وصال امام زمان (عج)

 وصال امام زمان (عج)60%

 وصال امام زمان (عج) مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 14 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12209 / ڈاؤنلوڈ: 4665
سائز سائز سائز
 وصال امام زمان (عج)

وصال امام زمان (عج)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب کانام: وصال امام زمان (عج)

مصنف: سید تقی عباس رضوی قمی کلکتہ

امام زمانہ (عج):

وارث کرامات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم -----------------------------------------...ا لکرامةا لمحمد یّة

وارث شجاعت امام علی ـ --------------------------------------وَ القُوَّ ةا لمُرتَضْو یّةّة

وارث مکارم امام حسن ـ ---------------------------------------وَ المکارم ا لحَسنیّةّة

وارث عزم امام حسین ـ ----------------------------------------وَ ا لعَزا ئم ا لحُسینیّةّة

وارث عبادت امام سجاد ـ --------------------------------------والعبادةا لسجادیة

وارث علوم امام محمد باقر ـ -----------------------------------وَ ا لعلوم ا لباقریة

وارث امامت امام جعفر صادق ـ -------------------------------وَ الأمامة ا لصادقیّة

وارث اخلاق امام موسی کاظم ـ --------------------------------وَ الأخلاق ا لکاظمیّة

وارث معارف و کمال امام رضا (ع) -------------------------وَ ا لمعارف ا لرّضویّة

وارث سخاوت امام محمد تقی ـ --------------------------------وَ ا لجُود ا لتقویّة

وارث مقامات امام علی نقی ـ ----------------------------------وَ ا لمقامات النقویّة

وارث لشکر امام حسن عسکری (ع) -------------------------وَ ا لعساکر ا لعسکریّة اَ لَّذِ یْ فَاقَ َ

الأنا مَ کَرَامَةً وَ فَضْلاً (٥)

امام زمانہ (عج) وہ ہیں جو اپنے کرامات اور فضائل کے لحاظ سے تمام مخلوقات پر فوقیت رکھتے ہیں لہذا:

اسی سے سلسلۂ صبح و شام قائم ہے

ہمیں بھی ناز ہے اپنا امام (عج) قائم ہے

امام صادق ـنے فرمایا:لو کان حبُّک صادقاً لَاَطَعْتَهُ اِنَّ اَلْمُحِبَّ لِمَنْ یُحِبُّ مُطِیْع (٦)

اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم محبوب کی اطاعت کرتے کیونکہ محب اپنے محبوب اور ہر عاشق اپنے معشوق کی رضامندی اور اسکے فرمان کا مطیع ہوتا ہے یہ قول ایک ایسے کا مل انسان کاہے جس نے اپنی زندگی کاایک ایک لمحہ اپنے محبوب کی رضامیں صرف کیا اورجاتے جاتے دنیا کو ایسا پیغام دیا جسے قیامت تک دنیا بھلا نہیں سکتی اور ساتھ ساتھ اپنے محبوں کو شہادت سے پہلے یہ سمجھاگئے کہ دیکھو: "کُوْنُوْا لَنَا زَیْنَا وَلٰاتَکُوْنُوا عَلَیْنَا شَیْناً "(٧) تم ہمارے لئے باعث زینت اور باعث فخر بننا، ننگ و عار کا باعث نہ بننا۔ لیکن ہم جب اپنی قوم کے حالات پر نظر ڈالیں تو یہ صاف دیکھنے کو ملتا ہے کہ دریائے نیل سا موجیں مارتا ہوا آج کا ہمارا معاشرہ اور اس کے بے بہرہ لوگ بجائے ترقی کے تنزلی کی راہ پر گامزن ہیں ،واقعا ًکتنے نادان اور بے فہم ہیں لوگ!! ایک طرف یہ دعویٰ بھی ہے کہ ":اِنِّیْ سِلْم لِمَنْ سَالَمَکُمْ وَ حَرََب لِمَنْ حٰارَبَکُم ْ "(٨) اور دوسری طرف دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ہم ایسے بدل گئے ہیں کہ ہمارا یہ دعویٰ اب دعویٰ نہیں بلکہ ایک فریب ہے کیوں !!

اس لئے کہ آج ہم جس پر آشوب زمانے میں زندگی کے مراحل طے کررہے ہیں نہ تو اس زمانے میں مولائے کائنات ـ کی امامت ہے نہ ہی امام حسن اور امام حسین کی امامت بلکہ اگر چہ ہمارے سارے امام معصوم ـ ہیں ، اور سب مساوی طور پر لائق صداحتر ام ہیں لیکن اس وقت حقیقت میں دیکھا جائے تو ہمارا سب سے گہرا رشتہ اس امام سے ہے جس کی امامت میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں جس کے وجود بابرکت سے کائنات کانظام باقی ہے، ہماری ایک ایک سانس اسی کی رہین منت ہے ،ہم شیعیان حیدر کرار آج جہاں بھی جس جگہ بھی اس کائنات کے کسی گوشے میں صحیح و سالم ہیں تو یہ اسی کے وجود بابرکت کی دین ہے ۔ امام زمانہ اپنے خط میں فرماتے ہیں کہ :

"اِ نَّا غَیْرُ مُهْمِلِیْنَ لِمُرَاعَاتِکُمْ وَلا نَاسِیْنَ لِذِکْرِکُمْ وَلَوْلا ذٰلِکَ لنُزّلَِ بِکُم الأوائُ واصْطَلَمَکُم الأَعْدائُ" (٩)

ہم تمہاری حفاظت میں کوتاہی نہیں کرتے اور نہ ہی تمہاری یاد سے غافل ہوتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو مشکلات تم پر ٹوٹ پڑتیں اور دشمن تمہیں کچل ڈالتے۔ غوروفکر کامقام ہے کہ جس قوم کا ایسا ہادی او ررہبر ہو جو غیبت میں رہنے کے باوجود ان کی نگہداری او رحفاظت کرے،وہ اپنے ہادی و رہبر سے غافل!!!

لیکن سچ تو یہ ہے کہ غیبت، خداکی ایک مصلحت ہے ورنہ کریم ابن کریم ہمیشہ ہم لوگوں کے درمیان ہیں اور یہ توہمارے ناشائستہ اعمال نے ہمارے اور ان کے درمیان پردہ ڈا ل دیا ہے ، ہم ایسے بدکردار ہیں کہ امام ـکے اس قول کے برعکس سبب زینت بننے کے بجائے باعث ذلت بن گئے ہیں ۔

ہمیں تو اپنے معاشرہ سے لیکر دنیا کے گوشہ گوشہ میں ایک ہی دستور اور ایک ہی رسم دیکھنے کو ملی کہ عاشق انپے معشوق کے وصال کی خاطر اپنی جان ، ،دولت وحکومت،اپنا قیمتی وقت اوراپنا ایک ایک لمحہ اس پر نچھاور کردیتا ہے ۔

لیکن ہم ہیں کہ اپنے محبوب کے دیدار کی خواہش تک نہیں کرتے وصال محبوب تو دور کی بات ہے نہ جانے ہم پر کیسی غفلت طاری ہے کہ ہم ظلمتوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں غرق ہوتے چلے جارہے ہیں ۔

ہمارا محبوب اپنے عاشق کے وصال کے لئے ہمیشہ بے قرار ہے اس لئے ہمیں یہ چاہئے کہ اپنے اعمال وکردار کی اصلاح کریں تاکہ ہمارے ناشائستہ اعمال و بدکردار ی ہماری شخصی زندگی میں رکاوٹ نہ بنیں اور جب آنے والا آئے تو ہمیں دیکھ کر فخر کرے کہ واقعا ًیہ ہمارے عاشق ہیں اور یہی ہمارے شیعہ بھی ہیں ۔

ہمارا یہ فریضہ ہے کہ روزانہ کم از کم ایک دفعہ خلوص دل سے امام (عج)کے ظہور کی دعا کریں ۔

ہمیں روزانہ کم از کم ایک مرتبہ تو صمیم قلب سے امام (عج)کی خدمت اقدس میں سلام بھیجنا چاہئے ہمیں روزانہ امام (عج)کی سلامتی کے لئے صدقہ دینا چاہیئے اور بارگاہ رب العزت میں اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے دعا ء کرنا چاہیئے کہ اے پالنے والے منجی عالم بشریت ،یوسف زہرا کے ظہور میں تعجیل فرمااور ہمیں انکے اعوان وا نصار میں قرار دے۔

آمین

____________________

(١) سورۂ مائدہ٣٥

(٢) غرر الحکم جلد ١صفحہ ١٠٨

(٣) اصول کافی جلد٢ صفحہ٣٠٠

(٤) بحار الانوار جلد ٧٨ صفحہ ١٨٣

(٥) وسیلة الخادم الی المخدوم (شرح صلوات چہاردہ معصوم صفحہ ٢٧٨(

(٦) وسائل الشیعہ ج١٥/ص٣٠٨ (باب وجوب اجتناب معاصی(، امالی شیخ صدوق ص٤٨٩، روضة الواعظین ج٢/ص٤١٨، بحار الانوار ج٦٧/ص١٥، بحار الانوار ج٤٧/ص٢٤، فلاح السائل ص١٥٨، المناقب ج٤،ص٢٧٥

(٧) وسائل الشیعہ ج١٢/ص٨، بحار الانوار ج٦٥/ص١٥١، بحار الانوار ج ٦٨/ص٢٨٦، اعلام الدین ص١٤٣، امالی شیخ صدوق ص٤٠٠، امالی شیخ طوسی ص ٤٠٠

(٨) زیارت جامعہ (مصباح الکفعمی ص٥٠٥( ، زیارت عاشورا (مصباح المتھجد ص٧٧٤ (

(٩) الاحتجاج ج٢/ص٤٩٥، بحار الانوار ج ٥٣/ص٢٧٤، الخرائج ج٢/٩٠٢

امام عصر (عج) کاوجود مبارک اور علماء اہل سنت

عالم اسلام کے تمام فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارہویں جانشین جنہیں دنیا حضرت مہدی (عج)کے نام سے جانتی ہے وہی قائم و منتظر ہیں جنکے ظہور کے بعد دنیا میں عدل و انصاف کا پرچم لہرائے گا اور باطل نیست و نابود ہو جائے گا

مشہور سنی عالم علامہ ابن حجر مکی نے یوں بیان کیا ہے : امام عصر کی عمر مبارک آپکے والد امام حسن عسکری ـ کے انتقال کے وقت پانچ سال تھی لیکن اس عمر میں خدا وند متعال نے حضرت کو کمال، علم اورحکمت کا سرچشمہ بنا دیا تھا آپکا نام قائم اور منتظر بھی ہے آپ پوشیدہ ہو گئے او ر معلوم نہ ہو سکا کہ کہاں تشریف لے گئے شیعوں کے قول کے مطابق آپ ہی مھدی موعود (عج) ہیں ۔(۱)

علامہ محمد ابن طلحہ شافعی نے لکھا ہے : حضرت امام حسن عسکری (ع)کے خدا داد شرف کے لئے یہ بات کافی ہے کہ خدا وند عالم نے امام مہدی (عج)کو انکے نسب میں رکھا اور انکے صلب سے پیدا کرکے انکی اولاد میں سے قرار دیا ۔(۲)

علامہ ابن خلقان نے لکھا ہے کہ: شیعوں کے اعتقاد کے مطابق آپ ہی بارہ اماموں میں سے بارہویں بزرگ ہیں اور آپ ہی حجت کے لقب سے مشہور ہیں شیعہ حضرات انکے ظہور کے منتظر ہیں ۔(۳)

علامہ سبط ابن الجوزی نے لکھا ہے کہ: آپ کی کنیت ابو عبداللہ و ابوالقاسم ہے اور آپ کے القاب الخلف الحجة ، صاحب الزمان ، القائم المنتظراور الباقی ہیں ۔(۴)

علامہ قطب ربانی شیخ عبد الوہاب شعرانی بیان کرتے ہیں کہ: امام مہدی آخرالزمان حضرت امام حسن عسکری ـکے فرزند ہیں جو کہ پندرہ شعبان المعظم ٢٥٥ھ میں متولد ہوئے اور وہ قائم رہیں گے یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ ـسے ملاقات کریں گے۔(۵)

علامہ شیخ سلیمان قندوزی نے لکھا ہے کہ: شیخ محدث فقیہ ابو عبد اللہ محمد ابن یوسف ابن محمد کنجی شافعی اپنی کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان میں بیان کرتے ہیں کہ امام مہدی (عج) خلف امام حسن عسکری ـاپنے زمانہ غیبت سے اب تک زندہ اور موجود ہیں ۔(۶)

علامہ ابن صبا غ ما لکی نے لکھا ہے کہ: گیارہویں امام ـکے سوائے ایک فرزند محمد الحجةالمہدی کے اور کو ئی فرزند نہیں تھاحضرت اپنے پدر بزرگوار کی رحلت کے وقت پانچ برس کے تھے اور خدا وند متعال نے آپکو حکمت کا معدن قرار دیا تھا آپ حضرت یحییٰ ـ پیغمبر کی طرح عہد طفلی ہی میں درجۂ امامت پر فائز ہو ئے حضرت عیسیٰ ـ کی طرح ہیں جنھوں نے بچپنے میں گہوارہ کے اندر مقام نبوت کو حاصل کر لیا تھا، وضاحت کے ساتھ یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ تمام پیغمبروں اور پیشواؤں اور بالخصوص پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صاحب السیف القائم اور العبد الصالح فرماکر آپکی توصیف فرمائی ہے۔(۷)

شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی:نے امام علی بن ابی طالب ـکے اس کلام کی تشریح کرتے ہوئے بیان کیا کہ آنحضرت ـ جو یہ فرمایاہے: (بنا یختم لا بکم (یہ قول امام مہدی (عج)کی طرف اشارہ ہے جو آخری زمانے میں ظہور کریں گے ۔ اور اکثر محدثوں اور بزرگوں کا نظریہ ہے کہ وہ اولاد جناب فاطمہ زہرا میں سے ہیں اور اسے معتزلہ اور اسکے پیروکاروں نے نے بھی قبول کیا اور اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور اسے صریحا ً بیان بھی کیا ہے اور ہمارے اساتید اور بزرگوں نے بھی اسے قبول کیا ہے ۔(۸)

سچ تو یہ ہے کہ خالق ارض وسما نے ایک لمحہ کے لئے بھی اس کائنات کو اپنی حجت یعنی امام و خلیفہ سے خالی نہیں رکھاہے کیوں کہ اگر ایسا ہو گیا تو دنیا کا نظام درہم وبرہم ہو جائیگا جیسا کہ اس بات کی وضاحت امام جعفر صادق (ع) کی یہ حدیث کر رہی ہے کہ :

لَوْ بَقِیَتِ الْاَرْضُ بِغَیْرِامامٍ لَسَا خَتْ ۔

اگر زمین حجت خدا سے خالی ہو گئی تو فنا ہو جائیگی ۔(۹)

اسکے علاوہ خود امام زمانہ ایک توقیع میں فرماتے ہیں کہ :

اِنّ الارْضَ لا تَخْلُو مِنْ حُجّةٍ ا مّاظاهراًوَامّامَغْمُوراً

آپ (عج) نے فرمایا : زمین کبھی بھی حجت خدا سے نہ خالی تھی اور نہ رہے گی چاہے اسکی حجت ظاہر ہو یا پنہان(۱۰)

بحر نور کے چند قطرات

١( رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :دنیا ختم نہیں ہوگی مگر یہ کہ ایک شخص میرے اہلبیت میں سے (مہدی (عج)( میری امت پر حکومت نہ کر لے ۔(۱۱)

٢( رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میرے بعد میری نسل سے بارہ نجیب و شریف صاحب حدیث اور علم آئیں گے ان میں سے آخری حق کو قائم کرنے والا ہوگا اور وہ دنیا کو اس طرح عدل سے بھر دے گا جس طرح ظلم سے بھری ہوگی۔(۱۲)

٣(امام سجاد ـنے فرمایا : اے ہمارے شیعو!جنت تمہارے ہی لئے ہے چاہے تمھیں جلدی ملے یا دیر سے مگر تمھیں ہی ملنی ہے لیکن اسکے درجات کو حاصل کرنے کی

کو ششیں کرو ۔(۱۳)

٤(امام جعفر صادق ـنے فرمایا : تم میں سے ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ امام عصر ـکے ظہور کے لیے زمینہ فراہم کرے چاہے ایک تیرہی سہی چونکہ خداوند عالم اس کی نیت کے خلوص کو دیکھتے ہوئے اسکی عمر اتنی طولانی کردیگا کہ اسے امام ـ اپنے اعوان و انصار میں ظہور کے وقت شامل کرلیں ۔(۱۴)

٥(امام جعفر صادق ـنے فرمایا : ہمارے شیعوں کی پہچان اول وقت نماز کے کی پابندی سے ہے(۱۵)

٦(امام رضا ـنے اپنے جد بزرگوار سے نقل کیا ہے کہ:میری امت کا بہترین عمل ظہور امام کا انتظار ہے۔(۱۶)

٧( اما م حسن عسکری ـنے فرمایا: میرے بیٹے کے ظہورکاوقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں اور دوسری جگہ فرمایا میرا فرزند میرے بعد امام اور حجت ہے اسکی معرفت کے بغیر موت جاہلیت کی موت ہے(۱۷)

٨(امام عصر ـنے فرما یا :ملعونُ ملعونُ مَنْ اخَّرَ الْغدٰاةَ اِلی انْ تَنْقَضی النْجُوُم ۔ملعون ہے ملعون ہے وہ شخص جونماز میں اتنی تاخیر کرے کہ تارے نظرآنے لگیں اور ملعون ہے وہ شخص جو نماز( مغرب (میں اتنی تاخیر کرے جبکہ تمام ستارے غائب ہوجائیں ۔(۱۸)

٩(امام عصر نے فرما یا:

اناخاتَمُ الاوصیائِ و بی َیدْفَعُ الله ُ عزَّ وَ جلَّ البلاٰئَ عَنْ اهلی و شیعتی

میں آخری جانشین و وصی ہوں خدا وند عالم ہماری وجہ سے ہماری پیروی کرنے والوں اورہمارے شیعوں سے بلاؤں کو دور رکھتا ہے۔(۱۹)

١٠( امام ـنے فرمایا : لَیسَ بَیْنَ اللہِ عزَّوَجلَّ وَ بَےْنَ اَحَدٍقِرابَة وَمَنْ اَنْکَرَنیِ فَلَیْسَ مِنّی وَ سَبِیْلُہُ سَبیْلُ ابنِ نوُحٍ۔

امام ـ نے فرمایا:خداوندعز وجل سے نہ کسی کی رشتہ داری ہے اور نہ ہی قرابت داری؛جو بھی میرا انکار کرے وہ مجھ سے نہیں ہے اسکی راہ پسر نوح ـ کی راہ ہے(۲۰)

ہمارا ایک اہم وظیفہ یہ ہے کہ ہم اپنے آئمۂ معصومین کو اس طرح پہچانیں جسطرح پہچاننے کاحق ہے اور وہ جیسے ہیں انھیں ویسا ہی جانیں نا یہ کہ صرف اور صرف انکی پیروی اور محبت کا جھوٹا اور زبانی دعوی ہو چونکہ ہمیں اس منزل پر امام علی (ع) کی وہ حدیث یاد آرہی ہے جسمیں آپ ـ نے فرمایا ؛میرے بارے میں دو طرح کے لو گ ہلاک ہو جائیں گے !حد سے آگے بڑھ جانے والا دوست اور غلط بیانی اور افترا پر دازی کرنے والا دشمن ۔(۲۱)

امام عصر نے ایک خط جناب شیخ مفید کے پاس ارسال کیا تھا اس میں آپ ـ نے فرمایا: میرے شیعوں کو چاہیے کہ ایسا کام کریں کہ لوگ انکے عمل و کردار کو دیکھ کر ہم سے نزدیک ہوں اور اہل بیت اطہار سے محبت کریں ایسا نہ ہو کہ ہم سے نزدیک

ہو نے کے بجائے ا ن کے عمل و کردار اور گفتار کی وجہ سے ہم سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگیں اور ہماری محبت سے اجتناب کریں !لہذا اس بات پر غورو فکر ہر فرد شیعہ پر ضروری اور واجب ہے ۔

اس امر کی طرف چھٹے امام حضرت جعفر صادق ـنے بھی اشارہ کیا ہے آپ ـنے فرمایا :میرے شیعوں ! میرے لئے باعث زینت بننا ذلت و عار کا باعث نہ بننا! اس کا سبب یہ ہے کہ اہل بیت رسول کا سراپا وجود دنیاکے لئے اسوہ حسنہ اور نمونۂ عمل ہے اگر انکی پیروی کرنے والے بد کردار اور بد چلن ہوں گے تو دوسری قوم و ملت کے لوگ اہل بیت سے نزدیک ہونے کے بجائے ان سے دوری اختیار کریں گے ۔

امام محمد باقر ـنے یہ واضح کیا ہے کہ اگر کو ئی ہمارے شیعوں کوپہچاننا چاہے تو ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ سب خدا کی اطاعت کرتے ہیں ۔(۲۲)

یا امام جعفر صادق ـ کی اس حدیث کوملاحظہ کریں جسمیں آپ ـ نے اور واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ ہمارے شیعہ :اہل رکوع و سجود اور سعی کرنے والے ہیں ان کے اندر امانت داری اور وفاداری پائی جاتی ہے وہ ایسے زاہد اور عابد ہیں کہ شبانہ روز میں ٥١ رکعت نماز اداکرتے ہیں اور راتوں کو بیدار اور دنوں کو روزہ رکھنے والے ہیں نیزاپنے اموال سے زکات اداکرنے والے ہیں ، ساتھ ہی ساتھ وہ سب خانۂ خدا کا حج اور حرام خدا سے اجتنا ب کرنے والے ہیں ۔(۲۳)

دوسری جگہ آپ ـنے فرمایا:اگر کو ئی صرف زبانی دعوی کرے کہ ہم ہی اہل بیت کے حقیقی شیعہ ہیں لیکن عمل کے میدان میں ہمارے فرمان کی مخالفت کررہا ہو تو وہ ہم میں سے نہیں ہے گویا امام ـ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ !ہمارے اصل شیعہ وہ ہیں جو زبانی دعوی کے ساتھ ساتھ ہمارے نقش قدم پر چل رہے ہوں ۔(۲۴)

نور کی ولادت

آسمان ولایت کا آخری سورج شہر سامرا کے اس وحشتناک ماحول میں جاسوسوں او ر حکومت عباسی کے چاپلوسوں کی آنکھوں سے دورصبح جمعہ ٢٥٥ھ کو امام حسن عسکری ـ کے گھر میں طلوع ہوا(۲۵) اس نے اپنی ولادت کے چند لمحہ بعد خدا کی و حدانیت ا ور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کی گواہی دی اور ساتویں دن اپنے والد کی آغوش میں اس آیة شریفہ کی تلاوت کی:

( وَ نُر یدُأَنْ نَمُنَّ عَلٰی الَّذینَ اسْتُضعِفُوا فی الْاَرضِ وَنَجْعَلَهُم اَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمْ الْوارِثینَ ) (۲۶)

پیغمبر کی وصیّت و بشارت اور احادیث کے مطابق انکا نام(محمد ( عج) رکّھا گیا تاکہ صرف چہرہ پر نورہی سے ہی نہیں جو رسول اللہ سے سب سے زیادہ شباہت رکھتا ہے بلکہ نام اور کردار سے بھی آخری پیغمبر الہیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یاد باقی رہے اور تمام جہات سے اپنے جد خاتم انبیاء کا آئینہ ہو ۔ اسی وجہ سے آپ کی کنیّت بھی ابوالقاسم رکھی گئی اگر چہ بعض دوسری مناسبتوں کی وجہ سے آپ کی کنیّت ابو جعفر ، ابوعبداللہ،اور ابوصالح ہے۔

امام زمانہ کے مشہور ترین القاب مہدی ،قائم ،منتظر صاحب العصر ،صاحب الامر ، صاحب الزمان،بقیّةاللّٰہ ، حجة اللہ ، منصور، خلف الصالح، موعود ، ہیں جوکہ حدیث، دعا اور تاریخ کی کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں ۔

آپ کے فضیلت مآب پدر گرامی ـ

امام عصر کے والدماجدحضرت ابو محمد امام حسن عسکری ـ ہیں جنہوں نے اپنی بابرکت زندگی کی دو دہایوں میں سوائے تلخی اور سختی کے کچھ نہیں دیکھا اور حکومت عبّاسی کے خلاف آشکاریا مخفی طریقہ سے جہاد کرنے کے باعث ہمیشہ قید یا سخت پہرے میں رہے۔

آپ ـ کی با عزت عمر کے تیسویں سال میں آپ کے اپنے پہلے اور آخری فرزند کی ولادت ہوئی اس وقت آپ نے خدا کے حتمی وعدے کو پور ا ہوتے دیکھ کر شادمانی کے عالم میں اپنے اصحاب سے یوں فرمایا: ستمگروں نے سوچا تھا کہ مجھے قتل کردیں تا کہ یہ نسل منقطع ہوجائے ،لیکن انھوں نے قدرت خدا کو کیاپایا۔(۲۷)

امام مھدی (عج)کی ولادت کے بعد امام حسن عسکری ـکی زندگی کیحسّاس ترین دور کا آغاز ہوگیاآپ نے تمام سختیوں اور جاسوسوں کے دبائو کے با وجود نہایت عقلمندی کے ساتھ بہترین راستے کے ذریعے اور اپنے امانت دار اصحاب کی مدد سے تمام شیعیان اہل بیت کو حضرت قائم (عج)کی ولادت سے با خبر کیا اور مختلف مناسبتوں میں امام کے چہرہ انورکو پہچنوایا۔

امام زمانہ (عج) کی والدہ گرامی

امام زمانہ کی والدہ گرامی روم کے دو عظیم اور معروف خاندان سے تھیں آپ قیصر روم کے بیٹے(یشوع(کی صاحبزادی تھیں اور آپکی والدہ بھی حضرت عیسیٰ کے وصی حضرت شمعون کی اولاد میں سے تھیں ۔

آپ کی امام حسن عسکری ـ سے شادی ایک حیرت انگیز واقعہ ہے جب قیصر کے خاندان کی ایک بزرگ شخصیت کے بیٹے سے آپکی شادی کے مراسم انجام نہ پاسکے توآپ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خواب میں دیکھا او ر اسلام قبول کر نے کا افتخارحاصل کیا اور ایک جنگ میں رومی اسیروں کے ساتھ آپ عبّاسی حکومت کے مرکز بغداد پہنچیں وہاں امام ہادی ـکے حکم سے آپ بشر بن سلیمان کے ذریعے خریدی گئیں اور پھرامام ہیکے گھر میں آپ کے فرزند ارجمندامام حسن عسکری ـ کے ساتھ آپکا نکاح ہوا ۔

آپکا نام نرجس، سوسن، ریحانہ، اور صقیل ،ذکر کیا گیاہے(۲۸) عفّت، ایمان ، پاکیزگی ، نیک اخلاق، اور حسنِ رفتار کی ایسی مالک تھیں کہ ''حکیمہ خاتون ''امام کی بیٹی ،امام کی بہن اورامام کی پھوپھی ہونے کے باوجود آپ کا احترام کرتی تھیں ۔

امام ہادی ـنے ہمیشہ انہیں اچھے القاب سے یاد کیا ۔ اس سے بڑھ کر امام علی ـ امام صادق ،اور اما م محمد تقی نے آپکوخِیَرَةْ الْأِمائِ (کنیزوں میں سے چنی ہوئی(اور َسیدَِةُالاِْمائ ِ (کنیزوں کی سردار ( سے یاد کیا ہے۔

امام زمانہ کی والدہ پر حمل کے دوران کسی قسم کے آثار ظاہر نہیں ہوئے۔ فقط آخری شب تھی کہ امام حسن عسکری ـنے حضرت حکیمہ سے درخواست کی ''اے پھوپھی جان ! آج ہمارے یہاں ٹھہرجائیے کیونکہ خدائے عزّ وجل آج رات آپ کواپنے ولی اور حجت کی ولادت کے ذریعے شاد فرمائے گا'' اس طرح ١٥،شعبان ٢٥٥ہ میں امام زمانہ (عج) کی ولادت ہوئی۔(۲۹)

____________________

(۱) صواعق محرقہ ص ١٢٤نقل از تاریخ ائمہ

(۲) مطالب السئول ص ٢٢٩

(۳) دفیات الاعیان جلد ٢ ص ٤٥١

(۴) تذکرة الخواص ص ٢٠٤

(۵) الجواہر جلد ٢ ص ٢٢٨

(۶) ینابیع المودة ص ٣٩٣

(۷) الفصول المہمّہ صفحہ ٢٩١

(۸) حضرت مہدی (عج)از ظہورتا پیروزی ص ٠٩ا

(۹) اصول کافی جلد١ ص ١٧٩

(۱۰) کما ل الدین جلد ٢صفحہ ٥١١حدیث٤٢ و شرح چہل حدیث از امام مھدی صفحہ ١٥

(۱۱) الغیبة طوسی ص١٨٢

(۱۲) کافی ج١/٥٣٣،٥٣٤ اور صحیح مسلم حدیث اثنا عشر خلیفہ میں ملاحظہ ہو۔

(۱۳) بحارالانوار ج٧٤ ص٣٠٨

(۱۴) غیبت نعمانی ص٢١٩بحارالانوار ج ٥٢ ص٣٦٦

(۱۵) مستدرک الوسائل ج٦، ص٥٧٨ و کمال الدین

(۱۶) مواعظ امام جعفر صادق ـ بہ نعمان ''افضل الاعمال انتظار الفرج من الله '' بحار ٧٥/٢٠٨، کشف الغمہ ٢/٢٠٧

(۱۷) بحار الانوار ج٢٥، ص١٥٧

(۱۸الغیبة شیخ طوسی صفحہ ٢٧١ حدیث٢٣٦ وسائل الشیعة ج٤ ص٢٠١ و شرح چہل حدیث از امام مھدی ص٢٣ح٩

(۱۹) الغیبة طوسی ص٢٤٢ ح ٢١٥و شرح چہل حدیث از امام مھدی

(۲۰) کمال الدین ص٤٨٤ ح٣و شرح چہل

(۲۱) نہج البلاغہ قصار ٤٦٩

(۲۲) اصول کافی ج٢ص٣٧

(۲۳) وسائل الشیعہ جلد ١٥ صفحہ٢٤٧و شرح چہل حدیث از امام مھدی صفحہ ٩٣

(۲۴) وسائل الشیعہ ج١٥، ص٢٤٧ و شرح چہل حدیث از امام مھدی صفحہ ٩٣ و کمال الدین ص٤٨٤

(۲۵) بحار الانوار ج٥١، ص٣ و ٤

(۲۶) سورۂ قصص آیہ ٥

(۲۷) بحارالانوار ج ٥١/ص٤

(۲۸) منتخب الاثر ص٣٢٠

(۲۹) منتخب الاثر ص ص٣٢٣ (امام زمان (عج) کی والدہ کا انتقال ٢٥٨ھ میں ہو(

مجلس ۲

بسم الله الرحمن الرحیم

فقد قال الله تبارک و تعالیٰ فی کتابه المجید بسم الله الرحمن الرحیم

( بقیة الله خیرلکم ان کنتم مو منین ) “ (سورہ ہود آیت ۸۶)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہورہا ہے کہ بقیة اللہ یعنی امام زمانہ (عج) اس بزرگ و عظیم الشان ہستی کو خداوند عالم نے آج تک باقی رکھا ہے ان کا وجود تمہارے لئے خیر ہے تمہارے لئے بہترہے مگر شرط یہ ہے کہ اگر تم مو من بن جاومو من کے لئے وجود فرزند زہرا سے خیر ہی خیر ملتا ہے ہمارے امام غیبت میں ہیں غیبت کبریٰ کا زمانہ ہے اس میں ہماری اور آپ کی ذمہ داریاں ہیں پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ معرفت امام زمانہ نوجوانوں کے دلوں میں پیدا کریں اپنے بچوں کو سکھائیں انہیں تعلیم دیں کہ معرفت امام زمانہ کیا ہے جو بھی خدا ہمیں نعمت دیتا ہے ان کے صدقے میں دے رہا ہے اور اس قر آن کی بہت ساری آیات با ر بار بتلا رہی ہیں کہ جو بھی نعمت مل رہی ہے وہ بارہویں امام حجت خدا کے صدقے میں مل رہی ہے کا فر کو بھی ا گر مل رہی ہے تو ان کے صدقے میں مل رہی ہے مو من کو بھی اگر مل رہی ہے ان کے صدقے میں مل رہی ہے اور اگر جو شبہات ہیں سوالا ت ہیں ان کے بے شما ر جوابات ہیں کبھی کبھی یہ سورج بادلوں کے پیچھے چھپ جا تا ہے مگر یہ نہیں کہ اس کا فیض منقطع ہو گیا ہے یہ معمولی سورج اس کی شعائیں وہ بادلوں پا ر کرتے ہو ئے ہم تک پہنچ جا تی ہے بادلوں سے گذرے تے ہو ئے زمین پر دریاوں پر پہاڑوں پر پہنچ جا تی ہے یہ تو معمولی نور ہے مگر قرآن کہہ رہا ہے ”( الله نور سموات والارض ) اللہ کا نور وہ نور کون ہے حجت خدا امام خدا کا نور ہے زمین پر بھی اور آسمان پر بھی لہذا نور امام کا مقابلہ سورج کا نور نہیں کرسکتا ہے لہذا اگر غیبت کے پردے میں بھی چلے جا ئیں تب بھی امام کے وجود سے مسلسل فیض جاری ہے لوگ کہتے ہیں کہ امام تو غیبت میں ہیں امام کے وجود سے تب فائدہ ملے گا جب امام آپ کے سامنے ہو ں آپ جا کر امام سے مدد لیں آپ جا کر امام سے مسئلہ پوچھیں آپ کے امام تو غیبت میں ہیں تو اس کا کیا فائدہ اس سوال کا جواب کہ امام ہیں غیبت میں غیبت میں رہکر امام ہمیں کیسے فائدہ دیتے ہیں کیسے ہدایت دیتے ہیں ہم سب مسلمان ہیں ہم سب مسلمانوں کا قرآن پر ایمان ہے ہم سب کو ایک ایک لفظ قرآن پر ایمان ہے کہ قرآن نے خود کہا ہے میری تلاوت سے پہلے ضرور کہا کرو ”( اعوذبالله من الشیطان العین الرجیم ) “ پھرقرآن کی تلاوت کرو تا کہ تم شیطان کے شر سے بچ جاو یہ شیطان منحوس جو آج تک زندہ ہے کہا ہم سے کسی نے شیطان کو دیکھا ہے کسی نے نہیں دیکھا ہے ،مگر اس کے وجود سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہے یہ خبیث نظر تو نہیںآ تا مگر ضرور ہے تو وہ گمراہ کیسے کرتا ہے کہا شیطان نے ابھی تک کسی کا ہاتھ پکڑا کہ چلو سنیما چلیں نہیں ایسا نہیں ہے شیطان کہتا ہے کہ چلو جوا کھیلنے چلیں نہیں کیا شیطان ہا تھ پکڑکر کہتا ہے کہ چلو نشے کر نے چلیں پھر شیطان کیسے گمراہ کر تا ہے تو قر آن مجید میں بتلا یا ” یوسوس فی صدور الناس من الجنة و الناس “ لوگو! یہ شیطان وسوسہ کرتا ہے یہ کو ئی ہاتھ پکڑ کر شراب خانہ میں نہیں لے جا تا ہے بر ائی کی طرف نہیں لے جا تا کہا گناہ کا خیال لا تا ہے اگر ہم پاکستان میں ہو ں تب بھی وہ وسوسہ کرتا ہے اگر ہم مکہ میں ہوں تب بھی وہ وسوسہ کرتا ہے اگر ہم مدینہ چلے جا ئیں تو وہاں پر بھی وہ ہمیں گمراہ کرتا ہے ہم جہاں جہاں بھی چلے جا ئیں تو یہ شیطان اتنا خبیث ہے کہ وہ وہاں بھی ہمیں نہیں چھوڑ تا اور وسوسہ کرتا ہے یہ شیطان کون ہے دشمن خدا ہے شیطان کون ہے جسے اللہ نے نکال دیا جب دشمن خدا کے پاس جب گمراہ کرنے والے شیطان کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ غیب میں رہکر پوری دنیا کو گمراہ کررہا ہے تو بتا ئیے جو نور خد ابھی ہو حجت خدا بھی ہو اور امام بھی ہو اور بقیة اللہ بھی ہو تو کیا خدا کے نمائندے میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ غیب میں رہکر انسانوں کو ہدا یت دے۔

معرفت امام دلوں میں پیدا کر نا چاہئے لوگوں کے سوالا ت کے جوابات آنے چا ہئے تا کہ لوگوں کو گمراہی سے بچا ئیں امام زمانہ (عج) ، رسول خدا (ص) فر ما تے ہیں آ خری زمانے میں جو میرے بارہویں بیٹے کا صحیح سے انتظار کرے گا انتظار تو ہم سب کر رہے ہیں اہل تسنن بھی کر رہے ہیں انتظار تو سبھی کر رہے ہیں مگر رسول خدا فر ما رہے ہیں جو میرے بیٹے کا صحیح سے انتظار کرے گا اس کا مقام جنگ بدر اور جنگ احد میں شہیدہو نے والے میرے صحابیوں کے برابر ہے ۔ رسول نے فر ما یا کے تم بھی ان جیسے ہو سکتے ہو کے جو جنگ احدمیں شہیدہو گئے تم بھی ان جیسے ہو سکتے ہو جو جنگ بدر میں شہید ہو گئے مگر شر ط یہ ہے کہ آ خری زمانے میں سر کار کا صحیح انتظا ر کرو ،اب دیکھئے کہ صحیح انتظار کیا ہے ایک انتظار جھوٹا ہو تا ہے اور ایک سچا انتظار ہو تا ہے مثال کوئی کہے کہ آج میرے پاس ایک عظیم ترین بلند مرتبہ والا شخص میرے پاس مہمان بن کر ا نے والا ہے اور جب ہم نے آپ کے گھر کو دیکھا تو دیکھا کہ ایک طرف کچرا پڑا ہوا ہے دو سری طرف مٹی پڑی ہو ئی ہے اور کو ئی انتظام نہیں ہے ہم کہیں گے کہ وہ کہہ رہا ہے کہ کائنات کا عظیم شخص ہما رے یہاں آ نے والا ہے سب سے محبوترین شخص جس پر جان فدا وہ آنے والا ہے اور انھوں نے کچرا سا منے رکھ دیا ہے تو ہم انہیں کہیں گے کہ آ پ یہ جھوٹا انتظار کررہے ہیں اگر کائنات کا سب سے محبوترین شخص آ نے والا ہے تو آ پ کو اس کے کمرے کو کتنا نورانی بنا نا تھا کتنی خوشبو کی چھنکار سے اسے معطر کر نا تھا تا کہ دیکھنے والے بھی کہیں کہ یہ سچا انتظار ہے تو ہم سب کہتے ہیں العجل مو لا جلدی ا ئیے ہم خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم سچا انتظار کر رہے ہیں یا جھوٹا انتظار کر رہے ہیں اور دیکھئے امام کی نظر وہ ہمارے گھروں پر نہیں ہے کہ کہیں اُس کا کتنا بڑا بنگلا ہے کہ فلاں کا کتنا چھوٹا فلیٹ ہے کہ فلان جھونپڑی میں رہتا ہے نہیں کبھی بھی امام یا نبی گھروں کو نہیں دیکھتے کہ فلان کا گھر بڑا ہے یا چھوٹا ہے قرآن نے بتلا دیا کہ امام کس چیز کو دیکھتے ہیں فر ما یا( ان اکر مکم عند ا لله اتقاکم ) (سورہ حجرات آیت ۱۳) خدا نبی و امام کیا دیکھتے ہیں وہ ہمارے دلوں کودیکھتے ہیں کہ اس کے دل میں کتنا تقوا کا نور ہے جو انسان کہہ ر ہا ہے کہ مو لا آئیے آ ئیے و ہ اپنے دل کو دیکھے کہ کیا وہ اس نے اپنے دل کو صاف کیا ہے یا نہیں صرف زبان سے کہہ رہا ہے مو لا آ جائیے مگر دل کو اس نے صاف نہیں کیا ہے دل میں گناہ ہے دل میں یہ سب گناہوں کی نجاست ہے حقوق خدا ادا نہیں کر رہا ہے پھر بھی کہہ ر ہا ہے العجل العجل تو یہ تو جھوٹا انتظار ہے۔

دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول نے فر ما یا : مر نے کے بعد انسان کا اعمال نامہ بند ہو جا تا ہے مگر تین اعمال کریں تو آ پ کا اعمال نامہ بند نہیں ہو گا ایک تو ا گر آپ نے مسجد بنا ئی ہے امام بارگاہ بنا ئی ہے جب تک اس مسجد میں نماز ی نماز پڑ ھ رہے ہیں تو آ پ کو قبر میں بھی اُس کا ثواب ملتا رہے گا تو اعمال نامہ بند نہیں ہو گا دوسری چیز یہ ہے کہ اگر اچھی کتاب لکھو گے اسے چھپوادو تو وہ اجر تمہا رے لئے جاری رہے گا۔

ہمارے پاس کتابوں کی بے انتھا کمی ہے اور تبلیغ کے لئے بہترین ذریعے کتا ب ہیں چند سال لنڈن میں یہ باتیں ہورہی تھیں کہ ہماری محبت کے بغیر الحمد للہ کتنے لوگ ہیں کہ وہ خود شیعہ ہو گئے ہیں یہ لوگ تیجانی کی کتاب سے جس کا نام Then i was guided او دوسری Nights of peshwer یہ وہ کتابیں جن سے مسلمان شیعہ ہو جا ئے یا نیا مسلمان مسلمان ہو جائے ان کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں ہے ہم دنیا میں تیس کروڑ شیعہ ہیں اور انگلش میں ہمارے پاس وہ کتابیں جن کو کو ئی پڑھ کر کنورٹ ہو جا ئے اور مذہب اہل بیت کو قبول کر لے اُس کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں ہے یہ کتابیں بیس ہزار میں بھی چھپ سکتی ہیں اس میں جو رکاوٹ ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کم لوگ ہیں جو تر جمہ جانتے ہیں اگر اس نکتہ کی طرف لوگ متوجہ ہو جا ئیں خصوصاً انگلش میں ان کا تر جمہ کروا نا چا ئیے کیوں کہ آ ج دنیا میں جو انٹرنشنل زبان چل رہی ہے وہ انگلش ہے اللہ کے رسول فر ما تے ہیں کہ کتاب چھپواکے مرو جب تک کتاب پڑھنے والے پڑھیں گے تمہیں قبر میں ثواب ملتا رہے گا اور عذا ب کم ہوتا رہے گا نعمتیں بڑھتی رہیں گی جتنا بھی کا غذ ضعف ہو مگر کتاب کی کم سے کم ایک کتاب کی سو سال تک عمر ہے اور تیسری چیز جو اللہ کے رسول نے فر ما یا اولاد صالح اگر بچہ صالح ہے اگر آ پ نے بچے کو نمازی بنا یا جب تک وہ نماز تہجد پڑھے گا قبر میں ا پ کو ثواب ملے گا بچے کو آپ نے عشق حسین سکھا یا اگر وہ کربلا کی زیارت کے لئے جا ئے گا تو قبر میں آپ کوثوا ب ملے گا امام ز مانہ (عج) کے بارے میں رسول خدا (ص) نے فر ما یا ہے اگر کوئی چو تھی چیز کر کے مرے تو اُس کا اعمال نامہ کبھی بند نہیں ہو گا وہ کیا ہے ؟ وہ ہے ”رابطو ا“ گر کو ئی انسان اپنے امام زمانہ سے رابطہ قائم کرے ، ہم سب امام زما نہ کے عاشق ہیں مگر رابطہ بہت کم لوگوں کا امام کے ساتھ ہے اگر کو ئی اپنے زمانے کے امام سے رابطہ قائم کر لے اُن کا کبھی اعمال نامہ بند نہیں ہو تا بلکہ قبر میں بھی اُن کا اعمال نامہ کھلا ہوا ہے کیوں کہ امام یہاں موجود ہیں اور اُن کا زندگی میں امام سے رابطہ تھا لہذا مسلسل قبر میں انھیں ثواب ملے گا ۔

اگر امام سے رابطہ ہو گیا تو ہر چیز آپ کے قدموں میں آ جا ئے گی جس کا رابطہ امام سے ہو گیا وہ دنیا کا بھی بادشاہ آخرت میں بھی اُس کے لئے نجات ہے را بطہ کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ امام کے اخلاق کی کچھ صفات ہم اپنے اندر پیدا کریں اگر اخلاق امام کو جانناہے تو کو ئی مشکل کام نہیں ہے کیوں کہ رسول خدا نے فر ما یا ”اولنا محمد اوسطنا محمد آخرنا محمد ہمارا پہلا بھی محمد ہمارا در میانی بھی محمد ہمارا آ خری بھی محمد ہم بارہ کے بارہ محمد ہیں لہذا جو اخلاق مو لا علی کا ہے وہی اخلا ق امام حسن کا ہے جو اخلا ق امام حسن کا ہے و ہی اخلاق امام حسین کا ہے جو اخلاق ہمارے اہل بیت ٪کا ہے وہی اخلاق ہم اپنے اندر پیدا کر لیا تو یقیناً امام سے رابطے میں دیر نہیں ہو گی ہمارے اہل بیت ٪کا اخلاق کس قدر اعلی تھا کس قدر عظیم تھا کہ دشمن بھی ان کے اندر نقص تلاش نہ کرسکا اہل بیت ٪کس قدرحلیم تھے ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ میں آ جا تے ہیں ایک شام کا رہنے والا آ یا اور امام حسن (ع) کو گالیاں دینا شروع ہو گیا تو وہ الفاظ اصحاب کے لئے نا قابل برداشت تھا انہوں نے کہا مو لا ہم اس کا جواب دیں گے تو مولا نے کہا نہیں نہیں! جس قدر اُس کو بر ابھلا کہنا تھا امام سنتے رہے آخر وہ تھک گیا جب وہ تھک گیا تو امام نے آگے بڑھ کر مسکرا کر فر ما یا تم مسافر لگتے ہو اگر تمہیں گھر کی ضرورت ہے تو میں گھر دینے کے لئے تیار ہوں اگر بیمار لگتے ہو تو میں تیرے لئے طبیب لا نے کے لئے تیار ہوں اگر مقروض ہو تو میں تیرا قرض ادا کر نے کے لئے تیار ہو ں یعنی اس نے بداخلاقی کی حد کر دی اور امام معصوم نے کر م کی حد کردی اس قدر امام اس کے دل میں پیوست ہو گئے کہ روتے روتے امام کے قدموں پر گر گیا کہنے لگا مو لا جب تک میں نے آپ سے ملاقات نہیں کی تھی جو آپ کے خلاف میں نے پروپکنڈے سنے تھے جب میں شام میں تھا اورجب میں نے آ پ کو نہیں دیکھا تھا تو دنیا میں سب سے زیادہ مجھے آ پ سے نفر ت تھی دنیا میں سب سے زیادہ آ پ سے دشمنی تھی مگر جب میں نے ابھی آپ کو دیکھا تو اس وقت کائنات میں سب سے زیادہ آپ سے محبت ہو گئی ہے اہل بیت کا اخلاق کیا ہے اگر وہ اخلاق ہمارے اندر آ جا ئے تبھی امام زمانہ سے رابطہ ہو گا را بطے کے لئے ایک کام ضرور کیا کریں کم سے کم مہینے میں ایک مرتبہ امام زمانہ کو اپنے گھر دعوت دیاکرو جب کہ جو بھی ہمیں نعمتیں مل رہی ہیں وہ سب امام کے صدقے میں مل رہی ہیں ہمیں چاہئے کہ امام کو کم سے کم ایک مر تبہ اپنے گھر میں بلا ئیں اور خود امام نے فر ما یا ہم آ ئیں گے ہم کہیں گے امام کیسے آ ئیں گے امام نے فر ما یا: اے مومنوں جمعہ کے دن نماز فجر کے بعد دعائے ندبہ کا انتظام کیاکرو تو یقیناً ہم تمہارے گھر میں آ ئیں گے مشہد میں حرم امام رضا (ع) میں جمعہ کے دن پچاس سا ٹھ ھزار کا مجمع ہو تا ہے اور وہاں دعائے ندبہ ہو تی ہے اور وہاں پر انہوں نے ایک خاص گھر امام زمانہ کا بنا یا ہے اُس کا نام انہوں نے مھدیہ رکھا ہے وہاں پر بھی جمعہ کے دن دس بیس ہزار کا مجمع ہو تا ہے اور وہاں سب کو ناشتہ بھی دیا جا تا ہے بلکہ وہاں لو گوں کے گھروں میں بھی دعائے ندبہ ہو تی ہے امام زمانہ سے رابطہ کر نے کے لئے کم سے کم یہ دعائے ندبہ کا انتظام کیا جا ئے اس سے رزق میں بھی ترقی ہو گی ا ور جو بھی بیماری ہو گی وہ ختم ہو جا ئے گی ۔

نجف اشرف میں ایک شخص رہا کر تا تھا ان کی والدہ ہر روز اپنے گھر میں چھوٹی سی مجلس کا انتظام کر تی تھی نجف میں ایک زمانہ ایسا آیا کہ وہاں وبا آئی ا ور جب وبا ا ئی تو کو ئی گھر نہ بچا کسی نہ کسی گھر میں ایک دو لوگ مر چکے تھے مگر اُن کا واحد گھرتھا کہ ان کے گھر کا کو ئی فرد نہ مر ا تو وہ لوگ سونچنے بیٹھ گئے کہ ہم کیوں نہیں مرے انہیں فقط یہ بات سمجھنے میں آ ئی کہ ہر دن امام حسین کی مجلس منعقد ہو نے کی وجہ سے یہ ہوا ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں تا کہ امام زمانہ سے رابطہ منعقد ہو تو آپ اسلام کے لئے تبلیغ کریں اگر آپ نے کسی غیر مسلمان کو مسلمان بنا یا تو یقین جا نئے کہ امام کی زیارت نصیب ہو گی ۔

لکھنے والا کہتاہے ۹۵ میں جب امریکا میں نیانیا انٹرنیٹ آ یا تھا اُس زمانے میں اُن کا مشغلہ یہ ہو گیا تھا کہ وہ عیسائیوں سے مناظرہ کرے تو بہت بڑے بڑے پادریوں نے ان سے کتابیں مانگیں تو یہ اُن کا تبلیغ کا سلسلہ تھا تو اُسی دوران اُس شخص نے خواب دیکھا اور اُسی خواب میں انہوں نے وہ منظر دیکھا جو مباھلہ کا منظر تھا تو انہوں نے پرکٹکل دیکھا کہ اس سے کتنا ثواب ہو تا ہے اور کیسے اہل بیت را ضی ہو تے ہیں اور اپنی زیارت کراتے ہیں دیکھا کہ مباہلہ کے میدان میں پنجتن پاک کی زیارت اس طر ح سے نصیب ہو ئی اگر آپ تبلیغ اسلام کریں گے خصوصاً عیسائیوں کو مسلمان بنا نے کا کام شروع کریں گے تو امام زمانہ سے را بطہ میں دیر نہیں ہو گی فوراً آپ کا رابطہ ہو جا ئے گا یہودی پوری دنیا پر قابض ہو چکے ہیں اس کی کو ئی سا زش مسلمانوں کے پاس نہیں ہے یہ پرسیڈنٹ یا وزیر ہیں یہ سب ان کے پٹھو ہو چکے ہیں۔

اقتصادیات پر ان کا کنٹرول ہے میڈیا پر اُن کا کنٹرول ہے آج یہودی چا ہتے ہیں تا کہ سارے مسلمانوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیں عراق کے بعد پاکستان کا نمبر ہے تو لہذا صرف و صرف ہمارے پاس ایک طریقہ ہے کہ ہم عیسائیوں کو مسلمان بنا ئیں تو ایک دن ان کی مجارٹی آ گے آ سکتی ہے کہ ان یہودیوں کا کنٹرول وہاں سے ختم ہو جا ئے یہ با ت بھی تجربے کی بنیاد پر ہے جیسے انگلنڈ میں کئی مسلمان کوشش کر رہے ہیں کہ برٹش گورمنٹ جیسے دوسروں اسکولوں کو برانچ دیتی ہے وہ مسلمان اسکولوں کوبھی برانچ دیں مگر نہیں یہ برانچ نہیں مل رہی تھی مگر جب اُن کا گانے والا مسلمان ہو گیا تو اس نے اسکول کھولا کیوں کہ وہ ان کا گورا تھا وہ جا کر کیس لڑا جب اُ س کو اسکول بنا نے کی برانچ مل گئی تود وسرے مسلمانوں کے لئے بھی دروازے کھل گیا اگر ہم انہیں مسلمان بنائیں اگران کے بڑے بڑے پروفسرز کو ان کے اہم لوگوں کو مسلمان بنائیں تو یہودیوں کا زور ٹوٹ سکتا ہے اس کے علاوہ کو ئی چارہ نہیں ہے کیوں کہ ہمارے حکمران بھی ان کے پٹھو ہیں ہمارے ملک میں سائنسدانوں کو ذلیل کر دیا حالا نکہ سائنسدان کہتے ہیں کہ ہم ملک کی خدمت کر نا چا ہتے ہیں اب کون پاکستانی ا ئے گا کیوں کہ ایک دروازہ ان کا بند کر دیا گیا ہے انہیں کہا گیا کہ اگر پاکستان جاو گے تو تمہیں ذلیل کر دیا جا ئے گا احمد جن کا انتقال ہو گیا ہے انہوں نے بہت تبلیغ کی مگران کی کتابیں پندرہ سولہ ہیں اس نے اپنی زندگی میں پچاس ہزار سے زیادہ عیسائیوں کو مسلمان بنا یا تھا اس کی کتابیںآ پ پڑھ لیں تو ایک عیسائی کو مسلمان بنا سکتے ہیں عیسا ئیوں کے پاس اصلا کچھ بھی نہیں ہے توریت سے وہ کئی مناظروں میں شکست کھا چکے ہیں اور وہ رو حانی طور پر بالکل تباہ ہو چکے ہیں ان کے یہاں تین خدا کا تصور ہے ایک God دوسر ا jeses یعنی حضرت عیسیٰ تیسرا Holy gost یعنی روح القدس جب کہ ہمارے یہاں توحید ہے ان کا عیقدہ خود ان کی کتاب سے ثابت ہو سکتا ہے کہ یہ قاتل ہیں ہو لی ٹرنی کا عقیدہ وہ بالکل غلط ہے حضرت عیسی خدا نہیں ہیں نہ خدا کے بیٹے ہیں آ یت There is non like god کہ کو ئی خدا جیسا نہیں ہے یہ بالکل اسی آ یت کا تر جمہ ہے ”لیس کمثلہ شئی“ کو ئی اللہ جیسا نہیں ہے چپڑ ۲۵آ یت نمبر۱۳ اس آ یت میں یہ حضرت عیسیٰ کو خدا کہہ رہا ہے look my servent jeses

خدا کہہ رہا ہے اے میرے نوکر عیسی سن اب جو نوکر ہے وہ خدا کیسے ہے خود ان کی توریت میں یہ جملہ مو جود ہے اس انجیل کی آ یت چپڑ۱۲ آیت کا نمبر ۱۸ look my servent jeses ا پ خود عیسائیوں سے سوال کر سکتے ہیں کہ عیسی کیسے خدا ہیں انہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو خدا خود عیسیٰ سے کہہ رہا ہے اے عیسی تم میرے نوکر ہو اُس کے بعد دو سری آ یت وہ بے انتھا اہم ہے صرف یہ آ یت اگر آ پ یا د کر لیں تو اُ ن کے عقیدہ کو بگاڑ سکتے ہیں چپٹر مارسورن آ یت کا نمبر ۲۹ ہے jeses replied" The most important camandment is this her o Israil the lord over god is one only non کہ حضرت عیسی نے عیسائیوں کو جواب دیا اے عیسائیوں ہمارا خدا ایک ہے( تین نہیں ہیں) اور یہی ایک ہمارا خدا ہے ہمارا ماسٹر ہے اس کا جواب یہ عیسائی نہیں دے دسکتے ہیں ہم انھی کی کتاب سے ثابت کرسکتے ہیں کہ یہ ھو لی ٹرنٹی کا عقیدہ غلط ہے یہ تو ریت و انجیل کے خلاف ہے ۔

جب بھی مشکل کا وقت ا ئے تو امام زمانہ کی زیارت پڑہا کریں امام زمانہ آ ج بھی ہماری مدد کر رہے ہیں مریضوں کو شفا دے رہے ہیں جب ایران میں عملیات کربلا ۵ میں حملہ کیا گیا تو وہاں ایک مو من تھا بسیجی (یعنی رضا کا ر) تھااس کا نام جاوید تھا وہ زخمی ہو گیا تھا اُ س کے کان کے پردے پھٹ گئے تھے تو اسے ہاسپٹل میں داخل کیا گیا تو وہ وہاں نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں گیا تو اُس نے وہاں دیکھا کہ مسجد کو سجا یا گیا ہے تو اس نے لوگوں سے سوال کیا کہ ا ج مسجد کیوں سجا ئی گئی ہے تو لوگوں نے کہا کہ آج پندرہ شعبان ہے امام زمانہ کی ولا دت کا دن ہے تو وہ مریض بھی تھا تو عشق امام اس کے دل میں پیدا ہوگیا آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ڈاکٹر کے پاس ا یا اور کہنے لگا کہ آپ نے مجھے ظاہراً لاعلاج کر دیا ہے مگر آ ج پندرہ شعبان ہے میں مسجد جمکران جا نا چاہتا ہوں اور وہاں جاکر التجا کروں گا کہ مولا مجھے صحت عطا کریں کم ایمان والا ڈاکٹر تو اُس نے قلم سے لکھ کر کہا کہ یہ کیسی باتیں کر رہے ہو تم پڑھے لکھے آدمی ہو اگر ایسے ہی شفا ملتی تو پھر یہ ہاسپٹل بند ہو جا تے تو اُس کو اس جملہ سے زیادہ تکلیف ہو ئی کہ یہ تو خود کو شیعہ کہہ رہا ہے مگر اس نے امام زمانہ کی توہین کی ہے یعنی کہ امام زما نے کے پاس طاقت نہیں ہے کہ امام زمانہ ایک مریض کو شفا دے سکیں مگر اُس نے ڈاکٹر سے کہا کہ بہر حال مجھے جا نا ہے تو وہ مسجد جمکرآن آ گیا اور مسجد جمکران میں دو رکعت نماز ادا کی اور رو رو کر دعا کی کہ اے مولا مجھے اپنے کانوں کی فکر نہیں ہے مو لا اگر میں آپ پر ستر مرتبہ بھی قربان ہو جا وں اور پھر زندہ کیا جاوں تو بھی میں پیچھے نہیں ہٹنے والا ہوں میں پھر بھی آ پ کے قدموں پر قربان ہو جاوں گا مگر میں صرف اس ڈاکٹر کو بتا نا چا ہتا ہوں کہ ہمارے امام آج بھی مو منین کی مددکرتے ہیں رو رو کر وہیں اس کی آنکھ لگ گئی تو اُس نے خواب میں دیکھا کہ اچانک شور ہوا ہے کہ امام زما نہ آ رہے ہیں اس نے خواب میں مولا کی زیارت کی اوربہت ہی لذت حاصل کی اور واقعاً اگر کو ئی خواب میں کسی معصو م کو دیکھے تو وہ پورا دن انسان کا نورانی گذرے گا اور اسی طرح ہوا کہ اُس کا وہ پورا دن اچھاگذرا لیکن اس کے کان بالکل ٹھیک نہیں ہو ئے تھے اب جیسے ہی وہ ہاسپٹل میں داخل ہوا تو اچانک کسی نرس نے دروازہ بند کیا تو اُس نے دروازے کی آ واز سنی تو نرس سے کہا کہ جلدی سے ڈاکٹر کو بلاو کہ میرے کان ٹھیک ہو رہے ہیں تو لوگوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے آ خر ڈاکٹر آ گئے اس کو معاینہ کے لئے لے گئے جب اس کے کانوں کے پردوں کو دیکھا کہ الحمد للہ وہ بالکل صحیح سن بھی ر ہا تھا اور اسی طرح سے اس کی ساری مشکل کو امام زمانہ نے حل کردی۔

اگر آج بھی اگر ہم امام زمانہ سے رابطہ کریں تو ہماری مشکلیں حل ہو سکتی ہیں مریضوں کو شفا مل سکتی ہے ہمارے امام موجود ہیں امام کی طرف سے کو ئی دیر نہیں ہے ہمارے اندر جو خامیان ہیں ہمارے اندر طہارت کی کمی ہے ہمارے گناہ زیادہ ہو گئے ہیں امام نے خود فر ما یا: اے شیعو! ہم تم سے دور نہیں ہیں تمہارے گناہوں نے تم کو ہم سے دور کردیا ۔

مجلس ۲

بسم الله الرحمن الرحیم

فقد قال الله تبارک و تعالیٰ فی کتابه المجید بسم الله الرحمن الرحیم

( بقیة الله خیرلکم ان کنتم مو منین ) “ (سورہ ہود آیت ۸۶)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہورہا ہے کہ بقیة اللہ یعنی امام زمانہ (عج) اس بزرگ و عظیم الشان ہستی کو خداوند عالم نے آج تک باقی رکھا ہے ان کا وجود تمہارے لئے خیر ہے تمہارے لئے بہترہے مگر شرط یہ ہے کہ اگر تم مو من بن جاومو من کے لئے وجود فرزند زہرا سے خیر ہی خیر ملتا ہے ہمارے امام غیبت میں ہیں غیبت کبریٰ کا زمانہ ہے اس میں ہماری اور آپ کی ذمہ داریاں ہیں پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ معرفت امام زمانہ نوجوانوں کے دلوں میں پیدا کریں اپنے بچوں کو سکھائیں انہیں تعلیم دیں کہ معرفت امام زمانہ کیا ہے جو بھی خدا ہمیں نعمت دیتا ہے ان کے صدقے میں دے رہا ہے اور اس قر آن کی بہت ساری آیات با ر بار بتلا رہی ہیں کہ جو بھی نعمت مل رہی ہے وہ بارہویں امام حجت خدا کے صدقے میں مل رہی ہے کا فر کو بھی ا گر مل رہی ہے تو ان کے صدقے میں مل رہی ہے مو من کو بھی اگر مل رہی ہے ان کے صدقے میں مل رہی ہے اور اگر جو شبہات ہیں سوالا ت ہیں ان کے بے شما ر جوابات ہیں کبھی کبھی یہ سورج بادلوں کے پیچھے چھپ جا تا ہے مگر یہ نہیں کہ اس کا فیض منقطع ہو گیا ہے یہ معمولی سورج اس کی شعائیں وہ بادلوں پا ر کرتے ہو ئے ہم تک پہنچ جا تی ہے بادلوں سے گذرے تے ہو ئے زمین پر دریاوں پر پہاڑوں پر پہنچ جا تی ہے یہ تو معمولی نور ہے مگر قرآن کہہ رہا ہے ”( الله نور سموات والارض ) اللہ کا نور وہ نور کون ہے حجت خدا امام خدا کا نور ہے زمین پر بھی اور آسمان پر بھی لہذا نور امام کا مقابلہ سورج کا نور نہیں کرسکتا ہے لہذا اگر غیبت کے پردے میں بھی چلے جا ئیں تب بھی امام کے وجود سے مسلسل فیض جاری ہے لوگ کہتے ہیں کہ امام تو غیبت میں ہیں امام کے وجود سے تب فائدہ ملے گا جب امام آپ کے سامنے ہو ں آپ جا کر امام سے مدد لیں آپ جا کر امام سے مسئلہ پوچھیں آپ کے امام تو غیبت میں ہیں تو اس کا کیا فائدہ اس سوال کا جواب کہ امام ہیں غیبت میں غیبت میں رہکر امام ہمیں کیسے فائدہ دیتے ہیں کیسے ہدایت دیتے ہیں ہم سب مسلمان ہیں ہم سب مسلمانوں کا قرآن پر ایمان ہے ہم سب کو ایک ایک لفظ قرآن پر ایمان ہے کہ قرآن نے خود کہا ہے میری تلاوت سے پہلے ضرور کہا کرو ”( اعوذبالله من الشیطان العین الرجیم ) “ پھرقرآن کی تلاوت کرو تا کہ تم شیطان کے شر سے بچ جاو یہ شیطان منحوس جو آج تک زندہ ہے کہا ہم سے کسی نے شیطان کو دیکھا ہے کسی نے نہیں دیکھا ہے ،مگر اس کے وجود سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہے یہ خبیث نظر تو نہیںآ تا مگر ضرور ہے تو وہ گمراہ کیسے کرتا ہے کہا شیطان نے ابھی تک کسی کا ہاتھ پکڑا کہ چلو سنیما چلیں نہیں ایسا نہیں ہے شیطان کہتا ہے کہ چلو جوا کھیلنے چلیں نہیں کیا شیطان ہا تھ پکڑکر کہتا ہے کہ چلو نشے کر نے چلیں پھر شیطان کیسے گمراہ کر تا ہے تو قر آن مجید میں بتلا یا ” یوسوس فی صدور الناس من الجنة و الناس “ لوگو! یہ شیطان وسوسہ کرتا ہے یہ کو ئی ہاتھ پکڑ کر شراب خانہ میں نہیں لے جا تا ہے بر ائی کی طرف نہیں لے جا تا کہا گناہ کا خیال لا تا ہے اگر ہم پاکستان میں ہو ں تب بھی وہ وسوسہ کرتا ہے اگر ہم مکہ میں ہوں تب بھی وہ وسوسہ کرتا ہے اگر ہم مدینہ چلے جا ئیں تو وہاں پر بھی وہ ہمیں گمراہ کرتا ہے ہم جہاں جہاں بھی چلے جا ئیں تو یہ شیطان اتنا خبیث ہے کہ وہ وہاں بھی ہمیں نہیں چھوڑ تا اور وسوسہ کرتا ہے یہ شیطان کون ہے دشمن خدا ہے شیطان کون ہے جسے اللہ نے نکال دیا جب دشمن خدا کے پاس جب گمراہ کرنے والے شیطان کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ غیب میں رہکر پوری دنیا کو گمراہ کررہا ہے تو بتا ئیے جو نور خد ابھی ہو حجت خدا بھی ہو اور امام بھی ہو اور بقیة اللہ بھی ہو تو کیا خدا کے نمائندے میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ غیب میں رہکر انسانوں کو ہدا یت دے۔

معرفت امام دلوں میں پیدا کر نا چاہئے لوگوں کے سوالا ت کے جوابات آنے چا ہئے تا کہ لوگوں کو گمراہی سے بچا ئیں امام زمانہ (عج) ، رسول خدا (ص) فر ما تے ہیں آ خری زمانے میں جو میرے بارہویں بیٹے کا صحیح سے انتظار کرے گا انتظار تو ہم سب کر رہے ہیں اہل تسنن بھی کر رہے ہیں انتظار تو سبھی کر رہے ہیں مگر رسول خدا فر ما رہے ہیں جو میرے بیٹے کا صحیح سے انتظار کرے گا اس کا مقام جنگ بدر اور جنگ احد میں شہیدہو نے والے میرے صحابیوں کے برابر ہے ۔ رسول نے فر ما یا کے تم بھی ان جیسے ہو سکتے ہو کے جو جنگ احدمیں شہیدہو گئے تم بھی ان جیسے ہو سکتے ہو جو جنگ بدر میں شہید ہو گئے مگر شر ط یہ ہے کہ آ خری زمانے میں سر کار کا صحیح انتظا ر کرو ،اب دیکھئے کہ صحیح انتظار کیا ہے ایک انتظار جھوٹا ہو تا ہے اور ایک سچا انتظار ہو تا ہے مثال کوئی کہے کہ آج میرے پاس ایک عظیم ترین بلند مرتبہ والا شخص میرے پاس مہمان بن کر ا نے والا ہے اور جب ہم نے آپ کے گھر کو دیکھا تو دیکھا کہ ایک طرف کچرا پڑا ہوا ہے دو سری طرف مٹی پڑی ہو ئی ہے اور کو ئی انتظام نہیں ہے ہم کہیں گے کہ وہ کہہ رہا ہے کہ کائنات کا عظیم شخص ہما رے یہاں آ نے والا ہے سب سے محبوترین شخص جس پر جان فدا وہ آنے والا ہے اور انھوں نے کچرا سا منے رکھ دیا ہے تو ہم انہیں کہیں گے کہ آ پ یہ جھوٹا انتظار کررہے ہیں اگر کائنات کا سب سے محبوترین شخص آ نے والا ہے تو آ پ کو اس کے کمرے کو کتنا نورانی بنا نا تھا کتنی خوشبو کی چھنکار سے اسے معطر کر نا تھا تا کہ دیکھنے والے بھی کہیں کہ یہ سچا انتظار ہے تو ہم سب کہتے ہیں العجل مو لا جلدی ا ئیے ہم خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم سچا انتظار کر رہے ہیں یا جھوٹا انتظار کر رہے ہیں اور دیکھئے امام کی نظر وہ ہمارے گھروں پر نہیں ہے کہ کہیں اُس کا کتنا بڑا بنگلا ہے کہ فلاں کا کتنا چھوٹا فلیٹ ہے کہ فلان جھونپڑی میں رہتا ہے نہیں کبھی بھی امام یا نبی گھروں کو نہیں دیکھتے کہ فلان کا گھر بڑا ہے یا چھوٹا ہے قرآن نے بتلا دیا کہ امام کس چیز کو دیکھتے ہیں فر ما یا( ان اکر مکم عند ا لله اتقاکم ) (سورہ حجرات آیت ۱۳) خدا نبی و امام کیا دیکھتے ہیں وہ ہمارے دلوں کودیکھتے ہیں کہ اس کے دل میں کتنا تقوا کا نور ہے جو انسان کہہ ر ہا ہے کہ مو لا آئیے آ ئیے و ہ اپنے دل کو دیکھے کہ کیا وہ اس نے اپنے دل کو صاف کیا ہے یا نہیں صرف زبان سے کہہ رہا ہے مو لا آ جائیے مگر دل کو اس نے صاف نہیں کیا ہے دل میں گناہ ہے دل میں یہ سب گناہوں کی نجاست ہے حقوق خدا ادا نہیں کر رہا ہے پھر بھی کہہ ر ہا ہے العجل العجل تو یہ تو جھوٹا انتظار ہے۔

دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول نے فر ما یا : مر نے کے بعد انسان کا اعمال نامہ بند ہو جا تا ہے مگر تین اعمال کریں تو آ پ کا اعمال نامہ بند نہیں ہو گا ایک تو ا گر آپ نے مسجد بنا ئی ہے امام بارگاہ بنا ئی ہے جب تک اس مسجد میں نماز ی نماز پڑ ھ رہے ہیں تو آ پ کو قبر میں بھی اُس کا ثواب ملتا رہے گا تو اعمال نامہ بند نہیں ہو گا دوسری چیز یہ ہے کہ اگر اچھی کتاب لکھو گے اسے چھپوادو تو وہ اجر تمہا رے لئے جاری رہے گا۔

ہمارے پاس کتابوں کی بے انتھا کمی ہے اور تبلیغ کے لئے بہترین ذریعے کتا ب ہیں چند سال لنڈن میں یہ باتیں ہورہی تھیں کہ ہماری محبت کے بغیر الحمد للہ کتنے لوگ ہیں کہ وہ خود شیعہ ہو گئے ہیں یہ لوگ تیجانی کی کتاب سے جس کا نام Then i was guided او دوسری Nights of peshwer یہ وہ کتابیں جن سے مسلمان شیعہ ہو جا ئے یا نیا مسلمان مسلمان ہو جائے ان کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں ہے ہم دنیا میں تیس کروڑ شیعہ ہیں اور انگلش میں ہمارے پاس وہ کتابیں جن کو کو ئی پڑھ کر کنورٹ ہو جا ئے اور مذہب اہل بیت کو قبول کر لے اُس کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں ہے یہ کتابیں بیس ہزار میں بھی چھپ سکتی ہیں اس میں جو رکاوٹ ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کم لوگ ہیں جو تر جمہ جانتے ہیں اگر اس نکتہ کی طرف لوگ متوجہ ہو جا ئیں خصوصاً انگلش میں ان کا تر جمہ کروا نا چا ئیے کیوں کہ آ ج دنیا میں جو انٹرنشنل زبان چل رہی ہے وہ انگلش ہے اللہ کے رسول فر ما تے ہیں کہ کتاب چھپواکے مرو جب تک کتاب پڑھنے والے پڑھیں گے تمہیں قبر میں ثواب ملتا رہے گا اور عذا ب کم ہوتا رہے گا نعمتیں بڑھتی رہیں گی جتنا بھی کا غذ ضعف ہو مگر کتاب کی کم سے کم ایک کتاب کی سو سال تک عمر ہے اور تیسری چیز جو اللہ کے رسول نے فر ما یا اولاد صالح اگر بچہ صالح ہے اگر آ پ نے بچے کو نمازی بنا یا جب تک وہ نماز تہجد پڑھے گا قبر میں ا پ کو ثواب ملے گا بچے کو آپ نے عشق حسین سکھا یا اگر وہ کربلا کی زیارت کے لئے جا ئے گا تو قبر میں آپ کوثوا ب ملے گا امام ز مانہ (عج) کے بارے میں رسول خدا (ص) نے فر ما یا ہے اگر کوئی چو تھی چیز کر کے مرے تو اُس کا اعمال نامہ کبھی بند نہیں ہو گا وہ کیا ہے ؟ وہ ہے ”رابطو ا“ گر کو ئی انسان اپنے امام زمانہ سے رابطہ قائم کرے ، ہم سب امام زما نہ کے عاشق ہیں مگر رابطہ بہت کم لوگوں کا امام کے ساتھ ہے اگر کو ئی اپنے زمانے کے امام سے رابطہ قائم کر لے اُن کا کبھی اعمال نامہ بند نہیں ہو تا بلکہ قبر میں بھی اُن کا اعمال نامہ کھلا ہوا ہے کیوں کہ امام یہاں موجود ہیں اور اُن کا زندگی میں امام سے رابطہ تھا لہذا مسلسل قبر میں انھیں ثواب ملے گا ۔

اگر امام سے رابطہ ہو گیا تو ہر چیز آپ کے قدموں میں آ جا ئے گی جس کا رابطہ امام سے ہو گیا وہ دنیا کا بھی بادشاہ آخرت میں بھی اُس کے لئے نجات ہے را بطہ کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ امام کے اخلاق کی کچھ صفات ہم اپنے اندر پیدا کریں اگر اخلاق امام کو جانناہے تو کو ئی مشکل کام نہیں ہے کیوں کہ رسول خدا نے فر ما یا ”اولنا محمد اوسطنا محمد آخرنا محمد ہمارا پہلا بھی محمد ہمارا در میانی بھی محمد ہمارا آ خری بھی محمد ہم بارہ کے بارہ محمد ہیں لہذا جو اخلاق مو لا علی کا ہے وہی اخلا ق امام حسن کا ہے جو اخلا ق امام حسن کا ہے و ہی اخلاق امام حسین کا ہے جو اخلاق ہمارے اہل بیت ٪کا ہے وہی اخلاق ہم اپنے اندر پیدا کر لیا تو یقیناً امام سے رابطے میں دیر نہیں ہو گی ہمارے اہل بیت ٪کا اخلاق کس قدر اعلی تھا کس قدر عظیم تھا کہ دشمن بھی ان کے اندر نقص تلاش نہ کرسکا اہل بیت ٪کس قدرحلیم تھے ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ میں آ جا تے ہیں ایک شام کا رہنے والا آ یا اور امام حسن (ع) کو گالیاں دینا شروع ہو گیا تو وہ الفاظ اصحاب کے لئے نا قابل برداشت تھا انہوں نے کہا مو لا ہم اس کا جواب دیں گے تو مولا نے کہا نہیں نہیں! جس قدر اُس کو بر ابھلا کہنا تھا امام سنتے رہے آخر وہ تھک گیا جب وہ تھک گیا تو امام نے آگے بڑھ کر مسکرا کر فر ما یا تم مسافر لگتے ہو اگر تمہیں گھر کی ضرورت ہے تو میں گھر دینے کے لئے تیار ہوں اگر بیمار لگتے ہو تو میں تیرے لئے طبیب لا نے کے لئے تیار ہوں اگر مقروض ہو تو میں تیرا قرض ادا کر نے کے لئے تیار ہو ں یعنی اس نے بداخلاقی کی حد کر دی اور امام معصوم نے کر م کی حد کردی اس قدر امام اس کے دل میں پیوست ہو گئے کہ روتے روتے امام کے قدموں پر گر گیا کہنے لگا مو لا جب تک میں نے آپ سے ملاقات نہیں کی تھی جو آپ کے خلاف میں نے پروپکنڈے سنے تھے جب میں شام میں تھا اورجب میں نے آ پ کو نہیں دیکھا تھا تو دنیا میں سب سے زیادہ مجھے آ پ سے نفر ت تھی دنیا میں سب سے زیادہ آ پ سے دشمنی تھی مگر جب میں نے ابھی آپ کو دیکھا تو اس وقت کائنات میں سب سے زیادہ آپ سے محبت ہو گئی ہے اہل بیت کا اخلاق کیا ہے اگر وہ اخلاق ہمارے اندر آ جا ئے تبھی امام زمانہ سے رابطہ ہو گا را بطے کے لئے ایک کام ضرور کیا کریں کم سے کم مہینے میں ایک مرتبہ امام زمانہ کو اپنے گھر دعوت دیاکرو جب کہ جو بھی ہمیں نعمتیں مل رہی ہیں وہ سب امام کے صدقے میں مل رہی ہیں ہمیں چاہئے کہ امام کو کم سے کم ایک مر تبہ اپنے گھر میں بلا ئیں اور خود امام نے فر ما یا ہم آ ئیں گے ہم کہیں گے امام کیسے آ ئیں گے امام نے فر ما یا: اے مومنوں جمعہ کے دن نماز فجر کے بعد دعائے ندبہ کا انتظام کیاکرو تو یقیناً ہم تمہارے گھر میں آ ئیں گے مشہد میں حرم امام رضا (ع) میں جمعہ کے دن پچاس سا ٹھ ھزار کا مجمع ہو تا ہے اور وہاں دعائے ندبہ ہو تی ہے اور وہاں پر انہوں نے ایک خاص گھر امام زمانہ کا بنا یا ہے اُس کا نام انہوں نے مھدیہ رکھا ہے وہاں پر بھی جمعہ کے دن دس بیس ہزار کا مجمع ہو تا ہے اور وہاں سب کو ناشتہ بھی دیا جا تا ہے بلکہ وہاں لو گوں کے گھروں میں بھی دعائے ندبہ ہو تی ہے امام زمانہ سے رابطہ کر نے کے لئے کم سے کم یہ دعائے ندبہ کا انتظام کیا جا ئے اس سے رزق میں بھی ترقی ہو گی ا ور جو بھی بیماری ہو گی وہ ختم ہو جا ئے گی ۔

نجف اشرف میں ایک شخص رہا کر تا تھا ان کی والدہ ہر روز اپنے گھر میں چھوٹی سی مجلس کا انتظام کر تی تھی نجف میں ایک زمانہ ایسا آیا کہ وہاں وبا آئی ا ور جب وبا ا ئی تو کو ئی گھر نہ بچا کسی نہ کسی گھر میں ایک دو لوگ مر چکے تھے مگر اُن کا واحد گھرتھا کہ ان کے گھر کا کو ئی فرد نہ مر ا تو وہ لوگ سونچنے بیٹھ گئے کہ ہم کیوں نہیں مرے انہیں فقط یہ بات سمجھنے میں آ ئی کہ ہر دن امام حسین کی مجلس منعقد ہو نے کی وجہ سے یہ ہوا ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں تا کہ امام زمانہ سے رابطہ منعقد ہو تو آپ اسلام کے لئے تبلیغ کریں اگر آپ نے کسی غیر مسلمان کو مسلمان بنا یا تو یقین جا نئے کہ امام کی زیارت نصیب ہو گی ۔

لکھنے والا کہتاہے ۹۵ میں جب امریکا میں نیانیا انٹرنیٹ آ یا تھا اُس زمانے میں اُن کا مشغلہ یہ ہو گیا تھا کہ وہ عیسائیوں سے مناظرہ کرے تو بہت بڑے بڑے پادریوں نے ان سے کتابیں مانگیں تو یہ اُن کا تبلیغ کا سلسلہ تھا تو اُسی دوران اُس شخص نے خواب دیکھا اور اُسی خواب میں انہوں نے وہ منظر دیکھا جو مباھلہ کا منظر تھا تو انہوں نے پرکٹکل دیکھا کہ اس سے کتنا ثواب ہو تا ہے اور کیسے اہل بیت را ضی ہو تے ہیں اور اپنی زیارت کراتے ہیں دیکھا کہ مباہلہ کے میدان میں پنجتن پاک کی زیارت اس طر ح سے نصیب ہو ئی اگر آپ تبلیغ اسلام کریں گے خصوصاً عیسائیوں کو مسلمان بنا نے کا کام شروع کریں گے تو امام زمانہ سے را بطہ میں دیر نہیں ہو گی فوراً آپ کا رابطہ ہو جا ئے گا یہودی پوری دنیا پر قابض ہو چکے ہیں اس کی کو ئی سا زش مسلمانوں کے پاس نہیں ہے یہ پرسیڈنٹ یا وزیر ہیں یہ سب ان کے پٹھو ہو چکے ہیں۔

اقتصادیات پر ان کا کنٹرول ہے میڈیا پر اُن کا کنٹرول ہے آج یہودی چا ہتے ہیں تا کہ سارے مسلمانوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیں عراق کے بعد پاکستان کا نمبر ہے تو لہذا صرف و صرف ہمارے پاس ایک طریقہ ہے کہ ہم عیسائیوں کو مسلمان بنا ئیں تو ایک دن ان کی مجارٹی آ گے آ سکتی ہے کہ ان یہودیوں کا کنٹرول وہاں سے ختم ہو جا ئے یہ با ت بھی تجربے کی بنیاد پر ہے جیسے انگلنڈ میں کئی مسلمان کوشش کر رہے ہیں کہ برٹش گورمنٹ جیسے دوسروں اسکولوں کو برانچ دیتی ہے وہ مسلمان اسکولوں کوبھی برانچ دیں مگر نہیں یہ برانچ نہیں مل رہی تھی مگر جب اُن کا گانے والا مسلمان ہو گیا تو اس نے اسکول کھولا کیوں کہ وہ ان کا گورا تھا وہ جا کر کیس لڑا جب اُ س کو اسکول بنا نے کی برانچ مل گئی تود وسرے مسلمانوں کے لئے بھی دروازے کھل گیا اگر ہم انہیں مسلمان بنائیں اگران کے بڑے بڑے پروفسرز کو ان کے اہم لوگوں کو مسلمان بنائیں تو یہودیوں کا زور ٹوٹ سکتا ہے اس کے علاوہ کو ئی چارہ نہیں ہے کیوں کہ ہمارے حکمران بھی ان کے پٹھو ہیں ہمارے ملک میں سائنسدانوں کو ذلیل کر دیا حالا نکہ سائنسدان کہتے ہیں کہ ہم ملک کی خدمت کر نا چا ہتے ہیں اب کون پاکستانی ا ئے گا کیوں کہ ایک دروازہ ان کا بند کر دیا گیا ہے انہیں کہا گیا کہ اگر پاکستان جاو گے تو تمہیں ذلیل کر دیا جا ئے گا احمد جن کا انتقال ہو گیا ہے انہوں نے بہت تبلیغ کی مگران کی کتابیں پندرہ سولہ ہیں اس نے اپنی زندگی میں پچاس ہزار سے زیادہ عیسائیوں کو مسلمان بنا یا تھا اس کی کتابیںآ پ پڑھ لیں تو ایک عیسائی کو مسلمان بنا سکتے ہیں عیسا ئیوں کے پاس اصلا کچھ بھی نہیں ہے توریت سے وہ کئی مناظروں میں شکست کھا چکے ہیں اور وہ رو حانی طور پر بالکل تباہ ہو چکے ہیں ان کے یہاں تین خدا کا تصور ہے ایک God دوسر ا jeses یعنی حضرت عیسیٰ تیسرا Holy gost یعنی روح القدس جب کہ ہمارے یہاں توحید ہے ان کا عیقدہ خود ان کی کتاب سے ثابت ہو سکتا ہے کہ یہ قاتل ہیں ہو لی ٹرنی کا عقیدہ وہ بالکل غلط ہے حضرت عیسی خدا نہیں ہیں نہ خدا کے بیٹے ہیں آ یت There is non like god کہ کو ئی خدا جیسا نہیں ہے یہ بالکل اسی آ یت کا تر جمہ ہے ”لیس کمثلہ شئی“ کو ئی اللہ جیسا نہیں ہے چپڑ ۲۵آ یت نمبر۱۳ اس آ یت میں یہ حضرت عیسیٰ کو خدا کہہ رہا ہے look my servent jeses

خدا کہہ رہا ہے اے میرے نوکر عیسی سن اب جو نوکر ہے وہ خدا کیسے ہے خود ان کی توریت میں یہ جملہ مو جود ہے اس انجیل کی آ یت چپڑ۱۲ آیت کا نمبر ۱۸ look my servent jeses ا پ خود عیسائیوں سے سوال کر سکتے ہیں کہ عیسی کیسے خدا ہیں انہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو خدا خود عیسیٰ سے کہہ رہا ہے اے عیسی تم میرے نوکر ہو اُس کے بعد دو سری آ یت وہ بے انتھا اہم ہے صرف یہ آ یت اگر آ پ یا د کر لیں تو اُ ن کے عقیدہ کو بگاڑ سکتے ہیں چپٹر مارسورن آ یت کا نمبر ۲۹ ہے jeses replied" The most important camandment is this her o Israil the lord over god is one only non کہ حضرت عیسی نے عیسائیوں کو جواب دیا اے عیسائیوں ہمارا خدا ایک ہے( تین نہیں ہیں) اور یہی ایک ہمارا خدا ہے ہمارا ماسٹر ہے اس کا جواب یہ عیسائی نہیں دے دسکتے ہیں ہم انھی کی کتاب سے ثابت کرسکتے ہیں کہ یہ ھو لی ٹرنٹی کا عقیدہ غلط ہے یہ تو ریت و انجیل کے خلاف ہے ۔

جب بھی مشکل کا وقت ا ئے تو امام زمانہ کی زیارت پڑہا کریں امام زمانہ آ ج بھی ہماری مدد کر رہے ہیں مریضوں کو شفا دے رہے ہیں جب ایران میں عملیات کربلا ۵ میں حملہ کیا گیا تو وہاں ایک مو من تھا بسیجی (یعنی رضا کا ر) تھااس کا نام جاوید تھا وہ زخمی ہو گیا تھا اُ س کے کان کے پردے پھٹ گئے تھے تو اسے ہاسپٹل میں داخل کیا گیا تو وہ وہاں نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں گیا تو اُس نے وہاں دیکھا کہ مسجد کو سجا یا گیا ہے تو اس نے لوگوں سے سوال کیا کہ ا ج مسجد کیوں سجا ئی گئی ہے تو لوگوں نے کہا کہ آج پندرہ شعبان ہے امام زمانہ کی ولا دت کا دن ہے تو وہ مریض بھی تھا تو عشق امام اس کے دل میں پیدا ہوگیا آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ڈاکٹر کے پاس ا یا اور کہنے لگا کہ آپ نے مجھے ظاہراً لاعلاج کر دیا ہے مگر آ ج پندرہ شعبان ہے میں مسجد جمکران جا نا چاہتا ہوں اور وہاں جاکر التجا کروں گا کہ مولا مجھے صحت عطا کریں کم ایمان والا ڈاکٹر تو اُس نے قلم سے لکھ کر کہا کہ یہ کیسی باتیں کر رہے ہو تم پڑھے لکھے آدمی ہو اگر ایسے ہی شفا ملتی تو پھر یہ ہاسپٹل بند ہو جا تے تو اُس کو اس جملہ سے زیادہ تکلیف ہو ئی کہ یہ تو خود کو شیعہ کہہ رہا ہے مگر اس نے امام زمانہ کی توہین کی ہے یعنی کہ امام زما نے کے پاس طاقت نہیں ہے کہ امام زمانہ ایک مریض کو شفا دے سکیں مگر اُس نے ڈاکٹر سے کہا کہ بہر حال مجھے جا نا ہے تو وہ مسجد جمکرآن آ گیا اور مسجد جمکران میں دو رکعت نماز ادا کی اور رو رو کر دعا کی کہ اے مولا مجھے اپنے کانوں کی فکر نہیں ہے مو لا اگر میں آپ پر ستر مرتبہ بھی قربان ہو جا وں اور پھر زندہ کیا جاوں تو بھی میں پیچھے نہیں ہٹنے والا ہوں میں پھر بھی آ پ کے قدموں پر قربان ہو جاوں گا مگر میں صرف اس ڈاکٹر کو بتا نا چا ہتا ہوں کہ ہمارے امام آج بھی مو منین کی مددکرتے ہیں رو رو کر وہیں اس کی آنکھ لگ گئی تو اُس نے خواب میں دیکھا کہ اچانک شور ہوا ہے کہ امام زما نہ آ رہے ہیں اس نے خواب میں مولا کی زیارت کی اوربہت ہی لذت حاصل کی اور واقعاً اگر کو ئی خواب میں کسی معصو م کو دیکھے تو وہ پورا دن انسان کا نورانی گذرے گا اور اسی طرح ہوا کہ اُس کا وہ پورا دن اچھاگذرا لیکن اس کے کان بالکل ٹھیک نہیں ہو ئے تھے اب جیسے ہی وہ ہاسپٹل میں داخل ہوا تو اچانک کسی نرس نے دروازہ بند کیا تو اُس نے دروازے کی آ واز سنی تو نرس سے کہا کہ جلدی سے ڈاکٹر کو بلاو کہ میرے کان ٹھیک ہو رہے ہیں تو لوگوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے آ خر ڈاکٹر آ گئے اس کو معاینہ کے لئے لے گئے جب اس کے کانوں کے پردوں کو دیکھا کہ الحمد للہ وہ بالکل صحیح سن بھی ر ہا تھا اور اسی طرح سے اس کی ساری مشکل کو امام زمانہ نے حل کردی۔

اگر آج بھی اگر ہم امام زمانہ سے رابطہ کریں تو ہماری مشکلیں حل ہو سکتی ہیں مریضوں کو شفا مل سکتی ہے ہمارے امام موجود ہیں امام کی طرف سے کو ئی دیر نہیں ہے ہمارے اندر جو خامیان ہیں ہمارے اندر طہارت کی کمی ہے ہمارے گناہ زیادہ ہو گئے ہیں امام نے خود فر ما یا: اے شیعو! ہم تم سے دور نہیں ہیں تمہارے گناہوں نے تم کو ہم سے دور کردیا ۔


4

5