اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط0%

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط مؤلف:
زمرہ جات: اصول فقہ مقارن
صفحے: 152

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

مؤلف: آیت الله العظمی ناصر مکارم شیرازی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 152
مشاہدے: 82622
ڈاؤنلوڈ: 4175

تبصرے:

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 152 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82622 / ڈاؤنلوڈ: 4175
سائز سائز سائز
اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

مؤلف:
اردو

لیکن قرآن میں نقل معنی جایز نهیں ہیں پیغمبر خدا نے تمام آیتوں کو ویسے ہی بیان کیا جیسے وه نازل ہوئیں ، یهاں تک که وه آیتیں جس میں خدانے صرف پیغمبر کو خطاب کیا اور کلمه قل کے ذریعه رسول کو مورد خطاب قرار دیتے ہوئے اپنے پیغام کو پهنچایا او رکها “( قل هو الله احد ) ” اے رسول !آپ کهدیجئے الله ایک ہے یهاں پیغمبر خدا اگر چاہتے تو کلمه قل کو حذف کرکے خود پیغام کو لوگوں تک پهنچادیتے اور کهتے (هو الله احد ) الله ایک ہے ۔ لیکن پیغمبر جب لوگوں کے لئے آیات کی تلاوت کرتے تو جیسے آپ نے آیت کو دریافت کیا ویسے ہی بغیر کسی حذف و اضافه کے اسے پهنچادیتے اس لیئے که کسی کو یه حق حاصل نهیں ہے که قرآن سے کسی کلمه کو کم یا زیاد ه کرے یا فقط نقل معنی کرے ۔(۴)

رسول (ص)کی جانب سے عدم تحریف کی دوسری مثال که جس میں خدانے فرمایا :

( لتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا )(۵)

اور دوسری جگه فرمایا :

( وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا )(۶)

پهلی آیت میں من سے پهلے واو نهیں ہے اور دوسری آیت میں و او کا ذکر ہے پیغمبر نے اس دو قسم کی وحی کو حفظ امانت کے ساتھ بغیر کسی تغیر کے لوگوں تک پهنچایا ہے

علم کلام اور علوم قرآن میں بے شمار دلائل ہیں که جس کے ذریعه حقانیت قرآنی کو ثابت کیا گیا حقانیت اس معنی میں که موجود ه قرآن جو ہمارےدرمیان ہے یه وهی قرآن ہے جو پیغمبر اکرم(ص)پر نازل ہوا تھا اس مطلب کو صدر اسلام سے لے کر آج تک وجوه اعجاز او رتواتر کے ذریعے ثابت کیا جاسکتا ہے مرحوم جواد بلاغی نے وجوه اعجاز کی تعداد باره اور صاحب مناہل العرفان نے چوده اور بعض نے جیسے که سیوطی نے "معرک الاقران میں ۳۵ وجوه اعجاز بیان کیے ہیں ۔

____________________

۴ معالم الدین ، ص۲

۵ شوری ،۷

۶ انعام ، ۹۲

۴۱

۳- موجوده قرآن کی حجیت :

قرآن کا شمار دلیل نقلی میں ہوتاہے ، اور ہر دلیل نقلی میں سند و دلالت کی بحث لازم ہے محققین کے نزدیک اس بات میں کوئی شک نهیں که جو قرآن آج ہمارے هاتھوں میں ہے یه وهی قرآن ہے جو پیغمبر اکرم(ص) اور ائمه علیهم السلام کے زمانے میں لوگوں کے درمیان موجود تھا اس لئے که موجوده قرآن تواتر کے ذریعے نقل ہوا ہے یعنی مسلمانوں کی ایک نسل سے دوسری نسل تک پهنچا اور اس میں کوئی کمی یا زیادتی نهیں ہوئی ہے اس کے علاوه ائمه علیهم السلام نے لوگوں کے هاتھوں میں موجوده قرآن کی حجیت کی تائید کی ہے

اصولیوں کے نزدیک موجوده قرآن کی حجیت ایک اصل مسلم ہے اسی لئے جب علم اصول میں ادله استنباط کی بات آتی ہے تو وهاں حجیت قرآن پر بحث نهیں کی جاتی کیونکه اسےتصدیق مبادی ی کے عنوان سے استنباط احکام کے لئے قبول کیا جا چکاہے

عظیم شیعه فقیه صاحب مفتاح الکرامه سید محمد جواد عاملی تواتر قرآن کے سلسله میں دوسرے فقهاء کے بیانات نقل کرنے کے بعد کهتے ہیں بحکم عادت قرآن کی تمام تفاصیل یعنی اس کے اجزاء، الفاظ ،حرکات و سکنات اور ہر آیت کا اپنے مقام میں قرار پانا یه سب تواتر سے ثابت ہونا چاہئیے کیونکه نقل قرآن کے لئے انگیزه اور علت موجود تھے ، اس لئے که قرآن تمام احکام کی اساس اور معجزه دین شمار ہوتاہے

۴۲

عدم تحریف قرآن

تمام اسلامی محققین خواہ شیعه ہو یا سنی سبھی کے نزدیک زمان نزول سے لیے کر آج تک قرآن میں ذره برابر تحریف نهیں ہوئی آج جو قرآن ہمارے درمیان ہے یه وهی قرآن ہے جو پیغمبر اکرم(ص)پر نازل ہوا ۔ قرآن میں احتمال تحریف ان شبهات میں سے ہے جس کی کوئی اساس نهیں یهاں تحریف سے مراد قرآن میں کمی یا زیادتی ہے که قرآن اس قسم کی تحریف سے محفوظ ہے ۔

تحریف کے بارے میں جو روایات آئی ہیں ان میں بعض ضعیف اور بعض تحریف معنوی اور بعض کلمات اور جملات قرآن کی تفسیر کے معنی میں ہے بعض یه تصور کرتے ہیں که تحریف کی یه روایات صرف شیعوں کی کتاب میں ہیں جبکه ایسی روایات برادران اہل سنت کی کتابوں میں بھی نظر آتی ہیں مثال کے طور پر آپ صرف مسند احمد کی جلد اول اور صحیح ترمذی کی جلد پنجم مراجعه کیجئے آپ کو ہماری بات کی تصدیق ہوجائے گی لیکن یه روایات مذکوره مطالب کے علاوه کتاب او رسنت معتبر کے بھی مخالف ہیں کیونکه قرآن ایسی کتاب ہے جس میں باطل کا گزر بھی نهیں ہے چنانچه خداوند عالم سوره فصلت میں ارشاد فرماتاہے :

( لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ” ) (۱)

یه آیت قرآن میں ہر قسم کے باطل کے نفوذ کا انکار کرتی ہے (جس میں تحریف بھی شامل ہے ) پس قرآن بطور مطلق نفوذ باطل کا انکار کررها ہے زمان نزول اور اس کے بعد کسی بھی یا گروه کے ذریعه قرآن میں تحریف ہونا ناممکن ہے ۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہے ۔

( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ )(۲)

اس کے علاوه حدیث ثقلین میں قرآن اور عترت پیغمبر(ص)کا حوض کوثر تک ساتھ ہونا اور مسلمانوں کو روزقیامت تک ان سے تمسک کاحکم دینا اس بات کی دلیل ہے که قرآن رهتی دنیا تک تحریف سے پاک ہے کیونکه تحریف شده کتاب کی ایسی پیروی کا حکم کوئی کسی کو نهیں دیتا ہے ۔

____________________

۱ فصلت ، ۴۲

۲ حجر ، ۹

۴۳

حقیقت یه ہے که تحریف کا دعوی اسلام کے رکن اساسی سے جنگ کرنا ہے اور افسوس که بعض مغرض افراد مسلمانوں میں تفرقه افکنی اور ایجاد اختلاف کی خاطر اور وحدت کی دلسوز آواز کو دبانے کے لئے ہمیشه فتنه برپا کرتے ہیں اختلافی مسائل کو ہوا دے کر اتحاد کی فضا کو خراب کرتے ہیں وه ہمیشه بعض اسلامی مذاہب کو عقیده تحریف کے لئے متهم کرتے ہیں اور جب انهیں موقع ملتا ہے ہمیشه اسی مسئله کو پیش کرتے ہیں اور وه نهیں جانتے که دوسرے مذهب کی اس مخالفت سے وه خود تو قوی نهیں ہوں گے لیکن ناخود آگاہ قرآن کی تضعیف اور شبهء تحریف کو زنده کرنے کا باعث بنیں گے ،جو چیز مسلم ہے وه یه ہے که فریقین کی اکثریت تحریف کی مخالف ہے او راسے ردکرتی ہے اسی لئے کسی بھی اسلامی فرقه کی جانب تحریف کی نسبت نهیں دی جاسکتی اور وه قلیل جماعت جو عقیده تحریف پراڑی ہوئی ہے ان کا عقیده عدم تحریف کے محکم و متقن دلائل کے آگے بےاساس ہوجاتا ہے ۔

بھلا وه کتاب کیسے تحریف کاشکار ہوگی جسے آغاز نزول سے لے کر اب تک نماز اور غیر نماز خلوت وجلوت میں صبح وشام قرائت کیا جاتاہے او رجس کتاب کو ہر دور میں هزاروں حافظوں نے حفظ کیا ہو خود نزول کے وقت چالس افراد نے اس وحی الهی کو لکھا جس کتاب میں مسلمانوں کی مورد نیازتعلیم موجود ہو اور وه اس عظیم کتا ب سے ہر روز استنباط و استفاده کرتے ہوں، ایسی کتاب کی تحریف کا تصور جهل و غفلت او ر نادانی کی دلیل ہے ۔

۴۴

نصوص اور ظواہر قرآن کی حجیت

گذشته بحث میں روشن ہوگیا که قرآن مجید صدور کے لحاظ سے قطعی ہے اب ہماری بحث دلالت قرآن کے بارے میں ہے اس میں کوئی شک نهیں که قرآن کی آیات قابل فهم ہیں لیکن ایسا بھی نهیں ہے که سارے کاسارا قرآن دلالت کے لحاظ سے قطعی اور یقینی ہو اس لئے که خود قرآن نے آیات کو محکم اور متشابه میں تقسیم کیا ہے جیساکه ارشاد ہے :

"( مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ) "

“جس میں سے کچھ آیتیں محکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں” ۔

لیکن آیات متشابه کو آیات محکمات کی روشنی میں تفسیر کیا جاسکتا ہے ۔

دوسرا مطلب یه ہے که خود محکمات بھی دوقسموں میں تقسیم ہوتے ہیں :

۱- بعض نصوص ا س حدتک اپنے معنی پر روشن طریقه سے دلالت کرتے ہیں که ان میں اختلاف معنی کا تصور بھی محال ہے ۔

۲- اور بعض نصوص ظواہر کے لحاظ سے ظنی الدلاله ہیں ۔

اہم بحث انهی ظواہر کی حجیت کے بارے میں ہے ۔ تمام علمائے اسلام ظواہر قرآن کو فی الجمله حجت مانتے ہیں گرچه بعض اخباریوں نے حجیت ظواہر کو مورد تردید قرارد یا ہے ان کی باتوں سے یه سمجھ میں آتا ہے ظهور قرآن بطور مطلق حجت ہے لیکن قرآن کی ایک خصوصیت یه ہے که اس میں کوئی ظهور واقع نهیں ہوا ہے اور جو ظواہر قرآن شمار ہوتے ہیں وه در حقیقت متشابهات ہیں که جسے ہم ظواہر سمجھ بیٹھتے ہیں ۔

حجیت ظواہر کے دلائل

کلی طور پر الفاظ قرآن کے ظواہر کا حجت ہونا مسلمات میں سے ہے که جس پر کسی دلیل و برهان کی ضرورت نهیں پھربھی حجیت ظواہر پردو دلیلیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔

۴۵

۱- ارتکاز عقلا

عام طور پر لوگ گفتگو کے دوران جو الفاظ اداکرتے ہیں انهی الفاظ کے ظواہر پر اعتماد کرتے ہیں معاملات کی اسناد کا عدالت کے مقدمات ، مکاتبات اور استدلال میں انهی ظواہر پر اعتماد کیا جاتا ہے او رهر قائل کے ظواہر سخن کو فائده اورنقصان میں حجت قرار دیاجاتا ہے شارع مقدس نےبھی اہل سخن کے اس طریقه کو نهیں چھوڑا اور لوگوں سے گفتگو میں کسی نئی روش کو ایجاد نهیں کیا بلکه انهیں کے طریقه کی تائید کرتے ہوئے ظواہر قرآن کوحجت قرار دیا ہے ۔

۳- وضع الفاظ

حقیقت و مجاز اور کنایه و استعاره کا مقصدتفهیم و تفهم ہے ایک دوسرے کی بات کو سمجھ اور سمجھانے کے لئے انهیں وضع اور قوانین لغت کو مرتب کیا گیا اب اگر ظواہر کو حجت قرار نه دیا جائے تو وه عمل خلاف مقصد لازم آئے گا پس ظواہر قرآن حجت ہیں ۔(۳)

حجیت ظواہر قرآن اور اخباری مسلک

اخباری ظواہر قرآن کی حجیت کو مسلم مانتے ہیں ان کا کهنا ہے ظاہر قرآن حجت ہے مگر یه که ظواہر کی تاویل،تخصیص یا نسخ پر کوئی دلیل موجود ہو –(۴)

اس بحث کو شیعوں نے اپنی علم اصول کی کتابوں میں مفصل طریقه سے بیان کیا ہے ۔ اس کی وجه وه فکر ہے جو اخباری مسلک کے درمیان پیداہوئی ان کا کهناتھا که ظواہر قرآن سے احکام اسنتباط کرناناممکن ہے و ه کهتے ہیں متعدد روایات ہیں جس میں قرآن کی تفسیر اور اس سے احکام کے استنباظ سے منع کیا گیا ہےاس لئے ہمارے سامنے اب ایک راسته ہے که ضروریات دین کے علاوه تمام امور میں صرف روایات معصومین پر کان دهریں ان تعبیرکے حساب سے“ سماع الصادقین” پر گامزن رهیں ۔(۵)

اور وه کبھی کهتے ہیں : قرآن کا علم صرف پیغمبر(ص)اور ائمه علیهم السلام سے مخصوص ہے اس لئے قرآن کے حقیقی مخاطب وه ہیں نه که دوسرِے لوگ اس لئے فهم قرآن میں لازم ہے که ان کی جانب رجوع کیا جائے –(۶)

____________________

۳ انوار الاصول ، ج۲ ،ص ۳۲۴ /۳۲۳

۴ المهذب فی اصول الفقه المقارن ، ج۳ ،ص ۱۲۰۲

۵ الفوائد المدنیه ،ص۴۷

۶ هدیه البرار ، ص۱۵۵

۴۶

. علمائے امامیه نے اخباریوں کے اس عقیده کی شدت سے مخالفت کی اور ان کا جواب دیا لیکن افسوس که بعض افراد یا اخباری اور دوسروں کے درمیان فرق نهیں کرتے ہیں یا نهیں چاہتے وه اخباریوں کی خاص فکر کو تمام مکتب اہل بیت کے علماء کی جانب نسبت دیتے ہیں ۔ اس موضوع سے مربوط روایات کی تحقیق اور دانشمندان شیعه کی آراء کو جاننے کے بجائے بعض مخصوص روایات کو اکٹھا کرکے بلکه بعض روایات کو کانٹ چھانٹ کر بغیر کسی تحقیق اور دوسری روایات سے مقابله کئےے بغیر اور مخصوص و مقید یا ناسخ و معارض کی توجه کے بغیر اخباریوں کے عقیده قرآن کو تمام علمائےشیعه کی جانب نسبت دیتے ہیں اور اسےی مذهب اہل بیت علیهم السلام کے مسلّم عقائد پر شمار کرتے ہیں-(۷) ۔

عجب تو یه ہے که اہل سنت نے انهی کتابوں میں سے ایک کتاب میں قرآن کے بارے میں ان مطالب کی نسبت شیعوں کی جانب دی اور اس کا حواله اخباریوں کی کتاب مشارق السموس الدریه سے دیا –(۸) ۔

بهرحال اخباریوں نے روایات کے ظواہر سے استدلال کیا جب که کوئی بھی روایت ان کے ادعا پر دلالت نهیں کرتی(۹)

انهی میں سے وه روایات بھی ہیں جو تفسیر بالرأی سے نهی کرتی ہیں جب که که ظواہر قرآن جوکه ادبیات عرب کے مطابق اور سب کے لئے قابل فهم ہے اسے چھوڑ کر اپنے خواہشات اور میلانات کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے کو کهتے ہیں بعبارت دیگر اپنے افکار اور پیشد رویوں کو قرآن پر تحمیل کرنا جایز نهیں اور اس بات کا ظواہر قرآن سے اس کا کوئی ربط نهیں ہے؟؟

یا وه روایات جو کهتی ہیں فهم قرآن صرف پیامبر(ص)اور ائمه معصوم علیهم السلام سے مخصوص ہے(۱۰)

____________________

۷ .اصول مذهب شیعه الاثنی عشریه ، ج۱ ،ص۱۵۵ به بعد

۸ موقف الرفضه فی القرآن ، ص ۳۶۲

۹ وسائل شیعه ،ج۱۸ ، ابواب صفات القاضی باب ۱۳ ، ح۲۸/۶۶/۷۹

۱۰ سابقه مدرک ، ح۳/۶/۹/۱۰/۱۲/۱۵ وغیره

۴۷

جب که ان روایات کا اشاره متشابهات اور بطون قرآن کی جانب ہے نه که ظواہر قرآن کیونکه ائمه اہل بیت بارها اپنے اصحاب کو قرآن کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیتے اور تشویق فرماتے تھے یهاں تک که تعارض روایات کی صورت میں فرماتے جو حدیث قرآن سے مطابقت رکھتی ہو اسے لے اور جو حدیث ظاہر قرآن کے خلاف ہو اسے چھوڑدو ہم بعض احادیث میں پڑھتے ہیں : جس وقت ایک راوی نے کسی مئله مسئله میں امام سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا :

یعرف هذا و امثاله من کتاب الله عزوجل -(۱۱)

( و ماجعل علیکم فی الدین من حرج )

یا جس وقت راوی نے امام سے پوچھا آپ کے پاس کیاا دلیل ہے که سرکے ایک حصه کا مسح، وضو ء میں کافی ہے آپ نے فرمایا :

"لمکان الباءوَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ ". ۔(۱۲)

“ آیت میں باء کا پایاجانا کیونکه باء باء تبعیض اور بعض کے معنی میں ہے”(۱۳) ۔

حجیت نصوص اور ظواہر قرآن کا مسئله اتنا واضح ہے که اس میں کسی طولانی گفتگو کی گنجائش نهیں اور اخباری مسلک کے افکار متروک ہوچکے ہیں اور حوزه های علمیه میں آج ان افکار کا کوئی خریدار نهیں بلکه کها جاسکتا ہے که اخباری مسلک کے افکار کا شمار منقرض اور نابود شده عقائد میں ہوتا ہے ۔

____________________

۱۱ سابقه مدرک ،ب۹

۱۲ مائده ، ۶

۱۳ وسائل الشیعه ، ج۱ باب ۲۳ ابواب وضو ،ح۱

۴۸

سنت

تمام علماء اسلام کا اتفاق ہے که اسنتباط احکام کا دوسرا منبع سنت ہے اہل سنت کے نزدیک قرآن کے علاوه پیغمبر (ص)سے صادر ہوئی ہر چیز سنت کهلاتی ہے چاہے وه قول ہو فعل ہو یا تقریر مگر اس شرط کے ساتھ که قول وفعل و تقریر پیغمبر احکام شرعیه سے مربوط ہوں –(۱) مکتب اہل سنت کے فقهانے سنت کو عمومیت بخشتے ہوئے کها ہے که سنت قول و فعل و تقریر معصوم (پیغمبراور ائمه اہل بیت علیهم السلام ) پر مشتمل ہے(۲) ۔ (مترجم)(۳)

سنت رسول کی حجیت

سنت رسول (ص)کی حجیت مختلف دلائل سے قابل اثبات ہے اگرچه آنحضرت (ص)کی نبوت و رسالت کو ماننے کے بعد حجیت سنت کے بارے میں کوئی شک باقی نهیں رهتا پھر بھی اس مطلب پر قرآن اور روایات کے ذریعه استدلال کیا جاسکتا ہے ۔(مترجم )(۴)

خداوند عالم سورۂ مبارکه حشر کی ساتویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے :

"( وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ) "(۵)

اس آیهء کریمه کے اطلاق سے واضح ہے که اسمیں رسول کے تمام اوامر و نواہی شامل ہیں اس لئے آپ نے جس چیزکا حکم دیا جس چیز سے روکا اور جو کچھ بھی آپ خدا کی جانب سے لیےکر آئے ان تمام اوامر و نواہی میں پیغمبر کا اتباع اور ہر قول هل فر فعل اور ہر تقریر میں آپ کی اطاعت بھی واجب ہے ۔ خداوند عالم نے اس اطاعت مطلق کا حکم دینے کے بعد خبردار کرتے ہوئے کها :

"( وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ) "

“خبردار سنت رسول سے روگردانی شدید عذاب کا باعث ہے” ۔(۶)

اس کے علاوه سوره نجم کی تیسر ی اور چوتھی آیت میں فرماتا ہے :

"( وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ) "(۷)

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے که آپ کا ہر قول خداکی جانب سے ہے دوسری تعبیر میں یه که آپ کا ہر کلام وحی خدا ہے فقط فرق یه ہے که اس وحی کا ایک حصه قرآن تو دوسرا حصه حدیث رسول کهلاتاہے ۔

____________________

۱. المهذب فی اصول الفقه المقارن ،ج۲ ،ص۶۰۷

۲ الاصول العامه ،ص ۱۶۱ اصطلاحات الااصول ، ص۱۴۱ ---۳ .(مترجم)---۵ حشر ، ۷

۶ حشر ، ۷ .---۷ نجم ، ۳/۴

۴۹

سنت ائمه علیهم السلام کی حجیت

سنت معصومین ، سنت پیغمبر(ص)کی طرح حجیت رکھتی ہے اس بات کو مختلف دلائل کے ذریعه ثابت کیا جاسکتاہے ائمه کے افعال و اقوال کی حجیت اوران کی اطاعت و عصمت یه سارے مسائل کلامی ہیں اور ان کے بارے میں علم کلام میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے .مکتب اہل بیت علیهم السلام کے ماننے والے یه عقیده رکھتے ہیں که ائمه علیهم السلام مجتهدین میں سے نهیں جو اپنے حدس و گمان پر اجتهاد کرتے ہوں اور اس اجتهاد کی روح سے اختلاف فتوی کا شکار ہوں –(۸) ۔

پھر یه فتوے ان مقلدین کے لئے حجت ہوتے ہوں جنکے نزدیک مجتهد کے شرائط اجتهاد محرز ہوں ۔ بلکه مکتب اہل بیت علیه السلام کے پیروکاروں کے نزدیک امامت ایک الهیٰ منصب ہے جو خدا کی جانب سے ان کو عطاہوا ائمه علیهم السلام ان الهیٰ احکامات کے حقیقی مبلغ ہیں وه جو احکام جو گذشته معصوم سے ان تک پهنچے ہیں چنانچه حضرت علی فرماتے ہیں :(۹)

رسول خدانے مجھ پر علم کے وه ابواب کھولے ہیں که ان میں ہر ایک باب سے کئی باب کھلتے جاتے ہیں۔

اور ایک روایت میں فضیل بن یسار امام باقر سے نقل کرتے ہیں که آپ نے فرمایا :اگر ہم بھی اوروں کی طرح حدس و گمان او راپنی رائے کے مطابق حکم کرتے تو ان کی طرح گمراہ ہوتے بلکه ہمارا ہر حکم ہمارے پروردگار کی جانب سے قائم کیے گئے روشن برهان پر ہوتا ہے وه روشن برهان که جسےخدانے پیغمبر کے لئے اور پیغمبر نے ہمارے لئے بیان کیا ہے :

بینة من ربنا بینها نسبیه فینها نسبیه لنا ۔.(۱۰)

ہرچیز سے پهلے سنت اہل بیت علیه اسلام کی حجیت حدیث ثقلین سے ہے که جس میں قرآن کے ساتھ تمسک عترت کو واجب قرار دیاگیا ۔

یه حدیث اہل سنت کے در میان متواتر ہے جسے ۳۶ صحابیوں نے نقل کیا ہے(۱۱)

شیعه محدثین کے علاوه ۱۸۰ علماء اور محدثین اہل سنت نے اسے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے بعض طرق نقل میں آیا ہے که یه حدیث آپ نے حجة الوداع میں بیان فرمائی اور بعض روایتوں میں آیاہے که اسے آپ نے اواخر عمر میں بیماری کے دوران بیان کیا اور وروایات کی تیسری قسم وه جس میں آیا میں بیان ہواہے که آپ نے حجة الوداع کے بعد غدیر خم میں اس حدیث کو بیان کیا

____________________

۸ .(مترجم)---۹ مناقب آل ابی طالب به نقل از حافظ ابو نعیم ، ج ۲ ،ص ۴۴یه روایت شیخ صدوق ، ۲۴ سندوں کے ساتھ نقل کی ، خصال ،ص۶۴۲

۱۰. بصائر الدرجات ، ص ۳۱۹ ا بحارالانوار ، ج ۲ ، ص۱۷۲

۱۱. جامع احادیث شیعه ، ج۱ ،ص۴۶ اور اس کے بعد

۵۰

اور چوتھی قسم ان روایتوں کی ہے جس میں آیا ہے که آپ نے طائف سے لوٹنے کے بعد یه حدیث بیان کی یه اختلاف طرق بتاتے ہیں که پیغمبر(ص)کتاب و عترت کی اہمیت کے پیش نظر مختلف مواقع اور مناسبتوں میں اسے دهرایا کرتے تھے(۱۲)

بهرحال اس حدیث میں پیغمبر اسلام (ص)نے تمسک اہل بیت کو تمسک قرآن کی مانند واجب قرار دیا ہے اور گمراہیوں سے نجات کا ذریعه بتایا ہے اس طرح دوسری روایات ہیں ۔

اہل بیت علیهم السلام کو سفینهء نجات(۱۳) اور اہل زمین کےلئے امان قرار دیا ہے(۱۴) - احادیث اور ان کے مدارک فریقین کی کتابوں میں موجود ہیں(۱۵) ۔

____________________

۱۲. الصواعق المحرقه ، ص ۱۵۰

۱۳. صواعق المحرقه ، ص ۱۵۰

۱۴ وهی مدرک ، ص ۱۵۱ /۲۳۴، مستدر حاکم ،ص۱۳۶

۱۵ ( .مترجم)

۵۱

۵- تعریف سنت :

سنت کبھی واجب کے مقابل مستحب کے معنی میں آتاہے اور کبھی بدعت کے مقابل شریعت کے معنی میں آتاہے یه دو اصطلاحی معنی فقه و کلام کے ہیں لیکن علم اصول میں سنت عبارت ہے “قول معصوم وفعله و تقریر” اس تعریف میں سنت کی تین قسموں کی جانب اشاره ہے سنت قولی یعنی گفتار معصوم اور سنت فعلی یعنی وه عمل جسے امام نے انجام دیا اور سنت تقریری یعنی امام کی تائید جسے ہم دوسروں کے اعمال پر امام معصوم کے سکوت سے سمجھتے ہیں

اہل سنت سنت کی تعریف میں لکھتے ہیں :

قول النبی(ص) وفعله و تقریره(۱) یا وه قول وفعل و تقریر جو نبی سے صادر ہو(۲) . انهوں نے سنت صحابه کوبھی سنت نبوی سے ملحق کردیاہے ان کے مقابل شیعوں نے ائمه اہل بیت علیهم السلام کی سنت کو سنت نبوی سے ملحق کیا ہے اور چونکه شیعه پیغمبر(ص) اور اہل بیت علیهم السلام کی عصمت کے قائل ہیں اسی لئے عصمت کو حجیت سنت کا ملاک جانتے ہیں اور سنت کی تعریف میں اہل بیت علیهم السلام کی جامع صفت جوکه عصمت ہے استعمال کرتے ہیں. (مترجم)

____________________

۱- .شوکانی محمد بن علی ، ارشاد الفحول ، ص ۶۷

۲ خلاف ، عبدالوهاب ، علم اصول لافقه ، ص۳۴

۵۲

۶. - سنت نبوی کی حجیت

اگرچه سنت نبوی ایک واضح امر ہے اور فی الجمله تمام اسلامی فرقوں کے لئے محل اتفاق ہے اور حجیت سنت پیغمبر(ص) کی بهترین دلیل خود آیات قرآنی ہیں

۱-( قُل لاَّ أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَآئِنُ اللّهِ وَلا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا يُوحَى إِلَيَّ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَفَلاَ تَتَفَكَّرُونَ ) “ آپ کہئے کہ ہمارا دعو ٰی یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس خدائی خزانے ہیں یا ہم عالم الغیب ہیں اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم مُلک ہیں. ہم تو صرف وحی پروردگار کا اتباع کرتے ہیں اور پوچھئے کہ کیا اندھے اور بینا برابر ہوسکتے ہیں آخر تم کیوں نہیں سوچتے ہو”

۲- و( َمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ) (۲) “ اور ہم نے کسی رسول کو بھی نہیں بھیجا ہے مگر صرف اس لئے کہ حکِم خدا سے اس کی اطاعت کی جائے اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے”

۳-( وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللّهِ يَسِيرًا ) (۳) “ جو رسول کی اطاعت کرے گا اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جو منہ موڑ لے گا تو ہم نے آپ کو اس کا ذمہ دار بناکر نہیں بھیجا ہے”.

۴-( قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ) (۴) “ اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبّت کرتے ہو تو میری پیروی کرو- خدا بھی تم سے محبّت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے”

۵-( لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ) (۵) “مسلمانو! تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے”

____________________

۱ سوره انعام ، آیه ۵۰ .---۲ سوره ،نساء ، آیه ۶۴ .---۳. سوره نساء، آیه ۸۰ ---۴.سوره، آل عمران، آیه ۳۱.

۵- سوره، احزاب آیه ۲۱

۵۳

۶-( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ ) (۶) “اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مذِدوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور ان کی طرف بھی وحی کرتے رہے ہیں تو ان سے کہئے کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو”

یه آیات عصمت پیغمبر(ص) پر بهترین نقلی دلیل ہے کیونکه ان میں سے کسی بھی آیت میں پیغمبر(ص) کی پیروی کو کسی قید سے مشروط نهیں کیاگیا بلکه آپ کی اطاعت کا مطلق حکم دیاگیاہے اور یه اطلاق آپ کے قول وفعل و سکوت کی حجیت کو ثابت کرتاہے

(مترجم)

____________________

۶ سوره ،نحل آیه ۴۳

۵۴

۷- سنت اہل بیت کی حجیت :

شیعوں کی نظر میں امامان اہل بیت علیهم السلام کی تعداد باره ہے که جن میں سب سے پهلے حضرت علی ابن ابی طالب اور آخری امام حجت ابن الحسن عج الله فرج ہے اور ان میں ہر ایک کے بعد دوسرا منصب امامت پر فائز رها .امامان اہل بیت علیهم السلام علم الدنی کے حامل اور مثل پیغمبر(ص) ہر عمدی اور سهوی خطاؤں سے معصوم تھے قرآن کی کئی ایک آیات سے عصمت ائمه علیهم السلام کو ثابت کیا جاسکتا ہے

پهلی آیت آیه تطهیر:

( إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) “بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیهم السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے”(۱)

مفسرین او رمتکلمین نے اس آیه کریمه کے ذیل میں سیر حاصل بحث کی او راس آیت کے ذریعه عصمت ائمه علیهم السلام کو ثابت کیا ہے

دوسری آیت آیه اولی الامر ہے :

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً ) “ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں”(۲)

فخررازی نے صریحا کها که یه آیت اولی الامر کی عصمت پر دلالت کرتی ہے لیکن انهوں نے اولی الامر کو اجماع پر تطبیق دیا ہے او رهم اولی الامر کو اہل بیت علیهم السلام پر تطبیق دیتے ہیں ان مباحث کی تفصیل کے لئے علم کلام کی کتابوں کی جانب رجوع کرنا ہوگا ان آیتوں کے علاوه وه آیتیں جو حضرت علی کی ولایت کو ثابت کرتی ہیں ان سے بھی عصمت ائمه علیهم السلام پر استدلال کیا جاسکتاہے جیسے:

( إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ) “ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں”(۳)

(مترجم)

____________________

۱- سوره ، احزاب ،آیه ۳۳ .---۲. سوره ، نساء ، آیه ۵۹ .---۳ سوره ،مایده، آیه ۵۵

۵۵

۸- سنت اہل بیت کی حجیت :

سنت اہل بیت کی حجیت پر عقلی دلیلوں کو دوطریقوں سے پیش کیا گیا ہے ایک تو وه دلیلیں جو اہل بیت علیهم السلام کی عصمت کو ثابت کرتی ہیں یه دلیلیں بالکل رسول خد(ص) کی عصمت کے بارے میں پیش کی جاتی ہیں

دوسری وه دلیلیں جو رسول خد(ص) کے لئے خلیفه اور جانشیں کی ضرورت کو ثابت کرتی ہیں ایسا ہی خلیفه خصوصیات و تفصیلات احکام کو بیان کرنے کا ذمه دار ہے

یه دونوںعقلی دلائل ویسی ہیں جو ہم نے نبی اکرم(ص) کے بارے میں بیان کی ہیں چونکه امام معصوم علیهم السلام پیغمبر(ص) کی ہدایتوں کو بڑھانے والا ہے

خلیل بن احمد فراہیدی نے حضرت علی کی امامت پر کیا بهترین دلیل پیش کی ہے :“ استغناؤه عن الکل و احتیاج الکل الیه دلیل علی انه امام الکل ”.(۱)

یهی بات دیگر ائمه علیهم السلام پر بھی صادق آتی ہے کیونکه کسی بھی تاریخ میں یه نقل نهیں ہوگا که وه کسی جواب میں عاجز ہوئے ہوں یا کسی سےعلمی فیض اٹھایا ہو یا کسی سے درس لیاہو بلکه وه ہمیشه معلم اور عوام و خواص کے مربی رهے ہیں

____________________

۱- ر، ک : حکیم ، محمد تقی ، الاصول العامه للفقه المقارن ، ص ۱۸۹

۵۶

سنت اہل بیت کی حجیت پر چند شبهات

ائمه معصومین علیهم السلام کی احادیث کی حجیت پر اہم ترین اعتراضات تین ہیں :

پهلا اعتراض :

یه ہے که دین اسلام پیغمبر (ص)کی حیات میں کامل ہو چکا تھا جیسا که آیهء اکمال سے استفاده ہوتا ہے :

"( الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا ) "(۱)

اسی طرح پیغمبر خد(ص)نے بھی فرمایا:

ِ“ مَا مِنْ شَيْ‏ءٍ يُقَرِّبُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ وَ يُبَاعِدُكُمْ مِنَ النَّارِ إِلَّا وَ قَدْ أَمَرْتُكُمْ بِهِ وَ مَا مِنْ شَيْ‏ءٍ يُقَرِّبُكُمْ مِنَ النَّارِ وَ يُبَاعِدُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا وَ قَدْ نَهَيْتُكُمْ عَنْه ”۔‏.

“جو چیز تمهیں جنت سے نزدیک اور جهنم سے دور کرتی ہے میں نے تمهیں اس کا حکم دیا اور جوچیز تمهیں جنت سے دور اور جهنم سے نزدیک کرنے والی ہے اس سے روک دیا ہے(۲) ۔

اس کے معنی یه ہوئے که وه سارے واجبات و محرمات جو تمهیں جنت اور جهنم تک لیےجانے والے ہیں میں انهیں بیان کرچکا ہوں ۔

اسی بناپر دین میں کوئی نقص نهیں ہے جسے سنت معصومین سے دور کیا جائے پس خدا اور رسول کے علاوه کسی بھی شخص یا اشخاص کو مدرک شریعت نهیں مانا جاسکتا کیونکه ان کی سنت کو حجت ماننا گویا زمان پیغمبر میں دین کو ناقص جاننا ہے اور یه خلاف قرآن و حدیث ہے ۔

____________________

۱ مائده ، ۳

۲ کافی ،ج۲ ص۷۴ ، کنزالعمال ،ج۴ ،ص۲۴

۵۷

جواب :

یقینا پیغمبر کے زمانے میں دین کامل تھا اور اس کا کامل ہونا قطعی ہے لیکن پهلے ہمیں یه جاننا ہوگا که اکمال سے کیا مراد ہے ۔

اولا : یه اعتراض ہم سے پهلے خود اہل سنت پر وارد ہوتا ہے جو سنت صحابه، قیاس، استحسان ، دین میں منطقه الفراغ کے وجود اور اجتهاد بالرائ کو حجت مانتے ہیں انهیں بھی اپنے نظریه اور آیه ءاکمال کے درمیان تضاد کو بر طرف کرنا چاہیئے ۔

ثانیا : اکمال دین اور ہے ابلاغ دین اور ، دین یقینا پیغمبر کے دور میں کامل ہوگیا اور جو ائمه علیهم السلام نے لوگوں کو بیان کیا وه تکمیل دین کے عنوان سے نهیں بلکه تبلیغ دین کے عنوان سے تھا ان کے احکام و بیانات ان کی شخصی رائ کا نتیجه نهیں تھے که دین کو کامل کرتے بلکه به احکامات اس دین کی تبلیغ تھے جو رسول کے دور میں تکمیل ہوچکا تھا ۔

امام باقر فرماتے ہیں :

لَوْ أَنَّا حَدَّثْنَا بِرَأْيِنَا ضَلَلْنَا كَمَا ضَلَّ مَنْ كَانَ قَبْلَنَا وَ لَكِنَّا حَدَّثْنَا بِبَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّنَا بَيَّنَهَا لِنَبِيِّهِ (ص)فَبَيَّنَهُ لَنَا

“اگر ہم اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر حکم دین کرتے تو ہم انهی کی طرح گمراہ ہوجاتے جو ہم سے پهلے گمراہ ہوگئے تھے لیکن ہمارے احکام اس ہدایت الهیٰ کی روشنی میں ہوتے ہیں جو اس نے اپنے نبی کو عطاکی اور پھر پیغمبر نے ہمیں اس ہدایت سے نوازا(۳) ۔

روایت میں آیا ہے که امام موسی کاظم کے ایک صحابی جن کا نام سماعه تھا انهوں نے امام سے پوچھا : آپ جوکچھ فرماتے ہیں وه قرآن و سنت کے مطابق ہے یا آپ کی اپنی رائے ہے ؟

حضرت نے جواب دیا :

بَلْ كُلُّ شَيْ‏ءٍ نَقُولُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَ سُنَّتِهِ

“هم جو کچھ بھی کهتے ہیں وه قرآن اور سنت پیغمبر (ص)کے مطابق ہوتا ہے ” ۔(۴)

____________________

۳ بصائر الدرجات ، ص ۳۱۹ ، بحارالانوار ،ج۲ ، ص ۱۷۲ ، ایسی روایت کنزالعمال کی تیرهویں جلد ،۱۶۴ پر امیرالمؤمنین سے نقل ہوئی ہے

۴ .بصائر الدرجات ، ص۳۲۱ ، بحارالانوار ،ج۲ ، ص۱۷۴

۵۸

ایک اور روایت میں آیا ہے :

بَلْ كُلُّ شَيْ‏ءٍ نَقُولُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَ سُنَّتِهِ

“هم اہل رائےنهیں ہیں ( ہمارا ہر قول پیغمبر(ص)کے قول کی نقل ہے ) ”(۵)

بهرحال مدرسه اہل بیت کا عقیده یه ہے که امام علم الهیٰ کا خزانه دار، محافظ شریعت اور وارث پیغمبر ہے امام اسرار الهیٰ کا راز دار، حامل کتاب اور داعی الی الله ہے ائمه معصومین وه ہیں جو “ "( لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ ) ” " فرمان الهیٰ سے تجاوز نهیں کرتے بلکه اس کے فرمان کے مطیع اور اس کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہیں "( وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ) " –(۶) ابن سعد طبقات میں نقل کرتا ہے که علی علیه السلام سے سوال ہوا :

آپ اکثر روایات رسول خد(ص)سے کیوں بیان کرتے ہیں ؟

حضرت نے جواب دیا : اس لئے که میں جو بھی سوال کرتا پیامبر مجھے بتلاتے اور جهاں خاموش رهتا پیغمبر خود گفتگو کا آغاز کرتے ۔کوئی ایسی آیت ناز له نهیں ہوئی جس کی شأن نزول مجھے معلوم نه ہو(۷) ۔

پیغمبر (ص)نے حضرت امیر سے فرمایا:جو چیز میں آپ کے لئے املا کرا رهاہوں اسے لکھئے حضرت علی نے کها :یارسول الله (ص)کیا آپ اس سے ڈرتے ہیں که کهیں بھول نه جاؤں پیغمبر(ص)نے فرمایا : نهیں بلکه میں نے خدا سے دعا کی ہے که آپ میرے علم کے حافظ رهیں ، اس لئے یه آپ کےلئے نهیں بلکه آپ کے بعد آنے والے اماموں کےلئے لکھئے پھر آپ نے امام حسن کی جانب اشاره کرکے فرمایا : آنے والے اماموں میں سب سے پهلا امام ہے پھر حسین کی جانب اشاره کرکے کها یه دوسرا امام ہے اور اسی کی نسل سے امامت کا سلسله چلے گا –(۸) ۔

____________________

۵ کافی ، ج۱ ، ص۵۷

۶ انبیاء ، ۲۷

۷ طبقات ابن سعد ، ج ۲ ص ۳۳۸

۸ ینابیع الموده ، ج۱،ف ص۷۳

۵۹

اس آخری روایت سے ایک اور اشکال کا جواب بھی دیا جاسکتا ہے وه یه ہے که اہل سنت کهتے ہیں : اکثر حدیثیں امام باقر اور امام صادق علیه ہماالسلام سے نقل ہیں جب که انهوں نے رسول کو درک نهیں کیا پس ان کی حدیثیں سند کے لحاظ سے مرسل ہیں یعنی نقل روایات میں پیغمبر اور وه ائمه که جنهوں نے رسول کو درک نهیں کیا ان کے در میان کے واسطے ساقط ہیں اور یه مشخص نهیں ہے که ان احادیث کو کسی نے اہل بیت کےلئے پیغمبر سے نقل کیا اور ظاہر ہے که خبر مرسل حجیت نهیں رکھتی ۔

جواب یه که: روایات میں ائمه کی جانب سے سلسلهء سند مشخص کیا جاچکا ہے جیساکه امام صادق علیه اسلام هشام بن سالم ، حمادبن عثمان اور دوسروں سے فرمایاکرتے تھے :

”"حدیثی حدث ابی و حدیث ابی حدیث حدی و حدیث جدی ،حدیث الحسین و حدیث الحسین حدیث الحسن و حدیث الحسن ،حدیث امیرالمؤمنین و حدیث امیرالمؤمنین حدیث رسول الله ،وحدیث رسول الله قول الله عزوجل

" “میری حدیث میرے بابا کی حدیث ہے اور میرے بابا کی حدیث میرے جد کی حدیث ہے اور میرے جد کی حدیث حسین علیه السلام کی حدیث اور حسین کی حدیث حسن مجتبیٰ کی حدیث ہے اور حسن مجتبیٰ کی حدیث امیرالمؤمنین کی حدیث ہے اور حضرت امیر کی حدیث رسول خدا کی حدیث ہے اور رسول کی حدیث خدائے برترکا قول ہے –(۹)

ایک روایت میں نقل ہواہے که جب جابر نے امام باقر سے کها که آپ اپنی حدیث کی سند بیان کیجیئے ”؟

امام علیه السلام نے فرمایا: میں اپنے والد اور رسول خدا سےحدیث نقل کرتاہوں پھر فرمایا:

وکلمات احدثک بهذا الاسناد

میری ہر حدیث کی سند یهی ہے ۔(۱۰)

البته ائمهء اطهار اپنی احادیث کی سند ہمیشه پیغمبر تک نهیں پهنچاتے تھے بلکه اگر ان کی بزم میں اہل سنت بھی حاضر ہوتے تو اس وقت آپ سند کو کامل کرتے تھے اور اپنی سند کو رسول تک پهنچاتے تھے اسی لئے بعض اہل سنت جو راویان اہل بیت میں شمار ہوتے ہیں غالبا ان کی روایات کیس سند رسول (ص)سے متصل ہے ۔

____________________

۹ کافی ،ج۱،ص۵۳

۱۰ امالی مفید ، ص۴۲

۶۰