اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق20%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 177998 / ڈاؤنلوڈ: 5181
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

٢۔ گریز اور ناامیدی:

واقعیت سے فرار کرنے کے علاج یا نا کامی اور محرومیت کے ظاہر ہونے کے علاج کا ساز وسامان ایسے موارد میں استعمال ہوتاہے کہ جب طبیعی تلافی ممکن نہیں ہوتی ہے یا اس کے لئے راہ بند ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میںانسان اپنے آپ کوناتوانی اور شکست دوچار سمجھتاہے، اپنی نسبت شک کرتا ہے اور اس کے اندر قوت وجرأت کی کمی محسوس ہوتی ہے، اس وقت وہ متعدد اور پے درپے شکستوں اپنے آپ کو پاتا ہے اور ناکامی کی وادی میں پے در پے غوطہ لگاتا رہتاہے، اور یہی شکستیں اس کے پہلے احساسات کو تقویت بخشتی ہیں ایسے موارد میں زندگی کا نقشہ مسئولیت اور ذمہ داری سے گریز اور ہر قسم کی سعی و کوشش سے لاشعوری کے طور پردوری کری بنیاد کھنچے جاتا ہے

یہ المناک تغیر تدریجاً اور ہر دفعہ زیادہ خلاق انسان کی فعالیت کے دائرہ کو زیادہ سے زیادہ محدود کردیتا ہے۔

٣۔ خیالی تلافی:

کچھ موارد میں گریز اور یاس کے غالب ہونے کے بجائے، انسان یا تو خیالی تلافی کی راہ کا انتخاب کرتا ہے یا ان صفات کو معمولی اور بے قیمت شمار کرتاہے جو دوسروںکے اندر پائی جاتی ہیں اور اس میں نہیں ہیں ۔ یا بلافاصلہ ایسی عیاشیوں میں لگ جاتا ہے کہ جو فکراور مشکلات کو وقتی طور پر اس کے ذہن سے دور کردیتی ہیں اور اسے ایسی لذتیں دیتی ہے کہ جو ایک منطبق وموافق عمل کے نتیجہ میں اس کو نصیب ہوتی ہیں ۔(١)

جیسا کہ ملاحظہ ہوا، ایڈلر کے نظریہ کی بنیاد عملیاختلال کی وضاحت کے سلسلہ میں عز ت نفس کے فقدان اور خود اس کی تعبیر کے مطابق احساس کمتری کے اثرپر استوار ہے۔

نفسیات میں من ازم کے نظرئیے بھی کلی طور پر انسان کے نفسیاتی وجذباتی ابعاد و جوانب اور اس کی نظر پر تا کید کرتے ہیں ان کے مشترک اصول درج ذیل ہیں:

١۔ تمام انسان انقلاب و تحول کے بالاترین درجہ تک پہونچ سکتے ہیں،

٢۔ انقلاب و تحول کے راستہ میں آزادی کا وجود ان بلندیوں تک پہونچنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے

٣۔ عام طور پر موانع خارجی اور بیرونی ہیں۔

____________________

١۔ دکتر منصور، احساس کہتری، ص٦٠، ٦١۔

۱۸۱

''مزلو''اور ''راجرز'' انسان کے اپنے شخصی اور تحقق کے لئے دوسروں سے زیادہ تاکید کرتے ہیں وہ طریقے اور فنون کہ شخصیت کی تعظیم کے حصول کے لئے جن سے ہم استفادہ کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

الف۔اکرام واحترام:

مزلو ضرورت احترام کو مستقل طو ر پر ذکر کرتاہے معاشرے کے نفسیاتیبیماروں کے علاوہ تمام افراد اپنے لئے احترام کے قائل ہیں، ان کی خواہش ہے کہ خود کو بااہمیت محسوس کریں اور اس اہمیت کی بنامحکم اور استوار پایہ پر رکھی گئی ہو۔۔۔توانائی، کامیابی، تجربہ، مہارت ، شایستگی، دنیا کا مقابلہ، استقلال ، آزادی، مرتبہ اور اعتبار کی ضرورت، (ایسی عزت واحترام کہ لوگ اس کے قائل ہوں) قدرومنزلت، افتخار، شہرت، نفوذاہمیت وبزرگی ان سب چیزوں کی طرف میلان اسی خواہش سے پیداہوتی ہیں۔۔۔جب اپنے احترام کی خواہش پوری ہوجائے توانسان اپنے خوداعتمادی، اہمیت، توانائی اور کفایت کا احساس کرتاہے اور اپنے وجود کو دنیا میں مفید اور لازم سمجھتا ہے۔ لیکن ان ضرورتوں اور خواہشوں کا پورا نہ ہونااحساس کمتری، کمزوری اورناامیدی کا باعث ہوتاہے۔۔۔سالم ترین اور ثابت ترین عزت نفس، احترام کے اُس پایہ پر استوار ہے جس کے ہم مستحق ہیں۔نہ یہ کہ ظاہری شہرت چاپلوسی اور خواہشات پر۔۔۔(١) کارل راجرز بھی مکمل طور پر اس کا قائل ہے اور اپنے علاج کا طریقۂ کاراُسی کی بنیادپر تلاش کرتا ہے۔ اس کی نظر میں دو اساسی چیزیں درج ذیل ہیں:

١۔ہر انسان کی عظمت وبزرگی نیز اس کی اہمیت کا نظریہ رکھنا۔

٢۔اس بات کا معتقد ہونا کہ لوگ اچھے اور قابل اعتماد ہیں۔

راجرز کے علاج اور مشورت کا طریقہ مُراجع محوری کی بنیاد پر ہے؛یعنی تیکنیکی صرف اصالت و حقیقت ، غیر مشروط مثبت تعیین اور مخلصانہ درک کی نشاندہی کے لئے ہیں۔ احساسی اورجذباتی عناصر معالج اور مُراجع کے رابطہ میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ وتیکنیکیجو اس اکرام واحترام کے احساس کو ،جس کی تربیت کی جاتی ہے اس تک منتقل کرسکتی ہیں، یہ ہیں:موقع ومحل کی طرف توجہ اورحضور ذہن رکھنا، اُس پرکان دھرنا، احساسات یا اس کی باتوںکے محتوا اور مفہوم کا ضروری مواقع میں انعکاس ( اس لئے کہ تربیتپانے والاسمجھے کہ اس کی باتوں پر توجہ دے رہا ہے) گفتگو کے علاوہ دوسری نشانیاںیعنی چہرہ، رخ اور جسم کی حرکتیں اس بات کی عکاسی کررہی ہوں کہ گویا وہ اس کی باتوں کو اہمیت دے رہاہے۔

____________________

١۔ مزلو، روان شناسی شخصیت سالم، ص١٥٤،١٥٥۔

۱۸۲

''خلوص یا مخلصانہ درک'' متربی (یعنی جس کی تربیت کی جاتی ہے ) سے رابطہ ایجاد کرنے میںاساسی کردار ادا کرتا ہے۔ راجرز کے بقول ہمدلی وخلوص ایک ایسا طریقۂ کار ہے جودیگرافرادکے متغیراحساسات کی نسبت حساس ہو نے اوران کے درمیان عاطفی وجذباتی پیوند کامتضمن ہے۔ایک مدت تک دوسروں کی زندگی جینا اور ان کی احساساتی دنیامیں واردہونا اور ان کے احساسات کے بارے میں قضاوت سے اجتناب کرنا (ان کے احساسات کو سمجھنے کے لئے کوشش کرنا)۔ اسی طرح ہمدلی وخلوص مخاطب کے غیر کلامی علائم کے درک کا مستلزم ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہمدلی کے لئے سب سے پہلے تربیت پانے والے کے عاطفی تجربہ کو دقیق انداز میں درک کریں پھراس کے بعد جوکچھ ہم نے سمجھاہے کلما ت اوراشاروں کے قالب میں اُس تک منتقل کریں۔ ہلکی مسکراہٹ، امیدبخش نظر، کبھی اس کے شانہ اور جسم پر ہاتھ رکھنا اور ظریف انداز میں ہنسی مذاق کرنا اس سلسلہ میں مؤثرہیں۔

ہمدلی ، دوستی اوررابطہ برقرار کرنے کے لئے ایک مہارت ضروری ہے جن کا اکثر تربیتی طریقوں جیسے احترام واکرام میں مربی محتاج ہو تا ہے۔اور اس کوچاہئے کہ اُس تک پہنچنے کے لئے اپنے اندراس کی آمادگی پیدا کرے ''خود تربیتی طریقہ'' میں اپنی شخصیت کے ساتھ اسی رابطے کا ایجاد کرنالازم وضروی ہے۔

پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین (ع) کی سیرت دوسروں کے حق میں ان کے احترام واکرام سے بھری پڑی ہے جیسے: سلام کرنا نیز سلام کرنے میں پہل کرنا حتیٰ بہ نسبت بھی، بچوںبچوں کے ساتھ کھیلنا ؛بچوںکے اچھے نام رکھنے کی تاکیدکرنا نیز انہیں اچھے القاب سے پکارنا، نو واردانسان کو جگہ دنیاجس کے بارے میں قرآن کریم کا صر یحی حکم ہے۔(١)

نیک گفتاری اورخوش زبانی کی تاکید کرناقُلْ لِعِبَادِیْ یَقُولُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ .(٢) دسیوںدیگراحکام اورتاکیدات کے جواسلامی معاشرہ میں مومنین کے احترام واکرام کی جانب تو جہ کی حکایت کرتے ہیں یہاںتک کہ مومن کی حرمت اوراُس کی رعایت حرمت کعبہ سے بالاترتصورکی گئی ہے۔(٣)

____________________

١۔ (یَااَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا قِیْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰهُ لَکُمْ ...)سورہ ٔمجادلہ، آیت ١١ .''ایمان والو! جب تم سے مجلس میں وسعت پیدا کرنے کے لئے کہا جائے تو دوسروں کو جگہ دیدو تاکہ خدا تمھیں (جنت میں) وسعت دے... ''۔

٢۔سورہ ٔاسراء آیت٥٣. ''میرے بندوں سے کہدیجئے کہ صرف اچھی باتیں کیا کریں''

٣۔ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''المؤمن اعظم حرمة من الکعبة'' بحار، ٦٨، ص١٦۔

۱۸۳

مومن حرمت کے لحاظ سے کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے۔

اس کے علاوہ جو چیز بھی مسلمان کی ہتک حرمت اور توہین کا باعث ہو، اسلام میں اس کی ممانعت کی گئی ہے۔ حضرت علی ـ نے انبارشہرکے رہنے والوں سے جوان کے استقبال میں پیادہ اورغلامانہ انداز میں آئے تھے، فرمایا:

یہ کون سا کام ہے جو تم انجام دیتے ہو؟انھوں نے جواب دیا کہ یہ ایک رسم ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے حکّا م اور فرمانرواؤں کا احترام کرتے ہیں۔حضرت نے فرمایا:

خداکی قسم تمہارے فرمانروااور حکّام اس کام سے کوئی استفادہ نہیں کرتے اور تم لوگ بھی اپنے اس عمل سے دنیا میں زحمت ومشقت اٹھاتے ہو۔اور آخرت میں بھی تمہاری بدنجتی کا سبب ہے۔(١)

حتّٰی اُن مواردمیں بھی کہ ایک عمل ظاہری طورپراکرام ہے لیکن حقیقت میں دوسروں کے ذلیل وخوار ہونے کا باعث ہے۔اس پر تنبیہ فرماتے تھے۔حسین بن ابی العلأکچھ لوگوں کے ہمراہ مکہ کے سفرمیں ہم سفر ہوا۔ اورہر منزل پراپنے دوستوں کی مہمان نوازی میں ایک بھیڑذبح کرتا تھا۔اور جب سفرکے دوران حضرت امام جعفر صادق ـ کی خدمت میں آیا تو حضرت نے اُس سے کہا: آیامو منین کوذلیل وخوارکرتے ہو؟ حسین بن ابی العلأنے امام کے سوال وجواب سے سمجھ گیا کہ اُس کے احباب تنگدستی کی وجہ سے اس کے مانند عمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے لہٰذ اوہ اپنے آپ میں ذلت وخواری کا احساس کرتے تھے۔

تربیت پانے والے یا فرزند سے مشورہ کرنا بھی اس کے احترام و اکرام کے مانند ہے وہ اس طریقۂ عمل سے خود کو عالی مرتبہ اور عظیم شخصیت خیال کرتا ہے، خداوند عالم حتیٰ پیغمبر اکرم سے فرماتا ہے: ''اپنی امت اور ماتحت افراد سے مشورہ کرو''۔(٢)

فرزند کے لئے کسی گھر یا کمرہ کا مخصوص کرنا (جبکہ اس کا امکان ہو ) اور بطور کلی ہر قسم کی مالکیت اور تملک کا احساس بھی ان امورمیں سے ہے کہ جوانسان کے احترام و اکرام کے احساس کا باعث ہے۔

____________________

١۔نہج البلاغہ، حکمت ٣٧۔

٢۔(وَشَاوِرْهُم فِی الْاَمْرِ ) سورہ ٔآل عمران، آیت١٥٩۔

۱۸۴

ب۔بغیر شرط کے مثبت توجہ:

محبت اور علاقہ انسان کی اساسی ضررتوں میں سے ہیںجن کا مختلف ماہرین نفسیات نے مختلف انداز میں کیا ہے، کارن ہورنائے ] Hornay,k [ان دونوں کو ''محبت'' اور ''تصویب اعتبار ومحبوبیت '' کے عنوان کے تحتذکر کرتا ہے، جان بالبی ] Bowlbyj [نے''محبت ودل بستگی''کے مفہوم کو اپنے نظریہ کی بنیاد قرار دی ہے اور بچے کی سیرت کے رشدوارتقاء کو دلبستگی کی ضرورت صحیح طور سے پوری کرنے میں خیال کیاہے۔ مزلو جسمانی اور امن وسلامتی کی ضرورتوں کی تأمین وتضمین کے بعد تعلق اور محبت کی ضرورت کوسب سے اہم ضرورت سمجھتاہے۔

محبوب دوستوں کانہ ہونا ایک بیوی اورایک بچے کو شدت سے احساس ہوتاہے۔وہ دوسروںکے ساتھ عاطفی روابط کے محتاج ہیں بعبارت دیگروہ اپنے گروہ یاخاندان اور فیملی میںایک مرتبہ کامحتاج ہیں... نفسیاتی کے ماہرین اس بات پر متقق ہیں کہ عشق و محبت کی ضرورتوں سے بے بہرہ ہونا ناکامی اور ناساز گاری کی بنیادہے۔(١)

راجرز کے نظریہ کے مطابق مثبت توجہ بغیر شرط کے انسان کے اندر عزت ونفس کا احساس پیدا کرتی ہے جو کہ دوسروں کی طرف سے خصوصاً اپنے سرپرستوں کی طرف سے گرم اور محبت آمیز، تعلقات روابط،قلبی لگائو، قبولیت اور مہربانی کو شامل ہے بے قید وشرطتوجہ مثبت اس معنی میں ہے کہ جوتاثیر وتاثرایک انسان سے دوسرے انسان کے روابط کی بنیاد پر اور اس احساس سے وجود میں آتی ہے کہ تربیت پانے والا ہرصورت میں ایک بااہمیت شخص ہے۔ اگر انسان احساس کرے کہ محبت(مثبت توجہ) اُس صورت میں حاصل کرے گاکہ جب دوست رکھنے کے قابل ہو تو اپنے اندر سے تنفر وبیزاری کے احساس کو دور کرکے دوست رکھنے والی تصویر باقی رکھنے کی کوشش کرتاہے، یہاں پر نہ یہ کہ احساس تنفر خود اس کے خیال میں ناموافق ہے بلکہ انسان کو مثبت توجہ کے کھو جانے پر بھی تہدید کرتا ہے ، ایسے موقع پر زبردستی اس پر فضیلت پیدا کرنے کے شرائط کو لادنا تجربیات کے انکار کا موجب ہوتاہے اور جسم اور اس کی شخصیت درمیان شگاف پیدا ہوجاتا ہے، لیکن اگر والدین (یا مربی) اپنے فرزند کی طرف بدون شرط اور مثبت توجہ رکھتے ہوں اور وہ احساس کرے کہ والدین اس کی اہمیت کے قائل ہیں، تو انکار تجربیات کی پھر کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی۔(٢)

____________________

١۔ روانشناسی شخصیت سالم، ص١٥٠تا١٥٤۔

٢۔ روانشناسی شخصیت ، ص٢٢١۔

۱۸۵

بے شک توجہ مثبت بدون شرط تربیت حاصل کرنے والے کی شخصیت کے احترام وتکریم کا باعث ہوگی اور اس کے اندر عزت نفس کا احساس پیدا کرے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ تربیت پانے والا خود ہی یہ احساس کرے کہ وہ ایک منفرد اور مشخص انسان کے عنوان سے مربی کی توجہ اور عنایت کا مرکز ہے، اگر یہ احساس ثابت ہوجائے تو اس کی ہر ناپسند رفتار وکردار کی (صحیح طرز کے ساتھ) مخالفت کی جا سکتی ہے لیکن اسی حال میں یہ احساس بھی رکھتا ہو کہ خود اُس کو لوگ دوست رکھتے ہیں اور مخالفت حقیقت میں اس کے ناپسندیدہ اعمال ورفتار سے ہے، جیسا کہ قرآن کریم حضرت لوط ـ کی زبانی ان کی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(قَالَ اِنِّی لِعَمَلِکُمْ مِنَ الْقَالین )(١)

'' انھوں نے کہا: میں تمہارے کردار کا دشمن ہوں ''۔

حضرت علی ـ نے بھی حضرت رسول خدا کی حدیث نقل فرمائی ہے:

''اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْعَبْدَ وَیَبْغُضَ عَمَلَهُ ....''۔(٢)

''خداوند سبحان کبھی کبھی کسی بندے کو دوست رکھتا ہے لیکن اس کے عمل کو دشمن رکھتا ہے ''۔

بچوں کے ساتھ برتائو کے سلسلہ میں بھی روایات میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ ان کے ساتھ قلبی لگائو اور نرمی کے ساتھ برتائو کرو، انھیں بوسہ دو، ان کے مہرو محبت میں کمی نہ کرو تاکہ محبت کی احتیاج ان کے اندر نفسیاتی الجھنوں وبیماریوں میں تبدیل نہ ہوجائے، جو شخص دوسروں کی محبت سے بہرہ مند ہو!، وہ دوسروں کے ساتھ احسان ومحبت کر سکتا ہے۔ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں:

'' بچوں کو دوست رکھو اور انہیں اپنے رحم وکرم کے سایہ میں قرار دواور جب بھی اُن سے وعدہ کرو تو اُسے وفا کرو''۔(٣)

____________________

١۔ سورہ ٔشعرائ، آیت ١٦٨۔

٢۔ نہج البلاغہ، خ١٥٤۔

٣۔''أَحِبُّوا الصبیان وارحموهم وَاذا وعدتموهم شیئاً ففولهم'' کافی، ج٦، ص٥٢۔

۱۸۶

حضرت امام جعفر صادق ـ بھی فرماتے ہیں:

''خداوند سبحان ضرور بالضرور اپنے اُس بندے کو جو اپنی اولاد سے بہت محبت کرتا ہے مورد رحمت قرار دیتا ہے''(١)

''اپنے فرزندوں کو زیادہ بوسہ دو، کیونکہ بہشت میں ہر بوسہ کے بدلہ ایک درجہ ہوگا''(٢)

محبت اور مہربانی پیغمبر اکرم کی سنت اورسیرت ہے، نیز انسانوں کی اخلاقی تربیت ہدایت میں آپ کی کامیابی کا راز بھی یہی نکتہ ہے: ''فَبِمَارَحْمَةٍ مِنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَو کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَولِکَ فَاعْفُ عَنهُم وَاسْتغفِر لَهُم'' (٣) ۔ پس اﷲ کی رحمت وبرکت سے آپ کے ساتھ نرم خو اور پُرمحبت ہیں، اور اگر تند خو اور سخت دل ہوتے تو یقیناً آپ کے آس پاس سے وہ لوگ پراگندہ ہوجاتے۔ لہٰذااُن سے درگذر کیجئے اور اُن کے لئے بخشش ومغفرت طلب کیجئے۔

پیغمبر اکرم کی سنت اور سیرت کے لئے بھی جو اُن کو پتھرمارتے تھے، دعا کرتے تھے: ''اَللّٰہُمَّ اہْد ِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَایَعْلَمُونَ'']خدایا! میری قوم کی ہدایت کر اس لئے کہ وہ نہیں جانتی ہے[ وہ انسانوں کے ساتھ بدون شرط مثبت توجہ کا بالاترین درجہ ہے کہ جو اﷲکی تمام مخلوقات سے گہرے لگائو اور عشق سے حاصل ہوتا ہے۔

البتہ توجہ مثبت بلاشرط کی توفیق، صرف تمام انسانوں کے ساتھ عشق کرنے کے نتیجہ میں ممکن ہے۔ اہم یہ ہے کہ نکتہ خالص اور بے ریا محبت دلوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور گہرے لگائو اور شخصیت کے احترام کا باعث ہوتی ہے، نہ کہ جو کچھ تکلف اور دکھاوے سے پیدا ہوتی ہے ۔

اپنے عشق و محبت کو اپنے فرزندوں یاتربیت پانے والوں میں ظاہر کرنے کے لئے ہر فرصت سے استفادہ کرنا چاہئے، جیسے اوقات ان کے ساتھ ہم گذاریں؛ مشترک رابطوں اور چاہتوں کو پروان چڑھائیں؛ باہم کھیلیں، ان سے کہیں کہ ہم تمھیں دوست رکھتے ہیں، اُن کے ساتھ اس طرح برتائو رکھیں کہ گویا وہ روئے زمین کی سب سے اہم انسان ہیں، ان کے پائداراور ناقابل فراموش آثار وواقعات وجود میں لائیں، ان کی تعریف کریں وغیرہ وغیرہ...۔(٤)

____________________

١۔''انّ اللّٰه لیرحم العبد لشدّة حُبّه لولده'' کافی، ج٦، ص٥٢۔

٢۔ ''اکثرو من قبلة اولادکم فانّ لکم بکلّ قبلةٍ درجةً فی الجنّة ۔''وسائل الشیعہ، ج١٥، ص٢٠٢۔

٣۔ سورہ ٔآل عمران، آیت ١٥٩۔

٤۔ استفان مارستون، معجزہ تشویق، ترجمہ تور اندخت تمدن، ص٨١۔

۱۸۷

محبت کا ظاہر کرنا اور اس کابیان کرناعاطفی روابط میں بہت اہم ہے۔ روائی کتابوں میں اس سلسلہ میں مستقل اور جداگانہ باب پایاجاتاہے: حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''جب کوئی کسی انسان کو دوست رکھے تو اسے اطلاع دے کیونکہ یہ دوستی کے پائدار ہونے کا موجب ہوگا''(١) خداوند سبحان بھی حضرت موسٰی ـ کی نسبت اس طرح سے محبت کا اظہار کرتا ہے: ''یقیناً دوبارہ بھی ہم نے تم پر احسان کیا جب ہم نے تمہاری ماں کو وحی کی اور اپنی مہر و محبت کو تم پر ڈال دیا تاکہ میرے زیر نگرانی پرورش پائو۔''(٢) اور اپنے حبیب محمد مصطفی کی جان کی قسم کھاکر محبت اور لطف کا اعلان کرتا ہے: ''آپ کی جان کی قسم وہ لوگ اپنی مستی میں سر گرادں ہیں ''(٣)

قرآن کی مختلف تعبیریں لوگوں بالخصوص مومنین کی نسبت خداوند عالم کے بے پایان لطف وکرم کو بیان انسانوں کے عظیم مربی کے عنوان سے بیان کرتی ہیں،قومی، عبادی، ''انِّی اَخَافُ عَلَیْکُم، هَلْ لَکَ یَااَیُّهَا الَّّّذِیْنَ آمنوا ۔۔۔''وغیرہ۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ محبت کے اظہار میںہمیں اعتدال اور میانہ روی کی رعایت کرنا چاہئے اور محبت میں افراط سے ہمیں اجتناب کرنا چاہئے؛ کیونکہ یہ چیز فرزندوں کو بے حوصلہ وبے اعتماد بنادیتی ہیں، اس وجہ سے مشکلات زندگی کے موقع پر حقارت (کمتری) اور ناتوانی کا احساس کرتے ہیں، کیونکہ سماج اور جس ماحول میں وہ ہیں اس میں اتنی محبت اور مہربانی انھیں نصیب نہیں ہوگی۔ محبت میں افراط تربیت پانے والے کی تربیت میں تاثیر کو زائل کردیتی ہے۔

حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں: ''سب سے بُرے آباء وہ ہیں جو محبت اور نیکی میں افراط سے کام لیتے ہیں ''(٤)

____________________

١۔ ''اذا احببت رجلاً فاخبره بذلک فانّه اثبت للمودة بینکما '' کافی، ج٢، ص٦١٥، باب اخبار الرجل اخاہ بحبہ (انسان کا اپنے برارد ایمانی ) اپنی محبت کی اطلاع دینا کو۔

٢۔ (وَلَقَدْ مَنَّنَا عَلَیْکَ مَرَّةً اُخْریٰ والقیت علیک محبّةً منی ولتضع علی عینی )(سورہ ٔطٰہٰ، آیت ٣٧تا ٣٨)

٣۔ (لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِی سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ )سورۂ حجر، آیت٧٢۔

٤۔ ''شر الاٰباء من دعاه البرالی الافراط ''(تاریخ یعقوبی، ج٣، ص ٥٣)۔

۱۸۸

ج۔ اغماض (چشم پوشی) :

کمزوریوںاور خطائو ں کا اظہار عزت نفس کے برباد ہونے اور شخصیت کے پامال ہونے کا باعث ہوتاہے،لہٰذا ان سے اغماض اورچسم پوشی ان کے لئے تربیت پانے والے کی شخصیت کی تعظیم وتکریم ہوگی۔جب کسی سے کوئی خطا سرزد ہو یا خطا کا احتمال دیں۔ تو اس کی اخلاقی تربیت اور حفظ عزّت نفس کے لئے تین مرحلے نظر میں رکھے جاسکتے ہیں:

١۔ صحت پر حمل کرنا چاہئے یا اس کی اچھے طریقہ سے توجیہ کرنی چاہئے؛

خطا کے ثابت ہونے سے پہلے اگر خطا کی توجیہ کرنے کے قرائن اور احتمالات موجود ہوں تو صحت پر حمل کیا جا سکتا ہے جو کہ اسلامی فقہ میں ایک مسلم الثبوت اصل ہے۔ لہٰذا احتمال خطا کی ٹوہ میں نہیں رہنا چاہئے اور اپنے تجسس اور کھوج سے کشف فساد اور ایک مسلمان کی آبروریزی کا باعث نہیں ہونا چاہئے۔

حضرت علی ـ نے فرمایا:

'' اپنے ]ایمانی[ بھائیوں کے کام کی اچھے سے اچھے عنوان سے توجیہ کرو یہاں تک کہ اس کے خلاف تم پر ثابت ہوجائے، نیز ان کی باتوں کی نسبت بھی جب تک کہ اچھی توجیہ کا امکان ہے بدگمانی نہ کرو''۔(١)

٢۔تغافل اور تجاہل:

اگر تربیت پانے والے کی خطا ثابت ہوجائے لیکن وہ پہلی مرتبہ تھی اور حالات کے مطابق ہم تشخیص دیں کہ اس کو نظرانداز کرنا اور اس کی شخصیت کاتحفظ اصلاح کا باعث ہو گا تو تغافل اورتجاہل سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ؛یعنی یہ ظاہرکریں کہ یہ خطااس سے سرزدنہیں ہو ئی ہے اوراس کی توجیہ کو بھی قبول کریں، باوجودیکہ کہ اس کے صحیح نہ ہو نے سے با خبر ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

''دوسروں کے ساتھ معاشرت اور زندگی گزارنے کے حالات کی اصلاح ایک ایسے ظرف کے مانند ہے جس کا دوثلث ]دو تہائی[زیرکی اور ایک ثلث ]ایک تہائی[تغافل ہے''۔(٢)

'' جزئی امورسے تغافل کرکے خودکو بلند مرتبہ اور عالی قدر بناؤ''۔(٣)

____________________

١۔''ضَع اَمر اَخِیکَ عَلیٰ اَحسنه حتّیٰ یاتِیکَ مَایقلبک عنه وَلَاتظنُّنَّ بکلمة خرجت من اخیک سوائً وانت تجد فی الخیرسبیلاً'' (کافی، ج٢، ص٣٦٢)۔

٢۔ ''صلاح حال التعایش والتعاشر ملاء مکیال ثلثاه فطنة وثلثه التغافل ''۔(اخلاق فلسفی، ص٣٥٩)۔

٣۔''عظموا اقدارکم بالتغافل عن الدنی من الامور'' ۔( ایضاً، ص٢٢٤)۔

۱۸۹

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''تجاہل وتغافل سے بہتر کوئی زندگی نہیں ہے۔''(١) تغافل تربیت حاصل کرنے والے کی تکریم وتعظیم کے علاوہ اسے اس بات کے لئے آمادہ کرتا ہے کہ وہ اپنے مربی کے کرم وبخشش کی تلافی کرے اور یہی امر اس کی اصلاح اورخطاکے دوبارہ نہ کرنے کا سبب بنے گا۔

٣۔عفوودرگذر:

خطاکے مسلم اورآشکارہونے کے بعد، اب بھی چشم پوشی اورنظرانداز کرنے کی گنجائش پائی جاتی ہے۔ اگرہم یہ احتمال دیں کہ دوسروں کی خطاکو معاف کرنا ان کی بیداری اوراصلاح کا باعث ہوگی (کہ عام طور پر ایساہی ہے) توعفوکرناہی بہترہے۔خداوندغفور سماج اور معاشرہ میں ایک جاری وساری سیرت کے عنوان سے عفوودرگذرکی تاکیدکرتاہے: (خُذِ الْعَفْو )۔(٢) ''اے پیغمبر!عفوودرگذرکواپنا شعار بنالو''۔

......''ان لوگوں سے درگذرکرو اور ان سے چشم پوشی کرو کہ خدانیکوکا روں کودوست رکھتاہے''۔(٣)

عفوودرگذرکرنا چاہئے کیا تم نہیں چاہتے کہ خداتمہیں معاف کردے اور خدابخشنے والااورمہربان ہے''۔(٤)

روایات کی نظرسے بھی عفوودرگذشت مکارم اخلاق اورسماجی اور اجتماعی روابط میں نمایاں مرتبہ کا حامل ہے اور دوسروں میں اخلاقی فضائل کی راہ ہموارکرنے والاہے:

پیغمبراکرم نے فرمایا ہے: ''ایک دوسرے کو معاف کروتاکہ تمہارے درمیان سے کینے اور کدورتیں ختم ہوجائیں۔''(٥)

عفوودرگذرخداکے بندوں کی عزت میں اضافہ کرتاہے، لہٰذاعفوکرو تاکہ خداتمیں عزیز قرار دے۔(٦)

حضرت علی ـ سے منقول ہے: ''عفوودرگذشت تمام مکارم اخلاق کا تاج ہے۔''(٧)

____________________

١۔''لاعقل کالتجاهل ''(غرر الحکم ودرر الکلم۔) ٢۔ سورہ ٔاعراف، آیت١٩٩۔

٣۔ (فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ، اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ )(سورہ ٔمائدہ، آیت ١٣)۔

٤۔ (وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا، اَلَاتُحِبُّوْنَ اَن یَغْفِرَ اللّٰهُ لَکُمْ ۔)(سورہ ٔنور، آیت٢٢)۔

٥۔''تعافوا تقسط الضغائن بینکم'' (کنز، ٧٠٠٤)۔

٦۔''العفو لایزید الّا عزاًفاعفوا یعزکم اللّٰه'' ۔ (ایضاً، ١٢،٧٠)۔

٧۔''العفو تاج المکارم ۔''(غرر الحکم، فصل دوم، ص٢٤٥)۔

۱۹۰

قرآن بھی فرماتاہے: (فَاصْفَح الصَّفحَ الْجَمِیْل )(١) ''آپ خوبصورتی کے ساتھ درگذر کردیں۔ ''صفح'' ترشروئی اورعتاب کے بغیردرگذر کرنے کے معنی میں ہے۔قدرت رکھنے کے باوجودمعاف کردینے کے بارے میں روایات میں بہت زیادہ تاکید ہو ئی ہے۔ حضرت امام حسین ـ فرماتے ہیں: ''لوگوںمیں سب سے زیادہ درگذر کرنے والا وہ ہے جو قادر ہو نے کے باوجود معاف کردے۔''(٢)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''بہترین عفو درگذشت وہ عفوودرگذشت ہے کہ جوقادرہو نے کے باوجودمعاف کردی جائے۔''(٣) انھوںنے اپنے فرزند حضرت امام حسن ـ سے وصیت میں عفو و درگذر کو سزا سے زیادہ انسان کی صلاح کاباعث جاناہے: ''جب تمہارے نزدیک کسی سے کوئی خطاسرزد ہوجائے، تو عادلانہ درگذر عقلمندکے لئے سزاسے زیادہ موثرہے۔''(٤)

پیغمبر اکرم بھی عفوکو موجب اصلاح جانتے ہیں:

ایک انسان نے اپنے خدمت گزار وں کے رویہ کی رسول اکرم کی خدمت میں شکایت کی۔تو حضرت نے فرمایا: انھیں معاف کردو تا کہ ان کے دل نیکیوں کی طرف مائل ہوں ''۔عرض کیا: اے پیغمبر خدا !وہ لوگ کاموں میں سستی کرتے ہیں !فرمایا: انھیں معاف کردو''۔(٥)

اغماض وچشم پوشی کے ذریعہ بغیر رفتار کے نفسیاتی نقطۂ نظر (اس کے تحریکی پہلو کے علاوہ) ''خاموشی'' کے طریقہ سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے: خاموشی اس طریقۂ کارکو کہا جاتا ہے کہ اُس میں رفتار کا واقع ہونا بغیرتقویت کے رہ جائے اور تکرار ایک رفتار کی تقویت کے بغیر اُس رفتار کے مکمل توقف کا باعث ہوتی ہے... مثال کے طور پر استاد نامطلوب رفتارسے بے اعتنائی کرے تو طالب علموں کے شور شرابہ کو خاموش کرسکتا ہے(٦) البتہ عفو و درگذر کے خاموشی سے بھی کہیں زیادہ عمیق معنی پائے جاتے ہیں، اگرچہ عام طور وہ پر خاموشی کا مستلزم ہے۔

____________________

١۔ سورہ ٔحجر، آیت٨٥۔

٢۔''ان اعفی الناس من عفی عنه قدرته '' (بحار، ج٧٤، ص٤٠١)۔

٣۔''احسن العفو کان عن قدرة'' (غرر الحکم، فصل دوم، ص٢٤٦)۔

٤۔''اذا استحق احد منک ذنبا فان العفو اشدّ من الضرب لمن کان له عقل'' (بحار، ج٧٧، ص٣١٦)

٥۔ مستدرک الوسائل، ج٢، ص٨٧۔

٦۔ سیف، تغییر رفتار ورفتار درمانی، ص٣٨٢۔

۱۹۱

د۔ ذمہ داری دینا:

جب انسان خود کو قوی اور توانا محسوس کرتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ اُس سے کوئی کام ہوسکتا ہے تو وہ افتخار وعزت کا احساس کرتا ہے، تربیت پانے والے انسان کی تکریم کے لئے اُس کے اندر عزت کا احساس پیدا کرنا چاہئے، تاکہ اُس سے ذلت اور کمتری کا احساس جاتا رہے، لہٰذا ضروری ہے کہ تربیت پانے والے کی توانائیوں کے ظاہر ہونے کا امکان پیدا کریں تاکہ اسے یقین ہو کہ اس سے بھی کام ہوسکتا ہے اور وہ بھی کسی کام کا آدمی ہے تربیت پانے والوں اور فرزندوں کے درمیان ذمہ داری دینا اور کاموں کوتقسیم کرنا اُن کی شخصیت کی تعظیم و تکریم کا باعث ہوتا ہے اس کے دوسرے موارد اخراجات کی تنظیم کا امکان ،انتخاب اور کسی بات کے طے کرنے کے لئے مہلت دینا، بعض ذمہ داریوں کو سپرد کرنا وغیرہ ہے، اور ذمہ داری کی سپردگی اگر عاقلانہ اور ظریف نگرانی کے ساتھ ہو تو اخلاقی تبدیلی کا باعث ہوسکتی ہے، مندرجہ ذیل داستان نے ''پیاژہ'' نامی معاصر نفسیات کو حیرت میں ڈال دیا ہے، توجہ فرمائیے: ١٩٣٠۔ اور ١٩٣٥۔ کے درمیان میں نے ایک مؤسسہ وادارہ کا دیدار کیا تو وہ مجھ پر کچھ زیادہ ہی اثر انداز ہوا، یہ مؤسسہ مجرم بچوں سے مخصوص تھا اور یورپ کے مشرقی علاقے میں واقع تھا، یہ ایک ماہر اور مدبر مدیرکے زیر ادارت تھا ، وہ چاہتاتھا کہ جن بچوں اور نوجوانوں کی اُس نے ذمہ داری لے رکھی ہے، ان پر اعتماد کرے، یہاں تک کہ مؤسسہ کے نظم وضبط کو ان کے حوالے کردے اور اہم ترین ذمہ داری اُن میں سے شریرترین کے حوالے کردے ، اس تجربہ کے دو پہلو نے ہمیں مخصوص انداز میں اپنی طرف مائل کیا، ایک نووارد اور تجربہ کار افراد کی ''تربیت'' دیگر نوجوانوں کے اجتماعی گروہ کے ذریعہ اور دوسرے موسسہ کی داخلی نظم وضبط اور اشارے عدالتی امور بھی ان شاگردوں کے سپرد تھے جو روز شب پر محیط تھے، ذرا تصور کریں ان پر اس قدر اعتمادکہ مدرسہ کے قواعد اور دستورات کو شاگردوں کی جماعت معین کرتی ہے نہ بزرگ افراد ، نو واردافراد میں کیا اثر رکھتی ہے۔ جہاں پر جو بچے اور نو جوان کسی جرم کے مرتکب ہوئے تھے اور بچوں کے عدالتی محکمہ نے انھیں مجرم قرار دیاتھا اور وہ لوگ طولانی تادیب اور سزا کے منتظر تھے، یکبارگی خود کو اُن نوجوانوں کے درمیان دیکھتے تھے کہ جو جرم کے تمام مراحل گذارنے کے بعد اپنا علاج کرکے ئنی زندگی چاہ رہے تھے ، ایک منظم گروہ رکھتے تھے اوربلافاصلہ نووارد افراد کو اپنے جرگہ میں قبول کرکے تمام امور، فرائض اور ذمہ داریاں ان کے حوالے کردیتے تھے ، کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جب ایسے افراد زندان کے داروغہ سے روبرو ہونے کے بجائے اپنے ساتھیوں سے ملاقات کرتے تھے تو یکبارگی بدل جاتے تھے اور پھر اس کے بعد ان میں کج رفتاری کی تکرار نہیں ہوتی تھی اس مؤسسہ کے ادارہ کرنے والے عظیم مربی کی خوبصورت ترین ایجاد یہی بات تھی

۱۹۲

اگر اس ادارہ کے شاگردوں سے کوئی خطا سرزد ہوتی تھی تو وہ عدالت اُس خطا کی تحقیق کرتی کہ جو ان ہی شاگردوں سے تشکیل پائی تھی اس حیرت انگیز عدالت کی نظریہ اور اس کے احکام وہاں کے اخبار میں شائع ہوئے تھے...۔(١)

قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم کی سیرت دوسروں کو (خصوصاً نوجوانوں کو)ذمہ داریاں سونپنے کے بارے میں اُن کی استعداد کو بڑھانے اور ان کی شخصیت کاا حترام کرنے کے لئے بہت سے واقعات کی نشاندہی کرتی ہیں مثلاً طالوت جیسے جوان کا انتخاب بنی اسرائیل کی قیادت کی ذمہ داری کے لئے ، اسامہ کی کمانڈری اور مصعب بن عمیر نامی جوان کا مدینہ کے لئے سب سے پہلے مبلغ کے عنوان سے تعارف کرانا وغیرہ۔

٤۔ اخلاقی اقدار کی دعوت دینا

جبکہ پہلی دو روشوں کے مطابق موانع برطرف ہوجائیں اورماحول موافق وسازگار ہوجائے نیز تکریم شخصیت کی روش سے باطنی آمادگی پیدا ہوجائے مربی کلی استفادہ کے ذریعہ اخلاقی اقدار کی دعوت کی کلی روش سے استفادہ کے ذریعہ تربیت پانے والوں کو اخلاقی فضائل کی طرف مائل وجذب کرسکتا ہے، بعبارت دیگر ''اقدار کی تبلیغ '' کرسکتا ہے۔(٢)

علم نفسیات تبلیغ کے مخصوص شرائط کو تین عنصر پیغام دینے والے (مبلغ) پیغام لینے والے اور پیغام میں لحاظ کرتا ہے کہ جو پیغام کی تاثیر اور نفوذ کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔

پیغام کی بعض مسلّم الثبوت خصوصیات درج ذیل ہیں:

١۔مخاطب کو اپنی جانب جلب (مائل) کرے۔(نیاپن رکھتا ہو اور دیگر امور سے الگ اورممتاز ہو )۔

٢۔ مخاطب کے نزدیک قابل درک ہو۔

____________________

١۔ پیازہ: تربیت رہ بہ کجا می سپارد، ١٠١، ١٠٢۔

٢۔ تربیت پانے والا بھی ''خود تربیتی'' روش سے استفادہ کے ذریعہ پیغام دینے والے، پیغام لینے والے اور پیغام کی شرائط ملاحظہ کرسکتا ہے اور زیادہصحیح اور مطلوب کاانتخاب کرسکتا ہے۔

۱۹۳

٣۔اہمیت کے لحاظ سے مخاطب کے نزدیک قابل قبول ہو۔

٤۔اسے حفظ کرسکتا ہو اور بوقت ضرورت اُسے یاد کرسکتا ہو۔

٥۔ایک موضوع کے مثبت اور منفی (قوت وضعف) دونوں پہلو بیان کئے جائیں۔

٦۔پیغام کی تکرار، ترغیب و دلچسپی کے اثر کو مزید بڑھا دیتی ہے، اس شرط کے ساتھ سستی اورخستگی کا باعث نہ ہو۔

٧۔ایسے پیغامات جو زیادہ خوف ودہشت کے حامل ہوتے ہیں کمتر تاثیر رکھتے ہیں، کیونکہ اضطراب اور گھبراہٹ کو اس درجہ بڑھا دیتے ہیں کہ انسان اس کی صحت کا انکار کرنے لگتاہے، مگر یہ کہ اُسے کسی اور ذریعہ سے یقین ہوچکا ہو۔

٨۔پیغام دینے والا یا مبلغ محبوب، باحوصلہ، مخلص، مطمئن، وفادار، قابل اعتماد، عاقبت اندیش، ہوشیار اور صادق ہو۔

پیغام اس بات کے لئے جو کہ خارجی اور مخالف دبائو کے مقابل تاب لاسکے (قدرت بخش سکے) اس طرح سے جاگزین ہو کہ پیغام قبول کرنے والے کی دلچسپی میں اضافہ ہوجائے:

١۔نئے پیغام کو دیگر یقین واعتقاد کے ساتھ مخلوط کرے۔

٢۔اپنے یقین واعتقاد کی دلیلوں کی تحقیق کرے۔

٣۔متعارض دلیلوں کو ایک دوسرے سے ملا کر دیکھے اور صحیح ترمیم یا اہم تر کا انتخاب کرے۔

٤۔رائے اور نظریہ کا بدلنا اپنے آزادنہ انتخاب کے زیر اثر ہو نہ کہ ترغیب دلانے والے کی زور زبردستی سے۔

اس روش کو منطق کی کتابوں میں ''خطابہ'' کہتے ہیں(١) اور اس طرح تعریف کرتے ہیں: خطابہ ایک ایسا علمی طریقہ ہے جس کی مدد سے لوگوں کو اُس چیز میں خاموش جس کی تصدیق کی ہم امید رکھتے ہیں، بصورت امکان خاموش اور قبول کرایا جاسکتا ہے۔ جو امور خطابہ کی تاثیر کو زیادہ کردیتے ہیں، بعض قائل سے متعلق ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں:

١۔ علمی یااجتماعی اعتبار سے اپنا تعارف کرائے (دوسرے لوگ بھی یہ کام کر سکتے ہیں)

____________________

١۔ مظفر، المنطق، ص٤١٥اور اس کے بعد (اس فرق کے ساتھ کہ یہاں پر مفہوم زیادہ عام اور صناعت شعر کو بھی شامل ہوتا ہے)۔

۱۹۴

٢۔اس طرح ظاہر ہوکہ اس کی تعظیم وتکریم نیز اس کی باتوں کی تصدیق کا باعث ہو، جیسے یہ کہ لباس، ہاتھ اور جسم کی حرکتوں، آنکھوں کے اشاروں، حزن و مسرت کی حالت وغیرہ کے اعتبار سے میٹنگ (جلسہ) اور موضوع سخن سے ہم آہنگ اور مرتبط ہو۔

٣۔ ''بات کرنے میں'' اس کی آوازغرض کے مطابق ہو (کبھی بلند تو کبھی آہستہ اور کبھی ترجیع تو کبھی تقطیع و....) آواز کا اچھا ہونا، اچھے انداز میں پیش کرنا اور طرز بیان میں تصرف اورتبدیلی بھی اہم امور میں سے ہے۔

٤۔ ''مخاطبین'' کے عواطف واحساسات کو جلب کرے اور ان کے اندر اس طرح نفسانی تأثّر کی حالت اور ذہنی آمادگی ایجاد کرے کہ جو غرض کے مطابق ہو، کبھی رقت و ر حمت کی حالت تو کبھی خشم ونفرت کا انداز اور کبھی تبسم اور مسرت ایجاد کرے، اس بات کے لئے کہ جلسہ خشکی اور جمود کی حالت سے خارج ہوجائے اور قائل کی طرف متوجہ ہونیکی کیفیت حالت ، ان کے اندر ایجاد کرے، کبھی ضروری ہے کہ انھیں لطیفوں کے ذریعہ ہنسائے یا کسی حکمت آمیز نکتہ سے انھیں حیرت میں ڈال دے ۔ کبھی مخاطبین کی تعریف وتوصیف لازم ہے (اعتدال کی حد میں) لیکن ان کی ہر طرح کی توہین و تحقیر سے پر ہیز کیا جائے۔

٥۔ شہادت حال، یعنی عملی صداقت کے گواہ بھی قائل کی بات کے نفوذ میں موثر امور میں شمار ہوتے ہیں، اس طرح سے کہ فضیلت، صدق، امانت، علم اور معرفت سے مشہور ہو یا دوسری جہت سے محبوبیت رکھتا ہو یا یہ کہ اس کی گفتگو میں صدق وصفا اور اخلاص کی علامتیں ظاہر ہوں حضرت امیر المومنین علی ـ کے بقول: ''کوئی بھی شخص کچھ اپنے دل میں پنہاں نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کی زبان کے اچانک کلماتہیں یا چہرے کے آثار سے ظاہر ہوجاتا ہے''۔(١) بعبارت دیگر قائل کو چاہئے اپنے بیان پر ایمان رکھتا ہو، کیونکہ جو بات دل سے نکلتی ہے دل میں اثر کرتی ہے''

''آپ حکمت اور اچھی نصیحت (موعظہ) کے ذریعہ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیجئے اور اُن سے بہترین انداز میں بحث وجدال کیجئے(٢)

____________________

١۔''ما اضمر احد شیئاً الّا ظهر فی فلتات لسانه وصفحات وجهه'' (نہج البلاغہ کلمات قصار ٢٦)۔

قرآن کریم کی زبان میں اس روش کو ''موعظہ'' سے تعبیر کیا گیا ہے البتہ موعظہ ونصیحت روش کے مرادی جنبہ کی طرف بھی اشارہ کرتاہے، لیکن قرآن کی اس سہ گانہ تقسیم میں تقریباً اقدار کی دعوت کی روش سے ہم آہنگ ہے۔

٢۔ سورہ ٔنحل، آیت١٢٥۔

۱۹۵

موعظہ یعنی انسانوں کے عواطف واحساسات سے(١) انھیں حق کی دعوت دینے کے لئے استفادہ کرنا۔ قرآن نے موعظہ کو صفت ''حسنہ '' سے مقید کیا ہے، کیونکہ: نصیحت اُس صورت میں موثر واقع ہوتی ہے کہ ہر طرح کی خشونت ، تند کلامی، فوقیت طلبی، طرف مقابل کی تحقیر وتوہین، ضد اور ہٹ دھرمی وغیرہ سے خالی ہو لہٰذا مو عظہ اُس وقت اپنا گہرا اثر چھوڑتا ہے کہ احسن اور خوبصورت اندازمیں بیان ہو۔(٢)

اخلاقی اقدارکی دعوت کے طریقے درج ذیل ہیں:

الف۔ انذار وبشارت:

انذار(٣) یا ترہیب ڈرانے اور ہوشیار کرنے نیز بُرے اعمال کے بُرے نتائج اور عواقب کی طرف انسان کو متوجہ کرنے کے معنی میں ہے کہ اس میں ایک قسم کا ڈرانا بھی ہے۔ ''تبشیر''(بشارت دینا) یا ترغیب انسان کو نیک امور اور مطلوب کاموں کے نتائج سے آگاہ کرنے کے معنی میں ہے کہ جو سرور و شادمانی کا باعث ہے۔ انسان فطری طور پر لذت اور نعمت کی طرف راغب ہوتا ہے اور درد والم سے اجتناب و دوری چاہتا ہے۔ اسی لئے اگر انذار وتبشیرمخاطب کے قبول کرنے اور اس کے یقین کے مطابق ہو تو موثر ہے، یعنی اگر مخاطب فکری واعتقادی اصول ومبانی کے لحاظ سے تصدیق کرے کہ یہ عمل ان لذتوں کا حامل ہے یا فلاں آلام کا باعث ہے تو بلاشبہہ ایسا انذار یا تبشیر موثر واقع ہوگا۔

قرآن کریم اور انبیائے الٰہی نے اس وسیلہ سے کثرت سے استفادہ کیا ہے، جیساکہ قرآن تمام انبیاء کو ''مبشرین اور منذرین'' کہتا ہے(٤) اور خود کو ''نذیر''(٥) اور ''بشریٰ''(٦) کہتا ہے۔

____________________

١۔ مفردات راغب معجم مفردات الفاظ قرآن، میں اس کے دومعنی ذکر ہوئے ہیں: ١۔''ایسی زجر وتوبیخ جو خوف دلانے کے ساتھ ہو''کہ جو اقدار کی دعوت کے فنون اور طریقوں میں شمار ہے۔ ٢۔''هو التذکیر بالخیر فیما یرق له القلب '' خیر کے ساتھ نیصیحت کرنا اس چیز کے بارے میں جس کے لئے دل نرم ہوجائے۔کہ یہی عام معنی یہاں پر مراد ہے۔ المیزان، ج١٢، ص٣٧٣۔ تفسیر نمونہ، ج١١، ص٤٥٥ پراسی عام معنی کو قبول کیا ہے۔٢۔ تفسیر نمونہ، ج١١، ص ٤٥٦۔ المیزان میں بھی یہ بات ایک دوسرے انداز سے بیان کی گئی ہے:''من هنا یظهر انّ حسن الموعظه انما هو من حیث حسن اثره فی الحق الذی یراد به بأن یکون الواعظ نفسه متعظا بمایعظ ویستعمل فیها من الخلق ما یزید وقوعها من قلب السامع موقع القبول فیرق له القلب ویقشعر به الجلد ویعیه السامع ویخشع له البصر'' ۔

٣۔ ''الانذار اخبار فیہ تخویف کما ان التبشیر اخبار فیہ سرور۔'' (المفردات)۔٤۔ سورہ ٔانعام، آیت٨۔ ٥۔ سورہ ٔمدثر، آیت٣٦۔ ٦۔ سورہ ٔبقرہ، آیت٩٧۔

۱۹۶

انذار وتبشیر سے استفادہ کرنے میں قرآن کریم کے تربیتی انداز میں دو نکتہ قابل توجہ ہے:

ایک۔قرآن کریم میںانذار وتبشیر کا انسانی عواطف واحساسات کے اجاگر کرنے کا اہم رول ہے کہ ایک طرف خوف(١) ، خشیت(٢) اورخشوع(٣) خداوندعالم کی نسبت مخاطبین میں برانگیختہ کرتا ہے اور دوسری طرف محبت(٤) ، شوق(٥) اور امید ان کے دل میں پروان چڑھاتا ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں قسم کے درمیان ایک موازنہ ایسا توازن وتعادل ایجاد کرتا ہے کہ جو نہ یاس اور ناامیدی کا باعث ہوتا ہے اور نہ ہی غرور و بے خیالی کا روایات میں بھی تاکید کی گئی ہے کہ مبلغ کو چاہئے کہ مخاطبین کو خوف ورجا کے درمیان رکھے۔(٦)

دو۔ انذار وتبشیر کے مصادیق کا استعمال: قران کریم میں اس کا دائرہ وسیع ہے، خداوندعالم ہر انسان کے لئے ''رضوان'' اور ''روح''و ''ریحان'' کی بات نہیں کرتا، بلکہ بعض کو لذیذ غذائوں خوبصورت اور زربخت لباسوں، فرحت بخش تفریح گاہوں وغیرہ کے وعدہسے امید وار کرتاہے ۔ لہٰذا اخلاقی تربیت کے سلسلہ میں بلند پروازی نہیں کرنی چاہئے، بلکہ افراد کی استعداد اور ظرفیت کے مطابق، مختلف بشارتوں اور نعمتوں سے متعلق گفتگو کرنی چاہئے۔

ب۔ داستان گوئی :

داستان میںایسا جادو ہوتا ہے کہ جو روحوں کو مسحور کرلیتا ہے، وہ کونسا جادو ہے اور کس طرح روحوں پر اثر انداز ہوتا ہے؟کوئی انسان بھی اس کے لئے حد و حدود معین نہیں کرسکتا آیا یہ خیال ہے کہ جو داستان سے پیدا ہوتاہے اور داستان کے محل وقوع اور منزلوں کی یکے بعد دیگر تعقیب کرتا ہے اور اُسے ذہن میں ایک محسوس واقعیت سے تبدیل کردیتا ہے؟ یا انسان کے ''وجدان کی مشارکت'' داستان کے ہیرو کے ساتھ ہوتی ہے کہ جو آدمی کی روح میں اس کی تاثیر کا باعث ہوکرواضح اور روشن انداز میں احساسات وافکار میں جاگزیں ہوجاتی ہے؟

____________________

١۔ (لمن خاف مقام ربه جنتان )(سورہ ٔرحمن، آیت٤٦)۔ ٢۔ (انما انت منذر من یخشاها ۔)(سورہ ٔنازعات، آیت ٤٥)۔٣۔ (الم یأن للذین آمنوا ان تخشع قلوبهم لذکر اللّٰه ۔) (سورہ ٔحدید، آیت١٦)۔٤۔ (والذین آمنوا اشدُّ حبّاً للّٰه ۔)(سورہ ٔبقرہ، آیت١٦٥)۔٥۔ (ان الذین آمنوا اولٰئک یرجون رحمة اللّٰه ۔)(سورہ ٔبقرہ، آیت٢١٨)۔٦۔''خیر الاعمال اعتدال الرجاء والخوف'' ۔ (غرر الحکم، فصل ٤،ص ١٥٦)۔

۱۹۷

یا داستانی موقعیت سے انسان کی روح کے متاثر ہونے کی وجہ سے ہے، جب انسان عالم خیال میں خود کو اس کے حوادث وواقعات کے درمیان داخل تصور کرتا ہے اور دور سے ماجرے کا نظارہ کرتا ہے، لیکن یہ چاہتاہے کہ نجات دینے والا یا نجات یافتہ ہو؟ جو بھی ہو داستان کی یہ سحر انگیز تاثیر قدیم الایّام سے انسان کے ساتھ رہی ہے، ہمیشہ اس کی زندگی کے ساتھ روئے زمین پر سیر کرتی رہی ہے اور کبھی ختم نہیں ہوگی۔(١)

داستان گوئی ایک ایسا طررز اوراسلوب ہے کہ جوجذابیت اور سامع کو اپنے ہمراہ کرنے کے علاوہ داستان کے اغراض ومقاصد کو قبول کرنے کے لئے عاطفی راہ بھی ہموار کرتی ہے قرآن کریم نے انسانوں کی اخلاقی تربیت کے لئے داستان کا زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا ہے داستان سن وسال کے تمام مراحل میں مفید اور مورد توجہ ہے، البتہ داستان کا مضمون سامعین کی سطح اطلاع وآگاہی کے مطابق ہونا چاہئے۔ خداوندعالم اپنے قصہ گوئی کے اہداف سے متعلق قرآن کریم میں فرماتا ہے:

(لَقَد کَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَة لِاُوْلِی الْاَلْبَابَ، مَاکَانَ حَدِیْثاً یُفْتَریٰ وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَتَفْصِیْلَ کُلَّ شَیٍٔ وَهُدًی وَرَحْمَةً لِّقَومٍ یُؤمِنُوْنَ )(٢)

''یقینا ان کے واقعات میں صاحبان عقل کے لئے سامان عبرت ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے گھڑھ لیا جائے یہ قرآن پہلے کی تمام کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اس میں ہر شے کی تفصیل ہے اور یہ صاحبان ایمان کے لئے ہدایت اور رحمت بھی ہے ''۔

یہ اہداف درج ذیل ہیں:

ایک۔عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کے لئے۔

دو۔واقعیت اور حقیقت کا بیان ہے اورجھوٹ اورافتراء پردازی سے مخلوط نہیں ہے۔

تین۔حقائق امور کو بیان کرکے تجزیہ وتحلیل کرتا ہے۔

چار۔ہدایت و رحمت کا ایک وسیلہ ہے۔

____________________

١۔ نگاہی دوبارہ بہ تربیت اسلامی، ص١٢٤۔

٢۔ سورہ ٔیوسفآیت١١١۔

۱۹۸

قرآنی داستان میں عواطف کو تحریک کرنے اور اُسے ابھارنے کے علاوہ، تعقل وخردمندی کی پرورش بھی پائی جاتی ہے، قرآنی قصے انسانوں کے درمیان اخلاقی روابط کو واضح انداز میں بیان کرتے ہیں اور آخر کار، یہ اخلاقی فضائل ہیں جو کامیابی کے ساتھ میدان سے باہر آتے ہیں اور پستیاںاور ذلتیں اورسیاہ رو ہوجاتی ہیں ہابیل وقابیل ، موسیٰ وفرعون، موسیٰ وقارون، موسیٰ اور عبد صالح، آدم وحوّا، بنی اسرائیل کی گائے، ابراہیم اور اسماعیل، یوسف اور ان کے بھائی، لوط اور ان کی قوم وغیرہ کی داستانیں بہت سے اخلاقی اور تربیتی نکات کی حامل ہیں۔ وہ نکتہ جو قرآنی داستانوں میں توجہ کو جلب کرتا ہے ، یہ ہے کہ پست میلانات کا ذکر نہیں چھیڑتا اور مردو عورت کے روابط سے متعلق داستانوں میں حریم حیا کو محفوظ رکھتا ہے اور جزئیات کے ذکر سے اجتناب کے ذریعہ پردہ دری نہیں کرتا ہے۔

داستان سے مناسب اور بجا استفادہ خصوصاً قرآنی داستانوں یاائمہ طاہرین علیہم السلام اور بزرگان دین سے متعلق داستانوں سے آسان زبان میں بیانات کی مقبولبت میں حیرت انگیز اثر ایجاد کرتاہے۔(١)

ج۔تشبیہ وتمثیل:

''تمثیل ''ایک موضوع کا کسی دوسری صورت میں بیان کرنا ہے اس طرح سے کہ دونوں قسموں کے درمیان شباہت پائی جاتی ہو اور اس کے ذکر سے پہلا موضوع زیادہ سے زیادہ واضح ہوجائے۔(٢) مَثَل جو کچھ پوشیدہ اور نامعلوم ہے اسے آشکار کردیتی ہے اور ماہیت امور کو واضح کردیتی ہے، مسائل کا بیان امثال کی صورت میں مخفی اور پوشیدہ معانی سے پردہ اٹھادیتا ہے اور مبہم اور پیچیدہ نکات کو واضح کردیتا ہے۔ مثل پند ونصیحت کی تلخی کو کم کرتی اور مسرت وشادمانی کا باعث ہوتی ہے اورمختصر الفاظ میں بہت سے معانی کا افادہ کرتی ہے اور کنایہ کے پردہ میں مطالب کی تعلیم دیتی ہے اورنہایت سادہ، آسان نیز محسوس زبان میں عقلی پیچیدگیوں کو ذکر کرتی ہے۔(٣) بلاشبہہ عام لوگوں کے درمیان متعارف اور شناختہ شدہ تربیتی وسائل میں سے ایک ضرب الامثال، تمثیلوں اور تشبیہوں سے مناسب استفادہ کرنا ہے۔ قرآن کریم نے بھی متعدد مقامات پر ان مثلوں سے استفادہ کیا ہے۔(٤)

____________________

١۔ مثنوی معنوی اخلاقی داستانیں اسی طرح کی ہیں۔

٢۔''المثل عبارة عن قوله فی ش ء یشبه قولاً فی شء آخر بینهما مشابهة لیبین احدهما الاخر ویصوره'' المفردات راغب۔

٣۔ اصول وروش ہای تربیت در اسلام، ص ٢٦٢ ملاحظہ ہو۔

٤۔ ٢٤٥ضرب المثل اور ٥٣ مورد تمثیل ہاے دینی۔

۱۹۹

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

''قرآنی مثلیں بہت سے فوائد کی حامل ہیں لہٰذادقیق انداز میں ان کے معنی کے بارے میں غور وخوض کرو اور (بغیر توجہ کے) ان سے گزر نہ جائو''۔(١)

قرآنی مثالیں، جیسے دنیا کے سرانجام کی تشبیہ سرسبزگھاس کے پژمردہ ہونے سے، کفار کے اعمال کی تشبیہ سراب سے، منافقین کے بارے میں متعدد تشبیہیں، اُس بوڑھی عورت سے تشبیہ جو دھاگا کاتتی ہے وغیرہ وغیرہ، یہ سب مثالیں قابل غور ہیں۔ قرآنی مثلیں تربیت کے لحاظ سے درج ذیل فوائد کی حامل ہیں:

تعلیم عبرت، تفکر وتامل، تشویق وترغیب، تنبیہ وآگاہی، تبیین وتقریر، پند ونصیحت اور پیچیدہ مسائل کو ذہن سے قریب کرنا۔

مثالوں میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اس کے سطحی معانی میں توقف نہیں کرنا چاہئے بلکہ تعقل وتفکر کے ساتھ اُس کے عمیق اور گہرے معانی میں ڈوب جانا چاہئے۔ تربیت کے لحاظ سے بھی مربی کو یہ نہیں چاہئے کہ مثل میں موجود تمام نکتوں کو تربیت پانے والے کے لئے واضح وبیان کرے بلکہ اسے موقع دے کہ وہ اپنی تلاش وکوشش سے زیادہ سے زیادہ معانی کشف کرے۔

د۔سوال وجواب:

کبھی ایک سوال کا ذکر مطلب کی طرف افراد کی توجہ اور حواس کے یکجا ہونے کا باعث ہوتا ہے، سوال کا ذکر کرنا اس بات کاباعث ہوتاہے کہ مخاطبین کی تحقیق وتلاش کی حس بیدار ہو اور جواب دہی کے لئے ضرورت محسوس کریں، بالخصوص اگر سوال اس طرح پیش کیا جائے کہ ان کے لئے نیاپن اور جاذبیت رکھتا ہو اور اس آسانی سے جواب نہ دے سکیں، ایسی صورت میں دل وجان سے قائل کی طرف آئے تاکہ اس کی باتیں سنیں۔ قرآن نے بھی متعدد مقامات پر اس روش سے استفادہ کیا ہے:

(هَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِّیَة )(٢) ''کیا تمھیں ڈھاپنے والی قیامت کی بات معلوم ہے؟''۔

(اَلْقَارِعَة مَا الْقَارِعَة وَمَا اَدْرٰکَ مَا الْقَارِعَة )(٣) '''کھڑکھڑانے والی، اور کیسی کھڑکھڑانے والی اور تمھیں کیا معلوم کہ وہ کیسی کھڑکھڑانے والی (قیامت) ہے؟''۔

____________________

١۔''امثال القرآن لها فوائد فامنعوا النظر فتفکروا فی معانیها ولا تمروا بها'' ۔

٢۔ سورہ ٔغاشیہ، آیت١۔

٣۔ سورہ ٔقارعہ، آیت ١تا٣۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

''المیزان'' میں مرحوم علامہ طباطبائی کا کلام الٰہی کے امتحانوں کے سلسلہ میں تربیتی عنوان سے قابل توجہ ہے: ''... اس وجہ سے انسانوں کے لئے عام الٰہی تربیت حُسن عاقبت اور سعادت اس دعوت دینے کے اعتبار سے امتحان ہے کیونکہ انسان کے لئے حالات کو مشخص و معین اور آشکار کرتی ہے کہ آیا یہ شخص کس عالم سے متعلق ہے: عالم ثواب وا جزا یا عالم عقاب و سزا۔ اس وجہ سے خداوند متعال اپنے تصرفات کو حوادث کی تشریع اور توجیہ کے عنوان سے بلائ، ابتلأ اور فتنہ نام دیتا ہے، مثال کے طور پر عام عنوان سے فرماتا ہے: (اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) ''بے شک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے '' یا فرماتا ہے: (وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً )(٢) ''... اور ہم اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے...'' یافرماتا ہے:(اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَة )(٣) '' تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں'' وغیرہ۔

یہ آیات جیسا کہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں انسان سے متعلق ہر مصیبت وبلا کو ''الٰہی امتحان وآزمائش'' شمار کرتی ہیں تمام امور کے لئے جیسے اس کا وجود، اس کے اجزا اور اعضاء جیسے آنکھ، کان یا اس کے وجود سے خارج چیزیں جو اُس سے مربوط ہیںجیسے اولاد بیوی، رشتہ دار، احباب، مال، جاہ و مرتبہ مقام اور وہ تمام امور کہ جن سے وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل کرتاہے، اسی طرح ان کے مقابل امور جیسے موت اور تمام مصیبتیں ۔ ان آیات میں افراد کے اعتبار سے بھی ایک عمومیت پائی جاتی ہے یعنی مومن وکافر، نیکوکار اور گناہگار، انبیاء اور ان سے کم درجہ والے سارے افرادمعرض بلا و امتحان میں ہیں، لہٰذا یہ اﷲ کی ایک جاری وساری سنت ہے کہ کوئی اس سے الگ نہیں ہوسکتا''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت ٧۔

٢۔ سورۂ انبیاء آیت ٣٥۔

٣۔سورۂ تغابن آیت ١٥ ۔

٤۔ المیزان ج٤ ص٣٦۔

۲۲۱

یہ بات کہ امتحان اور ابتلاء جملہ امور میں تمام افراد کے لئیاﷲ کی بلا استثناء ایک جاری سنت ہے ، ابتلا کے تربیتی روش سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ اس طرح کے امور کے ساتھ ہمارے طرز عمل کو ایک تربیتی طرز کے عنوان سے مانا جاسکتا ہے یعنی مشکلات میں صبر وتحمل اور نعمات میں شکر کہ جس کی بازگشت ہمارے طرز عمل ہی کی جانب ہے، خود اخلاقی تربیت کے عوامل میں محسوب ہوسکتا ہے: اور ہم قطعی طور پر تم کو کچھ چیزوں جیسے خوف،بھوک، اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور ان صابروں کو بشارت دیدو، (وہی لوگ) کہ جب ان پر مصیبت پڑتی ہے، کہتے ہیں: ''ہم خدا ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے''(١)

اس کے علاوہ اگرچہ آیات میں خیر وشر، نعمت ونقمت، سختی اور سہولت سب کو امتحان اور ابتلا کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے حتی کہ بعض روایات میں شکر و کشادگی کی منزل میں طرز عمل کو صبر وناگواری کے وقت سے زیادہ سخت جانا گیا ہے، لیکن جو چیز امتحان کے موقع پر افراد کی توجہ کا زیادہ تر مرکز ہوتی ہے وہ ناگوار ، رنج آمیز اور اندوہگین حوادث وواقعات کا مقابلہ کرنا ہے، چنانچہ مذکورہ آیت میں تصریح کی گئی ہے کہ خوفناک اور ہولناک امور، بھوک، دلبندوں اور عزیزوں کے فقدان، اموال اور سرمایہ حیات کی نسبت آفات وحوادث وغیرہ سے (کہ جنھیں اصطلاح میں ''مصیبت'' کہا جاتا ہے) تمھیں آزمائیں گے، ان امور کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادگی اور اُن سے ہمارا طرز مقابلہ ان میدان کو ایک تربیتی اور اصلاحی مدرسہ بناسکتا ہے۔

ابتلاء اور سختیوں سے مقابلہ کے تربیتی علائم روایات میں یوں بیان ہوئیہیں: گناہ سے پاک ہونا، باطنی خاکساری وتذلل اور خارجی سرافرازی وسربلندی، کبرونخوت کا زائل ہونا، درجہ بلند ہونا، شدائد ومشکلات کے سامنے ثابت قدمی، آخرت اور خدا کی ملاقات کا اشتیاق۔

''...یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ خدا نے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے (عمل میں) آزمائش کرے اور جوکچھ تمہارے ضمیر کی حقیقت ہے اُسے آشکار کردے اور خدا سینوں کے اسرار سے آگاہ ہے''۔(٢)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہ آیت ١٥٥۔١٥٦۔

٢۔ (وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِی صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُم، وَاللّٰهُ عَلِیْم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ )(سورہ ٔآل عمران آیت ١٥٤)۔

۲۲۲

حضرت امام جعفر صادق ـنے بھی فرمایا: '' وہ لوگ آزمائش کی بھٹی میں آزمائے جائیں گے، جس طرح سونے کو بھٹی میں آزمایا جاتا ہے اور خالص کئے جائیںگے جس طرح سونا کھرا اور خالص کیا جاتا ہے''۔(١)

سید قطب کی تحریر کے مطابق: تمام وسائل پر حوادث کی ایک تربیتی وسیلہ کے عنوان سے فضیلت وبرتری یہ ہے کہ ایسی خاص حالت روح میں پیدا کرتے ہیں کہ گویا اس کو پگھلادیتے ہیں۔ حادثہ روح کو کامل طور سے جھنجھوڑدیتا ہے وردّ عمل (تاثیر وتاثر) ایک حرارت اس کے باطن میں ایجاد کردیتا ہے کہ کبھی نرم کرنے کے لئے یانرم کرنے کی حد تک پہنچنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ حالت روح میں نہ ہمیشہ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی نفس کے لئے آسان ہے کہ سکون واطمینان اور امن وامان یا راحت طلبی کی حالت میں اس تک پہنچ جائے۔

''... ایک مثل لوگ کہتے ہیں: جب تک لوہا گرم ہے کوٹ لو، () کیونکہ لوہے کی گرمی کے وقت اُس پر ہتھوڑا مارنا آسان ہے اور اسے جس شکل میں چاہے بدل سکتے ہیں... اس وجہ سے سختیوں اور حوادث سے استفادہ کرنا تربیت کے اہم مطالب میں سے ہے، کیونکہ نفس کے پگھلنے اور گداز ہونے کی صورت میں مربی تربیت دئے جانے والے کو ارشاد وتہذیب کے جس رنگ میں چاہے رنگ سکتا ہے وہ اس طرح کہ کبھی اس کا اثرزائل نہیں ہو گا یا کم ازکم جلدی زائل نہیں ہو گا''۔(٢)

اسی طرح سختیو ں سے استفادہ اور عیش وراحت سے دوری کو اس شیوہ کا مکمِّل (پوراکرنے والا) جانا جا سکتا ہے، سختیاں انسان کے گوہروجودکو جلابخشتی ہیں، اور اس میں نکھاراورچمک پیدا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سختی، مقاومت کہ جوحادثوں اور سختیوں کی طوفان میں ہمیں حاصل ہو تی ہے، انسان کو نادرست اخلاقی میلانات اور رجحانات کے مقابل محفوظ رکھتی ہے اس وجہ سے روایات میں تاکیدکی گئی ہے کہ بچہ تھوڑا سا کو مشکلات اور سختیوں سے دوچارکرو۔

حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں:

''بہترہے بچہ عہدطفولیت میںزندگی کی ناگزیرسختیوں اور مشکلوں کا سامنا کرے جو کہ حیات کا تاوان ہے تاکہ جوانی اوربڑھاپے میں بردباراورصابرہو'' ۔(٣)

____________________

١۔''یفتنون کما یفتن الذهب، یخلصون کما یخلص الذهب'' ۔(کافی ج١ص ٣٧٠۔)

٢۔ روش تربیتی اسلام، ص٢٨٧،٢٨٨۔

٣۔ وسائل الشیقہ، ج٥، ص١٢٦۔

۲۲۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''جنگل، ہوا اور طوفان میں پرورش پانے والے درخت باغبا ن کے پر و ر دہ اور تروتازہ درختوں سے بہتر ہوتے ہیں''۔(١)

اسلام میں جہاد اسی زاویہ سے قابل تو جہ و تحقیق ہے دین کے دشمنوں سے جہاد اور مقابلہ خواہ صدر اسلام میں ہو یا بعد کے زمانوں میں ( بالخصوص آخری دفاع مقدس کے دوران) ایک تربیتی اور اخلاقی مدرسہ رہا ہے ، اور اخلاق کی بلندیوں پر فائز انسان اُس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں:

''ہم یقینا تمہیں آزمائیں گے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو جان لیں اور (اس طرح) تمھارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں ''۔(٢)

ڈاکٹر'' ویکٹور فرانکل ''سویڈن کا ماہر نفسیات ہے اور ہیومنسٹ معالجین میں سے محسوب ہوتا ہے اور خود بھی ایک طولانی مدت تک جرمنی کے نازیوں چھائونی میں دوسری عالمی جنگ میں اسیر رہا ہے، اس نے اپنی آنکھوں سے جو انسان سوزی کی بھٹیاں دیکھیں اور بھوک، سردی، بیماری اور سخت ترین رنج والم اٹھائے لیکن اس کی جان بچ گئی۔ چھائونی سے آزاد ہونے کے بعد اُس نے اپنے معنوی علاج کے مکتب ( Logothrapy )کی بنیاد ان تین راہوں میں سے ایک راہ کے کشف وتفہیم پر رکھی:

١: ۔اچھے امور کا انجام دینا۔

٢: ۔تجربۂ اعلیٰ جیسے عشق۔

٣رنج والم برداشت کرنا۔

وہ تیسری راہ کی وضاحت میں کہتا ہے: رنج والم کابرداشت کرنا انسان کی بہترین وجودی جلوہ گاہ ہے اور جو بات اہم ہے وہ انسان کا رنج والم کے ساتھ فکر اور سلوک کا انداز ہے۔ ہدف زندگی رنج والم سے فرار کرنا نہیں ہے، بلکہ زندگی کو بامعنی بنانا ہے کہ اُسے واقعی مفہوم عطا کرے۔ ہر چیز کو ایک انسان سے لیاجاسکتا ہے مگر انسان کی آخری آزادی کو اس کی رفتار کے انتخاب میں ڈاسٹایوفسکی کے بقول: میں صرف ایک چیز سے ڈرتاہوں اور وہ یہ کہ اپنے رنج والم کی شایستگی اور لیاقت نہ رکھوں۔(٣)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، نامہ، ٤٥۔

٢۔ سورہ ٔمحمد آیت٣١۔

٣۔ دیکٹور فرانکل: انسان درجستوی معنا۔

۲۲۴

د ۔معاشرت و مجالست:

اخلاقی ملکات کے رسوخ کے لئے ایک دوسرا عملی شیوہ صالح اور اخلاقی فضائل کے حامل افراد کے ساتھ زندگی گذارنا اور ناپاک نیز اخلاقی رذائل میں مبتلا افراد کی مجالست وہمنشینی سے اجتناب کرنا ہے، نفس شناسی کے دلائل بہت سی جہتوں سے قابل توجہ ہیں کہ جو تفصیل اور تکرار کے محتاج نہیں ہیں، منجملہ ان کے تقلید اور دوسروں کے اعمال کا مشاہدہ (باندوار کا نظریہ)،قوت بخش چیزوں کے وجود کے ساتھ ماحول سازی اور تداعی (موافقت وہماہنگی) کی ایجاد (ا سکینر کا فعال ماحول سازی کا نظریہ ، یعنی مثال کے طور پر ایک اچھے اور صالح گروہ میں اگر ایک اچھا باعمل انسان سے صادر ہو تو دیگر تمام افراد کے ذریعہ اس کی تقویت کی جائے)۔ (نظریہ تسہیل اجتماعی )(١) ہے (دوسروں کا وجود حتی غیر فعال تماشائیوں کا وجود انسان کی فعّالیت کو قوت بخشتا ہے (کیونکہ انسان کے مقصد کو بلندی عطا کرتا ہے) ۔

آیات وروایات میں نیکو کاروں کی معاشرت اخلاقی تربیت کے ایک شیوہ کے عنوان سے مورد تاکید واقع ہوئی ہے اور بزرگوں نے بھی اس سلسلہ میں مستقل کتابیں تالیف کی ہیں۔

قال الحواریون لعیسیٰ ـ: یاروح اللّٰہ مَن نجالسُ اذاً؟ قال: من یذکرکم اللّٰہ رؤیتہ ویزید فی عملکم منطقہ ویرغبکم فی الآخرة عملہ۔(٢) حواریوں نے حضرت عیسیٰ ـ سے پوچھا:

اے روح اﷲ! اس وقت ہم کس کے ساتھ ہمنشینی رکھیں؟ انھوں نے فرمایا: جس کا دیدار تمھیں اﷲ کی یاد دلائے، جس کی بات تمھارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمھارے اندر آخرت کے متعلق رغبت پیدا کرے۔

یا ابن مسعود، فلیکن جلساؤک الابرار واخوانک الاتقیاء والزهاد لانّ اللّٰه تعالیٰ قال فی کتابه : (الاخلاء یومئذ بعضهم لبعض عدو الّا المتقین(٣) اے ابن مسعود! تمھارے ہمنشین نیک لوگ ہونے چاہئیں اور تمھارے بھائی (دوست) متیقن وزاہدین ہونے چاہئیں اس لئے کہ تم خدائے تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ''اس دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیںگے'' ۔

____________________

١۔زمینہ روانشناسی ج٢ ص٢ ٣٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٤٧۔

٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٠٠۔

۲۲۵

امام علی ـ:جالس العلماء تزدد حلماً ۔(١) علمائے کی ہمنشینی اختیار کرو کہ ان کی ہمنشینی حلم میں اضافہ کرتی ہے۔

امام حسین ـ:مجالس الصالحین داعیة الی الصلاح ۔(٢) صالحین کی مجالس (نشست) صلاح ونیکی کی طرف دعوت دیتی ہے۔

امام علی ـ:جالس العلماء یزددعلمک ویحسن ادبک وتزکوا نفسک ۔(٣) علماء کی ہمنشینی اختیار کرو کہ اس سے تمھارے علم میں اضافہ ہوگا، تمھارا ادب اچھا ہوگا اور تمھارا نفس پاک ہوگا۔

امام علی ـ:علیک باخوان الصدق فاکثر من اکتسابهم فانّهم عدة عند الرخاء وجُنَّة عند البلائ ۔(٤) تم پر سچے (نیک) دوستوںکی ہمنشینی لازم ہے پس ان سے زیادہ زیادہ سے زیادہ کسب فیض کرو اس لئے کہ وہ آسائش کے وقت وسیلۂ دفاع ہیں اور مصیبت کے وقت سپر ہیں۔

امام علی ـ:جانبوا الاشر وجالسوا الاخیار ۔(٥) بروں سے پرہیز کرو اور نیکوں کی ہمنشینی اختیار کرو۔

حضرت امام محمد باقرـ:لاتقارن ولاتواخ اربعة: الاحمق والبخیل والجبان والکذاب ۔(٦) چار افراد سے ہمنشینی اور دوستی اختیار نہ کرو: احمق، کنجوس، ڈرپوک اور جھوٹے سے۔

امام علی ـ:مجالسة اهل الهویٰ منساة للایمان ۔(٧) خواہش پرست کی ہمنشینی ایمان کو بھلادیتی ہے۔

____________________

١۔ غرر الحکم فصل ٣ص ٤٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص١٤١۔

٣۔ غرر الحکم فصل ١ص ٤٣٠۔

٤۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٥۔ غرر الحکم

٦۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٧۔ نہج البلاغہ ج٨٦۔

۲۲۶

۴: ۔ تشویق اور تنبیہ کا طریقہ

''تشویق ''لغت میں آرزومند کرنے، شوق دلانے اور راغب کرنے کے معنی میں ہے۔(فرہنگ معین)

یہاں پر ''تشویق'' سے مراد انسان کی درخواست سے متعلق اور مطلوب امور سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کے اضافہ یا اس کی تثبیت کے لئے استفادہ کرناہے۔

''تنبیہ''بھی لغت میں آگاہ کرنے، بیدار کرنے، تادیب اورسزادینے کے معنی میں ہے (فرہنگ معین)۔ یہاں پر تنبیہ سے مراد انسان کے لئے تکلیف دہ اسباب ووسائل سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کو دور یا کم کرنے کے لئے استفادہ کرناہے۔ اس وجہ سے تشویق یا تنبییہ کو خود انسان یا دوسروں کے ذریعہ عملکو کنٹرول کرنے کا ایک سسٹم جاننا چاہئے کہ پسندیدہ یا ناپسندیدہ عمل کے بعد اس عمل کی زیادتی یا کمی کے لئے ان چیزوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔

تشویق یا تنبیہ کا نفسیاتی مبنیٰ، فعال ماحول سازی کے نظریہ کے مطابق، درج ذیل آزمائشوں پر استوار ہے:

١ ۔ہر جواب جو ایک قوت بخش محرک کے نتیجہ میں حاصل ہو، اس کی تکرار کی جاتی ہے ۔

٢ ۔قوت بخش محرک ایک ایسی چیز ہے کہ جواب ملنے کے احتمال کو بڑھاتا ہے۔

٣۔ان قوت بخش چیزوں جو ذاتی طور پر تقویت کرنے کی خاصیت کے حامل ہیں،اولین یا غیر شرطی قوت بخش کہتے ہیں، اوّلین مثبت قوت بخش جاندار کی جسمانی قوت ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جیسے: پانی، غذا، ہوا، وغیرہ۔ اوّلین منفی قوت بخش چیزیں ذاتی طور پر تکلیف دہ خاصیت رکھتی ہیں جیسے: مارپیٹ، گالم گلوج ، زیادہ حرارت اور زیادہ نور وغیرہ۔

٤ ۔ثانوی یاشرطی قوت بخش چیزیںوہ ہیں جو کلاسیک ماحول سازی (اوّلین بخش چیزوں کے ساتھ ہمراہی چیزوں کے ساتھ ہمراہی اور تداعی ) کے اصول کے مطابق تقویت کرنے کی خاصیت رکھتی ہیں جیسے: روپیہ، انعام، نمبر وغیرہ ۔

٥ ۔اگر کوئی رفتار کسی چیز کی تقویت سے بڑھ جائے اور اسے ایک مدت تک تقویت نہ کریں، تو وہ تدریجاً موقوف ہوجائے گی کہ اُسے ''خاموشی''بھی کہتے ہیں۔

٦ ۔تنبیہ، ایک نادرست اورنامطلوب رفتار کے دور کرنے کے لئیتکلیف دہ محرک وسبب کے واردکرنے کے معنی میں ہے۔

۲۲۷

٧ ۔ کبھی کبھی تقویت مسلسل تقویت سے زیادہ اثر رکھتی ہے، لہٰذا اگر مربی (تربیت دینے والا) ہر بار مطلوب اور پسندیدہ رفتار کے ظاہر ہونے کے بعد جزاوسزا دے، تو ناخواستہ طور پر اس کے وقوع کا احتمال کم ہوتا جائے گا، لیکن اگر مربی کبھی کبھی چند بار مطلوب رفتار انجام دینے کے بعد جزا دے، تو اس کے توقعکا احتمال زیادہ ہوجائے گا زیادہ موثر یہ ہے کہ تربیت کی ابتدا میں مسلسل جزا ہو اور رضایت بخش سطح تک پہنچنے کے بعد نوبت وار کبھی کبھی ہوجائے ۔

٨۔ آغاز میں اجتماعی قوت بخش (ستائش، تائید اور مسکراہٹ وغیرہ) محسوس طور پر قوت بخش چیزوں کے ساتھ استعمال کی جائے اور اس کے بعد محسوس قوت بخش چیزیں ترک کردی جائیں ، آیات وروایات میں تشویق وتنبیہ کے تربیتی کردار پر تاکید کی گئی ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''تمہارے نزدیک نیکو کار اور بدکاریکساں نہ ہوں، کیونکہ یہ امر (یکساں قرار دینا) نیکو کاروں کے نیکی ترک کرنے اور نااہلوں کی بدکاری میں اضافہ کا باعث ہوگا، لہٰذا ادب کی رعایت کے لئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ حالات کے مطابق برتائو رکھو''۔(١)

''نیکوکاروں کی اصلاح ان کا ادب و احترام کرنے سے ہوتی ہے اور بدکاروں کی اصلاح ان کی تادیب کرنے (سزا دینے)سے''۔(٢)

''جوکچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب خدا کے لئے ہے، تاکہ جن لوگوں نے برا کیا ہے وہ ان کے کرتوت کی انھیں سزا دے اور جن لوگوں نے احسان ونیکی ہے انھیں اچھا بدلہ دے ''۔(٣)

''خداوند سبحان نے جزا اپنی اطاعت پراور سزا اپنی معصیت پر قرار دی ہے، تاکہ اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے باز رکھے اور بہشت کی طرف روانہ کرے''۔(٤)

____________________

١۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٦۔

٢۔''استطلاح الاخیار باکرامهم والاشراربتأدیبهم'' (بحار الانوار ج٧٨ ص٢٤٥)۔

٣۔ سورہ ٔنجم آیت ٣١۔

٤۔ نہج البلاغہ حکمت ٣٦٨۔

۲۲۸

ادیان الٰہی اور اسلام میں قانون عذاب وثواب کو دو اعتبارسے دیکھا جاسکتا ہے

: اول

یہ کہ ان کا اعلان کرنا انذار وتبشیر کا پہلو رکھتا ہے ، دوسرے یہ کہ ثواب وعقاب کی واقعیت عینی ہے کہ اُن میں سے بعض دنیا میں (جیسے سکون واطمینان، راحت وچین ، زندگی کی آسائش اور عیش وعشرت کو احساس ) اور درک کرتا ہے، اس لحاظ سے تشویق وتنبیہ اُن دونوں کی تطبیق واقع سے دور نہیں ہے۔ اُس کا اخروی حصہ جیسے حور وقصر ومحلات وغیرہ بھی ایمانی بصیرت (انسان کا دوسرے عالم اور وعدہ الٰہی کے قطعی ہونے اور اس بات پر اعتقاد رکھنا کہ انسان اپنے اعمال سے اس ثواب یاعقاب کو اس وقت بھی عینی تجسم بخشتا ہے ) کے اقتضا کے مطابق حاضر وموجود ہیں اور انھیں بھی تنبیہ وتشویق کے مصادیق میں شمار کرسکتے ہیں۔ اس بناپر بہشت ودوزخ اور ا ﷲ کے وعدہ و وعید سے متعلق تمام آیات ایک طرح بندوں کی تشویق اورتنبیہ کے لئے ہیں تاکہ وہ اپنی عادت اور روش کو بدل ڈالیں اور فلاح وکامیابی اور فضائل اخلاقی کے حامل ہونے کی راہ میں گامزن ہوجائیں۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جن کا عقیدہ وایمان کمزور ہے، ان کے لئے وہ آیات انذار وتبشیر ہی کی حد میں ہوں گی ۔

دوسرانکتہ

جس کی ہمیں تاکید کرنی ہے یہ ہے کہ یہاں پر تشویق، ترغیب اور تحریض (ابھارنے) کے علاوہ ایک چیز ہے، تشویق عمل انجام دینے کے بعد کی چیز ہے، لیکن ترغیب وتحریض قبل ازعمل سے مربوط ہیں۔ تشویق وتنبیہ کے وہ طریقے جن میں ایک طرح منطقی ترتیب کا لحاظ کیا جاسکتا ہے، درج ذیل ہیں:

الف ۔ عاطفی توجہ:

محبت آمیز نگاہ ، مسکرانا، اور ہر قسم کی تائید ، مہر ومحبتاور طلف کا احساس تربیت پانے والے کو عزت نفس کے عمیق احساس میں مبتلا کردیتاہے، کیونکہ ہر انسان حُبّ ذات کے زیر اثر غیروں کی محبت اورتوجہ حاصل کرنے کا محتاج ہوتا ہے۔(١) درج ذیل آیات اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں: (وَاخْفِضْ جِنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ المُؤمِنِیْنَ )(٢) ''اور جو صاحبان ایمان آپ کی اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکادیجئے''۔

____________________

١۔اس بات کی مزید توضیح ''تکریم شخصیت کی روش ''کی بحث میں گذر چکی ہے۔

٢۔ سورہ ٔشعراء آیت٢١٥۔

۲۲۹

(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰواةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهُ وَلَاتَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْهُمْ )(١)

''اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر آمادہ کرو جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خبردار تمھاری نگاہیں ان کی طرف سے نہ پھرجائیں...''۔

ان آیات میں خداوند متعال اپنے مہربان حبیب سے چاہتا ہے کہ مومنین کے لئے لطف ومرحمت کے بازو جھکادیں، ان کی طرف سے چشم محبت نہ ہٹائیں اوران کے ساتھ ہمراہی اور صبر وشکیبائی کریں دوسری آیت میں اپنے رسول کی بلند ترین ان صفات کے حامل ہونے اور مومنین کے ساتھ ایسی معاشرت رکھنے پر معاملات کرنے کی توصیف کرتا اورفخرو مباہات کرتا ہے:

''یقیناً تمھارے پاس تمھیں میں سے وہ پیغمبر آیا ہے کہ تمہاری ہر مصیبت پراس کے لئے بہت ناگوار ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین پر دلسوز ومہربان ہے''۔(٢)

جی ہاں، وہ روح پرورنگاہ جو انسانوں پر عشق ومحبت کے ساتھ پڑتی ہے، انسان کو متحرک کرنے کے لئے کافی ہے اور بلال وسلمان کی صف میں بٹھادیتی ہے۔

ب ۔ زبانی تشویق:

تعریف وتمجید ، دعا، شکریہ ادا کرنا اور زبانی قدردانی بھی اُن عام وسائل اور اسباب میں سے ہیں کہ بلند مقاصد اور گرانمایہ اخلاقی اعمال تک رسائی کے لئے اُن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے خداوند عالم اپنے پیغمبر سے چاہتا ہے کہ مومنین سے زکات لینے کے بعد ان کے لئے دعا کریں۔(٣)

حضرت امیر المومنین علی ـ نے بھی مالک اشتر سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اس نکتہ کی یاد آوری کی ہے:

... ان کی پے درپے تشویق کرو اور جو انھوں نے اہم کام انجام دئے ہیں انھیں شمار کرو (اہمیت دو) کیونکہ ان کے نیک کاموں کی یاد آوری ان کے دلیروں کو زیادہ سے زیادہ حرکت کرنے پر ابھارتی ہے، اور وہ لوگ جو کام میں سستی کرتے ہیں انھیں کام کرنے کا شوق پیدا ہوگا، انشاء اﷲ ۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔ ٢۔ سورہ ٔتوبہآیت ١٢٨۔٣۔ سورہ ٔتوبہ آیت ١٠٣۔ ٤۔ نہج البلا غہ نامہ ٥٣۔

۲۳۰

زبانی تشویق میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اور موقع ومحل سے اس حد تک استفادہ ہو اور افراط وتفریط یا چاپلوسی کی حالت پیدا نہ ہو امام علی ـ نے فرمایا ہے:

جب تم تعریف وثنا کر و تو اختصار پر اکتفاکرو۔(١)

سب سے زیادہ بے عقلی اور حماقت، تعریف وستائش یا مذمت میں زیادتی کرناہے۔(٢)

''استحقاق سے زیادہ تعریف کرناچاپلوسی ہے اور اس (استحقاق) سے کم تعریف کرنا حسد یا عاجزی کی علامت ہے''۔(٣)

بہت سے افراد اپنی تعریف وتمجید ہونے سے مغرور ہوجاتے ہیں۔(٤)

ج ۔ عملی تشویق:

انعام، ہدیہ، تحفہ وغیرہ دینا، نمبر، تنخواہ یا حقوق یا مزدوری میں اضافہ کرنا، سیاحت اور تفریح کے لئے لے جانا، کھیلنے کی یا دوستوں کے ہمراہ باہر جانے کی اجازت دیناوغیرہ ، یہ سب عملی تشویق شمار ہوتی ہے کہ موقعیت کے اعتبار سے ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت میں ایسے متعددمقامات پائے جاتے ہیں کہ کسی ایک آدمی کے نیک عمل کا مشاہدہ کرنے کے بعد اُسے صلہ اورہدیہ دیتے ہیں حتی کبھی اپنا لباس بھی دیدیتے تھے، جیسے کمیت بن زیاداسدی کی داستان کہ حضرت امام زین العابدین ـ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: میں نے آپ کی مدح وثنا میں کچھ اشعار کہے ہیں اور چاہتا ہوں کہ انھیں پیغمبر سے تقرب کا وسیلہ قراردوں۔پھر اپنا معردف قصیدہ آخرتک پڑھا، جب قصیدہ تمام ہو گیا، امام ـ نے فرمایا: ''ہم تمہاری جزا نہیں دے سکتے، امید ہے کہ خداوندعالم تمہیں جزادے۔''پھر اس کے بعد اپنے بعض لباس انھیں دیدیئے اوراُن کے حق میں اس طرح دعا کی: ''خدا یا! کمیت نے تیرے پیغمبر کے خاندان کی نسبت، اس حالت میں نیک فریضہ اداکیا کہ اکثرلوگوں نے اس کام سے نجل کیا اور شانہ خالی کیا ہے جوحق دوسروں نے پوشیدہ رکھا تھا اس نے آشکار کردیا۔ خدایا! اسے سعادت مندزندگی عطا کر اور اُسے شہادت نصیب کر اور اُسے نیک جزا دے کہ ہم اُس کی جزا نہیں دے سکتے جزا ور ناتواں ہیں۔

____________________

١۔ ''اذا مدحت فاختصر ''(غرر الحکم، فصل ٤ص٤٦٦)۔٢۔ ''اکبر الحمق الاغراق فی المدح والذم '' (غرر الحکم، فصل ٧ص٧٧)۔٣۔''الثناء بأکثر من الاستحقاق ملق والتقصیر عن الاستحقاق عیّ أوحسد'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔٤۔''رُبّ مفتون بحسن القول فیه'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔

۲۳۱

کمیت نے بعد میں کہا: ''میں ہمیشہ ان دعائوں کی برکت سے بہرہ مند رہا ہوں'' حضرت نے اس طریقہ سے کمیت کی روح شجاعت اور حق گوئی کی تشویق اور تائیدکی۔ اسی کے مشابہ داستان حضرت امام علی رضا ـ کے بارے میں بھی دعبل خز اعی کی نسبت ہے جب وہ قصیدہ پڑھ چکے تو حضرت نے وہ دس ہزار درہم کہ جن پر آپ کا نام کندہ تھا اُنھیں عطا کیا اور دعبل نے ہر درہم کو اپنی قوم کے درمیان (دس) درہم میں فروخت کیا۔(١)

درج ذیل نکات کی رعایت تشویق کی تاثیرمیں اضافہ کرتی ہے:

١۔تشویق ابھارنے اور قوت بخشنے کا ذریعہ ہے لہٰذا خودوہی ھدف نہیں بن جانا چاہئیکہ اور تربیت پانے والے کے تمام افکار داذہان کو اپنے ہی لئے سرگرم رکھے۔ تشویق کبھی کبھی کرنا، اس کا فیزیکی سطح سے اجتماعی ومعنوی بلندی کی طرف لے جانااور تشویق کا مستحق ہونا (رشوت کی حالت کا نہ رکھنا ) ایک حدتک مذکورہ اشکال واعتراض کو برطرف کردیتاہے۔

٢۔ تربیت پانے والے کو تشویق کی علت مکمل طور پرواضح اور معلوم ہونی چاہئے۔

٣۔تشویق موقع ومحل کے اعتبار سے ہو تاکہ کار آمد اور موثر ثابت ہو۔

٤۔تشویق کرتے وقت اُس کا کسی دوسرے سے مقائسہ اور موازنہ نہیں کرنا چاہئے ؛کیونکہ اُس پر بُرااثرپڑے گا۔

٥۔ مجمع میں تشویق وتحسین کرنا زیادہ اثر رکھتا ہے کیونکہ دوسروں کو بھی آمادہ کرتا ہے۔

د۔ جزاسے محرومیت اور نیکو کار کو جزادینا:

اس مرحلہ کے بعد تبنیہ کے طریقوں میںداخل ہو جائیں گے۔ مربی تربیت دئے جانے والے کی نا شائستہ حرکات وسکنات کو ختم کرنے کے لئیاسے ان بعض جزائوں اورمواہب سے محروم کردے جن کی وہ امید رکھتا ہے یایہ کہ نیکوکاروں کو جزادے کر اُسے اپنی محرومیت کی جانب متوجہ کرے اور اس کے اشتباہ وخطا کی نشاندہی کرے۔حضرت علی ـ کے گہربار اور زریں کلام میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''نیکو کار کو جزا دے کر بدکار کو ان کی بدکاری سے روک دو''۔(٢)

____________________

١۔عیون اخبارالرضا ـ، ج١، ص١٥٤۔

٢۔ ''از جرالمسء بثواب المحسن''بحار، ج٧٥، ص٤٤، باب ٣٦

۲۳۲

(اَفَمَنْ کَانَ مُؤمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لَایَسْتَوُونَ(١)

''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے؟ ہرگز نہیں ، دونوں برابر نہیں ہوسکتے''۔

(لَایَسْتَوِی اَصْحَابُ النَّاسِ وَاَصْحَابُ الْجَنََّةِ ۔۔۔)(٢)

''اصحاب جنت اور اصحاب جہنم ایک جیسے نہیں ہوسکتے''۔

(وَمَایَسْتَوِی الاعمیٰ والبصیروالّذین آمنواوعملواالصالحات ولاالمسء قلیلا ماتتذکرون(٣)

''اور یاد رکھو کہ اندھے اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بدکاروں جیسے نہیں ہوسکتے ہیں، مگر تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو''۔

خداوند عالم ان آیات میں واضح طورپر نیکوکاروں اوربدکار روں کے مسادی نہ ہو نے کا اعلان کرتا ہے، اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ سب جان لیں کہ اچھے لوگوں کے لئے جزا ہے اور ناشائستہ اور قبیح اعمال والوں کے لئے محرومیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہ۔جرمانہ اور تلافی:

جرمانہ نمبرکم کرنے ، پیسہ دینے، دوستوں کے لئے مٹھائی خریدنے وغیرہ کی صورتوں میں ہوتا ہے۔ تلافی جیسے اس انسان سے عذر کرنا جس کی توہین کی ہے یا جس جگہ کوئی نقصان پہنچایا ہے اس کی تعمیر کرے یا مرمت کرے جرمانہ کے سلسلہ میں توجہ رکھنا چاہئے کہ ادا کرنے یا کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اوربے چارگی اوربیزاری کی حالت پیدا نہ ہو۔ جرمانہ کے شیوہ سے استفادہ کی شرط یہ ہے کہ انسان کی ایک مدت تک تقویت کی جائے تاکہ پہلے جو اُسے جزائیں دی گئی ہیں بعد میں اُس سے واپس لی جاسکیں۔

اسلام میں دیت کاقانون اس کے حقوقی جنبہ کے علاوہ تربیتی جنبہ سے بھی ایک قسم کا جرمانہ حساب ہوتا ہے۔

و۔ سرزنش وتوبیخ اور جسمانی توبیخ وتنبیہ:

توبیخ ، غیض وغضب کی نظر سے شروع ہوتی ہے اور علانیہ توبیخ تک پہنچتی ہے۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ سجدہ، آیت ١٨۔ ٢۔ سورہ ٔحشرآیت ٢٠۔

٣۔ سورہ ٔغافر، آیت ٥٨۔ ٤۔ ایک اعتبار سے مخفی اور پوشیدہ توبیخ کو جرمانہ اور تلافی سے قبل جاننا چاہئے)۔

۲۳۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''عقلمندوں کی سزا کنایہ اور اشارہ کی صورت میں ہوتی ہے اورنادانوں کی سزا واضح اور صریح انداز میں ہوتی ہے۔(١)

''تعریض (کنایہ میں توبیخ کرنا) عقلمند کے لئے آشکار توبیخ سے کہیں زیادہ سخت ہے''(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ ''شعرانی'' جوکہ پیغمبر کے چاہنے والوں میں سے تھے، خلوت میں بالواسطہ طور پر نصیحت کے ذریعہ انھیں ان کے ناپسند عمل (شرابخوری ) کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اچھا کام سب کے لئے اچھا ہے اور تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اس انتساب کی وجہ سے جو تم ہم (اہل پیغمبر)سے رکھتے ہو اور برا کام سب کے لئے برا ہے لیکن تم سے سب سے زیادہ برا ہے اس انتساب کی وجہ سے کہ جو تم ہم سے رکھتے ہو''۔(٣)

جسمانی تنبیہ سب سے آخری مرحلہ میں ہے کہ گذشتہ مراحل میں ناکامی کی صورت میںخاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں اُس سے استفادہ ہوتا ہے، تنبیہی طریقہ کلی طریقے پر اور جسمانی تنبیہ خاص طور پر صاحبان نظر کے نزدیک محل اختلاف میں ہے، بعض جیسے سعدی ومولوی جسمانی تنبیہ کے طرفدار تھے، اور اس سے استفادہ کو جائز سمجھتے ہیں کہ بعض دیگر جیسے غزالی، بوعلی اور ابن خلدون نے مربی کو جسمانی تنبیہ سے تین بار سے زیادہ یا غصہ کی حالت میں روکا ہے۔(٤)

ماہرین نفسیات کے درمیان بھی بعض جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں تنبیہ سے استفادہ کو رفتار تغییر کے معاملہ میں مفید جانتے ہیں(٥)

____________________

١۔''عقوبة العقلاء التلویح وعقوبة الجهال التصریح ''(میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٢۔''التعریض للعاقل اشد من عقابه'' (میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٣۔''یا شقر ان انّ الحسن لکل احد حسن وانه منک احسن لمکانک منّا وان القبیح لکل احدٍ قبیح وانّه منک اقبح'' (بحار الانوار ج٤٧ ص٣٤٩ باب ١١)۔

٤۔ نقش تربیت معلم، دفتر ہمکاری حوزہ ودانشگاہ۔

٥۔ ہیلگارد:روان شناسی یادگیر ص ٣٣٧۔

۲۳۴

اس کے باوجود اکثر ماہرین نفسیات رفتار کی تبدیلی اور تربیت کے لئے تنبیہ سے استفادہ کے مخالف ہیں۔

ا سکینرنہایت تاکید کے ساتھ تنبیہ سے استفادہ کو کلی طور پر خطرناک ، نامطلوب اور بے اثر شمار کرتا ہے اور متعدد دلائل بھی اپنے مدعا کے لئے پیش کرتا ہے:(١)

١ ۔تنبیہ دوسرے نامطلوب مضر آثار کا پیش خیمہ ہوتی ہے، جیسے عمومی خوف۔

٢ ۔تنبیہ اجسم کو پتہ دیتی ہے کہ کیا کام نہ کرے نہ یہ کہ کیا کام کرے۔

٣ ۔تنبیہ دوسروں کو صدمہ پہنچانے کی توجیہ کرتی ہے۔

٤۔تربیت پانے والا اگر مشابہ موقعیت میں واقع ہو جائے اور قابل تنبیہ نہ ہوتو ممکن ہے وہ اسی کام کے کرنے پر مجبور ہوجائے۔

٥ ۔تنبیہ، تنبیہ کرنے والے اور دوسروں کی نسبت پر خاش ایجاد کرتی ہے۔

٦ ۔تنبیہ عام طور پر ایک نامطلوب جواب کو دوسرے نامطلوب جواب کا جانشین بنادیتی ہے، جیسے بد نظمی کی جگہ رونا۔

ا سکینر اس کے بعد تنبیہ کے لئے بہت سی جانشین چیزوں کا ذکر کرتا ہے، جیسے ایسے مقتضیات کی تبدیلی جو نامطلوب رفتار کا باعث ہوتی ہے اور ناموافق رفتار کی نامطلوب رفتار سے تقویت ، آخر میں نتیجہ نکالتا ہے کہ نامطلوب عادات کے ختم کرنے کا بہترین طریقہ انھیں نظرانداز کرنا یا پھرخاموشی (تغافل اسی کے مانند ہے) اسلام کی نظر میں(٢) اگرتربیت نچلے درجوں اور طریقوں سے ممکن ہو تو جسمانی تنبیہ سے استفادہ جائز نہیں ہے اور اس کے علاوہ جسمانی تادیب اور تنبیہ (اس شرط کے ساتھ کہ اس حد میں نہ ہو کہ دیت لازم آجائے تو) جائز ہے انسان کے ولی کے علاوہ کی طرف سے بھی اجازت کے ساتھ ہونا چاہئے۔اس کی مقدار بھی محدود ہے (زیادہ سے زیادہ تین سے دس ضرب تک) فقہاء کے فتاویٰ بھی اسی طرح ہیں۔(٣)

____________________

١۔ ہرگنھان: روان شناسییاد گیری ص١٣٣۔

٢۔ البتہ تنبیہ کے موضوع پر اسلام کی فقہی نظر کا استخراج (حکم اولیہ اور ثانویہ کی صورت میں) مستقل فرصت کا محتاج ہے۔

٣۔ امام علی رضا ـ: ''التادیب ما بین ثلاث الی عشرةٍ''مستدرک الوسائل ج٣ص٢٤٨۔تحریر الوسیلة ج٢ص ٤٧٧۔

۲۳۵

تنبیہ کی نفی پر ا سکینرکے اعتراضات کے بارے میں کلی طور پر کہا جاسکتا ہے:

١۔ بعض ماہرین نفسیات جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات کے تحت( جیسے یہ کہ تنبیہ نامطلوب کاموں کے بعد فوراًبلافاصلہ ہو اور اس حد تک ہو کہ انسان کے لئے تکلیف دہ ہو... تنبیہ کو رفتار کی تبدیلی میں موثر جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں آزمائشیں بھی کی ہیں۔

٢ ۔تنبیہ کے ہیجان آور نتائج (جیسے خوف یا پرخاش) کہ اسکینز جس کا ذکر کرتا ہے اس صورت میں منفی ہوجائیں گے جبکہ پہلے سے مربی اور تربیت پانے والے کے درمیان صرف ایک عاطفی ررابطہ رہا ہو کہ تنبیہ کی تاثیرکی شرط بھی اس طرح کے رابطہ موجود ہونا ہے۔

حضرت امیرالمومنین ـ کے ایک چاہئے والے نے چوری کی تو حضرت نے اُس کے ہاتھ کو قطع کردیا۔ ''ابن کوائ'' جو کہ خوارج میں سے تھا اس نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے سوال کیا: کس نے تمھارے ہاتھ کو قطع کردیا ہے؟ اس نے جواب دیا: میرے ہاتھ کو پیغمبروں کے اوصیاء کے سید وسردار، قیامت کے دن سرخرو حضرات کے پیشوا، مومنین کی نسبت سب سے زیادہ حقدار نے ابن کواء غصہ میں بولا: وائے ہو تم پر! وہ تمہارے ہاتھ کو قطع کرتے ہیں اور تو ان کی اس طرح مدح و ثنا کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا: کیوںتعریف نہ کروں جبکہ ان کی محبت میرے گوشت وخون میں ملی ہوئی ہے، خدا کی قسم میرے انھوں نے ہاتھ کو صرف حق کی خاطر قطع کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ مجھے آخرت کی سزا سے نجات دیں۔(١)

٣ ۔تنبیہ نا پسند استعدادوں اور صلاحیتوں کے کنٹرول کرنے اور خاموش کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے جن کے بارے میں نرم رویّہ نتیجہ بخش ثابت نہیں ہوتا ہے، صرف ممکن طریقہ یہ ہے کہ ایک توبیخ وسرزنش یا پھر نفسیاتی جھنجھوڑ ان کے اندر ایجاد کریں، بالخصوص اگر تسلط پسند اور طغیان آمیز طبیعت رکھتے ہوں، جس طرح انسان کے جسم میں بدبودار اور کثیف غدود کو قطع کردیتے یا جلادیتے ہیں تاکہ دیگر حصوں تک سرایت نہ کرے۔ ''البرٹ الیس ''ان ماہرین نفسیات میں ہے کہ جواپنے علاج اور مشاورہ میں ناگہانی سرزنش وتوبیخ اور اس کے مانند دوسری چیزوں سے استفادہ کرتا ہے اور ایک جھٹکا دے مشاورہ کے درمیان مراجع کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ج٤٠ ص٢٨١،٢٨٢۔

۲۳۶

اسلام کا سزائی اور جزائی نظام بھی جوکہ خاص جسمانی سزائوں پر مشتمل ہے، اپنے حقوقی پہلوئوں کے علاوہ، تربیتی رخ سے بھی قابل توجہ ہے، کیونکہ انسان کو جرم کی تکرار سے روکتا ہے۔

مذکورہ نکات کے علاوہ تنبیہ کے استعمال میں درج ذیل چیزیں اس کی تربیتی تاثیر میں اضافہ کرتی ہیں:

١۔ہر قسم کی تنبیہ سے پہلے ناپسند عمل کی علت کی شناخت سے مطمئن ہوں، بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف گھریلو اور روحی مسائل ومشکلات کی بنا پر جوکہ ہم پرپوشیدہ ہیں، یہ خطا سرزد ہوگئی ہو، ایسی صورت میں تنبیہ مشکلات اور پیچیدگی کواضافہ کرتی ہے۔

٢ ۔ وہ تنبیہ مؤثر ہے جو جذبۂ انتقام اور غیض وغضب کی عنوان سے نہ ہو، اس وجہ سے بے جاسرزنش اور حد سے زیادہ تحقیر وتوہین سے پرہیز کیاجانا چاہئے۔

٣ ۔تنبیہ سنجیدہ اور حسب ضرورت ہو اور میزان خطا سے آگے نہ بڑھ جائے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''ملامت میں زیادہ روی ضد اور ہٹ دھرمی کی آگ کو بھڑکادیتی ہے''۔(١)

٤۔تنبیہ انسان کی نامطلوب صفت یاعمل سے دقیق رابطہ رکھتی ہو اور اسے تنبیہ کی علت کی نسبت مکمل آگاہی حاصل ہو۔

٥ ۔اگر انسان اپنے عمل سے شرمندہ وپشیمان ہوگیا اور اپنی رفتار سے باز آگیا تو اسے لطف ومہربانی کے ساتھ قبول کرلینا چاہئے۔

____________________

١۔''الافراط فی الملامة یشبّ نار اللجاجة'' (غرر الحکم ،ج١،ص ٨٨)۔

۲۳۷

تیسری فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

۱۔خود پر ناظر ہونا

یہ روش مکمل طور پر ''خود تربیتی'' صورت میں انجام پائے گی، اپنے آپ پر نظارت سے مراد یہ ہے کہ انسان کامل ہوشیاری اور مراقبت کے ساتھ قبول شدہ اخلاقی اقدار کی نسبت کوشش کرے کہ جو (جوارحی یا جوانحی) رفتار وکردار اخلاقی فضائل کے منافی ہیں اس کے وجود میں راستہ پیدا نہ کرنے پائیں اور اُس کے اخلاقی ملکات وقوّتوں کے زوال اور سستی کا باعث نہ بنیں۔

اپنے آپ پر روش نظارت کے نفسیاتی مبانی میں دو مرحلے قابل تفکیک ہیں: پہلا مرحلہ اس روش کے استعمال سے متعلق ہے کہ تربیت پانے والا شوق اور مقصد کے اعتبار سے باندازۂ کافی آمادگی رکھتا ہو۔(١)

یہ مرحلہ گذشتہ روشوں کی مدد سے بالخصوص اقدار کی طرف دعوت کی روش اور عقلانی توانائی کی تربیت کی روش کے ذریعہ عملی ہونا چائیے، یعنی ایک شخص اس نظریہ تک پہنچے کہ یہ اقدار اور اخلاقی مقاصد اُس کے وجود میں پائدار رہیں اور اخلاقی رذائل اُس سے مٹ جائیں دوسرا مرحلہ اس روش کی تاثیر کی کیفیت کو واضح کرنا ہے۔ نفسیاتی نظام کے صادرات اور واردات تدریجی صورت میں بیماری وجود ی شکل کی تعمیر کرتے ہیں ، اور نفس شناسی کی اصطلاح میںہمارے تزکیہ باطن اور ظاہر کو ایک تعادل پسندی کی طرف آگے بڑھاتی ہے، اس وجہ سے واردات وصادرات کی نوع کیفیت پر نظارت (کہ جو ہماری نیّات اور مقاصد کو بھی شامل ہوتی ہے)اس شکل کو جہت دینے میں کہ جو ان کا نتیجہ ہے، مؤثر بلکہ قابل تعیین ہوسکتی ہے۔

____________________

١۔ اخلاقی کتب میں اسے ''مقام یقظہ'' یعنی مقام بیداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۲۳۸

(اسکینز کے )فعال ماحول سازی کے نمونہ میں یہ روش تقریبی طور پر ایک مستقل روش کے عنوان کے تحت تین مرحلہ بیان کی جاتی ہے ۔(١)

١ ۔اپنا مشاہدہ : اپنی رفتارکو دقت کے ساتھ جزئی اورکمّی (مقدار ک )لحاظ سیثبت وضبط کرتا ہے۔

٢ ۔خود سنجی: (اپنے کو تولنا) موجودہ رفتاروں آئیڈیل نمونہ کے ساتھ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے مقایسہ اور موازنہ کیا جاتا ہے۔

٣ ۔ خود تقویتی: (اپنے آپ کو قوت پہنچانا) ایسی رفتار جو ہدف کو زیادہ قریب کرتی ہے اور اُس سے سنخیت رکھتی ہے ، اس پر جزا دی جاتی ہے اور اس کے مدمقابل رفتار کومنفی تقویت کے ساتھ اور کبھی تنبیہ کے ذریعہ قابو اور کنٹرول میں رکھا جاتا ہے ۔

اس طرح سے رفتاری آثار ونتائج (پاداش اور تنبیہ)سے استفادہ کرنے سے اپنے آپ پر ایک دائمی نظارت اور مراقبت عمل میں آتی ہے دوسرے طریقے جو ا سکینر اپنے کنٹرول اور ضبط نفس کے لئے اس سلسلہ میں ذکر کرتا ہے، یہ ہیں: اور اسباب وشرائط کا آسان یا تنگ کرنا (مثال کے طور پر فضول خرچ انسان، اپنی جیب میں کم پیسہ رکھے)، محرومیت، عاطفی شرائط وحالات پر تسلط، تکلیف دہ محرک سے استفادہ (جیسے گھنٹی والی گھڑی) اور دوسرے امور کی انجام دہی۔

مکتب سلوکیت کا نمونہ ا سکینر کے نظریہ کے مطابق رفتار کی نظارت اور جانچ معمولی اور کم اہمیت کی حامل ہیں ، لیکن ہم اس نمونہ اور توضیح سے بالاترین سطحوں کے لئے اور اپنے آپ پر نظارت کے لئے استفادہ کرسکتے ہیںاور تیّات ، اہداف ومقاصد حتی کہ اپنی رفتار وکردار کی خوبیوں پر کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اخلاقی کتابوں میں یہ روش بہت زیادہ مورد توجہ رہی ہے اور اس سے متعلق مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔(٢) ان کتابوں میں مراقبہ، محاسبہ یا مرابطہ مرز بانی]دشمن سے سرحد کی حفاظت[ کے عناوین کے تحت یہ بحث کی گئی ہے۔(٣)

____________________

.۱ Psychoegyobhelthp.۱۰۳;۱۰k

٢۔جیسے ان کے محاسبة النفس از سید ابن طائوس اور محاسبة النفس کفعمی)

٣۔اخلاقی تربیت کی روش میں عرفاء شیعہ نے آخری دوسو سال میں (ملاحسین قلی ہمدانی، میرزا علی آقا قاضی، مرحوم بہاری، حاج میرزا جواد تبریزی ، مرحوم علامہ طباطبائی اور امام خمینی تک نے )اپنے آپ پر نظارت (مراقبہ ومحاسبہ) کی روش پر بہت تاکید کی ہے اور اسے اپنے سلوک کی بنیاد قرار دیا ہے۔

۲۳۹

'' ابو حامد بندوں کے درمیان صرف صاحبان بصیرت جانتے ہیں کہ خداند عزوجل ان کا محافظ اورنگراں ہے اورمحاسبہ میں دقت سے کام لیا ہے اور ان کی نسبت بہت جزئی امور میں بھی سوال اوربازپرس کرتا ہے، لہٰذا یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان امور سے نجات کا راستہ محاسبہ اورمراقبہ کے لزوم کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ کہ نفس کو حرکات اور لحظات کی نسبت جانچتے رہیں، لہٰذا جو اپنے نفس کو روز قیامت کے حساب وکتاب سے پہلے مورد محاسبہ قرار دے تو اُس دن اُس کا حساب آسان اور سوال کے وقت اُس کا جواب آمادہ ہوگا اورنتیجہ نیک اور اچھا ہوگا۔ اورجو کوئی اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے گا اس کی حسرت دائمی اور قیامت کے مواقف میں اُس کا توقف طولانی ہوگااور اس کی برائیاں اسے ایسی ذلت وخواری کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ خداوندعالم کی اطاعت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے اور اُسی نے صبر مرزبانی کا حکم دیا ہے:

(یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوْا ۔۔۔)۔(١)

''اے صاحبان ایمان تم لوگ صبر کرو، صبر کی تعلیم دو اور مرابطہ یعنی دشمن سے جہاد کے لئے تیاری کرو...'' لہٰذا تم مرابطہ ومرزبانی کرو پہلے مشارطہ کے ذریعہ اس کے بعد مراقبہ کے ذریعہ پھر محاسبہ اور پھر معاقبہ (سزا دینے) کے ذریعہ پھر اس کے بعد مجاہدہ اورمعاتبہ (عتاب کرنے) کے ذریعہ ...''(٢) اس لحاظ سے ایک دوسرے رخ سے بھی اپنے آپ پر نظارت اور نگرانی کا لزوم معلوم ہوا، محاسبۂ اعمال کردار کے تولنے کے لئے موازین قسط کے قرار دینا، قیامت کے دن حساب وکتاب کرنااور ہمارے نامہ اعمال میں ان کے جزئیات کو ضبط کرنا کہ جن کو ہر شخص واضح طور پر دیکھے گا، ان سب باتوں کے قطعی ہونے کے پیش نظر محاسبہ اوراعمال پر نظارت کے لزوم کے سلسلہ میں کوئی تردید نہیں رہ جاتی اورخداوند اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ اپنے بندوں سے دوبارہ حساب کا مطالبہ کرے۔ قرآنی آیات اس سلسلہ میں بہت زیادہ واضح ہیں: ''ہم عدل وانصاف کا ترازو قیامت کے دن قرار دیں گے، پس کسی نفس پر بھی کسی چیز میں ستم نہیں جائے گا، اگر( کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا اُسے ہم لے آئیں گے اور ہم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں ''۔(٣) ''اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا، اُس وقت مجرمین کو اپنے نامۂ اعمال کے مندرجات سے خوفزدہ دیکھوگے اور وہ کہیں گے : اے ہم پروائے ہو، یہ کیسا نامۂ اعمال ہے کہ جس میں کوئی ]کام[ چھوٹا ہو یابڑاچھوڑا نہیں گیاہے، بلکہ سب کو جمع کرلیاہے اور جوکچھ انھوں نے انجام دیا ہے وہ سب اس میں موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ستم روا نہیں رکھتا''۔(٤) اپنے آپ پر نظارت کے طریقے درج ذیل ہیں:

____________________

١۔ سورہ ٔآل عمران آیت ٢٠٠۔ ٢۔ احیاء العلوم، غزالی ج٤ص ٤١٧، ٤١٨۔٣۔ سورہ ٔانبیاء آیت٤٧۔ ٤۔سورہ ٔکہف آیت٤٩۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296