مسئلہ جبر و اختیار میں قائم شدہ نظریات :
بعض لوگ جبر مطلق کے قائل ہوئے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کسی بھی کام کو انجام دینے اور نہ دینے میں مختار اور آزاد نہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس پر کوئی مسئولیت اور ذمہ داری بھی نہیں آئے گی ۔
جدید مادیوں کا نظریہ : انسان سے فعل کا صادر ہونا جبری ہے لیکن انسان کے مجبور ہونے کے باوجود تکلیف اور ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔
ضرورت علت و معلول کے منکرین کا نظریہ: جیسا کہ بعض فیزیکس دان اور فیلسوف کا کہنا ہے کہ کوئی ضرورت یا وجوب اس کائنات پر مؤثر نہیں ہے ۔ جس کا لازمہ یہ ہے کہ افعال انسان پر بھی وجوب یا ضرورت حاکم نہیں ہے۔یعنی کسی واجب الوجود کی ضرورت نہیں۔
بعض متکلمین اوراصولیین کا نظریہ: ان کا کہنا ہے کہ قانون علیت اور معلولیت ، صرف مادہ اور مادیات پر حاکم ہے۔ مثال کے طور پر نفس انسان اور ذات خدا ، اپنے اپنے آثار کی بہ نسبت فاعل ہیں نہ علت۔
بعض نفسیاتی ماہرین کا نظریہ: کسی قسم کی ضرورت ، وجوب اور جبر انسان کے اعمال پر حاکم نہیں ۔ کیونکہ انسان اپنے افعال کو ارادہ کے ساتھ انجام دیتا ہے جو قانون علیت سے آزاد ہے۔
حکمای اسلامی کا نظریہ: یہ نظام ہستی ایک نظام ضروری ہے اور استثناء پذیر نہیں ہے۔ اس کے باوجود انسان اپنے افعال میں مختار اور آزاد ہے۔ اور یہ اختیار و آزادی، ضرورت نظام ہستی سے منافات نہیں رکھتا۔
مندرجہ بالا تقسیمات سے واضح ہوجاتا ہے کہ بعض اختیار کے قائل ہیں اور کچھ لوگ جبر کے۔ لیکن ان دونوں کے درمیان ایک قدر مشترک بھی موجود ہے وہ یہ ہے: قانون ضرورت علّی و معلولی اور انسان کی مجبوریت کے درمیان اورعدم ضرورت علّی و معلولی و اختیار انسان کے درمیان ملازمہ پایا جاتا ہے۔ منتہا ایک گروہ نے ضرورت علّی و معلولی کو قبول کیا اور اختیار کا منکرہوا ۔ دوسراگروہ اختیار کے قائل ہو ااور ضرورت علّی اور معلولی کا منکر۔ اور ہمار نظریہ بالکل ان دونوں نظرئے کا نقطہ مشترک ہے ۔یعنی ہم نہ کسی قانون ضرورت علّی و معلولی اور مجبوریت انسان کے درمیان ملازمہ کے قائل ہیں اور نہ کسی عدم ضرورت علّی و معلولی اور اختیار انسان کے درمیان ملازمہ کا ۔ بلکہ ہمارا ادعی یہ ہے کہ انسان کے متعلق ضرورت علّی اور معلولی کو علل معدّہ اور افعال اور حرکات کے مخصوص مقدمات کو مدنظر رکھ کر اسے اختیار اور انسان کی آزادی کا مؤید قرار دیتے ہیں۔ او اس ضرورت کا انکار کرنا محدودیت اور انسان سے اختیار اور آزادی کو سلب کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔
پس اولا ان بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے تمام اختیاری افعال بھی دوسری ممکنات کی طرح علل اور اسباب کی طرف محتاج ہے۔
ثانیاً انسان کی فعالیتوں اور جمادات کی فعالیتوں میں فرق ہے۔ مثلاً آتش کا لکڑی کو جلانا، اور مقناطیس کا لوہے کو کھینچنا ان کی طبیعت میں ہے اور یہی ایک ہی راہ معین ہے اور اسی ایک راہ سے انحراف کرنے کی اصلاً گنجائش نہیں ہے۔ اسی لئے ان کی فعالیت بھی محدود ہیں۔لیکن جانور اپنی فعالیتوں کو اپنے اختیار اور ارادے کے ساتھ بروی کار لاتے ہیں۔
جبر و اختیار مارکسیزم کی نظر میں
مارکسیزم اصالت جامعہ کے قائل ہے ان کا کہنا ہے کہ انسان پیکراجتماع کے مختلف اعضاء ہیں اور ان اعضاء (افراد اور اشخاص) کیلئے کوئی استقلال اور اصالت نہیں ہے۔ اسی لئے سرنوشت انسان کو جامعہ معین کرتا ہے۔ انسانی زندگی کے تمام پہلو ، اجتماعی تحولات اور تبدیلیوں کے ساتھ تشکیل پاتے ہیں۔ اور ہمیشہ جامعہ کے تابع ہیں ۔
نظریہ مارکسیزم پر دو اشکال :
اشکال١۔
تاریخ کو ایک واقعیت عینی اور خاص قوانین کے حامل تصور کیا ہے۔ جبکہ خود مارکسیزم کے نظریے کے مطابق ہر چیز کی حقیقت تک پہنچنے کیلئے وا حد راستہ ، تجربہ اور آزمائش ہے ۔ در حالیکہ قوانین اور تاریخ حاکم ، قابل تجربہ اور آزمائش نہیں ۔ پس قوانیں کو کہاں سے کشف کئے گئے؟
اشکال ٢۔
اصالت جامعہ کے قائل ہونا او رانسان کو تغییرات اجتماعی کے تانع تصور کرنا بھی واقعیت کے خلاف ہے۔ مارکسیزم کے نظریے کے مطابق انسان کاملاً عدم محض تو نہیں ۔ بلکہ انسان خود وجود استقلالی رکھتا ہے۔ بہت سارے انسان تاریخ بشریت میں گذرے ہیں جنہوں نے مسیر جامعہ کو متغیر کرتے ہوئے انقلاب پیدا کئے ہیں ۔ اور شرائط اجتماع کے مقابلے میں مقاومت اور تلاش کرکے جامعہ کو بہتر اور برتر حالت میں تبدیل کئے ہیں۔ جس سے معلوم ہوا اصالت فرد کیلئے ہے اور جامعہ واقعیت نہیں رکھتا۔
جبر و اختیار اشاعرہ کی نظر میں
گروہ متکلمین میں سے اشاعرہ معتقد ہیں کہ فاعل فقط خدا تعالی ہے ۔ خدا بغیر کسی واسطے کے موجودات عالم کو خلق کرتا ہے۔ خدا کے علاوہ کسی بھی مخلوق کیلئے لفظ فاعل کا استعمال کرنا مجازی ہے۔ اگر انسان کسی فعل کو انجام دیتا ہے، آگ لکڑی کو جلاتی ہے اورپانی چیزوں کو تر کرتا ہے تو حقیقت میں یہ سارا کام خدا انجام دے رہا ہے۔ البتہ یہ انسان ،آگ اور پانی اسباب اور علل کا ایک سلسلہ ہے۔ جن کے ذریعے خدا نے عادی طور پر اپنے ارادے کو ظاہر کیا ہے۔ ہم نے ان اسباب کی علت اور وہ موجودات جو ان پر مترتب ہوتی ہیں معلول تصور کیا ہے۔ مثلاً آگ کو علت حرارت تصور کیا ہے درحالیکہ آگ اور حرارت دو جدا گانہ چیزیں ہیں ۔ اور ان دونوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔اور انسان کے اختیاری افعال بھی افعال الہی میں سے ہے ۔ اور اگر ہم کہتے ہیں کہ اس کام کو میں نے انجام دیا ہے اور میں اس کا فاعل ہوں ، تو یہ تعبیر مجازی ہے۔
دلائل جبریہ:
قرآن
انسان کیلئے افعال اختیاری بے معنی ہے اس بات پر انہوں نے قرآان مجید سے دلیل پیش کی ہے:
١۔(
فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللّهَ رَمَى
)
-
- "پس انہیں تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور (اے رسول) جب آپ کنکریاں پھینک رہے تھے اس وقت آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے کنکریاں پھینکی تھیں "
٢۔(
أَتَى أَمْرُ اللّهِ فَلاَ تَسْتَعْجِلُوهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ
)
–
- امر الٰہی آگیا ہے لہذا اب بلاوجہ جلدی نہ مچاؤ کہ خدا ان کے شرک سے پاک و پاکیزہ اور بلند و بالا ہے۔
٣۔(
وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
)
-
- اور تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگریہ کہ عالمین کا پروردگار خدا چاہے
٤ ۔(
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
)
-
- پیغمبر بیشک آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے ہیں بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے اور وہ ان لوگوں سے خوب باخبر ہے جو ہدایت پانے والے ہیں۔
۵ ۔(
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
)
۔
اے رسول تم یہ بتا دو کہ اے خدا تمام عالم کا مالک تو ہے جس کو چاہے سلطنت دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو ہی جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے، ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر چیز پر قادر ہے۔
____________________