• ابتداء
  • پچھلا
  • 12 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6341 / ڈاؤنلوڈ: 3588
سائز سائز سائز
قرآن مجید میں بعض خواتین کا تذکرہ

قرآن مجید میں بعض خواتین کا تذکرہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

قرآن مجید میں بعض خواتین کا تذکرہ

حافظ ریاض حسین نجفی

قرآن میں عورت‘ سلسلے کی ایک کتاب

پروف ریڈنگ: اعجاز عبید

ای بک: اعجاز عبید

اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ ۲۵۰ فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش

http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, http://kutub.۲۵۰free.com

جناب حوا

ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ،ام البشر جناب حوا ، آدم علیہ السلام کی(تخلیق سے) بچی ہوئی مٹی سے پیدا ہوئیں۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے:( وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجُهَا ) ۔ "اور اس کا جوڑا اسی کی جنس سے پیدا کیا۔" (نساء: ۱)( وَمِنْ آیَاتِه أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْکُنُوْا إِلَیْهَا ) ۔ "اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تمہیں سے پیدا کیا تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو۔" (روم: ۲۱)( وَالله جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا ) ۔ "اللہ نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں۔" (نحل: ۷۲) تمہاری ہی مٹی سے پیدا ہونے والی عورت تمہاری طرح کی انسان ہے، جب ماں باپ ایک ہیں تو پھر خیالی اور وہمی امتیاز و افتخار کیوں؟ اکثر آیات میں آدم اور حوا اکٹھے مذکور ہوئے ہیں ،پریشانی کے اسباب کے تذکرہ میں بھی دونوں کا ذکر باہم ہوا ہے۔دو آیات میں صرف آدم کا ذکر کر کے واضح کیا گیا ہے کہ اے انسان کسی معاملہ میں حوا کو مورد الزام نہ ٹھہرانا ،وہ تو شریک سفر اور شریک زوج تھی۔( وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلٰی آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَه عَزْمًا ) ۔ "اور ہم نے پہلے ہی آدم سے عہد لے لیا تھا لیکن وہ اس میں پر عزم نہ رہے۔" (طہ: ۱۱۵)( قَالَ یَاآدَمُ هَلْ أَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَة الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلٰی ) ۔ "ابلیس نے کہا اے آدم! کیا میں تمہیں اس ہمیشگی کے درخت اور لازوال سلطنت کے بارے میں نہ بتاؤں۔ (طہٰ: ۱۲۵) آپ لوگوں نے ملاحظہ کیا کہ ان آیات میں حضرت حوا شریک نہیں ہیں اور تمام امور کی نسبت حضرت آدم ہی کی طرف ہے۔

زوجہ حضرت نوح علیہ السلام

حضرت نوح علیہ السلام پہلے نبی ہیں جو شریعت لے کر آئے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے:( شَرَعَ لَکُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِه نُوْحًا وَّالَّذِیْ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ ) ۔ "اللہ نے تمہارے دین کا دستور معین کیا جس کا نوح کو حکم دیا گیا اور جس کی آپ کی طرف وحی کی۔"(شوریٰ : ۱۳) حضرت نوح علیہ السلام نے ۹۵۰ سال تبلیغ کی۔ارشاد رب العزت ہے:( وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوْحًا إِلٰی قَوْمِه فَلَبِثَ فِیْهِمْ أَلْفَ سَنَة إِلاَّ خَمْسِیْنَ عَامًا ) "بتحقیق ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان کے درمیان ۵۰ سال کم ایک ہزار سال رہے۔" (عنکبوت: ۱۴) حضرت نوح کو کشتی بنانے کا حکم ہوا۔( وَاصْنَع الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا ) ۔ "اور ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے کشتی بنائیں اور حکم ہوا کہ اللہ کے حکم سے کشتی کو بناؤ۔"(ہود: ۳۷)( وَقَالَ ارْکَبُوْا فِیْهَا بِاِسْمِ الله مَجْرَاًهَا وَمُرْسَاهَاط إِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَحِیْمٌ وَهِیَ تَجْرِیْ بِهِمْ فِیْ مَوْجٍ کَالْجِبَالِ ) ۔ "اور نوح نے کہا کہ کشتی میں سوار ہو جاؤ اللہ کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے بتحقیق میرا رب بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور کشتی انہیں لے کر پہاڑ جیسی موجوں میں چلنے لگی۔ (ہود: ۴۲ ۔ ۴۱) حضرت نوح نے اپنے بیٹے سے کشتی میں سوار ہونے کیلئے کہا اس نے (اور زوجہ نوح نے ) انکار کیا اور کہا میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا اور محفوظ رہوں گا۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے:

( یَابُنَیَّ ارْکَبْ مَّعَنَا وَلاَتَکُنْ مَّعَ الْکَافِرِیْنَ قَالَ سَآوِیْ إِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَاءِ ط قَالَ لَاعَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ أَمْرِ الله إِلاَّ مَنْ رَّحِمَ وَحَالَ بَیْنَهُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ ) ۔

"نوح نے اپنے بیٹے سے کہا ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو اس نے کہا میں پہاڑ کی پناہ لوں گا وہ مجھے پانی سے بچا لے گا۔ نوح۔ نے کہا آج اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں مگر جس پر اللہ رحم کرے پھر دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی اور وہ ڈوبنے والوں میں سے ہو گیا۔ (ہود: ۴۳ ۔ ۴۲) اور کشتی کوہ جودی پر پہنچ کر ٹھہر گئی۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے:

( وَقِیْلَ یَاأَرْضُ ابْلَعِیْ مَائَکِ وَیَاسَمَاءُ أَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَاءُ وَقُضِیَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ ) ۔

"اور کہا گیا اے زمین اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا۔ اور پانی خشک کر ہو گیا اور کام تمام ہو گیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہر گئی اور ظالموں پر نفرین ہو گئی۔ (ہود : ۴۴) کشتی ہی بچاؤ کا واحد کا ذریعہ تھی۔ قرآن مجید نے حضرت نوح۔کی زوجہ کو خیانت کار قرار دیا ہے نبی کی بیوی ہونے کے با وجود جہنم کی مستحق بن گئی۔ ارشاد رب العزت ہے :

( ضَرَبَ الله مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَأَة نُوْحٍ وَّامْرَأَة لُوْطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْهُمَا مِنَ الله شَیْئًا وَّقِیْلَ ادْخُلاَالنَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ )

"خدا نے کفر اختیار کرنے والوں کیلئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال دی ہے یہ دونوں ہمارے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں لیکن ان سے خیانت کی تو اس زوجیت نے خدا کی بارگاہ ان کو میں کوئی فائدہ نہ پہنچایا اور ان کیلئے کہہ دیا گیا کہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی داخل ہو جاؤ۔(تحریم : ۱۰) اپنا عمل ہی کامیابی کا ضامن ہے رشتہ داری حتی نبی کا بیٹا ہونا کچھ بھی فائدہ نہیں دے گا۔

زوجہ حضرت لوط

حضرت لوط ،حضرت ابراہیم کے بھتیجے تھے ان کی قوم سب کے سامنے کھلم کھلا برائی میں مشغول رہتی۔ لواطت ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ پتھروں کی بارش سے انہیں تباہ کر دیا گیا۔حضرت لوط۔کی زوجہ بھی تباہ ہونے والوں میں سے تھی جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے :

( وَلُوْطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِه أَتَأْتُوْنَ الْفَاحِشَة وَأَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ أَئِنَّکُمْ لَتَأْ تُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَة مِّنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِه إِلاَّ أَنْ قَالُوْا أَخْرِجُوْا آلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْیَتِکُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ فَأَنْجَیْنَاهُ وَأَهْلَه إِلاَّ امْرَأَتَه قَدَّرْنَاهَا مِنَ الْغَابِرِیْنَ وَأَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ )

"اور لوط کو یاد کرو جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تم آنکھیں رکھتے ہوئے بدکاری کا ارتکاب کر رہے ہو کیا تم لوگ شہوت کی وجہ سے مردوں سے تعلق پیدا کر رہے ہو اور عورتوں کو چھوڑے جا رہے ہو در حقیقت تم بالکل جاہل لوگ ہو۔ تو ان کی قوم کا کوئی جواب نہ تھا سوائے اس کے کہ لوط کے خاندان کو اپنی بستی سے باہر نکال دو کہ یہ لوگ بہت پاک باز بن رہے ہیں تو لوط اور ان کے خاندان والوں کو بھی (زوجہ کے علاوہ) نجات دے دی اس (زوجہ) کو ہم نے پیچھے رہ جانے والوں میں قرار دیا تھا اور ہم نے ان پر عجیب قسم کی بارش کر دی کہ جس سے ان لوگوں کو ڈرایا گیا تھا ان پر(پتھروں) کی بارش بہت بری طرح برسی۔ " (نمل، ۵۴ تا ۵۵) حضرت لوط کی زوجہ خیانت کار نکلی اور عذاب میں مبتلا ہوئی جیسا کہ حضرت نوح۔کی زوجہ کا حا ل ہوا جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( ضَرَبَ الله مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَأَة نُوْحٍ وَّاِمْرَأَة لُوْطٍ )

"خدا نے کفر اختیار کرنے والوں کیلئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال دی ہے۔" (تحریم : ۱۰) زوجہ نوح کی طرح زوجہ لوط بھی ہلاک ہو گئی۔

زوجہ حضرت ابراہیم

حضرت ابراہیم خلیل اللہ عظیم شخصیت کے مالک ہیں انہیں جد ّالانبیاء سے تعبیر کیا گیا ہے اور تمام ادیان ان کی عظمت پر متفق ہیں۔ حضرت ابراہیم کی قوم بت پرست تھی دلائل و براہین کے ساتھ انہیں سمجھایا پھر ان کے بتوں کو توڑا تو بت شکن کہلائے۔ ان کو آگ میں ڈالا گیا تو وہ گلزار بن گئی۔ خواب کی بنا پر بیٹے کو ذبح کرنا چاہا تو اس کا فدیہ ذبح عظیم فدیہ کہلایا۔ ابراہیم خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور مکہ کی سر زمین کو آباد کیا۔ ہمارا دین ،دین ابراہیم سے موسوم ہوا۔ ان کی بت شکنی کے متعلق ارشاد رب العزت ہو رہا ہے :

( وَتَالله لَأَکِیْدَنَّ أَصْنَامَکُمْ بَعْدَ أَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِینَ فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلاَّ کَبِیْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ قَالُوْا أَنْتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا یَاإِبْرَاهِیْمُ قَالَ بَلْ فَعَلَه کَبِیْرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوْهُمْ إِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ فَرَجَعُوْا إِلٰی أَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْا إِنَّکُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُوُنَ ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُئُوْسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰؤُلَاءِ یَنْطِقُوْنَ ) ۔

"اور اللہ کی قسم جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے ان بتوں کی خبر لینے کی ضرور تدبیرسوچوں گا چنانچہ حضرت ابراہیم نے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا سوائے ان کے بڑے (بت ) کے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ (انبیاء ۵۷،۵۸) کہا اے ابراہیم !کیا ہمارے ان بتوں کا یہ حال تم نے کیا ہے؟ ابراہیم نے کہا بلکہ ان کے اس بڑے (بت) نے ایسا کیا ہے تم ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں ( یہ سن کر) وہ ضمیر کی طرف پلٹے اور دل ہی دل میں کہنے لگے حقیقتاً تم خود ہی ظالم ہو پھر انہوں نے اپنے سروں کو جھکا دیا اور (ابراہیم سے) کہا تم جانتے ہو کہ یہ نہیں بولتے۔ (انبیاء۔ ۶۲ تا ۶۵) نمرود کے حکم سے اتنی آگ روشن کی گئی کہ اس کے اوپر سے پرندہ نہیں گزر سکتا تھا۔پھر ابراہیم کو گوپھن میں رکھ کر آگ میں ڈال دیا گیا۔ مزید ارشاد فرمایا:

( قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَانْصُرُوْا آلِهَتَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ فَاعِلِیْنَ قُلْنَا یَانَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی إِبْرَاهِیْمَ ) ۔

"وہ کہنے لگے اگر تم کو کچھ کر نا ہے تو اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی نصرت کرو۔ہم نے کہا اے آگ تو ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کیلئے سلامتی بن جا۔" (انبیاء :۶۸-۶۹)

ابراہیم و نمرود کا مباحثہ

( أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْ حَاجَّ إِبْرَاهِیْمَ فِیْ رَبِّه أَنْ آتَاهُ الله الْمُلْکَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِیْمُ رَبِّی الَّذِیْ یُحْیِی وَیُمِیْتُ قَالَ أَنَا أُحْیی وَأُمِیْتُ قَالَ إِبْرَاهِیْمُ فَإِنَّ الله یَأْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وَالله لَایَهْدِی ) ( الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ ) ۔

"کیا تم نے اس شخص کا حال نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے ان کے رب کے بارے میں اس بناء پر جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے اقتدار دے رکھا تھا جب ابراہیم نے کہا میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے تو اس نے کہا زندگی اور موت دینا میرے اختیار میں بھی ہے ابراہیم نے کہا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کے دکھا! یہ سن کر وہ کافر مبہوت ہو کر رہ گیا اور اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا۔" (بقرہ: ۲۵۸) حضرت ابراہیم اسماعیل اور ہاجرہ کو مکہ چھوڑ آئے تو ارشاد فرمایا :

( رَبَّنَا إِنِّی أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ ) ۔

"اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے نزدیک ایک بنجر وادی میں بسایا ہے۔" (ابراہیم: ۳۷) خواب کی وجہ سے اسماعیل کا ذبح ارشاد رب العزت ہے:

( قَالَ یَابُنَیَّ إِنِّیْ أَرٰی فِی الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَاأَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاءَ الله مِنَ الصَّابِرِیْنَ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّه لِلْجَبِیْنِ وَنَادَیْنَاهُ أَنْ یَّاإِبْرَاهِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلاَءُ الْمُبِیْنُ وَفَدَیْنَاهُ بِذِبْحٍ ) ( عَظِیْمٍ ) ۔ "

ابراہیم نے کہا اے بیٹا !میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس دیکھ لو تمہاری کیا رائے ہے اسماعیل نے کہا اے ابا جان ! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔پس جب دونوں نے حکم خدا کو تسلیم کیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا تو ہم نے ندا دی اے ابراہیم !تو نے خواب کو سچ کر دکھایا ہے۔بیشک ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔یقیناً یہ بڑا سخت امتحان تھا۔ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا۔

حضرت ابراہیم و اسماعیل اور تعمیر کعبہ

ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاهِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَإِسْمَاعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا أُمَّة مُّسْلِمَة لَّکَ وَأَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ) ۔

"(وہ وقت بھی یاد کرو)جب ابراہیم اور اسماعیل اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور دعا کر رہے تھے۔ اے ہمارے رب ہم سے (یہ عمل) قبول فرما کیونکہ تو خوب سننے اور جاننے والا ہے۔اے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بنا۔اور ہماری ذریت سے اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر اور ہمیں ہماری عبادت کی حقیقت سے آگاہ فرما اور ہماری توبہ قبول فرما۔یقیناً تو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔"(بقرہ: ۱۲۷ ، ۱۲۸)

امتحان میں کامیابی کے بعد امامت کا ملنا

( وَإِذِ ابْتَلٰی إِبْرَاهِیْمَ رَبُّه بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَایَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِیْنَ ) ۔

"اور (وہ وقت بھی یاد کرو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے ان کو پورا کر دیا۔تو ارشاد ہوا میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔انہوں نے کہا اور میری اولاد سے بھی۔ارشاد ہوا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔"(بقرہ : ۱۲۴) کیا کہنا عظمت اور خلّتِ ابراہیم کا،وہ واقعاً ایک امت تھے۔انہوں نے اللہ کے کاموں میں پوری وفا کی۔ارشاد ہوا۔( وَاِبرَهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی ) "اور ابراہیم جس نے (حق اطاعت) پورا کیا۔" (نجم: ۳۷) لیکن ان کی زوجہ محترمہ کی وفا مثالی اور کردار عالی تھا۔حضرت ابراہیم کے ہر قول پر آمنا و صدقنا کی حقیقی مصداق تھیں،اور ہر تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے تیار رہتیں۔ چھوٹے بچے اسماعیل اور ہاجرہ کو اکیلے مکہ جیسی بے آب و گیاہ زمین میں چھوڑ رہے ہیں نہ پینے کا پانی ہے اور نہ کھانے کیلئے خوراک بننے والی کوئی چیز۔ سایہ کیلئے کوئی درخت بھی نہیں۔ نہ تو کوئی انسان موجود ہے اور نہ کوئی متنفس لیکن ہاجرہ رضائے خدا ، رضائے ابراہیم پر راضی کھڑی ہیں اللہ نے اس بی بی کو اس قدر عظمت دی کہ اسماعیل کے ایڑیاں رگڑنے سے زم زم جیسے پانی کا تحفہ میّسر ہوا بیچاری ہاجرہ پانی کی تلاش کیلئے بھاگ دوڑ میں ہی مشغول رہیں۔ صفا و مروہ شعائر اللہ اور حج کا عظیم رکن بن گئے مکہ آباد ہوا اور اللہ والوں کا مرکز ٹھہرا۔ ارشاد رب العزت ہوا :

( رَبَّنَا إِنِّیْ أَسْکَنتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلَاة فَاجْعَلْ أَفْئِدَة مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْ إِلَیْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ یَشْکُرُوْنَ ) ۔

"اے ہمارے پروردگار! میں اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے قریب بے آب و گیا ہ وادی میں چھوڑ رہا ہوں تاکہ وہ یہاں نماز قائم کریں اور (اے اللہ)تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف موڑ دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ وہ تیرے شکر گزار بندے بن جائیں۔" ( ابراہیم : ۳۷) اب اس گرم تپتی ہوئی زمین پر صرف دو انسان موجود ہیں ایک عورت اور دوسرا چھوٹا سا بچہ، ماں اور بیٹے کو پیاس لگی۔ ماں صفا اور مروہ پہاڑوں کے درمیان پانی کی تلاش میں بھاگ دوڑ کر رہی ہیں ارشاد رب العزت ہوتا ہے۔ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ مِنْ شَعَائِرِ اللہ "بے شک صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔" (بقرہ : ۱۵۸) ادھر اسماعیل رو رہے ہیں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں خدا نے پانی کا چشمہ جاری کر دیا ہاجرہ تھکی ہوئی آئیں پانی دیکھا تو خوش ہو گئیں ارد گرد مٹی رکھ دی اور کہا زم زم (رک جا رک جا) تو چشمہ کا نام زم زم پڑ گیا۔ جب حضرت ابراہیم جانے لگے تو بے چاری عورت نے صرف اتنا کہا۔ اِلیٰ مَنْ تَکِلُنِیْ مجھے کس کے سپرد کر کے جا رہے ہو۔ ابراہیم۔نے کہا اللہ۔یہ سن کر ہاجرہ مطمئن ہو گئیں۔ عورت کا خلوص اور ماں کی مامتا اس بات کی موجب بنی کہ جب وہ پانی کی تلاش میں کبھی صفا اور کبھی مروہ کی طرف جاتی تو اللہ کو یہ کام اتنا پسند آیا کہ اس نے صفا و مروہ کے درمیان سات چکروں کو حج کا واجب رکن قرار دیا۔ پانی ملا اور جب اس پر ہر طرف سے بند باندھا تو زم زم کہلایا ،حج کے موقع پر یہاں سے پانی لینا مستحب ہے اس پانی سے منہ اور بدن دھونا بھی مستحب ہے۔ آج پوری دنیا میں آب زم زم تبرک کے طور پر پہنچ کر گواہی دے رہا ہے کہ جناب ہاجرہ نے خدا و رسول کی جو اطاعت کی اس کے صدقے میں ہاجرہ کی پیروی کس قدر ضروری ہے۔ پھر آب زم زم کو یہ قدر و منزلت اور عظمت اس بی بی (عورت) کی وجہ سے نصیب ہوئی۔ ابراہیم۔کا کام قابل احترام ہے لیکن زوجہ کا احترام بھی ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گا۔

حضرت زلیخا (اور یوسف)

خداوند عالم نے حضرت یوسف کو بہت بلند درجہ عطا فرمایا ان کے قصہ کو احسن القصص (بہترین قصہ) قرار دیا انہیں منتخب فرمایا ان پر نعمتیں عام کیں اور انہیں حکمرانی عطا فرمائی۔ البتہ یہ حقیقت ہے ابتدا میں بھائیوں نے بہت پریشان کیا کنویں میں ڈالا پھر بازار فروخت ہوئے اور بعد میں عورتوں نے بھی بہت پریشان کیا لیکن کامیابی و کامرانی آخر کار حضرت یوسف کوہی نصیب ہوئی۔ ارشاد رب العزت ہوا :

( وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَأْوِیْلِ الْأَحَادِیْثِ وَیُتِمُّ نِعْمَتَه عَلَیْکَ وَعَلٰی آلِ یَعْقُوبَ کَمَا أَتَمَّهَا عَلٰی أَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاهِیْمَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبَّکَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ) ۔

"تمہارا رب تم کو اسی طرح برگزیدہ کر دے گا تمہیں خوابوں کی تعبیر کا علم سکھائے تم اور آل یعقوب پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کریگا جس طرح اس سے پہلے تمہارے اجداد ابراہیم و اسحاق پر کر چکا ہے بے شک تمہارا رب بڑے علم اور حکمت والا ہے۔" (یوسف : ۶) بھائیوں کی سازشوں ، ریشہ دانیوں اور ظلم سے حضرت یوسف بک گئے اور پھر عزیزِ مصر کے پاس آ گئے۔ اب عورتوں نے اس قدر پریشان کیا کہ خدا کی پناہ ! ارشاد رب العزت ہوا :

( وَرَاوَدَتْهُ الَّتِیْ هُوَ فِیْ بَیْتِهَا عَنْ نَّفْسِه وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ الله إِنَّه رَبِّیْ أَحْسَنَ مَثْوَایَ إِنَّه لَایُفْلِحُ الظَّالِمُوْنَ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِه وَهَمَّ بِهَا لَوْلَاأَنْ رَّأ بُرْهَانَ رَبِّه کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّه مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیْصَه مِنْ دُبُرٍ وَّأَلْفَیَا سَیِّدَهَا لَدٰ الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِکَ سُوْئًا إِلاَّ أَنْ یُّسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ قَالَ هِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَّفْسِیْ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا إِنْ کَانَ قَمِیْصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ وَإِنْ کَانَ قَمِیْصُه قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ فَلَمَّا رَأَ قَمِیصَه قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّه مِنْ کَیْدِکُنَّ إِنَّ کَیْدَکُنَّ ) ( عَظِیْمٌ ) ۔

"اور یوسف جس عورت کے گھر میں تھے۔اس نے انہیں اپنے ارادہ سے منحرف کر کے اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور سارے دروازے بند کر کے کہنے لگی آ جاؤ۔ یوسف نے کہا پناہ بہ خدا! یقیناً میرے رب نے مجھے اچھا مقام دیا ہے بے شک ظالموں کو فلاح نہیں ملا کرتی اور اس عورت نے یوسف کا ارادہ کر لیا اور یوسف بھی اس کا ارادہ کر لیتے اگر وہ اپنے رب کے برہان نہ دیکھ چکے ہوتے۔ اس طرح ہوا ، تاکہ ہم ان سے بدی اور بے حیائی کو دور رکھیں کیونکہ یوسف ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔ث دونوں آگے نکلنے کی کوشش میں دروازے کی طرف دوڑ پڑے اور اس عورت نے یوسف کا کرتا پیچھے سے پھاڑ دیا اتنے میں دونوں نے اس عورت کے شوہر کو دروازے پر موجود پایا۔ عورت کہنے لگی جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے اس کی سزا کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ اسے قید میں ڈالا جائے یا دردناک عذاب دیا جائے۔ یوسف نے کہا یہی عورت مجھے اپنے ارادہ سے پھسلانا چاہتی تھی اور اس عورت کے خاندان کے کسی فرد نے گواہی دی کہ اگر یوسف کا کرتا آگے سے پھٹا ہے تو یہ سچی ہے اور یوسف جھوٹا اور اگر اس کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہے تو یہ جھوٹی ہے اور یوسف سچا ہے جب اس نے دیکھا تو کرتا تو پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تواس (کے شوہر ) نے کہا بے شک یہ تو تمہاری فریب کاری ہے بتحقیق تم عورتوں کی فریب کاری تو بہت بھاری ہوتی ہے۔" (یوسف: ۲۳ تا ۲۸ ) یہ بہت بڑا واقعہ تھا ایک طرف بے چارا اور زر خرید غلام ہے جبکہ دوسری طرف بادشاہ کی بیوی۔ چہ می گوئیاں ہوئیں۔تو شاہ مصر کی زوجہ نے محفل سجائی عورتوں کو دعوت میں بلایا اور میوا جات رکھ دیئے گئے پھر ان سے کہا گیا کہ چھری کانٹے ہاتھ میں لے لو۔ دعوت ِ خورد و نوش شروع ہوئی، ادھر سے پھل کٹنا شروع ہوئے اُدھر سے یوسف کو بلا لیا گیا۔ وہ عورتیں حسنِ یوسف سے اس قدر حواس باختہ ہو گئیں کہ بہت سی عورتوں نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں کاٹ لیں۔واہ رے حسنِ یوسف! ارشاد رب العزت ہے :

( وَقَالَ نِسْوَة فِی الْمَدِیْنَة امْرَأَتُ الْعَزِیْزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَنْ نَّفْسِه قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا إِنَّا لَنَرَاهَا فِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَیْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّکَأً وَّآتَتْ کُلَّ وَاحِدَة مِّنْهُنَّ سِکِّیْنًا وَّقَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْهِنَّ فَلَمَّا رَأَیْنَه أَکْبَرْنَه وَقَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلاَّ مَلَکٌ کَرِیْمٌ قَالَتْ فَذَلِکُنَّ الَّذِیْ لُمْتُنَّنِیْ فِیْهِ وَلَقَدْ رَاوَدْتُّه عَنْ نَّفْسِه فَاسْتَعْصَمَ وَلَئِنْ لَّمْ یَفْعَلْ مَا آمُرُه لَیُسْجَنَنَّ وَلَیَکُونًا مِّنَ الصَّاغِرِیْنَ قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْ إِلَیْهِ ) ۔

"شہر کی عورتوں نے کہنا شروع کر دیا کہ عزیز مصر کی بیوی اپنے غلام کو اس کے ارادہ سے پھسلانا چاہتی ہے اس کی محبت اس کے دل کی گہرائیوں میں اثر کر چکی ہے ہم تو اسے یقیناً صریح گمراہی میں دیکھ رہے ہیں پس اس نے جب عورتوں کی مکارانہ باتیں سنیں تو انہیں بلا بھیجا اور ان کیلئے مسندیں تیار کیں اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں چھری دے دی (کہ پھل کاٹیں) پھر اس نے یوسف سے کہا ان کے سامنے سے گزرو۔ پس جب عورتوں نے انہیں دیکھا تو انہیں بڑا حسین پایا اور وہ اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور کہے اٹھیں سبحان اللہ یہ بشر نہیں ہو سکتا یہ تو کوئی معزز فرشتہ ہے! اس نے کہا یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے طعنے دیتی تھیں اور بے شک میں نے اس کو اپنے ارادہ سے پھسلانے کی کوشش کی تھی مگر اس نے اپنی عصمت قائم رکھی اور اگر یہ میرا حکم نہ مانے گا تو ضرور قید کر دیا جائے گا اور خوار بھی ہو گا۔ یوسف نے کہا:اے میرے رب! مجھے اس چیز سے قید زیادہ پسند ہے جس کی طرف یہ عورتیں دعوت دے رہی ہیں۔" (یوسف ۳۰ تا ۳۳) یوسف قید میں ڈال دئے گئے اور وہاں انہوں نے دو قیدیوں کے خواب کی تعبیر بیان کی اس کی خبر عزیز مصر کو ہو گئی پھر بادشاہ کے خواب کی تعبیر بھی بتائی جو ملک و ملت کیلئے مفید تھی تب بادشاہ نے یوسف کو قید خانے سے بلا بھیجا جب قاصد یوسف کے پاس آیا تو کہا :

( وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِه فَلَمَّا جَاءَ هُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ إِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْه مَا بَالُ النِّسْوَة الَّتِیْ قَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنَّ إِنَّ رَبِّیْ بِکَیْدِهِنَّ عَلِیْمٌ قَالَ مَا خَطْبُکُنَّ إِذْ رَاوَدْتُّنَّ یُوسُفَ عَنْ نَّفْسِه قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْهِ مِنْ سُوْءٍ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِیْزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُّه عَنْ نَّفْسِه وَإِنَّه لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ أَنِّیْ لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَیْبِ وَأَنَّ الله لاَیَهْدِیْ کَیْدَ ) ( الْخَائِنِیْنَ )

"اور بادشاہ نے کہا یوسف کو میرے پاس لاؤ پھر جب قاصد یوسف کے پاس آیا تو انہوں نے کہا اپنے مالک کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا مسئلہ کیا تھا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے میرا رب تو ان کی مکاریوں سے خوب واقف ہے۔ بادشاہ نے عورتوں سے پوچھا اس وقت تمہارا کیا حال تھا جب تم نے یوسف کو اپنے ارادے سے پھسلانے کی کوشش کی تھی؟ سب عورتوں نے کہا ہم نے یوسف میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔(اس موقع پر) عزیز کی بیوی نے کہا اب حق کھل کر سامنے آگیا ہے میں نے یوسف کو اس کی مرضی کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی تھی اور یوسف یقیناً سچوں میں سے ہیں (یوسف نے کہا)ایسا میں نے اس لئے کیا تاکہ وہ جان لے کہ میں نے عزیز مصر کی عدم موجودگی میں اس کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کی اور اللہ خیانت کاروں کے مکر و فریب کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرتا۔" (یوسف : ۵۰ تا ۵۲) بہرحال حضرت یوسف بادشاہ کے بلانے پر فورا نہیں گئے بلکہ اپنی برأت کے اثبات کے بعد با عزت و عظمت اور عصمت کے ساتھ بادشاہ کے ہاں گئے۔ عورتوں کے مکر سے محفوظ رہے عصمت پر کوئی دھبہ نہیں لگنے دیا اسی طرح بھائیوں کی ریشہ دانیاں نا کار ہو گئیں اور یوسف عزت و عظمت کی بلندیوں تک پہنچے۔ وہی بھائی تھے ، انہوں نے معذرت کی۔ ماں و باپ خوش ہوئے اور سجدہ شکر بجا لائے اللہ کا فرمان ثابت رہا کہ تو میرا بن جا میں تیرا بن جاؤں گا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ مردوں میں بھی اچھے برے موجود ہیں اور یہی حال عورتوں کا بھی ہے۔ یوسف کے بھائی غلط نکلے، عورتیں مکار ثابت ہوئیں لہذا مرد بحیثیت مرد عورتوں سے ممتاز نہیں ہے۔ بلکہ عورت و مرد میں معیار تفاضل تقویٰ ہے جو تقوی رکھتا ہو گا خواہ مرد ہو یا عورت ،وہ اللہ کا بندہ اور مومن ہو گا اور جو تقوی سے خالی ہے خواہ مرد ہو یا عورت، ظاہری طور پر انسان ہو گا لیکن حقیقت میں حیوان ہو گا۔