چوتھی فصل :جبر و اختیار کے متعلق صحیح نظریہ
گذشتہ بحثوں سے ہم پر واضح ہوا کہ نظریہ اشاعرہ (جبریہ) اور نظریہ معتزلہ(تفویض) دونوں باطل عقیدہ تھا ۔ اس فصل میں نظریۂ معصومین(ع) جو صحیح نظریہ ہے مورد بحث قرار دینگے۔ چنانچہ یہ کائنات نظام علت و معلول پر قائم ہے ۔ بحث کی ابتداء بھی علیت سے کرتے ہیں ۔ پہلے گذر گیا کہ علت دو قسم کے ہیں :
١۔علت تامہ یا علت العلل ،جو خدا تعالی کی ذات سے مخصوص ہے۔
٢۔علت معدّہ یا علت ناقصہ ۔ جو خدا کے سوا تمام موجودات عالم پر صدق آتا ہے۔ علت معدہ ممکن ہے اپنے معلول سے نزدیک ہو یا بعید ۔ مثال کے طور پر ہم اگر ایک خط لکھنے لگے تو کئی علل اور اسباب بروی کار لاتے ہیں ۔ قلم ، ہاتھ ، فکر ، ارادۂ روح ، یہ ساری علتیں ایک دوسرے کے طول میں ہیں ۔ یعنی قلم کو ہاتھ حرکت دیتا ہے ہاتھ کو فکر اور فکر کو ارادہ اور ارادہ کو روح حکم کرتی ہے۔ اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قلم نے خط کو لکھا ہاتھ نے لکھا فکر نے یا ارادہ نے لکھا۔ ۔ ۔ اوریہ سلسلہ ایک مستقل وجودپر جاکر ختم ہوتا ہے اور وہ وجود مستقل ذات باری تعالی ہے اور کہہ سکتا ہے کہ اس خط کو خدا نے لکھا ہے کیونکہ خدا کے ارادے کے بغیر ہمارا کوئی وجود نہیں ، جسے ایک نورانی جملے میں یوں بیان کیا ہے: بحول اللہ وقوتہ اقوم و اقعد۔
الامر بین الامرین قرآن کی نگاہ میں
قرآن مجید میں بہت ساری آیتیں موجود ہیں جو الامر بین الامرین پر دلالت کرتی ہیں ۔ یعنی ایک انسانی فعل کو بغیر کسی تزاحم کے خدا کی طرف بھی نسبت دے سکتا ہے ۔
١ ۔ کبھی خدا وند ایک فعل کو آن واحد میں بندہ کی طرف نسبت دیتا ہے اور پھر اسی نسبت کو انسان سے سلب کرکے اپنی طرف دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا :(
فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللّهَ رَمَى وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاء حَسَناً إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
)
-
- پس تم لوگوں نے ان کفاّر کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے قتل کیا ہے اور پیغمبرآپ نے سنگریزے نہیں پھینکے ہیں بلکہ خدا نے پھینکے ہیں تاکہ صاحبان ایمان پر خوب اچھی طرح احسان کردے کہ وہ سب کی سننے والا اور سب کا حال جاننے والا ہے۔
عارف رومی نے یوں اپنے شعر میں اس مطلب کو بیان کیا ہے :
نیز اندر غالبی ہم خویش را
دید او مغلوب دام کبریا
مارمیت اذ رمیت آمد خطاب
گم شد او اللہ اعلم بالصواب
یعنی ایسا ممکن نہیں کہ صرف خدا کی طرف نسبت دے اور یہ بھی ممکن نہیں کہ صرف بندہ کی طرف نسبت دے۔
٢۔ ایک دوسری آیت میں فعل کو بندے کی طرف نسبت دی گئی ہے لیکن تیسری آیت میں خدا وند اپنی طرف۔ اور یہ نسبت دینا صرف اسی وقت صحیح ہوتا ہے کہ دو نسبتوں کے قائل ہوجائے ۔ چنانچہ فرمایا :
(
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاء وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
)
-
- پھر تمہارے دل سخت ہوگئے جیسے پتھر یا اس سے بھی کچھ زیادہ سخت کہ پتھروں میں سے تو بعض سے نہریں بھی جاری ہوجاتی ہیںاور بعض شگافتہ ہوجاتے ہیں تو ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض خورِ خدا سے گر پڑتے ہیں. لیکن اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔
(
فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَنَسُواْ حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُواْ بِهِ وَلاَ تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىَ خَآئِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنْهُمُ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
)
۔ پھر ان کی عہد شکنی کی بنا پر ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا وہ ہمارے کلمات کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور انہوں نے ہماری یاددہانی کا اکثر حصّہ فراموش کردیا ہے اور تم ان کی خیانتوں پر برابر مطلع ہوتے رہوگے علاوہ چند افراد کے لہذا ان سے درگزر کرو اور ان کی طرف سے کنارہ کشی کرو کہ اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
یہ آخری دو آیتیں بنی اسرائیل کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں ۔ اگر قسوہ کے عارض ہونے میں کافروںکا کوئی ہاتھ نہ تھا تو ان کی مذمت کرنا صحیح نہیں تھا ۔ دوسری آیت میں ان کی مذمت کرنے کا اصل سبب کو بیان کیا ہے۔ کہ یہ لوگ وعدہ خلافی کرنے والے تھے۔ اس وعدہ خلافی کی وجہ سے خدا نے ان کے دلوں کو قاسیہ قرار دیا ہے جس کی وجہ سے انبیاء الہی کے انذار وتبشیر اور وعظ ونصیحت بھی ان پر مؤثر ثابت نہیں ہوسکی ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بندوں کے فعل کیلئے دو نسبتیں موجود ہیں۔
کیا قرآن کی آیات کے درمیان تناقض موجود ہے؟
٣۔ جیسا کہ گذشتہ بحثوں میں بہت ساری آیتیں ذکر ہوئیں کہ ان میں سے کچھ اختیار انسان پر دلالت کرتی ہیں ۔ اور کچھ آیات صراحت کیساتھ اس کائنات کامؤثر صرف اور صرف مشیت الہی کو سمجھتی ہیں ۔لا مؤثر فی الوجود الا الله
۔
ایک دستہ آیت جبر کی نفی کرتی ہے ، دوسرا دستہ تفویض کی نفی کرتی ہے۔ اب ان دونوں میں جمع کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ قرآن میں تناقض گوئی نہیں ہونی چاہئے ۔ اور جب تک الامر بین الامرین کے قائل نہ ہوجائے،اس ظاہری تناقض کوئی سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ کہ بندہ اپنے اختیار سے کسی فعل کو انجام دے یا ترک کردے۔ درعین حال خدا کی اجازت اور رضایت بھی ضروری ہے ۔لایقع فی سلطانه ما لا یرید
۔ یعنی خدا کی سلطنت میں اس چیز کا کوئی فائدہ نہیں جس میں اس کا ارادہ شامل نہ ہو۔
____________________