اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق20%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 178080 / ڈاؤنلوڈ: 5181
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

٥۔اولاد غلام، قبیلہ وخاندان، رشتہ دار اور پیروی کرنے والوں کی کثرت سے اترانا، چنانچہ خدا وندعالم نے کافروں کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا ہے: '' انہوں نے کہا ہماری دولت اور اولاد سب سے زیادہ ہے اور ہم عذاب میں مبتلا نہیں ہوں گے '' ۔(١)

٦۔ ایسی خود پسندی جو مال و دولت کی فراوانی سے پیدا ہو۔ قرآن دومالکین باغ میں سے ایک کی زبانی نقل کرتا ہے: ''میر ا مال تم سے زیادہ ہے اور افراد کے اعتبار سے بھی میں تم سے قوی ہوں ''(٢) اس نے اپنے مال و متاع کو اپنی جانب سے خیال کیا اور اسے اپنی برتری کا سبب جانا خدا وند عالم نے بھی جو کچھ اسے دیا تھا چھین لیا مجموعی طور پر جب بھی انسان خود کو صاحب کمال خیال کرے، خواہ جسے اس نے کمال سمجھا ہے واقعا ً کمال ہو یا نہ ہو اور اس بات کو بھول جائے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے خدا کا دیاہوا ہے اور اسی کی رحمت و توفیق سے میسر ہوا ہے تو یہ امر اس کے اندر خود پسندی کا سبب بن سکتا ہے، حتی اگر خدا کی عبادت اور تقوی ٰسے فیضیاب ہونے اور خدا سے ڈرنے کا احساس بھی ہو۔(٣)

د۔ خود پسندی کے نقصان دہ اثرات: جیسا کہ اشارہ ہوا، خود پسندی بہت سی اخلاقی برائیوں کی کنجی ہے ذیل میں ان میں سے بعض اہم ترین برائیوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

١۔ خود پسندی ''کبر'' کا سرچشمہ نیز اس کے علاوہ بہت سے دوسرے رذائل کا بھی منبع ہے۔ اور کبر خود بینی کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا ۔

٢۔ خود بینی گناہوں کے فراموش کرنے کا باعث ہے۔ اگر انسان اپنے بعض گناہوں کی طرف متوجہ بھی ہو، تو انھیںمعمولی اورقابل مغفرت شمار کرکے ان کی تلافی کی کوشش نہیں کرتا۔

٣۔خود پسند انسان خود بینی کے بالا ترین مراحل میں اپنے کو بہت زیادہ خدا سے نزدیک سمجھتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود کو عذاب الٰہی سے محفوظ جانتاہے، اسی وجہ سے وہ اپنے اعمال کی اصلاح اور اس کے نقائص کو برطرف کرنے کی کوشش نہیں کرتا آخر کار اپنے اعمال کو ضائع کر دیتا ہے۔

____________________

١۔سورئہ سبائ، آیت٣٥۔

٢۔ سورئہ کہف، آیت ٣٤۔

٣۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٦، ص٢٨٢تا٢٨٩۔

۱۰۱

٤۔ خود پسند انسان چونکہ خداوند عالم سے اپنے لئے کچھ مطالبات رکھتا ہے لہٰذا شکر گذاری اور قدر شناسی کو اپنا فریضہ نہیں سمجھتا اور اللہ کی نعمتوں کی نسبت نا شکر ا ہو جاتا ہے۔

٥۔ خود پسند انسان چونکہ اپنے اعمال سے خوش بین رہتا ہے اس لئے وہ اپنی کمزوری اور احتیاج کا احساس نہیں کرتا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ خود کو سوال کرنے اور مشورہ سے بے نیاز سمجھتا ہے۔

٦۔ خود پسند انسان چونکہ اپنے اندر کوئی کمی اور نقص اور عیب نہیں سمجھتا، لہٰذا خود کو دوسروں کی نصیحت اور خیر خواہی سے بے نیاز تصور کرتا ہے اور ان کی نصیحتوں پر توجہ نہیں کرتا۔(١)

٧۔ خود ستائی یعنی اپنی آپ تعریف کرنا خود پسندی کا ایک دوسرااثر ہے۔ خود بین انسان کو جو بھی موقع ہاتھ لگتا ہے وہ صرف اپنی تعریف میں زبان کھولتا ہے اور جو کچھ اس سے متعلق ہے اسے اچھے عنوان سے ذکر کرتا ہے۔(٢) جب کہ آدمی کا حسن اوراس کی خوبی یہ ہے کہ خود کو نقائص، عیوب، گناہوں اور خطاؤں سے بری نہ جانے اور ہمیشہ بارگاہ خدا وندی میں اپنے جرم و گناہ کی معذرت کرتا رہے۔ قرآن کریم میں خود ستائی کی مذمت میں ارشاد ہوتا ہے: ''لہٰذا اپنے آپ کوپاکیزہ خیال نہ کرو وہ اس انسان (کے حال) سے جس نے پرہیز گاری اختیار کی ہے زیادہ آگاہ ہے''۔(٣)

ہ۔ خود پسندی کا علاج: ہر درد کا علاج اس کے اسباب و علل کو برطرف کرنا ہے، لہذا جو انسان اپنے حسن و جمال اور جسمانی صحت پر مغرور ہو گیا ہے، اسے چاہئے کہ وہ اپنے آغاز پیدائش اور اپنے انجام پر نظر کرے اور یہ جان لے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ سریع الزوال اورفانی ہے۔ صاحب قدرت کو معلوم ہوناچاہیے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ ایک روز کی بیماری میں نابود ہوجائے گا اور ہر آن اس بات کا امکان ہے کہ جو کچھ خدا نے اسے دیا ہے واپس لے لے گا۔ صاحب علم و عقل بھی جان لے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اللہ کی امانت ہے لہذا ممکن ہے کہ ایک معمولی حادثہ کے ز یراثر اپنے تمام علم وشعور کو کھو دے۔ اسی طرح صاحبان حسب و نسب بھی جان لیں کہ دوسروںکے کمال کے سبب اظہار فضیلت و بلندی عین جہالت اور بیوقوفی ہے کیونکہ خدا کی بارگاہ میں کرامت وبزرگی تقویٰ وپرہیز گاری کے سوا کچھ نہیں ہے۔

____________________

١۔ المحجة البیضائ، ص٢٧٥، ٢٧٦ ملاحظہ ہو۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٣٦٥، ٣٦٦۔

٣۔ سورئہ نجم ، آیت ٣٢۔

۱۰۲

مال ودولت کے مضر اثرات کے بارے میں غور وفکر کرنا کافی ہے تاکہ دولتمندوں کو خود پسندی کے خواب سے بیدار کر دے۔ اہل عبادت اور تقویٰ کو بھی توجہ کرنی چا ہئے کہ عبودیت کی غایت خدا کے سامنے تواضع و انکساری کے سواکچھ نہیں ہے اور عبودیت خود بینی، خود پسندی سے میل نہیں کھاتی ۔(١)

دوسری نظر۔ غرور

''غرور ' 'جوکچھ نفسانی خواہشات کے موافق ہے اس کی نسبت قلبی سکون و اطمینان نیز انسانی طبیعت کا اس کی طرف مائل ہونا ہے۔ اس صفت کا سر چشمہ یا تو جہالت ہے یا شیطانی وسوسہ ہے۔ اس وجہ سے جو شخص اوہام اور شبہات کی بنیاد پر خود کو خیر و صلاح پر تصورکرتا ہے حقیقت میںوہ دھوکہ کھا گیا ہے اور مغرور ہو گیا ہے، وہ اپنا اور اپنے امورکا صحیح اندازہ لگانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ جیسے کوئی حرام طریقہ سے مال حاصل کرے اوروہ اسے راہ خیر مثلاً مسجد بنانے، مدرسہ تعمیر کرنے اوربھوکوں کو سیرکرنے میں خرچ کرے اس خیال سے کہ وہ راہ خیر اور نیکی میں قدم اٹھا رہاہے، جب کہ وہ مغرور اور دھوکہ کھایا ہوا ہے۔ اس وجہ سے '' غرور '' کے دو اساسی رکن ہیں:

١۔ جہل مرکب: یعنی اس کا قلبی اعتقاد یہ ہے کہ اس کا عمل نیک ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

٢۔ برخلاف اس کے کہ جو وہ ظاہر میں دعویٰ کرتا ہے اس کا اصلی سبب خیر و سعادت نہیں ہے، بلکہ خواہشات وغضب کی پیروی اور انتقام جوئی ہے۔قر آن و روایات میں غرور کی شدت سے مذمت کی گئی ہے۔ قرآن اس سلسلہ میںانسان کو ہوشیار کرتا ہے: ''تمہیں یہ دنیاوی زندگی دھوکہ ہرگز نہ دے اور شیطان تمہیں ہر گز مغرور (فریب خوردہ) نہ بنائے ''۔(٢) دوسری جگہ غرور کا سبب دنیا دوستی اور دنیا طلبی جانتا ہے: '' دنیوی زندگی مایۂ فریب کے سوا کچھ اور نہیں ہے ''۔(٣) اگر چہ لوگوں کے تمام گروہوں میں فریب خوردہ اور مغرور لوگ پائے جاتے ہیں، لیکن بعض گروہ کچھ زیادہ ہی غرور میں مبتلا ہیں یا بعبارت دیگر بعض امور زیادہ تر غرور کا باعث بنتے ہیں۔ اسی وجہ سے علماء اخلاق سب سے اہم ان گروہوں کو جو غرور میں مبتلا ہوتے ہیں، درج ذیل گروہ جانتے ہیں:

الف۔ کفار:

کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا نقد آخرت کے ادھار سے بہتر ہے۔ اسی طرح دنیا کی یقینی لذت آخرت کی وعدہ شدہ لذت سے بہتر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی،جامع السعادات، ج١، ص ٣٢٦تا ٣٤٢۔ ٢ ۔سورئہ لقمان، آیت ٣٣۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ حدید، آیت ١٤۔٣۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٨٥ ۔ سورئہ حدید، آیت ٢٠۔

۱۰۳

ب۔ فاسق اور گناہگار مومنین:

کیونکہ یہ لوگ اس بہانہ سے کہ خدا وندعالم عظیم اور وسیع رحمت کا مالک ہے، ان کے گناہ اس کے عفو ورحمت کے مقابل ناچیز ہیں، لہٰذا یقیناً رحمت خداوندی ان کے شامل حال ہوگی۔

ج۔علمائ:

کیونکہ ممکن ہے کہ یہ تصور کریں کہ علم ودانش، نجات وکامیابی کا ذریعہ ہے اور یہ سونچ کر اپنے علم پر عمل نہ کریں۔

د۔ مبلغین اور واعظین:

کیونکہ شاید یہ گمان کریں کہ ان کی نیت لوگوں کی ہدایت ہے جب کہ وہ اپنے نفس کو راضی کرنے کے چکر میں ہیں اور اس راہ میں خلاف واقع امور کی دین کی طرف نسبت دینے سے بھی گریز نہ کریں۔

ہ۔ اہل عبادت اور عمل:

چونکہ ممکن ہے کہ حقیقت میں وہ ریا اور خود نمائی کر رہے ہوں، لیکن تصور کریں کہ ان کی غرض اللہ کی رضا اور اس کے معنوی تقرب کا حصول ہے۔

و۔ عرفان کے دعویدار افراد:

کیو نکہ شاید یہ تصور کریں کہ صرف اہل معرفت کا لباس پہن کر اور ان کی اصطلاحیں استعمال کر کے (بغیر اس کے کہ وہ اپنی حقیقت اور باطن کو تبدیل کریں) سعادت وحقیقت تک پہونچ گئے ہیں۔

۱۰۴

ز۔ مالدار اور ثروت مند افراد:

کیو نکہ یہ لوگ کبھی راہ حرام سے تحصیل کر کے لوگوں کو دکھانے کے لئے امور خیر یہ میں اس کا مصرف کرتے ہیں اور اس کو اپنی سعادت ونیک بختی کا ذریعہ سمجھ کر اپنے دل کو خوش رکھتے ہیں۔(١)

٢۔ تواضع

تواضع کا مفہوم یہ ہے کہ انسان دوسروں کے مقابل اپنے امتیاز اور فوقیت کا قائل نہ ہو۔ کسی انسان میں اس حالت کا وجود باعث ہو تا ہے کہ دوسروں کو بزرگ اور مکرم سمجھے۔(٢) تواضع کبر وتکبر کے مقابل ہے اور یہ دونوں تواضع کے لئے مانع کے عنوان سے زیر بحث واقع ہوں گے۔

ایک۔ تواضع کی اہمیت:

خدا وند عالم قرآن کریم میں تواضع وفروتنی کو اپنے واقعی مومن بندوں کی خصوصیات میں جانتا ہے اور فر ماتا ہے:

''اور خدا وند رحمان کے بندے وہ لوگ ہیں جو روئے زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ونادان لوگ ان سے خطاب کر تے ہیں تو وہ سلامتی کا پیغام دیتے ہیں''(٣)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٣، ٣٣۔

٢۔ ایضاً ، ج١، ص ٣٥٨، ٣٥٩۔

٣۔ سورئہ فرقان، آیت ٦٣ ۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ مائدہ، آیت ٥٤۔

۱۰۵

دوسری جگہ خدا وند عالم پیغمبر اکرم سے فرماتا ہے: اپنے ماننے والوںکے ساتھ خاضعانہ رفتار رکھیں:

''اور ان مومنین کے لئے جنہوں نے آپ کی پیروی کی ہے اپنے شانوں کوان کے لئے جھکا دیجئے''(١) حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: خداوند عالم نے موسیٰ کو وحی کی: اے موسیٰ ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اپنی تمام مخلوقات میں تم کو اپنے سے بات کرنے کے لئے کیوں انتخاب کیا ؟ موسیٰ ـنے عرض کی: خدا یا ! اس کی علت کیا ہے ؟ خدا نے جواب دیا: ''اے موسیٰ! میں نے اپنے بندوں میں اپنے سامنے تم سے زیادہ کسی کو متواضع اور منکسر نہیں دیکھا۔ اے موسیٰ ! جب تم نماز پڑھتے ہو تو اپنے رخسار کوخاک پر رکھتے ہو''۔(٢)

رسول خدا نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ''کیا بات ہے کہ تم میں عبادت کی شیرینی نہیں دیکھتا؟ ''انہوں نے سوال کیا: عبادت کی شیرینی کیا ہے ؟ فرمایا: '' عاجزی وانکساری ''۔(٣)

دو۔ تواضع کی علامتیں: بعض روایات میں متواضع اور خاکسار انسان کے لئے نشانیاں بیان کی گئی ہیں اگر چہ یہ نشانیاں نمونہ کے طور پر ہیں اور اس کا مفہو م صر ف انھیںنشانیوں میں منحصر ہونا نہیں ہے، انھیںنشانیوں میں سے بعض درج ذیل ہیں:

١۔ متواضع اور خاکسار انسان بیٹھنے میں بزم کے آخری حصہ میں بیٹھتا ہے۔(٤)

٢۔ متواضع انسان سلام کرنے میںدوسروں پر سبقت کرتا ہے۔(٥)

٣۔ جنگ وجدال سے بازرہتا ہے خواہ حق اس کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔(٦)

٤۔ وہ اس بات کو دوست نہیں رکھتا کہ اس کی پرہیز گاری کی تعریف کی جائے۔

تین۔ فروتنی کے موانع : کبر و تکبر، فخر و مباہات، تعصب، طغیانی و سر کشی، ذلت و رسوائی، فروتنی کے سب سے اہم موانع میں شمار ہوتے ہیں، اختصار کے ساتھ ان میں سے بعض کی توضیح دے رہے ہیں۔

الف) کبر:

فروتنی کی راہ میں سب سے بنیادی و اساسی مانع '' کبر '' ہے۔

____________________

١۔ سورئہ شعرائ، آیت ٢١٥۔٢۔ کافی، کلینی، ج٢، ١٢٣، ح٧۔ ٣۔ورام بن ابو فراس: تنبیہ الخواطر، ج١، ص٢٠١۔

٤۔کافی، ج٢، ص ١٢٣، ح٩۔٥۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج٧٥، ص١٢٠، ح٩۔ ٦۔ایضاً ، ص١١٨، ح٣۔

۱۰۶

کبرکا مفہوم:

کبر یہ ہے کہ انسان عُجب و خود پسندی کے نتیجہ میں مقابلہ و مقایسہ کے موقع پر خود کو سب سے برتر اور بہتر خیال کرے اس وجہ سے کبر خود پسندی اور عُجب کامعلول ہے (یعنی کبر عُجب و خودپسندی کی وجہ سے وجود میں آتا ہے ) اور اس میںدوسروں سے مقایسہ پوشیدہ ہے۔ اگر خود کو بڑا اور برتر سمجھنے کی کیفیت ایک حالت کے عنوان سے فقط انسان کے اندر باطن میں پائی جائے تو اسے ''کبر '' کہتے ہیں، لیکن اگرخارجی اعمال و رفتار میں ظاہر ہو تو اسے ''تکبر'' کہتے ہیں، جیسے کسی کے ساتھ بیٹھنے یا کھانا کھانے سے پرہیز کرے، اور دوسروں سے سلام کا انتطار کرے اور گفتگو کرتے وقت مخاطب کی طرف نگاہ کرنے سے اجتناب کرے وغیرہ ...۔(١)

تکبّر کی مذمت:

خداوند عالم نے قرآن کریم میں ان لوگوں کی نسبت جو اللہ کی عبادت میں تکبّر کرتے ہیں، جہنم کا وعدہ دیا ہے ''در حقیقت جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب وہ لوگ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں چلے جائیں گے ''۔(٢) دوسری جگہ اعلان کرتا ہے کہ سرائے آخرت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو زمین میں فوقیت و برتری کے خواہاں نہ ہوں: ''اس دارآخرت کو ہم ان لوگوں سے مخصوص کردتے ہیں جو زمین میںفوقیت وبرتری اور فساد کے طا لب نہ ہوں ''۔(٣)

تکبّر کی قسمیں:

جس کی نسبت تکبّر کیا جاتا ہے اس کے اعتبار سے تکبّر کی تین قسمیں کی جاسکتی ہیں:

ایک۔ خداوندعالم کے مقابل تکبّر کرنا: جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے: '' جو انسان اس کی پرستش سے امتناع کرے اور کبر کا اظہار کرے عنقریب ان سب کو اپنی بارگاہ میں محشور کرے گا''۔(٤)

دو۔ پیغمبر کے مقابل تکبّر کرنا:

پیغمبر کے مقابل تکبّر اس معنی میں ہے کہ انسان اپنی شان و منزلت کو اس بات سے افضل وبرتر تصور کرے کہ آنحضرت کی دعوت اور فرامین پر گردن جھکائے ۔جیسا کہ قرآن کفار کے ایک گروہ کے بارے میں اس طرح فرماتا ہے: '' آیا ان دو بشر پر جو کہ ہمارے ہی جیسے ہیں ایمان لے آئیں ''۔(٥)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٣٤٤۔ ٢۔ سورئہ مومن، آیت ٦٠۔٣۔سورئہ قصص ٨٣ ۔ جاثیہ ٣٧ ۔ اعراف ١٣، ١٤٦ ۔ ص ٧٣ ، ٧٤ ۔ سورئہ اسرائ، آیت ٣٧ ۔ لقمان ١٨۔ فرقان ٦٣ ۔ نحل ٢٩ اور ٢٣ ۔ غافر، آیت ٣٠، ٥٦، ٦٠ ۔ انعام، آیت ٩٣ ،سورئہ زمر، آیت ٧٢۔

٤۔سورئہ نسائ، آیت ١٧٢ ۔ سورئہ مریم، آیت ٦٩ ۔ نحل، آیت ٢٣۔ ٥۔سورئہ مومنون، آیت ٤٧۔

۱۰۷

تین۔ لوگوںکے مقابل تکبّر: یعنی خود کو عظیم اور دوسرے لوگوں کو معمولی اور ذلیل و خوار سمجھنا۔ ایک روایت میں اس طرح کے تکبّر کو واقعی جنون سے تعبیر کیا گیا ہے۔(١)

تکبّر کا علاج:

علماء اخلاق نے تکبّر کے علاج کے لئے علمی اور بعض عملی راہیں بتائی ہیںکہ وہ اسباب تکبّر سے اجتناب یا ان کا برطرف کرنا ہے۔ چونکہ حقیقت میں تکبّر کے اسباب وہی خودپسندی کے اسباب ہیں، لہذا جوکچھ خودپسندی کے علاج سے متعلق بیان کیا گیا ہے، وہی تکبّر کے علاج کے لئے بھی کار آمد ہوگا۔

ب) ذلت وخواری:

جس طرح بزرگ طلبی اور برتری جوئی (کبر وتکبّر) تواضع کے لئے مانع ہے اسی طرح ذلت وخواری بھی تواضع کے لئے مانع ہے اور عزت نفس سے بھی منا فات رکھتی ہے اگر تکبّر اپنی اہمیت جتانے میںافراط اورزیادتی تو ذلت خواری بھی اس امر میں تفریط ہے(٢) اسی بنیاد پراخلاق اسلامی میں متکبّرین کے مقابل تواضع اور خاکساری کرنے کو شدت کے ساتھ منع کیا گیاہے کیونکہ متکبّر انسان ہرطرح کی خاکساری و فروتنی کو مقابل شخص کی پستی اورخواری شمار کرتا ہے۔(٣)

____________________

١۔شیخ صدوق، خصال، ص ٣٣٢، ح ٣١۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٣٦٢۔

٣۔ ورام بن ابی فراس، تنبیہ الخواطر، ج ١، ص ٢٠١ ملاحظہ ہو۔

۱۰۸

تیسری فصل: مؤثر نفسانی صفات

د۔ نفس کی توجہ آئندہ کی نسبت

اخلاق اسلامی کے مفاہیم میں سے بعض یہ ہیں جو انسان کے نفس کی توجہ کو آئندہ سے متعلق بتاتا ہے۔ سب سے پہلے آئندہ کے متعلق نفس کے پسندیدہ رجحان پھر اس کے بعد اس کے موانع کے بارے میں گفتگوکریں گے۔

١۔ آئندہ کی نسبت نفس کا مطلوب رجحان

یہ رجحان درج ذیل شرح کے ساتھ چند مفاہیم کے قالب میں بیان ہوگا:

الف۔ حزم:

حزم لغت میں محکم و استوار کام کرنے اور امور کو متقن ومحکم بنانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔(١) روایات میںبھی حزم اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، لیکن اس کے مصادیق کثرت سے بیان کئے گئے ہیں، منجملہ آج کی اصلاح، کل کا تدارک، آج کا کام کل پر نہ چھوڑنا، موت کے لئے آمادہ رہنا، ضد اورہٹ دھرمی نہ کرنا، صاحبان نظر سے مشورہ کرنا، کسی چیز کے طے کرنے میں قاطعیت کا اظہار، مشکوک امور میںتوقف کرنا، احتیاط اور عاقبت اندیشی۔ اس طرح سے آئندہ کے بارے میں غورو خوص کرنا اور دور اندیشی حزم کے مصادیق میں سے ایک مصداق ہے قریب وبعید مستقبل کا تدارک مطلوب صورت میں اسلام کے عالی اخلاقی فضائل میں شمار ہوتا ہے اس سے اخلاق اسلامی کی اصل کتابوں میں حزم کو چالاکی،(٢) ایک نوع سرمایہ اور پونجی،(٣) ہنر مندی(٤) جیسے اوصاف سے یاد کیا گیا ہے اور مومنین کے اوصاف میں سے ایک وصف شمار کیا گیا ہے۔

____________________

١۔ ابن اثیر، نہایہ، ج١، ص٣٧٩۔

٢۔شیخ صدوق، خصال، ج٢، ص٥٠٥، ح٣۔

٣۔ غررالحکم، ح٩۔

٤۔ ایضاً ، ح١١٧۔

۱۰۹

(١) خلاصہ یہ کہ آئندہ کی نسبت نفس کی مطلوب توجہ (حزم) یہ ہے کہ پہلے اپنے کل کی حالت اور ان حوادث وواقعات کو جو آئندہ پیش آئیں گے منجملہ ان کے اپنی موت وزندگی کو نظر میں رکھے۔ دوسرے آج کی اپنی خواہشات ومیلانات کو کل کی بہ نسبت آمادہ کرے۔

ب۔ آرزؤوں کو کم کرنا:

کل ہمارے آج کی آرزؤوں کا بستر ہے، سارے انسان جس مقدار میں اپنی بقا و زندگی کے لئے آئندہ امید رکھتے ہیں اسی قدر اپنی آرزؤوں کے دائرہ کی نقشہ کشی کرتے ہیں۔ نیز کبھی کبھی آدمی کی آرزؤوں اور تمناؤں کا دامن اس کی آئندہ زندگی کے دوران کی نسبت امید کو تحت تاثیر قرار دیتا ہے۔ بہر صورت یہ دونوں عامل ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں، اخلاق اسلامی میںکوشش کی گئی ہے کہ انسان کی آرزوئیں اور اس کی امیدیں کو اس کی باقی بچی عمر کی نسبت فطری حقیقتوں اور گراں قیمت اخلاقی معیاروں کے مطابق شکل اختیار کرے۔ ایک طرف انسان کو آگاہ کرتاہے کہ آئندہ زندگی کے لئے کوئی اطمینان و ضمانت نہیں ہے اور ہر دن اور ہر آن ممکن ہے کہ اس کی زندگی کا آخری لمحہ ہو لہذا اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے دنیوی مطالبات وخواہشات اور آخرت کے لئے اپنی ضرورتوںکو انھیںواقعیتوں کی بنیاد پر استوار کرے۔ دوسری طرف اسے یاد دلاتا ہے کہ اپنی ہمت کو بلند رکھے اور اپنی ا نسانی منزلت کا کھانے پینے، سونے اور زودگذر لذتوں، اعتباری منصبوں نیز ایسے لوگوں کی تعریف و توصیف سے جو اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں، سودا نہ کرے۔

اخلاق اسلامی کی تاکید آرزؤوں کو کم کرنے کے سلسلہ میں اسی ہدف کی تکمیل کے پیش نظر ہے، کیونکہ علماء اخلاق کے بقول، طولانی آرزؤوںکی بنیاد دو چیزیں ہیں: ایک طولانی عمر پر اعتقاد اور دوسرے طویل مدت تک دنیوی لذتوں سے فائدہ اٹھانے کی رغبت۔ اس بنا پر طولانی آرزوئیں ایک طرف انسان کی جہالت اور اس کی موت سے غفلت کا باعث ہیں اور دوسری طرف دنیا سے لگاؤ اور محبت کا باعث ہیں۔(٢) یہ دونوں نہ تنہا رذیلت ہیں، بلکہ بہت سے اخلاقی رذائل کی کنجی ہیں۔ آیات وروایات میںطولانی و دراز آرزؤوں کی مختلف انداز سے مذمت کی گئی ہے۔ خداوند جبار نے حضرت موسٰی ـ سے فرمایا: ''اے موسی! دنیا میں دراز آرزوئیں نہ رکھو کہ سخت دل ہوجاؤ گے اور سخت دل انسان مجھ سے دور ہے''۔(٣)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٢، ص٢٢ ، ٢٢٩۔٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ص٣٢، ٣٥۔ ٣۔ شیخ کلینی، کافی، ج٢، ص ٣٢٩، ح١۔

۱۱۰

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' جو شخص یقین رکھتا ہے کہ ایک دن اپنے دوستوں سے جدا ہوجائے گا اورخاک کے سینہ میںچھپ جائے گا اور اپنے سامنے حساب وکتاب رکھتا ہے اور جو کچھ اس نے چھوڑا ہے اس کے کام نہیں آئے گا اور جو کچھ اس نے پہلے بھیجا ہے اس کا محتاج ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ آرزؤوں کے رشتہ کو کوتاہ اور عمل کے دامن کودراز کرے''(١) حضرت امام محمد باقر ـ نے بھی فرمایا ہے: ''آرزو کو کم کر کے دنیا سے رہائی کی شیرینی حاصل کرو''۔(٢)

ج۔ موت کی یاد:

اسلام کے تربیتی اخلاق میں بہت کارآمد وسیلہ ہے وادی معرفت کے سالک اور محبت پروردگار کے کوچہ کے دلدادہ افراد نے موت کی یاد سے متعلق قیمتی تجربے ذکر کئے ہیں، نیز آیات وروایات میں بھی ذکر موت، تربیت اخلاقی میں ایک مفید حکمت عملی اور تدبیرکے عنوان سے مورد تاکید واقع ہواہے ۔جیسا کہ کہا گیا ہے: طولانی عمر سے استفادہ کرنے کا یقین دراز مدت آرزؤوںکے ارکان میں سے ہے جو کہ دنیا سے محبت اور ذخیرہ آخرت سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ اخلاق اسلامی اپنے بہت سے ارشادات سے ''یادمرگ '' کی نسبت اور اصل موت اور اس کے نا گہانی ہونے کے بارے میں دائمی نصیحت سے، ہمارے نفسانی رجحان کو کل کی نسبت ہمیں آمادہ کرتے ہے۔ ہماری کل کی زندگی کی امیدوں کی تصحیح کرکے ہمارے موقف اور ہماری رفتار کو آج کی نسبت بھی اصلاح کرتا ہے۔

حضرت امام محمد باقر ـ نقل فرماتے ہیں کہ لوگوںنے پیغمبر اکرم سے سوال کیا: سب سے زیادہ چالاک مومنوں میں کون ہے ؟ رسول خدا نے جواب دیا: وہ انسان جوسب سے زیادہ موت کو یاد کرے اور سب سے زیادہ خودکو موت کے لئے آمادہ کرے۔(٣)

حضرت علی ـ نے فرمایا: جب تمہارے نفوس تمہیں خواہشات اور شہوات کی جانب کھینچیں، تو موت کو کثرت سے یاد کروکیونکہ موت سب سے بہتر واعظ ہے رسول خدا اپنے اصحاب کو موت کی یاد کی بہت زیادہ تاکید فرماتے تھے اور فرماتے تھے: موت کا کثرت سے ذکر کرو، کیونکہ وہ لذتوں کو درہم برہم کرنے والی اور تمہارے اور تمہارے خواہشات کے درمیان حائل چیز ہے۔(٤)

____________________

١۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج٧٣، ص ١٦٧، ح ٣١۔

٢۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٨٥۔

٣۔ شیخ کلینی، کافی، ج٣، ص ٢٥٨ز۔

٤۔ شیخ طوسی، امالی، ص ٢٨، ح ٣١۔

۱۱۱

د۔ بلند ہمتی:

آرزؤوں کے کوتاہ کرنے اور موت کے انتظار کی ضرورت کا ذکر ہونے کے بعد ممکن ہے کہ یہ تصور پیش آئے کہ بلند آرزؤوں کا فاقد انسان، مستقبل کے لئے سعی و کوشش کا کوئی سبب اور تدبیر، دور اندیشی اور محرّک نہ رکھے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک طرف اگر چہ اسلام آرزؤوں کے کوتاہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تو دوسری طرف انسان کی امید اور بلند ہمتی کو گراں قیمت الٰہی آرزؤوں اور امیدوں کی سمت موڑ دیتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ بلند ہمت افراد کی مذمت کرتا نہیں ہے بلکہ اس کی ایک اخلاقی فضیلت بتاتا ہے اور بلند ہمتی کو خدا کی دوستی اور محبت کی طلب میں جانتا ہے، جیسا کہ حضرت امام زین العابدین ـ خدا سے مناجات کرتے وقت فرماتے ہیں: '' خدایا! مجھے روحانی جسم، آسمانی دل اور ایسی ہمت جو مسلسل تجھ سے وابستہ ہو اور اپنی محبت میں صادق یقین عطا فرما۔ ''(١) دوسری مناجات میںبیان کرتے ہیں: اے وہ ذات! جس نے عارفین کو طولِ (یا عطرِ) مناجات سے مانوس کیا اور خائفین کو ولایت و دوستی کا لباس پہنایا، کب خوش ہوگا وہ انسان جس کی ہمت تیرے علاوہ دوسرے کی طرف متوجہ ہو اور کب وہ انسان آرام محسوس کرے گا جو تیرے علاوہ دوسرے کا عزم و ارادہ رکھتا ہے۔ معلوم ہوا سعادت وکمال حاصل کرنے کی راستہ میں سعی وکوشش اور بلند ہمت کی اسلام میں نہایت تاکید کی گئی ہے کہ جس کا راستہ اسی دنیا سے گذرتا ہے اور بہت سے دنیاوی عطیوں سے استفادہ کرنا اور بہرہ مند ہونا اس تک پہونچنے کی شرط ہے۔پیغمبر اسلام ان دونوں کے درمیان (جو بظاہر متعارض ہیں) جمع کرنے کے عنوان سے فرماتے ہیں: ''اپنی دنیا کے لئے اسی طرح کام کروکہ گویا ہمیشہ زندہ رہو گے اور اپنی آخرت کے لئے اسی طرح کام کروکہ گو یا کل مر جاؤگے۔ ''(٢)

٢۔موانع

سب سے اہم موانع جو کل کی نسبت نفس کے مطلوب رجحان کے مقابل ہیں،درج ذیل ہیں:

الف۔ طولانی آرزوئیں:

دراز آرزؤویں عام طور پر آئندہ سے متعلق انسان کو غیر واقعی تصویر دکھاتی ہیں، انسان کی دنیا سے محبت اور اس کی خوشیوں میںاضافہ کرتی ہیں اور دنیاوی محبت بھی دسیوں اور سیکڑوں اخلاقی رذیلتوں کا باعث ہے جیسا کہ رسول خدا نے فرمایا: ''حب الدنیا رأس کل خطیئہ''(٣) ''دنیا سے دلبستگی تمام گناہوں کی اصل و اساس ہے۔ '' اسی بنیاد پر دراز آرزؤوں کی شدت کے ساتھ ملامت کی گئی ہے۔

____________________

١۔ صحیفہ سجادیہ، دعا ١٩٩۔٢۔ ورام بن ابی فراس، تنبیہ الخواطر، ج٢، ص٢٣٤ ؛شیخ صدوق، فقیہ، ج ٣، ص ١٥٦، ح ٣٥٦٩؛ خزار قمی، کفاےة الاثر، ص ٢٢٨؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج ٤٤، ص ١٣٩، ح٦۔ ٣۔ شیخ صدوق، خصال، ج١، ص ٢٥، ح ٨٧ ؛ حرانی، تحف العقول، ص٥٠٨۔

۱۱۲

قرآن کریم ایک گروہ کی مذمت میںفرماتا ہے: ''انہیں چھوڑ دو تاکہ کھائیں اور مزے اڑائیں اور امیدیں انھیںغفلت میں ڈالے رہیں، عنقریب وہ جان لیں گے''۔(١)

اسی طرح طولانی خواہشات انسان کو '' تسویف '' میںمبتلا کرتی ہیں یعنی انسان ہمیشہ پسندیدہ امور کو کل پر ٹالتا رہتا ہے۔ حضرت علی ـ اپنے اصحاب کونصیحت کرتے ہوئے اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''دنیا کو چھوڑ دو کہ دنیا کی محبت اندھا، بہرہ، گونگا اور بے حال بنادیتی ہے۔ لہذا جو کچھ تمہاری عمر کا حصہ باقی بچا ہے اس میں گذشتہ کی تلافی کرو اور کل اور پرسوں نہ کہو (ٹال مٹول نہ کرو) اس لئے کہ تم سے پہلے والے جو ہلاک ہوئے ہیں لمبی آرزؤوں اور آج اور کل کرنے کی وجہ سے، یہاںتک کہ اچانک ان تک فرمان خداوندی آپہنچا (انھیںموت آگئی) اور وہ لوگ غافل تھے''۔(٢)

ب۔ پست ہمتی:

پست ہمتی انسان کو بلند مقامات اور عالی اہداف و مقاصد تک پہونچنے سے روک دیتی ہے،

آئندہ کے بارے میں غور وفکر اورعاقبت اندیشی کی نوبت نہیں آنے دیتی اور صرف آج کی فکر اور وقتی فائدہ حاصل کرنے کی عادی بنادیتی ہے۔ آئندہ کی سعادت اور اس کے خوشگوا ر ہونے کی فکر کرنا اور ابھی سے کل کی مشکلات کا استقبال کرنا بلند ہمت اور عظیم روح کے مالک افراد کا ہنر ہے، اپنے مستقبل کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں روشن اور درخشاں دیکھنا اور ابھی سے مستقبل کے لئے چارہ اندیشی کرنا بلند ہمت افرادکی شان ہے۔ اس وجہ سے مستقبل کی نسبت اور آج سے کل کی اصلاح کے متعلق نفس کے پسندیدہ رجحان کے لئے ایک مانع کے عنوان سے پست ہمتی کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے۔ منجملہ ان کے حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''تین چیزیں انسان کو مقامات عالیہ اور بلند اہداف تک پہونچنے سے روک دیتی ہیں: پست ہمتی، عدم تدبیر، غور وفکر میں تساہلی۔(٣)

____________________

١۔ سورئہ حجر، آیت ٣۔

٢۔ شیخ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٣٦، ح٢٣۔

٣۔ حرانی، تحف العقول، ص٣١٨۔

۱۱۳

ہ۔ دنیوی نعمتوں کی طرف نفس کارجحان

انسان کے بہت سے اعمال ورفتاردنیا کی نسبت ان کے نفسانی رجحان سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ رجحان بہت سے نفسانی صفات اور ملکات کی پیدائش کا سر چشمہ ہے ایسا لگتاہے کہ اخلاق اسلامی میں مواہب دنیوی کی نسبت نفسانی مطلوب کا رجحان زہد کے محور پرگھومتا ہے اور وہ تمام عام مفاہیم جو اس باب میں ذکر ہوئے ہیں جیسے قناعت، عفت، حرص، طمع و حسرت وغیرہ ان سب کو زہد کی بنیاد پر بیان کیا جاسکتا ہے۔

زہد

ایک۔ زہد کا مفہوم

ارباب لغت کی نظر میں کسی چیز کی نسبت زہد اختیار کرنے کے معنی اس چیز سے اعراض اور اس سے بہت کم خوش ہونا ہے۔(١) علماء اخلاق کے فرہنگ میں '' زہد '' نام ہے دنیا سے قلبی اور عملی اعتبار سے کنارہ کشی اور اعراض کرنے کا مگر اتنی ہی مقدار میں جتنی انسان کو اس کی ضرورت ہے۔

بعبارت دیگر زہد یعنی آخرت کے لئے دنیا سے رو گردانی اور خدا کے علاوہ ہر چیز سے قطع رابطہ کرنا ہے۔ اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاً، زہد اس شخص پر صادق آتا ہے جس کے یہاںدنیا کے تحصیل کرنے اور اس سے بہرہ مندہونے کا امکان پایا جاتا ہو۔ دوسرے، دنیا سے روگرداں ہونا آخرت کی بہ نسبت دنیا کی پستی اور حقیر ہونے کے اعتبار سے۔ جب بھی دنیا کا ترک کرنا امکان تحصیل نہ ہونے کی وجہ سے ہو ( یعنی دنیا کی تحصیل کرنااس کے لئے ممکن ہی نہ ہو) یا خدا کی رضایت اور تحصیل آخرت کے علاوہ کوئی اورہدف و مقصد ہو جیسے لوگوں کی خوشنودی اور دوستی جذب کرنے کے لئے ہو یا اس کی تحصیل میں سختی اور مشقت سے فرار کرنے کی وجہ سے ہو تو اسے '' زہد '' نہیں کہا جائے گا۔(٢)

____________________

١۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ٣٨٤ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ٣، ص ١٩٦ اور ص ١٩٧۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادت، ج ٢ ص ٥٥ اور ص ٥٦۔

۱۱۴

دو۔ زہدکی اہمیت

آیات و روایات میں زہد اختیار کرنے کی نسبت جو تعبیریں وارد ہوئی ہیں نیز وہ علائم جو اس نفسانی صفات کے لئے بیان کئے گئے ہیں سب کے سب اسلام کے اخلاقی نظام میں دنیا کی نسبت اس کے بلند و بالا مرتبہ کو بیان کرنے والے ہیں ۔

جیسا کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا: ''دنیا میں زہد اختیار کرنا جسم و دل کے سکون کا باعث ہے ''۔(١) حضرت امام جعفر صادق ـ نے بھی فرمایا ہے: ''دنیا سے بے رغبتی اور بے توجہی آخرت کی جانب متوجہ ہونے کے لئے دل کی فراغت وسکون کا باعث ہے''۔(٢) خلاصہ یہ کہ پیغمبر اکرم اعلان فر ماتے ہیں: ''دنیا سے بے توجہ ہوئے بغیر تمہارے دلوں پر ایمان کی چاشنی حرام ہے''۔(٣)

تین۔ زہد کے مراتب اوردرجات

علماء اخلاق نے مختلف اعتباروں سے زہد کے انواع اور درجات ذکر کئے ہیں، اختصار کے ساتھ ہم انھیںذکر کررہے ہیں۔

١۔ زہد کے شدت و ضعف کے اعتبا ر سے مراتب:

زہد کو دنیا سے کنارہ کشی کی شدت و ضعف کے اعتبار سے تین درجوں تقسیم کرتے ہیں:

الف۔ انسان دنیا سے رو گرداں ہے اس حال میں کہ اس کی طرف مائل ہے اور حقیقت میں زحمت، مشقت اور تکلّف کے ساتھ خود کو دنیا سے دور کرتا ہے۔

ب۔ انسان خواہش، رغبت اور آسانی کے ساتھ دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے، بغیر اس کے کہ اس کی طرف کوئی میلان ہو کیونکہ اس کی نظر میں دنیا اخروی لذتوں کے مقابل حقیر و پست ہے، در حقیقت اس نے ایک ایسے معاملہ کا اقدام کیا ہے جس میں معمولی اور کم اہمیت چیز کو اس سے قیمتی جنس کی امید میں چھوڑ دیا ہے لیکن اس معاملہ سے وہ راضی وخوشنود ہے۔

____________________

١۔ شیخ صدوق ِ خصال، ص٧٣ ح ١١٤۔

٢۔ کافی، کلینی، ج ٢، ص ١٦، ح ٥۔

٣۔ کافی، ص ١٢٨، ح ٢۔

۱۱۵

ج۔ زہد کا سب سے بلند درجہ یہ ہے کہ اپنی خواہش اور شوق سے دنیا کو ترک کرے اور کبھی کسی چیز کے ہاتھ سے نکل جانے کا احساس نہ کرے۔یعنی احساس نہ کرے کہ کوئی معاملہ ہوا ہے، اسی طرح جیسے کوئی ایک مشت خاک کو چھوڑ دے تاکہ یاقوت حاصل کرے، وہ کبھی احساس نہیں کرتا کہ کوئی چیز اس نے قیمتی چیز کے مقابل گنوائی ہے اور کوئی معاملہ کیا ہے۔

٢۔ زہد کے مراتب اعراض کی جانے والی چیزوں کے اعتبار سے:

اس اعتبار سے زہد کے چند درجے درج ذیل بیان کئے گئے ہیں:

الف۔ محرَّمات سے اعراض کرنا ؛ یعنی محرَّمات سے دوری اختیار کرنا کہ جسے '' واجب زہد '' کہتے ہیں۔

ب۔ شبہوںسے اعراض کرنا اور ان کی نسبت زہد اختیار کرنا جو کہ انسان کو ارتکاب گناہ اور محرمات سے سالم رکھنے کا باعث ہیں۔

ج۔ حلال چیزوں سے ضرورت سے زیادہ مقدار کی نسبت زہد اختیار کرنا، یعنی غذا، پوشاک، رہائش، زندگی کے ساز وسامان وغیرہ میں اور ان کو حاصل کرنا کے اسباب و ذرائع جیسے مال وجاہ میں ضرورت بھر پر اکتفا کرنا۔

د۔ زہد اختیار کرنا ان تمام چیزوں کی نسبت کہ جو نفس کی لذت کا باعث ہوتے ہیں، حتیٰ کہ دنیا سے ضرورت بھرچیزوں میں بھی اس معنی میں کہ ضروری مقدار سے فائدہ اٹھانا اور فیضیاب ہونا بھی اس کی لذت کے لئے نہ ہو، نہ یہ کہ دنیا کی ضرورت بھر چیزوں کو بھی ترک کردے کہ اصولی طور پر ایسی چیز کا امکان ہی نہیں ہے۔ زہد کا یہ درجہ اور اس سے ماقبل تیسری قسم حلال میں زہد اختیار کرنا ہے۔

رسول خدا نے فرمایا: ''وہ لوگ مبارک وخوشحال ہیں جو خدا کے سامنے فروتنی کرتے ہیں اور جو کچھ ان کے لئے حلال کیا گیا ہے اس میں زہد اختیارکرتے ہیں بغیراس کے کہ وہ میری سیرت سے رو گرداں ہوں''۔(١)

ہ۔ جو کچھ خدا کے علاوہ ہے اس سے روگرداں ہونا، حتیٰ خود سے بھی، لیکن بعض اشیاء کی طرف بقدر ضرورت توجہ جیسے خوراک، پوشاک اور لوگوں سے معاشرت زہد کے اس درجہ سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ خداوند رحمان کی جانب توجہ انسان کے زندہ اور باقی رہے بغیر ممکن نہیں ہے اور انسان کی زندگی کے لئے ضروریات حیات ضروری ہیں۔

____________________

١۔ کافی، ج٨، ص١٦٩، ح ١٩٠ ۔ حرانی، تحف العقول، ص٣٠۔ اسی طر ح ملاحظہ ہو صدوق، فقیہ، ج٤، ص ٤٠٠، ح ٥٨٦١، اور تفسیر عیاشی، ج٢، ص٢١١، ح٤٢۔

۱۱۶

جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق ـ سے منقول ہے: ''زہد جہنم سے برائت اور جنت کے دروازہ کی کنجی ہے اوروہ ہر اس چیز کا ترک کرنا ہے جو انسان کو خداسے غافل کردے، دنیا کے گنوادینے پر افسوس نہ کرنا اور اس کے ترک کردینے پر خود پسندی میں مبتلانہ ہونا ہے''۔(١) حضرت علی ـ زہد کی تعریف کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ''سارا زہد قرآن کے دو کلموں میں جمع ہے، خدا وند سبحان نے فرمایا ہے: ''تاکہ جو کچھ تمہارے ہاتھوںسے چلا ہو گیا ہے اس پر افسوس نہ کرواور جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے اس پر شادمان اور مسرورنہ ہو''(٢) اور جو شخص گذشتہ پرافسوس نہ کرے اور آئندہ پر مسرور نہ ہو تو اس نے دو طرف سے زہد اختیا ر کیا ہے''۔(٣)

٣۔زہد کے مراتب اس چیز کے اعتبار سے کہ انسان جس کی طلب میں دنیا سے روگرداں ہو تا ہے:

اس وجہ سے زہد کے درج ذیل تین درجے ہیں:

١۔ خدا ترس لوگوں کا زہد: انسا ن آتش جہنم سے نجات اور اخروی عذاب سے بچنے کے لئے دنیا سے روگرداں ہوتا ہے۔

٢۔ امید واروں کا زہد: یعنی دنیا سے اس امید میں رو گرداں ہونا کہ خدا کا ثواب اور جنتی تعمتیں حاصل ہوں۔

٣۔ عرفاء کا زہد: نہ ہی درد والم کی طرف توجہ رکھتا ہے تاکہ اس سے نجات طلب کرے اور نہ ہی لذتوں کی اعتناء کرتا ہے تاکہ ان سے فیضیابی کا طالب ہو۔ بلکہ صرف اور صرف خدا سے ملاقات اور اس کے دیدار کااشتیاق رکھتاہے۔ ایسا زہد صرف اہل معرفت کی شان ہے ۔(٤)

جو کچھ زہد کی تعریف اور اس کے درجات کے سلسلہ میں کہا گیا ہے اس کے اعتبار سے معلوم ہوتاہے کہ دنیا سے مرادصرف مال و ثروت، خوراک وپوشاک نہیں ہے، کیونکہ ان تمام امور سے اعراض ایسے افراد کے لئے جو شہرت کے طالب اورپارسائی کی تعریف کو دوست رکھتے ہیں۔ بہت آسان ہوجائے گا بلکہ دنیا تمام مرتبہ وریاست نیز وہ تمام نفسانی استفادے جو دنیا سے ممکن ہیں سب کو شامل ہے۔ حقیقی زہد یعنی مال و مرتبہ سے بے تعلق ہونا اوراس سے روگرداں ہونا ہے۔ سچا زہد وہ ہے جس کی نظر میں فقر و غنا، تعریف و برائی، عزت وذلت جو لوگوں کے نزدیک پائی جاتی ہیں، سب یکساں ہوں، اور و ہ صرف محبت خداوندی اور رضائے الہی کا طالب ہو ۔

____________________

١۔ گیلانی، عبدالرزاق، مصباح الشریعة، ص ١٣٧۔

٢۔ بقرہ ٢٣٧۔٣۔ نہج البلاغہ حکمت ٤٣٩ اسی طرح ملاحظہ ہو: کافی، ج٢، ص ١٢٨، ح٤۔ شیخ صدوق، امالی، ص ٧١٤، ح ٩٨٤ ۔ خصال، ص٤٣٧، ح ٢٦۔

٤۔ نراقی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٦٥ تا ص ٧٤ ۔فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضا ئ، ج٧، ص ٣٥٧ تاص٣٦٤۔

۱۱۷

چار۔ زہد کے علائم

زہد کے بعض اہم علائم کہ جو اپنی جگہ پر خود بھی ایک عام اخلاقی مفہوم ہیں، درج ذیل ہیں۔

١۔ قناعت:

عربی ادب میں بخشش کی معمولی مقدار پر راضی ہونے(١) اور اپنے سہم پر رضایت دینے کے معنی میںہے(٢) اخلاق اسلامی کے مشہور مآخذ میں '' قناعت '' '' حرص '' کے مقابل استعمال ہوئی ہے اور اس سے مراد وہ نفسانی ملکہ ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی ضرورت بھر اموال پر راضی اور خوش رہتا ہے اور خود کو اس سے زیادہ کی تحصیل کے لئے زحمت و مشقت میں مبتلا نہیں کرتا۔(٣) قناعت کے خود بہت سے مفید علائم ہیں اور دوسری طرف بہت سے اخلاقی رذائل بلکہ حقوقی جرائم سے بچنے کا ذریعہ ہے، اسی وجہ سے اسلام کے اخلاقی نظام میں اس کی تشویق وترغیب کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوا: ''اور خبر دار ہم نے ان میں سے بعض لوگوں کو جو زندگانی دنیا کی رونق سے مالا مال کردیا ہے اُس کی طرف آپ نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں کہ یہ اُن کی آزمائش کا ذریعہ ہے اور آپ کے پروردگار کا رزق ہی بہتر اور پائدا رہے''۔(٤) حضرت علی ـ قناعت کی اہمیت کے بارے میںفرماتے ہیں: '' میں نے تونگری تلاش کی لیکن اسے قناعت کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا۔ لہٰذا قانع رہو تاکہ مالدار و تونگر ہو جائو ''(٥)

قناعت نہ یہ کہ صرف خود اخلاقی فضیلت ہے، بلکہ بہت سے اخلاقی اقدار کی حامل ہے۔ امام علی رضا ـ سے جب کسی نے قناعت کی حقیقت کے بارے میںسوال کیا تو آپ نے جواب میں اس کے علائم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ''قناعت اپنی ضبط نفس، عزّت وبلندی، حرص وطمع کی زحمت سے آسودہ ہونے اور دنیا پرستوں کے مقابل بندگی کا باعث ہے۔ دوانسان کے علاوہ کوئی قناعت کا راستہ طے نہیں کرسکتا ہے: ایسا عبادت گذار جو آخرت کی اجرت کا خواہاں ہے، یا ایسا بزرگ و شریف انسان جو پست لوگوں سے دوری اختیار کرتا ہے۔(٦)

____________________

١۔ ابن اثیر، نہاےة، ج٤، ص ١١٤۔ ٢۔ ابن منظور، لسان العرب، ج ٨، ص ٢٩٨۔

٣۔ نراقی، مولی محمد مہدی، جامع السعادات، ج٢، ص ١٠١۔ ٤۔ سورۂ طحہٰ: آیت ١٣١۔

٥۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج ٦٩، ص ٣٩٩، ح ٩١۔ ٦۔ بحار الانوار، ج٧٨، ص ٣٤٩، ح٦۔

۱۱۸

درحقیقت انسان دنیا میں قناعت اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رکھتا ورنہ وہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی حرص و ہوس اور حسرت و یاس کی آگ میں جلتا رہے گا۔ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق ـ سے شکوہ کیا کہ روزی حاصل کرتا ہے لیکن قانع نہیں ہوتا اور اس سے زیادہ کا خواہش مند رہتا ہے اور اس نے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیے جس سے میری مشکل حل ہوجائے توحضرت نے فرمایا:'' اگراس قدر جو تیرے لئے کافی ہو اور تجھے بے نیاز کردے تو دنیا کی تھوڑی سی چیز بھی تجھے بے نیاز کر دے گی اور اگر جو کچھ تیرے لئے کافی ہے وہ تجھے بے نیاز نہ کر سکے تو پھر پوری دنیا بھی تجھے بے نیاز نہیں کر سکے گی''۔(١)

لیکن کس طرح قناعت کو اختیار کیا جا سکتا ہے ؟ عام طریقوں کے علاوہ بعض خاص طریقے بھی ذکر کئے گئے ہیں، منجملہ ان کے حضرت امام جعفر صادق ـ اس سلسلہ میںراہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''اپنے سے کمزور تر انسان کو دیکھو اور اپنے سے مالدارتر کو نہ دیکھو، کیونکہ یہ کام تمہیں اس چیز پر جو تمہارے لئے مقدر کیا گیا ہے، قانع کردے گا''۔(٢)

٢۔لوگوں کے اموال سے بے نیازی اور عفت:

عربی ادب میں '' عفّت '' نا پسند امور اور شہوتوں کے مقابل صبر وضبط کرنے کو کہتے ہیں ۔(٣)

جنسی عفّت اور کلام میں عفّت کے علاوہ عربی ادب اور دینی کتابوں میں دوسروں سے اظہار درخواست کرنے سے پرہیز کرنے کو بھی عفّت کہتے ہیں۔(٤) دنیا میں زہد کے علائم میں سے ایک علامت لوگوں کے اموال سے بے نیازی اور عفّت اختیار کرنا ہے، قرآن کریم ایسے صاحبان عفّت کے بارے میں فرماتا ہے: یہ صدقہ ''ان فقرائ'' کے لئے ہے جوراہ خدا میںگرفتار ہوگئے ہیں اور وہ( اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لئے ) زمین میں سفر نہیں کر سکتے، ان کی حیا وعفّت کی بنا پر ناواقف شخص انھیں تونگراور مالدار خیال کرتا ہے، حالانکہ انھیںتم ان کی علامتوں سے پہچان لوگے، اصرار کے ساتھ وہ لوگوں سے کوئی چیز نہیں مانگتے''۔(٥)

____________________

١۔ شیخ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٣٩، ح ١٠۔

٢۔ کافی، ج٨، ص ٢٤٤، ح ٣٨٨۔

٣۔ ابن فارس، مقاییس اللغة، ج ٤، ص ٣۔

٤۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٩، ص ٢٥٣، ملاحظہ ہو۔

٥۔ سورئہ بقرہ، آیت ٢٧٣۔

۱۱۹

حضرت امام جعفر صادق ـ لوگوں سے بے نیازی اختیار کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں: ''مومن کا شرف تہجّد سے اور اس کی عزّت لوگوں سے اس کے بے نیاز رہنے میں ہے''۔(١) اور حضرت علی ـاس بات کے بیان میں کہ لوگوں سے بے نیازی کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ان سے معاشرت اور راہ و رسم نہ رکھی جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے مغائرت نہیں رکھتی فرمایا ہے:'' تمہارے دل میںلوگوں سے بے نیازی اور ان کی ضرورت و نیاز دونوں ہی ہونی چاہیے ان کے ساتھ تمہاری نیاز اور ضرورت تمہاری نرم کلامی اور خوشروئی میں ہے اور تمہاری بے نیازی آبرو کی حفاظت اور عزت کے باقی رہنے میں ہے''۔(٢) بے شک مالی امور میں یہ بے نیازی اور عفّت زہد اور دنیا سے قطع تعلق ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔

پانچ۔ زہد اختیار کرنے کے موانع

انسان کی پارسائی اور زہد اختیارکرنے کے مقابل دو بنیادی رکاوٹیں پائی جاتی ہیں:ایک اس کا دنیا سے محبت کرنا اور دوسرے اس سے بے فیض ہونا اور قطع رابطہ کرنا، تمام مفاہیم جیسے حرص، طمع درحقیقت دنیاوی محبت کے علائم میںشمار ہوتے ہیں اور دنیا طلبی کے نتائج کے عنوان سے مورد بحث واقع ہو تے ہیں۔

١۔دنیاکی محبت:

زہد کا مفہوم اور اس کی اہمیت کی توضیح کے موقع پر ایک حد تک دنیا کا مفہوم بھی آشکار ہوگیا اور اس کی مذمت میں آیات و روایات بیان کی گئیں، اب دنیا طلبی کہ جو زہد اختیار کرنے سے مانع ہے اس کے علائم اختصار کے ساتھ بیان کئے جائیں گے۔

بے شک اسلام کے اخلاقی نظام میں دنیا ہمیشہ مذمو م نہیں ہے بلکہ اہمیت اور تعریف کے قابل بھی ہے۔ دنیا ان تمام چیزوں کو شامل ہے جو انسان کے بہرہ مند ہونے کا باعث ہیں، اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور مقاصد کی تکمیل کا باعث ہیں۔ یہ لذتیںاور استفادے ہمیشہ برے نہیں ہیں، بلکہ اچھے نتائج کے بھی حامل ہیں۔

''مذموم دنیا'' سے مراد وہ زود گذر استفادے ہیں جو نہ خود اخروی عمل صالح ہیں اور نہ اخروی عمل صالح کے لئے وسیلہ ہیں۔ نتیجہ کے طور پر مذموم دنیا حرام طریقہ سے لذ ت جوئی اور عیش و عشرت اور جو حلال چیزوں سے ضرورت و لازم مقدار سے زیاد ہ مالا مال ہونے کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے۔(٣)

____________________

١۔ شیخ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١٤٨، ح١۔٢۔ کافی، ج٢، ص١٤٩، ح٧۔

٣۔ محمد مہدی ، نراقی جامع السعادات، ج٢، ص ١٧، ٣٥۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

خداوند سبحان کی یاد انسان کو غفلت اور نسیان سے نکال دیتی ہے اور اخلاقی تربیت کی راہ ہموار کرتی ہے، کیونکہ اخلاقی انحراف اور برے افعال کے اسباب وعلل غفلت اور نسیان ہیں:

'' اس انسان کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور اس نے اپنی ہوا وہوس کی پیروی کی ہے اوراس کے کام کی بنیاد زیادہ روی پر ہے''۔(١)

''در حقیقت جو لوگ صاحبان تقویٰ ہیں، جب شیطان کی جانب سے انھیں وسوسہ ہوتا ہے تو ]خداکو[ یاد کرتے ہیں اور حقائق کو دیکھنے لگتے ہیں''۔(٢)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''خداوند سبحان نے اپنی یاد کو دلوں کے لئے روشنی قرار دیا ہے، قلوب اس وسیلہ سے بہر ے پن کے بعد سننے والے، نابینائی کے بعد بینا اور سرکشی و طغیانی کے بعد مطیع وفرمانبردار ہوجاتے ہیں''۔(٣)

آیات ورایات میں ذکر کثرت ومداومت کی تاکید کی گئی ہے: ''اے صاحبان ایمان! خدا کو بہت زیادہ کرو''۔(٤)

ذکر الٰہی کی مداومت قلب کی اصلاح اور اخلاقی فضائل سے کہ جو بالیدگی وحیات نو کا سبب ہے:''جو انسان اپنے دل کو ذکر کی مداومت سے آباد کرے تو اس کا کردار ظاہر وباطن دونوں صورتوں میں نیک ہوجائے گا''۔(٥)

''قلب کی اصلاح کی بنیاد، انسان کا ذکر خداوندی میں مشغول ہونا ہے''۔(٦)

ذکر کی روش میںذکر خداوندی کے علاوہ خدا کی نعمتوں کا یاد کرنا بھی منعم ]نعمت دینے والے[ کے احترام کے عنوان سے انسان کو خداوندعالم کی بے نظیر اور لاثانی ذات کے سامنے سراپا تسلیم ہونے اور اس کی تعظیم کرنے پر آمادہ کرتا ہے، بالخصوص جس قدر نعمت عظیم اور اس کا منعم بے غرض ہوگا، اس کا احترام فطرت کی نظر میں اتنا ہی زیادہ لازم ہوگا:''اے لوگو! اپنے اوپر خداوند سبحان کی نعمت کو یاد کرو، آیاخدا کے علاوہ کوئی خالق ہے کہ تمہیں زمین وآسمان سے رزق دے ''۔(٧)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔ ٢۔ سورہ ٔاعراف آیت٢٠١۔٣۔ نہج البلاغہ خطبہ ٢٢٢۔ ٤۔ سورۂ احزاب آیت٤١۔المیزان ج١ ص٣٤٠۔

٥۔ غرر الحکم۔ ٦۔ غرر الحکم۔ ٧۔ سورہ ٔفاطر آیت ٣۔

۲۶۱

چونکہ قرآن کریم خود کو ذکر اور حامل ذکر کے عنوان سے تعارف کراتا ہیلہٰذا تلاوت قرآن بھی ذکر کی حالت انسان کے اندر پیدا کیااور ایمان کی پرورش کا باعث ہوتی ہے:

(اِنْ هُوَ الّا ذِکْر لِلْعَالَمِیْن )(١)

''یہ عالمین کے لئے صرف ذکر (نصیحت) کا سامان ہے''۔

(ص، والقرآن ذی الذکر )(٢)

''ص ذکر (نصیحت) والے قرآن کی قسم''۔

(وَاِذَا تَلِیَتْ عَلَیْهِم آیَاتِهِ زَادَتْهُمْ اِیْمَاناً )(٣)

''اور جب ان کے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے''۔

ذکر کی بحث میں آخری نکتہ ''موت کی یاد'' سے متعلق ہے، اس بات کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہ آخرت پر ایمان رکھنا اخلاقی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے، موت کا تذکرہ اور اس کا ]ذہن میں[حضور ایمان کی پرورش اور اخلاقی آثار کے مجسم ہونے کا باعث ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ موت کی یاد، دنیا کی دوستی اور محبت کو ختم کرنے میںجوکہ بہت سے اخلاقی رذائل کا سرچشمہ ہے، اہم کردار اداکرتی ہے:

(کلّ نفس ذائقة الموت، وانّما توفون اجورکم یوم القیامة فمن زحزح عن النار وادخل الجنة فقد فاز وما الحیاة الدنیا الّا متاع الغرور )(٤)

''ہرنفس موت کامزہ چکھنے والا ہے اور تمھارا مکمل بدلہ تو صرف قیامت کے دن ملے گا اس وقت جسے جہنم سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہے اور زندگانی دنیا تو صرف دھوکہ کا سرمایہ ہے''۔

ائمہ اطہار علیہم السلام کے بیانات میں بھی موت کی یاد کا تربیتی اثر ملتا ہے:

''جو شخص ]مرنے کے بعد[ سفر کی دوری کو یاد کرے گا وہ آمادہ سفر ہوجائے گا''۔(٥)

''جو انسان موت کی آمد کا انتظار کرے گا وہ نیک کاموں میں جلدی کرے گا''۔(٦)

____________________

١۔ سورہ ٔتکویر آیت٢٧۔ ٢۔ سورہ ٔصآیت١۔٣۔ سورہ ٔانفالآیت ٢۔ ٤۔ سورہ ٔآل عمران آیت١٨٥۔

٥۔ غرر الحکم ٦۔ غرر الحکم۔

۲۶۲

موت کی یاد نفسانی خواہشات اور شہوات کو مار دیتی ہے ، غفلت کی جڑوں کو اکھاڑ دیتی ہے، دل کو خداوند سبحان کے وعدوں سے قوی اور مضبوط بنا دیتی ہے ، انسان کے وجود کو لطیف ونرم کرتی ہے اور ہوا وہوس کی نشانیوں کو درہم وبرہم کردیتی ہے اورحرص وطمع کی آگ کو خاموش کردیتی ہے اور دنیاکوانسان کی نظر میں بے وقعت اور ذلیل وخوار کردیتی ہے۔(١)

راہ آخرت کے سالکین نے اپنے شاگردوں کو ہمیشہ قبرستان میں جانے کی تاکید کی ہے کہ کم از کم ہفتہ میں ایک بار جائیں اور اہل قبور کی زیارت کریں اور موت کی یاد سے اپنے آپ کو تقویت کریں۔(٢)

ج۔دعا :

دعا در اصل عالم کے غیر مادی مرکز کی جانب روح کی کشتی کا نام ہے عام طور سے عام طور سے دعا سے مراد تضرع وزاری، اضطراب اور نالہ وشیون، استعانت اور مددطلبی ۔ اور کبھی ایک روشن کشف وشہود کی حالت جو تمام محسوسات کی دنیا سے دورمستمر اور باطنی آرام ہے۔ بعبارت دیگر کہا جاسکتا ہے کہ دعاخدا کی سمت پروازِ روح کا نام ہے یا عاشقانہ پر ستش کی حالت ہے اس مبدأ کی نسبت جس سے معجزہ حیات صادر ہوا ہے اور بالآخر دعاانسان کی کوشش ہے اس نامرئی اور ناقابل دید وجود سے ارتباط کے لئے جو تمام ہستی کا خالق ، عقل کل، قدرت مطلق اورخیر مطلق ہے۔ خاص اورادکے نقل سے صرف تطر کرتے ہوئے، حقیقت دعا سوزو گذار سے بھری ایک عرفانی حالت کو مجسم کرتی کہ دل اس میں خدا سے جذب ہوجاتا ہے ۔(٣)

راز ونیاز ،دعا و مناجات بھی پرورش ایمان کا ایک طریقہ ہے۔دعا احتیاج کا اظہار ہے بلکہ دعایہ ہے کہ انسان یکسر احتیاج بن جائے ۔دعا اشتیاق کا اظہار ہے ، بلکہ انسان کی تمام احتیاج یہی شوق و اشتیاق ہے۔دعا سنوار نے اور تربیت دینے کا ایک عامل ہے کہ نہ صرف انسان کو اس کی کمیوں سے متعلق ہوشیار کرتی ہے بلکہ اس کی تمام کوششوں اور توانائیوں کو اس کے مطلوب کے حصول کی خاطر صرف کردیتی ہے۔

____________________

١۔ المحجة البیضا ج٨ص ٢٤٢۔

٢۔ ہم بالخصوص ملا حسین قلی ہمدانی ، بہاری ہمدانی اور میرزا جواد انصاری ہمدانی کی وصیتوں میں ملاحظہ کرتے ہیں۔

٣۔ الکسین کارل: نیایش، ص ٥١۔

۲۶۳

جب کوئی بیمار درد وسوز سے پیچ وتاب کھاتا ہے اور ڈاکٹر سے مدد مانگتا ہے خود ہی ابتدائی کاموں کو انجام دیتا ہے تاکہ معالجہ کی راہ ہموار ہوجائے پس یہی بات ہے کہ دعا اور طلب اپنے حقیقی معنی کو پالیتی ہے اور نتیجہ کے طور پر اجابت اور قبولیت سے ہمکنار ہوتی ہے:

(وَاِذَا سَئَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَاِنِّی قَرِیْبُ، اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوا لِی وَلْیُؤمِنُوا بِیْ لَعَلَّهُم یَرْشُدُونَ )(١)

''اور اے پیغمبر! اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں، پکارنے

والے کی آواز سنتا ہوں جب بھی پکارتا ہے لہٰذا مجھ سے طلب کرو قبولیت کریں اور مجھ ہی ایمان واعتماد رکھیں کہ شاید اس طرح راہِ راست پر آجائیں''۔

ابھی دعا کے عینی آثار ]حاجتوں کی برآوری اور قبولیت واجابت [ مورد نظر نہیں ہیں، بلکہ ان کے علاوہ دعا ومناجات ہے، معبود سے باتیں کرنا اورراز ونیاز کا اظہار کرنا ہے، اس وجہ سے محبوب کے حضور کو دعا کرنے والے کے دل وجان میں تقویت کرتی ہے، کیونکہ دعا ومناجات حاضر مخاطب سے بات کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے، اسی وجہ سے کہ دعا عارفوں کے روح کی غذااور مومنین کے لئے خالص شراب ہے۔ خداوند سبحان نے اپنی توجہ وعنایت کو دعا وعبادت میں قراردیا ہے: ''کہو: اگر تمہاری دعا نہ ہو تو تمہارا رب تمہاری کوئی اعتنا نہیں کرتا''۔(٢)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''دعا ]مراد تک [پہنچنے کا خزانہ اور کامیابی کا چراغ ہے۔''(٣)

خداوند رحیم وکریم نے کشائش ، اور آسمانوں کے فتح باب اور معلومات ]فضائل ومکارم اخلاق[کے راستہ کو اپنی بارگاہ میں درخواست اور دعا کرنا قرار دیا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: زیادہ سے زیادہ دعا کرو کیونکہ وہ رحمت رحمت اور حاجت پوری ہونے کا ذریعہ ہے اور جو کچھ خدا کے پاس ہے وہ صرف دعا کے ذریعہ حاصل کرسکتے ہو...۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہآیت ١٨٦۔

٢۔ سورہ ٔفرقان آیت ٧٧۔

٣۔ بحار الانوار ج٩٣ص٣٤١۔

٤۔ بحار الانوار ج٩٣ص٢٩٥۔

۲۶۴

استجابت وقبولیت دعا کے شرائط میں حضور قلب اور رقت کی شرط کی گئی ہے، کیونکہ جو چیزسوز ونیاز کے ساتھ ہوتی ہے وہ حقیقت میں ارزش وقیمت رکھتی ہے اور ایک حقیقت کو اپنے اندر پروان چڑھاتی ہے:جان لو کہ خداوندسبحان دعا کو غافل اور بے خبر دل سے قبول نہیں کرتا۔(١)

''دعا کو رقت قلب کے وقت غنیمت سمجھو اس لئے کہ وہ نزولِ رحمت کی نشانی ہے''۔(٢)

ائمہ معصومین (ع) کی دعائوں اور مناجاتوں میں ایسے عارفانہ مضامین ہیں کہ ائمہ معصومین (ع) نے محبوب ازلی کے ساتھ اپنی خلوتوں میں ان کو انشأ فرمایا ہے اورراز ونیاز کیا ہے۔ ان دعا ئو ں کے بعض فقرات کو حفظ کرکے اور مناسب مواقع پر ان کی تکرار کرکے تربیتی مکتب میں طرز دعا کو ہم سیکھ سکتے ہیں۔ البتہ صرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ راز ونیاز، دعا ومناجات سوز دل کے ساتھ ہونی چاہئے اور دل کی گہرائی سے نکلنی چاہئے، اس لحاظ سے ہمیں سعی وکوشش کرنی چاہئے کہ اپنی زبان سے بھی دلوں کے محبوب سے راز ونیاز کریں اور اس سے شفیق و مہربان دوست اور اپنی خلوتوں کا مونس وغمخوار جانیں:''یَارَفِیقَ مَنْ لَا رَفِیقَ لَهُ، یَا اَنِیْسَ مَن لَا اَنِیْسَ لَهُ '' اے اس کا رفیق جوکوئی رفیق نہیں رکھتا، اے اس کا انیس جو کوئی انیس نہیں رکھتا۔

اس کے علاوہ بعض دعائیں ( بالخصوص صحیفۂ سجادیہ کی دعائیں) ہمیں باطنی دردوں اور بیرونی خطائوں سے آشنا کرتی ہیں کہ ہم ان دعائوں کے مضامین سے بھی استفادہ کرتے ہوئے اپنی اخلاقی تربیت کے بارے میں کوشش کریں۔

حضرت امام زین العابدین ـکی دعائے مکارم الاخلاق خاص اہمیت کی حامل ہے:

خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوںحرص وطمع کی طغیانی سے، غیض وغضب کی تندی سے ، حسد کے غلبہ سے، صبر کی کمی اور قناعت کی کمی سے، بداخلاقی سے، شہوت افراط سے، تعصب کے غلبہ سے، نفسانی خواہشات کی پیروی سے، درستگی اورہدایت کی مخالفت سے، خواب غفلت سے، (دنیا کے) کاموں پر سخت راضی ہونے سے، حق پر باطل کے انتخاب سے، گناہوں پر اصرار سے، گناہوں کو معمولی اورکم سمجھنے سے اورعبادت و اطاعت کو عظیم خیال کرنے سے ۔(٣)

____________________

١۔ بحار الانوار ج٧٧ص١٧٣۔

٢۔ بحار الانوار ج٩٣ص٣١٣۔

٣۔ صحیفہ سجادیہ دعائے مکارم اخلاق۔

۲۶۵

د۔اولیائے خدا سے محبت:

جو کسی شخص کوانسان کامل سمجھے اور اس کے اخلاق ومعنویات کا سخت دلدادہ ہو تو اس کے تحت تاثیر واقع ہوجاتا ہے ۔

استاد مطہری اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

محبت مشابہت ومشاکلت کی طرف کھینچتی ہے اور اس کی قدرت باعث ہوتی ہے کہ محب محبوب کی شکل اختیار

کرلے۔ محبت الکٹریک تار کی طرح ہے کہ جو محبوب کے وجود سے وصل ہوتا ہے اور اُس میں محبوب کے صفات کو منتقل کرتا ہے۔(١)

تہذیب اخلاق میں محبت کی تربیتی تاثیر کے بارے میںفرماتے ہیں:

اہل عرفان اورصاحبان سیر وسلوک راہ عقل واستدلال سے کام لینے کے بجائے محبت وعقیدت کی تاکید اور پیشکش کرتے ہیں]اور[ کہتے ہیں: کسی کامل کو تلاش کرو اور اس کی محبت وعقیدت کے رشتہ کو گردن دل میں آویزاں کرلو کہ راہ عقل واستدلال سے بھی زیادہ بے خطر ہے اور سریع تر ہے۔ محبت اور عقیدت کی قوت کی تاثیر دل سے اخلاقی رذائل کو زائل کرنے میں لوہے پر کیمیکل مواد ڈالنے کے مانند ہے، مثال کے طورپر ایک اچھے چھاپے کی ]پھولدار[ پلیٹ بنانے والا تیزاب کے ذریعہ حروف کے اطراف کو مٹادیتاہے، نہ کہ ناخن سے اور نہ ہی چاقو کی نوک سے۔ لیکن عقلی توانائی کا اثر اُس انسان کے کام کے مانند ہے جو لوہے کے ذرّوں کو ہاتھ کے ذریعہ خاک سے جدا کرنا چاہتا ہے، اس میں کس قدر زحمت ومشقت ہے؟ اگر ایک قوی ومضبوط آہن ربا ]مقناطیس[ ہاتھ میں ہو، ممکن ہے کہ ایک گردش میں اُن سب کو جدا کردے، عقیدت ومحبت کی طاقت آہن ربا کے مانند صفات رذیلہ کو جمع کرکے دورپھینک دیتی ہے۔ صاحبان عرفان کے عقیدہ کے مطابق پاک و پاکیزہ اور کامل واکمل افراد کی محبت وعقیدت ایک ایٹومیٹک مشین کے مانند ہے جو خود بخود رذائل کو جمع کرکے باہر پھینک دیتی ہے(٢)

____________________

١۔ جاذبہ ودافعہ علی ـ ، ص٧٣۔

٢۔ جاذبہ و دافعہ علی ـ ص٧٧۔٧٨۔

۲۶۶

ان لوگوں کے نمونے جو صدر اسلام میں اس جذب وانجذاب کے تحت تاثیر واقع ہوئے ہیں اور حضرت رسول اکرم کے شیفتہ اور دلدادہ ہوگئے ہیںابوذر غفاری، بلال حبشی ،اویس قرنی اورسلمان فارسی ہیں اس محبت نے ایک عظیم اکسیر کے مانند انھیں بے مثال گوہر کے مثل کرامت انسانیمیں تبدیل کردیا، اُس کے بعد بھی پوری تاریخ میں ایسے نمونے ]شدت وضعف[کے ساتھ کثرت سے پائے جاتے ہیں جلال الدین محمد رومی جو ''مولوی''کے نام سے معروف ہیں اس مسیر کے بارزترین نمونوں میں سے ایک نمونہ ہیں۔ جب وہ ایک کمسن بچہ تھے اور اپنے والد کے ہمراہ نیشاپور سے گذر رہے تھے تو نیشاپور کے بزرگ شیخ عطار نے بہاء الدولہ بچہ کو عام انسانوں سے زیادہ افضل بچہ پایا اور کسی تردید اور تأمل کے بغیر، بہاء الدولہ کو مبارک باد دی کہ عنقریب یہ بچہ سوختگان عالم میںآگ روشن کردے گا اوررہروان طریقت کے درمیان ایک اورشور وغوغا مچادے گا۔(١)

اس واقعہ کو گذرے ہوئے چند عشرے بھی نہ گذرے تھے کہ یہ پیشینگوئی مولانا کی شمس تبریزی سے ملاقات اور اُن سے عشق وعقیدت میں ظاہر ہوئی۔اسلام میں یہ محبت اور شیفتگی ''ولایت ''کے عنوان سے معصومین علیہم السلام کی نسبت مکمل طور پر ظاہر ہوتی ہے کیونکہ ان اولیائے الٰہی کی محبت کہ جو حق کے مکمل آئینہ دار اور اس کی تجلی کی کاملجلوہ گاہ ہیں، انسان کو خدا پر ایمان اورعقیدت کی طرف منتقل کرتی ہے، اور اسی وجہ سے دعائوں میں اس محبت کو ہم خدا سے طلب کرتے ہیں:

خدایا! میرے نفس کو اپنی قدر سے ہماری جان کو قدرسے مطمئن اور اپنی قضا سے راضی قرار دے اور اپنے ذکر ودعا کا مشتاق اور حریص قرار دے اور اپنے خاص الخاص اولیاء کا دوستدار قرار دے اورزمین وآسمان کے درمیان محبوب قرار دے... ۔(٢)

آیات وروایات میں عام طور سے ائمہ ہدیٰ (ع) کی محبت اورمودت عمومی اورخالص طور پر امیر المومنین ـ کی محبت ومودت قابل توجہ و تاکید قرار پائی ہے:

(قُلْ لَا اَسْئَلُکُم عَلَیهِ اَجْراً اِلّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ )(٣) ''اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو''۔

____________________

١۔ عبد الحسین، زرین کوب، پلہ پلہ تا ملاقات خداص٥٠۔

٢۔ مفاتیح الجنان ،شیخ عباس قمی، زیارت امین اللہ۔

٣۔سورہ ٔشوریٰ آیت٢٣۔

۲۶۷

اس آیت کے ذیل میں بہت سی احادیث شیعہ اور سنی سے نقل ہوئی ہیں کہ ''پیغمبر کے قربیٰ'' سے مراد ا

١س آیت میں علی، فاطمہ، اور آپ کے دونوں فرزند]حسن وحسین[ (ع) ہیں۔(١)

اس بناپر پیغمبر اور ائمہ اطہار (ع) کی محبت و ولایت کہ جو کامل انسان ہیں جس قدر بھی زیادہ ہوگی ، یہ درحقیقت مکارم اخلاق اور فضائل سے عشق ہے اور یہ عشق خدا کی محبت سے جدا نہیں ہوسکتا۔

اولیائے خداوندی سے قلبی طور پر محبت آمیز رابطہ اور توسل اسی وجہ سے پرورش ایمان کا باعث ہے۔

ہمیں توجہ رکھنی چاہئے کہ انسان کی خصوصیات میں ہے کہ وہ صرف یہ نہیں چاہتا کہ دوسروں کی توجہ کا مرکز رہے، بلکہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا ہو جس سے اظہار محبت کرے اور عشق رکھے جیساکہ مزلو ذکر کرتا ہے: ''... اسی طرح ہمیں اس حقیقت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ محبت کی ضرورتیں دونوں ضرورتوں کو یعنی محبت کرنے اور محبت دیکھنے کو شامل ہیں''۔(٢)

اس بناپر اگر محبت کا متعلَّق ]ظرف[، اولیائے الٰہی اورانسان کامل کی محبت ہوں، تویہ سرگرداں قوّت مجازی عشقوں اوربے قیمت محبتوں میں صرف نہیں ہوگی، بلکہ کمال انسانیت کے اعلیٰ مقصد میں پھولے پھلے گی۔

سعدی اگر عاشقی کنی وجوانی

عشق محمد بس است وآل محمد

اے سعدی! اگر تم عاشقی اور جواں مردی کرو تواس کے لئے عشق محمد وآل محمد (ع) کافی ہے۔

اس موضوع میں آخری نکتہ ''زیارت'' ہے ائمہ اطہار (ع) کے مشاہد مشرفہ کی زیارت ان امور میں سے ہے جو ان کی محبت اور ولایت کو تقویت کرتی ہے اور باغ ایمان کو سر سبز وشاداب بنا دیتی ہے۔ متعدد روایات میں یہ نکتہ بیان ہوا ہے، نمونہ کے طور پر چند حدیث کی جانب ہم اشارہ کررہے ہیں:

''کسی قبر کی زیارت کے لئے سامان سفر آمادہ مت کرو، جز ہماری قبروں کی زیارت کے۔ جان لو کہ میں زہر سے شہید کیا جائوں گا اور پردیس اور عالم غربت میں دفن کیا جائوں گا۔ جو شخص میری زیارت کو آئے گا اس کی دعا مقبول ومستجاب ہے اور اس کا گناہ معاف ہے۔(٣)

____________________

١ ۔منجملہ تفسیر فخر رازیج٢٧ ص١٦٦۔بحارالانوار ج٢٧ ص١٣۔٢۔ روانشناسی شخصیت سالم ص١٥٤۔٣۔ عیون اخبار الرضا ـ ج١ ص٢٨٥۔

۲۶۸

محبت کے عنوان سے برادران دینی وایمانی کی زیارت بھی قلوب کی حیات کا باعث، ایمان اور محبت میں رشد

و اضافہ کا موجب ہے، بالخصوص صالح انسان اور ربانی علماء کی زیارت جو کہ دوگنا اخلاقی تاثیر رکھتی ہے:

''تم لوگ ایک دوسرے کی زیارت اور ملاقات کو جائو کہ یہ تمہارے دلوں کی حیات کا باعث ہے اورہماری باتیں بھی ذکر ہوں اورہماری احادیث تمہارے درمیان رابطہ برقرار کرتی ہیں، لہٰذا اگر ان سے تمسک اختیار کرو گے تو تمہارے رشد اورنجات کا باعث ہے''۔(١)

''زیارت دلوں میں دوستی اورمحبت ایجاد کرتی ہے''۔(٢)

نیک اور صالح افراد سے ملاقات کرنا قلب کی اصلاح کا باعث ہے۔(٣)

____________________

١۔بحارالانوارج٧٤ ص٢٥٨۔

٢۔ بحارالانوارج٧٤ ص٣٥٥۔

٣۔ بحارالانوارج٧٧ ص٢٠٨۔

۲۶۹

منابع

١۔ قرآن مجید

٢۔ نہج البلاغہ

٣۔آدلر، آ لفرد، روان شناسی فردی، ترجمہ حسن زمانی شرفشاہی، تصویر، ١٣٧٥۔

٤۔آمدی، عبدالواحد، غررالحکم ودرالکلیم، تہران، محمد علی الانصاری القمی، ١٣٣٧۔

٥۔ آندرہ، پی تیر، مارکسومارکسیم، ترجمہ شجاع الدین ضیائیان، تہران انتشارات دانشگاہ تہران، ، ١٤٠٢۔

٦۔ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ٢٠ جلد، بیروت، دار احیاء التراث، ١٣٨٥ ق۔

٧۔ ابن اثیر، مبارک بن محمد، نہایہ، قم، اسماعیلیان، ١٤٠٨ ق۔

٨۔ ابن شعبہ حرّانی، تحف العقول، قم، مؤسسہ النشرالاسلامی، ١٤٠٤ ق۔

٩۔ابن طاووس، علی ابن موسی، الملاحم و الفتن، قم، مؤسسہ صاحب الامر (عج ) ، ١٤١٦ ق۔

١٠۔ ابن فارس، معجم مقاییس اللغة، مصر، مطبعة المصطفی، ١٣٨٩۔

١١۔ ابن فہد حلّی، عدّة الداعی، قم، مکتبة الو جدانی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٢۔ابن مسکویہ، تہذیب الاخلاق و تطہیر الاعراق، قم، بیدار، ١٣٧١ ش۔

١٣۔ ابن منظور، لسان العرب، بیروت، دار صار، ١٤١٥ق۔

١٤۔ اتکینسون، رتیال، زمینئہ روان شناسی، ترجمہ محمد تقی براہنی اور دیگر افراد، تہران، رشد، ١٣٦٦۔

١٥۔ اتکینسون، فلسفئہ اخلاق، ترجمہ سہراب علوی نیا، تہران، مرکز ترجمہ و نشر کتاب، ١٣٧٥۔

١٦۔ احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، قم، مؤسسہ ونشر فرھنگ اہل بیت، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٧۔ احمدی سید احمد، اصول و روشہای تربیت در اسلام، تہران، جہاد دانشگاہی، ١٣٦٤۔

١٨۔ ادگاردپش، اندیشہ ہای فروید، ترجمہ غلام علی توسّلی، تہران، انتشارات کتاب فروشی ابن سینا، ١٣٣٢۔

١٩۔ اربلی، ابوالفتح، کشف الغمہ، بیروت، دارالکتاب الاسلامی، ١٤٥١ ق۔

٢٠۔ ارسطو، اخلاق نیکو ماخس، ترجمہ سید ابو القاسم پور حسینی، تہران، انتشاردانشگاہ تہران، ١٣٦٨۔

٢١۔ ارون سون، الیوت، روان شناسی اجتماعی، ترجمہ حسین شکر کن، تہران، رشد، ١٣٦٦۔

٢٢۔ اسکانی، محمد بن ہمام، التمحیص، قم، مدرسہ امام مہدی (عج) ، ١٤٥٤ق۔

۲۷۰

٢٣۔اشعث کوفی، جعفریات، تہران، مکتبة نینوی الحدیثة، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٢٤۔ الراغب اصفہانی، الحسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، تہران، المکتبة المرتضویة لاحیاء آثار لمرتضویة۔

٢٥۔ المظفر، محمد رضا، المنطق، قم، اسماعیلیان، ١٣٦٦۔

٢٦۔ امام خمینی ، تحریر الوسیلہ، تہران، المکتبة العلمیة الاسلامیة، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٢٧۔ امام خمینی ، چہل حدیث، تہران، مرکز نشر دانشگاہی رجائ، ١٣٦٨۔

٢٨۔ حضرت امام جعفر صادق ـ ، مصباح الشریعة۔

٢٩۔ حضرت امام جعفر صادق ـ، نہج الفصاحہ۔

٣٠۔ باب الحوائجی، نصر اﷲ، فروید چہ می گوید، تہران، انتشارات دریا، ١٣٤٧۔

٣١۔ باقری، خسرو، مبانی شیوہ ہای تربیت اخلاقی، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی، مرکز چاپ و نشر، ١٣٧٧۔

٣٢۔ باقری، خسرو، نگاہی دوبارہ بہ تربیت اسلامی، تہران، وزارت آموزش وپرورش، ١٣٦٨۔

٣٣۔برقی، محمد بن خالد، محاسن، قم مجمع جہانی اہل بیت (ع)، ١٤١٣ ق۔

٣٤۔ بلاکہام، ھ۔ج، شش متفکر اگز یستانسیا لیست، ترجمہ محسن حکیمی، تہران، نشر مرکز، ١٣٧٢۔

٣٥۔ بی ناس، جان، تاریخ جامع ادیان، تہران، شرکت انتشارات علمی فرہنگی، ١٣٧٣۔

٣٦۔ بیہقی، احمد بن الحسین، شعب الایمان، بیروت، دارالکتب العلمیة، ١٤١٥ ق۔

٣٧۔ پاپکین و استرول، کلیات فلسفہ، ترجمہ جلال الدین مجتبوی، تہران، حکمت، ١٣٧٥ ش۔

٣٨۔ پروین، لارنس، روان شناسی شخصیت: نظر یہ وتحقیق، ترجمہ محمد جعفر جوادی، تہران، رسا، ١٣٧٢۔

٣٩۔ پیاژہ، ژان، تربیت بہ کجا می سپرد، ترجمہ دادستان و منصور، تہران، دانشگاہتہران، ١٣٦٩۔

٤٠۔ پیاژہ، ژان، دیدگاہ پیاژہ در گسترہ تحول روانی، ترجمہ وگردآوری ازمنصور، محمود وپریرخ دادستان، تہران، نشرژرف، ١٣٦٧۔

٤١۔ تفتازنی، سعد الدین، شرح مقاصد، قم، انتشارات شریف رضی، ١٣٧٥۔

٤٢۔ ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، تہران، انجمن آثار ملّی، ١٣٩٥ ق۔

٤٣۔ جرجانی، سید شریف، شرح المواقف، قم، انتشارات شریف رضی، ١٣٧٥۔

۲۷۱

٤٤۔ جعفری، محمد تقی، بررسی و نقد افکار راسل، تہران، امیر کبیر، ١٣٧٥۔

٤٥۔ جوادی، محسن، مسلہ باید و ہست، قم، تبلیغات اسلامی، ١٣٧٥۔

٤٦۔ جوادی، محسن، نظریہ ایمان درعرصہ کلام وقرآن، قم، معاونت امور اساتیدو دروس معارف اسلامی، ١٣٧٦۔

٤٧۔ جونز ارنست ودالبی یزو، اصول روانکاوی، ترجمہ ہاشم رضی، تہران، کاوہ، ١٣٤٢۔

٤٨۔ جوہری، اسماعیل بن حمّاد، صحاح اللّغة، بیروت دارالعلم للملایین، ١٩٩٠ م۔

٤٩جیمز، ویلیام، دین وروان، ترجمہ مہدی قائنی، قم، دارالفکر، ١٣٦٧۔

٥٠۔ حسینی، سید مہدی، مشاورہ وراہنمائی در تعلیم و تربیت اسلامی۔

٥١۔ حکیمی، محمد رضا، الحیاة، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ١٤٥٩ ق۔

٥٢۔ حمصی رازی، سدیدالدین محمود، المنقذ من التقلید، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٥٣۔ خراسانی، محمد کاظم، کفایة الاصول، قم، مؤسسہ آل البیت (ع) لاحیاء التراث، ١٤١٧ ق۔

٥٤۔ خزّاز القمی، کفایة الاثر، قم، بیدار، ١٤٥١ ق۔

٥٥۔ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، مدینہ منوّرہ، مکتب سلفیّہ، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٥٦۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ، روان شناسی رشد با نگرش بہ منابع اسلامی، تہران، سمت، ١٣٧٤۔

٥٧۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ، مکتب ہای روان شناسی و نقد آن، ٢ جلد، تہران، سمت، ١٣٦٩۔

٥٨۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ، نقش تربیتی معلم۔

٥٩۔ دیلمی، حسن بن ابی الحسن، ارشاد القلوب ٢ جلد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع) ا١٤١٣ ق۔

٦٠۔ دیلمی، حسن بن ابی الحسن، اعلام الدین، قم، مؤسسہ آل البیت(ع) ١٤٥٨ ق۔

٦١۔ راسل برتر اند، تاریخ فلسفہ غرب، ٢جلد، ترجمہ نجف دریابندی، تہران، شرکت سہامی کتاب داری جیبی، ١٣٥١۔

٦٢۔ راسل برتر اند، زناشویی واخلاق، ترجمہ مہدی افشار، تہران، کاویان، ١٣٥٥۔

٦٣۔ راوندی، قطب الدین، دعوات، قم، مؤسسہ الامام المہدی (عج) ، ١٤٥٧ ق۔

٦٤۔ روحانی، شہر یار، خانودہ موعود مارکسیم، تہران، قلم، ١٣٦٤۔

۲۷۲

٦٥۔ زبیدی، سید محمد بن محمد، تاج العروس، بیروت، دارالفکر، ١٤١٤ ق۔

٦٦۔ زرین کوب، عبد الحسین، پلہ پلہ تا ملاقات خدا، مولانا جلال الدین رومی کی زندگی اور ان کی فکر کے بارے میں، تہران، علمی، ١٣٧٢۔

٦٧۔ سبحانی، جعفر، حسن و قبح عقلی، پایہ ہای جاودان اخلاق، تہران، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی، ١٣٧٧۔

٦٨۔ سید ابن طاووس، مسکن الفوائد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع) ١٤١٢ ق۔

٦٩۔ سیف، علی اکبر، تغییر رفتار و رفتار درمانی (نظریہ ہا وروش ہا) ، تہران، دانا، ١٣٧٣۔

٧٠۔ سیف، علی اکبر، روان شناسی پرورشی (روان شناسی یاد گیری و آموزش ) ، تہران، آگاہ، ١٣٦٨۔

٧١۔ شالہ، فیلیسین، فروید و فروید یسم، ترجمہ اسحاق وکیلی، تہران، بنگاہ مطبو عاتی قائم مقام، ١٣٤١۔

٧٢۔ شعیر سبزواری، جامع الاخبار، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، ٤١٤ ق۔

٧٣۔ شیخ صدوق، اعتقادات، قم، کنفرانس جہانی ہزارہ شیخ مفید، ١٤١٣ ق۔

٧٤۔ شیخ صدوق، توحید، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٧٥۔شیخ صدوق، خصال، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، ١٤٥٣۔

٧٦۔ شیخ صدوق، صفات الشیعہ، قم، مؤسسہ الامام المہدی (عج) ١٤١٥۔

٧٧۔شیخ صدوق، علل الشرایع، بیروت، دار احیاء التراث، ١٣٨٥ ق۔

٧٨۔شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا ـ ، تہران، مکتبة جہان، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٧٩۔ شیخ صدوق، مقنع، قم، مؤسسہ ا مام ہادی ـ، ١٤١٥ ق۔

٨٠۔ شیخ صدوق، تومن لا یحضر الفقیہ، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٨١۔ شیخ طوسی، امالی، قم، مؤسسہ البعثة، دارالثقافة، ١٤١٤ ق۔

٨٢۔ شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، بیروت، دارالتعارف و دار صعب، ١٤٥١ ق۔

٨٣۔ شیخ مفید، ارشاد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، ١٤١٣ ق۔

٨٤۔شیخ مفید، اوائل المقالات، قم، کنگرہ جہانی شیخ مفید، ١٤١٣ ق۔

۲۷۳

٨٥۔ شیرازی، صدرالدین، تفسیر القرآن، قم، بیدار، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٨٦۔صبور اردو باری، احمد، معمای عادت۔

٨٧۔ صحیفہ سجادیہ، الکاملة، دمشق، رایزنی فرہنگی جمہوری اسلامی ایران، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٨٨۔ صدرا لدین شیرازی، الاسفار الاربعة، قم، مصطفوی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٨٩۔ صدر، سید محمد باقر، فلسفتنا (نظریہ المعرفة) ، قم، دارالکتاب الاسلامی، ١٤٥١ ق۔

٩٠۔ صدر، محمد باقر، بحث فی علم الاصول (تقریر سید محمود ہاشمی ) ، ٧جلد، قم، مکتب الاعلام اسلامی، ١٤٠٥ ق۔

٩١۔ صدر، محمد باقر، دروس فی علم الاصول، ٣حلقہ، بیروت، دارالکتاب اللبنانی، قاہرہ، دارالکتاب المصری، ١٩٨٧۔

٩٢۔ صدوق، عیون اخبارالرضا ـ تعلیق حسین اعلمی، بیروت، مؤسسہالاعلمی للمطبوعات، ١٤٠٤۔

٩٣۔ طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ١٤١٤ ق۔

٩٤۔ طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، قم، مؤسسہ البعثہ، ١٤١٥ ق۔

٩٥۔ طوسی، خواجہ نصیر الدین، اخلاق ناصری، شیراز انتشارات علمیہ اسلامیہ، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٩٦۔ عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعہ، ٢٠ جلد، تہران، کتاب فروشی اسلامیہ، ١٤٠٣ ق۔

٩٧۔ عبد الباقی، محمد فواد، المعجم لالفاظ القرآن الکریم، قاہرہ، مطبعہ دارالکتب المصریہ، ١٣٦٤ ق۔

٩٨۔ عدة من الرواة، اصول ستہ عشر، قم، دارالشبستری، ١٤٠٥ ق۔

٩٩۔ عسکری، ابو ہلال و جزایری، سید نور الدین، معجم الفروق اللغویہ، قم، مکتبہ بصیرتی، ١٣٥٣۔

١٠٠۔ علامہ امینی، احمد، الغدیر، بیروت، دارالکتاب العربی، ١٤٠٢ ق۔

١٠١۔علامہ حلی، کشف المراد، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ١٤١٣ ق۔

١٠٢۔ علامہ طبا طبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القران، ٢٠ جلد، قم، جامعةالمدرسین، مؤسسہ نشر اسلامی۔

١٠٣۔ علامہ طبا طبائی، سید محمد حسین، رسائل سبعہ، قم، نمایش گاہ ونشر کتاب، ١٣٦٢۔

١٠٤۔ علم الہدی، سید مرتضی، الذخیرہ، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، ١٤١١ ق۔

١٠٥۔ عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر عیاشی، تہران، المکتبہ العلمیہ الاسلامیہ، ١٣٨٠ ق۔

۲۷۴

١٠٦۔ غزالی، ابو حامد محمد، احیاء علوم الدین، بیروت، دارالعلم، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٠٧۔ فرانکل، ویکتور، انسان در جستجوی معنا، ترجمہ نہضت صالحیان ومیلانی، درسا، ١٣٧٣۔

١٠٨۔ فرانکنا، فلسفہ اخلاق، ترجمہ ہادی صادقی، قم، مؤسسہ فرہنگی طہ، ١٣٧٦۔

١٠٩۔ فقہ الرضا ( فقہ منسوب بہ امام رضا ـ) ، مشہد، کنفرانس جہانی امام رضا ـ ١٤٠٦ ق۔

١١٠۔ فلسفی، محمد تقی، اخلاق، تہران، نشر معارف اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١١١۔ فلسفی، محمد تقی، کودک ازنظر وراثت و تربیت، تہران، ، نشر معارف اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١١٢۔ فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١١٣۔ فیض کاشانی، ملا محسن، المحجة البیضا فی تہذیب الاحیائ، ٨ جلد، بیروت، مؤسسہ اعلمی مطبوعات، ١٤٠٣ ق۔

١١٤۔ قطب محمد، روش تربیتی در اسلام، ترجمہ محمد مہدی جعفری، تہران، انجام کتاب، ١٣٦٢۔

١١٥۔ قمی، شیخ عباس، کلیات مفاتیح الجنان، بہ خط طاہرہ خوشنویس، تہران، کتابچی، ١٣٧٠۔

١١٦۔قمی، علی بن ابر ا ہیم، تفسیر قمی، قم، دارالکتاب، ١٤٠٤ ق۔

١١٧۔ کارل الکسیس، نیایش، ترجمہ علی شریعتی، تہران، حسینیہ ارشاد، ١٣٥٨۔

١١٨۔ کانت، ایمانوئل، بنیاد ما بعد الطبیعہ اخلاق، ترجمہ حمید عنایت و علی قیصری، تہران، شرکت سہامی انتشار خوارزمی، ١٣٦٩۔

١١٩۔کتاب مقدس، ترجمہ فارسی، قطع جیبی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٢٠۔ کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، قم، دارالذخائر، ١٤١٠ ق۔

١٢١۔ کریستیانی، ترزاس، روان شناسی مشاورہ، ترجمہ رضا فلاحی و حاجی لو، مؤسسہ رشد، ١٣٧٤۔

١٢٢۔ کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ٢جلد، بیروت، دارالاضوائ، ١٤١٤ ق۔

١٢٣۔ مارستون، انتفانی، معجزئہ تشویق، ترجمہ توراندخت تمدن (مالکی ) ، تہران، علمی، ١٣٧٥۔

١٢٤۔ مثولتز، دوان، روان شناسی کمال، ترجمہ گیتی خوش دل، تہران، نشر نو، ١٣٦٢۔

١٢٥۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ١١١ جلد، بیروت، دارالاضوائ، ١٤١٣ ق۔

۲۷۵

١٢٦۔ محمد قاسمی، حمید، اخلاق جنسی اسلام کی نظر میں، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی، ١٣٧٣۔

١٢٧۔ محمدی ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ١٠ جلد، قم، حوزہ علمیہ قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ١٣٦٢۔

١٢٨۔ مزلو، آبراہام، روان شناسی شخصیت سالم، ترجمہ شیوا روی گردان، تہران، ہدف، ١٣٦٧۔

١٢٩۔ مزلو، آبراہام، انگیزش و شخصیت، ترجمہ احمد رضوانی، مشہد، آستانہ قدس رضوی، ١٣٦٧۔

١٣٠۔ مشکور، محمد جواد، خلاصئہ ادیان، تہران، شرق، ١٣٧٢۔

١٣١۔ مصباح یزدی، محمد تقی، اخلاق در قرآن، تہران، امیر کبیر، ١٣٧٢۔

١٣٢۔ مصباح یزدی، محمد تقی، دروس فلسفہ اخلاق، تہران، اطلاعات، ١٣٦٧۔

١٣٣۔ مطہری، مرتضی، آشنایی با علوم اسلامی ( حکمت عملی) ، قم، صدرا، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٣٤۔ مطہری، مرتضی، آشنایی با علوم اسلامی ( عرفان) ، قم، صدرا، ١٣٧١۔

١٣٥۔ مطہری، مرتضی، اخلاق جنسی در اسلام و جہان غرب، قم، صدرا، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٣٦۔ مطہری، مرتضی، اسلام و مقتضیات زمان، ٢جلد، قم، صدرا، ١٣٧٤۔

١٣٧۔ مطہری، مرتضی، تعلیم وتربیت در اسلام، تہران، ، صدرا، ١٣٦٧۔

١٣٨۔ مطہری، مرتضی، جاذبہ ودافعہ علی ـ ، تہران، ، صدرا، ١٣٦٨۔

١٣٩۔ مطہری، مرتضی، جاودانگی اخلاق، (چاپ شدہ در یاد نامہ استاد مطہری، ج١) ، تہران، سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، ٦٠ ١٣۔

١٤٠۔ مطہری، مرتضی، سیر ی در سیرئہ نبوی، قم، صدرا، ١٣٧٦۔

١٤١۔ مطہری، مرتضی، مسلہ حجاب، قم، صدرا، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٤٢۔ مطہری، مرتضی، مسلہ شناخت، قم، صدرا، ١٣٧٤۔

١٤٣۔ مطہری، مرتضی، مقدمہ ای بر جہان بینی اسلامی (انسان در قرآن) ، قم، صدرا، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٤٤۔ مطہری، مرتضی، نظام حقوق زن در اسلام، قم، صدرا، ١٣٧٥۔

١٤٥۔ مطہری، مرتضی، نقدی بر مارکسیسم، قم، صدرا، ١٣٦٢۔

۲۷۶

١٤٦۔ معین، محمد، فرہنگ فارسی( متوسط) ، ٦جلد، تہران، امیر کبیر، ١٣٧١۔

١٤٧۔ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامےة، ١٣٧٢۔

١٤٨۔ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ٢٧ جلد، تہران، دارالکتب الاسلامےة، ١٣٧١۔

١٤٩۔ملکی تبریزی، میرزا جواد آغا، رسالئہ لقاء اﷲ، ترجمہ ومقدمہ واضافات سید احمد فہری، نہضت زنان مسلمان، ١٣٦٠۔

١٥٠۔منصور، محمود، احساس کہتری، تہران، دانشگاہ تہران، مؤسسہ انتشارات وچاپ، ١٣٦٩۔

١٥١۔ منصور، محمود، روان شناسی ژنتیک: تحول روانی از کودکی تا پیری، تہران، ترمہ، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٥٢۔ مہرین، مہراد، فلسفہ شرق، تہران، مؤسسہ مطبو عاتی، عطائی، ١٣٥٧۔

١٥٣۔ نائینی، میرزا محمد حسین، فوائد الاصول ( تقریر محمد علی کاظمی ) ، ٤جلد، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ١٤٠٤ ق۔

١٥٤۔ ناطق، ناصح، بحثی دربارئہ زندگی مانی وپیام او، تہران، امیر کبیر، ١٣٥٧۔

١٥٥نراقی، ملا احمد، معراج السعادہ، تہران، رشیدی، ١٣٦٢۔

١٥٦۔ نراقی، ملا مہدی، جامع السعادات، قم، اسماعیلیان، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٥٧۔ نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، تہران، مکتبة الصدوق، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٥٨۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، قم، مؤسسہ آل البیت، ١٤٠٧ ق۔

١٥٩۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل ومستنبط المسایل، بیروت، مؤسسہ آل البیت لاحیاء التراث، ١٤٠٨ ق۔

١٦٠۔ ورام بن ابی فراس، تنبیہ الخواطر، ٢ جلد، بیروت، دارالتعارف ودار صعب، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٦١۔ ویل دورانت، تاریخ تمدّن، ترجمہ گروہی ازمترجمین، تہران، اقبال، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٦٢۔ ویل دورانت، لذات فلسفہ، تہران، شرکت سہامی انتشار اندیشہ، ١٣٥٤۔

١٦٣۔ہرگنہان، بی۔ آر۔ مقدمہ ای بر نظریہ ہای یاد گیری، ترجمہ علی اکبر سیف، تہران، دانا، ١٣٧٤۔

١٦٤۔ ہرمان الدنبورک، فروغ خاور، ترجمہ بدر الدین کتابی، اصفہانی، انتشارات کتاب فروشی تیید، ١٣٤٠۔

١٦٥۔ ہیلگارد، ارنست، نظریہ ہای یاد گیری، ترجمہ محمد نقی براہنی، تہران، ستاد انقلاب فرہنگی مرکز نشر دانشگاہی، ١٣٧٦۔

١٦٦۔یونگ، روان شناسی ضمیر نا خود آگاہ، ترجمہ محمد علی امیری، تہران، انتشارات آموزش و انقلاب اسلامی، ١٣٧٢۔

۱۶۷- The Psychology of Healthe ,M.Robin Dimatteo, colifornia,۱۹۹۱

۲۷۷

فہرست

پہلا باب : اخلاق کے اصول ۴

پہلی فصل: کلّیات ۴

الف۔ علم اخلاق سے واقفیت ۴

١۔ لفظ اخلاق کا لغوی مفہوم ۴

٢۔علم اخلاق کی تعریف ۵

٣۔ اخلاق کا فلسلفہ ۶

٤۔ اخلاقی تربیت ۷

ب۔ علم اخلاق اور دوسرے علوم ۸

١۔ علم اخلاق اور فقہ ۸

٢۔ علم اخلاق اور حقوق ۹

٣۔ علم اخلاق اورعرفان عملی ۹

٤۔علم اخلاق اور تربیتی علوم ۱۰

ج۔ اخلاق سے متعلق نظریات ۱۱

١۔فیلسوفوں کا نظریۂ اخلاق ۱۱

٢۔ عارفوں کا نظریۂ اخلاق ۱۱

٣۔اخلاق نقلی(٣) ۱۳

د: اخلاق اسلامی کے مباحث کی تقسیم ۱۶

١۔اخلاق کی بعض بنیادی اور فلسفی بحثیں ۱۶

٢۔اخلاقی خوبیوںاوربرائیوں کی توصیف ۱۶

۲۷۸

٣۔اخلاق تربیتی ۱۶

دوسری فصل : اخلاق کی جاودانی ۱۷

مقدمہ ۱۷

١۔مسئلہ کی وضاحت: ۱۷

٢۔ بحث کی تاریخ: ۱۷

٣۔ موضوع کی دینی اہمیت: ۱۸

٤۔اطلاق اور نسبیت کا مفہوم: ۱۸

الف۔ اخلاقی نسبیت پسندی کے نتیجے: ۲۰

١۔ ذمہ داری کا سلب ہونا: ۲۰

٢۔اخلاقی احکام کا بے ثمر ہونا: ۲۱

٣۔ دین کے مکمل اور جاودانی ہونے کی نفی: ۲۱

٤۔ اخلاقی شکّاکیت : ۲۱

٥۔خادموں اور خائنوں کا یکساں ہونا: ۲۲

ب۔ ا خلاق میں مطلق پسندی اور اس کی دلیلیں ۲۲

١۔پائدار اخلاق کی نشاندہی کی ضرورت: ۲۲

٢۔ اخلاق کے جاودانی اصولوں کو بیان کرنا: ۲۲

ج۔ سو ا لا ت اور جوابات ۲۵

پہلاسوال: ۲۵

پہلا جواب: ۲۵

دوسرا جواب: ۲۵

۲۷۹

تیسرا جواب: ۲۶

چوتھا سوال: ۲۸

جواب: ۲۸

تیسری فصل: اخلا قی عمل ۲۹

عناوین ۲۹

١لف ۔اخلاقی عمل کے قیمتی عناصر ۳۰

١ ۔فاعلی عناصر ۳۰

ایک: فاعل کی آزادی اور اس کا اختیار ۳۱

١۔فلسفی جبر: ۳۲

٢۔ اخلاقی جبر: ۳۲

٣۔ حقوقی جبر: ۳۲

٤۔ نفسیاتی جبر: ۳۲

٥۔سماجی جبر: ۳۳

دو: فاعل کی نیت اورمقصد ۳۴

١۔مقصدکی عقلی اہمیت: ۳۵

نیت کے مراتب: ۳۶

مقصد اور ایمان کارشتہ: ۳۷

ایمان اورعمل کا رشتہ : ۳۹

کافروں کے نیک اعمال: ۴۰

٢۔فعلی اور عینی عنصر ۴۱

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296