صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام 0%

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

مؤلف: سید مرتضی مجتہدی سیستانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 33816
ڈاؤنلوڈ: 4416

تبصرے:

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 33816 / ڈاؤنلوڈ: 4416
سائز سائز سائز
صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

مؤلف:
اردو

باب ہفتم

امام زمانہ کوو سیلہ قرار دینا

مرحوم آیة اللہ مستنبط کہتے ہیں عقلی اور نقلی اعتبار سے ہمارے اوپر لازم ہے کہ آخری حجت کے الطاف اور عنایات کے ذیل میں ان کے دامن کو تھام لیں اور سختیوں احتیاجات اور مہم چیزوں میں آخری حجت سے پناہ لیں چونکہ وہی وقت کے بادشاہ ہیں اور امام عصر ہیں اگر چہ وہ ہم سے پوشیدہ ہیں لیکن وہ ہمیں دیکھتے ہیں۔ ہم ہی ہیں جوان کو نہیں دیکھتے ہیں ہیں اور نہیں پہچانتے ہیں اس حضرت کی عنایت کے انوار ہمارے اوپر پڑتے ہیں ہم میں سے جو بھی ان بزرگوار کو اپنا وسیلہ قرار دے اس کی حاجت پوری ہوجاتی ہے۔

مرحوم مستنبط ایک چیز کا اضافہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں میں نے خود ان کو وسیلہ قرار دیکر تعجب انگریز اثرات دیکھتے ہیں اور حیرت انگیز نتائج ہمارے ہاتھ میں آئے ہیں میں نے بھی کسی کو اس توسّل سے تخلّف ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ ہاں جس نے اس توسل کے آثار کی لذت کو نہیں چکھا ہے وہ ہرگز درک نہیں کرسکتاہے اور نہیں سمجھ سکتا بنفسی (أنت) من مغیب لم یحل منّا۔

خواجہ نصیر کے دعائے توسّل کا واقعہ

مرحوم خواجہ نصیر الدین طوسی جھرود ساوہ کے دیہات کا رہنے والا تھا اس کی ولادت گیارہ جمادی الاول سال پانچسو پچانوے میں شہر طوس میں ہوئی اس کی تاریخ کا مادہ آیہ کریمہ( جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوقًا ) کے ساتھ موافق ہے اور اٹھارہ ذوالحجہ سال چھ سہ بہتر میں اس دنیا سے چلے گئے اور اس کی پوری عمر ۷۵ سال تھی دعائے توسل کا تفصیلی واقعہ ان کی طرف جو منسوب ہے کہ لوگوں کے درمیان مشہور ہوا ہے اور بعض کتابوں میں بھی لکھا گیا یہ ہے کہ خواجہ نصیر نے بیس سال کی مدت میں مناقب اھل عصمت میں ایک کتاب تالیف کی اور اس کتاب کو اپنے ساتھ بغداد لے گیا تا کہ خلیفہ عباسی کو دکھادے اتفاق سے یہ اس وقت پہنچا کہ جب خلیفہ ابن حاجب کے ساتھ تفریح اور تماشا کے لئے بغداد میں فرات کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے خواجہ نے اس کتاب کو خلیفہ کے پاس رکھا اور اس نے ابن حاجب کو دیا جب اس ناجبی کی نظر ائمہ اطہار کے مناقب پر پڑی اس نے سخت بغض کی وجہ سے اس کتاب کو دریا میں ڈال دیا اور بطور مذاق اور استہزاء کہا اعجبنی تلّمہ اس کتاب کے دریا میں گرنے کی آواز نے مجھے تعجب میں ڈالا پھر اس کے بعد خواجہ نصیر کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہاں کے رہنے والے ہیں خواجہ نے فرمایا میں طوس کا رہنے والا ہوں اس نے کہا گائیوں میں سے ہیں یا گدھوں میں سے ہیں خواجہ نے فرمایا گائیوں میں سے ہوں ابن حاجت نے پوچھا تمہارے سینگ کہاں ہیں خواجہ نے فرمایا میں نے اپنے سینگ طوس میں رکھ دیے ہیں۔ میں اس کو لینے کے لئے جا رہاہوں پس خواجہ مہموم مغموم اور محروم اپنے علاقے واپس آئے اتفاق سے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک مکان ہے اور اس مکان میں ایک مقبرہ ہے اور اس مقبرہ پر ایک صندوق رکھا ہوا ہے اور اس صندوق پر دعا سلام کو لکھا گیا ہے کہ جو بارہویں امام خواجہ کے نام سے معروف ہے اور حضرت حجت اس مقام پر ہوتے ہیں پس اس بزرگوار نے اس سلام کو معروف دعا توسل کے ساتھ اور اس کے ختم کی کیفیت خواجہ کو تعلیم دی جب خواب سے بیدار ہوا ان میں سے کچھ بھول گیا تھا دوبارہ خواب دیکھا اسی طریقہ پر واقعہ کو دوبارہ خواب میں دیکھا اور جو فراموش کرچکا تھا اس کو بھی حضرت سے یاد کیا جب بیدار ہوا تو تمام کو یاد کرلیا پھر اس کو لکھا ابن حاجت اور خلیفہ کے عمل کی تلافی کے لئے اس ختم کو انجام دینے میں مشغول ہوگئے تا کہ اس کا یہ عمل انجام کو پائے اس کی حاجت قبول ہونے کے لئے کہ ایک چھوٹا بچہ جو اس کی تربیت سے بزرگ ہوگا اور وہ تاج اور سلطنت تک پہنچے گا اور اس کو وہ شہر اور جگہ کی طرف اشارہ فرمایا پس کواجہ رمل کے ساتھ اس بادشاہ کے محلہ کا پتہ لگایا اور اس کے گھر کی جستجو شروع کی ایک عورت کو اس گھر میں دیکھا کہ جس کے دو بچے تھے ان دو بچوں کو تربیت دینے کے لئے اس عورت سے درخواست کی اور خواجہ کو تربیت کے لئے دیا اور فراست سے جان لیا کہ ان میں بادشاہ کونسا ہے اور وہ ھلاکوخان تھا پس اس کی تربیت میں بہت زیادہ اہتمام کی رعایت کی یہاں تک کہ ھلاکوخان بلوغ کی حد تک پہنچا ایک دن خواجہ نے ھلاکوخان سے کہا اگر تم بادشاہ ہوجائے تو میری زحمت اور تکلیف کا کس طرح حق ادا کروگے ھلا کو نے کہا تجھ کو اپنا وزیر بناؤں گا خواجہ نے کہا کہ ضروری ہے کہ ایک عہد نامہ اس کے بارے میں لکھیں ھلاکوخان نے کہا ایساہی ہے اور عہد نامہ لکھا اور خواجہ کو دیا کچھ زمانہ گزرا تھا کہ ھلاکوخان خراسان کا حاکم ہوا اور حاکم کی جگہ بیٹھا اور خواجہ کو اپنا وزیر بنا دیا پس لشکر خراساں پر چھا جانے کے بعد اور شہروں کی طرف لشکر کشی کی ایک ایک شہر کو اپنے تصرف میں لے آیا یہاں تک کہ بغداد کی طرف گئے اور مستعصم خلیفہ عباسی کو ھلاک کیا اس شہر میں قتل و قتال ہوا جب ابن حاجت نے اس واقعہ کو دیکھا تو کسی کے گھر میں چھپ گیا اور ایک طشت کو خون سے بھر دیا اور اس طشت کے اوپر ایک چیز رکھا اور اس کے اوپر فرش کو بچھا دیا اور اس پر بیٹھا تا کہ خواجہ کے علم رمل سے محفوظ رہے جب خواجہ نے رمل سے عمل کرنا شروع کیا تو ابن حاجت کو ایک خون کے دریا کے اوپر دیکھا حیران ہوا اس کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن پیدا نہیں کرسکا آخر اس نے ایک اور تدبیر سوچی کہ کئی گوسفند کو وزن کیا اور بغداد کے چند لوگوں کے درمیان تقسیم کیا اور ان سے شرط لگائی کہ جو بھی گوسفند کو لے گیا ہے اس کو چاہیئے کہ پہلے ہی جو وزن تھا وہی اسی وزن پر واپس کرے ایک گوسفند ابن حاجت کے میزبان کو بھی دیا وہ اس میں سوچنے لگا کہ اس گوسفند کے وزن کو کس طرح حفاظت کرے کہ واپس دیتے وقت اس وزن میں کوئی فرق نہ آئے ابن حاجب کے ساتھ مشورہ کیا ابن حاجت نے کہا اس کی تدبیر یہ ہے کہ ایک بھڑیا کا بچہ لے آئیں ہر روز صبح سے شام تک کافی مقدار میں گھاس کھلا دیں جب رات ہوجائے تو اس گوسفند کو بھیڑیا کو دکھا دیں تا کہ جتنا یہ گوسفند موٹا ہوا ہے اس بھیڑیا کو دیکھ کر اتنا ہی کمزور ہوجائے جب تک یہ گوسفند تمہارے پاس ہے اس پر عمل کریں اس وقت اس کے وزن میں کوئی فرق نہیں آئے گا پس یہ مرد گوسفند واپس کرنے تک یہ عمل کرتا رہا تمام گوسفند کے وزن میں فرق ظاہر ہوا لیکن ابن حاجت کے میزبان کے گوسفند میں کوئی فرق نہیں آیا خواجہ نے فراست سے جان لیا کہ ابن حاجت اس شخص کے گھر میں ہے اور یہ تدبیر ابن حاجت کی ہے وہاں سے پکڑ کر لائے خواجہ اور ھلاکوخان کے سامنے رکھا کواجہ نے اس سے کہا کہ میرے سینگ یہ بادشاہ ہیں اس سینگ کے لانے کا وعدہ تجھ سے کیا تھا اس کے بعد اس کو اپنے ساتھ فراست کے کنارے لے گیا اور ان کے کتابوں کو لانے کا حکم دیا خواجہ کے سامنے ابن حاجت کی ساری کتابیں دریا برد کین اور کہا أعجبنی تلمّہ ان کتابوں کے پانی میں گرنے کی وجہ سے جو آواز نکلی ہے اس نے مجھے تعجب میں ڈالا ہے ۔ شافیہ کافیہ اور مختصر کو جو صرف نحو اور اصول میں تھے یہ کتابیں مبتدی کے لئے فائدہ مند تھیں ان کتابوں کو باقی رکھا اس کے بعد فرمایا کہ ابن حاجت کی گوسفند کی طرح اس کی کھال کو اتاردیں اور اس کے بدن کو شط فرات میں ڈال دیا یہ وہ واقعہ ہے اس دعا کے صدور میں حضرت حجت نے ذکر کیا ہے لیکن جیسا کہ دارالسلام میں تصریح ہوگئی ہے کہ تاریخ فتح بغداد اور ابن حاجت کے فوت کی تاریخ سے ایک اشکال پیدا ہوتاہے چونکہ ھلاکوخان کا بغداد پر حملہ کرنا اور خواجہ نصیر الدین طوسی کی فکر اور اس کی تاریخ کچھ نکات پائے جاتے ہیں کہ جو اس واقعہ کی صحت میں خدشہ پیدا کرتاہے۔

۱ ۔ جس طرح تاریخ میں ثابت ہے ابن حاجت کی موت اسکندریہ میں ہوئی ہے نہ کہ بغداد میں۔

۲ ۔ اس کی موت فتح بغداد سے نو سال پہلے ہوئی ہے جس وقت ھلاکو اور خواجہ نصیر الدین طوسی جب بغداد میں داخل ہوئے تو ابن حاجت زندہ نہیں تھا تا کہ فرار کرتا اور خون سے بھرا ہوا طشت پر بیٹھنے کا محتاج ہوتا۔

۳ ۔ جس طرح خواجہ نصیر الدین کے رمل سے استفادہ کر کے شہر حلہ اور ھلاکوں خان کو دریافت کیا کیا ابن حاجت کو رمل کے زریعے دریافت نہیں کرسکتے تھے کہ ابن حاجت کہاں ہے وہ خون کے طشت کے اوپر بیٹھا ہوا ہے کہ کہاں اور کس مکان میں قرار پایا ہے۔

اگر رمل کے ذریعے سے دریا کا خون دیکھتا ہے کیا اس سے استفادہ نہیں کرسکتا تھا ان تمام سے قطع نظر کواجہ جانتا تھا رمل کے ذریعہ جانتا تھا کہ ابن حاجت کے میزبان کو تو گوسفند میں وزن نہ کرنے کی شرط کی کیا ضرورت تھی ان تمام کے باوجود دعائے توسل کی اہمیت میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو خواجہ کی طرف منسوب ہے اس کتاب کے مولف نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے مرحوم شیخ بھائی سے نقل ہوئی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ مقدس اردبیلی سے سوال ہوا کہ کونسی چیز سبب ہوئی کہ جس کی وجہ سے اس مقامات عالیہ پر پہنچا اس نے جواب میں فرمایا

خواجہ نصیر الدین دعائے توسل ہمیشہ پڑھنے کی وجہ سے

۔ دعائے توسل معروف بہ دوازدہ امام خواجہ نصیر

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ

أَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَزِدْ وَبارِكْ عَلَى النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الْعَرَبِيِّ الْهاشِمِيِّ الْقُرَشِيِّ الْمَكِّيِّ الْمَدَنِيِّ الْأَبْطَحِيِّ التَّهامِيِّ ، اَلسَّيِّدِ الْبَهِيِّ ، اَلسِّراجِ الْمُضي‏ءِ ، اَلْكَوْكَبِ الدُّرِّيِّ ، صاحِبِ الْوَقارِ وَالسَّكينَةِ ، اَلْمَدْفُونِ بِالْمَدينَةِ ، اَلْعَبْدِ الْمُؤَيَّدِ ، وَالرَّسُولِ الْمُسَدَّدِ ، اَلْمُصْطَفَى الْأَمْجَدِ ، اَلْمَحْمُودِ الْأَحْمَدِ ، حَبيبِ إِلهِ الْعالَمينَ ، وَسَيِّدِ الْمُرْسَلينَ ، وَخاتَمِ النَّبِيّينَ ، وَشَفيعِ الْمُذْنِبينَ ، وَرَحْمَةٍ لِلْعالَمينَ ، أَبِي الْقاسِمِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ.

اَلصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يا أَبَا الْقاسِمِ يا رَسُولَ اللَّهِ ، يا إِمامَ الرَّحْمَةِ ، يا شَفيعَ الْاُمَّةِ ، يا حُجَّةَ اللَّهِ عَلى خَلْقِهِ ، يا سَيِّدَنا وَمَوْلانا إِنَّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ إِلَى اللَّهِ ، وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَيْ حاجاتِنا فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ ، يا وَجيهاً عِنْدَ اللَّهِ ، إِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللَّهِ.

أَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ زِدْ وَبارِكْ عَلَى السَّيِّدِ الْمُطَهَّرِ ، وَالْإِمامِ الْمُظَفَّرِ ، وَالشُّجاعِ الْغَضَنْفَرِ ، أَبي شُبَيْرَ وَشَبَرَ ، قاسِمِ طُوبى وَسَقَرَ ، اَلْأَنْزَعِ الْبَطينِ ، اَلْأَشْجَعِ الْمَتينِ ، اَلْأَشْرَفِ الْمَكينِ ، اَلْعالِمِ الْمُبينِ ، اَلنَّاصِرِ الْمُعينِ ، وَلِيِّ الدّينِ ، اَلْوالِيِ الْوَلِيِّ ، اَلسَّيِّدِ الرِّضِيِّ ، اَلْإِمامِ الْوَصِيِّ ، اَلْحاكِمِ بِالنَّصِّ الْجَلِيِّ ، اَلْمُخْلِصِ الصَّفِيِّ ، اَلْمَدْفُونِ بِالْغَرِيِّ ، لَيْثِ بَني غالِبٍ ، مَظْهَرِ الْعَجائِبِ ، وَمُظْهِرِ الْغَرائِبِ ، وَمُفَرِّقِ الْكَتائِبِ ، وَالشِّهابِ الثَّاقِبِ ، وَالْهِزَبْرِ السَّالِبِ ، نُقْطَةِ دائِرَةِ الْمَطالِبِ ، أَسَدِ اللَّهِ الْغالِبِ ، غالِبِ كُلِّ غالِبٍ ، وَمَطْلُوبِ كُلِّ طالِبٍ ، صاحِبِ الْمَفاخِرِ وَالْمَناقِبِ ، إِمامِ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ ، مَوْلانا وَمَوْلَى الْكَوْنَيْنِ ، اَلْإِمامِ أَبِي الْحَسَنَيْنِ أَميرِالْمُؤْمِنينَ عَلِيِّ بْنِ أَبي طالِبٍ صَلَواتُ اللَّهِ عَلَيْهِ.

اَلصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يا أَبَا الْحَسَنِ ، يا أَميرَالْمُؤْمِنينَ ، يا عَلِيَّ بْنَ أَبي طالِبٍ ، يا أَخَ الرَّسُولِ ، يا زَوْجَ الْبَتُولِ ، يا أَبَا السِّبْطَيْنِ ، يا حُجَّةَ اللَّهِ عَلى خَلْقِهِ ، يا سَيِّدَنا يا مَوْلانا ، إِنَّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ إِلَى اللَّهِ ، وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَيْ حاجاتِنا فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ ، يا وَجيهاً عِنْدَ اللَّهِ ، إِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللَّهِ.

أَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ زِدْ وَبارِكْ عَلَى السَّيِّدَةِ الْجَليلَةِ الْجَميلَةِ ، اَلْمَعْصُومَةِ الْمَظْلُومَةِ ، اَلْكَريمَةِ النَّبيلَةِ ، اَلْمَكْرُوبَةِ الْعَليلَةِ ، ذاتِ الْأَحْزانِ الطَّويلَةِ فِي الْمُدَّةِ الْقَليلَةِ ، اَلرَّضِيَّةِ الْحَليمَةِ ، اَلْعَفيفَةِ السَّليمَةِ ، اَلْمَجْهُولَةِ قَدْراً ، وَالْمَخْفِيَّةِ قَبْراً ، اَلْمَدْفُونَةِ سِرّاً ، وَالْمَغْصُوبَةِ جَهْراً ، سَيِّدَةِ النِّساءِ ، اَلْإِنْسِيَّةِ الْحَوْراءِ ، اُمِّ الْأَئِمَّةِ النُّقَباءِ النُّجَباءِ ، بِنْتِ خَيْرِ الْأَنْبِياءِ ، اَلطَّاهِرَةِ الْمُطَهَّرَةِ ، اَلْبَتُولِ الْعَذْراءِ ، فاطِمَةَ التَّقِيَّةِ الزَّهْراءِ عَلَيْهَا السَّلامُ.

اَلصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكِ وَعَلى ذُرِّيَّتِكِ يا فاطِمَةُ الزَّهْراءُ، يا بِنْتَ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ، أَيَّتُهَا الْبَتُولُ ، يا قُرَّةَ عَيْنِ الرَّسُولِ ، يا بَضْعَةَ النَّبِيِّ ، يا اُمَّ السِّبْطَيْنِ ، يا حُجَّةَ اللَّهِ عَلى خَلْقِهِ ، يا سَيِّدَتَنا وَمَوْلاتَنا ، إِنَّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكِ إِلَى اللَّهِ ، وَقَدَّمْناكِ بَيْنَ يَدَيْ حاجاتِنا فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ ، يا وَجيهَةً عِنْدَ اللَّهِ ، إِشْفَعي لَنا عِنْدَ اللَّهِ.

أَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ زِدْ وَبارِكْ عَلَى السَّيِّدِ الْمُجْتَبى ، وَالْإِمامِ الْمُرْتَجى ، سِبْطِ الْمُصْطَفى ، وَابْنِ الْمُرْتَضى ، عَلَمِ الْهُدى ، اَلْعالِمِ الرَّفيعِ ، ذِي الْحَسَبِ الْمَنيعِ ، وَالْفَضْلِ الْجَميعِ ، وَالشَّرَفِ الرَّفيعِ ، اَلشَّفيعِ ابْنِ الشَّفيعِ ، اَلْمَقْتُولِ بِالسَّمِّ النَّقيعِ ، اَلْمَدْفُونِ بِأَرْضِ الْبَقيعِ ، اَلْعالِمِ بِالْفَرائِضِ وَالسُّنَنِ ، صاحِبِ الْجُودِ وَالْمِنَنِ ، كاشِفِ الضُّرِّ وَالْبَلْوى وَالْمِحَنِ ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ ، اَلَّذي عَجَزَ عَنْ عَدِّ مَدائِحِهِ لِسانُ اللُّسَنِ ، اَلْإِمامِ بِالْحَقِّ الْمُؤْتَمَنِ ، أَبي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ (صَلَواتُ اللَّهِ وَسَلامُهُ عَلَيْهِ).

اَلصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يا أَبا مُحَمَّدٍ ، يا حَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ ، أَيُّهَا الْمُجْتَبى ، يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، يَابْنَ أَميرِالْمُؤْمِنينَ ، يَابْنَ فاطِمَةَ الزَّهْراءِ ، يا حُجَّةَ اللَّهِ عَلى خَلْقِهِ ، يا سَيِّدَ شَبابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ، يا سَيِّدَنا وَمَوْلانا إِنَّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ إِلَى اللَّهِ ، وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَيْ حاجاتِنا فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ ، يا وَجيهاً عِنْدَ اللَّهِ ، إِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللَّهِ.

أَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ زِدْ وَبارِكْ عَلَى السَّيِّدِ الزَّاهِدِ ، وَالْإِمامِ الْعابِدِ ، اَلرَّاكِعِ السَّاجِدِ ، وَلِيِّ الْمَلِكِ الْماجِدِ ، وَقَتيلِ الْكافِرِ الْجاحِدِ ، زَيْنِ الْمَنابِرِ وَالْمَساجِدِ ، صاحِبِ الْمِحْنَةِ وَالْكَرْبِ وَالْبَلاءِ ، اَلْمَدْفُونِ بِأَرْضِ كَرْبَلاءَ ، سِبْطِ رَسُولِ الثَّقَلَيْنِ ، وَنُورِ الْعَيْنَيْنِ ، مَوْلانا وَمَوْلَى الْكَوْنَيْنِ ، اَلْإِمامِ بِالْحَقِّ أَبي عَبْدِ اللَّهِ الْحُسَيْنِ (صَلَواتُ اللَّه وَسَلامُهُ عَلَيْهِ).

اَلصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يا أَباعَبْدِاللَّهِ ، يا حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ ، أَيُّهَا الشَّهيدُ يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، يَابْنَ أَميرِالْمُؤْمِنينَ ، يَابْنَ فاطِمَةَ الزَّهْراءِ ، يا سَيِّدَ شَبابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ، يا حُجَّةَ اللَّهِ عَلى خَلْقِهِ ، يا سَيِّدَنا وَمَوْلانا إِنَّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ إِلَى اللَّهِ ، وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَيْ حاجاتِنا فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ ، يا وَجيهاً عِنْدَ اللَّهِ ، إِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللَّهِ.

أَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ زِدْ وَبارِكْ عَلى أَبِي الْأَئِمَّةِ ، وَسِراجِ الْاُمَّةِ ، وَكاشِفِ الْغُمَّةِ ، وَمُحْيِى السُّنَّةِ ، وَسَنِيِّ الْهِمَّةِ ، وَرَفيعِ الرُّتْبَةِ ، وَأَنيسِ الْكُرْبَةِ ، وَصاحِبِ النُّدْبَةِ ، اَلْمَدْفُونِ بِأَرْضِ طيبَةَ ، اَلْمُبَرَّءِ مِنْ كُلِّ شَيْنٍ ، وَأَفْضَلِ الْمُجاهِدينَ ، وَأَكْمَلِ الشَّاكِرينَ وَالْحامِدينَ ، شَمْسِ نَهارِ الْمُسْتَغْفِرينَ ، وَقَمَرِ لَيْلَةِ الْمُتَهَجِّدينَ ، اَلْإِمامِ بِالْحَقِّ زَيْنِ الْعابِدينَ ، أَبي مُحَمَّدٍ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ (صَلَواتُ اللَّهِ وَسَلامُهُ عَلَيْهِما).

اَلصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يا أَبا مُحَمَّدٍ ، يا عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ ، يا زَيْنَ الْعابِدينَ ، أَيُّهَا السَّجَّادُ يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، يَابْنَ أَميرِالْمُؤْمِنينَ ، يا حُجَّةَ اللَّهِ عَلى خَلْقِهِ ، يا سَيِّدَنا وَمَوْلانا إِنَّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ إِلَى اللَّهِ ، وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَيْ حاجاتِنا فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ ، يا وَجيهاً عِنْدَ اللَّهِ ، إِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللَّهِ.

أَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ زِدْ وَبارِكْ عَلى قَمَرِ الْأَقْمارِ ، وَنُورِ الْأَنْوارِ ، وَقائِدِ الْأَخْيارِ ، وَسَيِّدِ الْأَبْرارِ ، وَالطُّهْرِ الطَّاهِرِ ، وَالْبَدْرِ الْباهِرِ ، وَالنَّجْمِ الزَّاهِرِ ، وَالْبَحْرِ الزَّاخِرِ ، وَالدُّرِّ الْفاخِرِ ، اَلْمُلَقَّبِ بِالْباقِرِ ، اَلسَّيِّدِ الْوَجيهِ ، اَلْإِمامِ النَّبيهِ ، اَلْمَدْفُونِ عِنْدَ جَدِّهِ وَأَبيهِ ، اَلْحِبْرِ الْمَلِيِّ عِنْدَ الْعَدُوِّ وَالْوَلِيِّ ، اَلْإِمامِ بِالْحَقِّ الْأَزَلِيِّ ، أَبي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَيْهِمَا السَّلامُ.

اَلصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يا أَبا جَعْفَرٍ يا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ ، أَيُّهَا الْباقِرُ يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، يَابْنَ أَميرِالْمُؤْمِنينَ ، يا حُجَّةَ اللَّهِ عَلى خَلْقِهِ ، يا سَيِّدَنا وَمَوْلانا إِنَّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ إِلَى اللَّهِ ، وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَيْ حاجاتِنا فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ ، يا وَجيهاً عِنْدَ اللَّهِ ، إِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللَّهِ.

أَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ زِدْ وَبارِكْ عَلَى السَّيِّدِ الصَّادِقِ الصِّدّيقِ ، اَلْعالِمِ الْوَثيقِ ، اَلْحَليمِ الشَّفيقِ ، اَلْهادي إِلَى الطَّريقِ ، اَلسَّاقي شيعَتَهُ مِنَ الرَّحيقِ ، وَمُبَلِّغِ أَعْدائِهِ إِلَى الْحَريقِ ، صاحِبِ الشَّرَفِ الرَّفيعِ ، وَالْحَسَبِ الْمَنيعِ ، وَالْفَضْلِ الْجَميعِ ، اَلشَّفيعِ ابْنِ الشَّفيعِ ، اَلْمَدْفُونِ بِالْبَقيعِ ، اَلْمُهَذَّبِ الْمُؤَيَّدِ ، اَلْإِمامِ الْمُمَجَّدِ أَبي عَبْدِاللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ (صَلَواتُ اللَّهِ وَسَلامُهُ عَلَيْهِ).

اَلصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يا أَبا عَبْدِ اللَّهِ ، يا جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ ، أَيُّهَا الصَّادِقُ يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، يَابْنَ أَميرِالْمُؤْمِنينَ ، يا حُجَّةَ اللَّهِ عَلى خَلْقِهِ ، يا سَيِّدَنا وَمَوْلانا إِنَّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ إِلَى اللَّهِ ، وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَيْ حاجاتِنا فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ ، يا وَجيهاً عِنْدَ اللَّهِ ، إِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللَّهِ.

أَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ زِدْ وَبارِكْ عَلَى السَّيِّدِ الْكَريمِ ، وَالْإِمامِ الْحَليمِ ، وَسَمِيِّ الْكَليمِ ، اَلصَّابِرِ الْكَظيمِ ، قائِدِ الْجَيْشِ ، اَلْمَدْفُونِ بِمَقابِرِ قُرَيْشٍ ، صاحِبِ الشَّرَفِ الْأَنْوَرِ ، وَالْمَجْدِ الْأَظْهَرِ ، وَالْجَبينِ الْأَطْهَرِ ]الْأَزْهَرِ خ[ ، اَلْإِمامِ بِالْحَقِّ أَبي إِبْراهيمَ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ (صَلَواتُ اللَّهِ وَسَلامُهُ عَلَيْهِ).

اَلصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يا أَبا إِبْراهيمَ ، يا مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ ، أَيُّهَا الْكاظِمُ ، وَأَيُّهَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ ، يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، يَابْنَ أَميرِالْمُؤْمِنينَ ، يا حُجَّةَ اللَّهِ عَلى خَلْقِهِ ، يا سَيِّدَنا وَمَوْلانا إِنَّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ إِلَى اللَّهِ ، وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَيْ حاجاتِنا فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ ، يا وَجيهاً عِنْدَ اللَّهِ ، إِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللَّهِ.

أَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ زِدْ وَبارِكْ عَلَى السَّيِّدِ الْمَعْصُومِ ، وَالْإِمامِ الْمَظْلُومِ ، وَالشَّهيدِ الْمَسْمُومِ ، وَالْغَريبِ الْمَغْمُومِ ، وَالْقَتيلِ الْمَحْرُومِ ، عالِمِ عِلْمِ الْمَكْتُومِ ، بَدْرِ النُّجُومِ ، شَمْسِ الشُّمُوسِ ، وَأَنيسِ النُّفُوسِ ، اَلْمَدْفُونِ بِأَرْضِ طُوسِ ، اَلرَّضِيِّ الْمُرْتَضى ، اَلْمُرتَجَى الْمُجْتَبى ، اَلْإِمامِ بِالْحَقِّ أَبِي الْحَسَنِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى الرِّضا (صَلَواتُ اللَّهِ وَسَلامُهُ عَلَيْهِ).

اَلصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يا أَبَا الْحَسَنِ ، يا عَلِيَّ بْنَ مُوسَى الرِّضا ، يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، يَابْنَ أَميرِالْمُؤْمِنينَ ، يا حُجَّةَ اللَّهِ عَلى خَلْقِهِ ، يا سَيِّدَنا وَمَوْلانا إِنَّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ إِلَى اللَّهِ ، وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَيْ حاجاتِنا فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ ، يا وَجيهاً عِنْدَ اللَّهِ ، إِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللَّهِ.

أَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ زِدْ وَبارِكْ عَلَى السَّيِّدِ الْعادِلِ الْعالِمِ ، اَلْعامِلِ الْكامِلِ ، اَلْفاضِلِ الْباذِلِ ، اَلْأَجْوَدِ اَلْجَوادِ ، اَلْعارِفِ بِأَسْرارِ الْمَبْدَءِ وَالْمَعادِ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ ، مَناصِ الْمُحِبّينَ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ ، اَلْمَذْكُورِ فِي الْهِدايَةِ وَالْإِرْشادِ ، اَلْمَدْفُونِ بِأَرْضِ بَغْدادَ ، اَلسَّيِّدِ الْعَرَبِيِّ ، وَالْإِمامِ الْأَحْمَدِيِّ ، وَالنُّورِ الْمُحَمَّدِيِّ ، اَلْمُلَقَّبِ بِالتَّقِيِّ ، اَلْإِمامِ بِالْحَقِّ أَبي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلامُ.

اَلصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يا أَبا جَعْفَرٍ ، يا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ ، أَيُّهَا التَّقِيُّ الْجَوادُ ، يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، يَابْنَ أَميرِالْمُؤْمِنينَ ، يا حُجَّةَ اللَّهِ عَلى خَلْقِهِ ، يا سَيِّدَنا وَمَوْلانا إِنَّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ إِلَى اللَّهِ ، وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَيْ حاجاتِنا فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ ، يا وَجيهاً عِنْدَ اللَّهِ ، إِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللَّهِ.

أَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ زِدْ وَبارِكْ عَلَى الْإِمامَيْنِ الْهُمامَيْنِ ، اَلسَّيِّدَيْنِ السَّنَدَيْنِ ، اَلْفاضِلَيْنِ الْكامِلَيْنِ ، اَلْباذِلَيْنِ الْعادِلَيْنِ ، اَلْعالِمَيْنِ الْعامِلَيْنِ ، اَلْأَوْرَعَيْنِ الْأَطْهَرَيْنِ ، اَلنُّورَيْنِ النَّيِّرَيْنِ ، وَالشَّمْسَيْنِ الْقَمَرَيْنِ ، اَلْكَوْكَبَيْنِ الْأَسْعَدَيْنِ ، وارِثَيِ الْمَشْعَرَيْنِ ، وَأَهْلَيِ الْحَرَمَيْنِ ، كَهْفَيِ التُّقى ، غَوْثَيِ الْوَرى ، بَدْرَيِ الدُّجى ، طَوْدَيِ النُّهى ، عَلَمَيِ الْهُدى ، اَلْمَدْفُونَيْنِ بِسُرَّ مَنْ رَأى ، كاشِفَيِ الْبَلْوى وَالْمِحَنِ ، صاحِبَيِ الْجُودِ وَالْمِنَنِ ، اَلْإِمامَيْنِ بِالْحَقِّ أَبِي الْحَسَنِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ النَّقِيِّ وَأَبي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ (صَلَواتُ اللَّهِ وَسَلامُهُ عَلَيْهِما).

اَلصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكُما يا أَبَا الْحَسَنِ وَيا أَبا مُحَمَّدٍ ، وَيا عَلِيَّ بْنَ مُحَمَّدٍ وَيا حَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ ، أَيُّهَا النَّقِيُّ الْهادي وأَيُّهَا الزَّكِيُّ الْعَسْكَرِيُّ ، يَابْنَيْ رَسُولِ اللَّهِ ، يَابْنَيْ أَميرِالْمُؤْمِنينَ ، يا حُجَّتَيِ اللَّهِ عَلَى الْخَلْقِ أَجْمَعينَ ، يا سَيِّدَيْنا وَمَوْلَيَيْنا إِنَّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكُما إِلَى اللَّهِ ، وَقَدَّمْناكُما بَيْنَ يَدَيْ حاجاتِنا فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ ، يا وَجيهَيْنِ عِنْدَ اللَّهِ ، إِشْفَعا لَنا عِنْدَ اللَّهِ.

أَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ زِدْ وَبارِكْ عَلى صاحِبِ الدَّعْوَةِ النَّبَوِيَّةِ ، وَالصَّوْلَةِ الْحَيْدَرِيَّةِ ، وَالْعِصْمَةِ الْفاطِمِيَّةِ ، وَالْحِلْمِ الْحَسَنِيَّةِ ، وَالشُّجاعَةِ الْحُسَيْنِيَّةِ ، وَالْعِبادَةِ السَّجَّادِيَّةِ ، وَالْمَآثِرِ الْباقِرِيَّةِ ، وَالْآثارِ الْجَعْفَرِيَّةِ ، وَالْعُلُومِ الْكاظِمِيَّةِ ، وَالْحُجَجِ الرَّضَوِيَّةِ ، وَالْجُودِ التَّقَوِيَّةِ ، وَالنَّقاوَةِ النَّقَوِيَّةِ ، وَالْهَيْبَةِ الْعَسْكَرِيَّةِ ، وَالْغَيْبَةِ الْإِلهِيَّةِ ، اَلْقائِمِ بِالْحَقِّ ، وَالدَّاعي إِلَى الصِّدْقِ الْمُطْلَقِ ، كَلِمَةِ اللَّهِ وَأَمانِ اللَّهِ وَحُجَّةِ اللَّهِ.

اَلْغالِبِ بِأَمْرِ اللَّهِ ، وَالذَّابِّ عَنْ حَرَمِ اللَّهِ ، إِمامِ السِّرِّ وَالْعَلَنِ ، دافِعِ الْكَرْبِ وَالْمِحَنِ ، صاحِبِ الْجُودِ وَالْمِنَنِ ، اَلْإِمامِ بِالْحَقِّ أَبِي الْقاسِمِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ، صاحِبِ الْعَصْرِ وَالزَّمانِ ، وَخَليفَةِ الرَّحْمانِ ، وَإِمامِ الْإِنْسِ وَالْجانِّ (صَلَواتُ اللَّهِ وَسَلامُهُ عَلَيْهِ).

اَلصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يا وَصِيَّ الْحَسَنِ ، وَالْخَلَفَ الصَّالِحَ ، يا إِمامَ زَمانِنا ، اَلْقائِمَ الْمُنْتَظَرَ الْمَهْدِيَّ.

يا سَيِّدَنا وَمَوْلانا إِنَّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ إِلَى اللَّهِ ، وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَيْ حاجاتِنا فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ ، يا وَجيهاً عِنْدَ اللَّهِ ، إِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ.

فيسئل حاجاته من اللَّه تعالى ، ويرفع يديه ويقول :

يا سادَتي وَمَوالِيَّ ، إِنّي تَوَجَّهْتُ بِكُمْ ، أَنْتُمْ أَئِمَّتِي وَعُدَّتي لِيَوْمِ فَقْري وَفاقَتي وَحاجَتي إِلَى اللَّهِ ، وَتَوَسَّلْتُ بِكُمْ إِلَى اللَّهِ ، وَبِحُبِّكُمْ وَبِقُرْبِكُمْ أَرْجُو النَّجاةَ مِنَ اللَّهِ ، فَكُونُوا عِنْدَ اللَّهِ تَعالى رَجائي ، يا ساداتي يا أَوْلِياءَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكُمْ أَجْمَعينَ.

أَللَّهُمّ إِنَّ هؤُلاءِ أَئِمَّتُنا وَسادَتُنا وَقادَتُنا وَكُبَرائُنا وَشُفَعاءُنا ، بِهِمْ أَتَوَلَّى وَمِنْ أَعْدائِهِمْ أَتَبَرَّءُ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ.

أَللَّهُمَّ والِ مَنْ والاهُمْ ، وَعادِ مَنْ عاداهُمْ ، وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُمْ ، وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُمْ ، وَالْعَنْ عَلى مَنْ ظَلَمَهُمْ ، وَعَجِّلْ فَرَجَهُمْ ، وَأَهْلِكْ عَدُوَّهُمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ مِنَ الْأَوَّلينَ وَالْآخِرينَ ، آمينَ يا رَبَّ الْعالَمينَ.

أَللَّهُمَّ ارْزُقْنا فِي الدُّنْيا زِيارَتَهُمْ ، وَفِي الْآخِرَةِ شَفاعَتَهُمْ ، وَاحْشُرْنا مَعَهُمْ وَفي زُمْرَتِهِمْ وَتَحْتَ لِوائِهِمْ ، وَلاتُفَرِّقْ بَيْنَنا وَبَيْنَهُمْ طَرْفَةَ عَيْنٍ أَبَداً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ ، بِرَحْمَتِكَ يا أَرْحَمَ الرَّاحِمينَ.(مهج الدعوات : ۴۲۵ .)

۲ ۔ حضرت صاحب الزمان سے توسل کی دعا

کتاب قسب المصباح میں صاحب الزمان کے ساتھ دعائے توسل جو کہ مختصر دعا ہے اس طرح نقل کیا گیا ہے۔

أَللّٰهُمَّ إِنی أَسْأَلُکَ بِحَقَّ وَلِیِّکَ وَ حُجَّتِکَ صٰاحِبِ الزَّمٰانَ إِلّٰا أَعَنْتَنی بَهِ عَلیٰ جَمیعِ اُمُوری، وَکَفَیْتَنی بِهِ مَوٴُونَةَ کُلِّ مُوذٍ وَطٰاغٍ وَبٰاغٍ، وَأَعَنْتَنی بِهِ، فَقَدْ بَلَغَ مَجْهُدی، وَکَفَیْتَنی کُلَّ عَدُوًّ و هَمٍّ (وَغَمٍّ وَدَیْنٍ، وَوُلْدی وَجَمیعَ أَهْلی وَ إِخْوٰانی، وَمَنْ یُعْنینی أَمْرُهُ وَ خٰاصَّتی، آمینَ رَبَّ الْعٰالَمینَ ۔

کتاب جنات الخلود میں کہتے ہیں جنگ کے دن دشمنوں پر کامیابی اور تمام قرض ادا کرنے کے لئے اس طریقے سے امام زمانہ سے متوسل ہوجائے اس کتاب میں اس نکتہ کو ذکر کرنے کے بعد مذکور دعا کو نقل کیا ہے۔

۳ ۔ مشکلات میں صاحب الزمان سے توسل کرنا

سب سے بڑا وظیفہ امام زمانہ کو وسیلہ قرار دینا خصوصاً سختی اور مشکلات قسم قسم کی گرفتاریاں اور قسم قسم کی بیماریوں کی صورت میں آخری حجت کو وسیلہ قرار دیں۔

مرحوم علامہ مجلسی لکھتے ہیں ابوالوفاء شیرازی نے کہا میں قید خانہ میں تھا یہ چیز مجھ پر سخت گزری اپنی حالت کیلئے کدا سے شکایت کی اور اھلبیت سے مدد مانگی عالم خواب میں حضرت رسول کی خدمت میں حاضر ہوا پیغمبر عالم خواب میں اس کی راہنمائی کرتے ہیں کہ کس حاجت کے لئے کس طرح امام کو اپنا وسیلہ قرار دیں وہ کہتاہے کہ رسول خدا نے اس سے فرمایا یاد امام صاحب الزمانفاذا بلغ منک السیف الذبح فاستعن به فانه یعینک ووضع یده علی حلقه ۔ لیکن صاحب الزمان جب تلوار کے ساتھ قتل کی جگہ پر پہنچے اور اپنے ہاتھ کو حلق مبارک پر رکھیں تو اس سے مدد طلب کرو کہ وہ تمہاری مدد کرے گا۔

ابوالوفاء کہتاہے کہ عالم خواب میں آوازدی یا مولای یا صاحب الزمان ادرکنی فقد بلغ مجھے دی وہ کہتاہے کہ میں خواب سے بیدار ہوا اس حالت میں تھا کہ مامورین میرے ہاتھ سے زنجیروں کو کھولتے تھے سلاح المومنین میں لکھتے ہیں کہ میرے پدر بزرگوار نے اس رابطہ میں کہا ہے

إِن دَنا مِنْ نَحْرِکَ السَّیْفُ اسْتَغِثْ بِوَلِیِّ الْعصْرِ مَوْلٰاکَ وَقُل:

یٰا صٰاحِبَ الزَّمٰانِ أَغِثْنی، یٰا صٰاحِبَ الزَّمٰانَ أَدْرِکْنی

فَهُوَ بیابُ اللّٰه وَالرَّحْمَةِ وَالْغَوْثُ وَابنُ الْمُصْطِفیٰ فَخْرِ الرُّسُلِ

جس وقت تلوار تیرے گلے تک پہنچے تو اپنے مولیٰ حضرت حجت سے متوسل ہوجاؤ اور کہو اے صاحب الزمان ہماری فریاد کو پہنچو اے صاحب الزمان میری مدد کرو چونکہ وہ خدا کا دروازہ اور رحمت الٰہی ہے وہ سب کی فریاد کو پہنچنے والا ہے وہ فرزند پیغمبر حضرت محمد مصطفی ہے۔ جو کچھ رسول کے کلام سے ظاہر ہوتاہے یہ ہے کہ حضرت صاحب الزمان کو واسطہ قرار دینا صرف اس مقام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے کہ انسان جب دشمن کے ہاتھ میں گرفتار ہوا اور وہ اس کو قتل کرنے کا قصد رکھتا ہو تب ہی کرے بلکہ یہ کنایہ ہے کہ جب بھی کوئی مشکل پیش آئے اور تمام اسباب ختم ہوجائیں اور لوگوں سے ناامید ہوجائے صبر اور تحمل کے لئے کوئی گنجائش نہ ہو چاہے دینی بلا ہو یا دنیوی ہو دشمن انسان ہو یا جن ہو ان تمام صورتوں میں حضرت حضت سے متوسل ہوجائے۔

۴ ۔ حضرت صاحب الزمان کے ساتھ توسل مشکلات میں

روایت میں ہے کہ اگر کسی مومن پر دنیوی یا اخروی امور سخت ہو تو صحراء میں چلا جائے اور اس دعا کو ستر مرتبہ پڑھے امام زمان اس کی مدد کریں گے دعا یہ ہے

یٰا فٰارِسَ الْحِجٰازِ أَدْرِکْنی، یٰا أَبٰا صٰالِحِ الْمَهْدِیَّ أَدْرِکْنی، یٰا أَبَا الْقاسِمِ أَدْرِکْنی أَدْرِکْنی وَلٰا تَدَعْنی، فَإِنّی عٰاجِزٌ ذَلیلٌ ۔

۵ ۔ یا محمد یا علی کے ساتھ مشکلات میں صاحب الزمان کو سیلہ قرار دینا

عالم بزرگ مرحوم عراقی کتاب دارالسّلام میں لکھتے ہیں کہ ملّا قاسم رشتی جو معروف علماء میں سے ایک ہیں وہ نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کسی مہم کام کے لئے اصفہان گیا ہوا تھا جمعرات کے علاوہ ایک دن تفریح کے لئے شہر (قبرستان تخت فولاد) کے جو با برکت زمین ہے چلا گیا اس شہر میں ناواقف تھا مجھے نہیں معلوم تھا کہ شب جمعہ لوگ اھل قبور کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور بہت زیادہ بھیڑ اور رش ہوتاہے لیکن باقی دنوں میں خلوت ہوتی ہے وہاں کھانے پینے کی چیزیں نہیں ملتی ہیں صرف کبھی کبھی کوئی زمیندار یا کوئی مسافر وہاں سے گزرتاہے جب میں خیابان سے عبور کرتا تھا تو دل چاہتا تھا کہ اپنے ہمراہ حقہ بھی لے جاؤں میرے ہمراہ جو نوکر تھا اس نے کہا اگر آپ چاہتے ہیں تو بتادیں اپنے ساتھ حقّہ لے جائیں چونکہ شب جمعہ کے علاوہ وہاں کوئی اور چیز نہیں ملتی ہے حقہ بیچنے والے نہیں آتے ہیں میں نے کہا حقہ کی خاطر واپس نہیں ہوتے ہیں یہاں بزرگ لوگوں کی قبریں ہیں سیدھے قبرستان چلے گئے قبرستان میں داخل ہوئے اور سورہ فاتحہ پڑھنے میں مشغول ہوگئے ایک شخص گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا درویش جیسا دکھائی دیتا تھا وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا ملّا قاسم جب تم یہاں آئے تو کیوں سیرت پیغمبر کے مطابق سلام نہیں کیا میں اس کے کلام سے شرمندہ ہوا معذرت کرلی کہ میں دور تھا میں نے چاہا کہ نزدیک ہوجاؤں اس وقت سلام کروں فرمایا نہیں تم ملا میں ادب نہیں ہے اس سے میرے دل میں ایک ہیبت پیدا ہوئی آگے جا کر سلام کیا اس نے جواب دیا اس نے میرے ماں باپ کا نام لیا کہ فلاں فلاں تھے اور فرمایا کہ اس کا بیٹا زندہ نہیں بچتا تھا اس لئے اس نے نذر کی تھی کہ اگر خدا نے اس کو بیٹا عنایت کیا تو اھل حدیث اور اھل خیر سے ہوجائے گا خدا نے تجھ جیسا فرزند تیرے باپ کو دیا ہے۔ اس نے بھی نذر کو پورا کیا میں نے عرض کیا کیوں نہیں یہ واقعہ میں نے تفصیل سے سنا ہے اس کے بعد فرمایا اگر حقہ پینا چاہتے ہو تو تھیلا میں حقہ موجود ہے باہر نکالو اور تیار کرلو میں بھی پیونگا میں نے چاہا کہ نور کو آواز دوں اور حق بنانے کا حکم دوں یہ خیال اچانکمیرے ذہن میں آیا تو فرمایا کہ نہیں خود حق بنا لو میں نے عرض کیا اچھا اور ہاتھ کو تھیلا میں ڈال دیا اس میں حقہ تھا تازہ پانی ڈالا ہوا تھا اس کو باہر نکالا تمباکو کوئلے اور باقی ضروری چیزیں موجود تھیں میں نے حقہ تیار کیا خود پیا اور اس کو دیا اس کے بعد فرمایا کہ حقہ کی اگ کو گرادیں اس حق کو تھیلا میں رکھ دو میں نے ان کی اطاعت کی فرمایا: چند روز سے یہاں آیا ہوں لیکن اس شہر والوں کو پسند نہیں کرتا ہوں اس لئے شہر میں داخل نہیں ہوا اب میں ایک دوست کو دیکھنے کے لئے مازندران جارہاہوں اس کے بعد فرمایا اس قبرستان میں چند پیغمبر دفن ہیں کسی کو پتہ نہیں آئیے ان کی زیارت کرتے ہیں اٹھے اور تھیلا کو لئے ہوئے چل پڑے۔ یہاں تک کہ ایسی جگہ پہنچے فرمایا کہ پیغمبر کی قبر یہاں پر ہے زیارت پڑھی میں نے اس عبارت کو کتاب میں نہیں دیکھا تھا میں بھی ان کے ساتھ پڑھتا رہا اس کے بعد ان قبروں سے دور ہوگئے فرمایا میں مازندران جانا چاہتاہوں مجھ سے کوئی یادگار چیز طلب کرو میں نے ان سے علم کیمیا کی خواہش کی فرمایا نہیں سکھاتاہوں میں نے اصرار کیا فرمایا رزق اور روزی مقدّر ہے جب تک زندہ ہے روزی چلے گی میں نے کہا کیا ہوتاہے اس سے دربدری سے نجات حاصل کروں گا

فرمایا: اس دنیا کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے میں نے عرض کیا اس کو دنیا کو دوست رکھنے کی وجہ سے نہیں چاہتاہوں فرمایا پھر کیوں ان چیزوں کو چاہتے ہو کہ جو دنیا کے ساتھ مربوط ہیں۔ پھر میں نے اپی خواہش کا تکرار کیا تو فرمایا اگر مسجد سہلہ میں مجھے دیکھا تو سکھادوں گا پس میں نے عرض کیا کوئی دعا یاد کرادو فرمایا دو دعائیں یاد کراتاہوں ایک تمہارے ساتھ مخصوص ہے اور دوسری سے دوسروں کو نفع پہنچے گا اگر کوئی مومن کسی بلاء میں گرفتار ہو تو یہ دعا پڑھے اس میں بہت تاثیر ہے بہت زیادہ مجرب ہے انہوں نے دونوں دعائیں یاد کرادی میں نے عرض کیا افسوس کہ میرے پاس قلم کاغذ نہیں ہے تا کہ لکھوں اور زبانی یاد نہیں کرسکتا ہوں فرمایا: میرے پاس قلم کاغذ ہے اس کو تھیلا سے نکال لو ہاتھ کو تھیلا میں ڈال دیا وہاں نہ حقہ تھا نہ باقی چیزیں تھی صرف ایک قلم اور کاغذ تھا اتنے میں اس نے کہا کہ جلدی کرو مجھے نہ روکو میں جانا چاہتاہوں میں نے جلدی سے لکھنا شروع کیا اور مخصوص دعا کو املا کرایا اور میں نے لکھا جب دوسری دعا میں پہنچے تو یوں فرمایا: یا محمد یا علی یا فاطمہ یا صاحب الزمان ادرکنی ولا تھلکنی تھوڑی دیر صبر کیا فرمایا اس عبارت کو غلط جانتے ہو میں نے عرض کیا کہ ہاں چونکہ خطاب چار سے ہے اور فعل اس کے بعد جمع لانا چاہیئے۔ فرمایا تم نے اشتباہ کیا ہے چونکہ اس زمانے میں اس جہان کو منظم کرنے والا حضرت صاحب الزمان ہے دوسرے افراد اس کے ملک میں تصرف نہیں کرتے ہیں ہم دعا میں حضرت محمد علی فاطمہ کو اس بزرگوار کے پاس شفاعت کے لئے پڑھتے ہیں اور صرف امام زمان سے مدد طلب کرتے ہیں اس دن میری عجیب حالت ہوئی تھی اسی حالت میں شہر میں داخل ہوا اور حاجی محمد ابراہیم کے گھر گیا اس کا اپنا کتابخانہ تھا جب مجھ کو اس حالت میں دیکھا تو کہا کیا ہوا ہے کیا بخارا آیا ہے؟ میں نے عرض کیا نہیں میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا ہے اس کے بعد سارا واقعہ بیان کیا اس نے کہا اس دعا کو آقا محمد بید آبادی نے یاد کرایا ہے کتاب کی پشت پر دعا موجود ہے اٹھا اور کتاب کو لے آیا میں نے دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا تھا ادررکونی ولا تھلکونی میں نے اس کو مٹا دیا اور دونوں فعل کو مفرد لکھا۔

۶ ۔ حضرت صاحب الزمان کے ساتھ توسل

روایت میں ہے کہ جس کسی کو کوئی ہم و غم ہو یا کسی شدّت میں مبتلا ہو اس کو چاہیئے کہ ستّر مرتبہ کہے

"یٰا اَللّٰهُ یٰا مُحَمَّدُ یٰا عَلِیُّ یٰا فٰاطِمَةُ یٰا صٰاحِبَ الزَّمٰانِ، أَدْرِکْنی وَلٰا تُهْلِکْنی

۷ ۔ حضرت صاحب الزمان کے ساتھ توسل

کتاب التحفة الرضویہ میں لکھتے ہیں کہ نماز مغرب کے بعد پیغمبر اور اس کی آل پر سو مرتبہ درود بھیجو اس کے بعد ستّر مرتبہ کہو :

ٰا اَللّٰهُ یٰا مُحَمَّدُ یٰا عَلِیُّ یٰا فٰاطِمَةُ یٰا حَسنُ یٰا حُسَیْنُ، یٰا صٰاحِبَ الزَّمٰانِ، أَدْرِکْنی وَلٰا تُهْلِکْنی

اس وقت سو دفعہ پیغمبر پر درود بھیجو اور اپنی حاجت کا سوال کرو سید علامہ میرے پدر بزرگوار نے کہا ہے کہ یہ عمل مہم امور کے لئے مجرّب ہے۔

۸ ۔ حضرت صاحب الزمان کے ساتھ توسل

عالم بزرگوار فقیہ بزرگوار سید محمد ہندی نجفی نے سید حسن قزوینی سے اس نے سید حسین شوشتری سے اس نے اپنے اساتذہ سے نقل کیا ہے اور کہتاہے مشکلات اور سختی کے وقت سر برہنہ قبلہ کی طرف کھڑے ہوجائیں اور پانچو مرتبہ کہیں "یٰا حُجَّةَ الْقٰائِمَ" یہ عمل بہت زیادہ مجرّب ہے۔

۹ ۔ بیماری کو دور کرنے کے لئے امام زمانہ سے دعا

غیبت کے ختم ہونے کے لئے حضرت حجت کو وسیلہ قرار دیتے ہیں داؤد بن زربی کہتاہے کہ میں مدینہ منورہ میں سخت بیمار ہوا یہ خبر امام صادق تک پہنچی حضرت نے کرم فرمایا اور خط کے ضمن میں اس طرح فرمایا میں تمہاری بیماری سے اگاہ ہوا شفاء کے لئے تین کیلو گندم خرید لیں اس کے بعد پشت کے بل لیٹیں اور اس کو سینہ پر پھیلادیں اور کہیں :

"أَلهُمَّ إِنّی أَسْأَلُکَ بِاسْمِکَ الَّذی إِ ذٰا سَأَلَکَ بِهِ الْمُضْطَرُّ کَشَفْتَ مٰا بَهِ مِنْ ضُرٍّ، وَمَکَّنْتَ لَهُ فِی الْأَرْضِ وَجَعَلْتَهُ خَلیفَتَکَ عَلیٰ خَلْقِکَ، أَنْ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ أَهْلِ بَیْتِهِ، وَأَنْ تُعیافِیَنی مَنْ عَلَّتی"

اس کے بعد اٹھیں اور بیٹھیں اور گندم کو اپنے اطراف سے جمع کریں پھر وہی دعا پڑھ لیں اس کے بعد دس سیر (فارسی) گندم فقراء کے درمیان تقسیم کریں پھر وہی دعا پڑھ لیں داؤد کہتاہے کہ میں نے اس علم کو انجام دیا اور ٹھیک ہوگیا۔