مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام

مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام0%

مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام

مؤلف: آل البیت محققین
زمرہ جات:

مشاہدے: 46195
ڈاؤنلوڈ: 4996

تبصرے:

مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 46195 / ڈاؤنلوڈ: 4996
سائز سائز سائز
مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام

مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام

مؤلف:
اردو

غیبت امام مہدی جفرجامعہ کی روشنی میں :

علامہ شیخ قندوزی بلخی حنفی رقمطرازہیں کے سدیرصیرفی کابیان ہے کہ ہم اورمفضل بن عمر،ابوبصیر،ابان بن تغلب ایک دن صادق آل محمد کی خدمت میں حاضرہوئے تودیکھا کہ آپ زمین پربیٹھے ہوئے رورہے ہیں ، اورکہتے ہیں کہ ” اے محمد!تمہاری غیبت کی خبرنے میرا دل بے چین کردیاہے “ میں نے عرض کی حضورخدا آپ کی آنکھوں کوبھی نہ رلائے بات کیا ہے کس لئے حضورگریہ کناںہیں فرمایا ۔ ا ے سدیر!میں نے آج کتاب ”جعفرجامع“ میں بوقت صبح امام مہدی کی غیبت کا مطالعہ کیاہے ،اے سدیر!یہ وہ کتاب ہے جس میں”علم ماکان ومایکون“ کااندراج ہے اورجوکچھ قیامت تک ہونے والا ہے سب اس میں لکھا ہواہے اے سدیر! میں نے اس کتاب میں یہ دیکھا ہے کہ ہماری نسل سے امام مہدی ہوں گے ۔ پھروہ غائب ہوجائیں گے اور ان کی غیبت نیزعمر بہت طویل ہوگی ان کی غیبت کے زمانہ میں مومنین مصائب میں مبتلا ہوںگے اور ان کے امتحانات ہوتے رہیں گے اورغیبت میں تاخیرکی وجہ سے ان کے دلوں میں شکوک پیداہوتے ہوں گے پھرفرمایا : اے سدیرسنو! ان کی ولادت حضرت موسی کی طرح ہوگی اوران غیبت عیسی کی مانندہوگی اوران کے ظہورکا حال حضرت نوح کے مانند ہوگا اوران کی عمرحضرت خضرکی عمرجیسی ہوگی (ینابع المودة) اس حدیث کی مختصرشرح یہ ہے کہ :

۱ ) تاریخ میں ہے کہ جب فرعون کومعلوم ہوا کہ میری سلطنت کا زوال ایک مولود بنی اسرائیل کے ذریعہ ہوگا تواس نے حکم جاری کردیا کہ ملک میں کوئی عورت حاملہ نہ رہنے پائے اورکوئی بچہ باقی نہ رکھا جائے چنانچہ اسی سلسلہ میں ۴۰ ہزاربچے ضائع کئے گئے لیکن نے خدا حضرت موسی کوفرعون کی تمام ترکیبوں کے باوجود پیداکیا،باقی رکھا اورانھےں کے ہاتھوں سے اس کی سلطنت کاتختہ الٹوایا ۔ اسی طرح امام مہدی کے لئے ہوا کہ تمام بنی امیہ اوربنی عباسیہ کی سعی بلیغ کے باوجود آپ بطن نرجس خاتون سے پیداہوئے اورکوئی آپ کودیکھ تک نہ سکا۔

۲ ) حضرت عیسی کے بارے میں تمام یہودی اورنصرانی متفق ہیں کہ آپ کو سولی دید ی گئی اور آپ قتل کئے جاچکے ،لیکن خدا وندعالم نے اس کی ردفرمادی اورکہ دیا کہ وہ نہ قتل ہوئے ہیں اورنہ ان کوسولی دی گئی ہے یعنی خداوندعالم نے اپنے پاس بلالیاہے اوروہ آسمان پرامن وامان خدا میں ہیں ۔اسی طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں بھی لوگوں کایہ کہنا ہے کہ پیداہی نہیں ہوئے حالانکہ وہ پیداہوکر حضرت عیسی کی طرح غائب ہوچکے ہیں ۔

۳ حضرت نوح نے لوگوں کی نافرمانی سے عاجزآکرخداکے عذاب کے نزول کی درخواست کی خداوند عالم نے فرمایا کہ پہلے ایک درخت لگاؤوہ پھل لائے گاتب عذاب کروںگا اسی طرح نوح نے سات مرتبہ کیا بالاخراس تاخیرکی وجہ سے آپ کے تمام دوست وموالی اورایمان دار کافرہوگئے اورصرف سترمومن رہ گئے ۔ اسی طرح غیبت امام مہدی اورتاخیرظہورکی وجہ سے ہورہا ہے ۔ لوگ فرامین پیغمبراور آئمہ علیہم السلام کی تکذیب کررہے ہیں اورعوام مسلم بلاوجہ اعتراضات کرکے اپنی عاقبت خراب کررہے ہیں اورشاید اسی وجہ سے مشہور ہے کہ جب دنیا میں چالیس مومن کامل رہ جائیں گے تب آپ کا ظہورہوگا ۔

۳) حضرت خضرجوزندہ اورباقی ہیں اورقیامت تک موجود رہیں گے اورجب کہ حضرت خضرکے زندہ اورباقی رہنے میں مسلمانوں کوکوئی اختلاف نہیں ہے حضرت امام مہدی کے زندہ اورباقی رہنے میں بھی کوئی اختلاف کی وجہ نہیں ہے ۔

غیبت صغری وکبری اورآپ کے سفرا

آپ کی غیبت کی دوحیثیت تھی ، ایک صغری اوردوسری کبری ، غیبت صغری کی مدت ۷۵ یا ۷۳ سال تھی ۔ اس کے بعد غیبت کبری شروع ہوگئی غیبت صغری کے زمانے میں آپ کاایک نائب خاص ہوتا تھا جس کے ذریعہ اہتمام ہرقسم کانظام چلتاتھا سوال وجواب، خمس وزکوة اوردیگرمراحل اسی کے واسطہ طے ہوتے تھے خصوصی مقامات محروسہ میں اسی کے ذریعہ اورسفارش سے سفرا مقررکئے جاتے تھے ۔

سب سے پہلے جنہیں نائب خاص ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ۔ان کانام نامی واسم گرامی حضرت عثمان بن سعیدعمری تھا آپ حضرت امام علی نقی علیہ السلام اورامام حسن عسکری علیہ السلام کے معتمد خاص اوراصحاب خلص میں سے تھے آپ قبیلہ بنی اسد سے تھے آپ کی کنیت ابوعمرتھی ،آپ سامرہ کے قریہ عسکرکے رہنے والے تھے وفات کے بعد آپ بغداد میں دروازہ جبلہ کے قریب مسجد میں دفن کئے گئے آپ ک وفات کے بعد بحکم امام علیہ السلام آپ کے فرزند،حضرت محمد بن عثمان بن سعید اس عظیم منزلت پرفائزہوئے ، آپ کی کنیت ابوجعفرتھی آپ نے اپنی وفات سے ۲ ماہ قبل اپنی قبرکھدوادی تھی آپ کاکہناتھا کہ میں یہ اس لئے کررہاہوں کہ مجھے امام علیہ السلام نے بتادیاہے اورمیں اپنی تاریخ وفات سے واقف ہوں آپ کی وفات جمادی الاول ۳۰۵ ہجری میں واقع ہوئی ہے اورآپ ماں کے قریب بمقام دروازہ کوفہ سرراہ دفن ہوئے ۔ پھرآپ کی وفات کے بعد بواسطہ مرحوم حضرت امام علیہ السلام کے حکم سے حضرت حسین بن روح اس منصب عظیم پرفائزہوئے ۔جعفربن محمد بن عثمان سعیدکاکہناہے ،کہ میرے والد حضرت محمد بن عثمان نے میرے سامنے حضرت حسین بن روح کواپنے بعد اس منصب کی ذمہ داری کے متعلق امام علیہ السلام کا پیغام پہنچایا تھا ۔حضرت حسین بن روح کی کنیت ابوقاسم تھی آپ محلہ نوبخت کے رہنے والے تھے آپ خفیہ طورپرجملہ ممالک اسلامیہ کادورہ کیاکرتے تھے آپ دونوں فرقوں کے نزدیک معتمد ،ثقہ ،صالحاورامین قراردئے گئے ہیں آپ کی وفات شعبان ۳۲۶ میں ہوئی اورآپ محلہ نوبخت کوفہ میں مدفون ہوئے ہیں آپ کی وفات کے بعد بحکم امام علیہ السلام حضرت علی بن محمد السمری اس عہدہ جلیلہ پرفائزہوئے آپ کی کنیت ابوالحسن تھی ،آپ اپنے فرائض انجام دئے رہے تھے ،جب وقت قریب آیاتوآپ سے کہاگیا کہ آپ اپنے بعد کاکیاانتظام کریںگے ۔ آپ نے فرمایا کہ اب آئندہ یہ سلسہ قائم نہ رہے گا ۔ (مجالس المومنین ص ۸۹ وجزیزہ خضرا ص ۶ وانوارالحسینیہ ص ۵۵) ۔ ملاجامی اپنی کتاب شواہدالنبوت کے ص ۲۱۴ میں لکھتے ہیں کہ محمد السمری کے انتقال سے ۶ یوم قبل امام علیہ السلام کا ایک فرمان ناحیہ مقدسہ سے برآمد ہوا ۔ جس میں ان کی وفات کا ذکراورسلسہ سفارت کے ختم ہونے کا تذکرہ تھا ۔ امام مہدی کے خط کے عیون الفاظ یہ ہیں

بسم الله الرحمن ا لرحیم

” یاعلی بن محمد عظم الله اجراخرانک فيک فانک ميت مابينک وبين ستة ایام فاجمع امرک ولاترض الی احد يقوم مقامک بعدوفاتک فقد وقعت الغيبة السامة فلاظهورالا بعداذن الله تعالی وذلک بعد طول الامد الخ“

ترجمہ : اے علی بن محمد ! خداوند عالم تمھارے بارے میں تمھارے بھائیوں اورتمھارے اوردوستوں کواجرجزیل عطاکرے ،تمہیں معلوم ہو کہ تم چھ یوم میں وفات پانے والے ہو،تم اپنے انتظامات کرلو۔ اورآئندہ کے لئے اپنا کوئی قائم مقام تجویز وتلاش نہ کرو۔ اس لئے کہ غیبت کبری واقع ہوگئی ہے اور اذن خدا کے بغیرظہورناممکن ہوگا ۔ یہ ظہوربہت طویل عرصہ کے بعد ہوگا ۔

غرضکہ چھ یوم گذرنے کے بعد حضرت ابوالحسن علی بن محمدالسمری بتاریخ ۱۵ شعبان ۳۲۹ انتقال فرماگئے ۔اورپھرکوئی خصوصی سفیرمقررنہیں ہوا اورغیبت کبری شروع ہوگئی ۔

سفرا عمومی کے اسماء

مناسب معلوم ہوتاہے کہ ان سفرا کے اسماء بھی درج ذیل کردئے جائیں جوانھےں نواب خاص کے ذریعہ اورسفارش سے بحکم امام ممالک محروسہ مخصوصہ میں امام علیہ السلام کاکام کرتے تھے اورحضرت کی خدمت میں حاضرہوتے رہتے تھے ۔

بغداد سے حاجز،بلالی ،عطار ۔ کوفہ سے عاصمی ۔ اہوازسے محمد بن ابراہیم بن مہریار ۔ ہمدان سے محمد بن صالح ۔ رے سے بسامی واسدی ۔ آذربائیجان سے قسم بن علا۔ نیشاپورسے محمد بن شاذان ۔ قسم سے احمد بن اسحاق۔ (غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۲۰) ۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے بعد :

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت چونکہ خداوندعالم کی طرف سے بطورلطف خاص عمل میں آئی تھی ،اس لئے آپ خدائی خدمت میں ہمہ تن منہمک ہوگئے اورغائب ہونے کے بعد آپ نے دین اسلام کی خدمت شروع فرمادی ۔ مسلمانوں، مومنوں کے خطوط کے جوابات دینے ، ا ن کی بوقت ضرورت رہبری کرنے اورانھےں راہ راست دکھانے کا فریضہ اداکرنا شروع کردیا ضروری خدمات آپ زمانہ غیبت صغری میں بواسطہ سفرا یابلاوسطہ اورزمانہ غیبت کبری میں بلاواسطہ انجام دیتے رہے اورقیامت تک انجام دیتے رہیںگے۔

۳۰۷ ہجری میں آپ کا حجراسود نصب کرنا :

علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ زمانہ نیابت میں بعہد حسین بن روح ،ابوالقاسم جعفربن محمد بن قولویہ بارادہ حج بغداد گئے اوروہ مکہ معظمہ پہنچ کرحج کرنے کافیصلہ کئے ہوئے تھے ۔ لیکن وہ بغداد پہنچ کرسخت علیل ہوگئے ۔ اسی دوران میں آپ نے سناکہ قرامطہ نے حجراسود کونکال لیاہے اوروہ اسے کچھ درست کرکے ایام حج میں پھرنصب کریںگے ۔ کتابوں میں چونکہ پڑھ چکے تھے کہ حجراسود صرف امام زمانہ ہی نصب کرسکتاہے جیساکہ پہلے آنحضرت صلعم نے نصب کیاتھا ،پھرزمانہ حجاج میں امام زین العابدین نے نصب کیاتھا ۔ اسی بناء پرانھوں نے اپنے ایک کرم فرما” ابن ھشام “ کے ذریعہ سے ایک خط ارسال کیا اوراسے کہ دیا کہ جوحجراسود نصب کرے اسے یہ خط دیدینا ۔ نصب حجرکی لوگ سعی کررہے تھے ۔لیکن وہ اپنی جگہ پرقرارنہیں لیتاتھا کہ اتنے میں ایک خوبصورت نوجوان ایک طرف سے سامنے آیا اور اس نے اسے نصب کردیا اوروہ اپنی جگہ پرمستقرہوگیا ۔جب وہ وہاںسے روانہ ہوا توابن ہشام ان کے پیچھے ہولئے ۔راستہ میں انھوںنے پلٹ کرکہا اے ابن ہشام ،توجعفربن محمد کاخط مجھے دیدے ۔دیکھ اس میں اس نے مجھ سے سوال کیاہے کہ وہ کب تک زندہ رہے گا ۔ ا س سے یہ کہدینا کہ وہ ابھی تیس سال اورزندہ رہے گا یہ کہہ کروہ ونظروں سے غائب ہوگئے ۔ ابن ہشام نے ساراواقعہ بغداد پہنچ کرجعفربن قولویہ سے بیان کردیا ۔ غرضکہ وہ تیس سال کے بعد وفات پاگئے ۔(کشف الغمہ ص ۱۳۳) اسی قسم کے کئی واقعات کتاب مذکورمیں موجودہیں ۔

علامہ عبدالرحمن ملاجامی رقمطرازہیں کہ ایک شخص اسماعیل بن حسن ہرقلی جونواحی حلہ میں مقیم تھا اس کی ران پرایک زخم نمودارہوگیاتھا جوہرزمانہ بحارمیں ابل آتاتھا جس کے علاج سے تمام دنیا کے اطبا عاجزاورقاصرہوگئے تھے وہ ایک دن اپنے بیٹے شمس الدین کوہمراہ لے کرسیدرضی الدین علی بن طاؤس کی خدمت میں گیا ۔انھوں نے پہلے توبڑی سعی کی ،لیکن کوئی چارہ کارنہ ہوا ہرطبیب یہ کہتاتھا کہ یہ پھوڑا ”رگ اکحل “ پرہے اگراسے نشتر دیاجائے توجان کاخطرہ ہے اس لئے اس کاعلاج ناممکن ہے ۔اسماعیل کابیان ہے کہ ”چون ازاطبامایوس شدم عزیمت مشہدشریف سرمن رائے کردم“ جب میں تمام اطباء سے مایوس ہوگیا توسامرہ کے سرداب کے قریب گیا،اوروہاں پرحضرت صاحب الامرکومتوجہ کیا ،ایک شب دریائے دجلہ سے غسل کرکے واپس آرہاتھا کہ چارسوارنظرآئے ،ان میں سے ایک نے میرے زخم کے قریب ہاتھ پھیرا اورمیں بالکل اچھا ہوگیا میں ابھی اپنی صحت پرتعجب ہی کررہاتھا کہ ان میں سے ایک سوارنے جوسفید ریش تھے کہا کہ تعجب کیا ہے تجھے شفادینے والے امام مہدی علیہ السلام ہیں یہ سن کرمیں نے ان کے قدموں کا بوسہ دیا اوروہ لوگ نظروں سے غائب ہوگئے ۔ (شواہدالنبوت ص ۲۱۴ وکشف الغمہ ص ۱۳۲) ۔

اسحاق بن یعقوب کے نام امام عصرکاخط :

علامہ طبرسی بحوالہ محمد بن یعقوب کلینی لکھتے ہیں کہ اسحق بن یعقوب نے بذریعہ محمد بن عثمان عمری حضرت امام مہدی علیہ السلام کی خدمت ایک خط ارسال کیا جس میں کئی سوالات مندرج تھے ۔حضرت نے بخط خود جواب تحریرفرمایا اورتمام سوالات کے جوابات تحریرا عنآیت فرمائے جس کے اجزا یہ ہیں :

۱ ) جوہمارامنکرہے ،وہ ہم سے نہیں ۔

۲ ) میرے عزیزوں میں سے جومخالفت کرتے ہیں ،ان کی مثال ابن نوح اوربرادران یوسف کی ہے ۔

۳ ) فقاع یعنی جوکی شراب کاپینا حرام ہے ۔

۴ ) ہم تمہارے مال صرف اس لئے (بطورخمس قبول کرتے ہیں کہ تم پاک ہوجاؤ اورعذاب سے نجات حاصل کرسکو۔

۵ ) میرے ظہورکرنے اورنہ کرنے کا تعلق صرف خداسے ہے جولوگ وقت ظہورمقررکرتے ہیں وہ غلطی پرہیں جھوٹ بولتے ہیں ۔

۶ ) جولوگ یہ کہتے ہیں کہ امام حسین قتل نہیں ہوئے وہ کافرجھوٹے ا ورگمراہ ہیں ۔

۷ ) تمام واقع ہونے والے حوادث میں میرے سفراپراعتماد کرو ،وہ میری طرف سے تمھارے لئے حجت ہیں اورمیں حجت اللہ ہوں ۔

۸ ) ” محمد بن عثمان “ امین اورثقہ ہیں اوران کی تحریرمیری تحریرہے ۔

۹ ) محمد بن علی مہریاراہوازی کادل انشاء اللہ بہت صاف ہوجائے گا اورانھےں کوئی شک نہ رہے گا ۔

۱۰ ) گانے والی کی اجرت و قیمت حرام ہے ۔

۱۱ ) محمد بن شاذان بن نیعم ہمارے شیعوں میں سے ہے ۔

۱۲ ) ابوالخطاب محمدبن ابی زینب اجدع ملعون ہے اوران کے ماننے والے بھی ملعون ہیں ۔ میں اورمیرے باپ دادا اس سے اور اس کے باپ دادا سے ہمیشہ بے زاررہے ہیں ۔

۱۳ ) جوہمارا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھررہے ہیں ۔

۱۴ ) خمس ہمارے سادات شیعہ کے لئے حلال ہے ۔

۱۵ ) جولوگ دین خدامیں شک کرتے ہیں وہ اپنے خود ذمہ دارہیں ۔

۱۶ ) میری غیبت کیوں واقع ہوئی ہے ۔ یہ بات خداکی مصلحت سے متعلق ہے اس کے متعلق سوال بیکارہے۔ میرے آباؤاجداد دنیا والوں کے شکنجہ میں رہے ہیں لیکن خدانے مجھے اس شکنجہ سے بچالیاہے جب میں ظہورکروںگا بالکل آزاد ہوںگا ۔

۱۷) زمانہ غیبت میں مجھ سے فائدہ کیاہے ؟ اس کے متعلق یہ سمجھ لوکہ میری مثال غیبت میں ویسی ہے جیسے ابرمیں چھپے ہوئے آفتاب کی ۔ میں ستاروں کی مانند اہل ارض کے لئے امان ہوں تم لوگ غیبت اورظہورسے متعلق سوالات کا سلسلہ بندکرواورخداوندعالم کی بارگاہ میں دعاکرو کہ وہ جلد میرے ظہورکاحکم دے ،اے اسحاق ! تم پراوران لوگوں پرمیراسلام ہو جوہدآیت کی اتباع کرتے ہیں ۔ (اعلام الوری ص ۲۵۸ مجالس المومنین ص ۱۹۰ ، کشف الغمہ ص ۱۴۰) ۔

شیخ محمدبن محمد کے نام امام زمانہ کامکتوب گرامی

علما کابیان ہے کہ حضرت امام عصرعلیہ السلام نے جناب شیخ مفید ابوعبداللہ محمد بن محمد بن نعمان کے نام ایک مکتوب ارسال فرمایا ہے ۔ جس میں انھوں نے شیخ مفید کی مدح فرمائی ہے اوربہت سے واقعات سے موصوف کوآگاہ کیا ہے ان کے مکتوب گرامی کا ترجمہ یہ ہے :

میریے نیک برادراورلائق محب، تم پرمیراسلام ہو ۔ تمہیں دینی معاملہ میں خلوص حاصل ہے اورتم ہمارے بارے میں یقین کامل رکھتے ہو ۔ہم اس خداکی تعریف کرتے ہیں جس کے سواکوئی معبود نہیں ہے ۔ ہم درود بھیجتے ہیں حضرت محمد مصطفی اوران کی پاک آل پرہماری دعاء ہے کہ خداتمہاری توفیقات دینی ہمیشہ قائم رکھے اورتمہیںنصرت حق کی طرف ہمیشہ متوجہ رکھے ۔تم جوہمارے بارے میں صدق بیانی کرتے رہتے ہو ،خدا تم کواس کااجرعطافرمائے ۔تم نے جوہم سے خط وکتابت کاسلسہ جاری رکھا اوردوستوں کوفائدہ پہونچایا ، وہ قابل مدح وستائش ہے ۔ ہماری دعاہے کہ خداتم کو دشمنوں کے مقابلہ میں کامیاب رکھے ۔ اب ذرا ٹہرجاؤ ۔ اورجیساہم کہتے ہیں اس پرعمل کرو ۔ اگرچہ ہم ظالموں کے امکانات سے دورہیں لیکن ہمارے لئے خداکافی ہے جس نے ہم کوہمارے شیعہ مومنین کی بہتری کے لئے ذرائع دکھائے دئیے ہیں ۔ جب تک دولت دنیا فاسقوں کے ہاتھ میں رہے گی ۔ ہم کوتمہاری خبرےں پہونچتی رہیں گی اورتمہارے معاملات کے متعلق کوئی بات ہم سے پوشیدہ نہ رہے گی ۔ ہم ان لغزشوں کوجانتے ہیں جولوگوں سے اپنے نیک اسلاف کے خلاف ظاہرہورہی ہیں ۔ (شاید اس سے اپنے چچا جعفرکی طرف اشارہ فرمایاہے ) انھوںنے اپنے عہدوں کوپس پشت ڈال دیاہے ،گویاوہ کچھ جانتے ہی نہیں ۔ تاہم ہم ان کی رعآیتوں کوچھوڑنے والے نہیں اورنہ ان کے ذکربھولنے والے ہیں اگرایساہوتا توان پرمصیبتےں نازل ہوجاتےں اوردشمنوں کوغلبہ حاصل ہوجاتا ،پس ان سے کہو کہ خداسے ڈرواورہمارے امرونہی کی حفاظت کرو اوراللہ اپنے نورکاکامل کرنے والاہے ،چاہے مشرک کیسے ہی کراہت کریں ۔ تقیہ کوپکڑے رہو ،میں اس کی نجات کاضامن ہوں جوخداکی مرضی کاراستہ چلے گا ۔ ا س سال جمادی الاول کامہینہ آئے گا تواس کے واقعات سے عبرت حاصل کرنا تمہارے لئے زمین وآسمان سے روشن آیتےں ظاہرہوںگی ۔مسلمانوں کے گروہ حزن وقلق میں بمقام عراق پھنس جائیں گے اور ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے رزق میں تنگی ہوجائے گی پھریہ ذلت ومصیبت شریروںکی ھلاکت کے بعد دورہوجائیگی ۔ ان کی ھلاکت سے نیک اورمتقی لوگ خوش ہوں گے لوگوں کوچاہیے کہ وہ ا یسے کام کریں جن سے ان میں ہماری محبت زیادہ ہو ۔یہ معلوم ہوناچاہیے کہ جب موت یکایک آجائے گی توباب توبہ بند ہوجائے گا اورخدائی قہرسے نجات نہ ملے گی خدا تم کونیکی پرقائم رکھے ،اورتم پررحمت نازل کرے ۔ “

میرے خیال میں یہ خط عہد غیبت کبری کاہے ،کیونکہ شیخ مفید کی ولادت ۱۱ ذیقعدہ ۳۳۶ ہجری ہے اوروفات ۳ رمضان ۴۱۳ میں ہوئی ہے اورغیبت صغری کااختتام ۱۵ شعبان ۳۲۹ میں ہواہے علامہ کبیرحضرت شہید ثالث علامہ نوراللہ شوشتری مجالس المومنین کے ص ۲۰۶ میں لکھتے ہیں کہ شیخ مفید کے مرنے کے بعد حضرت امام عصرنے تین شعر ارسال فرمائے تھے جومرحوم کی قبرپرکندہ ہیں ۔

ان حضرات کے نام جنھوں نے زمانہ غیبت صغری میں امام کودیکھا ہے

چاروکلائے خصوصی اورسات وکلائے عمومی کے علاوہ جن لوگوں نے حضرت امام عصرعلیہ السلام کودیکھا ہے ان کے اسماء میں سے بعض کے نام یہ ہیں :

بغداد کے رہنے والوں میں سے ( ۱) ابوالقاسم بن رئیس ( ۲) ابوعبداللہ ابن فروخ ( ۳) مسرورالطباخ( ۴ ۔ ۵) احمدومحمدپسران حسن ( ۶) اسحاق کاتب ازنوبخت ( ۷) صاحب الفرا ( ۸) صاحب الصرة المختومہ ( ۹) ابوالقاسم بن ابی جلیس ( ۱۰) ابوعبداللہ الکندی ( ۱۱) ابوعبداللہ الجنیدی ( ۱۲) ہارون الفراز ( ۱۳) النیلی (ہمدان کے باشندوں میں سے) ( ۱۴) محمد بن کشمر( ۱۵) و جعفربن ہمدان (دینورکے رہنے والوں میں سے ) ( ۱۶) حسن بن ہروان( ۱۷) احمدبن ہروان (ازاصفہان ) ( ۱۸) ابن بازشالہ (ازضیمر) ( ۱۹) زیدان (ازقم) ( ۲۰) حسن بن نصر ( ۲۱) محمدبن محمد ( ۲۲) علی بن محمد بن اسحاق ( ۲۳) محمدبن اسحاق ( ۲۴) حسن بن یعقوب (ازری ) ( ۲۵) قسم بن موسی ( ۲۶) فرزند قسم بن موسی ( ۹۲۷ ابن محمد بن ہارون ( ۲۸) صاحب الحصاقہ ( ۲۹) علی بن محمد ( ۳۰) محمد بن یعقوب کلینی ( ۳۱) ابوجعفرالرقا (ازقزوین) ( ۳۲) مرواس ( ۳۳) علی بن احمد (ازفارس ) ( ۳۴) المجروح (ازشہزور) ( ۳۵) ابن الجمال (ازقدس) ( ۳۶) مجروح (ازمرو) ( ۳۷) صاحب الالف دینار ( ۳۸) صاحب المال والرقة البیضا ( ۳۹) ابوثابت (ازنیشابور) ( ۴۰) محمدبن شعیب بن صالح (ازیمن) ( ۴۱) فضل بن برید ( ۴۲) حسن بن فضل ( ۴۳) جعفری ( ۴۴) ابن الاعجمی ( ۴۵) شمشاطی (ازمصر) ( ۴۶) صاحب المولودین ( ۴۷) صاحب ا لمال ( ۴۸) ابورحا (ازنصیبین) ( ۴۹) ابومحمدابن الوجنا(ازاہواز) ( ۵۰) الحصینی (عاےة المقصود جلد ۱ ص ۱۲۱) ۔

ِِزیارت ناحیہ اوراصول کافی :

کہتے ہیں کہ اسی زمانہ غیبت صغری میں ناحیہ مقدسہ سے ایک ایسی زیارت برآمد ہوئی ہے جس میں تمام شہدا کربلا کے نام اورانکے قاتلوں کے آسماہیں ۔ اس ”زیارت ناحیہ “ کے نام سے موسوم کیاجاتاہے ۔ اسی طرح یہ بھی کہاجاتاہے کہ اصول کافی جوکہ حضرت ثقة الاسلام علامہ کلینی المتوفی ۳۲۸ کی ۲۰ سالہ تصنیف ہے وہ جب ا مام عصرکی خدمت میں پیش ہوئی توآپ نے فرمایا : ” ھذا کاف لشیعتنا۔“ یہ ہمارے شیعوں کے لئے کافی ہے زیارت ناحیہ کی توثیق بہت سے علماء نے کی ہے جن میں علامہ طبرسی اورمجلسی بھی ہیں دعائے سباسب بھی آپ ہی سے مروی ہے ۔

غیبت کبری میں امام مہدی کامرکزی مقام :

امام مہدی علیہ السلام چونکہ اسی طرح زندہ اورباقی ہیں جس طرح حضرت عیسی ،حضرت ادریس ،حضرت خضر،حضرت الیاس ۔ نیز دجال بطال ، یاجوج ماجوج اورابلیس لعین زندہ اورباقی ہیں اوران سب کامرکزی مقام موجود ہے ۔ جہاں یہ رہتے ہیں مثلا حضرت عیسی چوتھے آسمان پر(قرآن مجید) حضرت ادریس جنت میں (قرآن مجید) حضرت خضراورالیاس ،مجمع البحرین یعنی دریائے فارس وروم کے درمیان پانی کے قصرمیں (عجائب القصص علامہ عبدالواحد ص ۱۷۶) اوردجال بطال طبرستان کے جزیرہ مغرب میں (کتاب غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۰۲) اوریاجوج ماجوج بحیرہ روم کے عقب میں دوپہاڑوں کے درمیان (کتاب غایۃ المقصود جلد ۲ ص ۴۷) اورابلیس لعین ،استعمارارضی کے وقت والے پایہ تخت ملتان میں (کتاب ارشادالطالبین علامہ اخوند درویزہ ص ۲۴۳) تو لامحالہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کابھی کوئی مرکزی مقام ہوناضروری ہے جہاں آپ تشریف فرماہوں اوروہاں سے ساری کائنات میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوں اسی لئے کہاجاتاہے کہ زمانہ غیبت میں حضرت امام مہدی علیہ السلام (جزیرہ خضرااوربحرابیض) میں اپنی اولاد اپنے اصحاب سمیت قیام فرماہیں اوروہیں سے باعجازتمام کام کیاکرتے اورہرجگہ پہنچاکرتے ہیں ،یہ جزیرہ خضرا سرزمین ولآیت بربرمیں درمیان دریائے اندلس واقع ہے یہ جزیرہ معموروآبادہے ، اس دریاکے ساحل میں ایک موضع بھی ہے جوبشکل جزیرہ ہے اسے اندلس والے (جزیرہ رفضہ ) کہتے ہیں ،کیونکہ اس میں ساری آبادی شیعوںکی ہے اس تمام آبادی کی خوراک وغیرہ جزیرہ خضراسے براہ بحرابیض سال میں دوبار ارسال کی جاتی ہے ۔ملاحظہ ہو(تاریخ جہاں آرا۔ ریاض العماء ،کفاےة المہدی ،کشف القناع ، ریاض المومنین ،غایۃ المقصود ،رسالہ جزیرہ خضراء وبحرابیض اورمجالس المومنین علامہ نوراللہ شوشتری وبحارالانوار،علامہ مجلسی کتاب روضة الشہداء علامہ حسین واعظ کاشفی ص ۴۳۹ میں امام مہدی کے اقصائے بلاد مغرب میں ہونے اوران کے شہروں پرتصرف رکھنے اورصاحب اولادوغیرہ ہونے کاحوالہ ہے ۔ امام شبلنجی علامہ عبدالمومن نے بھی اپنی کتاب نورالابصارکے ص ۱۵۲ میں اس کی طرف بحوالہ کتاب جامع الفنون اشارہ کیاہے ، غیاث اللغاث کے ص ۷۲ میں ہے کہ یہ وہ دریاہے جس کے جانب مشرق چین ،جانب غربی یمن ، جانب شمالی ہند، جانب جنوبی دریائے محیط واقع ہے ۔ اس بحرابیض واخضرکاطول ۲ ہزارفرسخ اورعرض پانچ سوفرسخ ہے اس میں بہت سے جزیزے آباد ہیں جن میں ایک سراندیب بھی ہے اس کتاب کے ص ۲۹۵ میں ہے کہ ”صاحب الزمان“ حضرت امام مہدی علیہ السلام کالقب ہے علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ جس مکان میں رہتے ہیں اسے ”بیت الحمد“ کہتے ہیں ۔ (اعلام الوری ص ۲۶۳) ۔

جزیرہ خضرا میں امام علیہ السلام سے ملاقات

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قیام گاہ جزیرہ خضرا میں جولوگ پہنچے ہیں۔ ا ن میں سے شیخ صالح ،شیخ زین العابدین ملی بن فاضل مازندرانی کانام نمایاں طورپرنظرآتاہے ۔ آپ کی ملاقات کی تصدیق ، فضل بن یحیی بن علی طبیعی کوفی وشیخ عالم عامل شیخ شمس الدین نجح حلی وشیخ جلال الدین ، عبداللہ ابن عوام حلی نے فرمائی ہے ۔ علامہ مجلسی نے آپ کے سفرکی ساری وؤیداد ایک رسالہ کی صورت میں ضبط کیاہے ۔ جس کامفصل ذکربحارالانوار میں موجود ہے رسالہ جزیرہ خضراء کے ص ۱ میں ہے کہ شیخ اجل سعیدشہید بن محمد مکی اورمیرشمس الدین محمد اسداللہ شوشتری نے بھی تصدیق کی ہے۔

مؤلف کتاب ہذا کہتاہے کہ حضرت کی ولادت حضرت کی غیبت ،حضرت کاظہوروغیرہ جس طرح رمزخداوندی اوررازالہی ہے اسی طرح آپ کی جائے قیام بھی ایک رازہے جس کی اطلاع عام ضروری نہیں ہے ،واضح ہوکہ کولمبس کے ادراک سے قبل بھی امریکہ کاوجود تھا۔

امام غائب کاہرجگہ حاضرہونا

احادیث سے ثابت ہے کہ امام علیہ السلام جوکہ مظہرالعجائب حضرت علی کے پوتے ،ہرمقام پرپہونچتے اورہرجگہ اپنے ماننے والوں کے کام آتے ہیں ۔ علما نے لکھا ہے کہ آپ بوقت ضرورت مذہبی لوگوں سے ملتے ہیں لوگ انھےں دیکھتے ہیں یہ اوربات ہے کہ انھےں پہچان نہ سکےں ۔(غایۃ المقصود)۔

امام مہدی اورحج کعبہ

یہ مسلمات میں سے ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ہرسال حج کعبہ کے لئے مکہ معظمہ اسی طرح تشریف لے جاتے ہیں جس طرح حضرت خضروالیاس جاتے ہیں (سراج القلوب ۷۷) علی احمد کوفی کابیان ہے کہ میں طواف کعبہ میں مصروف ومشغول تھا کہ میری نظرایک نہآیت خوبصورت نوجوان پرپڑی ،میں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ اورکہاںسے تشریف لائے ہیں ؟ آپ نے فرمایا”انا المهدی وانا القائم ۔“ میں مہدی آخرالزماں اورقائم آل محمد ہوں ۔ غانم ہندی کابیان ہے کہ میں امام مہدی کی تلاش میں ایک مرتبہ بغداد گیا،ایک پل سے گزرتے ہوئے مجھے ایک صاحب ملے اور وہ مجھے ایک باغ میں لے گئے اورانھوںنے مجھ سے ہندی زبان میں کلام کیا اورفرمایاکہ تم امسال حج کے لئے نہ جاؤ،ورنہ نقصان پہونچے گا محمد بن شاذان کاکہنا ہے کہ میں ایک دفعہ مدینہ میں داخل ہوا توحضرت امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ،انھوں نے میراپورانام لے کرمجھے پکارا ،چونکہ میرے پورے نام سے کوئی واقف نہ تھا اس لئے مجھے تعجب ہوا۔ میں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟فرمایا میں امام زمانہ ہوں ۔ علامہ شیخ سلیمان قندوزی بلخی تحریرفرماتے ہیں کہ عبداللہ بن صالح نے کہا کہ میں نے غیبت کبری کے بعد امام مہدی علیہ السلام کوحجراسود کے نزدیک اس حال میں کھڑے ہوئے دیکھاکہ انھےں لوگ چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں ۔ (ینابع المودة )۔

زمانہ غیبت کبری میں امام مہدی کی بیعت :

حضرت شیخ عبداللطیف حلبی حنفی کاکہناہے کہ میرے والد شیخ ابراہیم حسین کاشمارحلب کے مشائخ عظام میں تھا ۔وہ فرماتے ہیں کہ میرے مصری استاد نے بیان کیا ہے کہ میں نے حضر ت امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھ پربیعت کی ہے۔ (ینابع المودةباب ۸۵ ص ۳۹۲ )

امام مہدی کی مومنین سے ملاقات :

رسالہ جزیرہ خضرا کے ص ۱۶ میں بحوالہ احادیث آل محمد مرقوم ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام سے ہرمومن کی ملاقات ہوتی ہے۔ یہ اوربات ہے کہ مومنین انھےں مصلحت خداوندی کی بناء پراس طرح نہ پہچان سکین جس طرح پہچاننا چاہیے مناسب معلوم ہوتاہے اس مقام پرمیں اپناایک خواب لکھ دوں ۔ واقعہ یہ ہے کہ آج کل جبکہ میں امام زمانہ کے حالات لکھ رہاہوں حدیث مذکورہ پرنظرڈالنے کے بعد فورا ذہن میں یہ خیال پیداہواکہ مولا سب کودکھائی دیتے ہیں ،لیکن مجھے آج تک نظرنہیں آئے ،اس کے بعد میں استراحت پرگیا اورسونے کے ارادے سے لیٹاابھی نیند نہ آئی تھی اورقطعی طورپرنیم بیداری کی حالت میں تھا کہ ناگاہ میں نے دیکھا کہ میرے کان سے جانب مشرق تابحد نظرایک قوسی خط پڑاہواہے یعنی شمال کی جانب کاسارا حصہ عالم پہاڑہے اوراس پرامام مہدی علیہ السلام برہنہ تلوارلئے کھڑے ہیں اوریہ کہتے ہوئے کہ ”نصف دنیاآج ہی فتح کرلوں گا ۔“ شمال کی جانب ایک پاؤں بڑھارہے ہیں آپ کاقد عام انسانوں کے قد سے ڈیوڑھا اورجسم دوہراہے ،بڑی بڑی سرمگین آنکھےں اورچہرہ انتہائی روشن ہے آپ کے پٹے کٹے ہوئے ہیں اورسارا لباس سفید ہے اوروقت عصرکاہے۔

یہ واقعہ ۳۰ نومبر ۱۹۵۸ شب یکشنبہ بوقت ساڑھے چاربجے شب کاہے۔

ملامحمد باقرداماد کاامام عصرسے استفادہ کرنا :

ہمارے اکثرعلما علمی مسائل اورمذہبی ومعاشرتی مراحل حضرت امام مہدی ہی سے طے کرتے آئے ہیں ملامحمد باقرداماد جوہمارے عظیم القدرمجتہد تھے ان کے متعلق ہے کہ ایک شب آپ نے ضریح نجف اشرف میں ایک مسئلہ لکھ کرڈالا اس کے جواب میں ان سے تحریرا کہاگیاکہ تمھارا امام زمانہ اس وقت مسجدکوفہ میں نمازگذارہے تم وہاں جاؤ،وہ وہاں جاپہونچے ،خود بخود دروازہ مسجد کھل گیا ۔ اورآپ اندرداخل ہوگئے آپ نے مسئلہ کاجواب حاصل کیا اواآپ مطمئن ہوکر برآمد ہوئے۔

جناب بحرالعلوم کا امام زمانہ سے ملاقات کرنا :

کتاب قصص العلما مولفہ علامہ تنکابنی ص ۵۵ میں مجتہد اعظم کربلائے معلی جناب آقا محمدمہدی بحرالعلوم کے تذکرہ میں مرقوم ہے کہ ایک شب آپ نماز میں اندرون حرم مشغول تھے کہ اتنے میں امام عصراپنے اب وجدکی زیارت کے لئے تشریف لائے جس کی وجہ سے ان کی زبان میں لکنت ہوئی اوربدن میں ایک قسم کا رعشہ پیداہوگیا پھرجب وہ واپس تشریف لے گئے توان پرجوایک خاص قسم کی کیفیت طاری تھی وہ جاتی رہی ۔اس کے علاوہ آپ کے اسی قسم کے کئی واقعات کتاب مذکورہ میں مندرج ہیں ۔

امام مہدی علیہ السلام کاحمایت مذہب فرمانا واقعہ انار :

کتاب کشف الغمہ ۱۳۳ میں ہے کہ سید باقی بن عطوہ امامیہ مذہب کے تھے اوران کے والدزیدیہ خیال رکھتے تھے ایک دن ان کے والدعطوہ نے کہا کہ میں سخت علیل ہوگیاہوں اوراب بچنے کی کوئی امیدنہیں ۔ہرقسم کے اطبا کاعلاج کراچکاہوں، اے نورنظر ! میں تم سے وعدہ کرتاہوں کہ اگرمجھے تمہارے امام نے شفادیدی ،تومیں مذہب امامیہ اختیارکرلوںگا یہ کہنے کے بعد جب یہ رات کوبسترپرگئے توامام زمانہ کاان پرظہورہوا،امام نے مقام مرض کواپناہاتھ سے مس کردیا اوروہ مرض جاتارہا عطوہ نے اسی وقت مذہب امامیہ اختیارکرلیا اور رات ہی میں جاکر اپنے فرزند باقی علوی کوخوشخبری دیدی ۔

اسی طرح کتاب جواہرالبیان میں ہے کہ بحرین کاوالی نصرانی اوراس کاوزیرخارجی تھا ،وزیرنے بادشاہ کے سامنے چند تازہ انار پیش کئے جن پرخلفا کے نام علی الترتیب کندہ تھے اوربادشاہ کویقین دلایاکہ ہمارامذہب حق ہے اورترتیب خلافت منشاقدرت کے مطابق درست ہے بادشاہ کے دل میں یہ بات کچھ اس طرح بیٹھ گئی کہ وہ یہ سمجھنے پرمجبور ہوگیا کہ وزیرکامذہب حق ہے اورامامیہ راہ باطل پرگامزن ہیں ،چنانچہ اس نے اپنے خیال کی تکمیل کے لئے جملہ علما امامیہ کو جواس کے عہد حکومت تھے بلابھیجا اورانھےں اناردکھاکر ان سے کہاکہ اس کی رد میں کوئی معقول دلیل لاؤ ورنہ ہم تمہیں قتل کرکے تمام مذہب کوبیخ وبن سے اکھاڑدیں گے ،اس واقعہ نے علماکرام میں ایک عجیب قسم کاہیجان پیداکردیا ، بالاخرسب علماء آپس میں مشورہ کے بعد ایسے دس علما پرمتفق ہوگئے جوان میں نسبتا مقدس تھے اورپروگرام یہ بنایا کہ جنگل میں ایک ایک عالم بوقت شب جاکرامام زمانہ سے استعانت کرے ،چونکہ ایک شب کی مہلت ومدت ملی تھی ،اس لئے پریشانی زیادہ تھی غرضکہ علماء نے جنگل میں جاکرامام زمانہ سے فریاد کاسلسلہ شروع کیا۔دوعالم اپنی اپنی مدت ،فریادوفغاں ختم ہونے پرجب واپس آئے اورتیسرے عالم حضرت محمدبن علی کی باری آئی توآپ نے بدستورصحرامیں جاکرمصلی بچھادیا ،اورنماز کے بعد امام زمانہ کواپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوکر واپس آتے ہوئے انھےں ایک شخص راستے میں ملا اس نے پوچھا ۔ کیابات ہے کیوں پریشان ہو،آپ نے عرض کی امام زمانہ کی تلاش ہے اوروہ تشریف لانہیں رہے ۔ اس شخص نے کہا :” اناصاحب العصرفاذکرحاجتک “ میں ہی تمہارا امام زمانہ ہوں ،کہوکیاکہتے ہو محمدبن علی نے کہا کہ اگرآپ صاحب العصرہیں توآپ سے حاجت بیان کرنے کی ضرورت کیا،آپ کوخود ہی علم ہوگا ۔

اس کے جواب میں انھوں نے فرمایا کہ سنو ! وزیرکے فلاں کمرہ میں ایک لکڑی کا صندوق ہے اس مٹی کے چند سانچے رکھے ہوئے ہیں جب انارچھوٹاہوتاہے وزیراس پرسانچہ چڑھادیتاہے ۔ اورجب وہ بڑھتاہے تواس پروہ نام کندہ ہوجاتے ہیں جوسانچہ میں کندہ ہیں محمد بن علی ! تم بادشاہ کواپنے ہمراہ لے جاکروزیرکے دجل وفریب کوواضح کردو،وہ اپنے ارادہ سے بازآجائے گا اوروزیرکوسزا دے گا چنانچہ ایساہی کیاگیا اوروزیربرخواست کردیا گیا ۔ (کتاب بدایع الاخبارملا اسماعیل سبزواری ص ۱۵۰ وسفینة البحارجلد ۱ ص ۵۳۶ طبع نجف اشرف)۔

امام عصرکا واقعہ کربلابیان کرنا :

حضرت امام مہدی علیہ السلام سے پوچھاگیا کہ ” کھیعص “ کاکیامطلب ہے توفرمایا کہ اس میں (ک)سے کربلا (ہ) سے ہلاکت عترت (ی ) سے یزیدملعون (ع) سے عطش حسینی (ص ) سے صبرآل محمدمراد ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ آیت میں جناب زکریاکاذکر کیاگیا ہے ۔جب زکریاکوواقعہ کربلاکی اطلاع ہوئی تووہ تین روزتک مسلسل روتے رہے ۔(تفسیرصافی ص ۲۷۹) ۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے طول عمرکی بحث :

بعض مستشرقین وماہرین اعمارکاکہناہے کہ ”جن کے اعمال وکرداراچھے ہوتے ہیں اورجن کا صفائے باطن کامل ہوتاہے ان کی عمرےں طویل ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ علما فقہاء اورصلحاکی عمرےں اکثرطویل دیکھی گئی ہیں اورہوسکتاہے کہ طول عمرمہدی علیہ السلام کی یہ بھی ایک وجہ ہو ،ان سے قبل جوآئمہ علہیم السلام گزرے وہ شہیدکردئیے گئے ،اوران پردشمنوں کادسترس نہ ہوا ،تویہ زندہ رہ گئے اوراب تک باقی ہیں لیکن میرے نزدیک عمرکاتقرر وتعین دست ایزد میں ہے اسے اختیارہے کہ کسی کی عمرکم رکھے کسی کی زیادہ اس کی معین کردہ مدت عمر میں ایک پل کابھی تفرقہ نہیں ہوسکتا ۔

تواریخ واحادیث سے معلوم ہوتاہے کہ خداوندعالم نے بعض لوگوں کوکافی طویل عمرےں عطاکی ہیں ۔ عمرکی طوالت مصلحت خداوندی پرمبنی ہے اس سے اس نے اپنے دوست اوردشمن دونوں کونوازاہے ۔دوستوں میں حضرت عیسی ،حضرت ادریس ،حضرت خضروحضرت الیاس ، اوردشمنوں میں سے ابلیس لعین ،دجال بطال ،یاجوج ماجوج وغیرہ ہیں اورہوسکتاہے کہ چونکہ قیامت اصول دین اسلام سے ہے اور اس کی آمد میں امام مہدی کاظہورخاص حیثیت رکھتاہے لہذا ان کازندہ وباقی رکھنامقصودہاہو ،اوران کے طول عمرکے اعتراض کورداوررفع ودفع کرنے کے لئے اس نے بہت سے افراد کی عمرےں طویل کردی ہوں مذکورہ ا فراد کوجانے دیجئے ۔ عام انسانوں کی عمروں کودیکھئے بہت سے ایسے لوگ ملےں گے جن کی عمرےں کافی طویل رہی ہیں ،مثال کے لئے ملاحظہ ہو :

۱ ) ۔ لقمان کی عمر ۳۵۰۰ سال ۔( ۲) عوج بن عنق کی عمر ۳۳۰۰ سال اوربقولے ۳۶۰۰ سال ۔ ( ۳) ذوالقرنین کی عمر ۳۰۰۰ سال۔ ( ۴) حضرت نوح و( ۵) ضحاک و( ۶) طمہورث کی عمرےں ۱۰۰۰ سال۔( ۷) قینان کی عمر ۹۰۰ سال ۔ ( ۸) مہلائیل کی عمر ۸۰۰ سال ( ۹) نفیل بن عبداللہ کی عمر ۷۰۰ سال۔ ( ۱۰) ربیعہ بن عمرعرف سطیع کاہن کی عمر ۶۰۰ سال ۔ ( ۱۱) حاکم عرب عامربن ضرب کی عمر ۵۰۰ سال ۔ ( ۱۲) سام بن نوح کی عمر ۵۰۰ سال۔ ( ۱۳) حرث بن مضاض جرہمی کی عمر ۴۰۰ سال ۔ ( ۱۴) ارفخشد کی عمر ۴۰۰ سال ۔ ( ۱۵) دریدبن زیدکی عمر ۴۵۶ سال۔ ( ۱۶) سلمان فارسی کی عمر ۴۰۰ سال۔ ( ۱۷) عمروبن روسی کی عمر ۴۰۰ سال۔ ( ۱۸) زہیربن جناب بن عبداللہ کی عمر ۴۳۰ سال۔ ( ۱۹) حرث بن ضیاص کی عمر ۴۰۰ سال۔ ( ۲۰) کعب بن جمجہ کی عمر ۳۹۰ سال ۔ ( ۲۱) نصربن دھمان بن سلیمان کی عمر ۳۹۰ سال۔ ( ۲۲) قیس بن ساعدہ کی عمر ۳۸۰ سال ۔ ( ۲۳) عمربن ربیعہ کی عمر ۳۳۳ سال۔ ( ۲۴) اکثم بن ضیفی کی عمر ۳۳۶ سال ۔ ( ۲۵) عمربن طفیل عدوانی کی عمر ۲۰۰ سال تھی (غایۃ المقصود ص ۱۰۳ اعلام الوری ص ۲۷۰ ) ان لوگوں کی طویل عمروں کودیکھنے کے بعدہرگزنہیں کہاجاسکتا کہ ”چونکہ اتنی عمرکاانسان نہیں ہوتا ،اس لئے امام مہدی کاوجود ہم تسلیم نہیں کرتے ۔ کیونکہ امام مہدی علیہ السلام کی عمراس وقت ۱۳۹۳ ہجری میں صرف گیارہ سواڑتالیس سال کی ہوتی ہے جومذکورہ عمروں میں سے لقمان حکیم اورذوالقرنین جیسے مقدس لوگوں کی عمروں سے بہت کم ہے ۔

الغرض قرآن مجید ،اقوال علمااسلام اوراحادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام مہدی پیداہوکر غائب ہوگئے ہیں اورقیامت کے قریب ظہورکریں گے ،اورآپ اسی طرح زمانہ غیبت میں بھی حجت خداہیں جس طرح بعض انبیاء اپنے عہدنبوت میں غائب ہونے کے دوران میں بھی حجت تھے (عجائب القصص ص ۱۹۱ ) اورعقل بھی یہی کہتی ہے کہ آپ زندہ اورباقی موجودہیں کیونکہ جس کے پیداہونے پرعلماکااتفاق ہواوروفات کاکوئی ایک بھی غیرمتعصب عالم قائل نہ ہو اور

طویل العمرانسانوں کے ہونے کی مثالےں بھی موجود ہوں تولامحالہ اس کاموجود اورباقی ہونا ماننا پڑے گا ۔ دلیل منطقی سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے لہذا امام مہدی زندہ اورباقی ہیں ۔

ان تماشواہد اوردلائل کی موجودگی میں جن کا ہم نے اس کتاب میں ذکرکیاہے ،مولوی محمد امین مصری کا رسالہ ”طلوع اسلام “ کراچی جلد ۱۴ ص ۵۴# و ۹۴# میں یہ کہناکہ :

” شیعوں کو ابتداء روی زمین پر کوئی ظاہری مملکت قائم کرنے میں کامیابی نہ ہوسکی ،ان کوتکلیفےں دی گئےں اورپراکندہ اورمنتشر کردیا گیا توانھوں نے ہمارے خیال کے مطابق امام منتظراورمہدی وغیرہ کے پرامیدعقائد ایجاد کرلئے تاکہ عوام کی ڈھارس بندھی رہے۔ “

اورملا اخوند درویزہ کاکتاب ارشادالطالبین ص ۳۹۶ میں یہ فرمانا کہ :

” ہندوستان میں ایک شخص عبداللہ نامی پیداہوگا جس کی بیوی کاایمنہ (آمنہ) ہوگی ، اس کے ایک لڑکاپیداہوگاجس کانان محمد ہوگاوہی کوفہ جاکرحکومت کرے گا

لوگوں کایہ کہنا درست نہیں کہ امام مہدی وہی ہیں جوامام حسن عسکری کے فرزندہیں ۔ ا لخ حددرجہ مضحکہ خیز،افسوس ناک اورحیرت انگیز ہے ،کیونکہ علما فریقین کااتفاق ہے کہ ”المھدی من ولدالامام الحسن العسکری ۔“ امام مہدی حضرت امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں اور ۱۵ شعبان ۲۵۵ کوپیداہوچکے ہیں ،ملاحظہ ہو ،اسعاف الراغبین ،وفیات الاعیان ،روضة الاحباب ،تاریخ ابن ا لوردی ،ینابع المودة ، تاریخ کامل ،تاریخ طبری ،نورالابصار،اصول کافی ،کشف الغمہ ،جلاالعیون ،ارشادمفید ،اعلام الوری ،جامع عباسی ،صواعق محرقہ ،مطالب السول ،شواہدالنبوت ،ارجح المطالب ،بحارالانوار ومناقب وغیرہ۔

حدیث نعثل اورامام عصر :

نعثل ایک یہودی تھا جس سے حضرت عائشہ ،حضرت عثمان کوتشبیہ دیاکرتی تھےں ،اوررسول اسلام علیہ السلام کب بعد فرمایا کرتی تھےں : اس نعثل اسلامی کو عثمان کوقتل کردو ۔ (ملاحظہ ہو،نہاےةاللغة علامہ ابن اثیرجزری ص ۳۲۱) یہی نعثل ایک دن حضوررسول کریم کی خدمت میں حاضرہوکر عرض پردازہوا مجھے اپنے خدا ،اپنے دین ،اپنے خلفا کاتعارف کرائیے اگر میں آپ کے جواب سے مطمئن ہوگیا تومسلمان ہوجاؤں گا ۔ حضرت نے نہآیت بلیغ اوربہترین انداز میں خلاق عالم کاتعارف کرایا،اس کے بعد دین اسلام کی وضاحت کی ۔ ”قال صدقت ۔“ نعثل نے کہا آپ نے بالکل درست فرمایا پھراس نے عرض کی مجھے اپنے وصی سے آگاہ کیجئے اوربتائیے کہ وہ کون ہے یعنی جس طرح ہمارے نبی حضرت موسی کے وصی یوشع بن نون ہیں اس طرح آپ کے وصی کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا میرے وصی علی بن ابی طالب اور ان کے فرزند حسن وحسین پھرحسین کے صلب سے نوبیٹے قیامت تک ہوں گے ۔ اس نے کہا سب کے نام بتائیے آپ نے بارہ اماموں کے نام بتائے ناموں کوسننے کے بعد وہ مسلمان ہوگیا اورکہنے لگا کہ میں نے کتب آسمانی میں ان بارہ ناموں کو اسی زبان کے الفاظ میں دیکھا ہے ،پھراس نے ہروصی کے حالات بیان کئے ،کربلا کاہونے والا واقعہ بتایا ،امام مہدی کی غیبت کی خبردی اورکہا کہ ہمارے بارہ اسباط میں سے لادی بن برخیاغائب ہوگئے تھے پھرمدتوں کے بعد ظاہر ہوئے اورازسرنودین کی بنیادیں استوارکےں ۔حضرت نے فرمایا اسی طرح ہمارابارہواں جانشین امام مہدی محمدبن حسن طویل مدت تک غائب رہ کر ظہورکرے گا ۔ اوردنیا کو عدل وانصاف سے بھردے گا ۔ (غایۃ المقصود ص ۱۳۴ بحوالہ فرائدالسمطین حموینی )۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کاظہورموفورالسرور :

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہورسے پہلے حوعلامات ظاہرہوں گے ان کی تکمیل کے دوران ہی نصاری فتح ممالک عالم کا ارادہ کرکے اٹھ کھڑے ہوں گے اوربیشمار ممالک پرقابوحاصل کرنے کے بعد ان پرحکمرانی کریں گے اسی زمانہ میں ابوسفیان کی نسل سے ایک ظالم پیداہوگا جوعرب وشام پرحکمرانی کرے گا ۔اس کی دلی تمنا یہ ہوگی کہ سادات کے وجود سے ممالک محروسہ خالی کردئیے جائیں اور نسل محمدی کا ایک فرزند بھی باقی نہ رہے ۔چنانچہ وہ سادات کو نہآیت بے دردی سے قتل کرے گا ۔ پھراسی اثنا میں بادشاہ روم کو نصاری کے ایک فرقہ سے جنگ کرنا پڑے گی شاہ روم ایک فرقہ کوہمنوابناکر دوسرے فرقہ سے جنگ کرے گا اورشہر قسطنطنیہ پرقبضہ کرلے گا ۔ قسطنطنیہ کا بادشاہ وہاں سے بھاگ کر شام میں پناہ لے گا ،پھروہ نصاری کے دوسرے فرقہ کی معاونت سے فرقہ مخالف کے ساتھ نبرد آزماہوگا یہاں تک کہ اسلام کی زبردست فتح نصیب ہوگی فتح اسلام کے باوجود نصاری شہرت دیں گے کہ ”صلیب “ غالب آگئی ،اس پرنصاری اور مسلمانوں میں جنگ ہوگی اورنصاری غالب آجائیں گے ۔ بادشاہ اسلام قتل ہوجائے گا ۔ اورملک شام پربھی نصرانی جھنڈا لہرانے لگے گا اور مسلمانوں کاقتل عام ہوگا ۔ مسلمان اپنی جان بچاکر مدینہ کی طرف کوچ کریں گے اورنصرانی اپنی حکومت کو وسعت دیتے ہوئے خیبر تک پہونچ جائیں گے اسلامیان عالم کے لئے کوئی پناہ نہ ہوگی ۔مسلمان اپنی جان بچانے سے عاجزہوں گے اس وقت وہ گروہ درگروہ سارے عالم میں امام مہدی علیہ السلام کوتلاش کریں گے ،تاکہ اسلام محفوظ رہ سکے اوران کی جانےں بچ سکےں اورعوام ہی نہیں بلکہ قطب ،ابدال ،اور اولیا جستجومیں مشغول ومصروف ہوں گے کہ ناگاہ آپ مکہ معظمہ میں رکن ومقام کے درمیان سے برآمد ہوں گے ۔ (قیامت نامہ قدوة المحدثین شاہ رفیع الدین دہلوی ص ۳ طبع پشاور ۱۹۲۶) علما فریقین کاکہنا ہے کہ آپ قریہ ”کرعہ “ سے روانہ ہوکر مکہ معظمہ سے ظہورفرمائےں گے (غایۃ المقصود ص ۱۶۵ ،نورالابصار ۱۵۴) علامہ کنجی شافعی اورعلی بن محمد صاحب کفاےة الاثر کابحوالہ ابوہریرہ بیان ہے کہ حضرت سرورکائنات نے ارشاد فرمایا ہے کہ امام مہدی قریہ کرعہ جومدینہ سے بطرف مکہ تیس میل کے فاصلہ پرواقع ہے (مجمع البحرین ۴۳۵) نکل کر مکہ معظمہ سے ظہورکریں گے ،وہ میری ذرہ پہنے ہوںگے اورمیرا عمامہ باندھے ہوں گے ان کے سر پرابرکاسایہ ہوگا اور ملک آواز دیتاہوگا کہ یہی امام مہدی ہیں ان کی اتباع کرو ایک روآیت میں ہے کہ جبرئیل آوازدیں گے اور ”ہوا“ اس کو ساری کائنات میں پہنچا دے گی اورلوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں گے (غایۃ المقصود ۱۶۵) ۔

لغت سروری ۵۳۰ میں ہے کہ آپ قصبہ خیرواں سے ظہورفرمائےں گے ۔ معصوم کافرماناہے کہ امام مہدی کے ظہورکے متعلق کسی کاکوئی وقت معین کرنا فی الحقیقت اپنے آپ کوعلم غیب میں خداکاشریک قراردینا ہے ۔ وہ مکہ میں بے خبرظہورکریں گے ،ان کے سرپرزرد رنگ کاعمامہ ہوگا بدن پررسالت مآب صلعم کی چادر اورپاؤں میں انھےں کی نعلین مبارک ہوگی ۔ وہ اپنے سامنے چند بھیڑےں رکھےں گے ،کوئی انھےں پہچان نہ سکے گا ۔ اوراسی حالت میں یکہ وتنہا بغیرکسی رفیق کے کعبة اللہ میں آجائیں گے جس وقت عالم سیاہی شب کی چادر اوڑھ لے گا اورلوگ سوجائیں گے اس وقت ملائکہ صف بہ صف ان پراترےں گے اورحضرت جبرئیل ومیکائیل انھےں نویدالھی سنائےں گے کہ ان کا حکم تمام دنیاپرجاری وساری ہے ۔ یہ بشارت پاتے ہی امام علیہ السلام شکرخدابجالائیںگے اوررکن حجراسود اورمقام ا براہیم کے درمیان کھڑے ہوکر بآواز بلند ندادیں گے کہ اے وہ گروہ جومیرے مخصوصوں اوربزرگوں سے ہوا اوروہ لوگو! جن کی حق تعالی نے روئے زمین پرمیرے ظاہرہونے سے پہلے میری مدد کے لئے جمع کیاہے ۔”آجاؤ۔“ یہ ندا حضرت کے ان لوگوںتک خواہ وہ مشرق میں ہوںیامغرب میں پہنچ جائے گی اوروہ لوگ یہ آواز سن کر چشم زدن میں حضرت کے پاس جمع ہوجائیںگے یہ لوگ ۳۱۳ ہوں گے ،اورنقیب امام کہلائیںگے ۔اسی وقت ایک نورزمین سے آسمان تک بلند ہوگا جوصفحہ دنیامیں ہرمومن کے گھرمیں داخل ہوگا جس سے ان کی طبیعتےں مسرورہوجائیںگی مگرمومنین کومعلوم نہ ہوگا کہ امام علیہ السلام کا ظہور ہواہے صبح ا مام علیہ السلام مع ان ۳۱۳ ،اشخاص کے جورات کوان کے پاس جمع ہوگئے تھے کعبہ میں کھڑے ہوںگے اوردیوار سے تکیہ لگاکر اپنا ہاتھ کھولےں گے جوموسی کے یدبیضا کی مانند ہوگا اورکہیں گے کہ جوکوئی اس ہاتھ پربیعت کرے گا وہ ایساہے گویا اس نے ”یداللہ “ پربیعت کی ۔ سب سے پہلے جبرئیل شرف بیعت سے مشرف ہوںگے ۔ان کے بعد ملائکہ بیعت کریں گے ۔ پھرمقدم الذکرنقبا ( ۳۱۳) بیعت سے مشرف ہوں گے اس ہلچل اوراژدھام میں مکہ میں تہلکہ مچ جائے گا اورلوگ حیرت زدہ ہوکر ہرسمت سے استفسارکریں گے کہ یہ کون شخص ہے،یہ تمام واقعات طلوع آفتاب سے پہلے سرانجام ہوجائیںگے پھرجب سورج چڑھے گا توقرص آفتاب کے سامنے ایک منادی کرنے والا ظاہرہوگا اورباآوازبلند کہے گا جس کوتمام ساکنان زمین وآسمان سنےں گے کہ ”اے گروہ خلائق یہ مہدی آل محمد ہیں ،ان کی بیعت کرو ،پھرملائکہ اور( ۳۱۳) آدمی تصدیق کریں گے اوردنیا کے ہرگوشہ سے جوق درجوق آپ کی زیارت کے لئے لوگ روانہ ہوجائیں گے ،اورعالم پرحجت قائم ہوجائے گی ،اس کے بعد دس ہزار افراد بیعت کریںگے ۔اورکوئی یہودی اورنصرانی باقی نہ چھوڑاجائے گا ۔ صرف اللہ کانام ہوگا اورامام مہدی کاکام ہوگا جومخالفت کرے گا اس پرآسمان سے آگ برسے گی اوراسے جلاکر خاکستر کردے گی ۔“ (نورالابصارامام شبلنجی شافعی ۱۵۵ ،اعلام الوری ۲۶۴) ۔

علما نے لکھا ہے کہ ۲۷ مخلصین آپ کی خدمت میں کوفہ سے اس قسم کے پہونچ جائیںگے جوحاکم بنائےں جائیں گے جن کے اسما(کتاب منتخب بصائر) یہ ہیں : یوشع بن نون ،سلمان فارسی ، ابودجانہ انصاری ،مقداد بن اسود، مالک اشتر، اورقوم موسی کے ۱۵ افراد اورسات اصحاب کہف (اعلام الوری ۲۶۴ ، ارشاد مفید ۵۳۶) علامہ عبدالرحمن جامی کاکہنا ہے کہ قطب ،ابدال ،عرفا سب آپ کی بیعت کریں گے ، ﷼ آپ جانوروں کی زبان سے بھی واقف ہوں گے اور آپ انسانوں اورجنوں میں عدل وانصاف کریں گے ۔(شواہدالنبوت ۲۱۶) علامہ طبرسی کاکہنا ہے کہ آپ حضرت داؤد کے اصول پراحکام جاری کریں گے ،آپ کو گواہ کی ضرورت نہ ہوگی آپ ہرایک کے عمل سے بالہام خداوندی واقف ہوں گے ۔ (اعلام الوری ۲۶۴) امام شبلنجی شافعی کابیان ہے کہ جب امام مہدی کاظہورہوگا توتمام مسلمان خواص اورعوام خوش ومسرورہوجائیں گے ان کے کچھ وزرا ہوںگے جوآپ کے احکام پرلوگوں سے عمل کروائےں گے ۔ (نورالابصار ۱۵۳ بحوالہ فتوحات مکیہ ) علامہ حلبی کاکہنا ہے کہ اصحاب کہف آپ کے وزراہوںگے (سیرت حلبیہ) حموینی کابیان ہے کہ آپ کے جسم کاسایہ نہ ہوگا ۔(غایۃ المقصود جلد ۲ ص ۱۵۰) حضرت علی کافرمانا ہے کہ انصارواصحاب امام مہدی ،خالص اللہ والے ہوںگے (ارجح المطالب ۴۶۹ ا)ورآپ کے گرد لوگ اس طرح جمع ہوجائیںگے جس طرح شہد کی مکھی اپنے ”یعسوب “ بادشاہ کے گرد جمع ہوجاتی ہیں ۔ ارجح المطالب ۴۶۹ ا ایک روآیت میں ہے کہ ظہورکے بعد آپ سب سے پہلے کوفہ تشریف لے جائیںگے اوروہاں کے کثیرافراد قتل کریں گے ۔

امام مہدی کے ظہور کاسن :

خلاق عالم نے پانچ چیزوں کاعلم اپنے لئے مخصوص رکھا ہے جن میں ایک قیامت بھی ہے (قرآن مجید) ظہورامامہدی علیہ السلام چونکہ لازمہ قیامت سے ہے ،لہذا اس کاعلم بھی خداہی کوہے کہ آپ کب ظہورفرمائےںگے کونسی تاریخ ہوگی ۔ کونسا سن ہوگا ،تاہم احادیث معصومین جوالہام اورقرآن سے مستنبط ہوتی ہیں ان میں اشارے موجود ہیں ۔علامہ شیخ مفید ،علامہ سید علی ،علامہ طبرسی ،علامہ شبلنجی رقمطرازہیں کہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ آپ طاق سن میں ظہورفرمائےںگے جو ۱ ، ۳ ، ۵ ، ۷ ، ۹ سے مل کر بنے گا ۔ مثلا ۱۳ سو ، ۱۵ سو ، ۱۷ سو ، ۱۹ سو یا ایک ہزار ۳ ہزار ، ۵ ہزار ، ۷ ہزار ، ۹ ہزار ۔ ا سی کے ساتھ ہی ساتھ آپ نے فرمایاہے کہ آپ کے اسم گرامی کااعلان بذریعہ جناب جبرئیل ۲۳ تاریخ کوکردیاجائے گا اورظہوریوم عاشورہ کوہوگا جس دن امام حسین علیہ السلام بمقام کربلا شہید ہوئے ہیں (شرح ارشاد مفید ۵۳۲ ،غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۶۱ ،اعلام الوری ۲۶۲ ،نورالابصار ۱۵۵) میرے نزدیک ذی الحجہ کی ۲۳ تاریخ ہوگی کیونکہ نفس زکیہ کے قتل اورظہورمیں ۱۵ راتوں کافاصلہ ہونامسلم ہے امکان ہے کہ قتل نفس زکیہ کے بعد ہی نام کااعلان کردیا جائے ،پھراس کے بعد ظہورہو، ملاجواد ساباطی کاکہنا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام یوم جمعہ بوقت صبح بتاریخ ۱۰ محرم الحرام ۷۱۰۰ میں ظہو ر فرمائےں گے۔غایۃ المقصود ۱۶۱ بحوالہ براہین ساباطیہ ) امام جعفر صادق علیہ السلام کاارشاد ہے کہ امام مہدی کاظہوربوقت عصرہوگا اور وہی عصرآےة ”والعصران الانسان لفی خسر “ سے مراد ہے شاہ نعمت اللہ ولی کاظمی المتوفی ۸۲۷ ( مجالس المومنین ۲۷۶) جوشاعرہونے کے علاوہ عالم اورمنجم بھی تھے آپ کوعلم جفرمیں بھی دخل تھا ۔ آپ نے اپنی مشہورپیشین گوئی میں ۱۳۸۰ ہجری کاحوالہ دیاہے جس کاغلط ہونا ثابت ہے کیونکہ ۱۳۹۳ ہے (قیامت نامہ قدوة المحدثین شاہ رفیع الدین ص ۳۸) ۔(والعلم عنداللہ )۔

ظہورکے وقت امام علیہ السلام کی عمر :

یوم ولادت سے تابظہورآپ کی کیاعمرہوگی ؟ اسے توخداہی جانے لیکن یہ مسلمات سے ہے کہ جس وقت آپ ظہورفرمائےں گے مثل حضرت عیسی آپ چالیس سالہ جوان کی حیثیت میں ہوں گے ،(اعلام الوری ۲۶۵ ،وغایۃ المقصود ص ۷۶،۱۱۹) ۔

آپ کاپرچم

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے جھنڈ ے پر ” البعےة اللہ “ لکھا ہوگا اورآپ اپنے ہاتھوں پرخداکے لئے بیعت لےں گے اورکائنات میں صرف دین اسلام کاپرچم لہرائے گا ۔ (ینابع المودة ۴۳۴) ۔

ظہورکے بعد :

ظہورکے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام کعبہ کی دیوارسے ٹیک لگاکرکھڑے ہوں گے ۔ ابرکاسایہ آپ کے سرمبارک پرہوگا ، آسمان سے آوازآتی ہوگی کہ ”یہی امام مہدی ہیں “ اس کے بعدآپ ایک منبرپرجلوہ افروزہوںگے لوگوں کی خداکی طرف دعوت دیں گے اوردین حق کی طرف آنے کی سب کوہدآیت فرمائےں گے آپ کی تمام سیرت پیغمبراسلام کی سیرت ہوگی اورانھےں کے طریقہ پرعمل پیرا ہوں گے ابھی آپ کاخطبہ جاری ہوگا کہ آسمان سے جبرئیل ومکائیل آکربیعت کریں گے ،پھرملائکہ آسمانی کی عام بیعت ہوگی ہزاروں ملائکہ کی بیعت کے بعد وہ ۳۱۳ مومن بیعت کریںگے ۔ جوآپ کی خدمت میں حاضرہوچکے ہوںگے پھرعام بیعت کاسلسہ شروع ہوگا دس ہزار افراد کی بیعت کے بعد آپ سب سے پہلے کوفہ تشریف لے جائیںگے ،اوردشمنان آل محمد کاقلع قمع کریں گے آپ کے ہاتھ میں عصاموسی ہوگا جواژدھے کاکام کرے گا اورتلوارحمائل ہوگی ۔(عین الحیات مجلسی ۹۲) تواریخ میں ہے کہ جب آپ کوفہ پہونچےں گے توکئی ہزار کاایک گروہ آپ کی مخالفت کے لئے نکل پڑے گا ،اورکہے گا کہ ہمیں بنی فاطمہ کی ضرورت نہیں ،آپ واپس چلے جائیے یہ سن کر آپ تلوار سے ان سب کاقصہ پاک کردیں گے اورکسی کوبھی زندہ نہ چھوڑےں گے جب کوئی دشمن آل محمد اورمنافق وہاں باقی نہ رہے گا توآپ ایک منبرپرتشریف لے جائیں گے اورکئی گھنٹے تک رونے کاسلسہ جاری رہے گا پھرآپ حکم دیں گے کہ مشہد حسین تک نہرفرات کاٹ کرلائی جائے اورایک مسجد کی تعمیرکی جائے ۔ جس کے ایک ہزار درہوں ،چنانچہ ایساہی کیاجائے گا اس کے بعد آپ زیارت سرورکائنات کے لئے مدینہ منورہ تشریف لے جائیں گے ۔ (اعلام الوری ۲۶۳ ،ارشادمفید ۵۳۲ ،نورالابصار ۱۵۵) ۔

قدوة المحدثین شاہ رفیع الدین رقمطرازہیں کہ حضرت امام مہدی جوعلم لدنی سے بھرپورہوںگے تجب مکہ سے آپ کاظہورہوگا اور اس ظہورکی شہرت اطراف واکناف عالم میں پھیلے گی توافواج مدینہ ومکہ آپ کی خدمت میں حاضرہوںگی اورشام وعراق ویمن کے ابدال اوراولیا خدمت شریف میں حاضرہوںگے اورعرب کی فوجےں جمع ہوجائیں گی ،آپ ان تمام لوگو ں کو اس خزانہ سے مال دیں گے جوکعبہ سے برآمد ہوگا ۔ اورمقام خزانہ کو ” تاج الکعبہ“ کہتے ہوں گے ،اسی اثنا میں ایک شخص خراسانی عظیم فوج لے کر حضرت کی مدد کے لئے مکہ معظمہ کوروانہ ہوگا ،راستے اس لشکرخراسانی کے مقدمہ الجیش کے کمانڈر منصورسے نصرانی فوج کی ٹکرہوگی ،اورخراسانی لشکرنصرانی فوج کوپسپا کرکے حضرت کی خدمت میں پہنچ جائے گا اس کے بعد ایک شخص سفیانی جوبنی کلب سے ہوگا حضرت سے مقابلہ کے لئے لشکرعظیم ارسال کرے گا لیکن بحکم خدا جب وہ لشکر مکہ معظمہ اورکعبہ منورہ کے درمیان پہنچے گا اورپہاڑمیں قیام کرے گا توزمین میں وہیں دھنس جائے گاپھرسفیانی جودشمن آل محمد ہوگا نصاری سے سازبازکرکے امام مہدی سے مقابلہ کے لئے زبردست فوج فراہم کرے گا نصرانی اورسفیانی فوج کے اسی نشان ہوں گے اورہرنشان کے نیچے ۱۲ ہزار کی فوج ہوگی ۔ ان کا دارالخلافہ شام ہوگاحضرت امام مہدی علیہ السلام بھی مدینہ منورہ ہوتے ہوے جلد سے جلد شام پہنچےں گے جب آپ کاورود مسعود دمشق میں ہوگا ،تودشمن آل محمد سفیانی اوردشمن اسلام نصرانی آپ سے مقابلہ کے لئے صف آراہوںگے ،اس جنگ میں فریقین کے بے شمار افراد قتل ہوںگے بالاخر امام علیہ السلام کوفتح کامل ہوگی ،اورایک نصرانی بھی زمین شام پر باقی نہ رہے گا اس کے بعد امام علیہ السلام اپنے لشکریوں میں انعام کوتقسیم کریں گے اوران مسلمانوں کو مدینہ منورہ سے واپس بلالےں گے جونصرانی بادشاہ کے ظلم وجورسے عاجزآکر شام سے ہجرت کرگئے تھے ۔(قیامت نامہ ۴) اس کے بعد مکہ معظمہ واپس تشریف لے جائیںگے اورمسجد سہلہ میں قیام فرمائےں گے ے(ارشاد ۵۲۳) اس کے بعد مسجد الحرام کوازسرنوبنائےں گے اوردنیا کی تمام مساجد کو شرعی اصول پرکردیں گے ہر بدعت کوختم کریںگے اورہرسنت کوقائم کریں گے ،نظام عالم درست کریں گے اورشہروں میں فوجےں ارسال کریںگے ،انصرام وانتظام کے لئے وزراء روانہ ہوںگے ۔(اعلام الوری ۲۶۲،۲۶۴) ۔

اس کے بعد آپ مومنین ،کاملین اورکافرین کوزندہ کریں گے ،اوراس ز ندگی کامقصد یہ ہوگا کہ مومنین اسلامی عروج سے خوش ہوں اورکافرین سے بدلہ لیاجائے ۔ ان زندہ کئے جانے والوں میں قابیل سے لے کر امت محمدیہ کے فراعنہ تک زندہ کئے جائیں گے ،اوران کے کئے کاپورا پورا بدلہ انھےں دیاجائے گا جوجوظلم انھوں نے کئے ان کامزہ چکھےں گے غریبوں ،مظلوموں اوربیکسوں پرجوظلم ہواہے اس کی (ظالم کو) سزادی جائے گی ،سب سے پہلے جوواپس لایاجائے گا وہ یزیدبن معاویہ ملعون ہوگا اورامام حسین علیہ السلام تشریف لائیں گے ۔ (غایۃ المقصود)۔

دجال اوراس کا خروج :

دجال ،دجل سے مشتق ہے جس کے معنی فریب کے ہیں ،اس کا اصل نام صائف ،باپ کانام صائد ،ماں کانام ہستہ عرف قطامہ ہے ، یہ عہد رسالت مآب میں بمقام تیہ جومدینہ سے تین میل کے فاصلہ پرواقع ہے ، چہارشنبہ کے دن بوقت غروب آفتاب پیدا ہواہے ، پیدائش کے بعد آنافانا بڑھ رہاتھا ،اس کی داہنی آنکھ پھوٹی تھی اوربائےں آنکھ پیشانی پرچمک رہی تھی ،وہ چند دنوں میں کافی بڑھ کردعوی خدائی کرنے لگا ،سروکائنات جوحالات سے برابر مطلع ہورہے تھے ۔ انھوں نے سلمان فارسی اورچند اصحاب کولیا اوربمقام تہیہ جاکراس کوتبلیغ کرناچاہی ،اس نے بہت برا بھلاکہا اورچاہا کہ حضرت پرحملہ کردے ۔لیکن آپ کے اصحاب نے مدافعت کی ،آپ نے اس سے یہ فرمایاتھا کہ خدائی کا دعوی چھوڑ دئے اورمیری نبوت کومان لے علماء نے لکھا ہے کہ دجال کی پیشانی پر بخط یزدانی ”الکافرباللہ “ لکھاہوا تھا اورآنکھ کے ڈھیلے پربھی (ک،ف ،ر) مرقوم تھا غرضکہ آپ نے وہاں سے مدینہ منورہ واپس تشریف لانے کاارادہ کیا دجال نے ایک سنگ گراں جوپہاڑکی مانند تھا حضرت کی راہ میں رکھ دیا یہ دیکھ کرحضرت جبرئیل آسمان سے آئے اوراسے ہٹادیا ابھی آپ مدینہ پہونچے ہی تھے کہ دجال لشکرعظیم لے کرمدینہ کے قریب جاپہنچا حضرت نے بارگاہ احدیت میں عرض کی ،خدایا ! اسے اس وقت تک کے لئے محبوس کردے جب تک اسے زندہ رکھنا مقصود ہے ،اسی دوران میں حضرت جبرئیل آئے اورانھوں نے دجال کی گردن کو پشت کی طرف سے پکڑکر اٹھا لیا اوراسے لے جاکر جزیرہ طبرستان میں محبوس کردیاہے ۔لطیفہ یہ ہے کہ جبرئیل اسے لے کرجانے لگے تواس نے زمین پردونوں ہاتھ مارکرتحت الثری تک کی دومٹھی خاک لے لی ،اوراسے طبرستان میں ڈال دیا جبرئیل نے حضرت سرورکائنات کے سوال کے جواب میں کہاکہ آپ کی وفات سے ۹۷۰ سال بعد یہ خاک عالم میں پھیلے گی اوراسی وقت سے آثارقیامت شروع ہوجائیں گے ۔ (غایۃالمقصود ۶۴ ، ارشادالطالبین ۳۹۴ ) پیغمبراسلام کاارشاد ہے کہ دجال کومحبوس ہونے کے بعد تمیم دارمی نے جوپہلے نصرانی تھا ،جزیرہ طبرستان میں بچشم خود دیکھا ہے۔ اس کی ملاقات کی تفصیل کتاب صحاح المصابیح ،زہرة الریاض ،صحیح بخاری ،صحیح مسلم میں موجودہے ۔

غرضکہ اکثرروایات کے مطابق دجال حضرت امام مہدی کے ظہورفرمانے کے ۱۸ یوم بعد خروج کرے گا (مجمع البحرین ۵۶۰) وغایۃ المقصود جلد ۲ ص ۶۹) ظہور امام ا ورخروج دجال سے پہلے تین سال تک سخت قحط پڑے گا ۔ پہلے سال ۱ زراعت ختم ہوجائیگی دوسرے سال آسمان وزمین کی برکت ورحمت ختم ہوجائے گا تیسرے سال بالکل بارش نہ ہوگی ،اورساری دنیا والے موت کی آغوش میں پہنچنے کے قریب ہوجائیں گے دنیا ظلم وجو ر،اضطراب وپریشانی سے بالکل پرہوگی ۔ ا ما م مہدی کے ظہورکے بعد ۱۸ ہی دن میں کائنات نہآیت اچھی سطح پرپہنچی ہوگی کہ ناگاہ دجال ملعون کے خروج کاغلغلہ اٹھے گا وہ بروآیت اخوند درویزہ ہندوستان کے ایک پہاڑپر نمودارہوگا اوروہاں سے بآواز بلند کہے گا ۔” میں خدائے بزرگ ہوں ،میری اطاعت کرو۔“ یہ آوازمشرق ومغرب میں پہنچے گی ۔ اس کے بعد تین یوم یابروآیت ۴۰ یوم اسی مقیم رہ کر لشکرتیارکرے گا ۔پھرشام وعراق ہوتا ہوا اصفہان کے ایک قریہ ”یہودیہ “ سے خروج کرے گا ۔ اس کے ہمراہ بہت بڑا لشکرہوگا ،جس کی تعداد سترلاکھ مرقوم ہے جن ،دیو،پری ،شیطان ان کے علاوہ ہوں گے ۔ وہ ایک گدھے پرسوارہوگا ۔ جوابلق رنگ کا ہوگا اس کے جسم کا بالائی حصہ سرخ ،ہاتھ پاؤں تازانوسیاہ اس کے بعد سے سم تک سفید ہوگا ۔ اس کے دونوں کانوں کے درمیان ۴۰ میل کافاصلہ ہوگا ۔وہ ۲۱ میل اونچااور ۹۰ میل لمبا ہوگا اس کاہرقدم ایک میل کاہوگا اس کے دونوں کانوںمیں خلق کثیربیٹھی ہوگی چلنے میں اس کے بالوں سے ہرقسم کے باجوں کی آوازآئے گی ،وہ اسی گدھے پرسوارہوگا ۔ سواری کے بعد جب وہ روانہ ہوگا تواس کے داہنے طرف ایک پہاڑہوگا جس میں ہرقسم کے سانپ بچھوہوں گے ،وہ لوگوں کو انھےں چیزوں کے ذریعہ سے بہکائے گا اورکہے گا کہ میں خداہوں جومیراحکم ماننے گا جنت میں رکھوں گا جونہ مانے گا اس جہنم میں ڈال دوںگا ۔ اسی طرح چالیس یوم میں ساری دنیا کا چکرلگاکراور سب کوبہکاکرامام مہدی علیہ السلام کی اسکیم کوناکامیاب بنانے کی سعی میں وہ خانہ کعبہ کوگرانا چاہے گا اورایک عظیم لشکربھیج کر کعبہ اورمدینہ کوتباہ کرنے پرمامورکرے گا اورخود باارادہ کوفہ روانہ ہوگا اس کامقصد یہ ہوگا کہ کوفہ جوامام مہدی کی آماجگاہ ہے اسے تباہ کردے ”چون آن لعین نزدیک کوفہ برسد امام مہدی باستیصال اوبرسد “لیکن خداکاکرنا دیکھئے کہ جب وہ کوفہ کے نزدیک پہنچے گا ،توحضرت امام مہدی علیہ السلام خود وہاں پہنچ جائیں گے ،اوراسے بحکم خدا بیخ وبن سے اکھاڑدیں گے غرضکہ گھمسان کی جنگ ہوگی اورشام تک پھیلے ہوئے لشکر پرامام مہدی علیہ السلام زبردست حملے کریں گے ،بالاخروہ ملعون آپ کی ضربوں کی تاب نہ لاکرشام کے مقام عقبہ رفیق یابمقام لد جمعہ کے دن تین گھڑی دن چڑھے ماراجائے گا اس کے مرنے کے بعد دس میل تک دجال اوراس کے گدھے اورلشکرکاخون زمین پرجاری رہے گا علماکاکہنا ہے کہ قتل دجال کے بعد امام علیہ السلام اس کے لشکریوں پرایک زبردست حملہ کریں گے اورسب کوقتل کرڈالےں گے ۔اس وقت جوکافر زمین کے کسی گوشہ میں چھپے گا ،وہ آوازدے گا کہ فلاں کافریہاں روپوش ہے ۔امام علیہ السلام اسے قتل کردیں گے آخرکارزمین پرکوئی دجال کاماننے والا نہ رہے گا ۔(ارشادالطالبین ۳۹۷ ،معارف الملة ۳۴۸ ،صحیح مسلم ،لمعات شرح مشکوةعبدالحق ،مرقات شرح مشکوة مجمع البحار) بعض روایات میں ہے کہ دجال کوحضرت عیسی بحکم حضرت مہدی علیہ السلام قتل کریں گے ۔

نزول حضرت عیسی علیہ السلام :

حضرت مہدی علیہ السلام سنت کے قائم کرنے اوربدعت کومٹانے نیزانصرام وانتظام عالم میں مشغول ومصروف ہوںگے کہ ایک دن نمازصبح کے وقت بروآیتے نمازعصرکے وقت حضرت عیسی علیہ السلام دوفرشتوں کے کندھوں پرہاتھ رکھے ہوئے دمشق کی جامع مسجد کیم منارہ شرقی پرنزول فرمائےں گے حضرت امام مہدی ان کااستقبال کریں گے اورفرمائےںگے کہ آپ نمازپڑھئے ،حضرت عیسی کہیںگے کہ یہ ناممکن ہے ،نمازآپ کوپڑھانی ہوگی ۔چنانچہ حضرت مہدی علیہ السلام امامت کریں گے اورحضرت عیسی علیہ السلام ان کے پیچھے نمازپڑھےں گے اوران کی تصدیق کریںگے ۔(نورالابصار ۱۵۴ ،غایۃالمقصود ۱۰۴ ۔ ۱۰۵ ،بحوالہ مسلم وابن ماجہ ،مشکوة ۴۵۸) اس وقت حضرت عیسی کی عمرچالیس سالہ جوان جیسی ہوگی ۔وہ اس دنیامیں شادی کریں گے ،اوران کے دولڑکے پیداہوںگے ایک کانام احمداوردوسرے کانام موسی ہوگا ۔(اسعاف الراغبین برحاشیہ نورالابصار ۱۳۵ ،قیامت نامہ ۹ بحوالہ کتاب الوفاابن جوزی ،مشکوة ۴۶۵ وسراج القلوب ۷۷) ۔

امام مہدی اورعیسی ابن مریم کادورہ :

اس کے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام اورحضرت عیسی علیہ السلام بلاد ،ممالک کادورہ کرنے اورحالات کاجائزہ لینے کے لئے برآمد ہوںگے اوردجال ملعون کے پہنچائے ہوئے نقصانات اوراس کے پیدکئے ہوئے بدترین حالات کوبہترین سطح پرلائیںگے ،حضرت عیسی خنزیرکوقتل کرنے ،صلیبوں کوتوڑنے اورلوگوںکے اسلام قبول کرنے کاانصرام وبندوبست فرمائےںگے ۔ عدل مہدی سے بلاد عالم میں اسلام کاڈنکا بجے گا اورظلم وستم کاتختہ بتاہ ہوجائے گا ۔(قیامت نامہ قدوة المحدثین ۸ بحوالہ صحیح مسلم)۔

حضرت امام مہدی کاقسطنطنیہ کوفتح کرنا :

روآیت میں ہے کہ امام مہدی علیہ السلام قسطنطنیہ ،چین اورجبل ویلم کوفتح کریںگے ،یہ وہی قسطنطنیہ ہے جسے استنبول کہتے ہیں اورجس پراس زمانہ میں نصاری کاقبضہ ہوگا ۔ اوران کاقبضہ بھی مسلمان بادشاہ کوقتل کرنے کے بعد ہواہوگا ۔چین اورجبل دیلم پربھی نصاری کا قبضہ ہوگااوروہ حضرت امام مہدی سے مقابلہ کاپوراانتظام کریں گے ،چین جس کوعربی میں ”صین“ کہتے ہیں اس کے بارے میں روآیت کے حوالہ سے علامہ طریحی نے مجمع البحرین کے ۶۱۵ میں لکھا ہے کہ: ( ۱) صین ایک پہاڑی ہے( ۲) مشرق میں ایک مملکت ہے ( ۳) کوفہ میں ایک موضع ہے ۔پتہ یہ چلتاہے کہ ساری چیزےں فتح کی جائیں گی ،ان کے علاوہ سندھ اورہندکے مکانات کی طرف بھی اشارہ ہے ، بہرحال امام مہدی علیہ السلام شہرقسطنطنیہ کوفتح کرنے کے لئے روانہ ہوںگے اوران کے ہمرا ہجوسترہزاربنواسحاق کے نوجوان ہوںگے انھےں دریائے روم کے کنارے شہرمیں جاکراسے فتح کرنے کاحکم ہوگا ،جب وہاں پہنچ کرفصیل کے کنارے نعرہ تکبیرلگائےںگے توخود بخود راستہ پیداہوجائے گا اوریہ داخل ہوکر اسے فتح کرلےںگے ،کفارقتل ہوںگے اوراس پرپوراپورا قبضہ ہوجائے گا ۔(نورالابصار ۱۵۵ بحوالہ طبرانی ،غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۵۲ وبحوالہ ابونعیم ،اعلام الوری بحوالہ امام جعفرصادق ۲۶۴ ،قیامت نامہ ،بحوالہ صحیح مسلم )۔

یاجوج ماجوج اوران کاخروج :

قیامت صغری یعنی ظہورآل محمداورقیامت کبری کے درمیان دجال کے بعد یاجوج اورماجوج کاخروج ہوگا ۔یہ سد سکندری سے نکل کرسارے عالم میں پھیل جائیںگے اوردنیاکے امن وامان کوتباہ وبربادکردینے میں پوری سعی کریںگے ۔

یاجوج ماجوج حضرت نوح کے بیٹے یافث کی اولاد سے ہیں ،یہ دونوںچارسوقبیلہ اورامتوںکے سرداراورسربرآورہ ہیں ،ان کی کثرت کاکئی اندازہ نہیںلگایاجاسکتا ۔مخلوقات میں ملائکہ کے بعد انھےں کثرت دی گئی ہے ،ان میں کوئی ایسانہیں جس کے ایک ایک ہزار اولاد نہ ہو ۔یعنی یہ اس وقت تک مرتے نہیں جب تک ایک ایک ہزاربہادرپیدانہ کردیں ۔یہ تین قسم کے لوگ ہیں ،ایک وہ جوتاڑسے زیادہ لمبے ہیں ،دوسرے وہ جولمبے اورچوڑے برابرہیں جن کی مثال بہت بڑے ہاتھی سے دی جاسکتی ہے ،تیسرے وہ جواپناایک کان بچھاتے اوردوسرا اوڑھتے ہیںان کے سامنے لوہا ،پتھر،پہاڑتووہ کوئی چیزنہیںہے ۔یہ حضرت نوح کے زمانہ میں دنیاکے اخیرمیں ا س جگہ پیداہوئے ، جہاں سے پہلے سورج نے طلوع کیاتھا زمانہ فطرت سے پہلے یہ لوگ اپنی جگہ سے نکل پڑے تھے اوراپنے قریب کی ساری دنیا کوکھا پی جاتے تھے یعنی ہاتھی ،گھوڑا ،اونٹ،انسان ،جانور،کھیتی باڑی غرضکہ جوکچھ سامنے آتاتھا سب کوہضم کرجاتے تھے ۔ وہاں کے لوگ ان سے سخت تنگ اورعاجزتھے ۔یہاں تک زمانہ فطرت میں حضرت عیسی کے بعد بروائتی جب ذوالقرنین اس منزل تک پہنچے توانھےں وہاں کاسارا واقعہ معلوم ہوا اوروہاں کی مخلوق نے ان سے درخواست کی کہ ہمیں اس بلائے بے درمان یاجوج ماجوج سے بچائے ۔چنانچہ انھوں نے دوپہاڑوں کے اس درمیانی راستے کوجس سے وہ آیاکرتے تھے بحکم خدالوہے کی دیوارسے جودوسوگزاونچی اورپچاس یاساٹھ گزچوڑی تھی بند کردیا ۔اسی دیوارکوسد سکندری کہتے ہیں ۔کیونکہ ذوالقرنین کااصل نام سکندراعظم تھا ،سدسکندری کے لگ جانے کے بعد ان کی خوراک سانپ قراردی گئی ،جوآسمان سے برستے ہیں یہ تابظہورامام مہدی علیہ السلام اسی میں محصوررہیںگے ان کااصول اورطریقہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی زبان سے سد سکندری کو رات چاٹ کرکاٹتے ہیں ،جب صبح ہوتی ہے اوردھوپ لگتی ہے توہٹ جاتے ہیں ،پھردوسری رات کٹی ہوئی دیواربھی پرہوجاتی ہے اوروہ پھراسے کاٹنے میں لگ جاتے ہیں ۔

بحکم خداسے یہ لوگ امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں خروج کریں گے دیوارکٹ جائے گی اوریہ نکل پڑےں گے ۔اس وقت کاعالم یہ ہوگا کہ یہ لوگ اپنی ساری تعداد سمیت ساری دنیامیں پھیل کر نظام عالم کودرہم برہم کرنا شروع کردیں گے،لاکھوں جانےں ضائع ہوں گی اوردنیاکی کوئی چیزایسی باقی نہ رہے گی جوکھائی اورپی جاسکے ،اوریہ اس پرتصرف نہ کریں۔ یہ بلاکے جنگجولوگ ہوںگے دنیاکومارکر کھاجائیںگے اوراپنے تیرآسمان کی طرف پھینک کرآسمانی مخلوق کومارنے کاحوصلہ کریں گے اورجب ادھرسے بحکم خدا تیرخون آلود آئے گا تویہ بہت خوش ہوںگے اورآپس میں کہیں گے کہ اب ہمارااقتدارزمین سے بلند ہوکر آسمان پرپہنچ گیاہے ۔اسی دوران میں امام مہدی علیہ السلام کی برکت اورحضرت عیسی کی دعا کی وجہ سے خداوندعالم ایک بیماری بھیج دے گا جس کوعربی میں ”نغف “ کہتے ہیں یہ بیماری ناک سے شروع ہوکر طاعون کیطرح ایک ہی شب میں ان سب کاکام تمام کردے گی پھران کے مردارکوکھانے کے لئے ”عنقا “ نامی پرندہ پیداہوگا ،جوزمین کوان کی گندگی سے صاف کرے گا ۔اورانسان ان کے تیروکمان اورقابل سوختنی آلات حرب کو سات سال تک جلائیں گے (تفسیرصافی ۲۷۸ ،مشکوة ۳۶۶ ،صحیح مسلم ،ترمذی ،ارشادالطالبین ۳۹۸ ،غایۃ المقصودجلد ۲ ص ۷۶ ،مجمع البحرین ۴۶۶ ،قیامت نامہ ۸) ۔

امام مہدی علیہ السلام کی مدت حکومت اورخاتمہ دنیا :

حضرت امام مہدی علیہ السلام کاپایہ تخت شہرکوفہ ہوگا مکہ میں آپ کے نائب کاتقررہوگا ۔آپ کادیوان خانہ اورآپ کے اجرا حکم کی جگہ مسجد کوفہ ہوگی۔بیت المال ،مسجد سہلہ قراردی جائیگی اورخلوت کدہ نجف اشرف ہوگا ۔(حق الیقین ۱۴۵) آپکے عہد حکومت میں مکمل امن وسکون ہوگا ۔بکری اوربھیڑ،گائے اورشیر،انسان اورسانپ ،زنبیل اورچوہے سب ایک دوسرے سے بے خوف ہوںگے (درمنثورسیوطی جلد ۳ ص ۲۳) ۔معاصی کاارتکاب بالکل بندہوجائے گااورتمام لوگ پاک بازہوجائیںگے ۔ جہل ،جبن ،بخل کافورہو جائیں گے ۔عاجزوں،ضعیفوں کی دادرسی ہوگی ۔ظلم دنیا سے مٹ جائے گا اسلام کے قالب بے جان میں روح تازہ پیدہوگی دنیاکے تمام مذاہب ختم ہوجائیںگے ۔نہ عیسائی ہوں گے نہ یہودی ،نہ کوئی اورمسلک ہوگا ۔صرف اسلام ہوگا ۔اوراسی کاڈنکابجتاہوگا آپ دعوت بالسیف دیں گے جوآپ کے درپئے نزاع ہوگا قتل کردیاجائے گا ۔جزیہ موقوف ہوگا خداکی جانب سے شہر عکاکے ہرے بھرے میدان میں مہمانی ہوگی ،ساری کائنات مسرتوں سے مملوہوگی ۔غرضکہ عدل وانصاف سے دنیا بھرجائے گی ،(الیواقت الجواہرجلد ۲ ص ۱۲۷) ۔

دنیاکے تمام مظلوم بلائیں جائیںگے اوران پرظلم کرنے والے حاضرکئے جائیں گے ،حتی کہ آل محمد تشریف لائیں گے اوران پرظلم کے پہاڑتوڑنے والے بلائے جائیںگے حضرت امام علیہ السلام مظلوم کی فریادرسی فرمائےںگے اورظالم کوکیفروکردارتک پہنچائےں گے ۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان تمام امورمیں نگرانی کافریضہ اداکرنے کے لئے جلوہ افروزہوںگے اسی دوران میں حضرت عیسی علیہ السلام اپنی سابقہ ارضی ۲۳ سالہ زندگی میں ۷ سالہ موجودہ ارضی زندگی کااضافہ کرکے چالیس سال کی عمرمیں انتقال کرجائیںگے اور آپ کوروضہ حضرت محمد مصطفی صلعم میں دفن کردیاجائے گا ۔(حاشیہ مشکوة ۴۶۳) ،سراج القلزب ۷۷ ،عجائب القصص ۲۳) اس کے بعدحضرت امام مہدی علیہ السلاکی حکومت کاخاتمہ ہوجائے گا اورحضرت امیرالمومنین نظام کائنات پرحکمرانی کریں گے جس کی طرف قرآن مجید میں ”دابة الارض “ سے اشارہ کیاگیاہے اب رہ گیا یہ کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مدت حکومت کیاہوگی ؟اس کے متعلق سخت اختلاف ہے ارشاد مفید کے ۵۳۳ میں سات سال اور ۵۳۷ میں انیس سال اوراعلام الوری کے ۳۶۵ میں ۱۹ سال ،مشکوة کے ۴۶۲ میں ۷ ، ۸ ، ۹ سال ،نورالابصارکے ۱۵۴ میں ۷ ، ۸ ، ۹ ، ۱۰ سال ۔ غایۃ المقصود جلد ۲ ص ۱۶۲ میں بحوالہ حلےةالاولیا ۷ ، ۸ ، ۹ سال اورینابع المودة شیخ سلیمان قندوزی بلخی کے ۴۳۳ میں بیس سال مرقوم ہے میں نے حالات احادیث ،اقوال علما سے استنباط کرکے بیس سال کوترجیح دی ہے ہوسکتاہے کہ ایک سال دس سال کے برابرہوں (ارشادمفید ۵۳۳ ،نورالابصار ۱۵۵) غرضکہ آپ کی وفات کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام آپ کوغسل وکفن دیںگے اورنمازپڑھاکر دفن فرمائےں گے ،جیساکہ علامہ سیدعلی بن عبدالحمیدنے کتاب انوارالمضئیہ میں تحریرفرمایا ہے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عہدظہورمیں قیامت سے پہلے زندہ ہونے کورجعت کہتے ہیں ۔یہ رجعت ضروریات مذھب امامیہ سے ہے (مجمع البحرین ۴۲۲) اس کامطلب یہ ہے کہ ظہورکے بعد بحکم خداشدیدترین کافراورمنافق اورکامل ترین مومنین حضرت رسول کریم اورآئمہ طاہرین ،بعض انبیا سلف برائے اظہاردولت حق محمدی دنیامیں پلٹ کرآئےں گے۔(تکلیف المکلفین فی اصول الدین ۲۵) اس میں ظالموں کاظلم کابدلہ اورمظلوموں کوانتقام کاموقع دیاجائے گا اوراسلام کواتنافروغ دے دیاجائے گا کہ ”لیظہرہ علی الدین کلہ “ دنیا میں صرف ایک اسلام رہ جائیگا (معارف الملة الناجیہ والناریہ ۳۸۰) امام حسین علیہ السلام کا مکمل بدلہ لیاجائے گا (غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۸۴ بحوالہ تفسیرعیاشی ) اوردشمنان آل محمد کوقیامت میں عذاب اکبرسے پہلے رجعت میں عذاب ادنی کامزہ چکھایاجائے گا (حق الیقین ۱۴۷ بحوالہ قرآن مجید) ۔شیطان سرورکائنات کے ہاتھوں سے نہرفرات پرایک عظیم جنگ کے بعد قتل ہوگا ۔آئمہ طاہرین کے ہرعہدحکومت میں اچھے برے زندہ کئے جائیں گے اورحضرت امام مہدی علیہ السلام کے عہدمیں جولوگ زندہ ہوں گے ان کی تعداد چارہزارہوگی (غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۷۸) شہداء کوبھی رجعت میں ظاہری زندگی دی جائے گی تاکہ اس کے بعد جوموت آئے اس سے آیت کے حکم” کل نفس ذائقة الموت “ کی تکمیل ہوسکے اورانھےں موت کامزہ نصیب ہوجائے (غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۷۳) اسی رجعت میں بوعدہ قرآنی آل محمد کوحکومت عامہ عالم دی جائے گی ،اورزمین کاکوئی گوشہ ایسانہ ہوگا جس پرآل محمد کی حکومت نہ ہو ،اس کے متعلق قرآن مجید میں :” ان الارض يرثها عبادی الصالحون “ و ”نريدان نمن علی الذين استضعفوا فی الارض ونجعلهم الوارثین “ موجود ہے (حق الیقین ۱۴۶) ۔

اب رہ گیاکہ یہ کائنات کی ظاہی حکومت ووراثت آل محمد کے پاس کب تک رہے گی ،اس کے متعلق ایک روآیت آٹھ ہزارسال کاحوالہ دے رہی ہے اورپتہ یہ چلتاہے کہ امیرالمومنین ،حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیرنگرانی حکومت کریں گے اوردیگرآئمہ طاہرین ان کے وزرا اورسفرا کی حیثیت سے ممالک عالم میں انتظام وانصرام فرمائےں گے اورایک روآیت میں یہ بھی ہے کہ ہرامام علی الترتیب حکومت کریںگے حق الیقین وغایۃ المقصود ۔حضرت علی کے ظہوراورنظام عالم پرحکمرانی کے متعلق قرآن مجید میں بصراحت موجود ہے ۔ارشادہوتاہے :

” اخرجنالهم دابة من الارض “ (پارہ ۲۰ رکوع ۱ )

علماء فریقین یعنی شیعہ وسنی کااتفاق ہے کہ اس آیت سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں ۔ملاحظہ ہو۔میزان الاعتدال علامہ ذہبی ومعالم التنزیل علامہ بغوی وحق الیقین علامہ مجلسی وتفسیرصافی علامہ محسن فیض کاشانی اس کی طرف توریت میں بھی اشارہ موجودہے ۔(تذکرة المعصومین ۲۴۶) آپ کاکام یہ ہوگا کہ آپ ایسے لوگوںکی تصدیق نہ کریں گے جوخداکے مخالف اوراس کی آیتوں پریقین نہ رکھنے والے ہوںگے وہ صفااورمروہ کے درمیان سے برآمد ہوںگے ،ان کے ہاتھ میں حضرت سلیمان کی انگوٹھی اورحضرت موسی کاعصا ہوگا جب قیامت قریب ہوگی توآپ عصا اورانگشتری سے ہرمومن وکافرکی پیشانی پرنشان لگائےں گے ۔مومن کی پیشانی پر”هذا مومن حقا “ اور کافرکی پیشانی پر” هذا کافرحقا“ تحریرہوجائے گا ۔ملاحظہ ہو(کتاب ارشادالطالبین اخوند درویزہ ۴۰۰ وقیامت نامہ قدوةالمحدثین علامہ رفیع الدین ص ۱۰) علامہ لغوی کتاب مشکوة المصابیح کے ص ۴۶۴ میں تحریرفرماتے ہیں کہ دابة الارض دوپہرکے وقت نکلے گا ،اورجب اس دابة الارض کا عمل درآمد شروع ہوجائے گا توباب توبہ بند ہوجائے گا اوراس وقت کسی کاایمان لانا کارگرنہ ہوگا حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی مسجد میں سورہے تھے ،اتنے میں حضرت رسول کریم تشریف لائے ،اورآپ نے فرمایا”قم یادابة الله “ اس کے بعد ایک دن فرمایا :” یاعلی اذا کان اخرجک الله الخ “ اے علی ! جب دنیاکاآخری زمانہ آئے گا توخداوند عالم تمہیں برآمد کریگا اس وقت تم اپنے دشمنوں کی پیشانیوں پرنشان لگاؤگے ۔ (مجمع البحرین ۱۲۷) آپ نے یہ بھی فرمایا کہ” علی دابة ا لجنة “ ہیں لغت میں ہے کہ دابہ کے معنی پیروں سے چلنے پھرنے والے کے ہیں ۔(مجمع البحرین ۱۲۷) ۔

کثیرروایات سے معلوم ہوتاہے کہ آل کی حکمرانی جسے صاحب ارجح المطالب نے بادشاہی لکھاہے اس وقت تک قائم رہے گی جب تک دنیا کے ختم ہونے میں چالیس یوم باقی رہیں گے ۔( ارشادمفید ۱۳۷ ،واعلام الوری ۲۶۵) اس کامطلب یہ ہے کہ وہ چالیس دن کی مدت قبروں سے مردوں کے نکلنے اورقیامت کبری کے لئے ہوگی ۔حشرونشر،حساب وکتاب ،صورپھونکنا اوردیگرلوازمات کبری اسی میں اداہوںگے ۔(اعلام الوری ۲۶۵) اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام لوگوں کوجنت کاپروانہ دیں گے ۔لوگ اس لے کرپل صراط پرسے گزریں گے ۔(صواعق محرقہ علامہ ابن حجرمکی ۷۵) واسعاف الراغبین ۷۵ برحاشیہ نورالابصار) پھرآپ جوض کوثرکی نگرانی کریںگے جو دشمن آل محمدحوض کوثرپرہوگا ،اسے آپ اٹھادیںگے ۔(ارجح ا لمطالب ۷۶۷) پھرآپ لواء الحمد یعنی محمدی جھنڈا لے کرجنت کی طرف چلےں گے ،پیغمبراسلام آگے آگے ہوںگے انبیاء اورشہداء وصالحین اوردیگرآل محمدکے ماننے والے پیچھے ہوںگے ۔(مناقب اخطب خوارزمی قلمی وارجح المطالب ۷۷۴) پھرآپ جنت کے دروازہ پرجائیںگے اوراپنے دوستوںکوبغیرحساب داخل جنت کریںگے اوردشمنوںکوجہنم میں جھونک دیںگے (کتاب شفاقاضی عیاض وصواعق محرقہ) اسی لئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر،حضرت عمر حضرت عثمان اوربہت سے اصحاب کوجمع کرکے فرمادیاتھاکہ علی زمین اورآسمان دونوںمیں میرے وزیرہیں اگرتم لوگ خداکوراضی کرنا چاہتے ہو توعلی کوراضی کرو،اس لئے کہ علی کی رضا خداکی رضا اورعلی کاغضب خداکا غضب ہے ۔(مودة القربی ص ۵۵ ۔ ۶۲) علی کی محبت کے بارے میں تم سب کوخداکے سامنے جواب دیناپڑے گااورتم علی کی مرضی کے بغیرجنت میں نہ جاسکوگے اورعلی سے کہ دیا کہ تم اورتمہارے شیعہ ”خیرالبریہ “ یعنی خداکی نظرمیں اچھے لوگ ہیں ۔یہ قیامت میں خوش ہوںگے اورتمہارے دشمن ناشاد ونامراد ہوںگے ،ملاحظہ ہو (کنزالعمال جلد ۶ ص ۲۱۸ وتحفہ اثناعشریہ ۶۰۴ تفسیرفتح البیان جلد ۱ ص ۳۲۳) ۔