آغاز امامت
گیارہویں امام اٹھائیس سال کی عمر میں ظالم اور ستمگر عباسی خلیفہ معتمد کے زہر ہلاہل سے درجہ شہادت پہ فا ئز ہوئے ۔اُسوقت امام مھدی (عج)پانچ سال کے تھے۔
کم سنی میں حضرت مھدی (عج)کی امامت کا آغاز ،اعجاز الٰھٰی اور قدرت خداکا ایک روشن نمونہ ہے۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے اورتاریخ میں اس کی روشن مثالیں موجود ہیں جو سب کے لیے قابل قبول بھی ہیں ۔ جیسا کے قرانِ کریم حضرت یحییٰ (ع)کے بارے میں فرماتا ہے(
وَاتَیْنَا هُ الْحُکْمَ صَبِیَّا
)
( ہم نے بچپنے میں انہیں نبوت اور حاکمیت عطا کی۔
اور حضرت عیسیٰ ـکے بارے میں آپکے گہوارہ میں تکلم کو نقل کرتا ہے :(
قَالَ اِنّی عَبْدُاللّٰهِ اٰتَانِیَ الْکِتَا بَ وَ جَعَلَنِی نَبِیّا
)
کہا میں خدا کا بندہ ہوں اور اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے پیغمبر بنایاہے۔
غیبت صغریٰ
وہ دلیلیں جواِس بات کا سبب بنیں کہ امام زمانہ ـ کی ولادت دشمنوں اور مخالفوں سے مخفی رہے ، وہی آپکی غیبت کا بھی سبب بنیں ۔امام زمانہ (عج)کو روایات میں حضرتِ موسیٰ ـسے تشبیہ دی گئی ہے
جسطرح سے فرعون انھیں ختم کرنے کے لیے اس زمانہ کی تمام حاملہ عورتوں کواور شیرخوار بچوں کو قتل کررہا تھا اور سارے نو مولودلڑکوں کو ذبح کردیتا تھا اسی طرح عباسی حکمراں اپنی حکومت کو بچانے کے لیے اور آخری وصی کے پیدا نہ ہونے کے لیے( کہ جو سارے ستمگروں اور خطاکاروں کو صفحہ ہستی سے نابود کردیت( ہر قسم کا قدم اُٹھانے کے لئے تیّار تھے۔
حضرت ِمھدی نے ٢٦٠ھ میں اپنے کمرے سے باہر آکر اپنے چچا (جعفر کذّاب ( کو ہٹا کر اپنے والد ماجد کی نماز جنازہ پڑھائی
اور اس طرح اپنی امامت کا اعلان کیا اِس عمل سے حکومت عباسی سرگرم ہوگئی اور آپکو شہید کرنے کے لیے کمر بستہ ہوگئی۔ خداوند عالم نے اپنی قدرت مطلقہ کے ذریعے آغازِامامت سے اپنی آخری حجت کو غیبت کے پردوں میں چھپادیاتاکہ اسے قتل ہونے سے بچالے(
وَ یُریدُنَ لِیُطْفِئُوا نُورَاللّهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَاللّهُ مُتِمَّ نُو رِهِ وَ لَوْ کَرِهَ الْکا فِرُوْنَ
)
وہ چاہتے ہیں نور خدا کو اپنے منہ سے پھونک کر خاموش کردیں حالانکہ خداوندعالم اپنے نور کو کامل کریگا اگرچہ کافروں کو یہ بات ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔
سرداب کی داستاں
سامرّا میں امام علی نقی (ع)اور امام حسنِ عسکری ـ کی مقدس بارگاہ کے جوار میں ایک تہہ خانہ ہے جو سرداب مقدس کے نام سے مشہورہے اس سرداب مقدس کو تین امامِ ہادی امامِ حسن عسکری اور امامِ زمانہ کے نماز پڑھنے کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے ۔لیکن افسوس، بعض مصنفین اور اہل سنّت کے مورخین نے امامِ زمانہ (عج)کی وہاں سے غیبت کی جھوٹی داستان کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے اور شیعوں پر الزام لگایا کہ انکا یہ عقیدہ ہے کہ امامِ زمانہ سرداب سے ظہور کریں گے اسطرح وہ سب شیعوں کا مذاق اڑاتے ہیں اوراُن پر اعتراض کرتے ہیں
اس بے احترامی کے جواب میں شیعہ علماء نے بھی استدلال اور تحقیق کے ساتھ اس بات کا انکار کیا ہے ہم یہاں پر صرف علاّمہ امینی کے جواب پر اکتفا کریں گے آپاپنی کتاب '' الغدیر'' میں فرماتے ہیں : ''اور سرداب کی تہمت ایک قبیح تہمت ہے '' شیعہ اصلاً اس بات کے معتقد نہیں ہیں کہ امام زمانہ نے سرداب میں غیبت اختیار کی اور نہ ہی شیعوں نے امام (عج)کو غیبت میں بھیجا ہے اور نہ ہی وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امام معصوم سرداب سے ظہور کریں گے بلکہ روایات کی بنا پرسے شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آنحضرت مکّہ معظمہ میں کعبہ سے ظہور فرمائیں گے اس سلسلے میں کوئی بھی شیعہ سرداب سے ظہور کا قائل نہیں ہے کاش کہ سرداب کے قصّہ کو گڑھنے والے سبھی لوگ اس فاحش جھوٹ سے متعلق ایک نظریہ پر متحد ہوجاتے تا کہ جھوٹ پکڑے جانے پر انکی رسوائی نہ ہوتی اور ایسا نہ ہوتا کہ ان میں سے ایک سرداب کو حلّہ میں بتائے دوسرا بغداد میں کوئی اور سامرّا میں حتی ان میں سے کوئی لا علمی کا اظہار کرے۔
نوّا ب خاص
غیبت صغریٰ کی کل مدّت ٦٩سال ہے جو ٣٢٩ھجری تک جاری رہی
حضرت مہدی (عج) اگرچہ تمام دشمنوں کی نظروں سے مخفی تھے، لیکن آپکے اصحاب میں چار افراد ایسے تھے جو ہمیشہ آپ سے رابطہ رکھتے تھے اورلوگوں کے سوالات اور انکی مشکلات کے جواب امام زمانہ سے دریافت کرنے کے بعد لوگوں تک پہنچاتے تھے۔
١(جناب عثمان بن سعید عمری:آپ گیارہ سال کی عمر سے امام علی نقی ـ کی خدمت میں تھے بعد میں آپ نے لوگوں پر ظاہر کرنے کے لیے روغن فروشی کا شغل اختیار کیا اور اس طرح حکومت متوکل کے اس گھٹن والے دور میں حاکم کے جاسوسوں کی نگاہوں سے بچ کر شیعوں تک معارف الھی پہنچانے کی ذمّہ داری لے لی آپ پہلے ہی سے دو اماموں کے وکیل اور نائب تھے اور امام مھدی (عج)کے بھی نائب اوّل منتخب ہوئے ۔ ٣٠٠ھ میں آپکا انتقال ہوا اور آپ بغداد میں دفن ہوئے۔
٢(جناب محمد بن عثمان عمری:والد کے انتقال کے بعد آپکو امام زمانہ کی نیابت کا شرف حاصل ہوا آپ نے فقہ وحدیث میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں ۔ بارہا امام زمانہ نے آپ کی تائید فرمائی ہے ۔حضرت مھدی (عج) آپکے بارے میں فرماتے ہیں (انَّهُ ثِقَتی وَ کِتَا بُهُ کِتا بی
(
وہ ہماری طرف سے مورد اطمینان ہے اور انکے مکتوبات میرے مکتوبات ہیں ۔ اواخر جمادی الاول ٣٠٥ھ میں آپ نے اس دارِفانی سے رحلت فرمائی۔
٣( جناب حسین ابن روح نو بختی: جناب محمد بن عثمان نے اپنے انتقال سے چند دن قبل امام زمانہ (عج) کے حکم سے آپکو سفیر اور نائب بنایا اہل علم حضرات کے درمیان آپ صاحب مقام منزلت پر فائز تھے آپ فضیلت و تقوا میں مشہور تھے آپ کے مناظرات آپکے کثرتِ علم پر دلالت کرتے ہیں آپکا ارادہ اسقدر مستحکم اور مصمم ہوتا کہ آپکے ہم عصر علماء کا کہنا تھاکہ اگر دشمن انکے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردیں تب بھی وہ انھیں امام زمانہ کا پتہ نہیں بتائیں گے۔
آپ اکّیس سال تک نیابت کے عظیم عہدہ پر فائز رہے اور ٣٢٦ھ میں آپ نے رحلت فرما ئی آپکی قبر مطہر بغداد میں ہے۔
٤( جناب علی ابن محمد سیمری: آپکی عظمت اور مقام کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ اس زمانے کے عظیم عالم دین جناب محمد بن یعقوب کلینی اپنے علم ، تقوا اور اصول کافی جیسی بے نظیر کتاب کے باوجود اس مقام تک نہ پہنچ سکے اور یہ افتخار صرف آپکو حاصل ہوا کہ آپکی وفات سے چھ دن پہلے امام زمانہ (عج) نے ایک خط میں آپکے انتقال کی پیشین گوئی فرمائی تھی اور مسلمانوں کو غیبت کبریٰ کے آغاز کی اطّلاع دی تھی
پندرہ شعبان ٣٢٩ھ میں آپ نے وفات پائی۔
غیبت کبریٰ
٦٩سالہ غیبت صغریٰ آنحضرت کی غیبت کبریٰ کے لیے ایک مقدمہ تھی ۔ ایک چھوٹی مدّت کی غیبت اس لیے تھی تا کہ لوگ طولانی غیبت کے لئے آمادہ ہوجائیں ۔ غیبت کبریٰ کواب تک گیارہ صدیاں گذر چکی ہیں اس غیبت اور غیبت صغریٰ کے درمیان کئی اعتبار سے فرق ہے:
١( اِسکا زمانہ اُسکے زمانے سے کافی طولانی ہے ۔
٢( کوئی بھی فقیہہ اما م (عج) کا نائب خاص نہیں ہے۔
٣( فقیہہ جامع الشرائط جنکی خصوصیات کوامام صادق، امام عسکری اور امام زمانہ نے اپنی احادیث میں بیان فرمایا ہے
زمانہ ٔ غیبت میں امام زمانہ (عج) کے نائب عام اور والی حکومت اسلامی کے عہدہ دار ہیں ۔ انہی کے کاندھوں پراسلام اور مسلمین کی طرف سے دفاع کرنے، الہٰی حدود واحکام کو جاری کرنے اور مسلمانوں کے تمام معاشرتی اور اقتصادی امور کی عالمی رہبری کی ذمّہ داری ہے ۔
٤( اِس غیبت کا اختتام تب ہوگا جب لوگوں کے اندرایک عالمی حکومت کی تشکیل کے لیئے زمینہ فراہم کرنے کی آمادگی پیدا ہوجائے گی۔
٥( غیبت کبریٰ کی مدّت کو خدا وندعالم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور کسی بھی حدیث میں اس کی مدّت کو بیان نہیں کیا گیا ہے اس طرح روایت کے مطابق ظہورکے وقت کو معین کرنے والا شخص جھوٹا ہے۔
غیبت کی بعض حکمتیں
امام امانہ (عج) کی غیبت خدا وند کریم کے حکیمانہ ار ادہ پر منحصر ہے اور نظام ہستی کے اسرار میں سے ہے
لیکن اسکے ساتھ ساتھ بعض احادیث میں حکمت ِغیبت کا ذکر ہواہے جنہیں ہم یہاں ذکر کررہے ہیں ۔
١( سنّت الھی: امام صادق (ع) فرماتے ہیں '' وہ سنّتیں جو پیغمبروں کی غیبت کے لیئے وارد ہوئی ہیں وہ تمام کی تمام ہمارے قائم اہل بیت کے لیے وجود میں آئینگی''
٢( امام (عج)کی جان کا تحفظ : امام صادق (ع) ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں '' اُنہیں اپنے قتل ہونے کاخوف ہے ''۔
٣( لوگوں کی آزمائش:پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
فرماتے ہیں : '' مہدی (عج)کی غیبت کے زمانے میں صرف ان افراد کا اعتقاد ثابت اور مستحکم ہوگا جنکے دلوں کا امتحان خداوندِعالم نے لیا ہو۔
٤( لوگوں کے گناہ اور اُنکا تیارنہ ہونا : ''امام زمانہ (عج) نے خود کو اس سورج سے تشبیہ دیتے دی ہے جسے بادلوں نے گھیر رکّھا ہو ''
جب وجود امام زمان کی خاصیّت سورج کی طرح روشنی پہنچانا اور فیض عطا کرنا ہے تو وہ بادل جس نے اُس خورشید کو گھیر رکّھا ہے لوگوں کے گناہ اور ناقدری کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
خصوصیات غیبت
معصومین کی احادیث میں اس سلسلے میں وضاحت کی گئی ہے کہ امام زمانہ کی غیبت کیسی ہے اور اس کی کیا خصوصیتیں ہیں ملاحظہ ہوں !
١( آپ کی مثال اس سورج کی ہے جسے بادلوں نے ڈھانپ رکّھا ہو''کماَ يَنتَفِعُونَ باِلشَّمسِ اِذٰا سَترَهاٰ سحاَبُ''
٢( لوگ آپ (عج) کو دیکھتے ہیں لیکن پہچانتے نہیں :''یَجْعَلُ اللّٰهُ بَیْنَهُ وَ بَیْنَ الْخَلْقِ حِجَاباً یَرَوْنهَ ُوَلَا یَعْرِفوُنَهَُ''
٣( آپ ہر سال مراسم حج میں شریک ہوتے ہیں عرفات میں تشریف لاتے ہیں اور مومنین کی دعا پر آمین کہتے ہیں :''و اِنّهُ لِیَحْضُرَ الموسمَ َ فی کلِّ سَنّةٍ وَ یَقِفُ بعرفَةَ فَیْؤَّ مَنْ علیٰ دُعائِ المُؤمنِ''
٤( اگر چہ آپ (عج)کا نازنین پیکر لوگوں کی نظروں سے غائب ہے لیکن آپ کی یاد اُنکے دلوں سے نہیں جاتی ہے :''اِن غاٰبَ َعنِ الناّٰسِ شَخصُهُ فی حاٰلِ هُدنَةٍ َلم یَغِب عَنهُم مَثبُوتُ عِلمِه''
۔
٥( بہت سے چاہنے والوں نے آپ کی زیارت کرنے کی توفیق حاصل کی ہے۔
٦( آپ کی کوئی خاص جگہ نہیں ہے اکثرصحرا اور نامعلوم شہر کے اطراف میں زندگی گذارتے ہیں ۔
٧( آپ ظالموں سے دور تمام لوگوں کی طرح نا معلوم طریقہ سے کسی خاص جگہ میں رہتے ہیں ۔ اور لوگوں ہی کی طرح غذا لباس اور آرام کی ضرورت آپ کو بھی ہوتی ہے ۔
٨( آپ لوگوں کی مجلس میں شرکت کرتے ہیں اُنکے فرش عزا پر قدم رنجہ فرماتے ہیں اُنکے کوچہ وبازار سے گذرتے ہیں ۔
٩( حکمت الہی یہ ہے کہ اگر امام زمانہ کسی جگہ حاضر ہوں تو آپ کا جسم اطہر لوگ نہ دیکھ سکیں ۔امام رضا (ع) فرماتے ہیں''لاَ یرُیٰ جِسمُهُ
اور امام صادق فرماتے ہیں''یَغِیبُ عَنکُم شَخصُهُ''
لیکن کبھی حکمت الہی اس میں ہوتی ہے کہ دیکھا جائے لیکن پہچانا نہ جاسکے ۔محمد بن عثمان عمری فرماتے ہیں :''یرَیٰ الناَّسَ وَیعَرِفهُم وَیرَونهَ ُوَلاَ یَعرِفوُ نَهُ''
۔
اخلاقی فضیلتیں
چونکہ امام زمانہ تمام عظیم الشان پیغمبروں اور اولیا ء الٰھٰی کے وارث ہیں لہذا آپ (عج) تمام انبیاء واولیاء کے صفات جمال وکمال کا گلدستہ ہیں آپ (عج) پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اوصاف و کمالات کی تجلّی گاہ ہیں تو امیرالمومنین ـ کی حیرت انگیز خصوصیات کا آئینہ اور جناب فاطمہ زہرا او ر انکے معصوم فرزندوں کے فضائل ومکارم کا ''پرتو'' ہیں ۔
بعض ان خصوصیات کی طرف اشارہ کرناہمارے دلوں کے نور میں اضافہ کرے گا :
١( وسیع علم: امیرالمومنین ـ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں : ''هْوَ اَکْثَرْکْمْ عِلْماً
''وہ تم میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہے ۔
امام باقر ـفرماتے ہیں :خداوند کریم کی کتاب کا علم اور اسکے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی سنّت ہمارے مہدی کے دل میں اْسی طرح رشد کرے گی جس طرح سے سبزہ بہترین شکل میں زمین سے اُگتا ہے ۔ پس جس نے بھی آپ کو دیکھا وہ اسطرح سے کہے سلام ہو آپ پر اے اہل بیت ِرحمت و نبوّت اور اے مخزن علم اور جایگاہ رسالت!
٢(زھد، اور دنیا سے بے رغبتی: امام رض (عج)آپکے بارے میں فرماتے ہیں''وَماَ لباٰسُ القاٰئمَ اِلّا الغَلِیظُ وَ ما طعاٰمُه ِالّا الجَشَبُ''
ہمارے قائم کا لباس کچھ نہیں سوائے کھردرے کپڑے کے اور ان کی غذا کچھ نہیں سواے سوکھے کھانے کے۔
٣(لوگوں کے درمیان عدالت پھیلانا: امام باقر (عج)حضرت مہدی کے لیے ارشاد فرماتے ہیں ''یَعدِلُ فی خَلقِ الرَّحمنِ اَلبرِِّمِنھُم وَالفاٰجرِ''وہ لوگوں کے درمیان عدالت سے کام لیں گے چاہے وہ پرہیزگار ہوں یا بد کردار۔
٤( سنّت پیغمبر پر عمل: پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
فرماتے ہیں : ''وہ مجھ سے ہیں ان کا نام میرا نام ہے خداوند عالم مجھے اور میرے دین کو اسکے ذریعہ حفظ کریگا اور وہ میری سنّت اور میرے طریقوں پر عمل کرے گا''۔
٥(جود وسخاوت: پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
فرماتے ہیں : '' ایک شخص ان کے پاس آئے گا اور کہے گا اے مہدی (عج) مجھے کچھ عطا فرمائیے ! پس امام زمانہ اْسکے دامن میں اتنا مال ڈالیں گے جتنا وہ اٹھا سکے ''۔
٦(دعا وعبادت : وہ مخصوص نمازیں اور فراوان دعائیں جو امام زمانہ کی طرف سے ہم تک پہنچی ہیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ ان دعائوں اور نمازوں کے پابند ہیں بیشک یہ سب خدا کی بندگی کی نشانی اور اس سے تقرب کا قوی ذریعہ ہیں ۔
٧( شجاعت وصلابت: بیشک دنیا کے تمام مشرکوں اور مستکبروں سے آمنے سامنے کا مقابلہ کرنے اور دنیا کی طاغوتی قدرتوں کی ناک مٹی میں رگڑنے کے لیئے بے نظیر شجاعت اور بے بدیل صلابت کی ضرورت ہے کوئی ایسا ہونا چاہیے جو امام حسین ـ کی طرح جنگ کا مرد میدان ہوحضرت علی ـ کی طرح اسکی پشت پر زرہ ہو، اور رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی طرح جنگ میں جہاں اپنے عزم مستحکم سے کفر کو پیٹھ دکھا نے پر مجبور کر دے۔
٨( صبر و تحمل : ہر انسان کے صبر و استقامت کا اندازہ اسکی مصیبتیں اور مشکلات دیکھ کر کیا جاتا ہے یقیناًامام زمانہ کی مصیبت و بلا اتنی صدیوں سے جاری ہے کہ ہرگزکسی بھی دوسرے انسان کے لئے قابل قیاس نہیں ہے کیونکہ صرف کثرت بلا اور طول زمان ہی سب سے بڑی مصیبت نہیں ہے جو عظیم صبرو تحمل چاہتی ہے بلکہ انسانوں کی ذمہ داری بھی صبرو تحمل کا مطالبہ ہے حضرت مہدی (عج)زمانے کے امام ، تمام مومنیں کے والی ،دونوں عالم کی حجت اور دنیا بھر کے شیعوں کے باپ اور سرپرست ہیں ۔
____________________