه میں پرکھتے ہیں اور اس کے سلسله میں اظهار رای کرتے ہیں او ریه کام خود ایک طرح کا غیر عبادی مسائل میں شورای اجتهاد ہے

۲۷

۴- فهم و تفسیر نص میں جمود کا ہونا :

مجتهدین کے دامن سے چمٹی ہوئی ایک اور آفت جمود فکری ہے دینی نصوص بالخصوص الفاظ روایات میں جمود پایاجاتاہے ، جمو د اس معنی میں که حدیث میں جولفظ آگیا بس اسی پر اکتفاکیاجاتاہے دیگر مشابه موارد جوکه شابه قطعی رکھتے ہیں ان کی تعلیم نهیں دی جاتی یه آفت در حقیقت اخباریوں کی خصوصیات کا حصه ہے جو بهت سارے اصولیوں اور مجتهدین کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے

اور جو چیز اس آفت کا مقابله کرسکتی ہے وه ہے فهم نصوص به تعبیر دیگر جهاں نص دلالت قطعی نه رکھے بلکه ظنی الداله ہو او ریه یقین بھی ہو که متکلم حکیم دوراندیش، انسان شناس اور ظاہر و باطن امور سے آگاہ ہے ان امور کی روشنی میں نصوص کو سمجھاجائے اور اس کی تفسیر کی جائے ورنه بند زهنیت کے ساتھ حدیث و روایت کی جستجو کرنا شریعت کو کمزور دکھانے کے علاوه کچھ نهیں کرسکتا

۵- موضوع شناس یا وه جدید علوم سے بے توجهی :

ہر حکم شرعی کسی نه کسی موضوع پر مترتب ہوتاہے جیسے سورای سوار کولئے ہوئے ہو فقهاء موضوع کی تعریف میں کهتے ہیں :

هوالامرالذی یترتب علیه الحکم الشرعی

موضوع ایسی چیز ہے که جس پر حکم کو لکھاجاتاہے.

فقهاء نے موضوع کی کئی دسته بندیاں کی ہیں او ریه فقیه که کو کن موضوعات میں تشخیص دینے کی ذمه داری ہے اس میں اختلاف ہے .مرحوم آیۃ حکیم R نے موضوعات کو شرعی اور غرفی میں تقسیم کیا ہے اور ان ہی کو روشن اور غیر روشن میں تقسیم کرتے ہیں ان کے نزدیک صرف غیر روشن موضوعات کو تشخیص دینا فقیه کے ذمه ہے

صاحب عروه موضوعات کو چار قسموں میں تقسیم کرتے ہیں :

۱- شرعی.

۲- عرفی.

۳- لغوی.

۴- خارجیه

۲۸

اور صرف موضوعات شرعی کی تشخیص کو فقیه کا وظیفه جانتے ہیں اس میں تردید نهیں ہے که موضوعات شرعی میں فقهی اور دینی اصولوں کے تحت کام ہوتاہے لیکن دوسرے موضوعات میں فقهاء کے نزدیک اختلاف ہے لیکن بے شک موضوعات عرفی اور موضوعات خاص کو دینی مطالعات کی روشنی میں تشخیص نهیں دیاجاسکتا اس میں عرف اور مهارتوں کا سهارا لینا ضروری ہے آج علوم کے پھیلنے سے ان موضوعات کا جاننا بهتر ہوگیا ہے .اگر فقهاء اس نکته کی جانب توجه کریں او ر موضوعات کی شناخت میں ماہرین سے مدد لیں تو ان کا فتوا اپنے موضوع کے مطابق ہوگا

استاد محمد رضا حکیمی اجتهاد مطلوب تک پهنچنے کا راسته بتاتے ہوئے کهتے ہیں اگر مجتهد فتوی دینے سے پهلے موضوعات کی شناخت میں ماہر ین سے مددلے خاص طور پر اقتصادی، سیاسی ،دفاعی،ثقافتی اور جهانی موضوعات میں کیونکه موضوعات کی ماہرانه تشخیص حکم کو بدل دیتی ہے اگر بهتر تعبیر میں کها جائے اگر موضوع واقعیکی تشیخیص ہوجائے اور تمام ابعاد مشخص ہوجائیں تاکه حکم اور فتوی اپنی صحیح شکل میں استنباط ہوسکے

۶- عوام زدگی:

فقهاء اور مجتهدیں استنباط احکام شرعی کے دوران خود پر معتبر دلائل کی پیروی کو لازم جانتے ہیں ، اسی کےمطابق قدم بڑھاتے ہیں اور فتوی دیتے ہیں لیکن بعض اوقات دلیل کے علاوه دوسرے دغدغه فقیه کے سامنے ہوتے ہیں جو اسے دلیل کی پیروی سے روکتے ہیں اور وه دغدغه عبارت ہیں اجماع ،شهرت، کسی خاص دیندار گروه کی خوشی یا نه خوشی.اجماع اور شهرت کا خوف اس حدتک اہمیت رکھتا ہے که اجماع اور شهرت کا ثابت ہونا ان علماء اور متفکران کو جوحضور کے زمانه کےذریعه سےنزدیک تھےمطلب کو کچھ کا کچھ سمجھ بیٹھے ہیں

ممکن ہے که یهاں کوئی قرینه اور شاہد یا کوئی دلیل و تائید موجود تھی جو دھرے زمانی فاصله کی ختم کر دیا البته یه بات قابل غور و فکر ہے که بهت سارے ایسے فقیه بھی تھے اور ہیں جنهوں نے اجماع اور شهرت کے فتوی دیاہے

گرچه انهیں بھی بعض مسائل میں اجماع اور شهرت کا خیال تھا بهرحال اگر شهرت اور اجماع کو قابل اعتنا مان لیاجائے تب بھی عوام زدگی اور بعض دینی گروهوں کی خوشنودی کی کوئی توجیه نهیں کی جاسکتی لیکن میدان عمل میں فقهاء نے اسی گروه کی خوشنودی یا مخالفت کے خوف سے اپنی رائ اور اظهار نظر سے چشم پوشی کی ہے

۲۹

۷- فقیه مقارن پر توجه دینا :

اسلامی فقیه نے مسلسل اپنی حیات میں بهت سے ایسے فکری حوادث کا مشاہد کیا ہے جس کی وجه سے تقسیم بندی اور نام گذاری وجود میں آئی جیسے فقه فقه المذهب، فقیه اخبارگری فقه ظاہری، تاریخ میں ایسے حوادث کا پیش آنا ایک دورسرے پر ناظر ہوتے ہیں کوئی شک و تردید نهیں رکھتا اگر چه ایک ایک اپنے راستے پر چلا اور کوئی بھی ایک دوسرے سے نزدیک یا قریب نهیں رکھتا لیکن شروع میں مسائل اور جعرافی اعتبار سے فقیه کے معزرو ہونے کی بناپر یه ایک دوسرے کے ناظر تھے اس بنا پر دور سے مذاہب کی شناخت اور آگاہی کے بغیر فقهی مسائل کو سمجھنا احتیاط کے لئے نه ور ستی اور غلط فهمی کا سبب بنے گا.

۸- زمان سے دوری اور پرانے مسائل کو پیش کرنا:

زمان شناس اور اس میں حضور اور زندگی کی ہر شرائط کو درک کرنا اور دینی معارف علماء کے زمه ہیں علماء اور فقهاء کو چاہیے که وه معارف دینی جو دوسرں کے زمه کررهے ہیں ان میں پهلے زمان شناس کو مقدم کریں

استنباط میں زمان و مکان کی تاثیر:

جوکچھ بیان کیا گیا اس سے واضح ہوتاہے که“ اجتهاد میں زمان و مکان ”کی بحث تاریخی اعتبار سے آغاز فقه شیعه کی پیدائش کے ساتھ ساتھ ہے اور یه بحث فقه کی ترقی اور تازگی اور واقعاتت و حوادث کی جوابدهی میں خاص اہمیت کی حامل ہے موجوده دور میں اس فقهی مبناکے علمدار آیۀالله خمینی R تھے ہماری کوشش یه ہے اس سلسلے میں ان کے بعض نکات اور جودیگردانشمندوں نے بیان کیا ہے اسے مختصر اور آشنائی کی حدتک بیان کریں. اس لئے که اس موضوع میں تفصیلی گفتگو بالخصوص اس بحث میں موجود اختلاف نظر ایک مستقل کتاب کی طلبگارهے ہم نے پهلے بھی اس نکته کی جانب اشاره کیا ہے که ہمارے عقیده کے حساب سے اسلام میں کوئی قانونی خلاءنهیں پایاجاتا اس لئے قیاس ورای کے سهارے کی کوئی ضرورت نهیں ہے

اگر ہمارا هدف قانوں سازی ہوتا تواس صورت میں ہم قیاس ورائ وغیره پرتکیه کرتے اور اس کی ضرورت اہمیت کے اثبات پر زورلگاتے اور یه کوشش کرتے که کسی طرح ہمارا بنائے ہوئے قانون کی کوئی ضرورت نهیں ہے بلکه جس طرح امام صادق نے فرمایا:

۳۰

یه اور اس جیسے (احکام و مسائل) کو کتاب خداسےسمجھاجاسکتاہے ، پس عمل کی صورت میں ہم اپنی ذمه داری اور تکلیف شرعی (جو ادله شرعی سے کشف احکام) کو ادا کرتے ہیں هاں یه ضرورهے که چونکه ہم معصوم نهیں ہیں اس لئے بهرحال خطاکاامکان ہے اس لئے ہم تخطئه (امکان خطا) کے قائل ہیں نه که تصویب کے .زمان و مکان کی نیازمندوں کی شناخت ہر دور میں اہم رهی ہے .لیکن ہمارے دور میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے ہم ان نیامندوں کی شناخت کے بغیر رائج مشکلات و مسائل تو حل نهیں کرسکتے خاص طور سے حکومت اسلامی میں انسان کی فردی اور اجتماعی، سیاسی ، اقتصادی، و حقوقی، مسائل کی جانب توجه نه کی گئی تو وه اپنے مسائل بیگانوں سے حل کروائیں اور یه اسلام و مسلمانوں کے حق میں بهت بڑی خیانت ہوگی .آیۀ الله خمینی R فقه شیعه کی غنایئیت کے پیش نظر اس سلسلے میں فرماتے ہیں :میں سنتی فقه اور اجتهاد جواہری کا قائل ہوں او راس سے تجاوز کو جایز نهیں سمجھتا اجتهاد کی وهی پرانی روش صحیح اور درست ہے اس کےمعنی یه نهیں که اسلامی فقه میں نوآوری اور پیشرفت و ترقی نهیں ہے بلکه زمان اور مکان اجتهاد کے دو اہم ترین اور فیصله کن عناصرهیں جو مسئله پهلے ہی سے کسی حکم کا حامل تھا اب وهی مسئله ممکن ہے جدید سیاسی، اقتصادی ،اور اجتماعی روابط کے پیش نظر اس کا حکم بدل جائے یعنی اقتضادی سیاسی اور اجتماعی روابط کی دقیق شناخت کی بناپروه موضوع اول جو قدیم حکم کا حامل ہے وهی موضوع ان جدید روابط کی وجه سے ایک نیا موضوع بن گیاہے.

۳۱

اور نیا موضوع اس لئے نیاحکم چاہتاہے پس مجتهدکو چاہیے ، که اپنے دورکے مسائل سے آگاہ ہو او ران پر احاط رکھے. ایک اور جگه فقهاء کی موجود مسائل سے آشنائی کے سلسلے میں فرماتے ہیں: حوزے اور روحانیت کو چاہیئے که سماج کی فکر اور مستقبل کی باگ ڈور کو ہمیشه اپنے هاتھ میں رکھیں زیرا ممکن ہے لوگوں کے امور کو آج اپنے مشکلات کے حل کے لئے اسلام کے جدید مسائل کی ضرورت محسوس کرے ،اس لئے علماء اسلام کو ابھی سے آینده در پیش مسائل کی فکر کرنی ہوگی(۱)

زمان و مکان کی تاثیر گذاری اتنی اہم ہے که غیر مستقیم طورپر ناخوداگاہ اچانک فقیه که استنباط میں ظاہر ہوجائے اسی لئے ایک زمان شناش فقیه کا اجتهاد موجود مسائل سں ناآشنا فقیه کے نزدیک نادرست اور غیر فنی ہوگا.

شهید مطهری فرماتے ہیں :اگر کوئی فقهاء کے فتووں کا ایک دوسرے سے مقابله اور مقایسه کرے اور ضمنا فقیه کے حالات اور اس کے ظرز تفکر کو نظر میں رکھے تو اسے اندازه ہوگا که کسی فقیه کے ساتھ حالات اور خارجی اطلاعات کا اس کے فتوون پر کتنا اثر پڑاہے یهاںتک که فقیه عرب کے فتووں سے عرب کی بو اور عجم کے: فتوں سے عجم کی بو آتی ہے ایک دھاتی کا فتوی دھات کی بو اور ایک شهرکا فتوی شهر کی بودےگا.

یه دین دین خاتم ہے اور کسی خاص زمانے سے مخصوص نهیں ہے اور اس کا تعلق تمام مناطق اور تمام ادوار سے ہے اسلام ایسادین ہے که جو انسان کی زندگی کے نظام اور ترقی کے لئے آیا ہے

کیسے ممکن ہے که کوئی فقیه موجوده حاکم نظاموں سے بے خبر ہو او زندگی کے تکامل اور ترقی پر ایمان نه رکھتاہو اور اس کے باوجود اس دین کے اعلی دستورات جو انهی موجوده نظام کے لئے آئے ہیں اور اس ترقی وور کامل طور سے صحیح استنباط کرسکے(۲)

البته شهید مطهری (رح) کے اس بیان کو بصورت کلی ماننا تامل ہے کیونکه اس کے موارد بهیت محدود ہے شهید کے مذکوره قول صرف انهی موارد سے مربوط ہیں ورنه ساری فقه اور سارے فقهاء زیر سوال آجائیں گے

____________________

۱ .صحیفه نور ،ج۲۱،ص ۹۸

۲ شهید مطهری ، اجتهاد در اسلام مجموعه آثار ،ج۲۰ ص۱۸۱و۱۸۲

۳۲

تمهید

ہماری گفتگو کا عنوان ہے منابع استنباط فریقین کی نظر میں ، روشن ہے که اس وسیع موضوع پر تحقیق کےلئے ایک مقاله نهیں بلکه ضخیم کتابوں کی ضرورت ہے اسی لئے ہم اس موضوع پر سرسری نگاہ دوڑاتے ہوئے صرف کلی مسائل کے بیان پر اکتفا کریں گے امید ہے اہل تحقیق اس موضوسع کے مختلف گوشوں کو اجاگر کرکے اس کے ہر ایک گوشے پر مستقل تحقیق کریں گے ۔

چند اہم نکات

مقدمه میں لازم ہے که اہم نکات کی جانب توجه دلائی جائے :

پهلانکته

صرف نظام تکوین ہی نهیں بلکه نظام تشریع بھی خدا کے اختیار اور اس کے اراده کے تحت ہے اسی لئے خدا کے علاوه کسی کو قانون سازی اور شرعی احکام کو وضع کرنے کا حق نهیں ہے فقهاء کی تو دور کی بات ہےخود انبیاء کو بھی حق نهیں ملا ان کی ذمه داری صرف تبلیغ کرنا اور احکام کو و اضح اور روشن طور پر بیان کرنا تھا چنانچه قرآن مجید میں ارشاد ہے ،

( ما عَلَى الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ )

“"رسول پر تبلیغ کے علاوه کوئی ذمه دارری نهیں”" ۔.(۱)

ایک مقام پر ارشاد ہے :

( قَالَ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللَّهِ وَأُبَلِّغُكُم مَّا أُرْسِلْتُ بِهِ )

“"انهوں نے کها که علم تو بس الله کے پاس ہے اور میں اسی کے پیغام کو پهنچادیتا ہوں ”"(۲)

رسول خد(ص)که جسکی برتری تمام انبیاء پر ثابت اور مسلم ہے انهیں بھی وضع احکام کا حق نهیں اسی لئے قرآن نےکهیں بھی انهیں شارع کی حیثیت سے نهیں پهچنوایا بلکه مبلغ کی حیثیت سے انهیں پهچنوایا ہے چنانچه ارشاد رب العزت ہے:

( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ )

“" اے پیغمبر! آپ اس حکم کوپهنچادیں جو آپ کے پرورد گار کی طرف سےنازل کیا گیا ”"(۳)

____________________

۱ مائده ، ۹۹

۲ احقاف ، ۲۳

۳ مائده ، ۶۷

۳۳

سورۂ نحل میں آیا ہے که غیر خدا کی جانب سے احکام وضع کیا جانا در حقیقت خداکی حاکمیت اور اس کی ولایت کا انکار کرنا ہے اپنی جانب سے حلال و حرام کا تعین کرنا ذات خداوندی پر بهتان باندھنا ہے خداوند عالم ایسے افراد کو خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

( وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـذَا حَلاَلٌ وَهَـذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُواْ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ )

“اور خبردار جو تمهاری زبانیں غلط بیانی سے کام لیتی ہیں اس کی بنا پر نه کهو که یه حلال ہے اور یه حرام ہے جواس طرح خدا پر جھوٹا بهتان باندھتے ہیں ان کے لئے فلاح و کامیابی نهیں ہے ”۔(۱)

حاکمیت صرف اور صرف خدا سے مخصوص ہے تنها وهی ذات ہے جو کائنات کے سا تھ تکوینی نظام کو اپنی قدرت و تدبیر سے چلاتا ہے خداکی اسی انحصار ی حاکمیت کو (توحید در خالقیت ) او رتوحید د رربوبیت ، سے تعبیر کیا جاتاہے ۔ خدا کے علاوه کسی اور کی حاکمیت کا تصور بھی نهیں کیا جاسکتا اسی لئے خداوند عالم بڑے تعجب او ر سوالیه انداز میں پو چھتا ہے:

( هل مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاء وَالْأَرْضِ ) ۔.

“"کیا خدا کے علاوه بھی کوئی خالق ہے جو آسمان و زمین سے روزی دیتا ہو ”"۔(۲)

قرآن مجید کئی مقام پر واضح او رمطلق طور پر بیان کرتا ہے که حکم اور دستور دینا صرف خدا کا حق ہے ۔

( وَاللّهُ يَحْكُمُ لاَ مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ ) ۔.

“الله ہی حکم دینے والا ہے کوئی ان کے حکم کو ٹالنے والا نهیں ”۔(۳)

جس طرح تکوینی نظام میں خدا کی انحصاری حاکمیت کو توحید در خالقیت او رتوحید در ربوبیت سے تعبیر کیا جاتا ہے بالکل اسی

____________________

۱. نحل ،۱۱۶

۲ فاطر ، ۳

۳ رعد ، ۴۱

۳۴

طرح نظام تشریع میں اس حاکمیت کو توحید د رحکومت سے تعبیر کیا جاتاہے یه مطلب بھی قرآن میں کئی مقامات پر پیش کیا گیا :

( إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ) ۔.

“بے شک حکم کرنے کا حق خدا کو ہے اور اسی نے حکم دیا که اس کے علاوه کسی کی عبادت نه کی جائے که یهی مستحکم اور سیدھا دین ہے ”۔(۱)

صرف دو صورتوں میں غیر خدا کی جانب سے حکم صادر ہوسکتا ہے ، ایک یه که اسکا حکم کرنا الله کے اذن سے ہو جیسے که جناب داوُد کو خطاب ہوا :

( يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ ) ۔.

“" اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں اپنا جانشین بنایا ہے لهذ تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصله کرو ”"۔.(۲)

دوسرے یه که اس کے حکم کی بازگشت حکم خدا کی جانب ہو یعنی در حقیقت اس کا حکم الله کی مشیت او راس کے حکم و اراده کے مطابق اور حمایت پرور دگار کے ساتھ ہو یعنی مستقل اور دلخواہی کے ہمراہ نه ہو ۔

( وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ اللّهُ ) ۔.

“"اور پیغمبر آپ ان کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق بھی فیصله کریں ”"۔(۳)

خدا کے علاوه کسی اور کے حکم کی شرط یه ہے که اس کا حکم الله کے حکم اور مشیت کے مطابق ہو ، اسی صورت میں غیر خدا کا حکم کرنا اوردستور دینا توحید در حکومت سے منافات نهیں رکھتا اس لئے که یه کام در حقیقت خدا کے اذن سے انجام پاتا ہے خلاصه یه که ہر صورت میں حق قانون اور حق حکومت خدا سے مخصوص ہے ۔

____________________

۱ یوسف ، ۴۰

۲. ص ، ۲۶

۳ مائده ، ۴۹

۳۵

دوسرا نکته

تمام فقهاء اسلام اپنے اختلاف مذهب کے باوجود اہم ترین منابع استنباط میں اشتراک نظر رکھتے ہیں ہر ایک کے نزدیک قرآن وسنت استنباط احکام کے اساسی ترین رکن شمار ہوتے ہیں ، ان کے اختلاف کی وجه صرف قرآن فهمی او رسنت کو سمجھنے کا فرق ہے اجماع کی حجیت کے معیار اورعقل کی اہمیت و ارزش کا فرق ہے ۔ان کے علاوه اور بھی فقهی منابع ہیں جو تمام مذاہب اسلامی میں مورد اتفاق نهیں بلکه ان میں اختلاف پایا چاتا ہے جیسے قیاس استحسان و غیره که ان کا ذکر آئنده مباحث میں ہوگا ۔

تیسرا نکته

فقهائے اسلام منابع استنباط کے استعمال میں ایک خاص نظم کا لحاظ رکھتے ہیں عام طور پر جو راسته یقین تک پهنچتا ہے اسے تمام دوسرے راستوں پر مقدم رکھتے ہیں اس کے بعد دلائل ظنی که جسے امارات کها جاتا ہے رجوع کرتے ہیں اگر اس کے باوجود شک و تردیدباقی ره جائے تب ادله احکام ظاہری کی نوبت آتی ہے ۔

توضیح :

منابع استناط ہمیشه یقین آور نهیں ہوتے بلکه بعض منابع صرف حکم شرعی کا گمان دلاتے ہیں اور بعض اوقات شک وجدانی بھی بر طرف نهیں کرتے اسی لیے فقیه پر لازم ہےکه ادله ظنی اور قواعد و اصول جو حالت شک میں انسان کے وظیفه ءعملی کو مشخص کرتے ہیں ان اصول وقواعد کے اعتبار و ارزش کو مشخص کرے اور وه علم جس میں ان مباحث پر گفتگو ہوتی ہے "علم اصول" کهاجاتا ہے اور وه حکم جو حالت شک میں ادله ءظنی اور اصول عملیه کے جاری کرنے سے حاصل ہوا اسے "حکم ظاہری" کهتے ہیں لیکن احکام ظاہری کی حجیت کے دلائل کوقطع و یقین کے ذریعے ثابت ہونا شرط ہے اسی لئے مشهور کا کهنا ہے :

ظنیة الطریق لاتنافی قطعیة الحکم ۔.

دلیل ظنی حکم کے قطعی ہونے سے منافات نهیں رکھتی ۔

اہل سنت کے بعض علماء کے نزدیک دلائل استنباط کی ترتیب کچھ اس طرح ہے :

ان کے نزدیک سب سے پهلی دلیل جو ایک مجتهد کو تما م دلائل سے بے نیاز کرتی ہے اجماع ہے اگر کسی مسئله پر اجماع موجود ہو تو دوسری دلیلوں کی جستجو لازم نهیں ہے اسی لئے اگر کتاب و سنت اجماع کے خلاف ہوں تو کتا ب و سنت کی تاویل کرنی ہوگی یا اس حکم کو مسنوخ تسلیم کرنا ہوگا ۔

____________________

۲ .الاتقان ،ج۴ ،اللباب فی اصول الفقه ،ص ۵۱

۳۶

اجماع کے دوسرے مرتبه پر کتاب و سنت معتبر ہے اور آخر میں خبرواحد و قیاس سے استفاده کیا جاتاہے ۔

مذکوره مقدمات اور نکات کے پیش نظر اپنی بحث کا آغاز ان منابع کے ذکر سے گریں گے جو فریقین کے نزدیک معتبر اور متفق ہیں ۔

"فریقین کے مورد اتفاق منابع استباط ”

الف: قرآن

احکام الهی کا اہم ترین اور بنیادی ترین منبع و مدرک قرآن ہے ، قرآن عقائد، تاریخ، اخلاق او راحکام کامجموعه ہے احکام سے مربوطه حصه کو اصطلاح میں آیات الاحکام “"یا ”" احکام القرآن کهتے ہیں ۔

کها جاتاہے که قرآن میں من جمله پانج سو آیتیں احکام سے مربوط ہیں لیکن بعض یه مانتے ہیں قرآن کی اکثر آیات کسی نه کسی جهت سے استنباط احکام میں کام آتی ہیں کبھی صریح طورپر احکام کا ذکر ملتا ہے اور کبھی اسنتباط کے ذریعے انهیں کشف کیا جاتاہے استنباط میں کبھی ایک آیت کو دوسری آیت سے ملاکر حکم مشخص کیا جاتاہے اور کبھی کسی آیت کو ایسی روایت که جس میں اس کی تفسیر بیان کی گئی ہو اضافه کیا جاتا ہے اور احکام استنباط کئے جاتے ہیں لیکن ہماری نظر میں یه بات ایک قسم کی مبالغه آرائی ہے "کشف الظنون " میں احکام القرآن کی سب سےپهلی کتاب شافعی کی کتاب مانی گئی جب که ابن ندیم نے "الفهرست"میں کلبی کی "حکام القرآن "کو پهلی کتاب شمار کیا ہے ابو نصر محمد بن سائب بن بشربن کلبی امام صادق کےاصحاب اور مذهب امامیه کے بزرگ دانشمندوں میں شمار ہوتے ہیں شیخ آقابزرگ تهرانی اپنی کتاب"الذریعه " میں ندیم کی کتاب کا حواله دیتے ہوئے لکھتے ہیں که احکام القرآن کےسلسله میں سب سے پهلی کتاب محمد بن سائب کلبی نے لکھی نه که شافعی نے اس لئے که محمد بن سائب کلبی کی وفات۱۴۲ هجری میں ہوئی جب که شافعی نے ۱۵۵ هجری میں وفات پائی ۔

آیات الاحکام سے مربوط کتابیں تو بهت زیاده ہیں نه جانے تاریخ کے نشیب وفراز میں کتنی کتابیں تباہ و برباد ہو گئیں که جن کا کهیں صرف نام موجود ہے اور بعض کے تو نام بھی نهیں معلوم انهی تباہ شده نایاب کتابوں میں “النهایةفی تفسیر خمس ماہ آیة” ہے که جس کا ذکر صاحب کنز العرفان نے مکرر اپنی کتاب میں کیا اور اس سے مطالب بھی نقل کیے ہیں بهر حال قرآن سے تین مباحث ہمارے مدّ نظر ہیں ۔

۱- صدور قرآن کی بحث یعنی یه ثابت کرنا که قرآن خدا کی جانب سے ہے ۔

۲- عدم تحریف قرآن کی بحث ۔

۳- احکام و استنباط پر قرآن سے استناد و دلیل پیش کرنا ۔

۳۷

۱ - قرآن کی تعریف :

یهاں قران سے مراد یهی مقدس کتاب ہے جو آج ہمارے اختیار میں ہے اس کے الفاظ خدا کی جانب سے ہیں مشهور کی نظر میں اس کی نگارش جمع و ترتیب اور تدوین سبھی کام رسول خد(ص) کےزمانے میں اور آپ ہی کے حکم سے انجام پائے پھر یه کتاب مسلمانوں کے درمیاں ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو رهی.

قرآن خود اپنی تعریف میں کهتاہے :

( قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ ) (۱)

“حق و انصاف اور سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرنے والی ہے”

اور قرآن بھی اسی حقیقت پر مشتمل ہے جس حقیقت پر گذشته پیغمبروں کی شریعت تھی چنانچه قرآن اس سلسلے میں فرماتاہے :( شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاء وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ ) (۲) “ اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اور جس کی وحی پیغمبرنے تمہاری طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراہیم علیه السّلام موسٰی علیه السّلام اور عیسٰی علیه السّلام کو بھی کی ہے”

اسی با ت کو بطور جامع فرماتاہے :

( وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَـؤُلاء وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ ) (۳)

“ اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے”

____________________

۱ سوره ،احقاف ، آیه ،۳۰

۲ سوره شوری ، آیه ۱۳

۳ سوره نحل ، آیه ۸۹

۳۸

۳ - دین و شریعت کی شناخت میں قرآن کی مرجعیت:

ان مذکوره آیات کا خلاصه یه ہے که قرآن تمام آسمانی کتابوں کے مقاصد کی حقیقت پر مشتمل ہے یهی نهیں بلکه اس سے کهیں زیاده حقائق اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں اور اعتقاد وعمل سے مربوط ہر وه چیز جو راہ سعادت کو طے کرنے کے لئے ضروری ہے اس کتاب میں کامل طور پر بیان کئی گئی ہے اور اس کا یهی کامل و تمام ہونا اس بات کی بهتریں دلیل ہے که اس کی صحت و اعتبار کسی خاص زمانے سے مخصوص نهیں ہے دین و شریعتت کی شناخت میں قرآن کی مرجعیت پر مذکوره آیات کے علاوه متعدد روایات میں بھی تاکید آئی ہے ان میں سے بعض روایت ہم یهاں نقل کرتے ہیں.

امام صادق فرماتے ہیں :

مَا مِنْ أَمْرٍ يَخْتَلِفُ فِيهِ اثْنَانِ إِلَّا وَ لَهُ أَصْلٌ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَكِنْ لَا تَبْلُغُهُ عُقُولُ الرِّجَالِ(۱)

اور امام باقر سے نقل ہواہے : “إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَمْ يَدَعْ شَيْئاً يَحْتَاجُ إِلَيْهِ الْأُمَّةُ إِلَّا أَنْزَلَهُ فِي كِتَابِهِ وَ بَيَّنَهُ لِرَسُولِهِ ص وَ جَعَلَ لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ حَدّاً وَ جَعَلَ عَلَيْهِ دَلِيلًا يَدُلُّ عَلَيْهِ وَ جَعَلَ عَلَى مَنْ تَعَدَّى ذَلِكَ الْحَدَّ حَدّاً(۲)

رسول خد(ص) نے بھی ایک حدیث میں قرآن کی تعریف میں فرمایا:

وَ هُوَ الدَّلِيلُ يَدُلُّ عَلَى خَيْرِ سَبِيلٍ وَ هُوَ كِتَابٌ فِيهِ تَفْصِيلٌ وَ بَيَانٌ وَ تَحْصِيلٌ وَ هُوَ الْفَصْلُ لَيْسَ بِالْهَزْلِ وَ لَهُ ظَهْرٌ وَ بَطْنٌ فَظَاهِرُهُ حُكْمٌ وَ بَاطِنُهُ عِلْمٌ ظَاهِرُهُ أَنِيقٌ وَ بَاطِنُهُ عَمِيق(۳)

اسی طرح امام صادق سے روایت ہے که :

كُلُّ شَيْ‏ءٍ مَرْدُودٌ إِلَى الْكِتَابِ وَ السُّنَّةِ وَ كُلُّ حَدِيثٍ لَا يُوَافِقُ كِتَابَ اللَّهِ فَهُوَ زُخْرُفٌ(۴)

اب یه بات واضح ہوگئی که قرآن شناخت دین بالخصوص شریعت اور اسلام کے عملی احکام کی شناخت کا اساس ترین منبع ہے. اس خصوصیات کے پیش نظر اس کتاب آسمانی سے مربوط چند مباحث کو ذیل میں پیش کرتے ہیں .(مترجم)

____________________

۱ اصول کافی ، کتاب فضل العلم ، باب الرد الی الکتاب و السنه ، حدیث ۶

۲ اصول کافی ج۱، ص .۶۰

۳ .گذشته حواله ،حدیث ۲.

۴ اصول کافی ، کتاب فضل العلم ، باب الاخذ بالسنه و شواہد الکتاب ، حدیث ۳

۳۹

قرآن الله کا کلام ہے

"قرآن الله کا کلام ہے "یه بحث ایک کلامی بحث ہے جس میں شواہد و دلائل کی روشنی میں یه ثابت کیا جاتاہے که قرآن الله کا کلام ہے ۔ تمام مسلمانوں کا عقیده بھی یهی ہے وه قرآن کو الله کی وحی مانتے ہیں-(۱)

جو اس نے اپنے حبیب ، حضرت محمد مصطفی(ص) پر نازل کی ، وقت نزول پیغمبر(ص)کو یه یقین حاصل تھا که یه کلام الله کی جانب سے ہے اور نزول و دریافت کے بعد پیغمبر(ص)خدا بغیر کسی کم و کاست کے اسے لوگوں تک پهنچایا کرتے اور ان پر تلاوت کرتے تھے اس وقت سے آج تک قرآن میں کوئی تغیر و تبدل اور کوئی تحریف نهیں ہوئی ، آج جو کتاب ہمارےهاتھ میں ہے یه وهی حقیقی قرآن اور الله کا واقعی کلام ہے یهاں تک که بعض افراد کے عقیده کے مطابق آیات و سور کی ترتیب اور ان کا آغاز و اختتام سب اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب سے قرآن نازل ہوا اور یه قرآن وهی قرآن ہے جسے خدانے جبرئیل امین کے ذریعے پیغمبر امین پر بھیجا تھا۔(۲)

قرآن کے وحی الهی ہونے کا مطلب یه نهیں ہے قرآن صرف معنی و مفهوم میں وحی ہو بلکه اس کے تمام الفاظ بھی الله ہی کی جانب سے ہیں یهیں سے قرآن اور روایات کے درمیان فرق واضح ہوجاتاہے اس لئے که اکثر احادیث عینًا پیامبر و ائمه علیهم السلام کے کلمات نهیں ہیں بلکه اصحاب نے پیامبر سے جو کچھ سنا اسے اپنے الفاظ میں نقل معنی کیا ہے ائمه علیهم السلام نے تغیر عبارات و الفاظ کی اس شرط کے ساتھ اجازت دی که معنی و مفهوم حدیث باقی رهے-(۳)

فقهائے امامیه محدثین او راکثر اہل سنت احادیث میں نقل معنی کو جایز جانتے ہیں فقط اہل سنت کے بعض محدثین اسے جایز نهیں جانتے ۔

____________________

۱- (مترجم) مفتاح الکرامه ، ج ۲ ، ص ۳۹۰ .)

۲ اصول الفقه ، ج۲ ،ص ۵۱

۳ الفوائد الحایریه ، وحید بهبهانی ، ص۲۸۴

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152