صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام 0%

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

مؤلف: سید مرتضی مجتہدی سیستانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 33813
ڈاؤنلوڈ: 4416

تبصرے:

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 33813 / ڈاؤنلوڈ: 4416
سائز سائز سائز
صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

مؤلف:
اردو

باب نہم

استخارے

اس حصہ میں ایسے مطالب بیان کروں گا پڑھنے والوں کی آنکھیں روشن اور ان کے دل کو غیبی خوشبو سے ساتھ آرام ہو تا کہ تا کہ فرج اور کشایس کی چابی دریافت کر کے نور افشانی کے مقام پر پہنچائے اور بند دروازوں کو کھولنے پر قدرت رکھتا ہوں یہ وہ مطالب ہیں کہ خدا کی جانب سے بصیرت تلاش کرنے والوں کی راہنمائی کیلئے احسان ہوا ہے اے پڑھنے والے جو اس جھان مادی اور معنوی کے سرپرست اور ولی کی طرف سے بندوں کی راہنمائی کے لئے جو استخارہ قرار دیا ہے اس کو غنیمت شمارکریں اگر اس قسم کے مطالب جاننے کی تلاش میں ہو یہ آپ اور یہ چابیاں تمہارے ہاتھ میں ہیں اس کو پکڑ لو اور اس کو غنیمت شمار کرو اس میں شرط یہ ہے کہ استخارہ کی شرائط یاد کرلو اور استخارہ کے راستوں کو جان لے تا کہ پوشیدہ چابیوں اور وحی آسمانی کے چراغ سے استفادہ کرسکے اور جہاں استخارہ کرنا چاہتاہے وہاں قسم قسم کی دعائیں ہیں اور ہم نے اس کے آداب اور شرائط کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اس مقام پر مزید آگاہی کے لئے وہاں رجوع کریں مطلب کی اہمیت سے پیش نظر کہتاہوں سب سے مہم چیز ہر دعا کرنے والے اور استخارہ کرنے والے کیلئے ضروری ہے کہ اس کی رعایت کرے وہ یہ ہے کہ اپنے دل کو ہر اس چیز سے پاکیزہ کرلے کہ جو خدا کے لئے ناراضگی کا موجب بنتاہے یقین اور اطمینان حاصل کرنے میں کوشش کرے چونکہ یہی چیزیں دعا اور توسل کی بنیاد ہے اگر استخارہ کو آداب اور شرائط کے ساتھ انجام دے استخارہ کرنے والا اپنی مرضی سے ایک قبضہ تسبیح کا انتخاب نہیں کرتاہے بلکہ خدا کے اختیار سے اس سے خیر طلب کرکے منتخب ہوجاتاہے اس بناء پر اگر استخارہ صحیح طریقے پر انجام دیا جائے تسبیح کے ساتھ مٹھی میں لے لینا یا ارقعوں کے ساتھ استخارہ کرنے میں ایک رقعہ کو انتخاب یا قرآن کے ساتھ استخارہ میں صفحہ کا انتخاب یہ سب خدائے تعالیٰ کے ہاتھ میں رہے اور تجھ کو اختیار نہیں ہے۔ اگر یہ آداب اور شرائط کے ساتھ نہ ہو تو اس قسم کے استخارہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

پس استخارہ کرنے والا اپنے دل کو ہر قسم کی پلیدگی سے پاک کرے اور یقین کی تلاش میں رہے تا کہ وہ خدائے تعالیٰ کی طرف توجہ کرسکے اور اگر استخارہ کرنے والے نہ یہ ایمان اور یقین کے ساتھ نہ کیا ہو اس کے اس استخارہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے سید بزرگوار علی بن طاؤوس بعض لوگوں کے حالات کے بارے میں بتاتے ہیں عوام میں سے بعض لوگوں کے دل یقین سے خالی اور ان میں شناخت کی طاقت بھی نہیں ہے اور قیامت کے دن کے مالک پر عقیدہ بھی نہیں رکھتے ہیں چونکہ بعض لوگوں کی جان کو لوگوں کے مشورہ اور ان سے مانوس ہو کر آرام آتاہے اور خداوند کو مشاہدہ نہیں کیا جاتاہے اس لئے وہ خدا پر اعتماد کے لذت کو درک نہیں کرتے ہیں اور یہ تنگ نظری کی بناء پر ہے کہ خدا کے ساتھ مشورہ کرنے میں فائدہ نہیں جانتے ہیں

و مَن یکُ ذا فم مرّ مریض یجد مرّاً به الماء الزلالا

جس کا منہ کڑوا ہو اور بیمار ہو وہ پانی کے ذائقہ کو کڑوا خیال کرتاہے یہ اس گروہ میں سے ہے کہ جن کی طرف ہمارے مولیٰ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے ایک عمدہ خطبہ کے ضمن میں فرمایا ہے :

همجٌ رعاع، لا یعبأ اللّٰه بهم، أتباع کلّ ناعق و ناعقة

یہ مچھر کی طرح ضعیف ہیں خدا نے ان کی طرف توجہ نہیں کی ہے وہ ہر آواز کے پیچھے جاتے ہیں حضرت حجت کی طرف سے آخری توقیع جو صادر ہوئی وہ دعائے استخارہ تھی۔

سید بزرگوار علی بن طاؤوس فرماتے ہیں وہ دعائیں کہ جو استخارہ کے بارے میں پیغمبر اور ائمہ سے وارد ہوئی ہیں میں یہی سے سمجھا ہے ان حضرات نے استخارہ کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے جہاں تک میں نے جو سمجھا ہے یہ ہے کہ استخارہ سب سے مہم ترین امور میں سے اور اسرار الٰہی کا ایک جزء ہے اور شب معراج حضرت پیغمبر کے لئے بیان ہوا ایک اور مطلب اس عملی کاوش میں جو میرے ہاتھ میں آیا ہے یہ ہے کہ حضرت حجت کی طرف سے آخری توقیع جو صادر ہوئی وہ دعائے استخارہ تھا۔

۱ ۔ امام عصر کی طرف سے دعائے استخارہ

دعاء استخارہ آخری دعا ہے کہ جو حضرت حجت کی طرف سے نیابت خاصہ کے زمانے میں صادر ہوئی ہے۔محمد بن علی بن محمد اپنی کتاب میں اس طرح روایت کرتے ہیں کہ محمد بن مظفر کہتے ہیں کہ آخری کلام کہ جو حضرت حجت کی طرف سے صادر ہوا "استخارة الاسماء" ہے کہ اس پر عمل کیا جاتاہے کہ نماز حاجت وغیرہ میں اس کو پڑھا جاتاہے۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ

أَللَّهُمَّ إِنّي أَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ الَّذي عَزَمْتَ بِهِ عَلَى السَّماواتِ وَالْأَرْضِ ، فَقُلْتَ لَهُما «إِئْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً قالَتا أَتَيْنا طائِعينَ » ، وَبِاسْمِكَ الَّذي عَزَمْتَ بِهِ عَلى عَصا مُوسى ، «فَإِذا هِيَ تَلْقَفُ ما يَأْفِكُونَ ».

وَأَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ الَّذي صَرَفْتَ بِهِ قُلُوبَ السَّحَرَةِ إِلَيْكَ ، حَتَّى «قالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعالَمينَ رَبِّ مُوسى وَهارُونَ » ، أَنْتَ اللَّهُ رَبُّ الْعالَمينَ ، وَأَسْأَلُكَ بِالْقُدْرَةِ الَّتي تُبْلي بِها كُلَّ جَديدٍ ، وَتُجَدِّدُ بِها كُلَّ بالٍ.

وَأَسْأَلُكَ بِحَقِّ كُلِّ حَقٍّ هُوَ لَكَ ، وَبِكُلِّ حَقٍّ جَعَلْتَهُ عَلَيْكَ ، إِنْ كانَ هذَا الْأَمْرُ خَيْراً لي في ديني وَدُنْيايَ وَآخِرَتي ، أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَتُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ تَسْليماً ، وَتُهَيِّئَهُ لي ، وَتُسَهِّلَهُ عَلَيَّ ، وَتُلَطِّفَ لي فيهِ بِرَحْمَتِكَ يا أَرْحَمَ الرَّاحِمينَ.

وَإِنْ كانَ شَرّاً لي في ديني وَدُنيايَ وَآخِرَتي ، أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَتُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ تَسْليماً ، وَأَنْ تَصْرِفَهُ عَنّي بِما شِئْتَ ، وَكَيْفَ شِئْتَ ، (وَحَيْثُ شِئْتَ) ، وَتُرْضِيَني بِقَضائِكَ ، وَتُبارِكَ لي في قَدَرِكَ ، حَتَّى لا اُحِبَّ تَعْجيلَ شَيْ‏ءٍ أَخَّرْتَهُ ، وَلاتَأْخيرَ شَيْ‏ءٍ عَجَّلْتَهُ ، فَإِنَّهُ لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلّا بِكَ ، يا عَلِيُّ يا عَظيمُ ، يا ذَا الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ.( فتح الأبواب : ۲۰۵ ، المصباح : ۵۲۱ ، مفاتح الغيب : ۲۵ .)

مہم نکتہ:

سید بزرگوار علی بن طاؤوس کہتے ہیں کہ ہوسکتاہے کہ بعض افراد کے ذہن میں اس طرح آیا ہے کہ جب غیبت کبریٰ کا زمانہ پہنچا تو ہمارے مولیٰ حضرت حجت نے استخارہ کو اہل دانش سے مشورہ اور ملاقات کے عوض قرار دیا ہے اس وسیلہ سے خدا کے ساتھ مشورہ اور استخارہ کی عظمت سے آگاہ کیا جیسا کہ مجھے معلوم ہوا اور میں نے نہیں سمجھا کہ کسی نے حضرت سے درخواست کی ہو بلکہ ابتدا میں اس دعا کو حضرت کے آخری مہم چیزوں میں سے ہے کہ جو حضرت سے صادر ہوئی ہے اور یہ مطلب اہل بصیرت کے نزدیک سمجھنے کے قابل ہے۔

۲ ۔ قرآن سے استخارہ کیلئے دعا

سید بزرگوار علی بن طاؤوس فتح الابواب میں کہتے ہیں کہ میں امام موسیٰ کاظم کے حرم میں تھا کہ بدر بن یعقوب مقری اعجمی نے قرآن کے ساتھ استخارہ کرنے کے بارے میں تین روایتیں میرے لئے نقل کیں ان میں سے کوئی بھی نماز کی روایات میں وارد نہیں ہوئی ہیں۔

پہلی روایت:

اس نے کہا کہ قرآن کو اپنے ہاتھ میں لے لیں اور دعا کریں اس وقت کہیں:

أَللّٰهُمَّ إِنْ کٰانَ مِنْ قَضیائِکَ وَقَدَرِکَ أَنْ تَمُنَّ عَلیٰ اُمَّةِ نَبِیِّکَ بِظُهُورِ وَلِیِّکَ وَابْنِ بَنْتِ نَبِیِّکَ، فَعَجِّلْ ذٰالِکَ، وَسَهِّلْهُ وَیَسِّرْهُ وَکَمِّلْهُ، وَأَخْرِجْ لی آیَةً أَسْتَدِلُّ بِهٰا عَلیٰ أَمْرٍ فَأَئْتَمِرُ، أَوْنَهْیٍ فَأَنْتِهی (أَوْ مٰا تُریدُ الْفٰالَ فیهِ) فی عٰافِیَةٍ ۔

اس کے بعد سات ورقہ گن لیں جب ساتویں ورق پر پہنچے اس کے دوسرے صفحہ پر دیکھیں اور چھ سطریں شمار کرین اور ساتویں سطر پر فال نکال لیں۔

دوسری روایت:

اسی دعا کو پڑھ لے اس کے بعد قرآن مجید کو کھول لیں اور سات ورق کی گنتی کرلیں ساتویں ورق کے دوسرے صفحہ پر اور پہلے صفحہ میں آٹھویں ورق سے لفظ اللہ کو شمار کریں اس کے بعد لفظ اللہ کی تعداد سے سطروں کو شمار کریں اور آخری سطر میں فال ڈال دیں۔

تیسری روایت:

جب دعائے مذکور کو پڑھ لیں تو آٹھ ورق شمار کریں اس کے بعد آٹھ ورق کے پہلے صفحہ پر گیارہ سطریں شمارکریں اور گیارھویں سطر پر فال نکال لیں قرآن سے فال نکالنے کے بارے میں یہی تین روایتیں سنی تھی جن کو نقل کیا ہے ۔

۳ ۔ حضرت حجت کی طرف سے رقعہ کے ساتھ استخارہ نکالنے کا طریقہ

حضرت حجت کی طرف سے رقعہ کے ساتھ استخارہ اس طرح روایت ہوئی ہے دو الگ الگ کاغذون پر لکھیں:خِیَرَةٌ مِنَ اللّٰهِ وَ رَسُولِهِ لِفُلٰانِ بْنِ فُلٰانَةٍ " ان میں سے ایک پر لکھیں "إِفْعَلْ " یعنی انجام دیں اور دوسرے رقعہ پر لکھیں "لٰا تَفْعَلْ "یعنی انجام نہ دیں گارہ کا ایک گولا بنالیں اور ان دو رقعوں کو ان کے درمیان رکھ دیں اور پانی کے برتن میں ڈال دیں اس وقت وضوع کرلیں اور دوسری رکعت نماز پڑھ لیں اور اس دعا کو پڑھ لے

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ

أَللَّهُمَّ إِنّي أَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ الَّذي عَزَمْتَ بِهِ عَلَى السَّماواتِ وَالْأَرْضِ ، فَقُلْتَ لَهُما «إِئْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً قالَتا أَتَيْنا طائِعينَ » ، وَبِاسْمِكَ الَّذي عَزَمْتَ بِهِ عَلى عَصا مُوسى ، «فَإِذا هِيَ تَلْقَفُ ما يَأْفِكُونَ »

وَأَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ الَّذي صَرَفْتَ بِهِ قُلُوبَ السَّحَرَةِ إِلَيْكَ ، حَتَّى «قالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعالَمينَ × رَبِّ مُوسى وَهارُونَ » ، أَنْتَ اللَّهُ رَبُّ الْعالَمينَ ، وَأَسْأَلُكَ بِالْقُدْرَةِ الَّتي تُبْلي بِها كُلَّ جَديدٍ ، وَتُجَدِّدُ بِها كُلَّ بالٍ.

وَأَسْأَلُكَ بِحَقِّ كُلِّ حَقٍّ هُوَ لَكَ ، وَبِكُلِّ حَقٍّ جَعَلْتَهُ عَلَيْكَ ، إِنْ كانَ هذَا الْأَمْرُ خَيْراً لي في ديني وَدُنْيايَ وَآخِرَتي ، أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَتُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ تَسْليماً ، وَتُهَيِّئَهُ لي ، وَتُسَهِّلَهُ عَلَيَّ ، وَتُلَطِّفَ لي فيهِ بِرَحْمَتِكَ يا أَرْحَمَ الرَّاحِمينَ.

وَإِنْ كانَ شَرّاً لي في ديني وَدُنيايَ وَآخِرَتي ، أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَتُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ تَسْليماً ، وَأَنْ تَصْرِفَهُ عَنّي بِما شِئْتَ ، وَكَيْفَ شِئْتَ ، (وَحَيْثُ شِئْتَ) ، وَتُرْضِيَني بِقَضائِكَ ، وَتُبارِكَ لي في قَدَرِكَ ، حَتَّى لا اُحِبَّ تَعْجيلَ شَيْ‏ءٍ أَخَّرْتَهُ ، وَلاتَأْخيرَ شَيْ‏ءٍ عَجَّلْتَهُ ، فَإِنَّهُ لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلّا بِكَ ، يا عَلِيُّ يا عَظيمُ ، يا ذَا الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ.( فتح الأبواب : ۲۰۵ ، المصباح : ۵۲۱ ، مفاتح الغيب : ۲۵ .)

اس کے بعد سجدہ کرے اور سجدہ میں سو دفعہ کہتے "أَسْتَخیرُ اللّٰهَ خِیَرَةً فی عیافِیَةٍ " اس وقت سر کو سجدہ سے اٹھا دے اور منتظر ہوجائے جو کاغذ بھی گارہ کے گولا سے پہلے نکلے اس پر عمل کرے ان شاء اللہ ۔

حضرت حجت کی طرف سے تسبیح کے ساتھ استخارہ کے چند طریقے

۴ ۔ حضرت حجت کی طرف سے تسبیح کے ساتھ استخارہ

استخارہ کا پہلا طریقہ

علامہ حلی نے کتاب مصباح میں کہا ہے کہ اس استخارہ کی آخری حجت کی طرف سے روایت ہوئی ہے اور اس کا طریقہ اس طرح ہے کہ سورہ حمد کو دس دفعہ یا تین دفعہ یا ایک دفعہ پڑھے اس کے بعد سورہ قدر کو بھی دس مرتبہ پڑھے اس کے بعد تین مرتبہ یہ دعا پڑھے۔

أَللّٰهُمَّ إِنّی أَسْتَخیرُکَ لِعِلْمِکَ بِعٰاقِبَة، الْاُمُورِ، وَ أَسْتَشیرُکَ لِحُسْنِ ظَنّی بِکَ فِی الْمَأْمُلِ وَالْمَحْذُورِ أَللّٰهُمَّ إِنْ کٰانَ الْأَمْرُ الْفُلٰانیاور اپنے کام کا نام لیں بِما قَد نیطَتْ بِالْبَرَکَةِ أَعْجٰازُهُ وَبَوٰادیهِ،وَحُفَّتْ بِالْکَرٰامَهِ أَیّٰامُهُ وَلَیٰالیهِ، فَخِرْ لِیَ اللّٰهُمَّ فیهِ خِیَرَةً تَرُدُّ شُمُوسَهُ ذَلُولاً، وَتَقْعَضُ أَیّٰامَهُ سُرُوراً

أَللّٰهُمَّ إِمّٰا أَمْرٌ فَأَئْتَمِرُ، وَإِمّٰا نَهْیٌ فَأَنْتَهی أَللّٰهُمَّ إِنّی أَسْتَخیرُکَ بِرَحْمَتِکَ خِیَرَةً فی عافِیَةٍ

اس کے بعد تسبیھ کو متھی میں لے لے اور اپنی حاجت کو اپنے دل میں نیت کرلے اور اس مٹھی میں جو تسبیح ہے اس کو شمار کرلے اگر شمار کرنے کے بعد عدد طاق رہ جائے تو اس کام کو انجام دے اگر وہ عدد جفت رہ جائے تو اس کو ترک کرے۔

۔ دوسرا استخارہ

علامہ مجلسی بحارل الانوار میں کہتے ہیں کہ اپنے پدر بزرگوار سے سنا کہ اس نے اپنے استاد شیخ بھائی سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ میرے اساتذہ تسبیح کے ساتھ استخارہ کے طریقہ کو حضرت آخری حجت(علیہ السلام ) سے اس طرح نقل کرتے تھے کہ تسبیح کو ہاتھ میں لیکر تین مرتبہ محمد و آل محمد پر درود بھیجیں اور تسبیح کو مٹھی میں لے لیں اس کو دو دو کر کے شمار کریں آخر میں اگر ایک دانہ بچ جائے تو اس کام کو انجام دیں اگر دو باقی رہ جائے تو اس کام کو انجام نہ دیں۔

تیسرا استخارہ

المختار من کلمات الامام المھدی کا مصنف کہتے ہیں کہ ہم تسبیح کے ساتھ استخارہ میں ایک مجازی طریقہ رکھتے ہیں کہ جو حضرت حجت کے ساتھ متصل ہے علماء میں سے ایک نے مجھے اجازت دی ہے کہ اس طریقہ پر استخارہ انجام دوں دوسروں کو بھی اجازت دیتاہوں میں نے بھی بعض کو اس طریقہ کی اجازت دی ہے اور وہ استکارہ اس طرح ہے کہبِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحیمِ،تین مرتبه أَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ پڑھے اس کے بعد ایک مختصر دعا پڑھے مثال کے طور یوں پڑھے"یٰا مَنْ یَعْلَمُ إِهْدِ مَنْ لٰا یَعْلَمُ " یا یوں کہے "یٰا رَبِّ خِزْلی مٰا هُوَ الصّٰالِحُ "اس کے بعد حضرت تسبیح کو مٹھی میں لیتے تھے اور شمار کرتے تھے اگر ایک دانہ باقی رہ جاتا اس کام کو انجام دیتا تھا اور اگر جفت رہتا تو اس کو ترک کرتے تھے۔

۔ استخارہ کا چوتھا طریقہ

ایک قدیم کتاب میں اس طرح لکھا ہوا تھا جو استخارہ امام زمانہ کی طرف منسوب ہے وہ اس ترتیب سے ہے اول سورہ حمد کو پڑھ لو آیہ "إِهْدِنَا الصِّرٰاطَ المُسْتَقیمَ " تک پہنچنے اس کے بعد تین مرتبہ محمد و آل محمد پر درود بھیجیں اور تین مرتبہ کہو "یٰا مَنْ یَعْلَمُ إِهْدِ مَنْ لٰا یَعْلَمُ "۔اس کے بعد تسبیح کو اپنے مٹھی میں لیلے اس کے بعد دو دو کر کے شمار کرے اگر آخر میں ایک باقی رہے تو وہ کام اچھا ہے انجام دیں اگر دو باقی رہے تو اس کو انجام نہ دیں اگر اس عمل کے خوبی اور برائی کو جاننا چاہتے ہیں تو دوبارہ استخارہ کرلیں اور اس عمل کے ترک کرنے کا قصد کرلے اگر پہلے استخارہ میں امر ہو اور دوسرے استخارہ میں نہی آجائے تو وہ کام بہت اچھا ہے اگر دوسرے استخارہ میں بھی امر آجائے تو وہ کام متوسط ہے یعنی درمیانہ ہے۔

اسی طرح اگر پہلا استخارہ میں کام سے نھی ہوا ہے اور اس کے ترک میں امر ہوا ہو اس کو چاہیئے کہ وہ اس کام کو ہرگز انجام نہ دے اگر اس کام کے ترک کی بھی نھی کی گئی ہے تو اجتناب کرنا اس کام سے پہلے استخارہ کی طرح نہیں ہے۔

۸ ۔ پانچواں استخارہ

شیخ محمد حسن نجفی صاحب جواہر جواہر الکلام میں لکھتے ہیں بعض اہل زمان کے نزدیک ایک ایسا استخارہ معمول ہوا ہے کہ بسا اوقات اس استخارہ کی ہمارے آخری حجت کی طرف نسبت دی گئی ہے اور وہ استخارہ یوں ہے کہ قرآت اور دعا کے بعد تسبیح کو متھی میں لے لے آٹھ آٹھ شمار کرلے اگر ایک باقی رہ گیا تو کچھ نہ کچھ ٹھیک ہے اگر دو دانے باقی رہ گئے ایک نھی ہے اگر تین دانے باقی رہ گئے تو آپ کو اختیار حاصل ہے چونکہ بجا لانا اور ترک کرنا برابر ہے اگر چار باقی رہ گئے دو نھی موجود ہیں اگر پانچ باقی رہ گئے تو بعض کہتے ہیں اس میں زحمت اور تکلیف ہے دوسرے بعض کہتے ہیں کہ اس کام میں ملامت ہے اگر چھہ دانے باقی رہ گئے تو بہت اچھا ہے اس کام کو جلدی انجام دے اگر سات باقی رہ گئے تو اس کا حکم پانچ والا حکم ہے یعنی دو عقیدہ یا دو روایات اس کے بارے میں موجود ہیں اگر چار باقی رہ جائے تو اس میں چار نھی موجود ہیں۔