صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام 0%

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

مؤلف: سید مرتضی مجتہدی سیستانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 33848
ڈاؤنلوڈ: 4429

تبصرے:

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 33848 / ڈاؤنلوڈ: 4429
سائز سائز سائز
صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب کانام: صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

مولف: سید مرتضی مجتہدی سیستانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ

حمد اور ثنا سزاوار ہے اس خدا کے لئے کہ جس نے ہمیں پیدا کیا اور رسول خدا کو تکمیل دین کے لئے ہماری طرف بھیجا جو کہ خاتم الانبیاء ہیں تا کہ ہم نیک اعمال بجا لائیں ان کے بعد اماموں کو ہماری ہدایت کے لئے بھیجا خدا نے ہماری نیک اخلاق اور نیک اعمال کی طرف رہنمائی کی تا کہ اس کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے بہشت میں داخل ہوں تا کہ بہشت میں بلند مقام حاصل کریں اور خدا کی رحمت کے ملائکہ دیکھیں کہ جو کلام الٰہی سے مزین ہیں

سلام قولاً من ربّ رحیم سورة یس آیہ ۵۸

سلام تمہارے اوپر دلنشین گفتار مہربان پروردگار کی طرف سے ہے

اور ہمیشہ کے لئے درود و سلام حضرت محمد پر کہ جو خدا کے پیغمبر ہیں اوور اس کے خاندان پر درود و سلام کہ جو پاک و پاکیزہ ہیں

تا کہ پاکیزہ کلمات اور مطہر کلام کے ساتھ لوگوں کی تکالیف کو بیان کریں اور ان کو چراغ الٰہی کے نور کے ساتھ جیسے (کوکب درّی یوقد من شجرة مبارکةٍ زیتونةٍ ) درخشان ستارہ کے جو مبارک زیتون کے درخت سے چمکتاہے انوار کے دریاؤں کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے اس روشنائی کی پرتو میں معرفت کے راستوں پر چلتے ہوئے علم اور حکمت کے شہر کی طرف سفر کا عزم کرتے ہوئے سعادت کے دروازے سے اس شہر میں داخل ہوجائیں اور درود و سلام ہو خصوصاً ان میں سے آخری شخص پر کہ جو عدل اور انصاف کے لئے قیام کرے گا کہ جو دعوت نبوی اور غلبہ حیدری کا حامل ہے

جس میں عصمت فاطمی صبر حسنی‘ حسینی شجاعت اور دلیری پائی جاتی ہے جس میں سجاد کی عبادت اور باقر کی بزرگواری جعفر کے آثار اور نشانیاں اور کاظم کی دانش جس میں رضا کے دلائل اور برھان جس میں تقی کی سخاوت اور نقی کی بزرگی اور عسکری کی ھیبت اور الٰہی غیبت موجود ہے یہ وہ ہستیی ہے کہ جو حق کو قائم کرنے کے لئے قیام کرے گی اور انسان کو سچ کی طرف دعوت دے گی وہ خدا کا کلمہ خدا کا امان اور حجت خدا ہیں وہ امر الٰہی کو زندہ کرنے کے لئے غالب ہوگا اور حرم الٰہی سے دفاع کرے گا وہ ظاھراً اور باطناً پیشوا ہوگا وہ بلاؤں کو ہٹانے والا جو کہ سخی اور بے شمار نیکی کرنے والا یعنی امام حق ابوالقاسم محمد بن الحسن صاحب الزمان خدا کا جانشین اور خلیفہ انسانوں اور ملائکہ کا پیشوا ہے وہ رات کی تاریکی میں اروشن ستارہ ہے وہ خطرات کے موقع پر امن و امان کا موجب ہیں وہ بلاؤں اور سختیوں کے موقع پر سِپر بن کر حفاظت کرنے والا ہے یہ کتاب ہدیہ ہے ایک ضعیف اور فانی بندہ کی طرف سے آپ کی خدمت میں یعنی میرے مہربان مولیٰ کی خدمت میں اگر یہ قبول ہوجائے تو خدا کا مجھ پر بڑا احسان ہوگا کہ جس خدا نے تمہارے احسان کو مجھ پر مُسلط رکھا ہے اے صاھب زمان۔

اس کتاب کو قبول کرنے کی وجہ سے یہ میرے لئے باقیات الصالحات اور قیامت کے دن میرے لئے زاد و توشہ ہوگا اس دن کہ جس میں (لا ینفع مالاْ ولا بنون ) سورة شعراء آیہ ۸۸ جس دن نہ مال فائدہ دے گا اور نہ ہی بیٹے سائلین کے لئے فائدے کا سبب اور شب زندہ داروں کے لئے روشن چراغ ہونگے اگر اس کو پڑھ لیں تو رستہ گاری طلب کرنے والوں کے لئے چابی ہے یہی چیز بہشت کے دروازوں کو کھولنے والا ہوگا آپکے اس نیکی کو قبول کرنے کے ساتھ اے صاحب بخشش یہ کتاب دوست کے لئے بصیرت کا سبب ہوگی ان پوشیدہ چابیوں کو ظاہر کرنے کے لئے اس شخص کے لئے کہ جو اس میں غور کے ساتھ پڑھے اللہ تعالیٰ اس کو آپ کی مدد کا سبب قرار دے گا۔

پس اے محبوب اے عزیزمسّنا و اهلنا الضرُّ و جئنا ببضاعةٍ مزجاة فاوف لناالکیل و تصدق علینا انّ الله یجزی المتصدقین سورة یوسف آیہ ۸۸ اے عزیز ہم اور ہمارے خاندان اور بے بس ہیں کہ سرمایہ کے ساتھ تمہاری طرف آئے ہیں پس ہمارے پیمانہ کو بھر دے اور ہمیں صدقہ دے چونکہ خدا صدقہ دینے والوں کو جزا دیتاہے یہ کتاب کہ جو آپ کے سامنے موجود ہے اس میں نمازوں دعاؤں اور زیارات کا مجموعہ ہے یہ یا تو صاھب الزمان کی طرف سے صادر ہوئے ہیں یا اس جہاں میں ولایت کبریٰ کے بارے میں وارد ہوئے ہیں کہ جو زمین میں خدا کی طرف سے آخری جانشین اور خدا کا خلیفہ حضرت حجت بن الحسن العسکری ہیں مولّف کی کوشش یہ ہے کہ جو دعائیں اور زیارات معتبر کتابوں میں لکھی گئی ہم تک پہنچی ہیں ان کو جمع کرلے اگر چہ ہمارا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ یہ مجموعہ کتاب جامع اور کامل ہے چونکہ صاحب العصر کی طویل غیبت کی وجہ سے اور ہم سے دور ہونے کی وجہ سے بہت سی دعائیں اسی طرف زیارات نمازیں اور اذکار کہ جو امام زمان کی طرف سے صادر ہوئے ہیں وہ ہماری رستہ سے دور ہیں اور دوسری طرف افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ حجت کی غیبت کے زمانے میں حضرت کے وجود سے غفلت اور بے خبری کی زندگی گزار رہے ہیں جو کچھ آخری حجت سے صادر ہوئے ہیں

اس سے بے خبر ہیں کچھ مطالب حضرت کی طرف سے ان کے دوستوں تک پہنچے ہیں اس کو انہوں نے چھپادیا ہے اور ان کو نہیں لکھا گیا جس کی وجہ سے ہم ان واقعات سے آگاہ نہیں ہیں اس مطلب پر شاہد اور گواہ یہ تھے کہ عالم ربانی مرحوم آیة اللہ العظمیٰ شیخ مرتضیٰ حائری سے نقل کرتاہوں ایک دن فقہ کے درس کے بعد کہ جو عشق علی میں درس دیا کرتے تھے میں ان کے گھر چلا گیا انہوں نے فرمایا میرا ایک دوست تھا کہ جو آخری حجت کے ساتھ ارتباط رکھتا تھا وہ بعض اوقات میرے پاس آتے تھے میرا ارتباط اس کے ساتھ اول انقلاب تک تھا لیکن انقلاب کے بعد یہ ارتباط کٹ گیا

میں نے ان کو کئی سال سے نہیں دیکھا جن دنوں میں میرا ان کے ساتھ ارتباط ہوا اس وقت میں ایک مشکل میں مبتلا تھا ایک دن میں نے ان کو اپنی مشکل بتائی اور ان سے کہا کہ میری مشکل کو حل کریں میری مشکل یہ تھی کہ بعض محتاج طلاب نے اپنی حاجت روائی کے لئے مجھ سے رجوع کیا لیکن ان میں سے بعض کو نہیں جانتا تھا ان کے بارے میں مترود تھا کہ آیا میں ان کی بھی مدد کرسکتاہوں یا نہیں ہوسکتاہے کہ یہ حقیقت میں مستحق نہ ہوں اس کے باوجود میں ان کی مدد کروں یا یہ کہ یہ واقعاً محتاج ہیں اس کے باوجود مدد نہ کی ہو بہر حال میں نے اپنی مشکل کو ان کے سامنے پیش کیا انہوں نے کہا میں تمہاری اس مشکل کو امام زمانہ کی خدمت میں پیش کروں گا انشاء اللہ اس کا جواب لے آؤں گا وہ ایک مدت کے بعد میرے پاس آیا اور فرمایا حضرت حجت نے ایک دعا مجھ کو عطا فرمائی اور فرمایا اگر کسی کو نہیں جانتے ہو اس کے باوجود وہ تجھ سے مدد کے خواہشمند ہیں اول اس دعا کو پڑھ لیں اس کے بعد اس کی مدد کریں چونکہ حضرت نے فرمایا ہے اگر اس دعا کو پڑھ لیں اور کسی شخص کی مدد کریں تو جو مال لے چکا ہے وہ ہماری رضا کی جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ خرچ نہیں کرسکتاہے

وہ ایک مختصر دعا تھی میں نے بارہا دیکھا ہے کہ جب ناشناس لوگ آتے اور مدد مانگتے تھے تو سب سے پہلے یہ دعا پڑھتے تھے اس کے بعد اس کی مدد کرتے تھے اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے بسا اوقات بعض افراد اس کو سمجھنے کی قوت نہیں رکھتے تھے۔ وہ اس لئے ہے کہ جو کچھ امام زمانہ سے صادر ہوتا تھا وہ ہم تک نہیں پہنچاہے بہت سی دعائیں زیارات اور نمازیں حضرت کے دوستوں کے دلوں میں موجود تھیں اس کو لوگوں کے سامنے بیان نہیں کیا گیا اور اس دار فانی سے چلے گئے۔مرحوم محدث نوری کہتے ہیں اصحاب میں سے قابل اعتماد لوگوں نے مجھ سے کہا کہ انہوں نے بیداری کی حالت میں صاحب الزمان کی زیارت کی ہے اور ان کے متعدد معجزات کو دیکھا ہے حضرت نے ان کو متعدد غیبی امور سے آگاہ کیا ہے

اور ان کے لئے مستجاب دعاؤں کے ساتھ دعا فرمائی اور ان کو مہلک خطرات سے نجات دی ہے ان کلمات کو یہاں بیان کرنے کا موقع نہیں ہے اس بناء پر جو کچھ اس کتاب میں جمع کیا ہے وہی دعائیں اور زیارات ہیں کہ جو معتبر کتابوں میں موجود ہیں اس میں تمام وہ چیزیں موجود نہیں ہیں کہ جو امام سے صادر ہوئی ہیں کہا جاسکتاہے یہاں جو کچھ میرے ہاتھ میں آیا ہے کہ سب کے سب میرے مولیٰ کا لطف و کرم ہے جو کچھ اس مجموعہ میں خوبی دیکھیں اس میں صاح الزمان کی تائید حاصل ہے اس میں جو نقص اور اشتباہ دیکھیں وہ میری طرف سے ہے امید ہے کہ خداوند متعال اس کام کو قبول فرمائے گا اور صاحب الزمان کے قرب کا موجب قرار دے یہ کتاب ایک مقدمہ اور خاتمہ کے علاوہ بارہ ابواب پر مشتمل ہے جس طرح بارہ مہینے ہیں اور ائمہ بھی بارہ ہیں اور نقباء قوم بھی بارہ ہیں اور جان لو یہ ایک یاد گاری کا سبب ہے جو چاہیے اپنے رب کے راستے کی طرف وسیلہ قرار دے جتنا ممکن ہو پڑھ لے نماز کو قائم کرے زکوٰة ادا کرے اور خدا کو قرض حسنہ دے دے اور جان لو کہ جو کچھ کرتے ہو اس کو اللہ کے پاس پاتے ہو یہ نیکی ہے اور بہت زیادہ اجر ہے خدا سے استغفار کرلو بتحقیق اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔

ایک مہم نکتہ

یہاں پر ایک مہم نکتہ بیان کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے ائمہ اطہار نے ایک سیاسی فضا میں ایک غاصب حکومت کے زمانے میں زندگی گزاری کہ جس کی وجہ سے حکومت عدل علوی قائم نہ ہوسکی اس لئے ائمہ طاھرین کو لوگوں کے لئے اسرار الٰہی بیان کرنے کا موقع نہیں مل سکا تمام امیروں کے امیر اور سب سے پہلے مظلوم حضرت علی بن ابی طالب کو حقوق لینے سے دور رکھا خود حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیںکان لرسول الله سرّ لا یعلمه الّا قلیل و لولا طغاة هذه الامة لبثثست هذا السرّ ۔ رسول اللہ کے لئے ایک راز تھا چند افراد کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا اگر اس امت کے سرکش نہ ہوتے تو اس راز کو ظاہر کر کے اس واضح بیان کو پھیلا دیتا ۔ اس بناء پر ہمارے اماموں نے رازوں کو لوگوں کے لئے بیان نہیں کیا اپنے بعض دوستوں کے علاوہ کسی پر ظاہر نہیں کیا۔ پس رازوں کا بیان کرنا اور مہم معنوی حقائق کا بیان کرنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوا چونکہ لوگ اس کو برداشت نہیں کرسکتے تھے چونکہ لوگوں نے غاصب حکومت سے لیکر حکومت الٰہی یعنی حضرت قائم کی حکومت تک زندگی کرتے تھے۔ حضرت امام صادق اس آیہ شریفہ (والیل اذا یسرا) کی تفسیر میں فرماتے ہیں یہ ایک غاصب حکومت کہ جو قیام قائم تک جاری رہے گی رات سے مراد غاصب حکومت ہے یہ حضرت قائم کے قیام تک جاری رہے گی

یہی وجہ ہے ائمہ معصومین نے بہت سے اسرار اور حقائق معنوی کو دعا اور مناجات کے ضمن میں بیان کیا ہے اگر آپ ان حقائق کو جاننا چاہیں تو ان دعاؤں اور مناجات کے ضمن میں جستجو کریں اھل بیت نہ صرف سیاسی وجوھات کی بناء پر لوگوں کو کھل کر راز نہیں بتاسکتے تھے اسلئے دعاؤں اور زیارات کے ضمن میں بتاتے تھے بلکہ مہم اعتقادی مسائل اور بلند معارف کو بھی دعا مناجات اور زیارات کی صورت میں بیان کرتے تھے دعاؤں کے درمیان تحقیق کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ان میں اسرار عقائد اور بے شمار مطالب کو بیان کیا ہے معاشرہ میں زندگی کے لئے بہترین درس سکھایا گیا ہے بطور نمونہ صحفیہ سجادیہ کو دیکھیں کہ جس کے بارے میں امام زمانہ کی تائید بھی ہے اس میں غور کریں اور دیکھیں کہ امام سجاد نے مختصر الفاظ میں کس قدر حقائق دعا اور مناجات کے ضمن میں فرمایا ہے حضرت اور اھل بیت سے دوسری جو دعائیں منقول ہیں ان پر بھی غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے اب نومنہ کے طور پر دعاء کے ضمن میں جو ہمیں درس دیا گیا ہے اس کو نقل کرتاہوں مناجات انجیلیہ میں حضرت امام زین العابدین نے جو مناجات کی ہے اس کو بیان کرتاہوں: اسائلک من الھم اعلاھا بار الاھا مجھ سے سب سے بلند ترین ہمت کی کواہش کرتاہوں یہ حضرت امام سجاد کا کلام ہے

ان تمام لوگوں کے لئے کہ جس کے ہاتھ میں دعا کی کتاب ہے دعا پڑھنے کے ساتھ خدا سے کلام کرتاہے یعنی دعا کرنے والا جو بھی ہو اگر چہ آپنے آپ کو بے ارادہ اور ناچیز جانتاہے اس کو چاہیے کہ خدا سے چاہیے کہ بہترین اور عالی ترین ہمت اس کو دے دے تا کہ اپنی زندگی میں ایک عظیم تبدیلی بجالائے جو کچھ ائمہ طاہرین سے ہم تک پہنچاہے یہ ہے کہ دعا کے آداب اور استجابت کی شرائط کو انجام دے تا کہ دعا قبول ہوتے ہوئے دیکھے جو کچھ ہم نے لیا ہے وہ سب کچھ قرآن اور احادیث سے بیان کیا ہے اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے غور سے سن لے رحمت الٰہی سے مایوس نہ ہوجائے چونکہ ۔انّه لا بیاس من روح الله الّا القوم الکافرون سورة یوسف آیہ ۸۷ رحمت خدا سے صرف کافر مایوس ہوجاتے ہیں اس بناء پر نور امامت سے استفادہ کر کے اپنے اندر نور امید اور نور یقین پختہ کرلے۔

عقلی اور نقلی دلائل کی نظر میں دعا کی طرف ترقیب دینا دعا کے آداب اور شرائط بیان کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ عقلی اور نقلی اعتبار سے ترغیب دعا کیلئے جو دلائل ہیں بیان کروں

دلیل عقلی:

عقل ہمیں کہتی ہے اگر انسان کو کوئی ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو اور انسان اس ضرر کے دور کرنے پر قادر ہو تو عقل کہتی ہے کہ اس کو دور کرنا ضروری ہے یہ چیز واضح ہے کہ دنیوی زندگی میں ہر انسانن کو ضرر پہنچتاہے اور انسان ہمیشہ ضرر میں گرفتار رہتاہے یہ گرفتاری یا تو داخلی ہوگی جیسے ایک چیز انسان کے مزاج کو عارض ہوجائے یا خارجی ہے جیسے کوئی ظالم اس پر ظلم کرے یا کوئی شخص یا ہمشایہ اس کو گالی دے دے اگر اب ان چیزوں میں گرفتار نہ ہو ممکن ہے کہ آئندہ گرفتار ہوجائے پس اس دنیا کے ضرر ان دو حالتوں سے خالی نہیں ہے یا حاصل ہوا ہوگا اور اور انسان اس میں مبتلا ہوگا یا حاصل ہوجائے گا ان دونوں صورتوں میں ان کو دور کرنا ضروری ہے۔ دعا اس ضرر کو دور کرنے کا وسیلہ ہے پس عقلی اعتبار سے ضروری ہے کہ دعا کے ذریعے اس ضرر کو اپنے آپ سے دور کرے چنانچہ امیرالمومنین علی علیہ اسلام نے اس معنی سے آگاہ کیا ہے کہ جہاں فرماتے ہیںما من احد ابتلی و ان عظمت بلواه بأحق بالدعاء من المعافی الذی لا یأمن من البلاء ۔ کوئی شخص بھی مبتلا اور گرفتار نہیں ہوجاتاہے مگر یہ کہ بہت بڑی مصیبت کیوں نہ ہو اس فرد کے لئے بھی ضروری ہے کہ جو مصیبت میں مبتلاء نہیں ہے وہ بھی دعا مانگے۔

دلیل نقلی:

جو کچھ احادیث سے ہمیں معلوم ہوا ہیہ ہے کہ ہر انسان چاہے سالم ہو یا مصیبت میں مبتلا ہو دونوں دعا کے محتاج ہیں اور دعا کا فائدہ یہ ہے کہ انسان جن مشکلات میں مبتلا ہے دعا اس کو دور کرتی ہے جو مشکلات در پیش ہیں اس کو بھی دور کرتی ہے یا انسان کی فائدہ کی جستجو میں ہے دعا کی وجہ سے وہ فائدہ حاصل ہوتاہے یا کوئی اچھائی موجود ہے اس کو دعا کی وجہ سے برقرار رکھتاہے اس کو زائل ہونے سے محفوظ رکھتاہے یہی وجہ ہے ائمہ معصومین نے دعا کو سلاح مومن کے عنوان سے بیان کیا ہے اسلحہ وسیلہ ہے کہ جس کی وجہ سے انسان کو نفع پہنچتاہے اس اسلھہ کی وجہ سے ضرر کو دور کیا جاتاہے ائمہ طاہرین سے دوسری روایات میں دعا کو سپر سے تعبیر کیا گیا ہے اور معلوم یہ ہے کہ سپر کے ذریعے انسان ناگوار چیز سے اپنے آپ کو بچاتاہے پیغمبر خدا فرماتے ہیں: الا ادئکم علی سلاح ینجیکم من اعلائکم ویدرّ ارزاقکم قالو: بلی یا رسول الله قال: تدعون ربکم باللیل و النهار فانّ سلاح الموٴمن الدعاء کیا میں تمہاری راہنمائی نہ کروں ایک ایسے اسلحہ کی طرف کہ جو تم کو دشمنوں سے نجات دے دے اور تمہاری روزی زیادہ کرے عرض کیا ہاں اے رسول خدا نے فرمایا شب روز اپنے رب کو پکارو چونکہ دعاء مومن کا اسلحہ ہے۔

حضرت امیر المومنین نے فرمایا:الدعا ترس المومن و متی تکثر قرع الباب یفتح لک دعا ۔ مومن کے لئے سپر ہے جب بھی دروازے کو زیادہ کھٹکھٹائیں تو تمہارے سامنے وہ دروازہ کھل جائے گا امام صادق نے فرمایاالدعاء انفذ من الانسان الهدید دعاء لوہا کے نیزہ سے زیادہ موثر ہے۔

امام کاظم نے فرمایاانّ الدعاء یردّ ما قدّر و مالم یقدّر قال قلت و ما قد قدأر فقد عرفته فمالم یقدّر قال حتی لا یکون یہی دعا‘ جو کچھ لوح محفوظ میں مقدر ہے اور جو کچھ مقدر نہیں ہے اس کو لوٹا دیتی ہے راوی نے کہا میں نے عرض کیا جو کچھ مقدر میں ہے اس کا معنی میں نے سمجھا لیکن جو مقدر میں نہیں ہے اس کا مطلب کیا ہے حضرت نے فرمایا دعا کرتاہے کہ جو اب تک مقدر نہیں ہوا ہے آئندہ بھی مقدر نہیں ہوگا۔ ایک اور روایت میں پڑھتے ہیں کہ حضرت امام موسیٰ کاظم نے فرمایاعلیکم بالدعاء فان الدعاء ما الطلب الی الله تعالیٰ یردّ البلاء و قد قدّر وقضیٰ فلم یبق الّا امضائه فاذا دعی الله وسئل صرفه صرفه تمہارے لئے دعا کرنا ضروری ہے چونکہ خدا سے دعا مانگنے سے بلائیں دور ہوجاتی ہیں وہ بلائیں کہ جو انسان کے مقدر میں ہیں جس پر اللہ کا حکم جاری ہوا ہے صرف اس پر التقا نہیں ہوا ہے بلکہ اگر خدا سے اس کے برطرف کرنے کے لئے دعا مانگنی جائے تو خدا اس کو برطرف کرتاہے ایک روایت میں زراہ امام محمد باقر سے نقل کرتاہے کہ حضرت نے فرمایاالاادلکم علی شئی کم یستثن فیه رسول الله قلت بلی قال: الدعاء یردّ القضا و قدا برم ابراماً و ضمّ أصابعه کیا تم کو ایسا مسئلہ بیان نہ کروں کہ جس میں رسول نے استثنا نہیں کیا ہے میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا دعا امضاء شدہ قجی کو واپس کردیتاہے حضرت نے اپنی انگلیوں کو آپس میں ملا دیا کہ یہ۔ کام کے محکم ہونے کی علامت ہے۔

امام سجاد نے فرمایاان الدعاء و البلاء لیتوافقان الی یوم القیامة، ان الدعاء لیردّ البلاء و قد أبرم ابراماً ۔تحقیق دعا اور بلاء قیامت کے دن تک ساتھ ساتھ ہیں ان دونوں میں سے ایک کو واقع ہونا چاہیے یہی دعا حتمی بلاء کو پلٹا دیتی ہے پھر حضرت نے ایک اور کلام میں فرمایا:الدعاء یردّ البلاء النازل و مالم ینزلترجمه : دعا نازل ہونے والی بلاء کو اور نازل نہ ہونے والی بلاء کو دور کرتی ہے۔