اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق20%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 177974 / ڈاؤنلوڈ: 5181
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

۱۹ ; آنحضرت(ص) كى امداد۷; آنحضرت(ص) كى تكذيب ۱،۲

آيات خدا : ۳

امداد :امداد كى بشارت ۷; غيبى امداد كا كردار ۱۱

انبياعليه‌السلام :انبيا اورتاريخ ۱;انبياء سے جنگ ۲; انبياء كا صبر ۴،۶،۸; انبيا كو اذيت پہنچانا ۴، ۶; انبيا كى اطاعت ۱۹; انبيا كى امداد ۱۱; انبيا كى پشت پناہى ۱۱;انبياء كى تاريخ ۱۸،۱۹ ; انبياء كى تكذيب ۱،۴،۶; انبياء كى فتح ۱۸; انبياء كى فتح كے عوامل ۶; انبيا كے اسوہ پرعمل كرنا ۸; انبياء كے اہداف كا مكمل ہونا۱۲; انبياء كے مقامات ۳

باطل :باطل كى شكست ۱۷

تاريخ :تاريخ كا تكرار ۱، ۲; تاريخ سے عبرت ۸، ۹; تاريخ كا قانون و قاعدہ كے مطابق ہونا ۱۵;تاريخ كے فوائد ۹

حق :حق دشمنى كى شكست ۱۷

خدا تعالى :خداوند عالم كى امداد كا كردار ۱۱;خداوندعالم كى بشارت ۷، ۱۰; خدا وند عالم كى جانب سے ترغيب ۵; خداوندعالم كے وعدوں كا حتمى ہونا ۱۴; سنن الہى ۱۶; سنن الہى كا يقينى ہونا ۱۳،۱۵;سنن الہى كى حاكميت ۱۵

ذكر (ياد) :تاريخ كو ياد ركھنے كا فلسفہ ۱۹

سختى :سختى برداشت كرنے كے آثار ۱۲

شناخت :شناخت كے منابع ۹

صبر :صبر كى ترغيب ۵;صبر كے آثار ۶، ۷، ۱۰، ۱۲، ۱۶

عبرت :عبرت كے عوامل ۸، ۹

فتح و كاميابى :فتح و كاميابى كا مقدمہ ۱۶

قرآن :قرآنى قصص كا فلسفہ ۱۹

كلمات خدا :كلمات خدا كا تبديل ہونا ۱۳

مؤمنين :مؤمنين كو بشارت ۱۰;مؤمنين كى امداد ۱۰; مؤمنين كى تشويق ۵

۱۰۱

آیت ۳۵

( وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقاً فِي الأَرْضِ أَوْ سُلَّماً فِي السَّمَاء فَتَأْتِيَهُم بِآيَةٍ وَلَوْ شَاء اللّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ )

اور اگر ان كا اعراض وانحراف آپ پر گران گذرتا ہے تو اگر اآپ كے بس ميں ہے كہ زمين ميں سرنگ بناديں يا آسمان ميں سيڑھى لگا كر كوئي نشانى لے آئيں تو لے آئيں _ بيشك اگر خدا چاہتا تو جبراً سب كوہدايت پر جمع ہى كرديتا لہذا آپ اپنا شمارنا واقف لوگوں ميں نہ ہونے ديں

۱_ لوگوں كا اسلام سے منہ موڑنا اوراسكو جھٹلانا پيغمبر(ص) كے ليے ايك ناگوار امر تھا _

باى ت الله يجعدون_ و لقد كذبت رسل من قبلك و ان كان كبر عليك اعراضهم

۲_ لوگوں كى ہدايت كے ليے پيغمبر(ص) كا تمام مروّجہ طريقوں اور ممكنہ وسائل سے استفادہ كرنا_

و ان كان كبر عليك اعراضهم فان استطعت ان فتا تيهم باية

چونكہ خداوند متعال پيغمبر(ص) سے فرمارہاہے كہ اگر تم زمين كے نيچے يا آسمانوں سے بھى آيت لاؤ تو بھى بعض لوگ ايمان نہيں لائيں گے_ اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ آنحضرت(ص) نے (ہدايت كے)تمام ممكنہ راستے طے كيے تھے_ ليكن اس سے كوئي نتيجہ حاصل نہيں ہوا_

۳_ پيغمبر اكرم(ص) كو لوگوں كے ہدايت پانے اور ايمان لانے كى بہت زيادہ تمنا تھي_

و ان كان كبر عليك اعراضهم فان استطعت فتاتيهم باية

۴_ لوگوں كى ہدايت كے ليے زيادہ سے زيادہ معجزات اور آيات الہى لانے كى طرف پيغمبر اكرم(ص) كا شديد رحجان_

و ان كان كبر عليك اعراضهم فان استطعت ان تبتغي فتاتيهم باية

۱۰۲

۵_ پيغمبر(ص) زمين كو پھاڑ كر اور آسمان پر سيڑھى لگاكر اپنے آپ سے ہرگز كوئي معجزہ نہيں لاسكيں گے_

فان استطعت ان تبتغى نفقاً فى الارض او سلما فى السماء فتاتيهم بآية

۶_ فقط خدا كے اذن اور اسكے ناقابل تغيير قوانين و سنن كے دائرے ميں ہى معجزات پيش كرنے كا امكان ہے_

فان استطعت ان تبتغى نفقا فى الارض او سلما فى السماء

''استطعت'' ميں پيغبر(ص) كو مخاطب قرار دينا اور آنحضرت(ص) سے فرمانا كہ اگر تم زمين ميں سوراخ كرنے اور آسمان پر سيڑھى لگانے پر قادر ہو (تو يہ سب كچھ كركے ديكھ لو) يہ اس بات كى جانب اشارہ ہے كہ معجزات كا اس صورت ميں نازل ہونا كہ جس كى بعض لوگ خواہش كرتے ہيں ، نظام ہدايت ميں قوانين اور سنن الہى كى حدود سے باہر ہے_

۷_ بعض كفار ناقابل انعطاف اور ناقابل ہدايت ہيں _فان استطعت ان تبتغي فتاتيهم باية

''ان استطعت'' كا جواب محذوف ہے_ يعنى اگر زمين و آسمان ميں جو معجزہ بھى لاسكتے ہو لاؤ ليكن وہ لوگ ايمان لانے والے نہيں ہيں _

۸_ خداوند عالم كى مشيت نہيں ہے كہ لوگوں كى جبرى (زبردستي) ہدايت كى جائے_و لو شاء الله لجمعهم على الهدى حرف ''لو'' امتناع كے ليے ہے_ يعنى خداوند عالم اس قسم كى ہدايت نہيں چاہتا جبكہى بطور مسلم خداوند اختيارى و تشريحى (قانون و ضابطے كے مطابق) ہدايت كا خواہاں ہے تو لازما آيت ميں مذكورہ ہدايت زبردستى (جبري) ہدايت ہوگي_

۹_ خداوند عالم ، تمام لوگوں كو، اسلام و ايمان كى جانب ہدايت كرنے پر قادر ہے_و لو شاء الله لجمعهم على الهدى

۱۰_ راہ ہدايت كو انتخاب كرنے ميں انسان كى آزادى و اختيار ہى خداوند عالم كى مشيت ہے_

و لو شاء الله لجمعهم على الهدى

۱۱_ انسان، ہدايت اور گمراہى كا راستہ انتخاب كرنے ميں آزاد ہے_فان استطعت ان تبتغي و لو شاء الله لجمعهم على الهدى خدا كا يہ فرمانا كہ اگر تم ہر قسم كا معجزہ (بھي) لاتے تو بھى يہ ايمان لانے والے نہيں ہيں اور اگر خدا چاہتا تو ہدايت كر سكتا تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان راستے كا انتخاب كرنے ميں آزاد ہے_

۱۲_ كفار كى خصوصيات اور نفسيات كى دقيق پہچان اور ہدايت كے مقابلے ميں انكے مؤقف اور رد عمل سے

۱۰۳

آگاہى حاصل كرنا پيغمبر(ص) كى ذمہ دارى ہے_و ان كان كبر فلا تكونن من الجهلين

بعض كفار كى ''ہدايت ناپذيري'' كى خصوصيت كا بيان كرنا اور پيغمبر(ص) كى نسبت آيت كا سرزنش آميز لہجہ، بتارہاہے كہ پيغمبر(ص) كو تمام لوگوں كى ہدايت كے بارے ميں اپنے ميلان و شوق كے برعكس، اس واقعيت كو قبول كرنا چاہيئے كہ بعض كفار ناقابل ہدايت ہيں اور يہ بات آپ(ص) كو اپنے لائحہ عمل ميں مد نظر ركھنى چاہيئے_

۱۳_ تمام لوگوں كے قابل ہدايت ہونے كى اميد، ايك بے جا اور جاہلانہ توقع ہے_

و ان كان كبر عليك فلا تكونن من الجهلين

۱۴_ انبيااور الہى رہبروں كےليے لوگوں كى نفسيات اور دين كے مخالفين و منكرين كى فطرت سے آگاہ ہونا ضرورى ہے_فلا تكونن من الجهلين

۱۵_ جاہلوں كے طور طريقے اور ان سے متاثر ہونے سے بچنے كى ضرورت_فلا تكونن من الجهلين

۱۶_ پيغمبر(ص) سے بے جا توقعات اور بہت سے انحرافات كى جڑ جہالت و نادانى تھي_

و ان كان كبر عليك فلا تكون من الجهلين

گذشتہ آيت ميں بعض كفار كى طرف سے قرطاس (كاغذ) اور ملك (فرشتے)كے نزول كى بحث كى گئي تھي_ يہ آيت گويا، ان سب لوگوں كيلئے كو جواب ہے كہ جو اس طرح كى خواہشات و تقاضے كرتے تھے يا انكى حمايت كرتے ہيں _ آيت كے آخر ميں ، خصوصي، معجزات كى درخواست كرنے والوں كو جہلا ء ميں شمار كيا گيا ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) اور كفار ۱۲;آنحضرت(ص) سے بے جا توقعات ۱۶; آنحضرت(ص) كا معجزہ ۵; آنحضرت(ص) كا ہدايت كرنا ۲،۴;آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۱۲;آنحضرت(ص) كى قدرت كى حدود ۵ ; آنحضرت(ص) كى مشكلات ۱; آنحضرت(ص) كے اختيارات كى حدود ۵

اسلام :اسلام سے اعراض ۱; اسلام كى تكذيب ۱

انبيا :انبياء كى ذمہ دارى ۱۴

انحراف :انحراف كے عوامل ۱۶

انسان :اختيار انسان ۸، ۱۰، ۱۱

۱۰۴

ايمان :ايمان كى اہميت ۳

بے جا توقعات : ۱۳

جبر و اختيار : ۸، ۱۰، ۱۱

جہل :آثار جہل ۱۶

جہلاء :جہلا ء كے راستے سے اعراض ۱۵

خدا تعالى :اذن خدا ۶; سنن خدا ۶; قدرت خدا ۹; مشيت خدا ۸، ۱۰; ہدايت خدا ۸، ۹

دين:دين كے دشمنوں كى نفسيات سے آگاہى ۱۴

رہبرى :رہبر كى ذمہ دارى ۱۲، ۱۴

كفار :كفار كى انعطاف ناپذيرى ۷;كفار كى نفسيات سے آگاہى كى اہميت ۱۲; ناقابل ہدايت كفار ۷

گمراہى :گمراہى ميں اختيار ۱۱

معجزہ :شرائط معجزہ، ۶; معجزے كا قانون و قاعدے كے مطابق ہونا۶

نفسيات :نفسيات سے آگاہى كى اہميت ۱۲، ۱۴

ہدايت :ہدايت كا طريقہ ۲، ۱۲;ہدايت كى اہميت۳۰ ; ہدايت ميں اختيار ۸، ۱۰، ۱۱

آیت ۳۶

( إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ وَالْمَوْتَى يَبْعَثُهُمُ اللّهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ )

بس بات كو وہى لوگ قبول كرتے ہيں جو سنتے اور مردوں كوتو خداہى اٹھا ئے گا اور پھر اس كى بارگاہ ميں پلٹا ئے جائيں گے

۱_ فقط وہى لوگ خدا اور رسول(ص) كى دعوت پر لبيك كہتے ہيں جو پيغمبر(ص) كے فرامين كو سنتے ہيں اور انہيں درك

۱۰۵

كرتے ہيں _انما يستجيب الذين يسمعون

۲_ ہدايت پانے كے ليے، پيغمبر(ص) كى باتوں كو سننا اور ان كا ادراك ضرورى ہے_انما يستجيب الذين يسمعون

۳_ جو لوگ آيات الہى اور دعوت پيغمبر(ص) پر كان نہيں دھرتے وہ چلتے پھرتے مردے ہيں _

انما يستجيب الذين يسمعون والموتى يبعثهم الله

''الذين يسمعون''كے مقابلے ميں ''الموتى '' كا كلمہ استعمال ہونا، حكايت كرتاہے كہ جو لوگ پيغمبر(ص) كى دعوت كے سامنے اس طرح كا رويہ اپناتے ہيں كہ گويا انھوں نے كچھ سنا ہى نہيں _ يہى لوگ ايسے مردہ دل ہيں كہ جن پر ''الموتى '' كا اطلاق ہوتاہے_

۴_ دعوت پيغمبر(ص) پر لبيك كہنے والے، مؤمنين ہى زندہ ہيں _انما يستجيب الذين يسمعون والموتى يبعثهم الله

۵_ وہى معاشرہ حقيقى زندگى سے بہرہ مند ہے جو انبيائعليه‌السلام كى دعوت كا مثبت جواب ديتاہے_

انما يستجيب الذين يسمعون والموتى يبعثهم الله

۶_ بعض لوگ، گمراہى كے اس مرحلے تك جا پہنچتے ہيں كہ پھر ان كى ہدايت كى كوئي اميد باقى نہيں رہتي_

انما يستجيب الذين يسمعون والموتى يبعثهم الله

گويا اس آيت ميں لوگوں كو دو حصوں ميں تقسيم كيا گيا ہے_ ايك گروہ پيغمبر(ص) كى دعوت پر مثبت جواب ديتاہے اور دوسرا گروہ آيت كى تعبير كے مطابق ''الموتى '' ہے (يعنى مردہ ہے) جس طرح اس دنيا ميں مردے كے زندہ ہونے كى اميد ركھنا غير معقول ، اسى طرح، اس قسم كے لوگوں كى ہدايت كى اميد ركھنا بھى خيال خام ہے _

۷_ خدا قيامت كے دن مردوں كو اٹھائے گا_والموتى يبعثهم الله

۸_ پيغمبر(ص) كو جھٹلانے والے لوگ، قيامت كے دن، آنحضرت(ص) اور آپ كى دعوت كى حقانيت كو درك كرليں گے_انما يستجيب الذين يسمعون والموتى يبعثهم الله

گذشتہ جملات كے قرينے سے، آيت ميں ''الموتى '' سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جو دعوت پيغمبر(ص) پر مثبت جواب نہيں ديتے_ جملہ ''يبعثھم اللہ'' بعث قيامت كى خبر ہونے كے علاوہ اس بات كى جانب كنايہ بھى ہے كہ خدا ان مردہ دلوں كو اٹھائے گا تا كہ وہ پيغمبر(ص) كى دعوت اور آپ كے وعدوں كى حقانيت كو درك كرليں _

۹_ تمام انسانوں نے خداكى جانب لوٹنا ہے_

۱۰۶

ثم اليه يرجعون

۱۰_ قيامت، حق كو قبول كرنے والوں اور حق كو قبول نہ كرنے والوں كے حساب كتاب اور انھيں سزا و جزا دينے كا دن ہے_انما يستجيب الذين يسمعون والموتى يبعثهم الله ثم اليه يرجعون

جملہ ''ثم اليہ يرجعون'' ظاہرا پورى آيت سے مربوط ہے يعنى جواب دينے والے بھى اور مردہ دل (جواب نہ دينے والے) بھى سب كے سب قيامت كے دن اٹھائے جائيں گے اور اپنے اعمال كا نتيجہ ديكھيں گے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت اور قيامت كى تكذيب كرنے والے ۸; آنحضرت(ص) كى حقانيت ۸ ;آنحضرت(ص) كى دعوت ۸ ; آنحضرت(ص) كى دعوت سے بے اعتنايى ۳; آنحضرت كى دعوت قبول كرنا ۱،۴;آنحضرت(ص) كى كلام سننا ۱،۲; آنحضرت كى كلام سمجھنا ۱،۲; آنحضرت(ص) كے پيروكار ۴

آيات خدا :آيات خدا سے بے اعتنائي ۳

انبياعليه‌السلام :دعوت انبيا كو قبول كرنا ۵

انسان :انسان اور قيامت كا دن ۷;انسانوں كا اخروى حشر ۷; انسانوں كا انجام ۹

تشبيھات :مردوں سے تشبيہ ۳

حق :حق قبول كرنے والوں كى جزا۱۰; حق كو رد كرنے والوں كى سزا ۱۰

خدا كى جانب بازگشت : ۹

دعوت :دعوت خدا كو قبول كرنا ۱

زندہ لوگ :حقيقى اور واقعى زندگى ۴

قرآن :تشبيھات قرآن ۳

قيامت :قيامت كى خصوصيت ۱۰ قيامت كے دن حقائق كا ظہور ۸;;قيامت ميں حساب لياجانا ۱۰

گمراہ لوگ :گمراہوں كا ناقابل ہدايت ہونا ۶

گمراہى :گمراہى كے درجات و مراتب ۶

۱۰۷

لوگ :گمراہ لوگ ۶

مردے :مردوں كا زندہ كيا جانا۷

معاد :معاد كا منشا۷

معاشرہ :زندہ معاشرہ ۵; معاشرے كى حيات ۵

مؤمنين : ۴

ہدايت :مقدمات ہدايت ۲; ہدايت سے مايوسى ۶

آیت ۳۷

( وَقَالُواْ لَوْلاَ نُزِّلَ عَلَيْهِ آية مِّن رَّبِّهِ قُلْ إِنَّ اللّهَ قَادِرٌ عَلَى أَن يُنَزِّلٍ آية وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ )

اور يہ كہتے ہيں كہ ان كے اوپر كوئي نشانى كيوں نہيں نازل ہوتى تو كہہ دليجئے كہ خدا تمھارى پسنديدہ نشانى بھى نازل كر سكتا ہے ليكن اكثرت اس بات كو بھى نہيں جانتى ہے

۱_ مشركين، اثبات رسالت كے ليے پيغمبر(ص) كے معجزات كى نارسائي كے مدعى ہيں

و قالوا لو لا نزل عليه آية من ربه

مشركين كى جانب سے، قرآن جيسے معجزے كے ہوتے ہوئے كسى اور معجزے كى درخواست كرنااس بات كى حكايت كرتاہے كہ وہ آنحضرت(ص) كے معجزات كو، اثبات رسالت كے ليے كافى نہيں سمجھتے تھے_

۲_ مشركين كے ليے خصوصى اور ان كے پسنديدہ معجزہ كا نازل نہ ہونا، رسالت پيغمبر(ص) سے ان كے انكار و كفر كا بہانہ ہے_و قالوا لو لا نزل عليه آية من ربه

آنحضرت(ص) كى طرف سے معجزات پيش كيے جانے كے باوجود، پيغمبر(ص) سے معجزے كا طلب كرنا، حكايت كرتاہے كہ وہ اپنا دل پسند اور خصوصى معجزہ چاہتے تھے_

۳_ رسالت پيغمبر(ص) كو جھٹلانے كےلئے، مشركين كا پروپينگڈا كرنا اور ماحول خراب كرنا_

۱۰۸

و قالوا لو لا نزل عليه ء آية من ربه

۴_ خداوندعالم ہر قسم كا معجزہ اور آيت (نشاني) بھيجنے پر قادر ہے_قل ان الله قادر على ان ينزل اية

۵_ خصوصى اور دلپسند معجزات طلب كرنا، نادانى و جہالت كا نتيجہ ہے_و لكن اكثرهم لا يعلمون

خصوصى معجزے طلب كرنے والوں سے علم كى نفى كرنا، ظاہر كرتاہے كہ نادانى و جہالت اس قسم كے تقاضوں كى پيدائش كا منشا ہے_

۶_ اكثر مشركين كا، خداوند عالم كى طرف سے ہر قسم كا معجزہ نازل كرنے كى قدرت سے لاعلم ہونا_

ان الله قادر على ان ينزل آية و لكن اكثرهم لا يعلمون

پہلے جملے كے قرينے سے''لا يعلمون'' كا مفعول، قدرت الھى ہے_ يعنىلا يعلمون ان الله قادر

۷_ بہت كم مشركين جانتے تھے كہ خداوند ان كے طلب كردہ معجزے لانے پر قادر ہے_و لكن اكثرهم لا يعلمون

۸_ اغلب مشركين، درخواستى معجزات كے نازل نہ ہونے كے فلسفے سے لاعلم تھے_

و قالوا لو لا نزل عليه آية و لكن اكثرهم لا يعلمون

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر ہے كہ''لا يعلمون'' كا متعلق''حكمة عدم نزول الآيات'' جيسا كوئي جملہ ہو_

۹_ مشركين ميں سے بہت كم لوگ درخواستى معجزات كے نازل نہ ہونے كے فلسفے سے آگاہ تھے_

و قالوا لو لانزل عليه آية و لكن اكثرهم لا يعلمون

۱۰_ درخواستى معجزات كے نازل نہ ہونے كے فلسفے (سبب) اور قدرت الہى سے آگاہ ہونے كے باوجود، مشركين كا پيغمبر(ص) كے خلاف پروپيگنڈا كرنا_و قالوا لو لا نزل عليه آية من ربه قل ان الله قادر و لكن اكثرهم لا يعلمون اگر مشركين كا قدرت خدا پر عقيدہ نہ ہوتا تو جملہ ''قل ان اللہ قادر'' محض ايك دعوى تھا_ بنابرايں وہ ہر قسم كا معجزہ نازل كرنے پر خدا كى قدرت كے قائل تھے_ اس كے علاوہ آيت كى تصريح كے مطابق، ان ميں سے ايك قليل تعداد اپنے طلب كردہ معجزات كے عدم نزول كى علت سے بھى آگاہ تھي_

۱۱_ بعض مشركين ہر قسم كا معجزہ نازل كرنے پر خداوند كى قدرت اور اس كے نازل نہ ہونے كے سبب سے آگاہ ہونے كے باوجود، خصوصي، معجزات كے نازل ہونے كا تقاضا كرتے تھے_

و قالوا لو لا نزل ان الله قادر و لكن اكثرهم لا يعلمون

۱۰۹

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كى تكذيب ۲ ;آنحضرت كى نبوت كے دلائل ۹

آيات خدا : ۴، ۶

جہل :جہل و نادانى كے آثار ۵

خدا تعالى :خدا تعالى كى قدرت ۴، ۶، ۷، ۱۱

قرآن :اعجاز قرآن ۱

كفر :آنحضرت(ص) سے كفر

مشركين :اكثر مشركين كى جہالت ۶، ۸; درخواستى معجزہ ۲;صدر اسلام كے مشركين كا پروپينگنڈا ۱۰; صدر اسلام كے مشركين كى اقليت ۷، ۹; مشركين اور قرآن ۱; مشركين اور محمد(ص) ۳، ۱۰; مشركين اور محمد(ص) كا معجزہ ۱ ; مشركين اور معجزہ ۱۱; مشركين كا كفر ۲; مشركين كا ماحول خراب كرنا ۳; مشركين كى بہانہ جوئي ۲; مشركين كى تبليغ ۳

معجزہ :درخواستى معجزہ ۵، ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱; معجزہ كا سرچشمہ ۴، ۶، ۷، ۱۱; معجزہ لانے كى درخواست ۵، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱

آیت ۳۸

( وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الأَرْضِ وَلاَ طَائرُ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُكُم مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ )

اور زمين ميں كوئي بھى رينگنے والا يا دونوں پروں سے پرواز كرنے والا طائر ايسا نہيں ہے جو اپنى جگہ پر تمھارى طرح كى جماعت نہ ركھتا ہو_ ہم نے كتاب ميں كسى شے كے بيان ميں كوئي كمى نہيں كى ہے اس كے بعد سب اپنے پروردگار كى بارگاہ ميں پيش ہوں گے

۱_ زمين پر چلنے والے تمام جاندار اور آسمان كے تمام پرندے، انسانوں كى مانند، امت كى شكل ميں

۱۱۰

رہتے ہيں _و ما من دابة فى الارض و لا طائرُ يطير بجناحيه الا امم امثالكم

۲_ پرندوں كا فضا ميں دوپروں سے پرواز كرنا_و لا طئر يطير بجناحيه

۳_ خداوندعالم نے ہر چيز كے بارے ميں دقيق معلومات كو ايك معين كتاب (لوح محفوظ) ميں ثبت كر ركھا ہے_

ما فرطنا فى الكتب من شيئ ہوسكتاہے ''الكتاب'' سے مراد لوح محفوظ ہو يا ہر وہ جگہ جہاں موجودات كے بارے ميں مكمل معلومات ثبت كى جاتى ہوں _

۴_ كائنات، ہر قسم كے نقص و كمى سے پاك ہے_ما فرطنا فى الكتب من شيئ

صدر آيت كو ديكھتے ہوئے كہ جس ميں موجودات ہستى (كائنات) سے بحث كى گئي ہے كہا جا سكتاہے كہ ''الكتاب'' سے مراد كتاب تكوينى اور كائنات ہے_ اور اس ميں تفريط نہ كرنے سے مراد اس ميں ہر قسم كى كمى اور نقص كى نفى ہے_

۵_ قرآن ہدايت كرنے كے ليے ايك مكمل معجزہ اور ہدايت انسان كى تمام ضروريات كو پورا كرنے والى (كتاب) ہے_

و قالوا لو لا نزل على آية ما فرطنا فى الكتب من شيئ گذشتہ آيت كو ديكھتے ہوئے كہ جس ميں نزول معجزات كى بحث تھي_ كہا جاسكتاہے كہ ''الكتاب'' سے مراد قرآن ہے اور قرآن كتاب ہدايت اور ''من شيئ'' اسكى جا معيت كا بيان ہے_ لہذا (يہ آيت) ہدايت بنى آدم كے لحاظ سے قرآن كے ہر قسم كى كمى اور نقص سے مبرا ہونے پر دلالت كرتى ہے_

۶_ رسالت پيغمبر(ص) كے اثبات كے ليے، قرآن ہر قسم كى كمى و اور نقص سے خالى ہے_

ولو لا نزل عليه آية من ربه ما فرطنا فى الكتب من شيئ

۷_ نزول معجزات كے بے جا، تقاضے كو پورا كرنا، ہدايت كے قانون سے سازگار نہيں ہے_

و قالوا لو لا نزل عليه آية ما فرطنا فى الكتب من شيئ

ہوسكتاہے جملہ ''ما فرطنا'' اس نكتہ كى جانب اشارہ ہو كہ اگر مشركين كے طلب كردہ معجزات كا نزول بجا تھا تو اسے كتاب آفرينش ميں ثبت ہونا چاہيئے تھا اور پھر ظاہر ہوتا_ جبكہ اس قسم كى كوئي چيز وہاں ثبت نہيں ہوئي اور نہ ہى كوئي چيز قلم سے رہ گئي ہے_ بنابرايں مشركين كا يہ تقاضا، كسى قسم كى منطقى اورمعقول توجيہ كا حامل نہيں ہے _

۸_ زمين پر چلنے والے تمام جاندار اور آسمان كے

۱۱۱

پرندے بھى انسان كى مانند، قيامت كے دن اٹھائے جائيں گے_ثم الى ربهم يحشرون

۹_ حيوانات ميں بھى ايك قسم كا ارادہ، اختيار، شعور، ذمہ دارى اور قيامت كى جزا و سزا ہے_

امم امثالكم ثم الى ربهم يحشرون

۱۰_ تمام حيوانات كا اٹھايا جانا، ربوبيت الہى كا ايك جلوہ ہے_ثم الى ربهم يحشرون

۱۱_ زمين پر چلنے والے تمام جانداروں كى غايت فقط خداوند متعال ہے_اور سب كے سب اسى كى جانب حركت كررہے ہيں _ثم الى ربهم يحشرون

حرف ''الي'' كا مفاد، انتہائے غايت كو بيان كرنا ہے_ بنابرايں ''الى ربھم'' يعنى جانداروں كے حشر و نشر كى غايت ''رب'' تك پہنچنا ہے_ اور اس كے علاوہ كوئي دوسرى غرض و غايت نہيں _ اسى ليے ''الى ربھم'' كو ''يحشرون'' پر مقدم ركھا گيا ہے تا كہ حصر كا فائدہ دے_

۱۲_ تمام موجودات كى اپنى پروردگار كى جانب، ارتقائي حركت ہے_ثم الى ربهم يحشرون

كلمہ''رب'' كہ جو تربيت كرنے كا معنى ديتاہے_ اور كلمہ ''الى '' سے ايك ہدف و مقصد كى جانب حركت كا مفہوم اخذ ہوتاہے اسى سے مندرجہ بالا مفہوم اخذ كيا گيا ہے_

۱۳_ زمين پر چلنے والے تمام جاندار اور انكى زندگى گذارنے كى كيفيت قدرت خدا كى نشانيوں ميں سے ہے_

ان الله قادر على ان ينزل و ما من دابة فى الارض

۱۴_عن الرضا عليه‌السلام ان الله عزوجل انزل عليه القرآن فيه تبيان كل شي بيّن فيه الحلال و الحرام والحدود والاحكام و جميع ما يحتاج اليه الناس كملا فقال عزوجل ''ما فرطنا فى الكتاب من شيئا'' ... (۱)

امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند عزوجل نے قرآن اپنے رسول(ص) پر نازل فرمايا_ قرآن ميں ہر چيز كا روشن بيان موجود ہے اس ميں حلال و حرام، حدود و احكام اور ہر اس چيز كو كہ جس كى لوگوں كو ضرورت تھي_ مكمل طور پر بيان كيا گيا ہے_ اور خداوند عزوجل كا ارشاد ہے كہ ''ہم نے اس كتاب ميں ، كسى چيز كى كمى نہيں ركھي''

____________________

۱) كافي، ج/ ۱ ص ۱۹۹ ح ۱ تفسير برہان ج/ ۱ ص ۵۲۴ ح ۱_

۱۱۲

آفرينش :كمال آفرينش ۴; نظام آفرينش كى خصوصيت ۴

آنحضرت(ص) :آنحضرت كى نبوت پر دلائل ۶

آيات خدا : ۱۳

انسان :انسانوں كا اخروى حشر ۸; انسانوں كى ضروريات ۱۴;انسان كى معنوى (روحاني) ضروريات كا پورا ہونا ۵

بے جا توقعات : ۷

پرندے :پرندوں كا اخروى حشر ۸; پرندوں كى امت ۱; پرندوں كى پرواز ۲; پرندوں كى معاشرتى زندگى ۱;پرندوں كے پر ۲

چلنے والے جاندار :چلنے والے جانداروں كى اجتماعى زندگى ۱;چلنے والے جانداروں كى امت ۱

حيوانات :حيوانات كا اختيار ۹ ;حيوانات كا اخروى حشر ۵; حيوانات كا ارادہ ۹ ; حيوانات كا شعور ۹ ; حيوانات كى اخروى جزا۹;حيوانات كى اخروى سزا ۹ ; حيوانات كى ارتقائي حركت ۱۲ ; حيوانات كے فرائض ۹ ; حيوانات قيامت ميں ۹

خدا تعالي:اختصاصات خدا ۱۱; افعال خدا ۳; ربوبيت خدا كے مظاہر ۱۰; قدرت خدا كى نشانياں ۱۳

خداتعالى كى جانب پلٹنا :۱۱، ۱۲

روايت : ۱۴

قرآن :اعجاز قرآن ۵; تعليمات قرآن كى حدود ۱۴; قرآن كا ہدايت كرنا ۵; جامعيت قرآن ۵، ۶، ۱۴; قرآن كى خصوصيت ۵، ۶;كمال قرآن ۶

قيامت :قيامت كى خصوصيت ۸

معجزہ :معجزے كى درخواست ۷;درخواستى معجزہ ۷

موجودات :موجودات كا انجام ۱۱; موجودات كا اخروى حشر ۸ ; موجودات كى زندگى ۱۳; موجودات كے علم كى كتاب ۳

لوح محفوظ :كتاب لوح محفوظ ۳; لوح محفوظ كا نقش ۳

ہدايت :ہدايت كا قانون كے مطابق ہونا ۷

۱۱۳

آیت ۳۹

( وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِي الظُّلُمَاتِ مَن يَشَإِ اللّهُ يُضْلِلْهُ وَمَن يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )

اور جن لوگوں نے ہمارى آيات كى تكذيب كى وہ بہرے گونگے تاريكيوں كيں پڑ ے ہوئے ہيں اور خدا جسے چاہتا ہے يوں ہى گمراہى ميں ركھتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراط مستقيم پر لگا ديتا ہے

۱_ آيات الہى (قرآن )كو جھٹلانے والے، اندھيروں ميں پڑے ہوئے بہرے اور گونگے ہيں _

والذين كذبوا بآيتنا صم وبكم فى الظلمت

۲_ درك نہ كرنا اور جہالت و گمراہى كى تاريكيوں ميں ڈوبے رہنا (ہي) آيات الہى كو جھٹلانے كى اصل وجہ ہے_

والذين كذبوا بآيتنا صم و بكم فى الظلمت

''صم و بكم'' (گونگا اور بہرا ہونا) تكذيب كرنے والوں كى حقيقت حال كو بيان كرنے كے علاوہ آيات الہى كى تكذيب كى اصل وجہ بھى ہوسكتى ہے_

۳_ درك نہ كرنا اور جہالت و گمراہى كے اندھيروں ميں ڈوبے رہنے آيات الہى كو جھٹلانے كا نتيجہ ہے_

والذين كذبوا بآيتنا صم و بكم فى الظلمت من يشاء الله يضلله

جھٹلانے والوں كا بہرا گونگا ہونا، درك نہ كرنے اور انكى حيرانى و سرگردانى كى جانب كنايہ ہے_ احتمال ہے كہ يہ حالت، خداوند كى جانب سے ان كےلئے ايك قسم كى سزا ہو_ چنانچہ ''من يشاء اللہ'' اسى پر شاہد ہے_

۴_ آيات الہى كو جھٹلانے والوں كا، معرفت حاصل كرنے كے راستوں سے محروم ہونا_

والذين كذبوا بآيتنا صم و بكم

۵_ جو لوگ، زمين پر چلنے والے جانداروں اور انكى زندگى كے طور طريقوں سے قدرت خدا كا ادراك نہ كرسكيں ، وہ ان بہرے گونگے افراد كى مانند ہيں كہ جو اندھيرے ميں (پڑے) ہيں _

۱۱۴

وما من دابة فى الارض الى ربهم يحشرون والذين كذبوا بآيتنا صم و بكم فى الظلمت

مذكورہ آيت اور گذشتہ آيت كے درميان ارتباط كا تقاضايہ مطلب ہوسكتاہو كہ طبيعت ميں موجود يہى آيت (نشانياں ) ہدايت كے ليے كافى ہيں _ اور جو لوگ، ان نشانيوں سے قدرت خدا (ان اللہ قادر على ان ينزل) كا ادراك نہ كرسكيں وہى اندھيرے ميں بھٹكنے والے بہرے و گونگے افراد ہيں _

۶_ ہدايت اور ضلالت، مشيت الہى سے مشروط ہے_من يشاء الله يضلله و من يشاء يجعله على صراط مستقيم

۷_ آيات الہى كو جھٹلانا، انسان كے گمراہ ہونے سے مشيت خدا كے متعلق ہونے كى راہ ہموار كرتاہے_

والذين كذبوا بآيتنا من يشاء الله يضلله

آيات الہى كو جھٹلانے اور اس كے آثار كى بات كے بعد مشيت الہى كى بحث كرنا، بعض انسانوں كو گمراہ كرنے سے مشيت الہى كے تعلق پيدا كرنے كے مقدمات فراہم كرنے كو ظاہر كررہاہے_

۸_ آيات خدا كو قبول كرنا، صراط مستقيم كى جانب انسان كى ہدايت سے مشيت الہى كے متعلق ہونے كى راہ ہموار كرتا ہے_والذين كذبوا بآيتنا ...يجعله على صراط مستقيم

۹_ بعض ہدايت يافتہ لوگوں كو صراط مستقيم پر قائم ركھ كرخداوند متعال كا ان پرخصوصى عنايت كرنا_

يجعله على صراط مستقيم

۱۰_ آيات الہى پر ايمان، فكر و ادراك كے صحيح و سالم ہونے كى علامت ہے_والذين كذبوا بآيتنا صم و بكم فى الظلمت يجعله على صراط مستقيم

۱۱_ غور و فكر كرنے اور آيات الہى سے صحيح مفہوم اخذ كرنے كى قدرت كا سلب ہونا، خدا كى جانب سے گمراہ كرنے كى ايك علامت ہے_والذين كذبوا بآيتنا صم و بكم فى الظلمت من يشاء الله يضلله

جملہء ''من يشاء اللہ'' سے يہ معنى ظاہر ہوتاہے كہ آيات الہى كو جھٹلانے والوں كا بہرا و گونگا ہونا ہى انھيں گمراہ كرنے كے بارے ميں مشيت الہى كا پورا ہونا ہے_

۱۲_ آيات الہى پر ايمان (ہي) صراط مستقيم ہے_والذين كذبوا من يشاء الله يضلله و من يشاء يجعله على صراط مستقيم

مندرجہ بالا مفہوم، قرينہ مقابل سے اخذ كياگيا ہے_ يعنى جب آيات الہى كو جھٹلانا، گمراہ كرنا ہے

۱۱۵

تو اس كے مقابلے ميں ، آيات پر ايمان لانا صراط مستقيم ہے_

۱۳_عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله ''الذين كذبوا باياتنا صم و بكم'' يقول : ''صم'' عن الهدى و ''بكم'' لا يتكلمون بخير ''فى الظلمات'' يعنى ظلمات الكفر (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے آيت ''الذين كذبوا باياتنا ...'' كے بارے ميں روايت ہے كہ : آيات الہى كو جھٹلانے والے، ہدايت (كى آيات سننے) سے بہرے ہيں اور نيك بات كہنے سے گونگے ہيں ''وہ اندھيروں ميں پڑے ہيں '' يعنى كفر كے اندھيروں ميں

۱۴_ابوحمزه قال : سالت ابا جعفر عليه‌السلام عن قول الله عزوجل : الذين كذبوا باياتنا صم و بكم فى الظلمات ...'' فقال : نزلت فى الذين كذبوا باوصياء هم (۲)

ابوحمزہ كہتے ہيں ميں نے امام باقرعليه‌السلام سے''الذين كذبوا ...'' كے بارے ميں پوچھا_ آپعليه‌السلام نے فرمايا : يہ آيت پيغمبر(ص) كے جانشينوں كو جھٹلانے والوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہے

آيات خدا :آيات خدا كو جھٹلانے والوں كا بہراہونا۱،۱۳; آيات خدا كو جھٹلانے والوں كا گونگا ہونا ۱،۱۳; آيات خدا كو جھٹلانے والوں كى ظلمت ۱، آيات خدا كو جھٹلانے والوں كى محروميت ۴; آيات خدا كى تكذيب كے آثار ۳،۷; آيات خدا كى تكذيب كے عوامل ۲; آيات خدا كے درك كے موانع ۱۱

ادراك :سلامتى ادراك كى علائم ۱۰;عدم ادراك كے آثار ۲; موانع ادراك ۳

انبياعليه‌السلام :اوصيائے انبيا كو جھٹلانے والے ۱۴

ايمان :آيات خدا پر ايمان ۸، ۱۰، ۱۲; ايمان كى راہيں ۵; متعلق ايمان ۸، ۱۰، ۱۲

بصيرت :صحيح بصيرت كا سلب ۱۱

تشبيھات :بہروں سے تشبيہ ۵; گونگوں سے تشبيہ ۵

جہالت :جہالت كى تاريكى ۳; جہالت كے آثار ۲; عوامل جہالت ۳

____________________

۱) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۱۹۸، نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۱۶ ح ۷_

۲) تفسير قمى ج ۱، ص ۱۹۹، نور الثقلين ج ۱ ، ص ۷۱۶ح ۷۵_

۱۱۶

خدا تعالي:خدا تعالى كا لطف ۹ ;خداتعالى كى قدرت كى نشانياں ۵ ; خدا تعالى كى مشيت ۶ ، ۷ ، ۸; خدا تعالى كے گمراہ كرنے كى نشانياں ۱۱

شناخت (معرفت):موانع شناخت ۴

صراط مستقيم : ۱۲

ظلمت :ظلمت ميں ڈوبنا ۵; ظلمت و تاريكى ميں ڈوبنے كے آثار ۲;ظلمت ميں ڈوبنے كے عوامل ۳

علم :علم سے محروم افراد ۴

قرآن :تشبيہات قرآن ۵; قرآن كو جھٹلانے والوں كا گونگا بہرا ہونا ۱; قرآن كو جھٹلانے والوں كى تاريكى ۱

كفر :ظلمت كفر ۱۳

كلام :نيك كلام سے امتناع ۱۳

گمراہ افراد : ۵گمراہى :گمراہى كى تاريكي۳; گمراہى كى راہيں ۷; گمراہى كے آثار ۲;گمراہى كے عوامل و اسباب ۳; منشائے گمراہى ۶، ۷

موجودات :موجودات كى زندگى سے عبرت ۵

ہدايت :صراط مستقيم كى ہدايت ۸، ۹;مقدمہ ہدايت ۸; منشائے ہدايت ۶، ۸

ہدايت يافتہ :ہدايت يافتہ لوگوں كے مقامات و درجات ۹

۱۱۷

آیت ۴۰

( قُلْ أَرَأَيْتُكُم إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللّهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ )

آپ ان سے كہئے كہ تمھارا كيا خيال ہے كہ اگر تمھارے پاس عذاب يا قيامت آجائے ثو كيا تم اپنے دعوے كى صداقت كى ميں غير خدا كو بلائو گے

۱_ تمام انسانوں كى فطرى پكار، خدا وند يكتا و يگانہ كى جانب توجہ كرنا ہے_قل ارء يتكم اغير الله تدعون

جملہ ''ارء يتكم'' ميں استفھام تقريرى ہے اور اس بات كا بيان ہے كہ انسان كے ليے خلق و امر ميں خدا وحدانيت كا اعتراف كرنے كے علاوہ كوئي چارہ نہيں _

۲_ پيغمبر(ص) لوگوں كو توحيدى فطرت كى جانب متوجہ كرنے اور ان كى سوئي ہوئي فطرت كو بيدار كرنے پر مامور ہيں _

قل ارء يتكم ان اتاكم اغير الله تدعون

۳_ عذاب الہى كا سامنا ہونے پر انسان كى توحيدى اور خدا طلب فطرت كا ظاہر اور بيدار ہوجانا_

قل ارء يتكم ان اتاكم عذاب الله

۴_ موت كا سامنا ہونے پر، انسان كى توحيدى فطرت كا بيدار ہونا_

قل ارء يتكم ان اتاكم عذاب الله اور اتتكم الساعة اغير الله تدعون

۵_ سختيوں اور مشكلات كے وقت، انسان كى توحيدى فطرت كا بيدار ہونا_

قل ارئيتكم ان اتاكم عذاب الله اغير الله تدعون

اگر چہ آيت ميں دوجگہ عذاب اور موت كا ذكر ہوا ہے_ ليكن واضح ہے كہ يہ ان سختيوں اور مشكلات كا ايك نمونہ ہے كہ جن سے انسان دوچار ہوتاہے_

۶_ رفا ہ و آسايش، توحيدى فطرت كے پوشيدہ ہونے اور دب جانے كے مقدمات فراہم كرتى ہے_

قل ارء يتكم ان اتى كم عذاب الله او اتتكم

۱۱۸

الساعة

چونكہ آيت ميں سختيوں اور مشكلات كو توحيدى فطرت كے بيدار ہونے كا سبب بتايا گيا ہے_ بنابرايں اس كے مقابلے ميں ، رفاہ و آسايش كى حالت ہے_ لہذا يہ فطرت كے دبنے اور پوشيدہ ہوجانے كا ايك سبب ہوسكتاہے_

۷_ عذاب، موت اور دوسرى سختيوں كے وقت، ہر قسم كے شرك اور غير خدا كى طرف ميلان كے بطلان كا روشن ہوجانا_قل ارء يتكم ان اتى كم عذاب الله او اتتكم الساعة اغير الله تدعون

۸_ مشكلات كے وقت، خدا كے علاوہ دوسرے معبودوں كى طرف توجہ كا نہ جانا، تمام جھوٹے خداؤں و معبودوں كے باطل ہونے كى دليل ہے_قل ارء يتكم ان كنتم صادقين

۹_ اگر مشركين صداقت سے بہرہ مند ہوتے تو سختيوں و مشكلات كے وقت خداوند يكتا كى جانب اپنے (اندروني) ميلان و رجحان كا اقرار كرتے_قل ارء يتكم اغير الله تدعون ان كنتم صادقين

۱۰_ خداوند يكتا كے اثبات كے ليے، دينى تجربے سے استفادہ كرنا توحيد و خداپرستى كى تبليغ كے طريقوں ميں سے(ايك طريقہ) ہے_قل ارء يتكم اغير الله تدعون

اس آيت اور اس جيسى دوسرى آيات ميں ، خداوند يكتا كى جانب متوجہ كرنے كے ليے جو طريقہ اپنايا گيا ہے اسے آج كل ''تجربہ ديني'' كے نام سے ياد كيا جاتاہے_ خدا نے بھى اسى طريقے كو اپنايا ہے اور جن اوقات ميں انسان خداوند يكتا كى جانب متوجہ ہوتاہے ان كى ياد دلائي ہے_

۱۱_ اگر مشركين اپنے شرك آميز اور باطل ادعا ميں سچے ہيں تو انھں چاہيئے كہ سختى و مشكل كے وقت اپنے خداؤں كى طرف توجہ كريں اور انھيں پكاريں _اغير الله تدعون ان كنتم صادقين

آسائش :آثار آسائش ۶

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۲

احتجاج (حجت و دليل لانا) :مشركين سے احتجاج ۹، ۱۱

انسان :انسانى ميلانات ۱، ۳;فطرت انسان ۱، ۳، ۴، ۵

۱۱۹

باطل معبود :باطل معبودں كا بطلان ۱۱; باطل معبودوں كے بطلان كے دلائل ۸

بصيرت :بصيرت كے عوامل ۳، ۵، ۴

تبليغ :روش تبليغ ۱۰

تجربہ :آثار تجربہ ۱۰; تجربہ دينى سے فا دہ اٹھانا۱۰

توحيد :اثبات توحيد كا طريقہ ۱۰; توحيد كا اقرار ۹;موانع توحيد ۶

خدا تعالى :خداتعالى كے عذاب ۳

ذكر :ذكر خدا ۱

سختى :سختى ميں مبتلا ہونے كے آثار ۵، ۷، ۸، ۹، ۱۱

شرك :شرك كے بطلان كا ظاہر ہونا ۷

صداقت :آثار صداقت ۹، ۱۱

عذاب :عذاب كے مشاہدے كے آثار ۳، ۷

فطرت :توحيدى فطرت ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶;فطرت كا احيا ۲; فطرت كے احيا كے عوامل ۴، ۳، ۵، ۷; فطرت كے پوشيدہ ہونے مقدمہ ۶

مشركين :مشركين كے ايمان كى شرائط ۹; مشركين كے دعوے۱۱

موت :موت كا سامنا ہونے كے آثار ۴، ۷

ميلانات :خدا كى جانب ميلان ۹

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

٢۔ گریز اور ناامیدی:

واقعیت سے فرار کرنے کے علاج یا نا کامی اور محرومیت کے ظاہر ہونے کے علاج کا ساز وسامان ایسے موارد میں استعمال ہوتاہے کہ جب طبیعی تلافی ممکن نہیں ہوتی ہے یا اس کے لئے راہ بند ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میںانسان اپنے آپ کوناتوانی اور شکست دوچار سمجھتاہے، اپنی نسبت شک کرتا ہے اور اس کے اندر قوت وجرأت کی کمی محسوس ہوتی ہے، اس وقت وہ متعدد اور پے درپے شکستوں اپنے آپ کو پاتا ہے اور ناکامی کی وادی میں پے در پے غوطہ لگاتا رہتاہے، اور یہی شکستیں اس کے پہلے احساسات کو تقویت بخشتی ہیں ایسے موارد میں زندگی کا نقشہ مسئولیت اور ذمہ داری سے گریز اور ہر قسم کی سعی و کوشش سے لاشعوری کے طور پردوری کری بنیاد کھنچے جاتا ہے

یہ المناک تغیر تدریجاً اور ہر دفعہ زیادہ خلاق انسان کی فعالیت کے دائرہ کو زیادہ سے زیادہ محدود کردیتا ہے۔

٣۔ خیالی تلافی:

کچھ موارد میں گریز اور یاس کے غالب ہونے کے بجائے، انسان یا تو خیالی تلافی کی راہ کا انتخاب کرتا ہے یا ان صفات کو معمولی اور بے قیمت شمار کرتاہے جو دوسروںکے اندر پائی جاتی ہیں اور اس میں نہیں ہیں ۔ یا بلافاصلہ ایسی عیاشیوں میں لگ جاتا ہے کہ جو فکراور مشکلات کو وقتی طور پر اس کے ذہن سے دور کردیتی ہیں اور اسے ایسی لذتیں دیتی ہے کہ جو ایک منطبق وموافق عمل کے نتیجہ میں اس کو نصیب ہوتی ہیں ۔(١)

جیسا کہ ملاحظہ ہوا، ایڈلر کے نظریہ کی بنیاد عملیاختلال کی وضاحت کے سلسلہ میں عز ت نفس کے فقدان اور خود اس کی تعبیر کے مطابق احساس کمتری کے اثرپر استوار ہے۔

نفسیات میں من ازم کے نظرئیے بھی کلی طور پر انسان کے نفسیاتی وجذباتی ابعاد و جوانب اور اس کی نظر پر تا کید کرتے ہیں ان کے مشترک اصول درج ذیل ہیں:

١۔ تمام انسان انقلاب و تحول کے بالاترین درجہ تک پہونچ سکتے ہیں،

٢۔ انقلاب و تحول کے راستہ میں آزادی کا وجود ان بلندیوں تک پہونچنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے

٣۔ عام طور پر موانع خارجی اور بیرونی ہیں۔

____________________

١۔ دکتر منصور، احساس کہتری، ص٦٠، ٦١۔

۱۸۱

''مزلو''اور ''راجرز'' انسان کے اپنے شخصی اور تحقق کے لئے دوسروں سے زیادہ تاکید کرتے ہیں وہ طریقے اور فنون کہ شخصیت کی تعظیم کے حصول کے لئے جن سے ہم استفادہ کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

الف۔اکرام واحترام:

مزلو ضرورت احترام کو مستقل طو ر پر ذکر کرتاہے معاشرے کے نفسیاتیبیماروں کے علاوہ تمام افراد اپنے لئے احترام کے قائل ہیں، ان کی خواہش ہے کہ خود کو بااہمیت محسوس کریں اور اس اہمیت کی بنامحکم اور استوار پایہ پر رکھی گئی ہو۔۔۔توانائی، کامیابی، تجربہ، مہارت ، شایستگی، دنیا کا مقابلہ، استقلال ، آزادی، مرتبہ اور اعتبار کی ضرورت، (ایسی عزت واحترام کہ لوگ اس کے قائل ہوں) قدرومنزلت، افتخار، شہرت، نفوذاہمیت وبزرگی ان سب چیزوں کی طرف میلان اسی خواہش سے پیداہوتی ہیں۔۔۔جب اپنے احترام کی خواہش پوری ہوجائے توانسان اپنے خوداعتمادی، اہمیت، توانائی اور کفایت کا احساس کرتاہے اور اپنے وجود کو دنیا میں مفید اور لازم سمجھتا ہے۔ لیکن ان ضرورتوں اور خواہشوں کا پورا نہ ہونااحساس کمتری، کمزوری اورناامیدی کا باعث ہوتاہے۔۔۔سالم ترین اور ثابت ترین عزت نفس، احترام کے اُس پایہ پر استوار ہے جس کے ہم مستحق ہیں۔نہ یہ کہ ظاہری شہرت چاپلوسی اور خواہشات پر۔۔۔(١) کارل راجرز بھی مکمل طور پر اس کا قائل ہے اور اپنے علاج کا طریقۂ کاراُسی کی بنیادپر تلاش کرتا ہے۔ اس کی نظر میں دو اساسی چیزیں درج ذیل ہیں:

١۔ہر انسان کی عظمت وبزرگی نیز اس کی اہمیت کا نظریہ رکھنا۔

٢۔اس بات کا معتقد ہونا کہ لوگ اچھے اور قابل اعتماد ہیں۔

راجرز کے علاج اور مشورت کا طریقہ مُراجع محوری کی بنیاد پر ہے؛یعنی تیکنیکی صرف اصالت و حقیقت ، غیر مشروط مثبت تعیین اور مخلصانہ درک کی نشاندہی کے لئے ہیں۔ احساسی اورجذباتی عناصر معالج اور مُراجع کے رابطہ میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ وتیکنیکیجو اس اکرام واحترام کے احساس کو ،جس کی تربیت کی جاتی ہے اس تک منتقل کرسکتی ہیں، یہ ہیں:موقع ومحل کی طرف توجہ اورحضور ذہن رکھنا، اُس پرکان دھرنا، احساسات یا اس کی باتوںکے محتوا اور مفہوم کا ضروری مواقع میں انعکاس ( اس لئے کہ تربیتپانے والاسمجھے کہ اس کی باتوں پر توجہ دے رہا ہے) گفتگو کے علاوہ دوسری نشانیاںیعنی چہرہ، رخ اور جسم کی حرکتیں اس بات کی عکاسی کررہی ہوں کہ گویا وہ اس کی باتوں کو اہمیت دے رہاہے۔

____________________

١۔ مزلو، روان شناسی شخصیت سالم، ص١٥٤،١٥٥۔

۱۸۲

''خلوص یا مخلصانہ درک'' متربی (یعنی جس کی تربیت کی جاتی ہے ) سے رابطہ ایجاد کرنے میںاساسی کردار ادا کرتا ہے۔ راجرز کے بقول ہمدلی وخلوص ایک ایسا طریقۂ کار ہے جودیگرافرادکے متغیراحساسات کی نسبت حساس ہو نے اوران کے درمیان عاطفی وجذباتی پیوند کامتضمن ہے۔ایک مدت تک دوسروں کی زندگی جینا اور ان کی احساساتی دنیامیں واردہونا اور ان کے احساسات کے بارے میں قضاوت سے اجتناب کرنا (ان کے احساسات کو سمجھنے کے لئے کوشش کرنا)۔ اسی طرح ہمدلی وخلوص مخاطب کے غیر کلامی علائم کے درک کا مستلزم ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہمدلی کے لئے سب سے پہلے تربیت پانے والے کے عاطفی تجربہ کو دقیق انداز میں درک کریں پھراس کے بعد جوکچھ ہم نے سمجھاہے کلما ت اوراشاروں کے قالب میں اُس تک منتقل کریں۔ ہلکی مسکراہٹ، امیدبخش نظر، کبھی اس کے شانہ اور جسم پر ہاتھ رکھنا اور ظریف انداز میں ہنسی مذاق کرنا اس سلسلہ میں مؤثرہیں۔

ہمدلی ، دوستی اوررابطہ برقرار کرنے کے لئے ایک مہارت ضروری ہے جن کا اکثر تربیتی طریقوں جیسے احترام واکرام میں مربی محتاج ہو تا ہے۔اور اس کوچاہئے کہ اُس تک پہنچنے کے لئے اپنے اندراس کی آمادگی پیدا کرے ''خود تربیتی طریقہ'' میں اپنی شخصیت کے ساتھ اسی رابطے کا ایجاد کرنالازم وضروی ہے۔

پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین (ع) کی سیرت دوسروں کے حق میں ان کے احترام واکرام سے بھری پڑی ہے جیسے: سلام کرنا نیز سلام کرنے میں پہل کرنا حتیٰ بہ نسبت بھی، بچوںبچوں کے ساتھ کھیلنا ؛بچوںکے اچھے نام رکھنے کی تاکیدکرنا نیز انہیں اچھے القاب سے پکارنا، نو واردانسان کو جگہ دنیاجس کے بارے میں قرآن کریم کا صر یحی حکم ہے۔(١)

نیک گفتاری اورخوش زبانی کی تاکید کرناقُلْ لِعِبَادِیْ یَقُولُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ .(٢) دسیوںدیگراحکام اورتاکیدات کے جواسلامی معاشرہ میں مومنین کے احترام واکرام کی جانب تو جہ کی حکایت کرتے ہیں یہاںتک کہ مومن کی حرمت اوراُس کی رعایت حرمت کعبہ سے بالاترتصورکی گئی ہے۔(٣)

____________________

١۔ (یَااَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا قِیْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰهُ لَکُمْ ...)سورہ ٔمجادلہ، آیت ١١ .''ایمان والو! جب تم سے مجلس میں وسعت پیدا کرنے کے لئے کہا جائے تو دوسروں کو جگہ دیدو تاکہ خدا تمھیں (جنت میں) وسعت دے... ''۔

٢۔سورہ ٔاسراء آیت٥٣. ''میرے بندوں سے کہدیجئے کہ صرف اچھی باتیں کیا کریں''

٣۔ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''المؤمن اعظم حرمة من الکعبة'' بحار، ٦٨، ص١٦۔

۱۸۳

مومن حرمت کے لحاظ سے کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے۔

اس کے علاوہ جو چیز بھی مسلمان کی ہتک حرمت اور توہین کا باعث ہو، اسلام میں اس کی ممانعت کی گئی ہے۔ حضرت علی ـ نے انبارشہرکے رہنے والوں سے جوان کے استقبال میں پیادہ اورغلامانہ انداز میں آئے تھے، فرمایا:

یہ کون سا کام ہے جو تم انجام دیتے ہو؟انھوں نے جواب دیا کہ یہ ایک رسم ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے حکّا م اور فرمانرواؤں کا احترام کرتے ہیں۔حضرت نے فرمایا:

خداکی قسم تمہارے فرمانروااور حکّام اس کام سے کوئی استفادہ نہیں کرتے اور تم لوگ بھی اپنے اس عمل سے دنیا میں زحمت ومشقت اٹھاتے ہو۔اور آخرت میں بھی تمہاری بدنجتی کا سبب ہے۔(١)

حتّٰی اُن مواردمیں بھی کہ ایک عمل ظاہری طورپراکرام ہے لیکن حقیقت میں دوسروں کے ذلیل وخوار ہونے کا باعث ہے۔اس پر تنبیہ فرماتے تھے۔حسین بن ابی العلأکچھ لوگوں کے ہمراہ مکہ کے سفرمیں ہم سفر ہوا۔ اورہر منزل پراپنے دوستوں کی مہمان نوازی میں ایک بھیڑذبح کرتا تھا۔اور جب سفرکے دوران حضرت امام جعفر صادق ـ کی خدمت میں آیا تو حضرت نے اُس سے کہا: آیامو منین کوذلیل وخوارکرتے ہو؟ حسین بن ابی العلأنے امام کے سوال وجواب سے سمجھ گیا کہ اُس کے احباب تنگدستی کی وجہ سے اس کے مانند عمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے لہٰذ اوہ اپنے آپ میں ذلت وخواری کا احساس کرتے تھے۔

تربیت پانے والے یا فرزند سے مشورہ کرنا بھی اس کے احترام و اکرام کے مانند ہے وہ اس طریقۂ عمل سے خود کو عالی مرتبہ اور عظیم شخصیت خیال کرتا ہے، خداوند عالم حتیٰ پیغمبر اکرم سے فرماتا ہے: ''اپنی امت اور ماتحت افراد سے مشورہ کرو''۔(٢)

فرزند کے لئے کسی گھر یا کمرہ کا مخصوص کرنا (جبکہ اس کا امکان ہو ) اور بطور کلی ہر قسم کی مالکیت اور تملک کا احساس بھی ان امورمیں سے ہے کہ جوانسان کے احترام و اکرام کے احساس کا باعث ہے۔

____________________

١۔نہج البلاغہ، حکمت ٣٧۔

٢۔(وَشَاوِرْهُم فِی الْاَمْرِ ) سورہ ٔآل عمران، آیت١٥٩۔

۱۸۴

ب۔بغیر شرط کے مثبت توجہ:

محبت اور علاقہ انسان کی اساسی ضررتوں میں سے ہیںجن کا مختلف ماہرین نفسیات نے مختلف انداز میں کیا ہے، کارن ہورنائے ] Hornay,k [ان دونوں کو ''محبت'' اور ''تصویب اعتبار ومحبوبیت '' کے عنوان کے تحتذکر کرتا ہے، جان بالبی ] Bowlbyj [نے''محبت ودل بستگی''کے مفہوم کو اپنے نظریہ کی بنیاد قرار دی ہے اور بچے کی سیرت کے رشدوارتقاء کو دلبستگی کی ضرورت صحیح طور سے پوری کرنے میں خیال کیاہے۔ مزلو جسمانی اور امن وسلامتی کی ضرورتوں کی تأمین وتضمین کے بعد تعلق اور محبت کی ضرورت کوسب سے اہم ضرورت سمجھتاہے۔

محبوب دوستوں کانہ ہونا ایک بیوی اورایک بچے کو شدت سے احساس ہوتاہے۔وہ دوسروںکے ساتھ عاطفی روابط کے محتاج ہیں بعبارت دیگروہ اپنے گروہ یاخاندان اور فیملی میںایک مرتبہ کامحتاج ہیں... نفسیاتی کے ماہرین اس بات پر متقق ہیں کہ عشق و محبت کی ضرورتوں سے بے بہرہ ہونا ناکامی اور ناساز گاری کی بنیادہے۔(١)

راجرز کے نظریہ کے مطابق مثبت توجہ بغیر شرط کے انسان کے اندر عزت ونفس کا احساس پیدا کرتی ہے جو کہ دوسروں کی طرف سے خصوصاً اپنے سرپرستوں کی طرف سے گرم اور محبت آمیز، تعلقات روابط،قلبی لگائو، قبولیت اور مہربانی کو شامل ہے بے قید وشرطتوجہ مثبت اس معنی میں ہے کہ جوتاثیر وتاثرایک انسان سے دوسرے انسان کے روابط کی بنیاد پر اور اس احساس سے وجود میں آتی ہے کہ تربیت پانے والا ہرصورت میں ایک بااہمیت شخص ہے۔ اگر انسان احساس کرے کہ محبت(مثبت توجہ) اُس صورت میں حاصل کرے گاکہ جب دوست رکھنے کے قابل ہو تو اپنے اندر سے تنفر وبیزاری کے احساس کو دور کرکے دوست رکھنے والی تصویر باقی رکھنے کی کوشش کرتاہے، یہاں پر نہ یہ کہ احساس تنفر خود اس کے خیال میں ناموافق ہے بلکہ انسان کو مثبت توجہ کے کھو جانے پر بھی تہدید کرتا ہے ، ایسے موقع پر زبردستی اس پر فضیلت پیدا کرنے کے شرائط کو لادنا تجربیات کے انکار کا موجب ہوتاہے اور جسم اور اس کی شخصیت درمیان شگاف پیدا ہوجاتا ہے، لیکن اگر والدین (یا مربی) اپنے فرزند کی طرف بدون شرط اور مثبت توجہ رکھتے ہوں اور وہ احساس کرے کہ والدین اس کی اہمیت کے قائل ہیں، تو انکار تجربیات کی پھر کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی۔(٢)

____________________

١۔ روانشناسی شخصیت سالم، ص١٥٠تا١٥٤۔

٢۔ روانشناسی شخصیت ، ص٢٢١۔

۱۸۵

بے شک توجہ مثبت بدون شرط تربیت حاصل کرنے والے کی شخصیت کے احترام وتکریم کا باعث ہوگی اور اس کے اندر عزت نفس کا احساس پیدا کرے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ تربیت پانے والا خود ہی یہ احساس کرے کہ وہ ایک منفرد اور مشخص انسان کے عنوان سے مربی کی توجہ اور عنایت کا مرکز ہے، اگر یہ احساس ثابت ہوجائے تو اس کی ہر ناپسند رفتار وکردار کی (صحیح طرز کے ساتھ) مخالفت کی جا سکتی ہے لیکن اسی حال میں یہ احساس بھی رکھتا ہو کہ خود اُس کو لوگ دوست رکھتے ہیں اور مخالفت حقیقت میں اس کے ناپسندیدہ اعمال ورفتار سے ہے، جیسا کہ قرآن کریم حضرت لوط ـ کی زبانی ان کی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(قَالَ اِنِّی لِعَمَلِکُمْ مِنَ الْقَالین )(١)

'' انھوں نے کہا: میں تمہارے کردار کا دشمن ہوں ''۔

حضرت علی ـ نے بھی حضرت رسول خدا کی حدیث نقل فرمائی ہے:

''اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْعَبْدَ وَیَبْغُضَ عَمَلَهُ ....''۔(٢)

''خداوند سبحان کبھی کبھی کسی بندے کو دوست رکھتا ہے لیکن اس کے عمل کو دشمن رکھتا ہے ''۔

بچوں کے ساتھ برتائو کے سلسلہ میں بھی روایات میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ ان کے ساتھ قلبی لگائو اور نرمی کے ساتھ برتائو کرو، انھیں بوسہ دو، ان کے مہرو محبت میں کمی نہ کرو تاکہ محبت کی احتیاج ان کے اندر نفسیاتی الجھنوں وبیماریوں میں تبدیل نہ ہوجائے، جو شخص دوسروں کی محبت سے بہرہ مند ہو!، وہ دوسروں کے ساتھ احسان ومحبت کر سکتا ہے۔ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں:

'' بچوں کو دوست رکھو اور انہیں اپنے رحم وکرم کے سایہ میں قرار دواور جب بھی اُن سے وعدہ کرو تو اُسے وفا کرو''۔(٣)

____________________

١۔ سورہ ٔشعرائ، آیت ١٦٨۔

٢۔ نہج البلاغہ، خ١٥٤۔

٣۔''أَحِبُّوا الصبیان وارحموهم وَاذا وعدتموهم شیئاً ففولهم'' کافی، ج٦، ص٥٢۔

۱۸۶

حضرت امام جعفر صادق ـ بھی فرماتے ہیں:

''خداوند سبحان ضرور بالضرور اپنے اُس بندے کو جو اپنی اولاد سے بہت محبت کرتا ہے مورد رحمت قرار دیتا ہے''(١)

''اپنے فرزندوں کو زیادہ بوسہ دو، کیونکہ بہشت میں ہر بوسہ کے بدلہ ایک درجہ ہوگا''(٢)

محبت اور مہربانی پیغمبر اکرم کی سنت اورسیرت ہے، نیز انسانوں کی اخلاقی تربیت ہدایت میں آپ کی کامیابی کا راز بھی یہی نکتہ ہے: ''فَبِمَارَحْمَةٍ مِنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَو کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَولِکَ فَاعْفُ عَنهُم وَاسْتغفِر لَهُم'' (٣) ۔ پس اﷲ کی رحمت وبرکت سے آپ کے ساتھ نرم خو اور پُرمحبت ہیں، اور اگر تند خو اور سخت دل ہوتے تو یقیناً آپ کے آس پاس سے وہ لوگ پراگندہ ہوجاتے۔ لہٰذااُن سے درگذر کیجئے اور اُن کے لئے بخشش ومغفرت طلب کیجئے۔

پیغمبر اکرم کی سنت اور سیرت کے لئے بھی جو اُن کو پتھرمارتے تھے، دعا کرتے تھے: ''اَللّٰہُمَّ اہْد ِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَایَعْلَمُونَ'']خدایا! میری قوم کی ہدایت کر اس لئے کہ وہ نہیں جانتی ہے[ وہ انسانوں کے ساتھ بدون شرط مثبت توجہ کا بالاترین درجہ ہے کہ جو اﷲکی تمام مخلوقات سے گہرے لگائو اور عشق سے حاصل ہوتا ہے۔

البتہ توجہ مثبت بلاشرط کی توفیق، صرف تمام انسانوں کے ساتھ عشق کرنے کے نتیجہ میں ممکن ہے۔ اہم یہ ہے کہ نکتہ خالص اور بے ریا محبت دلوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور گہرے لگائو اور شخصیت کے احترام کا باعث ہوتی ہے، نہ کہ جو کچھ تکلف اور دکھاوے سے پیدا ہوتی ہے ۔

اپنے عشق و محبت کو اپنے فرزندوں یاتربیت پانے والوں میں ظاہر کرنے کے لئے ہر فرصت سے استفادہ کرنا چاہئے، جیسے اوقات ان کے ساتھ ہم گذاریں؛ مشترک رابطوں اور چاہتوں کو پروان چڑھائیں؛ باہم کھیلیں، ان سے کہیں کہ ہم تمھیں دوست رکھتے ہیں، اُن کے ساتھ اس طرح برتائو رکھیں کہ گویا وہ روئے زمین کی سب سے اہم انسان ہیں، ان کے پائداراور ناقابل فراموش آثار وواقعات وجود میں لائیں، ان کی تعریف کریں وغیرہ وغیرہ...۔(٤)

____________________

١۔''انّ اللّٰه لیرحم العبد لشدّة حُبّه لولده'' کافی، ج٦، ص٥٢۔

٢۔ ''اکثرو من قبلة اولادکم فانّ لکم بکلّ قبلةٍ درجةً فی الجنّة ۔''وسائل الشیعہ، ج١٥، ص٢٠٢۔

٣۔ سورہ ٔآل عمران، آیت ١٥٩۔

٤۔ استفان مارستون، معجزہ تشویق، ترجمہ تور اندخت تمدن، ص٨١۔

۱۸۷

محبت کا ظاہر کرنا اور اس کابیان کرناعاطفی روابط میں بہت اہم ہے۔ روائی کتابوں میں اس سلسلہ میں مستقل اور جداگانہ باب پایاجاتاہے: حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''جب کوئی کسی انسان کو دوست رکھے تو اسے اطلاع دے کیونکہ یہ دوستی کے پائدار ہونے کا موجب ہوگا''(١) خداوند سبحان بھی حضرت موسٰی ـ کی نسبت اس طرح سے محبت کا اظہار کرتا ہے: ''یقیناً دوبارہ بھی ہم نے تم پر احسان کیا جب ہم نے تمہاری ماں کو وحی کی اور اپنی مہر و محبت کو تم پر ڈال دیا تاکہ میرے زیر نگرانی پرورش پائو۔''(٢) اور اپنے حبیب محمد مصطفی کی جان کی قسم کھاکر محبت اور لطف کا اعلان کرتا ہے: ''آپ کی جان کی قسم وہ لوگ اپنی مستی میں سر گرادں ہیں ''(٣)

قرآن کی مختلف تعبیریں لوگوں بالخصوص مومنین کی نسبت خداوند عالم کے بے پایان لطف وکرم کو بیان انسانوں کے عظیم مربی کے عنوان سے بیان کرتی ہیں،قومی، عبادی، ''انِّی اَخَافُ عَلَیْکُم، هَلْ لَکَ یَااَیُّهَا الَّّّذِیْنَ آمنوا ۔۔۔''وغیرہ۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ محبت کے اظہار میںہمیں اعتدال اور میانہ روی کی رعایت کرنا چاہئے اور محبت میں افراط سے ہمیں اجتناب کرنا چاہئے؛ کیونکہ یہ چیز فرزندوں کو بے حوصلہ وبے اعتماد بنادیتی ہیں، اس وجہ سے مشکلات زندگی کے موقع پر حقارت (کمتری) اور ناتوانی کا احساس کرتے ہیں، کیونکہ سماج اور جس ماحول میں وہ ہیں اس میں اتنی محبت اور مہربانی انھیں نصیب نہیں ہوگی۔ محبت میں افراط تربیت پانے والے کی تربیت میں تاثیر کو زائل کردیتی ہے۔

حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں: ''سب سے بُرے آباء وہ ہیں جو محبت اور نیکی میں افراط سے کام لیتے ہیں ''(٤)

____________________

١۔ ''اذا احببت رجلاً فاخبره بذلک فانّه اثبت للمودة بینکما '' کافی، ج٢، ص٦١٥، باب اخبار الرجل اخاہ بحبہ (انسان کا اپنے برارد ایمانی ) اپنی محبت کی اطلاع دینا کو۔

٢۔ (وَلَقَدْ مَنَّنَا عَلَیْکَ مَرَّةً اُخْریٰ والقیت علیک محبّةً منی ولتضع علی عینی )(سورہ ٔطٰہٰ، آیت ٣٧تا ٣٨)

٣۔ (لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِی سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ )سورۂ حجر، آیت٧٢۔

٤۔ ''شر الاٰباء من دعاه البرالی الافراط ''(تاریخ یعقوبی، ج٣، ص ٥٣)۔

۱۸۸

ج۔ اغماض (چشم پوشی) :

کمزوریوںاور خطائو ں کا اظہار عزت نفس کے برباد ہونے اور شخصیت کے پامال ہونے کا باعث ہوتاہے،لہٰذا ان سے اغماض اورچسم پوشی ان کے لئے تربیت پانے والے کی شخصیت کی تعظیم وتکریم ہوگی۔جب کسی سے کوئی خطا سرزد ہو یا خطا کا احتمال دیں۔ تو اس کی اخلاقی تربیت اور حفظ عزّت نفس کے لئے تین مرحلے نظر میں رکھے جاسکتے ہیں:

١۔ صحت پر حمل کرنا چاہئے یا اس کی اچھے طریقہ سے توجیہ کرنی چاہئے؛

خطا کے ثابت ہونے سے پہلے اگر خطا کی توجیہ کرنے کے قرائن اور احتمالات موجود ہوں تو صحت پر حمل کیا جا سکتا ہے جو کہ اسلامی فقہ میں ایک مسلم الثبوت اصل ہے۔ لہٰذا احتمال خطا کی ٹوہ میں نہیں رہنا چاہئے اور اپنے تجسس اور کھوج سے کشف فساد اور ایک مسلمان کی آبروریزی کا باعث نہیں ہونا چاہئے۔

حضرت علی ـ نے فرمایا:

'' اپنے ]ایمانی[ بھائیوں کے کام کی اچھے سے اچھے عنوان سے توجیہ کرو یہاں تک کہ اس کے خلاف تم پر ثابت ہوجائے، نیز ان کی باتوں کی نسبت بھی جب تک کہ اچھی توجیہ کا امکان ہے بدگمانی نہ کرو''۔(١)

٢۔تغافل اور تجاہل:

اگر تربیت پانے والے کی خطا ثابت ہوجائے لیکن وہ پہلی مرتبہ تھی اور حالات کے مطابق ہم تشخیص دیں کہ اس کو نظرانداز کرنا اور اس کی شخصیت کاتحفظ اصلاح کا باعث ہو گا تو تغافل اورتجاہل سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ؛یعنی یہ ظاہرکریں کہ یہ خطااس سے سرزدنہیں ہو ئی ہے اوراس کی توجیہ کو بھی قبول کریں، باوجودیکہ کہ اس کے صحیح نہ ہو نے سے با خبر ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

''دوسروں کے ساتھ معاشرت اور زندگی گزارنے کے حالات کی اصلاح ایک ایسے ظرف کے مانند ہے جس کا دوثلث ]دو تہائی[زیرکی اور ایک ثلث ]ایک تہائی[تغافل ہے''۔(٢)

'' جزئی امورسے تغافل کرکے خودکو بلند مرتبہ اور عالی قدر بناؤ''۔(٣)

____________________

١۔''ضَع اَمر اَخِیکَ عَلیٰ اَحسنه حتّیٰ یاتِیکَ مَایقلبک عنه وَلَاتظنُّنَّ بکلمة خرجت من اخیک سوائً وانت تجد فی الخیرسبیلاً'' (کافی، ج٢، ص٣٦٢)۔

٢۔ ''صلاح حال التعایش والتعاشر ملاء مکیال ثلثاه فطنة وثلثه التغافل ''۔(اخلاق فلسفی، ص٣٥٩)۔

٣۔''عظموا اقدارکم بالتغافل عن الدنی من الامور'' ۔( ایضاً، ص٢٢٤)۔

۱۸۹

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''تجاہل وتغافل سے بہتر کوئی زندگی نہیں ہے۔''(١) تغافل تربیت حاصل کرنے والے کی تکریم وتعظیم کے علاوہ اسے اس بات کے لئے آمادہ کرتا ہے کہ وہ اپنے مربی کے کرم وبخشش کی تلافی کرے اور یہی امر اس کی اصلاح اورخطاکے دوبارہ نہ کرنے کا سبب بنے گا۔

٣۔عفوودرگذر:

خطاکے مسلم اورآشکارہونے کے بعد، اب بھی چشم پوشی اورنظرانداز کرنے کی گنجائش پائی جاتی ہے۔ اگرہم یہ احتمال دیں کہ دوسروں کی خطاکو معاف کرنا ان کی بیداری اوراصلاح کا باعث ہوگی (کہ عام طور پر ایساہی ہے) توعفوکرناہی بہترہے۔خداوندغفور سماج اور معاشرہ میں ایک جاری وساری سیرت کے عنوان سے عفوودرگذرکی تاکیدکرتاہے: (خُذِ الْعَفْو )۔(٢) ''اے پیغمبر!عفوودرگذرکواپنا شعار بنالو''۔

......''ان لوگوں سے درگذرکرو اور ان سے چشم پوشی کرو کہ خدانیکوکا روں کودوست رکھتاہے''۔(٣)

عفوودرگذرکرنا چاہئے کیا تم نہیں چاہتے کہ خداتمہیں معاف کردے اور خدابخشنے والااورمہربان ہے''۔(٤)

روایات کی نظرسے بھی عفوودرگذشت مکارم اخلاق اورسماجی اور اجتماعی روابط میں نمایاں مرتبہ کا حامل ہے اور دوسروں میں اخلاقی فضائل کی راہ ہموارکرنے والاہے:

پیغمبراکرم نے فرمایا ہے: ''ایک دوسرے کو معاف کروتاکہ تمہارے درمیان سے کینے اور کدورتیں ختم ہوجائیں۔''(٥)

عفوودرگذرخداکے بندوں کی عزت میں اضافہ کرتاہے، لہٰذاعفوکرو تاکہ خداتمیں عزیز قرار دے۔(٦)

حضرت علی ـ سے منقول ہے: ''عفوودرگذشت تمام مکارم اخلاق کا تاج ہے۔''(٧)

____________________

١۔''لاعقل کالتجاهل ''(غرر الحکم ودرر الکلم۔) ٢۔ سورہ ٔاعراف، آیت١٩٩۔

٣۔ (فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ، اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ )(سورہ ٔمائدہ، آیت ١٣)۔

٤۔ (وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا، اَلَاتُحِبُّوْنَ اَن یَغْفِرَ اللّٰهُ لَکُمْ ۔)(سورہ ٔنور، آیت٢٢)۔

٥۔''تعافوا تقسط الضغائن بینکم'' (کنز، ٧٠٠٤)۔

٦۔''العفو لایزید الّا عزاًفاعفوا یعزکم اللّٰه'' ۔ (ایضاً، ١٢،٧٠)۔

٧۔''العفو تاج المکارم ۔''(غرر الحکم، فصل دوم، ص٢٤٥)۔

۱۹۰

قرآن بھی فرماتاہے: (فَاصْفَح الصَّفحَ الْجَمِیْل )(١) ''آپ خوبصورتی کے ساتھ درگذر کردیں۔ ''صفح'' ترشروئی اورعتاب کے بغیردرگذر کرنے کے معنی میں ہے۔قدرت رکھنے کے باوجودمعاف کردینے کے بارے میں روایات میں بہت زیادہ تاکید ہو ئی ہے۔ حضرت امام حسین ـ فرماتے ہیں: ''لوگوںمیں سب سے زیادہ درگذر کرنے والا وہ ہے جو قادر ہو نے کے باوجود معاف کردے۔''(٢)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''بہترین عفو درگذشت وہ عفوودرگذشت ہے کہ جوقادرہو نے کے باوجودمعاف کردی جائے۔''(٣) انھوںنے اپنے فرزند حضرت امام حسن ـ سے وصیت میں عفو و درگذر کو سزا سے زیادہ انسان کی صلاح کاباعث جاناہے: ''جب تمہارے نزدیک کسی سے کوئی خطاسرزد ہوجائے، تو عادلانہ درگذر عقلمندکے لئے سزاسے زیادہ موثرہے۔''(٤)

پیغمبر اکرم بھی عفوکو موجب اصلاح جانتے ہیں:

ایک انسان نے اپنے خدمت گزار وں کے رویہ کی رسول اکرم کی خدمت میں شکایت کی۔تو حضرت نے فرمایا: انھیں معاف کردو تا کہ ان کے دل نیکیوں کی طرف مائل ہوں ''۔عرض کیا: اے پیغمبر خدا !وہ لوگ کاموں میں سستی کرتے ہیں !فرمایا: انھیں معاف کردو''۔(٥)

اغماض وچشم پوشی کے ذریعہ بغیر رفتار کے نفسیاتی نقطۂ نظر (اس کے تحریکی پہلو کے علاوہ) ''خاموشی'' کے طریقہ سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے: خاموشی اس طریقۂ کارکو کہا جاتا ہے کہ اُس میں رفتار کا واقع ہونا بغیرتقویت کے رہ جائے اور تکرار ایک رفتار کی تقویت کے بغیر اُس رفتار کے مکمل توقف کا باعث ہوتی ہے... مثال کے طور پر استاد نامطلوب رفتارسے بے اعتنائی کرے تو طالب علموں کے شور شرابہ کو خاموش کرسکتا ہے(٦) البتہ عفو و درگذر کے خاموشی سے بھی کہیں زیادہ عمیق معنی پائے جاتے ہیں، اگرچہ عام طور وہ پر خاموشی کا مستلزم ہے۔

____________________

١۔ سورہ ٔحجر، آیت٨٥۔

٢۔''ان اعفی الناس من عفی عنه قدرته '' (بحار، ج٧٤، ص٤٠١)۔

٣۔''احسن العفو کان عن قدرة'' (غرر الحکم، فصل دوم، ص٢٤٦)۔

٤۔''اذا استحق احد منک ذنبا فان العفو اشدّ من الضرب لمن کان له عقل'' (بحار، ج٧٧، ص٣١٦)

٥۔ مستدرک الوسائل، ج٢، ص٨٧۔

٦۔ سیف، تغییر رفتار ورفتار درمانی، ص٣٨٢۔

۱۹۱

د۔ ذمہ داری دینا:

جب انسان خود کو قوی اور توانا محسوس کرتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ اُس سے کوئی کام ہوسکتا ہے تو وہ افتخار وعزت کا احساس کرتا ہے، تربیت پانے والے انسان کی تکریم کے لئے اُس کے اندر عزت کا احساس پیدا کرنا چاہئے، تاکہ اُس سے ذلت اور کمتری کا احساس جاتا رہے، لہٰذا ضروری ہے کہ تربیت پانے والے کی توانائیوں کے ظاہر ہونے کا امکان پیدا کریں تاکہ اسے یقین ہو کہ اس سے بھی کام ہوسکتا ہے اور وہ بھی کسی کام کا آدمی ہے تربیت پانے والوں اور فرزندوں کے درمیان ذمہ داری دینا اور کاموں کوتقسیم کرنا اُن کی شخصیت کی تعظیم و تکریم کا باعث ہوتا ہے اس کے دوسرے موارد اخراجات کی تنظیم کا امکان ،انتخاب اور کسی بات کے طے کرنے کے لئے مہلت دینا، بعض ذمہ داریوں کو سپرد کرنا وغیرہ ہے، اور ذمہ داری کی سپردگی اگر عاقلانہ اور ظریف نگرانی کے ساتھ ہو تو اخلاقی تبدیلی کا باعث ہوسکتی ہے، مندرجہ ذیل داستان نے ''پیاژہ'' نامی معاصر نفسیات کو حیرت میں ڈال دیا ہے، توجہ فرمائیے: ١٩٣٠۔ اور ١٩٣٥۔ کے درمیان میں نے ایک مؤسسہ وادارہ کا دیدار کیا تو وہ مجھ پر کچھ زیادہ ہی اثر انداز ہوا، یہ مؤسسہ مجرم بچوں سے مخصوص تھا اور یورپ کے مشرقی علاقے میں واقع تھا، یہ ایک ماہر اور مدبر مدیرکے زیر ادارت تھا ، وہ چاہتاتھا کہ جن بچوں اور نوجوانوں کی اُس نے ذمہ داری لے رکھی ہے، ان پر اعتماد کرے، یہاں تک کہ مؤسسہ کے نظم وضبط کو ان کے حوالے کردے اور اہم ترین ذمہ داری اُن میں سے شریرترین کے حوالے کردے ، اس تجربہ کے دو پہلو نے ہمیں مخصوص انداز میں اپنی طرف مائل کیا، ایک نووارد اور تجربہ کار افراد کی ''تربیت'' دیگر نوجوانوں کے اجتماعی گروہ کے ذریعہ اور دوسرے موسسہ کی داخلی نظم وضبط اور اشارے عدالتی امور بھی ان شاگردوں کے سپرد تھے جو روز شب پر محیط تھے، ذرا تصور کریں ان پر اس قدر اعتمادکہ مدرسہ کے قواعد اور دستورات کو شاگردوں کی جماعت معین کرتی ہے نہ بزرگ افراد ، نو واردافراد میں کیا اثر رکھتی ہے۔ جہاں پر جو بچے اور نو جوان کسی جرم کے مرتکب ہوئے تھے اور بچوں کے عدالتی محکمہ نے انھیں مجرم قرار دیاتھا اور وہ لوگ طولانی تادیب اور سزا کے منتظر تھے، یکبارگی خود کو اُن نوجوانوں کے درمیان دیکھتے تھے کہ جو جرم کے تمام مراحل گذارنے کے بعد اپنا علاج کرکے ئنی زندگی چاہ رہے تھے ، ایک منظم گروہ رکھتے تھے اوربلافاصلہ نووارد افراد کو اپنے جرگہ میں قبول کرکے تمام امور، فرائض اور ذمہ داریاں ان کے حوالے کردیتے تھے ، کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جب ایسے افراد زندان کے داروغہ سے روبرو ہونے کے بجائے اپنے ساتھیوں سے ملاقات کرتے تھے تو یکبارگی بدل جاتے تھے اور پھر اس کے بعد ان میں کج رفتاری کی تکرار نہیں ہوتی تھی اس مؤسسہ کے ادارہ کرنے والے عظیم مربی کی خوبصورت ترین ایجاد یہی بات تھی

۱۹۲

اگر اس ادارہ کے شاگردوں سے کوئی خطا سرزد ہوتی تھی تو وہ عدالت اُس خطا کی تحقیق کرتی کہ جو ان ہی شاگردوں سے تشکیل پائی تھی اس حیرت انگیز عدالت کی نظریہ اور اس کے احکام وہاں کے اخبار میں شائع ہوئے تھے...۔(١)

قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم کی سیرت دوسروں کو (خصوصاً نوجوانوں کو)ذمہ داریاں سونپنے کے بارے میں اُن کی استعداد کو بڑھانے اور ان کی شخصیت کاا حترام کرنے کے لئے بہت سے واقعات کی نشاندہی کرتی ہیں مثلاً طالوت جیسے جوان کا انتخاب بنی اسرائیل کی قیادت کی ذمہ داری کے لئے ، اسامہ کی کمانڈری اور مصعب بن عمیر نامی جوان کا مدینہ کے لئے سب سے پہلے مبلغ کے عنوان سے تعارف کرانا وغیرہ۔

٤۔ اخلاقی اقدار کی دعوت دینا

جبکہ پہلی دو روشوں کے مطابق موانع برطرف ہوجائیں اورماحول موافق وسازگار ہوجائے نیز تکریم شخصیت کی روش سے باطنی آمادگی پیدا ہوجائے مربی کلی استفادہ کے ذریعہ اخلاقی اقدار کی دعوت کی کلی روش سے استفادہ کے ذریعہ تربیت پانے والوں کو اخلاقی فضائل کی طرف مائل وجذب کرسکتا ہے، بعبارت دیگر ''اقدار کی تبلیغ '' کرسکتا ہے۔(٢)

علم نفسیات تبلیغ کے مخصوص شرائط کو تین عنصر پیغام دینے والے (مبلغ) پیغام لینے والے اور پیغام میں لحاظ کرتا ہے کہ جو پیغام کی تاثیر اور نفوذ کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔

پیغام کی بعض مسلّم الثبوت خصوصیات درج ذیل ہیں:

١۔مخاطب کو اپنی جانب جلب (مائل) کرے۔(نیاپن رکھتا ہو اور دیگر امور سے الگ اورممتاز ہو )۔

٢۔ مخاطب کے نزدیک قابل درک ہو۔

____________________

١۔ پیازہ: تربیت رہ بہ کجا می سپارد، ١٠١، ١٠٢۔

٢۔ تربیت پانے والا بھی ''خود تربیتی'' روش سے استفادہ کے ذریعہ پیغام دینے والے، پیغام لینے والے اور پیغام کی شرائط ملاحظہ کرسکتا ہے اور زیادہصحیح اور مطلوب کاانتخاب کرسکتا ہے۔

۱۹۳

٣۔اہمیت کے لحاظ سے مخاطب کے نزدیک قابل قبول ہو۔

٤۔اسے حفظ کرسکتا ہو اور بوقت ضرورت اُسے یاد کرسکتا ہو۔

٥۔ایک موضوع کے مثبت اور منفی (قوت وضعف) دونوں پہلو بیان کئے جائیں۔

٦۔پیغام کی تکرار، ترغیب و دلچسپی کے اثر کو مزید بڑھا دیتی ہے، اس شرط کے ساتھ سستی اورخستگی کا باعث نہ ہو۔

٧۔ایسے پیغامات جو زیادہ خوف ودہشت کے حامل ہوتے ہیں کمتر تاثیر رکھتے ہیں، کیونکہ اضطراب اور گھبراہٹ کو اس درجہ بڑھا دیتے ہیں کہ انسان اس کی صحت کا انکار کرنے لگتاہے، مگر یہ کہ اُسے کسی اور ذریعہ سے یقین ہوچکا ہو۔

٨۔پیغام دینے والا یا مبلغ محبوب، باحوصلہ، مخلص، مطمئن، وفادار، قابل اعتماد، عاقبت اندیش، ہوشیار اور صادق ہو۔

پیغام اس بات کے لئے جو کہ خارجی اور مخالف دبائو کے مقابل تاب لاسکے (قدرت بخش سکے) اس طرح سے جاگزین ہو کہ پیغام قبول کرنے والے کی دلچسپی میں اضافہ ہوجائے:

١۔نئے پیغام کو دیگر یقین واعتقاد کے ساتھ مخلوط کرے۔

٢۔اپنے یقین واعتقاد کی دلیلوں کی تحقیق کرے۔

٣۔متعارض دلیلوں کو ایک دوسرے سے ملا کر دیکھے اور صحیح ترمیم یا اہم تر کا انتخاب کرے۔

٤۔رائے اور نظریہ کا بدلنا اپنے آزادنہ انتخاب کے زیر اثر ہو نہ کہ ترغیب دلانے والے کی زور زبردستی سے۔

اس روش کو منطق کی کتابوں میں ''خطابہ'' کہتے ہیں(١) اور اس طرح تعریف کرتے ہیں: خطابہ ایک ایسا علمی طریقہ ہے جس کی مدد سے لوگوں کو اُس چیز میں خاموش جس کی تصدیق کی ہم امید رکھتے ہیں، بصورت امکان خاموش اور قبول کرایا جاسکتا ہے۔ جو امور خطابہ کی تاثیر کو زیادہ کردیتے ہیں، بعض قائل سے متعلق ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں:

١۔ علمی یااجتماعی اعتبار سے اپنا تعارف کرائے (دوسرے لوگ بھی یہ کام کر سکتے ہیں)

____________________

١۔ مظفر، المنطق، ص٤١٥اور اس کے بعد (اس فرق کے ساتھ کہ یہاں پر مفہوم زیادہ عام اور صناعت شعر کو بھی شامل ہوتا ہے)۔

۱۹۴

٢۔اس طرح ظاہر ہوکہ اس کی تعظیم وتکریم نیز اس کی باتوں کی تصدیق کا باعث ہو، جیسے یہ کہ لباس، ہاتھ اور جسم کی حرکتوں، آنکھوں کے اشاروں، حزن و مسرت کی حالت وغیرہ کے اعتبار سے میٹنگ (جلسہ) اور موضوع سخن سے ہم آہنگ اور مرتبط ہو۔

٣۔ ''بات کرنے میں'' اس کی آوازغرض کے مطابق ہو (کبھی بلند تو کبھی آہستہ اور کبھی ترجیع تو کبھی تقطیع و....) آواز کا اچھا ہونا، اچھے انداز میں پیش کرنا اور طرز بیان میں تصرف اورتبدیلی بھی اہم امور میں سے ہے۔

٤۔ ''مخاطبین'' کے عواطف واحساسات کو جلب کرے اور ان کے اندر اس طرح نفسانی تأثّر کی حالت اور ذہنی آمادگی ایجاد کرے کہ جو غرض کے مطابق ہو، کبھی رقت و ر حمت کی حالت تو کبھی خشم ونفرت کا انداز اور کبھی تبسم اور مسرت ایجاد کرے، اس بات کے لئے کہ جلسہ خشکی اور جمود کی حالت سے خارج ہوجائے اور قائل کی طرف متوجہ ہونیکی کیفیت حالت ، ان کے اندر ایجاد کرے، کبھی ضروری ہے کہ انھیں لطیفوں کے ذریعہ ہنسائے یا کسی حکمت آمیز نکتہ سے انھیں حیرت میں ڈال دے ۔ کبھی مخاطبین کی تعریف وتوصیف لازم ہے (اعتدال کی حد میں) لیکن ان کی ہر طرح کی توہین و تحقیر سے پر ہیز کیا جائے۔

٥۔ شہادت حال، یعنی عملی صداقت کے گواہ بھی قائل کی بات کے نفوذ میں موثر امور میں شمار ہوتے ہیں، اس طرح سے کہ فضیلت، صدق، امانت، علم اور معرفت سے مشہور ہو یا دوسری جہت سے محبوبیت رکھتا ہو یا یہ کہ اس کی گفتگو میں صدق وصفا اور اخلاص کی علامتیں ظاہر ہوں حضرت امیر المومنین علی ـ کے بقول: ''کوئی بھی شخص کچھ اپنے دل میں پنہاں نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کی زبان کے اچانک کلماتہیں یا چہرے کے آثار سے ظاہر ہوجاتا ہے''۔(١) بعبارت دیگر قائل کو چاہئے اپنے بیان پر ایمان رکھتا ہو، کیونکہ جو بات دل سے نکلتی ہے دل میں اثر کرتی ہے''

''آپ حکمت اور اچھی نصیحت (موعظہ) کے ذریعہ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیجئے اور اُن سے بہترین انداز میں بحث وجدال کیجئے(٢)

____________________

١۔''ما اضمر احد شیئاً الّا ظهر فی فلتات لسانه وصفحات وجهه'' (نہج البلاغہ کلمات قصار ٢٦)۔

قرآن کریم کی زبان میں اس روش کو ''موعظہ'' سے تعبیر کیا گیا ہے البتہ موعظہ ونصیحت روش کے مرادی جنبہ کی طرف بھی اشارہ کرتاہے، لیکن قرآن کی اس سہ گانہ تقسیم میں تقریباً اقدار کی دعوت کی روش سے ہم آہنگ ہے۔

٢۔ سورہ ٔنحل، آیت١٢٥۔

۱۹۵

موعظہ یعنی انسانوں کے عواطف واحساسات سے(١) انھیں حق کی دعوت دینے کے لئے استفادہ کرنا۔ قرآن نے موعظہ کو صفت ''حسنہ '' سے مقید کیا ہے، کیونکہ: نصیحت اُس صورت میں موثر واقع ہوتی ہے کہ ہر طرح کی خشونت ، تند کلامی، فوقیت طلبی، طرف مقابل کی تحقیر وتوہین، ضد اور ہٹ دھرمی وغیرہ سے خالی ہو لہٰذا مو عظہ اُس وقت اپنا گہرا اثر چھوڑتا ہے کہ احسن اور خوبصورت اندازمیں بیان ہو۔(٢)

اخلاقی اقدارکی دعوت کے طریقے درج ذیل ہیں:

الف۔ انذار وبشارت:

انذار(٣) یا ترہیب ڈرانے اور ہوشیار کرنے نیز بُرے اعمال کے بُرے نتائج اور عواقب کی طرف انسان کو متوجہ کرنے کے معنی میں ہے کہ اس میں ایک قسم کا ڈرانا بھی ہے۔ ''تبشیر''(بشارت دینا) یا ترغیب انسان کو نیک امور اور مطلوب کاموں کے نتائج سے آگاہ کرنے کے معنی میں ہے کہ جو سرور و شادمانی کا باعث ہے۔ انسان فطری طور پر لذت اور نعمت کی طرف راغب ہوتا ہے اور درد والم سے اجتناب و دوری چاہتا ہے۔ اسی لئے اگر انذار وتبشیرمخاطب کے قبول کرنے اور اس کے یقین کے مطابق ہو تو موثر ہے، یعنی اگر مخاطب فکری واعتقادی اصول ومبانی کے لحاظ سے تصدیق کرے کہ یہ عمل ان لذتوں کا حامل ہے یا فلاں آلام کا باعث ہے تو بلاشبہہ ایسا انذار یا تبشیر موثر واقع ہوگا۔

قرآن کریم اور انبیائے الٰہی نے اس وسیلہ سے کثرت سے استفادہ کیا ہے، جیساکہ قرآن تمام انبیاء کو ''مبشرین اور منذرین'' کہتا ہے(٤) اور خود کو ''نذیر''(٥) اور ''بشریٰ''(٦) کہتا ہے۔

____________________

١۔ مفردات راغب معجم مفردات الفاظ قرآن، میں اس کے دومعنی ذکر ہوئے ہیں: ١۔''ایسی زجر وتوبیخ جو خوف دلانے کے ساتھ ہو''کہ جو اقدار کی دعوت کے فنون اور طریقوں میں شمار ہے۔ ٢۔''هو التذکیر بالخیر فیما یرق له القلب '' خیر کے ساتھ نیصیحت کرنا اس چیز کے بارے میں جس کے لئے دل نرم ہوجائے۔کہ یہی عام معنی یہاں پر مراد ہے۔ المیزان، ج١٢، ص٣٧٣۔ تفسیر نمونہ، ج١١، ص٤٥٥ پراسی عام معنی کو قبول کیا ہے۔٢۔ تفسیر نمونہ، ج١١، ص ٤٥٦۔ المیزان میں بھی یہ بات ایک دوسرے انداز سے بیان کی گئی ہے:''من هنا یظهر انّ حسن الموعظه انما هو من حیث حسن اثره فی الحق الذی یراد به بأن یکون الواعظ نفسه متعظا بمایعظ ویستعمل فیها من الخلق ما یزید وقوعها من قلب السامع موقع القبول فیرق له القلب ویقشعر به الجلد ویعیه السامع ویخشع له البصر'' ۔

٣۔ ''الانذار اخبار فیہ تخویف کما ان التبشیر اخبار فیہ سرور۔'' (المفردات)۔٤۔ سورہ ٔانعام، آیت٨۔ ٥۔ سورہ ٔمدثر، آیت٣٦۔ ٦۔ سورہ ٔبقرہ، آیت٩٧۔

۱۹۶

انذار وتبشیر سے استفادہ کرنے میں قرآن کریم کے تربیتی انداز میں دو نکتہ قابل توجہ ہے:

ایک۔قرآن کریم میںانذار وتبشیر کا انسانی عواطف واحساسات کے اجاگر کرنے کا اہم رول ہے کہ ایک طرف خوف(١) ، خشیت(٢) اورخشوع(٣) خداوندعالم کی نسبت مخاطبین میں برانگیختہ کرتا ہے اور دوسری طرف محبت(٤) ، شوق(٥) اور امید ان کے دل میں پروان چڑھاتا ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں قسم کے درمیان ایک موازنہ ایسا توازن وتعادل ایجاد کرتا ہے کہ جو نہ یاس اور ناامیدی کا باعث ہوتا ہے اور نہ ہی غرور و بے خیالی کا روایات میں بھی تاکید کی گئی ہے کہ مبلغ کو چاہئے کہ مخاطبین کو خوف ورجا کے درمیان رکھے۔(٦)

دو۔ انذار وتبشیر کے مصادیق کا استعمال: قران کریم میں اس کا دائرہ وسیع ہے، خداوندعالم ہر انسان کے لئے ''رضوان'' اور ''روح''و ''ریحان'' کی بات نہیں کرتا، بلکہ بعض کو لذیذ غذائوں خوبصورت اور زربخت لباسوں، فرحت بخش تفریح گاہوں وغیرہ کے وعدہسے امید وار کرتاہے ۔ لہٰذا اخلاقی تربیت کے سلسلہ میں بلند پروازی نہیں کرنی چاہئے، بلکہ افراد کی استعداد اور ظرفیت کے مطابق، مختلف بشارتوں اور نعمتوں سے متعلق گفتگو کرنی چاہئے۔

ب۔ داستان گوئی :

داستان میںایسا جادو ہوتا ہے کہ جو روحوں کو مسحور کرلیتا ہے، وہ کونسا جادو ہے اور کس طرح روحوں پر اثر انداز ہوتا ہے؟کوئی انسان بھی اس کے لئے حد و حدود معین نہیں کرسکتا آیا یہ خیال ہے کہ جو داستان سے پیدا ہوتاہے اور داستان کے محل وقوع اور منزلوں کی یکے بعد دیگر تعقیب کرتا ہے اور اُسے ذہن میں ایک محسوس واقعیت سے تبدیل کردیتا ہے؟ یا انسان کے ''وجدان کی مشارکت'' داستان کے ہیرو کے ساتھ ہوتی ہے کہ جو آدمی کی روح میں اس کی تاثیر کا باعث ہوکرواضح اور روشن انداز میں احساسات وافکار میں جاگزیں ہوجاتی ہے؟

____________________

١۔ (لمن خاف مقام ربه جنتان )(سورہ ٔرحمن، آیت٤٦)۔ ٢۔ (انما انت منذر من یخشاها ۔)(سورہ ٔنازعات، آیت ٤٥)۔٣۔ (الم یأن للذین آمنوا ان تخشع قلوبهم لذکر اللّٰه ۔) (سورہ ٔحدید، آیت١٦)۔٤۔ (والذین آمنوا اشدُّ حبّاً للّٰه ۔)(سورہ ٔبقرہ، آیت١٦٥)۔٥۔ (ان الذین آمنوا اولٰئک یرجون رحمة اللّٰه ۔)(سورہ ٔبقرہ، آیت٢١٨)۔٦۔''خیر الاعمال اعتدال الرجاء والخوف'' ۔ (غرر الحکم، فصل ٤،ص ١٥٦)۔

۱۹۷

یا داستانی موقعیت سے انسان کی روح کے متاثر ہونے کی وجہ سے ہے، جب انسان عالم خیال میں خود کو اس کے حوادث وواقعات کے درمیان داخل تصور کرتا ہے اور دور سے ماجرے کا نظارہ کرتا ہے، لیکن یہ چاہتاہے کہ نجات دینے والا یا نجات یافتہ ہو؟ جو بھی ہو داستان کی یہ سحر انگیز تاثیر قدیم الایّام سے انسان کے ساتھ رہی ہے، ہمیشہ اس کی زندگی کے ساتھ روئے زمین پر سیر کرتی رہی ہے اور کبھی ختم نہیں ہوگی۔(١)

داستان گوئی ایک ایسا طررز اوراسلوب ہے کہ جوجذابیت اور سامع کو اپنے ہمراہ کرنے کے علاوہ داستان کے اغراض ومقاصد کو قبول کرنے کے لئے عاطفی راہ بھی ہموار کرتی ہے قرآن کریم نے انسانوں کی اخلاقی تربیت کے لئے داستان کا زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا ہے داستان سن وسال کے تمام مراحل میں مفید اور مورد توجہ ہے، البتہ داستان کا مضمون سامعین کی سطح اطلاع وآگاہی کے مطابق ہونا چاہئے۔ خداوندعالم اپنے قصہ گوئی کے اہداف سے متعلق قرآن کریم میں فرماتا ہے:

(لَقَد کَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَة لِاُوْلِی الْاَلْبَابَ، مَاکَانَ حَدِیْثاً یُفْتَریٰ وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَتَفْصِیْلَ کُلَّ شَیٍٔ وَهُدًی وَرَحْمَةً لِّقَومٍ یُؤمِنُوْنَ )(٢)

''یقینا ان کے واقعات میں صاحبان عقل کے لئے سامان عبرت ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے گھڑھ لیا جائے یہ قرآن پہلے کی تمام کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اس میں ہر شے کی تفصیل ہے اور یہ صاحبان ایمان کے لئے ہدایت اور رحمت بھی ہے ''۔

یہ اہداف درج ذیل ہیں:

ایک۔عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کے لئے۔

دو۔واقعیت اور حقیقت کا بیان ہے اورجھوٹ اورافتراء پردازی سے مخلوط نہیں ہے۔

تین۔حقائق امور کو بیان کرکے تجزیہ وتحلیل کرتا ہے۔

چار۔ہدایت و رحمت کا ایک وسیلہ ہے۔

____________________

١۔ نگاہی دوبارہ بہ تربیت اسلامی، ص١٢٤۔

٢۔ سورہ ٔیوسفآیت١١١۔

۱۹۸

قرآنی داستان میں عواطف کو تحریک کرنے اور اُسے ابھارنے کے علاوہ، تعقل وخردمندی کی پرورش بھی پائی جاتی ہے، قرآنی قصے انسانوں کے درمیان اخلاقی روابط کو واضح انداز میں بیان کرتے ہیں اور آخر کار، یہ اخلاقی فضائل ہیں جو کامیابی کے ساتھ میدان سے باہر آتے ہیں اور پستیاںاور ذلتیں اورسیاہ رو ہوجاتی ہیں ہابیل وقابیل ، موسیٰ وفرعون، موسیٰ وقارون، موسیٰ اور عبد صالح، آدم وحوّا، بنی اسرائیل کی گائے، ابراہیم اور اسماعیل، یوسف اور ان کے بھائی، لوط اور ان کی قوم وغیرہ کی داستانیں بہت سے اخلاقی اور تربیتی نکات کی حامل ہیں۔ وہ نکتہ جو قرآنی داستانوں میں توجہ کو جلب کرتا ہے ، یہ ہے کہ پست میلانات کا ذکر نہیں چھیڑتا اور مردو عورت کے روابط سے متعلق داستانوں میں حریم حیا کو محفوظ رکھتا ہے اور جزئیات کے ذکر سے اجتناب کے ذریعہ پردہ دری نہیں کرتا ہے۔

داستان سے مناسب اور بجا استفادہ خصوصاً قرآنی داستانوں یاائمہ طاہرین علیہم السلام اور بزرگان دین سے متعلق داستانوں سے آسان زبان میں بیانات کی مقبولبت میں حیرت انگیز اثر ایجاد کرتاہے۔(١)

ج۔تشبیہ وتمثیل:

''تمثیل ''ایک موضوع کا کسی دوسری صورت میں بیان کرنا ہے اس طرح سے کہ دونوں قسموں کے درمیان شباہت پائی جاتی ہو اور اس کے ذکر سے پہلا موضوع زیادہ سے زیادہ واضح ہوجائے۔(٢) مَثَل جو کچھ پوشیدہ اور نامعلوم ہے اسے آشکار کردیتی ہے اور ماہیت امور کو واضح کردیتی ہے، مسائل کا بیان امثال کی صورت میں مخفی اور پوشیدہ معانی سے پردہ اٹھادیتا ہے اور مبہم اور پیچیدہ نکات کو واضح کردیتا ہے۔ مثل پند ونصیحت کی تلخی کو کم کرتی اور مسرت وشادمانی کا باعث ہوتی ہے اورمختصر الفاظ میں بہت سے معانی کا افادہ کرتی ہے اور کنایہ کے پردہ میں مطالب کی تعلیم دیتی ہے اورنہایت سادہ، آسان نیز محسوس زبان میں عقلی پیچیدگیوں کو ذکر کرتی ہے۔(٣) بلاشبہہ عام لوگوں کے درمیان متعارف اور شناختہ شدہ تربیتی وسائل میں سے ایک ضرب الامثال، تمثیلوں اور تشبیہوں سے مناسب استفادہ کرنا ہے۔ قرآن کریم نے بھی متعدد مقامات پر ان مثلوں سے استفادہ کیا ہے۔(٤)

____________________

١۔ مثنوی معنوی اخلاقی داستانیں اسی طرح کی ہیں۔

٢۔''المثل عبارة عن قوله فی ش ء یشبه قولاً فی شء آخر بینهما مشابهة لیبین احدهما الاخر ویصوره'' المفردات راغب۔

٣۔ اصول وروش ہای تربیت در اسلام، ص ٢٦٢ ملاحظہ ہو۔

٤۔ ٢٤٥ضرب المثل اور ٥٣ مورد تمثیل ہاے دینی۔

۱۹۹

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

''قرآنی مثلیں بہت سے فوائد کی حامل ہیں لہٰذادقیق انداز میں ان کے معنی کے بارے میں غور وخوض کرو اور (بغیر توجہ کے) ان سے گزر نہ جائو''۔(١)

قرآنی مثالیں، جیسے دنیا کے سرانجام کی تشبیہ سرسبزگھاس کے پژمردہ ہونے سے، کفار کے اعمال کی تشبیہ سراب سے، منافقین کے بارے میں متعدد تشبیہیں، اُس بوڑھی عورت سے تشبیہ جو دھاگا کاتتی ہے وغیرہ وغیرہ، یہ سب مثالیں قابل غور ہیں۔ قرآنی مثلیں تربیت کے لحاظ سے درج ذیل فوائد کی حامل ہیں:

تعلیم عبرت، تفکر وتامل، تشویق وترغیب، تنبیہ وآگاہی، تبیین وتقریر، پند ونصیحت اور پیچیدہ مسائل کو ذہن سے قریب کرنا۔

مثالوں میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اس کے سطحی معانی میں توقف نہیں کرنا چاہئے بلکہ تعقل وتفکر کے ساتھ اُس کے عمیق اور گہرے معانی میں ڈوب جانا چاہئے۔ تربیت کے لحاظ سے بھی مربی کو یہ نہیں چاہئے کہ مثل میں موجود تمام نکتوں کو تربیت پانے والے کے لئے واضح وبیان کرے بلکہ اسے موقع دے کہ وہ اپنی تلاش وکوشش سے زیادہ سے زیادہ معانی کشف کرے۔

د۔سوال وجواب:

کبھی ایک سوال کا ذکر مطلب کی طرف افراد کی توجہ اور حواس کے یکجا ہونے کا باعث ہوتا ہے، سوال کا ذکر کرنا اس بات کاباعث ہوتاہے کہ مخاطبین کی تحقیق وتلاش کی حس بیدار ہو اور جواب دہی کے لئے ضرورت محسوس کریں، بالخصوص اگر سوال اس طرح پیش کیا جائے کہ ان کے لئے نیاپن اور جاذبیت رکھتا ہو اور اس آسانی سے جواب نہ دے سکیں، ایسی صورت میں دل وجان سے قائل کی طرف آئے تاکہ اس کی باتیں سنیں۔ قرآن نے بھی متعدد مقامات پر اس روش سے استفادہ کیا ہے:

(هَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِّیَة )(٢) ''کیا تمھیں ڈھاپنے والی قیامت کی بات معلوم ہے؟''۔

(اَلْقَارِعَة مَا الْقَارِعَة وَمَا اَدْرٰکَ مَا الْقَارِعَة )(٣) '''کھڑکھڑانے والی، اور کیسی کھڑکھڑانے والی اور تمھیں کیا معلوم کہ وہ کیسی کھڑکھڑانے والی (قیامت) ہے؟''۔

____________________

١۔''امثال القرآن لها فوائد فامنعوا النظر فتفکروا فی معانیها ولا تمروا بها'' ۔

٢۔ سورہ ٔغاشیہ، آیت١۔

٣۔ سورہ ٔقارعہ، آیت ١تا٣۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296