اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط25%

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط مؤلف:
زمرہ جات: اصول فقہ مقارن
صفحے: 152

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 152 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 90406 / ڈاؤنلوڈ: 4858
سائز سائز سائز
اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

خبر واحد کے ذریعه قرآن سے عموم کو تخصیص دینے کی مثال یه ہے که قرآن فرماتا ہے ۔

"( يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ ) "

“اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے، ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے” ۔(۴)

اس آیت میں باپ کے انتقال پر تمام اولاد کےلئے ارث مشخص کی ا گئییا اور ضمنا یه بتایا گیا که بیٹے کا ارث بیٹی کے ارث سے دو برابر ہے لیکن اس حکم پر بعض روایات کی وجه سے تخصیص لگائی گئی کیونکه جیسا که بیٹا باپ کاقاتل ہو تو اسے ارث نهیں ملے گا ۔

“ "القاتل لایرث ممن قتله ”"(۵)

دلیل مطلق و مقید :

مطلق اس لفظ کو کهتے ہیں که جس میں کو ئی قید و شرط نه ہواور اپنے تمام افراد کو شامل ہو مثلا جس وقت کها جائے۔ “"احلّ الله البیع ”" اس میں معاملات کی تمام قسمیں شامل ہوجائیں گی ۔

مقید اس لفظ کو کهتے ہیں جس میں لفظ قید کے ساتھ ذکر ہو جیسے “"نهی النبی عن بیع الغرر ”"یعنی پیغمبر نے مجهول اور مبهم معاملات سے منع کیا ہے ۔ محققین کے نزدیک مشهور یهی ہے که لفظ مطلق اس صورت میں تمام افراد کو شامل ہوگا که اس کے مقدمات حکمت اسمیں جمع ہوں .یعنی

اولا ً: متکلم مقام بیان اور تمام مقصود بیان کرے ۔

ثانیا: کوئی قید نه لگائی گئی ہو ۔

ثالثا: لفظ مطلق سے خاص افراد کا تبادر نه ہو ۔

رابعا : پڑھنے والے والا کی اپنی نظر میں اس لفظ کا قدر متیقن نظرمیں نه رکھے ۔

اس صورت میں مطلق تمام افراد کو شامل ہوگا اور بغیر کسی دلیل کے جو تقید پر دلالت کرے اطلاق سے صرف نظر نهیں کیا جاسکتا حدیث کے زریعے ذریعے قرآنی اطلاقات کو قید لگانے کاا مکان قطعی ہے کیونکه قرآن کے کئی احکام فقط کلی صورت میں ذکر کئے ہیں اور اس کے مشخصات کو روایات میں بیان کیا گیا ہے عبادات کے سلسله میں قرآن میں کلی طور پر نماز روزه اور حج وغیره کا ذکر کیا ہے اسی طرح معاملات میں کلی طور پر بیع کی حلیت، ربا کی حرمت اور دوسرے معاملات کا ذکر کیا ہے ان تمام موارد میں ان احکام کی کیفیت ،شرائط، اجزاء اور موانع کو روایات میں مشخص کیا جاتاہے اس کے نتیجه میں قرآن کے اطلاقات پرقید لگتی ہے ۔

____________________

۴ نساء ، ۱۱ .---۵ .دعائم الاسلام ،ج۲ ص۳۸۶ ،ح۱۳۷۵ ، مستدرک الوسایل ،ج۱۷ ،ص ۱۴۶ ، ح۲۰۹۹۸

۸۱

دلیل حاکم و محکوم :

دلیل حاکم یه ہے که دلیل محکوم کو نظر میں رکھتی ہے اور دلیل محکوم کے موضوع کو وسعت دیتی یا قید لگاتی ہے۔ دلیل حاکم اگرچه ظاہرا دلیل محکوم کے موضوع پر نظر رکھتی ہے لیکن در واقع موضوع کو وسعت دیے کر یا وسعت کو تنگ کرکے حکم کی نفی یا اثبات کرتی ہے ان مثالوں کی جانب توجه کیجئے :

قرآن نے ربا کو حرام کرتے ہو ئے کها :" :( وَحَرَّمَ الرِّبَا ) "(۱) اب اگر کسی روایت میں آئے“ "لاربا بین الوالد والولد(۲) " یه روایت دلیل حاکم شمار ہوگی اور آیت دلیل محکوم کیونکه دلیل محکوم کیلئے موضوع (ربا) کو که دلیل حاکم (روایت ) کے ذریعه محدود کیا گیا اگر دلیل حاکم بظاہر موضوع ربا کو نفی کررهی ہے لیکن اس سے مراد یه ہے یهاں حرمت ربا کو اٹھالیا گیا اس لئے که حقیقت میں حکم کو قید تو لگا یا گیا لیکن نفی ربا کو اس مورد میں منحصر کیا که جهاں طرفین پدر اور فرزند نه ہو ں ۔

دوسرا دوسری مثال : قرآن نے وضو کو نماز کیلئے شرط قرار دیا اور کها :

"( إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ ) "(۳)

“جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھوؤ ”

. اب اگر کوئی روایت ملے که جس میں کهاجائے :

الطواف بالبیت صلاة ”.(۴)

یهاں پر دلیل حاکم کے ذریعے دلیل محکوم کے موضع (صلاة ) کو وسعت دی گئی اور طواف کعبه کو مصادیق نماز میں شمار کیا گیا لیکن حقیقت یه ہے که شرط طهارت کے حکم وضعی کو غیر نماز کےلئے ثابت کیا گیا دلیل حکومت دلیل کا ملاک یه ہے اگر دلیل محکوم نه ہو تو دلیل حاکم لغو ہوگی –(۵)

. واضح تر یه که جس وقت یه کها جارها ہے که “"الطواف بالبیت صلاة ”" اس کا مفهوم یه ہے که مخاطب نے نماز اور اس کے احکام کو سن رکھا ہے اور اس روایت کا مقصد یه ہے که جو احکام نماز کے ہیں وهی احکام طواف پر بھی جاری ہون ہوں گے نه یه که نماز حقیقت میں طواف کا مصداق ہو ۔

____________________

۱ بقره ، ۲۷۵

۲ وسایل الشیعه، ج۱۳ ، ابواب الربا ، باب ، ۷

۳ مائده ، ۶ .---۴ .عوالی اللئالی ،ج۲ ،ص۱۶۷ ،ح۳ ---۵ رسائل ،فرائد الاصول ، ص۴۳۲

۸۲

دلیل وارد و مورد :

دلیل وارد ، دلیل مورود کےلئے حقیقی مصداق تعین کرتی ہے یا اس کے مصداق کی نفی کرتی ہے جیسے حجیت خبر واحد کے دلائل جو برائت عقلی ( قبح عقاب بلابیان ) پر وارد ہے کیونکه حقیقت میں بیان حکم شرعی کیلئے ہے پس یهاں برائت کی کوئی جگه نهیں –(۶)

یعنی خبر واحد که کسی حکم پر دلالت کررهی ہے اور جس سے بیان الهیٰ حاصل ہو رها ہے ایسی دلیل کے ہوتے ہوئے مکلف قبح عقاب بلابیان سے تمسک نهیں کرسکتا ۔

دلیل مجمل و مبین :

خطاب مجمل یه ہے که خطاب اپنے مقصود پر واضح طور پر دلالت نه کرے اور متکلم کا مقصد اس سلسلے میں روشن نه ہو ۔

مبین اس خطاب کو کهتے ہیں جس کی دلالت واضح و روشن ہو اور نص اور ظاہر کلام سے شامل ہو به عنوان مثال آیت شریفه میں آیا ہے :

( وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُواْ أَيْدِيَهُمَا )

چور مرد اور چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ۔(۷)

لیکن اس آیت میں یه مشخص نهیں ہے که هاتھ کو اس کے کس حصه سے کا ٹاجائے کیونکه انگلیوں کے پورسے لیے کر کاندھے تک کئی جوڑ ہیں اور ان میں سے کسی بھی مفصل کو جدا کرنے سے قطع ید صادق آتا ہے پس یه کلام مجمل ہے یعنی اپنے مقصود کو واضح طور سے بیان نهیں کررها ہے اور قرآن میں کسی اورمقام پر قطع ید کے مصادیق بیان نهیں کئے گئے پس اس آیت کی توضیح و تفسیر و تبین کےلئے روایات کی جانب مراجعه کرنا ہوگا تا که قطع ید کی حد معین ہوجائے پهلی دلیل کو مجمل اور دوسری دلیل کو مبین کهتے ہیں ۔

____________________

۶ رسائل ، فرائد الاصول ، ص۴۳۲

۷ مائده ، ۳۸

۸۳

مفهوم و منطوق :

وه معنا جو بطو ر مستقیم کسی لفظ سے سمجھ میں آئیں اسے منطوق کها جاتاہے اور وه معنا جو بطور مستقیم لفظ سے نه سمجھے جائیں بلکه منطوق کالازمه ہوں اور اس سے اشاره استفاده کیاجائے اسے اصطلاحاً مفهوم کهتے ہیں مثلا جب بھی یه کها جائے که عورت اگر مرد کو جنسی حوالے سے راضی کرے تو نفقه کی حقدار ہے اس کا مفهوم یه ہے اگر عورت نافرمان ہو تو نفقه کا حق نهیں رکھتی ۔

اقسام مفهوم :

مفهوم کی دو قسمیں ہیں ۔

اگر حکم مفهوم و منطوق میں ایک دوسرے کے موافق ہوں ہون تو اسے مفهوم موافق کهاجاتا ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں ،کبھی لفظ مفهوم بر پر اولویت کے ذریعے دلالت کرے تو اسے مفهوم اولویت کهتے ہیں جیسے قرآن میں آیا ہے:

"( فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ ) "(۱)

اس آیهء کریمه میں ماں باپ کو برابھلا کهنا حرام قرار دیا گیاہے کیونکه جب آیت کا منطوق یه ہے که ماں باپ سے ایسی بات نه کرنا جو ان کی ناراضگی کا سبب ہو تو اس کا مفهوم یه ہے که ان کو برابھلا کهنا او رانهیں ر ان سے گالی گلوج کرنا او رانهیں مارنا پیٹنا به درجه ء اولیٰ حرام ہوگا ۔

اور کبھی منطوق و مفهوم بطور مساوی ایک دوسرے پر دلالت کرتے ہیں جیسے قیاس منصوص العله-(۲) کے موارد جیسے یه کها جائے :

“"لاتشرب الخمر لانه مسکر

" انگور کی شراب مت پیو که اس سے نشه چڑھتا ہے ، اس کا مفهوم یه ہے که جو شراب مستی آور ہو حرام ہے

اگر مفهوم کا حکم منطوق کے حکم کے مخالف ہو تو اس مفهوم کو مفهوم مخالف کهتے ہیں اور مفهوم مخالف کی جمله چھ قسمیں ہیں ۔

____________________

۱ اسراء ، ۲۳

۲ .اللباب فی اصول الفقه ، ص ۱۶۰/۱۵۹

۸۴

۱- مفهوم شرط جسیے بیوی کے نفقه کی مثال جو اوپر بیان ہوچکی ۔

۲- مفهوم وصف ۔

۳- مفهوم غایت ۔

۴- مفهوم حصر ۔

۵- مفهوم عد د ۔

۶- مفهوم لقب ۔

حجیت مفاہیم کی بحث د رحقیقت میں وجود مفهوم کی بحث ہے یعنی بحث اس میں ہے که کیا شرط مفهوم رکھتا ہے که یا نهیں تا که اس سے حکم شرعی کو استنباط کیا جاسکے-(۳) یا مفهوم نهیں رکھتا

مفهوم موافق کی حجیت میں کوئی تردید نهیں ، انواع قیاس کی بحث میں اس بات کی توضیح آئے گی لیکن مفهوم مخالف اور اس کی تمام اقسام کے سلسلے میں مفصل مباحث ہیں اور ان میں سے بعض اقسام کے حجت ہونے یا نه ہونے پر دلائل پیش کئے گئے ہیں که جسے اصول کی مفصل کتابوں میں مطالعه کیا جاسکتاہے ۔(۴)

ناسخ و منسوخ :

نسخ یعنی گذشت زمانے کے ساتھ حکم کا اٹھا لینا اسلام میں وقوع نسخ پر تمام مسلمانوں کا تفاق ہے سوره بقرۂ میں صریحا حکم قبله کے نسخ ہونے اور اس کا رخ بیت المقدس سے کعبه کی جانب موڑدیے جانے کے خبردی گئی ہے ، قرآن کی دیگر آیات میں بھی وقع نسخ کی تائید ملتی ہے جیسے یه آیت ،(۵)

"( مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ) "

“ ہم جب بھی کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا دلوں سے محو کردیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس کی جیسی آیت ضرور لے آتے ہیں ”۔

____________________

۳ .انوار الاصول ، ج۲ فص ۲۰

۴ کفایة الاصول، ج۱ ،ص۳۰۰ ، انوار الاصول ،ج۲

۵ .بقره ، ۱۴۲.

۸۵

قرآن میں قرآن کے ذریعه کتنے موارد نسخ کے موارد ہے اسکے سلسلے میں اختلاف ہے بعض فقهاء ومفسرین نے اس کا دائره اتنا وسیع کردیا که تمام تقیید و تخصیص کے موارد کو نسخ قرار دیا ہے اور کسی نے اتنا محدود کردیا که فقط آیهء نجویٰ کے –(۶) ایک مورد کو مصداق نسخ قرآن به قرآن شمار کیا ہے –(۷) ۔

خبر واحد کے ذریعے نسخ کرنا ممکن نهیں :

اکثر علمائے اسلام کانظریه خبر متواتر کے ذریعے نسخ کرنا جائز ہے شافعی علماء او راکثر علمائے اہل ظاہر اسے جائز نهیں مانتے-۸ اور خبر واحد کے ذریعے حکم قرآن کو نسخ کرنا شیعه اور اہل سنت دونوں کے نزدیک ممنوع ہے. کیونکه نسخ ایک اہم او رنادر مسئله ہے اگر نسخ متحقق ہو تو لازم کے ہےکه یه نسخ تواتر اور قرائن قطعیه کے ساتھ ہو بر خلاف تخصیص و تقید کے بر خلاف که ایک امر رائج ہے فقط ایک گروه ہے جس نے ایک صورت کو مستثنیٰ کی ہے اور کها ہے که خبر واحد کے ذریعے حکم قرآن کا نسخ کرنا صرف حیات پیغمبر(ص)میں جائز ہے-(۹) ۔

علامه حلی S نے منتهی میں کها ہے که :دلیل قطعی ( چاہے وه قرآن ہو یا سنت متواتر ) کو خبر واحد کے ذریعے نسخ کرنا جائز نهیں ہےکیونکه دلیل قطعی خبر واحد سے اقوی ہے پس خبر واحد اور دلیل قطعی کے تعارض کی صورت میں دلیل قطعی پر عمل کرنامشخص ہے ۔(۱۰)

حدیث کے ذریعه قرآن کی تخصیص و تقیید کا امکان :

اصولاً قرآن حامل کلیات مسائل وذریعه احکام کے کلی مسائل کا حامل ہےاس لئے جزئیات و شرائط شرائط، قیود و احکام کےلئے رسول(ص)خدا کی جانب سے بیان کرده تفسیر کی جانب رجوع کرنا لازمی ہے مثلا نماز کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے وه کچھ اس طرح ہے که :

"( وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ ) -(۱۱) "( وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ ) "(۱۲) ( حَافِظُواْ عَلَى الصَّلَوَاتِ ) "(۱۳)

___________________

۶ .مجادله ، ۱۲/۱۳ .----۷ البیان ، آیة الله خویی، ص ۴۰۳/۳۰۶ .----۸ الاحکام ، فی الاصول الاحکام ،ج۲،ص۱۳۸ .--۹ روضة الناظر ابن قدامه ،ج۱ ،ص۲۲۸

۱۰ منتهی المطلب ،ج۲ ص۲۲۸ .---۱۱ .بقره ، ۴۳

۱۲ بقره ، ۴۵

۱۳ بقره ، ۲۳۸

۸۶

لیکن اس نماز کے انجام دینے کی کیفیت اور اس کے شرائط اس کے اجزاء و موانع اور مستحبات و مکروهات اسی طرح مقدمات او رهزار فروع دیگر که جیسے آیات کے ذریعے حاصل نهیں کیا جاسکتا اگرچه بعض جزئیات کا ذکر ملتاہے جیسے ۔

"( إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ ) "

“جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوںکو دھوؤ اور اپنے سر اور گٹّے تک پیروں کا مسح کرو –(۱۴) ۔

اسی طرح اور بھی آیات که جس میں بعض جزئیات نماز کا ذکر ملتاہے لیکن اس کل کے باوجود وضو اور نماز کے کئی جزئی مسائل ہیں که جسے صرف روایات کی مدد کی روسے ہی حل کیا جاسکتاہے ۔

اسی بنیاد پر یه بحث پیش کی جاتی ہے که کیا خبر واحد کے ذریعه قرآن کے عموم واطلاق و تخصیص یا تقیید لگائی جاسکتی ہے ۔ اگثر فقهائے اسلام نے خبر واحد کے ذریعه تخصیص و تقیید کو ممکن جاناہے صرف اہل سنت کے ایک مختصر گروه نے اسے ممنوع قرار دیاہے ، قاضی ابوبکر باقلانی نے اس مسئله میں توقف کیا اور بعض تفصیل کے قائل ہیں جن میں عیسی ابن ابات نے کها: اگر قرآن کا حکم عام دلیل قطعی ( یعنی قرآن خبر متواتر اور دلیل عقلی قطعی وغیره ) کےذریعه تخصیص پاچکا ہو تو ایسے حکم کو خبر واحد کے ذریعے تخصیص دینا جائز ہے و رنه جائر جائز نهیں ہے،-(۱۵) که خبر واحد کے ذریعه تخصیص و تقید قرآن کے جواز کے بارے میں کها جاسکتاہے که :

بعض آیات میں پیغمبر (ص)کو مبین قرآن م سےتعارف کرایا گیا ہے جیساکه ارشاد ہے :

"( وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ) "

“ آپ کی طرف بھی ذکرکو(قرآن)نازل کیا ہے”-(۱۶)

___________________

۱۴ مائده ، ۶

۱۵ الاحکام ، فی اصول الاحکام ،ج۱ ،ص۵۲۵

۱۶ نحل ، ۴۴

۸۷

یه آیات قرآنی کی تبین و تفسیر میں سخن پیغمبر(ص)کی حجیت پر دلیل ہے چاہے سخن پیغمبر خبر متوا تر کی صورت میں ہو با خبر واحد کی صورت میں چاہے آپ کیا سخن قرآن کے متشابهات قرآن کی تفسیر ہو یا ظواہر قرآن کی تفسیر یں، ہر صورت میں آپ کا قول حجت ہے آپ کی جانب سے لگائی گئی تخصیص و تقیید بھی ایک طرح کی تبیین و تفسیر ہے ۔. اہل بیت کا بیان اور آپ حضرات تفسیر و تبیین پیغمبر سے ملحق او رمعتبر ہیںے ۔ اس الحاق و اعتبار کی دلیل حدیث ثقلین اور دیگر احادیث ہیں اس کے علاوه خود اہل بیت علیهم السلام نے صریحاً کها ہے که ہم جوکچھ بھی کهتے ہیں پیغمبر کی جانب سے کهتے ہیں-(۱۷) اصحاب پیغمبر کی سیرت اور سیرۂمسلمین اس لئے حجت ہے که وه احکام کی جزئیات اور تفصیلات کو ان موثق افراد سے لیتے تھے که جسے پیغمبر سے نقل کیا گیا ہو یهاں پر دو سوال اٹھتے ہیں ۔

۱- قرآن حجت قطعی ہے اور بدون تردید خدا کی جانب سے نازل ہوا ہے ۔. لیکن خبرو احد تو حجت قطعی ہے اور دلیل قطعی کو غیر قطعی دلیل کے ذریعے مقاائسه کرنا عقلاً جائز نهیں ہے اسی لئے خبر واحد کی وجه سے قرآن کے اطلاقات و عمومات سے هاتھ اٹھا لینا صحیح نهیں ہے ۔

جواب :

اس سوال کا جواب یه ہے که قرآن صدور کے لحاظ سے قطعی ہے لیکن دلالت کے لحاظ سے اس کے عمومات و اطلاقات قطعی نهیں ہیں او راس کی حجیت صرف اس وقت ہے جب حجیت ظواہر کے خلاف کوئی قرینه موجود نه ہو ۔

۲- یه بات پهلے گذرچکی که ( عرض حدیث بر کتاب )والی روایات اقتضا کرتی ہیں جوکچھ قرآن کے خلاف ہو اسے دور هٹادیاجائے پس اگر خبر واحد عموم قرآن کو تخصیص دیتی ہے یه تخصیص قرآن کے خلاف ہے پس ایسی خبرواحد کو چھوڑدیاجانا چاہیے ۔

جواب:

یه ہے که عرف عقلامیں دلیل خاص کو ، دلیل عام کےلئے مخالف و معارض نهیں شمار کیا جاتا بلکه ایسی دلیل کو مبین قرآن اور قرینه شمار کیاجاتاہے اسی لئے جهاں کهیں بھی دو دلیلوں کے در میان عموم و خصوص کی نسبت ہو وهاں پر باب تعارض کے قواعد کو اجرا نهیں کیا جاتا کیونکه ان دلائل کو ایک دوسرے کا معارض شمار نهیں کیا جاتا ۔

____________________

۱۷ کافی ،ج۱ ،ص۵۳

۸۸

اجماع :

اجماع استنباط احکام کی تیسری دلیل ہے یه دلیل اہل سنت کے نزدیک بهت زیاده اہمیت کی حامل ہے ان کی نظر میں خلافت کی مشروعیت کا تعلق اجماع کی مشروعیت پر ہے اس سے پهلے "ترتیب منابع استباط " کی بحث میں ابن تیمیه سے نقل کیا جاچکا ہے که وه دلیل جو مجتهد کو دیگر تمام ادله سے بے نیاز کرتی ہے یهاں تک که کتاب و سنت بھی اس دلیل کی وجه سے منسوخ کی جاسکتی ہیں یا ان کی تأویل کی جاسکتی ہے وه دلیل اجماع ہے ۔

ابن تیمیه کا کهنا ہے :

اہل سنت کے نزدیک اجماع کی اہمیت کی وجه ہی سے انهیں "اہل سنت و الجماعت " کها جاتا ہے –(۱)

لیکن مذهب اہل بیت علیهم السلام کے فقهاء اجماع کے سلسلے میں اہل سنت سے جدا کچھ او رنظریه رکھتے ہیں اہم ابتدا ء میں ا هل سنت کی دلیلوں کو مختصر طور سے بیان کرنے کے بعد اجماع کے سلسلے میں مکتب اہل بیت علیهم السلام کی انظر بیان کریں گے۔(مترجم)(۲)

اجماع اہل سنت کی نظر میں :

اہل سنت نے اجماع کی مختلف تعریفیں کی ہیں بعنوان مثال اجماع یعنی " امام امت اسلامیه کا کسی مسئله پر اتفاق" اہل حل وعقد کا اتفاق –(۳) یا رحلت پیغمبر (ص)کے بعد تمام مجتهدین کا اتفاق-(۴) یا رحلت پیغمبر (ص)کے بعد امت محمد(ص)کے ہم عصر مجتهد ین کا دینی امور میں کسی ایک امر پر اتفاق –(۵) یا اہل حرمین کا متفق ہونا-(۶) ۔

لیکن سوال یه ہے که آخر اجماع او رحکم الهیٰ میں یه کونسا ربط او رکیسا تلازم ہے ؟ کسی طرح بعض یا تمام افراد کا کسی حکم میں اتفاق نظر رکھنا اسے حکم الهیٰ ثابت کرتا ہے ؟ کتاب و سنت کے ہوتے ہوئے اسے مستقل منبع استنباط شمار کرنا بلکه اجماع کو قرآن وسنت سے بالاتر سمجھنا کهاں تک صحیح ہے ؟ کیا یه ممکن ہے ؟ اور ایسے اجماع کی حجیت پر کیا دلیل ہے؟ اہل سنت نے اجماع کو ایک مستقل دلیل کے عنوان سے اس کی حجیت پر مختلف دلیلیں پیش کی ہیں ان دلائل کا خلاصه یه ہے که قرآن حدیث دونوں سے اجماع کی حجیت ثابت ہے ۔

____________________

۱ مجموع فتاویٰ ، ابن تیمیه ،ج۲ ،ص ۲۴۶

۲ (مترجم)--- ۳ المستصفی ، ج۱ ،ص ۱۷۳ ۳ الاحکام ،ج۱ ،ص۲۵۴ .---۴ تفسیر فخررازی، ج ۹ ، ص ۱۵۰

۵ المهذب ، فی اصول الفقه ، المقارن ،ج۲،ص ۹۰۰ .---۶ انوار الاصول ، ج ۲ ، ص ۳۹۳

۸۹

۱۰- اجماع :

اجماع کی تعریف :

لغت میں اجماع عزم و اراده محکم کو کهتے ہیں جیسا که آیه( قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ والأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللّهُ فَقُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَ ) (۱) اور آیه( ذَلِكَ مِنْ أَنبَاء الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُواْ أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ ) (۲) میں آیاہے اور کبھی اجماع اتفاق رای کے معنی میں آیا ہے جسے اس آیه شریفه میں آیاہے که:( فَلَمَّا ذَهَبُواْ بِهِ وَأَجْمَعُواْ أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ وَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَـذَا وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ ) “یہ طے کرلیا کہ انہیں اندھے کنویں میں ڈال دیں”(۳) لیکن اجماع کے اصطلاحی معنی میں ایسا اختلاف پیدا ہوگیا که اس کی جامع تعریف پیش کرنا ممکن نهیں ہے سوائے اس کے که ہم کهیں اجماع یعنی ایک خاص قسم کا اتفاق جو حکم شرعی کے لئے دلیل بن سکے لیکن یه کن افراد کا اتفاق اجماع میں خصوصیت پیدا کرتاہے جو حکم شرعی کے لئے دلیل بن سکے اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں

۱- سارے امت اسلامی کا تفاق

۲- زمانے میں اس زمانے کے مجتهدین کا اتفاق

۳- اہل مکه اور مدینه کا اتفاق

۴- خلفای راشدین کا اتفاق

۵- اہل مدینه کا اتفاق

۶- شیخیں یعنی ابوبکر، عمر کا اتفاق

۷- اس گروه کا اتفاق جس میں کوئی ایک معصوم ہو

ان اقوال کے پیش نظر اجماع کی حجیت کے اقوال بھی مختلف ہیں اور اس اختلاف کا واضح اثر شیعه فقهاء کی پیش کرده تعریف سے آشکار ہے

____________________

۱- ۱ سوره یونس ، آیه ۷۱.

۲ سوره یوسف ، آیه ۱۰۲

۳ سوره ،یوسف، آِیه ۱۵

۹۰

صاحب معالم R اجماع کی تعریف میں کهتے ہیں :

الاجماع فی الاصطلاح اتفاق خاص وهو اتفاق من یعتبر قوله من الامه

علامه حلی R تهذیب الاصول میں لکھتے ہیں :

الاجمعاع و هو اتفاق اهل الحل و العقد من امة محمد

صاحب قوانین R کا کهنا ہے :

الاجماع هو اجماع جماعت یکشف اتفاقهم عن رای المعصوم

اور شهید صدر فرماتے ہیں :

الاجماع اتفاق عدد کبیر من اهل النظر والتقوی فی الحکم بدرجه توجب احراز الحکم الشرعی

آخری دو تعریفوں کی خصوصیات ہماری مدنظر ہے جو آنے والی مباحث کے دوران آشکار ہوں گی .(مترجم)

حجیت اجما ع پر قرآنی دلیل :(۱) مترجم)

اہل سنت کے نزدیک قرآن قرآں کی کئی آیتیں اجماع کی حجیت پر دلالت کرتی ہیں جیسے سوره نساء میں خداوند عالم ارشاد فرماتاہے ۔

"( وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًا ) "

“اور جو شخص بھی ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول سے اختلاف کرے گا اور مومنین کے راستہ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے گا اسے ہم ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ پھر گیا ہے اور جہّنم میں جھونک دیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے”-(۲) ۔

اس آیت سے وه استدلال کرتے ہیں جس طرح مخالفت پیغمبر (ص)عذاب کا سبب ہے اسی طرح سبیل مؤمنین کو چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلنا بھی عذاب کا باعث بنے گا اگر ایسا نهیں ہے تو پیغمبر کی مخالفت کے ساتھ مخالفت مؤمنین کاذکر بے مقصد و بے نتیجه ہوگا ۔

____________________

۱ .( مترجم)

۲ نساء ، ۱۱۵

۹۱

ان کی دوسری قرآنی دلیل اسی سوره کی آیت نمبر ۵۹ میں ہے جس میں ارشاد رب العزت ہے که :

"( فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ ) "

“پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو ”-(۳)

. اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کهتے ہیں :

اس آیت کا مفهوم یه ہے که جب مسلمانوں میں اتفاق نظر ہو اور کسی قسم کا نزاع ان کے درمیان نه ہو تو خدا و ر رسول کی جانب رجوع کرنا لازم نهیں پس اس کا مطلب یه ہے ان موارد میں اجماع ہی حجت ہے اور یهی حجیت اجماع کے معنیٰ ہیں-(۴) ۔

.۱۱- حجیت اجماع پرقرآن سے دلیل :

حجیت اجماع پر جودلیلیں پیش کی گئی ان پر قرآن کی سوره نساء کی ایک سوچوده آیتیں ہیں جس کے بارے میں : ابوحامد غزالی نے کها ہے که یهاں مؤمین کی متعابعت سے مراد تمام امور میں بطور مطلق اطاعت واجب ہے بلکه مؤمنین کی متابعت پیامبر کی متعابعت کاہی ادامه ہے اور اس وجه سے واجب ہے

دوسری دلیل : سوره بقره کی ایک سوتنتالیس ویں آیت ہے :

( وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ )(۵) “اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی اُمت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو”

____________________

۳ نساء ، ۵۹ .کشاف ، ج۱ ،ص۵۶۵؛ احکام القرآن حصاص ،ج۲ ،ص ۳۹۶

۴ الاحکام فی اصول الاحکام ،ج۱ ،ص ۱۹۸

۵-. سوره بقره ، آیه ، نمبر ۱۴۳

۹۲

صورت استدلال :

امت وسط یعنی وه امت جو اہل خیر وعدالت ہے اور اسی امت سے حق کے علاوه کچھ امید نهیں کی جاسکتی اس لئے ان کا اجماع قطعا حجت ہوگا

شافعی کی جانب نسبت دی گئی ہے که اس نے بھی اس آیت سے اجماع پر استدلال کیا ہے

استدلال کا جواب :

واضح ہے که اہل عدالت اور اہل خیر سے بھی خطا سرزد ہوسکتی ہے چاہے وه تنها ہوں یا باہم اتفاق رکھتے ہوں.

تیسری آیت سوره آل عمران کی ایک سودسویں آیت ہے:( كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ ) (۲) “تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو”

صورت استدلال :

امت اسلامی بهترین امت شمار ہوتی ہے اور یه اس بات کی دلیل ہے که یه امت خطا سے دور ہے

جواب :

امت اسلامی کی برتری امربالمعروف و نهی از منکر کے فریضه کو انجام دینے سے ہے اس سے اجماع کی عصمت ثابت نهیں ہوتی یه آیات مهم ترین آیات تھیں جو ممکن ہے بعض کے نزدیک اجماع کی حجیت کے لئے مستقل منبع ہو لیکن جیساکه اہل سنت بھی اعتراف کرتے ہیں ان میں سے کوئی آیت اپنے مدعی کے اثبات کے لئے کافی نهیں ہے.(مترجم)

____________________

۲ سوره آل عمران ، آیه ۱۱۰

۹۳

حجیت اجماع پر روایی دلیل :

اہل سنت سنن ابن ابی ماجه کی ایک مشهور و معروف روایت کو حجیت اجماع کے اثبات میں پیش کرتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم (ص)کا ارشادهے ۔

ان امتی لاتجتمع علی ضلالة ”.(۱)

“بے شک میری امت گمراہی پر جمع نهیں ہوسکتی ” ۔

ایک اور نقل کے حساب سے آیا ہے که آپ نے فرمایا:

سئلت الله ان لایجمع امتی علی ضلالة فاعطانیها ”۔(۲)

“میں نے خدا سے دعا کی که میری امت گمراہی پر جمع نه ہو خدانے میری اس دعا کو مستجاب قرار دیا”۔

ان دو احادیث سے انهوں نے حجیت اجماع پر استدلال کیا ہے ۔

مخالفین اجماع کا جواب :

لیکن مخالفین اجماع نے اس سے مستقل دلیل ماننے سے انکار کرتے ہوئے مذکوره تمام دلائل کو مورد تنقید و قرار دیا ہے اور کها ہے که پهلی آیهء کریمه میں مخالفت پیغمبر اور سبیل مؤمنین سے انحراف کی جانب اشاره دو چیزکی جانب اشاره نهیں ہے بلکه راہ مؤمنین سے انحراف اسی مخالفت پیغمبر کی تاکید ہے پس مؤمنین کا راسته کوئی مستقل چیز نهیں ہے کیونکه مؤمنین اسی راسته کو چاہیئے تھےهے جسے پیغمبر (ص)نے بتایا تھا ( یهی جواب غزالی کی کتاب المستصفی میں بھی ملتاہے)-(۳)

اس کے علاوه راہ مؤمنین سے هٹ کر کسی اور راستے پر چلنے سے مراد اسلام و امکاناس کے ارکان کا انکار ہے پس اس آیت کا ربط فقه کے ضروری مسائل سے بالکل بھی نهیں ہے ۔

اگر فرض کرلیا جائے که یه تمام دلائل صحیح ہیں تب بھی قرآن کی رو سے اجماع صرف اس صورت میں حجت ہے که تمام مسلمان بغیر کسی استثناء کے ایک راسته کا انتخاب کریں اور یه چیزوه نهیں جو فقیه کی مشکل حل کرسکے ۔

____________________

۱ وهی مدرک ( سنن ابن ماجه ) ج۲ ،ص ۱۳۰۳

۲ ہمان مدرک ،

۳ المستصفی ،ص۱۳۸

۹۴

رهی بات دوسری آیت کی تو اس آیت میں دستور دیا جارها که اختلاف میں فیصله کو الله اور پیغمبر کے حوالے کردو اور ان سے انصاف چاہو ظاہر ہے که اس مطلب کا فقهی مسائل سے کوئی ربط نهیں ہے ۔

اس کے علاوه اگر اس آیت کی دلالت کو حجیت اجماع کےلئے مان بھی لیاجائے تب بھی یه آیت اس اجماع کا ذکر کررهی ہے جس میں تمام مؤمنین شریک ہوں .لیکن روایت کے سلسلے میں بعض محدثین نے اعتراض کرتے ہوئے کها که اس روایت کی سنت ضعیف ہے اس مطلب کی تفصیل شرح (نووی) جو که صحیح مسلم کی شرح ہے ملے گی-(۱) ۔

روایت کی سند کے علاوه اس کی دلالت میں بھی اشکال ہے کیونکه ضلالت وگمراہی غالبا اصول دین میں انحراف کےلئے استعمال ہوتے ہیں لهذا یه تعبیر اس فقیه کےلئے جو کسی فقهی مسئاله مسئله میں خطاب کاشکار ہے استعمال نهیں ہوتی یه کوئی نهیں کهتا که وه فقیه ضلالت کے راستے پر گامزن ہے ۔

اگر سند ودلالت کے اشکالات سے صرف نظر کریں تب بھی حجیت اجماع و هاں ثابت ہے که جهاں ساری امت کسی امر پر اتفاق نظر رکھتی ہو اور یه مطلب اجماع کی مذکوره تعریفات کے خلاف ہےجیسے کها گیا که اجماع سے مراد اہل مدینه کا یا اہل حل وعقد کاا تفاق ہے ۔

البته علمائے امامیه کهتے ہیں که اگر کسی مسئله پر ساری امت کا اتفاق ہو تو یه اجماع حجت ہے کیونکه وه معصوم کو کا امت کا جزء مانتے ہیں اور امت کی برترین فرد مانتے ہیں یهاں تک که علمائے امامیه کے اجماع کو رائے معصوم کےلئے کاشف مانتے ہیں ۔

اجماع امامیه کی نظر میں :

مسلک امامیه کی نظر گذشته مطالب سے واضح ہوچکی ہے که ان کی نظر میں اجماع ، حکم شرعی کےلئے مستقل دلیل نهیں بن سکتی مگریه که اجماع رائے معصوم کی کاشف ہو یعنی رائے ونظر معصوم کو کشف کرتی ہو اس لئے که ۔

اولا : تمام فقهاء امامیه بالاتفاق خود کو ائمه علیهم السلام کے پیروکار جانتے ہیں اور کبھی بنا بغیردلیل کے بات نهیں کرتے پس اسکا مطلب یه ہے که وه ہر بات امام کی رائے کے مطابق کرتے ہیں پس فقهاء کا اجماع بھی رائے معصوم کا کاشف ہوگا ۔

ثانیا: فقهاء کے اجماع سے فقیه کو رائے معصوم کا یقین کی حدتک گمان پیدا ہوجاتا ہے کیونکه جب ایک فقیه کا فتویٰ دوسرے فقیه کےلئے حکم شرعی کا گمان پیدا کرتا ہے تو بھلا تمام فقیهوں کا فتویٰ کیسے یقین آور نه ہوگا ۔

____________________

۱ شرح صحیح مسلم ، نووی ، ج۱۳ ، ص ۶۷

۹۵

ثالثا: جهاں کسی حکم پر کوئی مدرک ( یعنی دلیل شرعی یا اصل ) ہمارے پاس نه ہو ایسے مقام پر علماء کا اجماع علماء اس بات کی دلیل ہے که ان کے پاس اس حکم کی کوئی معتبر دلیل ہے اور اس سے معلوم ہوتاہے که فقها نے اس حکم کو بلا واسطه یا ان وسائط سے جو ہم تک نهیں پهنچے امام معصوم علیهم السلام سے لیا ہے ۔یهاں تک بعض دانشمند سابقه فقهاء کے درمیان کسی مسئله کی شهرت کو اسی اجماع کے ذریعه حجت شمار کرتے ہیں اس بات کی طرف توجه ضروری ہے که اگر علمائے امامیه اس اجماع کو اجماع حدسی سے تعبیر کرتے ہیں اس کا مطلب یه نهیں ہے که یهاں حدس به معنای ظن وگمان ہو بلکه یهاں حدس سے مراد یه وه علم ویقین ہے جو حس اور ائمه علیهم السلام کے مشاہده سے حاصل نهیں ہوا بلکه علماء کے اجماع سے حدس یقینی پیدا ہوا ہے ۔

دلیل عقل :

استنباط کا چوتھا منبع اور چوتھی دلیل اجمالی طور پر سبھی کےلئے مورد اتفاق ہے دلیل عقل ہے اگر چه دلیل عقل کے بارے میں فقهائے اسلام کا موقف یکسان یکساں نهیں ۔ مترجم(۱)

توضیح مطلب :

اہل سنت کے درمیان استباط کے دو نمایاں شیوه پائے جاتے ہیں جسے اصحاب حدیث اور اصحاب رائے کے عنوان سے ایک دوسرے سے جدا کیا جاسکتاہے ۔

یه دو گروه ایک دوسرےکےشیوۂ اسنتباط اور روش ومسلک کو غلط جانتے ہیں ہر ایک دوسرے مسلک کو باطل کرتا اور ایک دوسرے کو سرزنش کرتا نظر آتا ہے ۔

گروه اول : اصحاب حدیث :

اصحاب حدیث کے نزدیک استنباط میں اصلی تکیه گاہ ادله نقلی ہیں –(۲) خاص طور سے حدیث ، سلف صالح کی سیرت اور قول صحابه ( البته سیرت وقول صحابه کو حدیث ہی کی جانب لوٹا یا جاتا ہے )

دوسرا گروه : اصحاب رائے :

اس گروه کا خیال ہے که فقهی نیاز مندیوں کےلئے احادیث کی مقدار کم ہے اور تما م مسائل کی جواب دهی کے لئے ناکافی ہے اس لئے کوئی چاره نهیں سوائے یه که ہم استنباط احکام میں کتاب و سنت کے علاوه دوسری دلیلوں پر بھی تکیه کریں ۔

____________________

۱ .( مترجم)

۲ تاویل مختلف الحدیث ، ص ۵۱

۹۶

کها جاتا ہے که ابو حنیفه کے نزدیک رسول خدا (ص)سے روایت شده احادیث میں صرف ۱۷ حدیثیں قابل اعتماد تھیں –(۳) اسی لئے ا ن کے نزدیک ادله احکام او رمنابع استنباط چار ہیں ۔

۱- کتاب

۲- سنت

۳- اجماع

ان تین منابع کے بعد چوتھی دلیل اور منبع قیاس ہے-(۴) اسی کو بعض نے قیاس و اجتهاد-(۵) تو کسی نے العقل و استصحاب سے تعبیر کیا ہے-(۶) ہماری نظر میں اہل سنت دلیل عقلی کو قیاس اور استحسان وغیره کا مترادف مانتے ہیں-(۷) ُ

اہل سنت نے اصول فقه میں عقلی مسائل کو تحلیلی او رمنظم طریقه سے پیش نهیں کیا جب که یه مباحث استنباط میں دخیل ہیں متاخرین شیعه نے جن عقلی مباحث کو اپنی اصول کی کتابوں میں منظم اور مرتب طریقه سے یپش کیا اور وسیع پیمانه پر ان کی چھان بین کی وهی مطالب مختصر اور پراکنده طور پر اہل سنت نے اپنی اصول کی کتابوں میں بیان کیئے ہے مثال کے طور پر وه بھی حسن و قبح افعال کا حسن اور قبح ہونا اصل اباحه وجوب مقدمه واجب اجتماع امر ونهی کا محال ہونا یا سقوط حرج از خلق سے حرج کا ساقط ہونا اور سقوط تکلیف از عاجز سے تکلیف کا ساقط ہونا عاجز وغیره ہے یا غافل و ناسی کا مکلف ہونا محال ہے اس قسم کے عقل مباحث عقل ان کی کتابوں میں پراکنده طور پر پائے جاتے ہیں ان کی کتابوں میں ہمیں یه عبارات ملتی ہیں:

۱-المعتزله یقولون بحسن الافعال و قبحها

۲-جامعة من المعتزله یقولون بان الافعال علی الاباحه

۳-مالایتم الواجب الابه هل یوصف بالوجوب

۴-یحتمل ان یکون الشئی واجبا و حراما

۵-استحالة تکلیف الغافل و الناسی

____________________

۳ تاریخ ابن خلدون ،ج۲ ، ص۲ ، ص ۷۹۶ ، فصل ششم علوم حدیث .---۴ فواتح الرحموت ، ج۲ ، ص ۲۴۶ ، المذهب فی اصول الفقه المقارن ، ج ۲ ، ص ۹۵۶

۵ المعتمد فی اصول الفقه ، بصری معتزلی ،ج ۲ ، ص ۱۸۹

۶ المتصفی ، ج ۱ ، ص ۲۱۷ .---۷ للددله العقلیه و علاقتها بالنفطیه

۹۷

دلیل عقلی فقهی منابع میں سے ایک منبع :

شیعوں کے نزدیک دلیل عقلی اہل سنت کی دلیل قیاس سے الگ ہے کیونکه قیاس دلیل عقلی تو ہے لیکن ظنی ہے اور شیعوں کے نزدیک دلیل عقلی فقط قطعی میں منحصر ہے دلیل عقلی کے تاریخچه سے پته چلتاہے که فقیه کے نزدیک یه دلیل لفظی یا اصول عملی سے بالکل الگ ہے بلکه فقهاء تو عقل کو ایک دلیل عام مانتے ہوئے اس سے کبھی مباحث الفاظ کے ضمن میں تو کبھی قیاس و استصحاب کے ضمن میں کام لیتے ہیں

شیخ مفید (رح)م۴۱۳ ھ اپنے مختصر اصولی رساله میں کتاب وسنت رسول(ص) و ائمه معصومیں علیهم السلام کو اصول احکام شمار کرتے ہیں اور عقل کو ان اصول تک پهنچنے کا راسته بتاتے ہیں

شیخ مفید (رح) کی بات سے یه سمجھ میں آتاہے که فقهی منابع صرف کتاب اور سنت رسول اور سنت ائمه معصومیں ہیں اور عقل کا شمار فقهی منابع میں نهیں ہوتا بلکه اس کی حیثیت صرف ان منابع کو کشف کرنے کی حدتک ہے

شیخ طوسی م۴۶۰ ھ عدۀ الاصول میں عقل کے بارے میں فرماتے ہیں که شکر منعم محسنات عقلی اور ظلم و کذب عقلی قباحتوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن عقل کا حکم شرعی کے لئے دلیل واقع ہونا یه بات ان کے کلام سے واضح نهیں ہوتی

ابن ادریس م۵۹۸ھ۵شاید وه پهلے فقیه امامی ہیں که جنهوں نے کامل صراحت کے ساتھ عقل کو کتب و سنت کی صف میں شمار کرتے ہوئے اسے منابع فقهی کا جز شمار کیا ہے لیکن انهوں نے سرائر کے مقدمه میں دلالت عقل اور اس کی حجیت کے دائره کے بارے میں کوئی بات نهیں کی

محقق حلیم۶۷۶ھ نے اپنی کتاب المعتبر میں دلیل عقلی کی دوقسمیں بیان کی ہے

ایک وه دلیل جو مستقلات عقلی سے مربوط ہے جیسے عدل کی اچھائی اور ظلم کی قباحت

دوسری دلیل نقل الفاظ و مفاہیم کے باب سے مربوط ہے البته ان کی تقسیم بندی بهت زیاده اہمیت کی حامل ہے

شهید اول (رح)م۷۸۶ھ نے بھی کتاب ذکری کے مقدمه میں محقق حلی کی ان دوقسموں کو نقل کرنے کے بعد مسئله ضد اور مقدمه واجب منفعت میں جاری اصل اباحه اور حرمت مضار کو پهلی قسم میں شمار کیا اور برائت اصلی و استصحاب کو دوسری قسم میں ،یهاں بھی ملاحظ کیا جاسکتاہے که دلیل عقلی کے مصادیق کی تشخیص میں اشتباہات ہوئے ان کی توضیح بعد میں آئے گی در کتاب صاحبمعالم(رح)۱ ۱۰۱۱ھ دلیل عقل کے بارے میں کوئی قابل توجه بات نهیں سنی گئی.

۹۸

فاضل تونی (رح)م۱۰۷۱ھ سب سے پهلے شخص ہیں که جنهوں نے تفصیل کے ساتھ دلیل عقل کی بحث کو چھیڑا اور اسے سات قسموں تک پهنچا یا انهوں نے مستقلات عقلیه اور مستقلات غیر عقلیه کو بطور کامل ایک دوسرے سے جدا کیا اور حکم شرعی میں عقل کی دلالت کو پهلی اور دوسری قسم میں اچھی طرح توضیح دی .اس طرح کها جاسکتاہے که ان کے بعد دلیل عقلی کی بحث کامل طور پر واضح ہوئی فاضل تونی (رح) اخباریوں کے عروج کے دور سے گذررهے تھے اور دیکھ رهے تھے که اخباریوں کی جناب سےعقل کے خلاف اور احکام شرعی میں عقل سے کام لئے جانے پر شدید اعتراضات ہورهے ہیں جس کی وجه دلیل عقلی کے بارے میں وه ابهامات ہیں جو شیعه دانشمندان کے بیان میں پائے جاتے ہیں اسی لئے فاضل تونی (رح) کی جانب سے الوافیه میں اعلی سطح پر بیان شده مباحث عقل کے لئے داد دینا چاہئیے کیونکه انهوں نےکافی حدتک بحث عقلی کے ابهامات کو بر طرف کیا

فاضل تونی (رح) کے بعد میرزقمی (رح)م۱۲۳۱ ھ نے قوانین الاصول میں اور صاحب حدائق نے اپنے مقدمه میں دلیل عقلی کوبیان تو کیا لیکن اس کے بارے میں دل پر بحث نهیں کی اورشیخ انصاری R و آخوند خراسانی(رح) نے بھی اپنی کتابوں میں کوئی نیاباب اس مسئله میں نهیں کھولا بلکه متقدمین کی روش پر مستقلات غیر عقلیه کے اکثر مباحث کو الفاظ کے باب میں داخل کردیا

شیخ محمد حسین اصفهانی (رح)م۱۲۵۰ھ نے الفصول الغرویه میں دلیل عقلی میں مستقل باب کھول کر اس پر سیر حاصل بحث کی ہے

سب سے بهترین کتاب که جس میں دلیل عقلی کی بحث کو بخوبی بیان کیاگیا وه مرحوم محمدرضا مظفر(رح) کی اصول مظفر ہے وه متقدمین کے آثار کے درمیان کتاب المحصول اثر سید محسن اعراجی کاظمی م۱۲۲۷ ھ میں بیان شده مباحث عقلی اور خود مرحوم مظفر(رح) کے شاگرد شیخ محمد تقی اصفهانی (رح) م۱۲۴۸ ھ نے جو مباحث معالم الدین کے حاشیه میں موسوم جو ہدایۀ المسترشدین میں پیش کئے ہیں انهیں بهتر اور لائق تحسین جانا ہے اصول مظفر کے بعد حلقات الاصول میں شهید صدر (رح)نے ادله عقلی کو بهترین انداز میں پیش کیا پھر بھی مستقلات عقلیه سے مربوط مباحث مرحوم مظفر کی کتاب میں زیاده روشن ہیں اور شهید صدر (رح) کا کمال مستقلات غیر عقلیه کے باب کے باب میں بے نظرهے

۹۹

دلیل عقلی کی تعریف :

دلیل عقلی کی دقیق تعریف بھی علم اصول کے تکامل کا نتیجه ہے البته دلیل عقلی کی ابھی کوئی مشهور جامع تعریف نهیں پیش کی گئی اسی لئے یهاں دلیل عقلی کی اہم ترین تعریف پر اجمالی طور پر نظر ڈالتے ہیں او ران کی خصوصیات میں وارد ہوئے بغیر فقط تعریف پر اکتفا کرتے ہیں.

قوانین الاصول میں میرزا ی قمی کی تعریف :

هو حکمی عقلی یوصل به الی الحکم الشرعی و ینتقل من العلم بالحکم العقلی الی العلم بالحکم الشرعی ”.

تعریف صاحب فصول :

کل حکم عقلی یمکن التوصل بصحیح النظر الی حکم شرعی

تعریف مرحوم مظفر :

کل حکم للعقل یوجب القطع بالحکم الشرعی او کل قضیة یتوصل بها الی العلم القطعی بالحکم الشرعی ”.

ان مذکوره تعریفوں میں آخری دو تعریفین ہماری توجه کا مرکز ہیں

عقل کے با ب میں تشیع کا مسلک تشیع د اور موقف با ب عقل :

ابتداء میں لازم ہے که فقهائے اہل بیت علیهم السلام کے ردمیان عقلی مباحث کا تاریخچه او راس کے سیر و تحول پر سرسری نگاہ ڈالی جائے پھر اس سلسلے میں شیعوں کی آخری تحقیقات کو پیش کیا جائے ۔

بعض متقدمین نے دلیل عقلی کی بحث کو پیش ہی نهیں کیا اور جنهوں نے پیش کیا ہے :

اولا : ان کی عبارات میں ابهام پایا جاتاہے اور یه مشخص نهیں ہو جاتا که آخر استنباط میں عقل کا مقام اور اس مقام کیا ہے کیونکه بعض متقدمین عقل کو قرآن وسنت کے سمجھنے کا ذریعه ارور بعض دیگر منابع ا ستنباط کی طرح اسے مستقل منبع استنباط قرار دیتے ہیں –(۱) مگر اس شرط کے ساتھ که عقل ،کتاب و سنت و اجماع کے طول میں ہو نه که عرض میں یعنی جب مذکوره تین دلیلیں مفقود ہوں تب دلیل عقل کی نوبت آتی ہے-(۲) ۔

____________________

۱ اوائل المقالات شیخ مفید ، ص۱۱، کنزالفوائد کراجکی ،ص ۱۸۶

۲ .سرائر ابن ادریس ، ص۲

۱۰۰

ثانیا : یه که متقدمین نے دلیل عقلی کے مشخص و مصادیق پیش نهیں کیے اسی لئے بعض نے اسے برائت اور بعض نے اسے استصحاب سے تعبیر کیا ہے اور بعض نے صرف استصحاب میں منحصر مانا ہے

دهرے دھیرے دهرے دھیرے آنے والے قرنوں میں یه بحث کافی حدتک ساف ستھره اور روشن انداز میں پیش کی گئی اور دلیل عقلی کو دو اساسی قسموں میں تقسیم کیا گیا :

۱- وه دلیل جو شارع کی جانب سے کسی خطاب پر متوقف ہو اسے لحن الخطاب ، فحوی الخطاب اور دلیل خطاب میں منحصر جاناگیا ہے ۔

لحن الخطاب یعنی عقل کا الغائے خصوصیت پر دلالت کرنا ۔

فحوی الخطاب یعنی مفهوم اولویت ۔

دلیل الخطاب یعنی مفهوم مخالف ۔

۲- دلیل عقل کی دوسری قسم وه موارد ہیں که جهاں عقل کسی خطاب اور قرآن و سنت کی لفظی دلیل کے بغیر دلالت کرے جیسے حسن وقبح عقلی-(۳) ۔

دلیل عقلی کی ان دو قسموں کو سب سے پهلے شهد اول نے تکمیل کیا شهید اول نے اپنی مایه ء ناز کتاب ذکری میں دوسری قسم کل مباحث پرکی برائت اصلی اور وه موارد که جهاں امر اقل واکثر کے درمیان دائر ہو وهاں اقل کو انتخاب کرنا اور استصحاب میں ان تین بحثوں کو انهوں نے اضافه کیا ہے-(۴) ۔

اس کے بعد متاخرین نے دلیل عقلی کو جامع تر اور روشن تر پیش کرنے کی کوشش کی اور دلیل عقل کے مباحث کو دو بنیادی مراحل میں آگے بڑھایا :

____________________

۳ معتبر محقق حلی ، ص ۶

۴ ذکری ، مقدمه ، ص ۵

۱۰۱

مرحلهء اول :

دلیل عقلی کے موارد و مصادیق کا بیان البته وه مصادیق جو حکم شرعی پر منتهی تمام ہوئی یه یحث صغروی ہے ۔

مرحلهء دوم :

عقلی دلیل کی حجیت کے دلائل (بحث کبروی )

مرحله اول ،حکم عقلی کے موارد ومصادیق:

پهلا مرحله دلیل عقلی کے مصادیق کا مشخص اور معین کرنا ہے علمائے علم اصول کے نزدیک تین مقام ایسے ہیں جهاں دلیل عقلی حکم شرعی پر مشتمل ہوتی ہے ۔

۱- وه موارد که جهاں گفتگو احکام شرعی کے علل و مبادی سے مربوط ہو ۔

۲- وه موارد که جهاں بحث خود احکام شرعی سے مربوط ہو ۔

۳- وه موارد که جهاں پر احکام شرعی کے معلولات کو زیر بحث لایا جائے-(۵) ان تیں موارد میں دلیل عقلی حکم شرعی پر مشتمل ہوتی ہے بهت جلد ان میں ہر ایک کی مثالیں پیش کی جائیں گی ۔

پهلامقام احکام عقلی کا احکام شرعی کے مبادی علل سے مربوط ہونا

اس سلسلے میں علماء فقهاء نے کها ہے که

اولا: احکام و دستورات الهیٰ سے صرف نظر خود انسان کے اختیاری افعال میں حسن و قبح پایا جاتا ہے یعنی بعض افعال عقل کی نظر میں انجام دینے کے قابل ہوتے ہیں که جنهیں انجام دیاجانا چاہیے (ما ینبغی ان یفعل ) ایسے افعل که جس کا انجام دینے والا عقلا ءکی نظر میں قابل مدح و ستائش او ران افعل کے ترک کرنے والا عقلاء کی نظر میں قابل سرزنش و ملا مت قرار پاتاہے اس کی بهترین مثال عدل ہے چون کیونکه ذاتی طور سےا حسن رکھتاہے اور عقلا ءکی نظر میں عدل برتنے انجام دینے والا قابل مدح ہوتا ہے ۔

اور بعض افعال عقلا قبیح ہوتے ہیں که جن کا ترک کرنا ضروری ہے (مالاینبغی ان یفعل ) اور عقلاء کی نظر میں ان افعال کا انحام دینےوالا قابل مذمت و سرزنش قرار پاتا ہے که جس کی بهترین مثال ظلم ہے ظلم ذاتا قبیح اور ظالم عقلا ءکی نگاہ میں قابل مذمت ہے ۔

____________________

۵ انوار لاصول ، ج۲ ،ص۴۹۵

۱۰۲

ثانیا : یه که حسن و قبح عقلی او رحکم شرعی میں عقلی ملازمه پایا جاتا ہے البته یهاں ایک تیسری بحث بھی ہے که کیا اس ملازمهءعقلی سے حاصل ہونے والا قطع اور یقین شارع کی نظر میں حجت ہے ؟ انشاء الله اسکی بحث آئنده صفحات میں آئے گی ۔

پهلی بحث میں اشاعره نے حسن وقبح وعقلی کا نکار کیا ہے وه حسن وقبح کو شریعت کے اعتبار ی امور میں شمار کرتے ہیں اور کهتے ہیں فعل حسن وه ہے که جسے شارع حسن شمار کرے اور قبح وه ہے جسے شارع قبیح قرار دے چنانچه ان کا یه جمله مشهور ہے :

الحسن ما حسنه الشارع والقبیح ما قبّحه الشارع ۔.

انهوں نے اسی مسئله کو نسخ کی اساس و بنیاد قرار دیتے ہوئے کها که حسن وقبح شرعی کی اساس پر ہی شارع کو حق حاصل ہے که وه کسی فعل کو ایک مدت تک واجب اور پھر حرام قرار دے –(۶) لیکن" عدلیه " کے نزدیک حسن قبح شرعی نهیں بلکه عقلی اور ذاتی ہے-(۷) اور شارع اسی کا حکم دیتاہے جو حسن ہے اور اس فعل سے روکتاہے جو قبیح ہے ۔ شارع ہر گز ظلم کوواجب اور مباح اور عدل کو حرام یا مکروه قرار نهیں دیتا ۔

دوسری بحث میں اخباریوں نے حکم عقلی اور حکم شرعی کے ملازمه کا انکا رکیا وه کهتے ہیں اگر فرض بھی کرلیں که عقل حسن وقبح کو درک کرتی ہےتب بھی شارع پر عقلا لازم نهیں که وه مطابق عقل حکم دے اصولیوں میں صاحب فصول نے اس نظریه کو اختیار کیا ہے –(۸) ۔

اخباریوں نے اپنے اس دعوی کے اثبات میں کئی دلائل پیش کیےهیں ان کی سب سے پهلی دلیل یهی ہے که عقل میں اتنی قدرت و طاقت نهیں ہےکه وه تمام احکام کی حکمتوں کو درک کرسکے شاید بعض ایسی مصلحتیں ہوں جو عقل پر مخفی ہوں اگر ایسا ہے تو ہم حکم عقل اور حکم شرع کے درمیان ملازمه کو ثابت نهیں کرسکتے ہیں ۔

اس کے علاوه کئی موارد ایسے ہیں جهاں حکم شرعی تو ہے لیکن کوئی مصلحت نهیں جیسے وه احکام و دستورات جو صرف جو انسان کےل امتحان کےلئے جاری کئے گئے اور اسی طرح وه موارد جهان مصلحت تو ہے لیکن حکم شرعی نهیں جیسے مسواک کرنے کے بارے میں رسول خدا (ص)سے نقل ہوا ہے که اگر مشقت نه ہوتی تو میں اسے امت پر واجب کرتا اسی طرح کئی ایسے موارد ہیں جهاں صرف بعض افراد میں ملاک موجود ہے جب که حکم شرعی تمام افراد سے متعلق ہے جیسے نسب کی حفاظت کےلئےعده کا رکھنا واجب ہے ۔

____________________

۶ شرح المقاصد تفتازانی ، ج۴ ، ص۲۸۲ ، سیر تحلیل کلام اہل سنت از حسن بصری تا ابو الحسن الشعری ، ص ۳۶.

۷ مصباح الاصول ، ج۳،ص ۳۴

۸ الفصول الغرویه ، ص ۳۱۹، اصول الفقه ، ج۱ ،ص۲۳۶

۱۰۳

اخباریوں کا جواب یه ہے که : جب شارع خود عاقل بلکه تمام عقلا کا سید و سردار ہے اس کے لئے کوئی معنی نهیں رکھتا که جو چیز تمام عقلا کے نزدیک مورد اتفاق ہو اور ایسے امور میں سے ہو جو حفظ نظام او رنوع انسانی کی بقا سے مربوط ہوں اس چیز کا حکم نه دے بلکه اگرحکم نه دے تو یه خلاف حکمت ہے اور اس کا حکم نه کرنا اس بات کی دلیل ہے که وه حکم عقلا کے نزدیک مورد توافق نهیں ہے یه بات معنی نهیں رکھتی که عقل حکم مستقل ہو او راس پر تمام جوانب روشن ہوں پھر یه دعوی ٰ کریں که حکم کی بعض جهتیں عقل پر مخفی ہیں-(۹) اور مسواک کرنے کی مصلحت میں مشقت خود جزء ملاک ہے یعنی مشقت کی وجه سے شارع نے حکم مسواک کو روک دیا رهی بات ان احکام کی جو امتحان کی غرض سے جاری کئےے گئے تو ان امتحانی احکامات کا شمار حقیقی احکامات میں نهیں ہوتا که ہم اس میں مصلحت تلاش کریں اگرچه ان احکامات کے ل مقدمات میں مصلحت ضرور کار فرما ہے ۔

مدت کے مسئلے میں مصلحت نوعی کافی ہے تاکه تمام موارد میں عورتوں پر مدت کا حکم لگا یا جائے خاص طور پر ان موارد یں میں که جهاں یه امتیاز کرناممکن نه ہو یامشکل ہو کس مورد میں حفظ نسب ، تحقق پائے گا اورکس مورد میں تحقق نهیں پائے گا خلاصه یه که ان مثالوں میں یا تو حکم عقل نهیں ہے یا صحیح تشخص نهیں دیا گیا ورنه حکم عقل کی قطعیت کے بعد شارع کی جانب سے اس کی مخالفت کرنا ناممکن ہے ۔

دوسرا مقام: احکام عقلی حکم شرعی کے دا ئرے میں :

یه مقام ان موارد سے مربو ط ہے که جهان جهاں عقل مستقل حکم نه رکھتی ہو بلکه ابتداء میں ایک شرعی حکم ہو که جس سے دوسرے حکم شرعی کے اثبات میں مدد لی جائے بطور مثال :

اگر کسی عمل کا واجب ہونا ثابت ہو تو عقل حکم کرتی ہے که اس عمل کے وجوب اور اس عمل کے مقدمه کے درمیان ملازمه عقلی موجود ہے نتیجتا یه کها جاسکتا ہے که وه مقدمه، وجوب شرعی رکھتا ہے ۔

یهاں پر مباحث هفتگانه کی بحث آئے گی یعنی وه سات موارد که جهاں حکم عقل کی مد دسے حکم شرعی کے اسنتباط میں مدد لی جاتی ہے که و ه سات موارد یه ہیں ۔

۱- مقدمه واجب کا وجوب ۔

۲- ضد واجب کا حرام ہونا ۔

۳- ایک ہی شئی میں امر و نهی کا امکان یا امتناع ۔

____________________

۹ اجود التقریر ات ،ج ۲ ،ص۳۸

۱۰۴

۴- اجزاء( یعنی امر واجب کی ادائیگی میں مامور کی اطاعت کا کافی ہونا ) ۔

۵- اس عبادت و معامله کا فاسد ہونا جومورد نهی قرار پائے ۔

۶- قیاس اولویت ۔

۷- بحث ترتب ۔-(۱)

تیسرا مقام: احکام عقلی احکام کا احکام کے نتائج احکام سے ارتباط

یهاں پر نتیجه ءحکم کے ذریعه حکم شرعی کا پته لگایا جاتاہے یعنی معلول کے ذریعه علت کا پته لگایا جاتاہے که جسے اصطلاحاً ( کشف انی ّ) کهتے ہیں بعنوان مثال کے طور سے شبه محصور میں علم اجمالی ہو ( یعنی یه معلوم ہو که شراب پینا حرام ہے مگر یه نهیں معلوم یه سامنے جو گلاس رکھا ہو ا ہے اس میں شراب ہے یاپانی ہے اور کیا اس کا پینا جائز ہے یا حرام ) تو ان موارد میں چونکه اس میں نتیجهء حکم ( یعنی صحت عقاب ) کا اجمالی علم ہے اس نتیجهءحکم کی مدد سے حکم شرعی جیسے وجوب احتیاط ( یعنی موافقت قطعیه کے وجوب ) کو کشف کیا جاسکتا ہے-(۲) ۔

مرحلهء دوم: دلیل عقلی کی حجیت کے دلائل

دلیل عقل سے مراد عقل کےوه قطعی قضیے ہیں که جن کی حجیت ایک مسلم امرهے کیونکه ہم ہر چیز کو قطع و یقین کے راستے سے جانتے اور پهنچانتے ہیں یهاں تک کهجیسے اصول دین خدا ،پیغمبر(ص)اور تمام مذهبی عقاید کا تعلق اسی عقل قطع و یقین عقل سے ہے اسی طرح تمام علوم کے علمی مسائل کو اسی راستے سے درک کیا جاتا ہے ۔

دوسری بعبارت دیگر میں قطع و یقین کی حجیت ایک ذاتی امر ہے او راگر لازم ہو که ہم قطع و یقین کی حجیت کو دیگر یقینی دلائل کے ذریعےثابت کریں تو اس سے دور او رتسلسل لازم آئے گا ۔

هاں اگر حجیت عقل سے مراد عقل ظنی ہو نه که عقل قطعی تو اس عقل ظنی کی حجیت کےلئے ایک قطعی اور یقینی دلیل کی ضرورت ہے مثلا اگر کوئی قیاس ظنی یا استحسان اور اس کے مانند جیسے امور کو حجت مانے تو اس کی حجیت کو دلیل قطعی کے ذریعه ثابت کرنا ہوگا ۔

____________________

۱ باوجود یکه تمام مباحث عقلی ہیں لیکن آج انهیں مباحث الفاظ میں ذکر کیا جاتا ہے شاید مباحث الفاظ میں ذکر کرنے کی علت یه ہے که احکام ان احکام کے تابع ہیں جو کتاب و سنت سے لئے جاتے ہیں

۲ انوار الاصول ، ج ۲ ، ص۵۱۵

۱۰۵

دلیل عقل کی حجیت پر اشکالات

جس طرح دلیل عقل کی حجیت کو ثابت کیا گیا اس کے پیش نظر دلیل عقل کی حجیت پر اشکال نهیں ہونا چاہئیے لیکن اس کے باوجود اخباریوں نے دلیل عقلی کی حجیت پر اعتراضات کیے ہیں ان کے اعتراضات سے اندازه ہوجائے گا که یه تمام شبهات عقل قطعی کی جانب توجه نه کرنے کی وجه سے پیدا ہوئے ہیں ۔ ان کے اہم اعتراضات کچھ اس طرح ہیں،

۱- استنباط میں عقل کی دخالت کا نتیجه یه ہوگا که قیاس و استحسان حجیت پاجائیں گے اخباریوں کی جانب سے اصولیوں کی ایک مذمت یهی ہے خاص طور سے بعض اہل سنت جو ادلهء اربعه کے بیان میں چوتھی دلیل قیاس اور استحسان کو قرار دیتے ہیں پس یهیں سے روشن ہوجاتا ہے که اخباریوں کے نزدیک دلیل عقل کا تنها فائده حجیت قیاس کی حجیت ہے نهیں تو کم ازکم اہم ترین ثمره ضرور ہے اس اشکال کا جواب روشن ہے کیونکه شیعه اصولیوں کا اتفاق ہے که قیاس و استحسان حجت نهیں رکھتے اس کے علاوه یه دونوں دلیلیں دلائل ظنی میں شمار ہوتیے ہیں اس لئے محل بحث سے خارج ہیں ۔

۲-عقلی استدلال دو طرح ہیں

بعض عقلی دلیلوں کے فقط حسی نهیں یا حس کے نزدیک ہیں جیسے ریاضیات اور هندسه کے مسائل اس قسم کی عقلی دلائل میں خطاب کا امکان نهیں اور یه مسائل دانشمندوں کے در میان اختلاف کا سبب نهیں بنتے کیونکه فکری خطاؤں کا تعلق ماده سے ملی ہوئی صورت سے ہے لیکن جن دلائل کے مواد حس یا اس سے نزدیک به حس ہوں ان میں ماده اور صور کے ذریعه خطا کا امکان نهیں ہے کیونکه جن قضیوں کا تعلق شناخت صور سے ہے وه قضیے دانشمندوں کے نزدیک واضح امور میں شمار ہوتے ہیں ۔

لیکن بعض مواد ، عقلی مسائل میں حس سے دور ہیں جیسےحکمت طبیعی اور حکمت الهیٰ کے مسائل یا علم اصول فقه یا وه مسائل جو فقهی مگر عقلی ہوں ان مسائل میں صرف عقل پر تکیه نهیں کیا جاسکتا اور نه منطق کے ذریعه اسے ثابت کیا جاسکتا ہے کیونکه علم منطق ذهن کو صور میں خطا در صور کرنے سے محفوظ رکھتا ہے نه مواد میں خطا سے اور فرض یه ہے که یه قضیے احساس سے دور ہیں اسی لئے اس قسم کے قضیوں میں دانشمندوں کے درمیان کافی اختلافات پائے جاتے ہیں اور اگر کها جائے که ادله ءنقلی میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے تو اس کا جواب یه ہےکه مسائل شرعی میں اختلاف مقدمات عقلیه کے اضافه سے پیدا ہوتا ہے ۔

۱۰۶

جواب

اولا : جیساکه گذر چکا دلیل عقلی کی حجیت اس کے قطعی ہونے کی صورت میں ہے اور جس شخص کو کسی چیز کا قطع و یقین ہو اس میں خلاف کا احتمال نهیں دیاجاتا لیکن دلیل ظنی جو که خطا پذیر ہے محل بحث سے خارج ہے ۔

ثانیا : بهت سے اخباری آپس میں اختلاف رکھتے ہیں جب که وه حجیت عقل کے منکر ہیں اور عقل کو ادلهء نقلیه میں بھی داخل بھی نهیں کرتے ۔

۲- ایک اور اشکال ان روایات کی وجه سے ہے جس میں ظاہر استنباط احکام میں عقل کے استعمال کی سرزنش کی گئی ہے او ران ان روایات کے تین گروه ہیں –(۱) ۔

گروه اول

وه روایات که جن میں رائے پرعمل به کرنے رائے سے منع کیا گیا ہو مثلا روایات میں آیا ہے که مؤمن کی علامت یه ہے که وه اپنے دین کو اپنے پروردگار سے لے نه که لوگوں کی رائے سے-(۲) ۔

ایک اور روایت میں آیا ہے : فقط پیغمبر اکرم(ص)کی رائے حجت ہے نه کسی اور کی –(۳)

کیونکه خداوند عالم نے سورۂ نساء میں ارشاد فرمایا :

"لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللّهُ "

“لوگوں کے درمیان حکم خدا کے مطابق فیصلہ کریں” ۔(۴)

ایک اور حدیث میں آیا ہے که جس وقت سوره "اذا جاء نصر الله والفتح " نازل ہوا تو پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:

خداوند عالم نے میرے بعد اٹھنے والے فتنوں میں جهاد کو مؤمنین پر واجب قرار دیا

وه میرے بعد دین میں بدعت در دین ( یعنی جس وقت لوگ اپنی رأئے پر عمل کریں گے ) سے جهاد کریں گے –(۵) ۔

____________________

۱ انوار الاصول ،ج۲ ،ص۲۷۵

۲ ان المؤمن اخذ دینه عن ربه ولم یا خذه عن رأیه ، وسایل شیعه ،ج۱۸ ، باب ۶، از ابواب صفات القاضی ،ج۱۱،اسی طرح حدیث ۱۴ ہے

۳ .گزشته،ح۲۸

۴ نساء ،۱۰۵

۵ .گزشته ، باب ،۶،ح ۵۰

۱۰۷

گروه دوم

وه روایات که جن میں حقائق قرآن او راحکام کو عقل کے ذریعه درک کرنا غیرممکن بتایا گیا ہے عبدالرحمن بن حجاج کهتے ہیں : میں نے امام صادق علیه السلام سے سنا ہے که آپ نے فرمایا:

لیس شئی ابعد من عقول الرجال عن القرآن ”۔.(۶)

قواعد فقهیه

فقیه کےلئے مهم ترین امو رمیں سے ایک امر که جس میں تحقیق و جستجو لازم ہے ، قواعد فقه ہیں ۔ قواعد فقه سے کئی ایک مباحث او راستنباط احکام میں استفاده کیا جاتاہے او رکبھی خارجی موضوعات میں مشکلات کے حل کےلئے ان سے مدد لی جاتی ہے ۔

مهم ترین قواعد که جن کی تعداد تیس سے زیاده ہے ان میں سے چند قاعدے یه ہیں قاعده ضرر ولاحرج ،قاعده صحت ،قاعده میسور ،قاعده ید، قاعده تجاوز وفراغ ،قاعده ضمان ، قاعده اتلاف ، قاعده غرر ، قاعده اقرار ، وغیره ان قواعد کے مدارک و مستندات قرآن او روه ورایات ہیں جو پیامبر اعظم و ائمه معصومین علیهم السلام سے وارد ہوئے ہیں اور ان میں بعض قواعد وه ہیں جو تمام عقلائے عالم کے درمیان رائج ہیں جسے اسلام نے بھی صحیح ماناہے مثال کے طور پر قاعده لاحرج ( یعنی جن تکالیف میں انسان عسروحرج اور ضرر و زیان میں گرفتار ہو ، جب تک وه عسرو حرج باقی ہے وه تکالیف مکلف کی گردن سے ساقط ہیں ) ۔

اس قاعده کو سورۂحج کی ایک آیت سے اخذ کیا گیا ہے جس میں ارشاد ہے :

"( وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ) "(۷)

“اور دین میں کوئی زحمت قرار نهیں دی ہے” ۔

اس کے علاوه رسول اسلام(ص)کی معروف حدیث ، حدیث“" لاضر ولاضرار...”" که جس کا ذکر تمام منابع اسلامی میں آیا ہے استفاده ہوتاہے که وه احکام جو مسلمانوں کےلئے ضرر و زیان کا سبب ہیں ان کی گردن سے ساقط ہیں اسی طرح قاعده "حجیت قول ذی الید" ایسا قاعده ہے جو تمام عقلا کے درمیان جاری ہے اور شارع مقدس نے اسے صحیح ماناہے ۔

یه قواعد بهت اہم اور مفید ہیں ، فقیه ان قواعد کی مدد سے انسان کی فردی اور اجتماعی زندگی کے متعدد مشکلات اور جدید مسائل کو ( بالخصوص و ه مسائل که جن کے بارے میں کوئی خاص روایت وارد نهیں ہوئی ہے ) آسانی سے حل کرسکتا ہے اگر کوئی فقیه قواعد فقه پر کامل تسلط نه رکھے وه ابواب فقیه کے اکثر بالخصوص جدید مسائل کے حل میں عاجز رهے گا-(۸) ۔

____________________

۶ گزشته حواله ، باب ۱۰ ،ح۲۲، باب ۱۱ ،ح ۳۲ ، باب ۶ ، ح ۷ .---۷ حج ، ۷۸

۸ قواعد فقه سے بیشتر اشنائی اور ان کے مدرک دلائل اور تقسیمات سے کامل وافقیت کے لئے آیة الله مکارم شیرازی کی کتاب القواعد الفقیه کی جانب رجوع کیا جاسکتاہے

۱۰۸

اصول عملیه

اصول عملیه سے مراد وه قواعد واصول ہیں که جس وقت فقیه معتبر شرعی دلائل جیسے کتاب و سنت و اجماع دلیل و عقلی تک دسترسی پیدا نه کرسکے ایسی صورت میں وه انهی اصول عملیه کی جانب رجوع کرتاہے مثال کےطور پر جب بھی یه شک کرے که کیا فلاں موضوع خمس و زکات سے متعلق ہے یا نهیں اور اس سلسله میں ادلهء اربعه سے بھی کوئی دلیل نه ملے تو وه ایسی صورت میں ( اصل برائت ) کی جانب رجوع کرتاہے اصل برائت یعنی اصل یه ہے که جب تک کسی معتبر دلیل سے تکلیف شرعی ثابت نه ہو تب تک مکلف پر کوئی ذمه داری نهیں ہے ۔

اسی طرح اگرفقیه کو کسی فعل کے وجوب یا حرمت عملی میں شک ہو یعنی یه نه معلوم ہو که یه عمل واجب ہے یا حرام اور اس عمل کی حرمت و وجوب پر کوئی دلیل بھی موجود نه ہو تو ایسی صورت میں فقیه ( اصل تخییر) کی جانب رجوع کرتاہے جس میں مکلف مختار ہوتا ہے که اس فعل کو انجام دے یا اجتناب کرے۔ اگر موارد شک کےموارد میں کوئی سابقه پهلے سے کوئی حالت موجود ہو ، بعنوان مثال کے طور پر مکلف یه جانتاہو که عصیر عنبی ( انگور کارس آگ ) پر پکنے اور غلیان سے پهلے پاک تھا ، جب بھی اسے یه شک ہو که غلیان باعث نجاست ہے یا نهیں اور اس کے اثبات میں کوئی معتبر دلیل بھی نه ہو تو سابقه پهلی والی حالت سے( استصحاب) کرکے اس پر طهارت کا حکم لگائے گا ۔

اور کبھی کسی چیز میں شک کرے لیکن اس مشکوک کے اطراف میں واجب و حرام کا اجمالی علم ہو مثال کے بطور مثال پر مکلف یه جانتاہے که کام معیشت کے مقدمات فراہم کرنے کےلئے کیا جائے اس میں نماز واجب ہے لیکن یه نهیں معلوم که آیا نماز قصر ہے یا تمام ، پس حالت سفر میں وجوب نماز کا اجمالی علم تو ہے لیکن نماز کے قصر یا تمام ہونے میں شک ہے ۔. اور نماز کے قصر یا تمام ہونے پر کوئی معتبر دلیل بھی نهیں ایسی صورت میں مکلف اصل احتیاط کی بنیاد پر اپنا عملی وظیفه مشخص کرتے ہوئے دونوں حکم بجالائے گا یعنی نماز کو تمام اور قصر دونوں طرح سے انجام دے گا تاکه اسے برائت ذمه یعنی ذمه داری کی ادائیگی کا یقین ہوجائے کیونکه شبهات محصوره میں علم اجمالی کاہونا احتیاط کا باعث ہوتا ہے ۔ برائت و استصحاب تخییر و احتیاط یه چاورں اصول اصول عملیه کهلاتے ہیں جنهیں مجتهد معتبر شرعی دلیل نه ہونے کی صورت میں اور شک میں موجود ه شرائط کے مطابق ان میں سے کسی ایک اصل کی مدد سے اپنے اور مقلدین کے عملی وظفیه کو مشخص کرتاہے ۔

۱۰۹

ب دوسری عبارت دیگر میں کسی بھی حالت میں فقیه پر کشف احکام کشف کرنے کے راستے مسدود نهیں بلکه کھلے ہوئے ہیں فقیه استنباط کی اس میں سنگلاخ وادی میں کبھی معتبر اجتهادی دلائل تک پهنچتاہے اور ان دلائل کی مدد سے احکام کو کشف کرتاہے .اور کبھی کسی حکم میں شک و شبه کا شکار ہوتاہے پهلی صورت میں وه دلیل کے مطابق فتوی دیتاہے اور دوسری صورت میں ان چار اصولوں کی مدد سے وظیفه عملی معین کرتاہے پس جن امور میں اصل حکم میں شک ہو که واجب ہے یا حرام تو وهاں اصل برائت جاری کرتاہے اور جن موارد میں واجب یا حرام میں سے کسی ایک امر کے درمیان شک ہو تو اصل تخییر سے مدد لی جاتی ہے اور جن موارد میں حکم سابقه پهلی حالت رکھتا ہو ( چاہے وجوب ہو یا حرمت ) تو ان موارد میں استصحاب کے مطابق سابقه پهلی حالت پر حکم لگایاجائے گا او رجن موارد میں واجب دو یا چند احتمال میں محصور ہو یا یه که حرام چند احتمالات میں محصور ہو تو ایسی صورت میں احتیاط کا حکم لگایاجائے گا یعنی اصل احتیاط کے حساب سے واجب کے تمام احتمالات انجام دینے ہوں گے اور دوسری صورت میں حرام کے تمام احتمالات سے اجتناب کرنا ہوگا ۔

یهاں پر دو نکته قابل توجه ہیں

الف : اصول عملیه (یعنی برائت و استصحاب و تخییر و احتیاط ) کی ہر اصل محکم او رمعتبر دلیل پر استوار ہے فقط فرق اتنا ہے که کسی اصل کی دلیل عقلی ہے جسے اصل تخییر او رکسی اصل کی دلیل شرعی ہے جیسے اصل استصحاب اور کسی اصل کی دلیل عقلی اور شرعی دونوں ہے جیسے اصل برائت و احتیاط ہے ان چاروں اصولوں کو علم اصول کی کتابوں میں ان کے دلائل کے ساتھ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔(۹)

ب: مذکوره چار اصول کو کبھی شبهات حکمیه اور کبھی شبهات موضوعیه میں جاری کیا جاتاہے ۔ شبهات حکمیه یعنی وه مقامات که جهاں حکم شرعی معلوم ومشخص نه ہو (جیسے اوپر بیان کی گئی تمام مثالیں ) شبهات موضوعیه یعنی وه مقام که جهاں حکم شرعی تو مشخص ہے لیکن موضوع خارجی کی وضعیت روشن نهیں بطور مثال کے طور پر: ہم جانتے ہیں که اسلام میں مست کرنےوالے مشروبات اسلام میں بطور قطعی طور پرحرام نهیں لیکن ہمیں شک ہے که کیا یه مایع و مشروب جو ہمارے سامنے ہے مسکر ہے یا نهیں اس قسم کے موارد میں برائت او راسی طرح مناسبت کے حساب سے دوسرے اصولوں کو جاری کیا جائے گا ، اصول عملیه کے شرائط و خصوصیات او رکیفیت اجراء کے سلسله میں مباحث بهت زیاده دقیق ہیں : اسی لئے صرف ایک مشّاق مجتهد ہی نهایت دقت و مشق کے بعد انهیں جاری کرسکتاہے اور اصول اجراء کرنےئے اصول کے راستے تلاش کرسکتاہے ۔

____________________

۹ کتاب انوار اصول اور دیگر کتابوں کی جانب رجوع کیا جائے

۱۱۰

استنباط کے مورد اختلاف منابع

اب تک جن منابع کے بارے میں گفتگو ہوئی وه سارے منابع استنباط کے مورد اتفاق منابع ہیں ان کے علاوه اور بھی منابع ہیں که جن میں فقهاء اتفاق نظر نهیں رکھتے پهلے یه بات گذر چکی که مصادر اور منابع احکام ایسے ہونے چاہئیے جس سے قطع و یقین حاصل ہو اور اگر ان سے ظن و گمان حاصل ہوتا ہوتو اس صورت میں کوئی ایسی قطعی دلیل ہو جو اس ظن و گمان کے اعتبار و حجیت کو ثابت کرے ۔

کتاب کے اس حصه میں جن منابع اسنتباط پر گفتگو ہوگی یه وه موارد ہیں که جس پر (اجتهاد رائے) کا کلمه صادق آتاہے۔ اس لئے که اجتهاد کی دو اصطلاح ہیں :

الف : عام طور پر اجتهاد اسے کهتے ہیں جس میں فقیه ادلهءشرعیه کے ذریعه حکم شرعی کو کشف کرنے کی کوشش کرتاہے اس طریقه کا اجتهاد تمام علمائے اسلام کے نزدیک معتبر اور مورد اتفاق ہے ۔

ب: اجتهاد به معنای خاص وه اجتهاد ہے که جسے اجتهاد بالرأئے کها جاتا ہے اس اجتهاد میں مجتهد استحسان، مصالح مرسله اور وه موارد که جن میں نص موجود نه ہو سد و فتح ذرایع سے کام لیتاہے اسی لئے بعض افراد کلمه اجتهاد کو قیاس کا مترادف مانتے ہیں –(۱)

اجتهاد کی یه دوسری قسم اہل سنت سے مخصوص ہے ، اخباریوں کی جانب سے شیعه اصولیوں پر جو اعتراضات ہوئے او راجتهاد کو مذموم قرار کیا دیا گیا اس کی وجه یهی تھی که وه ان دو قسم کے اجتهاد میں فرق کے قائل نهیں ہوئے اور یه سمجھ بیٹھے که شیعه مجتهدین کا اجتهاد اہل سنت کے اجتهاد کی طرح اجتهاد بالرأئے پر استورا ہے اسی لئے انهوں نے مجتهدین اور ان کے اجتهاد کی سخت مخالفت کی ۔

اگرچه (اجتهاد بالرأئے )کے طرفداروں نے استحسان ،قیاس او ردیگر تمام موارد کے اعتبار و حجیت پر کتاب و سنت سے دلیلیں پیش کی ہیں لیکن ہماری نظر میں اس قسم کے اجتهادات کی دو وجهیں ہیں :

الف : ایک وجه خود صحابه ءکرام ہیں بعض صحابه ءکرام کا اجتهاد بالرأئے سے کام لینا جب که دیگر صحابه ءاس قسم کے اجتهاد کے سخت مخالفت تھے جناب ابن عباس اور عبدالله بن مسعود کے بارے میں نقل ہوا ہے که وه اجتهاد بالرأئے کرنے والوں کو مباہل ه کی دعوت دیتے تھے حضرت علی علیه السلام سے روایت ہےکه آپ نے فرمایا :

____________________

۱ روضة الناضر ، ج۲ ،ص۱۴۱

۱۱۱

لوکان الدین بالرأی لکان المسح علی باطنة الخف اولی من ظاهره ”۔.

اگر نظام دین اجتهاد بالرأئ پر قائم ہوتا تو تلوے پر مسح کرنا پیر کی پشت پا پر مسح کرنے سے بهتر سمجھاجاتا-(۲) ۔ وه افراد جو اجتهاد بالرائے میں سرفهرست ہیں اورشهرت رکھتے ہیں ان میں سب سے پهلے عمرابن خطاب ہے اور اصحاب کے بعد ابو حنیفه کو امام اہل الرأئے کا امام کهاگیا اسی وجه سے اکثر علماء و محدثین نے ابو حنیفه کی مذمت کی ہے-۳ مکتب رائےکی نسبت فقهائے کوفه کی جانب دی گئی جب که ان کے مقابل فقهائے مدینه کو مکتب حدیث سے یاد کیا گیا-(۴) . وه افراد که جن کا نام اصحاب الرأئے میں آتا ہے ان میں سے چند نام یه ہیں ابو یوسف ابن سماء ابو مطیع بلخی اور بشیر مرلسی-(۵) ۔

ب: اجتهاد بالرأئے کے رواج کی دوسری وجه یه که رحلت پیغمبر (ص)کے بعد وصول احکام کے راستے بند ہوگئے جیسے ہی آپ نے وفات پائی وحی کا سلسله منقطع ہوگیا اور لوگ خاندان وحی یعنی اہل بیت پیغمبر(ص)سے دور ہوگئے جس کی وجه سے وه حقیقی احکام جو شارع کے مورد نظر تھے ان تک پهنچنے کا راسته بند ہوگیا اور یهی بات اجتهاد بالرائے کی تقویت کا سبب بنی ب دوسری عبارت دیگر میں انسداد احکام کا تصور اجتهاد بالرائے کا سبب بنا کیونکه روز مره کے حوادث و واقعات سے حالات کی تبدیلی اور وسائل و آلات کی ترقی کی وجه سے ہر روز نئے نئے مسائل وجود میں آتے رهے که جس کی تعداد کم نه تھی او ریه تصور کیا جانے لگا تھا که ایک طرف نصوص دینی ان مسائل کے جواب کےلئے کافی نهیں دوسری طرف دین اسلام آخری دین الهیٰ ہے جو رهتی دینا تک قائم و دائم رهنے اور تمام وظایف کو بیان کرنے والا ہے پس لازم ہے که اس قسم کے اجتهاد ات کو حجت قرار دے کر جدید مسائل میں استنباط احکام کا رسته کھولاجائے ۔

اس کے برعکس پیروان مکتب اہل بیت علیهم السلام ائمه معصومین علیهم السلام کی سنت کو پیغمبر(ص)کی سنت کے برابر جانتے تھے اس لئے انهیں احادیث کی دسترسی میں کوئی مشکل یپش نهیں آئی اور وه اس لحاظ سے غنی رهے اور واضح ہے که سنت میں ایسے کلی اور عام قواعد موجود ہوتے ہیں جنهیں جزئی موارد پر تطبیق دیاجاسکتا ہے کیونکه ان کلی قواعد میں موارد شک ، فقدان نص یا تعارض نصوص کی صورت میں مکلفین کے وظائف کو بیان کیا گیا ہے-(۶) اسی لئے اجتهاد بالرائے کی نوبت ہی نهیں آئی اس لئے که وه اصول جن کا ذکر اوپر گذر چکا وه رفع انسداد کو دور کرنے کےلئے کافی ہیں ۔

بهرحال ہم یهان اجتهاد بالرائے کے چند مصادیق کو بیان کرتے ہیں ۔

____________________

۲ الاحکام فی اصول ا لااحکام ، ج ۴ ، ص ۴۷ ، سنن بهیقی ، ج۱ ، ۲۹۲ .--۳ تاریخ بغدادی ،ج ۱۳ ، ص ۴۱۳ ---.۴ مناہج الاجتهاد فی الاسلام ، ص ۱۱۵ .---۵ مناہج الاجتهاد فی الاسلام ، ص ۱۱۷ .--۶ اسی کتاب میں مسائل مستحدثه کے عنوان کے تحت جو مطالب آئے ہیں ان کی جانب رجوع کریں

۱۱۲

قیاس (مترجم)

کسی خاص موضوع کےحکم کو دوسرےموضوعات پر جاری کرنے کو قیاس کهتے ہیں(مترجم)-(۱) . قیاس کی چار قسمیں ہیں:-(۲)

۱ (مترجم) قیاس کی تعریف :

قیاس لغت میں اندازه گیری کے معنی میں آیاہے مثلا کهاگیاہے که قست الثوبُ بالذراع ،کپڑے کو ذرایع کے ذریعه ناپا

لیکن اصطلاح میں اس کی مختلف تعریفین کی گئی ہیں الاصول العامه للفقه المقارن نامی کتاب میں آیا ہے که “قیاس عبارت ہے که فرع کا حکم شرعی کی حالت میں اپنے اصل کے برابر ہونا ”.

استاد عبدالوهاب خلاّف قیاس کی تعریف میں کهتے ہیں :

قیاس اصولیوں کے نزدیک ایسا مسئله که جس پر نص موجود نه ہو اسے کسی ایسے مسئله سے که جس پر نص آئی ہےملحق کرنا او ریه الحاق اس حکم سے ہے که جس کے لئے نص وارد ہوئی ہے اس لئے که دونوں مسئله علت حکم کے اعتبار سے مساوی ہیں(۲)

مرحوم مظفر فرماتے ہیں :

امامیه کی نظر میں قیاس کی بهترین تعریف یه ہے که :

هواثبات حکم فی محّل بعلة لثبوته فی محّل آخر بتلک العلةّ .(۳)

قیاس یعنی ایک حکم کو جو اس کی علت کی وجه سے ثابت ہے اسے دوسرے مقام پر اسی علت کی وجه سے ثابت کرنا

۲ (مترجم) قیاس کے ارکان :

قیاس کے چار رکن ہیں :

۱- اصل که وهی مقیس علیه ہے حکم اصل شارع کی جانب سے صادر ہوا ہے اور روشن ہے جسیے شراب کی حرمت

____________________

۱-(مترجم) الاصول العامه للفقه المقارن ، ص ۳۰۵

۲ .علم اصول الفقه ، ص۵۲

۳ اصول الفقه مظفر ، ج۳ ،ص۸۳

۱۱۳

۲- فرع وهی مقیس ہے که جس کا حکم شرعی معلوم نهیں اور قیاس کرنے والا یه چاہتاہے که اس کے حکم شرعی کو ثابت کرے مثال میں فرع یا مقیس وهی فقاع ہے.

۳- علت یعنی وه جهت مشترک جو اصل و فرع کے درمیان ہے که جسے اصطلاح میں جامع بھی کهتے ہیں مثال میں “جامع” وهی مسکر ہوناہے جو که شراب اور فقاع میں مشترک ہے

۴- حکم ، حکم سے مراد وهی حکم شرعی ہے که جو اصل پر وارد ہوا دوسری عبارت میں حکم اصل روشن اور معتبر شرعی دلیل سے ثابت ہواہو جیسے شرب کا حرام ہونا مخالفوں کی.

۱- قیاس منصوص العله

یه ہے که شارع کسی حکم میں علت کا ذکر کرے اور چونکه حکم کا دار و مدار علت پر ہوتاہے .پس فقیه ان موضوعات میں که جن میں وه علت موجود ہے حکم کو ایک موضوع سےدوسرے موضوعات پر جاری کرتا ہے مثال کے طورپر شارع کهے :

لاتشرب الخمر لا نه مسکر.

شراب مت پیو کیونکه شراب نشه آور اور مست کرنے والی ہے ۔

اگر یهاں پر فقیه حرمت کے حکم کو دیگر مست کننده اشیاء پر جاری کرے تو یه عمل قیاس مصنوص العله کهلائے گا-(۱) کیونکه لاتشرب الخمر در حقیقت “لاتشرب المسکر” ہے ۔

۲- قیاس اولویت

اس قیاس کو کهتے ہیں جس میں ایک موضوع کے حکم کو اولویت قطعی کی بنیاد پر دوسرےموضوع پر جاری کیا جاتا ہے جیسا که خداوند عالم نے فرمایا:

"( فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ ) "

“ ماں باپ کے آگے اف نه کرنا ” ۔(۲)

یه جمله اولویت قطعی کی بنیاد پر دلالت کرتاہے که ماں باپ کو برا بھلا کهنا حرام ہے کیونکه جب اف کرنا حرام ہے تو برابھلا کهنا کیسے جایز ہو سکتاہے ۔

____________________

۱ اصطلاحات الاصول ، ص۲۲۶.

۲ اسراء ، ۲۳

۱۱۴

۳- قیاس ہمراہ تنقیح مناط کے ساتھ

یه قیاس وهاں جاری ہوتاہے جهاں موضوع کے ساتھ حالات و خصوصیات کا ذکر ہو لیکن ان حالات و خصوصیات کا اصل حکم میں کوئی دخل نه ہو پس ایسی صورت میں فقیه ان حالات و خصوصیات سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف حکم کو نظر میں رکھتاہے اور اس حکم کو دوسرے حکم پر جاری کرتاہے مثال کے طور پر آیه تیمم میں مذکو ر ہے :

"( فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ ) "

“اگر پانی نه ملے تو تیمم کرو” ۔(۳)

جب که ہم جانتے ہیں خود پانی کا ہونا یا نه ہونا حکم تیمم میں موضوعیت نهیں رکھتا اسی لئے اگر پانی ہو اور وضو کرنے والے کے لئے ضرر رساں ہو تب بھی حکم تیمم جاری ہے یعنی پانی کے ضرر رساں ہونےکی صورت میں اس پر تیمم واجب ہے اور مثال بالکل اس مثال جیسی ہے که کوئی شخص یه سوال کرے که اگر کوئی مرد مسجد میں نماز ظهر پڑھ رها ہو اور اسے تیسری اور چوتھی رکعت کے درمیان شک ہوتو ایسی صورت میں نماز گزار کا کیا وظیفه ہے ؟ امام اس کے جواب میں یه کهے که وه چوتھی رکعت پر بنا قرار دے اور ایک رکعت نماز احتیاط بجلائے اب یهاں پر فقیه تنقیح مناط کا سهار الیتے ہوئے اس حکم کو ہر چار رکعتی نماز پر جاری کرسکتاہے کیونکه نماز ظهر یا مسجد کا ہونا اور شک کرنے والے کا مرد ہونا ان میں سے کوئی بھی مورد موضوع کے لئے قید نهیں بلکه ایک حالت ہے پس ان حالات کو حذف کرکے خود اصل حکم کو مشابه موضوع مشابه پر جاری کیا جاسکتاہے ۔

قیاس مستنبط العله

اس قیاس کو کهتے ہیں جس میں اپنے ظن و گمان سے علت کشف کرتاہے اور حکم کو ایک موضوع سے دوسرے موضوع پر جاری کرتا ہے پهلے موضوع کو اصل یا مقیس علیه کهتے ہیں اور اس موضوع کا حکم مسلم و مفروض ہے دوسرے موضع کو فرع یا مقیس کهتے ہیں کیونکه اس موضوع کا کوئی حکم نهیں فقط اصل حکم میں مشترک ہونے کے گمان پر پهلے موضوع کے حکم کو اس پر جاری کیا جاتاہے ابتدائی تین قسموں میں قیاس تمام فقها کے نزدیک حجت ہے کیونکه کسی میں بھی اصل وقوع کا وجود نهیں بلکه مقیس اور مقیس علیه دونوں اصل ہیں ب دوسری عبارت دیگر میں خود دلیل کے ذریعے ہر دو موضوع کے لئے حکم ثابت کیاجاسکتاہے-(۴)(۵)(۶)

____________________

۳ نساء ، ۱۱۵ .---۴ انوار الاصول ، ج ۲،ص ۵۱۹ ---۵ اتحاف زری البصائر ، شرح روضة الناظر ، ج ۴،ص۲۱۴۴.

۶ ر.ضة الناظر ،ج۲ ،ص۱۵۱.

۱۱۵

قیاس کی چوتھی قسم یعنی مستنبط العله اہل سنت کے نزدیک حجت ہے خاص طور پر ابو حینفه کے پیروکار که انهیں قیاس پر بهت زیاده اعتماد ہے لیکن مکتب اہل بیت علیهم السلام کے ماننے والے اس قیاس کا انکار کرتے ہیں اسی طرح اہل سنت میں نظام اور اس کے تابعین اسی طرح گروه ظاہریه جس میں ا بن حزم او رداود وغیره شامل ہیں اور بعض معتزله که جس میں جعفربن حرب ، جعفر بن مبشر ، محمد بن عبدالله اسکا فی کا نام آتا ہے یه سب قیاس کو باطل جانتے ہیں بلکه ابن حزم نے قیاس کے خلاف ابطال القیاس نامی مستقل کتاب بھی لکھی –(۷) حنبلیوں کی جانب سے بطلان قیاس کی نسبت دی گئی ہے اور احمدبن حنبل کا کلام بھی اسی معنی کی جانب اشاره کرتا ہے کیونکه انهوں نے کها :

یحتسب المتکلم فی الفقه هذین الاصلین المجمل والقیاس ۔.

فقیه مجمل اور قیاس سے اجتناب کرتا ہے ۔

لیکن اس کے اس کلام کی توجیه یوں کی گئی که اس سے مراد بطلان قیاس د رمقابل نصنفی کے مقابل میں قیاس باطل ہے –(۸)

آج وهابی جو اپنے اپ کو حنبلی مسلک کهتے ہیں وه دین میں قیاس در دین پر اعتماد کرتے ہیں اور اسے حجت مانتے ہیں ۔

قیاس کی چوتھی قسم ککی ے دلائل حجیت کے دلائل پر نتقید

فرض یه ہے که قیاس کی یه قسم حکم شرعی پر یقین نهیں دلاتی بلکه فقط حکم کے احتمال کو بیان کرتی ہے کیونکه موضوعات کا ایک یا چند جهت سے مشترک اور مشابه ہونا اس بات کی دلیل نهیں ہے که وه حکم میں بھی مشترک ہوں اور جن مواردمیں عقل بھی حسن وقبح کی اساس بنیاد پر مستقل اور قطعی حکم نه لگا سکے ایسی صورت میں احکام شرعی کے ملاک کو قطعی طور پر کشف کرنا نا ممکن ہے بلکه یهاں پر صرف شارع ہے جو احکام کے ملاک اور فلسفه کو بیان کرسکتاہے اسی لئے اس قیاس کی حجیت پر دلیل ضروری ہے اہل سنت نے جو دو دلیلیں پیش کیں ہیں وه کچھ اس طرح ہیں ۔

۱- قرآن میں آیا ہے :

"( فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ ) "

“اے صاحبان خرد عبرت حاصل کرو” ۔(۹)

____________________

۷ .حشر ، ۲

۸ اصول الفقه،ج۲ ،ص ۱۹۲

۹ ابطال القیاس ، ص ۳۰

۱۱۶

اس دلیل کی تفصیل یه ہے که اعتبار عبورکے معنی میں ہے ایک چیز سے دوسری چیز تک عبور کرنا دوسری بعبارت دیگر میں ایک شبیه سے دوسری شبیه تک عبور کرنا او رقیاس بھی ایک طرح کا عبور ہے اس میں اصل کے حکم سے فرع کے حکم تک عبور کیا جاتاہے مذکوره آیت میں ہمیں اس عبور یعنی قیاس کی ترغیب دی گئی ہے ۔

جواب :

اس آیت سے استدلال کی کمزوری اور ضعف واضح ہے کیونکه اعتبار حوادث و وقایع سے عبرت لینے اور نصیحت لینے کے معنی میں ہے خاص طور پر اس آیت پر اگر توجه کی جائے تو معلوم ہوگا که یه آیت اہل کتاب اور کفار کی شرنوشت کو بیان کررهی ہے که خدا نے اس طرح ان کے دل میں و حشت ڈال دی که وه خود اپنے اور مؤمنین کے هاتھوں اپنے گھروں کو توڑ رهے تھے اور قرآن یه چاہتاہے که اس واقعه سے عبرت لو پس معلوم ہو ا که اس آیت کا دین کے احکام فرعی میں قیاس سے کوئی تعلق نهیں-(۱۰) ابن حزم اپنی کتاب (البطال القیاس ) میں کهتاہے : کیسے ممکن ہے که خداوند اس آیت میں ہم کو دین میں قیاس کا حکم دے اور یه بیان نه کرے که ہم کهاں کس چیز کا کس چیزسے قیاس کریں اس قیاس کے حدود و شرائط کیا ہیں ؟ اور اسے بغیر کسی توضیح کے مبهم چھوڑدے-(۱۱) ۔

۲- اہل سنت کی دوسری قرآنی دلیل یه ہے که خداوند عالم ارشاد فرماتاہے :

"قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ ، قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ "

“ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے، آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا ”۔(۱۲)

منکرین معاد نے پیغمبر سے سوال کیا کون ہے جو بوسیده هڈیوں میں جان ڈال دے ؟

خدانے فرمایا:

اے پیغمبر! آپ کهدیجئے که جس نے تمهیں عدم سے وجود بخشا وهی تمهیں دو باره زنده کرے گا ۔

قیاس کے طرفداران قیاس کهتے ہیں که اس آیت میں قیاس کے ذریعه استدلال کیا گیا کیونکه یه آیت وه دو چیزیں که جن کا حکم مشابه ہو ان کے مساوی ہونے پر دلالت کرتی ہے اسی لئے جو شخص یه انکار کررهاہے که بوسیده هڈیاوں قیامت میں دوباره زنده نهیں ہوسکتیں اسے کها جارها ہے که ان هڈیاں کا زنده کرنا انسان کو عدم سے وجود بخشنے جیسا ہے یعنی جیسے وه ممکن تھا ویسے یه بھی ممکن ہے ۔

____________________

۱۰ یسٰ،۷۹/۷۸.---۱۱ روم ، ۲۷

۱۲ مسند احمد ،باب حدیث معاذبن جبل ،ج۵،ص ۲۳۰، ح۲۱۵۹۵

۱۱۷

جواب :

قیاس کے مخالفین قیاس جواب دیتے ہیں که اس آیت میں امر تکوینی میں قیاس کیاگیا ہے اور امر تکوینی کا قیاس قطعی ہوتاہے کیونکه عقل کهتی ہے که جو آغاز آفرنیش میں یه قدرت رکھتا ہے که اس کائنات کو عدم سے وجود بخشے یقینا وه یه قدرت بھی رکھتاہے که قیامت کے بعد اسے دوباره لوٹا دے بلکه یه کام اس کےلئے پچھلے کام سے آسان ترهے جیسا که خود قرآن کا ارشاد ہے :

"( وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ) "

“اور وہی وہ ہے جو خلقت کی ابتدا کرتا ہے اور پھر دوبارہ بھی پیدا کرے گا اور یہ کام اس کے لئے بے حد آسان ہے” ۔(۱۳)

یه قیاس حقیقت میں قطعی عقلی ہے در حالیکه ہماری بحث قیاسات ظنی میں ہے ۔

۳- روایات کے اعتبار سے حجیت قیاس پر مهم ترین استدلال معاذبن جبل کی حدیث سے کیاگیا اس حدیث کے ذریعه قیاس ظنی کے علاوه باب استحسان، مصالحه مرسله ،سد وفتح ذرایع کی حجیت پر نیز استدلال کیا گیا ہے

اس حدیث میں آیا ہے که جس وقت پیغمبر (ص)نے معاذبن جبل کو یمن میں قضاوت کے لئے بھیجنا چاہا تو ان سے کها :

اے معاذ !کس طرح قضاوت کروگے ؟

معاذ نے کها :

کتاب وسنت کے ذریعه

آپ نے فرمایا:

اگر وه حکم کتاب و سنت میں نه ہو تو کیا گروگے ؟

کها که :

اجتهد رأیی ولا الوِ ”۔.(۱۴)

“" میں اپنی رأئے کے ذریعے اجتهاد کروں گا اور مسئله کو بلا حکم نهیں چھوڑوں گا ”" ۔

اس حدیث سے یه استدلال کیا گیا که کلمه (اجتهاد رأئے ) سے ظاہر ہوتاہے که کتاب و سنت پر تکیه کئے بغیر حکم لگانے کو اجتهادبالرائے کهتے ہیں اور اسی طرح کا اجتهاد عمومیت رکھتا ہے جس میں قیاس ظنی بھی شامل ہوجاتا ہے ۔

____________________

۱۳ وهی مدرک

۱۴ ملخص البطال القیاس ، ص ۱۴، تهذیب التهذیب ،ج۲ ،ص ۲۶۰

۱۱۸

جواب :

قیاس ظنی کے مخالفین نے اس حدیث کا جواب یوں دیا که

۱- اول تو یه روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے کیونکه اسے حارث بن عمر کے واسطه سے بیان کیا ہے بخاری اورترمذی نے حارث کو مجهول جانا ہے اور دوسروں نے بھی اسے ضعفا میں شمار کیا ہے اس کے علاوه خود حارث نے اسے "حمص کے کچھ لوگوں " سے نقل کیا ہے اس لئے یه روایت مرسل اور غیر متصل ہے

۲- دوسری یه که یه روایت ان تمام روایات سے تعارض رکھتی ہے جس میں اجتهاد رای کی مذمت کی گئی خاص طور سے معاذ کی وه روایت جس میں پیغمبر (ص)نے معاذ کو یمن کی جانب حرکت کرنے سے پهلے کها :

جس چیز کا علم نه ہو اس کے بارے میں قضاوت مت کرنا اور اگر کسی حکم میں مشکل پیش آجائے تو اس وقت تک صبر کرنا جب تک تمهیں صحیح حکم سے آگاہ نه کروں یا پھر مجھے خط بھیجنا تاکه میں اس کا جواب بھیجوں چنانچه مذکوره روایت کی عربی عبارت یه ہے که

لمابعثنی رسول الله الی یمن قال : لاتقضین ولاتفصلن الا بماتعلم و ان اشکل علیک امر فقف حتی تبینه او تکتب الی فیه ”۔(۱۵)

ایک اور روایت که جسے ابوهرهره نے نقل کیا اس میں آیا ہے :

تعمل هذه الامة برهة من کتاب الله ثم تعمل برهة بسنة رسول الله ثم تعمل بالرأی فاذا عملوا بالرأی فقد ضلوا واضلو ” ۔.(۱۶)

“"یه امت ایک مدت تک کتاب خدا پر عمل کرے گی پھر ایک مدت تک سنت پر عمل پیرا ہوگی اس کے بعد خود اپنے آراء پر عمل کرنے لگے گی اور جب ایسا ہونے لگے تو وه تو خود کو بھی گمراہ کریں گے اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنیں گے” ۔(۱۷) (مترجم)

____________________

۱۵ سنن ابن ماجه ،ج۱ ،ص ۲۱ ، ح ۵۰

۱۶ کنز العمال ، ج ۱ ف ص۱۸۰ ، ح ۹۱۰

۱۷ (مترجم)

۱۱۹

۱۵-نتیجهء بحث :

گذشته مطالب کے پیش نظر علماء امامیه اور دوسرے قیاس کےمخالفوں کی نظر میں استنباط احکام میں قیاس کی کوئی ارزش و اہمیت نهیں ہے اور اس قیاس سے حاصل ہونے والے ظن و گمان کے لئے ایسی عام اور روشن دلیلیں ہیں جو ظن پر عمل کرنے کو حرام جانتی ہیں قیاس پر عمل کی حرمت پر قطعی دلیلوں میں وه روایات ہیں جو نمونه کےطور پر آپ کے سامنے پیش کیے گئے .لیکن جیسا پهلے بھی بیان ہوچکا ہے که علماء اہل سنت کے ایک گروه جیسے حنفیوں اور دوسروں نے قیاس کو حکم شرعی کے لئے مصدر ومبنا مانا ہے اور اس کی حجیت و اعتبار پر کتاب وسنت و اجماع سے دلیلں پیش کی ہیں ، قیاس مخالفوں کے نزدیک یه لیلیں ناقص اور مردود ہیں طولانی بحث کے خوف سے مخالفین کی دلیلوں سے صرف نظر کرتے ہوئے فقط ایک اشاره ان باتوں کی جانب کیا جارها ہے جو سر خسی نےاپنے اصول میں کهیں ہیں

جمهور علماء نے حجیت قیاس پر کتاب و سنت وعقل سے دلیلیں پیش کی ہیں مثلا قرآن سے( فَاعْتَبِرُوا يا أُولِي الْأَبْصارِ.* إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصار*إِن كنتم للرُّيَّا تَعْبُرون )

اور دوسری آیات سے استدلال کیاہے

میری نظر میں یه ان آیات کا قیاس سے کوئی ربط نهیں ہے اور سنت میں جو دلیل پیش کی گئی که پیغمبر(ص) کی جانب سے معاذبن یمن کو بھیجا جانا اور حکم صادر کرنے کے بارے میں پیغمبر(ص) کا سوال تھا اس کے جواب میں کهنا میں خود اجتهاد کرتاہوں اور پیغمبر(ص) کا اپنے اصحاب سے امور جنگ میں مشورت کرنا یه تمام باتیں جو قیاس کے اعتبار و حجیت کے لئے دلیل بناکر پیش کی گئیں اس کا قیاس سے کوئی ربط نهیں ہے

(مترجم)

____________________

۱. معارج الاصول ، ص ۱۸۷و ۱۸۸

. اصول سرفسی ، ج ۳ ص۱۲۵ تا ۱۳۰

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152