اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق13%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 178083 / ڈاؤنلوڈ: 5181
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ب۔ صبر کے درجات:

بعض علماء اخلاق اور اہل معرفت نا گوار امور پر صبر کرنے ( صبر خاص )کے لئے تین درجوں کے قائل ہوئے ہیں۔

١۔ تائبین کا صبر: اوراس سے مراد ہے شکوہ کا ترک کرنا، بے تابی اور بے قراری کا ثبوت نہ دینا، اور غیر فطری اور پریشان کن رفتارنہ رکھنا۔

٢۔ زاہدین کا صبر: یعنی اول درجہ کے علاوہ جوسختیاں، درد والم انسان کے لئے مقدر ہوئی ہیں ان پر قلبی طور سے راضی ہونا۔

٣۔ صدیقین کا صبر: یعنی پہلے دودرجہ کے علاوہ نسبت اس چیز سے جو خدا وند عالم نے اس کے لئے معین کر رکھا ہے، عشق کرنا اور اسے دوست رکھنا ۔(١)

ج۔ صبر کی اہمیت:

کلمہ ''صبر ''مختلف صورتوں میں سو بار سے زیادہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے کہ جس سے خود ہی اس موضوع کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کریم بعض بنی اسرائیل کی ہدایت وپیشوائی کے منصب تک پہونچنے کی علت کے بیان میںفرماتا ہے: ''اور جب انہوں نے صبر کیا اس حال میں میری آیتوں پر یقین رکھتے تھے تو ہم نے ان میں سے بعض کو پیشوا قرار دیا کہ وہ ہمارے حکم سے (لوگوں کی) ہدایت کرتے تھے''۔(٢) اور آخرت میں صابروں کی کیفیت جزا کے بارے میں ایک جگہ پر ان کے عمل سے بہتر جزا کا وعدہ دیتا ہے: ''یقینا ً جن لوگوں نے صبر کیا تو جو انہوں نے عمل کیا ہے ہم انھیں اس سے بہتر جزا دیں گے''۔ ٣)

دوسری آیت میں صابروں کی مقدار جزا کی تعیین کے بارے میں ارشاد ہو تا ہے: ''وہ لوگ کہ جنہوں نے صبر کیا اور نیکیوں سے برائی کو دور کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیںروزی دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں اس لئے وہ لوگ دہر ی جزا پائیں گے''۔(٤)

____________________

١۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣ ، ص ٢٨٤۔

٢۔ سجدہ ٢٤۔

٣۔ نمل ٩٦۔

٤۔ قصص ٥٤۔

۱۶۱

دوسری جگہ پر اعلان کرتا ہے کہ صابروں کا اجر اور ان کی جزابے حد اور ناقابل شمار ہے اور وہ لوگ بے حساب جزا پائیں گے: ''بے شک صابرین اپنی جزا بے حساب پوری پوری پائیں گے''۔(١) اسی طرح خداوند عالم نے صابروں کو ہمراہی کا وعدہ دیا ہے: '' صبر کروکیونکہ خدا صابروں کے ساتھ ہے ''۔(٢ ) وہ نصرت اور کامیابی کو صرف اور صر ف صبر و شکیبائی کے سایہ ممکن جانتا ہے''۔(٣) ہدایت، درود اور رحمت پروردگار کو صابروں کے حق میں قرار دیتا ہے۔(٤) صابروں کو اپنے دوستوں اور محبوبوںکے زمرہ میں بیان کرتا ہے۔(٥) بارہا اور بارہا اپنے رسولوںاور تمام انسانوں کو صبر کی تاکید کرتا ہے۔(٦) اپنے خاص بندوں کے بارے میں نقل کرتا ہے کہ وہ لوگ ہمیشہ خداوند سبحان سے صبر و شکیبائی کی توفیق کی درخواست کرتے رہے ہیں۔(٧) اس کے علاوہ مزید اور دسیوںمورد ہیں جو اسلام کے اخلاقی نظام میںصبر کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ بھی فرماتے ہیں: ''صبر ایمان کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو جسم کے لئے سر کی حیثیت ہے، جس طرح سر کے نہ ہونے سے جسم کا خاتمہ ہوجاتاہے اسی طرح اگر صبر نہ ہوتوایمان بھی جاتارہے گا ''۔(٨) حضرت امام محمد باقر ـ سے صبر کی اہمیت کے بارے میں نقل ہوا ہے : '' جنت نا گواریوں سے گھری ہوئی ہے لہٰذا جو بھی دنیا میں نا گوارچیزوں پر صبر کرے وہ بہشت میں جائے گا۔ اور دوزخ نفسانی خواہشات اور لذّات میں گھری ہوئی ہے، لہٰذا جو بھی نفسانی خواہشات ولذات کی تکمیل کرے گا، وہ جہنم میںجائے گا ''۔(٩)

____________________

١۔ زمر ١٠۔

٢۔ انفعال ٤٦۔

٣۔ آل عمران ١٢٥۔

٤۔ بقرہ ١٥٧۔

٥۔ آل عمران ١٤٦۔

٦۔ احقاف ٣٥۔

٧۔ بقرہ ٢٥٠ ؛ اعراف ١٢٦۔

٨۔ کلینی، کافی ج ٢، ص٨٩، ح ٥۔

٩۔ ایضاً، ح٧۔

۱۶۲

د۔ صبر کے فوائد:

صبر کے بہت سے دینی و دنیوی فوائد شمار کئے جاسکتے ہیں، منجملہ ان کے حضرت علی ـ بعض گذشتہ امتوں کی عزت وذلت کے بارے میں اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ''جب خدا نے دیکھا کہ وہ کس طرح اس سے دوستی کی راہ میں اذیت و آزار پر صابر ہیں اور اس کے خوف سے نا گواریوں پر صبر و تحمل کرتے ہیں تو اس نے انھیں گرداب بلا سے نکال کر گشائش عطا کی، اور ذلت و خواری کے بعد انھیں با آبرو بنایا اور سکون و اطمینان کو خوف کا جا گزیں بنادیا۔ پھر وہ حکمراں بادشاہ اور باعظمت و شان پیشوا ہوگئے اور خدا کی کرامت ان کے حق میں یہاںتک پہنچ گئی کہ دیدۂ آرزو ان کے آخری درجہ کہ وہ اس جگہ پہونچا ان کی نگاہ اور اس کی انتہا کو نہ دیکھ سکی''۔(١)

بعض علماء اخلاق نے صبر کو مقدّرات الٰہی پر راضی رہنے کے مقام رضایت تک پہونچنے کا دروازہ قراردیا ہے، اور مقام رضا کو محبت پروردگار کی وادی تک پہونچنے کا دروازہ جانا ہے۔(٢) اس لحاظ سے صبر کے اہم فوائد میں سے اسی دنیا میں مقام '' رضا '' و'' محبت '' تک رسائی کا نام لیا جا سکتا ہے۔

''صبر '' کے لئے دیگر متعدد موضوعات بھی قابل ذکر ہیں، جیسے صبر و شکر میں مناسبتیں، صبر کے حصول کی راہیں اور اس کے مانند دوسرے موضوعات کہ اختصار کے پیش نظر ان کا ذکر نہیں کیا جارہا ہے۔

____________________

١۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٢۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص ٢٨٣۔

۱۶۳

تیسرا باب :

اسلام کی نظر میں اخلا قی تر بیت

پہلی فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

مقدمہ:

اخلاق اسلامی کے اصول اور مفاہیم سے آشنائی کے بعد یہ بات مناسب ہے کہ اپنے آپ سے سوال کریں '' نا مطلوب موجود '' کی حالت کو کس طرح '' ناموجود مطلوب '' سے تبدیل کیا جا سکتا ہے ؟ واضح عبارت میں اخلاقی تربیت کے طریقے کیا ہیں ؟

تربیتی طریقے، کبھی خود تربیتی اپنے ( لئے تربیتی) ہیں تو دیگر تربیتی کبھی دوسرے کے( لئے تربیتی) ہیں، کبھی قولی ہیں تو کبھی عملی، کبھی سلبی ( روکنے والے ) ہیں اور کبھی ایجابی (اصلاحی )، کبھی عام( یعنی تمام سن کے مراحل کے لئے ) ہیں اور کبھی خاص۔ رفتار کے مبادی(١) کے پیش نظر ان اخلاقی تربیت کی روشوں کو جو رفتار یا اس کے مبادی یعنی ابتدائی مرحلوں سے تعلق رکھتی ہیں، تین چیزوں: شناخت، سبب اور رفتار کے اعتبار سے مورد توجہ قرار دیں گے اور تفصیل سے آئندہ مباحث کے ضمن میں ان کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ چونکہ علوم تربیتی کی اصطلاحا ت (منجملہ اصول، روشیں، اہداف و مقاصد وغیرہ وغیرہ ) کی دقیق تعریف محل اختلا ف ہے اور ان کے سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں لہٰذا یہاںپر اس کتاب میں مورد نظر تعریف کی طرف اشارہ کریں گے۔ ''روش'' (طریقہ) سے مراد وہ کلی قوانین ہیں کہ ہر ایک جدا گانہ طور پر یا دوسری روشوں کی مدد سے مقصد تک پہنچانے کی خصوصیت کی حامل ہیں۔ ہر روش کے تحقق کیلئے ممکن ہے کہ ہر ایک کے لئے مختلف اسلوب اور متعدد فنون پائے جاتے ہوں جو روشوں کی نسبت جزئی تر قوانین کا مقصود ہیں۔

____________________

١۔گذشتہ علماء کے نظریات کے مطابق مبادی رفتار اس طرح ہیں: فائدہ کا تصوّر، اس کی تصدیق، شوق موکد۔ معاصر ماہرین نفسیات نے اس سے مشابہ ایک دوسری ترکیب پیش کی ہے ؛ وہ اس طرح ہے: شناخت، باعث اور عملی توانائی۔

۱۶۴

روشوں کے بیان میں ایک عقلی ترتیب پائی جاتی ہے کہ آسان تر دیگر تربیتی روشوں سے شروع ہوتی ہے اور مشکل تر خود تربیتی روشوں پر ختم ہوتی ہے۔ یہ عقلی ترتیب انسان کے اخلاقی اور نفسیاتی رشد سے بھی منطبق ہے اور اسلام کی تربیتی تعلیمات سے بھی ہم آہنگ ہے۔

ہر روش کو اس کی تعریف اور توضیح سے شروع ہے اور بعد کے مرحلہ میں آیات وروایات سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا استناد اسلام سے ثابت کیا گیاہے پھراس کے بعد ( یا اس کے ضمن میں ) نفسیات کے علمی مطالعہ سے استفادہ کرتے ہوئے روش کی توضیح وتکمیل کی گئی ہے، یعنی نفسیات میں کون سے نظری اصول ومبانی کے ذریعہ اس روش کا دفاع کرسکتے ہیں اور اخلاقی تربیت میں اس کی تاثیر ثابت کی جاسکتی ہے، یہاں پر نفسیات کے اہم ترین نظریوں کے متعلق جو کہ تربیت اخلاقی سے مربوط ہیں بحث کی جارہی ہے۔

طریقے

١۔ تربیت کے لئے مناسب ماحول بنانا

انسان کی تکوین اور تغییر کا اہم ترین عامل مختلف ما حول کے حالات ہیں خواہ وہ زمانی یا مکانی یا اجتماعی ماحول ہو۔ بہت سے مقامات میں ماحول کی ترمیم واصلاح سے تربیت کے لئے مساعد اورسازگار ماحول فراہم کرکے جس کی تربیت کی جاتی ہے اس کی عادتوں، خصلتوں، افکار اور رفتار کو بدلا جا سکتا ہے اور جدیدخصوصیات کو اس کا جاگزین بنایا جا سکتا ہے، اس روش کی نفسیاتی بنیاد اس ماحول کے حالات سے انسان کے متاثر ہونے کی اصل ہے جو ماحول سازی ( بعض رفتار کی ہمراہی اور ہمنوائی بعض دیگر کے ساتھ ان کے ثابت کرنے کا باعث ہوتی ہے)، فعّال وکردار ساز ماحول سازی ( ایک ماحول میں خاص طرز عمل ورفتار پر جزا دی جاتی ہے ) یا اجتماعی تعلّم وتربیت ( رفتارکے مشاہدہ سے خاص نمونوں کی پیروی) کے نظریات کے بیان ہوتی ہے ضمن میں یہ روش خاص طور سے دوسروں کے ذریعہ اور انسان کے اولیاء کے ذریعہ بروئے کار لائی جاتی ہے، لیکن انسان خود بھی کسی حد تک موثر ہوسکتا ہے، اس روش کو وجود میں لانے کے جو طریقے لازم ہیں وہ ترتیب وار یہ ہیں:

۱۶۵

مقدمہ سازی، نمونہ سازی، ماحول کو صحیح و سالم بنانا اور حیثیت اور ماحول کو بدلنا۔

الف۔ مقدمہ سازی:

اس سے مراد یہ ہے کہ مناسب ماحول فراہم کرکے اخلاقی فضائل کے وجود میں آنے کا امکان اعلی حد تک فراہم کریں اور اس کے برعکس ایسے مقدّمات جو کہ منفی رخ رکھتے ہیں اور اخلاقی رذائل پیدا کرسکتے ہیں، ان کے وجود ہیں آنے کی روک تھام کریں، اس حصہ میں اسلام کی ہدایات قابل توجہ ہیں۔

ایک۔زوج یا زوجہ کے انتخاب میں کہ جو خاندان کا ایک رکن ہے، اس کے اخلاقی فضائل پر توجہ دینی چاہیے، انظر فی ای شی تضع ولدک فان العرق دساس(١) اس کے مقابل ایسے افراد جو غیر شائستہ گھرانے کے پروردہ ہیں، یاکم عقل اور احمق ہیں تو ایسے لوگوں سے شادی بیاہ کرنے سے اجتناب کرناچاہیے۔

حضرت امیرا لمومنین علی ـنے جومالک اشتر کو خط لکھا ہے اس میں اس کا رساز عنصر کی اس طرح تصریح فرمائی: ''ضروری ہے کہ اداری امور میں با فضیلت افراد سے استفادہ کرو ، وہی لوگ کہ جو نیک اور شریف خاندان سے ہوں اور اچھے ماضی اور نیک نامی کے ساتھ زندگی گذارچکے ہوں، جو لوگ عقل و ہوش، شجاعت و بہادری کے مالک، سخی اور بلند ہمت ہیں، وہ کرم کامرکز اور نیکی و فضیلت کا سرچشمہ ہیں''۔(٢)

لہٰذا ایسی اولاد جو شائستہ ماں اور با فضیلت باپ کی حمایت کے زیر سایہ پروان چڑھے ہیں اہم ترین مقدّمہ ساز عنصر ما حول اور تربیت کے لحاظ سے ان کا مددگار ہے۔(٣)

دو۔ اچھے نام کا انتخاب اولاد کا والدین پر جوحق ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے یہ ہے کہ۔''ہر انسان کی سب سے پہلے نیکی اس کے فرزند کے حق میںاس کا اچھا نام رکھنا ہے لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چا ہیے کہ اپنے فرزندوں کا اچھا نام رکھو''۔ ( اول ما یبر الرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن فلیحسن احدکم اسم ولدہ)۔(٤)

نیک اور شائستہ نام تربیتی اور نفسیاتی اثر رکھتا ہے اور انسان کی صلاح و فلاح نیز خوبیوں کو فراہم کرنے کا مقدّمہ ہے یا پھر اسے فرو مائگی اور پستی کی سمت لے جاتا ہے۔ ( الاسم یدل علی المسمی ) ۔

____________________

١۔ فلسفی، کودک، ج ١، ص ٦٤۔ حسن الاخلاق، برہان کرم الاعراق، افراد کی اخلاقی خصلتیں خاندان کی پاکیزگی اور فضیلت کی دلیل ہیں، غرر الحکم۔٢۔ نہج البلاغہ، نا مہ ٥٣۔ ٣۔ جنٹک کے علاوہ کہ جن کا ذکر فی الحال مقصود نہیں ہے۔٤۔ وسائل الشیعہ: ج ١٥، ص ١٢٢۔

۱۶۶

٣۔ محل زندگی کا انتخاب (ملک، شہر یا دیہات، محلہ اور پڑوسی کا انتخاب) بھی مقدّمہ ساز عنا صر میں ہے۔ اسی طرح محل تحصیل، کام کاج، احباب اور معاونین سب ہی ( تربیت کی ) راہ ہموار کر نے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔(١)

ب۔ نمو نہ سازی :

کہا جا سکتا ہے کہ ہر ماحول کو بنا نے والے اس سماج اور ماحول برگزیدہ اور سر بر آور دہ افراد ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذ ایک اچھے تر بیتی ماحول کی ایجاد کا ایک طریقہ اس ماحول میں اچھے نمونوں کو وجود میں لانا ہے اور برے نمونوں دور کر نا ہے۔ سماج میں پسندیدہ اور محبوب نمونہ خود بخود اس ماحول میں رہنے والوں کو ان کی طرف کھینچ لا تاہے اور ان کے مکارم اخلاق کو دوسرے لوگ نمونہ بنالیتے ہیں۔

آلبرٹ بنڈورا (١٩٧٨) کہ جو اجتماعی تعلّم کے نظریہ کا واضع ہے۔ تعلّم (سیکھنے) کا سب سے اہم طریقہ مشاہداتی تعلّم کو جانتا ہے کہ وہی تقلید یا نمونہ کا اختیار کرنا ہے انسان ایک نمونہ یا سر مشق کا انتخاب کرکے اس کے عمل کی تقلید کرنے لگتا ہے۔ بنڈ ور ا اس طرح کے تعلّم کو چار مر حلہ میں تو ضیح دتیا ہے: مر حلہ توجہ، حا فظہ کے حوالے کرنا، دوبارہ تخلیق اور سبب ومحرّک۔ ممتا ز صفات، عطو فت ومہر بانی کا بار، پیچید گی، برجستگی اور استعمالی اہمیت نمونہ میں اور حسّی ظرفیت، ابھارنے کی سطح، درک کرنے کی آماد گی اور گزشتہ تقویت مشا ہدہ کر نے والے کے اندر نمونہ شخص کے عمل سے منطبق نتیجۂ عمل کی مدد کرتی ہے۔(٢)

زندہ نمونوں کے علا وہ جو کہ مساعد اورسازگار تر بتیی ماحول ایجاد کر تے ہیں مر بی حضرات ماضی کے اخلاقی اور انسانی نمونوں کی شناخت کر ا کے انھیں حیات نو عطا کر سکتے ہیں اور بنڈورا کے نظریہ میں مذ کو رہ خصو صیات پر نظر کر تے ہو ئے بار عاطفی، ممتاز حالت، بر جستگی وغیرہ کے اعتبار سے ان کے متعلق تا کید اور سر مایہ گذاری کرسکتے ہیں نمونوں کے دقیق موئثر اور محبوب چہرہ کی ترسیم تربیت پانے والوں کے لئے ان کے ذہن وروح میں حسب ضرورت نمونوں کے فقدان کے خلا کو پر کرسکتی ہے اور وہ تدریجاً ان کے مثل بن سکتے ہیں۔

____________________

١۔ ہمنشینوں اور دوستوں کی تاثیر کے بارے میں اس کے بعد بحث کریں گے۔

٢۔ روانشناسی پرورشی، ص ٣١٤۔

۱۶۷

قرآن کر یم میں اس شیوہ سے بہت زیادہ استفاد ہ کیا گیا ہے، بالخصوص اکثر قرآنی نمونے جو ان اور تا ثیر گذار ہیں۔ یوسف شہوت کے مقا بل قہرمان مقا ومت، کہف کے جوان راہ خدا میں رشد و ہد ایت کیلئے ہجرت کے نمونے، اسماعیل حکم خدا کے سا منے سر اپاتسلیم کی مثال اور ابر اہیم عادت شکن اور بت شکن جوان ہیں۔ قرآن کے جوان نمو نوں کے علا وہ دیگر نمونے بھی پائے جا تے ہیں کہ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

دین کی تبلیغ میں نوح پا یداری اور استقامت کا نمو نہ، مصا ئب زمانہ اور شدائد روز گا رپر ایوب صبر وتحمل کا نمونہ، طاغوت سے جنگ ومبازرہ کرنے میں داؤد شجاعت اور شہامت کا نمو نہ وغیر ہ وغیرہ، قرآن ان تما م حضرات کی شان میں فرماتا ہے: ''...... وہ لوگ(خدا کے پیغمبر ) ایسے لوگ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی ہے لہٰذ ان کی ہدایت کا اقتدا کرو''۔(١)

بالآخرہ پیغمبر اکرم زندگی کے تمام مراحل میں تمام عالمین کے لئے مطلق نمونہ ہیں ، '' لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ''(٢) کیو نکہ آپ ''خلق عظیم '' کے ما لک، ''مکارم اخلا ق کا آئینہ '' اور '' رحمة للعالمین '' ہیں۔

ماں باپ اور ان کے بعد اساتذہ اور تربیت کرنے والے بھی تربیت سیکھنے والوںکے لئے پہلا نمونہ ہیں۔ تربیت کا اہم نکتہ یہ ہے کہ اہم موقعیت وحیثیت کے مالک، زیادہ کامیاب، زیادہ علم ودانش یا معنوی بلندی کے مالک اکثر دوسروں کی نظر کو اپنی طرف جلب کرتے ہیں اور ان کے لئے نمونہ بن جاتے ہیں۔

خوش قسمتی سے طالب علموں کی نظر میں عام طور پر اساتذہ اور والدین ان خصوصیات کے یا ان میں سے بعض کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن بہر صورت اس برتری اور برجستگی کا نہ ہونا معنوی، علمی اور اجتماعی شعبوں میں تربیت پانے والوں کوکسی اور سمت لے جاتا ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں:'' پیغمبر اکرم ہر روز میرے لئے اپنے مکارم اخلاق میں سے ایک کو بیان کرتے تھے اور مجھے اس کی پیروی کرنے کا حکم دیتے تھے ''۔(٣) حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں: ''بچے اپنے والدین کی خوبیوںاور صلاحیتوں سے محفوظ ہوتے ہیں ''۔(٤)

____________________

١۔ اولئک الذین ھدی اللہ فبھد یھم اقتدہ، سورئہ انعام، آیت ٩٠۔ ٢۔ سورئہ احزاب، آیت، ٢١۔٣۔ یرفع لی کل یوم علما من اخلاقہ و یامرنی با لاقتداء بہ ؛نہج البلاغہ، خ ١٩٢۔

٤۔ یحفظ الاطفال بصلاح آبائھم، بحار الانوار ج ٥، ص ١٧٨۔

۱۶۸

نمونہ سازی کے طریقہ سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں قرآن کریم نے کم از کم دو اخلاقی اور تربیتی نکتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ؛ اول یہ کہ اس نے محبوب اور پسندیدہ افراد کو کلی طور پر نیز عام عنوان سے بیان کیا ہے، جیسے: تائبین، متطہّرین،متّقین، صالحین، صابرین، محسنین اور مجاہدین وغیرہ اور کبھی خاص طور سے اور نا م کے ساتھ (پیغمبروں سے متعلق) بیان کیا ہے، لیکن قابل نفرت ومذمّت افراد کا ذکر قرآن میں استثنائی موارد (جیسے ابو لہب) کے علاوہ کلی عناوین کے تحت ہوا ہے، جیسے: تجاوز کرنے والے، اسراف کرنے والے، خود پسند افراد، کفار، ظالمین اور متکبرین وغیرہ۔ اس وجہ سے ہم کو بھی چاہیے کہ قرآن کریم کی پیروی کرتے ہوئے اسی روش کا انتخاب کریں کہ اخلاقی فضائل کی شناخت کرانے میں کلی عناوین بھی اور صاحبان فضائل کے اسماء بھی بیان کریں، منفی مقامات پر اشخاص کے نام بیان کرنے سے اجتناب کریں۔

دوسرے نمونوں کا انتخاب کرنا ہے، قرآن کریم ایک ساتھ محبوب اور منفور افراد کا ذکر کرکے انسانی سماج کو علم وآگہی کے ساتھ اپنے منظور نظر نمونوں کے انتخاب کی دعوت دیتا ہے، حتیٰ کہ گذشتہ آباء اجداد کے سلسلہ میں بھی آگاہ کرتا ہے کہ بغیر علم و آگہی کے ان کی اندھی تقلید کرکے اپنی زندگی تباہ و برباد نہ کریں۔ انہوں نے کہا: ''ہم نے آباو اجداد کو ایک آئین پر پایا ہے لہٰذا ہم بھی انھیںکا اتباع کرتے ہیں ' اس (پیغمبر) نے کہا ''خواہ جس پر تم نے اپنے آباء واجداد کو پایا ہے اس سے زیادہ ہدایت کرنے والا بھی تمہارے لئے لے آؤں تب بھی ایسا کرو گے''؟(١) اس وجہ سے ہم پر لازم ہے کہ انسانوں کی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے نیز مطلوب نمونوں اور معیاروں کا تعارف کراتے ہوئے تربیت پانے والوں کے لئے آگاہانہ انتخاب کی راہ فراہم کریں۔

ج۔ما حول کوصحیح و سالم رکھنا:

برے اور شر پسند افراد ہر ماحو ل اور سماج میںعام طور پر پائے جاتے ہیں۔ بیشک فاسد اور برے ماحول اخلاقی تربیت کے معاملہ کو دشوار بلکہ بعض اوقات نا ممکن بنا دیتا ہے، اس وجہ سے ماحول کو صحیح وسالم رکھنا کہ جو تقریبا ً امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے زندہ کرنے کے مساوی فریضہ ہے،سب کے لئے ایک عقلی، انسانی نیز دینی فریضہ ہے۔ اس طرز اور شیوہ سے مراد معاشرے کے تمام افراد کے اندر خوبیوں کی ایجاد اور ان کا احیاء کرنا ہے اور برے امور کو ختم کرنا ہے۔ درج ذیل نکات امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت اور ان کے پہلوئوں کو کہ جو دراصل معاشرہ میں اخلاقی تربیت کو آسان کرنے والے ہیں، زیادہ واضح کرتے ہیں۔

____________________

١۔ سورئہ زخرف، آیت ٢٣، ٢٤۔

۱۶۹

١۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس نکتہ کو واضح انداز میں اپنے دامن میں رکھتا ہے کہ دعوت ایک شناختہ شدہ شرعی اور عقلی معیار پر ہونی چاہیے۔(١) اس وجہ سے جب بھی بات شرعی واجب یا حرام کی ہوتو چاہیے کہ اس کی ثقافتی پشت پناہی ایجاد کی جائے ا ورایک معروف یامنکر کے عنوان سے اکثر لوگوں کے نزدیک متعار ف ہو۔ ایسے حالات میں امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کو عام مقبولیت حاصل ہو گی۔ بعبارت دیگر امر با لمعروف کی دشواری اور کلی طور پر اس کاقبول نہ ہونے میں مشکل نہیں ہے بلکہ مشکل ان خاص موارد اور مصادیق میں ہے کہ جن کا معروف یا منکر ہونا کافی حد تک مستدل طور سے لوگوں کے لئے واضح نہیں کیاگیا ہے۔

٢۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سب کا فریضہ ہے، لیکن امر و نہی کرنے والے خاص شرائط کے حامل ہوں، منجملہ ان کے امر و نہی کے شرائط کی شناخت(٢) نیز خود معروف اور منکر کی پہچان ضروری ہے، اس کے علاوہ یا د دہانی اور بیان کا طریقہ اس طرح ہو کہ زیادہ سے زیادہ تاثیر کی امید ہو۔

٣۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے موارد کو وسیع ہونا چاہئے اور خاص مصادیق میں کہ جو اس وقت سماج اور معاشرہ میں زیادہ رایج اور شائع ہے (جیسے بے حجابی) میں محصور نہ ہو۔ اخلاق کے خلاف اعمال جیسے رشوت لینا، تہمت لگانا، غیبت کرنا اور بد گوئی وغیرہ ایک عام ثقافت اور تہذیب کی صورت میں معیّن شدہ نصائح اور نہی عن المنکر کا مورد واقع ہوں، تاکہ مثال کے طور پر بے حجاب یہ خیال نہ کریں کہ نہی عن المنکر ہمیشہ انہیں کے بارے میں ہے۔

د۔ موقعیت کا تبدیل کرنا:

کسی ماحول کے حالات کی قوّت اور اس کی اثر گذاری اس حد تک ہوتی ہے کہ صرف موقعیت اور حالات کے تبدیل کرنے سے اخلاقی تربیت حاصل ہوپاتی ہے۔ اگر چہ ماحول کی تبدیلی بہت زیادہ مالی اخرجات اور نفسیاتی بوجھ کی حامل ہوتی اخراجات ہے، ایک سا ز گار تربیتی ماحول ایجاد کرنے کے لئے آخری طرز کے عنوان سے ضروری ہے۔ ''ہجرت'' منجملہ ان دستورات میں سے ہے کہ جس کی دین میں تاکید ہوئی ہے اور کبھی واجب حد تک پہونچ جاتی ہے۔ قرآن مجید کے بقول جب فرشتے کچھ لوگوں کی روح قبض کرنے آتے ہیں تووہ لوگ ماحول کے ناموافق ہونے کو اپنا عذر بیان کرتے ہیں، لیکن فرشتے کہتے ہیں ''.... کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے ....''۔(٣)

____________________

١۔'' المعروف'' اسم لکل فعل یعرف بالعقل او الشرع حسنہ والمنکر ما ینکر ھما (المفردات ) معروف ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع کے ذریعہ نیک جانا جائے اور منکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع ناپسند کریں۔ ٢۔ سورئہ توبہ، آیت ٧١ اور ملاحظہ ہو: المیزان، ج ٣ ، ص ٣٧٣۔

٣۔ الم تکن ارض اللہ واسعة فتھاجروا فیھا۔۔۔ سورئہ نسا ئ، آیت ٩٧۔

۱۷۰

جو انسان ایسے گھر یا محلہ میں زندگی بسر کرتا ہے کہ وہاں کے رہنے والے اپنی یا اپنی اولاد کی شائستہ تربیت کے لئے موافق اور ساز گار ماحول نہیں رکھتے وہ اسی طریقہ سے استفادہ کرتے ہوئے جدید امکانات کو اپنے اہل وعیال اور خاندان کے افراد کے رشد و تغیرّ کے لئے فراہم کرسکتا ہے۔ اپنے یا اپنے اقرباء کے نا پسند ناموں کا تبدیل کرنا بھی اس خاص نفسیاتی ماحول کو نظر میں رکھتے ہوئے جو اسی سے پیدا ہوتا ہے تغییر موقعیت کے موارد میں شمار ہوتا ہے۔(١) ایسی نشست جس میں اخلاق کے خلاف اعمال کی روک تھام نہ ہوسکے اسے ترک کردینا چاہیے: ''مجرمین کے بارے میں وہ سوال کررہے ہوں گے: کس چیز نے تمہیں جہنم کی آگ میں جھونک دیا؟ وہ کہیں گے: ہم لوگوں کے برے کاموں میں شامل ہوجایا کرتے تھے۔(٢)

اسلام ایک مسلمان کے روزانہ کے معمول کی تعیین میں اسی طر یقہ اور روش سے مدد لیتا ہے اور اسے مذہبی مراکز جیسے مساجد میں مسلسل حاضر ہونے کی دعوت دیتا ہے یہ اسے خود ہی ایک قسم کی تغییر موقعیت ہے اگر چہ ہجرت شمار نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ایک قسم کی اخلاقی تازگی اورشادابی انسان کو عطا کرتی ہے اور اسے ایک ہی طرح کے ماحول سے اور بسا اوقات روزانہ کے نا مساعد اور غیرموافق ماحول سے جدا کردیتی ہے۔

٢۔ ضرورتوں کو صحیح طریقہ سے پورا کرنا

ضرورتو ںکو صحیح طریقہ سے پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ ضروریات زندگی کو ایک متعادل حد تک اخلاقی تربیت دینے اور بالاتر ضرورتوں کی تکمیل کرنے سے پہلے پورا کیا جائے۔ سبب اور محّرک کے ا ثر کے پیش نظر جو کہ عمل کے اصول ومبادی میں سے ایک ہے، جب تک کہ انسان بھوک کے زیراثر یاجنسی میلان کے تحت تاثیر ہے یا کم از کم اپنی زندگی کیلئے کوئی پناہ گا ہ نہیں رکھتا، ایسا انسان اخلاق کی بلندیوں کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتا۔

اسلامی تعلیمات میں یہ نکتہ مورد توجہ واقع ہوا ہے، سورئہ ''قریش '' میں خدا وند سبحان کی عبادت کی دعوت کا ذکر ان کی خوراک فراہم کرنے اور امنیت کے ذکر کے بعدہوتی ہے: '' لہٰذا انھیں چا ہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں، وہی ذات کہ جس نے انھیںبھوک سے نجات دی اورنا امنی سے انھیںرہائی دلائی''۔ ''فلیعبدو ا رب ھذا البیت الذی اطعمھم من جوع وآمنھم من خوف''۔(٣ )

____________________

(١) ان رسول ا للّہ کان یغےّرا لاسماء القبیحة فی الرجال والبلدان، وسائل الشیعہ، ج ١٥، ص ١٢٤۔

(٢)یتسائَ لون عن المجرمین ما سلککم فی سقر قالوا و کنا نخوض مع الخائضین ، سورئہ مدثر، آیت ٤٠ تا٤٥ ۔

(٣) سورہ ٔقریش، آیت ٣، ٤۔

۱۷۱

مندرجہ ذیل آیات میں غور خوص کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اخلاقی صفات، تقویٰ، شکر، اور عمل صالح وغیرہ انسان کی اوّلین ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد ذکر ہوئے ہیں:و کلوا مما رزقکم الله حلالاً طیبا واتقو الله ۔۔۔(١) ۔ اور جو کچھ خدا نے تمہیں حلال اور پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا سے درتے رہو....۔ ''یا ایا الذین آ منوا کلوا من طیبات ما رزقناکم واشکرو الله ۔۔ اے ایمان لانے والوں! جو ہم نے تمہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا کا شکر ادا کرو....۔(٢) ''یاایھا الرسل کلو ا من الطیبات و اعملوا صالحا۔۔۔'' اے میرے رسولو! تم پاکیزہ غذائیں کھائو اور نیک عمل انجام دو.....۔(٣) پیغمبر اکرم نے حدیث ایک شریف میں زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے اثر کے سلسلہ میں اس سے بلند تر ضرورتوں پر نظرکرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: '' اگر روٹی نہ ہوتی توہم نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے اور پروردگار کے واجبات کو ادا نہیں کرسکتے تھے ''۔(٤) اور دوسری جگہ پر فرماتے ہیں: ''قریب ہے کہ فخرو نا داری کفر و ناشکری کا سبب بن جائے '' ۔(٥) پیغمبر اکرم اور ائمہ طاہرین (ع) کی سیرت میں بھی ہم ملاحظہ کرتے ہیں آپ حضرات عملی طور پر محرومین کی طرف توجہ دیتے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے، شب کے سناٹے اور سردی اور گرمی کے موسم میں بھی ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے(٦) اور یہی بات انوارہدایت کے درک کرنے کے مقدمات ان کے لئے فراہم کرتی تھی۔ حتی کہ دشمنوں سے ملاقات کے موقع پر بھی صلاح وہدایت کی دعوت سے پہلے ان کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے۔

____________________

١۔ سورہ ٔما ئدہ، آیت ٨٨۔

٢۔سورہ ٔبقرہ ، آیت ١٧٢۔

٣۔ سورئہ مومنون، آیت ٥١۔

٤۔فلو لا الخبز ما صلینا ولا صمنا ولا ادینا فرائض ربنا عز وجل ۔ کا فی ،ج ٦، ص ٢٨٧۔

٥۔کاد الفقر ان یکون کفرا، کا فی، ج ٥، ص ٣ ٧۔

٦۔ الحیاة، ج ٣، ص ٢٣٢تا ٢٣٤ ملاحظہ ہو۔

۱۷۲

حضرت امام حسن ـکی سیرت نادان مخالفین کے ساتھ یہی انسانی روش اور سیرت تھی:

ایک شامی نے معاویہ کے ورغلانے پر ایک دن امام حسن کو گالی دی، امام نے اس سے کچھ نہیں کہا یہاں تک کہ خاموش ہو گیا، اس وقت آپ نے شیریں مسکراہٹ کے ساتھ اس کو سلام کیا اور فرمایا: '' بوڑھے آدمی! فکر کرتا ہوں کہ تو ایک پردیسی ہے اور خیال کرتا ہوں کہ تو راستہ بھول گیا ہے اگر مجھ سے رضایت طلب کرے گا تو تجھے رضایت دوں گا اور اگر کچھ ہم سے طلب کرے گا اور راہنمائی چاہے گا تو تیری راہنمائی کروں گا اور اگرتیرے دوش پر کوئی بوجھ ہے تو اسے اٹھا لوں گا اور اگر بھوکا ہے تو شکم سیر کردوںگا اور اگر محتاج ہے تو تیری ضرورت پوری کردوں گا، (خلاصہ ) جو کا م بھی ہو گا اسے انجام دیدوںگا اور اگر میرے پاس آئے گا تو بہت آرام سے رہے گا کہ مہمان نوازی کے ہر طرح کے وسائل و اسباب میرے پاس فراہم ہیں''۔

وہ شامی شرمندہ ہوگیا اور رو کر کہنے لگا: ''میں گواہی دیتا ہوں کہ روئے زمین پر آپ خدا کے جانشین ہیں، خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں قرار دے۔ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین انسان تھے لیکن اب آپ سب سے زیادہ محبوب ہیں ''بوڑھا آدمی اس دن امام حسن ـ کا مہمان ہوا اور جب وہاں سے گیاتو حضرت کی دوستی کا دم بھر نے لگا۔(١)

آبراھام مزلو ہیومینسٹ ماہر نفسیات نے آدمی کے اغراض واسباب کی طبقہ بندی کے لئے جدید طریقہ پیش کیا ہے، اس نے ضرورتوں کے ترتیب و ار سلسلہ کو پیش کیا کہ جو زندگی کی اساسی ضرورتوں سے شروع ہو تا ہے اور اس سے بالا تر سطحوں میں نفسیاتی اغراض واسباب تک پہونچ جاتا ہے وہ کہتا ہے: ''..... انسان کی با مقصد حیات میں تنظیم کی اہم اصل اساسی ضرورتوں کی ترتیب اولویت کے مراتب کے سلسلہ کی صورت میں کمتر یا بیشتر غلبہ کی قدرت کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ اہم محرّک جو اس تنظیم کا باعث ہوتی ہے وہ ضعیف تر ضرورتوں کا پیدا ہونا ہے جو کہ قوی تر ضرورتوںکو پورا کرنے سے ایک سالم انسان میں پائی جاتی ہے۔ جب بھی ضرورت زندگی پوری نہیں ہوتی، جسم پر غلبہ پا جاتی ہے اور تمام استعداد اور صلاحیتوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہے اور ان صلاحیتوںکو اس طرح منظّم کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ان سے استفادہ کرسکے۔ نسبی رضا مندی ان

____________________

١۔ بحار الانوار، ج، ٣ ٤، ص ٣٤٤۔

۱۷۳

ضرورتوں کو محو کردیتی ہے اور بعدکے سلسلہ میں مراتب کی ضرورتوں سے بلند مجموعہ کو موقع دیتی ہے کہ وہ ظاہر ہوں، شخصیت پر غلبہ پاکر انھیںمنظّم کریں اس طرح کہ، بھوک کا درد اٹھانے کے بجائے امن و سلامتی کے لئے پریشان ہو۔ یہ اصل سلسلہ مراتب میں ضرورتوں کے دوسرے مجموعوں یعنی محبت، احترام اور خود آگے بڑھنے اور ترقی کرنے پر بھی صادق ہے۔(١)

اسی وجہ سے محتاج سماج اوراجتماع میں علمی، ہنری اور اخلاقی تخلیق کم وجود میں آتی ہے۔

مزلوکا نظریہ ہے کہ سالم افراد بلند ضرورتوں کی طرف رخ کرتے ہیں، یعنی اپنی با لقوة استعدادوں کے عمل ہونے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور آس پاس کی دنیا کو پہچاننا چاہتے ہیں۔ مقصد، بے نیاز کرنا، تجربہ حیات کی توسیع، سرور و شادمانی کا اضافہ اور زندہ ہونے کی تحریک ہے.... نیک اخلاقی صفات جن کو و ہ'' وجود میں اقدار ''سے تعبیر کرتا ہے اس موقعیت کی طرف رخ کرتے ہیں۔ بعض ہستی کی قدریں اس کی نظر میں یہ ہیں: حقیقت (بے اعتمادی بد گمانی اور تشکیک کے مقابل)، نیکی (نفرت کے مقابل)، کمال (ناامیدی اور بے معنی ہونے کے مقابل)، یکتائی (بے ثباتی کے مقابل)، نظم (عدم امنیت واحتیاط کے احساس کے مقابل )، خود کفائی ( ذمہ داری کو دوسروں کے حوالے کرنے کے مقابل )(٢) ۔

یہ نظریہ کہ انسان کمتر ضرورتوں کی طرف توجہ کئے بغیر یا ایک حد تک ان کی تکمیل، انسانی فضائل کی طرف قدم نہیں اٹھاتا، یہ سماج کے اکثر افراد کے بارے میں صادق آتا ہے۔

دو نکتوں کی طرف توجہ دیتے ہو ئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ '' ضرورتوں کو صحیح طور سے پورا کرنے کی روش ''اس بات کے علاوہ کہ دوسری روشوں کا مقدمہ ہے، خود اسے بھی ایک اخلاقی تربیت کی روش کے عنوان سے پیش کیا جاسکتا ہے۔پہلے یہ کہ ادنی ضرورتوںکو پورا کرنے سے بلند ترین ضرورتیں پیدا ہو تی ہیں، یعنی علّت وسبب کا جنبہ پیدا کرتی ہیں۔ عمل کے علّی اور سببی جنبہ کا وجود تر بیت اخلاقی کے ایک اہم حصہ کو منظّم کرتا ہے۔

____________________

١۔ انگیزش و ہیجان، ص ١٠١۔

۱۷۴

٢۔ اپنی جلوہ نمائی تحقق نفس تک ر سائی اور بالقوة توانائی کے لئے ذوقی تقارن خوبصورتی اور نظم تعارف، جاننا، سمجھنا، تلا ش کرنا، سنجیدگی، عزت نفس، کفایت، اجراء اور اصول تعلق و محبت کی ضرورت غیر سے وابستہ ہونا، سا لمیت کی ضرورت کی مقبولیت، امنیت کا احسا س اور خطرے سے دوری فیز یولوژیائی ضرورتیں، گرسنگی، تشنگی اور جنسی خواہشروانشناسی کمال، ص ١٢٥۔

دوسرے یہ کہ اس سے توانائیوں کو تخلیہ اورباطنی قوتوں کے اعتدال کے لئے آمادگی حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ علماء اخلاق کے اخلاقی نظام میں ذکر ہوا ہے یہ نکتہ نہایت قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہے کہ سہ گانہ قوتیں شہوت، غضب، اور عقل، عدالت اور اعتدل کے سایہ میں ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹا ہو جائیں۔ یہ رویہ یعنی اعتدال قوتوں کے استعمال کرنے میں تربیت اخلاقی کی ترقی میں ایک نا گزیر امر ہے۔

سید قطب الدین لکھتے ہیں: انسان کی تربیت کے لئے اسلام کے اسباب و وسائل میں ان ذمہ دارریوں سے چھٹکارا دلانا ہے جو کبھی کبھی جسم و جان میں اکھٹا ہوتی ہیں اسلام ان باروں اور ذمہ داریوں کو اکھٹا جمع نہیں کرتا مگر یہ کہ انھیں چھوڑنے کے لئے

۱۷۵

یکبارگی جمع کرے۔(١)

اس روش کے محقق ہونے کے لئے لازم طریقے یہ ہیں: معاشی نظام کی جانب توجہ، ازدواج، ورزش اور کام کاج ۔

الف ۔معاشی نظام کی طرف توجہ:

بہت سے اخلاقی جرائم کی بنیاد مال اور خوراک اور غذا کی کمی ہے۔ پہلے مرحلہ میں معاش کی فراہمی خانوادہ کے ذمہ ہے دوسرے مرحلہ میں حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ہے نیز اس نظام کے ذمہ ہے جو سماج پر حکومت کررہا ہے اور تیسرے مرحلہ میں نیکو کا راور قدرت مند افراد کے ذمہ ہے۔ بہر صورت تربیت کرنے والوں کی تگ و دو اس مسئلہ کی نسبت تربیتی نقطہ نظر سے تربیت اخلاقی میں بہت سے موانع کو دور کرنے والی ہے۔

ب۔ ازدواج:

ازدواج کے تربیتی اور اخلاقی فوائد (جیسے خود خواہی و خود غرض سے دور ہونا، دوسروں کی خدمت کے لئے آمادگی اور ان کی طرف توجہ، عواطف و جذبات کا بار آور ہونا، محبتوں کا ثمر دینا اور ذمہ داری قبول کرنے کے لئے آمادگی وغیرہ وغیرہ ) کے علاوہ ازدواج کا اہم اور ابتدائی کردار غریزہ جنسی کی ضرورت کو فطری اور شرعی طریقہ سے صحیح طور پر پورا کرنا۔ اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ ایسا جوان جس کا غریزہ جنسی شباب پر ہے اور ماحول کے بہت سے محرک بھی اس کے اندر اور زیادہ اس آگ کو بھڑکا رہے ہیں، وہ جوان سختی سے خود کو گناہ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔(٢) پیغمبر نے فرمایا ہے : '' جب کوئی انسان شادی کرتا ہے تو اس کا نصف دین کامل ہو جاتا ہے لہٰذا بقیہ نصف کے سلسلہ میں اسے تقویٰ اختیار کرنا

____________________

١۔ روش تربیتی در اسلام، ص ٢٨٢۔

٢۔ مراد یہ ہے کہ جنسی غریزہ جوانوں کو زیادہ مشکلات سے دو چار کرتا ہے، نہ یہ کہ کلی طور پر تربیت اور اصلاح کا راستہ ہی بند کردے ۔

۱۷۶

چاہئے''۔(١) پیغمبر کے اس حکیمانہ ارشاد سے یہ نکتہ بھی قا بل استفادہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ ا ور اخلاقی ورع، شادی کے بعد زیادہ آسان اور قابل حصول ہے۔

ج۔ورزش:

جسمانی ضرورتوں کو صحیح طور پر پوراکرنے میں اور جوانی کی قوتوں کی جلاء میں ورزش کا کردار قابل انکار نہیں ہے۔ اخلاقی تربیت میں ورزش کا کردار دو جہت سے قابل اہمیت ہے:

اول۔وہ جسمانی سلامتی اور فرحت کہ جو ورزش سے پیدا ہوتی ہے، روحی، ذہنی اور نفسیاتی سلامتی نیز اخلاقی فضائل کے لئے مقدمہ ہوتی ہے۔ ہماری تہذیب اور ثقافت میں قوت اورجوانمردی ہمیشہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہی ہیں۔ ورزش اخلاقی توجیہ نبی اور ائمہ (ع) کی سیرت میںآتی ہے ۔ پیغمبر اکرم ایسے مردوں سے ملاقات کے وقت جو زور آزمائی کے لئے وزن اٹھا رہے تھے، فرماتے ہیں: ''لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ انسان ہے جو خواہشات نفس پر غالب ہو''۔(٢) امیر المومنین ـ دعائے کمیل میں خدا سے جسمانی قویٰ کی تقویت کی درخواست خدمت الٰہی کے لئے کرتے ہیں،یارب.... قو علی خدمتک علی جوارحی ۔ اس کے مقابل کمزور اور پست افراد تربیت کے خلاف امور انجام دیتے ہیں۔دوسری جہت ۔ ضرورتوں سے توجہ ہٹانا ہے، بالخصوص جوانی کے زمانہ میں جنسی ضرورتیںاپنی تکمیل کا تقاضہ کرتی ہیں۔ ایسے حالات میں کہ ابھی جائز اور مشروع طریقہ سے صحیح طور پر جنسی خواہشات کی تکمیل کے امکانات فراہم نہیں ہوئے ہیں، ورزش ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا ایک مفید اور اہم ذریعہ ہے۔

د۔ کام:

کام کاج کے مسئلہ کو '' معاشی نظام کی طرف تو جہ '' کی بحث میں ذکر کیا جاسکتا ہے، لیکن چونکہ اس کا اسلام میں ایک خاص مرتبہ ہے، اور استاد مطہری کے بقول: کام اسلام میں ایک مقدس اور پاکیزہ شے ہے،(٣) نیز بہت سے تربیتی جہات اس میں پائے جاتے ہیں، لہٰذا ہم نے اسے جدا گانہ طور پر ذکر کیا ہے، ایک طرف کام صحیح طور پر قوتوں کی جلاء اور اضافی بار کے تخلیہ کاموجب ہوتا ہے اور دوسری طرف شخصیت کے احساس، ذہنی علاج، تمرکز خیال، ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا باعث ہوتا ہے، کہ یہ سب اخلاقی تربیت کے لئے معاون وسیلہ ہیں۔(۴)

____________________

١۔ اذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الدین فلیتق اللہ فی نصف الباقی ۔ بحا ر الانوار، ج ٣ ١٠، ص ٢١٩۔''من تزوج فقد احرز نصف دینہ ، فلیتق اللہ فی النصف الباق''۔بحار الانوار ،ج١٠٣، ص٢١٩۔٢۔ اشجع الناس من غا لب ھواہ۔ میزان الحکمة، ج ١٠، ص ٣٨٧۔٣۔ تعلیم وتربیت در اسلام، ص ٤١١۔۴ ۔ ان جملوں کی طرف توجہ دینا مذکورہ بالا مطلب کی تائید میں موثر ہے: سقراط: ''دیانت کے بعد کام نیک بختی اور سعادت کا سرمایہ ہے''۔ پاسکال: '' تما م فکری اور اخلاقی برائیوں کی جڑ بے کاری ہے جو ملک بھی اس عظیم عیب کو بر طرف کرنا چاہتا ہے اسے لوگوں کو کام پر آمادہ کرنا چائیے تاکہ اس سے روحی سکون کہ جس سے معدودے چند افراد آگاہ ہیں، حاصل ہو ''۔ ساموئل اسمایلز: '' دیانت کے بعد انسان کی تربیت کے لئے کام سے بہتر کوئی مدرسہ تعمیر نہیں کیا گیا ہے ''۔ بحوالۂ تعلیم و تربیت در اسلام، ص ٤٣٠۔

۱۷۷

٣۔ ا حترام شخصیت کے طریقے

اخلاق اسلامی کی اساسی بنیاد انسان کا اپنی ذاتی کرامت اور شرافت کی طرف توجہ دینا ہے: ''یقینا ً ہم نے اولاد آدم کو کرامت سے نوازا ( انھیں عزت عطا کی ) ...اور انھیں اپنی بہت سی مخلوقات پر واضح فوقیت و برتری عطا کی۔(۱)

خود آگاہی اور اس بات کی طرف توجہ کہ انسان ایک بلند وبر ترمخلوق ہے اور اپنے اندر بے مثال اور قیمتی گوہر رکھتا ہے یہ بات اس کو (حبّ ذات کی بناپر) اپنی ذاتی کرامت کی حفاظت وپاسداری کے لئے دعوت دیتی ہے اور اخلاق کی بلند قدروں کی طرف کھینچتا ہے: ''اکرم نفسک عن کل دنےة و ان ساقتک الیٰ الرغائب فانک لن تعتاض بما تبذل من نفسک عوضا ً''(۲) اپنے نفس کو ہر طرح کی پستی سے پاکیزہ رکھو ! چاہے وہ پستی پسندیدہ اشیاء تک پہونچا ہی کیوں نہ دے کیونکہ جو اپنی عزّت نفس تم دوگے اس کی قیمت اور عوض تمہیں کبھی مل نہیں سکتا۔

'' انسان کی حقیقت'' چونکہ آسمانی قداست و پا کیزگی کی حامل ہے اور وہ علم، قدرت اور آزادی کے چشمہ سے سیراب ہوا ہے لہٰذا وہ جھوٹ، باطل، طبیعت کی اسیری، گراوٹ اور پستی و ذلت و شہوت اور جہل میں ہاتھ پاؤں مارنے کے مخالف ہے اسی وجہ سے ہوشیار انسان ہرطرح کے اخلاقی ر ذائل سے کہ جو اس کی عزت اور غیرت

____________________

۱۔لقد کرمنا بنی آدم...... و فضلناهم علی کثیرممن خلقنا تفضیلا ۔ سورئہ اسرائ، آیت ٧٠۔

۲ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔

۱۷۸

سے منافات رکھتے ہیں، بیزار ہوتا ہے۔(١) اس کے مقابل ایک ایسا انسان جو ذلّت، پستی اور فرومایہ ہونے کا احساس کرے اور اپنے اندر پائی جانے والی عظیم شرافت پر یقین نہ رکھے، وہ ہر طرح کے نا پسند اخلاقی افعال کے ارتکاب سے بے پرواہ ہوتا ہے:اللئیم لا یستحی، اللئیم اذا قدر ا فحش واذا وعد اخلف، اللئیم لا یرجیٰ خیره ولا یسلم من شره ولا تؤمن غوائله، اللئیم مضاد لسائر الفضا ئل و جامع لجمیع الرذائل ۔( ٢) کمینہ شخص شرم نہیں کرتا، کمینہ جب قدرت پاتا ہے برائی کرتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے، کمینہ سے خیر کی امید نہیں کی جا سکتی اور اس کے شر سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا اور اس کے فسادوں سے بے خوف نہیں رہا جا سکتا، کمینہ تمام فضائل کا مخالف اور تمام رذائل کا حامل ہوتا ہے۔ من ھانت علیہ نفسہ فلا تامن شرہ۔(٣) جو انسان خود کو بے حیثیت سمجھتا ہو اس کے شر سے بے خوف نہ رہو۔

اس مطلب کی وضاحت نفسیاتی اعتبار سے خود انسان کے خیال واعتقاد سے ہماہنگ ہونا یا نہ ہونا ہے: اگر میں بے رحمانہ اور احمقانہ عمل کا مرتکب ہوں تو میری عزت نفس ملامت کا شکار ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ عمل میرے ذہن کو اس امکان کی طرف متوجہ کرے گا کہ میں ایک بیوقوف اور ظالم انسان ہوں۔ سینکڑوں آزمائش کے درمیان کے عدم موافقت کے نظریہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ واضح ترین نتائج ایسے حالات میں حاصل ہوئے ہیں جو انسان کی عزت نفس سے مربوط ہیں، کیونکہ جس طرح امید کی جاتی ہے کہ جو افراد زیادہ عزت نفس کے مالک ہیں، اگر ان سے بے رحمانہ اور احمقانہ رفتار سرزد ہو جائے تو دوسروں سے زیادہ نا موافقت کا احساس کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی انسان معمولی عزت نفس رکھتا ہو تو کیا پیش آسکتا ہے؟ اگر ایسا انسان غیر اخلاقی اور احمقانہ عمل کا ارتکاب کرے تو زیادہ ناموافقت کا احساس نہیں کرے گا ...دوسری طرف وہ انسان جوزیادہ عزت نفس کا مالک ہے، غالباً وہ ایک برے عمل کے ارتکاب کے وسوسہ کے مقابل مقاومت کرتا ہے، اس لئے کہ بے برے کام اس کے اندر زیادہ سے زیادہ نا موافقت ایجاد کردیتا ہے۔(٤)

____________________

١۔ الصدق عزّ والکذب عجز، سچ عزت (کا سبب) ہے کتاریخ یعقوبی، ج ٢، ص ٢٤٦ ؛ الغیبة جھد العاجز، مازنی غیور قط،غیبت عاجز کی کوشش ہے، کسی غیرتمند نے کبھی زنا نہیں کیا ( نہج البلاغہ، ح ٢٩٧ ) ؛ الکذب والخیانة لیسا من اخلاق الکرام، جھوٹ اور خیانت اچھے اخلاق سے نہیں ہیں (غرر) وموت فی عز خیر من حیاة فی ذل ،عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر، (بحار الانوار، ج٤٤، ص ١٩٢)

٢۔ غرر الحکم، تیسری فصل، ص ٢٦٠۔

٣۔ بحار الانوار، ج ١٧، ص ٢١٤۔

٤۔ روانشناسی اجتماعی، ترجمہ شکرکن، ص ١٥٠ ، ١٥١ ۔

۱۷۹

اس وجہ سے اخلاقی تربیت کی ایک روش شخصیت کااحترام ہے یعنی ایسے امور کا انجام دینا کہ جن سے خود کو یقین ہو یا جس کی تربیت کی جارہی ہے اس کو اپنی قدروقیمت کا یقین حاصل ہو۔ ایڈلر، A ، y.adler جوکہ ایک فردی نفسیات کاموجد ہے اس نے احساس کمتری کو اپنے نظریہ کی اساس قرار دی ہے اور اسے علت اور تمام غیر معمولی رفتار کی علت اور سر چشمہ سمجھتا ہے۔احساس کمتری رنگین دھاگہ کے مانندجو نفسیاتی اختلال کے تمام حالات میں کھنچا ہواہے۔ ایک غصہ وریا بے صلاحیت بچہ سن رسیدہ ہوکر بھی نفسیاتی تعادل کی قوت نہیں رکھتا ہے۔ نفسیاتی مریض، مجرمین، جنسی منحرفین اور روحی بیمار سباپنی نا رسائی اور ضعف کے احساس کا رنج و الم برداشت کرتے ہیں۔ اور مسلسل شک وتردید اور گمراہی میں زندگی بسرکرتے ہیں اورایک معتمد ومستحکم مرکزتلاش کرتے ہیں...احساس کمتری طبیعی ارتقا کے لئے رکاوٹ بنتاہے(١) اور یہ اس وقت ہوتاہے کہ بچہ مکمل اس احساس میںغوطہ لگاتا ہے اور لاحاصل ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود خود کواس حالت سے نجات دینا چاہتا ہے، اس حالت میںبد گمانی اور وحشت احساس کمتری کی راہ کوکھول دیتی ہے اور بچہ نفسیاتی اختلال کا شکار ہوجاتا ہے، اس موقع پر ذہنی ونفسیاتی حرکت، سکو ن اور سکوت کا شکار ہوجاتی ہے ، اس معنی میں کہ بچہ پھر اپنے ضعف اور نقائص کو دور کرنے پر قادر نہیں ہوتاہے، ناچار اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں رکھتا کہ خیالی تعادل بخشنے(جھوٹی تلافی) سے خود کو ماحول کے حوالے کردے۔(٢)

احساس کہتر نامی کتاب میں، ایڈلر کے نظریہ کی توضیح کے سلسلہ میں جو احساس کمتری سے پیدا شدہ زندگی کی روش کی اس طرح منظر کشی کرتے ہیں: احساس کمتری درجہ کیفیت اور سب سے پہلے نتیجہ کے اعتبار سے جو اس سے تجربے کے ضمن میں حاصل ہوتا ہے، انسان کے طرز زندگی کی تعیین کرتی ہے۔ یہاں پر تین اساسی ساز وسامان اور اس کے بعد تین طرز زندگی کو مشخص کیا جاسکتاہے ، طبیعی جبران کا سازو سامان، گریز وناامیدی کا ساز و سامان اور خیالی جبران کاساز وسامان۔

١۔ طبیعی تلافی:

یہ تلافی ایک نتیجہ خیز اساسی روش کے پایہ پر استوار ہے کہ جو نفسیاتی محوروں کی واقعی تعیین کرتا ہے، مثال کے طور پر ایک حادثہ کا شکار انسان کہ جو جسمی اور عضوی نقص رکھتا ہے، اسے صحیح کرنے یا مرکزی اعصبابی مشین اور دیگر اعضاء کے وسیلہ سے اسی ایک تلافی کی طرف رہنمائی کی جاتی ہے۔

____________________

١۔ ایڈلر: روانشناسی فردی، ترجمہ حسن زمانی، ص ٥٩۔

٢۔ ایضاً، ص٥٧۔

۱۸۰

٢۔ گریز اور ناامیدی:

واقعیت سے فرار کرنے کے علاج یا نا کامی اور محرومیت کے ظاہر ہونے کے علاج کا ساز وسامان ایسے موارد میں استعمال ہوتاہے کہ جب طبیعی تلافی ممکن نہیں ہوتی ہے یا اس کے لئے راہ بند ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میںانسان اپنے آپ کوناتوانی اور شکست دوچار سمجھتاہے، اپنی نسبت شک کرتا ہے اور اس کے اندر قوت وجرأت کی کمی محسوس ہوتی ہے، اس وقت وہ متعدد اور پے درپے شکستوں اپنے آپ کو پاتا ہے اور ناکامی کی وادی میں پے در پے غوطہ لگاتا رہتاہے، اور یہی شکستیں اس کے پہلے احساسات کو تقویت بخشتی ہیں ایسے موارد میں زندگی کا نقشہ مسئولیت اور ذمہ داری سے گریز اور ہر قسم کی سعی و کوشش سے لاشعوری کے طور پردوری کری بنیاد کھنچے جاتا ہے

یہ المناک تغیر تدریجاً اور ہر دفعہ زیادہ خلاق انسان کی فعالیت کے دائرہ کو زیادہ سے زیادہ محدود کردیتا ہے۔

٣۔ خیالی تلافی:

کچھ موارد میں گریز اور یاس کے غالب ہونے کے بجائے، انسان یا تو خیالی تلافی کی راہ کا انتخاب کرتا ہے یا ان صفات کو معمولی اور بے قیمت شمار کرتاہے جو دوسروںکے اندر پائی جاتی ہیں اور اس میں نہیں ہیں ۔ یا بلافاصلہ ایسی عیاشیوں میں لگ جاتا ہے کہ جو فکراور مشکلات کو وقتی طور پر اس کے ذہن سے دور کردیتی ہیں اور اسے ایسی لذتیں دیتی ہے کہ جو ایک منطبق وموافق عمل کے نتیجہ میں اس کو نصیب ہوتی ہیں ۔(١)

جیسا کہ ملاحظہ ہوا، ایڈلر کے نظریہ کی بنیاد عملیاختلال کی وضاحت کے سلسلہ میں عز ت نفس کے فقدان اور خود اس کی تعبیر کے مطابق احساس کمتری کے اثرپر استوار ہے۔

نفسیات میں من ازم کے نظرئیے بھی کلی طور پر انسان کے نفسیاتی وجذباتی ابعاد و جوانب اور اس کی نظر پر تا کید کرتے ہیں ان کے مشترک اصول درج ذیل ہیں:

١۔ تمام انسان انقلاب و تحول کے بالاترین درجہ تک پہونچ سکتے ہیں،

٢۔ انقلاب و تحول کے راستہ میں آزادی کا وجود ان بلندیوں تک پہونچنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے

٣۔ عام طور پر موانع خارجی اور بیرونی ہیں۔

____________________

١۔ دکتر منصور، احساس کہتری، ص٦٠، ٦١۔

۱۸۱

''مزلو''اور ''راجرز'' انسان کے اپنے شخصی اور تحقق کے لئے دوسروں سے زیادہ تاکید کرتے ہیں وہ طریقے اور فنون کہ شخصیت کی تعظیم کے حصول کے لئے جن سے ہم استفادہ کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

الف۔اکرام واحترام:

مزلو ضرورت احترام کو مستقل طو ر پر ذکر کرتاہے معاشرے کے نفسیاتیبیماروں کے علاوہ تمام افراد اپنے لئے احترام کے قائل ہیں، ان کی خواہش ہے کہ خود کو بااہمیت محسوس کریں اور اس اہمیت کی بنامحکم اور استوار پایہ پر رکھی گئی ہو۔۔۔توانائی، کامیابی، تجربہ، مہارت ، شایستگی، دنیا کا مقابلہ، استقلال ، آزادی، مرتبہ اور اعتبار کی ضرورت، (ایسی عزت واحترام کہ لوگ اس کے قائل ہوں) قدرومنزلت، افتخار، شہرت، نفوذاہمیت وبزرگی ان سب چیزوں کی طرف میلان اسی خواہش سے پیداہوتی ہیں۔۔۔جب اپنے احترام کی خواہش پوری ہوجائے توانسان اپنے خوداعتمادی، اہمیت، توانائی اور کفایت کا احساس کرتاہے اور اپنے وجود کو دنیا میں مفید اور لازم سمجھتا ہے۔ لیکن ان ضرورتوں اور خواہشوں کا پورا نہ ہونااحساس کمتری، کمزوری اورناامیدی کا باعث ہوتاہے۔۔۔سالم ترین اور ثابت ترین عزت نفس، احترام کے اُس پایہ پر استوار ہے جس کے ہم مستحق ہیں۔نہ یہ کہ ظاہری شہرت چاپلوسی اور خواہشات پر۔۔۔(١) کارل راجرز بھی مکمل طور پر اس کا قائل ہے اور اپنے علاج کا طریقۂ کاراُسی کی بنیادپر تلاش کرتا ہے۔ اس کی نظر میں دو اساسی چیزیں درج ذیل ہیں:

١۔ہر انسان کی عظمت وبزرگی نیز اس کی اہمیت کا نظریہ رکھنا۔

٢۔اس بات کا معتقد ہونا کہ لوگ اچھے اور قابل اعتماد ہیں۔

راجرز کے علاج اور مشورت کا طریقہ مُراجع محوری کی بنیاد پر ہے؛یعنی تیکنیکی صرف اصالت و حقیقت ، غیر مشروط مثبت تعیین اور مخلصانہ درک کی نشاندہی کے لئے ہیں۔ احساسی اورجذباتی عناصر معالج اور مُراجع کے رابطہ میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ وتیکنیکیجو اس اکرام واحترام کے احساس کو ،جس کی تربیت کی جاتی ہے اس تک منتقل کرسکتی ہیں، یہ ہیں:موقع ومحل کی طرف توجہ اورحضور ذہن رکھنا، اُس پرکان دھرنا، احساسات یا اس کی باتوںکے محتوا اور مفہوم کا ضروری مواقع میں انعکاس ( اس لئے کہ تربیتپانے والاسمجھے کہ اس کی باتوں پر توجہ دے رہا ہے) گفتگو کے علاوہ دوسری نشانیاںیعنی چہرہ، رخ اور جسم کی حرکتیں اس بات کی عکاسی کررہی ہوں کہ گویا وہ اس کی باتوں کو اہمیت دے رہاہے۔

____________________

١۔ مزلو، روان شناسی شخصیت سالم، ص١٥٤،١٥٥۔

۱۸۲

''خلوص یا مخلصانہ درک'' متربی (یعنی جس کی تربیت کی جاتی ہے ) سے رابطہ ایجاد کرنے میںاساسی کردار ادا کرتا ہے۔ راجرز کے بقول ہمدلی وخلوص ایک ایسا طریقۂ کار ہے جودیگرافرادکے متغیراحساسات کی نسبت حساس ہو نے اوران کے درمیان عاطفی وجذباتی پیوند کامتضمن ہے۔ایک مدت تک دوسروں کی زندگی جینا اور ان کی احساساتی دنیامیں واردہونا اور ان کے احساسات کے بارے میں قضاوت سے اجتناب کرنا (ان کے احساسات کو سمجھنے کے لئے کوشش کرنا)۔ اسی طرح ہمدلی وخلوص مخاطب کے غیر کلامی علائم کے درک کا مستلزم ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہمدلی کے لئے سب سے پہلے تربیت پانے والے کے عاطفی تجربہ کو دقیق انداز میں درک کریں پھراس کے بعد جوکچھ ہم نے سمجھاہے کلما ت اوراشاروں کے قالب میں اُس تک منتقل کریں۔ ہلکی مسکراہٹ، امیدبخش نظر، کبھی اس کے شانہ اور جسم پر ہاتھ رکھنا اور ظریف انداز میں ہنسی مذاق کرنا اس سلسلہ میں مؤثرہیں۔

ہمدلی ، دوستی اوررابطہ برقرار کرنے کے لئے ایک مہارت ضروری ہے جن کا اکثر تربیتی طریقوں جیسے احترام واکرام میں مربی محتاج ہو تا ہے۔اور اس کوچاہئے کہ اُس تک پہنچنے کے لئے اپنے اندراس کی آمادگی پیدا کرے ''خود تربیتی طریقہ'' میں اپنی شخصیت کے ساتھ اسی رابطے کا ایجاد کرنالازم وضروی ہے۔

پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین (ع) کی سیرت دوسروں کے حق میں ان کے احترام واکرام سے بھری پڑی ہے جیسے: سلام کرنا نیز سلام کرنے میں پہل کرنا حتیٰ بہ نسبت بھی، بچوںبچوں کے ساتھ کھیلنا ؛بچوںکے اچھے نام رکھنے کی تاکیدکرنا نیز انہیں اچھے القاب سے پکارنا، نو واردانسان کو جگہ دنیاجس کے بارے میں قرآن کریم کا صر یحی حکم ہے۔(١)

نیک گفتاری اورخوش زبانی کی تاکید کرناقُلْ لِعِبَادِیْ یَقُولُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ .(٢) دسیوںدیگراحکام اورتاکیدات کے جواسلامی معاشرہ میں مومنین کے احترام واکرام کی جانب تو جہ کی حکایت کرتے ہیں یہاںتک کہ مومن کی حرمت اوراُس کی رعایت حرمت کعبہ سے بالاترتصورکی گئی ہے۔(٣)

____________________

١۔ (یَااَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا قِیْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰهُ لَکُمْ ...)سورہ ٔمجادلہ، آیت ١١ .''ایمان والو! جب تم سے مجلس میں وسعت پیدا کرنے کے لئے کہا جائے تو دوسروں کو جگہ دیدو تاکہ خدا تمھیں (جنت میں) وسعت دے... ''۔

٢۔سورہ ٔاسراء آیت٥٣. ''میرے بندوں سے کہدیجئے کہ صرف اچھی باتیں کیا کریں''

٣۔ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''المؤمن اعظم حرمة من الکعبة'' بحار، ٦٨، ص١٦۔

۱۸۳

مومن حرمت کے لحاظ سے کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے۔

اس کے علاوہ جو چیز بھی مسلمان کی ہتک حرمت اور توہین کا باعث ہو، اسلام میں اس کی ممانعت کی گئی ہے۔ حضرت علی ـ نے انبارشہرکے رہنے والوں سے جوان کے استقبال میں پیادہ اورغلامانہ انداز میں آئے تھے، فرمایا:

یہ کون سا کام ہے جو تم انجام دیتے ہو؟انھوں نے جواب دیا کہ یہ ایک رسم ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے حکّا م اور فرمانرواؤں کا احترام کرتے ہیں۔حضرت نے فرمایا:

خداکی قسم تمہارے فرمانروااور حکّام اس کام سے کوئی استفادہ نہیں کرتے اور تم لوگ بھی اپنے اس عمل سے دنیا میں زحمت ومشقت اٹھاتے ہو۔اور آخرت میں بھی تمہاری بدنجتی کا سبب ہے۔(١)

حتّٰی اُن مواردمیں بھی کہ ایک عمل ظاہری طورپراکرام ہے لیکن حقیقت میں دوسروں کے ذلیل وخوار ہونے کا باعث ہے۔اس پر تنبیہ فرماتے تھے۔حسین بن ابی العلأکچھ لوگوں کے ہمراہ مکہ کے سفرمیں ہم سفر ہوا۔ اورہر منزل پراپنے دوستوں کی مہمان نوازی میں ایک بھیڑذبح کرتا تھا۔اور جب سفرکے دوران حضرت امام جعفر صادق ـ کی خدمت میں آیا تو حضرت نے اُس سے کہا: آیامو منین کوذلیل وخوارکرتے ہو؟ حسین بن ابی العلأنے امام کے سوال وجواب سے سمجھ گیا کہ اُس کے احباب تنگدستی کی وجہ سے اس کے مانند عمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے لہٰذ اوہ اپنے آپ میں ذلت وخواری کا احساس کرتے تھے۔

تربیت پانے والے یا فرزند سے مشورہ کرنا بھی اس کے احترام و اکرام کے مانند ہے وہ اس طریقۂ عمل سے خود کو عالی مرتبہ اور عظیم شخصیت خیال کرتا ہے، خداوند عالم حتیٰ پیغمبر اکرم سے فرماتا ہے: ''اپنی امت اور ماتحت افراد سے مشورہ کرو''۔(٢)

فرزند کے لئے کسی گھر یا کمرہ کا مخصوص کرنا (جبکہ اس کا امکان ہو ) اور بطور کلی ہر قسم کی مالکیت اور تملک کا احساس بھی ان امورمیں سے ہے کہ جوانسان کے احترام و اکرام کے احساس کا باعث ہے۔

____________________

١۔نہج البلاغہ، حکمت ٣٧۔

٢۔(وَشَاوِرْهُم فِی الْاَمْرِ ) سورہ ٔآل عمران، آیت١٥٩۔

۱۸۴

ب۔بغیر شرط کے مثبت توجہ:

محبت اور علاقہ انسان کی اساسی ضررتوں میں سے ہیںجن کا مختلف ماہرین نفسیات نے مختلف انداز میں کیا ہے، کارن ہورنائے ] Hornay,k [ان دونوں کو ''محبت'' اور ''تصویب اعتبار ومحبوبیت '' کے عنوان کے تحتذکر کرتا ہے، جان بالبی ] Bowlbyj [نے''محبت ودل بستگی''کے مفہوم کو اپنے نظریہ کی بنیاد قرار دی ہے اور بچے کی سیرت کے رشدوارتقاء کو دلبستگی کی ضرورت صحیح طور سے پوری کرنے میں خیال کیاہے۔ مزلو جسمانی اور امن وسلامتی کی ضرورتوں کی تأمین وتضمین کے بعد تعلق اور محبت کی ضرورت کوسب سے اہم ضرورت سمجھتاہے۔

محبوب دوستوں کانہ ہونا ایک بیوی اورایک بچے کو شدت سے احساس ہوتاہے۔وہ دوسروںکے ساتھ عاطفی روابط کے محتاج ہیں بعبارت دیگروہ اپنے گروہ یاخاندان اور فیملی میںایک مرتبہ کامحتاج ہیں... نفسیاتی کے ماہرین اس بات پر متقق ہیں کہ عشق و محبت کی ضرورتوں سے بے بہرہ ہونا ناکامی اور ناساز گاری کی بنیادہے۔(١)

راجرز کے نظریہ کے مطابق مثبت توجہ بغیر شرط کے انسان کے اندر عزت ونفس کا احساس پیدا کرتی ہے جو کہ دوسروں کی طرف سے خصوصاً اپنے سرپرستوں کی طرف سے گرم اور محبت آمیز، تعلقات روابط،قلبی لگائو، قبولیت اور مہربانی کو شامل ہے بے قید وشرطتوجہ مثبت اس معنی میں ہے کہ جوتاثیر وتاثرایک انسان سے دوسرے انسان کے روابط کی بنیاد پر اور اس احساس سے وجود میں آتی ہے کہ تربیت پانے والا ہرصورت میں ایک بااہمیت شخص ہے۔ اگر انسان احساس کرے کہ محبت(مثبت توجہ) اُس صورت میں حاصل کرے گاکہ جب دوست رکھنے کے قابل ہو تو اپنے اندر سے تنفر وبیزاری کے احساس کو دور کرکے دوست رکھنے والی تصویر باقی رکھنے کی کوشش کرتاہے، یہاں پر نہ یہ کہ احساس تنفر خود اس کے خیال میں ناموافق ہے بلکہ انسان کو مثبت توجہ کے کھو جانے پر بھی تہدید کرتا ہے ، ایسے موقع پر زبردستی اس پر فضیلت پیدا کرنے کے شرائط کو لادنا تجربیات کے انکار کا موجب ہوتاہے اور جسم اور اس کی شخصیت درمیان شگاف پیدا ہوجاتا ہے، لیکن اگر والدین (یا مربی) اپنے فرزند کی طرف بدون شرط اور مثبت توجہ رکھتے ہوں اور وہ احساس کرے کہ والدین اس کی اہمیت کے قائل ہیں، تو انکار تجربیات کی پھر کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی۔(٢)

____________________

١۔ روانشناسی شخصیت سالم، ص١٥٠تا١٥٤۔

٢۔ روانشناسی شخصیت ، ص٢٢١۔

۱۸۵

بے شک توجہ مثبت بدون شرط تربیت حاصل کرنے والے کی شخصیت کے احترام وتکریم کا باعث ہوگی اور اس کے اندر عزت نفس کا احساس پیدا کرے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ تربیت پانے والا خود ہی یہ احساس کرے کہ وہ ایک منفرد اور مشخص انسان کے عنوان سے مربی کی توجہ اور عنایت کا مرکز ہے، اگر یہ احساس ثابت ہوجائے تو اس کی ہر ناپسند رفتار وکردار کی (صحیح طرز کے ساتھ) مخالفت کی جا سکتی ہے لیکن اسی حال میں یہ احساس بھی رکھتا ہو کہ خود اُس کو لوگ دوست رکھتے ہیں اور مخالفت حقیقت میں اس کے ناپسندیدہ اعمال ورفتار سے ہے، جیسا کہ قرآن کریم حضرت لوط ـ کی زبانی ان کی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(قَالَ اِنِّی لِعَمَلِکُمْ مِنَ الْقَالین )(١)

'' انھوں نے کہا: میں تمہارے کردار کا دشمن ہوں ''۔

حضرت علی ـ نے بھی حضرت رسول خدا کی حدیث نقل فرمائی ہے:

''اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْعَبْدَ وَیَبْغُضَ عَمَلَهُ ....''۔(٢)

''خداوند سبحان کبھی کبھی کسی بندے کو دوست رکھتا ہے لیکن اس کے عمل کو دشمن رکھتا ہے ''۔

بچوں کے ساتھ برتائو کے سلسلہ میں بھی روایات میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ ان کے ساتھ قلبی لگائو اور نرمی کے ساتھ برتائو کرو، انھیں بوسہ دو، ان کے مہرو محبت میں کمی نہ کرو تاکہ محبت کی احتیاج ان کے اندر نفسیاتی الجھنوں وبیماریوں میں تبدیل نہ ہوجائے، جو شخص دوسروں کی محبت سے بہرہ مند ہو!، وہ دوسروں کے ساتھ احسان ومحبت کر سکتا ہے۔ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں:

'' بچوں کو دوست رکھو اور انہیں اپنے رحم وکرم کے سایہ میں قرار دواور جب بھی اُن سے وعدہ کرو تو اُسے وفا کرو''۔(٣)

____________________

١۔ سورہ ٔشعرائ، آیت ١٦٨۔

٢۔ نہج البلاغہ، خ١٥٤۔

٣۔''أَحِبُّوا الصبیان وارحموهم وَاذا وعدتموهم شیئاً ففولهم'' کافی، ج٦، ص٥٢۔

۱۸۶

حضرت امام جعفر صادق ـ بھی فرماتے ہیں:

''خداوند سبحان ضرور بالضرور اپنے اُس بندے کو جو اپنی اولاد سے بہت محبت کرتا ہے مورد رحمت قرار دیتا ہے''(١)

''اپنے فرزندوں کو زیادہ بوسہ دو، کیونکہ بہشت میں ہر بوسہ کے بدلہ ایک درجہ ہوگا''(٢)

محبت اور مہربانی پیغمبر اکرم کی سنت اورسیرت ہے، نیز انسانوں کی اخلاقی تربیت ہدایت میں آپ کی کامیابی کا راز بھی یہی نکتہ ہے: ''فَبِمَارَحْمَةٍ مِنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَو کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَولِکَ فَاعْفُ عَنهُم وَاسْتغفِر لَهُم'' (٣) ۔ پس اﷲ کی رحمت وبرکت سے آپ کے ساتھ نرم خو اور پُرمحبت ہیں، اور اگر تند خو اور سخت دل ہوتے تو یقیناً آپ کے آس پاس سے وہ لوگ پراگندہ ہوجاتے۔ لہٰذااُن سے درگذر کیجئے اور اُن کے لئے بخشش ومغفرت طلب کیجئے۔

پیغمبر اکرم کی سنت اور سیرت کے لئے بھی جو اُن کو پتھرمارتے تھے، دعا کرتے تھے: ''اَللّٰہُمَّ اہْد ِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَایَعْلَمُونَ'']خدایا! میری قوم کی ہدایت کر اس لئے کہ وہ نہیں جانتی ہے[ وہ انسانوں کے ساتھ بدون شرط مثبت توجہ کا بالاترین درجہ ہے کہ جو اﷲکی تمام مخلوقات سے گہرے لگائو اور عشق سے حاصل ہوتا ہے۔

البتہ توجہ مثبت بلاشرط کی توفیق، صرف تمام انسانوں کے ساتھ عشق کرنے کے نتیجہ میں ممکن ہے۔ اہم یہ ہے کہ نکتہ خالص اور بے ریا محبت دلوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور گہرے لگائو اور شخصیت کے احترام کا باعث ہوتی ہے، نہ کہ جو کچھ تکلف اور دکھاوے سے پیدا ہوتی ہے ۔

اپنے عشق و محبت کو اپنے فرزندوں یاتربیت پانے والوں میں ظاہر کرنے کے لئے ہر فرصت سے استفادہ کرنا چاہئے، جیسے اوقات ان کے ساتھ ہم گذاریں؛ مشترک رابطوں اور چاہتوں کو پروان چڑھائیں؛ باہم کھیلیں، ان سے کہیں کہ ہم تمھیں دوست رکھتے ہیں، اُن کے ساتھ اس طرح برتائو رکھیں کہ گویا وہ روئے زمین کی سب سے اہم انسان ہیں، ان کے پائداراور ناقابل فراموش آثار وواقعات وجود میں لائیں، ان کی تعریف کریں وغیرہ وغیرہ...۔(٤)

____________________

١۔''انّ اللّٰه لیرحم العبد لشدّة حُبّه لولده'' کافی، ج٦، ص٥٢۔

٢۔ ''اکثرو من قبلة اولادکم فانّ لکم بکلّ قبلةٍ درجةً فی الجنّة ۔''وسائل الشیعہ، ج١٥، ص٢٠٢۔

٣۔ سورہ ٔآل عمران، آیت ١٥٩۔

٤۔ استفان مارستون، معجزہ تشویق، ترجمہ تور اندخت تمدن، ص٨١۔

۱۸۷

محبت کا ظاہر کرنا اور اس کابیان کرناعاطفی روابط میں بہت اہم ہے۔ روائی کتابوں میں اس سلسلہ میں مستقل اور جداگانہ باب پایاجاتاہے: حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''جب کوئی کسی انسان کو دوست رکھے تو اسے اطلاع دے کیونکہ یہ دوستی کے پائدار ہونے کا موجب ہوگا''(١) خداوند سبحان بھی حضرت موسٰی ـ کی نسبت اس طرح سے محبت کا اظہار کرتا ہے: ''یقیناً دوبارہ بھی ہم نے تم پر احسان کیا جب ہم نے تمہاری ماں کو وحی کی اور اپنی مہر و محبت کو تم پر ڈال دیا تاکہ میرے زیر نگرانی پرورش پائو۔''(٢) اور اپنے حبیب محمد مصطفی کی جان کی قسم کھاکر محبت اور لطف کا اعلان کرتا ہے: ''آپ کی جان کی قسم وہ لوگ اپنی مستی میں سر گرادں ہیں ''(٣)

قرآن کی مختلف تعبیریں لوگوں بالخصوص مومنین کی نسبت خداوند عالم کے بے پایان لطف وکرم کو بیان انسانوں کے عظیم مربی کے عنوان سے بیان کرتی ہیں،قومی، عبادی، ''انِّی اَخَافُ عَلَیْکُم، هَلْ لَکَ یَااَیُّهَا الَّّّذِیْنَ آمنوا ۔۔۔''وغیرہ۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ محبت کے اظہار میںہمیں اعتدال اور میانہ روی کی رعایت کرنا چاہئے اور محبت میں افراط سے ہمیں اجتناب کرنا چاہئے؛ کیونکہ یہ چیز فرزندوں کو بے حوصلہ وبے اعتماد بنادیتی ہیں، اس وجہ سے مشکلات زندگی کے موقع پر حقارت (کمتری) اور ناتوانی کا احساس کرتے ہیں، کیونکہ سماج اور جس ماحول میں وہ ہیں اس میں اتنی محبت اور مہربانی انھیں نصیب نہیں ہوگی۔ محبت میں افراط تربیت پانے والے کی تربیت میں تاثیر کو زائل کردیتی ہے۔

حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں: ''سب سے بُرے آباء وہ ہیں جو محبت اور نیکی میں افراط سے کام لیتے ہیں ''(٤)

____________________

١۔ ''اذا احببت رجلاً فاخبره بذلک فانّه اثبت للمودة بینکما '' کافی، ج٢، ص٦١٥، باب اخبار الرجل اخاہ بحبہ (انسان کا اپنے برارد ایمانی ) اپنی محبت کی اطلاع دینا کو۔

٢۔ (وَلَقَدْ مَنَّنَا عَلَیْکَ مَرَّةً اُخْریٰ والقیت علیک محبّةً منی ولتضع علی عینی )(سورہ ٔطٰہٰ، آیت ٣٧تا ٣٨)

٣۔ (لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِی سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ )سورۂ حجر، آیت٧٢۔

٤۔ ''شر الاٰباء من دعاه البرالی الافراط ''(تاریخ یعقوبی، ج٣، ص ٥٣)۔

۱۸۸

ج۔ اغماض (چشم پوشی) :

کمزوریوںاور خطائو ں کا اظہار عزت نفس کے برباد ہونے اور شخصیت کے پامال ہونے کا باعث ہوتاہے،لہٰذا ان سے اغماض اورچسم پوشی ان کے لئے تربیت پانے والے کی شخصیت کی تعظیم وتکریم ہوگی۔جب کسی سے کوئی خطا سرزد ہو یا خطا کا احتمال دیں۔ تو اس کی اخلاقی تربیت اور حفظ عزّت نفس کے لئے تین مرحلے نظر میں رکھے جاسکتے ہیں:

١۔ صحت پر حمل کرنا چاہئے یا اس کی اچھے طریقہ سے توجیہ کرنی چاہئے؛

خطا کے ثابت ہونے سے پہلے اگر خطا کی توجیہ کرنے کے قرائن اور احتمالات موجود ہوں تو صحت پر حمل کیا جا سکتا ہے جو کہ اسلامی فقہ میں ایک مسلم الثبوت اصل ہے۔ لہٰذا احتمال خطا کی ٹوہ میں نہیں رہنا چاہئے اور اپنے تجسس اور کھوج سے کشف فساد اور ایک مسلمان کی آبروریزی کا باعث نہیں ہونا چاہئے۔

حضرت علی ـ نے فرمایا:

'' اپنے ]ایمانی[ بھائیوں کے کام کی اچھے سے اچھے عنوان سے توجیہ کرو یہاں تک کہ اس کے خلاف تم پر ثابت ہوجائے، نیز ان کی باتوں کی نسبت بھی جب تک کہ اچھی توجیہ کا امکان ہے بدگمانی نہ کرو''۔(١)

٢۔تغافل اور تجاہل:

اگر تربیت پانے والے کی خطا ثابت ہوجائے لیکن وہ پہلی مرتبہ تھی اور حالات کے مطابق ہم تشخیص دیں کہ اس کو نظرانداز کرنا اور اس کی شخصیت کاتحفظ اصلاح کا باعث ہو گا تو تغافل اورتجاہل سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ؛یعنی یہ ظاہرکریں کہ یہ خطااس سے سرزدنہیں ہو ئی ہے اوراس کی توجیہ کو بھی قبول کریں، باوجودیکہ کہ اس کے صحیح نہ ہو نے سے با خبر ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

''دوسروں کے ساتھ معاشرت اور زندگی گزارنے کے حالات کی اصلاح ایک ایسے ظرف کے مانند ہے جس کا دوثلث ]دو تہائی[زیرکی اور ایک ثلث ]ایک تہائی[تغافل ہے''۔(٢)

'' جزئی امورسے تغافل کرکے خودکو بلند مرتبہ اور عالی قدر بناؤ''۔(٣)

____________________

١۔''ضَع اَمر اَخِیکَ عَلیٰ اَحسنه حتّیٰ یاتِیکَ مَایقلبک عنه وَلَاتظنُّنَّ بکلمة خرجت من اخیک سوائً وانت تجد فی الخیرسبیلاً'' (کافی، ج٢، ص٣٦٢)۔

٢۔ ''صلاح حال التعایش والتعاشر ملاء مکیال ثلثاه فطنة وثلثه التغافل ''۔(اخلاق فلسفی، ص٣٥٩)۔

٣۔''عظموا اقدارکم بالتغافل عن الدنی من الامور'' ۔( ایضاً، ص٢٢٤)۔

۱۸۹

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''تجاہل وتغافل سے بہتر کوئی زندگی نہیں ہے۔''(١) تغافل تربیت حاصل کرنے والے کی تکریم وتعظیم کے علاوہ اسے اس بات کے لئے آمادہ کرتا ہے کہ وہ اپنے مربی کے کرم وبخشش کی تلافی کرے اور یہی امر اس کی اصلاح اورخطاکے دوبارہ نہ کرنے کا سبب بنے گا۔

٣۔عفوودرگذر:

خطاکے مسلم اورآشکارہونے کے بعد، اب بھی چشم پوشی اورنظرانداز کرنے کی گنجائش پائی جاتی ہے۔ اگرہم یہ احتمال دیں کہ دوسروں کی خطاکو معاف کرنا ان کی بیداری اوراصلاح کا باعث ہوگی (کہ عام طور پر ایساہی ہے) توعفوکرناہی بہترہے۔خداوندغفور سماج اور معاشرہ میں ایک جاری وساری سیرت کے عنوان سے عفوودرگذرکی تاکیدکرتاہے: (خُذِ الْعَفْو )۔(٢) ''اے پیغمبر!عفوودرگذرکواپنا شعار بنالو''۔

......''ان لوگوں سے درگذرکرو اور ان سے چشم پوشی کرو کہ خدانیکوکا روں کودوست رکھتاہے''۔(٣)

عفوودرگذرکرنا چاہئے کیا تم نہیں چاہتے کہ خداتمہیں معاف کردے اور خدابخشنے والااورمہربان ہے''۔(٤)

روایات کی نظرسے بھی عفوودرگذشت مکارم اخلاق اورسماجی اور اجتماعی روابط میں نمایاں مرتبہ کا حامل ہے اور دوسروں میں اخلاقی فضائل کی راہ ہموارکرنے والاہے:

پیغمبراکرم نے فرمایا ہے: ''ایک دوسرے کو معاف کروتاکہ تمہارے درمیان سے کینے اور کدورتیں ختم ہوجائیں۔''(٥)

عفوودرگذرخداکے بندوں کی عزت میں اضافہ کرتاہے، لہٰذاعفوکرو تاکہ خداتمیں عزیز قرار دے۔(٦)

حضرت علی ـ سے منقول ہے: ''عفوودرگذشت تمام مکارم اخلاق کا تاج ہے۔''(٧)

____________________

١۔''لاعقل کالتجاهل ''(غرر الحکم ودرر الکلم۔) ٢۔ سورہ ٔاعراف، آیت١٩٩۔

٣۔ (فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ، اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ )(سورہ ٔمائدہ، آیت ١٣)۔

٤۔ (وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا، اَلَاتُحِبُّوْنَ اَن یَغْفِرَ اللّٰهُ لَکُمْ ۔)(سورہ ٔنور، آیت٢٢)۔

٥۔''تعافوا تقسط الضغائن بینکم'' (کنز، ٧٠٠٤)۔

٦۔''العفو لایزید الّا عزاًفاعفوا یعزکم اللّٰه'' ۔ (ایضاً، ١٢،٧٠)۔

٧۔''العفو تاج المکارم ۔''(غرر الحکم، فصل دوم، ص٢٤٥)۔

۱۹۰

قرآن بھی فرماتاہے: (فَاصْفَح الصَّفحَ الْجَمِیْل )(١) ''آپ خوبصورتی کے ساتھ درگذر کردیں۔ ''صفح'' ترشروئی اورعتاب کے بغیردرگذر کرنے کے معنی میں ہے۔قدرت رکھنے کے باوجودمعاف کردینے کے بارے میں روایات میں بہت زیادہ تاکید ہو ئی ہے۔ حضرت امام حسین ـ فرماتے ہیں: ''لوگوںمیں سب سے زیادہ درگذر کرنے والا وہ ہے جو قادر ہو نے کے باوجود معاف کردے۔''(٢)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''بہترین عفو درگذشت وہ عفوودرگذشت ہے کہ جوقادرہو نے کے باوجودمعاف کردی جائے۔''(٣) انھوںنے اپنے فرزند حضرت امام حسن ـ سے وصیت میں عفو و درگذر کو سزا سے زیادہ انسان کی صلاح کاباعث جاناہے: ''جب تمہارے نزدیک کسی سے کوئی خطاسرزد ہوجائے، تو عادلانہ درگذر عقلمندکے لئے سزاسے زیادہ موثرہے۔''(٤)

پیغمبر اکرم بھی عفوکو موجب اصلاح جانتے ہیں:

ایک انسان نے اپنے خدمت گزار وں کے رویہ کی رسول اکرم کی خدمت میں شکایت کی۔تو حضرت نے فرمایا: انھیں معاف کردو تا کہ ان کے دل نیکیوں کی طرف مائل ہوں ''۔عرض کیا: اے پیغمبر خدا !وہ لوگ کاموں میں سستی کرتے ہیں !فرمایا: انھیں معاف کردو''۔(٥)

اغماض وچشم پوشی کے ذریعہ بغیر رفتار کے نفسیاتی نقطۂ نظر (اس کے تحریکی پہلو کے علاوہ) ''خاموشی'' کے طریقہ سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے: خاموشی اس طریقۂ کارکو کہا جاتا ہے کہ اُس میں رفتار کا واقع ہونا بغیرتقویت کے رہ جائے اور تکرار ایک رفتار کی تقویت کے بغیر اُس رفتار کے مکمل توقف کا باعث ہوتی ہے... مثال کے طور پر استاد نامطلوب رفتارسے بے اعتنائی کرے تو طالب علموں کے شور شرابہ کو خاموش کرسکتا ہے(٦) البتہ عفو و درگذر کے خاموشی سے بھی کہیں زیادہ عمیق معنی پائے جاتے ہیں، اگرچہ عام طور وہ پر خاموشی کا مستلزم ہے۔

____________________

١۔ سورہ ٔحجر، آیت٨٥۔

٢۔''ان اعفی الناس من عفی عنه قدرته '' (بحار، ج٧٤، ص٤٠١)۔

٣۔''احسن العفو کان عن قدرة'' (غرر الحکم، فصل دوم، ص٢٤٦)۔

٤۔''اذا استحق احد منک ذنبا فان العفو اشدّ من الضرب لمن کان له عقل'' (بحار، ج٧٧، ص٣١٦)

٥۔ مستدرک الوسائل، ج٢، ص٨٧۔

٦۔ سیف، تغییر رفتار ورفتار درمانی، ص٣٨٢۔

۱۹۱

د۔ ذمہ داری دینا:

جب انسان خود کو قوی اور توانا محسوس کرتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ اُس سے کوئی کام ہوسکتا ہے تو وہ افتخار وعزت کا احساس کرتا ہے، تربیت پانے والے انسان کی تکریم کے لئے اُس کے اندر عزت کا احساس پیدا کرنا چاہئے، تاکہ اُس سے ذلت اور کمتری کا احساس جاتا رہے، لہٰذا ضروری ہے کہ تربیت پانے والے کی توانائیوں کے ظاہر ہونے کا امکان پیدا کریں تاکہ اسے یقین ہو کہ اس سے بھی کام ہوسکتا ہے اور وہ بھی کسی کام کا آدمی ہے تربیت پانے والوں اور فرزندوں کے درمیان ذمہ داری دینا اور کاموں کوتقسیم کرنا اُن کی شخصیت کی تعظیم و تکریم کا باعث ہوتا ہے اس کے دوسرے موارد اخراجات کی تنظیم کا امکان ،انتخاب اور کسی بات کے طے کرنے کے لئے مہلت دینا، بعض ذمہ داریوں کو سپرد کرنا وغیرہ ہے، اور ذمہ داری کی سپردگی اگر عاقلانہ اور ظریف نگرانی کے ساتھ ہو تو اخلاقی تبدیلی کا باعث ہوسکتی ہے، مندرجہ ذیل داستان نے ''پیاژہ'' نامی معاصر نفسیات کو حیرت میں ڈال دیا ہے، توجہ فرمائیے: ١٩٣٠۔ اور ١٩٣٥۔ کے درمیان میں نے ایک مؤسسہ وادارہ کا دیدار کیا تو وہ مجھ پر کچھ زیادہ ہی اثر انداز ہوا، یہ مؤسسہ مجرم بچوں سے مخصوص تھا اور یورپ کے مشرقی علاقے میں واقع تھا، یہ ایک ماہر اور مدبر مدیرکے زیر ادارت تھا ، وہ چاہتاتھا کہ جن بچوں اور نوجوانوں کی اُس نے ذمہ داری لے رکھی ہے، ان پر اعتماد کرے، یہاں تک کہ مؤسسہ کے نظم وضبط کو ان کے حوالے کردے اور اہم ترین ذمہ داری اُن میں سے شریرترین کے حوالے کردے ، اس تجربہ کے دو پہلو نے ہمیں مخصوص انداز میں اپنی طرف مائل کیا، ایک نووارد اور تجربہ کار افراد کی ''تربیت'' دیگر نوجوانوں کے اجتماعی گروہ کے ذریعہ اور دوسرے موسسہ کی داخلی نظم وضبط اور اشارے عدالتی امور بھی ان شاگردوں کے سپرد تھے جو روز شب پر محیط تھے، ذرا تصور کریں ان پر اس قدر اعتمادکہ مدرسہ کے قواعد اور دستورات کو شاگردوں کی جماعت معین کرتی ہے نہ بزرگ افراد ، نو واردافراد میں کیا اثر رکھتی ہے۔ جہاں پر جو بچے اور نو جوان کسی جرم کے مرتکب ہوئے تھے اور بچوں کے عدالتی محکمہ نے انھیں مجرم قرار دیاتھا اور وہ لوگ طولانی تادیب اور سزا کے منتظر تھے، یکبارگی خود کو اُن نوجوانوں کے درمیان دیکھتے تھے کہ جو جرم کے تمام مراحل گذارنے کے بعد اپنا علاج کرکے ئنی زندگی چاہ رہے تھے ، ایک منظم گروہ رکھتے تھے اوربلافاصلہ نووارد افراد کو اپنے جرگہ میں قبول کرکے تمام امور، فرائض اور ذمہ داریاں ان کے حوالے کردیتے تھے ، کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جب ایسے افراد زندان کے داروغہ سے روبرو ہونے کے بجائے اپنے ساتھیوں سے ملاقات کرتے تھے تو یکبارگی بدل جاتے تھے اور پھر اس کے بعد ان میں کج رفتاری کی تکرار نہیں ہوتی تھی اس مؤسسہ کے ادارہ کرنے والے عظیم مربی کی خوبصورت ترین ایجاد یہی بات تھی

۱۹۲

اگر اس ادارہ کے شاگردوں سے کوئی خطا سرزد ہوتی تھی تو وہ عدالت اُس خطا کی تحقیق کرتی کہ جو ان ہی شاگردوں سے تشکیل پائی تھی اس حیرت انگیز عدالت کی نظریہ اور اس کے احکام وہاں کے اخبار میں شائع ہوئے تھے...۔(١)

قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم کی سیرت دوسروں کو (خصوصاً نوجوانوں کو)ذمہ داریاں سونپنے کے بارے میں اُن کی استعداد کو بڑھانے اور ان کی شخصیت کاا حترام کرنے کے لئے بہت سے واقعات کی نشاندہی کرتی ہیں مثلاً طالوت جیسے جوان کا انتخاب بنی اسرائیل کی قیادت کی ذمہ داری کے لئے ، اسامہ کی کمانڈری اور مصعب بن عمیر نامی جوان کا مدینہ کے لئے سب سے پہلے مبلغ کے عنوان سے تعارف کرانا وغیرہ۔

٤۔ اخلاقی اقدار کی دعوت دینا

جبکہ پہلی دو روشوں کے مطابق موانع برطرف ہوجائیں اورماحول موافق وسازگار ہوجائے نیز تکریم شخصیت کی روش سے باطنی آمادگی پیدا ہوجائے مربی کلی استفادہ کے ذریعہ اخلاقی اقدار کی دعوت کی کلی روش سے استفادہ کے ذریعہ تربیت پانے والوں کو اخلاقی فضائل کی طرف مائل وجذب کرسکتا ہے، بعبارت دیگر ''اقدار کی تبلیغ '' کرسکتا ہے۔(٢)

علم نفسیات تبلیغ کے مخصوص شرائط کو تین عنصر پیغام دینے والے (مبلغ) پیغام لینے والے اور پیغام میں لحاظ کرتا ہے کہ جو پیغام کی تاثیر اور نفوذ کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔

پیغام کی بعض مسلّم الثبوت خصوصیات درج ذیل ہیں:

١۔مخاطب کو اپنی جانب جلب (مائل) کرے۔(نیاپن رکھتا ہو اور دیگر امور سے الگ اورممتاز ہو )۔

٢۔ مخاطب کے نزدیک قابل درک ہو۔

____________________

١۔ پیازہ: تربیت رہ بہ کجا می سپارد، ١٠١، ١٠٢۔

٢۔ تربیت پانے والا بھی ''خود تربیتی'' روش سے استفادہ کے ذریعہ پیغام دینے والے، پیغام لینے والے اور پیغام کی شرائط ملاحظہ کرسکتا ہے اور زیادہصحیح اور مطلوب کاانتخاب کرسکتا ہے۔

۱۹۳

٣۔اہمیت کے لحاظ سے مخاطب کے نزدیک قابل قبول ہو۔

٤۔اسے حفظ کرسکتا ہو اور بوقت ضرورت اُسے یاد کرسکتا ہو۔

٥۔ایک موضوع کے مثبت اور منفی (قوت وضعف) دونوں پہلو بیان کئے جائیں۔

٦۔پیغام کی تکرار، ترغیب و دلچسپی کے اثر کو مزید بڑھا دیتی ہے، اس شرط کے ساتھ سستی اورخستگی کا باعث نہ ہو۔

٧۔ایسے پیغامات جو زیادہ خوف ودہشت کے حامل ہوتے ہیں کمتر تاثیر رکھتے ہیں، کیونکہ اضطراب اور گھبراہٹ کو اس درجہ بڑھا دیتے ہیں کہ انسان اس کی صحت کا انکار کرنے لگتاہے، مگر یہ کہ اُسے کسی اور ذریعہ سے یقین ہوچکا ہو۔

٨۔پیغام دینے والا یا مبلغ محبوب، باحوصلہ، مخلص، مطمئن، وفادار، قابل اعتماد، عاقبت اندیش، ہوشیار اور صادق ہو۔

پیغام اس بات کے لئے جو کہ خارجی اور مخالف دبائو کے مقابل تاب لاسکے (قدرت بخش سکے) اس طرح سے جاگزین ہو کہ پیغام قبول کرنے والے کی دلچسپی میں اضافہ ہوجائے:

١۔نئے پیغام کو دیگر یقین واعتقاد کے ساتھ مخلوط کرے۔

٢۔اپنے یقین واعتقاد کی دلیلوں کی تحقیق کرے۔

٣۔متعارض دلیلوں کو ایک دوسرے سے ملا کر دیکھے اور صحیح ترمیم یا اہم تر کا انتخاب کرے۔

٤۔رائے اور نظریہ کا بدلنا اپنے آزادنہ انتخاب کے زیر اثر ہو نہ کہ ترغیب دلانے والے کی زور زبردستی سے۔

اس روش کو منطق کی کتابوں میں ''خطابہ'' کہتے ہیں(١) اور اس طرح تعریف کرتے ہیں: خطابہ ایک ایسا علمی طریقہ ہے جس کی مدد سے لوگوں کو اُس چیز میں خاموش جس کی تصدیق کی ہم امید رکھتے ہیں، بصورت امکان خاموش اور قبول کرایا جاسکتا ہے۔ جو امور خطابہ کی تاثیر کو زیادہ کردیتے ہیں، بعض قائل سے متعلق ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں:

١۔ علمی یااجتماعی اعتبار سے اپنا تعارف کرائے (دوسرے لوگ بھی یہ کام کر سکتے ہیں)

____________________

١۔ مظفر، المنطق، ص٤١٥اور اس کے بعد (اس فرق کے ساتھ کہ یہاں پر مفہوم زیادہ عام اور صناعت شعر کو بھی شامل ہوتا ہے)۔

۱۹۴

٢۔اس طرح ظاہر ہوکہ اس کی تعظیم وتکریم نیز اس کی باتوں کی تصدیق کا باعث ہو، جیسے یہ کہ لباس، ہاتھ اور جسم کی حرکتوں، آنکھوں کے اشاروں، حزن و مسرت کی حالت وغیرہ کے اعتبار سے میٹنگ (جلسہ) اور موضوع سخن سے ہم آہنگ اور مرتبط ہو۔

٣۔ ''بات کرنے میں'' اس کی آوازغرض کے مطابق ہو (کبھی بلند تو کبھی آہستہ اور کبھی ترجیع تو کبھی تقطیع و....) آواز کا اچھا ہونا، اچھے انداز میں پیش کرنا اور طرز بیان میں تصرف اورتبدیلی بھی اہم امور میں سے ہے۔

٤۔ ''مخاطبین'' کے عواطف واحساسات کو جلب کرے اور ان کے اندر اس طرح نفسانی تأثّر کی حالت اور ذہنی آمادگی ایجاد کرے کہ جو غرض کے مطابق ہو، کبھی رقت و ر حمت کی حالت تو کبھی خشم ونفرت کا انداز اور کبھی تبسم اور مسرت ایجاد کرے، اس بات کے لئے کہ جلسہ خشکی اور جمود کی حالت سے خارج ہوجائے اور قائل کی طرف متوجہ ہونیکی کیفیت حالت ، ان کے اندر ایجاد کرے، کبھی ضروری ہے کہ انھیں لطیفوں کے ذریعہ ہنسائے یا کسی حکمت آمیز نکتہ سے انھیں حیرت میں ڈال دے ۔ کبھی مخاطبین کی تعریف وتوصیف لازم ہے (اعتدال کی حد میں) لیکن ان کی ہر طرح کی توہین و تحقیر سے پر ہیز کیا جائے۔

٥۔ شہادت حال، یعنی عملی صداقت کے گواہ بھی قائل کی بات کے نفوذ میں موثر امور میں شمار ہوتے ہیں، اس طرح سے کہ فضیلت، صدق، امانت، علم اور معرفت سے مشہور ہو یا دوسری جہت سے محبوبیت رکھتا ہو یا یہ کہ اس کی گفتگو میں صدق وصفا اور اخلاص کی علامتیں ظاہر ہوں حضرت امیر المومنین علی ـ کے بقول: ''کوئی بھی شخص کچھ اپنے دل میں پنہاں نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کی زبان کے اچانک کلماتہیں یا چہرے کے آثار سے ظاہر ہوجاتا ہے''۔(١) بعبارت دیگر قائل کو چاہئے اپنے بیان پر ایمان رکھتا ہو، کیونکہ جو بات دل سے نکلتی ہے دل میں اثر کرتی ہے''

''آپ حکمت اور اچھی نصیحت (موعظہ) کے ذریعہ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیجئے اور اُن سے بہترین انداز میں بحث وجدال کیجئے(٢)

____________________

١۔''ما اضمر احد شیئاً الّا ظهر فی فلتات لسانه وصفحات وجهه'' (نہج البلاغہ کلمات قصار ٢٦)۔

قرآن کریم کی زبان میں اس روش کو ''موعظہ'' سے تعبیر کیا گیا ہے البتہ موعظہ ونصیحت روش کے مرادی جنبہ کی طرف بھی اشارہ کرتاہے، لیکن قرآن کی اس سہ گانہ تقسیم میں تقریباً اقدار کی دعوت کی روش سے ہم آہنگ ہے۔

٢۔ سورہ ٔنحل، آیت١٢٥۔

۱۹۵

موعظہ یعنی انسانوں کے عواطف واحساسات سے(١) انھیں حق کی دعوت دینے کے لئے استفادہ کرنا۔ قرآن نے موعظہ کو صفت ''حسنہ '' سے مقید کیا ہے، کیونکہ: نصیحت اُس صورت میں موثر واقع ہوتی ہے کہ ہر طرح کی خشونت ، تند کلامی، فوقیت طلبی، طرف مقابل کی تحقیر وتوہین، ضد اور ہٹ دھرمی وغیرہ سے خالی ہو لہٰذا مو عظہ اُس وقت اپنا گہرا اثر چھوڑتا ہے کہ احسن اور خوبصورت اندازمیں بیان ہو۔(٢)

اخلاقی اقدارکی دعوت کے طریقے درج ذیل ہیں:

الف۔ انذار وبشارت:

انذار(٣) یا ترہیب ڈرانے اور ہوشیار کرنے نیز بُرے اعمال کے بُرے نتائج اور عواقب کی طرف انسان کو متوجہ کرنے کے معنی میں ہے کہ اس میں ایک قسم کا ڈرانا بھی ہے۔ ''تبشیر''(بشارت دینا) یا ترغیب انسان کو نیک امور اور مطلوب کاموں کے نتائج سے آگاہ کرنے کے معنی میں ہے کہ جو سرور و شادمانی کا باعث ہے۔ انسان فطری طور پر لذت اور نعمت کی طرف راغب ہوتا ہے اور درد والم سے اجتناب و دوری چاہتا ہے۔ اسی لئے اگر انذار وتبشیرمخاطب کے قبول کرنے اور اس کے یقین کے مطابق ہو تو موثر ہے، یعنی اگر مخاطب فکری واعتقادی اصول ومبانی کے لحاظ سے تصدیق کرے کہ یہ عمل ان لذتوں کا حامل ہے یا فلاں آلام کا باعث ہے تو بلاشبہہ ایسا انذار یا تبشیر موثر واقع ہوگا۔

قرآن کریم اور انبیائے الٰہی نے اس وسیلہ سے کثرت سے استفادہ کیا ہے، جیساکہ قرآن تمام انبیاء کو ''مبشرین اور منذرین'' کہتا ہے(٤) اور خود کو ''نذیر''(٥) اور ''بشریٰ''(٦) کہتا ہے۔

____________________

١۔ مفردات راغب معجم مفردات الفاظ قرآن، میں اس کے دومعنی ذکر ہوئے ہیں: ١۔''ایسی زجر وتوبیخ جو خوف دلانے کے ساتھ ہو''کہ جو اقدار کی دعوت کے فنون اور طریقوں میں شمار ہے۔ ٢۔''هو التذکیر بالخیر فیما یرق له القلب '' خیر کے ساتھ نیصیحت کرنا اس چیز کے بارے میں جس کے لئے دل نرم ہوجائے۔کہ یہی عام معنی یہاں پر مراد ہے۔ المیزان، ج١٢، ص٣٧٣۔ تفسیر نمونہ، ج١١، ص٤٥٥ پراسی عام معنی کو قبول کیا ہے۔٢۔ تفسیر نمونہ، ج١١، ص ٤٥٦۔ المیزان میں بھی یہ بات ایک دوسرے انداز سے بیان کی گئی ہے:''من هنا یظهر انّ حسن الموعظه انما هو من حیث حسن اثره فی الحق الذی یراد به بأن یکون الواعظ نفسه متعظا بمایعظ ویستعمل فیها من الخلق ما یزید وقوعها من قلب السامع موقع القبول فیرق له القلب ویقشعر به الجلد ویعیه السامع ویخشع له البصر'' ۔

٣۔ ''الانذار اخبار فیہ تخویف کما ان التبشیر اخبار فیہ سرور۔'' (المفردات)۔٤۔ سورہ ٔانعام، آیت٨۔ ٥۔ سورہ ٔمدثر، آیت٣٦۔ ٦۔ سورہ ٔبقرہ، آیت٩٧۔

۱۹۶

انذار وتبشیر سے استفادہ کرنے میں قرآن کریم کے تربیتی انداز میں دو نکتہ قابل توجہ ہے:

ایک۔قرآن کریم میںانذار وتبشیر کا انسانی عواطف واحساسات کے اجاگر کرنے کا اہم رول ہے کہ ایک طرف خوف(١) ، خشیت(٢) اورخشوع(٣) خداوندعالم کی نسبت مخاطبین میں برانگیختہ کرتا ہے اور دوسری طرف محبت(٤) ، شوق(٥) اور امید ان کے دل میں پروان چڑھاتا ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں قسم کے درمیان ایک موازنہ ایسا توازن وتعادل ایجاد کرتا ہے کہ جو نہ یاس اور ناامیدی کا باعث ہوتا ہے اور نہ ہی غرور و بے خیالی کا روایات میں بھی تاکید کی گئی ہے کہ مبلغ کو چاہئے کہ مخاطبین کو خوف ورجا کے درمیان رکھے۔(٦)

دو۔ انذار وتبشیر کے مصادیق کا استعمال: قران کریم میں اس کا دائرہ وسیع ہے، خداوندعالم ہر انسان کے لئے ''رضوان'' اور ''روح''و ''ریحان'' کی بات نہیں کرتا، بلکہ بعض کو لذیذ غذائوں خوبصورت اور زربخت لباسوں، فرحت بخش تفریح گاہوں وغیرہ کے وعدہسے امید وار کرتاہے ۔ لہٰذا اخلاقی تربیت کے سلسلہ میں بلند پروازی نہیں کرنی چاہئے، بلکہ افراد کی استعداد اور ظرفیت کے مطابق، مختلف بشارتوں اور نعمتوں سے متعلق گفتگو کرنی چاہئے۔

ب۔ داستان گوئی :

داستان میںایسا جادو ہوتا ہے کہ جو روحوں کو مسحور کرلیتا ہے، وہ کونسا جادو ہے اور کس طرح روحوں پر اثر انداز ہوتا ہے؟کوئی انسان بھی اس کے لئے حد و حدود معین نہیں کرسکتا آیا یہ خیال ہے کہ جو داستان سے پیدا ہوتاہے اور داستان کے محل وقوع اور منزلوں کی یکے بعد دیگر تعقیب کرتا ہے اور اُسے ذہن میں ایک محسوس واقعیت سے تبدیل کردیتا ہے؟ یا انسان کے ''وجدان کی مشارکت'' داستان کے ہیرو کے ساتھ ہوتی ہے کہ جو آدمی کی روح میں اس کی تاثیر کا باعث ہوکرواضح اور روشن انداز میں احساسات وافکار میں جاگزیں ہوجاتی ہے؟

____________________

١۔ (لمن خاف مقام ربه جنتان )(سورہ ٔرحمن، آیت٤٦)۔ ٢۔ (انما انت منذر من یخشاها ۔)(سورہ ٔنازعات، آیت ٤٥)۔٣۔ (الم یأن للذین آمنوا ان تخشع قلوبهم لذکر اللّٰه ۔) (سورہ ٔحدید، آیت١٦)۔٤۔ (والذین آمنوا اشدُّ حبّاً للّٰه ۔)(سورہ ٔبقرہ، آیت١٦٥)۔٥۔ (ان الذین آمنوا اولٰئک یرجون رحمة اللّٰه ۔)(سورہ ٔبقرہ، آیت٢١٨)۔٦۔''خیر الاعمال اعتدال الرجاء والخوف'' ۔ (غرر الحکم، فصل ٤،ص ١٥٦)۔

۱۹۷

یا داستانی موقعیت سے انسان کی روح کے متاثر ہونے کی وجہ سے ہے، جب انسان عالم خیال میں خود کو اس کے حوادث وواقعات کے درمیان داخل تصور کرتا ہے اور دور سے ماجرے کا نظارہ کرتا ہے، لیکن یہ چاہتاہے کہ نجات دینے والا یا نجات یافتہ ہو؟ جو بھی ہو داستان کی یہ سحر انگیز تاثیر قدیم الایّام سے انسان کے ساتھ رہی ہے، ہمیشہ اس کی زندگی کے ساتھ روئے زمین پر سیر کرتی رہی ہے اور کبھی ختم نہیں ہوگی۔(١)

داستان گوئی ایک ایسا طررز اوراسلوب ہے کہ جوجذابیت اور سامع کو اپنے ہمراہ کرنے کے علاوہ داستان کے اغراض ومقاصد کو قبول کرنے کے لئے عاطفی راہ بھی ہموار کرتی ہے قرآن کریم نے انسانوں کی اخلاقی تربیت کے لئے داستان کا زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا ہے داستان سن وسال کے تمام مراحل میں مفید اور مورد توجہ ہے، البتہ داستان کا مضمون سامعین کی سطح اطلاع وآگاہی کے مطابق ہونا چاہئے۔ خداوندعالم اپنے قصہ گوئی کے اہداف سے متعلق قرآن کریم میں فرماتا ہے:

(لَقَد کَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَة لِاُوْلِی الْاَلْبَابَ، مَاکَانَ حَدِیْثاً یُفْتَریٰ وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَتَفْصِیْلَ کُلَّ شَیٍٔ وَهُدًی وَرَحْمَةً لِّقَومٍ یُؤمِنُوْنَ )(٢)

''یقینا ان کے واقعات میں صاحبان عقل کے لئے سامان عبرت ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے گھڑھ لیا جائے یہ قرآن پہلے کی تمام کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اس میں ہر شے کی تفصیل ہے اور یہ صاحبان ایمان کے لئے ہدایت اور رحمت بھی ہے ''۔

یہ اہداف درج ذیل ہیں:

ایک۔عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کے لئے۔

دو۔واقعیت اور حقیقت کا بیان ہے اورجھوٹ اورافتراء پردازی سے مخلوط نہیں ہے۔

تین۔حقائق امور کو بیان کرکے تجزیہ وتحلیل کرتا ہے۔

چار۔ہدایت و رحمت کا ایک وسیلہ ہے۔

____________________

١۔ نگاہی دوبارہ بہ تربیت اسلامی، ص١٢٤۔

٢۔ سورہ ٔیوسفآیت١١١۔

۱۹۸

قرآنی داستان میں عواطف کو تحریک کرنے اور اُسے ابھارنے کے علاوہ، تعقل وخردمندی کی پرورش بھی پائی جاتی ہے، قرآنی قصے انسانوں کے درمیان اخلاقی روابط کو واضح انداز میں بیان کرتے ہیں اور آخر کار، یہ اخلاقی فضائل ہیں جو کامیابی کے ساتھ میدان سے باہر آتے ہیں اور پستیاںاور ذلتیں اورسیاہ رو ہوجاتی ہیں ہابیل وقابیل ، موسیٰ وفرعون، موسیٰ وقارون، موسیٰ اور عبد صالح، آدم وحوّا، بنی اسرائیل کی گائے، ابراہیم اور اسماعیل، یوسف اور ان کے بھائی، لوط اور ان کی قوم وغیرہ کی داستانیں بہت سے اخلاقی اور تربیتی نکات کی حامل ہیں۔ وہ نکتہ جو قرآنی داستانوں میں توجہ کو جلب کرتا ہے ، یہ ہے کہ پست میلانات کا ذکر نہیں چھیڑتا اور مردو عورت کے روابط سے متعلق داستانوں میں حریم حیا کو محفوظ رکھتا ہے اور جزئیات کے ذکر سے اجتناب کے ذریعہ پردہ دری نہیں کرتا ہے۔

داستان سے مناسب اور بجا استفادہ خصوصاً قرآنی داستانوں یاائمہ طاہرین علیہم السلام اور بزرگان دین سے متعلق داستانوں سے آسان زبان میں بیانات کی مقبولبت میں حیرت انگیز اثر ایجاد کرتاہے۔(١)

ج۔تشبیہ وتمثیل:

''تمثیل ''ایک موضوع کا کسی دوسری صورت میں بیان کرنا ہے اس طرح سے کہ دونوں قسموں کے درمیان شباہت پائی جاتی ہو اور اس کے ذکر سے پہلا موضوع زیادہ سے زیادہ واضح ہوجائے۔(٢) مَثَل جو کچھ پوشیدہ اور نامعلوم ہے اسے آشکار کردیتی ہے اور ماہیت امور کو واضح کردیتی ہے، مسائل کا بیان امثال کی صورت میں مخفی اور پوشیدہ معانی سے پردہ اٹھادیتا ہے اور مبہم اور پیچیدہ نکات کو واضح کردیتا ہے۔ مثل پند ونصیحت کی تلخی کو کم کرتی اور مسرت وشادمانی کا باعث ہوتی ہے اورمختصر الفاظ میں بہت سے معانی کا افادہ کرتی ہے اور کنایہ کے پردہ میں مطالب کی تعلیم دیتی ہے اورنہایت سادہ، آسان نیز محسوس زبان میں عقلی پیچیدگیوں کو ذکر کرتی ہے۔(٣) بلاشبہہ عام لوگوں کے درمیان متعارف اور شناختہ شدہ تربیتی وسائل میں سے ایک ضرب الامثال، تمثیلوں اور تشبیہوں سے مناسب استفادہ کرنا ہے۔ قرآن کریم نے بھی متعدد مقامات پر ان مثلوں سے استفادہ کیا ہے۔(٤)

____________________

١۔ مثنوی معنوی اخلاقی داستانیں اسی طرح کی ہیں۔

٢۔''المثل عبارة عن قوله فی ش ء یشبه قولاً فی شء آخر بینهما مشابهة لیبین احدهما الاخر ویصوره'' المفردات راغب۔

٣۔ اصول وروش ہای تربیت در اسلام، ص ٢٦٢ ملاحظہ ہو۔

٤۔ ٢٤٥ضرب المثل اور ٥٣ مورد تمثیل ہاے دینی۔

۱۹۹

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

''قرآنی مثلیں بہت سے فوائد کی حامل ہیں لہٰذادقیق انداز میں ان کے معنی کے بارے میں غور وخوض کرو اور (بغیر توجہ کے) ان سے گزر نہ جائو''۔(١)

قرآنی مثالیں، جیسے دنیا کے سرانجام کی تشبیہ سرسبزگھاس کے پژمردہ ہونے سے، کفار کے اعمال کی تشبیہ سراب سے، منافقین کے بارے میں متعدد تشبیہیں، اُس بوڑھی عورت سے تشبیہ جو دھاگا کاتتی ہے وغیرہ وغیرہ، یہ سب مثالیں قابل غور ہیں۔ قرآنی مثلیں تربیت کے لحاظ سے درج ذیل فوائد کی حامل ہیں:

تعلیم عبرت، تفکر وتامل، تشویق وترغیب، تنبیہ وآگاہی، تبیین وتقریر، پند ونصیحت اور پیچیدہ مسائل کو ذہن سے قریب کرنا۔

مثالوں میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اس کے سطحی معانی میں توقف نہیں کرنا چاہئے بلکہ تعقل وتفکر کے ساتھ اُس کے عمیق اور گہرے معانی میں ڈوب جانا چاہئے۔ تربیت کے لحاظ سے بھی مربی کو یہ نہیں چاہئے کہ مثل میں موجود تمام نکتوں کو تربیت پانے والے کے لئے واضح وبیان کرے بلکہ اسے موقع دے کہ وہ اپنی تلاش وکوشش سے زیادہ سے زیادہ معانی کشف کرے۔

د۔سوال وجواب:

کبھی ایک سوال کا ذکر مطلب کی طرف افراد کی توجہ اور حواس کے یکجا ہونے کا باعث ہوتا ہے، سوال کا ذکر کرنا اس بات کاباعث ہوتاہے کہ مخاطبین کی تحقیق وتلاش کی حس بیدار ہو اور جواب دہی کے لئے ضرورت محسوس کریں، بالخصوص اگر سوال اس طرح پیش کیا جائے کہ ان کے لئے نیاپن اور جاذبیت رکھتا ہو اور اس آسانی سے جواب نہ دے سکیں، ایسی صورت میں دل وجان سے قائل کی طرف آئے تاکہ اس کی باتیں سنیں۔ قرآن نے بھی متعدد مقامات پر اس روش سے استفادہ کیا ہے:

(هَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِّیَة )(٢) ''کیا تمھیں ڈھاپنے والی قیامت کی بات معلوم ہے؟''۔

(اَلْقَارِعَة مَا الْقَارِعَة وَمَا اَدْرٰکَ مَا الْقَارِعَة )(٣) '''کھڑکھڑانے والی، اور کیسی کھڑکھڑانے والی اور تمھیں کیا معلوم کہ وہ کیسی کھڑکھڑانے والی (قیامت) ہے؟''۔

____________________

١۔''امثال القرآن لها فوائد فامنعوا النظر فتفکروا فی معانیها ولا تمروا بها'' ۔

٢۔ سورہ ٔغاشیہ، آیت١۔

٣۔ سورہ ٔقارعہ، آیت ١تا٣۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296