اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط0%

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط مؤلف:
زمرہ جات: اصول فقہ مقارن
صفحے: 152

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

مؤلف: آیت الله العظمی ناصر مکارم شیرازی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 152
مشاہدے: 82561
ڈاؤنلوڈ: 4175

تبصرے:

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 152 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82561 / ڈاؤنلوڈ: 4175
سائز سائز سائز
اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

مؤلف:
اردو

خبر واحد کے ذریعه قرآن سے عموم کو تخصیص دینے کی مثال یه ہے که قرآن فرماتا ہے ۔

"( يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ ) "

“اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے، ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے” ۔(۴)

اس آیت میں باپ کے انتقال پر تمام اولاد کےلئے ارث مشخص کی ا گئییا اور ضمنا یه بتایا گیا که بیٹے کا ارث بیٹی کے ارث سے دو برابر ہے لیکن اس حکم پر بعض روایات کی وجه سے تخصیص لگائی گئی کیونکه جیسا که بیٹا باپ کاقاتل ہو تو اسے ارث نهیں ملے گا ۔

“ "القاتل لایرث ممن قتله ”"(۵)

دلیل مطلق و مقید :

مطلق اس لفظ کو کهتے ہیں که جس میں کو ئی قید و شرط نه ہواور اپنے تمام افراد کو شامل ہو مثلا جس وقت کها جائے۔ “"احلّ الله البیع ”" اس میں معاملات کی تمام قسمیں شامل ہوجائیں گی ۔

مقید اس لفظ کو کهتے ہیں جس میں لفظ قید کے ساتھ ذکر ہو جیسے “"نهی النبی عن بیع الغرر ”"یعنی پیغمبر نے مجهول اور مبهم معاملات سے منع کیا ہے ۔ محققین کے نزدیک مشهور یهی ہے که لفظ مطلق اس صورت میں تمام افراد کو شامل ہوگا که اس کے مقدمات حکمت اسمیں جمع ہوں .یعنی

اولا ً: متکلم مقام بیان اور تمام مقصود بیان کرے ۔

ثانیا: کوئی قید نه لگائی گئی ہو ۔

ثالثا: لفظ مطلق سے خاص افراد کا تبادر نه ہو ۔

رابعا : پڑھنے والے والا کی اپنی نظر میں اس لفظ کا قدر متیقن نظرمیں نه رکھے ۔

اس صورت میں مطلق تمام افراد کو شامل ہوگا اور بغیر کسی دلیل کے جو تقید پر دلالت کرے اطلاق سے صرف نظر نهیں کیا جاسکتا حدیث کے زریعے ذریعے قرآنی اطلاقات کو قید لگانے کاا مکان قطعی ہے کیونکه قرآن کے کئی احکام فقط کلی صورت میں ذکر کئے ہیں اور اس کے مشخصات کو روایات میں بیان کیا گیا ہے عبادات کے سلسله میں قرآن میں کلی طور پر نماز روزه اور حج وغیره کا ذکر کیا ہے اسی طرح معاملات میں کلی طور پر بیع کی حلیت، ربا کی حرمت اور دوسرے معاملات کا ذکر کیا ہے ان تمام موارد میں ان احکام کی کیفیت ،شرائط، اجزاء اور موانع کو روایات میں مشخص کیا جاتاہے اس کے نتیجه میں قرآن کے اطلاقات پرقید لگتی ہے ۔

____________________

۴ نساء ، ۱۱ .---۵ .دعائم الاسلام ،ج۲ ص۳۸۶ ،ح۱۳۷۵ ، مستدرک الوسایل ،ج۱۷ ،ص ۱۴۶ ، ح۲۰۹۹۸

۸۱

دلیل حاکم و محکوم :

دلیل حاکم یه ہے که دلیل محکوم کو نظر میں رکھتی ہے اور دلیل محکوم کے موضوع کو وسعت دیتی یا قید لگاتی ہے۔ دلیل حاکم اگرچه ظاہرا دلیل محکوم کے موضوع پر نظر رکھتی ہے لیکن در واقع موضوع کو وسعت دیے کر یا وسعت کو تنگ کرکے حکم کی نفی یا اثبات کرتی ہے ان مثالوں کی جانب توجه کیجئے :

قرآن نے ربا کو حرام کرتے ہو ئے کها :" :( وَحَرَّمَ الرِّبَا ) "(۱) اب اگر کسی روایت میں آئے“ "لاربا بین الوالد والولد(۲) " یه روایت دلیل حاکم شمار ہوگی اور آیت دلیل محکوم کیونکه دلیل محکوم کیلئے موضوع (ربا) کو که دلیل حاکم (روایت ) کے ذریعه محدود کیا گیا اگر دلیل حاکم بظاہر موضوع ربا کو نفی کررهی ہے لیکن اس سے مراد یه ہے یهاں حرمت ربا کو اٹھالیا گیا اس لئے که حقیقت میں حکم کو قید تو لگا یا گیا لیکن نفی ربا کو اس مورد میں منحصر کیا که جهاں طرفین پدر اور فرزند نه ہو ں ۔

دوسرا دوسری مثال : قرآن نے وضو کو نماز کیلئے شرط قرار دیا اور کها :

"( إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ ) "(۳)

“جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھوؤ ”

. اب اگر کوئی روایت ملے که جس میں کهاجائے :

الطواف بالبیت صلاة ”.(۴)

یهاں پر دلیل حاکم کے ذریعے دلیل محکوم کے موضع (صلاة ) کو وسعت دی گئی اور طواف کعبه کو مصادیق نماز میں شمار کیا گیا لیکن حقیقت یه ہے که شرط طهارت کے حکم وضعی کو غیر نماز کےلئے ثابت کیا گیا دلیل حکومت دلیل کا ملاک یه ہے اگر دلیل محکوم نه ہو تو دلیل حاکم لغو ہوگی –(۵)

. واضح تر یه که جس وقت یه کها جارها ہے که “"الطواف بالبیت صلاة ”" اس کا مفهوم یه ہے که مخاطب نے نماز اور اس کے احکام کو سن رکھا ہے اور اس روایت کا مقصد یه ہے که جو احکام نماز کے ہیں وهی احکام طواف پر بھی جاری ہون ہوں گے نه یه که نماز حقیقت میں طواف کا مصداق ہو ۔

____________________

۱ بقره ، ۲۷۵

۲ وسایل الشیعه، ج۱۳ ، ابواب الربا ، باب ، ۷

۳ مائده ، ۶ .---۴ .عوالی اللئالی ،ج۲ ،ص۱۶۷ ،ح۳ ---۵ رسائل ،فرائد الاصول ، ص۴۳۲

۸۲

دلیل وارد و مورد :

دلیل وارد ، دلیل مورود کےلئے حقیقی مصداق تعین کرتی ہے یا اس کے مصداق کی نفی کرتی ہے جیسے حجیت خبر واحد کے دلائل جو برائت عقلی ( قبح عقاب بلابیان ) پر وارد ہے کیونکه حقیقت میں بیان حکم شرعی کیلئے ہے پس یهاں برائت کی کوئی جگه نهیں –(۶)

یعنی خبر واحد که کسی حکم پر دلالت کررهی ہے اور جس سے بیان الهیٰ حاصل ہو رها ہے ایسی دلیل کے ہوتے ہوئے مکلف قبح عقاب بلابیان سے تمسک نهیں کرسکتا ۔

دلیل مجمل و مبین :

خطاب مجمل یه ہے که خطاب اپنے مقصود پر واضح طور پر دلالت نه کرے اور متکلم کا مقصد اس سلسلے میں روشن نه ہو ۔

مبین اس خطاب کو کهتے ہیں جس کی دلالت واضح و روشن ہو اور نص اور ظاہر کلام سے شامل ہو به عنوان مثال آیت شریفه میں آیا ہے :

( وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُواْ أَيْدِيَهُمَا )

چور مرد اور چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ۔(۷)

لیکن اس آیت میں یه مشخص نهیں ہے که هاتھ کو اس کے کس حصه سے کا ٹاجائے کیونکه انگلیوں کے پورسے لیے کر کاندھے تک کئی جوڑ ہیں اور ان میں سے کسی بھی مفصل کو جدا کرنے سے قطع ید صادق آتا ہے پس یه کلام مجمل ہے یعنی اپنے مقصود کو واضح طور سے بیان نهیں کررها ہے اور قرآن میں کسی اورمقام پر قطع ید کے مصادیق بیان نهیں کئے گئے پس اس آیت کی توضیح و تفسیر و تبین کےلئے روایات کی جانب مراجعه کرنا ہوگا تا که قطع ید کی حد معین ہوجائے پهلی دلیل کو مجمل اور دوسری دلیل کو مبین کهتے ہیں ۔

____________________

۶ رسائل ، فرائد الاصول ، ص۴۳۲

۷ مائده ، ۳۸

۸۳

مفهوم و منطوق :

وه معنا جو بطو ر مستقیم کسی لفظ سے سمجھ میں آئیں اسے منطوق کها جاتاہے اور وه معنا جو بطور مستقیم لفظ سے نه سمجھے جائیں بلکه منطوق کالازمه ہوں اور اس سے اشاره استفاده کیاجائے اسے اصطلاحاً مفهوم کهتے ہیں مثلا جب بھی یه کها جائے که عورت اگر مرد کو جنسی حوالے سے راضی کرے تو نفقه کی حقدار ہے اس کا مفهوم یه ہے اگر عورت نافرمان ہو تو نفقه کا حق نهیں رکھتی ۔

اقسام مفهوم :

مفهوم کی دو قسمیں ہیں ۔

اگر حکم مفهوم و منطوق میں ایک دوسرے کے موافق ہوں ہون تو اسے مفهوم موافق کهاجاتا ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں ،کبھی لفظ مفهوم بر پر اولویت کے ذریعے دلالت کرے تو اسے مفهوم اولویت کهتے ہیں جیسے قرآن میں آیا ہے:

"( فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ ) "(۱)

اس آیهء کریمه میں ماں باپ کو برابھلا کهنا حرام قرار دیا گیاہے کیونکه جب آیت کا منطوق یه ہے که ماں باپ سے ایسی بات نه کرنا جو ان کی ناراضگی کا سبب ہو تو اس کا مفهوم یه ہے که ان کو برابھلا کهنا او رانهیں ر ان سے گالی گلوج کرنا او رانهیں مارنا پیٹنا به درجه ء اولیٰ حرام ہوگا ۔

اور کبھی منطوق و مفهوم بطور مساوی ایک دوسرے پر دلالت کرتے ہیں جیسے قیاس منصوص العله-(۲) کے موارد جیسے یه کها جائے :

“"لاتشرب الخمر لانه مسکر

" انگور کی شراب مت پیو که اس سے نشه چڑھتا ہے ، اس کا مفهوم یه ہے که جو شراب مستی آور ہو حرام ہے

اگر مفهوم کا حکم منطوق کے حکم کے مخالف ہو تو اس مفهوم کو مفهوم مخالف کهتے ہیں اور مفهوم مخالف کی جمله چھ قسمیں ہیں ۔

____________________

۱ اسراء ، ۲۳

۲ .اللباب فی اصول الفقه ، ص ۱۶۰/۱۵۹

۸۴

۱- مفهوم شرط جسیے بیوی کے نفقه کی مثال جو اوپر بیان ہوچکی ۔

۲- مفهوم وصف ۔

۳- مفهوم غایت ۔

۴- مفهوم حصر ۔

۵- مفهوم عد د ۔

۶- مفهوم لقب ۔

حجیت مفاہیم کی بحث د رحقیقت میں وجود مفهوم کی بحث ہے یعنی بحث اس میں ہے که کیا شرط مفهوم رکھتا ہے که یا نهیں تا که اس سے حکم شرعی کو استنباط کیا جاسکے-(۳) یا مفهوم نهیں رکھتا

مفهوم موافق کی حجیت میں کوئی تردید نهیں ، انواع قیاس کی بحث میں اس بات کی توضیح آئے گی لیکن مفهوم مخالف اور اس کی تمام اقسام کے سلسلے میں مفصل مباحث ہیں اور ان میں سے بعض اقسام کے حجت ہونے یا نه ہونے پر دلائل پیش کئے گئے ہیں که جسے اصول کی مفصل کتابوں میں مطالعه کیا جاسکتاہے ۔(۴)

ناسخ و منسوخ :

نسخ یعنی گذشت زمانے کے ساتھ حکم کا اٹھا لینا اسلام میں وقوع نسخ پر تمام مسلمانوں کا تفاق ہے سوره بقرۂ میں صریحا حکم قبله کے نسخ ہونے اور اس کا رخ بیت المقدس سے کعبه کی جانب موڑدیے جانے کے خبردی گئی ہے ، قرآن کی دیگر آیات میں بھی وقع نسخ کی تائید ملتی ہے جیسے یه آیت ،(۵)

"( مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ) "

“ ہم جب بھی کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا دلوں سے محو کردیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس کی جیسی آیت ضرور لے آتے ہیں ”۔

____________________

۳ .انوار الاصول ، ج۲ فص ۲۰

۴ کفایة الاصول، ج۱ ،ص۳۰۰ ، انوار الاصول ،ج۲

۵ .بقره ، ۱۴۲.

۸۵

قرآن میں قرآن کے ذریعه کتنے موارد نسخ کے موارد ہے اسکے سلسلے میں اختلاف ہے بعض فقهاء ومفسرین نے اس کا دائره اتنا وسیع کردیا که تمام تقیید و تخصیص کے موارد کو نسخ قرار دیا ہے اور کسی نے اتنا محدود کردیا که فقط آیهء نجویٰ کے –(۶) ایک مورد کو مصداق نسخ قرآن به قرآن شمار کیا ہے –(۷) ۔

خبر واحد کے ذریعے نسخ کرنا ممکن نهیں :

اکثر علمائے اسلام کانظریه خبر متواتر کے ذریعے نسخ کرنا جائز ہے شافعی علماء او راکثر علمائے اہل ظاہر اسے جائز نهیں مانتے-۸ اور خبر واحد کے ذریعے حکم قرآن کو نسخ کرنا شیعه اور اہل سنت دونوں کے نزدیک ممنوع ہے. کیونکه نسخ ایک اہم او رنادر مسئله ہے اگر نسخ متحقق ہو تو لازم کے ہےکه یه نسخ تواتر اور قرائن قطعیه کے ساتھ ہو بر خلاف تخصیص و تقید کے بر خلاف که ایک امر رائج ہے فقط ایک گروه ہے جس نے ایک صورت کو مستثنیٰ کی ہے اور کها ہے که خبر واحد کے ذریعے حکم قرآن کا نسخ کرنا صرف حیات پیغمبر(ص)میں جائز ہے-(۹) ۔

علامه حلی S نے منتهی میں کها ہے که :دلیل قطعی ( چاہے وه قرآن ہو یا سنت متواتر ) کو خبر واحد کے ذریعے نسخ کرنا جائز نهیں ہےکیونکه دلیل قطعی خبر واحد سے اقوی ہے پس خبر واحد اور دلیل قطعی کے تعارض کی صورت میں دلیل قطعی پر عمل کرنامشخص ہے ۔(۱۰)

حدیث کے ذریعه قرآن کی تخصیص و تقیید کا امکان :

اصولاً قرآن حامل کلیات مسائل وذریعه احکام کے کلی مسائل کا حامل ہےاس لئے جزئیات و شرائط شرائط، قیود و احکام کےلئے رسول(ص)خدا کی جانب سے بیان کرده تفسیر کی جانب رجوع کرنا لازمی ہے مثلا نماز کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے وه کچھ اس طرح ہے که :

"( وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ ) -(۱۱) "( وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ ) "(۱۲) ( حَافِظُواْ عَلَى الصَّلَوَاتِ ) "(۱۳)

___________________

۶ .مجادله ، ۱۲/۱۳ .----۷ البیان ، آیة الله خویی، ص ۴۰۳/۳۰۶ .----۸ الاحکام ، فی الاصول الاحکام ،ج۲،ص۱۳۸ .--۹ روضة الناظر ابن قدامه ،ج۱ ،ص۲۲۸

۱۰ منتهی المطلب ،ج۲ ص۲۲۸ .---۱۱ .بقره ، ۴۳

۱۲ بقره ، ۴۵

۱۳ بقره ، ۲۳۸

۸۶

لیکن اس نماز کے انجام دینے کی کیفیت اور اس کے شرائط اس کے اجزاء و موانع اور مستحبات و مکروهات اسی طرح مقدمات او رهزار فروع دیگر که جیسے آیات کے ذریعے حاصل نهیں کیا جاسکتا اگرچه بعض جزئیات کا ذکر ملتاہے جیسے ۔

"( إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ ) "

“جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوںکو دھوؤ اور اپنے سر اور گٹّے تک پیروں کا مسح کرو –(۱۴) ۔

اسی طرح اور بھی آیات که جس میں بعض جزئیات نماز کا ذکر ملتاہے لیکن اس کل کے باوجود وضو اور نماز کے کئی جزئی مسائل ہیں که جسے صرف روایات کی مدد کی روسے ہی حل کیا جاسکتاہے ۔

اسی بنیاد پر یه بحث پیش کی جاتی ہے که کیا خبر واحد کے ذریعه قرآن کے عموم واطلاق و تخصیص یا تقیید لگائی جاسکتی ہے ۔ اگثر فقهائے اسلام نے خبر واحد کے ذریعه تخصیص و تقیید کو ممکن جاناہے صرف اہل سنت کے ایک مختصر گروه نے اسے ممنوع قرار دیاہے ، قاضی ابوبکر باقلانی نے اس مسئله میں توقف کیا اور بعض تفصیل کے قائل ہیں جن میں عیسی ابن ابات نے کها: اگر قرآن کا حکم عام دلیل قطعی ( یعنی قرآن خبر متواتر اور دلیل عقلی قطعی وغیره ) کےذریعه تخصیص پاچکا ہو تو ایسے حکم کو خبر واحد کے ذریعے تخصیص دینا جائز ہے و رنه جائر جائز نهیں ہے،-(۱۵) که خبر واحد کے ذریعه تخصیص و تقید قرآن کے جواز کے بارے میں کها جاسکتاہے که :

بعض آیات میں پیغمبر (ص)کو مبین قرآن م سےتعارف کرایا گیا ہے جیساکه ارشاد ہے :

"( وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ) "

“ آپ کی طرف بھی ذکرکو(قرآن)نازل کیا ہے”-(۱۶)

___________________

۱۴ مائده ، ۶

۱۵ الاحکام ، فی اصول الاحکام ،ج۱ ،ص۵۲۵

۱۶ نحل ، ۴۴

۸۷

یه آیات قرآنی کی تبین و تفسیر میں سخن پیغمبر(ص)کی حجیت پر دلیل ہے چاہے سخن پیغمبر خبر متوا تر کی صورت میں ہو با خبر واحد کی صورت میں چاہے آپ کیا سخن قرآن کے متشابهات قرآن کی تفسیر ہو یا ظواہر قرآن کی تفسیر یں، ہر صورت میں آپ کا قول حجت ہے آپ کی جانب سے لگائی گئی تخصیص و تقیید بھی ایک طرح کی تبیین و تفسیر ہے ۔. اہل بیت کا بیان اور آپ حضرات تفسیر و تبیین پیغمبر سے ملحق او رمعتبر ہیںے ۔ اس الحاق و اعتبار کی دلیل حدیث ثقلین اور دیگر احادیث ہیں اس کے علاوه خود اہل بیت علیهم السلام نے صریحاً کها ہے که ہم جوکچھ بھی کهتے ہیں پیغمبر کی جانب سے کهتے ہیں-(۱۷) اصحاب پیغمبر کی سیرت اور سیرۂمسلمین اس لئے حجت ہے که وه احکام کی جزئیات اور تفصیلات کو ان موثق افراد سے لیتے تھے که جسے پیغمبر سے نقل کیا گیا ہو یهاں پر دو سوال اٹھتے ہیں ۔

۱- قرآن حجت قطعی ہے اور بدون تردید خدا کی جانب سے نازل ہوا ہے ۔. لیکن خبرو احد تو حجت قطعی ہے اور دلیل قطعی کو غیر قطعی دلیل کے ذریعے مقاائسه کرنا عقلاً جائز نهیں ہے اسی لئے خبر واحد کی وجه سے قرآن کے اطلاقات و عمومات سے هاتھ اٹھا لینا صحیح نهیں ہے ۔

جواب :

اس سوال کا جواب یه ہے که قرآن صدور کے لحاظ سے قطعی ہے لیکن دلالت کے لحاظ سے اس کے عمومات و اطلاقات قطعی نهیں ہیں او راس کی حجیت صرف اس وقت ہے جب حجیت ظواہر کے خلاف کوئی قرینه موجود نه ہو ۔

۲- یه بات پهلے گذرچکی که ( عرض حدیث بر کتاب )والی روایات اقتضا کرتی ہیں جوکچھ قرآن کے خلاف ہو اسے دور هٹادیاجائے پس اگر خبر واحد عموم قرآن کو تخصیص دیتی ہے یه تخصیص قرآن کے خلاف ہے پس ایسی خبرواحد کو چھوڑدیاجانا چاہیے ۔

جواب:

یه ہے که عرف عقلامیں دلیل خاص کو ، دلیل عام کےلئے مخالف و معارض نهیں شمار کیا جاتا بلکه ایسی دلیل کو مبین قرآن اور قرینه شمار کیاجاتاہے اسی لئے جهاں کهیں بھی دو دلیلوں کے در میان عموم و خصوص کی نسبت ہو وهاں پر باب تعارض کے قواعد کو اجرا نهیں کیا جاتا کیونکه ان دلائل کو ایک دوسرے کا معارض شمار نهیں کیا جاتا ۔

____________________

۱۷ کافی ،ج۱ ،ص۵۳

۸۸

اجماع :

اجماع استنباط احکام کی تیسری دلیل ہے یه دلیل اہل سنت کے نزدیک بهت زیاده اہمیت کی حامل ہے ان کی نظر میں خلافت کی مشروعیت کا تعلق اجماع کی مشروعیت پر ہے اس سے پهلے "ترتیب منابع استباط " کی بحث میں ابن تیمیه سے نقل کیا جاچکا ہے که وه دلیل جو مجتهد کو دیگر تمام ادله سے بے نیاز کرتی ہے یهاں تک که کتاب و سنت بھی اس دلیل کی وجه سے منسوخ کی جاسکتی ہیں یا ان کی تأویل کی جاسکتی ہے وه دلیل اجماع ہے ۔

ابن تیمیه کا کهنا ہے :

اہل سنت کے نزدیک اجماع کی اہمیت کی وجه ہی سے انهیں "اہل سنت و الجماعت " کها جاتا ہے –(۱)

لیکن مذهب اہل بیت علیهم السلام کے فقهاء اجماع کے سلسلے میں اہل سنت سے جدا کچھ او رنظریه رکھتے ہیں اہم ابتدا ء میں ا هل سنت کی دلیلوں کو مختصر طور سے بیان کرنے کے بعد اجماع کے سلسلے میں مکتب اہل بیت علیهم السلام کی انظر بیان کریں گے۔(مترجم)(۲)

اجماع اہل سنت کی نظر میں :

اہل سنت نے اجماع کی مختلف تعریفیں کی ہیں بعنوان مثال اجماع یعنی " امام امت اسلامیه کا کسی مسئله پر اتفاق" اہل حل وعقد کا اتفاق –(۳) یا رحلت پیغمبر (ص)کے بعد تمام مجتهدین کا اتفاق-(۴) یا رحلت پیغمبر (ص)کے بعد امت محمد(ص)کے ہم عصر مجتهد ین کا دینی امور میں کسی ایک امر پر اتفاق –(۵) یا اہل حرمین کا متفق ہونا-(۶) ۔

لیکن سوال یه ہے که آخر اجماع او رحکم الهیٰ میں یه کونسا ربط او رکیسا تلازم ہے ؟ کسی طرح بعض یا تمام افراد کا کسی حکم میں اتفاق نظر رکھنا اسے حکم الهیٰ ثابت کرتا ہے ؟ کتاب و سنت کے ہوتے ہوئے اسے مستقل منبع استنباط شمار کرنا بلکه اجماع کو قرآن وسنت سے بالاتر سمجھنا کهاں تک صحیح ہے ؟ کیا یه ممکن ہے ؟ اور ایسے اجماع کی حجیت پر کیا دلیل ہے؟ اہل سنت نے اجماع کو ایک مستقل دلیل کے عنوان سے اس کی حجیت پر مختلف دلیلیں پیش کی ہیں ان دلائل کا خلاصه یه ہے که قرآن حدیث دونوں سے اجماع کی حجیت ثابت ہے ۔

____________________

۱ مجموع فتاویٰ ، ابن تیمیه ،ج۲ ،ص ۲۴۶

۲ (مترجم)--- ۳ المستصفی ، ج۱ ،ص ۱۷۳ ۳ الاحکام ،ج۱ ،ص۲۵۴ .---۴ تفسیر فخررازی، ج ۹ ، ص ۱۵۰

۵ المهذب ، فی اصول الفقه ، المقارن ،ج۲،ص ۹۰۰ .---۶ انوار الاصول ، ج ۲ ، ص ۳۹۳

۸۹

۱۰- اجماع :

اجماع کی تعریف :

لغت میں اجماع عزم و اراده محکم کو کهتے ہیں جیسا که آیه( قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ والأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللّهُ فَقُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَ ) (۱) اور آیه( ذَلِكَ مِنْ أَنبَاء الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُواْ أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ ) (۲) میں آیاہے اور کبھی اجماع اتفاق رای کے معنی میں آیا ہے جسے اس آیه شریفه میں آیاہے که:( فَلَمَّا ذَهَبُواْ بِهِ وَأَجْمَعُواْ أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ وَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَـذَا وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ ) “یہ طے کرلیا کہ انہیں اندھے کنویں میں ڈال دیں”(۳) لیکن اجماع کے اصطلاحی معنی میں ایسا اختلاف پیدا ہوگیا که اس کی جامع تعریف پیش کرنا ممکن نهیں ہے سوائے اس کے که ہم کهیں اجماع یعنی ایک خاص قسم کا اتفاق جو حکم شرعی کے لئے دلیل بن سکے لیکن یه کن افراد کا اتفاق اجماع میں خصوصیت پیدا کرتاہے جو حکم شرعی کے لئے دلیل بن سکے اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں

۱- سارے امت اسلامی کا تفاق

۲- زمانے میں اس زمانے کے مجتهدین کا اتفاق

۳- اہل مکه اور مدینه کا اتفاق

۴- خلفای راشدین کا اتفاق

۵- اہل مدینه کا اتفاق

۶- شیخیں یعنی ابوبکر، عمر کا اتفاق

۷- اس گروه کا اتفاق جس میں کوئی ایک معصوم ہو

ان اقوال کے پیش نظر اجماع کی حجیت کے اقوال بھی مختلف ہیں اور اس اختلاف کا واضح اثر شیعه فقهاء کی پیش کرده تعریف سے آشکار ہے

____________________

۱- ۱ سوره یونس ، آیه ۷۱.

۲ سوره یوسف ، آیه ۱۰۲

۳ سوره ،یوسف، آِیه ۱۵

۹۰

صاحب معالم R اجماع کی تعریف میں کهتے ہیں :

الاجماع فی الاصطلاح اتفاق خاص وهو اتفاق من یعتبر قوله من الامه

علامه حلی R تهذیب الاصول میں لکھتے ہیں :

الاجمعاع و هو اتفاق اهل الحل و العقد من امة محمد

صاحب قوانین R کا کهنا ہے :

الاجماع هو اجماع جماعت یکشف اتفاقهم عن رای المعصوم

اور شهید صدر فرماتے ہیں :

الاجماع اتفاق عدد کبیر من اهل النظر والتقوی فی الحکم بدرجه توجب احراز الحکم الشرعی

آخری دو تعریفوں کی خصوصیات ہماری مدنظر ہے جو آنے والی مباحث کے دوران آشکار ہوں گی .(مترجم)

حجیت اجما ع پر قرآنی دلیل :(۱) مترجم)

اہل سنت کے نزدیک قرآن قرآں کی کئی آیتیں اجماع کی حجیت پر دلالت کرتی ہیں جیسے سوره نساء میں خداوند عالم ارشاد فرماتاہے ۔

"( وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًا ) "

“اور جو شخص بھی ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول سے اختلاف کرے گا اور مومنین کے راستہ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے گا اسے ہم ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ پھر گیا ہے اور جہّنم میں جھونک دیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے”-(۲) ۔

اس آیت سے وه استدلال کرتے ہیں جس طرح مخالفت پیغمبر (ص)عذاب کا سبب ہے اسی طرح سبیل مؤمنین کو چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلنا بھی عذاب کا باعث بنے گا اگر ایسا نهیں ہے تو پیغمبر کی مخالفت کے ساتھ مخالفت مؤمنین کاذکر بے مقصد و بے نتیجه ہوگا ۔

____________________

۱ .( مترجم)

۲ نساء ، ۱۱۵

۹۱

ان کی دوسری قرآنی دلیل اسی سوره کی آیت نمبر ۵۹ میں ہے جس میں ارشاد رب العزت ہے که :

"( فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ ) "

“پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو ”-(۳)

. اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کهتے ہیں :

اس آیت کا مفهوم یه ہے که جب مسلمانوں میں اتفاق نظر ہو اور کسی قسم کا نزاع ان کے درمیان نه ہو تو خدا و ر رسول کی جانب رجوع کرنا لازم نهیں پس اس کا مطلب یه ہے ان موارد میں اجماع ہی حجت ہے اور یهی حجیت اجماع کے معنیٰ ہیں-(۴) ۔

.۱۱- حجیت اجماع پرقرآن سے دلیل :

حجیت اجماع پر جودلیلیں پیش کی گئی ان پر قرآن کی سوره نساء کی ایک سوچوده آیتیں ہیں جس کے بارے میں : ابوحامد غزالی نے کها ہے که یهاں مؤمین کی متعابعت سے مراد تمام امور میں بطور مطلق اطاعت واجب ہے بلکه مؤمنین کی متابعت پیامبر کی متعابعت کاہی ادامه ہے اور اس وجه سے واجب ہے

دوسری دلیل : سوره بقره کی ایک سوتنتالیس ویں آیت ہے :

( وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ )(۵) “اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی اُمت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو”

____________________

۳ نساء ، ۵۹ .کشاف ، ج۱ ،ص۵۶۵؛ احکام القرآن حصاص ،ج۲ ،ص ۳۹۶

۴ الاحکام فی اصول الاحکام ،ج۱ ،ص ۱۹۸

۵-. سوره بقره ، آیه ، نمبر ۱۴۳

۹۲

صورت استدلال :

امت وسط یعنی وه امت جو اہل خیر وعدالت ہے اور اسی امت سے حق کے علاوه کچھ امید نهیں کی جاسکتی اس لئے ان کا اجماع قطعا حجت ہوگا

شافعی کی جانب نسبت دی گئی ہے که اس نے بھی اس آیت سے اجماع پر استدلال کیا ہے

استدلال کا جواب :

واضح ہے که اہل عدالت اور اہل خیر سے بھی خطا سرزد ہوسکتی ہے چاہے وه تنها ہوں یا باہم اتفاق رکھتے ہوں.

تیسری آیت سوره آل عمران کی ایک سودسویں آیت ہے:( كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ ) (۲) “تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو”

صورت استدلال :

امت اسلامی بهترین امت شمار ہوتی ہے اور یه اس بات کی دلیل ہے که یه امت خطا سے دور ہے

جواب :

امت اسلامی کی برتری امربالمعروف و نهی از منکر کے فریضه کو انجام دینے سے ہے اس سے اجماع کی عصمت ثابت نهیں ہوتی یه آیات مهم ترین آیات تھیں جو ممکن ہے بعض کے نزدیک اجماع کی حجیت کے لئے مستقل منبع ہو لیکن جیساکه اہل سنت بھی اعتراف کرتے ہیں ان میں سے کوئی آیت اپنے مدعی کے اثبات کے لئے کافی نهیں ہے.(مترجم)

____________________

۲ سوره آل عمران ، آیه ۱۱۰

۹۳

حجیت اجماع پر روایی دلیل :

اہل سنت سنن ابن ابی ماجه کی ایک مشهور و معروف روایت کو حجیت اجماع کے اثبات میں پیش کرتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم (ص)کا ارشادهے ۔

ان امتی لاتجتمع علی ضلالة ”.(۱)

“بے شک میری امت گمراہی پر جمع نهیں ہوسکتی ” ۔

ایک اور نقل کے حساب سے آیا ہے که آپ نے فرمایا:

سئلت الله ان لایجمع امتی علی ضلالة فاعطانیها ”۔(۲)

“میں نے خدا سے دعا کی که میری امت گمراہی پر جمع نه ہو خدانے میری اس دعا کو مستجاب قرار دیا”۔

ان دو احادیث سے انهوں نے حجیت اجماع پر استدلال کیا ہے ۔

مخالفین اجماع کا جواب :

لیکن مخالفین اجماع نے اس سے مستقل دلیل ماننے سے انکار کرتے ہوئے مذکوره تمام دلائل کو مورد تنقید و قرار دیا ہے اور کها ہے که پهلی آیهء کریمه میں مخالفت پیغمبر اور سبیل مؤمنین سے انحراف کی جانب اشاره دو چیزکی جانب اشاره نهیں ہے بلکه راہ مؤمنین سے انحراف اسی مخالفت پیغمبر کی تاکید ہے پس مؤمنین کا راسته کوئی مستقل چیز نهیں ہے کیونکه مؤمنین اسی راسته کو چاہیئے تھےهے جسے پیغمبر (ص)نے بتایا تھا ( یهی جواب غزالی کی کتاب المستصفی میں بھی ملتاہے)-(۳)

اس کے علاوه راہ مؤمنین سے هٹ کر کسی اور راستے پر چلنے سے مراد اسلام و امکاناس کے ارکان کا انکار ہے پس اس آیت کا ربط فقه کے ضروری مسائل سے بالکل بھی نهیں ہے ۔

اگر فرض کرلیا جائے که یه تمام دلائل صحیح ہیں تب بھی قرآن کی رو سے اجماع صرف اس صورت میں حجت ہے که تمام مسلمان بغیر کسی استثناء کے ایک راسته کا انتخاب کریں اور یه چیزوه نهیں جو فقیه کی مشکل حل کرسکے ۔

____________________

۱ وهی مدرک ( سنن ابن ماجه ) ج۲ ،ص ۱۳۰۳

۲ ہمان مدرک ،

۳ المستصفی ،ص۱۳۸

۹۴

رهی بات دوسری آیت کی تو اس آیت میں دستور دیا جارها که اختلاف میں فیصله کو الله اور پیغمبر کے حوالے کردو اور ان سے انصاف چاہو ظاہر ہے که اس مطلب کا فقهی مسائل سے کوئی ربط نهیں ہے ۔

اس کے علاوه اگر اس آیت کی دلالت کو حجیت اجماع کےلئے مان بھی لیاجائے تب بھی یه آیت اس اجماع کا ذکر کررهی ہے جس میں تمام مؤمنین شریک ہوں .لیکن روایت کے سلسلے میں بعض محدثین نے اعتراض کرتے ہوئے کها که اس روایت کی سنت ضعیف ہے اس مطلب کی تفصیل شرح (نووی) جو که صحیح مسلم کی شرح ہے ملے گی-(۱) ۔

روایت کی سند کے علاوه اس کی دلالت میں بھی اشکال ہے کیونکه ضلالت وگمراہی غالبا اصول دین میں انحراف کےلئے استعمال ہوتے ہیں لهذا یه تعبیر اس فقیه کےلئے جو کسی فقهی مسئاله مسئله میں خطاب کاشکار ہے استعمال نهیں ہوتی یه کوئی نهیں کهتا که وه فقیه ضلالت کے راستے پر گامزن ہے ۔

اگر سند ودلالت کے اشکالات سے صرف نظر کریں تب بھی حجیت اجماع و هاں ثابت ہے که جهاں ساری امت کسی امر پر اتفاق نظر رکھتی ہو اور یه مطلب اجماع کی مذکوره تعریفات کے خلاف ہےجیسے کها گیا که اجماع سے مراد اہل مدینه کا یا اہل حل وعقد کاا تفاق ہے ۔

البته علمائے امامیه کهتے ہیں که اگر کسی مسئله پر ساری امت کا اتفاق ہو تو یه اجماع حجت ہے کیونکه وه معصوم کو کا امت کا جزء مانتے ہیں اور امت کی برترین فرد مانتے ہیں یهاں تک که علمائے امامیه کے اجماع کو رائے معصوم کےلئے کاشف مانتے ہیں ۔

اجماع امامیه کی نظر میں :

مسلک امامیه کی نظر گذشته مطالب سے واضح ہوچکی ہے که ان کی نظر میں اجماع ، حکم شرعی کےلئے مستقل دلیل نهیں بن سکتی مگریه که اجماع رائے معصوم کی کاشف ہو یعنی رائے ونظر معصوم کو کشف کرتی ہو اس لئے که ۔

اولا : تمام فقهاء امامیه بالاتفاق خود کو ائمه علیهم السلام کے پیروکار جانتے ہیں اور کبھی بنا بغیردلیل کے بات نهیں کرتے پس اسکا مطلب یه ہے که وه ہر بات امام کی رائے کے مطابق کرتے ہیں پس فقهاء کا اجماع بھی رائے معصوم کا کاشف ہوگا ۔

ثانیا: فقهاء کے اجماع سے فقیه کو رائے معصوم کا یقین کی حدتک گمان پیدا ہوجاتا ہے کیونکه جب ایک فقیه کا فتویٰ دوسرے فقیه کےلئے حکم شرعی کا گمان پیدا کرتا ہے تو بھلا تمام فقیهوں کا فتویٰ کیسے یقین آور نه ہوگا ۔

____________________

۱ شرح صحیح مسلم ، نووی ، ج۱۳ ، ص ۶۷

۹۵

ثالثا: جهاں کسی حکم پر کوئی مدرک ( یعنی دلیل شرعی یا اصل ) ہمارے پاس نه ہو ایسے مقام پر علماء کا اجماع علماء اس بات کی دلیل ہے که ان کے پاس اس حکم کی کوئی معتبر دلیل ہے اور اس سے معلوم ہوتاہے که فقها نے اس حکم کو بلا واسطه یا ان وسائط سے جو ہم تک نهیں پهنچے امام معصوم علیهم السلام سے لیا ہے ۔یهاں تک بعض دانشمند سابقه فقهاء کے درمیان کسی مسئله کی شهرت کو اسی اجماع کے ذریعه حجت شمار کرتے ہیں اس بات کی طرف توجه ضروری ہے که اگر علمائے امامیه اس اجماع کو اجماع حدسی سے تعبیر کرتے ہیں اس کا مطلب یه نهیں ہے که یهاں حدس به معنای ظن وگمان ہو بلکه یهاں حدس سے مراد یه وه علم ویقین ہے جو حس اور ائمه علیهم السلام کے مشاہده سے حاصل نهیں ہوا بلکه علماء کے اجماع سے حدس یقینی پیدا ہوا ہے ۔

دلیل عقل :

استنباط کا چوتھا منبع اور چوتھی دلیل اجمالی طور پر سبھی کےلئے مورد اتفاق ہے دلیل عقل ہے اگر چه دلیل عقل کے بارے میں فقهائے اسلام کا موقف یکسان یکساں نهیں ۔ مترجم(۱)

توضیح مطلب :

اہل سنت کے درمیان استباط کے دو نمایاں شیوه پائے جاتے ہیں جسے اصحاب حدیث اور اصحاب رائے کے عنوان سے ایک دوسرے سے جدا کیا جاسکتاہے ۔

یه دو گروه ایک دوسرےکےشیوۂ اسنتباط اور روش ومسلک کو غلط جانتے ہیں ہر ایک دوسرے مسلک کو باطل کرتا اور ایک دوسرے کو سرزنش کرتا نظر آتا ہے ۔

گروه اول : اصحاب حدیث :

اصحاب حدیث کے نزدیک استنباط میں اصلی تکیه گاہ ادله نقلی ہیں –(۲) خاص طور سے حدیث ، سلف صالح کی سیرت اور قول صحابه ( البته سیرت وقول صحابه کو حدیث ہی کی جانب لوٹا یا جاتا ہے )

دوسرا گروه : اصحاب رائے :

اس گروه کا خیال ہے که فقهی نیاز مندیوں کےلئے احادیث کی مقدار کم ہے اور تما م مسائل کی جواب دهی کے لئے ناکافی ہے اس لئے کوئی چاره نهیں سوائے یه که ہم استنباط احکام میں کتاب و سنت کے علاوه دوسری دلیلوں پر بھی تکیه کریں ۔

____________________

۱ .( مترجم)

۲ تاویل مختلف الحدیث ، ص ۵۱

۹۶

کها جاتا ہے که ابو حنیفه کے نزدیک رسول خدا (ص)سے روایت شده احادیث میں صرف ۱۷ حدیثیں قابل اعتماد تھیں –(۳) اسی لئے ا ن کے نزدیک ادله احکام او رمنابع استنباط چار ہیں ۔

۱- کتاب

۲- سنت

۳- اجماع

ان تین منابع کے بعد چوتھی دلیل اور منبع قیاس ہے-(۴) اسی کو بعض نے قیاس و اجتهاد-(۵) تو کسی نے العقل و استصحاب سے تعبیر کیا ہے-(۶) ہماری نظر میں اہل سنت دلیل عقلی کو قیاس اور استحسان وغیره کا مترادف مانتے ہیں-(۷) ُ

اہل سنت نے اصول فقه میں عقلی مسائل کو تحلیلی او رمنظم طریقه سے پیش نهیں کیا جب که یه مباحث استنباط میں دخیل ہیں متاخرین شیعه نے جن عقلی مباحث کو اپنی اصول کی کتابوں میں منظم اور مرتب طریقه سے یپش کیا اور وسیع پیمانه پر ان کی چھان بین کی وهی مطالب مختصر اور پراکنده طور پر اہل سنت نے اپنی اصول کی کتابوں میں بیان کیئے ہے مثال کے طور پر وه بھی حسن و قبح افعال کا حسن اور قبح ہونا اصل اباحه وجوب مقدمه واجب اجتماع امر ونهی کا محال ہونا یا سقوط حرج از خلق سے حرج کا ساقط ہونا اور سقوط تکلیف از عاجز سے تکلیف کا ساقط ہونا عاجز وغیره ہے یا غافل و ناسی کا مکلف ہونا محال ہے اس قسم کے عقل مباحث عقل ان کی کتابوں میں پراکنده طور پر پائے جاتے ہیں ان کی کتابوں میں ہمیں یه عبارات ملتی ہیں:

۱-المعتزله یقولون بحسن الافعال و قبحها

۲-جامعة من المعتزله یقولون بان الافعال علی الاباحه

۳-مالایتم الواجب الابه هل یوصف بالوجوب

۴-یحتمل ان یکون الشئی واجبا و حراما

۵-استحالة تکلیف الغافل و الناسی

____________________

۳ تاریخ ابن خلدون ،ج۲ ، ص۲ ، ص ۷۹۶ ، فصل ششم علوم حدیث .---۴ فواتح الرحموت ، ج۲ ، ص ۲۴۶ ، المذهب فی اصول الفقه المقارن ، ج ۲ ، ص ۹۵۶

۵ المعتمد فی اصول الفقه ، بصری معتزلی ،ج ۲ ، ص ۱۸۹

۶ المتصفی ، ج ۱ ، ص ۲۱۷ .---۷ للددله العقلیه و علاقتها بالنفطیه

۹۷

دلیل عقلی فقهی منابع میں سے ایک منبع :

شیعوں کے نزدیک دلیل عقلی اہل سنت کی دلیل قیاس سے الگ ہے کیونکه قیاس دلیل عقلی تو ہے لیکن ظنی ہے اور شیعوں کے نزدیک دلیل عقلی فقط قطعی میں منحصر ہے دلیل عقلی کے تاریخچه سے پته چلتاہے که فقیه کے نزدیک یه دلیل لفظی یا اصول عملی سے بالکل الگ ہے بلکه فقهاء تو عقل کو ایک دلیل عام مانتے ہوئے اس سے کبھی مباحث الفاظ کے ضمن میں تو کبھی قیاس و استصحاب کے ضمن میں کام لیتے ہیں

شیخ مفید (رح)م۴۱۳ ھ اپنے مختصر اصولی رساله میں کتاب وسنت رسول(ص) و ائمه معصومیں علیهم السلام کو اصول احکام شمار کرتے ہیں اور عقل کو ان اصول تک پهنچنے کا راسته بتاتے ہیں

شیخ مفید (رح) کی بات سے یه سمجھ میں آتاہے که فقهی منابع صرف کتاب اور سنت رسول اور سنت ائمه معصومیں ہیں اور عقل کا شمار فقهی منابع میں نهیں ہوتا بلکه اس کی حیثیت صرف ان منابع کو کشف کرنے کی حدتک ہے

شیخ طوسی م۴۶۰ ھ عدۀ الاصول میں عقل کے بارے میں فرماتے ہیں که شکر منعم محسنات عقلی اور ظلم و کذب عقلی قباحتوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن عقل کا حکم شرعی کے لئے دلیل واقع ہونا یه بات ان کے کلام سے واضح نهیں ہوتی

ابن ادریس م۵۹۸ھ۵شاید وه پهلے فقیه امامی ہیں که جنهوں نے کامل صراحت کے ساتھ عقل کو کتب و سنت کی صف میں شمار کرتے ہوئے اسے منابع فقهی کا جز شمار کیا ہے لیکن انهوں نے سرائر کے مقدمه میں دلالت عقل اور اس کی حجیت کے دائره کے بارے میں کوئی بات نهیں کی

محقق حلیم۶۷۶ھ نے اپنی کتاب المعتبر میں دلیل عقلی کی دوقسمیں بیان کی ہے

ایک وه دلیل جو مستقلات عقلی سے مربوط ہے جیسے عدل کی اچھائی اور ظلم کی قباحت

دوسری دلیل نقل الفاظ و مفاہیم کے باب سے مربوط ہے البته ان کی تقسیم بندی بهت زیاده اہمیت کی حامل ہے

شهید اول (رح)م۷۸۶ھ نے بھی کتاب ذکری کے مقدمه میں محقق حلی کی ان دوقسموں کو نقل کرنے کے بعد مسئله ضد اور مقدمه واجب منفعت میں جاری اصل اباحه اور حرمت مضار کو پهلی قسم میں شمار کیا اور برائت اصلی و استصحاب کو دوسری قسم میں ،یهاں بھی ملاحظ کیا جاسکتاہے که دلیل عقلی کے مصادیق کی تشخیص میں اشتباہات ہوئے ان کی توضیح بعد میں آئے گی در کتاب صاحبمعالم(رح)۱ ۱۰۱۱ھ دلیل عقل کے بارے میں کوئی قابل توجه بات نهیں سنی گئی.

۹۸

فاضل تونی (رح)م۱۰۷۱ھ سب سے پهلے شخص ہیں که جنهوں نے تفصیل کے ساتھ دلیل عقل کی بحث کو چھیڑا اور اسے سات قسموں تک پهنچا یا انهوں نے مستقلات عقلیه اور مستقلات غیر عقلیه کو بطور کامل ایک دوسرے سے جدا کیا اور حکم شرعی میں عقل کی دلالت کو پهلی اور دوسری قسم میں اچھی طرح توضیح دی .اس طرح کها جاسکتاہے که ان کے بعد دلیل عقلی کی بحث کامل طور پر واضح ہوئی فاضل تونی (رح) اخباریوں کے عروج کے دور سے گذررهے تھے اور دیکھ رهے تھے که اخباریوں کی جناب سےعقل کے خلاف اور احکام شرعی میں عقل سے کام لئے جانے پر شدید اعتراضات ہورهے ہیں جس کی وجه دلیل عقلی کے بارے میں وه ابهامات ہیں جو شیعه دانشمندان کے بیان میں پائے جاتے ہیں اسی لئے فاضل تونی (رح) کی جانب سے الوافیه میں اعلی سطح پر بیان شده مباحث عقل کے لئے داد دینا چاہئیے کیونکه انهوں نےکافی حدتک بحث عقلی کے ابهامات کو بر طرف کیا

فاضل تونی (رح) کے بعد میرزقمی (رح)م۱۲۳۱ ھ نے قوانین الاصول میں اور صاحب حدائق نے اپنے مقدمه میں دلیل عقلی کوبیان تو کیا لیکن اس کے بارے میں دل پر بحث نهیں کی اورشیخ انصاری R و آخوند خراسانی(رح) نے بھی اپنی کتابوں میں کوئی نیاباب اس مسئله میں نهیں کھولا بلکه متقدمین کی روش پر مستقلات غیر عقلیه کے اکثر مباحث کو الفاظ کے باب میں داخل کردیا

شیخ محمد حسین اصفهانی (رح)م۱۲۵۰ھ نے الفصول الغرویه میں دلیل عقلی میں مستقل باب کھول کر اس پر سیر حاصل بحث کی ہے

سب سے بهترین کتاب که جس میں دلیل عقلی کی بحث کو بخوبی بیان کیاگیا وه مرحوم محمدرضا مظفر(رح) کی اصول مظفر ہے وه متقدمین کے آثار کے درمیان کتاب المحصول اثر سید محسن اعراجی کاظمی م۱۲۲۷ ھ میں بیان شده مباحث عقلی اور خود مرحوم مظفر(رح) کے شاگرد شیخ محمد تقی اصفهانی (رح) م۱۲۴۸ ھ نے جو مباحث معالم الدین کے حاشیه میں موسوم جو ہدایۀ المسترشدین میں پیش کئے ہیں انهیں بهتر اور لائق تحسین جانا ہے اصول مظفر کے بعد حلقات الاصول میں شهید صدر (رح)نے ادله عقلی کو بهترین انداز میں پیش کیا پھر بھی مستقلات عقلیه سے مربوط مباحث مرحوم مظفر کی کتاب میں زیاده روشن ہیں اور شهید صدر (رح) کا کمال مستقلات غیر عقلیه کے باب کے باب میں بے نظرهے

۹۹

دلیل عقلی کی تعریف :

دلیل عقلی کی دقیق تعریف بھی علم اصول کے تکامل کا نتیجه ہے البته دلیل عقلی کی ابھی کوئی مشهور جامع تعریف نهیں پیش کی گئی اسی لئے یهاں دلیل عقلی کی اہم ترین تعریف پر اجمالی طور پر نظر ڈالتے ہیں او ران کی خصوصیات میں وارد ہوئے بغیر فقط تعریف پر اکتفا کرتے ہیں.

قوانین الاصول میں میرزا ی قمی کی تعریف :

هو حکمی عقلی یوصل به الی الحکم الشرعی و ینتقل من العلم بالحکم العقلی الی العلم بالحکم الشرعی ”.

تعریف صاحب فصول :

کل حکم عقلی یمکن التوصل بصحیح النظر الی حکم شرعی

تعریف مرحوم مظفر :

کل حکم للعقل یوجب القطع بالحکم الشرعی او کل قضیة یتوصل بها الی العلم القطعی بالحکم الشرعی ”.

ان مذکوره تعریفوں میں آخری دو تعریفین ہماری توجه کا مرکز ہیں

عقل کے با ب میں تشیع کا مسلک تشیع د اور موقف با ب عقل :

ابتداء میں لازم ہے که فقهائے اہل بیت علیهم السلام کے ردمیان عقلی مباحث کا تاریخچه او راس کے سیر و تحول پر سرسری نگاہ ڈالی جائے پھر اس سلسلے میں شیعوں کی آخری تحقیقات کو پیش کیا جائے ۔

بعض متقدمین نے دلیل عقلی کی بحث کو پیش ہی نهیں کیا اور جنهوں نے پیش کیا ہے :

اولا : ان کی عبارات میں ابهام پایا جاتاہے اور یه مشخص نهیں ہو جاتا که آخر استنباط میں عقل کا مقام اور اس مقام کیا ہے کیونکه بعض متقدمین عقل کو قرآن وسنت کے سمجھنے کا ذریعه ارور بعض دیگر منابع ا ستنباط کی طرح اسے مستقل منبع استنباط قرار دیتے ہیں –(۱) مگر اس شرط کے ساتھ که عقل ،کتاب و سنت و اجماع کے طول میں ہو نه که عرض میں یعنی جب مذکوره تین دلیلیں مفقود ہوں تب دلیل عقل کی نوبت آتی ہے-(۲) ۔

____________________

۱ اوائل المقالات شیخ مفید ، ص۱۱، کنزالفوائد کراجکی ،ص ۱۸۶

۲ .سرائر ابن ادریس ، ص۲

۱۰۰