امام عصر (عج) کاوجود مبارک اور علماء اہل سنت
عالم اسلام کے تمام فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بارہویں جانشین جنہیں دنیا حضرت مہدی (عج)کے نام سے جانتی ہے وہی قائم و منتظر ہیں جنکے ظہور کے بعد دنیا میں عدل و انصاف کا پرچم لہرائے گا اور باطل نیست و نابود ہو جائے گا
مشہور سنی عالم علامہ ابن حجر مکی نے یوں بیان کیا ہے : امام عصر کی عمر مبارک آپکے والد امام حسن عسکری ـ کے انتقال کے وقت پانچ سال تھی لیکن اس عمر میں خدا وند متعال نے حضرت کو کمال، علم اورحکمت کا سرچشمہ بنا دیا تھا آپکا نام قائم اور منتظر بھی ہے آپ پوشیدہ ہو گئے او ر معلوم نہ ہو سکا کہ کہاں تشریف لے گئے شیعوں کے قول کے مطابق آپ ہی مھدی موعود (عج) ہیں ۔
علامہ محمد ابن طلحہ شافعی نے لکھا ہے : حضرت امام حسن عسکری (ع)کے خدا داد شرف کے لئے یہ بات کافی ہے کہ خدا وند عالم نے امام مہدی (عج)کو انکے نسب میں رکھا اور انکے صلب سے پیدا کرکے انکی اولاد میں سے قرار دیا ۔
علامہ ابن خلقان نے لکھا ہے کہ: شیعوں کے اعتقاد کے مطابق آپ ہی بارہ اماموں میں سے بارہویں بزرگ ہیں اور آپ ہی حجت کے لقب سے مشہور ہیں شیعہ حضرات انکے ظہور کے منتظر ہیں ۔
علامہ سبط ابن الجوزی نے لکھا ہے کہ: آپ کی کنیت ابو عبداللہ و ابوالقاسم ہے اور آپ کے القاب الخلف الحجة ، صاحب الزمان ، القائم المنتظراور الباقی ہیں ۔
علامہ قطب ربانی شیخ عبد الوہاب شعرانی بیان کرتے ہیں کہ: امام مہدی آخرالزمان حضرت امام حسن عسکری ـکے فرزند ہیں جو کہ پندرہ شعبان المعظم ٢٥٥ھ میں متولد ہوئے اور وہ قائم رہیں گے یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ ـسے ملاقات کریں گے۔
علامہ شیخ سلیمان قندوزی نے لکھا ہے کہ: شیخ محدث فقیہ ابو عبد اللہ محمد ابن یوسف ابن محمد کنجی شافعی اپنی کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان میں بیان کرتے ہیں کہ امام مہدی (عج) خلف امام حسن عسکری ـاپنے زمانہ غیبت سے اب تک زندہ اور موجود ہیں ۔
علامہ ابن صبا غ ما لکی نے لکھا ہے کہ: گیارہویں امام ـکے سوائے ایک فرزند محمد الحجةالمہدی کے اور کو ئی فرزند نہیں تھاحضرت اپنے پدر بزرگوار کی رحلت کے وقت پانچ برس کے تھے اور خدا وند متعال نے آپکو حکمت کا معدن قرار دیا تھا آپ حضرت یحییٰ ـ پیغمبر کی طرح عہد طفلی ہی میں درجۂ امامت پر فائز ہو ئے حضرت عیسیٰ ـ کی طرح ہیں جنھوں نے بچپنے میں گہوارہ کے اندر مقام نبوت کو حاصل کر لیا تھا، وضاحت کے ساتھ یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ تمام پیغمبروں اور پیشواؤں اور بالخصوص پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے صاحب السیف القائم اور العبد الصالح فرماکر آپکی توصیف فرمائی ہے۔
شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی:نے امام علی بن ابی طالب ـکے اس کلام کی تشریح کرتے ہوئے بیان کیا کہ آنحضرت ـ جو یہ فرمایاہے: (بنا یختم لا بکم
(یہ قول امام مہدی (عج)کی طرف اشارہ ہے جو آخری زمانے میں ظہور کریں گے ۔ اور اکثر محدثوں اور بزرگوں کا نظریہ ہے کہ وہ اولاد جناب فاطمہ زہرا میں سے ہیں اور اسے معتزلہ اور اسکے پیروکاروں نے نے بھی قبول کیا اور اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور اسے صریحا ً بیان بھی کیا ہے اور ہمارے اساتید اور بزرگوں نے بھی اسے قبول کیا ہے ۔
سچ تو یہ ہے کہ خالق ارض وسما نے ایک لمحہ کے لئے بھی اس کائنات کو اپنی حجت یعنی امام و خلیفہ سے خالی نہیں رکھاہے کیوں کہ اگر ایسا ہو گیا تو دنیا کا نظام درہم وبرہم ہو جائیگا جیسا کہ اس بات کی وضاحت امام جعفر صادق (ع) کی یہ حدیث کر رہی ہے کہ :
لَوْ بَقِیَتِ الْاَرْضُ بِغَیْرِامامٍ لَسَا خَتْ
۔
اگر زمین حجت خدا سے خالی ہو گئی تو فنا ہو جائیگی ۔
اسکے علاوہ خود امام زمانہ ایک توقیع میں فرماتے ہیں کہ :
اِنّ الارْضَ لا تَخْلُو مِنْ حُجّةٍ ا مّاظاهراًوَامّامَغْمُوراً
آپ (عج) نے فرمایا : زمین کبھی بھی حجت خدا سے نہ خالی تھی اور نہ رہے گی چاہے اسکی حجت ظاہر ہو یا پنہان
بحر نور کے چند قطرات
١( رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :دنیا ختم نہیں ہوگی مگر یہ کہ ایک شخص میرے اہلبیت میں سے (مہدی (عج)( میری امت پر حکومت نہ کر لے ۔
٢( رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا : میرے بعد میری نسل سے بارہ نجیب و شریف صاحب حدیث اور علم آئیں گے ان میں سے آخری حق کو قائم کرنے والا ہوگا اور وہ دنیا کو اس طرح عدل سے بھر دے گا جس طرح ظلم سے بھری ہوگی۔
٣(امام سجاد ـنے فرمایا : اے ہمارے شیعو!جنت تمہارے ہی لئے ہے چاہے تمھیں جلدی ملے یا دیر سے مگر تمھیں ہی ملنی ہے لیکن اسکے درجات کو حاصل کرنے کی
کو ششیں کرو ۔
٤(امام جعفر صادق ـنے فرمایا : تم میں سے ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ امام عصر ـکے ظہور کے لیے زمینہ فراہم کرے چاہے ایک تیرہی سہی چونکہ خداوند عالم اس کی نیت کے خلوص کو دیکھتے ہوئے اسکی عمر اتنی طولانی کردیگا کہ اسے امام ـ اپنے اعوان و انصار میں ظہور کے وقت شامل کرلیں ۔
٥(امام جعفر صادق ـنے فرمایا : ہمارے شیعوں کی پہچان اول وقت نماز کے کی پابندی سے ہے
٦(امام رضا ـنے اپنے جد بزرگوار سے نقل کیا ہے کہ:میری امت کا بہترین عمل ظہور امام کا انتظار ہے۔
٧( اما م حسن عسکری ـنے فرمایا: میرے بیٹے کے ظہورکاوقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں اور دوسری جگہ فرمایا میرا فرزند میرے بعد امام اور حجت ہے اسکی معرفت کے بغیر موت جاہلیت کی موت ہے
٨(امام عصر ـنے فرما یا :ملعونُ ملعونُ مَنْ اخَّرَ الْغدٰاةَ اِلی انْ تَنْقَضی النْجُوُم
۔ملعون ہے ملعون ہے وہ شخص جونماز میں اتنی تاخیر کرے کہ تارے نظرآنے لگیں اور ملعون ہے وہ شخص جو نماز( مغرب (میں اتنی تاخیر کرے جبکہ تمام ستارے غائب ہوجائیں ۔
٩(امام عصر نے فرما یا:
اناخاتَمُ الاوصیائِ و بی َیدْفَعُ الله ُ عزَّ وَ جلَّ البلاٰئَ عَنْ اهلی و شیعتی
میں آخری جانشین و وصی ہوں خدا وند عالم ہماری وجہ سے ہماری پیروی کرنے والوں اورہمارے شیعوں سے بلاؤں کو دور رکھتا ہے۔
١٠( امام ـنے فرمایا : لَیسَ بَیْنَ اللہِ عزَّوَجلَّ وَ بَےْنَ اَحَدٍقِرابَة وَمَنْ اَنْکَرَنیِ فَلَیْسَ مِنّی وَ سَبِیْلُہُ سَبیْلُ ابنِ نوُحٍ۔
امام ـ نے فرمایا:خداوندعز وجل سے نہ کسی کی رشتہ داری ہے اور نہ ہی قرابت داری؛جو بھی میرا انکار کرے وہ مجھ سے نہیں ہے اسکی راہ پسر نوح ـ کی راہ ہے
ہمارا ایک اہم وظیفہ یہ ہے کہ ہم اپنے آئمۂ معصومین کو اس طرح پہچانیں جسطرح پہچاننے کاحق ہے اور وہ جیسے ہیں انھیں ویسا ہی جانیں نا یہ کہ صرف اور صرف انکی پیروی اور محبت کا جھوٹا اور زبانی دعوی ہو چونکہ ہمیں اس منزل پر امام علی (ع) کی وہ حدیث یاد آرہی ہے جسمیں آپ ـ نے فرمایا ؛میرے بارے میں دو طرح کے لو گ ہلاک ہو جائیں گے !حد سے آگے بڑھ جانے والا دوست اور غلط بیانی اور افترا پر دازی کرنے والا دشمن ۔
امام عصر نے ایک خط جناب شیخ مفید کے پاس ارسال کیا تھا اس میں آپ ـ نے فرمایا: میرے شیعوں کو چاہیے کہ ایسا کام کریں کہ لوگ انکے عمل و کردار کو دیکھ کر ہم سے نزدیک ہوں اور اہل بیت اطہار سے محبت کریں ایسا نہ ہو کہ ہم سے نزدیک
ہو نے کے بجائے ا ن کے عمل و کردار اور گفتار کی وجہ سے ہم سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگیں اور ہماری محبت سے اجتناب کریں !لہذا اس بات پر غورو فکر ہر فرد شیعہ پر ضروری اور واجب ہے ۔
اس امر کی طرف چھٹے امام حضرت جعفر صادق ـنے بھی اشارہ کیا ہے آپ ـنے فرمایا :میرے شیعوں ! میرے لئے باعث زینت بننا ذلت و عار کا باعث نہ بننا! اس کا سبب یہ ہے کہ اہل بیت رسول کا سراپا وجود دنیاکے لئے اسوہ حسنہ اور نمونۂ عمل ہے اگر انکی پیروی کرنے والے بد کردار اور بد چلن ہوں گے تو دوسری قوم و ملت کے لوگ اہل بیت سے نزدیک ہونے کے بجائے ان سے دوری اختیار کریں گے ۔
امام محمد باقر ـنے یہ واضح کیا ہے کہ اگر کو ئی ہمارے شیعوں کوپہچاننا چاہے تو ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ سب خدا کی اطاعت کرتے ہیں ۔
یا امام جعفر صادق ـ کی اس حدیث کوملاحظہ کریں جسمیں آپ ـ نے اور واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ ہمارے شیعہ :اہل رکوع و سجود اور سعی کرنے والے ہیں ان کے اندر امانت داری اور وفاداری پائی جاتی ہے وہ ایسے زاہد اور عابد ہیں کہ شبانہ روز میں ٥١ رکعت نماز اداکرتے ہیں اور راتوں کو بیدار اور دنوں کو روزہ رکھنے والے ہیں نیزاپنے اموال سے زکات اداکرنے والے ہیں ، ساتھ ہی ساتھ وہ سب خانۂ خدا کا حج اور حرام خدا سے اجتنا ب کرنے والے ہیں ۔
دوسری جگہ آپ ـنے فرمایا:اگر کو ئی صرف زبانی دعوی کرے کہ ہم ہی اہل بیت کے حقیقی شیعہ ہیں لیکن عمل کے میدان میں ہمارے فرمان کی مخالفت کررہا ہو تو وہ ہم میں سے نہیں ہے گویا امام ـ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ !ہمارے اصل شیعہ وہ ہیں جو زبانی دعوی کے ساتھ ساتھ ہمارے نقش قدم پر چل رہے ہوں ۔
نور کی ولادت
آسمان ولایت کا آخری سورج شہر سامرا کے اس وحشتناک ماحول میں جاسوسوں او ر حکومت عباسی کے چاپلوسوں کی آنکھوں سے دورصبح جمعہ ٢٥٥ھ کو امام حسن عسکری ـ کے گھر میں طلوع ہوا
اس نے اپنی ولادت کے چند لمحہ بعد خدا کی و حدانیت ا ور محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نبوت کی گواہی دی اور ساتویں دن اپنے والد کی آغوش میں اس آیة شریفہ کی تلاوت کی:
(
وَ نُر یدُأَنْ نَمُنَّ عَلٰی الَّذینَ اسْتُضعِفُوا فی الْاَرضِ وَنَجْعَلَهُم اَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمْ الْوارِثینَ
)
پیغمبر کی وصیّت و بشارت اور احادیث کے مطابق انکا نام(محمد ( عج) رکّھا گیا تاکہ صرف چہرہ پر نورہی سے ہی نہیں جو رسول اللہ سے سب سے زیادہ شباہت رکھتا ہے بلکہ نام اور کردار سے بھی آخری پیغمبر الہیصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی یاد باقی رہے اور تمام جہات سے اپنے جد خاتم انبیاء کا آئینہ ہو ۔ اسی وجہ سے آپ کی کنیّت بھی ابوالقاسم رکھی گئی اگر چہ بعض دوسری مناسبتوں کی وجہ سے آپ کی کنیّت ابو جعفر ، ابوعبداللہ،اور ابوصالح ہے۔
امام زمانہ کے مشہور ترین القاب مہدی ،قائم ،منتظر صاحب العصر ،صاحب الامر ، صاحب الزمان،بقیّةاللّٰہ ، حجة اللہ ، منصور، خلف الصالح، موعود ، ہیں جوکہ حدیث، دعا اور تاریخ کی کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں ۔
آپ کے فضیلت مآب پدر گرامی ـ
امام عصر کے والدماجدحضرت ابو محمد امام حسن عسکری ـ ہیں جنہوں نے اپنی بابرکت زندگی کی دو دہایوں میں سوائے تلخی اور سختی کے کچھ نہیں دیکھا اور حکومت عبّاسی کے خلاف آشکاریا مخفی طریقہ سے جہاد کرنے کے باعث ہمیشہ قید یا سخت پہرے میں رہے۔
آپ ـ کی با عزت عمر کے تیسویں سال میں آپ کے اپنے پہلے اور آخری فرزند کی ولادت ہوئی اس وقت آپ نے خدا کے حتمی وعدے کو پور ا ہوتے دیکھ کر شادمانی کے عالم میں اپنے اصحاب سے یوں فرمایا: ستمگروں نے سوچا تھا کہ مجھے قتل کردیں تا کہ یہ نسل منقطع ہوجائے ،لیکن انھوں نے قدرت خدا کو کیاپایا۔
امام مھدی (عج)کی ولادت کے بعد امام حسن عسکری ـکی زندگی کیحسّاس ترین دور کا آغاز ہوگیاآپ نے تمام سختیوں اور جاسوسوں کے دبائو کے با وجود نہایت عقلمندی کے ساتھ بہترین راستے کے ذریعے اور اپنے امانت دار اصحاب کی مدد سے تمام شیعیان اہل بیت کو حضرت قائم (عج)کی ولادت سے با خبر کیا اور مختلف مناسبتوں میں امام کے چہرہ انورکو پہچنوایا۔
امام زمانہ (عج) کی والدہ گرامی
امام زمانہ کی والدہ گرامی روم کے دو عظیم اور معروف خاندان سے تھیں آپ قیصر روم کے بیٹے(یشوع(کی صاحبزادی تھیں اور آپکی والدہ بھی حضرت عیسیٰ کے وصی حضرت شمعون کی اولاد میں سے تھیں ۔
آپ کی امام حسن عسکری ـ سے شادی ایک حیرت انگیز واقعہ ہے جب قیصر کے خاندان کی ایک بزرگ شخصیت کے بیٹے سے آپکی شادی کے مراسم انجام نہ پاسکے توآپ نے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو خواب میں دیکھا او ر اسلام قبول کر نے کا افتخارحاصل کیا اور ایک جنگ میں رومی اسیروں کے ساتھ آپ عبّاسی حکومت کے مرکز بغداد پہنچیں وہاں امام ہادی ـکے حکم سے آپ بشر بن سلیمان کے ذریعے خریدی گئیں اور پھرامام ہیکے گھر میں آپ کے فرزند ارجمندامام حسن عسکری ـ کے ساتھ آپکا نکاح ہوا ۔
آپکا نام نرجس، سوسن، ریحانہ، اور صقیل ،ذکر کیا گیاہے
عفّت، ایمان ، پاکیزگی ، نیک اخلاق، اور حسنِ رفتار کی ایسی مالک تھیں کہ ''حکیمہ خاتون ''امام کی بیٹی ،امام کی بہن اورامام کی پھوپھی ہونے کے باوجود آپ کا احترام کرتی تھیں ۔
امام ہادی ـنے ہمیشہ انہیں اچھے القاب سے یاد کیا ۔ اس سے بڑھ کر امام علی ـ امام صادق ،اور اما م محمد تقی نے آپکوخِیَرَةْ الْأِمائِ
(کنیزوں میں سے چنی ہوئی(اور َسیدَِةُالاِْمائ
ِ (کنیزوں کی سردار ( سے یاد کیا ہے۔
امام زمانہ کی والدہ پر حمل کے دوران کسی قسم کے آثار ظاہر نہیں ہوئے۔ فقط آخری شب تھی کہ امام حسن عسکری ـنے حضرت حکیمہ سے درخواست کی ''اے پھوپھی جان ! آج ہمارے یہاں ٹھہرجائیے کیونکہ خدائے عزّ وجل آج رات آپ کواپنے ولی اور حجت کی ولادت کے ذریعے شاد فرمائے گا'' اس طرح ١٥،شعبان ٢٥٥ہ میں امام زمانہ (عج) کی ولادت ہوئی۔
____________________