صحیفہ امام مھدی علیہ السلام

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام 11%

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36246 / ڈاؤنلوڈ: 5785
سائز سائز سائز

باب اوّل

نمازوں کے بارے میں

اس باب میں ان نمازوں کے بارے میں ہیں کہ جو حضرت صاحب الزمان سے منقول ہیں یا جو نماز یں حضرت کے لئے ذکر کی گئی ہیں ان نمازوں کو یہاں نقل کرتا ہوں۔

۱ ۔امام زمانہ کی نماز

مرحوم راوندی لکھتے ہیں کہ امام زمان کی نماز دو رکعت ہیں ہر رکعت میں سورہ حمد ایک مرتبہ پڑھے جب ایاک نعبد و ایاک نستعین پر پہنچے کہ اس کو ایک سو مرتبہ پڑھے اور نماز کے بعد سو مرتبہ پیغمبر پر درود بھیجے اس کے بعد اپنی حاجت کو خدا سے مانگے یہ نماز کی خاص زمان اور مکان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اس میں سورہ اور مخصوص دعا وارد نہیں ہے۔

۲ ۔ امام زمان کی ایک اور نماز

مرحوم سید بن طاوؤس فرماتے ہیں یہ نماز بھی دو رعکت ہے سورہ حمد کو پڑھے جب ایاک نعبد و ایاک نستعین تک پہنچے اس وقت سو مرتبہ ایاک نعبد و ایاک نستعین کو پڑھے اس کے بعد سورہ کو تمام کرے اس کے بعد ایک دفعہ سورہ اخلاص کو پڑھے اس کے بعد یہ دعا پڑھے دعاء

أَللَّهُمَّ عَظُمَ الْبَلاءُ ، وَبَرِحَ الْخِفاءُ ، وَانْكَشَفَ الْغِطاءُ ، وَضاقَتِ الْأَرْضُ بِما وَسِعَتِ السَّماءُ ، وَ إِلَيْكَ يا رَبِّ الْمُشْتَكى ، وَعَلَيْكَ الْمُعَوَّلُ فِي الشِّدَّةِ وَالرَّخاءِ أَللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، اَلَّذينَ أَمَرْتَنا بِطاعَتِهِمْ

وَعَجِّلِ اللَّهُمَّ فَرَجَهُمْ بِقائِمِهِمْ ، وَأَظْهِرْ إِعْزازَهُ ، يا مُحَمَّدُ يا عَلِيُّ ، يا عَلِىُّ يا مُحَمَّدُ ، إِكْفِياني فَإِنَّكُما كافِيايَ ، يا مُحَمَّدُ يا عَلِيُّ ، يا عَلِيُّ يا مُحَمَّدُ ، اُنْصُراني فَإِنَّكُما ناصِرايَ ، يا مُحَمَّدُ يا عَلِيُّ ، يا عَلِيُّ يا مُحَمَّدُ ، إِحْفَظاني فَإِنَّكُما حافِظايَ ، يا مَوْلايَ يا صاحِبَ الزَّمانِ ثلاث مرّة ، اَلْغَوْثَ الْغَوْثَ الْغَوْثَ ، أَدْرِكْني أَدْرِكْني أَدْرِكْني ، اَلْأَمانَ الْأَمانَ الْأَمانَ.( جمال الاُسبوع : ۱۸۱ ، البحار : ۱۹۱/۹۱ )

یہ نماز بھی کسی مخصوص فرمان کے اور مکان کے ساتھ مختص نہیں ہے لیکن آخر میں سورہ اخلاص اور اسی طرح دعاؤں کا پڑھنا چاہیے جنکا ذکر کیا گیا ہے۔

۳ ۔مسجد جمکران کی نماز

جناب حسن بن مثلہ جمکرانی لکھتے ہیں کہ امام زمان نے فرمایا کہ لوگوں سے کہو کہ اس مکان کی طرف زیادہ رغبت کریں اس جگہ کا احترام کریں اس مکان میں چار رکعت نماز پڑھیں دو رعکت تحیہ مسجد کہ ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورہ حمد اور سو مرتبہ سورہ اخلاص کو پڑھے اور ہر رکوع اور سجدہ میں سات مرتبہ ذکر پڑھے اور دو رکعت نماز صاحب الزمان پڑھے اس ترتیب سے:

سورہ فاتحہ پڑھے اور جب ایّاک نعبد و ایاک نستعین پر پہنچے تو اس کو سو مرتبہ پڑھے جب نماز تمام کرے تو تھیلیل کہے اور حضرت فاطمہ الزھرا کی تسبیح پڑھے جب تسبیح تمام کرے تو سو مرتبہ محمد و آل محمد پر درود بھیجے جو بھی یہ نماز پڑھے گویا ایسا ہے کہ اس نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے۔

۴ ۔ امام زمانہ کی نماز حلّہ اور نعمانیہ میں

عالم جلیل میرزا عبداللہ اصفہانی کتاب ریاض العلماء کے جلد پنجم میں شیخ ابن ابوجواد نعمانی کے حالات میں لکھتے ہیں یہ ان لوگوں میں سے ہیں کہ جنھوں نے غیبت کبری کے زمانے میں امام زمانہ سے ملاقات کی ہے اور اس نے حضرت سے ایک روایت نقل کی ہے۔

کسی ایک کتاب میں دیکھا کہ شاگرد شہید کے خط سے لکھا ہوا تھا کہ ابن ابوجواد نعمانی نے حضرت مہدی کو دیکھا اور حضرت نے عرض کیا اے میرے مولا آپ ایک مقام نعمانیہ میں اور ایک مقام حلہ میں رکھتے ہیں وہاں کس وقت تشریف رکھتے ہیں حضرت نے فرمایا منگل کو دن اور رات نعمانیہ میں اور حلہ میں جمعہ کو دن اور رات ہوتاہوں لیکن حلہ کے لوگ میرے مقام کا احترام اور آداب کی رعایت نہیں کرتے ہیں جو بھی احترام کے ساتھ وہاں پر داخل ہو اور اس جگہ کو محترم شمار کرے مجھ پر اور اماموں کو سلام کرے نیز مجھ پر اور اماموں پر بارہ مرتبہ درود بھیجے اس کے بعد دو رکعت نماز‘ دو سوروں کے ساتھ پڑھے اور نماز میں خدا کے ساتھ مناجات کرے جو حاجات بھی رکھتاہو اللہ تعالیٰ اس کو عطا کرتاہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں میں نے عرض کیا اے میرے مولا ان مناجات کو یاد کرادیں فرمایا کہو ص ۱۳۰

حضرت نے تین مرتبہ اس دعا کو تکرار کیا یہاں تک کہ میں نے اس کو سمجھا اور حفظ کی

۵ ۔ امام زمانہ کی ایک اور نماز

جناب الخلود میں نقل کیا ہے رات سوتے وقت ایک پاک برتن میں پانی ڈال کر پاک کپڑا اس پر ڈال کر سرہانے رکھے جب آخری شب نماز شب کے لئے بیدار ہوجائے تو اس سے تین گھونٹ پانی پی لے اس کے بعد باقی پانی سے وضو کرلے اور قبلہ کی طرف منہ کرے اذان اور اقامہ کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اس میں جو سورہ پڑھنا چاہئے پڑھ سکتاہے اور رکوع میں پچیس ( ۲۵) مرتبہ کہے یا غیاث المستغیثین اور رکوع کے بعد پچیس ( ۲۵) مرتبہ یہی پڑھے اسی طرح پہلے سجدہ میں بھی اور سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد بھی ہر ایک میں پچیس مرتبہ کہے اور دوسری رکعت کو بھی اسی کیفیت کے ساتھ انجام دے مجموعاً تین سو مرتبہ کہے نماز کے بعد اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کرے اور تیس مرتبہ کہے من العبد الذلیل الی المولی الجلیل اس کے بعد اپنی حاجت مانگے انشاء اللہ جلد از جلد حاجت قبول ہوگی۔ اس نماز کو کتاب جنات الخود میں امام زمانہ کی طرف نسبت دی ہے لیکن مرحوم محدث قمی نے کتاب الباقیات الصالحات میں اس کو نماز استغاثہ کے عنوان سے نقل کیا ہے اور اس کو امام زمانہ کی طرف نسبت نہیں دی ہے۔

۶ ۔ نماز اور دعائے توجہ

احمد بن ابراھیم کہتاہے امام زمانہ کی زیارت کا شوق میرے دل میں پیدا ہوا اس لئے جناب ابوجعفر محمد بن عثمان سے شکایت کی جو نواب اربعہ میں سے ایک تھا جناب محمد بن عثمان نے فرمایا کہ کیا دل سے آرزو رکھتے ہو کہ امام زمانہ کی ملاقات ہوجائے میں نے کہا ہاں فرمایا خداوند تعالیٰ کے تمہاری آرزو کو پورا کرے میں تمہارا معاملہ آسان دیکھتاہوں ای ابا عبداللہ ان کی زیارت کا التماس نہ کرو چونکہ غیبت کبریٰ کے دوران ان کی زیارت کا اشتیاق رہتاہے لیکن اس اجتماع سے ان سے سوال نہیں کیا جاسکتاہے یہ آیات الٰہی میں سے ہے لیکن اس کو تسلیم کرنا ضروری ہے لیکن جب آپ اس کی طرف توجہ کرنا چاہیں تو اس زیارت کے ساتھ حضرت کی طرف متوجہ ہوجائیں زیارت اس طرح کریں بارہ رکعت نماز دو دو رکعت کرکے پڑھے اور تمام رکعتوں میں سورہ قل ھو اللہ پڑھے جب محمد و آل محمد پر درود بھیجے تو اس طرح سے خدا سے کلام کرےسلام علی آل یسین ذالک وهوالفضل المبین من عند الله والله ذوالفضل العظیم امامه من یهدیه صراطه المستقیم قد آتاکم الله خلافته یا آل یاسین ۔

۷ ۔ نماز اور دعائے فرج

مہم مشکلات دور کرنے کے لیئے ابو جعفر محمد بن جریر طبری مسند فاطمہ میں کہتے ہیں کہ ابو حسین کا تب نے کہا ابو منصور وزیر کی طرف سے میں نے ایک کام کی ذمہ داری لے لی اس ضمن میں میرے اور اس کے درمیان اختلاف واقع ہوا نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں اس کے ڈر سے چھپ گیا وہ مجھے تلاش کرنے لگا اور مجھے دھمکی بھی دی میں نے ایک مدت تک خوف اور ڈر کی وجہ سے چھپ کر زندگی گزاری میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ شب جمعہ حضرت امام موسیٰ کاظم کی مرقد پر حاضری دوں تا کہ رات کو دعاکروں اور حاجات مانگوں میں حرم میں داخل ہوا تیز بارش ہورہی تھی ابن جعفر خادم حرم سے خواہش کی کہ حرم کے دروازوں کو بند کردے تا کہ حرم میں تنہا ہی رہوں تا کہ رات کو تنہائی میں جو حاجت مانگنا چاہوں مانگوں اور جس سے میں ڈرتا تھا اس سے امن میں رہوں اس نے میری بات مانی اور دروازوں کو بند کردیا آدھی رات کو تیز بارش ہوئی لوگوں کا اس جگہ پر آنا جانا بند ہوا حرم مکمل طور پر تنہا ہوا میں راز و نیاز میں مشغول تھا دعا پڑھتا تھا زیارت کرتا تھا اور نماز پڑھتا تھا اچانک روضہ مطہرہ کے پاؤں کی طرف سے ایک آواز آئی ایک شخص زیارت میں مشغول تھا اس کے بعد اس نے حضرت آدم اور اولوالعزم پیغمبروں پر سلام بھیجا اس کے بعد ایک ایک امام پر سلام بھیجا یہاں تک کہ جب آخری امام کا نام آیا تو اس کا نام نہیں لیا مجھے اس عمل سے تعجب ہوا اپنے آپ سے کہا شاید انہوں نے فراموش کیا ہو یا اس کو نہیں جانتاہو یا اس شخص کا مذہب ایسا ہے جب وہ زیارت سے فارغ ہوئے تو دو رکعت نماز پڑھی اس کے بعد امام جواد کے مرقد کی طرف گیا اسی طرح زیارت کی اور سلام کیا اور دو رکعت نماز پڑھی میں ان کو نہیں جانتا تھا اس لیئے میں اس سے ڈرتا تھا وہ ایک مکمل جوان تھا سفید لباس پہنے ہوئے تھے سر پر عمامہ کے ساتھ تحت الحنک تھا اور بدن پر عباء تھی وہ میری طرف متوجہ ہوا اور فرمایا اے ابوحسین تم دعا ے فرج کیوں نہیں پڑھتے ہو میں نے عرض کیا کہ دعاء فرج کونسی ہے اے میرے آقا تو فرمایا دو رکعت نماز پڑھو اور کہو

يا مَنْ أَظْهَرَ الْجَميلَ وَسَتَرَ الْقَبيحَ ، يا مَنْ لَمْ يُؤاخِذْ بِالْجَريرَةِ وَلَمْ يَهْتِكِ السِّتْرَ ، يا عَظيمَ الْمَنِّ ، يا كَريمَ الصَّفْحِ ، يا مُبْتَدِئَ النِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقاقِها ، يا حَسَنَ التَّجاوُزِ ، يا واسِعَ الْمَغْفِرَةِ ، يا باسِطَ الْيَدَيْنِ بِالرَّحْمَةِ ، يا مُنْتَهى كُلِّ نَجْوى ، وَيا غايَةَ كُلِّ شَكْوى ، وَيا عَوْنَ كُلِّ مُسْتَعينٍ ، يا مُبْتَدِئاً بِالنِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقاقِها ،

”یٰا ربّٰا ہُ “ دس ۱۰ مرتبہ ”یٰا سَیَّدٰاہُ “ دس ۱۰ مرتبہ ، ” یٰا مَوْلاٰہُ ( یٰا مَوْلَیٰاہُ ) “ دس ۱۰ مرتبہ ،”یٰا غٰایَتٰاہُ“د س ۱۰ مرتبہ ،”یٰا مُنْتَھیٰ رَغْبَتٰاہُ“ دس ۱۰ مرتبہ ۔

أَسْأَلُكَ بِحَقِّ هذِهِ الْأَسْماءِ ، وَبِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الطَّاهِرينَ عَلَيْهِمُ السَّلامُ إِلّا ما كَشَفْتَ كَرْبي ، وَنَفَّسْتَ هَمّي ، وَفَرَّجْتَ عَنّي ، وَأَصْلَحْتَ حالي

اس کے بعد جو دعاء مانگنا چاہو مانگو اس وقت دایاں رخسار کو زمین پر رکھو اور سجدہ میں سو مرتبہ کہو

يا مُحَمَّدُ يا عَلِيُّ ، يا عَلِيُّ يا مُحَمَّدُ ، إِكْفِياني فَإِنَّكُما كافِياني ، وَانْصُراني فَإِنَّكُما ناصِراني

اس کے بعد بائیں رخسار کو زمین پر رکھے اور سو مرتبہ کہے ادرکنی یا اس سے زیادہ تکرار کرے اور کہو الغوث الغوث ایک سانس لینے کی مقدار تکرار کرے اور سجدہ سے سر اٹھائے خداوند تعالیٰ اپنے کرم سے تیری حاجت کو قبول کرے گا ان شاء اللہ۔

جس وقت میں نماز اور دعا میں مشغول ہوا وہ باہر چلے گئے میں نے نماز اور دعا تمام کی اور آیاتا کہ ابن جعفر سے اس شخص کے بارے میں پوچھوں کہ وہ کس طرح حرم میں داخل ہوا ہے تو میں نے دیکھا کہ تمام دروازے بند ہیں اور تالا لگا یا ہوا ہے میں نے تعجب کیا اپنے آپ سے کہا شاید یہ یہاں سویا ہوا ہو اورمجھے معلوم نہ ہو میں ابن جعفر کے پاس گیا وہ اس کمرہ سے کہ جس میں حرم کے تیل سے چراگ جل رہا تھا وہاں سے باہر آیا میں نے اس واقعہ کے بارے میں اس سے پوچھا اس نے کہا جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دروازے بند ہیں میں نے سامنے سارا واقعہ بیان کیا اس نے کہا وہ ہمارے مولیٰ صاحب الزمان تھے اور میں نے ایسے موقع پر جب حرم لوگوں سے خالی ہو تو ان کو دیکھا ہے اس نے اس وقت امام کی ملاقات سے محروم ہونے پر افسوس کیا طلوع فجر کے نزدیک حرم مطہر سے باہر آیا اور مقام کرخ کہ جہاں میں چھپا ہوا تھا وہاں پر گیا ابھی ظہر کا وقت نہیں ہوا تھا کہ ابومنصور کے مامور مجھ سے ملاقات کی تلاش میں تھے اور میرے دوستوں سے پوچھ گچھ کرتے تھے ان کے پاس وزیر کی طرف سے ایک امان نامہ تھا اس میں سب نیکیاں لکھی ہوئی تھی میں اپنے کسی ایک دوست کے ساتھ وزیر کے پاس چلا گیا وہ اٹھا اور مجھے بغل گیر کیا میرے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ جو آج تک نہیں دیکھا تھا اور کہا اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ میری شکایت امام زمانہ سے کرتے ہو میں نے کہا کہ میں نے اپنی طرف سے دعا اور درخواست تھی اس نے کہا وائے ہو تجھ پر گذشتہ رات یعنی شب جمعہ خواب میں امام زمان کو دیکھا وہ مجھے اچھے کاموں کا حکم دیتے تھے لیکن اس دفعہ اتنی سختی سے پیش آئے کہ میں ڈر گیا میں نے ان سے کہا لا الہ الا اللہ میں گواہی دیتاہوں کہ وہ حق ہیں گذشتہ شب اپنے مولیٰ کی بیداری کی حالت میں زیارت کی ہے اور مجھ سے وہ باتیں کہیں جو کچھ میں نے حرم امام موسیٰ کاظم(علیہ السلام ) میں دیکھا تھا وہ سب بتادیا اس نے اس واقعہ سے تعجب کیا اور اس نے بہت بری نیکی کو میرے حق میں انجام دیا اور اس کی طرف سے ایسے مقام پر پہنچا کہ میں گمان نہیں کرتا تھا اور یہ سب کچھ صاحب الزمان کی برکت سے ہوا ہے۔

علامہ شیخ علی اکبرنھاوندی الحبقری الحسان میں کہتے ہیں میں نے یہ عمل کئی مرتبہ تجربہ کیا ہے اور میں نے حاجت روائی کے لئے بہت زیادہ موثر دیکھا اس لئے میں چاہتاہوں کہ اس کے موثر ہونے کو اس کے ہم عصر مرحوم ملا محمود عراقی نے جو داراالسلام میں نقل کیا ہے اس کو ذکر کروں اس کتاب میں اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: میں نے اس دعا میں بہت زیادہ معجزہ دیکھا ہے چونکہ اس عمل سے تعجب انگریز آثار کو دیکھا ہے سب سے پہلے یہ نعمت بارہ سو پینسٹھ ہجری میں ملی میں تہران میں امام جمعہ تبریز حاج میرزا باقر تبریزی کے ساتھ آقائی مھدی ملک کے گھر میں مہمان تھا وہ کسی وجہ سے تہران چلے گئے دوبارہ تبریز آنا ممنوع تھا مجھے بھی ان سے جو محبت تھی خرچہ نہ ہونے کے باوجود سفر کیا میں اپنے گھر نہیں لوٹ سکتا تھا چونکہ امام جمعہ کا مہمان تھا خوراک اس کے ساتھ تھی لیکن اور خرچ بھی تھا اور میں اس شہر والوں کے ساتھ آشنا نہیں تھا کسی سے قرض بھی نہیں لے سکتا تھا اس لئے مجھے ذرا تکلیف تھی ایک دن امام جمعہ کے ساتھ صحن میں چار دیواری کے اندر بیٹھا ہوا تھا آرام کر رہا تھا ظہر کے وقت نماز کے لئے اوپر والے کمرہ میں چلا گیا نماز میں مشغول تھا نماز کے بعد الماری میں ایک کتاب کو دیکھا بحارالانوار کی تیرھویں جلد کا ترجمہ تھا اس میں امام زمانہ کے حالت موجود تھے میں نے اس کتاب کو کھولا یہ روایت معجزات کے بارے میں ملی میں نے اپنے آپ سے کہا اس حالت میں جو مجھے سختی ہے میں اس عمل کا تجربہ کرتاہوں اٹھا نماز دعا اور سجدہ کو بجالایا اپنے مشکل کام کے لئے دعا مانگی کمرہ سے باہر آکر امام جمعہ کے پہلو میں بیٹھا اچانک ایک مرد گھر کے دروازے سے داخل ہوا اور امام جمعہ کو ایک خط دیا اور اس کے پاس ایک سفید رومال رکھا امام جمعہ نے خط پڑھا اس کو رومال کے ساتھ مجھے دیا اور کہا یہ تمہارا مال ہے میں نے خط پڑھا خط کو آقا علی اصغر تاجر تبریزی نے لکھا تھا وہ مکتوب اور بیس تومان رومال میں رکھ کر امام جمعہ کو لکھا کہ یہ رقم فلان شخص کو دیدیں میں نے اس واقعہ کی پوری تحقیق کی خط آنے کا رومال آنے کا زمانہ اور عمل کا زمانہ ایک تھا مجھے اس واقعہ سے تعجب ہوا سبحان اللہ کہہ کر ہنس دیا امام جمعہ نے تعجب کی وجہ کو پوچھا میں نے سارا واقعہ بتادیا میں نے کہا کہ جلدی اٹھیں اور انجام دیں وہ اٹھا اسی کمرہ میں گیا نماز ظہر اور عصر پڑھی اس کے بعد اس عمل کو انجام دیا ابھی تھوڑا وقت گزرا تھا کہ خبر پہنچی کہ امیر نے اس کو تہران میں حاضر کر کے اس کو معزول کردیا اور اس کو کاشان بھیجا ہے شاہ نے امام جمعہ سے معذرت کرلی اور اس کو احترام کے ساتھ تبریز بھیجا اس کے بعد میں نے اس عمل کو ذخیرہ کیا سختی میں اور مشکل حاجات میں اس کو انجام دیتا تھا میں نے عجیب و غریب آثار کا مشاہدہ کیا ایک سال وباء کی بیماری نجف اشرف میں پھیلی بہت زیادہ لوگ مرگئے لوگ اس ڈر سے مضطرب ہوگئے اس لئے میں شہر کے چھوٹے دروازہ سے باہر چلا گیا اور دروازہ کے باہر ایک خالی جگہ پر اس عمل کو انجام دیا اور خدا سے چاہا کہ یہ بیماری دور ہوجائے دوسروں کو اطلاع دئے بغیر شہر لوٹ آیا دوسرے دن وباء بیماری کے ختم ہونے کی خبر لوگوں کو دے دی جاننے والے کہنے لگے کہ آپ کیسے یہ کہتے ہو میں نے کہا میں اس کی وجہ نہیں بتاتا لیکن تم تحقیق کرلو کل رات کے بعد اگر کوئی اس بیماری میں مبتلا ہوا تو تم سچے ہو انہوں نے کہا کہ فلانی فلانی آج رات اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہے میں نے کہا ایسا نہیں ہے یقینا کل ظہر سے پہلے یا اس سے پہلے بیمار ہوا ہے تحقیق کی تو انہوں نے دیکھا جیسا میں نے کہا تھا وہ صحیح نکلااس کے بعد بیماری کے کوئی نشان دکھائی نہیں دیا لوگوں نے اس سال بیماری سے نجات حاصل کی لیکن اس کی علت کو نہیں سمجھ سکے کئی بار ایسا ہوا ہے کئی برادران کو سختی میں دیکھا اور اس عمل کو ان کو یاد کرادیا جلدی ان کے مشکلات حل ہوئے یہاں تک کہ ایک دن اپنے کسی برادر کے وہاں تھا اس کے لئے کوئی مشکلات تھیں اس کی مشکل سے باخبر ہوا میں نے یہ عمل اس کو سکھادیا گھر واپس آیا تھوڑی دیر کے بعد دروازے پر کوئی آیا تو اسی شخص کو دیکھا کہ کہتا تھا اسی دعا کی برکت سے میرا مشکل حل ہوا کچھ رقم اس کو ملی کہا تمہیں جتنی ضرورت ہے لے لے میں نے کہا اس عمل کی برکت سے میں محتاج نہیں ہوں لیکن یہ بتاؤ کہ تمہاری مشکل کس طرح حل ہوا اس نے کہا آپ کے جانے کے بعد حرم امیرالمومنین میں چلا گیا اور اس عمل کو انجام دیا روضہ مطہر سے باہر نکلا صحن میں کسی ایک شخص سے ملاقات کی مجھے جتنی رقم کی ضروت تھی اتنی رقم دیکر چلا گیا۔ خلاصہ یہ کہ میں نے اس عمل کا بہت زیادہ اثر دیکھا ہے کہ جلد از جلد میری حاجت قبول ہوئی ہے لیکن جہاں محتاج نہیں اور کوئی اضطرار موجود نہیں وہاں کسی کو نہیں دیاہے میں نے خود بھی فائدہ نہیں اٹھایا اس لئے جب خود اس بزرگوار نے اس دعا کا فرج نام رکھا ہے اس سے پتہ چلتاہے کہ یہ دعا سختی اور تکلیف کے وقت بہت زیادہ موثر ہے۔

۸- امام زمانہ کا نماز استغاثہ

امام زمانہ کی نماز استغاثہ اس طرح ہے کہ سید علی خان کلم الطیب میں فرمایا ہے یہ استغاثہ ہے امام زمانہ سے جہاں پر بھی ہو دو رکعت نماز حمد اور سورہ کیساتھ پڑھ لیں پس قبلہ کی طرف منہ کر کے آسمان کے نیچے بیٹھیں اور کہیں دعا:

سَلامُ اللَّهِ الْكامِلُ التَّامُّ الشَّامِلُ الْعامُّ ، وَصَلَواتُهُ الدَّائِمَةُ وَبَرَكاتُهُ الْقائِمَةُ التَّامَّةُ ، عَلى حُجَّةِ اللَّهِ وَوَلِيِّهِ في أَرْضِهِ وَبِلادِهِ ، وَخَليفَتِهِ عَلى خَلْقِهِ وَعِبادِهِ ، وَسُلالَةِ النُّبُوَّةِ ، وَبَقِيَّةِ الْعِتْرَةِ وَالصَّفْوَةِ ، صاحِبِ الزَّمانِ ، وَمُظْهِرِ الْإيمانِ ، وَمُلَقِّنِ أَحْكامِ الْقُرْآنِ ، وَمُطَهِّرِ الْأَرْضِ ، وَناشِرِ الْعَدْلِ فِي الطُّولِ وَالْعَرْضِ ، وَالْحُجَّةِ الْقائِمِ الْمَهْدِيِّ ، اَلْإِمامِ الْمُنْتَظَرِ الْمَرْضِيِّ ، وَابْنِ الْأَئِمَّةِ الطَّاهِرينَ ، اَلْوَصِيِّ بْنِ الْأَوْصِياءِ الْمَرْضِيّينَ ، اَلْهادِي الْمَعْصُومِ بْنِ الْأَئِمَّةِ الْهُداةِ الْمَعْصُومينَ

اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُعِزَّ الْمُؤْمِنينَ الْمُسْتَضْعَفينَ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُذِلَّ الْكافِرينَ المُتَكَبِّرينَ الظَّالِمينَ

اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مَوْلايَ يا صاحِبَ الزَّمانِ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ أَميرِالْمُؤْمِنينَ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ فاطِمَةَ الزَّهْراءِ سَيِّدَةِ نِساءِ الْعالَمينَ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَابْنَ الْأَئِمَّةِ الْحُجَجِ الْمَعْصُومينَ وَالْإِمامِ عَلَى الْخَلْقِ أَجْمَعينَ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مَوْلايَ سَلامَ مُخْلِصٍ لَكَ فِي الْوِلايَةِ

أَشْهَدُ أَنَّكَ الْإِمامُ الْمَهْدِيُّ قَوْلًا وَفِعْلًا ، وَأَنْتَ الَّذي تَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطاً وَعَدْلاً ، بَعْدَ ما مُلِئَتْ جَوْراً وَظُلْماً ، فَعَجَّلَ اللَّهُ فَرَجَكَ ، وَسَهَّلَ مَخْرَجَكَ ، وَقَرَّبَ زَمانَكَ ، وَكَثَّرَ أَنْصارَكَ وَأَعْوانَكَ ، وَأَنْجَزَ لَكَ ما وَعَدَكَ ، فَهُوَ أَصْدَقُ الْقائِلينَ « وَنُريدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوارِثينَ »

يا مَوْلايَ يا صاحِبَ الزَّمانِ ، يَابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، حاجَتي كَذا وَكَذا ، ثمّ اذكر حاجتك وقل : فَاشْفَعْ لي في نَجاحِها ، فَقَدْ تَوَجَّهْتُ إِلَيْكَ بِحاجَتي ، لِعِلْمي أَنَّ لَكَ عِنْدَ اللَّهِ شَفاعَةً مَقْبُولَةً ، وَمَقاماً مَحْمُوداً ، فَبِحَقِّ مَنِ اخْتَصَّكُمْ بِأَمْرِهِ ، وَارْتَضاكُمْ لِسِرِّهِ ، وَبِالشَّأْنِ الَّذي لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ ، سَلِ اللَّهَ تَعالى في نُجْحِ طَلِبَتي ، وَ إِجابَةِ دَعْوَتي ، وَكَشْفِ كُرْبَتي

کذا کذا کی جگہ اپنی حاجت کو بیان کریں اور دعا کریں جو بھی چاہیں تو وہ حاجت قبول ہوگی۔

علامہ بزرگوار شیخ محمود عراقی کتاب دارالسلام میں کہاہے کہ میں نے اس عمل سے تجربہ کیا اس سے تعجب انگیز آثار کو مشاہدہ کیا دوسرا سفر بارہ سو پچھتر ہجری میں کی

علماء میں سے ایک نے اس عمل کا تجربہ کیا اور اپنے مہم امور میں اس نے عمل کیا جو اہلیت نہیں رکھتا تھا اس کو یاد نہیں کرتے تھے میں نے اس عمل کو اس سے دریافت کیا ہے۔ درالسلام میں کہا ہے ظاہر یہ ہے کہ چاہیئے اس نماز میں سورہ فتح اور سورہ نصر کو پڑھا جائے ہم عصر فاضل کا بھی یہی نظریہ تھا بعید نہیں کہ اس کا وقت بھی آدھی رات ہو چونکہ راوی نے اس وقت اس عمل کے بجا لانے کا حکم دیا ہے اور کلام میں اس وقت کے علاوہ کوئی اور وقت نہیں ہے قدر متعین وہی آخری آدھی رات کا وقت ہے اس عالم نے بھی آخری شب کا وقت معین نہیں کیا فاضل ہم عصر کتاب البلاد الامین سے کفحمی نے نقل کیا ہے علاوہ اس کے کہ دونوں سورہ میں ہیں چاہے کہ نماز اور زیارت سے پہلے غسل کرلے اس نے کتاب مصباح الزائر میں نقل کیا ہے کہ سورہ معین نہیں ہے اس بناء پر سورہ کاتعین اظہر ہے وقت کا تعین بھی اگر اقویٰ نہ ہو تو احوط ہے لیکن اظہر یہ ہے کہ نماز اور زیارت سے پہلے غسل کا کوئی اعتبار نہیں ہے اگر چہ مستحب ہے کہ غسل کرے۔

۹ ۔ امام زمانہ کی خدمت میں نماز ہدیہ

سید بن طاوؤس فرماتے ہیں کہ ابو محمد صمیری سلسلہ سند کے ساتھ ائمہ معصومین سے نقل کرتے ہیں فرماتے ہیں اگر ممکن ہو نماز واجب اور نافلہ نماز میں اضافہ کرنا۔ تو اضافہ کرے اگر چہ دو ررکعت کی مقدار پر زور بجالائے اور اس کو ہر روز آئمہ معصومین کی خدمت میں ھدیہ بھیجے اس طریقے پر کہ اپنی نماز کو پہلی رکعت میں شروع کرے واجب نماز کی طرح ساتھ مرتبہ تکبیر یا تین مرتبہ یا ایک مرتبہ رکوع وسجود کے ذکر کے بعد تین مرتبہ کہے صلی اللہ علی محمد و آلہ الطیبین الطاہرین پس تشہد اور اسلام کے بعد چودہویں دن کے بعد نماز امام حاضر کی خدمت میں ھدیہ کرنے اور کہے ۱۴۳ اللھم ۔۔ انت تا آخر

۱۰ ۔ امام زمانہ کے لئے نماز کا ھدیہ

شیخ بزرگوار ابوجعفر طوسی کتاب مصباح کبیر میں کہتے ہیں نماز ھدیہ آٹھ رکعت ہے معصوم اماموں سے روایت ہوئی ہے انسان کے لئے ضروری ہے کہ جمعہ کے دن آٹھ رکعت نماز پڑھے چار رکعت رسول خدا کی خدمت میں دوسرے چار رکعت حضرت فاطمہ زھراء کے لئے ھدیہ کرے پھر اسی طرح ہر روز چار رکعت پڑھے اور آئمہ میں سے کسی ایک کے لئے ھدیہ پیش کرے جمعرات کے دن چار رکعت نماز پڑھے اور امام صادق(علیہ السلام ) کو ھدیہ پیش کرے۔

جمعہ کے دن دوبارہ آٹھ رکعت نماز پڑھے چار رکعت حضرت رسول کے لئے اور چار رکعت حضرت فاطمہ زھرا کے لئے ھدیہ کرے اس کے بعد ہفتہ کے دن چار رکعت نماز پڑھے اور حضرت امام کاظم کو ھدیہ پیش کرے اور اسی طرح جمعرات کے دن چار رکعت نماز پڑھے اور حضرت امام زمانہ کے لئے ھدیہ پیش کرے اور دو رکعت کے درمیان اس دعا کو پڑھے

أَللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلامُ ، وَمِنْكَ السَّلامُ ، وَ إِلَيْكَ يَعُودُ السَّلامُ ، حَيِّنا رَبَّنا مِنْكَ بِالسَّلامِ أَللَّهُمَّ إِنَّ هذِهِ الرَّكَعاتِ هَدِيَّةٌ مِنّي إِلَى الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ ، فَصَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَبَلِّغْهُ إِيَّاها ، وَأَعْطِني أَفْضَلَ أَمَلي وَرَجائي فيكَ ، وَفي رَسُولِكَ صَلَواتُكَ عَلَيْهِ وَآلِهِ ]وَفيهِ[ ، وتدعو بما

جو چاہتاہے اس کے لئے بھی دعا مانگے۔

۱۱ ۔ امام زمانہ کے لئے نماز استغاثہ

کتاب التحفة الرضویہ میں لکھتے ہیں عالم بزرگوار سید حسین ھمدانی نجفی نے مجھ سے کہا جس کسی کو کوئی حاجت ہو جمعرات اور جمعہ کی رات آسمان کے نیچے حالانکہ سر اور پاؤں برہنہ ہوں دو رکعت نماز پڑھے نماز کے بعد اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرے پانچسو نوے مرتبہ کہے یا حجة القائم اس کے بعد سر کو سجدہ میں رکھے اور ستر مرتبہ کہے یا صاحب الزمان اغثنی اور اپنی حاجت کی درخواست کرے یہ عمل ہر مہم حاجت کے لئے مجّرب ہے اگر ان دو راتوں میں حاجت پوری نہ ہو دوبارہ دوسرے ہفتہ میں اس عمل کو انجام دے اگر پھر بھی حاجت قبول نہ ہوئی دوبارہ تیسرے ہفتہ میں انجام دے یقینا اس کی حاجت قبول ہوگی صاحب کتاب التحفة الرضویہ نے کہا ہے کہ سید محمد علی جواہری حائری نے مجھ سے نقل کیا ہے کہ جو اس نماز کو حاجت کے لئے انجام دیتاہے اسی رات حضرت امام مھدی کو خواب میں دیکھتاہے اور اپنی حاجت کو حضرت کی خدمت میں پیش کرتاہے خداوند تعالیٰ امام زمانہ کی برکت سے اس کی مشکل کو حل اور اس کی حاجت کو پوری کرتاہے۔

۱۲ ۔ نماز استغاثہ کا ایک اور طریقہ

علامہ بزرگوار صدر الاسلا م ھمدانی اپنی عمدہ کتاب تکالیف الانام فی غیبة الامام میں اس عمل کو ایک اور طریقہ سے نقل کیا ہے اس نے سید سند استاد اور عالم ربّانی حکیم فقیہ پرہیزگار سید محمد ہندی نجفی سے اس نے عالم بزرگوار سید حسن قزوینی سے اس نے سید حسین شوشتری امام جماعت سند کے ساتھ سید علی خان سے نقل کیا ہے۔ جو صحیفہ سجادیہ کا شارح ہے کہتاہے کہ شب جمعرات اور جمعہ شب جمعہ آسمان کے نیچے چھت کے اوپر سر برہنہ دو رکعت نماز پڑھتا تھا اس کے بعد ۵۹۵ مرتبہ کہتا تھا یا حجة اللہ سے مجموع عدد وہی عبارت ہوتی ہے اور اس توسل کی تاثیر پر تجربہ ہوا ہے وہ اضافہ کرتاہے کہ عدد یا حجة القائم عبارت ہے ۱۰+ ۱ + ۸+ ۳+ ۱۰۰+ ۱-+ ۳۰ + ۱۰۰ + ۱ + ۴۰) کہ مجموعی طور پر ۵۹۵ ہے یہ ایک خاص عمل میں ہے اس کی حفاظت کی کوشش کریں میں نے بارھا اس عمل کے ساتھ تجربہ کیا ہے۔

۱۳ ۔ شبع جمعہ میں امام زمانہ کی نماز

سید بزرگوار علی بن طاوؤس فرماتے ہیں کتاب کنوز النجاح فقیہ ابو علی فضل بن حسن طبرسی کی ہے اس میں دیکھا ہے کہ ہمارے امام زمانہ سے اس طرح منقول ہے حسین بن محمد بزوفری کہتاہے کہ صاحب العصر کی جانگ سے اس طرح صادر ہوا ہے جس کسی کو خدا سے کوئی حاجت ہو شب جمعہ آدھی رات کے بعد غسل کرے اور نماز پڑھنے کی جگہ جائے اور دو رکعت نماز پڑھ لے پہلی رکعت میں سورہ حمد کو پڑھ لے جب ایّاک نعبد و ایّاک نستعین تک پہنچے تو سو مرتبہ اس آیہ کو دھرائے اس کے بعد آخری سورة تک پڑھ لے اور ایک مرتبہ سورہ توحید پڑھ لے اس کے بعد رکوع اور سجود بجا لائے اور اس کے ذکر کو سات مرتبہ پڑھے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طریقے پر پڑھے اور یہ دعا پڑھے اس کے بعد جو حاجت بھی ہو سوائے قطع صلہ رحم کے علاوہ جو بھی چاہے خدا سے مانگے اللہ تعالیٰ یقینا اس کی حاجت کو پوری کرے گا۔

اور دعا یہ ہے

أَللَّهُمَّ إِنْ أَطَعْتُكَ فَالْمَحْمَدَةُ لَكَ ، وَ إِنْ عَصَيْتُكَ فَالْحُجَّةُ لَكَ ، مِنْكَ الرَّوْحُ وَمِنْكَ الْفَرَجُ ، سُبْحانَ مَنْ أَنْعَمَ وَشَكَرَ ، سُبْحانَ مَنْ قَدَرَ وغَفَرَ

أَللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ قَدْ عَصَيْتُكَ ، فَإِنّي قَدْ أَطَعْتُكَ في أَحَبِّ الْأَشْياءِ إِلَيْكَ وَهُوَ الْإيمانُ بِكَ ، لَمْ أَتَّخِذْ لَكَ وَلَداً ، وَلَمْ أَدْعُ لَكَ شَريكاً ، مَنّاً مِنْكَ بِهِ عَلَيَّ لا مَنّاً مِنّي بِهِ عَلَيْكَ ، وَقَدْ عَصَيْتُكَ يا إِلهي عَلى غَيْرِ وَجْهِ الْمُكابَرَةِ ، وَلَا الْخُرُوجِ عَنْ عُبُودِيَّتِكَ ، وَلَا الْجُحُودِ لِرُبُوبِيَّتِكَ ، وَلكِنْ أَطَعْتُ هَوايَ ، وَأَزَلَّنِي الشَّيْطانُ

فَلَكَ الْحُجَّةُ عَلَيَّ وَالْبَيانُ ، فَإِنْ تُعَذِّبْني فَبِذُنُوبي غَيْرَ ظالِمٍ ، وَ إِنْ تَغْفِرْ لي وَتَرْحَمْني ، فَإِنَّكَ جَوادٌ كَريمٌ ، يا كَريمُ يا كَريمُ

ایک سانس میں جتناپڑھ سکتا ہے پڑھے پھر کہے:

يا آمِناً مِنْ كُلِّ شَيْ‏ءٍ ، وَكُلُّ شَيْ‏ءٍ مِنْكَ خائِفٌ حَذِرٌ ، أَسْأَلُكَ بِأَمْنِكَ مِنْ كُلِّ شَيْ‏ءٍ ، وَخَوْفِ كُلِّ شَيْ‏ءٍ مِنْكَ ، أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَأَنْ تُعْطِيَني أَماناً لِنَفْسي وَأَهْلي وَوَلَدي ، وَسائِرِ ما أَنْعَمْتَ بِهِ عَلَيَّ ، حَتَّى لا أَخافَ أَحَداً ، وَلا أَحْذَرَ مِنْ شَيْ‏ءٍ أَبَداً ، إِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَديرٌ ، وَحَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكيلُ

يا كافِيَ إِبْراهيمَ نُمْرُودَ ، يا كافِيَ مُوسى فِرْعَوْنَ ، أَسْأَلُكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَأَنْ تَكْفِيَني شَرَّ فُلانِ بْنِ فُلانٍ

اور فلان بن فلان کی جگہ کہ جس شخص کے شر سے ڈرتاہے اس کا نام لے خداوند تعالیٰ ان شاء اللہ اس کے شر سے محفوظ رکھے گا اس کے بعد سجدہ میں چلا جائے اور اپنی حاجت خدا سے مانگے اور خدا سے تضرع اور زاری کرے چونکہ کوئی مومن مرد یا عورت نہیں ہے کہ جو بھی یہ نماز پڑھ لے اور اس دعاء کے ساتھ خلوص کے ساتھ نیت کرے مگر یہ کہ آسمان کے دروازے اجابت کے لئے اس کی طرف کھل جاتے ہیں۔ اسی وقت اور اسی رات جو حاجت بھی ہو قبول ہوجائے گی یہ اللہ کا فضل ہمارے لئے اور لوگوں کے لئے ہے۔

۱۴ ۔ امام زمانہ کی ایک اور نماز

نجم الثاقب میں اس نماز کو کتاب سید فضل اللہ راوندی سے یہ نماز حضرت امام زمانہ کے عناون سے نقل کیا ہے اور کہا ہے نماز تمام ہونے کے بعد سو مرتبہ درود بھیجے لیکن جس دعا کو میں نے ذکر کیا تھا اس کو بیان نہیں کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ نماز خاص زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔

۱۵ ۔ ستائیس ماہ رجب کے دن کی نماز

احمد بن علی بن روح کہتاہے اس نماز کو محسن بن عبدالحکیم سجری نے میرے لئے نقل کیا ہے اور میں نے اس کو اس کی کتاب سے لکھا ہے وہ کہتا تھا میں نے اس نماز کو کتاب ابونصر جعفر بن محمد سے لکھا ہے وہ کہتا تھا کہ یہ نماز ابوالقاسم حسین بن روح کی طرف سے صادر ہوئی ہے۔ ستائیس رجب کے دن کی نمازیں اس میں بارہ رکعت نماز کا ذکر ہوا ہے کہ ہر رکعت میں سورہ حمد کو جس سورہ کے ساتھ چاہیں پڑھ لیں اور نماز تمام کریں پس ہر دو رکعت کے بعد یہ دعا پڑھے ۱۴۸ الحمد اللہ

جب نماز اور دعا پڑھ لے تو سورہ حمد اور قل ھوا اللہ احد قل یا ایھالکافرون۔ معوذتین۔ انا انزلناہ فی لیلة القدر آیہ الکرسی ہر ایک کو سات مرتبہ پڑھ لے اس کے بعد سات مرتبہ کہے لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و سبحان اللہ ولا حول ولا قوة الا باللہ پھر اس کے بعد سات مرتبہ پڑھیں اللہ اللہ ربّی لا اشرک بہ شیئاً اس کے بعد جو پسند کریں دعا مانگیں

۱۶ ۔ پندرہ شعبان کی رات کی نماز

ابو یحی صنعانی نے روایت کی ہے کہ اس کو قابل اطمینان تیس آدمیوں سے نقل کیا گیا ہے کہ امام باقر اور امام صادق نے فرمایا جب بھی پندرہ شعبان کی رات ہوجائے تو چار رکعت نماز پڑھ لے ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورہ حمد اور سو مرتبہ سورہ قل ھو اللہ احد پڑھے اور نماز کے بعد یہ دعا مانگے ۱۴۹ اللھم

۱۷ ۔ پندرہ شعبان کی رات ایک اور نماز

ابو یحیٰ نے امام صادق سے روایت کی ہے اس نے امام باقر سے کہ پندرہ شعبان کی رات کے فضیلت کے بارے میں سوال ہوا تو حضرت نے فرمایا نیمہ شعبان کی رات شب قدر کے بعد سب سے افضل ترین رات ہے اس رات خداوند اپنا فضل اپنے بندوں کو عطا کرتاہے ان پر احسان کرتاہے اور بخشش دیتاہے اس بناء پر اس رات خدا سے قرب حاسل کرنے کی کوشش کرو چونکہ خدا نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ اس رات کسی سائل کو رد نہیں کرے گا جب تک خدا سے کسی معصیت کا سوائل نہ کرے یہ وہ رات ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اس کو ہم اھلبیت کے لئے قرار دیا ہے شب قدر کے برابر کہ اس کو پیغمر کے لئے قراردیا ہے ۱۵۰ پس اس رات خدا سے دعا کی کوشش کرو چونکہ جو بھی اس رات سو مرتبہ تسبیح پڑھے سوبار حمد پڑھے سو مرتبہ تکبیر کہے تو خداوند تعالیٰ ان کے گذشتہ گناہوں کو بخشتیاہے اور دنیا اور آخرت کی حاجتوں کو اسی طرح وہ حاجتیں کہ جن کا محتاج ہے لیکن خدا سے طلب نہیں کیا ہے یہ بھی خدا کے فضل سے عطا کرتاہے۔ ابو یحییٰ کہتاہے کہ میں نے امام صادق سے عرض کیا دعاؤں میں سے کس دعاء میں زیادہ فضیلت ہے حضرت نے فرمایا جب بھی نماز عشا پڑھ لیں تو دو رکعت نماز پڑھ لیں پہلی رکعت میں سورہ حمد اور سورة قل یا ایھا الکافرون اور دوسری رکعت میں سورہ حمد اور سورہ قل ھو اللہ احد کو پڑھے نماز کے بعد ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ۳۳ مرتبہ الحمد اللہ اور ۳۴ مرتبہ کہو اللہ اکبر اس وقت کہو ۱۵۱ یا من الیہ

اس کے بعد سجدہ میں بیس مرتبہ یا رب یا اللہ کہو اور سات مرتبہ کہولا حول ولا قوة الّا باللّٰه اور دس مرتبہ کہو ماشاء اللہ اور دس مرتبہ کہو لا قوة الّا باللّٰہ اس کے بعد درود بھیجیں اور اللہ سے اپنی حاجت مانگیں خداوند تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کو عطا کرے گا۔

مولف: چار رکعت بھی وارد ہے کہ جو ظہر عاشور کے وقت پڑھی جاتی ہیں اس کے بعد ایک دعا پڑھی جاتی ہے طولانی کی وجہ سے مہینوں کے دعاؤں ادعیہ ص ۲۴۱ میں ذکر کیا گیا ہے

آداب دعا

واضح ہو کہ دعا مانگنے والا دعاء کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے دعا مانگے تو حاجت روائی کے لئے عجیب غریب آثار دیکھے گا اس لئے دعاء کے آداب اور شرائط کو بیان کرتاہوں کتاب المختار من کلمات الامام المھدی میں کہتے ہیں دعا کے اداب کو دیکھیں کہ کس سے دعا مانگتے ہیں کس طرح دعا مانگتے ہیں کیوں دعا مانگتے ہیں یہ بھی دیکھیں کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں کس قدر سوال کرتے ہیں کس لئے سوال کرتے ہیں دعا یعنی طلب اجابت تمام موارد میں تمہاری جانب سے تمام امور کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں ۱ اگر دعاء کو شرائط کے تحت انجام نہ دیں۔ تو پھر اجابت کے منتظر نہ ہوجائیں چونکہ وہ ظاہر اور باطن کو جانتاہے ہوسکتاہے کہ کدا سے ایک چیز کو مانگیں تو اس باطن کے خلاف کو جانتا ہو۔ یہ بھی جاننا چاہیئے اگر خدا ہمیں دعا کا حکم نہ دیتا لیکن خلوص کے ساتھ ہماری دعا قبول ہوجاتی تو فضل کے ساتھ ہماری دعا قبول کرلیتا پس جب خدا دعا کی التجابت کا ضامن ہوا ہے جب اسے تمام شرائط کے ساتھ انجام دیا جائے تو پھرکس طرح دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔ دعاء کے آداب یہ ہیں۔

اول آداب :دعا بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ دعا کا آغاز کرے

پیغمبر خدا نے فرمایا ہےلا یردّ دعاء اوّله بسم الله الرحمن الرحیم جس دعا کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم ہو وہ دعا رد نہیں ہوتی۔

دوسرا آداب: دعا سے پہلے خدا کی حمد و ثنا بجا لائے

ہمارے مولیٰ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا ہے کل دعاء لا یکون قبلہ تمحید فھو ابتر جس دعا سے پہلے خدا کی حمد و ثنا نہ کی جائے وہ دعا ناقص اور ابتر ہوتی ہے۔ ایک روایت میں ذکر ہوا ہے چنانچہ حضرت امیرالمومنین کی کتاب میں اس طرح ذکر ہوا ہے دعا سے پہلے حمد ثنا بجا لائیں اگر اللہ سے کوئی چیز مانگنا چاہیں تو سب سے پہلے اس کی تعریف کریں راوی کہتاہے میں نے کہا کہ میں کس طرح اس کی تعریف کروں فرمایا کہو:یا من اقرب الیّ من حبل الورید یا من یحول بین المرء و قبله یا من هو بالمنظر الاعلی یا من لیس کمثله شئی ۔ اے خدا کہ جو میری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے اے وہ کہ جو انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل اور مانع ہوتے ہیں اے وہ ذات کہ جو منظر اعلیٰ ہے کہ جو بلند مرتبہ رکھتاہے اے وہ ذات کہ جو تیرے مانند کوئی نہیں ہے۔

تیسرا آداب: محمد اور آل محمد پر درود بھیجیں

پیغمبر خدا نے فرمایا :صلاتکم علی اجابة لدعائکم و زکاة لأعمالکم ۔تمہارا درود و صلوة بھیجنا مجھ پر تمہاری دعا کے قبول ہونے کا سبب ہے اور تمہارے اعمال کے پاک و پاکیزہ ہونے کا سبب ہے۔

ہمارے مولیٰ امام جعفر صادق نے فرمایا:لا یزال الدعاء محبوباً حتیٰ یصلّی علی محمد و آل محمد ۔ دعا ہمیشہ حجاب میں ہوتی ہے یہاں تک محمد و آل محمد پر درود بھیجیں ایک دوسری حدیث میں فرمایا:من کانت له الی اللّٰه عز و جلّ حاجة فلیبدء بالصلوة علی محمد و آله ثم یسأله حاجتة ثم یختم بالصلوة علی محمد و آل محمد بانّ الله اکرم من ان یقبل الطرفین و یدع الوسط اذا کانت الصلوة علی محمد و آل محمد لا تحجب عنه ۔ جس کسی کو بھی خدا کی طرف کوئی حاجت ہو اس کو چاہیے کہ دعا کا آغاز محمد و آل محمد سے کرے اس کے بعد خدا سے اپنی حاجت مانگے اور دعا کے بعد محمد و آل محمد پر درود بھیجے چونکہ خداوند تعالیٰ کریم ہے کہ اس دعا کے دونوں اطراف کو قبول کرے اور درمیان کو چھوڑ دے اور قبول نہ کرے چونکہ محمد و آل محمد پر درود بھیجنے پر حجاب واقع نہیں ہوتاہے۔

چوتھا آداب: معصومین کو اپنا شفیع قرار دے

ہمارے مولا حضرت امام موسیٰ کاظم(علیہ السلام ) نے فرمایا اگر کسی چیز کے بارے میں خدا کی طرف محتاج ہو تو کہو:اللّٰهم انّی اسألک بحق محمد و علی فان لهما عندک شاناً من الشان و قدراً من القدر فبحق ذالک القدر ان تصلّی علی محمد و آل محمد و ان تفعل بی کذا و کذا ۔بارالھٰا محمد و علی کو واسطہ دیکر سوال کرتاہوں چونکہ یہ دونوں بزرگ تیرے نزدیک بڑا مقام رکھتے ہیں اس شان اور منزلت کا واسطہ کہ محمد و آل محمد پر درود بھیج دے اور میری فلان فلان حاجت کو قبول فرما۔

چونکہ جب بھی قیامت کا دن آئے گا کوئی ملک مقرب پیغمبر مرسل اور مومن ممتحن باقی نہیں رہے گا مگر یہ کہ اس دن ان دونوں کے محتاج ہیں زیارت جامعہ کبیرہ میں پڑھتے ہیںاللّٰهم انّی لوجوجدت شفعاء اقرب الیک من محمد و اهل بیته الاخیار الائمة الابرار لجعلتهم شفعائی ۔

خداوندا اگر محمد اور اھل بیت سے زیادہ کوئی اور تیرے زیادہ نزدیک ہوتے تو تیری درگاہ میں ان کو شفیع قرار دیتا واضح ہے حاجت قبول ہونے کے لئے خدا کی درگاہ میں وسیلہ قرار دینا چاہیئے چونکہ خدانے قرآن مجید میں اس کے بارے میں حکم دیا ہے کہ جہاں فرماتاہےوابتغوا الیه الوسیلة اس کے ساتھ قرب حاصل کرنے کے لئے وسیلہ تلاش کرو اور کوئی وسیلہ بھی محمد و آل محمد سے زیادہ خدا کے نزدیک نہیں ہے متعدد روایات میں بیان ہوا ہے کہ کلام الہی میں وسیلہ سے مراد ائمہ طاہرین ہیں۔

یہ منافات نہیں رکھتا کہ وسیلہ سے مراد سیڑھی سے لیں چونکہ وہاں سیڑھی سے مراد ترقی کا وسیلہ ہے۔

ایک روایت میں حضرت رسول سے منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا: ھم العروة الوثقیٰ والوسیلہ الی اللہ یعنی یہی اھل بیت محکم رسی اور خدا کی طرف وسیلہ ہیں اس کے بعد اس آیہ شریفہ کی تلاوت کی فرمایا:یا ایهاالذین آمنو اتقو الله و ابتغو الیه الوسیلة یہ بھی احتمال ہے کہ ایمان اور تقویٰ کی صفت خدا تک وسیلہ کے لئے شرط ہو چونکہ وسیلہ ایمان اور تقویٰ کے بغیر فائدہ نہیں رکھتا اگر یہ دونوں اکٹھے موجود ہوں تب فائدہ دے گا چونکہ ولایت کا قبول کرنا ممکن نہیں ہے مگر ایمان اور تقویٰ کے ساتھ

پانچواں آداب دعا دعا سے پہلے اپنے گناہوں کا اعتراف کرے۔

ایک روایت امام صادق(علیہ السلام ) سے منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا: انما ھی المدحة، ثم الاقرار بالذنب ثم المسالة، واللہ ما خرج عبد من ذنب الّا بالاقرار۔دعا میں سب سے پہلے خدا کی مدح و ثناء کرے اس کے بعد اپنے گناہوں کا اعتراف کرے پھر اس کے بعد اپنی حاجت مانگے۔

چھٹا آداب: دل سے غافل ہو کر دعا نہ مانگے بلکہ جب درگاہ الٰہی کی طرف متوجہ ہو تب دعا مانگے

چنانچہ امام صادق نے فرمایا :ان الله لا یستجیب دعاء بظهر قلب ساه فاذا دعوت فاقبل بقلبک ثم استیقن الا حاجبة ۔ جو شخص بھی خدا سے غافل دل کے ساتھ دعا مانگتاہے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے جب دعا کرنا چاہو تو اپنے دل کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ اس وقت یقینا تمہاری دعا قبول ہوگی۔ چونکہ جو بھی پراگندہ فکر کے ساتھ خدا کو پکارے وہ حقیقت میں دعا نہیں مانگتاہے اور دعا قبول نہیں ہوتی ہے صرف اس صورت میں دعا قبول ہوتی ہے جب توجہ قلبی کے ساتھ اللہ کو پکارے۔

ساتواں آداب: دعا کرنے والے کا لباس اور غذا پاکیزہ ہو

اچھی دعا اس وقت ہے کہ جب عمل اچھا ہو اچھا عمل حرام کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتاہے قرآن میں فرماتاہے: یا ایھا الرسل کُلُو من الطیباتِ و اعمَلو صالحاً اے پیامبر پاک و پاکیزہ غذا کھالو اور نیک کام انجام دو اس آیہ شریفہ میں نیک عمل میں حلال اور پاکیزہ غذا لازم و ملزوم ہے پیغمبر خدا نے فرمایامن احبّ ان یستجاب دعاؤه فلیطیب مطعمه و مکسبه جو چاہتاہے کہ اس کی دعا قبول ہوجائے تو وہ غذا اور اپنے کمائی کو پاک اور حلال قرار دے ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ طھّر ما کلک،و لا تدخل فی بطنک الهرام ۔ اپنی غذا کو پاکیزہ قرار دو اور احرام مال کو اپنے شکم میں داخل نہ کرو ایک اور روایت میں آیا ہےاطب کسبک تستجاب دعوتک فان الرجل یرفع القمة الی فیه حراماً فما تستجاب له اربعین یوماً ۔ اپنی کمائی کو پاکیزہ اور حلال قرار دو تا کہ تمہاری دعا مستجاب ہوجائے جب انسان ایک حرام لقمہ اپنے منہ میں ڈالتاہے تو اس کی دعا چالیس روز تک قبول نہیں ہوتی ہے۔ حدیث قدسی میں آیا ہےفمنک الدعاء و علیّ الاجابهة فلا تحجب عنّی دعوة آکل الحرام اے میرا بندہ تیری طرف سے دعا کرنا اور قبولیت میری طرف سے ہے کوئی بھی دعا مجھ سے پوشیدہ نہیں ہوتی ہے صرف اس شخص کی دعا کہ جس نے حرام کھایا ہو ہمارے مولا امام صادق(علیہ السلام ) نے فرمایا: من سرّہ ان یستجاب دعاؤہ فلیطیّب کسبہ جو شخص چاہتا ہو کہ اس کی دعا مستجاب ہوجائے اس کو چاہیئے کہ وہ اپنی کمائی کو پاکیزہ اور حلال قرار دے۔

ایک دوسری روایت میں فرمایا:اذا اراد اهدکم ان یستجاب له فلیطیب کسبه و لیخرج من مظالم الناس و ان الله لا یرفع دعاء عبد وفی بطنه هرام، او عنده مطلمة لاهد من خلقه ۔ تم میں سے جو شخص چاہے کہ اس کی دعا قبول ہو اس کو چاہیے کہ اس کی کمائی پاکیزہ اور حلال ہو اور خود لوگوں کے حقوق سے نجات حاصل کرلے چونکہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی دعا کو قبول نہیں کرتاہے کہ جس کے پیٹ میں حرام ہے یا لوگوں کا حق اس کے ذمہ میں ہے اس کی دعا اوپر نہیں جاتی ہے اور دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔

آٹھواں آداب: لوگوں کے حقوق جو اس کے ذمہ میں ہے اس کو ادا کرے

حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام ) نے فرمایا :انّ الله عزوجل یقول و عزتی وجلالی لا اجیب دعوة مظلوم دعانی فی مطلمة ظلمها و الاحد عنده مثل تلک المظلمة الله ۔تعالیٰ فرماتاہے: میری عزت اور جلال کی قسم اس مظلوم کی دعا کہ جس پر ظلم ہوا ہو حالانکہ اس نے خود بھی کسی اور پر اس قسم کا ظلم کیا ہو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا:انّ الله اوحی الی عیسیٰ بن مریم: قل للملاء من بنی اسرائیل انّی غیر مستجیب لاحد منکم دعوة و الاهد من خلقی قبله مظلمه خدا نے عیسیٰ پر وحی کی بنی اسرائیل کے گروہ سے کہو جس کے پاس کسی کا حق موجود ہے میں اس کی دعا کو قبول نہیں کرتاہوں۔

نواں آداب: گناہ حاجت قبول کرنے کے لئے مانع ہے

امام محمد باقر فرمایا:انّ العبد یسال الحاجة فیکون من شأنه قجاوٴ ها الی اجل قریب او الی وقت بطییٴ فیذنب العبد ذنباً فیقول الله تبارک و تعالیٰ للملک: لاتقضِ حاجته و احرمه ایاها فانّه تعرّض لسخطی و استوجب الحرمان منّی بندہ خدا سے ایک حاجت مانگتاہے بندہ کی شان یہ ہے کہ اس کی حاجت جلد یا ایک مدت کے بعد قبول کی جائے لیکن بندہ گناہ کا مرتکب ہوجاتاہے تو اللہ ایک فرشتہ سے فرماتاہے اس کی حاجت قبول نہ کرو اور اس کو اس سے محروم کردو اس نے مجھ کو ناراض کیا ہے اور محروم ہونے کا سزاوار میری طرف سے ہوا ہے۔

دسواں آداب: اجابت دعا کے لئے حسن ظن رکھتاہو

حسن ظن سے مراد طلب یقین ہے چونکہ خدا کی طرف سے وعدہ خلافی محال ہے اور آیہ کے مطابق ادعونی استجب لکم مجھے پکارو تا کہ میں تمہاری پکار کو قبول کرلوں خدا نے دعا مانگنے کا حکم دیا ہے اور دعا کے قبول کرنے کی ضمانت دی ہے پس اللہ وعدہ کلافی نہیں کرتاہے اسی طرح قرآن مجید میں فرمایا ہے:وعد الله لا یخلف الله وعده ولکنّ اکثر الناس لا یعلمون یہ اللہ کا وعدہ ہے اور خداوعدہ خلافی نہیں کرتاہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں خدا کس طرح وعدہ خلافی کرتاہے حالانکہ وہ بے نیاز مہربان اور رحیم ہے حدیث میں ہے۔فاذا دعوت فاقبل بقلبک ثم استیقن الاجابة ۔ جب دعا مانگنا چاہو تو اپنے دل کے ساتھ خدا کی طرف متوجہ ہوجاؤ اس کے بعد دعا کے قبول ہونے پر یقین رکھو۔

گیارھواں آداب دعا: اللہ حضور سے بار بار دعا مانگو

علامہ مجلسی نے اس کو دعا کے آداب اور شرائط میں سے قرار دیا ہے اور فرمایا ہے آسمانی کتاب میں قرآن سے پہلے آیا ہے:لا تملّ من الدعاء فانی لااملّ من الاجابة دعا سے ملول اور تھک نہ جاوء چونکہ میں ملول اور تھکے ہوئے انسان کی دعا قبول نہیں کرتاہوں عبدالعزیز نے امام صادق سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایاان العبد اذا دعا لم یزل الله فی حاجته ما لم یستعجل جب بندہ دعا مانگتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کو قبول کرتاہے یہاں تک کہ جلدی نہ کرے یعنی دعا سے ہاتھ نہ اٹھائے اسی طرح حضرت سے روایت کی گئی ہے کہ فرمایا:انّ العبد اذا اعجّل فقام لحاجته یقول الله تعالیٰ استعجل عبدی أتراه یظنّ اَنّ حوائجه بید غیری جب بندہ حاجت روائی میں جلدی کرتاہے تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے میرا بندہ جلدی کرتاہے کیا وہ گمان کرتاہے کہ اس کی حاجت روائی میرے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔

پیغمبر اسلام نے فرمایا :انّ الله یحبّ السائل اللحوح ۔ اللہ تعالیٰ دعا میں اصرار کرنے والے کو دوست رکھتاہے ولید بن عقبہ ھجری نے روایت کی ہے اور کہتاہے کہ امام محمد باقر سے سنا کہ فرماتے تھے:والله لا یلح عبد مومن علی الله فی حاجة الّاقضاها له خدا کی قسم اللہ کا کوئی بندہ بھی اپنی حاجت اللہ سے مانگنے میں اصرار نہیں کرے گا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کو قبول کرتاہے ابو صباح نے امام صادق سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا:ان الله کره الحاح الناس بعضهم علی بعض فی المسألة واحبّ ذالک لنفسه انّ اللّه یحبّ ان یسال و یطلب ما عنده ۔ خداوند تعالیٰ بعض لوگوں سے بعض کی حاجت روائی میں اصرار کو دوست نہیں رکھتا ہے اور یہ اصرار اپنے لئے دوست رکھتاہے اللہ دوست رکھتاہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور جو اس کے پاس ہے خدا سے طلب کرے۔

احمد بن محمد بن ابونصر کہتاہے کہ میں نے امام رضا سے عرض کیا کہ میں آپ پر قربان ہوجاؤں میں نے کئی سال سے خدا سے ایک حاجت طلب کی ہے (اب تک میری حاجت قبول نہیں ہوئی) میری حاجت میں تاخیر ہونے کی وجہ سے میرے دل میں کچھ احساس ہوا ہے حضرت نے فرمایا:یا احمد ایاک و الشیطان ان یکون له علیک سبیل حتی یقضک ان ابا جعفر کان یقول: ان الموٴمن یسأل اللّٰه حاجة فیوٴخّر عنه تعجیل اجابته حبّاً لصوته واستماع نحیبه ثم قال: والله ما أخر اللّٰه عن الموٴمنین ما یطلبون فی هذه الدّنیا خیر لهم ممّا عجّل لهم فیها، و أیّ شیء الدنیا ۔ اے احمد شیطان سے بچو اس چیز سے کہ کہیں تمہارے اوپر مسلط نہ ہو تا کہ تجھ کو رحمت الٰہی سے مایوس نہ کرے امام محمد باقر نے فرمایا یقینا ایک مومن مرد خدا سے ایک حاجت مانگتاہے پس اس کی حاجت قبول ہونے میں تاخیر ہوجاتی ہے وہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کی آواز کو دوست رکھتاہے اللہ چاہتاہے کہ اس کے نالہ و فریاد کو سنے اس کے بعد فرمایا خدا کی قسم خدا اس کی حاجت کو اس دنیا میں تاخیر کرتاہے یہ بہتر ہے کہ اس کی حاجت قبول ہو پتہ چلے کہ دنیا کی کیا قدر و قیمت ہے۔

امام صادق نے فرمایا:انّ العبد الوالی للّٰهِ یدعو اللّٰه فی الامر ینوبه فیقال الملک الموکّل به اقضِ لعبدی حاجته ولا تعجلها فانی اشتهی ان اسمع ندائه و صوته و ان العبد العدوالله لیدعوالله فی الامر ینوبه، فیقال للملک الموکل به: اقض لعبدی حاجته وعجلها فانی أکره أن أسمع نداء ه و صوته قال: فیقول الناس: ما اُعطی هذا الّاالکرامته، ومامنع هذا الّا لهوانه ۔ وہ بندہ جو اللہ کو دوست رکھتاہے کسی امر میں ہمیشہ اللہ کو پکارتاہے پس کہا جاتاہے اس فرشتہ کے لئے کہ جو اس کام کے لئے مقرر ہے کہ میرے بندہ کی حاجت پوری کرلے لیکن اس میں جلدی نہ کرو میں اس کی آواز کو سننا چاہتاہوں اور بتحقیق وہ بندہ جو اللہ کا دشمن ہے جب وہ کسی معاملہ میں خدا کو پکارتاہے پس جو فرشتہ اس کام کے لئے مقرر ہے اس سے کہتاہے جلد از جلد اس کی حاجت کوپوری کرلے میں اس کی آواز کو سننا پسند کرتاہوں اس وقت حضرت نے فرمایا اس دوست کی کرامت کی وجہ سے حاجت قبول دیر سے ہوئی اور اس دشمنی کی حاجت اس کی آواز کو ناپسند کرنے کی وجہ سے جلدی قبول ہوئی پھر حضرت نے ایک دوسری روایت میں فرمایا:لایزال الموٴمن بخیر و رخا ۷ و رحمة من الله ما لم یستعجل فیقنط فیترک الدعاء، قلت له: کیف یستعجل؟ قال: یقول: قددعوت منذکذا و کذا، ولا أری الاجابة ۔مومن ہمیشہ رحمت الٰہی میں ہے جب تک جلدی نہ کرے اور پشیمان نہ ہوجائے اور ہاتھ دعا سے نہ اٹھائے

میں نے عرض کیا وہ کس طرح جلدی کرتاہے فرمایا کہتاہے ایک مدت سے خدا کو پکارتاہوں لیکن دعاء کے قبول ہونے کے آثار نہیں دیکھتاہوں اسی طرح ایک اور کلام میں فرماتے ہیں:انّ المومن لیدعوالله فی حاجته فیقول عزوجلّ: اُخروااجابته شوقاً الی صوته ودعاه فاذا کان یوم القیامة قال الله: عبدی دعوتنی و اخرت اجابتک و ثوابک کذا وکذا و دعوتنی فی کذا و کذا فاخرت اجابتک و ثوابک کذا قال: فیتمنّی الموٴمن انّه لم یستجب له دعوة فی الدّنیا ممّا یری من حسن الثواب ۔ بتحقیق ایک مومن بندہ اپنی حاجت کے لئے اللہ کو پکارتاہے پس اللہ تعالیٰ کہتاہے کہ میں نے دعا کی اجابت کو تاخیر کیا اور تمہارا ثواب یہ ہے اے میرے بندہ تو نے مجھے فلاں فلاں کے بارے میں پکارا میں نے تمہاری اجابت کو تاخیر کیا اور تمہارا ثواب یہ ہے اس وقت مومن تمنا کرے گا کاش میری دعا دنیا میں قبول نہ ہوتی اس کے بدلے میں آخرت میں زیادہ اجر اور ثواب دیکھتا تھا اس کے بعد حضرت نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا:قال رسول الله رحم الله عبداً طلب من اللّٰه حاجة فالحّ فی الدنیا استجیب له اولم یستجب له و تلاهذه الآیة وادعوا ربّی عسیٰ ان لا اکون بدعاء ربّی شقیاً رسول خدا نے فرمایا : اگر کوئی بندہ خدا سے حاجت مانگے اصرار کرے تو خواہ اس کی دعا قبول ہو یا نہ ہو خدا اس شخص کو بخش دیتاہے اس کے بعد حضرت نے یہ آیہ پڑھی میں اپنے پروردگار کو پکارتاہوں اس امید سے کہ اپنے رب کو پکارنے کی وجہ سے بدبخت نہ بنوں تو رات میں آیا ہےیا موسیٰ من احبتنی لم ینسنی، و من رجا معروفی ألحّ فی مسألتی یا موسی ! انّی لست بغافل عن خلقی و لکن اُحبّ ان تسمع ملائکتی ضجیج الدّعاء من عبادی، و تری حفظتی تقرب بنی آدم الیَّ بما أنا مقوّبهم علیه و مسبّبه لهم یا موسی! قل لبنی اسرائیل: لاتبطرنّکم النعمة فیعاجلکم السلب، ولاتغفلوا عن الشکر فیقارعکم الذلآ، وألحوا فی الدّعاء تشملکم الرحمة بالاجابة، و تهنئکم العافیة ۔ اے موسیٰ جو مجھ کو دوست رکھے میں اس کو فراموش نہیں کرتاہوں

اور جو بھی میری نیکی کی امید رکھتاہے وہ مجھ سے سوال کرنے میں اصرار کرتاہے اے موسیٰ میں اپنی مخلوق سے غافل نہیں ہوں لیکن میں چاہتاہوں کہ میرے بندوں کی دعا کے چیخ و پکار کو میرے ملائکہ سنیں۔ اور حافظان عرش کو بنی آدم کے تقرب ان کے اختیار میں دے دیا ہے ۔ دعا کے اسباب کو ان کے لئے فراہم کیا ہے اے موسیٰ بنی اسرائیل سے کہہ دیں کہ نعمت طغیان کا باعث اور تمہاری ناشکری کا سبب نہ بنے تا کہ نعمت کو تم سے سلب کروں اور لشکر سے غافل نہ ہوجاؤ تا کہ ذلت تمہاری دامن گیر نہ ہوجائے دعا میں اصرار کرو تا کہ اللہ کی رحمت تمہارے اوپر نازل ہوجائے عافیت اور سلامتی تمہارے لئے گوارا ہو۔ امام باقر نے فرمایا:لایلح عبد مومن علی الله فی حاجته الا قضاها له ۔ کوئی بندہ بھی اپنی حاجت میں خدا سے دعا کے ذریعے اصرار نہیں کرتاہے مگر یہ کہ اللہ اس کی حاجت کو قبول کرتاہے۔

منصور صیقل کہتاہےقلت لابی عبد الله ربّما دعا الرجل فاستجیب له ثم اخّر ذالک الای حین قال: فقال: نعم قلت ولِمَ ذالک لیزداد من الدعا قال: نعم میں نے امام جعفر صادق سے عرض کیا بسا اوقات ایک شخص دعا کرتاہے اس کی دعا قبول ہوجاتی ہے لیکن ایک مدت تک تاخیر ہوجاتی ہے کیا ایسا ہی ہے حضرت نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے میں نے عرض کیا کیوں تاخیر ہوجاتی ہے کیا اس لئے کہ زیادہ سے زیادہ دعا مانگے حضرت نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے اب تک جو کچھ بیان کیا گیا وہ دعا کے آداب اور شرائط کے بارے میں تھا اب یہ کہ بعض دعا کے آداب خاص اہمیت کے حامل ہیں اس کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتاہوں۔

دعاء کے اصرار کی اہمیت

دعا کے تکرار کرنے سے حاجت قبول ہوتی ہے یہ نکتہ بہت زیادہ مہم ہے البتہ ایک دفعہ دعا مانگنے سے حاجت قبول نہیں ہوتی ہے اس سے مقصد حل نہیں ہوتاہے اس مطلب کو واضح کرنے کے لئے ایک مثال بیان کرتاہوں تا کہ میرا مطلب واضح ہوجائے بہت سی جسمانی بیماریوں میں اگر بیماری معمولی ہو یا ابھی ابھی بیمار ہوا ہو اور بیماری پرانی نہ ہوچکی ہو تو اس کا علاج دوائی کے ایک ہی نسخہ سے کیا جاتاہے لیکن اگر بیماری پرانی ہو انسان کے بدن میں جڑیں موجود ہوں تو ایسی صورت میں معلوم ہے کہ ایک نسخہ سے بیماری دور نہیں ہوتی ہے اس کے لئے بار بار دوائی دینے کی ضرورت ہے تا کہ بیماری دور ہو روحانی امراض میں بھی یہی حالت ہے اگر کسی کو روحانی بیماری لگی تھی بیماری اتنی مہم نہیں تھی لیکن زمانے کے گزرنے کے ساتھ اور طولانی ہونے کے ساتھ بیماری نے جڑیں پکڑی ہیں ایسی صورت میں ایک دفعہ دعا پڑھنے سے بیماری دور نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے لئے بار بار دعا مانگنے کی ضرورت ہے جس طرح جسمانی بیماری میں انسان بار بار دوا کا محتاج ہوتاہے تا کہ بیماری دور ہو اسی طرح روح کی بیماری کے لئے بار بار دعا کی ضرورت ہے البتہ ممکن ہے کہ بعض افراد کے ایک دفعہ دعا پڑھنے سے ان کی دعا قبول ہوجائے لیکن عام لوگوں کو نہیں چاہیئے کہ یہ بھی اس کی طرح توقع رکھیں کہ ایک دفعہ دعا پڑھنے سے دعا قبول ہوگی۔ یہی ایک وجہ ہے کہ دعا میں اصرار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

(استجاب دعا پر انسان کو یقین ہو)

دعا کے قبول ہونے میں دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔

۱۔موانع قلبی دور ہو ۲۔ اور باطنی نورانیت موجود ہو۔

دعا کا تیر ھدف تک پہنچنے کے لئے دو چیزوں کا محتاج ہے ان دو چیزوں کو ایجاد کرے تا کہ اضطرار تک نوبت نہ پہنچے دل کی تاریکی کو دور کرکے اس میں نورانیت ایجاد کرے چونکہ یقین کا لازمہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں یقین کا نور پیدا ہوتاہے۔

حضرت امام محمد باقر(علیہ السلام ) فرماتے ہیں لا نور کنوار الیقین یقین کے نور کی طرح کوئی نور نہیں ہے۔ واضح ہے کہ جب انسان کو یقین ھاسل ہوجائے تو اس کے دل میں روشنی پائی جاتی ہے اس کے دل سے تاریکی زائل ہوجاتی ہے چونکہ نور اور ظلمت دونوں ایک جگہ پر جمع نہیں ہوسکتے ہیں مرحوم آیة اللہ خوئیبسم الله الرحمن الرحیم کے اثرات کے رابطہ میں جب کہ یقین کے ساتھ کہا گیا ہو اس بارے میں آقائی خوئی نے ایک عجیب واقعہ شیخ احمد سے نقل کیا ہے جو کہ مرحوم میرزائی شیرازی کے یہاں خادم تھا اس نے کہا مرحوم شیرازی کا ایک اور خادم تھا کہ جس کا نام شیخ محمد تھا مرحوم میرزا کے فوت ہونے کے بعد لوگوں سے الگ تھلک رہا ایک دن ایک شخص شیخ محمد کے پاس گیا سورج غروب ہوتے وقت چراغ کو پانی سے بھر دیا اور اس کو روشن کیا اور چراغ جل رہا تھا اس شخص نے بہت زیادہ تعجب کیا اور اس کی وجہ کے بارے میں پوچھا شیخ محمد نے اس کے جواب میں کہا کہ شیخ مرحوم میرزا کے فوت ہونے کے بعد اس کے غم میں لوگوں سے الگ رہا اور اپنے گھر میں رہا میں بہت زیادہ غمگین ہوا تھا دن کے آخری وقت ایک جوان میرے پاس آیا کہ جو عرب کا طالب علم دکھائی دیتا تھا میں ان سے مانوس ہوا غروب آفتاب تک میرے پاس رہا ان کے بیانات سے بہت زیادہ خوش ہوا بہت لذت حاسل ہوئی میرے دل سے تمام غم دور ہوا چند دن میرے پاس رہے اور میں اس کے ساتھ مانوس ہوا ایک دن وہ مجھ سے گفتگو کرتا تھا کہ خیال آیا کہ آج میرے چراغ میں تیل نہیں ہے اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ غروب آفتاب کے وقت دکانیں بند کردیتے تھے اور ساری رات بند کرتے تھے اس لئے مجھے فکر ہوا اگر میں ان سے اجازت لیکر تیل کے لئے باہر چلا جاتاہوں تو میں ان کی باتوں کے فیض سے محروم ہوجاتاہوں اور اگر تیل نہ خریدوں تو ساری رات تاریکی میں گزاروں اس وقت میری حالت کو دیکھا اور میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تجھ کو کیا ہوا ہے کہ میری باتوں کو اچھی طرح نہیں سنتے ہو میں نے کہا میرا دل آپکی طرف متوجہ ہے فرمایا نہیں تم میری باتوں کو اچھی طرح نہٰں سنتے ہو میں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ آج میرے چراغ میں تیل نہیں ہے فرمایا بہت زیادہ تعجب ہے اس قدر تمہارے لئے حدیث بیان کی اوربسم الله الرحمن الرحیم کی فضیلت بیان کی اس قدر بے پرواہ نہیں ہوئے کہ تیل کے خریدنے سے بے نیاز ہوجائے میں نے کہا مجھے یاد نہیں ہے فرمایا بھول گئے ہو جو کچھبسم الله الرحمن الرحیم خواص اور فوائد بیان کرچکا ہوں اس کے فوائد یہ ہیں کہ آپ جس قصد کے لئے کہیں وہ مقصود حاصل ہوتاہے آپ اپنے چراغ کو پانی سے بھردیں اس مقصد کے ساتھ کہ پانی میں تیل کی خاصیت ہو کہوبسم الله الرحمن الرحیم ۔

میں نے قبول کیا میں اٹھا اسی قصد سے چراغ کو پانی سے بھر دیا اس وقت میں نے کہا بسم اللہ الرحمن الرحیم اس کے بعد چراغ روشن ہوا اور اس سے شعلہ بلند ہوا اس وقت سے لیکر اب تک جب بھی چراغ خالی ہوجاتاہے اس کو پانی سے بھر دیتاہوں اور بسم اللہ کہتاہوں چراغ روشن ہوجاتاہے مرحوم آیة اللہ خوئی نے اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرمایا تعجب یہ ہے کہ اس واقعہ کے مشہور ہونے کے بعد بھی مرحوم شیخ محمد سے اس کا اثر ختم نہیں ہوا۔ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ بسم اللہ کو عقیدہ اور یقین کے ساتھ پڑھنے پر ظاہراً یہ اثر تعجب آور اور خارق العادہ ہے کہ جن کے پاس اسم اعظم ہے وہ بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں ان کا وہ عمل جو دوسروں سے ان کو امتیاز پیدا کرتاہے وہ ان کا یقین ہے چونکہ ان کے یقین میں ایک خاص اثر پایا جاتاہے۔ یقین کے تعجب کو بیان کرنے کے لئے اسی ایک واقعہ پر اکتفا کرتاہوں۔

امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا مانگنا ضروری ہے۔

دعا کے شرائط اور آداب بیان کرنے کے ساتھ بعد کہتاہوں سب سے مہم اور سب سے ضروری امام کے غیبت کے زمانے میں ظہور امام کے لئے دعا مانگنا ہے چونکہ صاحب الزمان ہمارے زمانے کے امام ہیں بلکہ تمام جہان کے سرپرست ہیں مگر کیا ہم اس سے غافل رہ سکتے ہیں حالانکہ وہ ہمارے امام ہیں اور امام سے غافل رہنا اصول دین کے ایک اصل سے غافل ہونا ہے پس ضروری ہے کہ حضرت کے ظہور کے لئے دعا کریں اپنے اور رشتہ داروں کے لئے دعا کرنے سے پہلے صاحب الزمان کے لئے دعا مانگے مرحوم سید بن طاوؤس اپنی کتاب جمال الاسبوع میں لکھتے ہیں ہمارے پیشوا امام کے لئے دعا مانگنے کے لئے خاص اہمیت کے قائل تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ امام کے لئے دعا مانگنا اھل اسلام اور ایمان کے وظائف میں مہم ترین چیز ہے امام جعفر صادق(علیہ السلام ) نماز ظہر کے بعد امام زمانہ کے حق میں دعا مانگتے تھے امام کاظم بھی امام زمانہ کے لئے دعا مانگتے تھے

ہمیں بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے امام زمانہ کے لئے دعا مانگنی چاہیئے کتاب فلاح السائل میں اپنے بھائیوں کے لئے دعا کے فضائل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں اگر اپنے دینی بھائیوں کے لئے دعا مانگنے میں اتنی فضیلت ہے تو ہمارے امام اور بادشاہ کے لئے کہ جو تیرے وجود کے لئے علت ہے اس کے لئے دعاء مانگنے کی کتنی فضیلت ہوگی تو اچھی طرح جانتاہے اور تمہارا عقیدہ ہے اگر امام زمانہ نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ تجھ کو خلق نہ کرتا بلکہ کسی کو بھی خلق نہ کرتا لطف الٰہی ہے کہ اس ھستی کے وجود سے تو اور دوسرے موجود ہیں خبردار یہ گمان نہ کرنا کہ امام زمان تمہاری دعا کا محتاج ہے افسوس اگر تمہارا یہ عقیدہ ہے تو تم اپنے عقیدہ میں بیمار ہو بلکہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ اس لئے ہے ان کا حق عظیم ہے ان کا بڑا احسان ہے اور ہم انکے حق کو پہچانیں اب واضح ہے اپنے لئے دعا کرنے سے پہلے اپنے رشتہ داروں کے لئے دعا کرنے سے پہلے امام زمانہ کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ اجابت کے دروازوں کو جلد از جلد تمہارے لئے کھول دیتاہے چونکہ تو نے دعا کے قبول کے دروازوں کو اپنے جرائم قفل کے ساتھ بند کردیا ہے اس بناء پر اگر دعا اپنے مولیٰ کے لئے کروگے تو امید ہے کہ کہ اس بزرگوار کی وجہ سے تمہارے لئے اجابت کے دروازے کھل جائیں تا کہ تو اور دوسرے کہ جن کے لئے دعا کرتے ہو فضل اور رحمت الٰہی میں شامل ہوجائیں

چونکہ تم نے اپنی دعا میں ان کی رسی کو تھاما ہے اس دعا کی اہمیت ائمہ طاھرین کی نظر میں کیا ہے کیا انہوں نے دعا مانگنے میں بے اعتنائی کی ہے ہرگز نہیں اس بناء پر واجب نمازوں میں حضرت کے لئے دعا کرنے سے کوتاہی نہ کریں۔ ایک صحیح روایت محمد بن علی بن محبوب سے مروی ہے کہ شیخ قمی اس زمانے میں موجود تھے وہ اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایاکلمّا کلّمت اللّٰه تعالیٰ فی صلوة الفریضة فلیس بکلام واجب نماز میں جو بات بھی خدا کے ساتھ کلام کریں وہ کلام نہیں ہے۔ (یعنی دعا نماز کو باطل نہیں کرتی ہے) پھر تکرار کرتاہوں ان دلائل کو ذکر کرنے کے بعد امام کے تعجیل ظہور کے لئے دعا کو اہمیت نہ دینے میں کوئی عذر باقی نہیں رہتاہے۔

صاحب مکیال المکارم فرماتے ہیں جیسا کہ آیات اور روایات دلالت کرتی ہیں کہ دعا سب سے بڑی عبادت ہے اور اس میں شک نہیں کہ سب سے مہم ترین دعا اس کے لئے ہو کہ خداوند تعالیٰ نے جن کے لئے تمام لوگوں پر دعا واجب کیا ہے ان کے وجود کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے رحمت سے نوازا ہے اس میں کوئی شک نہیں خدا کے ساتھ مشغول ہونے سے مراد خداکی عبادت میں مشغول ہونا ہے اور ہمیشہ دعا کرنا یہ سبب بنتاہے کہ خدا ان کو عبادت میں مدد کرے اور اس کو اپنے اولیاء میں سے قرار دیا ہے اس بناء پر اھل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ جہاں کہیں بھی ہو اور جس زمانے میں بھی ہو امام کی تعجیلِ ظہور کے لئے دعا مانگے اس مطلب کے ساتھ جو مناسب ہے اور ہمارے گفتار کی تائید کرتی ہے یہ ہے کہ حضرت امام حسن نے عالم خواب میں یا مکاشفہ میں مرحوم آیة اللہ میرزا محمد باقر فقیہ سے فرمایا منبروں پر لوگوں سے کہیں اور لوگوں کو حکم دیں کہ توبہ کریں اور آخری حجت کے تعجیل ظہور کے لئے دعا مانگیں حضرت حجت کے لئے دعا مانگنا نماز میت کی طرح نہیں ہے کہ واجب کفائی ہو ایک شخص کے انجام دینے سے دوسروں سے ساقط ہو بلکہ پانچ وقت کی نمازوں کی طرح ہے کہ ہر بالغ فرد پر واجب ہے کہ امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا مانگیں جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا مانگنا ضروری ہے۔

عالم میں سب سے مظلوم فرد

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ آج کل نہ صرف عبادات میں بلکہ عمومی مجالس میں بھی امام کے تعجیل ظہور کی دعا سے غافل ہیں اگر ہم جانیں کہ اب تک ہم کس قدر غافل ہیں تب معلوم ہوگا کہ حضرت اس عالم میں سب سے زیادہ مظلو م ہے اب چند واقعات حضرت کی مظلومیت کے بارے میں بیان کرتاہوں۔

۱ ۔ حجة الاسلام و المسلمین مرحوم آقائی حاج سید اسمعیل سے نقل کیا گیا ہے میں زیارت کے لئے مشرف ہوا حضرت سید الشہداء کے حرم میں زیارت میں مشغول تھا چونکہ زائرین کی دعا امام حسین کے حرم کے سرھانے مستجاب ہوتی ہے وہاں میں نے خدا سے درخواست کی کہ مجھے امام زمانہ کی زیارت سے مشرف فرما مجھے ان کی زیارت نصیب فرما میں زیارت میں مشغول تھا کہ اتنے میں امام نے ظہور فرمایا اگر چہ میں نے اس وقت آخری حجت کو نہیں پہچانا لیکن میں ان سے زیادہ متاثر ہوا سلام کے بعد ان سے پوچھا آقا آپ کون ہیں انہوں نے فرمایا میں عالم میں سب سے زیادہ مظلوم ہوں میں متوجہ نہ ہوا اپنے آپ سے کہا شاید یہ نجف کے بزرگ علماء میں سے ہیں چونکہ لوگوں نے ان کی طرف توجہ نہیں دی اس لئے اپنے آپ کو عالم میں سب سے زیادہ مظلوم جانتے ہیں اتنے میں اچاک متوجہ ہوا کہ کوئی میرے پاس نہیں ہے اس وقت میں نے سمجھا کہ عالم میں سب سے زیادہ مظلوم امام زمانہ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے اور میں ان کے حضور کی نعمت سے جلد محروم ہوا۔

۲ ۔ حجة الاسلام والمسلمین آقائی حاج سید احمد موسوی امام عصر کے عاشقان میں سے تھے وہ حجة الاسلام و المسلمین مرحوم آقائے شیخ محمد جعفر جوادی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ عالم کشف میں یا عالم شھود میں حضرت حجة کی خدمت میں مشرف ہوئے ان کو زیادہ غمگین دیکھتے ہیں حضرت سے احوال پرسی کرتے ہیں حضرت فرماتے ہیں میرا دل خون ہے میرا دل خون ہے۔

۳ ۔ حضرت امام حسین نے عالم مکاشفہ میں قسم کے علماء میں سے ایک سے فرمایا ہمارے مہدی اپنے زمانے میں مظلوم میں حضرت مہدی کے بارے میں گفتگو کریں اور لکھیں جو بھی اس معصوم کی شخصیت کے بارے میں کہیں گویا تمام معصومین کے لئے کہا ہے چونکہ تمام معصومین عصمت ولایت اور امامت میں ایک ہیں چونکہ زمانہ حضرت مہدی(علیہ السلام ) کا زمانہ ہے اس لئے سزاوار ہے اس کے بارے میں کچھ مطالب کہے جائیں آخر میں فرمایا پھر تاکید کرتاہوں ہمارے مہدی کے بارے میں زیادہ گفتگو کریں اور لکھیں کہ ہمارا مہدی مظلوم ہے زیادہ سے زیادہ امام مہدی کے بارے میں لکھنا اور کہنا چاہیئے۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18