اسرارِ آل محمد کے افشا کرنے سے ممانعت
عبداللہ بن سنان راوی ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا:
بندگانِ خدا! میں تمہیں پروردگار کے تقویٰ کی سفارش کرتا ہوں اور (اسرار آل محمد فاش کرکے) لوگوں کو اپنی گردنوں پر سوار نہ کرو ورنہ ذلیل ہوجاؤ گے۔
اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرما رہا ہے: ”لوگوں سے اچھی گفتگو کرو“۔
پھر آپ نے فرمایا:
تم لوگوں کے مریضوں کی عیادت کرو اور ان کے جنازوں میں شمولیت اختیار کرو اور ان کے فائدہ اور نقصان کے لیے گواہیاں دو اور ان کی مساجد میں ان کے ساتھ مل کر نماز پڑھو اور ان کے حقوق ادا کرو۔
یاد رکھو کسی بھی قوم کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا سخت مصیبت ہو سکتی ہے کہ وہ گمان کریں کہ وہ ایک گروہ کی پیروی کر رہے ہیں اور وہ ان کے فرمان کو قبول کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنے رہبروں کے امرونہی کی پیروی نہ کریں اور ان کی رازدارانہ گفتگو کو دشمنوں کے سامنے نقل کریں۔ پھر ان کے دشمن ان کی باتیں سن کر ہمارے پاس آئیں اور کہیں کہ لوگ اس طرح کی روایات ک رہے ہیں اور اس کے جواب میں ہم یہ کہیں ہم ایسی بات کرنے والے سے بیزار ہیں اور یوں وہ ہماری طرف سے بیزاری کے حق دار بن جائیں۔
شیعوں سے امام کی توقعات
عبداللہ بن زیاد راوی ہیں کہ ہم نے امام جعفر صادق علیہ السلام پر سلام کیا اور ان سے عرض کیا:
”فرزند رسول ! ہم خانہ بدوش لوگ ہیں اور آپ کے پاس ٹک کر نہیں رہ سکتے لہٰذا آپ ہمیں دین کی ضروری باتوں کی نصیحت کریں۔
آپ نے فرمایا: میں تمہیں پروردگار کے تقویٰ‘ راست گوئی‘ ادائیگی امانت‘ اپنے ہم نشینوں سے حسنِ سلوک‘ سلام عام کرنے‘ ضرورت مندوں کو کھانا کھلانے کی وصیت کرتا ہوں اور میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ تم اپنے مخالفین کی مساجد میں نماز پڑھو اور ان کے بیماروں کی عیادت کرو اور ان کے جنازوں کی مشایعت کرو۔
میرے والد علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا تھا کہ ہمارے شیعہ اپنے دور کے بہترین افراد ہوا کرتے تھے ۔ اگر کوئی فقیہ ہوتا تھا تو اس کا تعلق ہمارے شیعوں سے ہوتا تھا اوراگر کوئی موذن یا کوئی امام یا کوئی امین ہوتا تھا تو ان سب کا تعلق ہمارے شیعوں سے ہوا کرتا تھا۔ تم بھی انہی شیعوں جیسے شیعہ بنو‘ اپنے عمل و کردار سے لوگوں کے دلوں میں ہماری محبت پیدا کرو اور اپنی بدکرداری سے ہمیں قابلِ نفرت نہ بناؤ۔
اوصافِ شیعہ
حمران بن اعین راوی ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
ایک دن امام سجاد علیہ السلام اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک گروہ نے ان کے دروازے پر دستک دی۔ آپ نے کنیز سے فرمایا کہ باہر جاکر دیکھو کون آیاہے؟
دستک دینے والوں نے کنیز سے کہا کہ آپ مولا سے عرض کریں کہ دروازے پر آپ کے شیعوں کا گروہ آیا ہے۔ لفظ شیعہ سن کر امام سجاد بڑی تیزی سے دروازے پر آئے اور تیزی کی وجہ سے آپ کے گرنے کا بھی خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ جب آپ نے دروازہ کھول کر انہیں دیکھا تو آپ فوراً واپس آگئے اور فرمایا:
انہوں نے جھوٹ کہا۔ ان کے چہروں پر شیعہ ہونے کی علامات ہی کہاں ہے؟ آثار عبادت کہاں ہیں؟ سجدہ کی علامات کہاں ہیں؟ ہماریشیعوں کی تو پہچان عبادتِ الٰہی اور بالوں کی پراگندگی ہے۔ عبادت یعنی طویل سجدوں کی وجہ سے ان کے ناک زخمی ہوتے ہیں اور عبادت کی کثرت سے ان کی پیشانیوں اور سجدے کے مقامات پر گٹے پڑے ہوتے ہیں۔ روزوں کی وجہ سے ان کے شکم پشت سے لگے ہوتے ہیں اور ان کے ہونٹ خشک ہوتے ہیں۔ عبادت کی وجہ سے ان کے چہرے متورم ہوتے ہیں اور شب بیداری اور روزوں کی وجہ سے ان کے اجسام کمزور ہوتے ہیں۔ جب لوگ خاموش ہوتے ہیں تو وہ تسبیح میں مصروف ہوتے ہیں اور جب لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں تو وہ نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں اور جب لوگ خوشیوں میں مصروف ہوتے ہیں تو وہ غمگین ہوتے ہیں اور دنیا سے بے رغبتی میں مصروف ہوتے ہیں۔ ان کی گفتگو رحمت و شفقت پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ حصول جنت میں مشغول رہتے ہیں۔
مومن کے لیے چھ چیزوں کا اقرار ضروری ہے
عبیداللہ راوی ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص چھ چیزوں کا اقرار کرے تو وہ مومن ہے۔
۱- ستم گاروں اور طاغوتوں سے برأت کرے۔
۲- اہل بیت کی ولایت کا اقرار کرے۔
۳- رجعت پر ایمان لائے۔
۴- متعہ کو حلال سمجھے۔
۵- ملی مچھلی اور سانپ مچھلی کو حرام سمجھے۔
۶- موزوں پر مسخ کرنے سے پرہیزکرے۔
مومن کی سخت مزاجی کی وجہ
مسعدہ بن صدقہ کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ مومن تیزو تند کیوں ہوتا ہے؟
آپ نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے دل میں قرآن کی عزت اور خالص ایمان ہوتا ہے اور وہ اللہ کی عبادت بجا لاتا ہے۔ مومن اللہ کا اطاعت گزار اور اس کے پیغمبر کا تصدیق کنندہ ہوتا ہے۔
آپ سے پوچھا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ مومن بعض اوقات انتہائی بخیل ہوتا ہے؟
آپ نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حلال ذرائع سے رزق حاصل کرتا ہے اور طلب حلال بڑی دشوار ہوتی ہے اس لیے وہ جس رزق کوبڑی مشکل سے حاصل کر چکا ہوتا ہے وہ اس سے جدا ہونا پسند نہیں کرتا۔ اور اگر کبھی وہ سخاوت کرتا ہے تو اسے جائز مقام پر ہی خرچ کرتا ہے۔
آپ سے پوچھا گیا کہ مومن کی علامات کیا ہیں؟
آپ نے فرمایا: مومن کی چار علامتیں ہیں:
۱- اس کی نیند اس شخص کی نیند جیسی ہوتی ہے جو ڈوب رہا ہو۔
۲- اس کی غذا کسی بیمار کی طرح سے ہوتی ہے۔
۳- اور وہ پسر مردہ ماں کی طرح سے گریہ کرتا ہے۔
۴- اس کا بیٹھنا کسی ہراساں فرد کی طرح سے ہوتا ہے۔
آپ سے پوچھا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ مومن کبھی نکاح کا دوسروں کی بہ نسبت زیادہ دلدادہ ہوتا ہے؟
آپ نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن اپنی شرم گاہ کو حرام شرم گاہوں سے محفوظ رکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جنسی خواہش اسے کہیں ادھر ادھر نہ کرتی پھرے۔ اور جب وہ حلال حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ اس پر اکتفا کرتا ہے اور حرام سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔
آپ نے فرمایا: مومن میں تین صفات ایسی جمع ہوتی ہیں جو کسی غیر مومن میں جمع نہیں ہوتیں:
۱- وہ خدا کی معرفت رکھتا ہے۔
۲- وہ خدا کے محبوب افراد کی معرفت رکھتا ہے۔
۳- جن لوگوں سے خدا کونفرت ہے وہ انہیں بھی پہچانتا ہے۔
آپ نے فرمایا: مومن کی قوت اس کے دل میں ہوتی ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ مومن تمہیں کمزور جسم والا اور ضعیف البدن دکھائی دیتا ہے مگر اس کے باوجود وہ رات کو عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور دن کے وقت روزہ رکھتا ہے۔
آپ نے فرمایا: مومن دین میں سخت پہاڑ سے بھی زیادہ مضبوط ہوتا ہے کیونکہ حوادث کے نتیجہ میں پہاڑ کی اونچائی کم ہو سکتی ہے لیکن مومن کے دین میں کچھ بھی کمی نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن اپنے دین کے متعلق انتہائی بخیل ہوتا ہے یعنی دن کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
مومن کون‘ مہاجر کون اور مسلم کون ہے؟
مسعدہ بن صدقہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اور آپ کے اپنے آبائے طاہرین کی سند سے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا۔ آپ نے فرمایا:
کیا میں تمہیں یہ خبر نہ دوں کہ مومن کو مومن کیوں کہا گیا ہے؟ اسے اس لیے مومن کا لقب دیا گیا کہ لوگ اسے اپنی جان و مال کا امین سمجھتے ہیں۔
کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ مسلم کون ہے؟
مسلم وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ سلامتی حاصل کریں۔
کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ مہاجر کون ہے؟
مہاجر وہ ہے جو برائیوں اور اللہ کی حرام کردہ اشیاء کو چھوڑ دے۔
علامتِ مومن
انہی اسناد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے آپ نے فرمایا:
جس شخص کو برائی ناگوار لگے اور بھلائی اسے خوش کر دے تو وہ مومن ہے۔
مومن کے لیے ناپسندیدہ بات
حبیب واسطی کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
مومن کے لیے یہ بات انتہائی ناپسندیدہ ہے کہ وہ کسی ایسے فعل کی طرف شوق رکھتا ہو جو اس کی ذلت کا موجب ہو۔
برص سے حفاظت
حبیب واسطی کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
برص (پھلبہری) لعنت کی شبیہہ ہے اسی لیے یہ بیماری ہم اور ہماری اولاداور ہمارے شیعوں میں نہیں ہوتی۔
ہورزم گاہ حق و باطل تو فولاد ہے مومن
حسین بن عمرو راوی ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
مومن لوہے کے ٹکڑوں سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ کیونکہ جب لوہے کو آگ میں ڈالا جائے تو اس کی رنگت بدل جاتی ہے جب کہ مومن اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اگر اسے قتل کیا جائے پھر اٹھایا جائے اور پھر قتل کیا جائے تو بھی اس کا دل متغیر نہیں ہوتا۔
مومن بن کر آتے ہیں بنائے نہیں جاتے
مفضل راوی ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ایک ہی اصل سے پیدا کیا ہے۔ باہر سے نہ تو کوئی ان میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ان کے گروہ سے نکل سکتا ہے۔ ان کی مثال جسم میں سر اور ہتھیلی میں انگلیوں جیسی ہے۔ تم جس کو اس کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھو تو اس کے متعلق گواہی دو کہ وہ حتماً منافق ہے۔
موسمِ سرما اورمومن
محمد بن سلیمان دیلمی کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا:
موسم سرما مومن کے لیے بہار ہے اس کی راتیں لمبی ہوتی ہیں اور مومن شب زندہ داری کے لیے اس سے مدد حاصل کرتا ہے۔
مومن دل کا اندھا نہیں ہوتا
معاویہ بن عمار کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے دنیاوی آزمائشوں سے مومن کو محفوظ نہیں رکھا البتہ اسے آخرت کے اندھے پن اور اسے شقاوت جو کہ آخرت کا اندھا پن ہے‘ سے نجات دی ہے۔
مومن محروم نہیں ہوتا
سعید بن غزوان کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: مومن (خیر سے) محروم نہیں کرتا۔
ایمان کی تین علامتیں
صالح بن ہیثم کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
جس میں تین صفات موجود ہوں تو اس نے صفات ایمان کی تکمیل کرلی۔ جو کوئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم وستم پر صبر کرے اور اپنا غصہ پی جائے اور اپنے دونوں اعمال کا بدلہ خدا سے طلب کرے تو وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جنہیں اللہ جنت میں داخل کرے گا اور انہیں قبیلہ ربیعہ و حضر کے افراد کے برابر حقِ شفاعت عطا فرمائے گا۔
مومن کو فراوانی بھی مصیبت نظرتی ہے
زید کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
تم اس وقت تک مومن نہیں بن سکتے جب تک لوگوں کی نظر میں قابلِ اعتماد حیثیت کا درجہ اختیار نہیں کر لیتے اور تم مومن تو اس وقت ہو گے جب تم فراخی اور فراوانی کو اپنے لیے مصیبت سمجھو گے۔ کیونکہ آزمائش پر صبر کرنا وسعت و فراخی کی عافیت سے کہیں بہتر ہے۔
صفاتِ مومن
ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ میرے لیے مومن کی اوصاف بیان فرمائیں۔
آپ نے فرمایا:
مومن دین میں قوی ہوتا ہے۔ دور اندیش اور نرم خو ہوتا ہے اور وہ باایمان اور صاحب یقین ہوتا ہے۔ فہم دین کے لیے حریص ہوتا ہے اور ہدایت پاکر خوشی محسوس کرتا ہے اور نیکی کے کاموں میں ثابت قدم ہوتا ہے اور وہ صاحب علم و حلم ہوتا ہے اور وہ نرم خو‘ شکرگزار ہوتا ہے۔ راہِ حق میں سخی ہوتا ہے اور ثروت مندی اور دولت مندی کی حالت میں اعتدال کو برقرار رکھتا ہے اور حالت فقروغربت میں ظاہرداری کو بحال رکھتا ہے اور قوت و طاقت رکھنے کی حالت میں معافی دینے والا ہوتا ہے اور خیرخواہی کی اطاعت کرتا ہے اور خواہش و میلان کے باوجود حرام سے پرہیز کرتا ہے اور مخالفت نفس میں حریص ہوتا ہے اور عین کام کے درمیان نماز ادا کرتا ہے اور شدائد میں بردبار اور حوادث میں باوقار ہوتا ہے اور سختیوں میں صابر‘ راحت میں شاکر ہوتا ہے۔
وہ غیبت نہیں کرتا اور تکبر اور قطع رحمی نہیں کرتا۔ وہ کمزورارادہ اور بداخلاق اور تندمزاج نہیں ہوتا۔ طغیانیاں اس سے سبقت نہیں کرتیں اور اس کا شم اسے رسوا نہیں کرتا اور وہ شرمگاہ کے تقاضوں سے مغلوب نہیں ہوتا۔ اور وہ لوگوں سے حسد نہیں کرتا۔ وہ کنجوسی نہیں کرتا اور فضول خرچی اور اسراف سے کام نہیں لیتا۔ وہ مظلوم کی مدد کرتا ہے اور مساکین پر رحم کرتا ہے۔ وہ اپنے نفس کو رنج اور سختی میں رکھتا ہے مگر لوگ اس سے آسائش حاصل کرتے ہیں وہ دنیا سے بے رغبتی اختیار کرتا ہے اور اہلِ دنیا کے خطرات سے خوفزدہ نہیں ہوتا اور جب بھی لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے تو وہ اس کی طرف رجوع کرتے ہیں جب کہ وہ ہمیشہ فکر آخرت کے غم میں مشغول رہتا ہے۔
اس کی بردباری میں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی اور اس کی رائے میں سستی نہیں ہوتی اور اس کے دین میں بربادی نظر نہیں آتی۔ جو اس سے مشورہ کرتا ہے وہ اس کی صحیح رہنمائی کرتا ہے اور جو اس کی مدد کرتا ہے وہ اس سے تعاون کرتا ہے اور وہ باطل‘ غلط گفتگو اور جہل و نادانی سے پرہیز کرتا ہے۔ یہ مومن کے اوصاف ہیں۔
مومن خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا
ابوالعلاء راوی ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
مومن وہ ہے جس سے ہر چیز ڈرے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن دین خدا میں صاحبِ عزت ہوتا ہے۔ مومن کسی چیز سے نہیں ڈرتا اور یہ ہر مومن کی علامت ہے۔
اللہ ہر چیز کے دل میں مومن کا رعب پیدا کر دیتا ہے
صفوان جمال راوی ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا‘ آپ نے فرمایا:
مومن کے لیے ہر چیز فرمانبردار اور اطاعت گزار ہوتی ہے۔
پھر آپ نے فرمایا: جب اس کا دل خدا کے لیے بااخلاص ہوتا ہے تو اللہ ہر چیز کے دل میں اس کا رعب و دبدبہ ڈال دیتا ہے یہاں تک کہ زمین کے جانور‘ درندے اور آسمانی پرندے تک بھی اس سے مرعوب ہوتے ہیں۔
اہلِ آسمان نور مومن کا مشاہدہ کرتے ہیں
عمار ساباطی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا: کیا آسمان والے زمین والوں کو دیکھتے ہیں؟
آپ نے فرمایا:
وہ صرف مومنین کو دیکھتے ہیں کیونکہ طینت مومن کا تعلق ستاروں کی طرح نور سے ہے۔
پوچھا گیا کہ کیا وہ اہلِ زمین کو دیکھتے ہیں؟
آپ نے فرمایا: نہیں وہ ان کے اجسام کو نہیں دیکھ پاتے‘ البتہ وہ اس کے نور کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔
پھر آپ نے فرمایا:
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر مومن کو شفاعت کرنے کے لیے پانچ گھنٹوں کا وقت دے گا۔
مومن کے لیے خدائی امداد
زیاد قندی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اللہ کی طرف سے مومن کی مدد کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ اپنے دشمن کو خدا کی نافرمانی میں مصروف دیکھتا ہے۔
حسد‘ بخل اور بزدلی ایمان کی متضاد صفات ہیں
حارثی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جس شخص میں بخل‘ حسد اور بزدلی ہو تو وہ مومن نہیں ہے۔ اور مومن بزدل‘ بخیل اور حریص نہیں ہوتا۔
مومن اپنے خلاف بھی سچی گواہی دیتا ہے
ایک جماعت نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی۔ آپ نے فرمایا: ایک مومن اپنی ذات کے خلاف دوسرے ستر مومنین سے بھی زیادہ سچا ہوتا ہے۔
خدا کی سنت‘ نبی کی سنت اور ولی کی سنت
امام علی رضا علیہ السلام کے غلام حارث بن دلھاث کا بیان ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:
ایمان کا دعویدار شخص اس وقت تک حقیقی مومن نہیں بن سکتا جب تک اس میں تین خصلتیں نہ پائی جائیں۔ اس میں ایک رب کی سنت ہونی چاہیے اور ایک نبی کی سنت ہونی چاہیے اور ایک اس کے ولی یعنی امام کی سنت ہونی چاہیے۔ اللہ کی سنت راز کا چھپانا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتاہے مگر جس رسول کو پسند کرلے اور نبی کی سنت لوگوں سے مدارات سے پیش آنا ہے کیونکہ اللہ نے اپنے نبی کو لوگوں سے مدارات کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیاہے اور فرمایا ہے:
”آپ عفو و درگزر اپنائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور جاہلوں سے منہ پھیر لیں“۔
امام کی روش جنگ کے ایام اور فقرو تنگدستی میں صبر کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے:
وہ جنگ اور فقر کی سختیوں میں صبر کرنے والے ہیں۔
فرشتے اعمال لکھتے ہیں
عبداللہ بن امام موسیٰ کاظم راوی ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا جب کوئی انسان نیکی یا برائی کا ارادہ کرتا ہے تو کیا اس پر مامور فرشتوں کو پتہ چل جاتا ہے؟
آپ نے فرمایا: کیا تیرے نزدیک خوشبو اوربدبو دونوں یکساں ہیں؟
میں نے عرض کیا: نہیں۔
پھر آپ نے فرمایا: جب کوئی شخص نیکی کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے خوشبو دار سانس برآمد ہوتی ہے۔ دائیں ہاتھ والا فرشتہ بائیں ہاتھ والے سے کہتا ہے: رک جاؤ۔ اس نے نیکی کرنے کا ارادہ کیا ہے اور جب کوئی شخص نیکی کر لیتا ہے تو فرشتے کی زبان قلم بن جاتی ہے اور اس کا لعابِ دہن سیاہی بن جاتا ہے اور وہ اسے اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیتا ہے۔
اور جب کوئی برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے بدبو برآمد ہوتی ہے۔ بائیں ہاتھ والا فرشتہ دائیں ہاتھ والے فرشتے سے کہتا ہے: رک جاؤ۔ اس نے برائی کا ارادہ کر لیا ہے اور جب وہ برائی کر لیتا ہے تو فرشتے کی زبان قلم اور اس کا لعابِ دہن سیاہی بن جاتا ہے اور وہ اس کے عمل کو لکھ دیتا ہے۔
مومن کے شب و روز
حضرت محمد بن حنفیہ راوی ہیں کہ جنگِ جمل کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام بصرہ تشریف لائے تو احنف بن قیس نے آپ کو کھانے کی دعوت دی۔ جب کھانا تیار ہوگیا تو اس نے آپ کو بلایا۔ جب آپ وہاں پہنچ گئے تو آپ نے احنف سے فرمایا کہ میرے دوستوں کو بلاؤ۔
چنانچہ احنف کے بلانے پر خشوع و خضوع رکھنے والی ایک جماعت داخل ہوئی اور کثرتِ عبادت کی وجہ سے ان کے اجسام خشک مشکوں کی طرح سے ہوچکے تھے۔
احنف بن قیس نے عرض کیا: امیر المومنین! ان کی یہ حالت کیوں ہوگئی ہے؟ کیا خوراک کی کمی کی وجہ سے ایسا ہوا ہے یا جنگ کے خوف سے کمزورپڑ گئے ہیں؟
آپ نے فرمایا: احنف! ایسا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس داردنیا میں ایک گروہ کو اپنا محبوب بنایا ہے اور خدا کے محبوب افراد خدا کے لیے اس طرح سے عبادت کرتے ہیں جیسے انہیں قیامت کے مشاہدہ سے قبل قرب قیامت کا علم ہوچکا ہو اور انہوں نے اس کے لیے جدوجہد شروع کر دی ہو۔ اور جب انہیں خدا کے حضور پیش ہونے کے دن کی یاد آتی ہے تو وہ گمان کرتے ہیں کہ آتش دوزخ کا ایک شعلہ نکل کر مخلوقات کو خدا کے سامنے جمع کر رہا ہے اور انہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں نامہ اعمال پکڑا دیئے جائیں گے اور جہان کے سامنے انہیں رسوا کیا جائے گا جس کی وجہ سے ان کی جانیں پگھلنے کو آجاتی ہیں اور ان کے دل خوف کے پَر لگا کر اڑنے کو آجاتے ہیں اور جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا کے حضور تنہا پیش ہوں گے تو جوش مارتی ہوئی دیگ کی طرح سے جوش و خروش میں آجاتے ہیں اور ان کی عقل ان سے جدا ہونے کو آجاتی ہے اور وہ لوگ تاریکی شب میں کسی حیران و سرگردان کی طرح سے نالہ وفریاد کرتے ہیں اور انہوں نے اپنے نفوس کو جس خوف سے آگاہ کیا ہے ‘ اس کی وجہ سے درد والم کشید کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ دنیا میں اسی احساس کی وجہ سے ان کے اجسام کمزور‘ ان کے دل غمگین‘ ان کے چہرے دگرگوں‘ ان کے ہونٹ خشک اور ان کے شکم تہی ہوتے ہیں۔ تم انہیں دیکھو گے کہ گویا وہ نشے میں ہیں اور وحشتِ شب سے پیار کرتے ہیں اور وہ خدا کے سامنے یوں متواضع ہیں گویا کہ بوسیدہ مشکیں ہوں۔ انہوں نے اپنے ظاہری و باطنی اعمال کو خدا کے لیے خالص کیا ہے۔ ان کے دل خوفِ خدا سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کی حالت سلاطین کی بارگاہ کے نگہبانوں جیسی ہے (جو کہ ہر وقت ہوشیار رہتے ہیں)
اور اگر تم انہیں رات کے وقت دیکھو جب لوگوں کی آنکھیں سو چکی ہوں‘ صدائیں خاموش ہو چکی ہیں اور پرندوں کے آشیانوں پر بھی سکوت طاری ہو تو تم دیکھو گے قیامت کی ہولناکیوں اور وعید الٰہی نے ان کی آنکھوں سے نیند چھین لی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اسی کو مدنظر رکھ کر وہ خوفزدہ ہوکر بیدار ہو جاتے ہیں اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کبھی وہ رو رہے ہوتے ہیں اور کبھی تسبیح میں مصروف ہوتے ہیں۔ وہ اپنے محراب عبادت میں گریہ کرتے ہیں اور نالہ و فریاد کرتے ہیں اور تاریک و خاموش راتوں میں صفیں بنا کر خدا کے حضور روتے ہیں۔
احنف! اگر تم رات کے وقت جب وہ عبادت میں کھڑے ہوں‘ انہیں دیکھ سکو تو تم یہ دیکھو گے کہ ان کی پشت (رکوع میں) خم ہوگی اور اپنی نماز میں قرآن کے اجزاء کی تلاوت میں وہ تمہیں مصروف دکھائی دیں گے اور اس عالم میں ان کے گریہ و فریاد اور نالوں کی آوازیں بلند ہوں گی اور جب وہ سانس لیں گے تو تم یہ سمجھو گے کہ آگ نے ان کے حلق کو پکڑ رکھا ہے اور جب ان کی صدائے گریہ بلند ہوتی ہے تو تم اس کے متعلق یہ تصور کرو گے کہ ان کی گردنیں سختی کے ساتھ زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔
اور جب تم انہیں دن میں دیکھو گے تو تمہیں وہ پروقار طریقہ سے زمین پر چلتے ہوئے دکھائی دیں گے اور لوگوں سے اچھی گفتگو کر رہے ہوں گے۔ اور جب جاہل انہیں خطاب و عتاب کرتے ہیں تو وہ نرمی و مدارات سے انہیں جواب دیتے ہیں اور جب ان کا گزر کسی لغو اور بے فائدہ چیز کے پاس سے ہوتا ہے تو وہ شریفانہ انداز سے وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے قدموں کو تہمت (کے مقامات) سے روکا ہوا ہے۔ اور لوگوں کی آبروریزی سے انہوں نے اپنی زبانوں کوگونگا بنا لیاہے اور ہر بات کرنے والا جب اپنی بات کو ان کے کانوں میں گھسیڑنا چاہے تو انہوں نے اپنے کانوں کو بہرا بنا لیا ہے اور انہوں نے اپنی آنکھوں کو گناہوں سے چشم پوشی کا سرمہ لگایا ہوا ہے اور انہوں نے سلامتی کی اس سرائے کا قصد کیا ہوا ہے کہ جو اس میں داخل ہو جائے اسے شک و اندوہ سے نجات مل جاتی ہے۔
احنف! معلوم ہوتا ہے تمہاری نظر اس داردنیا میں ہی ٹک گئی ہے اور تم نے اس دنیا کو دیکھا ہی نہیں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سفید موتی سے پیدا کیا ہے اور اس میں اس نے نہریں جاری کی ہیں اور جوان حوروں سے اسے پُر کیا ہے اور اپنے دوستوں اور اطاعت گزاروں کو اسی میں رہایش دی ہے۔
احنف! کاش تمہیں بھی چشم تصور سے وہ منظر دکھائی دیتاجب اہلِ اطاعت اپنے پروردگار کی وسیع نعمات پر وارد ہوں گے جب وہ جانے کا ارادہ کریں گے تو اس وقت ان کی سواریاں ایسی آوازیں نکالیں گی کہ اس سے بہتر آواز کسی سننے والوں نے کبھی سنی تک نہ ہوگی۔ اس وقت ایک بادل ان پر سایہ کرے گا اور وہ ان پر مشک و زعفران کی بارش برسائے گا۔ ان کے گھوڑے ان باغات کے پودوں میں ہنہنائیں گے اور ان کی جنتی اُونٹنیاں انہیں زعفران کے ٹیلوں سے لے کر گزر رہی ہوں گی اور وہ درو مرجان ان کے پاؤں میں پامال ہو رہے ہوں گے۔ اور جنت کے خدام گلوں کے بڑے بڑے دستے بنا کر ان کا استقبال کر رہے ہوں گے اور عرش کی جانب سے نسیم ملائم چلے گی اور وہ ان پر یاسمین اور بابونہ کے گلوں کو نچھاور کرے گی اور وہ دروازہ جنت پر جائیں گے تو رضوان ان کے لیے دروازہ کھولے گا پھر وہ دربہشت کے آستانہ پر خدا کے لیے سجدہ کریں گے۔ اس وقت خدائے جبار ان سے فرمائے گا:
اپنے سروں کو بلند کرو۔ میں نے عبادت کی زحمت تم سے اٹھا لی ہے اور میں نے تمہیں جنت رضوان میں رہائش دی ہے۔
احنف! یاد رکھو اگر تم نے میری مذکورہ گفتگو کو جو میں نے ابتدا میں تم سے کی ہے‘ بھلا دیا تو تمہیں قطران کے پیراہن پہنا دیے جائیں گے۔ (قطران‘ اس سیاہ اور بدبودار پیپ کو کہا جاتا ہے جو خارشتی اونٹوں کے جسم سے نکلتی ہے)
تجھے دوزخ کے طبقات اور دوزخ کے گرم پانی کے درمیان چکر لگانا پڑیں گے اور تجھے انتہائی سخت گرم پانی پلایا جائے گا۔
ہائے اس دن دوزخ میں بہت سی ٹوٹی ہوئی پشتیں اور تباہ چہرے ہوں گے اور جلنے کی وجہ سے انتہائی بدصورت چہرے وہاں موجود ہوں گے اورحالت یہ ہوگی کہ طوق و سلاسل ان کی مٹھیوں کو کھا چکے ہوں گے اور آتشیں طوق ان کی گردنوں سے پیوست ہوں گے۔
احنف! کاش تم دیکھ سکتے کہ وہ دوزخ کی وادیوں میں کیسے گر رہے ہوں گے اور آتشیں پہاڑوں پر کیسے چڑھ رہے ہوں گے اور انہیں قطران کا لباس پہنایا جا چکا ہوگا۔ اور انہیں بدکاروں اور شیاطین کے ساتھ ایک ہی زنجیر میں باندھا گیا ہوگا اور جب وہ دہکتی ہوئی آگ سے بچنے کے لیے بری طرح سے فریاد کریں گے تو ان پر دوزخ کے بچھو اور سانپ حملہ کر دیں گے۔
کاش! تم یہ آواز بھی سنتے جب منادی ندا دے کر کہے گا:
اے اہلِ جنت و نعیم اور اے جنت کے لباس و زیورات پہننے والو! اب تم ہمیشہ رہو گے۔ تمہیں موت نہیں آئے گی۔ یہ آواز سن کر اہلِ دوزخ کی ناامیدی میں مزید اضافہ ہوجائے گا اور ان کی تمام امیدیں منقطع ہوجائیں گی اور رحمت الٰہی کے تمام دروازے ان کے لیے بند ہوجائیں گے۔ اس وقت بہت سے بوڑھے چیخ کر کہہ رہے ہوں گے۔ ہائے میرا بڑھاپا اور کئی جوان چیخ کر کہیں گے ہائے میری جوانی!اور کئی عورتیں آواز دے کر کہیں گی: ہائے میری رسوائی۔ ان پر پڑے ہوئے پردے ان سے ہٹا لئے جائیں گے۔ اس دن کتنے ہی گناہ گار دوزخ کے طبقات میں قیدی بنا لئے جائیں گے۔ اس لباس دوزخ کی وجہ سے ہلاکت ہے جو تیرے تمام بدن پر چڑھا دیا جائے گا جب کہ دنیا میں تو تو نرم و ملائم لباس پہنا کرتا کرتا تھا۔ اور دنیا میں تو ٹھنڈے پانی اور دیواروں کے زیرسایہ بیٹھنے کا عادی تھا اور انواع و اقسام کے طعام کھایا کرتا تھا۔ پھر تجھے ایسا لباس دیا جائے گا جو تیرے ہر نرم و نازک بال کو سفید کرے گا اور جن آنکھوں سے تو اپنے دوستوں کو دیکھتا تھا وہ نگاہیں اندھی کر دی جائیں گی۔
اللہ تعالیٰ نے مجرمین کے لیے یہ کچھ آمادہ کیا ہے اور متقین کے لیے یہ کچھ تیار کیا ہے۔
بہتر لوگ
محمد بن مسلم اور دوسرے رواة نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی۔ آپ نے اپنے آبائے طاہرین کی سند سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا کہ رسول خدا سے پوچھا گیا کہ خدا کے بہترین بندے کون ہیں؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وہ لوگ خدا کے بہترین بندے ہیں جب بھلائی کریں تو خوشی محسوس کریں اور اگر برائی سرزد ہو تو خدا سے مغفرت طلب کریں اور جب انہیں کچھ عطا ہو تو شکر بجا لائیں اور جب آزمائش میں مبتلا ہوں تو صبر کریں اور جب غصہ میں ہوں تو معاف کر دیں۔
دوستی و دشمنی خدا کے لیے
امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے آبائے طاہرین کی سند سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا۔ آپ نے ایک دن اپنے ایک صحابی سے فرمایا:
اے بندئہ خدا! اللہ کے لیے محبت رکھو اور اللہ کے لیے بغض رکھو اور اللہ کے لیے دوستی کرو اور اللہ کے لیے دشمنی رکھو کیونکہ اس طریقہ کے علاوہ تمہیں خدا کی دوستی نصیب نہیں ہو سکے گی اور اس کے بغیر انسان ایمان کا ذائقہ محسوس ہی نہیں کر سکتا۔ اگرچہ اس کے پاس نماز روزہ خواہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو اور آج دنیا میں لوگ دنیا کی خاطر ہی ایک دوسرے کے بھائی بن رہے ہیں اور دنیا کے لیے وہ ایک دوسرے سے مودت رکھتے ہیں اور دنیا کے لیے ہی ایک دوسرے سے بغض رکھتے ہیں اور یہ چیز انہیں خدا سے کچھ بھی بچا نہیں سکے گی۔
راوی نے رسول خدا سے عرض کیا:
یارسول اللہ ! مجھے یہ بات کیسے معلوم ہوگی کہ میں نے خدا کے لیے دوسی کی ہے اورخدا کے لیے دشمنی کی ہے؟ آپ ہی بتائیں کہ اللہ کا دوست کون ہے جس سے میں محبت رکھوں اور اللہ کا دشمن کون ہے جسے سے میں عداوت رکھوں؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
اسے دیکھ رہے ہو؟
اس نے عرض کیا: جی ہاں یارسول اللہ!
آپ نے فرمایا: اس کا دوست اللہ کا دوست ہے ۔ تم اس سے دوستی رکھو اور اس کا دشمن اللہ کا دشمن ہے تم اس سے دشمنی رکھو اور اس کے دوست سے دوستی رکھو اگرچہ وہ تیرے والد اور تیرے بیٹے کا قاتل ہی کیوں نہ ہو اور اس کے دشمن سے دشمنی رکھ اگرچہ وہ تیرا باپ اور تیرا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
اہلِ دین کی علامات
ابوبصیر نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی۔ آپ نے اپنے آبائے طاہرین کی سند سے امیرالمومنین علیہ السلام سے نقل کیا۔ آپ نے فرمایا:
اہل دین کی کچھ علامات ہیں جن سے ان کی پہچان ہوتی ہے:
۱- راست گوئی ۲- ادائیگی امانت ۳- عہد وپیمان کا پورا کرنا ۴- صلہ رحمی ۵- کمزوروں پر رحم کرنا ۶- عورتوں سے کم سے کم آمیزش رکھنا ۷- دوسروں سے بھلائی کرنا ۸- حُسنِ اخلاق ۹- کشادہ روئی سے پیش آنا ۱۰- علم کی پیروی کرنا ۱۱- ایسے امور کا بجا لانا جو قربِ خداوندی کا ذریعہ ہوں۔
ایسے ہی لوگوں کے لیے بشارت اور بہتر بازگشت ہے۔ اور ان کے لیے وہ شجرہ طوبیٰ ہے جس کی جڑ نبی اکرم کے گھر میں ہوگی اور ہر مومن کے گھر میں اس کی ایک ایک شاخ ہوگی اور مومن جس بھی چیز کی خواہش کرے گا وہ شاخ اس کی مطلوبہ چیز اس کے سامنے پیش کر دے گی اور درخت طوبیٰ کا سایہ اتنا دراز ہے کہ اگر کوئی سوار سو سال تک بھی اس کے زیرسایہ سفر کرے تو بھی وہ اس کے سایہ کو عبور نہ کر سکے گا اور اگر کوئی کوا اس کے نیچے سے پرواز کرے تو کوا بوڑھا ہو کر گر جائے گا مگر اس کے آخری حصہ تک نہ پہنچ سکے گا۔ اس طرح کی نعمت کے لیے رغبت کرو۔
یاد رکھو! مومن کا نفس اس کے اپنے لئے ہی مشغول رہتا ہے جب کہ لوگ اس سے راحت پاتے ہیں اور جب رات ہوتی ہے تو مومن اپنے چہرے کو اللہ کے لیے بچھا دیتا ہے اور خدا کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے اور اپنے خالق سے آتش دوزخ سے نجات حاصل کرنے کے لیے مناجات کرتا ہے۔ خبردار تم بھی ایسے ہی بنو۔
مکارمِ اخلاق
عبداللہ بن مسکان راوی ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مکارمِ اخلاق سے مخصوص کیا۔ مکارمِ اخلاق کے لیے تم بھی اپنے آپ کو آزما کر دیکھو۔ اگر تمہارے اندر وہ موجود ہوں تو خدا کی حمد بجا لاؤ اور اس کے اضافہ کے لیے خدا سے درخواست کرو۔
پھر آپ نے ان کی تعداد دس بیان فرمائی جو کہ یہ ہیں:
۱- یقین ۲- قناعت ۳- صبر ۴- شکر ۵- حلم ۶- حسنِ اخلاق ۷- سخاوت ۸- غیرت ۹- شجاعت ۱۰- جوانمردی۔
عقیدئہ مومن
حضرت عبدالعظیم حسنی کا بیان ہے کہ میں آقا و مولا امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا جب آپ کی مجھ پر نگاہ پڑی تو فرمایا:
ابوالقاسم! خوش آمدید‘ آپ ہمارے سچے دوست ہیں۔
میں نے عرض کیا: فرزندِ رسول ! میں آپ کے سامنے اپنا دین پیش کرنا چاہتا ہوں اگر وہ صحیح ہوا تو میں مرتے دم تک اس پر ثابت قدم رہوں گا۔
آپ نے فرمایا: پیش کرو۔
میں نے عرض کیا: میرا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد ہے اس کی کوئی مثال نہیں ہے اور وہ ابطال اور تشبیہہ کی دونوں سرحدوں سے باہر ہے۔ اور وہ نہ تو جسم ہے اور نہ صورت ہے اور نہ عرض ہے اور نہ جوہر ہے بلکہ وہ اجسام کا ایجاد کنندہ ہے اور صورتوں کی تصویر کشی کرنے والا ہے اور وہ تمام اعراض و جواہر کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کا رب اور مالک اور خالق اور ایجاد کنندہ ہے۔ وہ صاحبِ حکمت ہے اور وہ فعل قبیح بچا نہیں لاتا اور فعل واجب کو ترک نہیں کرتا۔
اور میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے عبد اور اس کے رسول ہیں اور وہ خاتم النبیین ہیں اور قیامت کے دن تک ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور ان کی شریعت آخری شریعت ہے۔ اس کے بعد روزِ قیامت تک کوئی اور شریعت نہیں آئے گی۔
اور میں عقیدہ رکھتا ہوں کہ رسول خدا کے بعد امام اور خلیفہ اور ولی امر حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسین ، حضرت علی بن الحسین ، حضرت محمد بن علی، حضرت جعفر بن محمد، حضرت موسٰی بن جعفر، حضرت علی بن موسٰی ، حضرت محمد بن علی اور پھر آپ ہیں۔
امام علی نقی نے فرمایا: میرے بعد میرا بیٹا حسن (عسکری) امام ہے اور اس کے بعد اس کے جانشین کے وقت لوگوں کی کیا حالت ہوگی؟
میں نے عرض کیا: مولا! وہ کیسے؟
آپ نے فرمایا:
وہ اس لیے وہ لوگوں کو دکھائی نہ دے گا اور ان کے خروج تک ان کا نام لینا جائز نہ ہوگا اور جب وہ خروج کرے گا تو ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔
میں نے کہا: میں ان کا بھی اقرار کرتا ہوں اور یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ ان کا دوست اللہ کا دوست ہے اور ان کا دشمن اللہ کا دشمن ہے اور ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور ان کی معصیت اللہ کی معصیت ہے۔
اور میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ معراج حق ہے‘ سوال قبر حق ہے‘ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے اور صراط حق ہے‘ میزان حق ہے۔ قیامت آکر رہے گی اور اس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے اور یہ کہ اللہ اہلِ قبور کو زندہ کرے گا۔
اور میں عقیدہ رکھتا ہوں کہ عقیدہ ولایت کے بعد نماز‘ روزہ‘ حج‘ جہاد‘ امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر اور حقوق والدین کی ادائیگی فرض ہے اور یہ میرا دین‘ میرا مذہب اور میرا عقیدہ اور میرا یقین ہے جو کہ میں نے آپ کے سامنے عرض کیا ہے۔
امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا:
ابوالقاسم! خدا کی قسم‘ یہ وہی دین ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پسند کیا ہے۔ تم اسی پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں قولِ ثابت کے صدقہ میں تمہیں اس پر ثابت رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
چار چیزوں کا منکر شیعہ نہیں
عمارہ کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
جو شخص چار چیزوں کا انکار کرے وہ ہمارا شیعہ نہیں ہے:
۱- معراج (رسول) ۲- قبر میں (نکیرین کے) سوالات ۳- جنت و دوزخ کی تخلیق ۴- شفاعت۔
معراج کا منکر رسولِ خدا کا منکر ہے
حسن بن علی بن فضال کا بیان ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: جس نے معراج کو جھٹلایا اس نے رسول خدا کو جھٹلایا۔
اجزائے ایمان
فضل بن شاذان راوی ہیں کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:
جس نے اللہ کی توحید کا اقرار کیا اور خدا کی مخلوق سے مشابہت کا انکار کیا اور جو صفات خدا کے لائق نہیں ہیں جس نے خدا کو ان سے منزہ تسلیم کیا اور یہ اقرار کیا کہ خدا قوت و قدرت و ارادہ و مشیت و خلق و امر و قضا و قادر کا مالک ہے اور گواہی دی کہ محمد مصطفی اللہ کے رسول ہیں اور علی اور ان کی نسل کے گیارہ امام خدا کی حجت ہیں اور جس نے ان کے دوستوں سے دوستی رکھی اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھی اور گناہانِ کبیرہ سے پرہیز کیا اور رجعت اور دو متعوں (متعة الحج‘ متعة النساء) کا اقرار کیا اور جو شخص معراج‘ قبر کے سوالات‘ حوضِ کوثر‘ شفاعت‘ جنت و دوزخ کی تخلیق‘ صراط‘ میزان‘ قبروں سے مبعوث ہونے‘ اور دوبارہ زندہ ہونے اور جزا و حساب کا اقرار کیا تو وہ سچا مومن ہے اور وہ ہم اہل بیت کا حقیقی شیعہ ہے۔
الحمدللّٰه رب العالمین وصلواته علی محمد واله الطاهرین