اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق13%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 178008 / ڈاؤنلوڈ: 5181
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

٥۔اولاد غلام، قبیلہ وخاندان، رشتہ دار اور پیروی کرنے والوں کی کثرت سے اترانا، چنانچہ خدا وندعالم نے کافروں کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا ہے: '' انہوں نے کہا ہماری دولت اور اولاد سب سے زیادہ ہے اور ہم عذاب میں مبتلا نہیں ہوں گے '' ۔(١)

٦۔ ایسی خود پسندی جو مال و دولت کی فراوانی سے پیدا ہو۔ قرآن دومالکین باغ میں سے ایک کی زبانی نقل کرتا ہے: ''میر ا مال تم سے زیادہ ہے اور افراد کے اعتبار سے بھی میں تم سے قوی ہوں ''(٢) اس نے اپنے مال و متاع کو اپنی جانب سے خیال کیا اور اسے اپنی برتری کا سبب جانا خدا وند عالم نے بھی جو کچھ اسے دیا تھا چھین لیا مجموعی طور پر جب بھی انسان خود کو صاحب کمال خیال کرے، خواہ جسے اس نے کمال سمجھا ہے واقعا ً کمال ہو یا نہ ہو اور اس بات کو بھول جائے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے خدا کا دیاہوا ہے اور اسی کی رحمت و توفیق سے میسر ہوا ہے تو یہ امر اس کے اندر خود پسندی کا سبب بن سکتا ہے، حتی اگر خدا کی عبادت اور تقوی ٰسے فیضیاب ہونے اور خدا سے ڈرنے کا احساس بھی ہو۔(٣)

د۔ خود پسندی کے نقصان دہ اثرات: جیسا کہ اشارہ ہوا، خود پسندی بہت سی اخلاقی برائیوں کی کنجی ہے ذیل میں ان میں سے بعض اہم ترین برائیوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

١۔ خود پسندی ''کبر'' کا سرچشمہ نیز اس کے علاوہ بہت سے دوسرے رذائل کا بھی منبع ہے۔ اور کبر خود بینی کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا ۔

٢۔ خود بینی گناہوں کے فراموش کرنے کا باعث ہے۔ اگر انسان اپنے بعض گناہوں کی طرف متوجہ بھی ہو، تو انھیںمعمولی اورقابل مغفرت شمار کرکے ان کی تلافی کی کوشش نہیں کرتا۔

٣۔خود پسند انسان خود بینی کے بالا ترین مراحل میں اپنے کو بہت زیادہ خدا سے نزدیک سمجھتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود کو عذاب الٰہی سے محفوظ جانتاہے، اسی وجہ سے وہ اپنے اعمال کی اصلاح اور اس کے نقائص کو برطرف کرنے کی کوشش نہیں کرتا آخر کار اپنے اعمال کو ضائع کر دیتا ہے۔

____________________

١۔سورئہ سبائ، آیت٣٥۔

٢۔ سورئہ کہف، آیت ٣٤۔

٣۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٦، ص٢٨٢تا٢٨٩۔

۱۰۱

٤۔ خود پسند انسان چونکہ خداوند عالم سے اپنے لئے کچھ مطالبات رکھتا ہے لہٰذا شکر گذاری اور قدر شناسی کو اپنا فریضہ نہیں سمجھتا اور اللہ کی نعمتوں کی نسبت نا شکر ا ہو جاتا ہے۔

٥۔ خود پسند انسان چونکہ اپنے اعمال سے خوش بین رہتا ہے اس لئے وہ اپنی کمزوری اور احتیاج کا احساس نہیں کرتا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ خود کو سوال کرنے اور مشورہ سے بے نیاز سمجھتا ہے۔

٦۔ خود پسند انسان چونکہ اپنے اندر کوئی کمی اور نقص اور عیب نہیں سمجھتا، لہٰذا خود کو دوسروں کی نصیحت اور خیر خواہی سے بے نیاز تصور کرتا ہے اور ان کی نصیحتوں پر توجہ نہیں کرتا۔(١)

٧۔ خود ستائی یعنی اپنی آپ تعریف کرنا خود پسندی کا ایک دوسرااثر ہے۔ خود بین انسان کو جو بھی موقع ہاتھ لگتا ہے وہ صرف اپنی تعریف میں زبان کھولتا ہے اور جو کچھ اس سے متعلق ہے اسے اچھے عنوان سے ذکر کرتا ہے۔(٢) جب کہ آدمی کا حسن اوراس کی خوبی یہ ہے کہ خود کو نقائص، عیوب، گناہوں اور خطاؤں سے بری نہ جانے اور ہمیشہ بارگاہ خدا وندی میں اپنے جرم و گناہ کی معذرت کرتا رہے۔ قرآن کریم میں خود ستائی کی مذمت میں ارشاد ہوتا ہے: ''لہٰذا اپنے آپ کوپاکیزہ خیال نہ کرو وہ اس انسان (کے حال) سے جس نے پرہیز گاری اختیار کی ہے زیادہ آگاہ ہے''۔(٣)

ہ۔ خود پسندی کا علاج: ہر درد کا علاج اس کے اسباب و علل کو برطرف کرنا ہے، لہذا جو انسان اپنے حسن و جمال اور جسمانی صحت پر مغرور ہو گیا ہے، اسے چاہئے کہ وہ اپنے آغاز پیدائش اور اپنے انجام پر نظر کرے اور یہ جان لے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ سریع الزوال اورفانی ہے۔ صاحب قدرت کو معلوم ہوناچاہیے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ ایک روز کی بیماری میں نابود ہوجائے گا اور ہر آن اس بات کا امکان ہے کہ جو کچھ خدا نے اسے دیا ہے واپس لے لے گا۔ صاحب علم و عقل بھی جان لے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اللہ کی امانت ہے لہذا ممکن ہے کہ ایک معمولی حادثہ کے ز یراثر اپنے تمام علم وشعور کو کھو دے۔ اسی طرح صاحبان حسب و نسب بھی جان لیں کہ دوسروںکے کمال کے سبب اظہار فضیلت و بلندی عین جہالت اور بیوقوفی ہے کیونکہ خدا کی بارگاہ میں کرامت وبزرگی تقویٰ وپرہیز گاری کے سوا کچھ نہیں ہے۔

____________________

١۔ المحجة البیضائ، ص٢٧٥، ٢٧٦ ملاحظہ ہو۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٣٦٥، ٣٦٦۔

٣۔ سورئہ نجم ، آیت ٣٢۔

۱۰۲

مال ودولت کے مضر اثرات کے بارے میں غور وفکر کرنا کافی ہے تاکہ دولتمندوں کو خود پسندی کے خواب سے بیدار کر دے۔ اہل عبادت اور تقویٰ کو بھی توجہ کرنی چا ہئے کہ عبودیت کی غایت خدا کے سامنے تواضع و انکساری کے سواکچھ نہیں ہے اور عبودیت خود بینی، خود پسندی سے میل نہیں کھاتی ۔(١)

دوسری نظر۔ غرور

''غرور ' 'جوکچھ نفسانی خواہشات کے موافق ہے اس کی نسبت قلبی سکون و اطمینان نیز انسانی طبیعت کا اس کی طرف مائل ہونا ہے۔ اس صفت کا سر چشمہ یا تو جہالت ہے یا شیطانی وسوسہ ہے۔ اس وجہ سے جو شخص اوہام اور شبہات کی بنیاد پر خود کو خیر و صلاح پر تصورکرتا ہے حقیقت میںوہ دھوکہ کھا گیا ہے اور مغرور ہو گیا ہے، وہ اپنا اور اپنے امورکا صحیح اندازہ لگانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ جیسے کوئی حرام طریقہ سے مال حاصل کرے اوروہ اسے راہ خیر مثلاً مسجد بنانے، مدرسہ تعمیر کرنے اوربھوکوں کو سیرکرنے میں خرچ کرے اس خیال سے کہ وہ راہ خیر اور نیکی میں قدم اٹھا رہاہے، جب کہ وہ مغرور اور دھوکہ کھایا ہوا ہے۔ اس وجہ سے '' غرور '' کے دو اساسی رکن ہیں:

١۔ جہل مرکب: یعنی اس کا قلبی اعتقاد یہ ہے کہ اس کا عمل نیک ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

٢۔ برخلاف اس کے کہ جو وہ ظاہر میں دعویٰ کرتا ہے اس کا اصلی سبب خیر و سعادت نہیں ہے، بلکہ خواہشات وغضب کی پیروی اور انتقام جوئی ہے۔قر آن و روایات میں غرور کی شدت سے مذمت کی گئی ہے۔ قرآن اس سلسلہ میںانسان کو ہوشیار کرتا ہے: ''تمہیں یہ دنیاوی زندگی دھوکہ ہرگز نہ دے اور شیطان تمہیں ہر گز مغرور (فریب خوردہ) نہ بنائے ''۔(٢) دوسری جگہ غرور کا سبب دنیا دوستی اور دنیا طلبی جانتا ہے: '' دنیوی زندگی مایۂ فریب کے سوا کچھ اور نہیں ہے ''۔(٣) اگر چہ لوگوں کے تمام گروہوں میں فریب خوردہ اور مغرور لوگ پائے جاتے ہیں، لیکن بعض گروہ کچھ زیادہ ہی غرور میں مبتلا ہیں یا بعبارت دیگر بعض امور زیادہ تر غرور کا باعث بنتے ہیں۔ اسی وجہ سے علماء اخلاق سب سے اہم ان گروہوں کو جو غرور میں مبتلا ہوتے ہیں، درج ذیل گروہ جانتے ہیں:

الف۔ کفار:

کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا نقد آخرت کے ادھار سے بہتر ہے۔ اسی طرح دنیا کی یقینی لذت آخرت کی وعدہ شدہ لذت سے بہتر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی،جامع السعادات، ج١، ص ٣٢٦تا ٣٤٢۔ ٢ ۔سورئہ لقمان، آیت ٣٣۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ حدید، آیت ١٤۔٣۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٨٥ ۔ سورئہ حدید، آیت ٢٠۔

۱۰۳

ب۔ فاسق اور گناہگار مومنین:

کیونکہ یہ لوگ اس بہانہ سے کہ خدا وندعالم عظیم اور وسیع رحمت کا مالک ہے، ان کے گناہ اس کے عفو ورحمت کے مقابل ناچیز ہیں، لہٰذا یقیناً رحمت خداوندی ان کے شامل حال ہوگی۔

ج۔علمائ:

کیونکہ ممکن ہے کہ یہ تصور کریں کہ علم ودانش، نجات وکامیابی کا ذریعہ ہے اور یہ سونچ کر اپنے علم پر عمل نہ کریں۔

د۔ مبلغین اور واعظین:

کیونکہ شاید یہ گمان کریں کہ ان کی نیت لوگوں کی ہدایت ہے جب کہ وہ اپنے نفس کو راضی کرنے کے چکر میں ہیں اور اس راہ میں خلاف واقع امور کی دین کی طرف نسبت دینے سے بھی گریز نہ کریں۔

ہ۔ اہل عبادت اور عمل:

چونکہ ممکن ہے کہ حقیقت میں وہ ریا اور خود نمائی کر رہے ہوں، لیکن تصور کریں کہ ان کی غرض اللہ کی رضا اور اس کے معنوی تقرب کا حصول ہے۔

و۔ عرفان کے دعویدار افراد:

کیو نکہ شاید یہ تصور کریں کہ صرف اہل معرفت کا لباس پہن کر اور ان کی اصطلاحیں استعمال کر کے (بغیر اس کے کہ وہ اپنی حقیقت اور باطن کو تبدیل کریں) سعادت وحقیقت تک پہونچ گئے ہیں۔

۱۰۴

ز۔ مالدار اور ثروت مند افراد:

کیو نکہ یہ لوگ کبھی راہ حرام سے تحصیل کر کے لوگوں کو دکھانے کے لئے امور خیر یہ میں اس کا مصرف کرتے ہیں اور اس کو اپنی سعادت ونیک بختی کا ذریعہ سمجھ کر اپنے دل کو خوش رکھتے ہیں۔(١)

٢۔ تواضع

تواضع کا مفہوم یہ ہے کہ انسان دوسروں کے مقابل اپنے امتیاز اور فوقیت کا قائل نہ ہو۔ کسی انسان میں اس حالت کا وجود باعث ہو تا ہے کہ دوسروں کو بزرگ اور مکرم سمجھے۔(٢) تواضع کبر وتکبر کے مقابل ہے اور یہ دونوں تواضع کے لئے مانع کے عنوان سے زیر بحث واقع ہوں گے۔

ایک۔ تواضع کی اہمیت:

خدا وند عالم قرآن کریم میں تواضع وفروتنی کو اپنے واقعی مومن بندوں کی خصوصیات میں جانتا ہے اور فر ماتا ہے:

''اور خدا وند رحمان کے بندے وہ لوگ ہیں جو روئے زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ونادان لوگ ان سے خطاب کر تے ہیں تو وہ سلامتی کا پیغام دیتے ہیں''(٣)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٣، ٣٣۔

٢۔ ایضاً ، ج١، ص ٣٥٨، ٣٥٩۔

٣۔ سورئہ فرقان، آیت ٦٣ ۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ مائدہ، آیت ٥٤۔

۱۰۵

دوسری جگہ خدا وند عالم پیغمبر اکرم سے فرماتا ہے: اپنے ماننے والوںکے ساتھ خاضعانہ رفتار رکھیں:

''اور ان مومنین کے لئے جنہوں نے آپ کی پیروی کی ہے اپنے شانوں کوان کے لئے جھکا دیجئے''(١) حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: خداوند عالم نے موسیٰ کو وحی کی: اے موسیٰ ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اپنی تمام مخلوقات میں تم کو اپنے سے بات کرنے کے لئے کیوں انتخاب کیا ؟ موسیٰ ـنے عرض کی: خدا یا ! اس کی علت کیا ہے ؟ خدا نے جواب دیا: ''اے موسیٰ! میں نے اپنے بندوں میں اپنے سامنے تم سے زیادہ کسی کو متواضع اور منکسر نہیں دیکھا۔ اے موسیٰ ! جب تم نماز پڑھتے ہو تو اپنے رخسار کوخاک پر رکھتے ہو''۔(٢)

رسول خدا نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ''کیا بات ہے کہ تم میں عبادت کی شیرینی نہیں دیکھتا؟ ''انہوں نے سوال کیا: عبادت کی شیرینی کیا ہے ؟ فرمایا: '' عاجزی وانکساری ''۔(٣)

دو۔ تواضع کی علامتیں: بعض روایات میں متواضع اور خاکسار انسان کے لئے نشانیاں بیان کی گئی ہیں اگر چہ یہ نشانیاں نمونہ کے طور پر ہیں اور اس کا مفہو م صر ف انھیںنشانیوں میں منحصر ہونا نہیں ہے، انھیںنشانیوں میں سے بعض درج ذیل ہیں:

١۔ متواضع اور خاکسار انسان بیٹھنے میں بزم کے آخری حصہ میں بیٹھتا ہے۔(٤)

٢۔ متواضع انسان سلام کرنے میںدوسروں پر سبقت کرتا ہے۔(٥)

٣۔ جنگ وجدال سے بازرہتا ہے خواہ حق اس کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔(٦)

٤۔ وہ اس بات کو دوست نہیں رکھتا کہ اس کی پرہیز گاری کی تعریف کی جائے۔

تین۔ فروتنی کے موانع : کبر و تکبر، فخر و مباہات، تعصب، طغیانی و سر کشی، ذلت و رسوائی، فروتنی کے سب سے اہم موانع میں شمار ہوتے ہیں، اختصار کے ساتھ ان میں سے بعض کی توضیح دے رہے ہیں۔

الف) کبر:

فروتنی کی راہ میں سب سے بنیادی و اساسی مانع '' کبر '' ہے۔

____________________

١۔ سورئہ شعرائ، آیت ٢١٥۔٢۔ کافی، کلینی، ج٢، ١٢٣، ح٧۔ ٣۔ورام بن ابو فراس: تنبیہ الخواطر، ج١، ص٢٠١۔

٤۔کافی، ج٢، ص ١٢٣، ح٩۔٥۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج٧٥، ص١٢٠، ح٩۔ ٦۔ایضاً ، ص١١٨، ح٣۔

۱۰۶

کبرکا مفہوم:

کبر یہ ہے کہ انسان عُجب و خود پسندی کے نتیجہ میں مقابلہ و مقایسہ کے موقع پر خود کو سب سے برتر اور بہتر خیال کرے اس وجہ سے کبر خود پسندی اور عُجب کامعلول ہے (یعنی کبر عُجب و خودپسندی کی وجہ سے وجود میں آتا ہے ) اور اس میںدوسروں سے مقایسہ پوشیدہ ہے۔ اگر خود کو بڑا اور برتر سمجھنے کی کیفیت ایک حالت کے عنوان سے فقط انسان کے اندر باطن میں پائی جائے تو اسے ''کبر '' کہتے ہیں، لیکن اگرخارجی اعمال و رفتار میں ظاہر ہو تو اسے ''تکبر'' کہتے ہیں، جیسے کسی کے ساتھ بیٹھنے یا کھانا کھانے سے پرہیز کرے، اور دوسروں سے سلام کا انتطار کرے اور گفتگو کرتے وقت مخاطب کی طرف نگاہ کرنے سے اجتناب کرے وغیرہ ...۔(١)

تکبّر کی مذمت:

خداوند عالم نے قرآن کریم میں ان لوگوں کی نسبت جو اللہ کی عبادت میں تکبّر کرتے ہیں، جہنم کا وعدہ دیا ہے ''در حقیقت جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب وہ لوگ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں چلے جائیں گے ''۔(٢) دوسری جگہ اعلان کرتا ہے کہ سرائے آخرت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو زمین میں فوقیت و برتری کے خواہاں نہ ہوں: ''اس دارآخرت کو ہم ان لوگوں سے مخصوص کردتے ہیں جو زمین میںفوقیت وبرتری اور فساد کے طا لب نہ ہوں ''۔(٣)

تکبّر کی قسمیں:

جس کی نسبت تکبّر کیا جاتا ہے اس کے اعتبار سے تکبّر کی تین قسمیں کی جاسکتی ہیں:

ایک۔ خداوندعالم کے مقابل تکبّر کرنا: جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے: '' جو انسان اس کی پرستش سے امتناع کرے اور کبر کا اظہار کرے عنقریب ان سب کو اپنی بارگاہ میں محشور کرے گا''۔(٤)

دو۔ پیغمبر کے مقابل تکبّر کرنا:

پیغمبر کے مقابل تکبّر اس معنی میں ہے کہ انسان اپنی شان و منزلت کو اس بات سے افضل وبرتر تصور کرے کہ آنحضرت کی دعوت اور فرامین پر گردن جھکائے ۔جیسا کہ قرآن کفار کے ایک گروہ کے بارے میں اس طرح فرماتا ہے: '' آیا ان دو بشر پر جو کہ ہمارے ہی جیسے ہیں ایمان لے آئیں ''۔(٥)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٣٤٤۔ ٢۔ سورئہ مومن، آیت ٦٠۔٣۔سورئہ قصص ٨٣ ۔ جاثیہ ٣٧ ۔ اعراف ١٣، ١٤٦ ۔ ص ٧٣ ، ٧٤ ۔ سورئہ اسرائ، آیت ٣٧ ۔ لقمان ١٨۔ فرقان ٦٣ ۔ نحل ٢٩ اور ٢٣ ۔ غافر، آیت ٣٠، ٥٦، ٦٠ ۔ انعام، آیت ٩٣ ،سورئہ زمر، آیت ٧٢۔

٤۔سورئہ نسائ، آیت ١٧٢ ۔ سورئہ مریم، آیت ٦٩ ۔ نحل، آیت ٢٣۔ ٥۔سورئہ مومنون، آیت ٤٧۔

۱۰۷

تین۔ لوگوںکے مقابل تکبّر: یعنی خود کو عظیم اور دوسرے لوگوں کو معمولی اور ذلیل و خوار سمجھنا۔ ایک روایت میں اس طرح کے تکبّر کو واقعی جنون سے تعبیر کیا گیا ہے۔(١)

تکبّر کا علاج:

علماء اخلاق نے تکبّر کے علاج کے لئے علمی اور بعض عملی راہیں بتائی ہیںکہ وہ اسباب تکبّر سے اجتناب یا ان کا برطرف کرنا ہے۔ چونکہ حقیقت میں تکبّر کے اسباب وہی خودپسندی کے اسباب ہیں، لہذا جوکچھ خودپسندی کے علاج سے متعلق بیان کیا گیا ہے، وہی تکبّر کے علاج کے لئے بھی کار آمد ہوگا۔

ب) ذلت وخواری:

جس طرح بزرگ طلبی اور برتری جوئی (کبر وتکبّر) تواضع کے لئے مانع ہے اسی طرح ذلت وخواری بھی تواضع کے لئے مانع ہے اور عزت نفس سے بھی منا فات رکھتی ہے اگر تکبّر اپنی اہمیت جتانے میںافراط اورزیادتی تو ذلت خواری بھی اس امر میں تفریط ہے(٢) اسی بنیاد پراخلاق اسلامی میں متکبّرین کے مقابل تواضع اور خاکساری کرنے کو شدت کے ساتھ منع کیا گیاہے کیونکہ متکبّر انسان ہرطرح کی خاکساری و فروتنی کو مقابل شخص کی پستی اورخواری شمار کرتا ہے۔(٣)

____________________

١۔شیخ صدوق، خصال، ص ٣٣٢، ح ٣١۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٣٦٢۔

٣۔ ورام بن ابی فراس، تنبیہ الخواطر، ج ١، ص ٢٠١ ملاحظہ ہو۔

۱۰۸

تیسری فصل: مؤثر نفسانی صفات

د۔ نفس کی توجہ آئندہ کی نسبت

اخلاق اسلامی کے مفاہیم میں سے بعض یہ ہیں جو انسان کے نفس کی توجہ کو آئندہ سے متعلق بتاتا ہے۔ سب سے پہلے آئندہ کے متعلق نفس کے پسندیدہ رجحان پھر اس کے بعد اس کے موانع کے بارے میں گفتگوکریں گے۔

١۔ آئندہ کی نسبت نفس کا مطلوب رجحان

یہ رجحان درج ذیل شرح کے ساتھ چند مفاہیم کے قالب میں بیان ہوگا:

الف۔ حزم:

حزم لغت میں محکم و استوار کام کرنے اور امور کو متقن ومحکم بنانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔(١) روایات میںبھی حزم اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، لیکن اس کے مصادیق کثرت سے بیان کئے گئے ہیں، منجملہ آج کی اصلاح، کل کا تدارک، آج کا کام کل پر نہ چھوڑنا، موت کے لئے آمادہ رہنا، ضد اورہٹ دھرمی نہ کرنا، صاحبان نظر سے مشورہ کرنا، کسی چیز کے طے کرنے میں قاطعیت کا اظہار، مشکوک امور میںتوقف کرنا، احتیاط اور عاقبت اندیشی۔ اس طرح سے آئندہ کے بارے میں غورو خوص کرنا اور دور اندیشی حزم کے مصادیق میں سے ایک مصداق ہے قریب وبعید مستقبل کا تدارک مطلوب صورت میں اسلام کے عالی اخلاقی فضائل میں شمار ہوتا ہے اس سے اخلاق اسلامی کی اصل کتابوں میں حزم کو چالاکی،(٢) ایک نوع سرمایہ اور پونجی،(٣) ہنر مندی(٤) جیسے اوصاف سے یاد کیا گیا ہے اور مومنین کے اوصاف میں سے ایک وصف شمار کیا گیا ہے۔

____________________

١۔ ابن اثیر، نہایہ، ج١، ص٣٧٩۔

٢۔شیخ صدوق، خصال، ج٢، ص٥٠٥، ح٣۔

٣۔ غررالحکم، ح٩۔

٤۔ ایضاً ، ح١١٧۔

۱۰۹

(١) خلاصہ یہ کہ آئندہ کی نسبت نفس کی مطلوب توجہ (حزم) یہ ہے کہ پہلے اپنے کل کی حالت اور ان حوادث وواقعات کو جو آئندہ پیش آئیں گے منجملہ ان کے اپنی موت وزندگی کو نظر میں رکھے۔ دوسرے آج کی اپنی خواہشات ومیلانات کو کل کی بہ نسبت آمادہ کرے۔

ب۔ آرزؤوں کو کم کرنا:

کل ہمارے آج کی آرزؤوں کا بستر ہے، سارے انسان جس مقدار میں اپنی بقا و زندگی کے لئے آئندہ امید رکھتے ہیں اسی قدر اپنی آرزؤوں کے دائرہ کی نقشہ کشی کرتے ہیں۔ نیز کبھی کبھی آدمی کی آرزؤوں اور تمناؤں کا دامن اس کی آئندہ زندگی کے دوران کی نسبت امید کو تحت تاثیر قرار دیتا ہے۔ بہر صورت یہ دونوں عامل ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں، اخلاق اسلامی میںکوشش کی گئی ہے کہ انسان کی آرزوئیں اور اس کی امیدیں کو اس کی باقی بچی عمر کی نسبت فطری حقیقتوں اور گراں قیمت اخلاقی معیاروں کے مطابق شکل اختیار کرے۔ ایک طرف انسان کو آگاہ کرتاہے کہ آئندہ زندگی کے لئے کوئی اطمینان و ضمانت نہیں ہے اور ہر دن اور ہر آن ممکن ہے کہ اس کی زندگی کا آخری لمحہ ہو لہذا اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے دنیوی مطالبات وخواہشات اور آخرت کے لئے اپنی ضرورتوںکو انھیںواقعیتوں کی بنیاد پر استوار کرے۔ دوسری طرف اسے یاد دلاتا ہے کہ اپنی ہمت کو بلند رکھے اور اپنی ا نسانی منزلت کا کھانے پینے، سونے اور زودگذر لذتوں، اعتباری منصبوں نیز ایسے لوگوں کی تعریف و توصیف سے جو اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں، سودا نہ کرے۔

اخلاق اسلامی کی تاکید آرزؤوں کو کم کرنے کے سلسلہ میں اسی ہدف کی تکمیل کے پیش نظر ہے، کیونکہ علماء اخلاق کے بقول، طولانی آرزؤوںکی بنیاد دو چیزیں ہیں: ایک طولانی عمر پر اعتقاد اور دوسرے طویل مدت تک دنیوی لذتوں سے فائدہ اٹھانے کی رغبت۔ اس بنا پر طولانی آرزوئیں ایک طرف انسان کی جہالت اور اس کی موت سے غفلت کا باعث ہیں اور دوسری طرف دنیا سے لگاؤ اور محبت کا باعث ہیں۔(٢) یہ دونوں نہ تنہا رذیلت ہیں، بلکہ بہت سے اخلاقی رذائل کی کنجی ہیں۔ آیات وروایات میںطولانی و دراز آرزؤوں کی مختلف انداز سے مذمت کی گئی ہے۔ خداوند جبار نے حضرت موسٰی ـ سے فرمایا: ''اے موسی! دنیا میں دراز آرزوئیں نہ رکھو کہ سخت دل ہوجاؤ گے اور سخت دل انسان مجھ سے دور ہے''۔(٣)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٢، ص٢٢ ، ٢٢٩۔٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ص٣٢، ٣٥۔ ٣۔ شیخ کلینی، کافی، ج٢، ص ٣٢٩، ح١۔

۱۱۰

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' جو شخص یقین رکھتا ہے کہ ایک دن اپنے دوستوں سے جدا ہوجائے گا اورخاک کے سینہ میںچھپ جائے گا اور اپنے سامنے حساب وکتاب رکھتا ہے اور جو کچھ اس نے چھوڑا ہے اس کے کام نہیں آئے گا اور جو کچھ اس نے پہلے بھیجا ہے اس کا محتاج ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ آرزؤوں کے رشتہ کو کوتاہ اور عمل کے دامن کودراز کرے''(١) حضرت امام محمد باقر ـ نے بھی فرمایا ہے: ''آرزو کو کم کر کے دنیا سے رہائی کی شیرینی حاصل کرو''۔(٢)

ج۔ موت کی یاد:

اسلام کے تربیتی اخلاق میں بہت کارآمد وسیلہ ہے وادی معرفت کے سالک اور محبت پروردگار کے کوچہ کے دلدادہ افراد نے موت کی یاد سے متعلق قیمتی تجربے ذکر کئے ہیں، نیز آیات وروایات میں بھی ذکر موت، تربیت اخلاقی میں ایک مفید حکمت عملی اور تدبیرکے عنوان سے مورد تاکید واقع ہواہے ۔جیسا کہ کہا گیا ہے: طولانی عمر سے استفادہ کرنے کا یقین دراز مدت آرزؤوںکے ارکان میں سے ہے جو کہ دنیا سے محبت اور ذخیرہ آخرت سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ اخلاق اسلامی اپنے بہت سے ارشادات سے ''یادمرگ '' کی نسبت اور اصل موت اور اس کے نا گہانی ہونے کے بارے میں دائمی نصیحت سے، ہمارے نفسانی رجحان کو کل کی نسبت ہمیں آمادہ کرتے ہے۔ ہماری کل کی زندگی کی امیدوں کی تصحیح کرکے ہمارے موقف اور ہماری رفتار کو آج کی نسبت بھی اصلاح کرتا ہے۔

حضرت امام محمد باقر ـ نقل فرماتے ہیں کہ لوگوںنے پیغمبر اکرم سے سوال کیا: سب سے زیادہ چالاک مومنوں میں کون ہے ؟ رسول خدا نے جواب دیا: وہ انسان جوسب سے زیادہ موت کو یاد کرے اور سب سے زیادہ خودکو موت کے لئے آمادہ کرے۔(٣)

حضرت علی ـ نے فرمایا: جب تمہارے نفوس تمہیں خواہشات اور شہوات کی جانب کھینچیں، تو موت کو کثرت سے یاد کروکیونکہ موت سب سے بہتر واعظ ہے رسول خدا اپنے اصحاب کو موت کی یاد کی بہت زیادہ تاکید فرماتے تھے اور فرماتے تھے: موت کا کثرت سے ذکر کرو، کیونکہ وہ لذتوں کو درہم برہم کرنے والی اور تمہارے اور تمہارے خواہشات کے درمیان حائل چیز ہے۔(٤)

____________________

١۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج٧٣، ص ١٦٧، ح ٣١۔

٢۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٨٥۔

٣۔ شیخ کلینی، کافی، ج٣، ص ٢٥٨ز۔

٤۔ شیخ طوسی، امالی، ص ٢٨، ح ٣١۔

۱۱۱

د۔ بلند ہمتی:

آرزؤوں کے کوتاہ کرنے اور موت کے انتظار کی ضرورت کا ذکر ہونے کے بعد ممکن ہے کہ یہ تصور پیش آئے کہ بلند آرزؤوں کا فاقد انسان، مستقبل کے لئے سعی و کوشش کا کوئی سبب اور تدبیر، دور اندیشی اور محرّک نہ رکھے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک طرف اگر چہ اسلام آرزؤوں کے کوتاہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تو دوسری طرف انسان کی امید اور بلند ہمتی کو گراں قیمت الٰہی آرزؤوں اور امیدوں کی سمت موڑ دیتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ بلند ہمت افراد کی مذمت کرتا نہیں ہے بلکہ اس کی ایک اخلاقی فضیلت بتاتا ہے اور بلند ہمتی کو خدا کی دوستی اور محبت کی طلب میں جانتا ہے، جیسا کہ حضرت امام زین العابدین ـ خدا سے مناجات کرتے وقت فرماتے ہیں: '' خدایا! مجھے روحانی جسم، آسمانی دل اور ایسی ہمت جو مسلسل تجھ سے وابستہ ہو اور اپنی محبت میں صادق یقین عطا فرما۔ ''(١) دوسری مناجات میںبیان کرتے ہیں: اے وہ ذات! جس نے عارفین کو طولِ (یا عطرِ) مناجات سے مانوس کیا اور خائفین کو ولایت و دوستی کا لباس پہنایا، کب خوش ہوگا وہ انسان جس کی ہمت تیرے علاوہ دوسرے کی طرف متوجہ ہو اور کب وہ انسان آرام محسوس کرے گا جو تیرے علاوہ دوسرے کا عزم و ارادہ رکھتا ہے۔ معلوم ہوا سعادت وکمال حاصل کرنے کی راستہ میں سعی وکوشش اور بلند ہمت کی اسلام میں نہایت تاکید کی گئی ہے کہ جس کا راستہ اسی دنیا سے گذرتا ہے اور بہت سے دنیاوی عطیوں سے استفادہ کرنا اور بہرہ مند ہونا اس تک پہونچنے کی شرط ہے۔پیغمبر اسلام ان دونوں کے درمیان (جو بظاہر متعارض ہیں) جمع کرنے کے عنوان سے فرماتے ہیں: ''اپنی دنیا کے لئے اسی طرح کام کروکہ گویا ہمیشہ زندہ رہو گے اور اپنی آخرت کے لئے اسی طرح کام کروکہ گو یا کل مر جاؤگے۔ ''(٢)

٢۔موانع

سب سے اہم موانع جو کل کی نسبت نفس کے مطلوب رجحان کے مقابل ہیں،درج ذیل ہیں:

الف۔ طولانی آرزوئیں:

دراز آرزؤویں عام طور پر آئندہ سے متعلق انسان کو غیر واقعی تصویر دکھاتی ہیں، انسان کی دنیا سے محبت اور اس کی خوشیوں میںاضافہ کرتی ہیں اور دنیاوی محبت بھی دسیوں اور سیکڑوں اخلاقی رذیلتوں کا باعث ہے جیسا کہ رسول خدا نے فرمایا: ''حب الدنیا رأس کل خطیئہ''(٣) ''دنیا سے دلبستگی تمام گناہوں کی اصل و اساس ہے۔ '' اسی بنیاد پر دراز آرزؤوں کی شدت کے ساتھ ملامت کی گئی ہے۔

____________________

١۔ صحیفہ سجادیہ، دعا ١٩٩۔٢۔ ورام بن ابی فراس، تنبیہ الخواطر، ج٢، ص٢٣٤ ؛شیخ صدوق، فقیہ، ج ٣، ص ١٥٦، ح ٣٥٦٩؛ خزار قمی، کفاےة الاثر، ص ٢٢٨؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج ٤٤، ص ١٣٩، ح٦۔ ٣۔ شیخ صدوق، خصال، ج١، ص ٢٥، ح ٨٧ ؛ حرانی، تحف العقول، ص٥٠٨۔

۱۱۲

قرآن کریم ایک گروہ کی مذمت میںفرماتا ہے: ''انہیں چھوڑ دو تاکہ کھائیں اور مزے اڑائیں اور امیدیں انھیںغفلت میں ڈالے رہیں، عنقریب وہ جان لیں گے''۔(١)

اسی طرح طولانی خواہشات انسان کو '' تسویف '' میںمبتلا کرتی ہیں یعنی انسان ہمیشہ پسندیدہ امور کو کل پر ٹالتا رہتا ہے۔ حضرت علی ـ اپنے اصحاب کونصیحت کرتے ہوئے اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''دنیا کو چھوڑ دو کہ دنیا کی محبت اندھا، بہرہ، گونگا اور بے حال بنادیتی ہے۔ لہذا جو کچھ تمہاری عمر کا حصہ باقی بچا ہے اس میں گذشتہ کی تلافی کرو اور کل اور پرسوں نہ کہو (ٹال مٹول نہ کرو) اس لئے کہ تم سے پہلے والے جو ہلاک ہوئے ہیں لمبی آرزؤوں اور آج اور کل کرنے کی وجہ سے، یہاںتک کہ اچانک ان تک فرمان خداوندی آپہنچا (انھیںموت آگئی) اور وہ لوگ غافل تھے''۔(٢)

ب۔ پست ہمتی:

پست ہمتی انسان کو بلند مقامات اور عالی اہداف و مقاصد تک پہونچنے سے روک دیتی ہے،

آئندہ کے بارے میں غور وفکر اورعاقبت اندیشی کی نوبت نہیں آنے دیتی اور صرف آج کی فکر اور وقتی فائدہ حاصل کرنے کی عادی بنادیتی ہے۔ آئندہ کی سعادت اور اس کے خوشگوا ر ہونے کی فکر کرنا اور ابھی سے کل کی مشکلات کا استقبال کرنا بلند ہمت اور عظیم روح کے مالک افراد کا ہنر ہے، اپنے مستقبل کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں روشن اور درخشاں دیکھنا اور ابھی سے مستقبل کے لئے چارہ اندیشی کرنا بلند ہمت افرادکی شان ہے۔ اس وجہ سے مستقبل کی نسبت اور آج سے کل کی اصلاح کے متعلق نفس کے پسندیدہ رجحان کے لئے ایک مانع کے عنوان سے پست ہمتی کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے۔ منجملہ ان کے حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''تین چیزیں انسان کو مقامات عالیہ اور بلند اہداف تک پہونچنے سے روک دیتی ہیں: پست ہمتی، عدم تدبیر، غور وفکر میں تساہلی۔(٣)

____________________

١۔ سورئہ حجر، آیت ٣۔

٢۔ شیخ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٣٦، ح٢٣۔

٣۔ حرانی، تحف العقول، ص٣١٨۔

۱۱۳

ہ۔ دنیوی نعمتوں کی طرف نفس کارجحان

انسان کے بہت سے اعمال ورفتاردنیا کی نسبت ان کے نفسانی رجحان سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ رجحان بہت سے نفسانی صفات اور ملکات کی پیدائش کا سر چشمہ ہے ایسا لگتاہے کہ اخلاق اسلامی میں مواہب دنیوی کی نسبت نفسانی مطلوب کا رجحان زہد کے محور پرگھومتا ہے اور وہ تمام عام مفاہیم جو اس باب میں ذکر ہوئے ہیں جیسے قناعت، عفت، حرص، طمع و حسرت وغیرہ ان سب کو زہد کی بنیاد پر بیان کیا جاسکتا ہے۔

زہد

ایک۔ زہد کا مفہوم

ارباب لغت کی نظر میں کسی چیز کی نسبت زہد اختیار کرنے کے معنی اس چیز سے اعراض اور اس سے بہت کم خوش ہونا ہے۔(١) علماء اخلاق کے فرہنگ میں '' زہد '' نام ہے دنیا سے قلبی اور عملی اعتبار سے کنارہ کشی اور اعراض کرنے کا مگر اتنی ہی مقدار میں جتنی انسان کو اس کی ضرورت ہے۔

بعبارت دیگر زہد یعنی آخرت کے لئے دنیا سے رو گردانی اور خدا کے علاوہ ہر چیز سے قطع رابطہ کرنا ہے۔ اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاً، زہد اس شخص پر صادق آتا ہے جس کے یہاںدنیا کے تحصیل کرنے اور اس سے بہرہ مندہونے کا امکان پایا جاتا ہو۔ دوسرے، دنیا سے روگرداں ہونا آخرت کی بہ نسبت دنیا کی پستی اور حقیر ہونے کے اعتبار سے۔ جب بھی دنیا کا ترک کرنا امکان تحصیل نہ ہونے کی وجہ سے ہو ( یعنی دنیا کی تحصیل کرنااس کے لئے ممکن ہی نہ ہو) یا خدا کی رضایت اور تحصیل آخرت کے علاوہ کوئی اورہدف و مقصد ہو جیسے لوگوں کی خوشنودی اور دوستی جذب کرنے کے لئے ہو یا اس کی تحصیل میں سختی اور مشقت سے فرار کرنے کی وجہ سے ہو تو اسے '' زہد '' نہیں کہا جائے گا۔(٢)

____________________

١۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ٣٨٤ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ٣، ص ١٩٦ اور ص ١٩٧۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادت، ج ٢ ص ٥٥ اور ص ٥٦۔

۱۱۴

دو۔ زہدکی اہمیت

آیات و روایات میں زہد اختیار کرنے کی نسبت جو تعبیریں وارد ہوئی ہیں نیز وہ علائم جو اس نفسانی صفات کے لئے بیان کئے گئے ہیں سب کے سب اسلام کے اخلاقی نظام میں دنیا کی نسبت اس کے بلند و بالا مرتبہ کو بیان کرنے والے ہیں ۔

جیسا کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا: ''دنیا میں زہد اختیار کرنا جسم و دل کے سکون کا باعث ہے ''۔(١) حضرت امام جعفر صادق ـ نے بھی فرمایا ہے: ''دنیا سے بے رغبتی اور بے توجہی آخرت کی جانب متوجہ ہونے کے لئے دل کی فراغت وسکون کا باعث ہے''۔(٢) خلاصہ یہ کہ پیغمبر اکرم اعلان فر ماتے ہیں: ''دنیا سے بے توجہ ہوئے بغیر تمہارے دلوں پر ایمان کی چاشنی حرام ہے''۔(٣)

تین۔ زہد کے مراتب اوردرجات

علماء اخلاق نے مختلف اعتباروں سے زہد کے انواع اور درجات ذکر کئے ہیں، اختصار کے ساتھ ہم انھیںذکر کررہے ہیں۔

١۔ زہد کے شدت و ضعف کے اعتبا ر سے مراتب:

زہد کو دنیا سے کنارہ کشی کی شدت و ضعف کے اعتبار سے تین درجوں تقسیم کرتے ہیں:

الف۔ انسان دنیا سے رو گرداں ہے اس حال میں کہ اس کی طرف مائل ہے اور حقیقت میں زحمت، مشقت اور تکلّف کے ساتھ خود کو دنیا سے دور کرتا ہے۔

ب۔ انسان خواہش، رغبت اور آسانی کے ساتھ دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے، بغیر اس کے کہ اس کی طرف کوئی میلان ہو کیونکہ اس کی نظر میں دنیا اخروی لذتوں کے مقابل حقیر و پست ہے، در حقیقت اس نے ایک ایسے معاملہ کا اقدام کیا ہے جس میں معمولی اور کم اہمیت چیز کو اس سے قیمتی جنس کی امید میں چھوڑ دیا ہے لیکن اس معاملہ سے وہ راضی وخوشنود ہے۔

____________________

١۔ شیخ صدوق ِ خصال، ص٧٣ ح ١١٤۔

٢۔ کافی، کلینی، ج ٢، ص ١٦، ح ٥۔

٣۔ کافی، ص ١٢٨، ح ٢۔

۱۱۵

ج۔ زہد کا سب سے بلند درجہ یہ ہے کہ اپنی خواہش اور شوق سے دنیا کو ترک کرے اور کبھی کسی چیز کے ہاتھ سے نکل جانے کا احساس نہ کرے۔یعنی احساس نہ کرے کہ کوئی معاملہ ہوا ہے، اسی طرح جیسے کوئی ایک مشت خاک کو چھوڑ دے تاکہ یاقوت حاصل کرے، وہ کبھی احساس نہیں کرتا کہ کوئی چیز اس نے قیمتی چیز کے مقابل گنوائی ہے اور کوئی معاملہ کیا ہے۔

٢۔ زہد کے مراتب اعراض کی جانے والی چیزوں کے اعتبار سے:

اس اعتبار سے زہد کے چند درجے درج ذیل بیان کئے گئے ہیں:

الف۔ محرَّمات سے اعراض کرنا ؛ یعنی محرَّمات سے دوری اختیار کرنا کہ جسے '' واجب زہد '' کہتے ہیں۔

ب۔ شبہوںسے اعراض کرنا اور ان کی نسبت زہد اختیار کرنا جو کہ انسان کو ارتکاب گناہ اور محرمات سے سالم رکھنے کا باعث ہیں۔

ج۔ حلال چیزوں سے ضرورت سے زیادہ مقدار کی نسبت زہد اختیار کرنا، یعنی غذا، پوشاک، رہائش، زندگی کے ساز وسامان وغیرہ میں اور ان کو حاصل کرنا کے اسباب و ذرائع جیسے مال وجاہ میں ضرورت بھر پر اکتفا کرنا۔

د۔ زہد اختیار کرنا ان تمام چیزوں کی نسبت کہ جو نفس کی لذت کا باعث ہوتے ہیں، حتیٰ کہ دنیا سے ضرورت بھرچیزوں میں بھی اس معنی میں کہ ضروری مقدار سے فائدہ اٹھانا اور فیضیاب ہونا بھی اس کی لذت کے لئے نہ ہو، نہ یہ کہ دنیا کی ضرورت بھر چیزوں کو بھی ترک کردے کہ اصولی طور پر ایسی چیز کا امکان ہی نہیں ہے۔ زہد کا یہ درجہ اور اس سے ماقبل تیسری قسم حلال میں زہد اختیار کرنا ہے۔

رسول خدا نے فرمایا: ''وہ لوگ مبارک وخوشحال ہیں جو خدا کے سامنے فروتنی کرتے ہیں اور جو کچھ ان کے لئے حلال کیا گیا ہے اس میں زہد اختیارکرتے ہیں بغیراس کے کہ وہ میری سیرت سے رو گرداں ہوں''۔(١)

ہ۔ جو کچھ خدا کے علاوہ ہے اس سے روگرداں ہونا، حتیٰ خود سے بھی، لیکن بعض اشیاء کی طرف بقدر ضرورت توجہ جیسے خوراک، پوشاک اور لوگوں سے معاشرت زہد کے اس درجہ سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ خداوند رحمان کی جانب توجہ انسان کے زندہ اور باقی رہے بغیر ممکن نہیں ہے اور انسان کی زندگی کے لئے ضروریات حیات ضروری ہیں۔

____________________

١۔ کافی، ج٨، ص١٦٩، ح ١٩٠ ۔ حرانی، تحف العقول، ص٣٠۔ اسی طر ح ملاحظہ ہو صدوق، فقیہ، ج٤، ص ٤٠٠، ح ٥٨٦١، اور تفسیر عیاشی، ج٢، ص٢١١، ح٤٢۔

۱۱۶

جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق ـ سے منقول ہے: ''زہد جہنم سے برائت اور جنت کے دروازہ کی کنجی ہے اوروہ ہر اس چیز کا ترک کرنا ہے جو انسان کو خداسے غافل کردے، دنیا کے گنوادینے پر افسوس نہ کرنا اور اس کے ترک کردینے پر خود پسندی میں مبتلانہ ہونا ہے''۔(١) حضرت علی ـ زہد کی تعریف کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ''سارا زہد قرآن کے دو کلموں میں جمع ہے، خدا وند سبحان نے فرمایا ہے: ''تاکہ جو کچھ تمہارے ہاتھوںسے چلا ہو گیا ہے اس پر افسوس نہ کرواور جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے اس پر شادمان اور مسرورنہ ہو''(٢) اور جو شخص گذشتہ پرافسوس نہ کرے اور آئندہ پر مسرور نہ ہو تو اس نے دو طرف سے زہد اختیا ر کیا ہے''۔(٣)

٣۔زہد کے مراتب اس چیز کے اعتبار سے کہ انسان جس کی طلب میں دنیا سے روگرداں ہو تا ہے:

اس وجہ سے زہد کے درج ذیل تین درجے ہیں:

١۔ خدا ترس لوگوں کا زہد: انسا ن آتش جہنم سے نجات اور اخروی عذاب سے بچنے کے لئے دنیا سے روگرداں ہوتا ہے۔

٢۔ امید واروں کا زہد: یعنی دنیا سے اس امید میں رو گرداں ہونا کہ خدا کا ثواب اور جنتی تعمتیں حاصل ہوں۔

٣۔ عرفاء کا زہد: نہ ہی درد والم کی طرف توجہ رکھتا ہے تاکہ اس سے نجات طلب کرے اور نہ ہی لذتوں کی اعتناء کرتا ہے تاکہ ان سے فیضیابی کا طالب ہو۔ بلکہ صرف اور صرف خدا سے ملاقات اور اس کے دیدار کااشتیاق رکھتاہے۔ ایسا زہد صرف اہل معرفت کی شان ہے ۔(٤)

جو کچھ زہد کی تعریف اور اس کے درجات کے سلسلہ میں کہا گیا ہے اس کے اعتبار سے معلوم ہوتاہے کہ دنیا سے مرادصرف مال و ثروت، خوراک وپوشاک نہیں ہے، کیونکہ ان تمام امور سے اعراض ایسے افراد کے لئے جو شہرت کے طالب اورپارسائی کی تعریف کو دوست رکھتے ہیں۔ بہت آسان ہوجائے گا بلکہ دنیا تمام مرتبہ وریاست نیز وہ تمام نفسانی استفادے جو دنیا سے ممکن ہیں سب کو شامل ہے۔ حقیقی زہد یعنی مال و مرتبہ سے بے تعلق ہونا اوراس سے روگرداں ہونا ہے۔ سچا زہد وہ ہے جس کی نظر میں فقر و غنا، تعریف و برائی، عزت وذلت جو لوگوں کے نزدیک پائی جاتی ہیں، سب یکساں ہوں، اور و ہ صرف محبت خداوندی اور رضائے الہی کا طالب ہو ۔

____________________

١۔ گیلانی، عبدالرزاق، مصباح الشریعة، ص ١٣٧۔

٢۔ بقرہ ٢٣٧۔٣۔ نہج البلاغہ حکمت ٤٣٩ اسی طرح ملاحظہ ہو: کافی، ج٢، ص ١٢٨، ح٤۔ شیخ صدوق، امالی، ص ٧١٤، ح ٩٨٤ ۔ خصال، ص٤٣٧، ح ٢٦۔

٤۔ نراقی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٦٥ تا ص ٧٤ ۔فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضا ئ، ج٧، ص ٣٥٧ تاص٣٦٤۔

۱۱۷

چار۔ زہد کے علائم

زہد کے بعض اہم علائم کہ جو اپنی جگہ پر خود بھی ایک عام اخلاقی مفہوم ہیں، درج ذیل ہیں۔

١۔ قناعت:

عربی ادب میں بخشش کی معمولی مقدار پر راضی ہونے(١) اور اپنے سہم پر رضایت دینے کے معنی میںہے(٢) اخلاق اسلامی کے مشہور مآخذ میں '' قناعت '' '' حرص '' کے مقابل استعمال ہوئی ہے اور اس سے مراد وہ نفسانی ملکہ ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی ضرورت بھر اموال پر راضی اور خوش رہتا ہے اور خود کو اس سے زیادہ کی تحصیل کے لئے زحمت و مشقت میں مبتلا نہیں کرتا۔(٣) قناعت کے خود بہت سے مفید علائم ہیں اور دوسری طرف بہت سے اخلاقی رذائل بلکہ حقوقی جرائم سے بچنے کا ذریعہ ہے، اسی وجہ سے اسلام کے اخلاقی نظام میں اس کی تشویق وترغیب کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوا: ''اور خبر دار ہم نے ان میں سے بعض لوگوں کو جو زندگانی دنیا کی رونق سے مالا مال کردیا ہے اُس کی طرف آپ نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں کہ یہ اُن کی آزمائش کا ذریعہ ہے اور آپ کے پروردگار کا رزق ہی بہتر اور پائدا رہے''۔(٤) حضرت علی ـ قناعت کی اہمیت کے بارے میںفرماتے ہیں: '' میں نے تونگری تلاش کی لیکن اسے قناعت کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا۔ لہٰذا قانع رہو تاکہ مالدار و تونگر ہو جائو ''(٥)

قناعت نہ یہ کہ صرف خود اخلاقی فضیلت ہے، بلکہ بہت سے اخلاقی اقدار کی حامل ہے۔ امام علی رضا ـ سے جب کسی نے قناعت کی حقیقت کے بارے میںسوال کیا تو آپ نے جواب میں اس کے علائم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ''قناعت اپنی ضبط نفس، عزّت وبلندی، حرص وطمع کی زحمت سے آسودہ ہونے اور دنیا پرستوں کے مقابل بندگی کا باعث ہے۔ دوانسان کے علاوہ کوئی قناعت کا راستہ طے نہیں کرسکتا ہے: ایسا عبادت گذار جو آخرت کی اجرت کا خواہاں ہے، یا ایسا بزرگ و شریف انسان جو پست لوگوں سے دوری اختیار کرتا ہے۔(٦)

____________________

١۔ ابن اثیر، نہاےة، ج٤، ص ١١٤۔ ٢۔ ابن منظور، لسان العرب، ج ٨، ص ٢٩٨۔

٣۔ نراقی، مولی محمد مہدی، جامع السعادات، ج٢، ص ١٠١۔ ٤۔ سورۂ طحہٰ: آیت ١٣١۔

٥۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج ٦٩، ص ٣٩٩، ح ٩١۔ ٦۔ بحار الانوار، ج٧٨، ص ٣٤٩، ح٦۔

۱۱۸

درحقیقت انسان دنیا میں قناعت اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رکھتا ورنہ وہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی حرص و ہوس اور حسرت و یاس کی آگ میں جلتا رہے گا۔ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق ـ سے شکوہ کیا کہ روزی حاصل کرتا ہے لیکن قانع نہیں ہوتا اور اس سے زیادہ کا خواہش مند رہتا ہے اور اس نے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیے جس سے میری مشکل حل ہوجائے توحضرت نے فرمایا:'' اگراس قدر جو تیرے لئے کافی ہو اور تجھے بے نیاز کردے تو دنیا کی تھوڑی سی چیز بھی تجھے بے نیاز کر دے گی اور اگر جو کچھ تیرے لئے کافی ہے وہ تجھے بے نیاز نہ کر سکے تو پھر پوری دنیا بھی تجھے بے نیاز نہیں کر سکے گی''۔(١)

لیکن کس طرح قناعت کو اختیار کیا جا سکتا ہے ؟ عام طریقوں کے علاوہ بعض خاص طریقے بھی ذکر کئے گئے ہیں، منجملہ ان کے حضرت امام جعفر صادق ـ اس سلسلہ میںراہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''اپنے سے کمزور تر انسان کو دیکھو اور اپنے سے مالدارتر کو نہ دیکھو، کیونکہ یہ کام تمہیں اس چیز پر جو تمہارے لئے مقدر کیا گیا ہے، قانع کردے گا''۔(٢)

٢۔لوگوں کے اموال سے بے نیازی اور عفت:

عربی ادب میں '' عفّت '' نا پسند امور اور شہوتوں کے مقابل صبر وضبط کرنے کو کہتے ہیں ۔(٣)

جنسی عفّت اور کلام میں عفّت کے علاوہ عربی ادب اور دینی کتابوں میں دوسروں سے اظہار درخواست کرنے سے پرہیز کرنے کو بھی عفّت کہتے ہیں۔(٤) دنیا میں زہد کے علائم میں سے ایک علامت لوگوں کے اموال سے بے نیازی اور عفّت اختیار کرنا ہے، قرآن کریم ایسے صاحبان عفّت کے بارے میں فرماتا ہے: یہ صدقہ ''ان فقرائ'' کے لئے ہے جوراہ خدا میںگرفتار ہوگئے ہیں اور وہ( اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لئے ) زمین میں سفر نہیں کر سکتے، ان کی حیا وعفّت کی بنا پر ناواقف شخص انھیں تونگراور مالدار خیال کرتا ہے، حالانکہ انھیںتم ان کی علامتوں سے پہچان لوگے، اصرار کے ساتھ وہ لوگوں سے کوئی چیز نہیں مانگتے''۔(٥)

____________________

١۔ شیخ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٣٩، ح ١٠۔

٢۔ کافی، ج٨، ص ٢٤٤، ح ٣٨٨۔

٣۔ ابن فارس، مقاییس اللغة، ج ٤، ص ٣۔

٤۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٩، ص ٢٥٣، ملاحظہ ہو۔

٥۔ سورئہ بقرہ، آیت ٢٧٣۔

۱۱۹

حضرت امام جعفر صادق ـ لوگوں سے بے نیازی اختیار کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں: ''مومن کا شرف تہجّد سے اور اس کی عزّت لوگوں سے اس کے بے نیاز رہنے میں ہے''۔(١) اور حضرت علی ـاس بات کے بیان میں کہ لوگوں سے بے نیازی کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ان سے معاشرت اور راہ و رسم نہ رکھی جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے مغائرت نہیں رکھتی فرمایا ہے:'' تمہارے دل میںلوگوں سے بے نیازی اور ان کی ضرورت و نیاز دونوں ہی ہونی چاہیے ان کے ساتھ تمہاری نیاز اور ضرورت تمہاری نرم کلامی اور خوشروئی میں ہے اور تمہاری بے نیازی آبرو کی حفاظت اور عزت کے باقی رہنے میں ہے''۔(٢) بے شک مالی امور میں یہ بے نیازی اور عفّت زہد اور دنیا سے قطع تعلق ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔

پانچ۔ زہد اختیار کرنے کے موانع

انسان کی پارسائی اور زہد اختیارکرنے کے مقابل دو بنیادی رکاوٹیں پائی جاتی ہیں:ایک اس کا دنیا سے محبت کرنا اور دوسرے اس سے بے فیض ہونا اور قطع رابطہ کرنا، تمام مفاہیم جیسے حرص، طمع درحقیقت دنیاوی محبت کے علائم میںشمار ہوتے ہیں اور دنیا طلبی کے نتائج کے عنوان سے مورد بحث واقع ہو تے ہیں۔

١۔دنیاکی محبت:

زہد کا مفہوم اور اس کی اہمیت کی توضیح کے موقع پر ایک حد تک دنیا کا مفہوم بھی آشکار ہوگیا اور اس کی مذمت میں آیات و روایات بیان کی گئیں، اب دنیا طلبی کہ جو زہد اختیار کرنے سے مانع ہے اس کے علائم اختصار کے ساتھ بیان کئے جائیں گے۔

بے شک اسلام کے اخلاقی نظام میں دنیا ہمیشہ مذمو م نہیں ہے بلکہ اہمیت اور تعریف کے قابل بھی ہے۔ دنیا ان تمام چیزوں کو شامل ہے جو انسان کے بہرہ مند ہونے کا باعث ہیں، اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور مقاصد کی تکمیل کا باعث ہیں۔ یہ لذتیںاور استفادے ہمیشہ برے نہیں ہیں، بلکہ اچھے نتائج کے بھی حامل ہیں۔

''مذموم دنیا'' سے مراد وہ زود گذر استفادے ہیں جو نہ خود اخروی عمل صالح ہیں اور نہ اخروی عمل صالح کے لئے وسیلہ ہیں۔ نتیجہ کے طور پر مذموم دنیا حرام طریقہ سے لذ ت جوئی اور عیش و عشرت اور جو حلال چیزوں سے ضرورت و لازم مقدار سے زیاد ہ مالا مال ہونے کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے۔(٣)

____________________

١۔ شیخ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١٤٨، ح١۔٢۔ کافی، ج٢، ص١٤٩، ح٧۔

٣۔ محمد مہدی ، نراقی جامع السعادات، ج٢، ص ١٧، ٣٥۔

۱۲۰

یہ وہی دنیاہے جس کی مذمت میں خدا وند سبحان نے فرمایا ہے: ''گونا گوں اور رنگا رنگ خواہشات کی دوستی یعنی عورتیں، اولاد، کثیر اموال سونے چاندی سے، علامت والے (تندرست) گھوڑے، چوپائے اور کھیتیاں یہ سب لوگوں کے لئے آراستہ کر دی گئی ہیں، (لیکن) یہ سب دنیاوی زندگی کے استفادہ کا ذریعہ ہیں۔(١)

بعض آیات میں ہوائے نفس کے عنوان کے تحت مذموم و نا پسند دنیا سے مخا لفت کی ترغیب دلائی گئی ہے۔(٢)

قرآن اس کی حقیقت کی تو ضیح دیتے ہوئے فرماتا ہے:'' جان لو کہ دنیاوی زندگی در حقیقت صرف کھیل کود، تماشہ، آرائش، آپس میں فخرو مباہات اور اولاد واموال میں زیادتی کے مقابلہ کا نام ہے''۔(٣) سر انجام جو اپنی دنیوی زندگی کا دنیا سے سوداکرتے ہیں، قیامت میں ان سے کہا جائے گا: ''اب اسی میں ذلّت کے ساتھ پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔(٤) ''یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کو دے کر دنیوی زندگی خرید لی ہے لہذا نہ ان کا عذاب کم ہوگا اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی''۔(٥)

اس دنیا اور اس کے ناگوار علائم کے بارے میں، جو کہ دنیا وآخرت میں ہوں گے، روایات کثرت سے پائی جاتی ہیںاور ان کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ بعض میں یہ توہم ہوتا ہے کہ گو یا اسلامی اخلاق میں دنیاوی چیزوں کی ہمیشہ مذمت ہی کی گئی ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ ہم ان روایات میں سے انھیں پر اکتفا کریں گے جو زہد کی بحث میں بیان کی جاچکی ہیں۔

ممدوح دنیا نام ہے اس سے اتنا ہی استفادہ کرنا جتنا اپنی بقائ، خدا کی عبودیت اور اعمال صالحہ انجام دینے کے لئے لازم ہے۔ یہ حقیقت میں تحصیل آخرت کا مقدمہ ہے۔ اس طرح کی دنیا اسلامی اخلاق میں قابل ستائش واقع ہوئی ہے اور انسانوں کو اس کی تحصیل اور اس سے بہرہ مندہونے کی ترغیب اور تشویق دلائی گئی ہے۔

بہت سی روایات میں دنیا و آخرت کے خیر کو بہت سے نیک اعمال کے نتیجہ کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے(٦)

____________________

١۔ آل عمران، ١٤ ؛ منافقون، ٩ ؛انفال ٢٨ اور کہف ٤٧۔

٢۔ نازعات ٤٠۔

٣۔ حدید ٢٠۔

٤۔ مومنون ١٠٨۔

٥۔ بقرہ ٨٦۔

٦۔ کلینی ، کافی، ج٢، ص ٤٩٩، ح ١۔ اور ص ٧١، ح ٢۔ اور ج ٥، ص ٣٢٧، ج ٢ ۔ صدوق، خصال، ص ٤٢، ح ٣٤۔

۱۲۱

بہت سی دعاؤ ں میں ہمیشہ اولیاء خداکا مطلوب یہی رہا ہے۔ جیسا کہ خدا وندعالم قرآن مجید میںارشادفرماتا ہے: ''مومنین کی درخواست یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: '' خدا یا ! ہمیں اس دنیا میں بھی نیکی اور آخرت میں بھی نیکی عطا کر''۔(١) اس میں شک نہیں کہ خیر دنیا سے مراد وہی ممدوح اور پسندیدہ دنیا ہے اس کے مصادیق کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ بعض روایات میں ان کی طرف اشارہ ہوا ہے۔حضرت علی ـ ممدوح اورپسندیدہ دنیا کی ستا ئش میں فرماتے ہیں: ''دنیا مومن کی سواری ہے جس پر سوار ہو کر وہ خداوند سبحان کی طرف سفر کرتا ہے، لہٰذا اپنی سواریوں کو آمادہ (اصلاح) رکھو تاکہ وہ تمہیں تمہارے رب کی جانب پہنچادیں''۔(٢)

متعدد روایات میں مذکورہے '' جو انسان اپنی معیشت اور اپنے اہل و عیال کی دنیا اصلاح کرنے کے لئے حلال طریقہ سے کوشش کرے تو وہ راہ خدا میں مجاہد کے مانند ہے ''۔(٣)

دنیا کی محبت کی نشانیاں:

دنیا کی محبت کی اہم نشانیاں میں جو ایک مانع کے عنوان سے انسان کے زہدکے مقابل ہے وہ حرص وطمع ہے جس کو اختصا رکے ساتھ بیان کررہے ہیں۔

الف۔ دنیا کی حرص:

عربی لغت میں ''حرص '' محبوب و مطلوب چیز کی طلب میں شدید خواہش وارادہ ہوتا ہے۔(٤) نیکی کے حصول میںحرص کرنا ممدوح اورپسندیدہ ہے جیسا کہ رسول اکرم نے واقعی توبہ کرنے والوں کی خصوصیات میں نیکیوں اور خیرات پر حریص ہونا جانا ہے۔(٥) متعدد روایات میں علم حاصل کرنے(٦) ، فقاہت(٧) ، نیک اور پسندیدہ اعمال انجام دینے(٨) ، راہ خدا میں جہاد کرنا(٩) ، ١خروی درجات(١٠) حاصل کرنے اور ان کے مانند دوسری چیزوں ہیں حریص ہونے کی ستائش ہوئی ہے۔

____________________

١۔ سورئہ بقرہ، آیت ٢٠١۔ ٢۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ٢٠، ص ٣١٧، ح ٦٤٠۔٣۔ شیخ کلینی، کافی، ج ٥، ص ٩٣، ح٣۔ ص٨٨، ح٢ ۔ حرانی، تحف العقول، ص ٤٤٥۔ ٤۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٧، ص١١۔راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن، ص ٢٢٧، ٢٢٨ ملاحظہ ہو۔

٥۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٢۔ ٦۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٣ ۔ حرانی، تحف العقول، ص ١٦٠۔٧۔ شیخ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١ ٢٣، ح٤ ملاحظہ ہو۔

٨۔ شیخ صدوق، خصال، ص ٥١٥، ح ١۔٩۔ شیخ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٢٣١، ح ٤ ملاحظہ ہو۔ ١٠۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٨٦۔

۱۲۲

دنیا کا حریص ہونا ناپسندیدہ صفات اور زہد کے موانع میں سے ایک مانع ہے۔ اسی بنیادپر متعدد آیات وروایات میں اس کی شدت سے مذمت کی گئی ہے اور اس کے نقصان دہ اثرات مختلف پہلوئوں سے بیان کئے گئے ہیں۔ حریص انسان کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ کبھی سیر نہیں ہوتا ہے۔ حرص کا اہم ترین نمونہ روایات معصومین(ع) کی روشنی میں علماء وحکماء کی حرص اور محرمات کے انجام دینے کی حرص ہے۔ سب سے اہم حرص کا سبب موت کو بھلادینا اور دنیا کی محبت ہے۔ ذلت وخواری، حیا و انسانیت کو ترک کرنا، گناہوںمیںڈوب جانا، انجام و عاقبت کو تباہ وبرباد کردینا دنیا کی حرص کے اہم ترین میں سے ہیں ۔ توکل، قناعت اور موت کی یاد کو دنیاکی حرص کے علاج کا بہترین وسیلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

ب۔ طمع اور لالچ :

عربی لغت میں طمع کسی شے سے متعلق(١) شہوت وخواہش نفس کے ساتھ اشتیاق کے مفہوم کو کہتے ہیں، علماء اخلاق کی نظر میں طمع سے مراد ہے لوگوںکے اموال کی خواہش اور لالچ کرنا۔(٢) حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''مومن کے لئے کتنی بری بات ہے کہ وہ ایسی چیز کی خواہش اور دلچسپی پیدا کرے جو اسے ذلیل و خوار کردے''۔(٣) حضرت امام زین العابدین ـ دوسرے کی چیزوں سے انسان کی طمع کے قطع کرنے کی ترغیب و تشویق کے متعلق فرماتے ہیں: '' میں تمام خیر کو لوگوں کے پاس موجود چیزوں سے قطع طمع کرنے میں دیکھتا ہوں''۔(٤) ( یعنی اگر انسان تمام خیرکو جمع کرنا چا ہتا ہے تو لوگوں کے پاس موجود چیزوں سے چشم پوشی کرے اور اس پر نظر نہ جمائے)۔ اس وجہ سے طمع اور لالچ بہت سے اخلاقی رزائل کا سرچشمہ ہے جیسے ذلت وخواری، پستی، حسد اور جلن، کینہ توزی، بد گوئی۔ محبت دنیا کے دیگر علائم میں ایک حسرت وافسوس ہے اور یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان کو دنیا حاصل نہیں ہوپاتی ہے۔

۲۔ خمود:

خمود سے مراد زندگی کے لئے ضروری کسب معاش میں سستی و تفریط کرنا نیز جنسی اور تمام لذتوںسے بہرہ مند ہونے میں بے رغبتی، عدم دلچسپی اور سستی کرنا ہے ۔(٥) جس طرح دنیا کی محبت اور اس سے دلبستگی زہد کی راہ میںمانع محسوب ہوتی ہے اسی طرح حد سے زیادہ ضروریات زندگی کی لازم مقدار پورا کرنے اور دنیوی مواہب اور عطیوںسے استفادہ کرنے میں سستی کرنا دنیا کی نسبت صحیح موقف کی راہ میں ایک مانع ہے۔ جو آیات وروایات ممدوح اورپسندیدہ دنیا کے بارے میںبیان کی گئی ہیںوہ سب زندگی کی ضروری چیزوں کے حصول سے متعلق سستی اور خمود کا مظاہرہ کرنے کی مذمت پر دلالت کرتی ہیں۔

____________________

١۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن، ص ٢١٦۔ ٢۔ نراقی، مولی محمد مہدی، جامع السعادات، ج٢، ص ١٠٦۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٣٢، ح ١۔ ٤۔ ایضاً، ج٢، ص ٣٢٠، ح ٣۔ ٥۔ نراقی، مولی محمد مہدی، جامع السعادات، ج٢، ص ١٣، ١٥۔

۱۲۳

و۔ دوسروں کی نسبت نفس کا رجحان

ہمارے خیال میں دوسروں کی نسبت انسان کے نفسانی مطلوب رجحان کو اللہ کی دوستی اور دشمنی کے محو ربیان کیا جاسکتا ہے '' حب فی اللہ '' اور '' بغض فی اللہ '' یہ دونوں ایسے مفاہیم ہیں جو اسلامی کتابوں کے اندر شدت کے ساتھ مورد تاکید واقع ہوئے ہیں اور دراصل دوسروں کی نسبت ہمارے دراز مدت موقف اور ہماری حکمت عملی کی تعیین کرتے ہیں۔ اسی سے اس حصہ کے مطالب انھیںدو عنوان کے تحت بیان کئے جائیںگے اور دیگر وہ تمام مفاہیم جو دوسروں سے متعلق ایک طرح سے نفسانی رجحان کو بیان کرتے ہیں ان کو ان دونوں کے توابع اور ملحقات کے عنوان سے بیان کریں گے۔

١۔ خدا وندعالم کی محبت

ایک۔دیگر دوستی کی حقیقت اور اس کے اقسام

علماء اخلاق نے دیگر دوستی (دوسروں کو دوست رکھنے) کے لئے چار صورتیں بتائی ہیں کہ پہلے ان کے بارے میںبیان کر یں گے پھر ان کی پسند شکلوں کو واضح کریں گے۔

١۔ انسان کا اپنے لئے دوسروںسے محبت کرنا نہ اس لئے کہ وہ محبوب تک رسائی کے لئے ایک راہ ہے۔ چونکہ خود اسے قابل دوستی اور صاحب کمال و جمال محسوس کرتا ہے اور اس کے دیدار سے لذّت حاصل کرتا ہے لہٰذا اسے دوست رکھتا ہے۔

کبھی اس طرح کی دوستی ایک قسم کی محض و باطنی ہم آہنگی کی وجہ سے بھی ہوتی ہے بغیراس کے کہ کوئی خوبصورتی اور کمال معلوم ہو۔ اس طرح کی دوستی کے مخفی اسرار کا کشف کرنا معمولی انسان کے بس سے باہر ہے، کہا گیا ہے: پیغمبر اکرم نے اس طرح کی دوستی کی طرف جو کہ مخفی ارتباط سے ہوتی ہے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:'' ارواح مثل لشکر کے ہیں، ان میں سے جو ایک دوسرے کو پہچانتی ہیں وہ باہم مانوس ہوتی ہیں اور جوایک دوسرے کو نہیں پہچانتیں وہ ایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں ''۔(١)

____________________

١۔ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٣٨٠، ح ٥٨١٨ ؛ اعتقادات، ص ٤٨ ؛ جامع الاخبار، ص ٤٨٨، ح ١٣٥٩ ؛ علل الشرائع، ص ٨٤، ح١۔

۱۲۴

اس طرح کی دیگردوستی خدا وند سبحان کی دوستی میں شمار نہیں ہوتی لیکن خود بخود مذموم اور بری بھی نہیں ہے، بلکہ انسان کی نفسانی خواہشات میںسے ایک ہے لیکن اگر مذموم اور نا پسند مقصد تک پہونچنے کا ذریعہ ہوتو خود بھی مذموم اور قابل ملامت ہوجائے گی۔

٢۔ ایسے محبوب تک رسائی کے لئے وسائل و ذرائع کے عنوان سے انسان کا دوسرے کو دوست رکھنا کہ جو اس کے لئے دنیاوی فوائد اور منافع رکھتا ہے، کیونکہ انسان ان وسائل و آلات جو اسے محبوب تک پہونچاتے ہیں عشق کرتا ہے۔ واضح ہے کہ اس طرح کی دوستی بھی خدا کی محبت شمار نہیں ہوتی۔

٣۔ دوسرے کودوست رکھنا ایک ایسے وسیلہ کے عنوان سے جو اسے ایسے ہدف تک پہونچا ئے کہ وہ ہدف اس کے لئے آخرت کے مثبت فوائد کاحامل ہو، جیسے وہ محبت جو اپنے استاد سے راہ حق کاسالک رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کا ہدف سعادت اخروی کا حصول ہے اور معلم ایسا وسیلہ ہے جو اسے اس ہدف تک راہنمائی کرتا ہے

اسی طرح ہے وہ محبت بھی جو معلم اپنے شاگردوںسے رکھتا ہے، کیونکہ شاگردوں کے وجود کے واسطہ سے وہ استاد کے کمال و مرتبہ تک پہونچا ہے اور اس مرتبہ کو پا کر حضرت عیسیٰ ـ کے بقول ''اس کی بزرگی کا تذکرہ ملکوت اعظم میں ہوتا ہے''(١) بلکہ کلی طور پر ہر اس انسان کی دوستی جس کے علم وفن، صنعت وہنر، کام کاج اور عمل کے ذریعہ انسان خدا کے نزدیک ہوتا ہے جیسے ایسے لوگوں کو دوست رکھنا جو انسان کی دنیوی ضرورتوں کو فراہم کرتے ہیں تاکہ ان سے استفادہ کر کے اپنے اخروی و دنیوی اہداف تک پہنونچ سکیں، بے شک یہ تمام دیگر دوستی خدا کی دوستی محسوب ہوتی ہے۔

٤۔ دوسروں سے صرف خداکے لئے محبت کرنا، نہ اس لئے کہ اس کے علم و عمل سے فا ئدہ اٹھا ئے گا یا اسے کسی دوسرے ہدف تک پہونچنے کے لئے وسیلہ قرار دے گا، بلکہ اس لئے کہ وہ خدا سے ایک نسبت رکھتا ہے، وہ عام نسبت ہو جیسے یہ کہ وہ خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ ہے یاخاص نسبت جیسے یہ کہ وہ خدا کا سچا اور واقعی دوست اور اس کا مقرب اور راہ خدا میں خدمت گذار ہے۔ اس کی محبت کی شدت کے نتائج نیز اس کے عالی مراتب سے میںیہ ہے کہ محبت اساسی طور پر محبوب سے متعلق تمام چیزوں تک سرایت کرجاتی ہے ( یعنی انسان محبوب کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق چیزوں کو بھی دوست رکھنے لگتا ہے ) خواہ رابطہ اور نسبت دور ہی کی کیوں نہ ہو۔ جیسے جو انسان کسی دوسرے سے شدید محبت کرتا ہے وہ ان لوگوں کو بھی دوست رکھتا ہے جو اس کے محبوب کو دوست رکھتے ہیں، اس کی خدمت کرتے ہیں، اس کی تعریف توصیف کرتے ہیں یا اس کے محبوب کے محبوب ہیں۔(٢)

____________________

١۔ ابوفراس، تنبیہ الخواطر، ج١، ص ٨٢۔ ٢۔ نراقی، مولی محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٨٤تا ١٨٧۔

۱۲۵

دو۔خداسے محبت کرنے کی فضیلت

اسلامی اخلاق میں خدا کی محبت بلند مرتبہ کی حامل ہے اور اس کی کثرت سے تاکید کی گئی ہے اور اس کے لئے دنیا اور آخرت میں بہت سے علائم بیان کئے گئے ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''ایک دن پیغمبر اکرم نے اپنے اصحاب سے سوال کیا: ''ایمان کی دستا ویزوںمیں سے کونسی زیادہ محکم و مضبوط ہے '' انہوں نے جواب دیا: خدا اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ ا ن میں سے بعض نے کہا: نماز۔ کچھ نے کہا: زکات۔ کچھ نے کہا: روزہ۔ کچھ نے کہا حج و عمرہ اور بعض نے جہاد کوسب سے محکم خیال کیا۔ رسول خدا نے فرمایا: ''ان سب کی فضیلت ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی محکم ترین نہیں ہے بلکہ محکم ترین ایمان کی د ستاویز خدا کے لئے دوستی کرنا اور اسی کے لئے دشمنی کرنا، خدا کے دوستوں کو دوست رکھنا اور اس کے دشمنوں سے دشمنی اور بیزاری کرناہے'' ۔(١)

حضرت امام محمد باقر ـ انسان کے خیر و صلاح سے استفادہ کی علامت خدا کے لئے دوستی کو جانتے تھے، جیسا کہ آپ فرماتے ہیں:'' جب تم جاننا چاہو کہ تم میں کوئی خیر پایا جارہا ہے تو اپنے دل کی طرف نگاہ کرواگر خدا کی اطاعت کرنے والے کو تم نے دوست رکھا اور اہل معصیت وگناہ کو دشمن توتم میں خیر ہے اور خدا بھی تم کو دوست رکھتا ہے لیکن اگر خدا کی اطاعت کرنے والوںکو دشمن اور خدا کی معصیت کرنے والوں کو دوست رکھا تو تم میں خیر کا وجود نہیں ہے نیز خدا بھی تمہیں دشمن رکھتا ہے، انسان( کا حساب و کتاب) اسی کے ساتھ ہے جسے وہ دوست رکھتا ہے''۔(٢)

آخرت میں خدا کی محبت کے علائم بارے میں حضرت امام زین العابدین ـ فرماتے ہیں: ''جب خدا وندعالم اولین سے لے کر آخرین تک تمام انسانوںکو جمع کرے گا تو ایک آوازلگانے والا اٹھے گا اور ایسی آواز سے کہ سب سن سکیں گے آواز لگائے گا: '' کہاں ہیں وہ لوگ جو خدا کے لئے دوستی کرتے تھے؟'' تو لوگوں کا ایک گروہ اٹھے گا اور ان سے کہا جائے گا : بغیر حساب و کتاب کے تم لوگ جنت میں داخل ہوجاؤ ''۔(٣) خدا وند عالم سے دوستی اور دشمنی کی اہمیت و منزلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ متعدد روایات میں ایمان کی ساری حقیقت خدا کی دوستی اور دشمنی میں خلاصہ کی گئی ہے۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٢٥، ح ٢ ؛ برقی، محاسن، ج١، ص ٤١١ ؛مجلسی، بحار الانوار، ج ٦٩، ص ٢٤٢، ح ١٧۔

٢۔ ایضاً، ج ٢، ص ١٢٦، ح ١١ ؛ بر قی، محاسن، ج١، ص ٤١٠، ح ٩٣٥۔

٣۔ ایضاً، ج ٢، ص ١٢٦، ح ٨ ؛ بر قی، محاسن، ج١، ص ٤١٢، ح ٩٤٠۔

۱۲۶

جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق ـکا ایک صحابی آپ سے سوال کرتا ہے:'' آیا دوستی اور دشمنی ایمان میں شمار کی جائے گی ؟ امام نے جواب دیا: ''کیا ایمان دوستی اور دشمنی کے علاوہ کوئی اورچیز ہے ؟ ''(١)

تین۔خدا سے محبت کرنے کی نشانیاں

ان میں سے بعض نشانیاں جو خود نفسانی صفات اور بہت سے گراں قیمت اور اہم اخلاقی نشانیاں نتائج کا سر چشمہ ہیں، درج ذیل ہیں:

١۔ نصیحت اور خیرخواہی:

نصیحت و خیر خواہی ''حقد '' (کینہ) اور حسد( جلن) کے مقابلہ میں ہے اوراس سے مراد یہ ہے کہ انسان اللہ کی نعمتوں سے دوسروں کے استفادہ کی نسبت راضی و خوشنود ہواور ان پر بلا اور مصیبت کا نازل ہونا اس کے لئے ناگوارہو۔ اس خیر خواہی کا لازمہ یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو اس بات کی طرف جس میں ان کے لئے خیر و صلاح ہے ہدایت کرے۔ حضرت امام جعفر صادق ـ پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ''لوگوں میں سب سے زیادہ خداکے نزدیک قیامت کے دن عظیم انسان وہ ہے جو خلق کی خیر خواہی میں دوسرے افرادسے زیادہ قدم اٹھائے''۔(٢) اسی طرح پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے:'' لوگوںمیںسب سے زیادہ عبادت گذار وہ انسان ہے جس کا دل تمام مسلمانوںکی نسبت سب سے زیادہ پاک و صاف ہو''۔(٣) جب رسول خدا سے لوگوں کی نصیحت اور خیر خواہی کی علامت کے بارے میں پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: ''خیر خواہ انسان کی چار علا متیں ہیں: حق کے ساتھ فیصلہ کرنا اور اپنا حق دوسروں کو بخشنا، لوگوں کے لئے وہی پسند کرنا جو اپنے لئے پسند کرتا ہو، حق کے واسطے کسی کے ساتھ دست درازی نہ کرنا''۔(٤) دراصل چاروں علامتوں کو تیسری علامت میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی بنیاد پر حضرت علی ـفرماتے ہیں: ''انسان کی خیر خواہی میں اتنا ہی کافی ہے کہ جو کچھ وہ اپنے لئے پسند نہیں کرتا دوسروں کو بھی اس سے روکتا ہو''۔(٥)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٢٥ ح ٥۔ اسی طرح ملاحظہ ہو کافی، ص١٢٧ ح ١٦ ؛ تفسیر عیاشی، ج١، ص ١٦٧، ح ٢٥۔

٢۔ کلینی، کافی، ج٢، ص ٢٠٨ ،ح ٥۔

٣۔ ایضاً، ص ١٦٣، ح٢۔

٤۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٠۔

٥۔ اردبیلی، ابولفتح، کشف الغمہ، ج٣، ص١٣٧، ١٣٨۔

۱۲۷

٢۔مومنین سے حسن ظن:

حسن ظن، انصاف، کرم وبخشش اور مروت جیسے مفاہیم کا بھی خدا وندعالم کی محبت کے علائم کے عنوان سے ذکر کیا جاسکتا ہے لیکن چونکہ یہ فضیلتیں حقیقت میںنصیحت اور خیر خواہی کی نشانی میں شمار ہوتی ہے لہٰذا حسن ظن کی طرف اشارہ کو اس مختصر کتاب میںکافی سمجھتے ہیں۔ مومنین سے بد گمانی کی مذمت میں قرآن کریم فرماتا ہے: '' اے صاحبان ایمان، بہت سے گمانوں سے پرہیز کروکیونکہ کچھ گمان گناہ ہیں''۔(١) واضح ہے ان گمانوں سے مراد کہ جن سے اجتناب لازم ہے ناروا گمان ہیں، یعنی سوء ظن ( بد گمانی)۔ اسی طرح گمان سے اجتناب کرنے سے مراد اپنی بد گمانیوں پر ترتیب اثر نہ دینا ہے۔(٢) آیت کے استمرار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگرآیت صرف مومنین سے بد گمانی کی مذمت سے متعلق نہ ہو، تب بھی کم از کم ان سے بد گمانی کی مذمت اور حقیقت میں مومنین کی نسبت حسن ظن آیت کی بعض مراد ہے۔امیرا لمومنین حضرت علی ـ مومنین سے حسن ظن رکھنے کے بارے میں فرماتے ہیں: ''اپنے بھائی کے عمل کو بہترین وجہ پرحمل کرو اس وقت تک جب تک کہ اس سے کوئی ایسا کام سرزد ہوجو توجیہ کی راہ بند کردے اور جب بھی کوئی بات تمہارے برادر (ایمانی ) کے دہن سے نکلے تو جب تک اسکا بہترین معنی پائو بد گمانی نہ کرو۔(٣)

پیغمبر اکرم بھی حسن ظن کے نفسانی علائم کے بارے میں فرماتے ہیں: '' اپنے ایمانی بھائیوں سے حسن ظن رکھو تاکہ دل کی پاکیزگی اور صفائے نفس تک حاصل کرو ''۔(٤) بد گمانی کے جملہ تباہ کن اثرات میں غیبت، اختلافات کا ظاہر ہونا، بخل حسد ہے جن کو بحث کے تسلسل میں ان کے عوامل واسباب کو بیان کریں گے۔(٥)

بد گمانی ایجاد کرنے کا سب سے اہم عامل تہمت کی جگہ اور الزام کے مقام پر واقع ہوناہے۔ حضرت علی ـ ان لوگوں کی مذمت میں جو خود کو تہمت کی جگہ قرار دیتے ہیں،فرماتے ہیں: ''جو شخص کسی بری جگہ اور ٹھکانہ پر رفت و آمد کرے تووہ متہم ہوجائے گا اور جو اپنے آپ کو مقا م تہمت میںقرار دے تو اسے اس کو جو اس سے بد گمان ہوگیا ملامت نہیں کرنا چاہیے''۔(٦)

____________________

١۔ سورئہ حجرات، آیت ١٢۔

٢۔ طباطبائی ، المیزان، ج ١٨، ص ٣٢٣۔

٣۔ کافی ج٢، ص ٣٦٢، ح ٣۔نہج البلاغہ حکمت ٣٦٠ ۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٧١ ۔

٤۔ گیلانی، عبد الرزاق، مصباح الشریعة، ص ٤٦٤۔

٥۔ مصباح الشریعة، ص ٤٦٣تا٤٦٧ ۔مجلسی، بحار الانوار، ج ٧٥، ص ٢٠١ ۔ صدوق، فقیہ، ص ٤٠٩، ح ٨٩ ٥٨۔

٦۔ نہج البلاغہ حکمت ٥٩ا۔ شیخ صدوق، امالی، ص ٢٥٠، ح ٨ ۔ کراجکی، کنز الفوائد ج٢، ص١٨٢۔ حرانی، تحف العقول، ص ١٥٧تا ٢٧١۔

۱۲۸

اپنے سے دوسروں کی بد گمانی کو دور کرنے کا طریقہ حضرت علی ـ مالک اشتر سے بیان فرماتے ہیں:

'' اگر رعیت تمہارے بارے میںظلم و ستم کا گمان کرے تو اپنے عذرکو ان کے درمیان آشکار طورپر بیان کرو اور ایسا کرکے ان کی بد گمانی دور کرو کہ اس میں تمہارے نفس کی تربیت بھی ہے اور رعیت کے ساتھ نرمی اور مدارا کا اظہار بھی اور وہ عذر خواہی بھی ہے جس کے ذریعہ تم انھیںحق کی راہ پر چلانے کا مقصد بھی حاصل کر سکتے ہو''۔(١)

جی ہاں، ہمیشہ حسن ظن پسندیدہ اور محبوب نہیں ہے بلکہ کبھی بے موقع اور ناپسند بھی ہے۔ مثال کے طور پر ایسے زمانے میں حسن ظن رکھنا جب کہ ظلم و فساد حق اور خیر وصلاح پر غلبہ رکھتا ہے اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے، جیسا کہ حضرت علی ـ نے فرمایا ہے: ''اگر زمانہ اور اہل زمانہ پر برائی غالب آجائے اورکوئی دوسرے پر حسن ظن رکھے تو گویا اس نے اپنے آپ کو دھوکہ دیا ہے ''۔(٢) دوسری جگہ دشمنوں سے حسن ظن رکھنے کی مذمت کے بارے میں مالک اشترکو ہوشیار کرتے ہیں: صلح کے بعد اپنے دشمن سے مکمل طور پر چوکنا اور ہوشیار رہنا کیونکہ دشمن کبھی کبھی اپنے آپ کو تم سے اس لئے نزدیک کرتا ہے تاکہ تمہیں غافل بنادے لہٰذا دور اندیش اور محتاط رہو اور اپنے دشمن سے حسن ظن نہ رکھو''۔(٣)

چار۔ خداوندسبحان سے دوستی کے موانع

یہاں پر خدا کی راہ میںموانع محبت سے مراد ایسے موانع ہیں جو خود نفسانی صفات میں سے ہیں اس طرح کے اہم ترین موانع، حسد، حقد اور کینہ توزی وغیرہ ہیں۔

١۔ حسد:

ارباب لغت کے نزدیک حسد، اس بات کا نام ہے کہ انسان دل میں کسی شخص کی ایسی نعمت سے محرومیت کی تمنا رکھتا ہو جس کا وہ استحقاق رکھتا ہو۔(٤)

علماء اخلاق نے اس مفہوم کی مزید شرح میں زیادہ کہا ہے: حسد یعنی ایسی نعمت کے زوال کی آرزو کرنا جس سے استفادہ کرنے میں مسلمان شخص کی صلاح ہے۔ اس تعریف میں دو معتبر عنصر تصور کئے گئے ہیں: اول یہ کہ انسان

____________________

١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٥٣۔

٢۔ نہج البلاغہ حکمت ١١٤، اسی طرح ملاحظہ ہوکلینی کافی ج٥، ص ٢٩٨، ح٢ ؛ ؛حرانی، تحف العقول، ص٣٠٢۔

٣۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٥٣۔

٤۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص١٦ا۔

۱۲۹

دل میں دوسرے انسان سے نعمت کے زوال کی تمنا رکھتا ہو اور دوسرے یہ کہ اس نعمت سے اس کا مالا مال ہونا اس کے لئے مصلحت کا حامل ہو، لیکن اگر اس کی آرزو ایسی نعمت کا رکھنا ہو جس سے دوسرا انسان مالا مال ہے تو ایسی حالت کو ''غبطہ''اور ''منافسہ' 'کہتے ہیں، جیسا کہ قرآن کریم فرماتاہے: '' ان نعمتوں '' میں مشتاقین کو چاہئے کہ ایک دوسرے پر سبقت کریں''۔(١) اور اگر ایسی نعمت کہ مسلمان شخص کے پاس سے جس کے زوال کی تمنا رکھتا ہو اور اس کا اس شخص میں ہونا صلاح نہ ہو، مثال کے طور پر اس کے فساد اور تباہی میں مبتلا ہونے کا باعث ہو تو ایسی حالت کو ''غیرت '' کہتے ہیں۔(٢) اس لحاظ سے ''غبطہ'' ''منافسہ'' اور غیرت '' بااہمیت نفسانی حالات ہیں اور صرف ''حسد '' کہ جو دوسروں کی نصیحت اور خیر خواہی کے مقابلہ میں آتا ہے وہ اخلا ق کی برائی میں شمار ہوتا ہے۔

البتہ حسد اور خیر خواہی کے درمیان تشخیص یقین یا اطمینان کے ساتھ افرادکی واقعی مصلحت شناخت پر موقوف ہے اور جب بھی ایسی شناخت کا حصول ممکن نہ ہو تو انسان کو چاہیے کہ صرف دوسروں کی واقعی مصلحت کی تمنّا پر اکتفا ء کرے اور اس نعمت کی نسبت کوئی موقف نہ رکھتا ہو۔ روایات میں حسد کی متعدد علامتیں بیان کی گئی ہیں جیسے غیبت، شماتت، دوستی کا اظہار، دشمنی کا پوشیدہ کرنا، احسان کے مقابل ناشکری اور اہلیت و شائستگی سے کم تعریف کرنا وغیرہ۔ کہ ہم اختصار کی رعایت کرتے ہوئے اس کی تفصیل سے صرف نظر کرتے ہیں۔

لفظ ''حسد''قرآن کریم میں پانچ بارمختلف صورتوں میں ذکرہوا ہے کہ سب ہی صریحی طور پر یا اشارہ کے طور پر حسد کی مذمت پر دلالت کرتے ہیں۔ جیسا کہ خدا پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ تمام برائیوں با لخصوص ان کے بعض خاص مصادیق جیسے حاسدین کے حسد سے خداکی پناہ مانگو: '' کہو: ''میں صبح کے رب کی پناہ مانگتا ہوں جو کچھ اس نے خلق کیا ہے اس کے شر سے اور ہر حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے ''۔(٣) اسی طرح بارہا کافروں کو پیغمبر اکرم ، وحی اور دینی معارف جیسی نعمتوں سے مسلمانوں کے مالامال ہونے کی نسبت ان کے حسد کرنے کی وجہ سے سرزنش کرتا ہے '' یا وہ ان لوگوں سے اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ خدا نے اپنے فضل سے انھیں عطا کیا ہے ''۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ مطففین، آیت ٢٦۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص١٩٢؛فیض کاشانی، المحجة البیضا ئ، ج٥، ص ٣٣٠۔

٣۔ سورئہ فلق، آیات، ١، ٢، ٣۔

٤۔ سورئہ نسا ئ، آیت ٤ ٥ ؛ اسی طرح ملا حظہ ہو طباطبائی، ا لمیزا ن، ج٤، ص٣٧٦۔

۱۳۰

قرآن مجید کے بقول کفار مومنین سے حسد کی شدت کی بنا پر آرزو کرتے ہیں کہ مومنین کو ان کے ایمان لانے کے بعد دوبارہ کفر کی طرف پلٹادیں: '' بہت سے اہل کتاب جب کہ ان پر حق واضح ہو چکا ہے، اس حسد کی وجہ سے جو ان کے اندر پایا جاتا ہے آرزو کرتے تھے کہ تمہیںایمان لانے کے بعد کا فر بناڈالیں''۔(١)

پیغمبر اکرم خبر دیتے ہیں کہ خداوند عظیم نے موسٰی ـ سے فرمایا: ''اے عمران کے فرزند ! جو کچھ میں نے لوگوں کو اپنے فضل سے دیا ہے اس پر حسد نہ کرو اور اس کے پیچھے اپنی نگاہ کو د ر ا ز نہ کرواور اس کے چکر میںاپنا دل نہ الجھاؤ کیونکہ میری نعمت سے حسد کرنے والا غمگین رہتا ہے اور جو تقسیم میں نے اپنے بندوں کے درمیان کی ہے اس میں حائل ہوتا ہے لہٰذا جو ایسا ہو گا وہ مجھ سے نہیں ہے اور میںاس سے نہیں ہوں۔(٢)

حسد کے نقصان دہ اور خطر ناک علائم روایات میں بیان کئے گئے ہیں، جیسے لذت کی کمی، حاسدوں کے سکون و اطمینان اور اس کی راحت وخوشی کا سلب ہونا، اس کی آہ و حسرت درد ورنج کی کثر ت حتیٰ کے جسمانی سلامتی اور قوت کا کھو دینا، اس کے دین و ایمان کا نابود ہونا اس کے علاوہ اخروی مقامات اور سعادت کا ضائع ہو جانا۔

علماء اخلاق نے حسد کے درجات ومراتب درج ذیل عنوان سے بیان کئے ہیں:

١۔ یہ کہ انسان دوسرے سے نعمت کے زائل ہو نے کی تمناو آرزو دل میں رکھتا ہو، خواہ وہ نعمت اس کے ہاتھ نہ لگے ۔ یہ حسد کی بد ترین قسم ہے۔

٢۔دوسرے سے نعمت زائل ہونے کی خواہش خو د اس تک پہو نچنے کیلئے۔ مثال کے طور پر وہ خاص مرتبہ تک پہنچنا چاتا ہے اور چونکہ اس کا اس مرتبہ تک پہونچنا دوسرے سے اس کے سلب پر موقوف ہے لہٰذ وہ اس کے دوسرے سے زائل ہونے کی تمنا کرتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ درج ذیل آیت اسی طرح کے حسد کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے: '' خبردار! جو کچھ خدا نے تم میں سے بعض کو بعض سے زیادہ دیا ہے اس کی آرزو نہ کرنا''۔(٣)

٣۔ اس نعمت کے مشابہ جوکسی دوسرے کے پاس ہے طلب کرے اور اگر خود اس نعمت تک نہ پہونچ سکے تو چاہے کہ دوسرے سے بھی سلب ہو جائے اور اگر دوسرے سے اسی نعمت کو سلب کرسکتا ہو تو اس کے لئے کوشش کرے۔

____________________

١۔ سو رئہ بقرہ ، آ یت ٩ ١٠۔

٢۔ کلینی کافی، ج ٢، ص٧ ٠ ٣، ح٦۔

٣۔ سو ر ئہ نسا ئ، آ یت ٣١۔

۱۳۱

٤۔ وہی تیسری صورت، اس فرق کے ساتھ کہ اس کی عقل و دین کی قوت اس بات سے مانع ہوتی ہے کہ دوسرے سے اس نعمت کے سلب کرنے کا اقدام کرے اورا پنی اس نفسانی حالت سے (یعنی دوسرے سے نعمت کے سلب کرنے کی تمنا سے) ناراض اور غمگین ہے، یہ نفسانی حالت اگر چہ ناپسند ہے، لیکن عذاب خداوند ی کا باعث نہیں ہوگی اور ایسے انسان کی نجات کی امید پائی جاتی ہے۔(١) حسد کے اہم عوامل عوامل و اسباب مندرجہ ذیل ہیں:

١۔ نفسانی پستی اور گندگی جس کے نتیجہ میں بغیر اس کے کہ کوئی خاص دشمنی اس کے اور دوسروں کے درمیان ہو دوسروں سے نعمت کے زوال پر خوش اور نعمت خدا وندی سے ان کے فیضیاب ہونے پر محزون و مغموم اور دوسروں کے درد والم، رنج و غم میںمبتلا ہونے سے خوش ہے، اگر چہ ان کے مالا مال ہونے سے اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

٢۔ دشمنی اور بغض حسد کے وسیع ترین عوامل میں سے ہے، کیونکہ خدا کے خاص دوستوں کے علاوہ تمام لوگ اپنے دشمن کے پریشانی میں مبتلا ہوجانے پر شاد و مسرور ہوجاتے ہیں۔

٣۔ ریاست طلبی اور مال و منصب سے لگاؤ، جو شخص دوست رکھتا ہے کہ اپنے فن میں منفرد جیسے شجاعت، عبادت اور اس کے مانند دوسری چیزوںمیں یکتا اور قابل مدح و ستائش رہے، جب وہ اپنے لئے کوئی رقیب اور نظیر دیکھتا ہے تو اس کے لئے ناگوارہوتا ہے، اور یہی چاہتا ہے کہ کسی صورت اس کے رقیب سے نعمت سلب ہوجائے۔

٤۔ اہداف ومقاصد تک نہ پہنچنے کا خوف، ایسی جگہ جہاں بہت سے افراد ایک ہی ہدف کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، اور ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ صرف اس ہدف تک پہنچے۔

٥۔ اپنے ہم پلّہ اور ہم پیشہ افراد کی برتری کا تحمل نہ کرنا، کیونکہ احساس کرتا ہے کہ اگر اس کاہم پلّہ فوقیت لے جائے گا تو اس پر فخرو مباہات کرتے ہوئے اس کی تحقیروتوہین کرے گا۔ اس بنا پر کہ سب ایک دوسرے کے برابر ہوں اور کوئی دوسرا اس پر تکبرنہ کرے، اپنے ہم پلّہ سے حسد کرتا ہے۔

٦۔ تکبر:

حاسد انسان چاہتاہے کہ دوسروں پربزرگی جتائے اور دوسرے لوگ اس کے پیرو اور تابع رہیں، چونکہ نعمت خدا وندی سے دوسروں کا فیضیاب ہونا اس تشویش کو اس کے اندر ابھارتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا بہرہ مند ہونا اس کے تہی دست ہونے کا باعث ہوجائے، جیسا کہ کفار پیغمبر اکرم کے بارے میں کہتے تھے: ''کیوں یہ قرآن ان دونوں شہروں (مکّہ ومدینہ) کے کسی بڑے شخص پر نازل نہیں ہوا ؟''(٢)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی ، جامع السعادات، ج ٢، ص ٩٨ ١، ٩ ٩ ١۔ ٢۔ زخرف ٣١۔

۱۳۲

٧۔ دوسروںکے عظیم نعمتوں سے فیضیاب ہونے کی توقع نہ کرنا:

اور اس پر حیرت کرنا یعنی انسان کو اس لائق نہیں سمجھنا کہ اس طرح کی عظیم نعمتوں سے وہ بہرہ مند ہو، نتیجہ کے طور پر اس سے حسد کرتا ہے۔(١) جیسا کہ مشرکین پیغمبرسے کہتے تھے: '' تم ہمارے جیسے انسان کے سوا کچھ نہیں ہو''۔(٢)

رہا سوال یہ کہ ہم کس حد تک اپنے سے حسد کو دور رکھیں، اس کا جواب یہ ہے کہ حسد کبھی انسان کے قول و فعل سے غیبت اور تہمت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اورکبھی انسان کی رفتار وگفتار سے ظاہر نہیں ہوتابلکہ وہ صرف اپنے دل میں خواہش رکھتا ہے کہ دوسرے سے نعمت زائل ہوجائے۔ بلا شبہہ دونوں گناہ شمار ہوتے ہیں اور اس سے مقابلہ کرنا واجب ولازم ہے لیکن کبھی حسد کے علائم انسان کی گفتار و کردار سے ظاہر نہیں ہوتے اور انسان بھی اپنے اندر دوسروں سے زوال نعمت کے متعلق پائی جانے والی نفسانی خواہشات کی مذمت و ملامت کرتا ہے۔اس قسم کا حسد گناہ شمار نہیں ہوتا اور عقاب کا باعث نہیں ہے، اگر چہ اس سے مقابلہ بھی نیک اور معنوی بلندی کا باعث ہے۔(٣)

٢۔حقد اور کینہ توزی :

''حقد وکینہ '' کینہ سے مراد ہے دل میں دوسرے کی عداوت ودشمنی رکھنا اور اس کے ظاہر کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں رہنا۔(٤) در حقیقت حقد، وہ خشم وغضب ہے کہ جو ظاہر نہیں ہو پاتا ہے اوردل میں دب کر رہ جاتا ہے،یہاں تک کہ ایک دن موقع پا کر ظاہر ہو جائے ۔(٥) بلا شبہہ حقد نفسانی رذائل میں سے ایک رذیلت اور خداوند سبحان سے دوستی کے موانع میں سے ایک مانع ہے۔ معصومین (ع) کے گہر بارکلمات میں کینہ توزی، اس کے علائم و اسباب اور اس سے نجات کے بارے میں بہت سے ارشادات بیان کئے گئے ہیں۔ حضرت علی ـ نے حقد و کینہ توزی کی مذمت میں فرمایا ہے: لہٰذا اپنے دلوں میں مخفی آتش تعصب کو خاموش کردو اور جاہلیت کے کینوں کو نکال پھینکو کہ مسلمانوں میں اس غرور کا ہونا شیطانی خصلتوں میں سے ہے ''(٦)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٩٩تا ٢٠٢۔

٢۔ یس ١٥ ۔مومنون ٣٤، ٤٨۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٢١٠ ، ١ ١ ٢۔

٤۔ ابن منظور، لسا ن العر ب، ج ٣، ص ٤ ٥ ١

٥۔ نراقی، جامع السعادات، ج ١، ص٣١١۔

٦۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٢۔

۱۳۳

ایک دن پیغمبر اکرم نے لوگوں سے پوچھا: ''کیا میں تمہیں تم میں اپنے سے سب سے کم شباہت رکھنے والے انسان سے آگاہ نہ کروں ؟ انہوں نے عرض کی: کیوں نہیں ، فرمایا: بدگو، بے آبرو، بے حیا، بخیل، متکبر، کینہ توز، حاسد، سنگدل، ایسا انسان جس سے کوئی خیر نہیں ہوتا اور کوئی اس کے شر سے محفو ظ نہیں ہے ''۔(١)

حضرت علی ـ سے کینہ توزی کے عوامل و اسباب کے بارے میں منقول ہے: ایسے انسان کے پاس علم بیان کرنے سے پرہیز کروجو اس کا شوق نہیں رکھتا نیز گذشتہ مرتبہ و شرف کے بیان سے پرہیز کرو ایسے انسان کے پاس جو ماضی میں کوئی افتخار آمیز چیز نہیں رکھتا تھا اس لئے کہ یہ ا مرتیری نسبت اس کی کینہ توزی کا سبب ہوگا۔(٢)

حقد و کینہ توزی کے علائم کے بارے میں حضرت امام حسن عسکری ـنے فرمایا: '' لوگوں میں سب سے زیادہ رنجیدہ اور سب سے کم آسودہ کینہ توز انسان ہے ''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''خداوند عالم ہر روز ایک فرشتہ کو حکم دیتا ہے کہ آسمان پر آواز لگائے اور میرے بندوں کو نوید دے کہ میں نے تمہارے گذشتہ گناہوں کو بخش دیا اور شب قدر میں تم میں سے بعض کو بعض کا شفیع قرار دیا جز اس انسان کے جو شراب سے افطارکرے یا اپنے مسلمان بھائی سے کینہ توز ی کرے۔(٤)

حقد کے دنیوی نقصانات میں ایک یہ ہے کہ کینہ توز انسان کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔(٥) حقد اور کینہ توزی سے مقابلہ اس درجہ اہم ہے کہ قرآن کریم بعض مومنین کے قول کو نقل کرتاہے کہ وہ لوگ اپنی دعاؤں میں خداوند عالم سے اظہار کرتے ہیں: '' خدا یا! ہمیں اور ہمار ے ان بھائیوں کو جو ایمان میں ہم پر سبقت رکھتے ہیں بخش دے ا ور ہمارے دلوں میں صاحبان ایمان کی نسبت کسی طرح بھی کینہ قرار نہ دے، خدا یا یقینا تو روؤف ومہربان ہے''۔(٦) وہ تمام چیز یں جو کینہ توزی کے بر طرف کرنے کا سبب ہیں، ان میں سے ایک ہدیہ دینا ہے۔ پیغمبر اکرم نے فرمایا: ''ہدیہ دینا دلوں سے کینوں اور کدورتوں کو دور کردیتا ہے''۔(٧) اسی طرح ضیافت اور مہمانداری کرنا کینہ کے برطرف ہونے کاسبب ہوتا ہے، حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''کینوں کی آگ کو گوشت اورروٹی سے دورکرو'' (مہمان نوازی کرکے اسے ختم کرو)۔(٨)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١ ٩ ٢،ح٩۔ ٢۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ٢٠، ص ٣٢٢، ح ٩٦ ٦نیز ،ص٣٢٧، ح٧٤٣۔

٣۔ حرانی، تحف ا العقول، ص ٣٦٣۔ ٤۔ قطب راوندی، دعوات، ص ٣٠٧، ح٥٦١۔

٥۔ صدوق، معانی الاخبا ر، ص ٠٨ ٢، ح ٣۔ ٦۔ سورئہ حشر، آیت ١٠۔

٧۔ صدوق، عیون اخبارالرضا، ج ٢، ص ٧٣، ح ٣٤٣ ۔ کلینی، کافی، ج ٥، ص ١٤٣، ح ٧۔

٨۔ کلینی، کافی، ج ٦، ص٣١٨، ح ١٠۔

۱۳۴

۲۔خدا وند سبحان کے لئے دشمنی

خدا وند سبحان کے لئے دشمنی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس انسان کو جو خدا کے سامنے عصیان وگناہ، طغیانی وسر کشی کرتا ہے دشمن رکھے۔ البتہ جس طرح خداکی معصیت کے درجات و مراتب ہیں اسی طرح خدا کے لئے دشمنی کے بھی درجات مراتب ہیں۔ خدا کے مقابل سر کشی کبھی عقیدہ کے ساتھ ہے جیسے کفر و شرک اختیارکرنا اوردین میں بدعت کرنا اور کبھی رفتار وگفتار اور کبھی قول وفعل کے ساتھ دوسروں کی اذیت و آزار سے جڑی ہوتی ہے، جیسے قتل، ضرب، زخم لگانا جھوٹی گواہی دینا۔ اور کبھی دوسروں کی اذیت وآزار کا باعث نہیں ہوتی۔ یہ قسم کبھی دوسروں کے فساد کا باعث ہوتی ہے، جیسے دوسروں کے لئے فساد کے اسباب و وسائل فراہم کرنا، اور کبھی دوسروں کے فساد کا باعث نہیں بنتی۔ یہ آخری قسم کبھی گناہ کبیرہ ہے تو کبھی گناہ صغیرہ ہے۔دشمنی بھی مختلف طرح کی ہوتی ہے جیسے دوری اختیار کرنا، جداہونا، بات چیت بند کرنا، سخت کلامی کرنا، توہین و تحقیر کرنا، اس کی پیروی نہ کرنا، اس کے لئے برائی کی کوشش کر نا اور اس کی ضرورتوں اور آرزوؤں کے پورانہ ہونے کی سعی کرنا۔

واضح ہے کہ خدا کے لئے بغض کے درجات ومراتب شدت و ضعف کے اعتبارسے خدا وند سبحان کی معصیت کے مراتب و درجات کے تابع ہیں، کہ درحقیقت وہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراتب ہیں۔ قابل ذکر بات ہے کہ اگر گناہگا ر انسان پسندیدہ صفات کا مالک ہو جیسے علم و سخاوت، تو پسندیدہ صفات کے لحاظ سے محبوب ہے لیکن خدا کی نافرمانی اور عصیان کی بنا پر مبغوض اور نا پسند ہے۔(١)

اس بنا پر بعض لوگوں سے محبت کرنا حرام اور بعض دیگرسے مکروہ اور خدا کے نزدیک نا گوار ہے یعنی ان سے بغض رکھنا واجب یا مستحب ہوگا۔(٢)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جا مع السعادات، ج ٣، ص ١٨٧، ١٨٨۔

٢۔ ان موارد کی مزید معلومات کے لئے رجوع کیجئے سورئہ مجادلہ، آیت ٢٢۔ سورئہ ممتحنہ، آیت ١، ٨، ٩ ۔سورئہ آل عمران، آیت ١١٩ ۔ سورئہ ھود، آیت ١١٣ ۔ صفات الشیعہ، ص ٨٥، ح ٩۔ صدوق، امالی، ص ٧٠٢ ح ٩٦٠۔ مجلسی، بحار الانوار، ج ٦٩، ص ٧ ٢٣، ح ٤۔ج ٧٤، ص ١٩٧، ح ٣١۔ اور ج ٩ ٦، ص ٢٣٧، ح ٣ ۔ کلینی، کافی، ج ٢ ص، ١٢٦، ح ١١، ج ٥ ص ١٠٨، ح ١٢ ۔ ابن ابی فراس، تنبیہ الخواطر، ج ١، ص ٧٢۔ شعیری، جامع الاخبار، ص ٤٢٨، ح ١١٩٨ ؛ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ١٧ ٤، ح ٥٩٠٧ ؛ تفسیر قمی، ج٢، ص٢٨٧۔

۱۳۵

چوتھی فصل:

مؤثر نفسانی صفات

ز۔ نفس کو قابو میں رکھنے والے رجحان

نفس کو قابو میں رکھنے والے رجحان سے مراد وہ نفسانی صفات اور ملکات ہیں جو بہت سے اخلاقی رذائل سے روکنے کا کردار ادا کرتے ہیں اور دوسری طرف متعدد اخلاقی فضیلتوںکی راہ ہموار کرتے ہیں، اس قسم میں ممتاز نفسانی صفات درج ذیل ہیں:

١۔ نفس کی قوت

ایک ایسا نفسانی ملکہ ہے جو انسان کو اس بات کی قدرت بخشتاہے کہ پیش آنے والے حوادث خواہ کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں آسانی سے تحمل کر سکے۔ قوت نفس کی فضیلت و عظمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ خدا وند عالم قرآن کریم میںارشاد فرماتا ہے: '' عزت خدا، پیغمبر خدا اور مومنین ہی کے لئے ہے ''۔(١)

حضرت امام جعفر صادق ـ نے اس سلسلہ میں فرمایا: ''خدا وند عالم نے مومنین کے تمام امور اس کے حوالے کر رکھے ہیں، لیکن اس نے اجازت نہیں دی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل و خوار کردے۔ آیا خدا وندعالم کا یہ کلام نہیں دیکھتے کہ اس نے فرمایا ہے: '' وللہ العزة و لرسولہ وللمومنین'' (عزت اﷲ، اس کے رسول اور مومنین ہی مخصوص ہے) لہٰذا سزاوار ہے کہ مومن با عزت ہو، ذلیل نہ ہو''۔(٢)

(ایک) قو ت نفس کے فوائد

نفسانی قوت وقدرت، نفس پر بہت سے سود مندو مفید اثرات و نتائج چھوڑتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک خود بھی نفسانی ملکہ اس کے مقابلہ نفس کیضعیف ہونے سے بہت سے اخلاقی رذائل مرتب ہوتے ہیں۔ ذیل میں انسان کی روحی عظمت فوائد کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

____________________

١۔ سورئہ منافقون، آیت ٨۔

٢۔ کلینی، کافی، ج ٢۔

۱۳۶

١لف۔ ثبات اور اطمینان ( عدم اضطراب ) :

ثبات ایک ایسا نفسانی ملکہ ہے جو انسان کو اس بات کی قدرت عطا کرتا ہے کہ خطروں میں پڑ کر مشکلات اور رنج والم کی سختیوں کا ،خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں، مقابلہ کرے، بغیر اس کے کہ اس میں ذر ہ برابر بھی شکستگی پیدا ہو۔ اس کے مقابل مشکلات وخطرات کے وقت اضطراب، تزلزل ہے۔ ثبات وپا یداری کے گونا گوں مظاہر پائے جاتے ہیں کہ ان میں سب سے نمایاں شکوک وشبہات کے مقابل ایمان میں پایداری اور ثبات ہے۔ قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے: '' خدا وندعالم صاحبان ایمان کو دنیوی اور اخروی زندگی میں محکم واستوار سخن سے ثابت وپایداربناتا ہے ''۔(١)

واضح ہے کہ ایمان میں ثبات اور عد م تزلزل تمام اہم نفسانی رجحانا ت کی پایداری و ثبات کا مقدمہ ہے۔ یہ امر خود بھی عمل صالح انجام دینے میں پایداری و ثبات کاباعث ہوگا۔ ثبات و پایداری معرفت کا نتیجہ ہونے کے ساتھ ساتھ روح کی قوت وعظمت کا بھی نتیجہ ہے جوکہ اہم نفسانی فضائل میں سے ایک ہے۔(٢)

ب۔ بلند ہمتی:

یعنی کمال و سعادت کے حصول اورعالی ترین امور تک پہنچنے کے لئے اس طرح سے کوشش کرنا کہ ان تک پہنچنے کی راہ میں دینوی نفع ونقصان کی طرف توجہ نہیں دے۔ بلند ہمت افراد کو دنیوی منافع شاد و مسرور اور اس کے نقصانات غمگین ومحزون نہیں کرتے حتی کہ بلند اہداف تک پہنچنے میں موت اور قتل کئے جانے کی بھی پرواہ نہیں کرتے ۔اس کے مدمقابل کوتاہی اورپست ہمتی ہے کہ پست ہمت شخص بلند اہداف کی طلب میںکوتاہی کرتا اور صرف پست اور معمولی امور پر قناعت کرتا ہے یہ نفسانی صفت خود ہی روح کی عظمت وقوت کا نتیجہ ہے اوربلا شبہہ نفسانی فضائل میں سے ایک ہے، کیونکہ قابل قدر اوربلند انسانی اہداف تک رسائی بلند ہمتی اور عظیم جد و جہد کے بغیر میسر نہیں ہے، شہامت ( شجاعت) جوکہ خود ایک با اہمیت نفسانی ملکہ ہے، اسے بلند ہمتی کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے۔(٣)

ج۔ غیرت وحمیت:

یعنی جس چیز کی حفاظت لازم ہے اس کی پاسداری و محافظت کی کوشش کرنا، یہ حالت روح وشہامت کی قوت و عظمت کے نتائج میں سے ایک ہے۔ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا ہے: ''خدا وند تبارک و تعالی غیرت مند ہے اور ہر غیرت مند کو دوست رکھتاہے اس کی غیرت مندی ہی ہے کہ اس نے برائیوں کو خواہ ظاہر ہوں یا پنہاں، حرام کیا ہے''۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ ابراہیم، آیت ٢٧۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جا مع السعادات، ج ١، ص ٢٦٢۔ ٣۔ ایضاً، ج١، ص ٢٦٣، ٢٦٤۔ ٤۔ کلینی، کافی، ج ٥، ص ٥٣٥، ح ١۔

۱۳۷

حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے : '' نسان کی قدر وقیمت اس کی ہمت کے اعتبار سے ہے اور اس کی دلیری اس کے ننگ رکھنے کے بقدر ہے (پستیوں اور رذالتوں کو تسلیم کرنے کے اعتبار سے) ، اور اس کی پاکدامنی اس کی غیرت کے بقدر ہے''۔(١)

علماء اخلاق نے غیرت کے متعدد مقامات اور موارد ذکر کئے ہیں اور چونکہ بعض اخلاقی نصوص اس کے خاص موارد کی طرف ناظر ہیںلہٰذا بہتر ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جائے۔

١۔ دین میں غیرت:

دین میں غیرت کا لازمہ یہ ہے کہ بدعتوں اوراہانتوں کے مقابل دین کے تحفظ کی کوشش کریں، اور شبہہ ایجاد ہونے کی صورت میں اس کاشائستہ انداز میں دفاع کریں۔ دین کے احکام کی نشرو اشاعت کے لئے میں کوشاںرہیں اورامربہ معروف ونہی عن المنکر کرنے میں تساہلی سے کام نہ لیں۔

٢۔ نامو س کے لئے غیرت:

اسلام کے اخلاقی نصوص میں مردوں کو ایسی غیرت مندی کی طرف شدت کے ساتھ ترغیب دلائی گئی ہے اور ان کا یہ فریضہ بیان کیاگیا ہے اور جو انسان ایسی غیرت کا مالک نہیں ہے اس کی سختی کے ساتھ مذمت ہوئی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: '' بے حس اور بے غیرت مردوں پربہشت حرام کردی گئی ہے '' ۔(٢) اور پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' بہشت کی خوشبو پانچ سو سالہ راہ کے فاصلہ سے انسان کے مشام تک پہنچے گی لیکن نا خلف اولاد اور بے حس وبے غیرت انسان اسے سونگھ نہیں سکتا''۔(٣) امام محمد باقر ـ نقل کرتے ہیں: اسیروںکے ایک گروہ کو رسول خدا کے پاس لایا گیا توپیغمبر نے دستور دیا کہ ان کے درمیان ایک شخص کو آزاد اور باقی کوقتل کردیا جائے ۔ آزاد شدہ شخص نے سوال کیا: آپ نے مجھے کیوں آزاد کردیا ؟ پیغمبر اکرم نے جواب دیا: جبرئیل نے خدا کی طرف سے مجھے خبر دی ہے کہ تم میں پانچ ایسی خصلتیں پائی جاتی ہیں جنھیں خدا اور اس کا رسول دوست رکھتا ہے اپنی ناموس کے سلسلہ میں غیرت مند، جود و سخا، خوش اخلاقی، قول میں صداقت اور شجاعت۔ وہ انسان اس بات کے سنتے ہی مسلمان ہو گیا اور اپنے ایمان پر ثابت قدم رہا یہاں تک کہ ایک غزوہ میں درجہ شہادت پر بھی فائز ہوا''۔(٤)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٥، ص ٥٣٧، ح ٨۔

٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٧، ٣٠٥۔

٣۔ صدوق، فقیہ، ج٣، ص ٤٤٤، ح ٤٥٤٢۔

٤۔ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج ٢٠، ص ١٥٥۔

۱۳۸

یہ بات مخفی نہ رہے کہ ناموس کے سلسلہ میں حد سے زیادہ غیرت دکھانا ہرگز پسندیدہ نہیں ہے بلکہ بعض اوقات فساد کاباعث بھی ہوسکتا ہے۔ غیرت کا مقام وہاں ہے جہاںحرام کے ارتکاب کا یقین ہو یا انسان کو مقام تہمت وبد گمانی میں واقع ہونے کا خطرہ ہو۔ حضرت علی ـاپنے فرزند امام حسن ـ کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''بے جاغیرت سے پرہیز کرو کہ یہ چیز صحیح و سالم عورت کو بیمار بنادے گی اور پاکدامن کو بد گمانی (اور گناہ کی فکر) میں ڈال دے گی۔(١)

٣۔ اولاد کے سلسلہ میں غیرت:

اولاد کے سلسلہ میں غیرت کا مطلب یہ ہے کہ آغاز طفولیت سے ہی ان کی مادی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لئے حلال راستوںسے کوشش کرے۔ ان کی صحیح تربیت کرنے کے لئے کوشاں رہے اور ایسے خطرات سے اولاد کی حفاظت کرے جو ان کی جسمانی یا اخلاقی صحت و سلامتی کے لئے چیلنج ہوں۔

٤۔ مال کے سلسلہ میںغیرت:

اس میں کوئی شک نہیں کہ مال دنیا میں انسان کی بقا کا ضامن نیز علم و عمل اور اخروی سعادت کی تحصیل کا وسیلہ ومقدمہ ہے۔ اس وجہ سے ہر عاقل پر لازم ہے کہ اس کی تحصیل کے لئے جائز و مشروع راستوں سے کوشش کرے اور اس کی محافظت ونگہداری کے سلسلہ میںاپنی غیرت کا مظاہرہ کرے۔ مال کے متعلق غیرت دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی کے علاوہ کسی اور راہ میں ضایع نہ کرے، خود نمائی اور دکھاوے میں خرچ نہ کرڈالے، اسے بے نیازوں کے حوالے نہ کردے، اس کے خرچ کرنے اوربخشش کرنے کے سلسلہ میں اسراف کا راستہ نہ اپنائے(٢)

د۔ وقار اور قلبی سکون:

اخلاقی لغت میں ''وقار '' رفتار و گفتار اور حرکات میں پائے جانے والے سکون واطمینان کانام ہے۔ اس وجہ سے ''وقار'' ایک ایسا عام مفہوم ہے جو''تأنی ّ'' اور ''توقّف '' دونوں کو شامل ہوتا ہے؛ اس لئے کہ ''توقف '' ہر طرح کے اقدام سے پہلے لمحہ فکریہ اور اپنے اوپر کنٹرول کرنے کا نام ہے تاکہ اس اقدام کا درست ہونا انسان پر آشکار ہوجائے۔ ''تأنی ّ'' گفتار ورفتار کے شروع ہونے کے بعد ذہنی سکون و اطمینان کا نام ہے تاکہ امور کو شائستگی کے ساتھ مرحلہ انجام تک پہنچاسکے۔

____________________

١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٦٥، ٢٧٤۔

۱۳۹

وقار اور قلبی اطمینان وسکون کے درمیان نسبت کے بارے میںکہا گیا ہے کہ جب بھی کوئی انسان رفتار و گفتار میں زحمت و تکلف کے ساتھ سکون کو حاکم قرار دے تو ایسے انسان کو با وقار کہتے ہیں، لیکن قلبی سکون و اطمینان اس وقت حاصل ہوگا جب سکون ایک صفت اور ملکہ کی صورت میں نفس کے اندر موجود ہو۔ بعبارت دیگر وقار ظاہری سکون اور سکینہ باطنی سکون کو کہتے ہیں۔(١) رسول خدا وقار کی اہمیت کوبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''اسلام عریاں ہے اور اس کا لباس حیا اور اس کا زیور وقار ہے ''۔(٢)

حضرت علی ـ پرہیزگاروںکی خصوصیت کے بارے میں فرماتے ہیں: '' وہ لوگ زلزلوں (سختیوں) میں ہیں''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ اس گراں قیمت صفت کی تحصیل کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''طلب علم کی کوشش کرواور اس کے ساتھ ساتھ خود کو حلم و وقار سے آراستہ کرو'' ۔(٤) قرآن قلبی سکون و اطمینان کو مومنین کے صفات میں شمار کرتا ہے اور اس کی تحصیل کی راہ خداوند عالم کی یاد کو جانتا ہے۔ '' وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل یاد الہی سے مطمئن ہیں، آگاہ ہو جاؤ کہ یاد الہی سے دلوںکو اطمینان نصیب ہوتا ہے ''۔(٥) خداوند عالم متعدد مقامات پر اعلان کرتا ہے کہ ہم نے سکون و اطمینان کوپیغمبر اکرم اور مومنین کے دلوں پر نازل فرمایا ہے۔ '' وہ ہے جس نے مومنین کے دلوں میں سکون نازل کیا تاکہ وہ اپنے ایمان میں مزید ایمان کا اضافہ کریں ''۔(٦)

واضح ترین اسباب و علل جو وقار کے حصول کے لئے روایات میں بیان ہوئے ہیں مندرجہ ذیل ہیں:

١۔ خدا وند عالم کی بندگی:

حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: جو شخص خاندان اور قبیلہ کے بغیر عزت، سلطنت کے بغیر ہیبت، مال کے بغیر بے نیازی اور جود و بخشش کے بغیر فرمانبرداری کا طالب ہو تو اسے چاہیے کہ خدا کی نافرمانی کی ذلّت سے نکل کر اس کی بندگی کی عزّت کی طرف آجائے۔(٧)

____________________

١۔ جامع السعادات، ص ٢٧٩ ،٢٨٠۔ ابو ہلال عسکری ؛ معجم الفروق اللغة، ص٢٨٠ ؛ المیزان، طباطبائی، ج٩، ص٧ ٢٢تا ٣ ٢٢۔ اورج٢، ص٢٨٩تا ٢٩١۔

٢۔ کلینی، کافی، ج٢، ص ٤٦، ح٢۔٣۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٣۔ اسی طرح ملاحظہ ہو: صدوق، فقیہ، ج ٤، ص٣٥٤، ح ٥٧٦٢۔

٤۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٣٦، ح١۔ ٥۔ سورئہ رعد، آیت ٢٨۔٦۔ سورئہ فتح، آیت ٤، نیز ملاحظہ ہو آیات ١٨، ٢٦ ؛ طباطبائی، المیزان، ج ٢ ص ٢٨٩تا ٢٩١ اور ج ٩، ص٢٢٣تا ٢٢٧۔٧۔ خزاز، قمی، کفاےة الاثر، ص ٢٢٨ ؛ مجلسی بحار الا نوار، ج ١ ٧، ص ٩ ١٧، ح ٢٩۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296