اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق20%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 178078 / ڈاؤنلوڈ: 5181
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

(هَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنَ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَذْکُوراً )(١)

''کیا انسان پر ایسا وقت بھی آیا ہے کہ جب وہ کوئی قابل ذکر شے سے نہیں تھا؟''۔

کبھی سوالات کودوسروں کی زبان سے بھی بیان کرتا ہے:

( ٰیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ )(٢)

''(اے پیغمبر!) آپ سے یہ لوگ انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں''۔

(یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَهِلَّةِ )(٣)

''(اے پیغمبر!)یہ لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں''۔

(یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللّٰه یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلَالَةِ )(٤)

''(اے پیغمبر!) یہ لوگ آپ سے فتویٰ دریافت کرتے ہیں تو آپ ان سے کہدیجئے کہ خداوند کلالہ (بھائی بہن) کے بارے میں حکم بیان کرتا ہے...''۔

پیغمبر اکرم کے بیانات میں بھی سوال وجواب کے طریقے کثرت سے پائے جاتے ہیں:

''آیا تم میں سب سے افضل شخصکے بارے میں خبر نہ دوں... ''؟

''آیا خدا کے نزدیک بہترین اعمال کی خبر نہ دوں...''؟

''آیا تمہیں لوگوں میں سب سے بڑے انسان کی خبر نہ دوں...''؟

''آیا تمہیں ایسے لوگوں سے باخبر نہ کروں جو اخلاق میں مجھ سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں...؟

اخلاقی اقدار کی دعوت کے لئے کلی طور پر آیات وروایات، نصیحت آمیز اشعار اور بزرگوں کے کلمات سے استفادہ کہ جو ''مقبولات عقلی '' شمار ہوتے ہیں، دعوت کی تاثیر میں دوگنا اضافہ کردیتا ہے۔

اخلاقی اقدار کی طرف دعوت کی روش سے استفادہ ''خود تربیتی'' کی صورت میں یہ ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو اس دعوت کے معرض میں قرار دیتے ہیں۔

____________________

١۔ سورہ ٔانسان، آیت١۔ ٢۔ سورہ ٔانفال، آیت١۔ ٣۔ سورہ ٔبقرہ، آیت١٨٩۔ ٤۔ سورہ ٔنسائ، آیت١٧٦۔

۲۰۱

دوسری فصل:

ا سلا م میں ا خلا قی تر بیت کے طر یقے

۱۔ عقلانی قوت کی تربیت

(اقدار اور موعظہ کی دعوت)گذشتہ روش کے برعکس کہ عام طور پر انسان کے عاطفی پہلو پر تاکیدکرتی ہے، اس روش میں بنیادی تاکید انسان کے شناختی، معرفتی اور ادراکی پہلو پر ہے، جس طرح عاطفی محرّک رفتار کے اصول ومبادی میںشمار ہوتا ہے، فائدہ کا تصور وتصدیق بھی شناخت کیاصول ںومبادی میں سے ہے کہ یہ روش اس کی ضرورت پوری کرنے کی ذمہ دار ہے۔

قرآن کریم اور معصومین علیہم السلام کے ارشادات وتعلیمات اس روش اور طریقے پرتاکید کرتے ہیں، اور اس کے حدود، موانع اور مقتضیات کو بیان کرتے ہیں۔

قرآن نے تعقل، تفقہ، تدبر، لبّ، حجر، نہیٰ، حکمت، علم وفہم جیسے الفاظ کا استعمال (ان ظریف تفاوت کے لحاظ سے بھی جو ان کے درمیان پائے جاتے ہیں) کا اس روش سے استفادہ کے لئے کیا ہے۔ قرآنی آیات مندرجہ باتوں کے ذریعہ اپنے مخاطبین کی معرفت اور عقثلانی قوت کی پرورش کرتی ہے:

استفہام تقریری یا تاکیدی کے ذریعہ سے(١) گذشتہ افراد یا اکثریت کی اندھی تقلیداورپیروی کرنے کی ممانعت ہے،(٢) ان لوگوں کی مذمت جوتعقل نہیں رکھتے،(٣) ان لوگوں کی مذمت جوبغیر دلیل کے کسی چیز کو قبول کرلیتے ہیں،(٤) تعقل وتدبرکی دعوت،(٥) موازنہ اور تنظیر،(٦) احسن انتخاب پرترغیب وبشارت(٧) وغیرہ۔

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہ، آیت٤٤۔سورہ ٔقیامت، آیت٢۔

٢۔ سورہ ٔزخرف، آیت٢٢۔٢٣۔٢٤ اور سورہ ٔانعام، آیت١١٦۔

٣۔ سورہ ٔانفال، آیت٢٢۔

٤۔ سورہ ٔانعام، آیت١١٦۔ سورہ ٔزخرف، آیت٢٠۔

٥۔ سورہ ٔیوسف، آیت ١٠٥۔

٦۔ سورہ ٔزمر، آیت٩، سورہ ٔرعد، آیت ١٦ اور سورہ ٔنحل، آیت٧٦۔

٧۔ سورہ ٔزمر، آیت ١٨۔

۲۰۲

روایات بالخصوص اصول کافی کی کتاب عقل وجہل اور دیگرروائی ماخذمیں بھی عقل وتعقل کو عظیم مرتبہ کا حامل قرار دیا گیاہے اورانسان کے اخلاقی تربیت سے متعلق خاص طورپر اس کے نقش وکردارکو موردتوجہ قراردیا گیا ہے۔(١)

علمائے اخلاق کی تربیتی روش میں بھی ان کی اصلاحی تدبیروں راہنمائیوں کا ایک قابل توجہ حصہ انسان کی شناختی پہلوسے متعلق ہے ،جیسے انسان کے ذہنی تصورات کی ایجاد یا تصحیح خود عمل یا اخلاقی صفت سے، اعمال کے دنیوی اور اخروی عواقب و نتائج کی ترسیم، اخلاقی امور کے بُرے یا اچھے لوازم اور ملزومات ان کے اخلاقی نظریہ میں بھی، غضب اور شہوت کی قوتوں پر عقلانی قوت کے غلبہ کواخلاقی رذائل سے انسان کی نجات اور اخلاقی فضائل کی طرف حرکت کا سبب ہے، اس لئے کہ قوۂ عقل کے غلبہ سے تمام قوتوں کے درمیان اعتدال پیدا ہوتا ہے اور فضیلت کا معیار بھی اعتدال۔ تفکر وتعقل کے وہ موارد جو اخلاقی تربیت میںموثر ہوسکتے ہیں، آیات وروایات میں ان کا تعارف کرایاگیا ہے:

١۔ طبیعت:

''زمین وآسمان میں کتنی زیادہ علامتیں اور نشانیاں ہیں کہ جن پر سے لوگ گذرتے ہیںاس حال میں کہ اُن سے روگرداں ہوتے ہیں''۔(٢)

٢۔تاریخ:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''حضرت اسماعیل کے فرزندوں، اسحاق کے فرزندوںاور یعقوب کے فرزندوں سے عبرت حاصل کرو، کس قدر ملتوں کے حالات آپس میں مشابہ اور ان کے افعال وصفات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ اُن کے پراگندہ اور متفرق ہونے کے بارے میں غور کرو، جس وقت روم وفارس کے بادشاہ اُن کے ارباب بن گئے تھے(٣) میرے بیٹے! یہ سچ ہے کہ میں نے اپنے گذشتہ افراد کی عمر کے برابر زندگی نہیں پائی ہے، لیکن اُن کے کردار میں غور وفکر کیا ہے، ان کے اخبار کے بارے میں تفکر کیا ہے اور ان کے آثار میں سیر وسیاحت کی ہے کہ ان میں سے ایک کے مانند ہوگیا، بلکہ گویا جو کچھ ان کی تاریخ سے مجھ تک پہنچا ہے ان سب کے ساتھ میں اول سے آخر تک ہمراہ تھا''۔(٤)

____________________

١۔ اصول کافی، ج١، باب جنود عقل وجنود جہل۔٢۔ سورہ ٔیوسف، آیت١٠٥۔٣۔ نہج البلاغہ، خطبہ قاصعہ، ١٩٢۔ ٤۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔

۲۰۳

٣۔قرآن:

''آیا قرآنی آیات میں غور وفکر نہیں کرتے؟ یا (یہ کہ) ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں''۔(١)

٤۔انسان:

حضرت امام حسین ـ کی دعائے عرفہ کے پہلے فقرات سے اور توحید مفضل(بحار، ج٣) سے مفید اور کار آمد نکات معلوم ہوتے ہیں: اخلاقی قواعد کا اثبات اور تزکیہ باطن عام طور پر بغیر عقلانی قوت کی تربیت کے ممکن نہیں ہے، یہ روش خود سازی اور دوسروں کی تربیت سے وجود میں آسکتی ہے شناخت و معرفت کے ماہرین نفسیات بالخصوص ''پیاژہ'' اس روش کی بہت زیادہ تاکید کرتا ہے وہ اخلاقی نمونوں تک رسائی کو ''قابل تعمیر'' اور فعّال وخود سازی روش جانتا ہے نیز معتقد ہے کہ اخلاقی تحول وانقلاب شناخت کے رشد وتحول کے بغیرممکن نہیں ہے:یہاں پر ایک قسم کی عجیب وحیرت انگیز ہماہنگی، اخلاقی وعقلانی تربیت میں پائی جاتی ہے جسے یوں ذکر کیاجاتا ہے کہ آیا جو کچھ تربیت خارج سے انسان کو دیتی ہے تاکہ اس کے اکتسابی یا فردی ادراک کو بے نیازاور مکمل کرے، سادہ قواعد اور حاضر آمادہ معراف میں محدود منحصر ہوسکتا ہے ؟ ایسی صورت میں آیا مراد یہ نہیں ہے کہ (صرف) کچھ تکالیف ایک طرح کی اور حس اطاعت انسان پر لازم کی جائے... یایہ کہ اخلاقی تربیت سے استفادہ کا حق عقلی تربیت حق کے مانند یہ ہے کہ انسان حق رکھتا ہو کہ عقل واخلاق کو اپنے اندر واقعاً جگہ دے یا کم ازکم ان کے فراہم کرنے اور ان کی تعمیر میں شریک اور سہیم ہو، تاکہ اس مشارکت کے نتیجہ میں وہ تمام افراد جو ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہیں، ان کی تعمیر پر مجبور ہوجائیں۔ لہٰذا اخلاقی تربیت کی راہ میں، ''خود رہبری'' کا مسئلہ عقلی خود سازی کے مقابلہ میں ان افراد کے درمیان جو اس کی تلاش میں ہیں ذکرکیا جاتا ہے۔(٢)

جو طریقے اس روش کے تحقق میں استعمال کئے جاسکتے ہیں درج ذیل ہیں:

الف ۔افکار کی عطا اور اصلاح:

اخلاقی اعمال فکر کی دوقسموں سے وجود میں آتے ہیں:

پہلی قسم :

انسان کا اپنی ھستی کے بارے میں آگاہ ہونا، دنیا، نظام عالم، مبدأ اور معادکی نسبت وہ کلی یقین ومعتقدات ہیں کہ انھیں خداشناسی اور فلسفہ حیات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ واضح ہے کہ انسان کی نگاہ اپنے اطراف کے عالم پر اُس کی اخلاقی رفتار میںموثر ہے۔ اعتقادات جیسے خدا کی قدرت کااحاطہ اور حضور عالم کا توحیدی انسجام یا نظام تقدیر، خدا پر توکل، تمام امور کا اس کے حوالہ کرنا، تسلیم ورضا وغیرہ سارے کے سارے ہمارے اخلاقی رفتار میں ظاہر ہوتے ہیں۔

____________________

١۔ (اَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرآنَ اَمْ عَلیٰ قُلُوبٍ اَقْفَالُهَا )(سورہ ٔمحمد، آیت٢٤) ٢۔ پیاژہ: تربیت رہ بہ کجا می سپرد، ص٥٣۔

۲۰۴

آج کل سلامتی کے ماہرین نفسیات اس نکتہ کی طرف توجہ رکھتے ہیں کہ خدا شناسی اور انسجام عالم کی حس کی نسبت، انسان کی مقاومت کے لئے ایک ایسا مرکز فراہم کرتی ہے کہ جو اخلاقی متانت کہ انسان کی سلامتی کے لئے عالم کو دبائو میں ڈالنے والے حوادث کے مقابل تاثیر گذار ہے۔

انسجام کی حس ایک مقابلہ کا مأخذ ہے، حس انسجام (دنیا کے نظم وضبط میں تنظیم ویگانگی کا احساس کرنا) ایک قسم کی خداشناسی ہے کہ جس سے مراد مندرجہ امور کی نسبت دائمی اور مستمرّ اطمینان کے احساس ہے:

١۔ ایسے محرک جو انسان کی پوری زندگی میں باطنی اور بیرونی ماحول سے پیدا ہوتے ہیں، تشکیل شدہ منظم، پیشین گوئی کے قابل اور قابل توجیہ ہیں۔

٢۔انسان ان ضرورتوں سے روبرو ہونے کے لئے کہ جن کو ان محرکات نے ایجاد کیا ہے، کچھ وسائل ماخذ رکھتا ہے؟

٣۔یہ ضرورتیں، ایسی کوششیں ہیں جو سرمایہ گذاری اور وقت صرف کے لائق ہیں۔ یہ لوگ دنیا کو قابل درک اور قابو میں کرنے کے لائق جانتے ہیں اور زندگی کے واقعات وحوادث کو بامعنی محسوس کرتے ہیں۔(١)

دوسری قسم :

ایسے افکار ہیں کہ جو عمل کی اصلاح اورصحت سے متعلق ہیں اور یہ کہ یہ خاص رفتار عمل کرنے والے کے ہدف سے یگانگت رکھتی ہے۔اور حقیقت میں اطلاعات دینے کے ایک طریقہ سے مربوط ہے۔

البرٹ الیس شناخت سے متعلق ماہرنفسیات ہے کہ جو اپنی نجاتی روش کے سلسلہ میں عقلی اور عاطفی علاج سے استفادہ کرتا ہے اُس نے غیر عقلی تفکر کے نمونے پیش کرنے کے شاتھ اُس کا علاج جدید آمادگی اور جدید افکار ومعتقدات کو اُن کا جاگزین کیا جانا ہے کبھی غیر اخلاقی رفتار یانامطلوب صفات غلط نظریہ اور خیال کا نتیجہ ہوتے ہیں کہ جو دھیرے دھیرے انسان کے فکری نمونے بن جاتے ہیں اورایسے نظریوں کا تبدیل ہونا اخلاقی تربیت کے لئے ضروری ہے، غیر عقلی (غیر معقول) تفکر کے بعض نمونے ہر طرح کی اخلاقی رفتار کی تبدیلی سے مانع ہوسکتے ہیں، الیس ان موارد کو اس طرح بیان کرتا ہے:

١۔انسان اس طرح فرض کرے کہ اُن افراد کی جانب سے جو اس سے متعلق اور اُس کے لئے اہم ہیں مورد تائید، اور لائق محبت و احترام واقع ہو۔

____________________

١۔ Psyhology Health/.p۳۲۷

۲۰۵

٢۔جب بھی انسان سے کوئی لغزش ہوجائے تو اس کے لئے صرف اتنا اہم ہے کہ وہ مقصّر کا سراغ لگائے اور اسے سزا دے۔

٣۔اگر مسائل اس کی مراد کے مطابق نہ ہوں تو اُس کے لئے حادثہ آمیز چیز ہوگی۔

٤۔سب سے زیادہ آسان یہ ہے کہ انسان مشکلات اور ذمہ داریوں سے فرار کرے، نہ کہ اُن کا سامنا کرے۔

ب۔ ا خلاقی استدلال:

پیاژہ اور کلبرگ نے اس روش سے استفادہ کیا ہے اس طرح سے کہ داستانوں کو بچوں کے شناختی تحوّل وانقلاب کی میزان کے مطابق اس طرح بیان کرتے تھے کہ ان کے ضمن میں داستان کا ہیرو اخلاقی دوراہہ پر کھڑا ہے اوریہاں پر داستان کے مخاطب کو چاہئے کہ جو استدلات وہ بیان کرتا ہے ان سے اپنی اخلاقی قضاوت کااستخراج کرے مربی جزئی دخالتوں سے اس اخلاقی بحران کی بحث چھیڑے ( البتہ ان سے آگے قدم نہ بڑھائے یا کوئی استدلال پیش نہ کرے) اور صرف بالواسطہ ہدایت کرے اور ان کے استدلات کو صاف وشفاف کرے۔ یہ استدلات تربیت پانے والے کے ذہن میں نقش چھوڑتے ہیں اور اُسے انجانے طریقہ سے اس کی اخلاقی رفتار میں ہدایت کرتے ہیں۔

اخلاقی استدلال بلاواسطہ اورخود عمل پر بھی ناظر ہوسکتے ہیں؛ یعنی انسان کا روبرو ہونا اپنے اعمال کے نتائج کے ساتھ۔ علمائے اخلاق کی روش میں بھی اس طرح کے اقدامات پائے جاتے ہیں: عمل کے نتائج و آثار روش سے واضح انداز میں انسان کے لئے مجسّم ہوتے ہیں اور مخاطب کو یقین حاصل ہوتا ہے کہ یہ عمل اس طرح کے نتائج وآثار کا حامل ہے، درحقیقت ہم اس کے لئے موقعیت کی توصیف کرتے ہیں ( بغیر اس کے کہ اُس میں امرو نہی درکار ہو) اوریہ خود انسان ہے کہ جو ان نتائج کو درک کرکے انتخاب کرتا ہے اور اس کے عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے قرآنی آیات کبھی عمل کے ملکوتی کو مجسّم کرکے اس روش اور اسلوب سے استفادہ کرتی ہیں:

''اے صاحبان ایمان !... تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کرے آیا تم میں سے کوئی چاہتاہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ یقیناً اُسے ناپسند کروگے (لہٰذا) بے شک خدا سے ڈرو کہ خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے''۔(١)

____________________

١۔ سورہ ٔحجرات، آیت ١٢۔

۲۰۶

کبھی اعمال کے دنیوی یا اخروی نتائج کی منظر کشی کرکے افراد کو ان کے عواقب سے آشنا کرتا ہے:

''ایک دوسرے سے مجرموں کے بارے میں سوال کریں گے : ''کس چیز نے تمہیں سقر (کی آگ) میں جھونک دیا ہے؟ '' وہ کہیں گے : ''ہم نمازگذاروں میں سے نہیں تھے، اور مسکینوں اور بے نوائوں کو ہم کھانا نہیں دیتے تھے...''(١)

ج۔ مطالعہ اور اطلاعات کی تصحیح:

مطالعہ لغت میںان معانی میں استعمال ہوتا ہے: کسی چیز کے معلوم کرنے کے لئے اُس کو دیکھنا ، کسی کتاب یا کسی نوشتہ کا پڑھنا اور اس کا سمجھنا.......۔

آخری سالوں میں اطلاعات فراہم کرنے والوں کے اقدام نے بہت سے ماہرین نفسیات کی توجہ اپنی طرف جلب کرلی ہے(٢) کیونکہ جو اطلاعات انسان کے ذہنی سسٹم میں وارد ہوتی ہیں، وہ انسانی رفتار کو جہت دینے میں ایک اہم اور قابل تعیین کردار ادا کرتی ہیں۔ البتہ اطلاع کی فراہمی کا اندازبھی اہم ہوتا ہے کہ افکار کی عطا کی بحث میں ان کی طرف اشارہ ہواہے۔ بِک ] Beck [منجملہ ان کے ماہریں نفسیات میں سے ہے کہ جو اسی طریقۂ عمل سے افسردگی کی بیماریوں کا علاج کرتا ہے۔ اخلاقی بیماریوں کا علاج کرنے یا کلی طور پر صحیح اخلاقی تربیت یا فضائل اخلاقی کی ر اہ پیدا کرنے میں اسی طرز واسلوب سے مدد لے سکتے ہیں، یعنی اخلاقی مشکلات کے سلسلہ میں علم اخلاق کی مناسب کتابوں کا مطالعہ اور جدید اطلاعات کے حصول سے انسان اپنے عمل کے اسباب وعوامل کو پہچان لیتا ہے اور اس میں تبدیلی یااصلاح انجام دیتا ہے اور بالواسطہ طور پر اخلاقی تربیت کا باعث ہوتاہے۔ کبھی اس کی سابق اطلاعات سے متعارض اطلاعات اُسے غور وفکر اور فیصلہ کرنے نیز تجدید نظر کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔

د ۔مشورت ومشاورہ:

اس سے مراد مربی اور تربیت دیئے جانے والے یاوالدین اور فرزندوں کے درمیان ایک طرح کا معاملاتی رابطہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی مدد اور حمایت سے مسئلہ کا تجزیہ وتحلیل کریں اور اخلاقی مسائل میں ایک مشترک راہ حل تک رسائی حاصل کریں۔ یہ طرز تربیت پانے والی شخصیت کے احترام واکرام

____________________

١۔ سورہ ٔمدثر، آیت ٤٠تا ٤٤۔

٢۔ روان شناسی رشد بانگرش بہ منابع اسلامی، ج٢، ص٦٢٦۔

۲۰۷

کے علاوہ اخلاقی تربیت کے اعتبار سے رشد عقلی کا باعث ہوتا ہے:

''مَنْ شَاوَرَ ذَوِی الْعُقُوْل اسْتَضَاء بانوار العقول ''(١)

''جو انسان صاحبان عقل وہوش سے مشورہ کرے، وہ ان کے نور عقل وخرد سے استفادہ کرتا ہے''۔

اسلامی روایات، مشورہ کو رشد وہدایت کا ذریعہ سمجھتی ہیں اور شایستہ افراد سے مشورہ کرنے کی زیادہ سے زیادہ تاکید کرتی ہیں:

''دوسروں سے مشورہ کرنا ہدایت کا چشمہ ہے اور جوکوئی خود کو دوسروں کے مشورہ سے بے نیاز تصور کرے تو اُس نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال دیا ہے''۔(٢)

اس روش میں تربیت پانے والے کا مقصد عقلانی توانائی کا حصول اور اخلاقی مسائل میں فیصلہ کرنا ہے، یعنی مشورت کے ذریعہ اسے آمادہ کریں کہ ''خود رہبری'' اور ''فعّال'' کی روش کو ہدایت کے ساکنین کو اخلاقی تربیت کی راہ میں لے آئے اور اپنی اخلاقی مشکل کو حل کرسکے، مشورہ میں پہلا قدم مراجع (تربیت دیا جانے والا) نہیں اٹھاتا؛ بلکہ مربی کو اس سے نزدیک ہونا چاہئے اور رابطہ ایجاد کرکے یا کبھی مسائل میں اُس سے راہ حل طلب کرکے، اُسے اپنے آپ سے مشورت سے کرنے کی تشویق کرنی چاہئے۔(٣)

۲-۔ عبرت حاصل کرنے کے طریقے

کلمہ ''عبر'' ایک حال سے دوسرے حال میں گذرنے اور عبور کرنے کو کہتے ہیں اوراعتبار (عبرت آموزی) ایک ایسی حالت ہے کہ مشہور چیز دیکھنے اورجوکچھ اس کے نزدیک حاضر ہونے سے ایک نامشہود پیغام تک رسائی حاصل کرلیں لہٰذا اس روش سے مراد یہ ہے کہ انسان کے اندر امور وحوادث کے دقیق مشاہدہ اور اس میں غور وخوض کرنے سے باطنی تبدیلی حاصل ہوجاتی ہے کہ اس انفعال نفسانی کی حالت کے نتیجہ میں، اُس حادثہ کی گہرائی میں موجود پیغام کو قبول کرنے کے لئے آما دہ ہوجائے، عینی مشا ہدہ وہ بھی نزدیک سے انسان میں ایسا اثر کرتا ہے کہ سننا اوردوسروں کا بیان کرنا اتنا اثر نہیں رکھتا۔

____________________

١۔ غرر الحکم ودرر الکلمج٥ص٣٣٦ش ٨٦٣٤۔

٢۔ الاستشارة عین الہدایة وقد خاطر من استغنی برایہ نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج١٩ص٣١۔

۲۰۸

٣۔ اسلامی تعلیمات مختلف جہات سے مشورت کے مسئلہ پر تاکید کرتی ہیں؛ مزید معلومات کے لئے سید مہدی حسینی کی کتاب ''مشاورہ وراہنمائی درتعلیم وتربیت '' ملاحظہ ہو۔

اس کی دلیل پہلے مشاہدات کا زیادہ سے زیادہ قابل قبول ہونا ہے؛ سنی سنائی چیزوں کے برعکس کہ اُس میں عام طور پرشکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔ برہان عقلی میں یقینیات میں سے ایک مشاہدات یا محسوسات ہیں۔ دوسرے حادثہ کی جانب اس کے جزئیات سمیت توجہ دینا،کے شناختی وعاطفی قالب اور ڈھانچوں کے مطابق دیکھنے والے اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ وہ واقعہ بہتر جا گزیں ہو اور انسان کے نفسیاتی قالب میں جگہ پائے۔ البتہ کبھی تاریخی یاداستانی بیانات بیان کرنے والے کی ہنر نمائی کے زیر اثر اس درجہ دقیق ہوتے ہیں کہ گویا سننے والا یاپڑھنے والاخود اس حادثہ کے اندر اپنے موجود محسوس کرتاہے ۔ نمائشی ہنر میں جیسے فیلم وغیرہ میں اس طرح کا امکان پایاجاتا ہے۔ قرآن وروایات میں عبرت آموزی کا طریقہ کثرت سے استعمال کیا گیا ہے، عبرت آموزی کے طریقے درج ذیل ہیں:

الف۔گذشتگان کے آثار کا مشاہدہ :

تاریخ کے صفحات ایسے لوگوں کے وجود سے بھرے پڑے ہیں جنھوں نے خطا کے بار کو کاندھے پر اٹھایا اور غیر صحیح راہ پر گامزن ہوگئے ہیں، گذشتگان کے باقی ماندہ آثار میں غور وفکر کرنے سے ہمیں تعلیم کرناپڑتا ہے کہ ہر گناہ وخطا سے کنارہ کشی کے لئے لازم نہیں ہے کہ خود تجربہ کریں اور اس کی سزا اور انجام دیکھیں۔ تاریخی عمارتیں، میوزیم، کھنڈر، دفینے وغیرہ ان انسانوں کی علامتیں ہیں جنھوں نے انھیں وجود بخشا ہے۔ قرآن ہمیں ان کی جانب سیر وسفر اور گذشگان سے تجربہ حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے: ''آیا ان لوگوں نے زمین میں گردش نہیں کی ہے تاکہ اپنے پہلے والوں کے انجام کا مشاہدہ کریں کہ وہ کس طرح تھا؟ وہ لوگ ان سے زیادہ قوی تھے اور انھوں نے روئے زمین پر زیادہ ثابت اور پائدار آثار چھوڑے ہیں، خدا نے انھیں ان کے گناہوں کے عذاب میں گرفتار کردیا اورخدا کے مقابل ان کا کوئی بچانے والا نہیں تھا''۔(١) عمار ساباطی نقل کرتے ہیں:حضرت امیر المومنین علی ـ مدائن آئے اور ایوان کسریٰ میں نازل ہوئے اور ''دلف بن بحیر'' ان کے ہمراہ تھا، آپ نے وہاں نماز پڑھی اور اٹھ گئے.... حضرت کی کے خدمت میں ساباطیوں کا ایک گروہ تھا، آپ نے منازل کسریٰ میں چکر لگایا اور دلف سے فرمایا: ''کسریٰ اس جگہ مقام ومنزلت کا حامل تھا''دلف نے کہا: خدا کی قسم ایسا ہی ہے جیسا آپ فرمارہے ہیں۔

____________________

١۔ سورہ ٔمومن آیت٢١۔

۲۰۹

پھر اس گروہ کے ہمراہ اُن تمام جگہوں پر گئے اور دلف کہہ رہے تھے: ''اے میرے سید وسردارآپ اس جگہ کے بارے میں اس طرح آگاہ ہیں گویا آپ ہی نے ان چیزوں کویہاں رکھا ہے۔ جب حضرت مدائن کی طرف سے گذرے اور کسریٰ اور اس کی تباہی کے آثار مشاہدہ کئے تو حضرت کی خدمت میں موجود افراد میں سے ایک نے یہ شعرپڑھا:

جرت الریاح علی رسوم دیارہم

فکأنهم کانوا علی میعاد

ان کے گھروں کے مٹے ہوئے نشانات پر ہوائیں چل رہی ہیںپس گویا وہ اپنی وعدہ گاہ پر ہیں۔

حضرت نے فرمایا: تم نے یہ آیات کیوں نہیں پڑھیں؟

واہ! انھوں نے کیسے کیسے باغات اور بہتے چشمے چھوڑے ہیں، کھیتیاں اور عمدہ مکانات چھوڑ گئے ہیں اور وہ نعمتوں میں مزے اڑا رہے ہیں، (ہاں) ایساہی تھا اور ہم نے دیگرلوگوں کو ان کی میراث دے دی پھر تو ان پر آسمان وزمین نے گریہ وزاری نہیں کی اور نہ انھیں مہلت دی گئی ۔(١)

اس کے بعد حضرت نے فرمایا: یہ لوگ گذشتگان کے وارث تھے،پس وہ خود بھی آئندہ والوں کے لئے میراث چھوڑکر گئے ، انھوں نے نعمت کا شکر ادا نہیں کیا لہٰذا ناشکری کے زیر اثر اُن سے ساری نعمتیں سلب ہوگئیں، نعمات کی ناشکری سے پرہیز کرو کہ تم پر بلائیں نازل ہوجائیں گی...۔(٢)

نہج البلاغہ میں اس نکتہ کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے:

''تمہارے لئے گذشتہ امتوں کی سرنوشت میں عبرتیں ہیں، عمالقہ اور ان کی اولاد کہاں ہیں؟ فراعنہ اور ان کے اخلاف کہاں ہیں؟ اصحاب رس جنھوں نے پیغمبروں کو قتل کیا ہے کی سنتوں کو پامال کیاہے اور جبّاروں کی رسومات کو باقی رکھا ، کہاں ہیں؟ ۔''(٣)

خداوند متعال فرماتاہے: ''پھر آج تم ]فرعون[ کوتمھارے بدن کے ساتھ بچالیتے ہیں تاکہ ان کے لوگوں کے لئے جو تمہارے بعد آئیں گے، عبرت ہو۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔدخان آیات ٢٥، ٢٩۔٢۔ بحارالانوار ج٧٨ص٩٢۔

٣۔ نہج البلاغہ خطبہ١٨٢۔٤۔ (فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک آیة )(سورہ ٔیونس آیت٩٢ )۔

۲۱۰

قبروں کی زیارت اور ان لوگوں کے حالات کے بارے میں غور وفکرجو روئے زمین پر سرکشی اور تکبر کرتے تھے اور آج بغیر حرکت کے اورانتہائی ذلت وخواری کے ساتھ خاک میں دفن ہیں، انسان کو خاضع بلکہ اسے فرمانبردار بنا دیتا ہے، کبرو نخوت کو فروتنی وخاکساری سے تبدیل کردیتا ہے اورآدمی کو یہ فرصت دیتا ہے کہ خود کو درک کرے اور اپنی عاقبت کے بارے میں غور کرے۔

حضرت علی ـ نے آیہ شریفہ: ''کثرت مال واولاد کے باہمی مقابلہ (یا اس پر تفاخر) نے تمہیں غافل بنادیا ہے یہاں تک کہ تم نے قبروں سے ملاقات کرلی''(١) کی تلاوت کے بعد فرمایا:

''آیا اپنے آباء واجداد کے مقام نزول پر افتخار کرتے ہیں ؟ یہ لوگ فخر وافتخار سے زیادہ عبرت کے سزاوار ہیں اگرچہ اُن کے آثار بینانہیں ہیں اور ان کی زندگی کی داستان ختم ہوچکی ہے، لیکن عبرت آموز نگاہیں ان کی طرف دیکھ رہی ہیں اور عقلمندوں کے گوش شنواآوازوں کودرک کرتے ہیںاور بے زبانی سے ہم سے گفتگو کرتے ہیں...۔(٢)

مربی حضرات معمولی توجہ اور بصیرت و عبرت آموزی کی دعوت سے، ان تفریح گاہوں سے جو تاریخی جگہوں پر برپاہوتی ہیں، اخلاقی اور تربیتی ضرورت کااستفادہ کرسکتے ہیں، گروہی یا فردی مسافرت وسعت نظر اور دل ایجاد کرنے کے علاوہ بہت زیادہ مفید اورعبرت آمیز ہے۔

ب ۔ طبیعت اور موجودات کی طرف نظر:

زمین میں سیر وسیاحت کرنے سے انسان کو عجائب خلقت سے بہرہ مند ہوتا ہے ''اے پیغمبر! آپ کہہ دیجئے! زمین میں گردش کرو پھر موجودات کی وجہ تخلیق کے بارے میں غورو فکر کرو۔ '' قرآن کریم نے موجودات طبیعت سے عبرت حاصل کرنے کو مورد توجہ قراردیاہے:

''چوپائوں کے وجود میں تمہارے لئے عبرت کے (اسباق) ہیںکہ ان کے شکم اندر سے گوبر اور خون کے درمیان سے تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیںجو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار معلوم ہوتا ہے اور کجھور اورانگور کے پھلوں سے اچھی اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو، صاحبان عقل وہوش کے لئے اس میں واضح نشانیاں ہے''۔(٣)

____________________

١۔ سورہ ٔتکاثر آیت ١، ٢۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٣٠و٤٣٢۔

٣۔ سورہ، نحل آیت ٦٦تا٦٧۔

۲۱۱

''خدا شب وروز کو دگرگوں کرتا ہے، اس میں صاحبان بصیرت کے لئے ایک عبرت ہے ''۔(١)

عالم کی حیرت ا نگیز چیزیں، انسان کو خاضع اور خاشع بناتی ہیں، بہت سی گندگیوں کاسرچشمہ اور اخلاقی پستیوں کا منبع ''خود خواہی ''(٢) اور خود بینی وتکبر ہے ، اس وجہ سے اخلاقی تربیت کے اہداف میں ''خود خواہی '' سے دوری اختیار کرنا ہے، پیاژہ کے بقول: ''... اخلاقی تربیت کے دو بنیادی مسئلے یہ ہیں: ''انضباط کا برقرارکرنا'' اور ''خود پسندی سے نکلنا ''(٣) عالم کی عظمت کی اور اس کے عجائب کی طرف ، انسان کو خودی سے باہر نکالتے ہیں اور مکارم اخلاق کے قبول کرنے کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔

ج ۔ موجودہ حوادث اور واقعات کی جانب توجہ:

ہم اپنے زمانے میں زندگی گزارتے ہیں اور قبل اس کے کہ تاریخ کے سینہ میں حوادث اور واقعات دفن ہوجائیں ہم اُن سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں: ''میں اپنے قول کا خود ذمہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ہوں، جو شخص بھی زمانے کے ناگوار حوادث سے عبرت حاصل کرے، شبہات میں مبتلا ہونے کے وقت تقویٰ اس کی حفاظت کرے گا''۔(٤)

اپنے بارے میں ایک سرسری نظر اوران مختلف واقعات کا نظارہ کہ کبھی ہم زمان ہونے کا حجاب ہمیں اُس سے غافل کردیتا ہے، شخصیتوں کی پستی وبلندی اور ان کی ظاہری عزت وذلت کا گردش زمانہ میں ہمیں پتہ دیتا ہے، عمل کی جزائیں اور پوشیدہ حکمتیں راہ حوادث کے پس پردہ انتہائی نصیحت آموز ہیں اور یہ عینی تجربے عبرت کے قیمتی ذخیروں میں سے ہیں۔

د۔ گذشتگان کے قصوں میں غور و فکر:

گذشتہ افراد کی داستان زندگی بھی ہمارے لئے عبرت آموز ہوسکتی ہے۔ یہاں پر عبرت حاصل کرنے والا گذشتہ افراد کے آثار کے واقعی میدانوں اور وقت حاضر نہیں ہوتا، لیکن داستان اور اس کے نشیب وفراز میں غور وفکرکے ساتھ ، اس کی خالی فضا میں پرواز کرتا ہے کہ اس کاعبرت آمیز رخ عینی مقامات سے کمتر ہے لیکن اس سے نزدیک ہے۔

____________________

١۔ سورۂ نورآیت ٤٤۔٢۔من رضی عن نفسه ظهرت علیه المعایب، ما اضرّالمحاسن کا لعجب ( غررالحکم ) فصل ٦، ص٣٠٨)۔

٣۔ تربیت رہ بہ کجا می سپرد، ص٩٣۔٤۔ نہج البلاغہ خطبہ ١٦۔

۲۱۲

قرآن حضرت یوسف کی داستان نقل کرتے ہوئے فرماتاہے: ''ان کی داستانوں میں صاحبان عقل کے لئے درس عبرت ہے''۔(١)

یا غزوہ نضیر کے واقعات نقل کرنے کے بعد فرماتاہے: ''پس اے صاحبان بصیرت عبرت حاصل کرو''۔(٢)

ایک دوسرے جگہ پر جنگ بدر کے اہم واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہمیں عبرت حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے: ''یقیناً اس ماجرہ میں صاحبان بصیرت کے لئے ایک عبرت ہے ''۔(٣)

قرآنی آیات اور روایات کے طرز تربیت میں جو کہ عبرت آموز ی کی تاکید کرتی ہیں، دونکتے قابل توجہ ہیں:

١۔ عبرت حاصل کرنا ایک(٤) دور اندیش عقل(٥) اور بیدار دل(٦) رکھنے کا مستلزم ہے۔

اسی لئے یہ روش عقلانی قوت کی روش کی پرورش کے بعد ذکر ہوئی ہے، یعنی عام طور پر عقلانی عمیق نظر کے بغیر عبرت آموزی ممکن نہیں ہے۔ اسی لئیحضرت امیر المومنین علی ـ نے مکرر فرمایا ہے: ''عبرتیں کتنی زیادہ ہیں اور عبرت حاصل کرنے والے کتنے کم ہیں''۔(٧)

٢۔ دوسرے یہ کہ آیات وروایات کی روشنی میں عبرت کے لئے ان صفات کا ہونا ضروری ہے:

عصمت وپاکدامنی، دنیا سے کنارہ کشی، لغزش وخطا کی کمی ، اپنی معرفت ، طمع وآرزو کا کم ہونا، فہم ودرک اور تقویٰ۔(٨)

____________________

١۔ سورہ ٔیوسف آیت ١١١۔

٢۔ سورہ ٔحشر آیت٢۔

٣۔ سورہ ٔآل عمران، آیت١٣۔

٤۔(ان فی ذلک لعبرة لاولی الابصار )سورہ ٔآل عمران، آیت١٣۔

٥۔ (لقد کان فی قصصهم عبرة لاولی الالباب )سورہ ٔیوسفآیت١١١۔

٦۔(ان فی ذلک لعبرة لمن یخشی ) سورہ ٔنازعات، آیت ٢٦۔

٧۔ نہج البلاغہ خطبہ ٢٩٧۔

٨۔ میزان الحکمة ج٦ص٣٨تا ٣٩۔

۲۱۳

۳۔عمل کی پابندی اور مداومت

یہاں تک ان طریقوں کی بحث تھی جو اخلاقی( عاطفی یا شناختی رفتار کے مبادی پر اثر انداز ہوتی ہیں یا وہ روشیں جو ماحول کے عوامل میں موثر ثابت ہوتی ہیں۔ پیاژہ نفسیاتی عوامل کے تحول کے شمار میں رشد داخلی کے علاوہ اجتماعی تعامل وتعویض اور اکتسابی تعادل جوئی، تمرین ومشق اور اکتسابی تجربہ کو ایک مستقل عامل جانتا ہے۔(١)

اخلاقی تربیت میں ہدف یہ ہے کہ تربیت پانے والا اخلاقی رفتارکے کمال تک پہنچ جائے یعنی عمل کرے۔ جتنا اس عملی تجربہ کی تکرار ہوگی اور اس کی مداومت کی جائے گی''ظاہر سازی ''(٢) کی صورت میں جدید نفسیانی شکلیں تشکیل پاجائیں گی، بعینہ جیسے اخلاق کی اصطلاح میں جنھیں ملکات اخلاقی کہتے ہیں۔

قرآن کریم عمل کو خاص اہمیت دیتا ہے: ''انسان کے لئے اس کی کوشش اور تلاش کے سوا کچھ نہیں ہے اور اس کی کوشش ]کانتیجہ[ عنقریب دکھائی دے گا''۔(٣)

بہت سی آیات میں قرآن ایمان کو کافی نہیں جانتابلکہ عمل کو اس کی تکمیل کے لئے لازم وضروری شمار کرتا ہے:

جو لوگ نیک عمل کرتے ہیںخواہ مرد ہوں یا عورت، جبکہ مومن ہوں، وہ لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے اور خرمے کی گٹھلی کے گڑھے کے برابر بھی ان پر ستم نہیں ہوگا''۔(٤)

شایستہ کاموں (عمل صالح) سے مراد غالباً وہی اخلاقی اعمال ہیں۔ افراد کے درجات ومراتب بھی ان کے اعمال کے اعتبار سے ہیں، یعنی افراد کی درجہ بندی کا ایک معیار ان کا عمل ہے۔

''ان میں سے ہر ایک کے لئے جو عمل انھوں نے انجام دیا ہے، اس کے مطابق مرتبے ہیں اورتمہا را رب وہ جو کچھ کرتے ہیں اس سے غافل نہیں ہے''۔(٥)

____________________

١۔ دیدگاہ پیاژہ ص ٣٥تا٣٧۔

٢۔ وہ فعالیت جو آدمی کے پہلے والے نفسیاتی تار وپود کو کو تبدیل کرتی ہے تاکہ وہ خود کو اس ماحول کے حالات کے موافق بنائے جس میں وہ موجود ہے۔ (روانشناسی ژنیتک، ص٢٤٤)۔٣۔ سورہ ٔنجم آیت٣٩، ٤٠۔٤۔ (مَنْ یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثیٰ وَهُوَ مُؤمِن فَاُوْلٰئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَلَایُظْلَمُوْنَ نَقِیْراً )(سورہ ٔنسائ، آیت١٢٤)۔

٥۔ (لِکُلٍّ دَرَجَات مِمَّا عَمِلُوا، وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ ۔)(سورہ ٔانعام، آیت١٣٢)۔

۲۱۴

روایات بھی عمل کی ترغیب وتشویق کے ساتھ اسے ایک فائق مرتبہ دیتی ہیں:

حضرت علی ـ: ''آج عمل کا دن ہے اور کوئی محاسبہ نہیں ہے، اور کل محاسبہ کا وقت ہے اور عمل کی گنجائش نہیں ہے''۔(١)

حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں : ''کوئی بھی شخص جو کچھ خدا کے نزدیک اُس کے لئے فراہم ہوا ہے اسے نہیں پاسکتا مگر عمل کے ذریعہ ''(٢) حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''انسان کی ہمراہی عمل کے سوا کوئی بھی نہیں کرے گا''۔(٣)

عمل کے استمرار اور اس کی مداومت کے بارے میں درج ذیل آیات و روایات کو بعنوان شاہد پیش کیا جاسکتا ہے:

''اگروہ لوگ راہ راست میں ثبات قدمی اور پائداری کا مظاہرہ کریں تو یقیناً انھیں خوشگوار پانی نوش کرائیں گے''۔(٤)

حضرت علی ـ: '' وہ کم اعمال جس کی پابندی اور مداومت کرو، ایسے زیادہ اعمال سے زیادہ امید بخش ہیں کہ جن سے تھک جاتے ہو۔''(٥) امام محمد باقر ـ : ''خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ عمل ہے جس پر مداومت اور پابندی ہو، اگرچہ کم ہی ہو''۔(٦)

سلوکی مکتب کے ماہرین نفسیات پاولف، ثراندایک اور ا سکینر میں سے ہر ایک حصول تعلیم کے متعلق عمل کی مشق اور تکرار کے بارے میں ایک نظر رکھتے ہیں، ثراندایک اپنے قانون تمرین(٧) میں کہتا ہے: ''محرک اور جواب کے درمیان پیوند اور ارتباط استفادہ کے زیر اثر قوی ہوجاتے ہیں''(٨)

____________________

١۔''الیوم عمل ولا حساب وغداً حساب ولا عمل '' ۔(نہج البلاغہ، خ٤٢)۔

٢۔''لا ینال ما عند اللّٰه الّا بالعمل'' (وسائل الشیعہ ج١ص ٦٩)۔

٣۔''المرء لایصبحه الّا العمل'' (غرر الحکم، فصل٤، ص١٥١)۔

٤۔ (وَاَنْ لَواسْتَقَامُوا عَلَی الطَّرِیْقَةِ لَاَسْقَیْنَاهُم مَائً غَدْقاً )(سورہ ٔجن، آیت١٦)۔

٥۔''قلیل تدوم علیه ارجی من کثیر مملول منه ۔''(شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج١٩، ص١٦٩)۔

٦۔''احب الاعمال الی اﷲ عزوجل مادام العبد علیه وان قلّ'' (وسائل الشیعہ ج١ ص٧٠ )۔

٧۔ ہرگنہان نظریہ ھای یاد گیری، ترجمہ یوسف،٢٧٥۔

٨۔ ہرگنہان نظریہ ھای یاد گیری، ترجمہ یوسف، ص٧٨۔

۲۱۵

گاتری ایک دوسرا سلوکی ماہر نفسیات ہے جو اپنے تعلیم وتربیت کے نظریہ میں اس سلسلہ میں کہ کیوں مشق نتیجۂ عمل کو بہتر بناتی ہے لکھتا ہے: کسی عمل کا سیکھنا یقیناً مشق کا محتاج ہے، ہماری نظر میں اس امر کی دلیل یہ ہے کہ عمل ایسا نتیجہ دیتا ہے کہ جو مختلف موقعیت کے تحت اور مختلف حرکتوں کے ذریعہ کہ جو ان موقعیتوں سے مناسبت رکھتی ہیں حاصل ہوتا ہے، ایک عمل کا سیکھنا ایک حرکت کے (جیسے جسم کے کسی حصہ کاعام طور سے سکڑنل جو کہ تداعی سے حاصل ہوتا ہے) سیکھنے کے برعکس یقیناتمرین ومشق کا محتاج سے۔ اس لئے کہ ضروری ہے کہ مقتضی حرکتیں اپنی نشانیوں کے ساتھ ایک دوسرے کو وجود بخشیں۔حتی کہ ایسا سادہ عمل جیسے کہ ایک کھلونا ، فاصلہ جہت اور کسی چیز کی موقعیت کی بنیاد پر مختلف حرکتوں کو شامل ہوتا ہے۔ ایک کامیاب تجربہ اس بات کے لئے کہ بچوں کو کسی عمل کے لئے آمادہ کرے، کافی نہیں ہے، کیونکہ جو حرکت ایک حالت میں حاصل ہوتی ہے ممکن ہے کہ دوسری بار کامیاب نہ ہو''۔(١)

پھرمہارت اورتشکیل عادت کے بارے میں کہتاہے:

دلیل اس بات کی کہ کامل مہارت حاصل کرنے کے لئے کیوں زیادہ مشق اور تکرار کی ضرورت ہے؟ یہ ہے کہ یہ مہارتیں محتاج ہیں کہ زیادہ اور خاص حرکتیں بہت سی محرکانہ موقعیتوں کے ساتھ جڑی ہوں، ایک مہارت، ایک عام عادت نہیں ہے، بلکہ عادتوں کا ایک عظیم مجموعہ ہے کہ جو مختلف موقعیتوں میں ایک معین نتیجہ دیتا ہے... خلاصہ یہ کہ ایک مہارت کثرت عمل سے تشکیل پاتی ہے(٢) تھوڑا سا غور کہا جاسکتا ہے کہ اخلاقی ملکات اور فضائل بھی اس نظریہ میں مہارتوں سے مانند وجود میں آتے ہیں اور انسان میں ثبات پاتے ہیں، اس وجہ سے اگرچہ صرف مکتب سلوکیت کا نظریہ (تعلیم وتعلم میں شناختی یا عاطفی کے عوامل کی جانب توجہ نہ ہونا) ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے(٣) لیکن کسی عمل کی مشق کا اثر ایک اساسی عامل کے عنوان سے قابل انکار نہیں ہے۔ ارسطو'' اخلاق'' نامی کتاب میں کہتا ہے: ''جس طرح ہم گھر بنا کے معمار ہوجاتے ہیں، عادلانہ عمل انجام دینے سے عادل ہوجاتے ہیں اور پرہیزگاری کا عمل انجام دے کر پرہیزگار بن جاتے ہیں اورکوئی بہادری کا کام کرنے سے بہادر ہوجاتے ہیں''(٤) اور یہ بالکل اسی دقیق طور پر مداومت عمل کی روش کو بیان کرتاہے۔

____________________

١۔ ہرگنہان نظریہ ھای یاد گیری، ترجمہ یوسف ، ص٢٧٥و٢٧٦۔٢۔ ایضاً، ص٢٧٧۔٣۔ مکاتب روانشناسی ونقد آن ج٦ص١٤١۔٤۔ ارسطو، اخلاق نیکو ماخس، ترجمہ ابو القاسم حسینی، ج١، ص٣٧۔

۲۱۶

اخلاقی کتابوں کے مؤلفین بھی عملی روش پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اخلاقی بیماریوں کے علاج کے سلسلہ میں نظری روش ساتھ یا اس عمل پہلو پر بڑی تاکید کرتے ہیں کہ جس سے مقصود اخلاقی فضائل کے مطابق افعال انجام دینے کا اہتمام وتمرین ہے ایسے اعمال میں مشغول ہونا ہے جو اخلاقی رذائل کے خلاف ہیں ۔

ملا محمد مہدی نراقیاخلاقی بیماریوں کے طریقہ علاج کے بارے میں فرماتے ہیں:

''انحراف اور کج روی (عدم اعتدال)کی علت اگر جسمانی بیماری ہو تو اس کے برطرف کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جلد سے جلد طبی علاج کریں، اور اگر اس کی علت نفسانی ہو تو اس کا علاج وہی بالکل جسمانی علاج کی طرح ہے، جسمانی علاج میں سب سے پہلے ایسی غذا سے جو بیماری کی ضد ہو علاج کرتے ہیں، مثال کے طور پر سرد مزاج بیماری کا علاج گرم مزاج اور تند غذائوں سے کرتے ہیں، اگر فائدہ نہ ہوا تو پھر دوا سے ، اس کے بعد زہر مار کے ذریعہ آخر میں عضو کو جلاکے یاکاٹ کے (جراحی) کے ذریعہ معالجہ کرتے ہیں۔ نفسانی بیماریوں میں بھی قانون ایسا ہی ہے، اس طرح سے کہ انحراف اور کجروی کو جاننے کے بعد اس اخلاقی فضیلت کو حاصل کرنے لئے کہ جو اس انحراف کی ضد ہے، اقدام کرے اور ان افعال سے جو اس فضیلت کے آثار شمار ہوتے ہیں یہ امر غذا کے مانند اس اخلاقی رذیلت کو زائل کرنے میں اثر کرتا ہے۔ پھر اگر مفید واقع نہ ہوتو پھر مختلف صورتوں میں فکری، زبانی اورعملی طور پر اپنے نفس کو مورد توبیخ وسرزنش قرار دے، پھر اگر وہ بھی موثر نہ ہو تو پھر ایک منفی اور متضاد صفت کے آثار کو کہ جو اس اخلاقی صفت سے تضاد رکھتے ہوں حدّاعتدال میں انجام دے گا، جیسے ڈرپوک انسان دلیرانہ عمل انجام دے اورخود کو خطرناک کام میں ڈال دے اور کنجوس انسان اس صفت کے زوال کے لئے جود و بخشش کا سہارا لے ۔ یہ مرحلہ جسمانی مداوا میں تریاق اور زہرمار دواکے مانند ہے۔ اگر اس مرحلہ تک بھی اخلاقی بیماری مستحکم طور پر برطرف نہ ہوئی، تو پھر خود کو طرح طرح کی ان سخت تکلیفوں اور ریاضتوں کے ساتھ رنج وزحمت میں مبتلا کرے جو اس اخلاقی رذیلت کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کا باعث ہوں، یہ مرحلہ جسمانی علاج میں عضو کے جلانے اور قطع کرنے کے مشابہ ہے کہ جو آخری مرحلہ ہے''۔(١)

____________________

١۔ جامع السعادات ج١ ص٩٧، ٩٨۔

۲۱۷

جیساکہ معلوم ہے کہ اخلاقی تربیت کے سلسلہ میں علمائے اخلاق نے عمل اور مشق پر خاص طور سے توجہ دی ہے، اس وجہ سے اس روش کے تحقق کے لئے درج ذیل طریقوں کو بیان کیا جاسکتا ہے:

الف ۔مشق اور عادت ڈالنا:

ہم یہاں پر ''عادت'' کے متعلق اخلاقی فلسفہ کے لحاظ سے بحث نہیں کرنا چاہتے جیسے یہ بحث کہ آیا اخلاقی فعل عادت کی حاکمیت اور اس کے غلبہ کے ساتھ اخلاقی ہونے سے خارج ہوجاتا ہے یا نہیں ؟(١) اور نہ نفس شناسی کے لحاظ سے بحث کرنا چاہتے ہیں مثال کے طور پر عادت کیا ہے، اس کی کتنی قسمیں ہیں اور کس طرح وجود میں آتی ہے؟(٢) بلکہ اس سے یہاں پر مراد یہ ہے کہ مشق اور تکرار کے ذریعہ ایسے مرتبہ تک پہنچاجاسکتا ہے کہ اخلاقی مسائل ملکات میں تبدیل ہوجائیں، جیساکہ حضرت علی ـ نے فرمایا ہے:''اَلْعَادَة طبع ثانٍ'' (٣) ''عادت انسان کی دوسری طبیعت اور شرست ہے''۔

بلند ترین اصول ومبادی اور مکارم اخلاق میں تربیت کی مرکزیت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تربیت پانے والے کے لئے کچھ حد تک جسمانی، نفسیاتی اور اخلاقی پسندیدہ عادات حاصل ہوں، تاکہ زیادہ سے زیادہ ارادہ اور توانائی کا مصرف ان کی جانب توجہ دینے سے آزاد ہوجائے۔اس موضوع میں اسلام کی تربیتی روش سے متعلق دو نکتے قابل توجہ ہیں:

١۔دینی واجبات اور فرائض میں عمل کا استمرار اور پابند:

۔دینی واجبات اور فرائض میں عمل کا استمرار اور پابند اس حد تک اہمیت کی حامل ہے کہ ترک عمل کے لئے اس کی قضا اور کبھی کفار بھی لازم ہوجاتا ہے، اخلاقی امور میں بھی ''نذر'' اور ''عہد وقسم'' کو اخلاقی فعل کو اپنے لئے ایک فریضہ کی صورت میں اپنا سکتا ہے، اگرچہ ان روشوں سے زیادہ استفادہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اپنی حیثیت اور منزلت کو کھو بیٹھے گایا انسان پر بہت گراں اور شاق گزرے گا، البتہ معمولی انداز میں بھی خود سے تعہد کرسکتا ہے کہ اخلاقی فعل کو پابندی کے ساتھ انجام دے گا، تاکہ اُس کا ملکہ نفس میں راسخ ہوجائے۔

____________________

١۔ استاد مطہری، تعلیم وتربیت دراسلام، ص٧٥ پر ملاحظہ ہو۔

٢۔ احمد صبور اردوبادی: معمائے عادت۔

٣۔ غررالحکم، فصل٢، ص٣٢٢۔

۲۱۸

٢۔کیفیت عمل کی جانب توجہ کرنا:

اسلام میں عمل کی ظاہری شکل وصورت آخری مقصود نہیں ہے، بالخصوص اخلاقی فعل اسلام کی نظر میں خاص اخلاقی اصول و مبادی کا حامل ہونا چاہئے ، جیسے صحیح نیت، عمل کی صحیح شکل وصورت اور لوازم عمل کی جانب توجہ (جیسے یہ کہ عمل کے بعد ریا، منّت گذاری اور اذیت کے ذریعہ اس عمل کو ضائع نہ کرے)۔ حضرت امام جعفر صادق ـ نے خداوندعالم کے ارشاد:(لِیَبْلُوَکُم اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) (تاکہ خدا تمھیں آزمائے کہ تم میں سب سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے ؟) کے متعلق فرمایا: ''اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی زیادہ عمل کا مالک ہو، بلکہ خشیت خداوندی اور درست نیت کے لحاظ سے بہتر اعمال مراد ہیں''۔(٢)

ب ۔ اضداد سے استفادہ:

اخلاقی رذائل کو زائل کرنے سے متعلق یہ طریقہ تربیتی طریقوں میں سے سب سے زیادہ مؤثر ہے، اضداد سے سلوکی مکتب کے نظریات میں ''تقابلی ماحول سازی'' کے عنوان سے رفتار بدلنے کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے۔ تقابلی ماحول سازی ایسا نتیجہ ہے کہ جس میں ایک ماحول کا جواب ایک دوسرے ماحول کے جواب سے جو اُس سے ناسازگار اور ناموافق ہوتا ہے ،جانشین ہوتا ہے، اور یہ سبب ہوتا ہے کہ اس ماحول کا جواب جو کہ نامطلوب ہے (اورہم چاہتے ہیں کہ تبدیل ہوجائے) جدید ماحول کے محرک کے ہوتے ہوئے نہ دیا جائے، اس کا اہم ترین فن منظم طریقہ سے (خیالی) حساسیت کا ختم کرنا اور واقعی حساسیت اور خود حساسیت کاختم کرنا ہے۔(٣) اخلاقی کتابوں میں بھی اس روش سے کثرت کے ساتھ استفادہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پرابو حامد غزالی ''کبر'' کے ختم کرنے سے متعلق لکھتا ہے:

''اگر کوئی اپنے دوست ورفیق سے علمی مناظرہ میں کوئی حق بات سنے اور احساس کرتا ہے کہ رقیب کی حقانیت کا اعتراف اُس کے لئے مشکل ودشوار ہے، تو اسے چاہئے کہ اس کبر کے معالجہ کے لئے اپنے اندر کوشش کرے...... عملی طریقہ اس طرح ہے کہ رفیق کی حقانیت کا اعتراف جو کہ اس کے لئے دشوار ہے، اپنے اوپر لازم کرے اور اُسے برداشت کرے اور اس کی تعریف وتوصیف کے لئے اپنی زبان کھولے اور مطلب سمجھنے کے سلسلہ میں اپنی ناتوانی اور کمزوری کا اقرار کرے اور اس کا چونکہ اُس نے اُس سے ایک بات سیکھی ہے، شکریہ ادا کرے.... لہٰذا جب بھی اس امر کی متعدد بار پابندی کرے گا، اُس کے لئے طبیعی اور عادی ہوجائے گا اور حق قبول کرنے کی سنگینی، آسان ہوجائے گی''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔہود آیت ٧۔ ٢۔ کافی ج٢ص ١٦۔٣۔ علی اکبر سیف، تغییر رفتار و درمانیص ٢٥٢۔٤۔ احیاء علوم الدین ، ج٣ ،ص ٣٤٤۔

۲۱۹

مرحوم نراقی نے بھی علاج کے طریقوں میں ایک طریقہ اخلاقی رذائل کے خلاف افعال کا انجام دینا قرار دیا ہے، اس توضیح کے ساتھ کہ کبھی اخلاق کی ایک منفی صفت کے زائل ہونے کے لئے ایک دیگر منفی صفت (کہ جو اعتدال کی حد میں ہو) کا سہارا لیں، مثال کے طور پرخوف ختم کرنے کے لئے جسارت آمیز اور شجاعانہ عمل انجام دینا چاہئے تاکہ خوف ختم ہوجائے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں: '' جب کسی چیز سے ڈر محسوس کرو تو اُس میں کود پڑو، کیونکہ کبھی کسی چیز سے ڈرنا، خود اس چیز سے سخت اور ناگوار ہوجاتا ہے''۔(١) اس روش سے متعلق قرآن کاتربیتی نکتہ یہ ہے کہ بری عادات اور اخلاقی رذائل کا یکبارگی اوراچانک ترک کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ اسے مرحلہ وار اور تدریجاً انجام دیا جائے۔ شرابخوری، ربا، جوئے بازی اور بعض دیگر امور کے بارے میں قرآن نے تدریجی مقابلہ پیش کیا ہے۔

ج ۔ ابتلاء اور امتحان:

''ابتلا'' ''بلیٰ'' کے مادہ سے ہے یعنی اس کی اصل ''بلیٰ'' ہے بوسیدہ اور فرسودہ ہونے کے معنی میں اور ابتلا(یعنی آزمائش )کو اس لئے ابتلا کہتے ہیں کہ گویا کثرت آزمائش کی وجہ سے فرسودہ ہوجاتا ہے۔ ابتلا افراد کے متعلق دو نکتوں کا حامل ہے:

١۔ جو کچھ اس کے لئے مجہول اور نامعلوم ہے اُس سے آگاہی اور شناخت۔

٢۔انسان کی یکی یابرائی کا ظاہر ہونا(٢) ۔ امتحان کی تعبیر بھی ابتلا اور آزمائش کی نوع پر بولی جاتی ہے(٣) امتحان اور آزمائش ہمیشہ عمل کے ذریعہ ہے، کیونکہ ابتلا بغیر عمل کے بے معنی ہے، عمل کے میدان میں انسان کے باطنی صفات ظاہر ہوتے ہیں اور اس کی صلاحتیں قوت سے فعلیت تک پہنچتی ہیں۔ اسی لئے ابتلا اور امتحان فیزیکل اعتبار سے ایک عملی طرز ہے یاعمل کی پابندی کرنا ہے۔ اس میں اور تمرین و عادت میں فرق یہ ہے کہ مشق وتمرین ایک اخلاقی فضیلت کی نسبت ملکہ ایجاد کرنے کے لئے معین ہے لیکن طرز ابتلاء میں، کام عمل اور سختیوں اور مشکلوں کی تہ میں واقع ہونا مقصود ہے۔ اس روش اور طرز کی بنیاد پر مربی کو چاہئے کہ تربیت حاصل کرنے والے کو عمل میں اتار دے تاکہ خود ہی پستیوں اور بلندیوں کو پرکھے اور تلخ وشیرین کا تجربہ کرکے میدان سے سرفراز اور سربلند باہر آئے۔ تربیت پانے والے خود بھی مستقل طور سے ایسے شیوہ پر عمل کرسکتے ہیں۔

____________________

١۔''اذا هبت امراً فقع فیه فانّ شدّة توقیه اعظم ممّاتخاف منه'' ۔(نہج البلاغہ، ح١٧٥)۔

٢۔ المفردات۔

٣۔ ایضاً۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

قوم لوط كى تاريخ ۴;قوم لوط كى ہلاكت كے اسباب ۴;قوم لوط كے عذاب كے اسباب ۴;قوم لوط كے فساد پھيلانے كے اثرات ۴;قوم لوط كے گناہ كے اثرات ۴

گناہ :گناہ سے اجتناب كے اثرات ۵

گناہگار لوگ:اُن كاعذاب ۸

لوطعليه‌السلام :تاريخ لوطعليه‌السلام ۶،۷; خاندان لوطعليه‌السلام اور گناہ۱;خاندان لوطعليه‌السلام كو پاك قرار ديا جانا ۱،۳;خاندان لوطعليه‌السلام كى پاكيزگى ۳;خاندان لوطعليه‌السلام كى نجات۲خاندان لوطعليه‌السلام كى نجات كے اسباب ۳

مفسدين :مفسدين كاعذاب ۸

ملائكہ :ملائكہ كا كردار ۲

آیت ۶۰

( إِلاَّ امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَا إِنَّهَا لَمِنَ الْغَابِرِينَ )

علاوہ ان كى بيوى كے كہ اس كے لئے ہم نے طے كردياہے كہ وہ عذاب ميں رہ جانے والوں ميں سے ہوگي_

۱_حضرت لوطعليه‌السلام كى بيوي، قوم لوط كے مجرمين اور عذاب الہى ميں گرفتار ہونے والوں ميں سے تھى _

الّا آل لوط انا لمنجّوهم ...الّا امرا ته

۲_ خداوند متعال كى تقدير اور حكم سے حضرت لوطعليه‌السلام كى بيوى كا قوم لوط كے عذاب ميں گرفتارشدہ لوگوں ميں رہ جانا_

الّا امرا ته قدّرنا انها لمن الغبرين

اس ميں كوئي شك نہيں كہ تمام مقدرات خدا كے ہاتھ ميں ہيں اور تقدير كا فرشتوں كے ساتھ منسوب ہونا(قدرنا)شايد اس لئے ہو كہ وہ اس تقدير كے اجرا كرنے والے تھے_

۳_فقط پاكيزہ لوگوں سے رشتہ دارى كا تعلق عذاب الہى

۲۶۱

اور بُرائي كے نتائج سے نجات كا سبب نہيں بن سكے گا_الّا امرا ته قدّرنا انها لمن الغبرين

۴_ انسان اپنے اجتماعى ماحول اور موثر علل واسباب كے مقابلے ميں مجبور نہيں بلكہ اپنى سرنوشت كے تعين ميں خود مختار ہے_الّا امرا ته قدّرنا انها لمن الغبرين

خداوند متعال نے حضرت لوطعليه‌السلام كى بيوى كو لوط كى بد كار قوم كے ساتھ ہم نشينى اختيار كرنے كى وجہ سے عذاب ميں گرفتار كيا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت لوطعليه‌السلام كى بيوى بد كاروں كى ہم نشينى اختيار كرنے يا نہ كرنے ميں مختار تھى اوروہ اپنے اپ كو الودہ ہونے سے بچا سكتى تھى _ورنہ اُس كا عذاب غير معقول ہوتا كہ جو حكمت خدا وند سے بعيد ہے

۵_قوم لوط كى سر زمين ميں ہى اُن پر عذاب الہى نازل كيا گيا ہے_الّا امرا ته قدّرنا انها لمن الغبرين

(غابر ين كے مفرد) ''غابر'' كا لغوى معنى ، باقى اور بچ جانے والا ہے اور باقى رہ جانے والوں سے مراد، لوط كے عام لوگ ہيں سوائے ال لوط كے_كہ جو شہر ميں رہ گئے تھے اور عذاب الہى نے اُن كو اليا تھا_

۶_فرشتے ،خداوند متعال كے اوامر اور مقدرات كو انجام دينے اور اجرا كرنے والے ہيں _

الّا امرا ته قدّرنا انها لمن الغبرين

اس ميں كو ئي شك نہيں كہ امور كى تقدير خدا وند متعال كے ہاتھ ميں ہے اس كے باوجود خداوند متعال اس كى نسبت فرشتوں كى طرف دے رہا ہے(قالوا___قدرنا)اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ فرشتے الہى اوامر اور مقدرات كے انجام دينے اور اُنہيں اجرا كرنے والے ہيں _

۷_پاكيزہ لوگوں كے گھرانے ميں بھى كفر و نفاق اور حق ناپذيرى و بُرائي كے نفوذ كا امكان _

الّا امرا ته قدّرنا انها لمن الغبرين

۸_بيوى ،مرد كى ال و خاندان كا جز ہے_ء ال لوط ...الّا امرا ته

۹_صرف پاكيزہ لوگوں كے ساتھ رشتہ دارى كا تعلق ركھنا ،پاكى اور اچھائي كى دليل نہيں _

الّا آل لوط انا لمنجّوهم ...الّا امرا ته قدّرنا انها لمن الغبرين

الله تعالى :الله تعالى كے اوامر ۲;الله تعالى كے اوامر كو اجرا كرنے والے ۶;الله تعالى كے مقدرات۲

انسان :انسان كا اختيار ۴

۲۶۲

پاكيزہ لوگ :اُن كے ساتھ رشتہ دارى كا كردار ۳;اُن كے ساتھ رشتہ دارى كے اثرات۹;اُن كے گھرانے كى حق ناپذيرى كا امكان ۷;اُن كے گھرانے ميں بُرائي كا امكان ۷;اُن كے گھرانے ميں كفر كا امكان۷

پاكيزگي:پاكيزگى كى علامتيں ۹

جبر و اختيار :۴

خدا كے كارندے :۶

سر زمينيں :قوم لوط كى سر زمين پر عذاب ۵

شريك حيات :شريك حيات كى خاندانى حيثيت ۸

عاقبت:عاقبت پر اثرا نداز ہونے والے عوامل ۴

عذاب :اہل عذاب ۱،۲

قوم لوط:قوم لوط كا عذاب ۲;قوم لوط كى تاريخ ۱،۵;قوم لوط كے عذاب كا مكان ۵

گھرانہ :گھرانے كى حدود ۸

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام كى بيوى كا عذاب۱;لوطعليه‌السلام كى بيوى كا گناہ ۱; لوطعليه‌السلام كى بيوى كے عذاب كا سر چشمہ ۲;لوطعليه‌السلام كى بيوى كے عذاب كى تقدير ۲

ملائكہ :ملائكہ كا كردار ۶

آیت ۶۱

( فَلَمَّا جَاء آلَ لُوطٍ الْمُرْسَلُونَ )

پھر جب فرشتے آل لوط كے پاس آئے _

۱_قوم لوط كے عذاب پر مامور فرشتے، مہمان كى حيثيت سے حضرت لوطعليه‌السلام كے خاندان كے پاس ائے_

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم ...فما خطبكم ا يّهاالمرسلون ...فلمّا جاء آل لوط

۲۶۳

المرسلون

''المرسلون'' ميں الف و لام عہد ذكرى كے لئے ہے اور اُن انے والوں كى طرف اشارہ ہے كہ جو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے پاس ائے تھے اور جنہوں نے قوم لوط كے عذاب كا تذكرہ كيا تھا (قال فما خطبكم ا يّھا المرسلون)ايت ۵۷) اور اس سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مہمان حضرت لوطعليه‌السلام كے پاس بھى ائے تھے _ياد رہے كہ ايت ۶۸ بھى اسى نكتے كى تائيدكرتى ہے_

۲_حضرت لوطعليه‌السلام كا خاندان ،خداوند متعال كى خصوصى عنايت اور توجہ سے بہرہ مند تھا_

فلمّا جاء آل لوط المرسلون

نہ فقط خود حضرت لوطعليه‌السلام بلكہ ان كے خاندان كے پاس فرشتوں كا مہمان كى حيثيت سے انا،اُن كے خاندان پر خدا كى خصوصى عنايت و توجہ اور اُن كے بلند مقام و مرتبے كى نشاندہى كرتا ہے_

لطف خدا :لطف خدا جن كے شامل حال ہے۲

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱; لوطعليه‌السلام كے مہمان ۱;لوطعليه‌السلام كے خاندان ; پرملائكہ كا داخل ہونا ۱;لوطعليه‌السلام كے خاندان كے فضائل۲

ملائكہ :عذاب كے ملائكہ ۱

آیت ۶۲

( قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنكَرُونَ )

اور لوط نے كہا كہ تم تو اجنبى قسم كے لوگ معلوم ہوتے ہو_

۱_فرشتے، حضرت لوطعليه‌السلام كے پاس گروہ كى صورت اور اجنبى مردوں كى شكل ميں ائے تھے_قال انكم قوم منكرون

'' قوم '' لغوى لحاظ سے مردوں كے ايك گروہ كو كہتے ہيں (مفردات راغب )''انكم '' اور ''منكرون'' كى ضميروں كا جمع مذكر كى صورت ميں انا ،مندرجہ بالا مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۲_حضرت لوطعليه‌السلام نے اپنے پاس فرشتوں كے انے كے بعد اُن سے اپنا تعارف كرانے كا تقاضا كيا _

۲۶۴

قال انكم قوم منكرون

مندرجہ بالا عبارت اگر چہ ايك قسم كى خبر ہے ليكن اپنا تعارف كرانے كى درخواست كے بارے ميں ايك كنايہ ہے _بعد والى ايت ميں ملائكہ كا جو جواب ايا ہے اُس سے بھى اسى مطلب كى تائيد ہوتى ہے_

۳_حضرت لو طعليه‌السلام كا علم محدود تھا_قال انكم قوم منكرون

۴_ حضرت لوطعليه‌السلام كے ساتھ فرشتوں كى براہ راست گفتگو_قال انكم قوم منكرون _قالو

۵_فرشتوں كے لئے جسمانى صورت اور انسان كيلئےقابل رئويت شكل ميں ظاہر ہونے كا امكان _قال انكم قوم منكرون

لوطعليه‌السلام :حضرت لوطعليه‌السلام اور ملائكہ ۲;حضرت لوطعليه‌السلام پر ملائكہ كے وارد ہونے كى كيفيت ۱;حضرت لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲;حضرت لوطعليه‌السلام كے پاس ملائكہ كا انا ۲; حضرت لوطعليه‌السلام كے تقاضے ۲;حضرت لوطعليه‌السلام كے ساتھ ملائكہ كى گفتگو ۴; حضرت لوطعليه‌السلام كے علم كى حدود ۳;حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمان ۱

ملائكہ :ملائكہ كا تجسم ۱،۵;ملائكہ كى رئويت ۵

آیت ۶۳

( قَالُواْ بَلْ جِئْنَاكَ بِمَا كَانُواْ فِيهِ يَمْتَرُونَ )

تو انھوں نے كہا ہم وہ عذاب لے كر آئے ہيں جس ميں آپ كى قوم شك كيا كرتى تھى _

۱_ قوم لوط پر خدا كے عذاب (استيصال)كے نزول كے يقينى ہونے اور اُس كے مقررہ وقت كے اپہنچنے كا پيغام، حضرت لوطعليه‌السلام تك فرشتوں كے ذريعے پہنچايا گيا _قالوا بل جئنك بما كانوا فيه يمترون

۲_حضرت لوطعليه‌السلام ، جب اپنے پاس انے والے فرشتوں كوپہچان نہ سكے تو فرشتوں نے اپنے اپ كو الہى نمائندوں كى حيثيت سے تعارف كرايا_قال انكم قوم منكرون _قالوا بل جئنك بما كانو

۲۶۵

۳_حضرت لوطعليه‌السلام نے اپنى قوم پر عذاب الہى كے انے سے پہلے ہى اُسے اس قسم كى عاقبت كے بارے ميں خبر دار كيا ہوا تھا_قالوا بل جئنك بما كانوا فيه يمترون

جملہ ''بما كانوا فيہ يمترون'' ميں '' ما '' سے عذاب مراد ہے _بنا بريں عذاب الہى كے بارے ميں قوم لوط كا شك و ترديد اس بات كو ظاہر كرتا ہے اُنہيں عذاب الہى كے بارے ميں خبردار كيا گيا تھا اور كافى حد تك اُن پراتمام حجت كر دى گئي تھي_

۴_قوم لوط ،اپنے اوپر عذاب الہى كے بارے ميں حضرت لوطعليه‌السلام كے خبردار كيے جانے كے متعلق ہميشہ شك وترديد ميں رہتى تھى اور اس پر ايمان نہيں ركھتى تھي_قالوا بل جئنك بما كانوا فيه يمترون

۵_ الہى وعدوں اور انبياء كرامعليه‌السلام كى دعوت كو قبول نہ كرنے اور اُس ميں مسلسل شك و ترديد ميں رہنے كا نتيجہ عذاب الہى ہے_قالوا بل جئنك بما كانوا فيه يمترون

فعل مضارع ''يمترون''سے پہلے فعل ''كانوا'' كا انا، مطلب كے استمرار پر دلالت كرتا ہے_

۶_فرشتے، قوم لوط پر عذاب الہى كے حكم كو اجرا كرنے والے تھے_قالوا بل جئنك بما كانوا فيه يمترون

۷_اُمتوں پر اتمام حجت كے بعد خدا كا عذاب ، (استيصال) نازل ہوتا ہے_قالوا بل جئنك بما كانوا فيه يمترون

۸_ قوم لوط پر خدا كا عذاب (استيصال)، حضرت لوطعليه‌السلام كى جانب سے اُن پر اتمام حجت كے بعد نازل ہوا تھا _

قالوا بل جئنك بما كانوا فيه يمترون

۹_'' قال ا بوجعفر عليه‌السلام فى قوله:''قالوا بل جئناك بما كانوا فيه يمترون'': ''قالوا بل جئناك بما كانوا فيه ''قومك من عذاب الله ''يمترون'' . ..;(۱) حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے منقول ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا:خدا كے فرشتوں نے كہا : (ہم قوم ناشناس نہيں ہيں )بلكہ ہم اپعليه‌السلام كے پاس ائے ہيں تاكہ عذاب الہى كو لائيں جس ميں اپعليه‌السلام كى قوم شك و ترديدكر رہى ہے_

الله تعالى :الله تعالى كے عذابوں كا ضابطے و قاعدے كے مطابق ہونا ۷،۸;الله تعالى كے وعدوں ميں شك كے اثرات ۵

____________________

۱)علل الشرائع ،ص۵۴۹،ح۴،ب ۳۴۰;نور الثقلين ،ج ۲، ص ۳۸۳ ،ح۱۶۵_

۲۶۶

انبياء :انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے كے اثرات ۵

خدا كے رسول :۹

روايت :۹

عذاب :اہل عذاب پر اتمام حجت ۷;عذاب استيصال ۷،۸;عذاب كے اسباب ۵

قوم لوط :عذاب قوم لوط ۶;قوم لوط پر اتمام حجت ۸;قوم لوط كا شك ۴،۹;قوم لوط كو ڈرايا جانا۳،۴;قوم لوط كے عذاب كا ابلاغ ۱;قوم لوط كے عذاب كى حتميت ۱

لوطعليه‌السلام :حضرت لوط پر اتمام حجت ۳،۸; حضرت لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱،۲،۳;حضرت لوط كے انذار ۴; حضرت لوط كے پاس ملائكہ كا انا۲;لوط كے ڈرائے جانے ميں شك ۴

ملائكہ :ملائكہ اور لوطعليه‌السلام ۱،۲;ملائكہ كا عذاب ۱،۲ ،۶، ۹; ملائكہ كى ذمہ دارى ۶

آیت ۶۴

( وَأَتَيْنَاكَ بَالْحَقِّ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ )

اب ہم وہ برحق عذاب لے كر آئے ہيں اور ہم بالكل سچے ہيں _

۱_حضرت لوطعليه‌السلام كے حضور فرشتوں كاقوم لوط پرقطعى طور پر عذاب( استيصال) نازل ہونے كى تاكيد كرنا_

وا تينك بالحقّ وانا لصدقون

''بالحق'' برحق اور سچى خبركو كہتے ہيں _اور اس خبر حق سے عذاب الہى مراد ہے_

۲_حضرت لوطعليه‌السلام كے پاس انے والے فرشتے ايك بر حق پيغام اور قابل تحقق حكم لےكر ائے تھے_

وا تينك بالحقّ وانا لصدقون

ايت كا ذيل كہ جو سچائي كى تاكيد ہے، اس بات كا قرينہ ہے كہ'' بالحق '' سے برحق خبر و پيغام مرادہے_

۳_قوم لوط كا عذاب ،حق كى بنياد پر تھا_وا تينك بالحقّ

۲۶۷

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال پر مبنى ہے كہ جب ''بالحق '' سے عذاب مراد ہو اور عذاب كے بارے ميں ''حق ''كى تعبير لانا،ہو سكتا ہے مذكورہ بالا نكتے كى طرف اشارہ ہو_

خدا كے كارندے:۲

قوم لوط :قوم لوط كے عذاب كا حتمى ہونا ۱;قوم لوط كے عذاب كى حقانيت ۳

لوطعليه‌السلام :حضرت لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱;ملائكہ كا حضرت لوطعليه‌السلام كے پاس انا ۲

ملائكہ :عذاب كے ملائكہ ۱،۲;ملائكہ اور حضرت لوطعليه‌السلام ۱ ; ملائكہ كى ذمہ داري۲

آیت ۶۵

( فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ وَلاَ يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ وَامْضُواْ حَيْثُ تُؤْمَرُونَ )

آپ رات اپنے اہل كولے كر نكل جائيں اور خود پيچھے پيچھے سب كى نگرانى كرتے چليں اور كوئي پيچھے كى طرف مڑ كر بھى نہ ديكھے اور جدھر كا حكم ديا گياہے سب ادھر ہى چلے جائيں _

۱_فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام سے كہا كہ وہ عذاب الہى سے نجات پانے كى خاطر رات كا كچھ حصہ گذرنے كے بعد اپنے خاندان كو شہر سے نكال كر لے جائيں _فاسر باهلك بقطع من اليل

۲_حضرت لوطعليه‌السلام كوعذاب الہى سے محفوظ رہنے كے لئے اپنى نگرانى ميں اپنے خاندان كو شہر سے نكالنے پر مامور كيا گيا_فاسر باهلك ___ واتبع ادبرهُم

ہوسكتا اپنے خاندان كے پيچھے چلنے ( واتبع ادبرھُم)سے اُن كو اپنى نگرانى ميں نكالنا مراد ہو كہ مبادا كو ئي شہر كى جانب دوبارہ لوٹ نہ ائے اور شہر سے نكلنے پر راضى نہ ہو _بعد والا جملہ ( ولا يلتفت منكم___ ) بھى اس بات كى تائيد كر رہا ہے_

۳_حضرت لوطعليه‌السلام كو مامور كيا گيا كہ وہ اپنے خاندان كو شہر سے نكالنے كے ساتھ ساتھ خود بھى اُن كے پيچھے چل پڑيں _

فاسر باهلك___ واتبع ادبرهُم

۲۶۸

۴_خداوند متعال نے حضرت لوطعليه‌السلام اور اُن كے خاندان كوعذاب كے خطر ے سے دوچار شہر كى طرف واپس لوٹنے سے منع كيا _فاسر باهلك___ ولا يلتفت منكم واحد

شہر سے نكلنے كے فرمان ( فاسر باھلك ) كے قرينے سے ،ايت ميں التفات اور توجہ سے مراد ايسے شہر كى طرف واپس پلٹنا ہے كہ جہاں وہ لوگ ساكن تھے_

۵_حضرت لوطعليه‌السلام اور اُن كاپورا خاندان ايك ساتھ شہرسے لوگوں كى نظروں سے اوجھل وخفيہ طريقے اور سرعت كے ساتھ نكلا تھا_فاسر باهلك بقطع من اليل ___ وامضُو ا حيث تومرون

اپنے خاندان كے شہر سے نكلنے كے دوران حضرت لوطعليه‌السلام كى اُن پر نظارت ( واتبع ادبرھُم ) سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ ايك محدود وقت ( بقطع من اليل ) ميں اكٹھے اور سرعت كے ساتھ نكلے تھے _اور رات كا كچھ حصہ گذرنے كے بعد نكلنا ظاہر كرتا ہے كہ اُن كا يہ عمل خفيہ تھا_

۶_حضرت لوطعليه‌السلام اور اُن كا خاندان مامور تھا كہ وہ فقط اُسى مقام كى طرف چليں جو اُن كے لئے تعيين كيا گيا تھا لہذا وہ كسى دوسرے مقام كو انتخاب كرنے كا حق نہيں ركھتے تھے_فاسر باهلك ___ وامضُو ا حيث تومرون

۷_قوم لوط كا عذاب، شہر ميں ساكن تمام لوگوں كو شامل تھا_فاسر باهلك ___ وامضُو ا حيث تومرون

يہ كہ حضرت لوطعليه‌السلام كو اپنے خاندان كو شہر سے نكالنے پر مامور كيا گيا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ جو بھى شہر ميں رہتا وہ عذاب الہى سے دو چار ہو جاتا_

۸_قوم لوط كا عذاب ،غفلت كى حالت ميں اور اُن كى اطلاع كے بغير تھا _فاسر باهلك ___ ولا يلتفت منكم احد

يہ كہ ملائكہ نے حضرت لوطعليه‌السلام سے تقاضا كيا كہ وہ اپنے خاندان كو شہر سے رات كے وقت نكال كر لے جائيں اور اُن كى نگرانى كريں تاكہ اُن ميں سے كوئي بھى واپس نہ لوٹے _يہ شايد اس لئے تھا كہ قوم لوط ميں سے كسى كو نزول عذاب كا پتہ نہ

۲۶۹

چلے_

۹_عذاب الہى كے مستحقين كے ساتھ رہنا، انسان كو اُنہى كے عذاب ميں گرفتار ہونے كے خطر ے سے دوچار كر ديتا ہے_فاسر باهلك___ولا يلتفت منكم احد

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال پر اخذ كيا گيا ہے كہ واپس نہ لوٹنے كے حكم كا مقصد يہ تھا كہ سرزمين قوم لوط ميں انے والے عذاب ميں گرفتار ہونے سے بچا جائے_

۱۰_''قال ا بوجعفر عليه‌السلام : ...''فلما جاء ال لوط المرسلون'' ...قالوا ...''فا سر با هلك'' يالوط اذا مضى لك من يومك هذا سبعة ا يام ولياليها(بقطع من الليل'' اذا مضى نصف الليل '' وامضوا) من تلك الليلة ''حيث تو مرون '' ...;(۱) حضرت امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا:جب خدا كے فرشتے خاندان لوطعليه‌السلام كے پاس ائے تو اُنہوں نے كہا:___اے لوطعليه‌السلام اج سے سات دن رات گذرنے كے بعد ادھى رات كے وقت تم اپنے خاندان كو اس سر زمين سے نكال كر لے جائو ...اور اُس رات تمہيں جہاں كا حكم دياگيا ہے وہاں چلے جائو ...''

۱۱_''عن ا بى جعفر عليه‌السلام : ان الله تعالى لمّا ا راد عذابهم(قوم لوط) ...بعث اليهم ملائكة ...وقالواللوط: ا سربا هلك من هذه القرية الليلة فلمّا انتصف الليل سار لوط ببناته ..;(۲) حضرت امام باقر عليہ السلام سے منقو ل ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا:''جب خداوند متعال نے قوم لوط كے عذاب كا ارادہ كيا تو فرشتوں كو اُن كى جانب بھيجا اُنہوں نے حضرت لوطعليه‌السلام سے كہا :اج رات اپنے گھرانے كو اس علاقے سے نكال كر لے جائو ...جب ادھى رات ہو گئي تو اپعليه‌السلام اپنى لڑكيوں كے ساتھ اس علاقے سے نكل گئے ...''

الله تعالى :الله تعالى كے نواہى ۴

روايت :۱۰،۱۱

سر زمين :قوم لوط كى سر زمين سے ہجرت ۱،۳

عذاب :عذاب كا پيش خيمہ ۹;عذاب سے نجات ۱،۲، ۳; اہل عذاب كے ساتھ ہم نشينى ۹

____________________

۱)علل الشرائع ،ص۵۴۹،ح۴،ب ۳۴۰; نور الثقلين ،ج۲،ص۳۸۳،ح۱۶۵_

۲) علل الشرائع ،ص۵۵۰،ح۵،ب ۳۴۰; نور الثقلين ، ج۲،ص۳۸۴،ح۱۶۶_

۲۷۰

قوم لوط :قوم لوط كى تاريخ ۷،۸;قوم لوط كا عذاب ۱۰، ۱۱; قوم لوط كى غفلت ۸;قوم لوط كے عذاب كى وسعت ۷;قوم لوط كے عذاب كى خصوصيات ۸

لوطعليه‌السلام :حضرت لوطعليه‌السلام كاقصہ ۱،۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۱۰ ،۱۱ ; حضرت لوطعليه‌السلام كے گھرانے كو نہى ۴; حضرت لوطعليه‌السلام كو نہى ۴;حضرت لوطعليه‌السلام كى رات كے وقت ہجرت ۱، ۳،۱۰،۱۱;حضرت لوطعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۲،۳،۶; حضرت لوطعليه‌السلام كى نجات ۳;حضرت لوطعليه‌السلام كى نظارت ۲ ;حضرت لوطعليه‌السلام كى ہجرت كا راستہ ۶ ، ۱۰;حضرت لوطعليه‌السلام كے گھرانے كى نجات ۱،حضرت لوطعليه‌السلام كى ہجرت كى كيفيت ۵;حضرت لوطعليه‌السلام كے گھرانے كى امنيت ۲;حضرت لوطعليه‌السلام كے گھرانے كى ذمہ دارى ۶ ; حضرت لوطعليه‌السلام كے گھرانے كى رات كو ہجرت ۱،۲، ۳ ، ۱۰،۱۱;حضرت لوطعليه‌السلام كے گھرانے كى ہجرت كى كيفيت ۵;حضرت لوطعليه‌السلام كے گھرانے كى ہجرت كا راستہ ۶،۱۰

ملائكہ :ملائكہ كے تقاضے ۱;عذاب كے ملائكہ ۱

آیت ۶۶

( وَقَضَيْنَا إِلَيْهِ ذَلِكَ الأَمْرَ أَنَّ دَابِرَ هَؤُلاء مَقْطُوعٌ مُّصْبِحِينَ )

اور ہم نے اس امر كا فيصلہ كرلياہے كہ صبح ہوتے ہى اس قوم كى جڑيں تك كاٹ دى جائيں گى _

۱_خداوند متعال نے حضرت لوطعليه‌السلام كو پہلے سے ہى اُن كى قوم پر عذاب نازل كرنے كے فيصلے سے اگاہ كر ديا تھا_

وقضينا اليه ذلك الا مر

'' قضينا ''كا '' الى '' كى طرف متعدى ہونا ، ''اوحينا '' كا معنى ديتا ہے _بنابريں جملہ''وقضينا اليه ذلك الا مر'' كا معنى يہ ہو جائے گا :ہم نے اس امر(عذاب) كو اُس (لوطعليه‌السلام ) كى طرف وحى كيا اور اُسے اس سے اگاہ كيا_

۲_قوم لوط كا عذاب ،بہت ہى خوفناك اور شديد عذاب تھا_وقضينا اليه ذلك الا مر ا ن دابر هو لاء مقطوع مصبحين

۲۷۱

جملہ''وقضينا اليه ذلك الا مر'' كا مبہم صورت ميں انا اور اُس كا جملہ ''ا ن دابر ...'' كے ذريعے تفسير كرنا، اسى طرح كلمہ ''ذلك''كہ جو دور كے لئے اشارہ ہے ،مندرجہ بالا مطلب كى حكايت كرتا ہے_

۳_قوم لوط كى نسل ،عذاب الہى كے ذريعے قطع اور ختم ہو گئي تھي_وقضينا ا ن دابر هو لاء مقطوع مصبحين

''دابر''كا معنى اخر ہے _(مفردات راغب) اور جملہ ''دابر ھولاء مقطوع''سے قوم لوط كے اخرى فرد كا نابود ہونا مراد ہے_كہ جو طبعاً اُن كى نسل كے قطع ہو جانے پر دلالت كرتا ہے_

۴_قوم لوط كى ہلاكت اور عذاب ،صبح كے وقت وقوع پذير ہوا تھا_ا ن دابر هو لاء مقطوع مصبحين

۵_معاشرے ميں جرم و جنايت كا پھيل جانااُس كے انحطاط اور زوال كا باعث بنتا ہے_

انا ا ُرسلنا الى قوم مجرمين ا ن دابر هو لاء مقطوع مصبحين

يہ كہ قوم لوط كے لئے عذاب لانے والے ملا ئكہ، حضرت لوطعليه‌السلام كو بتاتے ہيں كہ''ا ن دابر ھو لاء مقطوع مصبحين''يعنى اس قوم كى نسل قطع ہو جائے گي_اور وہ يہ نہيں كہتے كہ گناہگاروں كى نسل قطع ہو گى _اسى طرح بعد والى ايت ميں تمام اہل شہر كے ''انے''كى خبر دى جارہى ہے (وجاء ا هل المدينة )اس سے معلوم ہوتا ہے كہ قوم لوط كے تمام لوگ گناہ سے الودہ تھے _نيز اُن كے بارے ميں ''مجرم ''كى تعبير اور حضرت لوطعليه‌السلام كى بيوى كے علاوہ اُن كے پورے خاندان كى نجات بھى اس مطلب كى تائيد كرتى ہے_

۶_خداوند متعال گناہ اور بُرائيوں ميں ڈوبے ہوئے معاشروں كو نابود كر كے انسانى معاشروں كى حالت اور اُن كے دوام كوتہ وبالا كر ديتا ہے_انا ا ُرسلنا الى قوم مجرمين ...وقضينا ا ن دابر هو لاء مقطوع

اجتماعى تحولات:اُن كا سر چشمہ ۶

الله تعالى :الله تعالى كے افعال ۶;الله تعالى كے مقدرات ۱

حضرت لوطعليه‌السلام :حضرت لوطعليه‌السلام كے علم كا سر چشمہ ۱

ظلم :ظلم پھيلنے كے اثرات ۵;ظلم كے اجتماعى اثرات ۵

عذاب :صبح كے وقت عذاب ۴;عذاب كے مراتب ۲

قضا و قدر :۱

۲۷۲

قوم لوط :قوم لوط كى تاريخ ۳،۴;قوم لوط كى نسل كا قطع ہوجانا ۳;قوم لوط كے عذاب كى شدت ۲;قوم لوط كے عذاب كى تقدير ۱;قوم لوط كے عذاب كا وقت ۴; قوم لوط كے عذاب كى خصوصيات ۲،۳

گناہ :گناہ پھيلنے كے اثرات ۵;گناہ كے اجتماعى اثرات ۵

معاشرہ:اجتماعى افات كى شناخت ۵;بُرے معاشروں كى ہلاكت۶معاشروں كے انحطاط كے عوامل ۵ ; معاشروں كے انقراض كا سر چشمہ ۶

آیت ۶۷

( وَجَاء أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ )

اور ادھر شہر والے نئے مہمانوں كو ديكھ كر خوشياں مناتے ہوئے آگئے _

۱_قوم لوط كے لوگ ،حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر مہمانوں كى امد سے اگاہ ہونے كے بعد خوشياں مناتے ہوئے اُن كے گھر كى طرف دوڑ پڑے_وجاء ا هل المدينة يستبشرون

۲_حضرت لوطعليه‌السلام كے زمانے ميں شہر اور شہرى تمدن كا موجود ہونا _وجاء ا هل المدينة

۳_قوم لوط ،جنسى انحرافات (لواط اور ہم جنس پرستى ) كو اچھا سمجھتى تھى اور اُن كى طرف بہت شديد رجحان ركھتى تھى _وجاء ا هل المدينة يستبشرون

حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمانوں كى امد كا سن كر قوم لوط كا خوشياں منانا اور خوشى كا اظہار كرنا ظاہر كرتا ہے كہ وہ لوگ جنسى تجاوز سے خوش ہوتے تھے اور اُسے ايك اچھاعمل جانتے تھے _ياد رہے كہ سورہ ''ھود'' كى ايت ۷۸ نيز بعد والى ايا ت (۶۸،۶۹ ،۷۱) ميں جو اشارے موجود ہيں ،ان كے مطابق وہ جنسى انحراف سے الودہ قوم تھي_

۴_جنسى انحرافات (لواط اور ہم جنس پرستي)قوم لوط كے درميان رائج اور عام فعل تھا_

وجاء ا هل المدينة يستبشرون

'' ا هل المدينة '' كے انے كى تصريح كہ جو سب لوگوں كو شامل ہے سے مذكورہ بالا نكتہ اخذ ہوتا ہے _

۲۷۳

تمدن :تاريخ تمدن ۲

حضرت لوطعليه‌السلام :حضرت لوط كا قصہ ۱;حضرت لوطعليه‌السلام كے دوران كا تمدن ۲;حضرت لوط ے دوران كى شہر ى زندگي۲

قوم لوط :قوم لوط اورملائكہ ۱;قوم لوط كا جنسى انحراف ۳ ، ۴ ; قوم لوط كى بصيرت ۳ ; قوم لوط كى تاريخ ۳ ،۴;قوم لوط كى خوشي۱;قوم لوط كے رجحانات ۳; قوم لوط اور حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمان ۱;قوم لوط ميں لواط ۳، ۴ ; قوم لوط ميں ہم جنس پرستى ۳،۴

آیت ۶۸

( قَالَ إِنَّ هَؤُلاء ضَيْفِي فَلاَ تَفْضَحُونِ )

لوط نے كہا كہ يہ ہمارے مہمان ہيں خبردار ہميں بدنام نہ كرنا_

۱_حضرت لوطعليه‌السلام نے اپنى قوم كى طرف سے اپنے مہمانوں كو خطرے ميں ديكھ كر اُنہيں اپنے مہمانوں كوہر قسم كا ضرر پہنچانے سے روكا_وجاء ا هل المدينة يستبشرون_قال ان هو لاء ضيفى فلا تفضحون

۲_ہر قسم كے خطرے اور تجاوز سے مہمانوں كى حفاظت كرنا اور اُن كى حرمت كا خيال ركھنا ايك ضرورى اور لازمى امر ہے_قال ان هو لاء ضيفى فلا تفضحون

يہ كہ حضرت لوطعليه‌السلام نے اپنى قوم كواپنے مہمانوں كو ضرر پہنچانے سے روكنے كے لئے اُن كے مہمان ہونے كى ياد دہانى كرائي _اس سے مذكورہ بالا مطلب اخذكيا جا سكتا ہے_

۳_مہمان كااحترام اور اُس كى حرمت كا خيال ركھنا ،قوم لوط كے درميان رائج رسوم ميں سے تھا_

قال ان هو لاء ضيفى فلا تفضحون

يہ كہ حضرت لوطعليه‌السلام نے اپنے مہمانوں پر لوگوں كے تجاوز كو روكنے كے لئے اُنہيں ''مہمانوں '' كے عنوان سے پكارا ہے اس سے يہ نكتہ اخذ ہوتا ہے كہ وہ لوگ مہمانوں كے احترام كى رسم سے اشنا تھے_

۴_مہان كى بے حرمتى اور اہانت ،درحقيقت ميزبان كى بے حرمتى و اہانت ہے_

قال ان هو لاء ضيفى فلا تفضحون

حضرت لوطعليه‌السلام كاجملہ'' فلا تفضحون'' (يعنى مجھے شرمندہ نہ كرو)كے ذريعے اپنى قوم سے اپنے مہمانوں كى ہتك حرمت سے پرہيز كرنے كى درخواست كرنا،مذكورہ نكتے كى طرف اشارہ ہے_

۲۷۴

۵_قوم لوط كاحضرت لوطعليه‌السلام كے مہمانوں كے ساتھ رويہّ ، توہين اميزاور بے عزتى پر مبنى تھا_

قال ان هو لاء ضيفى فلا تفضحون

۶_دوسروں كے مہمانوں كے ساتھ بے احترامى كا رويہ اختيار كرنا، ايك ناپسنديدہ اور ممنوع فعل ہے_

قال ان هو لاء ضيفى فلا تفضحون

۷_حضرت لوطعليه‌السلام اپنے مہمانوں كے بارے ميں اپنى قوم كى بُرى نيت اور تجاوز كے ارادے سے اگاہ تھے جس كى وجہ سے وہ بہت زيادہ پريشان تھے_قال ان هو لاء ضيفى فلا تفضحون

حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر پر لوگوں كے اكٹھے ہوجانے كے بعد حضرت كا اُن كو بغير كسى وضاحت كے ،شرم اور فعل ا نجام دينے سے روكنا، اس نكتے كى حكايت كرتا ہے كہ حضرت لوطعليه‌السلام اُن كے قصد وارادے سے باخبر تھے_

۸_لواط اور ہم جنس پرستى جيسا شنيع اور ناپسنديدہ فعل ، رسوائي اور شرمسارى كا باعث ہے_

قال ان هو لاء ضيفى فلا تفضحون

۹_حضرت لوطعليه‌السلام اپنى قوم كى جانب سے بُرے ارادے كے ظاہرہونے تك فرشتوں سے نااگاہ تھے_

وجاء ا هل المدينة يستبشرون_قال ان هو لاء ضيفى فلا تفضحون

يہ كہ حضرت لوطعليه‌السلام نے اپنى قوم كى جانب سے مہمانوں كے ساتھ زيادتى كا خطرہ محسوس كرتے ہى پريشانى كے عالم ميں فرشتوں كو مہمان كے طور پر متعارف كرايا ہے _اس سے ظاہر ہوتا ہے اپعليه‌السلام اس وقت تك فرشتوں كو نہيں پہچان سكے تھے_

حضرت لوطعليه‌السلام :حضرت لوطعليه‌السلام اور ملائكہ ۹;حضرت لوطعليه‌السلام كاعلم ۷ ; حضرت لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۵، ۹;حضرت لوطعليه‌السلام كى پريشانى ۷; حضرت لوطعليه‌السلام كے علم كى حدود ۹ ; حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمانوں كى توہين ۵;حضرت لوطعليه‌السلام كے نواہى ۱

رسوائي :رسوائي كے عوامل ۸

عمل :ناپسنديدہ عمل ۶

قوم لوطعليه‌السلام :قوم لوطعليه‌السلام اور حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمان ۱،۵،۷;قوم لوطعليه‌السلام اور مہمان ۳;قوم لوطعليه‌السلام كو نہى ۱;قوم لوطعليه‌السلام كى اہانتيں ۵;قوم لوطعليه‌السلام كى بُرى نيت ۷;قوم لوطعليه‌السلام كى

۲۷۵

رسوم ۳

لواط:لواط كے اثرات ۸

معاشرت :معاشرت كے اداب ۶

مہمان:مہمان كااحترام ۳;مہمان كى توہين كرنے پر سر زنش ۶;مہمان كى توہين كے اثرات ۴; مہمان كے احترام كى اہميت ۲;مہمان كے دفاع كى اہميت

مہمان نوازى :مہمان نوازى كے اداب ۲

ميزبان :ميز بان كى توہين ۴

ہم جنس پر ستى :ہم جنس پر ستى كے اثرات ۸

آیت ۶۹

( وَاتَّقُوا اللّهَ وَلاَ تُخْزُونِ )

اور اللہ سے ڈرو اور رسوائي كا سامان نہ كرو_

۱_حضرت لوطعليه‌السلام نے اپنى قوم كو مہمانوں كے ساتھ زيادتى كرنے پر تقوى الہى اختيار كرنے كى دعوت دي_

واتقوا الله

۲_تقوى الہى ،فحشاء كے ارتكاب اور جنسى انحرافات (لواط و ہم جنس پرستى ) سے الودہ ہونے سے مانع بنتا ہے_

واتقوا الله

يہ كہ حضرت لوطعليه‌السلام نے اپنے مہمانوں كے ساتھ اپنى قوم كى طرف سے تجاوز كا خطرہ ديكھ كر اُنہيں تقوى اختيار كرنے كى دعوت دى ہے اس سے ظاہر ہوتاہے كہ تقوى ميں ايسا اثر بھى ہے_

۳_حضرت لوطعليه‌السلام نے اپنے مہمانوں كے ساتھ اپنى قوم كى طرف سے تجاوز كا ارادہ ديكھ كر اُنہيں ہر ايسے فعل سے منع كيا ہے جو اُن كى ذلت و خوارى كا موجب بنتا ہے_ولا تخزون

۴_تقوى الہى ،دوسروں كے حقوق ضائع كرنے اور اُن كى عزت و ابرو خراب كرنے كے مانع بنتا ہے_

واتقوا الله ولا تخزون

۵_ہم جنس پرستى جيسا ناپسنديدہ اور شنيع فعل ،ذلت و خوارى كا باعث ہے_

۲۷۶

قال ان هو لاء ضيفى فلا تفضحون واتقوا الله ولا تخزون

۶_ميزبان كا فريضہ ہے كہ وہ دوسروں كے تجاوز كے مقابلے ميں مہمان كا دفاع كرے اور اُس كے احترام كى حفاظت كرے_قال ان هو لاء ضيفى فلا تفضحون واتقوا الله ولا تخزون

۷_مہان كى بے حرمتى اور توہين ،درحقيقت ميزبان كى بے حرمتى و اہانت ہے_

قال ان هو لاء ضيفى فلا تفضحون واتقوا الله ولا تخزون

۸_دوسروں كے مہمانوں كى توہين اور بے احترامى ،ايك ناپسنديدہ اور تقوى سے عارى فعل ہے_

قال ان هو لاء ضيفى فلا تفضحون واتقوا الله ولا تخزون

۹_اپنى حرمت و ابرو كى حفاظت اور شرافت و عزت كا دفاع ،ايك ضرورى و شائستہ فعل ہے_

قال فلا تفضحون ولا تخزون

۱۰_اقوام كااچھا يا بُرا كردار اُن كے رہبروں كى سر فرازى يا شرمسارى كا باعث بنتا ہے_

فلما جاء ال لوط المرسلون ...وقضينا اليه ذلك الا مر ا ن دابر هو لاء مقطوع ...قال فلا تفضحون ولا تخزون

يہ كہ خداوند متعال كى طرف سے قوم لوط كے عذاب كا اعلان كرنے كے لئے فرشتے حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر پر ائے تھے اور حضرت لوطعليه‌السلام نے اپنى قوم كو شرمندگى كا باعث بننے والے فعل سے منع كيا تھا _اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ يہاں حضرت لوطعليه‌السلام كواپنے معاشرے كے رہبر كى حيثيت سے ديكھا گيا ہے _

۱۱_اپنى عزت و شرافت اور اپنے مقام و حيثيت كى حفاظت و دفاع ،انسان كى فطرى خصلت ہے_

قال فلا تفضحون ولا تخزون

يہ كہ حضرت لوطعليه‌السلام نے اپنے مہمانوں كو لوگوں كے تجاوز سے بچانے كے لئے اُن سے درخواست كى وہ اس فعل كے ذريعے اُنہيں شرمسار اور ذليل نہ كريں (فلا تفضحون ولا تخزون ) اس سے معلوم ہوتا ہے متجاوزين بھى اپنى عزت و ابرو كى حفاظت كو خصوصى اہميت ديتے تھے ورنہ حضرت لوطعليه‌السلام كا اس قسم كے حربے سے تمسك كرنا كوئي عقلانى فعل نہ ہوتا _

ابرو :حفظ ابرو كا فطرى ہونا ۱۱;حفظ ابرو كى اہميت ۹ ; ہتك ابرو كے موانع ۴

۲۷۷

اپنا اپ :اپنے اپ كے دفاع كى اہميت ۹

اقوام :اقوام كے عمل كے اثرات۱۰

انسان :انسان كى فطريات ۱۱

تقوى :بے تقوى ہونے كے اثرات ۸;تقوى كى دعوت ۱ ; تقوى كے اثرات ۲،۴

جنسى انحراف :جنسى انحراف كے موانع ۲

حضرت لوطعليه‌السلام :حضرت لوطعليه‌السلام كاقصہ ۱ ، ۳;حضرت لوطعليه‌السلام كى دعوتيں ۱ ; حضرت لوطعليه‌السلام كى ذلت سے نہى ۳; حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمان ۳;حضرت لوطعليه‌السلام كے نواہى ۳

حقوق :حقوق كے ضائع ہونے كے موانع ۴

ذلت :ذلت كے عوامل ۵

عمل :ناپسنديدہ عمل ۸

فحشاء :فحشاء كے موانع ۲

قائدين :قائدين كى ذلت كے عوامل ۱۰;قائدين كى عزت كے عوامل ۱۰

قوم لوط :قوم لوط كو دعوت ۱;قوم لوط كو نہى ۳

معاشرت :معاشرت كے اداب ۶

مہمان :مہمان كادفاع ۶;مہمان كى توہين پر سرزنش ۸; مہمان كى توہين كے اثرات۷;مہمان كے احترام كى اہميت۶

ميزبان :ميزبان كى توہين ۷;ميزبان كى ذمہ دارى ۶

ہم جنس پر ستى :ہم جنس پرستى كے اثرات ۵

۲۷۸

آیت ۷۰

( قَالُوا أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعَالَمِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ كيا ہم نے آپ كو سب كے آنے سے منع نہيں كردياتھا_

۱_حضرت لوطعليه‌السلام كو اجنبى مہمانوں كى پذيرائي كرنے اور اُن كى حمايت كرنے كى وجہ سے اپنى قوم كى سرزنش كا سامنا كرنا پڑا_قال ان هو لاء ضيفي ...قالوا ا و لم ننهك عن العلمين

۲_حضرت لوطعليه‌السلام اپنے مہمانوں كے دفاع كى خاطر اپنى قوم كے اعتراض كا نشانہ بنے _

قال ان هو لاء ضيفى فلا تفضحون قالوا ا و لم ننهك عن العلمين

۳_حضرت لوطعليه‌السلام كى قوم نے اُنہيں ہر قسم كے اجنبى مہمان كى پذيرائي اور حمايت كرنے سے منع اور خبردار كيا ہوا تھا_

قال ان هو لاء ضيفي قالوا ا و لم ننهك عن العلمين

۴_قوم لوط نے حضرت لوطعليه‌السلام كى جانب سے اپنى قوم

كوابرو ريزى سے اجتناب كرنے كى درخواست كے جواب ميں خود اپعليه‌السلام ہى كو اصلى قصور وار ٹھرايا _

فلا تفضحون ولا تخزون_قالوا ا و لم ننهك عن العلمين

يہ كہ قوم لوط نے اپعليه‌السلام كى جانب سے ابرو ريزى نہ كرنے پر مبنى درخواست كے جواب ميں كہا:ہم نے تجھے پہلے سے ہر قسم كے اجنبى مہمان كى پذيرائي كرنے سے منع كيا ہوا تھا ،اس سے يہ نكتہ اخذ ہوتا ہے كہ وہ لوگ اس طرح كى باتيں كر كے خود حضرت لوطعليه‌السلام ہى كو اصلى قصووار ٹھرانا چاہتے تھے_

۵_قوم لوط ،حضرت لوطعليه‌السلام كو دوسرى قوموں سے روابط و تعلقات قائم كرنے سے منع اور خبردار كرتى تھى _

قالوا ا و لم ننهك عن العلمين

۶_حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر ميں مختلف علاقوں ،شہروں اور گوناں گوں اقوام كے لوگوں كا انا جانا تھا_

قالوا ا و لم ننهك عن العلمين

''عالم '' كا معنى تمام مخلوق يا مخلوقات كا ايك گروہ ہے _دنيا كى تمام موجودات و اصناف كو شامل كرنے اور استغراق كا معنى بيان كرنے كى خاطر اُسے جمع كے صيغے (عالمين) كے ساتھ لايا گيا ہے اور اس ايت ميں اس سے دور و نزديك كے تمام قبائل واقوام كے سب لوگ مرادہيں _

۲۷۹

۷_اپنى قوم كے درميان حضرت لوطعليه‌السلام كى حيثيت كمزور تھى اور وہ لوگ اپعليه‌السلام كے بارے ميں گستاخى كرتے تھے_

قالوا ا و لم ننهك عن العلمين

يہ كہ قوم لوط نے اپعليه‌السلام كو دوسروں سے روابط برقرار كرنے سے منع كيا ہواتھا اور جب اپعليه‌السلام نے اس نہى كى خلاف ورزى كى تو وہ اپنى قوم كے عتاب واعتراض كا نشانہ بنے _اس سے مندرجہ بالا نكتہ اخذ ہوتا ہے_

۸_''قال ا بوجعفر عليه‌السلام : ...وكان لوط رجلاً سخياً كريماً يقرى الضيف اذا نزل به ويحذرهم قومه، قال: فلمّا را ى قوم لوط ذلك منه قالوا له: انا ننهاك عن العلمين لا تقرى ضيفاً ينزّل بك، ان فعلت فضحنا ضيفك الذى ينزل بك وا خزيناك ...;(۱) حضرت امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا:حضرت لوط عليہ السلام سخاوت مند اور بزرگوار انسان تھے اور جو بھى مہمان اُن كے پاس اتا وہ اُس كى پذيرائي كرتے تھے اور اُسے اپنى قوم سے بچاتے تھے_(پھر)امام باقرعليه‌السلام فرماتے ہيں :جب قوم لوط نے اپعليه‌السلام كى يہ مہمان نوازى ديكھى تو اپعليه‌السلام سے كہا : ہم نے تجھے ہر قسم كے مہمان كى پذيرائي سے منع كيا ہوا تھا اور ہم نے تجھے كہا تھا كہ جو بھى مہمان تيرے پاس ائے اُس كى پذيرائي نہ كرنا اور اگر تو نے اُن كى مہمان نوازى كى تو ہم تيرے مہمانوں كو رسوا اور تجھے ذليل و خوار كريں گے_''

روايت :۸

قوم لوط :قوم لوط اور حضرت لوطعليه‌السلام ۱،۴ ،۵، ۸; قوم لوط اور مہمان ۳;قوم لوط كا اعتراض ۲;قوم لوط كى بصيرت ۴;ئقوم لوط كى سرزنشيں ۱;قوم لوط كى گستاخى ۷ ;قوم لوط كے نواہى ۳،۵،۸

حضرت لوطعليه‌السلام :حضرت لوطعليه‌السلام پر اعتراض ۲; حضرت لوطعليه‌السلام كا اجتماعى مقام ۷;حضرت لوطعليه‌السلام كا ضعف ۷; حضرت لوطعليه‌السلام كا عوامى ہونا ۶;حضرت لوطعليه‌السلام كاقصہ ۱،۲ ،۳، ۴ ،۵،۶،۷،۸; حضرت لوطعليه‌السلام كو نہى ۳، ۵ ، ۸; حضرت لوطعليه‌السلام كى جانب رجوع ۶; حضرت لوطعليه‌السلام كى سخاوت ۸;حضرت لوطعليه‌السلام كى سرزنش ۱;حضرت لوطعليه‌السلام كى مہمان نوازى ۱،۲، ۸; حضرت لوطعليه‌السلام كى ہتك عزت ۴;حضرت لوطعليه‌السلام كے تقاضے ۴; حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر كا كردار ۶

____________________

۱)علل الشرائع ،ص۵۴۹،ح ۴، ب۰ ۳۴ ; نور الثقلين، ج۲، ص۳۸۲، ح۱۶۵_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296