حق مداری:
مکتب نہج البلاغہ میں بیان ہونے والا مثالی معاشرہ حق مدار ہے حق اور حقیقت پر مبنی ہےاس معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے افراد کا معیار اور محور حق ہیں ایسے افراد (يعترف بالحق قبل ان يشهد عليه
) ”گواہی طلب کئےجانے سے پہلے حق کا اعتراف کرتے ہیں“ اور (و یصف الحق و یعمل به) ”حق کی معرفت رکھنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کرتے ہیں“آپکی نظر میں بیان و توصیف کے اعتبار سے حق کا دائرہ کافی وسیع ہے لیکن عملی میدان میں کافی تنگ ہے۔
(وَالْحَقُّ اَوْسَعُ الْاشْيَاءِ فِي التَّواصُفِ، وَ اَضْيَقُها فِي التَّناصُفِ
،) ”اور حق مدح سرایی کے اعتبار سے تو بہت وسعت رکھتا ہےلیکن انصاف کے اعتبار سے بہت تنگ ہے“
مثالی معاشرے میں حق محوری کو فروغ دینے کے لئے امام لوگوں سے حق اور عدالت آمیز مشورہ دینے کی ترغیب کرتے ہیں اور ہر طرح کے ڈر اور خوف کی نفی کرتے ہیں آپ کی نظر میں مثالی معاشرے کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ حاکم، عوام کی حق بات کو اپنے دل کی گہرائیوں سے سنتا ہے اور انکے حق اور عدالت آمیز مشوروں سے استفادہ کرتے ہوئے معاشرے کی فلاح اور بہبود کی جدوجہد میں رہتا ہے یہ سلطنت اور شہنشاہی نظام نہیں ہے جہاں حق اور حقیقت کا گھلا گھونٹا جاتا ہے یہاں ہر چیز کا محور اور مرکز حق ہے ۔
(وَ لا تَظُنُّوا بِي اسْتِثْقالاً فِي حَقِّ قِيلَ لِي، وَلا الْتِماسَ إِعْظامٍ لِنَفْسِي، فَإِنَّهُ مَنِ اسْتَثْقَلَ الْحَقَّ انْ يُقالَ لَهُ، اَوِالْعَدْلَ انْ يُعْرَضَ عَلَيْهِ كانَ الْعَمَلُ بِهِما اَثْقَلَ عَلَيْهِ، فَلا تَكُفُّوا عَنْ مَقالَةٍ بِحَقِّ اَوْ مَشُورَةٍ بِعَدْلٍ
) ”میرے متعلق یہ گمان نہ کرو کہ میر ے سامنے کوئی حق بات کہی جائے گی تو مجھے گراں گزرے گی اور نہ یہ خیال کرو کہ میں یہ درخواست کروں گا کہ مجھے بڑھا چڑھا دو کیونکہ جو اپنے سامنے حق کے کہے جانے اورعدل کے پیش کئے جانے کو بھی گراں سمجھتا ہو اسے حق او رانصاف پرعمل کرنا کہیں زیادہ دشوار ہوگاتم اپنے کو حق کی بات کہنے اور عدل کا مشورہ دینے سے نہ روکو“
پس امام علی(ع) کے مثالی معاشرے کا محور حق ہے یہاں ادنی فقیر سے لیکر اعلی حاکم تک سب کے سب حق بیانی میں یکساں ہیں یہ معاشرہ اس زاویے سے بھی دوسرے معاشروں سے ممتاز ہے چونکہ عصر حاضر میں مثالی معاشرے کا پرچم اٹھانے والنے مغربی تہذیب کے حامی محض باطل کی ترویج میں ہیں یہ معاشرے حق کشی اور حق تلفی میں اول درجے پر ہیں انہیں مکتب نہج البلاغہ کے اس حق مدار اور حق محور معاشرے پر ایک بار پھر سے غور کرنا چاہیےیہاں حق کہاجاتا ہے حق سناجاتا ہے اور حق پہ عمل ہوتا ہے باطل کی کوئی گنجایش نہیں۔
عقل گرایی:
کائنات میں صرف انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جسے اللہ تعالی نے عقل کے نایاب گوہر سے نوازا ہے انسان اور حیوان کے درمیان عقل ہی فصل ممیز ہے لہذا جو انسان اپنی عقل سے استفادہ نہ کرے وہ بھی حیوان ہے بلکہ قرآن کی نظر میں کبھی حیوانوں سے بھی پست اور نیچا ہوجاتا ہے.(
اولئک کالانعام بل هم اضلّ
)
(سوره اعراف، ۱۷۹) امام علی(ع)کے مثالی معاشرے میں عقل کا عنصر کافی عمل دخل رکھتا ہے یہ عقلمندوں کامعاشرہ ہے اس معاشرے پر عقلانیت حاکم ہے یہاں جاہلیت ،بے جا غیرت اور غیرمعقول احساسات کی کوئی گنجایش نہیں ہے آپ کی نظر میں زمانہ جاہلیت کا معاشرہ عقل و درایت سے عاری ایک حیوان نما اور درندہ ساز معاشرہ تھاپیغمبر کی بعثت کی جانب اشارہ کرتے ہوے فرماتے ہیں:
(واَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلَى شَرِّ دِينٍ وَ فِي شَرِّ دَارٍ مُنِيخُونَ بَيْنَ حِجَارَةٍ خُشْنٍ وَحَيَّاتٍ صُمِّ تَشْرَبُونَ الْكَدِرَ وَ تَأْكُلُونَ الْجَشِبَ وَ تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَ تَقْطَعُونَ اَرْحَامَكُمْ الْاءَصْنَامُ فِيكُمْ مَنْصُوبَةٌ وَ الْآثَامُ بِكُمْ مَعْصُوبَةٌ
)”(پیغمبر کی بعثت سے پہلے)تم گروہ عرب بدترین دین کے مالک اور بدترین علاقہ کے رہنے والے تھے ، ناہموار پتھروں اور زہریلے سانپوں کے درمیان بود و باش رکھتے تھے، گندہ پانی پیتے تھے اور غلیظ غذا استعمال کرتے تھے، آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے اور قرابتداروں سے بے تعلقی رکھتے تھے، بت تمہارے درمیان نصب تھے اور گناہ تمہیں گھیرے ہوئے تھے“
پیغمبر نازنین (ص)نے انہیں جہالت کی تاریکی سے نکال کر نور ہدایت اور عقلانیت سے نوازا۔
(فَهَداهُمْ بِهِ مِنَ الضَّلالَهِ وَ انْقَذَهُمْ بِمَكانِهِ مِنَ الْجَهالَه
)”مالک(خدا) نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے نجات دی اور جہالت سے باہر نکال لیا“
(ویثیروا لهم دفائن العقول
) ”اور انکی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں“
امام علی(ع) کا فرمان ہے کہ جہاں عقلانیت نہ ہو وہاں تباہی اور فساد حاکم ہو تا ہے آپ معاویہ کے ہاتھوں ترویج پائے جانے والے غیراسلامی معاشرے کی ایک اہم وجہ عوام اور لوگوں کی اندھی تقلید اور ناآگاہی جانتے ہیں۔
(...وَ اَقْرِبْ بِقَوْمٍ مِنَ الْجَهْلِ بِاللَّهِ قَائِدُهُمْ مُعَاوِيَةُ وَ مُؤَدِّبُهُمُ ابْنُ النَّابِغَةِ
) ”... وہ قوم اللہ (کے احکام)سے کتنی جاہل ہے کہ جس کاپیشرو معاویہ اور معلم نابغہ(عمرعاص) کابیٹا ہے“
اسی طرح امام علی(ع) عقل گرایی کی بنیاد پر احساسات کو ابھارنے سے پرہیز دلاتے ہیں جنگ صفین میں سپاہیوں کی ایک دوسرے کو گالیاں دینے کی خبر ملنے پر فرمایا:
(إِنِّي اكْرَهُ لَكُمْ اَنْ تَكُونُوا سَبّابِينَ وَ لكِنَّكُمْ لَوْ وَصَفْتُمْ اَعْمالَهُمْ وَ ذَكَرْتُمْ حالَهُمْ كانَ اَصْوَبَ فِي الْقَوْلِ وَ اَبْلَغَ فِي الْعُذْرِ وَ قُلْتُمْ مَكانَ سَبِّكُمْ إِيّاهُمْ اللَّهُمَّ احْقِنْ دِمائَنا وَ دِمائَهُمْ وَ اَصْلِحْ ذاتَ بَيْنِنا وَ بَيْنِهِمْ وَ اهْدِهِمْ مِنْ ضَلالَتِهِمْ حَتَّى يَعْرِفَ الْحَقَّ مَنْ جَهِلَهُ، وَ يَرْعَوِيَ عَنِ الْغَيِّ وَ الْعُدْوانِ مَنْ لَهِجَ بِهِ
) ”میں تمہارے لئے اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ تم گالیاں دینے لگو اگر تم ان کےکرتوت کھولو اور ان کے صحیح حالات پیش کرو، تو یہ ایک ٹھکانے کی بات اور عذر تمام کرنے کا صحیح طریق کار ہو گا۔ تم گالم گلوچ کے بجائے یہ کہو کہ خدا یا ہمارا بھی خون محفوظ رکھ اور ان کا بھی، اور ہمارے اور ان کے درمیان اصلاح کی صورت پیدا کر اور انہیں گمراہی سے ہدایت کی طرف لاتا کہ حق سے بے خبر، حق کو پہچان لیں اور گمراہی و سرکشی کے شیدائی اس سے اپنا رخ موڑ لیں۔“
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسان جہالت اور ناآگاہی کی بنیاد پر ہی اپنے احساسات کا مطیع ہوجاتا ہے لیکن اگر عقل و درایت اور شعور پیدا ہو تو نہ فقط معاشرے کے اندر صلح و آشتی برقرار ہوتی ہے بلکہ گمراہی اور حق سے بٹھکے ہوئے افراد کو بھی حق اور ہدایت کے جام سے سیراب کیا جاسکتا ہےپس مثالی معاشرے کی اہم ترین خاصیت عقل گرایی ہے۔
علم گرایی:
اس میں کوئی شک نہیں کہ علم، آگاہی اور بصیرت سے عاری ذلیل افراد تباہی اور بربادی کا باعث بنتےہیں کیونکہ انکی اپنی کوئی پہچان ہی نہیں ہوتی ہے وہ ایک دوسرے کے اسیر اور شیطان کے آلہ کار بنے ہوتے ہیں لیکن جو چیز انسان کی حقیقت، پہچان، کرامت، اور عزت کا باعث بنتی ہے اور اسکی حفاظت کرتی ہے وہ علم، آگاہی اور بصیرت ہے۔ پس اس حوالے سے ایک با شعور اور تعلیم و تربیت یافتہ معاشرہ ہی سعادتمند اور ترقی یافتہ معاشرہ بن سکتاہے لہذا ایک مثالی معاشرے کی تشکیل میں علم و دانش کا ایک اہم کردار ہو سکتا ہے۔ امام علی کا مثالی معاشرہ علم و دانش سے مالا مال ہے۔
آپ علم اور صاحبان علم کی قدر و منزلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(النَّاسُ ثَلَاثَةٌ فَعَالِمٌ رَبَّانِيٌّ وَ مُتَعَلِّمٌ عَلَى سَبِيلِ نَجَاةٍ وَ هَمَجٌ رَعَاعٌ أَتْبَاعُ كُلِّ نَاعِقٍ يَمِيلُونَ مَعَ كُلِّ رِيحٍ لَمْ يَسْتَضِيئُوا بِنُورِ الْعِلْمِ وَ لَمْ يَلْجَئُوا إِلَى رُكْنٍ وَثِيق
) ”لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں:خدا رسیدہ عالم، راہ نجات پر چلنے والاطالب علم اور عوام الناس کا وہ گروہ جو ہر آواز کے پیچھے چل پڑتا ہے اور ہر ہوا کے ساتھ لہرانے لگتا ہے۔ اس نے نہ نور کی روشنی حاصل کی ہے اور نہ کسی مستحکم ستون کا سہارا لیا ہے“
امام کی نظر میں انسان کی قدر و قیمت اسکے علم و بصیرت کے مطابق ہے چنانچہ ایک معاشرہ مختلف افراد سے وجود میں آتا ہے لہذا معاشرے کی قدر و قیمت اس معاشرے کے صاحبان علم و معرفت سے لگایا جاسکتا ہے ۔
(قیمة کل امرئ ما یعلم
) ”ہر انسان کی قیمت اسکے علم و آگاہی کے مطابق ہے“
آپ مزید فرماتے ہیں کہ معاشرے کی فلاح اور ترقی کا دارمدارعلم پرہے اور نیز ہر برائی اور پسماندگی کی جڑ جہالت اور بیسوادی ہے(العلم اصل کل خیر
) ”ہر نیکی کی جڑ علم ہے“ (الجهل اصل کل شر
) ”ہر برائی کی جڑ جہالت ہے“
اسی طرح کمیل بن زیاد سے علم اور مال کے درمیان تقابلی جائزہ کرتے ہوئے علم کی برتری پر زور دیتے ہیں۔ (حکمت ۱۴۷) نیز اپنے معاشرے کو مثالی بنانے کے لئے لوگوں کو علم و دانش حاصل کرنے کی ترغیب کررہے ہیں۔
(فَبَادِرُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِ تَصْوِيحِ نَبْتِهِ وَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُشْغَلُوا بِأَنْفُسِكُمْ عَنْ مُسْتَثَارِ الْعِلْمِ مِنْ عِنْدِ اهْلِهِ
) ”تمہیں چاہئے کہ علم کی طرف بڑھو قبل اس کے کہ اس کا (ہرا بھرا) سبزہ خشک ہو جائے اور قبل اس کے کہ اہل علم سے علم سیکھنے میں اپنے ہی نفس کی مصروفیتں حائل ہوجائیں“
پس مثالی معاشرے کو تعلیم و تربیت کے بغیر تصور کرنا محال ہے لہذا علم و دانش اور صاحبان علم معاشرے کے ایک لازمی جز میں شمار ہوتے ہیں اور معاشرے کی مادی اور معنوی ترقی اور پیشرفت میں ان کا اہم اور بنیادی کردار ہوتا ہے۔
عملی جدوجہد اور محنت:
اس میں کوئی شک نہیں مولائے کائنات علی (ع) ہر میدان میں محنت اور مشقت کرتے تھے چاہیے وہ جنگ کا میدان ہو یا پھر نخلستان کے باغات کی آبیاری کا کام ہو میدان علم ہو یا میدان عمل ، ہر جگہ جدوجہد اور تلاش جاری رکھتے تھے اس حیثیت سے نہج البلاغہ کا مثالی معاشرہ کاہلی اورسستی سے دورایک زحمتکش، عملی جدوجہد اور سعی وتلاش کرنے والے افراد کا معاشرہ ہے جہاں غربت اور افلاس کی کوئی جگہ نہیں ہے وہاں کے لوگ اپنی محنت اور مشقت کے بلبوتے پر آباد ہیں اس معاشرے میں کام اور محنت کرنے کا حوصلہ اور ہمت بلند ہے معاشرے کی غربت کی ایک وجہ یہی کسالت اور کاہلی ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
(ان الاشیاء لمّا ازدوجت، ازدوج الکسل والعجزفتنجا بینهماالفقر
) ”جب امور ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں تو کسالت اور ناتوانی وجود میں آجاتی ہے اور ان دونوں سے غربت جنم لیتی ہے“
لہذا جس معاشرے میں کام کاج اور عملی جدوجہد کی حاکمیت قائم ہوجس سوسائٹی میں لوگوں نے کام کاج اور محنت کو اپنا پیشہ بنایا ہو وہ کبھی افلاس اورغربت کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوسکتی اسی لئے امام علی(ع) ایسے مثالی معاشرے میں پرورش پانے والے افرادکی محنت اور مشقت نیز اپنے اہل خانہ کی فلاح و بھبود کی خاطرجدوجہد میں سحرخیزی کرنے کو راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کی سحرخیزی سے بھی برتر جانتے ہیں۔
(ما غدوة احدکم فی سبیل الله باعظم می غدوة یطلب لولده وعیاله مایصلحهم
) ”راہ خدا میں تمہاری سحرخیز کرنا ایسے شخص کی سحرخیزی سے بڑھکر نہیں ہے جو اپنی اولاد اور گھروالوں کی مصلحت کونظر میں رکھتے ہوے طلب معاش کے لئے سحرخیزی کرے“
نیز فرماتے ہیں کہ کام اور محنت سے ہی ہرطرح کی طاقت اور قدرت میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن غربت اور بیکاری، تنگدستی اور غلامی ہی وجود میں لاتی ہے جس کا ایک لازمی نتیجہ فساد اور بربادی ہےجو کسی بھی طرح سے ایک مثالی معاشرہ اور آئیڈئل سوسائٹی سے تناسب نہیں رکھتا ہے۔
(ومن یعمل یزدد قوة و من یفتقر فی العمل یزدد قترة
) ”جو شخص کام اور محنت کرتا ہے اس کی طاقت بڑھ جاتی ہے اور جو شخص کام چوری کرتا ہے اسکی تنگدستی میں اضافہ ہوجاتا ہے“
پس اس بناپر مثالی معاشرہ ایک محنت کش افراد کا معاشرہ ہے جہاں ہر شخص اپنی ذاتی توانائیوں سے معاشرے کی ترقی اور سعادت کی راہیں ہموار کرتا ہےاپنے معاشرے کو غربت اور افلاس اور اسکے ذریعہ سے پھیلنے والی ہرطرح کی برائی اور فساد ، سے نجات دلاتا ہے۔
وحدت اورانسجام:
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک معاشرے اور قوم کی ترقی ، سعادت اوربلند اہداف ایک دوسرے کے تعاون اور اتحاد کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے نوع بشر کی دوام اور نسل نوین کی بقاء کا اساسی اور بنیادی عامل اتحاد اور اتفاق ہی ہے کیونکہ اجتماعی زندگی کی بقاء کا اہم راز اتحاد میں ہی پوشیدہ ہے مثالی معاشرے کی ایک اہم خصوصیت لوگوں کا آپسی اتحاد اور بھائی چارہ ہے شاید پوری کائنات میں امام علی(ع) سے بڑھکر کوئی ایسا شخص ہی نہیں ملےگا جس نے اتحاد کے لئے انتھک جدوجہد اور عظیم قربانیاں دی ہوں۔
(وَلَيْسَ رَجُلٌ ـ فَاعْلَمْ ـ أَحْرَصَ عَلَى جَمَاعَةِ أُمَّةِ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَأُلْفَتِهَا مِنِّي
...) ”امت كي شيرازه بندي اور اس كے اتحاد کے لئے مجھ سے زیادہ خواہش مند کوئی نہیں ہے“
چنانچہ امام ایک آئیڈئل سوسائٹی کی تلاش میں ہیں اس لئے کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے اتراتے نہیں ہیں اہل کوفہ کو سرزنش کرتے ہوئے کہتےہیں کہ خدا نے اس امت اسلامی پہ اتحاد اور بھائی چارہ کے ذریعہ سے احسان کیا اور انکے درمیان الفت قائم کی۔جیساکہ بیان کیا گیاامام علی (ع)کے مثالی معاشرے میں پیغمبر اکرم(ص)کی خاصی جگہ اور مقام و منزلت ہے اور آپکے وجود مبارک کے بغیر امام علی(ع) کے مثالی معاشرے کا تصور کرنا محال ہے امام آپکے وجود نازنین کو مثالی معاشرے کے اتحاد اور انسجام میں کافی اثرگذار جانتے ہیں۔
(فَانْظُرُوا إِلَى مَوَاقِعِ نِعَمِ اللهِ سُبْحَانَهُ عَلَيْهِمْ حِينَ بَعَثَ إِلَيْهِمْ رَسُولاً، فَعَقَدَ بِمِلَّتِهِ طَاعَتَهُمْ، وَجَمَعَ عَلَى دَعْوَتِهِ أُلْفَتَهُمْ
) ”دیکھو!کہ اللہ نے ا ن پر کتنے احسا نات کئے ہیں کہ ان میں اپنا رسول بھیجا کہ جس نے اپنی اطاعت کا انہیں پابند بنایا اور انہیں ایک مرکز وحدت پر جمع کر دیا“
نیز فرماتے ہیں:
(فَصَدَعَ بَمَا أُمِرَ بِهِ، وَبَلَّغَ رِسَالَةِ رَبِّهِ، فَلَمَّ اللهُ بِهِ الصَّدْعَ، وَرَتَقَ بِهِ الْفَتْقَ، وَأَلَّفَ بِهِ بَيْنَ ذَوِي الاَْرْحَامِ، بَعْدَ الْعَدَاوَةِ الْوَاغِرَةِ فِي الصُّدُورِ، والضَّغَائِنِ الْقَادِحَةِ فِي الْقُلُوبِ
) ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اوامر الہیہ کو واضح انداز سے پیش کردیا اوراس کے پیغامات کو پہونچادیا ۔ اللہ نے آپ کے ذریعہ انتشار کو مجتمع کیا۔ شگاف کو بھردیا اور قرابتداروں کے افتراق کو انس میں تبدیل کردیا حالانکہ ان کے درمیان سخت قسم کی عداوت اور دلوںمیں بھڑک اٹھنے والے کینے موجود تھے“
مولائے کائنات (ع) کی نظر میں پیغمبراکرم(ص)توحید کے مبنی پر انسانیت کے نام وحدت کلمہ کا پیغام لیکر آئے تھے جسکے ذریعہ سے مثالی معاشرہ تشکیل دے کےانہیں سربلند اور سرفراز کیا۔
(جَعَلَهُ اللَّهُ سُبْحانَهُ بَلاَغا لِرِسالَتِهِ، وَ كَرامَةً لاُمَّتِهِ، وَرَبِيعا لِاَهْلِ زَمانِهِ وَ رِفْعَةً لِاَعْوانِهِ، وَ شَرَفا لِانْصارِهِ
) ”خدا نے اسے اپنی رسالت کا پیغامبر بناکے بھیجااور اپنی امت کے واسطے کرامت، اپنے ہمعصر کے لئے شادی بخش اور اپنے دوستوں اور مددگاروں کے واسطے بہت ہی مہربان اور شریف بناکے بھیجا“
اسی لئے مثالی معاشرے میں آپسی اتحاد اور بھائی چارےکی انتہائی اہمیت ہے امام بار بار گذشتہ قوموں کی وحدت، تفرقہ اور اس سے برآمد نتائج اور آثار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وحدت اور انسجام پر کافی تاکید کرتے ہیں آپ کی نظر میں دوسرے معاشروں پر مثالی معاشرے کی سبقت اور برتری کا اہم راز اسی وحدت میں پوشیدہ ہے ۔
” گزشتہ قوموں کو دیکھو جب وہ ایک دوسرے سے متحد تھے ان کے دل اور نظریات یکسان تھے ایک دوسرے کے یاور و مددگار تھے شمشیریں ایک دوسرے کی مدد کے لئے اٹھاتے تھے انکے عزم و ارادے ایک تھے ، کیا وہ زمین کے مالک نہیں تھے اور دنیا پر حاکم نہیں تھے؟“
ہے زندہ فقط وحدت افکارسے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
پس مکتب امام علی (ع)میں پروان چڑھنے والے مثالی معاشرے کی یہ کچھ اہم اور بنیادی سیاسی ، اجتماعی اور ثقافتی خصوصیات تھیں جنہیں اجمالی طور بیان بیان کیا گیا مقالہ کی محدودیت کونظر میں رکھتے ہوے دوسری خصوصیات سے صرف نظر کرتے ہیں اور مقالہ کےاس آخری حصہ میں مثالی معاشرے کے اغراض و مقاصد پر بھی ایک اجمالی نظر ڈالے۔