• ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5947 / ڈاؤنلوڈ: 3755
سائز سائز سائز
 مثالی معاشرہ نہج البلاغہ کی روشنی میں

مثالی معاشرہ نہج البلاغہ کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

مثالی معاشرے کی اہم خصوصیات۔

مثالی معاشرے کی ضروت اور ارکان کی وضاحت کے بعد اب اسکی اہم اور بے مثال خصوصیات کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو اسے دوسرےغیر اسلامی مشرقی اور مغربی معاشرے سے الگ اور متمایز کردیتی ہیں یہ خصوصیات معاشرے کے سیاسی، اجتماعی، ثقافتی، معیشتی، امنیتی میادین وغیرہ سے مکمل رابطہ رکھتی ہیں امام کی نظر میں جب تک ایک مثالی اور آئیڈیل سوسائٹی کے اندرایسی خصوصیات اور صفات نہ پائی جائیں تب تک اسکے اہداف اور خلقت کے اصلی مقاصد کی دستیابی بھی ناممکن ہے۔ اگر چہ مکتب امام کے ایسے معاشرے میں بہت ساری صفات اور خصوصیات کی جانب اشارہ ملتا ہے لیکن مقالہ کی وسعت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری کوشش یہی ہے کہ اس کی اہم ترین خصوصیات کو بیان کرنے پہ ہی اکتفا کریں گے۔

آزادی

اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادای انسان کا پیدایشی حق ہے عصر حاضر میں جتنا آزادی بشر کے بارے میں لکھا اور کہاجاتا ہے شاید ہی انسانی تاریخ کے کسی اور دور میں اس سلسلے میں گفت و شنید ہوئی ہوامام علی(ع) کے مثالی معاشرے کی سب سے اہم اور بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر طرح کی آزادی سے مالا مال ہے اس میں زندگی گزارنے والے افراد اپنی ذاتی اور معنوی آزادی سے لیکر سیاسی آزادی پر مکمل اختیار رکھتے ہیں آپکی آرزو یہی ہے کہ اس معاشرے کے سارے افراد کے اندر اپنے آپ کو ہر طرح کے قید و بند سے آزاد سمجھنے کا شعور اور سلیقہ پیدا ہوجائے نہ یہ کہ آزادی کو حکمران کی جانب سے لایا ہو ایک تحفہ جانیں۔ شہید مطہری فرماتے ہیں:سیاسی اور اجتماعی آزادی تک پہنچنے کے لئے معنوی آزادی بھی ضروری ہے یعنی انسان اپنی قید اوراسارت سے بھی آزاد ہوجائے۔ امام(ع) اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

(لاَ تَكُنْ عَبْدَ غَيْرِكَ وَقَدْ جَعَلَكَ اللهُ حُرّاً َ) ”کسی کا غلام مت بنو کیونکہ خدا نے تمہے آزاد پیدا کیا ہے“

آپ سخت اور دشوارترین حالات میں بھی لوگوں کے اس ذاتی حق کا بھرپور خیال رکھتے تھےچنانچہ جب سہل بن حنیف نے مدینہ میں معاویہ کے ساتھ لوگوں کی ملاقات کی شکایت کی، آپ نے فرمایا:

(فَلاَ تَأْسَفْ عَلَى مَا يَفُوتُكَ مِنْ عَدَدِهِمْ، وَيَذْهَبُ عَنْكَ مِنْ مَدَدِهِمْ، فَكَفى لَهُمْ غَيّاً وَلَكَ مِنْهُمْ شَافِياً، فِرَارُهُمْ مِنَ الْهُدَى والْحَقِّ، وَإِيضَاعُهُمْ إِلَى الْعَمَى وَالْجَهْلِ )”خبردار تم اس عدد کے کم ہوجانے اور اس طاقت کے چلے جانے پر ہرگز افسوس نہ کرنا کہ ان لوگوں کی گمراہی اور تمہارے سکون نفس کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ لوگ حق و ہدایت سے بھاگے ہیں اور گمراہی اور جہالت کی طرف دوڑپڑے ہیں“

اسی طرح حکمیت کے بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہونے پر فرمایا:

(وَلَيْسَ لِي أَنْ أَحْمِلَكُمْ عَلَى مَا تَكْرَهُونَ !) ”میں تمہے کسی ایسی چیز پر آمادہ نہیں کرسکتا ہوں جو تمہیں ناگوار اور ناپسند ہو“

سیاسی امور میں آزادی کے حوالے سے لوگوں کا سب سے اہم حق، انتخاب کا حق ہوتا ہے یہ بات طلحہ اور زبیر کو لکھے گئے ایک خط سے روشن ہو جاتی ہے کہ امام نے اس حوالے سے بھی لوگوں کومکمل آزادی دے رکھی تھی ۔

(أَنِّي لَمْ أُرِدِ النَّاسَ حَتَّى أَرَادُونِي، وَلَمْ أُبَايِعْهُمْ حَتَّى بَايَعُونِي، وَإِنَّكُمَا مِمَّنْ أَرَادَنِي وَبَايَعَنِي، وَإِنَّ العَامَّةَ لَمْ تُبَايِعْنِي لِسُلْطَان غَاصِب، وَلاَ لِعَرَض حَاضِر ) ”میں نے خلافت کی خواہش نہیں کی لوگوں نے مجھ سے خواہش کی ہے اور میں نے بیعت کے لئے اقدام نہیں کیا ہے جب تک انہوں نے بیعت کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے تم دونوں بھی انہیں افراد میں شامل ہو جنہوں نے مجھے سے چاہاتھا اور میری بیعت کی تھی اور عام لوگوں نے بھی میری بیعت نہ کسی سلطنت کے رعب دأب سے کی ہے اور نہ کسی مال و دنیا کی لالچ میں کی ہے“

یعنی لوگ ہر طرح سے آزاد تھے کسی مجبوری یا جبر و زیادتی کی وجہ سے میری بیعت نہیں کی ہے اسی طرح اھل کوفہ کو ایک خط لکھتے ہوئے لوگوں کے آزاد اور مختار ہونے کی جانب اشارہ فرماتے ہیں:

(بَايَعَنِي اَلنَّاسُ غَيْرَ مُسْتَكْرَهِينَ وَ لاَ مُجْبَرِينَ بَلْ طَائِعِينَ مُخَيَّرِين ) ”لوگوں نے میری بیعت کی جس میں نہ کوئی جبر تھا اور نہ اکراہ، بلکہ سب کے سب اطاعت گذار تھے اور مختار“

پس ان اقوال کی روشنی میں یہ بات ہمارے لئے روشن ہوجاتی ہےکہ امام علی (ع)کا معاشرہ آزاد معاشرہےیہاں اپنی ذاتی اور معنوی آزدی سے لیکر سیاسی امور کی آزادی کا پوراخیال رکھاجاتا ہے اس مثالی معاشرے میں آزاد نسل پروان چڑھتی ہے غلامی کا یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

صالح قیادت:

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک چھوٹے سے گھرانے سے لیکر ایک بڑی جماعت تک کے لئے ایک قائد کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے ہر طرح کی سستی اور بے انضباطی سے بچاتے ہوے اس کے اندر نظم و انضباط پیدا کرسکےامام علی (ع)کی نظر میں ہر معاشرے کے لئے ایک حاکم اور قائد کی ضرورت ہے۔ (لاَبُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِير بَرّ أَوْ فَاجِر ) ”لوگوں کے لئے ایک حاکم اور قائد کا ہونا ضروری ہے چاہے وہ نیک ہو یا برا“لیکن مثالی معاشرے کی قیادت کے کچھ معیار ہیں امام کا مثالی معاشرہ صالح اور نیک قیادت کی حاکمیت پر استوار ایک ایسا منفرد معاشرہ ہے جس کے سیاسی، معاشرتی، ثقافتی امور کو ادارہ کرنے کے لئے شایستگی، اور صلاحیت کو دیکھا جاتا ہے نہ کسی حسب و نسب کو، اسی لئے ایسے افراد کی باتوں پر اظہار تعجب کرتے ہیں جوخلافت اور امت مسلمہ کی حاکمیت کی گدی پربیٹھنے کے لئے صرف آنحضور(ص)کے صحابی ہونے کے معیار کو کافی جانتے تھےاگر یہی معیار ہے تو پھر میں زیادہ مستحق خلافت ہوں کیونکہ میں صحابی کے علاوہ قرابت دار بھی ہوں۔ (وَا عَجَبَاهْ أَتَكُونُ الْخِلَافَةُ بِالصَّحَابَةِ وَ الْقَرَابَةِ ) ”واعجباہ!خلافت صرف صحابیت کی بناپر مل سکتی ہے لیکن اگر صحابیت اور قرابت دونوں جمع ہوجائیں تو نہیں مل سکتی ہے“

آپ ہر طرح کے حسب و نسب اورذاتی روابط کی نفی کرتے ہوے مثالی معاشرے کے لائق اور صالح قائد اور رہبرکی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں:(وَمَكَانُ الْقَيِّمِ بِالاَْمْرِ مَكَانُ النِّظَامِ مِنَ الْخَرَزِ يَجْمَعُهُ وَيَضُمُّهُ: فَإِنِ انْقَطَعَ النِّظَامُ تَفَرَّقَ وَذَهَبَ، ثُمَّ لَمْ يَجْتَمِعُ بِحَذَافِيرِهِ أَبَداً ) ”ملک میں ایک رہبر کی جگہ اس محکم دھاگے کی مانند ہے جو مہروں کو متحد کر کے آپس میں ملاتی ہے اور وہ اگر ٹوٹ جائے گاتوسارا سلسلہ بکھر جائے گا اورپھرہرگز دوبارہ جمع نہیں ہوسکتا ہے“

اور اسی طرح رھبر اور قائد امت مسلمہ ہونے کے ناطے اپنا تعارف یوں کراتے ہیں:

(و انما انا قطب الرحا تدور علیّ و انا بمکانی ، فاذا فارقته استحار مدارها و اضطرب ثفالا ) ”میں حکومت کی چکی کا محور ہوں جسے میرے گرد چکر لگانا چاہیے اگر میں اپنے محور سے دور ہوا تووہ اپنے مدار سے ڈگمگا جائے گی اور اسکی نیچے کی بساط بھی متزلزل ہوجائیگی“

امام علی (ع)کے مثالی معاشرے میں غیر صالح قائدکی کوئی جگہ نہیں ہےکیونکہ رعیت اپنے حاکم کی اتباع کرتی ہے لہذا فاجر اور فاسق حاکم کی صورت میں پوری رعیت فاسد ہوجائے گی لیکن صالح اور نیک حاکمیت کی صورت میں معاشرہ بھی صالح اور نیک بن جاتا ہے اسی بناپرآپ ایک صالح رھبر اور قائد کے بغیر مثالی معاشرے کی تشکیل بھی ناممکن جانتے ہیں۔

(فَلَيْسَتْ تَصْلُحُ الرَّعِيَّةُ إِلاَّ بِصَلاَحِ الْوُلاَةِ ) ”رعایا کی اصلاح تب تک ممکن نہیں ہے جب تک والی صالح نہ ہو“

اسی طرح آپ نے مختلف مقامات پر ایک صالح اور مثالی رھبر اور قائد کی خصوصیات اور صفات بھی بیان فرمائے ہیں عادل اور منصف قائد کی اطاعت اور فرمانبرداری کے سائے میں پیدا ہونے والے مثالی معاشرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

(اتقوا الله و اطیعوا امامکم فان الرعیة الصالحة تنجو بالامام العادل، الا و ان الرعیة الفاجر تهلک بالامام الفاجر ) ”خدا سے ڈرو اور اپنے رہبر اور پیشوا کی اطاعت کرو کیونکہ صالح قوم عادل پیشوا کے ذریعہ سے نجات پاتی ہے خبردار فاسد قوم فاسد پیشوا کی وجہ سے ہلاک ہو جاتی ہے“

پس یہ بات کافی حد تک واضح ہوگی کہ امام علی کے مثالی معاشرے کا ایک اہم جز صالح قیادت ہے یہاں صلاحیت اور اچھائی کی پرورش ہوتی ہےنہ حسب و نسب کی بناپر برائی کی ترویج اسی لئے یہ معاشرہ ہر طرح کی برائی سے پاک ہے۔

قانون گرایی:

نہج البلاغہ کی دنیا میں تشکیل پانے والے مثالی معاشرے کی ایک اور بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک قانون گرا معاشرہ ہے یہاں قانون اور ضوابط کی حاکمیت ہے کسی کو حق نہیں بنتا کہ اپنے نفع کی خاطر یا نقصان سے بچنے کے لئے قانون کو پاؤں تلے روند دے آپ معاشرے میں اٹھائے گئے کسی بھی سیاسی، اجتماعی یا فوجی اقدامات کی وجہ نفاذ قانون اور شریعت ہی بتلاتے ہیں آپ خالق کائنات کے ساتھ مناجات کرتے ہوئے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں:

(اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ اَنَّهُ لَمْ يَكُنِ الَّذِي كانَ مِنّا مُنافَسَةً فِي سُلْطانٍ وَ لا الْتِماسَ شَيْءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطامِ وَ لكِنْ لِنَرُدَّ الْمَعالِمَ مِنْ دِينِكَ وَ نُظْهِرَ الْإِصْلاحَ فِي بِلادِكَ فَيَأمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبادِكَ وَتُقامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُودِكَ ) ”بار الٰہا! تو خوب جانتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہم سے (جنگ و پیکار کی صورت میں)ظاہر ہوا اس لیے نہیں تھا کہ ہمیں تسلط و اقتدار کی خواہش تھی یا مال دنیا کی طلب تھی بلکہ یہ اس لیے تھا کہ ہم دین کے نشانات کو (پھر ان کی جگہ پر )پلٹائیں اور تیرے شہروں میں امن و بہبودی کی صورت پیدا کر یں تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی کھٹکا نہ رہے اور تیرے وہ احکام (پھر سے )جاری ہو جائیں جنہیں بیکار بنا دیا گیاہے “

آپ کی نظر میں مثالی معاشرے کی تشکیل کا ایک اہم ذریعہ حکومت اسلامی کا قیام ہے جس کے سائے میں اس کے اصلی مقصد یعنی قانون الہی کو بھی اجرا کیا جاسکتا ہے آپ عملی صورت میں خلافت اسلامی کو قبول کرنے کی ایک اہم وجہ بھی یہی نفاذ شریعت ہی بتلاتے ہیں۔

(وَاللهِ مَا كَانَتْ لِي فِي الْخِلاَفَةِ رَغْبَةٌ، وَلاَ فِي الْوِلاَيَةِ إِرْبَةٌ وَلكِنَّكُمْ دَعَوْتُمُونِي إِلَيْهَا، وَحَمَلْتُمُونِي عَلَيْهَا، فَلَمَّا أَفْضَتْ إِلَيَّ نَظَرْتُ إِلَى كِتَابِ اللهِ وَمَا وَضَعَ لَنَا، وَأَمَرَنَا بِالْحُكْمِ بِهِ فَاتَّبَعْتُهُ، وَمَا اسْتَسَنَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله فَاقْتَدَيْتُهُ ) ”خدا کی قسم! مجھے تو کبھی بھی اپنے لئے خلافت اور حکومت کی حاجت و تمنا نہیں رہی تم ہی لوگوں نے مجھے اس کی طرف دعوت دی اور اس پر آمادہ کیا۔ چنانچہ جب وہ مجھ تک پہنچ گئی تو میں نے اللہ کی کتاب کو نظر میں رکھا اور جو لائحہ عمل اس نے ہمارے سامنے پیش کیا اور جس طرح فیصلہ کرنے کا اس نے حکم دیا میں اسی کے مطابق چلا اورجو سنت پیغمبر قرار پاگئی اس کی پیروی کی“

اسی طرح مالک اشتر کو قانون الہی اجرا کرنے کی سخت تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مثالی معاشرے میں سعادتمند زندگی کے حصول کے لئے قانون کا نفاذ ضروری ہے و گرنہ معاشرہ بربادی کے دلدل میں گرجائے گا۔

(امره بتقوي الله،و ايثار طاعته، واتباع ما امر به في کتابه من فرائضه وسننه، التي لايسعد احد الا باتباعها ولايشقي الا مع جحودها و اضاعتها ) ”سب سے پہلا امر یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو اس کی اطاعت کو اختیار کرو اور جن فرائض کا اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کرو کہ کوئی شخص ان کے اتباع کئے بغیر نیک بخت نہیں ہوسکتا ہے اور کوئی شخص ان کے انکار اور بربادی کے بغیر بدبخت نہیں قرار دیا جاسکتا“

مثالی معاشرے میں قانون ہی ایک ایسی چیز ہے جو معاشرے میں برابری اور مساوات قائم کردیتی ہے اور ہر طرح کی تبعیض ختم کرکے ایک صالح معاشرہ وجود میں لاتی ہے امام علی(ع) کے قانون میں تبعیض کی کوئی گنجایش نہیں اپنے سیاسی پیغام میں مالک اشتر سے یہی چاہتے ہیں کہ قانون میں مساوات سے کام لے کیونکہ قانون کے آگے سب برابر ہیں۔

(وَإيَّاكَ وَالاْسْتِئْثَارَ بِمَا النَّاسُ فِيهِ أُسْوَةٌ ) ”دیکھو جس چیز میں تمام لوگ برابر کے شریک ہیں اسے اپنے ساتھ مخصوص نہ کرلینا“

اسی طرح حلوان کے سپاہیوں کے سپہ سالار اسود ابن قطبہ کے نام لکھے ایک خط میں قانون کی برابری پر زور دیتے ہیں۔

(فَلْيَكُنْ أَمْرُ النَّاسِ عِنْدَكَ فِي الْحَقِّ سَوَاءً) ”لیکن تمہاری نگاہ میں تمام افراد کے معاملات کو ایک جیسا ہونا چاہیے“

لیکن ان الہی قوانین کو ہر کوئی اجرا نہیں کرسکتایہ تھوڑے ہی مغربی معاشرے کے قانون گذار ہیں جو اپنے نفع و نقصان کو دیکھ کے قانون بناتے ہیں اور ہر طرح کی برائیوں میں ملوث ہونے کے بعد بھی قانون اجراکرنے کے دعو ے دار بن جاتے ہیں یہ امام علی(ع) کا مثالی معاشرہ ہےیہاں قانون نافذ کرنے والے افراد کو ہر طرح کے عیب اور نقائص سے پاک ہونا چاہیے۔

(لَا يُقِيمُ أَمْرَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ إِلَّا مَنْ لَا يُصَانِعُ وَ لَا يُضَارِعُ وَ لَا يَتَّبِعُ الْمَطَامِعَ ) ”حکم الہی کا نفاذ وہی کرسکتا ہے جو حق کے معاملہ میں مروت نہ کرتا ہو اور عاجزی و کمزوری کا اظہار نہ کرتا ہو اور لالچ کے پیچھے نہ دوڑتا ہو“

پس نہج البلاغہ میں تشکیل پانے والا مثالی معاشرہ قانون گرا اور قانون مدار معاشرہ ہے ایک ادنی اور عام آدمی سے لیکر ایک حاکم اعلی تک سب کے سب قانون کے آگے یکسان اور برابر ہیں یہان نفاذ قانون کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی تبعیض نہیں کی جاسکتی۔

حق مداری:

مکتب نہج البلاغہ میں بیان ہونے والا مثالی معاشرہ حق مدار ہے حق اور حقیقت پر مبنی ہےاس معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے افراد کا معیار اور محور حق ہیں ایسے افراد (يعترف بالحق قبل ان يشهد عليه ) ”گواہی طلب کئےجانے سے پہلے حق کا اعتراف کرتے ہیں“ اور (و یصف الحق و یعمل به) ”حق کی معرفت رکھنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کرتے ہیں“آپکی نظر میں بیان و توصیف کے اعتبار سے حق کا دائرہ کافی وسیع ہے لیکن عملی میدان میں کافی تنگ ہے۔

(وَالْحَقُّ اَوْسَعُ الْاشْيَاءِ فِي التَّواصُفِ، وَ اَضْيَقُها فِي التَّناصُفِ ،) ”اور حق مدح سرایی کے اعتبار سے تو بہت وسعت رکھتا ہےلیکن انصاف کے اعتبار سے بہت تنگ ہے“

مثالی معاشرے میں حق محوری کو فروغ دینے کے لئے امام لوگوں سے حق اور عدالت آمیز مشورہ دینے کی ترغیب کرتے ہیں اور ہر طرح کے ڈر اور خوف کی نفی کرتے ہیں آپ کی نظر میں مثالی معاشرے کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ حاکم، عوام کی حق بات کو اپنے دل کی گہرائیوں سے سنتا ہے اور انکے حق اور عدالت آمیز مشوروں سے استفادہ کرتے ہوئے معاشرے کی فلاح اور بہبود کی جدوجہد میں رہتا ہے یہ سلطنت اور شہنشاہی نظام نہیں ہے جہاں حق اور حقیقت کا گھلا گھونٹا جاتا ہے یہاں ہر چیز کا محور اور مرکز حق ہے ۔

(وَ لا تَظُنُّوا بِي اسْتِثْقالاً فِي حَقِّ قِيلَ لِي، وَلا الْتِماسَ إِعْظامٍ لِنَفْسِي، فَإِنَّهُ مَنِ اسْتَثْقَلَ الْحَقَّ انْ يُقالَ لَهُ، اَوِالْعَدْلَ انْ يُعْرَضَ عَلَيْهِ كانَ الْعَمَلُ بِهِما اَثْقَلَ عَلَيْهِ، فَلا تَكُفُّوا عَنْ مَقالَةٍ بِحَقِّ اَوْ مَشُورَةٍ بِعَدْلٍ ) ”میرے متعلق یہ گمان نہ کرو کہ میر ے سامنے کوئی حق بات کہی جائے گی تو مجھے گراں گزرے گی اور نہ یہ خیال کرو کہ میں یہ درخواست کروں گا کہ مجھے بڑھا چڑھا دو کیونکہ جو اپنے سامنے حق کے کہے جانے اورعدل کے پیش کئے جانے کو بھی گراں سمجھتا ہو اسے حق او رانصاف پرعمل کرنا کہیں زیادہ دشوار ہوگاتم اپنے کو حق کی بات کہنے اور عدل کا مشورہ دینے سے نہ روکو“

پس امام علی(ع) کے مثالی معاشرے کا محور حق ہے یہاں ادنی فقیر سے لیکر اعلی حاکم تک سب کے سب حق بیانی میں یکساں ہیں یہ معاشرہ اس زاویے سے بھی دوسرے معاشروں سے ممتاز ہے چونکہ عصر حاضر میں مثالی معاشرے کا پرچم اٹھانے والنے مغربی تہذیب کے حامی محض باطل کی ترویج میں ہیں یہ معاشرے حق کشی اور حق تلفی میں اول درجے پر ہیں انہیں مکتب نہج البلاغہ کے اس حق مدار اور حق محور معاشرے پر ایک بار پھر سے غور کرنا چاہیےیہاں حق کہاجاتا ہے حق سناجاتا ہے اور حق پہ عمل ہوتا ہے باطل کی کوئی گنجایش نہیں۔

عقل گرایی:

کائنات میں صرف انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جسے اللہ تعالی نے عقل کے نایاب گوہر سے نوازا ہے انسان اور حیوان کے درمیان عقل ہی فصل ممیز ہے لہذا جو انسان اپنی عقل سے استفادہ نہ کرے وہ بھی حیوان ہے بلکہ قرآن کی نظر میں کبھی حیوانوں سے بھی پست اور نیچا ہوجاتا ہے.( اولئک کالانعام بل هم اضلّ ) (سوره اعراف، ۱۷۹) امام علی(ع)کے مثالی معاشرے میں عقل کا عنصر کافی عمل دخل رکھتا ہے یہ عقلمندوں کامعاشرہ ہے اس معاشرے پر عقلانیت حاکم ہے یہاں جاہلیت ،بے جا غیرت اور غیرمعقول احساسات کی کوئی گنجایش نہیں ہے آپ کی نظر میں زمانہ جاہلیت کا معاشرہ عقل و درایت سے عاری ایک حیوان نما اور درندہ ساز معاشرہ تھاپیغمبر کی بعثت کی جانب اشارہ کرتے ہوے فرماتے ہیں:

(واَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلَى شَرِّ دِينٍ وَ فِي شَرِّ دَارٍ مُنِيخُونَ بَيْنَ حِجَارَةٍ خُشْنٍ وَحَيَّاتٍ صُمِّ تَشْرَبُونَ الْكَدِرَ وَ تَأْكُلُونَ الْجَشِبَ وَ تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَ تَقْطَعُونَ اَرْحَامَكُمْ الْاءَصْنَامُ فِيكُمْ مَنْصُوبَةٌ وَ الْآثَامُ بِكُمْ مَعْصُوبَةٌ )”(پیغمبر کی بعثت سے پہلے)تم گروہ عرب بدترین دین کے مالک اور بدترین علاقہ کے رہنے والے تھے ، ناہموار پتھروں اور زہریلے سانپوں کے درمیان بود و باش رکھتے تھے، گندہ پانی پیتے تھے اور غلیظ غذا استعمال کرتے تھے، آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے اور قرابتداروں سے بے تعلقی رکھتے تھے، بت تمہارے درمیان نصب تھے اور گناہ تمہیں گھیرے ہوئے تھے“

پیغمبر نازنین (ص)نے انہیں جہالت کی تاریکی سے نکال کر نور ہدایت اور عقلانیت سے نوازا۔

(فَهَداهُمْ بِهِ مِنَ الضَّلالَهِ وَ انْقَذَهُمْ بِمَكانِهِ مِنَ الْجَهالَه )”مالک(خدا) نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے نجات دی اور جہالت سے باہر نکال لیا“

(ویثیروا لهم دفائن العقول ) ”اور انکی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں“

امام علی(ع) کا فرمان ہے کہ جہاں عقلانیت نہ ہو وہاں تباہی اور فساد حاکم ہو تا ہے آپ معاویہ کے ہاتھوں ترویج پائے جانے والے غیراسلامی معاشرے کی ایک اہم وجہ عوام اور لوگوں کی اندھی تقلید اور ناآگاہی جانتے ہیں۔

(...وَ اَقْرِبْ بِقَوْمٍ مِنَ الْجَهْلِ بِاللَّهِ قَائِدُهُمْ مُعَاوِيَةُ وَ مُؤَدِّبُهُمُ ابْنُ النَّابِغَةِ ) ”... وہ قوم اللہ (کے احکام)سے کتنی جاہل ہے کہ جس کاپیشرو معاویہ اور معلم نابغہ(عمرعاص) کابیٹا ہے“

اسی طرح امام علی(ع) عقل گرایی کی بنیاد پر احساسات کو ابھارنے سے پرہیز دلاتے ہیں جنگ صفین میں سپاہیوں کی ایک دوسرے کو گالیاں دینے کی خبر ملنے پر فرمایا:

(إِنِّي اكْرَهُ لَكُمْ اَنْ تَكُونُوا سَبّابِينَ وَ لكِنَّكُمْ لَوْ وَصَفْتُمْ اَعْمالَهُمْ وَ ذَكَرْتُمْ حالَهُمْ كانَ اَصْوَبَ فِي الْقَوْلِ وَ اَبْلَغَ فِي الْعُذْرِ وَ قُلْتُمْ مَكانَ سَبِّكُمْ إِيّاهُمْ اللَّهُمَّ احْقِنْ دِمائَنا وَ دِمائَهُمْ وَ اَصْلِحْ ذاتَ بَيْنِنا وَ بَيْنِهِمْ وَ اهْدِهِمْ مِنْ ضَلالَتِهِمْ حَتَّى يَعْرِفَ الْحَقَّ مَنْ جَهِلَهُ، وَ يَرْعَوِيَ عَنِ الْغَيِّ وَ الْعُدْوانِ مَنْ لَهِجَ بِهِ ) ”میں تمہارے لئے اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ تم گالیاں دینے لگو اگر تم ان کےکرتوت کھولو اور ان کے صحیح حالات پیش کرو، تو یہ ایک ٹھکانے کی بات اور عذر تمام کرنے کا صحیح طریق کار ہو گا۔ تم گالم گلوچ کے بجائے یہ کہو کہ خدا یا ہمارا بھی خون محفوظ رکھ اور ان کا بھی، اور ہمارے اور ان کے درمیان اصلاح کی صورت پیدا کر اور انہیں گمراہی سے ہدایت کی طرف لاتا کہ حق سے بے خبر، حق کو پہچان لیں اور گمراہی و سرکشی کے شیدائی اس سے اپنا رخ موڑ لیں۔“

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسان جہالت اور ناآگاہی کی بنیاد پر ہی اپنے احساسات کا مطیع ہوجاتا ہے لیکن اگر عقل و درایت اور شعور پیدا ہو تو نہ فقط معاشرے کے اندر صلح و آشتی برقرار ہوتی ہے بلکہ گمراہی اور حق سے بٹھکے ہوئے افراد کو بھی حق اور ہدایت کے جام سے سیراب کیا جاسکتا ہےپس مثالی معاشرے کی اہم ترین خاصیت عقل گرایی ہے۔

علم گرایی:

اس میں کوئی شک نہیں کہ علم، آگاہی اور بصیرت سے عاری ذلیل افراد تباہی اور بربادی کا باعث بنتےہیں کیونکہ انکی اپنی کوئی پہچان ہی نہیں ہوتی ہے وہ ایک دوسرے کے اسیر اور شیطان کے آلہ کار بنے ہوتے ہیں لیکن جو چیز انسان کی حقیقت، پہچان، کرامت، اور عزت کا باعث بنتی ہے اور اسکی حفاظت کرتی ہے وہ علم، آگاہی اور بصیرت ہے۔ پس اس حوالے سے ایک با شعور اور تعلیم و تربیت یافتہ معاشرہ ہی سعادتمند اور ترقی یافتہ معاشرہ بن سکتاہے لہذا ایک مثالی معاشرے کی تشکیل میں علم و دانش کا ایک اہم کردار ہو سکتا ہے۔ امام علی کا مثالی معاشرہ علم و دانش سے مالا مال ہے۔

آپ علم اور صاحبان علم کی قدر و منزلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

(النَّاسُ ثَلَاثَةٌ فَعَالِمٌ رَبَّانِيٌّ وَ مُتَعَلِّمٌ عَلَى سَبِيلِ نَجَاةٍ وَ هَمَجٌ رَعَاعٌ أَتْبَاعُ كُلِّ نَاعِقٍ يَمِيلُونَ مَعَ كُلِّ رِيحٍ لَمْ يَسْتَضِيئُوا بِنُورِ الْعِلْمِ وَ لَمْ يَلْجَئُوا إِلَى رُكْنٍ وَثِيق ) ”لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں:خدا رسیدہ عالم، راہ نجات پر چلنے والاطالب علم اور عوام الناس کا وہ گروہ جو ہر آواز کے پیچھے چل پڑتا ہے اور ہر ہوا کے ساتھ لہرانے لگتا ہے۔ اس نے نہ نور کی روشنی حاصل کی ہے اور نہ کسی مستحکم ستون کا سہارا لیا ہے“

امام کی نظر میں انسان کی قدر و قیمت اسکے علم و بصیرت کے مطابق ہے چنانچہ ایک معاشرہ مختلف افراد سے وجود میں آتا ہے لہذا معاشرے کی قدر و قیمت اس معاشرے کے صاحبان علم و معرفت سے لگایا جاسکتا ہے ۔

(قیمة کل امرئ ما یعلم ) ”ہر انسان کی قیمت اسکے علم و آگاہی کے مطابق ہے“

آپ مزید فرماتے ہیں کہ معاشرے کی فلاح اور ترقی کا دارمدارعلم پرہے اور نیز ہر برائی اور پسماندگی کی جڑ جہالت اور بیسوادی ہے(العلم اصل کل خیر ) ”ہر نیکی کی جڑ علم ہے“ (الجهل اصل کل شر ) ”ہر برائی کی جڑ جہالت ہے“

اسی طرح کمیل بن زیاد سے علم اور مال کے درمیان تقابلی جائزہ کرتے ہوئے علم کی برتری پر زور دیتے ہیں۔ (حکمت ۱۴۷) نیز اپنے معاشرے کو مثالی بنانے کے لئے لوگوں کو علم و دانش حاصل کرنے کی ترغیب کررہے ہیں۔

(فَبَادِرُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِ تَصْوِيحِ نَبْتِهِ وَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُشْغَلُوا بِأَنْفُسِكُمْ عَنْ مُسْتَثَارِ الْعِلْمِ مِنْ عِنْدِ اهْلِهِ ) ”تمہیں چاہئے کہ علم کی طرف بڑھو قبل اس کے کہ اس کا (ہرا بھرا) سبزہ خشک ہو جائے اور قبل اس کے کہ اہل علم سے علم سیکھنے میں اپنے ہی نفس کی مصروفیتں حائل ہوجائیں“

پس مثالی معاشرے کو تعلیم و تربیت کے بغیر تصور کرنا محال ہے لہذا علم و دانش اور صاحبان علم معاشرے کے ایک لازمی جز میں شمار ہوتے ہیں اور معاشرے کی مادی اور معنوی ترقی اور پیشرفت میں ان کا اہم اور بنیادی کردار ہوتا ہے۔

عملی جدوجہد اور محنت:

اس میں کوئی شک نہیں مولائے کائنات علی (ع) ہر میدان میں محنت اور مشقت کرتے تھے چاہیے وہ جنگ کا میدان ہو یا پھر نخلستان کے باغات کی آبیاری کا کام ہو میدان علم ہو یا میدان عمل ، ہر جگہ جدوجہد اور تلاش جاری رکھتے تھے اس حیثیت سے نہج البلاغہ کا مثالی معاشرہ کاہلی اورسستی سے دورایک زحمتکش، عملی جدوجہد اور سعی وتلاش کرنے والے افراد کا معاشرہ ہے جہاں غربت اور افلاس کی کوئی جگہ نہیں ہے وہاں کے لوگ اپنی محنت اور مشقت کے بلبوتے پر آباد ہیں اس معاشرے میں کام اور محنت کرنے کا حوصلہ اور ہمت بلند ہے معاشرے کی غربت کی ایک وجہ یہی کسالت اور کاہلی ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

(ان الاشیاء لمّا ازدوجت، ازدوج الکسل والعجزفتنجا بینهماالفقر ) ”جب امور ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں تو کسالت اور ناتوانی وجود میں آجاتی ہے اور ان دونوں سے غربت جنم لیتی ہے“

لہذا جس معاشرے میں کام کاج اور عملی جدوجہد کی حاکمیت قائم ہوجس سوسائٹی میں لوگوں نے کام کاج اور محنت کو اپنا پیشہ بنایا ہو وہ کبھی افلاس اورغربت کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوسکتی اسی لئے امام علی(ع) ایسے مثالی معاشرے میں پرورش پانے والے افرادکی محنت اور مشقت نیز اپنے اہل خانہ کی فلاح و بھبود کی خاطرجدوجہد میں سحرخیزی کرنے کو راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کی سحرخیزی سے بھی برتر جانتے ہیں۔

(ما غدوة احدکم فی سبیل الله باعظم می غدوة یطلب لولده وعیاله مایصلحهم ) ”راہ خدا میں تمہاری سحرخیز کرنا ایسے شخص کی سحرخیزی سے بڑھکر نہیں ہے جو اپنی اولاد اور گھروالوں کی مصلحت کونظر میں رکھتے ہوے طلب معاش کے لئے سحرخیزی کرے“

نیز فرماتے ہیں کہ کام اور محنت سے ہی ہرطرح کی طاقت اور قدرت میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن غربت اور بیکاری، تنگدستی اور غلامی ہی وجود میں لاتی ہے جس کا ایک لازمی نتیجہ فساد اور بربادی ہےجو کسی بھی طرح سے ایک مثالی معاشرہ اور آئیڈئل سوسائٹی سے تناسب نہیں رکھتا ہے۔

(ومن یعمل یزدد قوة و من یفتقر فی العمل یزدد قترة ) ”جو شخص کام اور محنت کرتا ہے اس کی طاقت بڑھ جاتی ہے اور جو شخص کام چوری کرتا ہے اسکی تنگدستی میں اضافہ ہوجاتا ہے“

پس اس بناپر مثالی معاشرہ ایک محنت کش افراد کا معاشرہ ہے جہاں ہر شخص اپنی ذاتی توانائیوں سے معاشرے کی ترقی اور سعادت کی راہیں ہموار کرتا ہےاپنے معاشرے کو غربت اور افلاس اور اسکے ذریعہ سے پھیلنے والی ہرطرح کی برائی اور فساد ، سے نجات دلاتا ہے۔

وحدت اورانسجام:

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک معاشرے اور قوم کی ترقی ، سعادت اوربلند اہداف ایک دوسرے کے تعاون اور اتحاد کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے نوع بشر کی دوام اور نسل نوین کی بقاء کا اساسی اور بنیادی عامل اتحاد اور اتفاق ہی ہے کیونکہ اجتماعی زندگی کی بقاء کا اہم راز اتحاد میں ہی پوشیدہ ہے مثالی معاشرے کی ایک اہم خصوصیت لوگوں کا آپسی اتحاد اور بھائی چارہ ہے شاید پوری کائنات میں امام علی(ع) سے بڑھکر کوئی ایسا شخص ہی نہیں ملےگا جس نے اتحاد کے لئے انتھک جدوجہد اور عظیم قربانیاں دی ہوں۔

(وَلَيْسَ رَجُلٌ ـ فَاعْلَمْ ـ أَحْرَصَ عَلَى جَمَاعَةِ أُمَّةِ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَأُلْفَتِهَا مِنِّي ...) ”امت كي شيرازه بندي اور اس كے اتحاد کے لئے مجھ سے زیادہ خواہش مند کوئی نہیں ہے“

چنانچہ امام ایک آئیڈئل سوسائٹی کی تلاش میں ہیں اس لئے کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے اتراتے نہیں ہیں اہل کوفہ کو سرزنش کرتے ہوئے کہتےہیں کہ خدا نے اس امت اسلامی پہ اتحاد اور بھائی چارہ کے ذریعہ سے احسان کیا اور انکے درمیان الفت قائم کی۔جیساکہ بیان کیا گیاامام علی (ع)کے مثالی معاشرے میں پیغمبر اکرم(ص)کی خاصی جگہ اور مقام و منزلت ہے اور آپکے وجود مبارک کے بغیر امام علی(ع) کے مثالی معاشرے کا تصور کرنا محال ہے امام آپکے وجود نازنین کو مثالی معاشرے کے اتحاد اور انسجام میں کافی اثرگذار جانتے ہیں۔

(فَانْظُرُوا إِلَى مَوَاقِعِ نِعَمِ اللهِ سُبْحَانَهُ عَلَيْهِمْ حِينَ بَعَثَ إِلَيْهِمْ رَسُولاً، فَعَقَدَ بِمِلَّتِهِ طَاعَتَهُمْ، وَجَمَعَ عَلَى دَعْوَتِهِ أُلْفَتَهُمْ ) ”دیکھو!کہ اللہ نے ا ن پر کتنے احسا نات کئے ہیں کہ ان میں اپنا رسول بھیجا کہ جس نے اپنی اطاعت کا انہیں پابند بنایا اور انہیں ایک مرکز وحدت پر جمع کر دیا“

نیز فرماتے ہیں:

(فَصَدَعَ بَمَا أُمِرَ بِهِ، وَبَلَّغَ رِسَالَةِ رَبِّهِ، فَلَمَّ اللهُ بِهِ الصَّدْعَ، وَرَتَقَ بِهِ الْفَتْقَ، وَأَلَّفَ بِهِ بَيْنَ ذَوِي الاَْرْحَامِ، بَعْدَ الْعَدَاوَةِ الْوَاغِرَةِ فِي الصُّدُورِ، والضَّغَائِنِ الْقَادِحَةِ فِي الْقُلُوبِ ) ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اوامر الہیہ کو واضح انداز سے پیش کردیا اوراس کے پیغامات کو پہونچادیا ۔ اللہ نے آپ کے ذریعہ انتشار کو مجتمع کیا۔ شگاف کو بھردیا اور قرابتداروں کے افتراق کو انس میں تبدیل کردیا حالانکہ ان کے درمیان سخت قسم کی عداوت اور دلوںمیں بھڑک اٹھنے والے کینے موجود تھے“

مولائے کائنات (ع) کی نظر میں پیغمبراکرم(ص)توحید کے مبنی پر انسانیت کے نام وحدت کلمہ کا پیغام لیکر آئے تھے جسکے ذریعہ سے مثالی معاشرہ تشکیل دے کےانہیں سربلند اور سرفراز کیا۔

(جَعَلَهُ اللَّهُ سُبْحانَهُ بَلاَغا لِرِسالَتِهِ، وَ كَرامَةً لاُمَّتِهِ، وَرَبِيعا لِاَهْلِ زَمانِهِ وَ رِفْعَةً لِاَعْوانِهِ، وَ شَرَفا لِانْصارِهِ ) ”خدا نے اسے اپنی رسالت کا پیغامبر بناکے بھیجااور اپنی امت کے واسطے کرامت، اپنے ہمعصر کے لئے شادی بخش اور اپنے دوستوں اور مددگاروں کے واسطے بہت ہی مہربان اور شریف بناکے بھیجا“

اسی لئے مثالی معاشرے میں آپسی اتحاد اور بھائی چارےکی انتہائی اہمیت ہے امام بار بار گذشتہ قوموں کی وحدت، تفرقہ اور اس سے برآمد نتائج اور آثار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وحدت اور انسجام پر کافی تاکید کرتے ہیں آپ کی نظر میں دوسرے معاشروں پر مثالی معاشرے کی سبقت اور برتری کا اہم راز اسی وحدت میں پوشیدہ ہے ۔

” گزشتہ قوموں کو دیکھو جب وہ ایک دوسرے سے متحد تھے ان کے دل اور نظریات یکسان تھے ایک دوسرے کے یاور و مددگار تھے شمشیریں ایک دوسرے کی مدد کے لئے اٹھاتے تھے انکے عزم و ارادے ایک تھے ، کیا وہ زمین کے مالک نہیں تھے اور دنیا پر حاکم نہیں تھے؟“

ہے زندہ فقط وحدت افکارسے ملت

وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد

پس مکتب امام علی (ع)میں پروان چڑھنے والے مثالی معاشرے کی یہ کچھ اہم اور بنیادی سیاسی ، اجتماعی اور ثقافتی خصوصیات تھیں جنہیں اجمالی طور بیان بیان کیا گیا مقالہ کی محدودیت کونظر میں رکھتے ہوے دوسری خصوصیات سے صرف نظر کرتے ہیں اور مقالہ کےاس آخری حصہ میں مثالی معاشرے کے اغراض و مقاصد پر بھی ایک اجمالی نظر ڈالے۔